پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا 0%

پھر میں ہدایت پاگیا مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 253

پھر میں ہدایت پاگیا

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 253
مشاہدے: 75255
ڈاؤنلوڈ: 6962

تبصرے:

پھر میں ہدایت پاگیا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 253 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 75255 / ڈاؤنلوڈ: 6962
سائز سائز سائز
پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ان کے اوپر درود بھیجنا ویسا ہی واجب ہے جیسا کہ رسول پر ان کے لئے خمس قراردیا گیا ہے (1) ۔اجر رسالت کے عنوان پر ہر مسلمان پر ان کی مودت واجب قراردی گئی ہے (2) ۔ یہی اولوالامر ہیں جن  کی اطاعت واجب قراردی گئی ہے (3) ۔ یہی راسخون فی العلم ہیں جو تاویل قرآن او ر محکم ومتشابہ کا علم رکھتے ہیں (4) ۔ یہی اہل ذکر ہیں جن کو رسول نے حدیث ثقلین میں قران کا ساتھی قراردیا ہے اور دونوں سے تمسک کو واجب قراردیا ہے (5) ۔ انھیں کو سفنیہ نوح جیسا قرار دیا گیا ہے ۔جو اس پر سوار ہوا نجات پاگیا اورجو الگ رہا ڈوب گیا (6) ۔ صحابہ اہل بیت کی قدر پہچانتے ہیں اور ان کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں شیعہ انھیں اہل بیت کی پیروی کرتے ہیں اور ان کو جملہ صحابہ سے افضل مانتے ہیں اور اس پر نصوص صریحہ پیش کرتے ہیں ۔۔۔لیکن اہل سنت والجماعت اہل بیت کی عظمت وتفضیل واحترام کے قائل ہونے کے باوجود اصحاب کی اس تقسیم کو قبول نہیں کرتے اور نہ اصحاب میں سے کسی کو منافق سمجھتے ہیں ۔بلکہ تمام صحابہ ان کے نزدیک رسول خدا کے بعد افضل الخلائق ہیں اور اگر وہ کسی تقسیم کو مانتے بھی ہیں تو سابق الاسلام ہوئے اور اسلام مین مصائب برداشت کرنے کے اعتبار سے ہے ۔چنانچہ سب سے افضل خلفائے راشدین اس کے بعد عشرہ مبشرہ کے باقی چھ 6 افراد ہیں اسی لئے جب وہ نبی اورآل نبی پر دورود بھیجتے ہیں تو بلا استثناء تمام صحابہ پر درود بھیحتے ہیں یہ باتیں میں خود سنی ہونے کی وجہ سے اور علمائے کرام اہل سنت سے سن کر جانتا ہوں ۔اور وہ تقسیم میں نے علمائے شیعہ سے سنی ہے ۔اوریہی چیز باعث نبی کہ میں پہلے صحابہ کے بارے میں ایک عمیق بحث کرلوں اور اپنے خدا سے یہ عہد کرلیا ہے کہ مجھے جذباتی نہ بنائے تاکہ حزبی نہ کہلاؤں اور دونوں طرف کی بات سن کر احسن کی پیروی کر سکوں ۔

--------------

(1):- پ 9 س 10 (انفال) آیت 41

(2):- پ 25س (شوری) آیت 23

(3):- پ س (نساء) آیت 59

(4):- پ س (آل عمران) آیت 7

(5):- کنزالعمال ج 1 ص 44 ۔مسند احمد ج 5 ص 188 پر حدیث ثقلین کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے ۔

(6):- مستدرک حاکم ج 3 ص 151 تلخیص الذہبی ،الصواعق المحرقہ ابن حجر ص 147 و 234

۱۰۱

اور اس سلسلہ میں ود چیزوں کو اپنا مرجع قراردیا ہے ۔

1:- بالکل سیدھا اور منطقی قاعدہ :- یعنی قرآن کی تفسیر اورسنت نبوی کے سلسلہ  میں صرف اسی بات پر اعتماد وبھروسہ کروں گا ۔جس پر دونوں فریقین (شیعہ وسنی )متفق ہوں ۔

2:- عقل :- خدانے انسان کو جو نعمتیں دی ہیں ان میں سب سے بڑی نعمت عقل ہے کیونکہ اسی عقل  کی وجہ سے انسان کو اپنی تمام مخلوقات سے افضل قراردیا ہے ۔آپ نے خود ہی دیکھا ہوگیا خدا جب اپنے بندوں  کے خلاف حجت لاتا ہے تو ان کو عقل کی دعوت دیتا ہے ۔"افلا یعقلون ،افلا یفقہون ، افلا یتدبرون ، افلا یبصرون  "وغیرہ وغیرہ ۔

میرا سلام یہ ہے کہ خدا اس کے ملائکہ " اس کی کتابوں اس کے رسولوں پر ایمان رکھتاہوں ۔اور گواہی دیتاہوں کہ محمد  اللہ کے رسول اور بندے ہیں ۔ اور خدا کا پسندیدہ دین صرف اسلام ہے ۔ اس سلسلہ میں کسی صحابی پر اعتماد نہیں کرتا چاہے اس کی رسو ل سے کتنی ہی قرابت ہو ۔ اور چاہے اس کی منزلت کتنی ہی بلند ہو ۔میں نہ اموی ہوں نہ عباسی ،نہ فاطمی ،نہ سنی ہوں نہ شیعہ مجھے نہ ابو بکر سے نہ عمر سے نہ عثمان  سے نہ علی سے نہ کسی اور سے عداوت ہے نہ دشمنی انتہا یہ ہے مسلمان ہونے کے بعد سے مجھے سیدنا حمزہ کے قاتل وحشی سے بھی کوئی دشمنی نہیں ہے کیونکہ اسلام سابقہ چیزوں کو ختم کردیتا ہے اور رسول اسلام نے وحشی کو معاف کردیا تھا ۔ میں تلاش حقیقت کے لئے اور اپنے تمام سابق خیالات کوچھوڑ کر خدا کے سہارے اس بحث "صحابہ کا موقف"کو شروع کرتا ہوں ۔

1:- صحابہ اور صلح حدیبیہ

اجمالی طور سے واقعہ یہ ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال رسول اللہ اپنے چودہ اصحاب کے ساتھ عمرہ کرنے کے ارادہ سے روانہ ہوئے لیکن آپ نے ہر ایک کو حکم دیدیا کہ تلواریں نیام میں رکھیں

۱۰۲

ذوالحلیفہ ۔۔۔مکہ سے قریب ایک جگہ ۔۔۔پہنچ کر آپ نے اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھا ،اونٹوں پر خون کے ٹھپے اور گلے میں جوتیوں کے ہار پہنا ئے تا کہ قریش کو یقین ہوجائے کہ آپ زائر بن کر صرف عمرہ کرنے آئے ہیں ۔جنگ کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن کہیں قریش کا غرور خاک میں نہ مل جائے اور عربوں میں یہ خبر نہ پھیل جائے کہ محمد نے زبردستی مکہ میں داخل ہوکر قریش کی شان وشوکت کا جنازہ نکال دیا ہے ۔غرور خاک میں ملا دیا ہے ، اس ڈر سے سہیل بن عمر و بن عبدود العامری کی سرکردگی میں محمد کے پاس ایک وفد بھیجا اور ان سے خواہش کی کہ آپ اس سال یوں ہی مدینہ واپس چلے جائیں ۔آیندہ سال ہم تین دن کے لئے مکہ کو حالی کردیں گے آپ اس وقت عمرہ بجا لائیں اور اسی کے ساتھ دیگر سخت وغیر منصفانہ شرطیں بھی رکھیں جن کو حسب وحی الہی رسول اللہ نے قبول فرمایا ۔

لیکن بعض اصحاب کو رسول خدا کا یہ اقدام ذرہ برابر آنکھوں نہ سبھایا اور انھوں نے بڑی شدت کے ساتھ مخالفت کی چنانچہ عمر بن خطاب نے رسول خدا کے پاس آتے ہی درشت لہجہ میں پوچھا ۔کیا تم نبی برحق نہیں ہو؟ آنحضرت نے فرمایا : ہوں عمر نے پھر کہا : کیا ہم لوگ حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟ آنحضرت نے فرمایا : یہ بھی صحیح ہے عمر نے کہا: پھر ہم اپنے دین کے بارے میں ایسی ذلت نہیں گوارا کرسکتے !آنحضرت نے کہا:- (سنو! ) میں خدا کا رسول ہوں میں خدا کی معصیت نہیں کرسکتا جب کہ وہی میرا مددگار ہے ۔عمر بولے :- کیا آپ ہم لوگوں سے نہیں کہا کرتے تھے کہ ہم عنقریب خانہ کعبہ جاکر اس کا طواف کریں گے ؟ رسول اللہ (ص) نےکہا:- لیکن کیا میں نے یہ کہا تھا کہ اسی سال مکہ آکر طواف کریں گے ؟ عمر بولے نہیں یہ تو نہیں کہا تھا اس پر رسول خدا (ص) نے فرمایا :- تم یقینا آؤگے اور طواف کروگے !

اس کے بعد عمر ابو بکر کے پاس آئے اور کہا : اے ابوبکر کیا یہ شخص واقعی خدا کا رسول نہیں ہے ؟ ابو بکر نے کہا :-ہاں واقعی رسول ہیں  ۔ پھر عمر نے وہی سوالات جو رسول خدا (ص) سے کئے تھے ابوبکر کے سامنے بھی دہرائے اورابو بکرنے وہی جوابات دیئے جو رسول  (ص) نے دیئے تھے ۔پھر کہا:- اےشخص یہ خدا

۱۰۳

کے رسول ہیں اور اپنے خدا کی معصیت نہیں کرسکتے اور خدا ان کا مددگار ہے ۔لہذا تم مضبوطی سے ان کا دامن پکڑ و جب رسول صلح کے معاہدہ سے فارغ ہوچکے تو اپنے اصحاب سے فرمایا : تم لوگ جاکر قربانی کرو اور سروں کو منڈاؤ (راوی کہتا ہے ) خدا کی قسم ان میں سے کوئی بھی نہیں اٹھا حالانکہ آپ نے تین مرتبہ حکم دیا ۔جب کسی نے آپ کی بات نہیں سنی تو آپ اٹھ کراپنے خیمہ میں چلے گئے پھر وہاں سے نکل کر کسی  سے کوئی بات کئے بغیر اپنی طرف سے اونٹ کو ذبح کیا ۔اور حجام کو بلا کر سرمنڈوایا جب اصحاب نے یہ دیکھا تو اٹھے قربانی کی ۔ اور ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے ۔یہاں تک کہ قریب تھا بعض بعض کو قتل کردیں گے(1) ۔

یہ صلح حدیبیہ کا مختصر واقعہ ہے جس پر شیعہ وسنی دونوں متفق ہیں اور اس کو مورخین اور اصحاب سیر نے لکھا ہے جیسے طبری ، ابن اثیر ، ابن سعد وغیرہ ،نے مثلا بخاری ومسلم نے بھی لکھا ہے ۔

مجھے یہاں پر توقف کرنا پڑتا ہے ۔کیونکہ میرے لئے محال ہے کہ میں ایسا کوئی واقعہ پڑھوں اور اس سے متاثر نہ ہوں اور نہ اس پر تعجب کروں کہ آخر یہ کیسے صحابہ تھے جو اپنے نبی کے سامنے ایسی جسارت کررہے تھے ۔ کیا اس واقعہ کےبعد دنیا کا کوئی باشعور آدمی یہ ماننے کے لئے تیار ہوگا ۔ کہ اصحاب رسول خدا کے ہر حکم کو بجالانے کے لئے دل وجان سے تیار رہتے تھے ۔؟ اور بجالاتے تھے ؟ یہ واقعہ ان کی پوری طرح تکذیب کرتا ہے اور ان کے جھوٹے دعووں کی قلعی کھول دیتا ہے کیا کوئی عقلمند اس بات کا تصور کرسکتا ہے کہ نبی کے سامنے ایسی جسارت معمولی بات ہے ؟ یا ایسی جسارت کرنے والے معذور ہیں ؟ یا ان کی جراءت قابل قبول ہے ؟ خود خدا وند عالم کا ارشاد ہے:" فلا وربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجر بینهم ثم لایجدوا فی انفسهم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلمیا (پ 5 س 4 (نساء) آیت 65)

--------------

(1):- اس واقعہ کو اصحاب سیروتاریخ کے علاوہ بخاری نے اپنی صحیح کے اندر کتاب الشروط فی الجہاد ج 2 ص 122 پر اور مسلم نے اپنی صحیح مین بات صلح حدیبیہ میں تحریر کیا ہے ۔

۱۰۴

ترجمہ :- (پس اے رسول) تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ اس وقت تک سچے مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے باہمی جھگڑوں میں تم کو اپنا حاکم نہ بنائیں (پھر یہی نہیں بلکہ ) جو کچھ تم فیصلہ کردو اس سے کسی طرح تنگدل بھی نہ ہوں ۔بلکہ خوش خوش اس کو مان لیں ۔۔۔۔۔ کیا عمر بن خطاب یہاں تسلیم ہوئے ؟اور رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کو تنگدل نہیں پایا ؟ یا حکم رسول میں ان کی تردد نہیں تھا ؟ خصوصا یہ کہنا :- کیا واقعی آپ خدا کے رسول نہیں ہیں ؟ کیا آپ ہم سے کہا نہیں کرتے تھے ؟ الخ اور پھر رسولخدا (ص) نےجو کافی وشافی جوابات دیئے کیا اس کو تسلیم کرلیا ؟ اس پر قانع ومطمئن ہوگئے ؟ ہرگز نہیں اگر مطمئن ہوگئے ہوتے  تو وہی سوالات ابو بکر سے جاکر نہ پوچھتے ؟ اور پھر کیا  ابوبکر کے جواب سے مطمئن ہوگئے ؟ تو بہ کیجئے خدا جانے اگر یہ رسول یا ابو بکر کے جواب سے مطمئن ہوگئے تھے تو پھر کیوں کہا کرتے تھے ؟ میں نے  اس کے لئے بہت سے اعمال کئے ! اب تو خدا اور اس کا رسول ہی جانتا ہے کہ عمر نے کیا کیا اعمال کئے ہیں ؟ اور پھر اس کے علاوہ باقی لوگوں نے کیوں نافرمانی کی ؟ جب رسول خدا نے تین تین مرتبہ کہا تم لوگ اٹھو قربانی کرو اور سرمنڈاو ! لیکن کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی رسول بار بار کہتے رہے مگر ہر آواز "صدا بصحرا "ثابت ہوئی "۔

سبحان اللہ! مجھے کسی طرح یقین نہیں آرہا تھا ۔کیا صحابہ کی بد تمیزی اورجسارت اس حد تک رسول کے ساتھ ہوسکتی ہے؟اگر یہ واقعہ صرف شیعہ کتابوں میں ہوتا  تو میں فورا کہہ دیتا یہ صحابہ کرام پر افترا ہے لیکن یہ تو ا تنا مشہور واقعہ ہے اور اتنا صحیح قصہ ہے کہ سنی شیعہ محدثین نے لکھا  ہے چونکہ میں طے کر چکا ہوں جس چیز پر سنی وشیعہ دونوں متفق ہوں گے اسی کو قبول کرو ں گا ۔ ان اصحاب کی طرف سے کونسا عذر تراشوں ؟ جو بعثت سے لے کر صلح حدیبیہ تک بیس سال رسول اللہ کے قریب رہے ہیں جنھوں نے معجزات ، وانوار نبوت اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ قرآن نے دن رات ان کو ادب سکھایا ہے کہ رسول کے ساتھ کیسا برتاؤ کریں ، کیسی گفتگو کریں ۔ یہاں تک کہ خدا نے دھمکی دے دی کہ اگر میرے رسول کی آواز پر آواز بلند کروگے تم تمہارے سارے اعمال اکارت کردوں گا ۔

۱۰۵

مجھے تو باربا یہ خیال آتا ہے کہ یہ عمر بن خطاب ہی تھے ۔ جنھوں نے تمام لوگوں کو ورغلا یا تھا نہ یہ جسارت کرتے اور نہ لوگوں کو جسارت ہوتی کہ حکم رسول کی سنی ان سنی کردیں ۔ خود ان کا تردد اور نافرمانی اور متعدد مواقع پر یہ کہنا کہ میں (اس فعل کی وجہ سے ) برابر نمازیں پڑھتا رہا ، روزے رکھتا رہا صدقے کرتارہا ، غلام آزاد کرتا رہا اپنے اس کلام کی وجہ سے جو میں نے ۔۔۔۔۔ اس سلسلہ میں پورا واقعہ ان سے منقول ہے (1) ۔ ہم کو خود اس بات کا یقین اس لئے ہوتا ہے کہ خود عمر کو بھی اس کا احساس تھا کہ یہ قصہ ویسے تو بہت عجیب وغریب ہے مگر حقیقت ہے

2:- اصحاب اور یوم خمیس (روز پنچشنبہ )

بطور اختصار اس قصہ کی حقیقت یہ ہے کہ رسول خدا کی وفات سے تین دن پہلے تمام اصحاب کرام آنحضرت کے گھر میں جمع تھے ۔آپ نے ان سے کہا میرے لئے کتف (2) ۔ (پوست یا ہڈی) اور دوات لے آؤ تاکہ تم لوگوں کے لئے ایک ایسی تحریر لکھ دوں جو تم کو گمراہی سے بچاسکے لیکن اصحاب میں پھوٹ پڑگئی بعض نے صریحی طور پر اظہار نافرمانی کرتے ہوئے آپ پر ہذیان کا الزام لگا یا رسول خدا کو بہت غصہ آیا ۔آپ نے بغیر کچھ لکھے ہوئے سب کو اپنے گھر سے نکال دیا ، لیجئے اس کی قصہ کی تفصیل پرھئیے

--------------

(1):- السیرۃ الحلبیہ بات صلح الحدیبیہ ج 2 ص 706

(2):- کتف درحقیقت انسان وحیوان کے کندھے میں ایک چوڑی ہڈی ہوتی ہے ۔کاغذ کی کمی کی بنا پر پہلے اسی پر لکھا جاتا تھا ۔ چنانچہ مجمع البحرین مادہ کتف میں ہے ۔عظم عریض یکون فی اصل کتف الحیوان من الناس والدواب کانوا یکتبون فیہ لقلۃ القراطیس عندھم ومنہ ایتونی بکتف ودواۃ اکتب کتابا " مترجم

۱۰۶

ابن عباس کہتے ہیں :- روزپنچشنبہ ! کیا روز پنچشنبہ  اسی دن رسول اللہ (ص) کا درد شدید ہوگیا تھا ۔ اور آپ نے فرمایا : لاؤ  تم لوگوں کے لئے ایک ایسی تحریر لکھ دوں جس سے تم لوگ بعد میں گمراہ نہ ہوسکو اس پر عمر نے کہا : رسول اللہ پر مرض کی شدت ہے تمہارے پاس قرآن موجود  ہی ہے ہمارے لئے بس اللہ کی کتاب کافی ہے (کسی مزید تحریر کی ضرورت نہیں ہے ) اس بات پر اس وقت کے موجود لوگوں میں اختلاف ہوگیا ۔ اور وہ لوگ آپس میں لڑ پڑے ۔کچھ یہ کہہ رہے تھے قلم ودوات دیدو تاکہ نبی ایسی تحریر لکھدیں جس سے بعد میں گمراہ نہ ہو ا جاسکے اور کچھ لوگ وہی کہہ رہے تھے جو عمر نےکہا تھا ۔جب رسول خدا کے پاس توتو میں میں  اور شور وغل زیادہ بڑھ گیا ۔ تو آپ نے فرمایا : میرے پاس سے چلے جاؤ  ۔ابن عباس کہا کرتے تھے : سب سے بڑی مصیبت وہی تھی کہ ان کے اختلاف وشوروغل نے رسول خدا کوکچھ لکھنے نہ دیا(1)

یہ حادثہ صحیح ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے اس کو شیعہ علماء اور ان کے محدثین نے اپنی کتابون میں اسی طرح نقل کیا ہاے جس طرح اہلسنت کے علماء ومحدثین ومورخین نے نقل کیا ہے ۔ اوریہی بات مجھے اپنے معاہدہ کے مطابق مان لینے پر مجبور کررہی ہے ۔یہاں پر حضرت عمر نے رسول اللہ کے ساتھ جو برتاؤ کیا ہے اس کو دیکھ کرمیں دنگ رہ جاتا ہوں ۔بھلا آپ سوچئے تو آخر معاملہ کیا ہے؟ امت کو گمراہی سے بچانے کا معاملہ ہے اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے کہ اس تحریر میں کوئی ایسی نئی بات ضرور ہوتی جس سے مسلمانوں کا تمام شک وشبہ دور ہوجاتا ۔

شیعوں کی اس بات کو جانے دیجئے کہ :- رسول اللہ خلافت کے لئے حضرت علی (ع) کا نام لکھنا چاہتے تھے ۔اور عمر نے اس بات کو تاڑلیا ۔لہذا انہوں نے تحریر نہیں لکھنے دی ۔۔۔۔ کیونکہ شاید شیعہ حضرات ہم کو اپنی بات سے مطمئن نہ کرسکیں ۔کیونکہ ہم تو شروع ہی سے اس کو نہیں مانتے لیکن اس

--------------

(1):- صحیح بخاری ج 2 باب قول المریض :قوموا عنی ۔ صحیح مسلم ج 5 ص 75 آخر کتاب الوصیہ ۔مسند امام احمد ج ا ص 355 وج 5 ص 116 ۔تاریخ طبری ج 3 ص 193 ، تاریخ ابن اثیر ج 2 ص 320

۱۰۷

تکلیف دہ  واقعہ کی جس نے رسول کو غضبناک کردیا ۔ یہاں تک کہ آپ نے سب کو اپنے گھر سے بھگا دیا ۔ اور ابن عباس اس کو سوچ سوچ کر اتنا روتے تھے کہ کنکریاں بھیگ جاتی تھیں ۔ کیا اہل سنت کوئی معقول تفسیر کرسکتے ہیں ؟ اور کیا اہل سنت کی اس تاویل  کو کوئی بیوقوف سے بیوقوف آدمی بھی تسلیم کرلے گا کہ عمر نے رسول خدا کے مرض کی شدت کا احساس کرلیا تھا ۔لہذا ان کو آنحضرت پر رحم آیا ۔اور منع کرنے سے مقصد یہ تھا کہ رسول کو آرام مل جائے "

علماء کے قبول کرنے کا سوال ہی نہیں ہوتا ۔ میں نے متعدد مرتبہ کوشش کی کہ حضرت عمر کے لئے کوئی عذر تلاش کرسکوں لیکن واقعہ اتنا سنگین ہے کہ کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہے ۔ بلکہ اگر معاذاللہ ہذیان کی جگہ شدت تکلیف " کی لفظ رکھ دی جائے جب بھی عمر کے اس قول کی کوئی معقول تاویل کا تلاش جوئے لانے سے کم نہیں ہے " کہ تمہارے پاس قرآن ہے اور ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے " کیا عمر رسول اللہ سے زیادہ جانتے تھے ؟ کہ رسول تو قرآن کے ہوتے ہوئے تحریر کی ضرورت تسلیم کرتے ہیں مگر عمر کے نزدیک اب تحریر کی ضرورت نہیں ہے ۔ یا پھر رسول کی ذہانت عمر کے مقابل میں صفر تھی؟ یا پھر حضرت عمر یہ کہہ کر لوگوں میں اختلاف وتفرقہ اندازی کرنا چاہتے تھے ۔ استغفراللہ ۔

اس کے علاوہ اگر اہل سنت کی تاویل صحیح مان لی جائے تو کیا رسول خدا پر عمر کی حسن نیت پوشیدہ تھی؟ اور اگر ایسا تھا تو رسول خدا  کو عمر کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا نہ ناراض ہو کر سب کو اپنے گھر سے بھگادیں؟

 کیا میں پوچھ سکتاہوں کہ جب رسول خدا نے سب کو اپنے گھر  سے نکال دیا تو لوگ چپ چاپ کیوں چلے آئے ؟ یہاں پر رسول کی فرمانبرداری کیوں کی ؟ یہ کیوں نہیں کہا کہ رسول ہذیان بک رہے ہیں ؟ وجہ بالکل واضح ہے کیونکہ رسولخدا کو تحریر نہ لکھنے پر ور غلا کراپنے مقصد میں کامیاب ہوچکے تھے ۔ اس لئے اب رسول کے گھر میں ٹھہرنے سے کوئی فائدہ تو تھا نہیں کیونکہ شوروغل کرکے اور اختلاف پیدا کرکے یہ اپنے مقصد کامیاب  میں کامیاب ہوچکے تھے ۔کچھ لوگ کہتے تھے رسول خدا کی مانگ پوری کردو تاکہ وہ تحریر لکھ دیں اور کچھ  لوگ وہی کہہ رہے تھے ۔جو عمر نے کہا تھا کہ رسول تو پاگل ہوچکے ہیں (معاذاللہ)

اور معاملہ اتنا سیدھا سادہ نہیں تھا جو صرف عمر کی ذات سے متعلق ہوتا کیونکہ اگر یہ ثابت ہوتی

۱۰۸

تو( شاید ) رسول خدا کو چپ کروائیے اور مطمئن کردیتے کہ میں وحی کے بغیر گفتگو نہیں کیا کرتا ۔اور ہدایت امت کے بارے میں (یعنی جو بات نبوت سے متعلق ہو اس میں ) تو ہذیان کا سوال ہی نہیں اٹھتا (ورنہ پورا دین قابل اطمینان نہ رہے گا مترجم)بلکہ مسئلہ کچھ اور تھا اور کافی لوگ اس پر پہلے ہی سے تیار تھے اسی لئے جان بوجھ کر رسول خدا کے حضور میں ہلڑ ہنگامہ مچایا  اور خدا کے اس فرمان کو بھول گئے یا جان کر بھلا دیا ۔ "یا ایها الذین آمنوا لا ترفعو اصواتکم  فوق صوت النبی ولا تجهروا له بالقول کجهر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لاتشعرون (پ 26 س 49 (الحجرات)آیه 2)

ترجمہ:- اے ایماندا رو!(بولنے میں) تم اپنی آواز یں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کیا کرو  اور جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے زور زور سے باتیں کرتے ہو ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہار کیا کرایا سب اکارت ہوجائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔

اور قلم وقرطاس کے قضیہ میں آواز اونچی کرنے کا مسئلہ نہیں ہے یہاں تو اس کے ساتھ ساتھ (العیاذ باللہ)آنحضرت پر ہذیان کا الزام بھی لگایا گیا ہے ۔ اور پھر اتنا شوروغل ہوا ہے کہ حضور کے سامنے تو تو ،میں میں ، کی نوبت آگئی ۔

میرا عقیدہ یہ ہے کہ اکثر یت عمر کے ساتھ تھی اس لئے رسول اللہ نے سوچا کہ اب تحریر لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ آنحضرت جانتے تھے کہ اب یہ لوگ نہ میری تحریر کا احترام کریں گے اور نہ ہی امتثال امر کریں گے اس لئے کہ جب یہ لوگ "رفع اصوات " کے سلسلہ میں خدا کی نافرمانی کررہے ہیں تو پھر میرے احکام کی کہاں سے اطاعت کریں گے ؟

حکمت رسول کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اب ان کے لئے کوئی تحریر نہ لکھیں کیونکہ جب ان کی زندگی میں اس کے بارے میں جھگڑا کررہے ہیں تو مرنے کے بعد کیا عمل کریں گے ۔ اور اعتراض کرنے والے کہیں گے ۔ یہ تو پاگل پن میں کہی ہوئی بات کو پاگل پنے میں لکھ ڈالا ہے اس کی کیا اہمیت ہے اور ہوسکتا ہے کہ مرض الموت میں جو احکام آپ نے نافذ فرمائے ہیں اس میں بھی لوگ شک کرنے لگیں ۔اس لئے اب نہ لکھنا بہتر ہے ۔

استغفراللہ ربی واتوب الیہ " رسول ارکرم کے سامنے اس قسم کی گفتگو پر میں تو بہ کرتا ہوں

۱۰۹

میری سمجھ میں نہیں آتا  کہ میں اپنے نفس کو کیسےمطمئن کروں آزادی ضمیر کا سودا کیسے کروں آخر میں اپنے کس طرح سمجھاوں کہ عمر کی یہ حرکت قابل عفو ہوسکتی  ہے جبکہ اصحاب اور جو حضرات اس وقت موجود تھے وہ اس واقعہ کو یاد کرکے اتنا رویا کرتے تھے کہ کنکریاں بھیگ جایا کرتی تھیں ۔ اور اس دن کو مسلمانوں  کی سب سے بڑی مصیبت کہا کرتے تھے ۔۔۔اسی لئے میں نے تمام تاویلات کو چھوڑ دیا اور میں نے تو چاہا تھا کہ اصل واقعہ ہی کا انکار کردوں اور اس کو جھٹلادوں لیکن صحاح نے نہ صرف یہ کہ اس کو لکھا ہے بلکہ تصحیح بھی کی ہے پھر میں کیا کرسکتاہوں ۔

میرا تو جی چاہتا ہے کہ اس واقعہ کے سلسلہ میں شیعوں کی رائے کو تسلیم کرلوں کیونکہ ان کی تعلیل منطقی ہے ۔ اور اس کے متعدد قرائن بھی ہیں مجھے اب تک یاد ہے کہ جب میں نے سید محمد باقر الصدر سے پوچھا آپ کے خیال کے مطابق حضرت رسول امام علی کی خلافت کے بارے میں تحریر کرنا چاہتے تھے آخر تمام صحابہ کے درمیان سیدنا عمر ہی نے اس بات کو کیوں کر سمجھ لیا یہ تو ان کی ذہانت کی دلیل ہے ؟

 اس پر سید صدر نےکہا : صرف عمر ہی نے مقصد رسول کو نہیں سمجھا تھابلکہ اکثر حاضرین نے وہی سمجھا جو عمر نے سمجھا تھا ۔ اس لئے کہ رسول خدا اس سے پہلے بھی فرما چکے تھے کہ میں تمہارے درمیان ثقلین چھوڑ کر جارہا ہوں ایک خدا کی کتاب دوسرے میری عترت واہلبیت جب تک تم لوگ ان دونوں سے تمسک رکھو گے میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے ۔ اب مرض الموت میں (تقریبا یہی) فرمایا : لاؤ ایک تحریر لکھ دوں تاکہ اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوسکو ۔ تو تمام حاضرین بزم اور انھیں میں عمر نے بھی یہی  سمجھا کہ رسول اللہ نے غدیر خم میں جو بات کہی تھی ۔ اسی کی تاکید  تحریری طو رپر کرنا چاہتے ہیں ۔ کہ تم لوگ کتاب خدا اور عترت سے تمسک کرو ۔ اور سید عترت حضرت علی تھے تو گویا دوسرے لفظوں میں اس طرح فرمایا : قرآن وعلی سے تمسک کرو اور اس قسم کی گفتگو دیگر مناسب موقع پر بھی فرماچکے تھے ۔ اور چونکہ قریش کی اکثریت حضرت علی کو ناپسند کرتی تھی ۔ ایک تو اس وجہ سے کہ آپ عمر میں چھوٹے تھے دوسرے اس وجہ سے کہ آپ نے ان کے تکبر کو خاک میں ملایا تھا ان کی ناک رگڑ دی تھی ان کے بہادروں

۱۱۰

کو تہہ تیغ کیا تھا ۔مگر اس کے باوجود یہ لوگ رسولخدا (ص) کے خلاف اتنی بڑی جسارت نہیں کرسکتے تھے جتنی صلح حدیبیہ کے موقع پر اور عبداللہ بن ابی منافق کی نماز جنازہ پڑھانے پر کرچکے تھے یا اس قسم کے دیگر مواقع پر اس کا اظہار کرچکے تھے جس کو تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ رکھا ہے ۔یہ واقعہ بھی انھیں قسم کے واقعات میں سے ہے " کہ اس میں بھی جسارت ہے مگر صلح حدیبیہ کے مقابلہ والی نہیں ہے ۔اور اس بد تمیزی  کا نتیجہ  یہ ہوا کہ بعض حاضرین نے بھی جسارت سے کام لینا شروع کردیا اور سی لئے آنحضرت کے پاس شوروغل ہوا ۔

عمر کی بات مقصود حدیث کی پوری مخالفت کررہی ہے کیونکہ یہ کہنا ۔تمہارے پاس قران ہے اور اللہ کی کتاب ہمارے لئے کافی ہے " صریحی طور سے اس حکم کی مخالفت ہے ۔جس میں کتاب خدا اور عترت رسول دونوں سے تمسک کو کہا گیا تھا عمر کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب بس ہے اور وہی ہمارے لئے کافی ہے ۔ہم کو عترت کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ۔۔اس کے علاوہ اس واقعہ کی اس سے بہتر کوئی معقول توجیہ نہیں ہوسکتی ۔ البتہ اگر کسی کا مطلب صرف اطاعت خدا ہو اطاعت رسول نہ ہو تو اس کی بات الگ ہے ۔مگر یہ بھی غلط ہے اور غیر معقول ہے ۔

میں اگر اندھی تقلید چھوڑ دوں اور جانب داری سے کام نہ لوں اورعقل سلیم وفکر آزاد کو حاکم قراردوں تو اسی تو جیہ کو قبول کرونگا ۔کیونکہ  یہ بات اس سے کہیں زیادہ آسان ہے کہ عمر پر یہ اتہام لگا یا جائے کہ عمر پہلے وہ شخص ہیں جنھوں نے حسبنا کتاب اللہ " کہہ کر سنت نبوی کو چھوڑا ہے ۔

اور اگر کوئی حاکم سنت نبوی کو یہ کہہ کر چھوڑ دے کہ اس میں تناقضات بہت ہیں تو اس کو مجرم نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس نے تو مسلمانوں کی تاریخ میں گزرے ہوئے واقعات کی پیروی ہے اس کے علاوہ اس حادثہ اور امت مسلمہ کی ہدایت سے محرومی کاذمہ دار میں صرف عمر ہی کو نہیں مانتا بلکہ اسکے تمام وہ صحابہ جو عمر کے موافق تھے اور جنھوں نے حکم رسول کی مخالفت کی تھی سب ہی ذمہ دار ہیں اور برابر کے شریک ہیں ۔

مجھے ان لوگوں پر بہت تعجب ہوتا ہے جو اس عظیم حادثہ کو پڑھ کر گزر جاتے ہیں جیسے کچھ ہو اہی

۱۱۱

نہ ہو حالانکہ بقول ابن عباس کے سب سے بڑی مصیبت یہی تھی ۔اور اس سے بھی زیادہ ان لوگوں پر تعجب ہوتاہے جو صحابی کے بچانے میں ایڑی چوٹی کا زورلگادیتے ہیں ۔ اوراس کی غلطی کو صحیح ثابت کرنے کے درپہ رہتے ہیں ۔ چاہے اسلام ورسول اسلام کی بے حرمتی وغلطی ثابت ہوجائے مگر صحابی کی عصمت محفوظ رہے ۔

آخر ہو کو حقیقت سے فرار کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر حق ہماری خواہشات کے مطابق نہیں ہے تو اس کو ملیامٹ کرنے کی کیوں کوشش کرتے ہیں ؟ آخر ہو کیوں نہ تسلیم کرلیں کہ صحابہ ہماری ہی طرح کے انسان تھے ان کے یہاں بھی خواہشات ۔میلانات ۔اغراض کا جود ایسے ہی تھا جیسے ہمارے یہاں ہوتا ہے وہ بھی غلطی کرتے ہیں جیسے ہم سے غلطی ہوتی ہے ۔

ہمارا تعجب اس وقت دور ہوجاتا ہے جب ہم قرآن میں گزشتہ انبیاء کے قصے پڑھتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے معجزات دیکھنے  کے باوجود ان کے قوم قبیلہ والے ان کی دشمنی سے بازنہیں آتے :ربنا لاتزغ قلوبنا بعد اذ هدیتنا وهب لنا من لدنک رحمة انک انت الوهاب"

اور اب میں شیعوں کے موقف کو سمجھنے لگا کہ واقعہ قرطاس کے بعد مسلمانوں کی زندگی میں ہونے والے بہت سے ناقابل برداشت واقعات کی ذمہ داری کیوں خلیفہ ثانی کے سرتھوپتے ہیں ۔ کیونکہ انھیں کی وجہ سے امت مسلمہ اس کتاب ہدایت سے محروم ہوگئی جس کو رسول اپنے مرض الموت میں لکھنا چاہتے  تھے اور مجھے یہ اعتراف کرلینے میں کوئی باک نہیں ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے کہ جو عقلمند حق کے ذریعہ لوگوں کو پہچانتا ہے وہ اصحاب کے لئے عذر تلاش کرنے کی کوشش کریگا ۔ لیکن جو لوگ لوگوں کے ذریعہ حق کوپہچاننے کے عادی ہیں ہم ان سے گفتگو بھی نہیں کرنا چاہتے ۔

۱۱۲

3:- اصحاب اور لشکر اسامہ

اس کا اجمالی قصہ یہ ہے کہ آنحضرت نے اپنے انتقال سے صرف دو دن پہلے روم سے جنگ کرنے کے لئے ایک لشکر تیار کیا اور اس کا سردار اسامہ بن زید حارثہ کو بنایا ۔ اسامہ کی عمر اس وقت 18 سال تھی اور اسامہ کی ماتحتی میں بڑے بڑے انصار اور مہاجرین کو قراردیا ۔ جیسے ابوبکر ، عمر ، ابو عبیدہ  ۔ظاہر ہے کہ اس پر لوگوں کو اعتراض ہونا چاہیے تھا ۔ اور کچھ لوگوں نے اعتراض  بھی کیا کہ ہمارے اوپر ایسے نوجوان کو کیونکر سردار بنایا جاسکتا ہے جس کے چہرے پر ابھی ڈاڑھی بھی نہیں ہے اور یہ وہی لوگ تھے جنھوں نے اس سے پہلے اسامہ کے باپ زید کی سرداری پر اعتراض کیا تھا ۔ اسامہ کے بارے میں ان لوگوں نے ضرورت سے زیادہ نقد وتبصرہ کیا تھا ۔ یہاں تک کہ آنحضرت کو شدید غصہ آگیا تھا ۔ آپ دوآدمیوں کا سہارا لے کر اس طرح نکلے تھے کہ آپ کے قدم زمین پر خط دیتے ہوئے جارہے تھے ۔بیماری کی وجہ سے آپ بہت خستہ تھے (میرے ماں باپ حضور پر فدا ہوجائیں) آتے ہی آپ منبر پرگئے حمد وثنا ئے الہی کے بعد فرمایا :

"ایھا الناس" ! یہ کیا بات ہے جو اسامہ کی سرداری کےبارے میں میں سن رہا ہوں ۔اگر تم میری اس بات پر اعتراض کررہے ہو کہ میں نے اسامہ کو کیوں لشکر کا سردار بنایا ۔(تویہ کوئی نئی بات نہیں ) تو اس سے پہلے میرے اوپر زید کو سردار بنانے میں اعتراض کرچکے ہو ۔خدا کی قسم زید سرداری کا مستحق تھا اور اس کا بیٹا (اسامہ) بھی اس کے بعد سرداری وامارت کا لائق وسزاوار ہے(1) ۔

--------------

(1)::- طبقاب ابن سعد ج 2 ص 190 ۔تاریخ ابن اثیر ج 2 ص 210 ۔السیرۃ الحلبیہ ج 3 ص 207 ۔طبری ج 3 ص 226

۱۱۳

اس کے بعد آپ نے لوگوں کو جلدی کوچ کرنے کے لئے آمادہ کرنا شروع کردیا کبھی فرماتے"جهزوا جیش اسامة " اسامہ کے لشکر کو تیار کرو اور جاؤ ! کبھی فرماتے"انفذوا جیش اسامة " اسامہ کے لشکر کو (جلدی) روانہ کرو ۔کبھی فرماتے :ارسلوا بعث اسامۃ " اسامہ کے ساتھ لوگوں کو (جلدی ) بھیجو! ان جملوں کی باربار تکرار کرتے رہے ۔لیکن ہر مرتبہ لوگ ٹال مٹول کرتے رہے اور مدینہ کے کنا رے جاکر پڑاؤ ڈال دیا ۔ مگر یہ لوگ جانے والے نہیں تھے ۔

اس قسم کی بات مجھے یہ پوچھنے پر مجبور کرتی ہے :آخر رسول  (ص) کے ساتھ اتنی بڑی جسارت کی ہمت کیسے ہوئی؟ وہ رسول اکرم  جو مومنین کے لئے رؤفورح یم ہے ۔اس کے حق میں یہ کیسی نافرمانی ؟ میں تو کیا کوئی بھی آدمی اس سرکشی وجراءت کی معقول تاویل نہیں کرسکتا ۔

میں نے خدا کے حضور میں عہد کیا ہے کہ انصاف سےکام لوں گا اپنے مذہب کے لئے تعصب نہ برتوں گا ۔ اور ناحق اس کے لئے کسی وزن کا قائل نہیں ہوں گا ۔اور جیسا کہ کہا جاتا ہے یہاں پر حق تلخ ہے اور آنحضرت نے فرمایا بھی ہے : حق بات کہو چاہے  وہ تمہارے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اور حق بات کہو چاہے وہ تلخ ہی کیوں نہ ہو۔اور اس واقعہ میں حق بات یہ ہے کہ جن صحابہ نے بھی اسامہ کو سردار بنائے جانے پر آنحضرت پر اعتراض کیا تھا انھوں نے حکم الہی کی مخالفت کے ساتھ ان صریح نصوص کی مخالفت کی ہے جو نہ قابل شک ہیں اور نہ قابل تاویل ۔اورنہ ہی اس سلسلہ میں کوئی عذر پیش کیا جاسکتا ہے ۔سوائے اس "عذر بارد" کے جو کرامت امت صحابہ اور سلف صالح کے نام پر بعض حضرات نے پیش کیا ہے لیکن کوئی بھی عاقل وآزاد اس قسم کے اعذار کو  قبول نہیں کرسکتا ۔ ہاں جن کو حدیث فہمی کا شعور نہ وہ یا عقل سے پیدل ہوں یا مذہبی تعصب نے ان کو اس حد تک اندھا بنادیا ہو کہ جو واجب الاطاعت فرض واور واجب الترک نہیں میں فرق نہ کرسکتے ہوں ۔ان کی بات الگ ہے ۔میں نے بہت کوشش کی

۱۱۴

کہ کوئی عذر ان صحابہ کے لئے تلاش کرسکوں لیکن میری عقل میں کوئی ایسی بات نہیں آئی ۔ البتہ اہل سنت نے ان اصحاب کے لئے یہ عذر تلاش کیا ہے : وہ لوگ مشایخ قریش اور بزرگان قریش میں سے تھے سابق الاسلام تھے اور اسامہ ایک الہڑ نوجوان تھے ۔عزت اسلام کی فیصلہ کن جنگوں میں سے کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے ۔ جیسے بد ر،احد ، حنین وغیرہ اور نہ ہی کسی قسم کی سابقیت تھی بلکہ رسول خدا نے ان کو لشکر کا سردار بنایا تھا  تو یہ بہت ہی کم سن تھے ۔ اور انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ جب بوڑھے ، بزرگ  حضرات موجود ہوں تو لوگ جوانوں کی اطاعت پر تیار نہیں ہوتے اسی لئے اصحاب نے پیغمبر اسلام پر اعتراض کیا تھا ۔تاکہ اسامہ کی جگہ پر کسی بزرگ صحابی کو سرداری مرحمت فرادیں ۔۔۔۔ لیکن اس عذر کا مدرک نہ کوئی دلیل عقلی ہے ۔اور نہ شرعی اور نہ  کوئی اس بات کو مان سکتا ہے جس نے قرآن پڑھا ہو اور اس کے احکام کو سمجھاہو کیونکہ قرآن کا اعلان ہے:

"وما آتاکم الرسول فخذوه وما نهاکم عنه فانتهواه (پ 28 س 59 (الحشر) آیت 7)

ترجمہ:- رسول جو حکم دیں اس کو لے لو (مان لو) اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ  "۔ دوسری جگہ ارشاد ہے :-" وما کان لمومن ولامومنة اذا قضی الله ورسوله امر ان یکون لهم الخیرة من امرهم ومن یعص الله ورسوله فقد ضل ضلا مبینا (پ 23 س 33 (الاحزاب )ایت 36)

ترجمہ:- نہ کسی مومن کو اور نہ کسی مومنہ کویہ حق ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کیس کام کا حکم دیں تو ان کو اپنے اس کام ( کے کرنے نہ کرنے)کا اختیار ہوا ور (یاد رہے کہ جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ یقینا کھلم کھلا گمراہی میں مبتلا ہوچکا ۔ان نصوص صریحہ کے بعد بھلا کون سا عذر باقی ہے جس کو عقلا قبول کرسکیں ؟ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ یمں ان لوگوں کے بارے یمں کہوں جنھوں نے رسول اللہ  کو غضبناک کیا ۔ اور وہ جانتے تھے کہ رسول کی ناراضگی  سے خدا ناراض ہوجاتا ہے ۔ رسو ل پر ہذیان کا الزام لگا یا ان کے سامنے تھے کہ تو تو ، میں میں ، شوروغل ،اختلاف کا مظاہرہ کیا ۔ جب کہ آپ مریض بھی تھے ۔انتہا یہ ہوگئی کہ خلق عظیم پر فائز پیغمبر نے ان لوگوں کو اپنے کمرے سے نکال دیا ۔کیا یہ سب باتیں کم ہیں ؟ اور بجائے اس کے یہ

۱۱۵

لوگ ہدایت کی طرف پلٹتے اور خدا سے اپنے افعال پر توبہ واستغفار کرتے اور تعلیم قرآن کے مطابق رسول کی خدمت میں عرض کرتے کہ حضور ہمارے لئۓ استغفار فرمادیں ۔ یہ سب کرنے کے بجائے "مٹی اور گیلی کردی" یہ ہمارے یہاں کا عوامی محارہ ہے ۔مزید سرکشی کی اور جوان پررؤف ورحیم تھا ۔ اسی سے جسارت کی اس کے حق کا پاس ولحاظ بھی نہ کیا ۔ نہ اسکا  احترام کیا ۔ بلکہ ہذیان کی نسبت کا زخم ابھی مندمل بھی نہیں ہو پایا تھا ۔کہ ٹھیک دودن کے بعد اسامہ کی سرداری پر اعتراض کر بیٹھے اور آنحضرت کو مجبور کردیا کہ دوآدمیوں کے سہارے گھر سے نکل کرآگئے ۔شدت مرض کیوجہ سے قدم اٹھ نہیں رہے تھے آتے ہی منبر پر جاکر قسم کھا کر یقین دلایا کہ اسامہ سرداری کے لائق ہے اور اسی کے ساتھ رسول (ص) نے ہم کو یہ بھی بتا دیا کہ یہ وہی لوگ ہیں ۔جنھوں نے زید کی سرداری پر بھی اعتراض کیا تھا ۔ آپ ہم کو تعلیم دے رہے تھے کہ یہ پہلا سابقہ نہیں ہے متعدد مواقع پر یہ لوگ ایسا کرچکے ہیں اور یہ لوگ ان میں سے نہیں ہیں کہ جو خدا اور رسول کے فیصلہ کے بعد تنگی نہیں محسوس کرتے اور سرتسلیم خم کرلیا کرتے ہیں ۔ بلکہ یہ دشمنوں میں اور ان مخالفوں میں ہیں جو نقد ومعارضہ اپنا حق سمجھتے ہیں چاہے اس سے خدا ورسول کی مخالفت ہی لازم آتی ہو۔

ان کی صریح نافرمانی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے رسول کے غصہ کو دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ آنحضرت نے اپنے ہاتھوں سے علم باندھا اور لوگو کو عجلت سے راونگی کا حکم دیا ۔لیکن پھر بھی یہ لوگ ٹال مٹول کرتے رہے اور نہ جانا تھا نہ گئے ۔ یہاں تک کہ آنحضرت کی شہادت ہوجاتی ہے اور اپ اپنے دل میں یہ داغ لے کرگئے کہ میری امت نافرمان ہے اور اس احساس کے ساتھ دنیا سے سدھارے کہ کہیں یہ لوگ الٹے پیر پھر نہ پلٹ جائیں اور جھنم کے کندے نہ بن جائیں او ر ان میں سے تھوڑے ہی نجات پانے والے ہیں ۔

اگر ہم اس قصہ کو گہری نظر سے دیکھیں تو ہم کو معلوم ہوجائے گا کہ اس کے روح رواں خلیفہ ثانی تھے ۔کیونکہ یہی حضرت وفات حضرت رسول کے بعد ابو بکر کے پاس آئے اور کہنے لگے اسامہ کو ہٹا کر کسی دوسرے کو سردار بنادو اس پر ابو بکر نے کہا: اے خطاب کے بچے تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے ! تو مجھے مشورہ

۱۱۶

دیتا ہے کہ جس کو رسول سردار بناگئے تھے میں اس کو معزول کردوں ؟(1) ۔

آخر عمر نے اس بات کو کیوں نہ سمجھا جس کو ابو بکر نے سمجھ لیا ؟ یا اس میں کوئی اور راز ہے جو مورخین سے پوشیدہ رہ گیا ہے ؟ یا خود مورخین نے عمر کی عزت وآبرو کو بچانے کے لئے ان کا نام چھپا لیا ہے؟ جیسا کہ ان مورخین کی عادت ہے اور جیسا کہ (انھوں نے (یھجر) کی لفظ کو بدل کر"غلبة الوجع " کی لفظ رکھ دی ہے ۔

مجھے  ان صحابہ پر تعجب ہے جنھوں نے پنچشنبہ کے دن رسول کو ناراض کیا اور ہذیان کی نسبت دی ۔اور حسبنا کتاب اللہ کہا ۔ حالانکہ قرآن کہتا ہے: قل ان کنتم تحبون الله فاتبعوانی یحببکم الله" ترجمہ:- اے رسول ان سے کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو (تو ) خدا تم کو دوست رکھے گا ۔

گویا یہ اصحاب کتاب خدا کو اس سے زیادہ جانتے تھے۔ جس پر یہ کتاب نازل ہوئی تھی ۔واقعہ قرطاس کے صرف دو دن بعد اور وفات  سے صرف دودن پہلے رسول کو غضبناک کردیتے ہیں ۔ اور اسامہ کو سردار بنانے پر اعتراض کرنے لگتے ہیں ۔رسول کی اطاعت نہیں کرتے  ۔اگر واقعہ قرطاس میں آپ مریض تھے بستر پر پڑے تھے ۔ تو دوسرے میں مجبور کردیا کہ سر پر عصا بہ باندھے دوآدمیوں پر ٹیک لگا کر اس طرح چلتے ہوئے آئے کہ آنحضرت کے پیر زمین پر خط دیتے جاتے تھے ۔آتے ہی منبر پر جاکر مکمل خطبہ دیا جس میں حمد وثنا ئے الہی فرمائی تاکہ ان لوگوں کو بتادیں میں ہذیان نہیں بکتا ۔ پھر ان کو بتایا کہ تمہارا اعتراض مجھے معلوم ہے ۔پھر اس قصہ کا ذکر کیا جو چار سال پہلے پیش آیاتھا کیا اس پوری گفتگو کےبعد بھی کوئی عقیدہ رکھ سکتا ہے کہ آپ ہذیان بک رہے ہیں ۔یا بیماری کا غلبہ ہے کہ آپ کو احساس ہی نہیں ہے کہ کیا فرما رہے ہیں ؟

سبحانک اللھم وبحمدک : یہ لوگ کتنے جری ہوگئے تھے کہ کبھی رسول کو معاہدہ صلح کو جسے آپ نے مضبوطی سے باندھا تھا "

--------------

(1):- الطبقات الکبری ابن سعد ج 2 ص 190 ۔تاریخ الطبری ج 3 ص 226

۱۱۷

اس کی یہ لوگ زبردست مخالفت کررہے ہیں کبھی رسول قربانی وسرمنڈاونے کا حکم دے رہے ہیں اور یہ لوگ شدت کے ساتھ مخالفت کررہے ہیں ۔ایک مرتبہ نہیں تین مرتبہ حکم دیا مگر کسی نے لبیک نہیں کہا ۔ اور رسول سے کہہ رہے ہیں : خدا نے آپ کو منافقین پر نماز پڑھنے سے روکا ہے اے خدا ! گویا یہ لوگ تیرے رسول کو وہ چیزیں تعلیم دے رہے ہیں جو تو اپنے ر سول پر نازل کرچکا ہے حالانکہ تو نے اپنے قرآن میں کہا ہے " وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیهم (پ 14 س 16 (النمل )آیه 44)

ترجمہ:- اورتمہارے پاس قرآن  کیا ہے تاکہ جواحکام لوگوں کے لئے نازل کئے گئے ہیں تم ان سے صاف صاف بیان کردو۔

اور تو ہی نے فرمایا:- انا انزلنا الیک الکتاب با لحق لتحکم بین الناس بما اراک الله( پ 5 س 4(نساء)آیت 105) ترجمہ:- اے رسول ہم نے آپ پر بر حق کتاب اسلئے نازل کی ہے کہ جس طرح خدا نے تمہاری ہدایت کی ہے اسی طرح لوگوں کے درمیان فیصلہ کردو ۔ اور معبود تونے ہی فرمایا ہے اور تیرا قول حق ہے ۔ : کما ارسلنا الیکم رسولا منکم یتلوا علیکم ایاتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتاب والحکمة ویعلمکم ما لم تکونوا تعلمون(پ 2 س2 (البقرة ) آیت 151)

ترجمہ:-جیسا کہ ہم نے تمہارے درمیان تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے اور تمہارےنفس کو پاکیزہ کرے اور تمہیں کتاب (قرآن ) اور عقل کی باتیں سکھائے اور تم کو وہ باتیں بتائے جن کی تمہیں (پہلے سے ) خبر بھی نہ تھی ۔

کتنا تعجب ہے ان لوگوں پر جو اپنے کو اونچا سمجھتے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود تو حکم رسول کا امتثال نہیں کرتے کبھی رسول پر ہذیان کا اتہام لگاتے ہیں ۔اور بہت ہی بے شرمی وبے ادبی کے ساتھ ان کی موجودگی میں لڑتے جھگڑتے ہیں ۔ شوروغل کرتے ہیں ۔ اور کبھی زید بن حارثہ کی سرداری پر اعتراض کرتے ہیں اور تو کبھی اسامہ بن زید کی سرداری پر لعن وطعن کرتے ہیں ۔ ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے کسی بھی جویائے حقیقت کے لئے یہ فیصلہ کر لینا بہت آسان ہے کہ حق شیعوں کے ساتھ ہے کیونکہ جب وہ لوگ

۱۱۸

علامات استفہام لگا لگا کراصحاب کے کرتوتوں کےبارے میں ایک ایک کرکے سوال کرتے ہیں اور ان کے احترام پر ناک بھول چڑھاتے ہیں اور وہ اپنی محبت ومودت کو صرف رسول وآل رسول کے لئے مخصوص کرتے ہیں تو ہم ان کا جواب نہیں دے پاتے ۔

میں نے تو اختصار کے لئے صرف چار پانچ مقامات مخالفت کے دکھائے ہیں اور محض بعنوان مثال ۔لیکن علمائے شیعہ نے ان تمام مقامات کا احصاء کیا ہے جہاں پر صحابہ نے نصوص صریحہ کی مخالفت کی ہے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ انھوں نے صرف انھیں چیزوں کو پیش کیا ہے جس کو علمائے اہل سنت نے اپنی صحاح ومسانید میں درج کیا ہے ۔

خود میں جب بعض واقعات کا مطالعہ کرتا ہوں کہ بعض اصحاب نے رسو ل خدا کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا تھا ۔ تو متحیر ومدہوش ہوجاتا ہوں ۔صرف ان اصحاب کی جسارت  وبدتمیزی پر ہی نہیں بلکہ عمائے اہلسنت  والجماعت کے اس رویہ پر اور زیادہ تعجب کرتاہوں جنھوں نے ہمیشہ عوام کو اس دھوکہ میں رکھا کہ اصحاب برابر حق پر ثابت قدم رہے تھے ان کے بارے میں کسی بھی قسم  کا نقد وتبصرہ حرام وگناہ ہے ان لوگوں نے اپنے اس اقدام کی وجہ سے طالب حق کو کبھی حقیقت تک پہونچنے ہی نہیں دیا وہ ہمیشہ  فکری تناقضات کے بھنور میں چکر کھاتا رہا ۔میں گذشتہ واقعات کے علاوہ بعض اور مثالیں پیش کرتاہوں جس سے صحابہ کی حقیقت عریاں ہوکر سامنے آجائے گی اسطرح شیعوں کا موقف سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔

صحیح بخاری ج 4 ص 47 کےکتاب الادب با ب :الصبر علی الاذی ار قول خدا انما یوفی الصابرون اجرهم " کے سلسلہ میں ہے اعمش کہتے ہیں ۔ میں نے شقیق کو کہتے ہوئے سنا کر عبداللہ کہہ رہے تھے ۔رسول خدا نے ایک قسم ایسی کھائی جیسے لوگ کھایا کرتے ہیں ۔ تو ایک انصاری  نے کہا : واللہ یہ قسم خدا کے لئے  نہیں ہے ۔ میں نے کہا اس بات کو رسول  خدا سے ذکر کروں گا ۔ چنانچہ میں آنحضرت کے پاس اس وقت پہونچا ۔جب آپ اپنے اصحاب کے جمگھٹے میں تھے ۔میں نے آپ کے کان میں یہ بات کہی تو آپ کوبہت ناگوار ہوا چہرہ کارنگ بدل گیا اورآپ غضب میں بھر گئے آپ کی حالت

۱۱۹

دیکھ کر میں نے اپنے دل میں کہا کاش میں نے آنحضرت کو خبر ہی نہ دی ہوتی ۔ اس کےبعد آنحضرت نے فرمایا ۔موسی کو اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی تھی ہی کہہ کر آپ نے صبرفرمایا ۔۔۔ اسی طرح بخاری کے کتاب الادب باب التبسم والضحک میں ہے : انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں رسول خدا کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ کے اوپر ایک نجرانی چادر تھی جس کے کنارے موٹے تھے اتنے میں ایک بد عرب ملا اور اس نے بہت زور سے نبی کی چادر پکڑ کر گھیسٹا میں نے دیکھا کہ زور سے کھینچنے کی وجہ سے رسول اللہ کے کندھوں کے کناروں پر اس کا نشان پڑگیا تھا ۔چادر کھینچ کر بدو نےکہا : اے محمد خدا کا مال جو تمہارے پاس ہے اس میں سے مجھے بھی دینے کا حکم دو ۔ رسول اس کی طرف مڑکر ہنسنے لگے ۔ اور حکم دیا ا س کو کچھ دیے دیا جائے ۔

اسی طرح کتاب الادب میں بخاری نے باب:من لم یواجه الناس بالعتاب " میں ایک روایت حضرت عائشہ سے نقل کی ہے فرماتی ہیں : رسول اللہ نے خود کوئی چیز بنائی اور لوگوں کو استعمال کی اجازت دے دی  لیکن کچھ لوگوں نے اس کے استعمال  سے اعراض کیا ۔ اور رسول کو اس کی اطلاع ہوگئی تو آپ نے ایک خطبہ دیا جس میں حمد وثنا ئے الہی کے بعد فرمایا : آخر لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جس کو میں نے بنایا ہے اس سے پرہیز کرتے ہیں واللہ میں خدا کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں اور سب سے زیادہ ڈرتا ہوں ۔

جو شخص بھی اس روایت کو غور سے پڑھے گا ۔ وہ خود سمجھ لے گا کہ اصحاب اپنے رسول سے اونچا خیال کرتے تھے ان کا عقیدہ تھا کہ رسول تو غلطی کرسکتے ہیں مگر خطا نہیں کرسکتے ۔ بلکہ اسی چیز نے بعض مورخین کو اس بات پر امادہ کیا کہ وہ صحابہ کے ہر فعل کو صحیح سمجھتے ہیں چاہیے وہ افعال فعل رسول کے مخالف ہی ہوں ۔اور بعض صحابہ کے بارے میں کھلم کھلا یہ اظہار کرتے ہیں کہ ان کا علم وتقوی رسول اللہ سے کہیں زیادہ تھا ۔جیسا کہ (تقریبا) مورخین کا اجماع کہے کہ بد ر کے قیدیوں کے بارے میں رسول خدا (ص) نے غلطی کی تھی ۔ اور عمر کی رائے بالکل صحیح تھی ۔ اور اس سلسلہ میں جھوٹی روایتیں نقل کرتے ہیں ۔مثلا آنحضرت نے فرمایا :- اگر خدا ہم کو کسی مصیبت میں مبتلا کردے تو اس سے

۱۲۰