پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا 15%

پھر میں ہدایت پاگیا مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 253

پھر میں ہدایت پاگیا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 253 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79985 / ڈاؤنلوڈ: 7850
سائز سائز سائز
پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

(۳)

صحابہ کے بارے میں صحابہ کے نظریات

۱:- سنت رسول کے بدلنے پر خود صحابہ کی گواہی

جناب اوب سعید خدری کا بیان ہے :جناب رسو ل خدا نماز عید الفطر یا عیدالاضحی کے لئےجب بھی نکلتے تھے تو پہلے نماز پڑھاتے تھے پھر ان لوگوں کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجاتے تھے اورلوگ بیٹھے ہی رہتے تھے ۔ اور وعظ ونصیحت فرماتے تھے ۔امرونہی کرتے تھے ۔ اگر کسی بحث کو قطع کرنا چاہتے تھے یا کسی چیز کے لئے حکم دینا چاہتے تھے تو حکم دیتے تھے پھر واپس تشریف لاتے تھے ۔ابو سعید کہتے ہیں یہی صورت آنحضرت کے بعد بھی رہی لیکن ایک مرتبہ جب مروان مدینہ کا گورنرتھا میں بھی اس کے ساتھ عیدالاضحی یا عیدالفطر کی نماز کے لئے چلا جب ہم لوگ مصلی (نماز پڑھنے کی جگہ) پر پہونچے تو دیکھا کہ کثیرین صلت نے ایک منبر بنا رکھا ہے اور مروان نماز سے پہلے ممبر پر جانا چاہتا تھا کہ میں نے اس کا کپڑا پکڑ کر کھینچا لیکن اس نے کھینچ کراپنے کو چھڑا لیا اور منبر پر جاکر نماز سے پہلے خطبہ دیا ۔میں نے مروان سے کہا ۔ خدا کی قسم  تم    (طریقہ   رسول کو) بدل دیا مروان  نے کہا :- ابو سعید  جو تم جانتے ہو وہ دور چلا گیا ۔ میں نے کہا ۔  خدا کی قسم جو میں جانتا ہوں  وہ اس سے بہتر ہے جو نہیں جانتا ۔اس پر مروان نے کہا ۔نماز کے بعد لوگ  ہمارے لئے بٹیھے رہیں گے اس لئے میں نے خطبہ کو مقدم کردیا(۱) ۔

میں نے ان اسباب کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی جس کی بنا پر انصار سنت رسول کو بدل دیا کرتے

--------------

(۱):- صحیح بخاری ج ۱ ص ۱۲۲ کتاب العیدین باب الخروج الی المصلی بغیر منبر

۱۴۱

تھے آخر میں اس نتجہ پر پہونچا کہ تمام اموی حضرات جن میں اکثریت صحابہ رسول کی تھی اور ان سب (اموی حضرات) کے راس ورئیس معاویہ بن ابی سفیان تھے جن کو اہل سنت والجماعت کا تب وحی کہتے ہیں ۔لوگوں کو آمادہ ہی نہیں بلکہ مجبور کیا کرتے تھے کہ لوگ تمام مسجدوں  کے منبروں سے حضرت علی ابن ابی طالب پر لعن اور سب وشتم کیا کریں جیسا کہ مورخین نے لکھا بھی ہے ار صحیح مسلم میں باب فضائل علی ابن ابی طالب میں ایسا ہی لکھا ہے اور معاویہ نے اپنے تمام گورنروں کو یہ احکام جاری کر دئیے تھے علی پر لعنت کرنے کو ہر خطیب اپنے منبر سے اپنا فریضہ قرار دے لئے اور جب صحابہ نے اس کو ناپسند کیا تو معاویہ نے ان کو قتل کرنے اور ان کے گھر بار کو جلانے کا حکم دیدیا ۔مشہور ترین صحابی جنا ب حجر بن عدی اون ان اصحاب کو معاویہ نے صرف اس جرم میں قتل کرادیا ۔ اور بعضوں کوزندہ دفن کرادیا کہ انھوں نے حضرت علی پر لعنت کرنے سے انکار کردیا تھا ۔

مولانا مودودی اپنی کتاب "خلافت وملوکیت " میں حسن بصری کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں ۔ چار باتیں معاویہ میں ایسی تھیں  کہ اگر ان میں سے ایک بھی ہوتی تو معاویہ کی ہلاکت کے لئے کافی ہوتی ۔اور وہ یہ ہیں ۔

۱:- صحابہ کے ہوتے ہوئے کسی سے مشورہ کئے بغیر حکومت پر قبضہ کرنا ۔

۲:- اپنے بعد شرابی کبابی بیٹے یزید کو خلیفہ نامزد کرنا جو ریشمی لباس پہنتا اور طنبور بجایا کرتا تھا ۔

۳:- زیاد کو اپنا بھائی قراردے دینا ۔حالانکہ رسول کی حدیث ہے "الولد للفراش وللعاھر الجھر "( لڑکا شوہر کا ہے زانی کے لئے پتھر ہے )۔

۴:- حجر واصحاب حجر کو قتل کرنا ۔ وائے ہو معاویہ پر حجر کے قتل پر وائے ہو وائے معاویہ پر حجر واصحاب حجر کے قتل کرنے پر(۱) ۔

بعض ایماندار صحابہ نماز کے بعد مسجد سے فورا چلے جاتے تھے تاکہ ان کو وہ خطبہ نہ سننا پڑے جو علی واہلبیت کی لعنت پر ختم ہوتا تھا جب بنی امیہ کو اس کا احساس ہوا کہ لوگ نماز کے بعداسی لئے

--------------

(۱):- خلافت وملوکیت ص ۱۰۶

۱۴۲

چلے جاتے ہیں تو انھون نے سنت رسول کو بدل دیا اور خطبہ کو نماز کے مقدم کردیا تاکہ لوگ مجبورا سنیں ۔ اسی طرح پورا ایک دوران صحابہ کو گزر گیا جو اپنے ذلیل وپست مقاصد کے لئے ۔اپنے چھپے ہوئے کینہ کا بدلہ لینے کے لئے سنت رسول تو درکنار احکام الہی کو بدل دیا کرتے تھے اور ایسے شخص پر لعنت بھیجتے تھے جس کو خدا نے پاک وپاکیزہ قرار دیا ہے جس پر درود وسلام اسی طرح واجب قرار دیا ہے جس طرح اپنے رسول پر جس کی محبت ومودت اس نے اور اس کے رسول نے واجب قراردیا ہے ۔ نبی اکرم فرماتے ہیں ۔ علی کی محبت ایمان اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے(۱) ۔

لیکن یہ صحابہ سنت رسول بدلتے رہے ۔اس میں تغیر وتبدل کرتے رہے اور زبان حال سے کہتے رہے ۔ہم نے آپ کی بات سنی وار نافرمانی کی ۔علی سے محبت کرنے ان پر درود بھیجنے اور ان کی اطاعت کرنے کے بجائے ساٹھ(۶۰) سال تک ان پر سب و شتم کرتے رہے ۔منبروں سے لعنت کرتے رہے ۔ اگر موسی کرے اصحاب نے مشورہ کرکے ہاروں کو قتل کردینا چاہا تھا تو اصحاب محمد نے محمد کے ہارون کو قتل کردیا ۔اس کی اولاد کو اس کے شیعوں کو پتھروں کے نیچے  سے نکال نکال کر قتل کیا ،ان کو دیس نکالادیا دفتروں سے ان کے نام کاٹ دیئے گئے ۔ لوگوں پر بندی لگادی گئی کہ ان کے نام پر نام نہ رکھیں ۔ اتنے ہی اکتفا نہیں کیا ۔ ان سے خلوص رکھنے والے صحابہ کو مجبور کرکرے ان پر لعنت کرائی ۔اور ظلم وجور سے قتل بھی کیا ۔

خدا کی قسم جب میں اپنی صحاح کو پڑھتاہوں اور اس میں یہ پڑھتا ہوں کہ رسول اکرم اپنے بھائی اور ابن عم علی سے بہت محبت کرتے تھے، علی کو تمام صحابہ پر مقدم کرتے تھے ۔ علی کے بارے میں فرمایا اے علی تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہارون کو موسی سے تھی فرق اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا(۲) -

--------------

(۱):-صحیح مسلم ج ۱ ص ۶۱

(۲):- صحیح بخاری ج ۲ ص ۳۰۵ صحیح مسلم ج ۲ ص ۳۶۰ :مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۱۰۹

۱۴۳

اور علی سے فرمایا :- اے علی تم مجھ سے ہو میں تم سے ہوں(۱) ۔ ایک جگہ فرمایا "- علی کی محبت ایمان اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے(۲) ۔ ایک اور جگہ فرمایا :- میں شہر علم ہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں(۳) ۔ ایک جگہ اور فرمایا :- میرے بعد علی ہر مومن کے ولی (آقا ومولی) ہیں(۴) ۔ ایک اور جگہ فرمایا  : جس کا میں مولی ہوں اس کے علی مولی ہیں ۔خدا وند جو علی کو دوست رکھے تو بھی اس کو دوست رکھ اورجو علی کو دشمن رکھے تو بھی اس کو دشمن رکھ" ۔۔۔۔ تو مبہوت ومتحیر رہ جاتا ہوں اور اگر میں صرف ان فضائل کو ذکر کروں جن کو نبی نے علی کے لئے فرمایا  ہے اور ہمارے علماء ن ےان کو صحیح سمجھ کر ارو صحیح ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا  ہے تو اس کے لئے مستقل ایک کتاب کی ضرورت ہے پھر آپ تھوڑی دیر کے لئے سوچئے کہ کیا صحابہ ان تمام نصوص سے جاہل تھے ؟ اور اگر جانتے تھے تو منبروں سے کیونکر لعنت کرتے تھے ؟ اورکیوں علی وآل علی کے دشمن تھے ؟ اور کیسے ان سے جنگ کرتے تھے اور قتل کر تے تھے ۔؟

میں بلا وجہ ان لوگو کے لئے مجوز  تلاش کرتا ہوں ۔سوائے حب دنیا ،طلب دنیا ،نفاق ،ارتداد ،الٹے پاؤں جاہلیت کی طرف پلٹ جانے کے اور کوئی معقول توجیہ ہو ہی نہیں سکتی کہ یہ لوگ کیوں سنت نبی کو بل دیئے   تھے ۔ اسی طرح میری یہ کوشش بھی رائگان ہوگئی کہ میں اس الزام کو معمولی اصحاب کے سرتھوپ کر اور منافقین کے سرمنڈھ کر اکابر وافاضل صحابہ کو بچالےجاؤ ں لیکن بڑے افسوس کے ساتھ مجھے اس کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ یہ سب کا رستانیاں انھیں حضرات کی تھیں کیونکہ سب سے پہلے بیت فاطمہ کو تمام ان لوگوں سمیت جو اس  میں ہیں جلادینے کی دھمکی عمربن الخطاب ہی نے دی تھی اور سب سے پہلے جنھوں نے علی سے جنگ کی ہے وہ

--------------

(۱):-صحیح بخاری ج ۲ ص ۷۶ ،صحیح ترمذی ج ۵ ص ۳۰۰  سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۴۴

(۲):- صحیح مسلم جن ۱ص ۶۱ ،سنن النسائی ج ۶ ص ۱۱۷ صحیح ترمذی ج ۸ص۳۰۶

(۳):- صحیح ترمذی ج۵ص ۲۰۱ مستدرک الحاکم ج۳ ص۱۲۶

(۴):- مسند امام احمد ج۵ ص۲۵ ،مستدرک الحاکم ج۲ ص۱۲۴، صحیح ترمذی ج۵ص۲۹۶

(۵):-صحیح مسلم ج ۲ ۳۶۲ ، مستدرک الحاکم ج۳ ص۱۰۹ ،مسندامام احمد ج۴ ص۲۸۱

۱۴۴

طلحہ وزبیر ، ام المومنین عائشہ بنت ابو بکر ،معاویہ بن ابو سفیان ، عمرو عاص وغیرہ کے ہی لوگ تھے ۔

مجھے سب سے زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ آخر علمائے اہل سنت والجماعت نے کس طرح تمام صحابہ کے عادل ہونے پر اجماع کرلیا ہے اور سب ہی کے آگے رضی اللہ عنہ کا دم چھلّہ لگاتے ہیں بلکہ سب ہی پر بغیر استثناء کے درود وسلام بھیجتے ہیں اور بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا " العن یزید ولا تزید " (صرف یزید پر لعنت کرو باقی سب کو چھوڑو) بھلا ان بدعتوں سے یزید کو کیا واسطہ ہے جن کو نہ عقل تسلیم کرتی ہے نہ دین قبول کرتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں میرا تعجب ختم ہونے والا نہیں ہے اور ہر آزاد فکر ومفکر وعاقل شخص میرا ساتھ دے گا ۔

میں اہلسنت والجماعت سے خواہش کرتاہوں کہ اگر وہ واقعا سنت رسول کے پیرو ہیں ۔ تو قرآن وسنت نےجس کے فسق وارتداد وکفر کا حکم دیا ہے وہ بھی انصاف کے ساتھ اس کے فسق وارتداد کا حکم دیں ۔ کیونکہ رسول اعظم نے فرمایا ہے ۔ جس نے علی پر سب وشتم کیا اس نے مجھ پر سب وشتم کیا اور جس نے مجھ پر سب وشتم کیا ، اس نے خدا پر سب وشتم کیا اور جس نے خدا پر سب وشتم کیا خدا اس کو منہ کے بھل جہنم میں ڈال دے گا(۱) ۔

یہ تو اس شخص کی سزا ہے جو حضرت علی پر سب وشتم کرے اب آپ خود فیصلہ کیجئے جو حضرت علی پر لعنت کرے ان سے قتال ومحاربہ کرے اس کا کیا حشر ہوگا ؟ آخر علمائے اہل سنت ان حقائق سے کیوں غافل ہیں ؟ کیا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں؟رب اعوذ بک من همزات الشیاطین واعوذ بک رب ان یحضرون"

--------------

(۱):- مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۱۲۱ ۔خصائص نسائی ص ۲۴ ، مسند امام احمد ج ۶ ص ۳۳ ،مناقب خوارزمی ص ۸۱ ، الریاض النفرۃ ، طبری ج ۲ ص ۲۱۹ ،تاریخ سیوطی ص ۷۳

۱۴۵

۲:- صحابہ نے نماز تک بدل دی

انس بن مالک کا بیان ہے : مرسل اعظم (ص) کے زمانہ میں جو چیزیں رائج تھیں ان میں سب سے پہلی چیز  نماز ہے جن میں نے نہیں پہچان سکا  ۔ انس کہتے ہیں ۔ جن چیزوں کو تم لوگوں نے ضائع کردیا کیا اس میں سے نماز نہیں کہ کہ جس  تم نے ضائع کردیا ہے ، زہری کہتے ہیں :- دمشق میں انس بن مالک کے پاس گیا تو دیکھا وہ رو رہے ہیں ! میں نے پوچھا آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ کہنے لگے : اپنی زندگی میں میں نے اسی نماز کی معرفت حاصل کی تھی اور وہ بھی برباد کردی گئی(۱) ۔

کسی صاحب کو یہ شبہ نہ ہوجائے کہ مسلمانوں کی آپسی جنگوں اور فتنوں کے بعد تابعین نے تبدیلی کی ہے ۔ اس لئے میں یہ بتادیناچاہتا ہوں کہ سنت رسول میں جس نے سب سے پہلے تبدیلی کی ہے وہ مسلمانوں کے خلیفہ عثمان بن عفان اور ام المومنین عائشہ ہیں ۔ چنانچہ بخاری ومسلم  دونوں میں ہے : منی میں مرسل اعظم(ص) نے دورکعت نماز پڑھی تھی ۔ آپ کے بعد ابو بکر اور ان کے بعد عمر بھی دو ہی رکعت پڑھتے رہے اور خو عثمان بھی اپنی خلافت کے ابتدائی ادوار میں دو ہی رکعت پڑھتے رہے پھر اس کے بعد چار رکعت پڑھنے لگے(۲) ۔ صحیح مسلم میں یہ بھی ہے : زہری کہتے ہیں : میں نے عروہ سے پوچھا کیا بات ہے عائشہ سفر میں بھی چاررکعت پرھتی ہیں ؟ انھوں نے عثمان کی طرح تاویل کر لی ہے(۳) ۔

حضرت عمر بھی سنن نبویہ کی نصوص صریحہ کے مقابلہ میں اجتھاد کرتے تھے اور تاویل کرتے تھے بلکہ وہ تو قرآن مجید کے نصوص صریحہ کے مقابلہ میں بھی اپنی رائے کے مطابق حکم دیتے تھے ۔ مثلا عمر کا مشہور مقولہ ہے : دومتعہ(متعۃ النساء اور متعۃ الحج) رسول خدا کے زمانہ میں رائج تھے ۔ لیکن میں ان سے روکتاہوں

--------------

(۱):- صحیح بخاری ج ۱ ص ۷۴

(۲):- بخاری ج ۲ ص ۱۵۴ ،مسلم ج ۱ ص ۲۶۰

(۳):- مسلم ج ۲ ص ۱۴۳ کتاب صلواۃ المسافرین

۱۴۶

اور (اگر کوئی میری مخالفت کرے گا ) تو اس کو سزا دوگا ۔ اسی طرح حضرت عمر نے اس صحابی کو نماز پڑھنے سے روگ دیا جو رات کو مجنب ہوگیا تھا ۔ اور غسل کے لئے پانی اس کو نہیں ملا تھا ۔ حالانکہ قرآن کا حکم ہے :" فان لم تجدوا ماءا فتیمموا صعیدا طیبا " اگر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی پر تیمم کر لیا کرو ۔۔۔۔۔ مگر نماز کو نہ چھوڑو ،

بخاری نے (اگر مجنب  کو اپنی ذات کے لئے خطرہ  ہو) کے باب میں روایت کی ہے کہ راوی کہتا ہے: میں نے شقیق بن سلمہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے : ایک مرتبہ میں عبداللہ اور ابو موسی کے پاس تھا کہ ابو موسی نے کہا : اے ابا عبدالرحمان اگر کوئی مجنب ہوجائے اور غسل کے لئے پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے ؟ عبداللہ (ابا عبدالرحمان ) نے کہا جب تک پانی نہ ملے نماز تر ک کردے ۔ اس پر ابو موسی نے کہا پھر عمار کے قول کو کیا کروگے کہ آنحضرت نے فرمایا تھا: عمار بس یہ کافی ہے ۔عبداللہ نے کہا: مگر عمر اس بات سے مطمئن نہیں ہوپائے تھے اس پر ابو موسی نے کہا: خیر عمار کے قول کو جانے دو اس آیۃ(ان لم تجدوا الخ) کے بارے میں کیا کہوگے ؟ یہ با ت سن کر  عبداللہ کوئی جواب  تو نہیں دے سکے  مگر اتنا کہا : اگر پانی نہ ملنے کی صورت میں ہم تیمم کی اجازت دیدیں تو خطرہ یہ ہے کہ اگر کسی کو سردی محسوس ہورہی ہے تو وہ بھی پانی چھوڑ کر تیمم کرلیا کرے گا اس پر میں نے شقیق سے کہا : تو پھر اسی وجہ سے عبداللہ نے کراہت کی تھی ؟ کہا :- ہاں !(۱) ۔

۳:- صحابہ کی اپنے خلاف گواہی

انس بن مالک کہتے ہیں : رسول اکرم نے انصار سے فرمایا :- میرے بعد تم لوگ زبردست مالداری دیکھو گے ۔مگر اس پر اس وقت تک صبر کرنا جب تک حوض (کوثر) پر خدا اور اس کے رسول سے ملاقات نہ کرلو ۔انس کہتے ہیں لیکن ہم لوگ صبر نہ کرپائے (۲) ۔

--------------

(۱):- بخاری ج ۱ ص ۵۴

(۲):- بخاری ج ۲ ص ۱۲۵

۱۴۷

۱۴۸

     أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (٦٢) الَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ (٦٣) لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَياةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ لاَ تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (٦٤)(پ ۱۱ س ۱۰(یونس (آیت ۶۲،۶۳،۶۴)

ترجمہ:- آگاہ رہو  اس میں کئی شک نہیں کہ دوستان خدا پر (قیامت میں )نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ وہ آزردہ خاطر ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (خدا سے )ڈرتے تھے ان ہی لوگوں کیلئے دنیوی زندگی میں (بھی) اور آخرت میں (بھی ) خوشخبری ہے خدا کی باتوں میں ادل بدل نہیں ہوا کرتا یہی تو بڑی کامیابی ہے ۔"

دوسری جگہ ارشاد فرما تا ہے    إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ (٣٠) نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (٣١) نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ (٣٢) (پ ۲۴ س ۴۱ (فصلت) آیت ۳۰، ۳۲،۳۱)

صدق اللہ ع العلی العظیم

ترجمہ:-جن لوگوں نے (سچے دل سے )کہا کہ ہمارا پروردگار تو (بس )خدا ہے پھر وہ اسی پر قائم رہے ان پر موت کے وقت (رحمت کے)فرشتے نازل ہوں گے (اور کہیں گے ) کہ کچھ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور جس بہشت کا تم سے وعدہ کیاگیا تھا ۔ اس کی خوشیاں مناؤ ، ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اورآخرت میں بھی (رفیق ) ہیں ۔ اور جس چیز کو بھی تمہارا جی چاہے بہشت میں تمہارے واسطے موجود ہے اور جو چیز کروگے وہاں تمہارے لئے حاضر ہوگی (یہ)بخشنے والے مہربان (خدا ) کی طرف سے (تمہاری )مہمانی ہے ۔

اب آپ فیصلہ کیجئے خدا کے اس وعدے کے بعد ابوبکر وعمر کی تمنا یہ کیوں ہے کہ کاش بشر نہ ہوتے ؟ حالانکہ خدا نے بشر کو اپنی مخلوقات پر فضیلت دی ہے اور جب عام مومن جو اپنی زندگی سیدھی طرح سے گزارنا ہے تو مرتے وقت اس پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور اس کو جنت میں اس کی خوشخبری دیتے

۱۴۹

ہیں ۔اور وہ پھر نہ عذاب سے ڈرتا ہے اور نہ جوکچھ دنیا  میں اپنے پیچھے چھوڑ آیا ہے اس پر رنجیدہ ہوتا ہے آخرت کی زندگی سے پہلے ہی اس کو زندگا نی دنیا ہی میں بشارت دیدی  جاتی ہے تو پھر ان بزرگ صحابہ کو کیا ہوگیا ہے جو رسول کے بعد خیر خلق ہیں ( جیسا کہ ہم کو بچپنے سے یہی تعلیم دی جاتی ہے) کہ یہ تمنا کرتے ہیں : کا ش ہم پاخانہ ہوتے ، ہم مینگنی ہوتے ، بال ہوتے ، بھوسا ہوتے (سب کچھ ہوتے مگر انسان نہ ہوتے )اگر ملائکہ نے ان کو بشارت  جنت دے دی ہوتی تو یہ عذاب خدا سے بچنے کے لئے زمین پر واقع ہونے والے پہاڑ وں کے برابر سونا راہ خدا میں صدقہ دے کر عذاب خدا سے بچنے کی تمنا نہ کرتے ۔

ایک اور جگہ ارشاد خدا ہے"    وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الأَرْضِ لاَفْتَدَتْ بِهِ وَأَسَرُّواْ النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُاْ الْعَذَابَ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ " (۱) ۔

ترجمہ:- اور (دنیا) جس جس نے (ہماری نافرمانی کرکے) ظلم کیا ہے(قیامت کے دن) اگر تمام خزانے جو زمین میں ہیں اسے مل جائیں تو اپنےگناہ کے بدلہ ضرور فدیہ دے نکلے  اور جب وہ لوگ عذاب کو دیکھیں گے تو اظہار ندامت کریں گے اور ان میں باہم انصاف کے ساتھ حکم کیا جائےگا اور ان پر (ذرہ برابر )ظلم نہ کیا جائےگا ۔

ایک دوسری جہ ارشاد ہوتا ہے:" وَلَوْ أَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ مِن سُوءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَبَدَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ   وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُون " (۲) ۔

ترجمہ:- اور اگر نافرمانوں کے پاس روئے زمین کی پوری کا ئنات مل جائے بلکہ اس کے ساتھ اتنی ہی اور بھی ہوتو قیامت کے دن یہ لوگ یقینا سخت عذاب کا فدیہ دے نکلیں (اور اپنا چھٹکارا کرانا چاہیں ) اور(اس وقت) ان کے سامنے خدا کی طرف سے وہ بات پیش آئےگی جس کا انھیں وہم وگمان بھی نہ تھا اور جو بد کردار یاں ان لوگوں نے کی تھیں (وہ سب ) ان کے سامنے کھل جائیں گی اور جس (عذاب )پر یہ لوگ قہقہے لگاتے تھے وہ انھیں گھیرلے گا ۔

--------------

(۱):- (پ ۱۱ س۱۰ (یونس )آیت ۵۴

(۲):- پ ۲۴س ۲۹(زمر) آیت ، ۴۷،۴۸

۱۵۰

میں نے اپنے پورے دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہوں کہ یہ آیتیں صحابہ کبار جیسے ابو بکر وعمر کو شامل نہ ہوں لیکن جب ان نصوص کو پڑھتاہوں  تو ان اصحاب کے رسو ل اللہ سے زبردست قسم کے تعلقات اور پھر ان روابط کے باوجود آنحضرت  (ص) کے احکام سے انحراف اور انتہا یہ ہے کہ آنحضرت کے آخری عمر میں ان کی ایسی نافرمانی جس سے حضور کو غصہ آجائے اور ان لوگوں کو اپنے گھر سے باہر نکال دیں ۔ ان (دونوں ) کو سوچتا ہوں تو بہت دیر تک مجھ پر سکوت طاری ہوجاتا ہے اور میری نظروں کے سامنے فلم کی طرح وہ تمام واقعات یکے بعد دیگرے آنے لگتے ہیں جو رسول خدا کے بعد پیش آئے جیسے ان کی لخت جگر فاطمہ زہرا کو ان لوگوں نے اذیت دی ان کی توہین کی حالانکہ خود حضور فرماگئے تھے ۔ فاطمہ میرے دل کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا(۱) ۔

جناب فاطمہ نے ابو بکر وعمر سے فرمایا :-

میں  تم دونوں کو خدا کی قسم دیتی ہوں کیا تم نے رسولخدا(ص) کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا ؟ فاطمہ کی خوشنودی میری خوشنودی ہے اور فاطمہ کی ناراضگی میری ناراضگی ہے جس نے میری بیٹی فاطمہ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے فاطمہ کو راضی رکھا ،اور جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا دونوں نے کہا: ہاں ! ہم نے رسول اللہ سے سنا ہے تب جناب فاطمہ نے فرمایا : میں خدا اور اس کے ملائکہ کو گواہ بناتی  ہوں کہ تم دونوں نے مجھے ناراض کیا اور مجھے راضی نہیں کیا اور جب میں رسول خدا سے ملاقات کروں گی تو تم  دونوں کی ضرور شکایت کروں گی(۲) ۔

خیر اس روایت کو چھوڑئیے جس سے دل زخمی ہوجاتے ہیں ۔ ابن قتیبہ جو علمائے اہل سنت میں سے تھے اور بہت سے فنون میں بے مثال تھے ۔ تفسیر  ،حدیث ،لغت نحو ، تاریخ وغیرہ  میں ان کی بہت ہی اہم تالیفات ہوسکتا ہے یہ بھی شیعہ رہے ہوں کیونکہ ایک مرتبہ  ایک شخص  کو میں نے تاریخ الخلفاء

--------------

(۱):- بخاری ج ۲ ص ۲۰۶ باب مناقب قرابۃ رسول اللہ

(۲):- فدک فی التاریخ ص ۹۲

۱۵۱

دکھائی تو اس نے بر جستہ کہا: یہ تو شیعہ تھے ، اورہمارے علماء جب کسی سوال  کا جواب نہیں دے پاتے تو ان کے پاس آخری حیلہ یہی رہتا ہے کہ اس کتاب کا مصنف شیعہ ہے چنانچہ ان کے نزدیک طبری شیعہ ہے ، امام نسائی ۔۔۔جنھوں نے حضرت علی کے خصائص میں کتاب لکھی ۔۔۔شیعہ تھے ، ابن قتیبہ بھی شیعہ تھے ، موجودہ ڈاکٹر طہ حسین مصری نے جب اپنی شہرہ افاق کتاب "الفتنۃ الکبری " لکھی  اور اس میں حدیث غدیر کا ذکر کیا اور دیگر حقائق کا اعتراف کیا تو یہ بھی شیعہ ہوگئے ۔

واقعہ یہ کہ ان میں کوئی بھی شیعہ نہیں تھا ۔لیکن ہمارے علماء کی عادت ہے جب کبھی شیعوں کاذکر کرتے ہیں ۔ تو ان کو شیعوں میں کوئی اچھائی نہیں نظر آتی صرف برائی کا تذکرہ کرتے ہیں ۔اور اپنا سارا زور علمی صحابہ کی عدالت پر صرف کرتے ہیں ،اور کسی نہ کسی طرح ان کو عادل ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں ۔

لیکن اگر کسی نے حضرت علی کے فضائل کا ذکر کردیا وار یہ اعتراف کر لیا کہ بڑے بڑے صحابہ سے بھی غلطی ہوئی ہے تو فورا اس پر تشیع کا الزام لگادیتے ہیں ۔ صرف اتنی سی بات کافی ہے کہ اگر آپ کسی کے سامنے نبی کریم کاذکر کرکے صلی اللہ علیہ وآلہ کہہ دیجئے یا حضرت علی کا نام لے کر علیہ السلام کہہ دیجئے تو وہ فورا کہہ دے گا تم شیعہ ہو ۔اسی بنیاد پر ایک دن میں اپنے ایک (سنی ) عالم سے بات کرتے ہوئے بولا : آپ کی رائے بخاری کے بارے میں کیا ہے ؟ فرمایا: ارے وہ تو ائمہ حدیث میں سے ہیں ان کی کتاب قرآن کےبعد سب سے زیادہ صحیح ہے اور اس پر ہمارے تمام علماء کا اجماع ہے ، میں نے کہا ، وہ تو شیعہ تھے ۔ تو اس پر وہ عالم میرا مذاق اڑانے کے انداز میں  بہت زور سے ٹھٹھا مار کے ہنسے  اور بولے : حاشا کلا، بھلا امام بخاری شیعہ ہوں گے ؟ میں نے عرض کیا  ابھی آپ نے فرمایا کہ حضرت علی کا نام لے کر علیہ السلام کہے وہ شیعہ ہے ۔ بولے ہاں ! ہاں یہ تو واقعہ ہے ! تب میں نے ان کو اور ان کے ساتھ جو لوگ تھے سب کو بخاری میں متعدد مقامات دکھائے جہاں حضرت علی کے بعد علیہ السلام اور حضرت فاطمہ کے بعد علیھا السلام اور حسن وحسین ابن علی کے بعد علیھما السلام لکھا تھا(۱)

--------------

(۱):- بخاری ج ۱ ص ۱۲۷ ،۱۳۰ اور ج ۲ ص ۱۲۶،۲۰۵

۱۵۲

تو یہ دیکھ کر مبہوت ہوگئے ،اور چپ ہوگئے کوئی جواب نہ دے سکے ۔

اب میں پھر اسی روایت کی طرف آتا ہوں جس میں ابن قتیبہ لے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ ابو بکر و عمر پر بہت غضبناک تھیں ۔ ہوسکتا ہے آپ کو شک ہو ۔لیکن میں کم از کم بخاری کے بارے میں شک نہیں کرسکتا جو ہمارے یہاں قرآن کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب ہے اور ہم نے اپنے لئے لازم قرار دے لیا ہے یہ واقعا صحیح  ہے اور شیعوں کو حق ہے کہ اس کتاب سے ہم کو ملزم قرار دیں جس طرح خود ہم نے اپنے کو ملزم قراردے لیا ہے اور عقلمند لوگوں کے لئے انصاف کا طریقہ بھی یہی ہے لیجئے بخاری کا باب مناقب قرابۃ رسول اللہ مطالعہ فرمائیے  اس میں ہے : فاطمہ میرے دل کا ایک ٹکڑا  ہے جس نے فاطمہ کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا ۔ اور باب غزوہ  ، خیبر میں ہے عائشہ بیان کرتی ہیں فاطمہ بنت النبی (علیھا السلام) نے ابو بکر کے پاس آدمی بھیجا کہ رسول خدا کی میراث مجھے دو ۔لیکن ابو بکر نے اس میں سے ایک حبہ بھی دینے سے انکار کردیا ۔تو فاطمہ اس وجہ سے غضبناک  ہوگئیں ۔ اور ان کا بائیکاٹ کردیا ۔ مرتے دم تک ان سے بات نہیں کی ۔۔۔۔۔۔

دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے  بخاری نے اس واقعہ کو اختصار کے ساتھ اور ابن قتیبہ نے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے اور دونوں کا نتیجہ یہ ہے : رسول اللہ فاطمہ کی ناراضگی سے ناراض ہوتے تھے اور فاطمہ کی خوشی سے خوش ہوتے تھے اور فاطمہ مرگییں  مگر ابو بکر  سے راضی نہیں ہوئیں ۔۔۔۔۔

اب اگر بخاری یہ کہتےہیں : فاطمہ ابو بکر پر ناراضگی کے عالم میں مری ہیں اور مرنے دم تک بات نہیں کی تو اس کا بھی مطلب وہی ہے جو ابن قتیبہ نے لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور بقول جناب بخاری ۔۔۔"؛ کتاب الاستئذان باب  من ناجی بین الناس۔۔۔۔۔ جب فاطمہ تمام دنیا کی عورتوں کی سردار ہیں اور پوری امت مسلمہ میں اکیلی وہ عورت ہیں جو آیت تطہیر کی رو سے معصومہ ہیں تو ان کا غضبناک ہونا کسی ناحق بات پر تو ہو ہی نہیں سکتا ۔اسی لئے خدا اور رسول فاطمہ کے غضبناک ہونے سے غضبناک ہوجاتے ہیں اور اسی لئے ابو بکر نے بھی کہا تھا : اے فاطمہ میں خدا اورآپ کی ناراضگی سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ۔ یہ کہہ کر ابو بکر باآواز بلند رونے لگے  اور قریب تھا کہ ان کی روح جسم سے مفارقت کرجائے مگر فاطمہ یہی کہتی رہیں ۔ خدا کی قسم میں ہر نماز کے

۱۵۳

بعد تم دونوں کے لئے بد دعا کرتی رہوں گی ۔ اس واقعہ کے بعد ابو بکر روتے ہوئے نکلے اور کہتے جاتے تھے " مجھے تمہاری بیعت کی ضرورت نہیں ہے ۔ مجھ سے اپنی (اپنی )بیعت توڑ دو(۱) ۔

 ویسے تم ہمارے بہت سے مورخین وعلماء نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عطیہ ،میراث ،سہم القرباء کے سلسلے میں جناب فاطمہ (س)  نے ابو بکر سے نزاع کی لیکن  ابو بکر  نے آپ کا دعوی رد کردیا اور آپ مرتے دم تک ابو بکر سے ناراض رہیں ۔ ۔۔۔ لیکن یہ حضرات اس قسم کے واقعات کو پڑھ کر اس طرح گزر جاتے ہیں ۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اور اس قسم کے واقعات پر جن سے قریب سے یا دور سے صحابہ کی بزرگی پر دھبہ آتا ہو" اپنی حسب عادت زبان ہی نہیں کھولتے ۔۔۔۔ اس سلسلہ میں سب سے عجیب بات میں نے ایک بزرگوار کی پڑھی جو واقعہ کو ذرا تفصیل  سے تحریر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : میں نہیں تسلیم کرسکتا کہ جناب فاطمہ نے ناحق چیز کا مطالبہ کیا ہو جیسے کہ میں یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ ابو بکر نے فاطمہ کے جائز  حق کو روک دیا ہو۔۔۔۔۔۔ اس سفسطہ سے اس عالم کو شاید یہ خیال پیدا ہوا ہو کہ اس نے مسئلہ کو حل کردیا اور بحث کرنے والوں کو قانع کردیا ۔ حالانکہ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی کہے : میں تسلیم نہیں کرسکتا کہ قرآن ناحق بات کہے  جیسے کہ میں یہ بات تسلیم نہیں کرسکتا  کہ بنی اسرائیل  نے گوسالہ پرستی کی ہو ۔۔۔۔ ہمارے لئے سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہمارے علماء ایسی بات کہتے ہیں ہیں جس کو وہ خود نہیں سمجھتے وار یہ نقیضین پر عقیدہ رکھتے ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ جناب فاطمہ نے دعوی کیا اور ابو بکر نے اس کو رد کردیا ۔اب یا تو (معاذاللہ) جناب فاطمہ جھوٹی تھیں یا پھر ابو بکر ظالم تھے یہاں کوئی تیسری صورت حال نہیں ہے جیسا کہ ہمارے بعض علماء کہنا چاہتے ہیں ۔اور چونکہ عقلی ونقلی دلیلوں سے ثابت ہے کہ سیدہ عالمیان جھوٹی نہیں ہوسکتیں کیونکہ ان کے باپ کی صحیح حدیث ہے فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اس کو اذیت پہونچائی  اس نے مجھ کو اذیت پہونچائی اور واضح سی بات ہے کہ رسول کی طرف سے یہ سند کسی جھوٹے کو نہیں دی جاسکتی ہے ۔پس یہ حدیث تو بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ نہ جناب فاطمہ جھوٹ بول سکتی ہیں اور نہ کسی دیگر بری چیز کا ارتکاب

-------------

(۱):- الامامۃ والسیاسۃ (لابن قتیبہ )ج ۱ ص ۲۰

۱۵۴

کرسکتی ہیں ،جس طرح آیت تطہیر ان کی عصمت پر دلیل ہے(۱) ۔جو حضرت عائشہ کی گواہی کی بنا پر وفاطمہ ا ن کے شوہر  ان کے بچوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ لہذا اس کے علاوہ کوئی چار ہ نہیں  ہے کہ صاحبان عقل  اس بات کو تسلیم کرلیں کہ وہ معصومہ مظلومہ تھیں ،فاطمہ کا جھوٹا ہونا انھیں لوگوں  کے لئے ممکن ہے جو یہ دھمکی دے سکتے ہوں کہ اگر بیعت سے انکار کرنے والے فاطمہ کے گھر سے نہ نکلے تو ہم فاطمہ کے گھر کوآگ لگادیں گے(۲) ۔

انھیں تمام اسباب کی بنا پر جناب فاطمہ نے ابو بکر وعمر کو اپنے گھرمیں اجازت مانگنے پر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی اور جب حضرت علی ان دونوں کو گھر میں لائے تو جناب فاطمہ نے اپنا منہ دیوار کی طرف کرلیا ۔ اور ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا(۳) ۔

جناب فاطمہ کی وصیت کے مطابق ان کو راتوں رات دفن کیا گیا تاکہ ان میں سے کوئی جنازہ میں شریک نہ ہوجائے(۴) ۔

اور بنت رسول کی قبر آج تک لوگوں کے لئے مجہول ہے ۔میں اپنے علماء سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ  ان حقائق پر کیوں خاموش ہیں ؟ کیوں اس کے بارے میں بحث نہیں کرتے ؟ بلکہ اس کا ذکر تک نہیں کرتے ؟ اور ہمارے سامنے صحابہ کو ملائکہ بنا کر پیش کرتے ہیں کہ وہ لوگ نہ گناہ کرتے تھے اور نہ ان سے غلطی ہوتی تھی آخر ایسا کیوں ہے ؟

جب میں کسی  عالم سے پوچھتا ہوں :خلیفۃ المسلمین سیدنا عثمان بن عفان ذی النورین کو کیسے قتل کردیاگیا ؟ تو صرف یہ جواب ملتا ہے کہ مصریوں ۔۔۔ جو سب کافر تھے ۔۔۔۔نے آکر قتل کردیا صرف دو جملوں میں بات تمام کردی جاتی تھی ۔ لیکن جب مجھے فرصت ملی اورمیں نے تاریخ کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ عثمان کے قاتل نمبر ایک کے اصحاب تھے اور ان میں بھی سب سے آگے ام المومنین عائشہ تھیں جو چلا چلا کر لوگوں کو عثمان کے قتل پر ورغلاتی تھیں ۔اور ان کے خون کو مباح بتاتی تھیں اور کہتی تھی ۔:-

--------------

(۱):- صحیح مسلم ج ۷ ص ۱۱۲ ،۱۲۰

(۲)-(۳):- تاریخ الخلفاء ج ۱ ص ۲۰

(۴):- صحیح بخاری ج ۳ ص ۳۹

۱۵۵

" اقتلوا نعثلا فقد کفر" نعثل کو قتل کردو یہ کافر ہوگیا ہے(۱) ۔۔۔نعثل ایک یہودی تھا عثمان  کی ڈاڑھی اس کی ڈاڑھی سے بہت مشابہ تھی اس لئے عائشہ عثمان کو نعثل کہا کرتی تھیں ، مترجم۔۔۔ اسی طرح طلحہ ،زبیر ،محمد ابن ابی بکر ،وغیرہ جیسے مشہور صحابی نے عثمان کا محاصرہ کرلیا تھا اور ان کے اوپر پانی بند کردیا تھا تاکہ مجبور ہوکر خلافت سے مستعفی ہوجائیں ۔مورخین کا بیان ہے کہ یہی صحابہ کرام تھے جنھوں نے عثمان کے لاشہ کو مسلمانوں کے مقبرہ میں دفن نہیں ہونے دیا ۔ اور ان کو غسل وکفن کے بغیر حش کوکب میں دفن کیاگیا ۔ سجان اللہ ہم کو تو یہ بتایا جاتا کہ عثمان کے قاتل مسلمان ہی نہ تھے اور ان کو مظلوم قتل کیاگیا ہے ۔جناب فاطمہ اور ابوبکر کی طرح یہ دوسرا قصہ ہے کہ باتو عثمان مظلوم تھے تو پھر جتنے صحابہ نے ان کو قتل کیا یا ان کے قتل میں شریک رہے وہ سب کے سب مجرم ہیں کہ کیونکہ انھیں نے خلیفہ کو ظلما وعدوانا قتل کیا اور ان کے جنازے کے پیچھے پیچھے جنازے پر پتھر مارتے ہوئے لے گئے ۔ زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی ان کی توہین کی ۔۔۔اور یا پھر یہ تمام صحابہ حق پر تھے  جنھوں نے عثمان کو قتل کیا ۔کیونکہ عثمان نے اسلام  مخالف بہت سے اعمال  کا ارتکاب کیا تھا ۔ جیسا کہ تاریخوں میں ہے دونوں میں سے ایک کو باطل ماننا ہوگا ۔یہاں کوئی تیسری  صورت نہیں ہے ہاں یہ اور بات ہے ہ ہم تاریخ ہی کو جھٹلا دیں اور اور لوگوں کو دھوکہ دیں کہ جن مصریوں نے عثمان کو قتل کیا تھا  وہ کافر تھے بہر حال دونوں صورتوں " خواہ  عثمان کو مظلوم مانیں یا مجرم " میں الصحابۃ کلھم عدول" سارے صحابہ عادل ہیں کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے یا تو یہ مانئے کہ عثمان عادل نہیں تھے یا یہ مانئے کہ ان کے قاتل عادل نہیں تھے ۔ دونوں ہی صحابہ اس طرح ہم اہل سنت کا دعوی تو باطل ہوجاتا ہے البتہ شیعوں کا دعوی ثابت ہوجاتا ہے کہ بعض صحابہ عادل تھے بعض عادل نہیں تھے ۔

اسی طرح میں جنگ جمل کے بارے میں سوال کرتاہوں جس کے شعلے ام المومنین عائشہ نے بھڑکائۓ تھے اور خودہی لشکر کی قیادت کررہی تھیں ۔آخر جب ان کو خدانے حکم دیا تھا کہ :

--------------

(۱):- تاریخ طبری ج ۴ ص ۴۰۷ ،تاریخ ابن اثیر ج۳ ص ۲۰۶ ،لسان العرب ج۱۴ ص ۱۹۳ ، تاج العروس ج ۸ ص ۱۴۱ ،العقد الفرید ج ۴ ص ۲۹۰

۱۵۶

وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاهلیة الاولی (پ ۲۲ س ۳۳ (الاحزاب ) آیة ۳۲)

ترجمہ :-اور اپنے گھروں میں نچلی بیٹھی رہو اور اگلے زمانہ جاہلیت کی طرح انپے بناؤ سنگار نہ دکھاتی پھرو ! انپے گھروں میں بیٹھی رہو تو ام المومنین عائشہ کیوں نکلی ؟ اسی طرح دوسرا سوال کرتا ہوں کہ ام المومنین نے حضرت علی کے خلاف کس دلیل کی بنا پر جنگ کی ؟ جبکہ حضرت علی تمام مومنین ومومنات کے ولی تھے ۔ لیکن حسب معمول ہمارے علماء بڑی سادگی سے جواب دیدیتے ہیں کہ ام المومنین حضرت علی سے دشمنی رکھتی تھیں کیونکہ  "واقعہ افک "  میں حضرت  علی نے ( بشرطیکہ یہ صحیح ہو) رسول خدا کو مشورہ دیا تھا کہ انکو طلاق دے دیجئے ہمارے علماء ہم کو اس طرح مطمئن کرنا چاہتے ہیں چونکہ :واقعہ افک " میں حضرت  علی نے (بشرطیکہ یہ صحیح ہو ) طلاق کا مشورہ دیا تھا اس لئے ام المومنین نے مخالفت کی تھی مگر آپ سوچئے تو کیا صرف اتنی سی بات پر حضرت  عائشہ کے لئے جائز تھا کہ حکم قرآن کی مخالفت  کریں ؟ اور وہ پردہ جو رسول نے ان پر ڈال رکھا تھا اس کو چاک کردیں ؟ اور اونٹ کی سواری  کریں جب کہ رسول نے پہلے ہی روک دیا اور ان کو ڈرادیا  تھا کہ حواب کے کتے بھونکیں گے (۲) ۔ اور بی بی عائشہ اتنی لمبی مسافت طے کریں یعنی  مدینہ   سے مکہ اور پھر مکہ سےبصرہ جائیں ،بے گناہ لوگوں کو قتل کریں ؟ حضرت علی اورجن  صحابہ نے علی  کی بیعت کی تھی ان سے جنگ کریں ؟ اور ہزاروں  مسلمان  قتل کئے جائیں  جیسا کہ مورخین نے لکھا ہے (۳) - ان سب جرائم  کا ارتکاب  صرف اس لئے جائز  ہے کہ ام المومنین حضرت علی  کو نہیں چاہتی تھی ۔اس لئے  کہ حضرت علی نے طلاق کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن نبی نے طلاق تو نہیں دیا ۔ پھر اتنی نفرت کیوں؟  مورخین نے دشمنی  کے وہ وہ واقعات تحریر کئے جن کی تفسیر ممکن ہی نہیں ہے (مثلا)  جب آپ مکہ سے واپس آرہی تھیں تو لوگوں نے بتایا عثمان قتل کردیئے گئے اس خبر کو سن کر آپ پھولے نہیں سمارہی تھیں ۔لیکن جب لوگوں نے یہ خبر دی کہ مدینہ  والوں نے علی کی  بیعت کرلی تھی اس کو سنتے ہی آپ آگ بگولہ ہوگئیں اور فرمانے لگیں : مجھے یہ بات پسندتھی کہ علی

--------------

(۱):- الامامۃ والسیاسۃ

(۲):- طبری ،ابن اثیر مدائنی وغیرہ جنھوں نے سنہ ۳۶ ھ کے حالات تحریر کئے ہیں ۔

۱۵۷

 کو خلافت ملنے سے پہلے آسمان پھٹ پڑتا اور فورا حکم دیا  کہ مجھے واپس لےچلو ۔اور آتے ہیں حضرت علی کے خلاف آتش فتنہ بھڑکا دی ،وہ علی بقول مورخین جن کا نام لینا بھی پسند نیں کرتی تھیں ۔ کیا ام المومنین نے رسول خدا کایہ قول نہیں سنا تھا : علی کی محبت ایمان اور علی سے بغض رکھنا نفاق ہے (۱) ۔اور اسی لئے بعض اصحاب کا یہ قول مشہور ہے کہ ہم منافقین کو حضرت علی سے بعض  رکھنے سے پہچان لیا کرتے تھے ۔۔۔ اور کیا ام المومنین نے رسول اسلام کا یہ قول نہیں سنا تھا : جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں ۔۔۔۔ حتما سب کچھ سنا تھا لیکن نہ وہ علی کو چاہتی تھیں نہ ان کا نام لینا پسند کرتی تھیں بلکہ جب علی کے مرنے کی خبر سنی ہے تو فورا سجد ہ شکر کیا ہے (۲) ان باتوں کوجانے دیجیئے میں ام المومنین عائشہ کی تاریخ سے بحث نہیں کررہا ہوں میں تو صرف یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ بہت سے صحابہ نے مبادی اسلام کی مخالفت کی ہے اور رسول خدا کے احکام کی نافرمانی کرتے رہے ہیں ۔ رہا ام المومنین کا فتنہ تو اس سلسلہ میں صرف ایک ایسی دلیل کافی ہے جس پر تمام مورخین نے اجماع کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب ام المومنین عائشہ کا گزر چشمہ حواب سے ہوا تو وہاں کے کتوں نے بھونکنا شروع کیا اس پر بی بی کو رسول خدا کی تحذیر یادآئی اور یہ یاد آیا کہ پیغمبر نے کہا تھا اسے عائشہ کہیں وہ اونٹ والی تمہیں نہ ہو ۔یہ یاد آتے ہی عائشہ رونے لگیں اور کہنے لگیں مجھے واپس کرو ،مجھے واپس کرو ،لیکن طلحہ وزبیر نے پچاس آدمی کو دے دلا کر تیارکر لیا اور ان سبھوں نے آکر عائشہ کے سامنے اللہ کی جھوٹی قسم کھائی کہ یہ چشمہ حواب نہیں ہے بس پھر کیا تھا عائشہ نے اپنا سفر جاری رکھا اور بصرہ آگئیں ،مورخین کا بیان ہے کہ اسلام میں یہ سب سے پہلی جھوٹی گواہی ہے (۳) اے مسلمانو! اے روشن عقل رکھنے والو ، اس مشکل کا حل بتاؤ ۱ کیا یہ وہی بزرگ صحابہ ہیں جن کو ہم رسول  کے بعد سب سے بہتر مانتے ہیں اورجن کی عدالت کے ہم قائل  ہیں جو جھوٹی گواہی دیتے ہیں حالانکہ جھوٹی گواہی کو رسول خدا نے ان گنا ہان کبیرہ میں شمار کیا ہے جو انسان کو جہنم میں پہونچا دیتے ہیں

--------------

(۱):- صحیح مسلم ج ۱ ص ۴۸

(۲):- طبری ، ابن اثیر ، الفتنۃ الکبری ، تمام وہ مورخین جنھوں نے سنہ ۴۰ ھجری کے حالات لکھے ہیں

(۳):- طبری ، ابن اثیر ، مدائنی  اور دیگر وہ مورخین جنھوں سنہ ۳۶ ھ کے حالات لکھے ہیں ،

۱۵۸

وہی سوال پھر دہرانا پڑتا ہے اور ہمیشہ دہراتا ہوگا کہ کون حق پر ہے ؟ اور کون باطل پر ؟ یا تو عائشہ اور ان کے ہمنوا وطلحہ وزبیر اور ان کے ساتھی سب ظالم  اور باطل پر ہیں اور یا پھر علی اور ان کے ساتھی ظالم اور باطل پر ہیں ۔ یہاں کوئی تیسرا احتمال نہیں ہے ۔ منصف مزاج اور حق کا متلاشی علی کی حقانیت  کو تسلیم کرے گا ۔کیونکہ بقول مرسل  کوچھوڑ دےگا کیونکہ انھیں لوگوں نےآتش فتنہ بھڑکائی تھی اور اس کو بجھانے کی کوشش بھی نہیں کی یہاں تک کہ اس نے ہر رطب ویابس کو جلا کر راکھ کردیا اور اس کے آثار آج تک باقی ہیں ۔

مزید بحث اور اپنے اطمینان قلب کے لئے عرض کرتا ہوں کہ بخاری کے کتاب الفتن اور باب الفتنۃ التی تموج کموج البحر" میں تحیریر ہے : جب طلحہ وزبیر وعایشہبصرہ پہونچے تو حضرت عل ی نے عمار یاسر اور اپنے بیٹے حس کو بھیجا یہ دونوں کوفہ آئے اور منبر پر گئے حسن بن علی منبر کے سب سے اونچے زینہ پر تھے اور عمار حسن سے ایک زینہ نیچے  تھے ۔ ہم لوگ دونوں کی باتیں سننے کے لئۓ جمع ہوئے تو میں نے عمار کو یہ کہتے ہوئے سنا : عائشہ بصرہ گئی ہیں ۔ خدا کی قسم وہ دنیا وآخرت میں تمہارے نبی کی بیوی ہیں لیکن خدانے تمہارا امتحان لینا چاہا ہے کہ تم خدا کی اطاعت کرتے ہوں یا عائشہ کی(۱) ۔

اسی طرح بخاری کےف" کتاب الشروط باب ما جا ء فی بیوت ازواج النبی " میں ہے : رسول خدا خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور عائشہ کے مسکن کی طرف اشارہ کرکے فرمایا : یہیں فتنہ ہے یہیں فتنہ ہے یہیں فتنہ ہے ، فتنہ یہاں سے شیطان کی سینگ کی طرح نکلے گا (۲) ۔اسی طرح امام بخاری نے اپنی صحیح میں عائشہ  کا رسول کے ساتھ بد تمیز ی سے پیش آنا جس پر ابو بکر کا اتنا عائشہ کو مارنا  کہ عائشہ کے جسم سےخون بہنے لگا ۔ اور عائشہ کا رسول کے خلاف  مظاہرہ کرنا جس پر خدا  کی طرف سے طلا ق کی   دھمکی کا ملنا اوریہ دھمکی دینا کہ خدا تم سے بہتری بیوی نبی کودے گا اور اسی قسم کی عجیب وغریب عائشہ کے لئے نقل کیا ان قصوں کو دہرا نا کتاب کو طول دینا ہے ۔

-------------

(۱):- بخاری ج ۴ ص۱۶۱

(۲):- بخاری ج ۲ ص ۱۲۸

۱۵۹

ان تمام باتوں کے باوجود میں یہ پوچھتا  ہوں کہ اہل سنت  والجماعت کے نزدیک صرف عائشہ ہی کا کیوں  اتنا احترام واکرام ہے ؟ کیا اس لئے کہ یہ نبی کی بیوی تھیں ؟ تو نبی کی بیویاں تو اور بھی تھیں ،بلکہ عائشہ سے افضل بھی تھیں جیسا کہ خود نبی نے فرمایا ہے ۔(۱) تو عائشہ میں کیا خصوصیت ہے ؟ یاان کا احترام اس لئے زیادہ ہے یہ ابو بکر کی بیٹی تھیں ؟ یا اس لئے ان کا احترام زیادہ ہے  کہ رسول خدا نے حضرت علی کے لئے جو وصیت کی تھی اس کو کالعدم بنانے میں سب سے اہم رول ان کا ہے ؟ جیسا کہ روایت میں ہے جب عائشہ کے سامنے ذکر آیا کہ نبی نے علی کے لئے وصیت کی تھی تو آپ جھٹ سے بولیں یہ کسی نے کہا ؟ رسول میرے سینہ پر تکیہ لگائے لیٹے تھے مجھ سے طشت مانگا میں طشت کے جھکی اور نبی کا انتقال  ہوگیا ۔ مجھے پتہ بھی نہیں چلا  پس علی کے لئے کیسے وصیت کردی(۲) ۔

یا پھر ان کا احترام  اس لئے زیادہ ہے کہ انھوں نے حضرت علی سے ایسی جنگ کی جس میں نرمی کی گنجائش نہ تھی ۔ اور ان کے بعد ان کی اولاد سے لڑیں انتہا یہ کردی کہ جب امام حسن کا جنازہ چلا تو آپ  نے روکا اور یہ کہاجس کو میں میں دوست رکھے خدا اس کو دوست رکھے گا ۔ اور جو ان سے بغض رکھےگا  خدا اس سے بغض رکھے گا ۔ یا ایک جگہ اور فرمایا تھا:- جوان سے جنگ کرے  میں اس سے جنگ کروں گا جو ان سے صلح کرےگا ۔ میں اس سے صلح کروں گا ۔ الخ  ان تمام حدیثوں کو ام المومنین بھول گئی تھیں یا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہی تھیں ؟ اور اس میں کوئی تعجب نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ حضرت علی کے بارے میں  تو اس سے کئی گنا زیادہ سنا تھا لیکن نبی کی ممانعت کے باوجود حضرت علی سے جنگ کرکے رہیں اور لوگوں کو ان کے خلاف اکسا ہی کے مانا ، ان کے فضائل کا انکار کرکے رہیں ۔۔۔ دراصل یہ جوہ تھی جس کی بنا پر بنی امیہ نے ان سے محبت کا اظہار کیا ، اور ان کو اس درجہ تک پہونچا دیا جہاں تک کسی کی رسائی نہیں ہے اور ان کے فضائل میں ایسی ایسی (جعلی )روایات نقل کیں جس سے کتابیں بھرگئیں ،شہروں شہروں ،دیہاتوں دیہاتوں ان کا چرچا ہوگیا

--------------

(۱):- ترمذی ، استیعاب در حالات صفیہ ، اصابۃ حالات صفیہ ام المومنین

(۲):- بخاری ج ۳ ص ۶۸ باب مرض النبی ووفاتہ

۱۶۰

اور آخر کار ان کو امت اسلامیہ کا مرجع اکبر  کیونکہ آدھا دین تو صرف تنہا عائشہ کے پاس تھا ،

اور شاید دوسرا دین ابو ہریرہ کے پاس تھا ،جس نے بنی امیہ کے حسب منشاء خوب خوب روایات جعل کی تھیں اسی لئے انھوں نے ابو ہریرہ کواپنا مقرب بنالیا ، مدینہ کی گورنری ابوہریرہ کے حوالہ کودی، ابو ہریرہ کے لئے "قصرعقیق" بنوایا گیا ، جب کہ یہ بیچارے ایک مفلس قلاش آدمی تھے ان کو راویہ الاسلام کا لقب دیا گیا ، اسی طرح بنی امیہ کے پاس ایک نیا پورا دین آگیا ۔۔۔آدھا عائشہ کے ذریعہ آدھا ابو ہریرہ کے ذریعہ ۔۔۔جس میں کتاب خدا اور سنت رسول نام کی صرف وہ چیزیں تھیں جن کو یہ لوگ پسند کرتے تھے ، اور جس کے ذریعہ  ان کی سلطنت مضبوط ہوسکتی تھی ظاہر ہے کہ یہ دین تناقضات  وخرافات کا مجموعہ ہوگا ۔ اور اس طرح حقائق کو ختم کرکرے ان کی جگہ تاریکیوں کو دیدی گئی اور بنی امیہ نے لوگوں کو اسی نئے دن پر چلانا شروع کردیا اوراسی پر لوگوں کو ابھارا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین خدا ایک مضحکہ خیز چیزیں کے رہ گیا ۔ جس کی کوئی قدروقیمت ہی نہ رہی اور لوگ معاویہ سے اتنا ڈرنے لگے جتنا خدا سے نہیں ڈرتے تھے ۔

ہم جب اپنے علماء سے پوچھتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب جنکی بیعت مہاجرین وانصار نے کی تھی ان سے معاویہ کا جنگ کرنا کیسا ہے ؟ اور جنگ بھی ایسی کہ جس نے مسلمانوں کو شیعہ ،سنی دوفرقے میں بانٹ دیا ار اسلام میں اس کی وجہ سے ایسا رخنہ پڑگیا جو آج تک نہ بھر سکا ، تو وہ لوگ بڑی سادگی  سےحسب عادت جواب دیتے ہیں : علی ومعاویہ دونوں ہی بڑے جلیل القدر صحابی ہیں دونوں نے اجتہاد کیا علی کا اجتہاد مطابق واقع تھا لہذا ان کو دو اجر ملے گا لیکن معاویہ نے اپنے اجتہاد میں غلطی کی اس لئے ان کو صرف ایک اجر ملے گا ۔ہمارے لئے جائز نہیں ہے کہ ان کے حق میں یا ان کے بر خلاف کچھ کہیں ، خود خدا وند عالم کا ارشاد ہے ،تلک امة قد خلت لها ما کسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون(پ 1 س 2 (البقرة)آیت 132)

ترجمہ:- (اے یہودیو) وہ لوگ تھے جو چل بسے جو انھوں نے کمایا ان کے آگے آیا اور جو تم کماؤ گے تمہارے آگے آئیگا اور جو کچھ وہ کرتے تھے اس کی پوچھ گچھ تم سے نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔

۱۶۱

افسو س کی بات یہی ہے کہ ہمارے علماء کے جوابات اسی قسم کے ہوتے ہیں جو سفسطہ ہوتے ہیں ۔جن کو نہ عقل قبول کرتی ہے نہ دین نہ شریعت ۔۔ میرے معبود  میں رائ کی غلطی ،خواہش کی لغزش ،شیاطین کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتاہوں ۔

بھلا وہ کون سی عقل سلیم ہے جو معاویہ کے اس اجتہاد پر اس کے لئے اجر کی قائل ہوگی جس کی بنا پر اس نے امام المسلمین سے جنگ کی بے گناہ مومنین کو قتل کیا ، ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا جس کا شمار صرف خدا ہی کرسکتا ہے ،مورخین کے نزدیک مشہور ہے کہ معاویہ اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کے لئے اور ان کو راستہ سے ہٹانے کے لئے  اپنے مشہور طریقہ پر عمل کرتا تھا یعنی زہر آلود شہد کھلا دیتا تھا اورکہا کرتا تھا :خدا کا لشکر تو شہد میں ہے ۔

نہ معلوم یہ لوگ کیسے اس کو مجتہد مانتے ہیں اور اس کو اجر دینے کے لئے تیار ہیں حالانکہ "باغی گروہ" کا سردار تھا چنانچہ  مشہور حدیث  میں جس کو تمام محدثین نے لکھا ہے " آیا ہے : افسوس عمار یاسر پر ہے جس کو ایک باغی گروہ قتل کرےگا ۔ ۔۔اور معاویہ واس کے اصحاب نے جناب عمار کو قتل کیا ہے اس کو کیونکر مجتہد کہتے ہیں جس نے حجر بن عدی اور اس کے اصحاب کر بڑی بے دردی سے قتل کیا اور صحرائے شام  میں" مرج عذرا" میں دفن کردیا کیونکہ ان لوگوں نے حضرت علیج پر لعنت کرنے سے انکار کردیا تھا ۔۔۔۔۔ جس شخص نے سردار جوانان جنت امام حسن کو زہر دے کر قتل کرادیا کیسے اس کو عادل صحابی مانتے ہیں ؟ جس شخص نے امت مسلمہ سےجبرو زبر دستی سےپہلے تو اپنے لئے پھراپنے بد کار بیٹے یزید کے لئے بیعت لی جس نے شوری کے نظام کو بدل کر قیصر کی حکومت قائم کی(1)

جس نے لوگوں کو حضرت علی اور ان کے اہل بیت پر منبروں سے لعنت کرنے کیلئے مجبور کیا اور جن لوگوں نے انکار کیا ان کو قتل کردیا اور یہ لعنت ایسی سنت بن گئی جس پر جوان بوڑھے ہوگئے بچے جوان ہوگئے ،بھلا ایسے شخص کو کیوں کر مجتھد کہا جاسکتا ہے؟ اور اس کو مستحق اجبر قرار دیا جاسکتا ہے؟

--------------

(1):- خلافت وملوکیت (مودودی )یوم الاسلام (احمد امین)

۱۶۲

لا حول ولا قوة الا با الله

پھر یہی سوال اٹھتا کہے کہ دونوں میں سے کون حق پر تھا اور کون باطل پر تھا ؟ یا تو علی اور ان کے شیعہ ظالم تھے اور باطل پر تھے اوریا معاویہ اور اس کے ساتھی ظالم تھے اور باطل پر تھے ۔ حالانکہ رسول اللہ نے سب چیز واضح کردیا تھا ۔جو بھی ہو ہر صورت میں تمام صحابہ کی عدالت بہر حال ثابت نہیں ہوتی ۔اور نہ یہ منطق عقل سلیم پر پوری اترتی ہے ،ہر ہر چیز کی متعدد مثالیں ہیں جن کو خدا کے علاوہ کوئی احصاء نہیں کرسکتا ۔

اگر میں تفصیل میں جاؤں  اور ہر واقعہ کے بارے میں ہر پہلو سے بحث کروں تو کئی ضخامت جلدوں کی ضرورت ہوگی ۔ مگر چونکہ میں نے  اختصار  کا ارادہ کرلیا ہے  اور اس بحث میں صرف بعض مثالوں پر اکتفاء کی ہے ۔ اور یہ الحمداللہ ہماری قوم کے مزعومات کو باطل کرنے کے لئے کافی ہے ہماری قوم کا عالم یہ ہے کہ مدتوں سے ہماری فکروں   کو جامد بنادیا ہے اوریہ پابندی لگادی ہے کہ میں حدیث سمجھنے کی کوشش نہ کروں ۔ عقل وشریعت کے معیار پر تاریخی واقعات کی تحلیل نہ کروں ۔ جب کہ قرآن کریم اور سنت رسول ہم کو میزان عقل پر تولنے کا حکم دیتی ہے ۔

اس لئے میں نے طے کر لیا ہے کہ میں سرکشی کروں گا اور تعصب کے جس غلاف میں مجھے لیٹا گیاہے ، اس سے باہر نکلوں گا ۔ ب یس سال سے جن بیڑیوں میں مجھے جکڑا گیا ہے اس سے آزادی حاصل کرکے رہوں گا ۔ میری زبان حال ان سے کہہ رہی ہے ۔ اے کاش میری قوم یہ جان لیتی کہ میرے خدانے مجھے کیوں بخش یدا اور میرا اکرام کیوں کیا ۔کاش میری قوم بھی اس نئی دنیا کا انکشاف کر لیتی جس کی وہ جہالت کے باوجود شدت سے مخالفت کرتی ہے ۔

٭٭٭٭٭

۱۶۳

تبدیلی کاآغاز

تین مہینے تک میں بہت پریشان رہا ۔ عالم یہ تھا کہ خواب میں بھی افکار مجھے پریشان کرے ۔مختلف قسم کے وہم وگمان افکار ووسواس میں گھرا رہتا تھا ۔  خصوصا بعض اصحاب سے تو مجھے اپنی جان کا خوف تھا ۔ کیونکہ تاریخی واقعات جو مجھے بتائے گئے ہو حیرتناک  حد تک ڈراونے تھے ۔ اس لئے کہ پوری زندگی مجھے جو تربیت دی گئی تھی وہ اولیاء اللہ اور اس کے نیک بندوں کا احترام کرنا تھا ورنہ اگر کوئی ان کے حق  میں بے ادبی کردے یا جسارت کردے چاہے ان کی عدم موجود گی  میں یا ان کے مرنے کے بعد بھی تو وہ لوگ بے ادبی کرنے والوں کو ضرور سزا دیتے تھے ۔اس لئے میں بہت ڈرتا تھا ۔ چنانچہ حیاۃ الحیوان (1) الکبری میں خود میں نے پڑھا تھا کہ ایک شخص عمر بن الخطاب کو گالیاں دیا کرتا تھا ،قافلہ والے اس کو روکتے تھے مگرو وہ نہیں مانتا تھا آخر ایک دن وہ پیشاب کررہا تھا کہ بہت ہی زہریلے سانپ نے اس کو ڈس لیا اور  وہ وہیں کا وہیں مرگیا ۔پھر لوگوں نے اس کے لئے قبر کھول دی تو دیکھا وہاں بھی کا لا زہریلا ناگ موجود  ہے ۔ پھر لوگوں نے دوسری قبر کھودی وہاں بھی وہ ناگ تھا ایسا کئی مرتبہ ہوا تو بعض عارفین نے کہا اس کو جہاں چاہے دفن کرو اگر تم پوری زمین بھی کھود ڈالو گے تو ہر جگہ یہ کالا سانپ ملے گا ۔ کیونکہ خدا اس کو آخرت سے پہلے دنیا میں عذاب دینا چاہتا ہے اس لئے کہ اس نے سیدنا عمر کو گالیاں دی تھیں ۔اس لئے میں خوفزدہ اور متحیر ہوکر اس مشکل بحث میں پڑنے سے کتراتا تھا خصوصا جب کہ میں نے "الزیتونیۃ یونیورسٹی" کی ایک فرع میں پڑھا تھا " افضل الخلفاء علی التحقیق سیدنا ابو بکر ہیں اس کے بعد حضرت عمر فاروق ہیں جو حق اور باطل میں فرق کرتے تھے ۔ اس کے بعد سیدنا عثمان بن عفان

--------------

(1):- یہ واقعہ الاسود السالخ کے حالات میں دمیری نے حیات الحیوان کے اندر لکھا ہے ۔

۱۶۴

ذوالنورین ہیں جن سے ملائکہ رحمان بھی شرماتے تھے ۔ اس کے بعد سیدنا علی باب مدینۃ علی نبی ہیں ان چاروں کے بعد عشرہ مبشرہ کے باقی چھ 6 افراد طلحہ ، زبیر ، سعد ، عبدالرحمان ،ابی عبیدہ ہیں ، اس کےبعد تمام صحابہ کانمبر آتا ہے ۔ہمارے علماء زیادہ تر اس آیت سے استدلا ل ہم کو سکھاتے ہیں :" لانفرق بین احد میں رسلہ " کہ تمام صحابہ کو ایک آنکھ سے دیکھنا چاہیے کسی پر کوئی اعتراض نہین کرنا چاہے ۔

اسی لئے میں کئی مرتبہ ڈرا اور کئی مرتبہ استغفار پڑھا ۔ اس بحث کو ختم کرنا چاہا کیونکہ اس سے صحابہ کے بارے میں شک ہونے لگتا ہے اور اس کانتیجہ اپنے دین میں شک کرتا ہوتا ہے ۔لیکن اس تمام مدت میں اپنے علماء سے بات کرنے پر مجھےبہت سے ایسے تناقضات ملے جن کو عقل قبول نہیں کرتی  اور علماء نے مجھے ڈرانا شروع کردیا اگر صحابہ کے بارے میں میں ایسی ہی بحث کرتا رہا تو خدا اپنی نعمت مجھ سے سلب کر لے گا ۔ اور مجھے ہلاک کردےگا لیکن ان تمام دشمنیوں  اور تکذیب کے بعد بھی  تلاش حقیقت کو خواہش نے ہر مرتبہ  مجھے نئی طرح سے بحث کرنے پر ابھارا اور میں نے اپنے اندر ایک ایسی قوت پارہا تھا جو مجھے بحث جاری رکھنے پر مجبور کر رہی تھی۔

٭٭٭٭٭

۱۶۵

ایک مولانا سے گفتگو

میں نے اپنے ایک عالم سے کہا :- جب معاویہ بے گناہوں کو قتل کرکے ،لوگوں کی عزت آبرو لوٹ کرکے آپ کے نزدیک مجتہد ہے ۔ اور ایک اجر کا مستحق ہے اور یزید فرزند رسول کو قتل کرکے مدینہ کو اپنے لشکر  کے لئے مباح کرکے خطا کار مجتہد ہوسکتا ہے اور ایک اجر کا مستحق ہے یہاں تک کہ آپ میں سے بعض نے یہاں تک کہدیا : حسین تو اپنے نانا کی تلوار سے قتل کئےگئے ۔ اس سے صرف فعل یزید  کو جائز کرنا مقصود ہے تو پھر اگر میں اجتہاد کروں اور بعض صحابہ کے بارف میں مشکوک ہوجاؤں اور بعض  کے بارے میں  مشکوک نہ ہوں  تو اگر میرا اجتہاد صحیح ہے تو مجھے بھی دو اجر اور غلط ہے تو ایک اجر تو ملنا ہی چاہیے جب کہ میرے اجتہاد کا قیاس معاویہ ویزید کے افعال پر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ قاتل اولاد پیغمبر ہیں اور میں تو صرف شک وعدم شک کی بحث میں ہوں اس کے علاوہ بعض صحابہ میں عیب  نکالنے کا مطلب ان پر سب وشتم اور لعن کرنا نہیں ہے بلکہ میرا مقصد تمام گمراہ  فرقوں میں نجات پانے والے فرقہ کی تلاش ہے ۔اور یہ صرف میرا ہی فریضہ نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کا فریضہ ہے تو آخر ایسا کرنے پر میں کیوں گردن زنی کے قابل ہوں ؟ اور خدا دلوں کے بھید سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ میرا ارادہ کیا ہے ؟

مولانا :- اے بیٹا ! باب اجتھاد مدتوں پہلے بند ہوچکا ہے ۔

میں :- کس نے بند کیاہے ؟

مولانا :-ائمہ اربعہ  نے (یعنی امام ابو حنیفہ ، مالک ، شافعی ، احمد بن حنبل نے )

میں :- (بڑی بے باکی سے ) اگر خدا اور رسول اور خلفائے راشدین (جن کی پیروی کا حکم دیاگیا ہے ) نے نہیں بند کیا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ جیسے ان لوگوں نے اجتہاد کیا تھا میں  بھی اجتہاد

۱۶۶

کروں گا ۔

مولانا:- جب تک تم کو سترہ 17 علوم میں مہارت نہ  جائے اجتہاد کرہی نہیں سکتے ان میں اہم علوم مثلا یہ ہیں ۔ تفسیر ،لغت ، نحو،صرف ، بلاغت ، حدیث ،تاریخ وغیرہ وغیرہ ،۔

میں :- نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا :- میں اس لئے اجتہاد کرنا نہیں  چاہتا کہ لوگوں کو قرآن وسنت کے احکام بتاؤں یا اسلام کے اندر میں بھی کوئی صاحب مذہب بن جاؤں ۔ہر گز نہیں ! میں تو صرف حق وباطل کو پہچاننے اور یہ سمجھنے کے لئے کہ حضرت علی حق پر تھے یہ حضرت معاویہ ؟! اجتہاد کرنا چاہتا ہوں ۔ اور اس کے لئے 17 علوم میں مہارت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دونوں کی زندگی کا مطالعہ اور یہ دیکھنا کہ کس نے کیا کیا ہے ؟حقیقت کو پہچاننے کے لئے کافی ہے ۔

مولانا:-  تم کو ان کی کیا ضرورت ہے ؟ تلک امۃ قد خلت لھا ما کسبت ولکم ما کسبتم والا تسئلون عما کانوا یعملون (پ 1 سورہ بقرہ آیت 134)

ترجمہ:- (اے یہودیو)وہ لوگ تھ جو چل بسے جو انھوں نے کیا ان کے آگے آیا اور جو تم کروگے وہ تمہارے آگے آئے گا ۔اور وہ جوکچھ بھی کرتے تھے اس کی پوچھ گچھ تم سے (تو )نہیں ہوگی ۔

میں :- آپ تسئلون کی (ت) کو پیش پڑھ رہے یا زبر ؟

مولانا :- میں پیش پڑھ رہا ہوں( تسئلون)

میں :- شکر خدا کا ۔ آگر آپ زبر پڑھتے تو بحث کی گنجائش ہی نہیں تھی ۔۔۔۔ زبر سے مطلب ہوگا کہ تم کوسوال کرنے کا حق نہیں ہے ۔۔۔ہاں پیش پڑھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے افعال کا سوال ہم سے نہیں کیا جائے گا ۔ اوریہ ایسا ہی ہے جیسے ایک اور جگہ ارشاد ہے ۔ہر انسان اپنے اعمال کا گروی ہوگا ۔ یا مثلا انسان کو اتنا ہی ملے گا جتنی وہ کوشش کرے گا ۔ قرآن نے ہم کو امم سابقہ کے حالات معلوم کرنے پر ابھارا ہے اور کہا ہے کہ ہم اس

۱۶۷

 سے عبرت حاصل کریں اسی لئے خدا نے فرعون ،ہامان ،نمرود ،قارون ،کا جہاں قصہ بیان کیا ہے وہیں انبیائے سابقین کا بھی ذکر کیا ہے ۔ یہ تسلی وتشفی کے لئے ذکر نہیں کیا ہے بلکہ حق وباطل کی معرفت کے لئے ان واقعات کو بیان کیاگیا ہے ۔اب رہی آپ کی یہ بات کہ مجھے بحث سے کیا فائدہ ؟  تو عرض ہے کہ مجھے اس سے فائدہ ہے ۔ اولا تو اس لئے کہ ولی خدا کو پہچان کر اس سے محبت کروں اور دشمن خدا کو پہچان کر اس سے دشمنی کروں ۔ اور قرآن یہی بات چاہتا ہے ۔بلکہ اس کو واجب قراردیتا ہے ۔اور دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ میں اس کی عبادت کس طرح کروں؟ اور جو فرائض اس نے واجب کئے ہیں ان کو کس طرح ادا کروں تاکہ اس کے ارادہ ومنشاء کے مطابق ہو۔ نہ یہ کہ میں فرائض کو اسطرح ادا کروں جس طرح ابو حنیفہ یادوسرے مجتہدین چاہتے ہیں ۔ کیونکہ امام مالک نماز میں بسم اللہ  کو مکروہ سمجھتے ہیں ۔ حالانہ ابو حنیفہ واجب جانتے ہیں اور دوسرے لوگ بغیر بسم اللہ کے نماز ہی باطل سمجھتے ہیں ۔اور چونکہ  نماز دین کا ستو ن ہے  اور تمام (فرعی ) اعمال کی مقبولیت کا دارومدار نماز پر ہے اس لئے میں نہیں چاہتا کہ میری نماز باطل ہو ۔اسی طرح مثلا شیعہ کہتے ہیں : وضو میں پیروں کا مسح کرنا واجب ہے اور اہل سنت کہتے ہیں پیروں کا دھونا واجب ہے ۔ اور قرآنی آیت اسطرح ہے : وامسحوا برؤو سکم وارجلکم "یہ صریحی طور سے مسح کو بتا تی ہے ۔ مولانا اب آپ ہی بتائیے ایک عقلمند مسلمان بغیر بحث ودلیل کے کس ایک کو قبول کرے اور دوسرے کو رد کردے؟

مولانا:- تم یہ بھی کرسکتے ہو تمام مذاہب سے اچھی اچھی باتیں لے لو کیونکہ یہ سب ہی اسلامی فرقے ہیں اور سب ہی کا مدرک رسول ہیں ۔

میں :- مجھے ڈر ہے کہیں میں اس آیت کا مصداق نہ بن جاؤں:"أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ"(پ 25 س 45 (الجاثیه ) آیت 23)

۱۶۸

ترجمہ :- بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور (اس کی حالت) سمجھ بو جھ کر خدانے اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے ایور اس کے کان  اور دل پر علامت مقرر کر دی ہے ۔( کہ یہ ایمان نہ لائےگا )اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے پھر خدا کے بعد اس کی ہدایت کون کرسکتا ہے تو کیا تم لوگ (اتنا بھی)غور نہیں کرتے ؟۔

 مولانا! جب تک ایک شی کو ایک مذہب حلال اور دوسرا حرام کرتا رہے گا اس وقت تک میں یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ سارے کے سارے مذہب حق ہیں ۔ کیونکہ یہ محال ہے کہ ایک ہی شئ ایک ہی وقت میں حلال بھی ہو اور حرام بھی ہو ۔جب کہ رسول کے احکام میں کوئی تناقض نہیں تھا۔ کیونکہ وہ سب وحی قرآنی کے مطابق تھے: ولو کان من عند غیرالله لوجدوا فیه اختلافا کثیرا (پ 5س4 (نساء)آیت 82)

اگر یہ (قرآن  ) غیر خدا کے پاس سے (آیا ) ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے ۔ اور چونکہ مذاہب اربعہ میں بہت اختلاف سے اس لئے یہ نہ خدا کی طرف سے ہے نہ رسول کی طرف سے ہے ،کیونکہ رسول قرآن کے خلاف نہیں کہہ سکتے ،

مولانا:- نے جب محسوس کیا کہ میرا کلام منطقی ہے اورمیری دلیلیں مضبوط ہیں تو بولے : میاں میں تم کو قربۃ الی اللہ ایک نصیحت کرتاہوں  ۔تم چاہے جس چیز میں شک کرنا لیکن (خبردار)خلفائے راشدین کےبارے میں کبھی شک نہ کرنا ۔کیونکہ یہ چاروں اسلام کے ستون ہیں اور اگر ان میں سے ایک ستون بھی گر گیا تو عمارت گر جائے گی ۔۔

میں :- مولانا ! استغفراللہ اگر یہ چاروں ستون ہیں تو پھر رسول خدا (ص) کہاں گئے ؟

مولانا:- وہ تو خود ہی عمارت ہیں ۔ پورا سلام تو حضور ہی ہیں ۔

میں مولانا کی اس تحلیل سے مسکرایا اور بولا دوبارہ استغفراللہ کہتا ہوں ۔ مولانا آپ بغیر سوچے فرما دیتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان چاروں کے بغیر رسول خدا بذات خود کچھ  بھی نہیں ہیں ۔ حالانکہ خدا کہتا ہے :

۱۶۹

"هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيداً "(پ 26 س 48(الفتح) آیت 28)

ترجمہ:-یہ وہی  تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب رکھے اور گواہی کے لئے بس خدا کا فی ہے۔

خدا نے صرف محمد کو رسول بنا کر بھیجا ان کی رسالت میں ان چاروں میں سے کسی ایک کو نہیں شریک قراردیا اور نہ ان کے علاوہ کسی دوسرے کو شریک قراردیا ۔اسی سلسلہ میں خدا فرماتا ہے:" كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ "(پ2 س2(بقره)آیت 151)

ترجمہ:- (مسلمانو!یہ احسان بھی ویسا ہی ہے) جیسے ہم نے تم میں  تم ہی کا ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیتین پڑھ کر سنائے اورتمہارے نفس کو پاکیزہ کرے اور تمہیں کتاب (قرآن ) اور عقل کی باتیں سکھائے جن کی تمہیں (پہلے سے) خبر نہ تھی ۔"

مولانا :-ہم نے اپنے بزرگوں اور ائمہ سے یہی سکھا تھا ۔اور ہم لوگ اپنے زمانہ میں نہ علماء سے مناقشہ کرتے تھے اور نہ ہی مجادلہ کرتے تھے جس طرح آج کی آپ لوگوں کی طرح کی نئی نسل کرتی ہے ،آپ  لوگ ہر چیز میں شک کرنے لگے  حدیہ ہے کہ اب دین میں بھی شک کرنے لگے ۔اب قیامت کے آثار ہیں ۔ کیونک رسول نے فرمایا ہے ۔قیامت برے لوگوں ہی کی وجہ سے آئےگی ۔

میں :-مولانا! آپ مجھے خوفزدہ کررہےہیں ۔میں خود دین میں شک کروں یا دوسرے کو مبتلا کروں اس سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں ، میں اس خدائے واحد پر ایمان لایا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ اس کے ملائکہ اس کی نازل کردہ کتابوں ،بھیجے ہوئے رسولوں پر ایمان رکھتاہوں ۔ میں خدا کے بندے اور اس کے رسول سیدنا محمد پر ایمان رکھتا ہوں ، اور یہ تسلیم کرتاہوں کہ وہ انبیاء ومرسلین میں سب سے افضل تھے اور میں ایک مسلمان ہوں،

۱۷۰

پھر آپ مجھ پر کیوں اتہام لگارہے ہیں ؟

مولانا :- میں تو تم پر اس سے بھی بڑا الزام لگاتا ہوں ۔ تم سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر کے بارے میں شک کرتے ہو حالانکہ رسول خدا نے فرمایا ہے : اگر میری پوری امت کے ایمان کو ابو بکر کے ایمان سے تولا جائے تو ایمان  ابو بکر کا پلہ بھاری ہوگا ۔اور سیدنا عمر کے بارے میں فرمایا  ہے : میری امت میرے اوپر پیش کی گئی تو وہ ایسی قمیص  پہنی تھی  جو سینہ تک بھی نہیں پہنچ پارہی تھی پھر میرے سامنے عمر کو پیش کیا گیا ان کی قمیص زمین کو خط دے رہی تھی لوگوں  نےکہا حضور آپ نے اس کی کیا تاویل فرمائی ؟ فرمایا : دین ! اور تم آج چودھویں صدی ہجری میں آئے ہو ۔عدالت صحابہ میں شک کرتے ہو۔ خصوصا ابو بکر وعمر کی عدالت میں کیا تم نہیں جانتے اہل عراق سب کے سب اہل شقاق ہیں ۔ اہل کفر ونفاق ہیں ؟

میں :- میری سمجھ میں نہیں آرہا  تھا کہ میں اس شخص کے بارے میں کیاکہوں جو ادعائے علم کرتا ہے اور گناہوں پر فخر کرتا ہے ۔ اب وہ احسن طریقہ جدال سے جھوٹ ،افتراء اور ایسے لوگوں کے سامنے جو آنکھ بند کرکے دین کو پسند کرتے ہیں جھوٹے جھوٹے الزامات لگانے لگا ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ لوگوں کی آنکھیں سرخ ہوگئیں ۔ اوربعضوں کے گردن کی رگیں پھول گئیں ، اور میں نے ان کے چہروں سے شرکاہ کا اندازہ کرلیا ۔ لہذا فورا دوڑ کر گیا اور امام مالک کی کتاب "موطاء" اور صحیح بخاری اٹھا لا یا ۔اور عرض  کیا مولانا صاحب مجھے جس چیز  نے ابو بکر کے بارے میں شک پر ابھارا وہ خود رسول خدا کی ذات ہے ۔ لیجئے موطا پڑھیئے ۔ مالک نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے احد کے شہیدوں کے لئے فرمایا : میں ان لوگوں کی گواہی دیتاہوں ! اس پر ابو بکر صدیق نے کہا : اے رسو اللہ(ص) کہ ہم ان کے بھائی نہیں ہیں  ہم بھی اسی طرح اسلام لائے جیسے وہ لائے تھے ہم نے بھی اسی طرح جہاد کیا ۔جس طرح انھوں نے جہاد کیا تھا ۔رسول خدا نے فرمایا : ہاں! لیکن مجھے نہیں معلوم  کہ تم لوگ میرے بعد کیا احداث (ایجاد بدعت) کروگے ۔ اس پر ابو بکر روئے پھر اور روئے اور کہا (کیا ) ہم آپ کے بعد

۱۷۱

باقی رہیں گے(1) ۔

اس کے بعد میں نے صحیح بخاری کھولی اس میں ہے : عمر بن خطاب حفصہ  کے پاس آئے حفصہ کے پاس اسماء بنت عمیس بھی موجود تھی عمر نے اسماء کو دیکھ کر پوچھا یہ کون ہے ؟ حفصہ نےکہا اسماء بنت  عمیس ! عمر نے کہا یہی  حبشہ  ہے یہی بحریہ ہے ۔ اسماء نے کہا :ہاں ! اس پر عمر بولے : ہماری ہجرت تم سے پہلے ہے اس لئے ہم رسول خدا سےبہ نسبت تمہارے زیادہ احق ہیں ! اسماء کو یہ سن کر غصہ آگیا اور بولیں: ہر گز نہیں خدا کی قسم ایسا ہیں ہوسکتا ۔تم رسول اللہ کے ساتھ تھے ،آپ تمہارے بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے ۔جاہلوں کو وعظ کرتے تھے  اور ہم لوگو ایسی (جگہ )یا زمین میں تھے جو اجنبیوں کی اور دشمنوں کی تھی ۔حبشہ میں ہم نے جو کچھ کیا ہو خدا اور اس کے رسول  کے لئے کیا خدا کی قسم ہم لوگ  جب بھی کھانا کھا تے یا پانی پیتے تھے رسول خدا کا ذکر ضرور کرتے تھے  ،ہم کو اذیت پہونچتی تھی ۔ہم  ہر وقت  خوفزدہ رہتے تھے ۔(لہذا تم لوگ ہمارے برابر کیسے ہوسکتے ہو؟ ) میں اس واقعہ کا ذکر رسول سے ضرور کروں گی ۔ خدا کی قسم ان سے پوچھو ں گی  نہ جھوٹ بولوں گی نہ (کمی )و زیادتی کروں گی ۔ پھر جب رسول خدا آئے تو اسماء نے کہا یا رسول اللہ عمر نے یہ کہا تھا آنحضرت نے پوچھا تم نے کیا کیا ؟ اسماء نےکہا میں نے یہ یہ کہا ! آنحضرت نے فرمایا : تم سے زیادہ وہ حق نہیں ہے ۔ ان کے اوران کے ساتھیوں کی صرف ایک ہجرت ہر اور تم اہل سفینہ کی دو دو ہجرت ہے ۔اسماء بیان کرتی ہیں( اس واقعہ کے بعد) ابو موسی  اور دیگر اصحاب سفینہ برابر میرے پاس آتے تھے اور اس حدیث کے بارے میں پوچھتے تھے ۔ دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جو ان لوگوں کے دلوں کو اس حدیث سے زیادہ فرجت بخشی ہو ہور نہ ہی کوئی چیز ان کے نزدیک اس سے بھی زیادہ اہم تھی(2)

--------------

(1):- موطاء امام مالک ج 1 ص 307 المغازی للواقدی ص 310

(2):- صحیح بخاری ج 3 ص 287 باب غزوہ خیبر "

۱۷۲

جب شیخ(مولانا ) نے  اور ان کے ساتھ لوگوں نے اس کو پڑھا تو ان کے چہرے بدل گئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ، اور یہ سب اس کا انتظار کرنے لگے کہ دیکھیں مغلوب مولانا صاحب کیا جواب دیتے ہیں لیکن مولانا نے بڑے تعجب سے پلکوں کو اٹھا کر دیکھا اور فرمایا : رب زدنی علما (خدا یا میرے علم میں اضافہ کر)

میں :- جب سب سے پہلے خود رسول اللہ نے ابو بکر کے بارے میں شک کیا اورابو بکر کیلئے گواہی  نہیں دی ،اس لئے کہ حضور کو معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ آنحضرت کے بعد کیا کیا کریں گے ؟اور جب  خود رسول خدا(ص) نے اسماء بنت عمیس پر عمر بن خطاب کی فضیلت کو قبول نہیں کیا ،بلکہ اسماء کو عمر پر فضیلت  نہ دوں ،اور ظاہر  ہے کہ یہ دونوں حدیثیں  تمام ان حدیثوں سے متعارض ہیں جو ابو بکر وعمر کی فضیلت  میں وارد ہوئی ہیں بلکہ یہ دونوں حدیثیں واقع سے بہت قریب ہیں اور سمجھ میں آنے والی ہیں بہ نسبت فرضی حدیثوں کے جو فضائل میں آئی ہیں بلکہ یہ دونوں تمام فضائل والی حدیثوں کو باطل کردیتی ہیں ، حاضرین نے کہا یہ کیسے؟

میں :-رسول خدا(ص) نے ابو بکر کی گواہی نہیں دی اور فرمایا :نہ معلوم میرے بعد تم کیا کیا کروگے ؟ اور یہ بات معقول ہے اور قرآن نے اس کا اثبات کیا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ ان لوگوں نے رسول کے بعد بہت سی تبدیلی کردی ۔ اسی لئے ابوبکر روئے تھے کیونکہ انھوں نے تبدیلی بھی کی تھی اور حضرت فاطمہ کو غضبناک بھی کیا تھا (جیسا کہ گزرچکا ) اور اسی تبدیلی کی وجہ سے مرنے کے پہلے بہت پشیمان تھے اور یہ تمنا کرتے تھے کہ کا ش میں بشر نہ ہوتا ۔

اب رہی ایمان  ابو بکر والی حدیث کہ تمام امت سے اس کاوزن زیادہ تھا تو یہ باطل بھی ہے اور عقل میں نہ آنے والی بھی ہے اس لئے کہ جو شخص چالیس سال تک مشرک رہا ہو ، بتوں کی پرستش کرتا رہا ہو وہ پوری امت محمدی کے ایمان سے زیادہ  ایمان رکھتا ہو ناممکن ہے ۔کیونکہ امت محمدی کے اندر اولیاء اللہ شہدا اور وہ ائمہ بھی ہیں جنھوں نے اپنی پوری عمریں جہاد فی

۱۷۳

سبیل اللہ میں گزاردیں پھر ابو بکر اس حدیث کے مصداق کیسے ہوسکتے ہیں ؟ اگر واقعا یہی مصداق ہوتے تو عمر کے آخری حصہ میں یہ تمنا نہ کرتے کہ کاش میں بشر نہ ہوتا ۔ اگر ان کا ایمان پوری امت سے زیادہ ہوتا تو سیدۃ النساء فاطمہ بنت رسول ان پر غضبناک نہ ہوتیں اور ہر نماز کے بعد ابو بکر پر بد دعا نہ کرتیں ۔

 مولانا صاحب تو چپ رہے  کچھ بولے ہی نہیں لیکن بعض موجود لوگوں نے کہا :خدا کی قسم اس حدیث نے ہم کو شک میں ڈال دیا ۔ اس وقت مولانا صاحب بولے

مولانا:- آپ یہی چاہتے تھے نا !؟ آپ نے سب کوشک میں مبتلا کردیا ۔میرے جواب دینے کے بجائے انھیں میں سے ایک بول اٹھا :جی نہیں ! حق انھیں کے ساتھ ہے ہم نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی کتاب مکمل نہیں پڑھی ہو لوگ تو آپ حضرات کی اندھی تقلید کرتے تھے جو کہتے تھے ۔بے چون وچرا مان لیتے تھے ۔اب ہم پر حقیقت ظاہر ہوئی کہ حاجی جو کہہ رہے ہیں وہی صحیح ہے اب ہمارا فریضہ ہے کہ پڑھیں اور بحث کریں بعض اور  حاضرین نے بھی اس شخص کی تائید کی اور درحقیقت یہ حق وصداقت کی فتح تھی یہ جبر وقہر کا غلبہ نہیں تھا البتہ عقل ودلیل وبرہان کی کامیابی تھی اگر تم سچے ہوتو اپنی دلیل پیش کرو!

اس واقعہ نے میری ہمت بڑھا دی او ر میں نے بحث کے دروازوں کو پاٹوں پاٹ کھول اور دیا اور بسم اللہ وبا للہ وعلی ملۃ رسول اللہ کہہ کر اس میں کود پڑا ۔پروردگار عالم سے ہدایت وتوفیق کی امید رکھتے ہوئے کیونکہ اس نے وعدہ کیا ہے جو حق کو تلاش کرے گا ۔ وہ اس کی ہدایت کرے گا اور خدا وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔

بڑی دقت کے ساتھ مسلسل تین سال تک میں بحث وتحقیق کرتارہا  کیونکہ جو پڑھتا تھا اس کو دہراتا تھا ۔اور بعض اوقات تو بار بار ایک کتاب کوپہلے صفحہ سے آخری صفحہ تک پڑھتا تھا ۔

چنانچہ میں نے علامہ شرف الدین الموسوی کی "المراجعات"پڑھی اور کئ کئی بار پڑھا اس کتاب نے میرے سامنے ایسے نئے آفاق کھول دیئے جو میری ہدایت کاسبب بنے اور میرے دل میں

۱۷۴

پیش کش کوئی بھی چیز سات صدی تک ائمہ اہلبیت کی پیروی سے نہیں ہٹا سکی ،حالانکہ ان سات صدیوں میں شیعوں کو دربدر کیا گیا ۔ دفتر عطا سے ان کے نام کاٹ دیئے  ان کوچن چن کر جبال وکوہ میں تلاش کرکے قتل کیاگیا ان کے خلاف ایسے ایسے جھوٹے پروپیگنڈے کئے گئے جس سے لوگ ان سے نفرت کرنے لگے اور اس کے آثار آج بھی شیعوں میں باقی ہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ائمہ اہلبیت کوچھوڑ کر کسی اور کی پیروی نہیں کی ۔

لیکن ان تمام مصائب کا بڑے صبر وسکون وثبات قدم سے مقابلہ کرتے ہوئے شیعوں نے حق کا دامن نہیں چھوڑا اور نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ کی ،میں آج بھی اپنے بڑے سےبڑے عالم کو چلینج کرتاہوں کہ وہ شیعہ علماء کے پاس بیٹھ کر ان سے بحث کرے تو شیعہ ہوئے بغیر واپس نہیں ہوگا ۔

اس خدا کا شکر ہے جس نے ہماری اس بات کی ہدایت کی اور اگر خدا ہدایت نہ کرتا تو ہدایت ناممکن تھی ۔خدا کی حمد اور ا س کا شکر ہے کہ اس نے فرقہ ناجیہ تک میری رہبری کردی جس کی مدتوں سے تلاش تھی اور اب مجھے یقین ہے کہ حضرت علی واہل بیت سے تمسک عروۃ الوثقی سے تمسک  ہے اور احادیث رسول بھی بکثرت  اس پر موجود ہیں اور مسلمانوں نے ان پر اجماع کیا ہے اور جو بھی گوش شنوا رکھتا ہوگا صرف عقل ہی اس کے لئے بہترین دلیل ہے ، علی الاطلاق حضرت علی تمام صحابہ سے اعلم اورسب سے زیاد ہ شجاع تھے اور امت کا اس پر اجماع ہے ۔ صرف یہی اجماع حضرت علی کے مستحق خلافت ہونے پر مضبوط دلیل ہے ۔خدا وند عالم کا ارشاد ہے:-" وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكاً قَالُوَاْ أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ"(پ 2 س2 (بقره) آیت 247)

ترجمہ:- اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ بیشک خدا نے تمہاری درخواست کے مطابق

۱۷۵

طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر کیا ہے تب کہنے لگے ۔اس کی حکومت ہو پر کیوں کر ہوسکتی ہے ۔ حالانکہ سلطنت کے حقدار اس سے زیادہ تو ہم ہیں ۔ کیونکہ اسے تو مال کے اعتبار سے بھی فارغ البالی تک نصیب نہیں (نبی نے کہا)خدا نے اسے تم پر فضیلت دی ہے اور (مال میں نہ سہی )علم اور جسم کا پھیلاؤ تو اسی خدا نے زیادہ فرمایا ہے اور خدا اپنا ملک جسے چاہے دے اور خدا بڑا گنجائش والا ہے اور واقف کارہے ۔اور رسول  نے فرمایا : ان علیا منی وانا منہ وھو ولی کل مومن بعدی(3) ۔یقینا علی مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ۔ اور علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں ۔ زمخشری نے چند اشعار حضرت علی کے لئے کہے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔

کثر الشک ولاختلاف وکل ----- یدعی انّه الصراط السوی

فتمسک بلا اله الا الله----- وحبی لاحمد وعلی

فاز کلب یحب اصحاب الکهف ----کیف اشقی بحب آل علی

اختلاف اور شک بہت زیادہ ہوگیا ہے اور ہر شخص یہی دعوی کرتا ہے کہ وہ سیدھے راستہ پر ہے لہذا میں نے لا الہ الا اللہ سے تمسک کیا اور احمد وعلی کی محبت سے ، اصحاب کہف کا کتا ان سے محبت کرنے کی وجہ سے کامیاب ہوگیا۔ پھر بھلا میں آل علی سے محبت کرکے کیوں نہ کامیاب ہوجاؤں

ہاں الحمدللہ میں نے بدل پالیا ۔ اور رسول خدا کے بعد امیر المومنین سید الوصین ،قائد الغر المحجلین اسداللہ الغالب  الامام  علی ابن ابی طالب اور سیدی شباب الجنۃ ریحانتی الرسول ، ابی محمد الحسن الزکی اور الامام ابی عبداللہ الحسین اور بضعۃ المصطفی ،سلالۃ النبوۃ وام الائمہ ،معدن الرسالہ ،جن کے غضب پر موقوف ہو غضب رب العزت سیدۃ النساء العالمین فاطمۃ الزہراء کی پیروی کرنے لگا ۔

امام مالک کے بدلے استاذ الائمہ معلم الامہ الامام جعفر الصادق علیہ السلام کواختیار کر لیا امام حسین کی ذریت

--------------

(1):- صحیح ترمذی ج 5 ص 296 ،خصائص نسائی ص 87 ع،مستدرک الحاکم ج 3 ص 110

۱۷۶

سے نو معصومین جو ائمہ المسلمین ہیں اور اولیاء اللہ الصالحین ہیں ان سے تمسک کرنے لگا ۔

الٹےپاؤں کفر کی طرف پلٹ جانے والے صحابہ جیسے معاویہ ،عمر وعاص ،مغیرہ بن شعبہ ،ابی ہریرہ عکرمہ ،کعب الاحبار ، کے بدلے ان صحابہ کو اختیار کرلیا جنھوں نے پیغمبر سے کئے ہوئے معاہدے کو توڑا نہیں ۔ جیسے عمار یاسر ، سلمان فارسی ، ابو ذر غفاری ،مقدادبن الاسود ،خزیمہ بن ثابت ،ذوالشہادتین  ابی بن کعب وغیرہ اور اس بابصیرت افروز تبدیلی پر خدا کی حمد وثنا کرتا ہوں ۔

اور اپنی قوم کے ان علما کے عوض جنھوں نے ہماری عقلوں کو جامد کردیا اور جن کی اکثریت نے ہرزمانہ میں حکام وسلاطین کی جی حضوری کی ،ان شیعہ علماء کو اختیار کیا جنھوں نے کبھی اجتھاد کادروازہ بند نہیں کیا اور نہ کبھی دینی معاملات میں سستی دکھائی ۔اورنہ کبھی ظالم وجابر امراء وسلاطین کی چوکھٹ پر جب سائی کی ۔

 ہاں متعصب وپتھر جیسے سخت افکار :جو تناقضات پر عقیدہ رکھتے ہوں"  کے بدلے آزاد روشن کھلے ذہن ودماغ والے ،افکار کو اختیار کرلیا جو حجت ودلیل وبرہان پر ایمان رکھتے  ہیں اور جیسا کہ آج کل کہا جاتا ہے ہم نے اپنے ذہن پر تیس 30 سال کرے پڑے ہوئے گرد  دوغبار کو دورکرکے اپنے دماغ کو دھوڈالا یعنی  بنی امیہ کی گمراہیوں کے بدلے میں معصومین  پر عقیدہ رکھ کر اپنی باقی زندگی کو پاک کر لیا ۔ خداوند  محمد وآل محمد کی ملت پر زندہ  رکھ اور ان کی سنت پر موت دے انھیں کے ساتھ میرا حشر کر کیونکہ تیرے نبی کا قول ہے : انسان جس کو دوست رکھتا ہے اسی کے ساتھ محشور ہوتا ہے ۔۔شیعہ ہوکر میں اپنی اصل کی طرف پلٹ آیا ۔کیونکہ  میرے باپ اورچچا شجرہ نسب کے اعتبار سے بتایا  کرتے تھے کہ ہم ان سادات میں ہیں جوعباسی حکومت کی ناقابل برداشت سختیوں سے مجبور ہوکر عراق سے فرار کرکے شمالی افریقہ میں پنا ہ گزیں ہوگئے تھے ۔ اورآج تک ہمارے آثار وہاں باقی ہیں اور شمال افریقہ مین ہم جیسے بہت ہسے ہیں جو اشراف کہلاتے ہیں کیوں کہ وہ نسل سادات سے ہیں لیکن وہ لوگ بنی امیہ وبنی عباس کی بدعتوں میں سرگرداں ہوگئے ۔ اور اب ان کے پاس سوائے اس احترام کے جو لوگوں کے دلوں میں اب تک موجود ہے ۔کچھ نہیں ۔ خدا کی حمد ہدایت  دینے پر ہے ۔ شیعہ ہونے پر ہے اور بصارت وبصیرت کے حق پر ہونے پر ہے ۔

۱۷۷

اسباب تشیع

جن اسباب کی بنا پر میں شیعہ ہوا ہوں وہ تو بہت ہیں ، اس مختصر سے رسالہ میں ان سب کے تحریر کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔ صرف بعض اسباب کاذکر کرتاہوں ۔

(1):- خلافت پر نص

چونکہ اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے میں نے قسم کھالی تھی کہ انھیں چیزوں پر اعتماد کروں گا جو فریقین (سنی وشیعہ)کے نزدیک معتمد ہوں اور جس کو کسی ایک فرقہ نے لکھا ہے اس کو چھوڑ دوں گا ۔اسی اصول پر میں نے ابو بکر اور علی میں سے کس کو کس پر فضیلت ہے " کے مسئلہ پر بحث کی اور یہ کہ خلافت علی کے لئے نص موجود ہے جیسا کہ شیعہ حضرات کا دعوی ہے یا خلافت کا مسئلہ انتخاب وشوری پر موقوف ہےجیسا کہ اہل سنت والجماعت کا دعوی ہے ۔

جو یائے حق اگر اپنے کو تمام تعصبات سے الگ کرکے صرف حقیقت کو تلاش کریگا تو اس کو حضرت علی کی خلافت پر نص مل جائے گی ،جیسے نبی کریم کا ارشاد ہے " من کنت مولاہ فعلی مولاہ " جب آنحضرت حجۃ الوداع سے واپس آرہے تھے تو اس حدیث کو ارشاد فرمایا تھا اور اس ارشاد کے بعد یا باقاعدہ مبارکبادی کی رسم ادا کی گئی اورخود ابو بکر وعمر نے حضرت علی کو ان الفاظ سے تہنیت پیش کی :- ابو طالب کے فرزند مبارک ہو مبارک تم تمام مومنین ومومنات کے مولا ہوگئے(1)

--------------

(1):- مسند احمد بن حنبل ج 4 ص 281 ، سر العالمین للغزالی ص 12 ،تذکرۃ الخواص (ابن جوزی) ص 29 ،الریاض النضرہ (طبری )ج 2 ص 169، کنز العمال ج 6 ص 397 ، البدایۃ والنھایہ (ابن کثیر) ج 5 ص 212 ،تاریخ ابن عساکر ج 2 ص 50 ،تفسیر رازی ج 2 ص 63 ،الحاوی للفتاوی (سیوطی ) ج 1 ص 112

۱۷۸

اس حدیث پر سنی شیعہ سب کاا جماع ہے اس بحث میں میں صرف اہل سنت کی کتابوں کا حوالہ دے رہا ہوں وہ بھی سب نہیں بلکہ جتنا میں نے ذکر کیا ہے اس کا کئی گنا چھوڑدیا ہے اگر کوئی مزید تفصیل چاہتا ہے تو وہ علامہ امینی کی"الغدیر" کا مطالعہ کرے جس کی اب تک 13 جلدیں چھپ چکی ہیں ۔ اس کتاب میں مصنف نے صرف ان راویوں کا ذکر کیا ہے جو اہل سنت والجماعت  کے یہاں ثابت ہیں ۔ اب رہی یہ بات کہ سقیفہ میں ابو بکر کے انتخاب پر اجماع ہوگیا تھا اور اس کے بعد مسجد میں ان کی بیعت کی گئی تو یہ صرف دعوی ہی دعوی ہے اس پر دلیل نہیں ہے ۔ کیونکہ جب حضرت علی ،حضرت عباس ، تمام بنی ہاشم ، اسامہ بن زید ، سلمان فارسی ، ابو ذر غفاری ، مقداد بن اسود ، عمار یاسر، حذیفہ یمانی ، خزیمہ بن ثابت ، ابو بریدہ الاسلمی ، البراء بن عازب ،ابی ابن کعب ، سہل بن حنیف ،سعد بن عبادہ ، ابو ایوب انصاری ،جابر بن عبداللہ انصاری  ،خالد بن سعید اور ان کے علاوہ بہت سے صحابہ نے بیعت سے انکار کیا(1) ۔ تو خدا کے بندو! اب اجماع کہاں رہا؟ حالانکہ اگر صرف حضرت علی ہی بیعت نہ کرتے  تو یہی بات اجماع پر طعن کے لئے کافی تھی ۔ کیونکہ بالفرض اگر رسول اکرم کی طرف سے علی کے لئے نص نہیں تھی تو خلافت کے تنہا کنڈیٹ تو بہر حال  وہ تھے ۔

حضرت ابو بکر کی بیعت کسی مشورہ کے ہوئی ہے بلکہ لوگ متوجہ ہی نہیں تھے خصوصا  اہل حل وعقد کو پتہ ہی نہیں چلا کہ بیعت ہوگئی  جیسا کہ علمائے مسلمین کہتے ہیں کیونکہ لوگ تو رسول کی تجہیز وتکفین میں مشغول تھے ، صورت حال یہ ہوئی کہ مدینہ والوں کو دفعۃ اپنے نبی کے مرنے کی اطلاع ہوئی اور وہ

--------------

(1):-طبری ،ابن اثیر ، تاریخ الخلفاء ، تاریخ الخمیس ، استیعاب ، بلکہ جن لوگوں نے بھی ابو بکر کی بیعت کا ذکر کیا ہے ۔

۱۷۹

لوگ ابھی رونے پیٹنے ہی میں تھے ، کہ لوگوں سے زبردستی بیعت لے لی گئی(1) ۔ اور اس زبردستی کا ثبوت اس واقعہ سے بھی ملتا ہے کہ لوگوں نے حضرت فاطمہ کے گھر کو جلا دینے کی دھمکی بھی دی  کہ بیعت نہ کرنے والے نہ نکلے تو ہم اس گھر کو آگ لگا دیں گے ۔۔۔ پھرآپ ہی بتائیے ایسی صورت میں یہ بات کیسے کہی جاسکتی ہے کہ ابو بکر کی بیعت لوگوں کے مشورہ اور اجماع سے ہوئی ہے ؟

خود حضرت عمر کا فرمان ہے : ابو بکر کی بیعت بغیر سوچے سمجھے عمل میں آگئی ہے خدا نے مسلمانوں کو اس کے شر سے بچالیا  اب اگر کوئی ایسا کرے تو اس کو قتل کردو ۔ (دوسری روایت میں ہے ) جو اس قسم کی بیعت کے لئے دعوت دے اس کو قتل کردو ! پس معلوم ہوا کہ نہ تو ابو بکر کی بیعت (صحیح )ہوئی ہے اور نہ لوگوں کی جنھوں نے ان کی بیعت کی ہے(2)

اسی بیعت کے لئے حضرت علی فرماتے ہیں: خدا کی قسم ابو قحافہ کے بیٹے (ابو بکر) نے زبردستی کھینچ تان کر خلافت کی قمیص پہنی ہے حالانکہ ابو بکر جانتے ہیں خلافت کیلئے میں ایسا ہی ہوں جیسے وہ لوہا جس کے چاروں طرف چکی کا پاٹ گھومتا  رہتا ہے ،مجھ سے سیلاب (علم )جاری ہوتا ہے اور میرے بلندی (مرتبہ )تک پرندے پرواز نہیں کرسکتے(3)

قبلیہ ،انصار ےک سردار سعد بن عبادہ بیان کرتے ہیں : سقیفہ کے دن ابو بکر وعمر نے انصار پر ہجوم کرلیا ۔ میں نے بڑی کوشش کی ان کو خلافت سے روک دوں اور دور رکھوں لیکن مریض ہونے کی وجہ سے میں ان کا مقابلہ نہ کرسکا ! اورج ب انصار نے ابو بکر کی بیعت کرلی تو سعد نے کہا : خدا کی قسم میں کبھی تمہاری بیعت نہ کرو ں گا  ،یہاں تک کہ میرے ترکش میں جتنے تیر ہیں سب  تم پر نہ چلادوں اور اپنے نیزوں کی انیوں کو تمہارے خون سے خضاب نہ کردوں اور جب تک میرے ہاتھوں کی طاقت باقی ہے اس وقت تک تم تلوار سے حملہ نہ کروں اور اپنے خاندان  وقبیلے کے ساتھ تم سے جنگ نہ کروں خدا کی قسم اگر انسانوں کے ساتھ جن بھی تمہارے شریک ہوجائیں تب بھی تمہاری بیعت نہ کروں گا یہاں تک کہ اپنے خدا کے سامنے پیش ہوں

--------------

(1):- تاریخ الخلفاء (ابن قتیبہ )ج 1 ص 81

(2):صحیح بخاری ج 4 ص 127

(3):- شرح نہج البلاغہ (محمد عبدہ) ج 1 ص 34 خطبہ شقشقیہ 

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253