شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات15%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218506 / ڈاؤنلوڈ: 6979
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

 آگاہ ہوجاؤ کہ خالص بندگی صرف اللہ کے لئے ہے اور جن لوگوں نے اس کے علاوہ سرپرست بنائے ہیں یہ کہہ کر کہ ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں گے - اللہ ان کے درمیان تمام اختلافی مسائل میں فیصلہ کردے گا کہ اللہ کسی بھی جھوٹے اور ناشکری کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا ہے.

وَ جَعَلُواْ لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا إِنَّ الْانسَانَ لَكَفُورٌ مُّبِینٌ (۱)

اور ان لوگوں نے پروردگار کے لئے اس کے بندوں میں سے بھی ایک جزؤ (اولاد) قرار دیدیا کہ انسان یقیناً بڑا کھلا ہوا ناشکرا ہے.

أَ فَأَصْفَئکمْ رَبُّكُم بِالْبَنِینَ وَ اتخَذَ مِنَ الْمَلَئكَةِ إِنَاثًا إِنَّکمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِیمًا (۲)

کیا تمہارے پروردگار نے تم لوگوں کے لئے لڑکوں کو پسند کیا ہے اور اپنے لئے ملائکہ میں سے لڑکیاں بنائی ہیں؟ یہ تم بہت بڑی بات کہہ رہے ہو.

وَ إِذَا مَسَّ الْانسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِیبًا إِلَيْهِ ثمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسىَ مَا کانَ يَدْعُواْ إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَ جَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِیلِهِ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِیلًا إِنَّكَ مِنْ أَصحَابِ النَّارِ. (۳)

اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پوری توجہ کے ساتھ پروردگار کو آواز دیتا ہے پھر جب وہ اسے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس بات کے لئے اس کو پکار رہا تھا اسے یکسر نظرانداز کردیتا ہے اور خدا کے لئے مثل قرار دیتا ہے تاکہ اس کے راستے سے بہکا سکے تو آپ کہہ دیجئے کہ تھوڑے دنوں اپنے کفر میں عیش کرلو اس کے بعد تو تم یقیناً جہّنم والوں میں ہو.

--------------

(۱):- زخرف (۱۵).

(۲):- اسراء (۴۰).

(۳):- زمر (۸)۔

۸۱

ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فىِ مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِیهِ سَوَاءٌ تخَافُونَهُمْ كَخِیفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ كَذَالِكَ نُفَصِّلُ الاْيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (۱)

اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی مثال بیان کی ہے کہ جو رزق ہم نے تم کو عطا کیا ہے کیا اس میں تمہارے مملوک غلام و کنیز میں کوئی تمہارا شریک ہے کہ تم سب برابر ہوجاؤ اور تمہیں ان کا خوف اسی طرح ہو جس طرح اپنے نفوس کے بارے میں خوف ہوتا ہے بیشک ہم اپنی نشانیوں کو صاحب عقل قوم کے لئے اسی طرح واضح کرکے بیان کرتے ہیں.

ان بیانات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ:

۱.  شیعہ  اور بت پرستوں میں کوئی شباہت نہیں  پائی جاتی، کیونکہ بت پرستوں نے اپنے لئے شفاعت کنندہ چن لئے ہیں لیکن ہمارے شفاعت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے چن  لیا ہے.

۲.  وہ لوگ اپنے شفاعت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ سے مستقل مانتے ہیں جبکہ ہم اپنے آئمہ طاہرین (ع)کو کبھی اللہ تعالیٰٰ سے مستقل نہیں مانتے ہیں.

۳.  وہ لوگ بتوں کی عبادت کرتے ہیں لیکن ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے پس کیسے آپ شیعوں کو بت پرستوں کی مانند جانتے ہو؟!(۲)

--------------

(۱):- روم (۲۸)۔

(۲):- پاسخ بہ شبہات(۱)، ص: ۷

۸۲

مُردوں سے کسی چیز کا مانگنا ؟

یہ لوگ سورہ نمل ۸۰، فاطر ۲۲، نحل ۲۰ و ۲۱ اور کئی آیات سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مردہ لوگوں سے ارتباط پیدا کرنا شرک ہے

«انَّكَ لا تُسمِعُ المَوتی وَ لا تُسمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ اذا وَ لَّوا مُدبِرینَ» (۱)

آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں نہ ہی بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھر کر جا رہے ہوں.

«وَ ما یستَوِی الاحیاءُ وَلَا الامواتُ انَّ اللهَ يُسمِعُ مَن يَشاءُ وَ ما انتَ بِمُسمِعٍ مَن فِی القُبُورِ» (۲)

اور نہ ہی زندے اور نہ ہی مردے یکساں ہوسکتے ہیں، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے سنواتا ہے اور آپ قبروں میں مدفون لوگوں کو تو نہیں سنا سکتے.

 «وَ الَّذینَ يَدعوُنَ مِن دوُنِ اللهِ لا يَخلُقوُنَ شَیئًا وَهُم يُخلَقوُنَ  امواتٌ غَیرٌ احیاءٍ وَ ما يَشعُرُونَ ایّانَ يُبعَثُونَ» (۳)

اور اللہ کو چھوڑ کر جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو خلق نہیں کر سکتے بلکہ خود مخلوق ہیں.وہ زندہ نہیں مردہ ہیں اورانہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے.

--------------

(۱):-  نمل (۸۰)۔

(۲):- فاطر (۲۲)۔

(۳):- نحل (۲۰ و ۲۱)۔

۸۳

جواب:

آیات:

پہلی بات تو  یہ ہے کہ مردوں سے ارتباط پیدا کرنا شرک تو نہیں بلکہ ممکن ہے کہ اسے بیہودہ کام کہہ سکتا ہو، کیونکہ رسول خدا (ص)کے زمانے میں جو کام رائج تھا وہ آپ کی زندگی کے بعد شرک میں کیوں کر بدل سکتا ہے؟ اور یہ آیت آپ سے مربوط تھی کہ  رسول خدا(ص) تو مردوں کی آواز سن سکتے تھے.(۱)

دوسری بات یہ ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ یہ فرمانا چاہتا ہو کہ سننے کی قدرت پیدا کرنا میرا کام ہے نہ تیرا.

تیسری بات یہ ہے کہ مؤمنون ۹۹ و ۱۰۰ ،نحل ۲۸ کے مطابق مرنے کے بعد برزخ کی زندگی شروع ہوتی ہے تو ہمارا روح وہاں زندگی کر رہا ہوتاہے :

«الَّذینَ تَتَوَفّاهُمُ المَلائِكَهُ ظالِمی انفُسِهِم فَالقَوُا السَّلَمَ ما كُنّا نَعمَلُ مِن سُوءٍ بَلی انَّ اللهَ عَلیمٌ بِما كُنتُم تَعمَلُونَ» (۲)

جنہیں ملائکہ اس عالم میں اٹھاتے ہیں کہ وہ اپنے نفس کے ظالم ہوتے ہیں تو اس وقت اطاعت کی پیشکش کرتے ہیں کہ ہم تو کوئی برائی نہیں کرتے تھے. بیشک خدا خوب جانتا ہے کہ تم کیا کیا کرتے تھے.

 «حَتی اذا جاءَ احَدَهُمُ المَوتُ قالَ رَبِّ ارجِعُونِ  لَعَلّی اعمَلُ صالحًا فیما تَرَکتُ كَلّا انَّ ه ا كَلِمَهٌ هُوَ قائِلُ ه ا وَ مِن وَرائِهِم بَرزَخٌ الی يَومِ يُبعَثُونَ» (۳)

--------------

(۱):- صحیح مسلم  جلد ۸ صفحہ  ۱۶۳.

(۲):- نحل (۲۸).

(۳):- مؤمنون (۹۹ و ۱۰۰).

۸۴

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں. ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم ہ برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے. ان آیات سے بخوبی واضح ہے کہ مرنے والے بھی ہماری باتوں کو سمجھ جاتے ہیں لیکن ہم ان کو سننے سے قاصر  ہیں.

روایات :

صحیح مسلم اور صحیح بخاری:

صحیح بخاری اور مسلم میں بھی ہے کہ مردوں کے ساتھ  ارتباط پیدا کرنا ممنوع چیز نہیں ہے کیونکہ وہ  بھی دنیوی حالات سے باخبر ہیں اور ہماری باتوں کو سنتے ہیں.چنانچہ بخاری روایت کرتے ہیں کہ : اگر مردہ نیک انسان ہو تو وہ اپنے تشییع کرنے والوں سے کہتا ہے کہ مجھے جلدی قبر تک پہنچادیں اور اگر برا انسان ہو تو وہ کہے گا : مجھے کہاں لے جارہے ہو؟ افسوس ہو مجھ پر مجھے قبر کی طرف نہ لے جائیں.(۱)

مرنے والا اس کے لواحقین کے رونے سے عذاب میں مبتلا ہوجا تا ہے.(۲)

احمد بن حنبل:

مرنے والا اسے غسل وکفن دینے والے اور دفنانے والے کو پہچان لیتا ہے(۳)

نماز میں ہم پھر السلام علیک ایہا النبی و رحمہ اللہ و برکاتہ کیوں پڑھتے ہیں؟اور یہ سلام مذاہب اربعہ میں واجب ہے .

--------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۸۷.

(۲):- صحیح مسلم جلد ۳ صفحہ ۴۱.

(۳):- مسند احمد- الامام احمد حنبل- ج ۳- ص ۳.

۸۵

جلال الدین سیوطی:

پیغمبر اکرم(ص) سے روایت ہے کہ جو بھی حج بیت اللہ الحرام کرے اور میری زیارت نہ کرے تو اس نے میرے ساتھ ظلم کیا ہے.(۱)

ابن ابی شیبہ (بخاری کا استاد)

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: جو میرے مرنے کے بعدمیری زیارت کرے گویا اس نے میری زندگی میں زیارت کی ہے.جیسا کہ ایک صحابی نے باران رحمت کی نزول کے لئے پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد مدد مانگی اور قبول ہوئی(۲)

قبور کی  زیارت:

چار دلیلوں کے ساتھ قبور کی زیارت کرنا جائز ہے :

۱. قرآن کریم:

وَ مَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ الل ه   وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ الل ه وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ الل ه تَوَّابًا رَّحِیمًا. (۳)

--------------

(۱):-  الدر المنشور- جلال الدین السیوطی- ج ۱- ص ۲۳۷.

(۲):- السنن الکبری- البیہقی- ج ۵- ص ۲۴۶، ابن ابی شیبہ (استاد بخاری) مصنف جلد ۷ ص ۴۸۲، کنز العمال متقی ہندی جلد ۷ ص ۴۳۱

(۳):- نساء ۶۴.

۸۶

اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس لیے بھیجا ہے کہ خدا کی اجازت سےاس کی اطاعت کی جائے اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے.

۲. روایات:

خود پیغمبراکرم(ص) فرماتے ہیں :

«حَیاتی خَیرٌ لَكُمْ تحدثون و نحدث لکم و وفاتی خیر لکم تعرض علیّ اعمالکم ..» (۱)

میری زندگی تمھارے لئے بہتر ہے کہ تم مجھ سے سوال کریں اور میں تم کو جواب دوں ، اسی طرح میری وفات بھی تمھارے لئے بہتر ہے کہ تم اپنے اعمال کو عارضہ کرو. اسی طرح اپنی زیارت کرنے کی بھی لوگوں کو تشویق دلائی:

«مَنْ زَارَ قَبْرِی وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِی». (۲)

جو بھی میری قبر کی زیارت  کرے گا اس کیلئے میری شفاعت اور بہشت واجب ہوگی.

جو بھی میری قبر کی زیارت کرے اس کی شفاعت کرنا میرے اوپر فرض ہے .(۳)

۳. صحابہ کی سیرت:

حضرت عمر نے فتوحات شام کے بعد جب مدینہ پہنچےتو سب سےپہلے مسجد نبوی میں آکر آپ پر سلام بھیجا ہے.

--------------

(۱):-  طرح التثریب، ص ۲۹۷.

(۲):- السنن الکبری، ج ۵، ص ۵ ۲۴.

(۳):- ۴۰ منبع از کتاب ہای اہل سنت.

۸۷

 احمد بن حنبل، رملی شافعی، محبالدین طبری، زرقانی مالکی اور عزامی شافعی وغیرہ نےنقل کئے ہیں:جب احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللہ نے اپنے باپ سے پوچھا کہ منبر  اورقبر رسول کو ثواب کی نیت سے  چومنا،مس کرناکیسا ہے؟ اس نے جواب دیا: کوئی اشکال نہیں ہے.کہتا ہے کہ قبر رسول یا کسی اور ولی اللہ کی قبر کا تبرک کے طور پر بوسہ لینا جائز ہے .رملی شافعی اورمحب الدین طبری شافعی کا بھی یہی عقیدہ ہے(۱) اسی طرح تاریخ میں ثابت ہے کہ لوگ قبر پیغمبر اکرم اور حضرت حمزہ سے مٹی جذام اور صداع جیسے امراض کیلئے شفایابی کیلئے لے جاتے تھے ، ابو سلمہ پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں :غُبارُ الْمَدِینَةِ يُطْفِی

۴. عقل:

 عقل انسان کہتی ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے عزت اور عظمت دی ہے ان کی تعظیم کرنا واجب ہے اور زیارت بھی ایک قسم کی تعظیم ہے .

 ابن اثیر جزری نے پیغمبر اکرم (ص)سے نقل کیا ہے :

وَالَّذی نَفْسِی بِيَدِهِ انَّ فی غُبارِها شِفاءٌ مِنْ كُلِّ داءٍ (۲)

اہل سنت بھی قبر سے تبرک  

ذہبی جو صحابی رسول ہیں کہتے ہیں: ایک آدمی نے سعد بن معاذ  کی قبر سے مٹی اٹھائی  پھر دیکھا کہ وہ مٹی اچانک مشک میں بدل گئی.(۳)

-------------

(۱):- کنز المطالب،ص۲۱۹.اسنی المطالب،ج۱،ص۳۳۱.لجامع فی العلل ومعرفة الرجال،ج ۲،ص ۳۲؛وفاءالوفا،ج ۴،ص ۱۴۱۴.

(۲):- وفاء الوفا، ج ۱، ص ۶۹، ص ۵۴۴.

(۳):- بقات الکبری، ۳، ۱۰- سیر اعلام النبلاء، ۱، ۲۸۹.

۸۸

ابونعیم اصفہانی و ابن حجر عسقلانی کہتے کہ عبداللّہ حدانی ۸ذی الحجة سال ۱۸۳  کو مارا گیا تو لوگوں نے اس کی قبر کی مٹی تبرک کے طور پر اٹھا کر لے گئے(۱)

قسطلانی کہتا ہے:وَهُوَ مِن ابشع المسائل المنقولة عنه».

ابن تیمیّہ کا زیارت قبر رسول اللہ (ص)(ص)سے روکنا ان بدترین مسائل میں سے ہے جو ان سے نقل ہوئی ہے .غزالی کہتا ہے:

«کلّ من‏یتبرک بمشاهدته (ص) فی‏حیاته، یتبرک بزیارته بعد وفاته ویجوز شدّالرحال لهذا الغرض».

جو بھی پیغمبر اکرم (ص)کی زندگی میں ان کی زیارت کرتے تھے ان کی وفات کے بعد بھی ان کی زیارت کیلئے جانا جائز ہے(۲)

«إِنَّ فاطِمَةَ کانَتْ تَزُورُ قَبْرَ عَمِّها حَمْزَةَ كُلّ جُمُعَةٍ فَتُصَلّی وَتَبْكِی عِنْدَهُ. » (۳)

حضرت فاطمہ زہرا  ہر جمعہ کو اپنے چچا حضرت حمزہ کی قبر کی زیارت کیلئے جاتی اور گریہ کرتی تھیں.

قبور کی تعمیر اور ان پر گنبد بنانا

نَهی رَسُول اللّه (ص) ان یجصّص القبر وان یعقد علیه وان یبنی علیه (۴)   پیغمبر اکرم (ص) نے قبر کو گچ کاری اور اس پر قبہ وغیرہ بنانے سے منع فرمایا ہے. اس حدیث کو دلیل بنا کر یہ لوگ مسلمانوں کے قبور کو مسمار کرنا واجب سمجھتے ہیں.

--------------

(۱):-  حلیة الاولیاء، ج ۲، ص ۲۵۸- تہذیب التہذیب ج ۵، ص ۳۱۰.

(۲):- مصنف عبدالرزاق، ج ۳، ص ۵۷۰- معجم البلدان ۲، ۲۱۴.

(۳):-  سنن الکبری، ج ۴، ص ۱۳۲؛ مصنف عبدالرزاق، ج ۳، ص ۵۷۲.

(۴):- صحیح مسلم، ج ۳، ص ۶۳.

۸۹

جواب: بہت ساری حدیثیں ایسی ہیں جن میں امر کیا ہوا ہے لیکن وہ کراہت پر حمل کئے جاتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ امر وجوب پر ہی دلالت کرتا ہو.چنانچہ حضرت فاطمہ اپنے چچا حضرت حمزہ کی قبر پر پتھروں سےعلامت بنا کر وہاں فاتحہ پڑھا کرتی تھیں.اور رسول خدا (ص)نے عثمان  بن مغطون کی قبر پر پتھر سے نشان بنایا. اور یہ کیسے ممکن ہے کہ عام انسانوں جیسے بخاری کی قبر پر گنبد بنانا جائز  لیکن آئمہ طاہرین کی قبروں پر گنبد بنانا شرک ہو جائے؟!

 ان کی صرف ایک دلیل ہے جو ابی الہیاج سے نقل ہوئی ہے  جو سند کے لحاظ سے ضعیف ہے کیونکہ وکیع اور حبیب بن ابی ثابت اہل سنت کے نزدیک مورد اعتماد نہیں  ہیں.دلالت حدیث بھی کامل نہیں ہے کیونکہ«وَ لا قَبراً الّا سوّیته» کا مطلب یہ تو نہیں  ہے کہ قبرکو مسمار کردے بلکہ اس  کا مطلب یہ ہے کہ قبر کو مسطح کیا جائے .نہ یہ کہ کوہان شترکی طرح بلند کردے.

قسطلانی کہتا ہے:«السنة فی القبر تسطیحه و انَّه لا یجوز ترک هذه السنّة لمجرّد انّها صارت شعاراً للروافض وانّه لا منافات بین التسطیح و حدیث ابی هیاج: لانّه لم يُرَد تسویته بالارض و انّما اراد تسطیحه جمعاً بین الاخبار ...» (۱)

سنت پیغمبر(ص) تو یہ ہے کہ قبر کو مسطح کرتے تھے اور یہ شیعہ مذہب کا شعاربننے کی وجہ سے  ترک کرنا جائز نہیں ہے اور ابی الہیاج کی روایت سے بھی کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ روایت کا مقصد یہ نہیں کہ زمین سے ہم سطح کر دیا جائے بلکہ صاف رکھنا مراد ہے اور قبروں کے کنارے مکان اور مسجد بنانا  مسلمانوں کی سنت رہی ہے تاکہ جن میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکیں.

۱.  جس طرح  قبر پیغمبر کے کنارے مسجد تعمیر کی گئی.

۲.  قبور آئمہ بقیع کو ۱۳۴۵؁ کو وہابیوں نے خراب کیا.

--------------

(۱):-  ارشاد الساری، ج ۲، ص ۴۶۸.

۹۰

۳.  رسول خدا کے بیٹے ابراہیم کی قبر کو جو محمد بن زید بن علی کے گھر میں تھی وہابیوں نے خراب کیا.

۴.  حضرت حمزہ ؓ کی قبر پر مسجد بنی ہوئی تھی جسے دوم ہجری میں وہابیوں نے خراب کیا.

۵.  سعد بن معاذ کی قبر پر عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں گنبد تعمیر کی گئی.(۱)

۶.  حضرت علیبن ابی طالب کی قبر پر دوسری صدی میں گنبد بنائی گئی.(۲)

۷.  حضرت سلمان فارسی کی قبر پر بھی گنبد بنائی گئی تھی.(۳)

 خلاصہ یہ ہے کہ سارے مسلمانوں  میں یہ سیرت عام رہی ہے کہ اپنی اہم شخصیات  کی قبور  کے کنارے بارگاہیں بنایا جائے  ، مسجد تعمیر کی جائے ،تاکہ ان کو بھی یاد کریں اور ان کے توسط سے اللہ کی بارگاہ میں بھی متوسل ہوجائیں. سارے اہل سنت بھی اس کے قائل ہیں صرف وہابیوں کو ان سے اختلاف ہے.

 سند حدیث میں ابوالزبیر محمد بن مسلم آمدی- موجود  ہے جسے علمائے اہل سنت ، جیسے احمد بن حنبل اور ابن عینیہ  اور  ابو حاتم نے ضعیف قرار دیا ہے.(۴) اسی طرح سند میں ربیعہ ہے جسے ازدی اور ابن ابی شیبہ اور ساجی نے مشکوک قرار دیا ہے(۵)

--------------

(۱):-  وفاء الوفا، ج ۲، ص ۵۴۵.

(۲):- موسوعة العتبات ۶، ۹۷.

(۳):- تاریخ بغداد، ج ۱، ص ۱۶۳.

(۴):- تہذیب الکمال ۴۰۷: ۲۶.

(۵):- تہذیبالتہذیب ۲، ۳۶۰- تاریخ بغداد ۸، ۱۹۹- سیر اعلام النبلاء ۹، ۳۱.

۹۱

مناظرہ:

 شیعہ: کیوں تم قبور کی بے احترامی کرتے ہو اور گنبد کو گرا دیتے ہو؟

وہابی: کیا تو علی کو مانتے ہو؟ اس نے کہا: وہ تو میرا پہلا امام ہے اور رسول کا خلیفہ بلافصل ہیں.

وہابی: ہماری معتبر کتابوں میں تین علماء نے لکھا ہے کہ جن کا نام یحیٰ ، ابوبکر اور زہیر ہیں، وکیع سے ، اس نے سفیان سے ، انہوں نے حبیب سے ، اس نے ابی وائل سے اور اس نے ابی الہیاج اسدی سے نقل کیا ہے کہ علی ابن ابیطالب نے ابی الہیاج سے فرمایا:کیا میں تمہیں کسی ایسے کام کا حکم دوں  جس کا مجھے رسول خدا (ص)نے حکم دیا تھا؟اس نے کہا: ہاں .

 تو آپ  نے فرمایا : کسی بھی تصویر کو مٹائے بغیر نہ رکھو اور کسی بھی قبر کو باقی نہ رکھو مگر وہ زمین کے برابر کردو(۱)

شیعہ : یہ حدیث سند اور دلالت دونوں لحاظ سے ضعیف ہے کیونکہ اس کے سلسلہ سند میں درج ذیل افراد موجود ہیں ۱. وَکیع. ۲. سُفیان. ۳. حبیب بن ابی ثابت. ۴. ابی وائل ، جن کی سند کو  احمد بن حنبل نے اس تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے:وکیع نے پانچ سو حدیثوں میں خطا کیا ہے.(۲) ، سفیان ثور ی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ ابن مبارک نے جب سفیان کو حدیث میں تدلیس(ناحق کو حق کا جلوہ دکھاتے  ہوئے ) کرتے ہوئے دیکھا تو وہ شرمسار ہوگیا.اسی طرح حبیب بن ابی ثابت بھی.(۳) اور ابی وائل کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ وہ ناصبی تھا اور امیر المؤمنین کے دشمنوں میں شمار ہوتا تھا.(۴)

-------------

(۱):- صحیح مسلم، ج ۳، ص ۶۱، سنن ترمذی، ج ۲، ص ۲۵۶، سنن نسائی، ج ۴، ص ۸۸.

(۲):- تہذیب التّہذیب، ج ۱۱، ص ۱۲۵.

(۳):- ہمان، ج ۴، ص ۱۱۵. ج ۳، ص ۱۷۹.

(۴):- شرح نہجالبلاغہ حدیدی، ج ۹، ص ۹۹

۹۲

اور قابل توجہ بات تو یہ ہے کہ سارے صحاح ستہ میں یہی ایک حدیث  ہے جسے دلیل بنا کر یہ لوگ قبور آئمہ کو مسمار کرتے ہیں.

وہابی:قبور کے اطراف میں عمارت تعمیر کرنا عرف میں تو یہ پسندیدہ عمل ہے لیکن قرآن  میں اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے.

جواب: کیوں نہیں ؟ ایک آیة مؤدت ہے :

قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی‏.

اور دوسری دلیل اصحاب کہف  کا  قصّہ ہے کہ جب یہ لوگ تین سو سال کے بعد بیدار ہوئے تو  اس غار کے کنارے کسی نے کوئی شاندار  عمارت بنانے کا مشورہ دیا تو کسی نے  وہاں مسجد تعمیر کرنے کا مشورہ دیا اور مسجد بنانے پر اتفاق ہوا : ابْنوا علی ه م بُنیاناً: لنتَّخِذَنَّ علی ه م مسجداً. (۱) اور یہ اولیاے خدا  کے قبور کا احترام کرنے کا ایک انداز ہے ، تیسری دلیل لوگوں کا  قبور کے اطراف میں مساجد بنانا ،صاحب قبر کی عزت اور ان کا احترم کرنے کا انداز ہے.

قبور پر چراٖغ جلانا

سوال : کیا قبور پر چراغ جلانے کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟

جواب:

درج ذیل دلائل کی روشنی میں قبور پر چراغ جلا نا کوئی ممنوع نہیں ہے :

اہل سنت کی روایات کی روشنی میں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے قبرستان میں جاتے وقت حکم دیا کہ وہاں چراغ جلائے جائیں(۲)

--------------

(۱):- کہف، ۲۱ .

(۲):- الجامع الصحیح، ج ۳، ص ۳۷۲

۹۳

مسلما نوں کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ ایوب انصار ی اور زبیر بن عوام  کی قبر پر  چراغ جلایا کرتے تھے.(۱) اسی طرح مقبروں میں نماز پڑھنےکو جائز قرار دیتے تھے:

 قال مالک لا باس بالصلاة فی المقابر و قال بلغنی ان بعض اصحاب النبی کانوا یصلّون فی المقبرة» (۲)

--------------

(۱):-  تاریخ بغداد، ج ۱، ص ۱۵۴  المنتظم، ج ۱۴، ص ۳۸۳.

(۲):- المدونة الکبری، ج ۱، ص ۹۰.

۹۴

چھٹی فصل:

 بحث امامت اور خلافت

امامت یا  خلافت پہ بحث کرنے کا کیا فائدہ  جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوجائے ؟ جو ہوا سو ہوا  ہم کیوں آپس میں الجھیں؟!

اس کا جواب دو حصوں پر مشتمل ہے :

الف: تاریخی ہے جو گذر گئی  کہ کھبی واپس نہیں آئے گی. 

ب: دینی ہے جو ابھی تک باقی ہے اور  قیامت تک باقی رہے گا.اب کوئی موجود ہو جو ان آنے والی مشکلات کو حل کرے  اور لوگ اس کی طرف رجوع کرے یہی وجہ ہے کہ شیعہ اس بات کا معتقد ہے کہ علی اور اولاد علی  کو رسول اللہ (ص)نے بعنوان خلیفہ مقرر کیا اس سے شیعہ نظریہ تثبیت ہوجاتا ہے.جس پر حدیث ثقلین صد در صد دلالت کرتی ہے اور اس کی سند فریقین کے نزدیک صد درصد صحیح بھی ہے اور متواتر بھی یہ منصب ایک الہی منصب ہے جس کی معرفت اور پہچان بھی الہی فریضہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا اور زندگی کرنے کا طریقہ بھی بتایا اور اپنے رسول کے ذریعے ان رہنماؤں کی معرفی بھی کرائی  اور خبردار بھی کیا کہ ان سے جدا نہ ہونا. یہی وجہ ہے کہ اس بحث کو نظرانداز نہیں کرسکتا.

اگر ہم بغیر کسی تعصب  اور ٹھنڈے دماغ  کے ساتھ امامت یا خلافت سے بحث کریں تو یہ مسلمانوں کے صفوں میں اتحاد اور اتفاق کا باعث ہے.ایک دوسرے کے عقائد سے بھی آگاہ ہوجائیں گے جس کے باعث  ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں گے.

۹۵

امامت کی حقیقت شیعہ اور اہل سنت کی نظر میں

لغت میں امامت اسے کہا جاتا ہے جس کی اتباع اور پیروی کی جائے خواہ وہ انسان ہو یا کتاب ہو ،  حق ہو یا باطل ہو .یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن انہی کے ساتھ انسان کو محشور کیا جائے گا :

يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ فَمَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ بِيَمینِهِ فَأُولئِكَ يَقْرَؤُنَ كِتابَهُمْ وَ لا يُظْلَمُونَ فَتیلاً . (۱)

 قیامت کا دن وہ ہوگا جب ہم ہر گروہ انسانی کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے اور اس کے بعد جن کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اپنے صحیفہ کو پڑھیں گے اور ان پر رائ برابر ظلم نہیں ہوگا.

لیکن اصطلاح میں امامت سے مراد رسول خدا (ص)کا جانشین ہے جو دین کی خاطر رسول کی جانب سے منتخب ہو جن کا اتباع کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہو.

امامت کو اصول دین میں کیوں شمار کیا جاتا ہے ؟

جواب شیعہ : ہم چونکہ امامت کو سلسلہ نبوت کی  ایک کڑی  سمجھتے ہیں  جس کے ساتھ اسے  بھی ذکر کرنا ضروری ہے

امامت کی خصوصیات 

شیعہ : وہی صفات کے حامل ہونا چاہئے کہ جس کا نبی یا رسول حامل ہوسواے  وحی کے .

اہل سنت: چار ہیں : عالم ہو، عادل ہو،  سیاسی امور سے آگاہ ہو ، اور حسن تدبیر کا مالک ہو.بعض نے کچھ اور اضافہ کیاہے جیسے : قریشی ہو، جسم کے سارے اعضاء و جوارح سالم ہو، شجاع اور دلیر ہو، بالغ ہو، مرد ہو،

--------------

(۱):-  الاسراء : ۷۱. 

۹۶

اشکال : کیوں ان خصوصیات کی تعداد میں اختلاف  ہے؟

 آیة اللہ جعفر سبحانی فرماتے  ہیں:کیونکہ انہوں نے نصوص میں دقت نہیں کی ہے:

الف:امامت کے متعلق نصوص دینی  کا مطالعہ ہی  نہیں کیا ہے .ان کے پاس جو نصوص موجود ہیں ان میں امامت کے متعلق ان مذکورہ شرائط کا تعین ہی نہیں کیا گیا ہے ان کے مذکورہ شرائط کا منبع استحسان اور اعتبارات عقلی ہیں عجیب بات تو یہ ہے کہ کیسے ممکن تھا کہ رسول خدا (ص)نے شرائط اور خصوصیات امام جیسی اہم  چیز کو بیان نہیں کیاہو اور امّت پر چھوڑ  گئے  ہوں جب کہ اللہ تعالیٰ نے مکروہات اور مستحبات کو بھی مفصل بیان کیا ہے.

ب:ان کی بیان کردہ صفات ، عدالت والی صفت کے ساتھ تضاد  رکھتی ہیں.باقلانی  نے کہا : فاسق اور فاجر ہونے کی وجہ سے منصب امامت سے نہیں ہٹایا جاسکتا بلکہ اسے نصیحت اور  ہدایت کی جائے گی..(۱)

ج:امیر المؤمنین(ع) کے بعد اکثر خلفاء ان صفات کے حامل نہیں تھے یعنی یہ لوگ امام حاضر کیلئے شرائط ڈھونڈتے ہیں لیکن شیعہ امامت کو نبوت کا سلسلہ مانتے ہیں لہذا وحی اور نبوت  کے سوا نبی کی تمام صفات کو امام کیلئے لازم سمجھتے ہیں .

د:مزید اشکالات: امام ہونے کے لئےقریشی ہونا شرط  رکھی گئی ، اس صورت میں غیر قریشی خلفاء کا کیا کروگے؟ اسی طرح عدالت کی صفت در حدوث یا در بقاء؟ اسی طرح عالم ہونے کی قید ذکر کی گئی تو جو جاہل خلفاء گذرے ہیں ان کا کیا گروگے؟جیسا کہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ مروان کے پاس نہ علم تھا اور نہ دین تھا .

ان مباحث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ  نے اپنے رسول کے  انتخاب کرنے میں کسی  سے رائے نہیں لی .یہ باتیں شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف کی وجہ تھیں، لیکن درج ذیل  چیز یں امامت کے بارے میں مورد اتفاق ہیں:

 الف: پیغمبر(ص) کے بعد کسی امام کا ہونا ضروری ہے

ب: پیغمبر(ص) کی جانب سے جو لوگوں پر حکومت کرے.

--------------

(۱):-  الٰہیات،ص۵۰۸.

۹۷

اثبات امامت کی راہیں اور رکاوٹیں

شیعوں کے نزدیک تین راہیں  ہیں :

۱.  اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتخب ہو۔

۲.  رسول خدا(ص) کی طرف سے منتخب ہو.

۳.  پہلا امام کی طرف سے منتخب ہو.

اہل سنت کے نزدیک  بھی تین راہیں ہیں:

۱.  وہی تین راہیں جن کے شیعہ معتقد ہیں. لیکن ان میں سے صرف تیسری صورت وقوع پذیر ہوئی.

۲.  حل و عقد ( قوم کا سردار، ریش سفید اور زمینداروں) امام کو منتخب کریں گے.لیکن اس صورت میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سردار یا وڈیروں  اور قوم کے بزرگوں کی تعداد کتنی ہونے چاہئے؟ ایک یا دو یا تین یا چھ یا دس یا سو ؟!!

اہل سنت کے ہاں چار قول ہیں:

     کم از کم پانچ افراد ہونے چاہئے کیونکہ ابوبکر کو پانچ افراد نے  انتخاب کیا تھا.. شیعہ اشکال کرتےہیں :یہ تو نقض لازم آتا ہے ، کیونکہ عمر کو چھ افراد نے انتخاب کیا ہے .

     کم از کم دو  افراد ہونےچاہئے ، کیونکہ نکاح میں دو گواہ لازم ہے

     حد اقل ایک نفر ہونا چاہئے ، کیونکہ قاضی کا حکم نافذ ہے جب کہ وہ ایک سے زیادہ نہیں ہے .

شیعہ اشکال کرتے ہیں : اگر ایک شخص سو آدمی کو منتخب کرےتو کیا انہیں بھی قبول کریں گے؟ اس صورت میں علی (ع)کو بھی   اباذر، سلمان اور مقداد  نے اپنا امام منتخب کیا تھا ، تو انہیں کیوں نہیں بنائے گئے؟ شاید آپ جواب دیں گے:

 بائُکَ تجُر و بائی لا تَجُر.

 یعنی تیرا (با) زیر دیتا ہے لیکن میرا (با ) زیر نہیں دیتا.

۹۸

     شوری کے ذریعے امام کا انتخاب  کیا جا تا ہے اہل سنت کے دانشور حضرات کہتے ہیں کہ خلیفہ یا امام شوری کے ذریعے انتخاب کیا جاتا ہے جس پر دلیل قرآنی پیش کرتے ہیں:

 فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ الل ه لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شاوِرْهُمْ فِی الْأَمْرِ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَی الل ه إِنَّ الل ه يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِینَ. (۱)

"پیغمبر یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے لہذا اب انہیں معاف کردو- ان کے لئے استغفار کرو اور ان سے امر جنگ میں مشورہ کرو اور جب ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو کہ وہ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے".

آیة شریفہ میں حکم ہوا ہے کہ اپنے مہم کاموں میں ایک دوسرے  کے ساتھ مشورہ کرو. اور امامت یا خلافت بھی ایک اہم کام ہے  اسی لئے ہم نے بھی باہمی مشورے سے اپنا خلیفہ انتخاب کیا ہے .

شیعہ اشکال کرتے ہیں : آیة شریفہ میں ہمارے اپنے کاموں میں  مشورہ کرنے کا حکم ہے لیکن امامت کا انتخاب کرنا ہمارا کام تو نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول  کا کام ہے کہ وہ جس کا انتخاب کریں ، ان کی مرضی ہے  اس میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے .دوسری دلیل یہ ہے کہ ہمارے  مشورے کے مطابق عمل کرنا رسول پر واجب نہیں ہے کیونکہ فرمایا : فتوکل علی اللہ. ثالثاً بنی عامر جب مسلمان ہوئے تو رسول خدا (ص)پر منت چڑھاتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ چونکہ آپ  ہماری وجہ سے قوی ہو گئے ہیں تو اپنے بعد آپ کا جانشین ہماری قوم سے ہونا چاہئے.تو اس وقت فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں  ہے جو جس کو چاہے منتخب کرے

--------------

(۱):-  آلعمران ۱۵۹.

۹۹

لزوم امامت پر دلائل

سوال یہ ہےکہ امام کا ہونا کیوں ضروری ہے ؟

 جواب یہ کہ تین وجوہات کی بنا پر امام کا ہونا ضروری ہے :

۱.نبی کریم (ص)کے بعد مختلف علمی میدانوں جیسے تفسیر قرآن ، تبیین احکام، یہود و نصاری ٰکی طرف سے کئے جانے والے شکوک و شبہات  کا جواب دینے والا نیز دین مبین اسلام کو تحریفات سے بچانے والا موجود ہو.

۲.امّت اسلامی کیلئے اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق تھے .بیرونی خطرات جیسے  روم  کی حکومت کہ جن کے ساتھ بہت سی جنگیں لڑی  گئیں .اور ایران کے اس بادشاہ نے ایک دفعہ بہت ہی اہانت کے ساتھ یمن کے والی کو لکھا : تو دو نفر کو بھیج کر  ان ( رسول خدا (ص)) کو میرے پاس  لے آؤ.اندرونی خطرات جیسے منافقین کی جانب سے تھے جو ستون پنجم کے نام سے مشہور تھے جن کی مذمت میں مکمل سورہ  منافقون نازل ہوا .

حیران کن بات یہ ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے دور میں کبھی ان منافقین نے سر نہیں اٹھایا جو رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ہر وقت اسلام کے خلاف جنگ کرتے رہےل تھے ، لیکن جب علی کی خلافت کا دور آیا تو پھر انہوں نے سر اٹھایا جس کی وجہ سے علی کو خلافت کے پورے چار سال جنگ اور جہاد میں مصروف رہنا پڑا .

سوال: یہ کس بات کی دلیل ہے ؟!! کیا ایسا نہیں کہ ان کے دور خلافت میں منافقین کو آسائشی زندگی میسر ہوئی؟

۳.قاعدہ لطف  ، کہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو گمراہی اور ضلالت سے بچنے کیلئے نبی کے بعد کسی ہادی یا رہبر یا امام بھیجا جائے .

اس کا منطقی قاعدہ  یہ ہے :

پہلامقدمہ : امامت کا منتخب کرنا بندوں پر ایک لطف ہے.

۱۰۰

دوسرامقدمہ: اپنے بندوں پر لطف کر نا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے ، کیونکہ وہ حکیم ہے اور حکمت الٰہی یہ ہے کہ بندوں کو کمال تک پہنچائے، اگر لطف نہ کرے تو نقض غرض لازم  آتا ہے

نتیجہ: اللہ تعالیٰ پر امام کا منتخب کرنا واجب ہے

اشکال: رسول خدا (ص) اپنا جانشین معین کر کے گئے ہیں، لیکن اہل سنت اس بات کو نہیں مانتے .

ابوبکر  اور عمر دونوں اپنا  اپنا جانشین معین کرکے گئے ہیں،اس بات کو اہل سنت قبول کرتے ہیں،

ہم کہیں گے کہ یہ دونوں رسول سے زیادہ عاقل اور ہوشیار تھے؟!!

اگر آپ کہیں گے : نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول سے یہ لوگ زیادہ ہوشیار اور عاقل ہوں. تو اس کا مطلب یہ ہے کہ  ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہو گا.

اہل سنت علی ؑکو خلیفہ بلا فصل کیوں نہیں مانتے؟

اہل سنت کتہے ہیں کہ ہم علی کو خلیفہ بلا فصل نہیں مانتے کیونکہ ان کا نام قرآن میں نہیں آیا ہے .

شیعوں کا  جواب:

۱. کیا اللہ تعالیٰ کے سارے نبیوں کا نام قرآن  میں آیا ہے ؟!

۲.کیا خلیفہ اول اور دوم(ابوبکر اور عمر) کا نام قرآن میں آیا ہے؟

۳.غدیر خم میں رسول خدا(ص)نے اعلان کیا ہے :

 رُوِيَ عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْبَاقِرِ ع قَالَ حَجَّ رَسُولُ الله ص مِنَ الْمَدِینَةِ وَ قَدْ بَلَّغَ جَمِیعَ الشَّرَائِعِ قَوْمَهُ مَا خَلَا الْحَجَّ وَ الْوَلَايَةَ فَأَتَاهُ جَبْرَئِیلُ ع فَقَالَ لَهُ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ الله عَزَّ وَ جَلَّ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَ يَقُولُ لَكَ إِنِّی لَمْ أَقْبِضْ نَبِیّاً مِنْ أَنْبِيَائِی وَ رُسُلِی إِلَّا بَعْدَ إِكْمَالِ دِینِی وَ تَكْثِیرِ حُجَّتِی

۱۰۱

وَ قَدْ بَقِيَ عَلَيْكَ مِنْ ذَلِكَ فَرِیضَتَانِ مِمَّا يَحْتَاجُ إِلَيْهِ أَنْ تُبَلِّغَهُمَا قَوْمَكَ فَرِیضَةُ الْحَجِّ وَ فَرِیضَةُ الْوَلَايَة...وَ أَوْحَی إِلَيَّ بِسْمِ الله الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ یا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْآيَةَ مَعَاشِرَ النَّاسِ مَا قَصَّرْتُ عَنْ تَبْلِیغِ مَا أَنْزَلَهُ وَ أَنَا مُبَيِّنٌ سَبَبَ هَذِهِ الْآيَةِ إِنَّ جَبْرَئِیلَ ع هَبَطَ إِلَيَّ مِرَاراً ثَلَاثاً يَأْمُرُنِی عَنِ السَّلَامِ رَبِّی وَ هُوَ السَّلَامُ أَنْ أَقُومَ فِی هَذَا الْمَشْهَدِ وَ أُعْلِمَ كُلَّ أَبْيَضَ وَ أَحْمَرَ وَ أَسْوَدَ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ أَخِی وَ وَصِيِّی وَ خَلِیفَتِی وَ الْإِمَامُ مِنْ بَعْدِی الَّذِی مَحَلُّهُ مِنِّی مَحَلُّ هَارُونَ مِنْ مُوسَی إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِی وَلِيُّكُمْ بَعْدَ الله وَ رَسُولِهِ وَ قَدْ أَنْزَلَ الله تَبَارَكَ وَ تَعَالَی عَلَیّ بِذَلِكَ آيَةَ إِنَّما وَلِيُّكُمُ الله وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ يُقِیمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّکاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ وَ عَلِيُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ الَّذِی أَقَامَ الصَّلَاةَ وَ آتَی الزَّكَاةَ وَ هُوَ رَاكِعٌ يُرِیدُ الله عَزَّ وَ جَلَّ فِی كُلِّ حَالٍ ...

مَعَاشِرَ النَّاسِ فَضِّلُوا عَلِیّاً فَإِنَّهُ أَفْضَلُ النَّاسِ بَعْدِی مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثَی بِنَا أَنْزَلَ الله‏... وَ بَقِيَ الْخَلْقُ مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَغْضُوبٌ مَغْضُوبٌ مَنْ رَدَّ قَوْلِی هَذَا عَنْ جَبْرَئِیلَ ع عَنِ الله تَعَالَی فَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ ما قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَ اتَّقُوا الله أَنْ تُخَالِفُوا إِنَّ الله خَبِیرٌ بِما تَعْمَلُونَ معَاشِرَ النَّاسِ تَدَبَّرُوا الْقُرْآنَ وَ افْهَمُوا آيَاتِهِ وَ مُحْكَمَاتِهِ وَ لَا تَتَّبِعُوا مُتَشَابِهَهُ فَوَ الله لَهُوَ مُبَيِّنٌ لَكُمْ نُوراً وَاحِداً وَ لَا يُوَضِّحُ لَكُمْ تَفْسِیرَهُ إِلَّا الَّذِی أَنَا آخِذٌ بِيَدِهِ وَ مُصْعِدُهُ إِلَيَّ وَ شَائِلٌ بِعَضُدِهِ وَ مُعْلِمُكُمْ أَنَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ وَ هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ أَخِی وَ وَصِيِّی وَ مُوَالاتُهُ مِنَ الله تَعَالَی ‏.(1)

--------------

(1):-  روضة الواعظین و بصیرة المتعظین،  ج1،ص89.   

۱۰۲

امام باقر(ع) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) مدینہ سے حج پر تشریف لے گئے اور حج اور ولایت کے حکم کے علاوہ اسلام کے سارے احکام لوگوں تک پہنچائے .جبرئیل امین(ع)  آئے اور فرمایا: اے محمد (ص) اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام کہا ہے  اور فرمایا ہے کہ میں نے اپنے کسی بھی نبی یا رسول کو (لوگوں کے درمیان سے)نہیں اٹھایا ہے جب تک اپنے دین کو کامل نہ کرےاور ان کی  حجت تمام نہ ہوجائے اور تجھ پر دو فریضے باقی ہے جن کا اپنی قوم تک پہنچانا تم پر فرض ہے وہ فریضہ حج اور فریضہ ولایت ہے ...اور مجھ پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی ہے کہ جو کچھ مجھ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچادوں.اس کے بعد فرمایا: اے لوگو!میں نے جو کچھ انہوں نے نازل کیا تھا ان کے پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے اور میں اس آیة شریفہ کی شان نزول بتاتا ہوں کہ جبرئیل میرے پاس تین دفعہ تشریف لائے  اور اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچایا جس کا مقصد یہ تھا کہ میں تمہارے سامنے آؤں اور سارے لوگوں (گورے ،کالے اور سرخ) کو یہ اعلان کروں کہ علی ابن ابیطالب میرا بھائی ،وصی، خلیفہ اور میرے بعد امام ہوگاجس کا مقام میری نسبت ایسا ہوگاجوہارون کی نسبت موسیٰ سے ہےمگر میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.وہ تمہارے ولی ہیں اللہ اور اس کےرسول کےبعداور اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی شان میں آیة ولایت نازل کی ، جس کا مصدس علی ابن ابیطالب ہیں جنھوں نے نماز قائم کی اور حالت رکوع میں زکات دی اور ہر حال میں اللہ کی رضایت کے طالب رہے... اے لوگو! علی (ع)کی فضیلت کا اقرار کرو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق میرے بعدسارے مرد اور عورت میں افضل ترین انسان ہیں اور وہ لوگ لعنتی ہیں لعنتی ہیں اور مغضوب ہیں مغضوب ہیں جنہوں نے میری باتوں کو رد کیا جو جبرئیل نے اللہ تعالیٰ سے وحی نازل کی ہے .پس  ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیج دیا ہے اور اللہ کے فرامین کی مخالفت  سے ڈرتے رہو کہ وہ یقیناً تمہارے اعمال سے باخبر ہے.

اے لوگو!قرآن کریم میں غور وفکر کرو اور اس کی آیتوں کو سمجھو محکمات پر عمل کریں اور متشابہات کی پیروی نہ کریں ،خدا کی قسم وہ تمہارے لئے ایک نور کواجالا کرنے والا ہے جس کی تفسیر تمہارے لئے واضح نہیں ہوگی  سواے اس انسان   کے ذریعےجس

۱۰۳

کے ہاتھ کو میں نے پکڑ  کر بلند کیا اور تم لوگوں کے سامنے  اعلان کیا :جس جس کا میں مولا ہوں اس اس  کایہ علی مولا ہے جو علی ابن ابیطالب ہیں ،میرے بھائی  اور جانشین ہیں ،ان کی ولایت  کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے  لوگوں پر فرض کیا گیا ہے یہ خطبہ غدیر کا اقتباس ہے جس سے قرائن حالیہ ، مقامیہ اور قرائن مقالیہ  کے ذریعے ولایت علی پر استدلال کر سکتے ہیں.کہ پہلے الست اولی بکم من انفسکم کہہ کر اقرار لینا بعد میں من کنت مولاہ... کہنا اور اکمال دین اتمام حجت کے موقع پر رسول خدا(ص) کا تکبیر کہنا ، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ولایت علی  سے مراد اولی بالتصرف ہے نہ دوست .

جانشین پیغمبر (ص)کو صحابہ نے کیوں منصب خلافت سے دور رکھا؟

اہل سنت اشکال کرتے ہیں کہ اگر  لوگوں کے سامنے علیؑ کا نام لیکر جانشین بنایا ہی تھا توپیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد صحابہ نے کیوں علی ؑکو منصب  خلافت پر نہیں بٹھایا؟

شیعہ جواب دیتے ہیں:

 الف: سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نبی کی باتوں کو ٹھکرایا گیا.

 ب:یا نبی کی باتوں کو فراموش کیا گیا، کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ دومہینے سے زیادہ عرصہ بھی نہیں گذرا تھا.

ج: یا انہوں نے قول نبی کے مقابلے میں اجتہاد کیا ہے .ان تینوں جواب میں سے جو بھی  جواب انتخاب کرے ، وہ لوگ  لاجواب ہوجائیں گے .

۱.دعوت ذوالعشیرہ میں علی(ع) کا نام لے کر لوگوں کے سامنے اپنا جانشینی کا اعلان کیا گیا.

۲.نام لینے سے زیادہ اوصاف اور خصوصیات کا بیان کرنا  بہتر ہے ، کیونکہ دوسرے لوگ اس سے غلط فائدہ نہ اٹھا سکے .جیسا کہ تاریخ میں بہت سے لوگوں نے امام مھدی ہونے کا جھوٹا دعوا کیا.

۱۰۴

۳.جہاں لوگوں کو علی(ع) ہی کی دشمنی میں پیغمبر (ص) کی آواز کو حسبنا کتاب اللہ کہہ کر خاموش کرنا آسان ہوا تو ایک کاغذ کو جس پر علی (ع)کا نام لکھ دے، پھاڑ دینا تو اور بھی آسان تھا.

اگر خلفاء برحق نہیں تھے تو علی ؑنے خاموشی کیوں اختیار کی؟

جواب: امیرالمؤمنین خود فرماتے ہیں کہ ۲۵ سال کی گوشہ نشینی میرے لئے ایسا تھا کہ جیسے حلق میں ہڈی اٹکی ہوئی ہو مگر علی نے صبر کی ، ورنہ علی ولی مطلق تھے اپنا حق چھین سکتے تھے ۔کیوں نہ ہو جو زندگی میں کبھی نہیں ہارے جو کبھی کسی کی طرف محتاج نہیں رہے؛ بلکہ لوگ خود علی پر محتاج ہوتے تھے.اور وہ لوگ محتاج ہوتے تھے جو خلہا  رسول ہونے کا تو دعوا کرتے تھے لیکن کار خلافت انجام نہیں دے سکتے تھے اورمولا ؑخود فرماتے ہیں کہ یہ بات تمھارے دلوں میں ہے کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں لیکن میری بازؤں میں وہی طاقت ہے جو جنگ بدر و حنین میں تھی. 

خاموشی کی اصل وجہ یہ تھی کہ اگر علی تلوار اٹھاتے تو حضور کی ۶۳ سالہ زندگی کی تمام زحمتیں ضائع ہوجاتیں۔ علی جیت بھی جاتے اور اقتدار بھی حاصل  ہوجاتے مگر حضور کی تبلیغ رایگان ہوجاتی اور لوگ کہتے کہ علی نے رسول کی ساری محنت پر  پانی پھیر دیا خود مولا فرماتے ہیں کہ اگر میں تلوار اٹھاتا تو ایک لاکھ سے زیادہ جو مسلمان ہوئے تھے پھر اپنی اصلیت کی طرف لوٹ جاتے ، اور میرا مقصد یہ نہیں بلکہ میرا مقصد تو لوگوں کو ظلمت کی تاریکی سے نکال کر ہدایت کے نور کی طرف دعوت دوں، ضرورت کے موقع پر ہدایت کرتا رہوں، یہ ہے ولی کا کام.نبی پہنچاتا ہے ولی بچاتا ہے یعنی تلوار نیام میں رکھ کر کار رسالت کی حفاظت کی ، گلے میں رسی ڈالنے کو قبول کیا کیونکہ آپ کو اپنی ولایت کی فکر نہیں تھی کار نبوت کی حفاظت کی فکر تھی.

باقی اصحاب اور امام علی میں فرق یہی تھا کہ علی، رسول کی رسالت اور کارنبوت کی حفاظت فرماتے تھے اور باقی اصحاب، نبی کے اصولوں کو مٹا کر خود اپنا اصول قائم کرتے ہیں جنگ نہروان میں آخر وقت تک لوگوں کو ہدایت کرتے رہے آخر کار تلوار اٹھانا پڑا۔

۱۰۵

 اس وقت ۱۳ افراد بھاگ کھڑے ہوئے جن میں سے ایک ابن ملجم مرادی بھی تھا اس وقت فرمایا: یہ میرا قاتل ہے اور دوسری مرتبہ جب آپ میثم تمّار کی دکان میں تشریف فرما تھے ، ابن ملجم مرادی سامنے سے گزرا تو فرمایا: یہ میرا قاتل ہے عرض کیا:مولا!پھر اس کو کیوں مہلت دیتے ہو؟ فرمایا: جرم سے پہلے سزانہیں دی جاسکتی.

جب  امیر المؤمنین  جنگ نہروان کے بعد ایک مجلس میں تشریف فرما تھے تو آپ سے پوچھاگیا کہ آپ نےجس طرح ناکثین اور قاسطین اور مارقین  اور طلحہ اور زبیرکے ساتھ جنگ کی اسی طرح ابوبکر اور عمر کے ساتھ جنگ کیوں نہیں کی؟ تو آپ نے فرمایا: میں اپنی زندگی کے پہلے دن  سے ہی مظلوم واقع ہوا اور میرے حقوق کو دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھتا رہا تو اشعث بن قیس اٹھا اور کہا: یا امیر المؤمنین! کیوں آپ نے تلوار نہیں اٹھائی اور اپنا حق نہیں چھینا ؟ تو فرمایا : اے  اشعث! تو نے ایک ایسے مطلب کے بارے میں سوال کیا تو اس کا جواب اور دلیل کو بھی تفصیل سے سنو: میں نے چھ انبیاء الہی کی پیروی کی ہے.

1.  حضرت نوح ،  جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرما تا ہے:

فَدَعا رَبَّهُ أَنِّی مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ (1)

2.  حضررت لوط ، جس کے بارے میں فرمایا:

 لَوْ أَنَّ لِی بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِی إِلی‏ رُكْنٍ شَدِیدٍ (2) ان دونوں آیتوں میں اب اگر کوئی یہ کہہ دے کافروں سے خوف کی وجہ سے نہیں فریائے ہیں تو وہ کافر ہے تو انبیاء کے ولی اور جانشین تو خود انبیاء سے زیادہ معذور ہیں(3)

3.  حضرت ابراہیم خلیل  کہ جن کے بارے میں فرماتے ہیں :

وَ أَعْتَزِلُكُمْ وَ ما تَدْعُونَ مِنْ دُونِ الل ه (4)

--------------

(1):- بقرہ ۱۲۴.

(2):- النساء : 59.

(3):- علی عطائی، پرسش وپاسخ در مدینہ منورہ،ص 215.

(4):- احزاب 33.

۱۰۶

4.  حضرت موسیٰ :فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ .(1)

5.  حضرت ہارون کی میں نے پیروی کی  ، جس نے فرمایا:ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِی وَ کادُوا يَقْتُلُونَنِی. (2)

کیا ہارون نے اپنی قوم سے خوف کی وجہ ایسا نہیں کیا؟ اگر اس بات کا انکار کرے گا تو  قرآن کا انکار ہوگا.

6.  میں نے اپنے بھائی حضرت محمد (ص) کی پیروی کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی ، جس طرح انہوں نے احتیاط اور قریش والوں کے خوف سے مجھے اپنے بستر پر سلا کر خود غار  میں چھپ گئے. تو جو بھی یہ کہے کہ رسول خدا کفار قریش کے خوف سے نہیں چھپے تھے تو گویا وہ قرآن کا منکر ہوگا.

اس وقت سارے لوگ یک زبان ہوکر کہنے لگے : یا امیر المؤمنین ! آپ نے بالکل سچ کہا اور ہم اس بارے میں جاہل تھے(3)

دوسری روایت میں ہے کہ امام کوفہ میں خطبہ دے رہے تھے جس کے آخر میں فرمایا: میں لوگوں پر اولویت رکھتا ہوں جس دن مجھے رسول خدا (ص)نے اپنا جانشین بنایا لیکن جس دن رسول خدا رحلت فرماگئے تو اسی دن سے میں مظلوم واقع ہوا.تو اس وقت اشعث نے کہا: آپ ہر خطبہ میں یہی فرماتے ہو کہ میں لوگوں پر اولویت رکھتا ہوں اور میرا حق غصب ہوا اور ظلم ہوا تو کیوں ان دونوں کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی؟!

آپ نے فرمایا:اے شرابی کی اولاد! خدا کی قسم  ! میرا اپنا حق نہ لینا نہ کسی سےڈر اور خوف کی وجہ سے تھا اور نہ موت کے ڈر سے، بلکہ صرف رسول خدا (ص)کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اس  کا وفا کرنا تھا.کیونکہ انہوں نے مجھے خبر  دی تھی

--------------

(1):- 

(2):-

(3):-

۱۰۷

کہ یہ امّت میرے بعد تجھ پر جفا کریگی اور میری وصیت کو ٹھکرائے گی۔ جسے میں نے تیری خاطر کی ہے  اور کہا ہے : میری نسبت تیرے ساتھ موسیٰ اور ہارون کی نسبت ہے تو میں نے عرض کیا : اے رسول خدا ! اس وقت میرا وظیفہ کیا ہے  ؟ تو فرمایا: اگر تمھیں کوئی یار و مددگارمل جائیں تو غاصبوں کے ساتھ جنگ کرو اور اپنا حق لے لو لیکن اگر کوئی مدد کرنے والے نہ ملے تو سکوت اختیار کرلو.اور اپنا خون کی حفاظت کرنا اور مظلومانہ مجھ سے قیامت کےدن ملحق ہوجانا.پس میں نے بھی رسول خدا  کی رحلت کے بعد ان کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہوگیا اور اس کے بعد قسم کھائی کہ جب تک قرآن کو جمع نہ کروں گھر سے نہیں نکلوں گا.اس کےبعد میں فاطمہ زہرا ، حسن اور حسین کے ہاتھوں کو پکڑ ہر اصحاب اور اہل بدر و حنین کے دروازے پر گئے لیکن ہر ایک نے انکار کیا سوائے چار افراد(سلمان، عمار، ابوذر،اور مقداد) کے.اور اپنے عزیزوں میں سے سواے عقیل اور عباس کے کسی نے بھی مدد نہیں کی.

اشعث  نے کہا:عثمان نے بھی اسی طرح استدلال کیا تھا کہ ان کا بھی کوئی یاور نہیں تھا اس لئے مظلومانہ قتل ہونے کو تسلیم کیا!

امام نے فرمایا: اے شرابی کے بیٹے!جس طرح تو نے قیاس کیا  ایسا نہیں کیونکہ عثمان  ایسے مسند پر بیٹھا تھا جس کا وہ حقدار نہیں تھا  اور کسی کا لباس پہن رکھا تھا ...اگر مجھے صرف ۴۰ نفر مل جاتے تو میں ابوبکر کا مقابلہ کرتا(1)

اہل سنت: علی (ع) کو لوگوں نے نہیں مانا اور دین بھی منہدم نہیں ہوا۔ الحمد للہ!اسلام بڑے آب و تاب کے ساتھ باقی ہے. یہاں تک  کہ ایران اور روم بھی فتح ہوا اور سب مسلمان بھی ہوگئے.

-------------

(1):-

۱۰۸

    جواب شیعہ : اسلام پر شدید ضربہ وار ہوا ؛

     امام حق بھی دین اسلام کی حفاظت کی خاطر کبھی خاموش نہیں رہے.

     دین میں بہت سارے انحرافات پیدا ہوگئے.

     اصل استاد کا جواب یہ کہ جو داخلی خطر تھا ، اس نے اپنا کام کردیا .ورنہ سارے منافقین کہاں چلے گئے ان تینوں کے دور میں ، یہاں تک کہ علی آئے تو دوبارہ سر اٹھانا شروع کیا.

: چگونہ ما منکر ولایت حضرت علی(رضی اللہ عنہ) می شویم و حال آنکہ علمای احناف ہمچو حاکم حسکانی می گوید: اولی الامر حضرت علی(رضی اللہ عنہ)است«اولی الامر هو علّی الذی ولاه اللّه بعد محمد ـ صلی الله علیه و سلّم ـ فی حیاته حین خلفه رسول اللّه بالمدینة».[ 81]

الفصول المہمة: 30 ـ مستدرک حاکم 3: 483.

[79] .ازالة الخفاء دہلوی 2: 251 ـ کفایة الطالب: 407، شرح عینیة

(آلوسی) 15 ـ المجدی (ابن صوفی): 11، ئد

تاریخ بناکتی: 98 ـ نور الابصار: 76.

[80].الاستیعاب 3: 1097.

[81] .شواہد التنزیل 2: 190.

[82] .سیر اعلام النبلاء 19: 328. «ذکر ابوحامد فی کتابه سر العالمین و کشف ما فی الدارین، فقال: فی حدیث

من کنت مولاه فعلی مولاه: ان عمر قال لعلی: بخ بخ. اصبحت مولی کل مؤمن، قال ابوحامد:

 هذا تسلیم

۱۰۹

ورضی ثم بعد هذا غلب الهوی حباً للریاسة، وعقد البنود وامر الخلافة ونهیها، فحملهم علی الخلاف فنبذوه

وراء ظهورهم، واشتروا به ثمناً قلیلا فبئس ما یشترون.».

عصمت امام پر دلیل

1.  امام محافظ شریعت ہے  اور شریعت کی حفاظت وہی کر سکتا ہے جو خود پاک اور معصوم ہو.

2.  آیة شریفہ :وَ إِذِ ابْتَلی‏ إِبْراهِیمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّی جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِی قالَ لا يَنالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ‏. (1)

" اور اس وقت کو یاد کرو جب خدانے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم (ع)کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں. انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا".

 اس آیة شریفہ سے یوں عصمت پر استدلال کیا جاتا  ہے:ظالم ہونے کی تین حالتیں ہیں:

الف: یا انسان پوری زندگی ظلم کی حالت میں گذارتا ہے

ب: یا زندگی کے شروع میں عادل تھا بعد میں ظالم ہوا ہے حضرت ابراہیم(ع) کیلئے یہ تو تصور نہیں کرسکتا کہ آپ نے ان دو گروہ کیلئے امامت کا مطالبہ کیا ہو.

--------------

(1):- البقرة : 245

۱۱۰

ج: پہلے وہ ظالم تھا اب عادل  بن گیا ہے کہ اس کیلئے ابراہیم نے امامت کا مطالبہ کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے قبول نہیں کیا.

د: پس ایک چوتھا گروہ باقی رہتا ہے کہ امامت کے وہی لائق ہوسکتا ہے ، جو پوری زندگی میں  کبھی ظالم واقع نہیں ہوا ہو.

3.  آیة شریفہ:یا أَيُّهَا الَّذینَ آمَنُوا أَطیعُوا الل ه وَ أَطیعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِی الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فی‏ شَيْ‏ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَی الل ه وَ الرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِالل ه وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ ذلِكَ خَيْرٌ وَ أَحْسَنُ تَأْویلاً .(1)

"ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے".

اس آیة شریفہ میں حکم اطاعت مطلق ہے کوئی قید نہیں  بلکہ جس طرح اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے.پس جس طرح اللہ اور رسول کی اطاعت واجب  ہے اسی طرح ان کے جانشین کا حکم بھی واجب ہے.کیسے؟

مقدمہ۱. اولی الامر نبی کے ساتھ ذکر ہوا ہے .پس اگر  یزید، ولید  اور معاویہ کو رسول کے ساتھ  رکھیں تو یہ رسالت کی اولین توہین ہے کیونکہ یہ لوگ اولی الامر کا مصداق نہیں بن سکتے.

--------------

(1):- مائدہ ۵۵.

۱۱۱

مقدمہ ۲. اولی الامر مطلق آیا ہے جو بتاتا ہے کہ وہ بھی اللہ اور رسول کی طرح معصوم ہو. کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو نقض غرض لازم آتا ہے.ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ صرف نیک کاموں میں رسول کی طرح ہونا چاہئے.تو اس کیلئے جواب یہی ہے کہ آیة مطلق ذکر ہوا ہے.

مقدمہ ۳. آیة اطیعوا اللہ... سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ خلیفہ معصوم تا قیامت موجود ہونا چاہئے کیونکہ اسلام دین خاتم ہے اور اس کا دستور پورے عالم بشریت کیلئے ہے.

کس بنیاد پر اہل بیت  (ع)معصوم؟ ایک مختصر مناظرہ

مسجد النبی(ص)میں ایک شخص نے کہا: تم شیعہ لوگ کس بنیاد پر اہل بیت کو معصوم مانتے ہو؟

شیعہ: تم یہ بتاؤ کہ زہرا نے کونسا گناہ کا ارتکاب ہوا ہے؟ علی (ع)نے کون سا جرم کیا ہے؟ حسنین نے کون سے برا کام انجام دیا ہے ؟جبکہ تم لوگ خود معترف ہیں کہ ابوبکر و عمر لمبی مدت تک شرک و کفر کی پلیدی میں رہے ہیں اور بت پرستی کرتے رہے ہیں. عائشہ اور معاویہ علی کے ساتھ جنگ کرکے کتنے بڑے گناہوں کے مرتکب  ہوئے؟  آیہانّما یرید الل ه اور حدیث ثقلین کی تلاوت کی کیا اس سے بڑھ کر کوئی دلیل چاہئے؟پھر وہ ناراض ہو کر چلا گیا.(1)

--------------

(1):- باب فضائل علی بن ابیطالب، ص 1043،ح2408.

۱۱۲

شیعہ اہل بیتؑ کو معصوم مانتے ہیں

شیعہ اہل بیت کو معصوم کیوں مانتے ہیں جبکہ اہل سنت نہ اہلبیت کو اور نہ خلفاء ثلاثہ کو معصوم مانتے ؟!

جواب: ہمارے پاس عقلی اور نقلی دلائل موجود ہیں جن  سے اہل سنت بھی انکار نہیں کرسکتے۔ جن کی بناء پر ہم انہیں معصوم مانتے ہیں:

1. قرآن کریم:انّما یرید الل ه لیذ ه ب عنکم الرجس ا ه ل البیت و یط ه رکم تط ه یراً .(1)

2. صحیح مسلم میں عائشہ سے نقل ہوا ہے: ایک دن رسول خدا (ص)اپنے کمرے سے باہر نکلے اپنا اونی سیاہ عبا پہنا ہوا تھا حسن و حسین آئے اس عبا کے اندر داخل ہوگئے پرں فاطمہ آئی اس میں داخل ہوگئی پھر علی آئے اور اس  عبا میں داخل ہوئے. پھر فرمایا:انما یرید الل ه .. (2)

مسند احمد بن حنبل میں نقل ہوا ہے:

انّ النبی کان یمرّ بباب فاطمه ستة اشهر اذا خرج الی صلوة الفجر یقول : الصلوة یا اهل البیت انّما یرید الل ه لیذ ه ب عنکم الرجس ا ه ل البیت و یط ه رکم تط ه یراً .(3)

عصمت

خلاصہ: انسانی کہ گاہی گناہ میکند و گاہی نمیکند، مختاراست. اگر بہ درجہ اتقیا برسد انتخاب کار خوب و ترک فعل بد نیزتقریبا ضروری می شود. شہود گناہ برای معصوم، مانند شہود آتش است برای ما. این جبر نیست.

--------------

(1):-  احزاب33.

(2):- محمد طاہری ، الکردی، ج1، ص188.

(3):- الفصول المہمة: 30 ـ مستدرک حاکم 3: 483

۱۱۳

انسانی را فرض کنید کہ دارای ملکہ ی تقوا و عدالت نیست، گاہی گناہی را مرتکب می شود و گاہی مرتکب نمی شود. آیا این شخص را مختار می دانیم یا نہ؟ قطعاً می دانیم. اکنون فرض کنید کہ ہمین شخص در اثر مصاحبت با اتقیا و صلحا دارای ملکہ ی تقوا می شود، مانند ابوذر؛ یعنی، شان و مقام و روحیہ اش آن چنان بالا می رود کہ ہرگز دروغ نمی گوید یا مثلًا شرب خمر نمی کند، بہ مرحلہ ای می رسد کہ انتخاب کار خوب، تقریباً حکم ضرورت پیدا می کند و ترک فعل بد نیز ضروری می شود- چنین شخصی بہ مرحلہ ای می رسد کہ ہرگز مرتکب گناہ نمی شود، او مراتب معنوی را شہود می کند. شہود مراتب معنوی برای معصوم؛ مثلًا، مانند شہود آتش است برای ما. برای ما محال است کہ دست خود را وارد آتش کنیم- آیا این را جبر می گوییم؟ نہ، صفات روحی و شہود معنوی آن معصوم ہم طوری است کہ محال است مرتکب گناہ گردد؛ آیا این جبر است؟ نہ.(1)

ولایت علی پر دلیلیں

آیة شریفہ ولایت:إِنَّما وَلِيُّكُمُ الل ه وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ يُقِیمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّکاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ .(2)

ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکواة   دیتے ہیں.اس آیہ شریفہ کی شان نزول میں سارے اسلامی فرقے متفق ہیں کہ یہ علی(ع) کی شان  میں نازل ہوئی ہے چنانچہ انس بن مالک نقل کرتے ہیں کہ مسجد میں ایک سائل آیا اور اس نے خیرات مانگی، اس وقت علی(ع) رکوع کی حالت  میں  مشغول نماز  تھے انہوں نے اشارہ کیا اور اپنی انگوٹھی دیدی اس و قت کہ کوئی ایک بھی مسجد سے نہیں نکلا تھا ، جبرئیل امین یہ آیت لیکر نازل ہوا .

فخر رازی نے معنای ولایت پر کئی اشکالات کئے ہیں:

۱۱۴

۱.اس آیت سے پہلی والی آیات کا سیاق یہودیوں اور نصیریوں سے دوستی کرنے سے روک رہا ہے ،لہذا یہاں ولایت سے مراد بھی دوستی ہے .ورنہ اس آیت اور دوسری آیات کے درمیان تفکیک لازم آتا ہے.  جواب : جہاں تفکیک پر دلیل اگر موجود ہو تو کوئی بات نہیں.نیز دوسری آیات کے ساتھ اس کا خاص رابطہ  بھی نہیں ہے.

۲.آیة شریفہ میں ہم راکعون کہہ کر جمع کا صیغہ لایا ہے اور اللہ اور رسول کے علاوہ کسی فرد واحد (علی) پر حمل کرنا درست نہیں ہے .بلکہ یہ خلاف ظاہر ہے ۔

جواب : اس آیة کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات جیسے ندعوا ابنائنا ...آئی ہیں جبکہ رسول ایک فرد کے علاوہ کوئی اور تو نہیں تھا .

ثانیاً تعظیم کی خاطر بھی صیغہ جمع استعمال ہوتا ہے

ثالثاً تشویق کیلئے بھی جمع کا صیغہ استعمال ہوتا ہے .

۳.یہ نماز میں  حضور قلب  نہ رکھنے پر دلالت کرتی ہے جو علی کی شان کے خلاف ہے .

جواب : یہ عمل خود بھی عبادت تھی اور اللہ ہی کی خاطر تھا. فقیروں کا خیال رکھنا اور ان کو خیرات دینا اللہ تعالیٰ کو صدقہ و خیرات دینے کے مترادف ہے. چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے :

 مَنْ ذَا الَّذی يُقْرِضُ الل ه قَرْضاً حَسَناً فَيُضاعِفَهُ لَهُ أَضْعافاً كَثیرَةً وَ الل ه يَقْبِضُ وَ يَبْصُطُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ .(1)

"کون ہے جو خدا کو قرض حسن دے اور پھر خدا اسے کئی گنا کرکے واپس کردے خدا کم بھی کرسکتاہے اور زیادہ بھی اور تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹائے جاؤگے".

۱۱۵

۴.زکواۃ کاادا کرنا واجب تھا ، علی نے زکواة کی ادائیگی میں تاخیر کی ہے یہاں تک کہ نماز کا وقت آگیا.

جواب یہاں زکواة سے مراد اصطلاحی ہے نہ لغوی،ثانیاً  زکواة مستحبی  تھا.

۵.یہ آیت ابوبکر کی شان میں نازل ہوئی ہے نہ علی کی شان میں

جواب : کوئی ایک دلیل تو لے آؤ.

پس یہاں ولایت سے مراد دوستی ، محبت، نصرت، ...نہیں بلکہ اولی بالتصرف مراد ہے دلیل: انما اداة حصر ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ تمھارا ولی فقط اور فقط یہی تین ہیں ، یعنی اللہ ، رسول اور ان صفات  مذکورہ کے حامل شخص اس صورت میں اگر ہم محبت یا دوستی مراد لیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کسی اور مؤمن سے دوستی یا محبت نہ کرے.

ثانیاً: اللہ اور ان کے رسول سے فقط محبت کرنا کافی ہے یا اولی بالتصرف کا بھی قائل ہونا بھی ضروری ہے؟  پس  اولی الامر کو بھی ہم اسی معنی میں لیتے ہیں .

ثالثاً:کلمہ اطیعوا مطلق ہے اولی الامر کیلئے کوئی الگ اطیعوا کا ذکر نہیں ہوا ہے پس جس معنی میں رسول کی اطاعت واجب ہے اسی معنی میں علی کی اطاعت بھی واجب ہے

رابعاً عربی گرائمر میں جب بغیر کسی قید کے کوئی لفظ استعمال ہو تو اسے مختلف معنی میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے.

اہل بیت (ع)کون؟

صحیح مسلم میں ایک مفصّل روایت ذکر ہوا ہے: زید بن ارقم کہتا ہے کہ رسول خدا (ص)نے مکہ و مدینہ کے درمیان ایک مفصل خطبہ دیا اور حمد و ثنائے الٰہی کے بعد کہا: اے لوگو! میں بھی ایک انسان ہوں خدا کی طرف سے مامور ہوں میں تمھارے درمیان دو گراں بہا چیزیں چھوڑے جارہا ہوں. ایک کتاب خدا دوسرے میری اہل بیت. راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ(ص)نے اس جملے کو تین بار دہرایا. زید بن ارقم سے سوال کیا اہل بیت سے کون لوگ مراد ہے؟

۱۱۶

کیا آپ کی بیویاں بھی شامل ہیں؟ زید نے کہا: نہیں خدا کی قسم جب بیوی کو طلاق دی جاتی ہئے تو وہ اپنے والدین کے پاس چلی جاتی ہے اہل بیت کی بنیاد اور اصل مرد ہے. ایل بیت وہ لوگ ہیں جن پر رسول اللہ (ص)کے بعد صدقہ حرام ہو. زید سے سوال ہوا کہ جن پر صدقہ حرام ہے اور عدل قرآن ہے اور جن کے بارے میں رسول خدا نے سفارش کی ہے ، کون لوگ ہیں؟

زید نے کہا: آل علی ابن ابیطالب(ع) ہیں جن پر صدقہ حرام ہے.(1)

اور سب مسلمان اس بات کے قائل ہیں کہ علی(ع) نے کبھی گناہ نہیں کیا، کبھی بت پرستی نہیں کی.جبکہ سب معتقد ہیں کہ ابوبکر و عمر کی زندگی کا بیشتر حصہ بت پرستی میں گذرا ہے۔اس کے بعد مسلمان ہوگئے.

حضرت عائشہ جس نے حکم خدا کی مخالفت کرکے گناہ کا مرتکب ہوئی. خدا نے کہاتھا :وقرن فی بیوتکن .(2)

لیکن وہ نکلی اور خلیفہ رسول علی(ع) سے جنگ کرنے آئی. اور جنگ جمل کا فتنہ برپا کرکے ہزاروں مسلمانوں کہ مروا دیا. اور مسلمانوں کے درمیان پہلی بار جنگ داخلی کی بنیاد ڈالی. طلحہ وزبیر خصوصاً معاویہ نے بھی یہی رویہ اختیار کیا. یہ ہر سنی ، شیعہ کیلئے روز روشن کی طرح عیاں ہے.

 خلیفہ کا تعیّن

سنی:مسلمانوں نے رسول اللہ (ص)کی رحلت کے بعد ابوبکر کی خلافت پر اتفاق کیا اور اسے خلیفہ رسول میں   کیا لیکن تم لوگ مسلمانوں کی مخالفت کرکے ابوبکر کی خلافت کو قبول نہیں کرتے ہو.!

شیعہ: عمر کو کس نے خلافت کیلئے انتخاب کیا؟

۱۱۷

سنی: ابوبکر نے انتخاب کیا تاکہ  مسلمانوں کو بغیر رہبر  کےنہ چھوڑا جائے۔اور ان کے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہ ہو.

شیعہ: تعجب والی بات ہے کہ ابوبکر پیغمبر(ص) سے زیادہ عقل مند اور زیادہ سمجھ دار تھا؟!

سنی: کس طرح ؟

شیعہ:بقول تیرے ، رسول اللہ(ص) نے اپنے لئے کوئی خلیفہ متعین نہیں کیا اور لوگوں کیلئے کوئی رہبر معین نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کو اپنے حال پر چھوڑدیا اور لوگوں کو اختلافات میں ڈال دیا یہاں تک کہ آپ کا جنازہ تین دن تک زمین پر پڑا رہا، تاکہ آپ کو خلیفہ مقرر کرنے کے بعد دفن کیا جائے. لیکن ابوبکر زیادہ عاقل تھا لذتا انھوں نے اپنا جانشین مقرر کیا.

کتاب التاریخ میں لکھا ہے: رسول اللہ (ص)کے جنازے کو چھوڑ کر سقیفۂ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے تین دن بعد ابوبکر کو بعنوان خلیفہ چن لیا اور اس کی بیعت کی گئی. اور چوتھے روز رسول اللہ (ص)کی تجہیز و تدفین کی طرف متوجہ ہوگئے. شیطان نے بھی اس موقع پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن خدا کی رحمت مسلمانوں کیلئے شامل حال ہوگئی. اس کی مکر و فریب سے بچ گئے. اور ابوبکر کی بیعت پر متفق ہوگئے.(1)

ہاں ! لوگ متعین خلافت کی اہمیت کو خوب جانتے تھے اگر خلیفہ متعین نہ ہوتا تو شیطان کو فرصت ملتی اور مسلمانوں کے درمیان  اختلاف ڈال دیتا. ابوبکر و عمر بھی جانتے تھے کہ لوگوں کو بغیر کسی رہبر و امام کے چھوڑا نہیں جاسکتا. کیا  خدا نے رسول کو اس مہم کی خبر نہیں دی تھی اور رسول بھی عام لوگوں، ابوبکر  اور عمر کی طرح اس کی اہمیت سے بے خبر تھے.العیاذبالله. انّ هذا لشیئ عجاب.!

سنی: میں ان سب کو تو نہیں جانتا لیکن صرف اتنا جانتاہوں  کہ شیعیان خلیفۂ رسول کو نہیں مانتے.

--------------

(1):-  باب فضائل اھل البیت، ح 2425.  ج4،ص 568، ح14042.

۱۱۸

شیعہ: جس خلیفہ کو تم اہل سنت والے مانتے ہو اور مسلمانوں کا حاکم مانتے ہو اس کو قبول کرنا اور نہ کرنا کسی بھی مشکل کو حل نہیں کرتا. اور اول شب قبر اس کے بارے میں سوال نہیں ہوگا کہ تمھارا حاکم کون تھا. رسول کے بعد کیا رسول کے گھر پررجوع کرینگے یا بیگانوں کے گھر؟

سنی:اصحاب پیغمبر ابوبکر اور عمر کی طرف رجوع کریں گے.

شیعہ: رسول نے فرمایا :انّی تارک فیکم الثقلین : کتاب الله و عترتی اهل بیتی و ان تمسکتم بهمالن تظلّوا بعدی.

قرآن اور عترت کی طرف رجوع کا حکم دیا ہے نہ اصحاب کی طرف. اور کبھی یہ نہیں فرمایا کہ ابوبکر اور عمر کی طرف رجوع کرو. علاوہ بر این علم و دانش علی کے پاس تھا اور ابوبکر و عمر بھی علمی مسائل پیش آنے کی صورت میں علی کی طرف رجوع کرتے تھے اور ستّر بار عمر نے کہا: لولا علی لھلک عمر.

 یعنی اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا. اور تم کہتے ہو ابوبکر اور عمر کی طرف رجوع کریں ؟! 

مولود کعبہ ہوتے ہوئے بھی فضائل علی چھپاتے کیوں؟

سؤال: کیا یہ صحیح ہے کہ کہا جاتا ہے کہ  علی(رضی اللہ عنہ) کے سوا کوئی اور کعبہ  میں متولد نہیں ہوا ہے ؟

جواب:

1قال ابن صباغ المالکی: ولم یولد فی البیت الحرام قبله احد سواه وهی فضیلة خصّه الله بها اجلالا له واعلاء لمرتبته واظهاراً لتکرمته (1)

--------------

(1):-  ۔  الہیات شفا، ج 1، ص 98.

۱۱۹

یعنی علی(رضی اللہ عنہ)سے پہلے کوئی خانہ کعبہ میں پیدا نہیں ہوااور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے  ایسی فضیلت ہے جسے علی کیساتھ  مخصوص کیا ہے.جس کے ذریعے علی کی عظمت کو بلند کرنا مقصود پروردگار ہے.لیکن تعجب والی بات یہ ہے کہ کیوں بزرگان اہل سنت اپنی زبان پر یہ فضائل نہیں لاتے ؟!جواب یہ ہے کہ اگر علی کی افضلیت پر شیعوں کے دلائل عوام تک پہنچے تو ان کو یہ خدشہ ضرور ہے کہ مکتب تشیع کی طرف بڑھنے لگیں گے.

حدیث منزلت محکم ترین اثر

سؤال: کیا یہ صحیح ہے کہ حدیث منزلت علی(رضی اللہ عنہ):"انت منی بمنزلة هارون من موسی" صحیح ترین و محکم ترین آثار میں سے ہے؟ جواب : چنانچہ قرطبی  کہتا ہے:و هو من اثبت الآثار و اصحّها.. (1)

کیا ولایت علیؑ سے انکارممکن؟!

سؤال: ہم کیسے ولایت حضرت علی(رضی اللہ عنہ) سے منکر ہونگے جب کہ حنفی علماء جءسے حاکم حسکانی لکھتاہے:«اولی الامر هو علّی الذی ولاه اللّه بعد محمد ـ صلی الله علیه و سلّم ـ فی حیاته حین خلفه رسول اللّه بالمدینة». (2) اولی الامر حضرت علی(رضی اللہ عنہ)ہے جسے حضرت محمد کے بعد ان کی زندگی میں ہی اللہ تعالیٰ نے نا کا ولی قرار دیا ہے.

خلیفہ دوم نے غدیرکے دن بیعت کی لیکن...

سؤال : کیا یہ صحیح ہے کہ عمر بن خطاب نے روز غدیر بیعت کی لیکن رحلت پیغمبر اکرم کے بعد بیعت شکنی کی؟

جواب: درست ہے انہوں نے ایسا ہی کیا ہے چنانچہ اس بارے میں ذہبی امام غزالی سے عمر بن خطاب کے بارے میں نقل کیا ہے کہ

--------------

(1):-  الاستیعاب 3: 1097.

(2):- شواہد التنزیل 2: 190

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255