پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا 0%

پھر میں ہدایت پاگیا مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 253

پھر میں ہدایت پاگیا

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 253
مشاہدے: 75257
ڈاؤنلوڈ: 6962

تبصرے:

پھر میں ہدایت پاگیا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 253 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 75257 / ڈاؤنلوڈ: 6962
سائز سائز سائز
پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اور آخر کار ان کو امت اسلامیہ کا مرجع اکبر  کیونکہ آدھا دین تو صرف تنہا عائشہ کے پاس تھا ،

اور شاید دوسرا دین ابو ہریرہ کے پاس تھا ،جس نے بنی امیہ کے حسب منشاء خوب خوب روایات جعل کی تھیں اسی لئے انھوں نے ابو ہریرہ کواپنا مقرب بنالیا ، مدینہ کی گورنری ابوہریرہ کے حوالہ کودی، ابو ہریرہ کے لئے "قصرعقیق" بنوایا گیا ، جب کہ یہ بیچارے ایک مفلس قلاش آدمی تھے ان کو راویہ الاسلام کا لقب دیا گیا ، اسی طرح بنی امیہ کے پاس ایک نیا پورا دین آگیا ۔۔۔آدھا عائشہ کے ذریعہ آدھا ابو ہریرہ کے ذریعہ ۔۔۔جس میں کتاب خدا اور سنت رسول نام کی صرف وہ چیزیں تھیں جن کو یہ لوگ پسند کرتے تھے ، اور جس کے ذریعہ  ان کی سلطنت مضبوط ہوسکتی تھی ظاہر ہے کہ یہ دین تناقضات  وخرافات کا مجموعہ ہوگا ۔ اور اس طرح حقائق کو ختم کرکرے ان کی جگہ تاریکیوں کو دیدی گئی اور بنی امیہ نے لوگوں کو اسی نئے دن پر چلانا شروع کردیا اوراسی پر لوگوں کو ابھارا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین خدا ایک مضحکہ خیز چیزیں کے رہ گیا ۔ جس کی کوئی قدروقیمت ہی نہ رہی اور لوگ معاویہ سے اتنا ڈرنے لگے جتنا خدا سے نہیں ڈرتے تھے ۔

ہم جب اپنے علماء سے پوچھتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب جنکی بیعت مہاجرین وانصار نے کی تھی ان سے معاویہ کا جنگ کرنا کیسا ہے ؟ اور جنگ بھی ایسی کہ جس نے مسلمانوں کو شیعہ ،سنی دوفرقے میں بانٹ دیا ار اسلام میں اس کی وجہ سے ایسا رخنہ پڑگیا جو آج تک نہ بھر سکا ، تو وہ لوگ بڑی سادگی  سےحسب عادت جواب دیتے ہیں : علی ومعاویہ دونوں ہی بڑے جلیل القدر صحابی ہیں دونوں نے اجتہاد کیا علی کا اجتہاد مطابق واقع تھا لہذا ان کو دو اجر ملے گا لیکن معاویہ نے اپنے اجتہاد میں غلطی کی اس لئے ان کو صرف ایک اجر ملے گا ۔ہمارے لئے جائز نہیں ہے کہ ان کے حق میں یا ان کے بر خلاف کچھ کہیں ، خود خدا وند عالم کا ارشاد ہے ،تلک امة قد خلت لها ما کسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون(پ 1 س 2 (البقرة)آیت 132)

ترجمہ:- (اے یہودیو) وہ لوگ تھے جو چل بسے جو انھوں نے کمایا ان کے آگے آیا اور جو تم کماؤ گے تمہارے آگے آئیگا اور جو کچھ وہ کرتے تھے اس کی پوچھ گچھ تم سے نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔

۱۶۱

افسو س کی بات یہی ہے کہ ہمارے علماء کے جوابات اسی قسم کے ہوتے ہیں جو سفسطہ ہوتے ہیں ۔جن کو نہ عقل قبول کرتی ہے نہ دین نہ شریعت ۔۔ میرے معبود  میں رائ کی غلطی ،خواہش کی لغزش ،شیاطین کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتاہوں ۔

بھلا وہ کون سی عقل سلیم ہے جو معاویہ کے اس اجتہاد پر اس کے لئے اجر کی قائل ہوگی جس کی بنا پر اس نے امام المسلمین سے جنگ کی بے گناہ مومنین کو قتل کیا ، ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا جس کا شمار صرف خدا ہی کرسکتا ہے ،مورخین کے نزدیک مشہور ہے کہ معاویہ اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کے لئے اور ان کو راستہ سے ہٹانے کے لئے  اپنے مشہور طریقہ پر عمل کرتا تھا یعنی زہر آلود شہد کھلا دیتا تھا اورکہا کرتا تھا :خدا کا لشکر تو شہد میں ہے ۔

نہ معلوم یہ لوگ کیسے اس کو مجتہد مانتے ہیں اور اس کو اجر دینے کے لئے تیار ہیں حالانکہ "باغی گروہ" کا سردار تھا چنانچہ  مشہور حدیث  میں جس کو تمام محدثین نے لکھا ہے " آیا ہے : افسوس عمار یاسر پر ہے جس کو ایک باغی گروہ قتل کرےگا ۔ ۔۔اور معاویہ واس کے اصحاب نے جناب عمار کو قتل کیا ہے اس کو کیونکر مجتہد کہتے ہیں جس نے حجر بن عدی اور اس کے اصحاب کر بڑی بے دردی سے قتل کیا اور صحرائے شام  میں" مرج عذرا" میں دفن کردیا کیونکہ ان لوگوں نے حضرت علیج پر لعنت کرنے سے انکار کردیا تھا ۔۔۔۔۔ جس شخص نے سردار جوانان جنت امام حسن کو زہر دے کر قتل کرادیا کیسے اس کو عادل صحابی مانتے ہیں ؟ جس شخص نے امت مسلمہ سےجبرو زبر دستی سےپہلے تو اپنے لئے پھراپنے بد کار بیٹے یزید کے لئے بیعت لی جس نے شوری کے نظام کو بدل کر قیصر کی حکومت قائم کی(1)

جس نے لوگوں کو حضرت علی اور ان کے اہل بیت پر منبروں سے لعنت کرنے کیلئے مجبور کیا اور جن لوگوں نے انکار کیا ان کو قتل کردیا اور یہ لعنت ایسی سنت بن گئی جس پر جوان بوڑھے ہوگئے بچے جوان ہوگئے ،بھلا ایسے شخص کو کیوں کر مجتھد کہا جاسکتا ہے؟ اور اس کو مستحق اجبر قرار دیا جاسکتا ہے؟

--------------

(1):- خلافت وملوکیت (مودودی )یوم الاسلام (احمد امین)

۱۶۲

لا حول ولا قوة الا با الله

پھر یہی سوال اٹھتا کہے کہ دونوں میں سے کون حق پر تھا اور کون باطل پر تھا ؟ یا تو علی اور ان کے شیعہ ظالم تھے اور باطل پر تھے اوریا معاویہ اور اس کے ساتھی ظالم تھے اور باطل پر تھے ۔ حالانکہ رسول اللہ نے سب چیز واضح کردیا تھا ۔جو بھی ہو ہر صورت میں تمام صحابہ کی عدالت بہر حال ثابت نہیں ہوتی ۔اور نہ یہ منطق عقل سلیم پر پوری اترتی ہے ،ہر ہر چیز کی متعدد مثالیں ہیں جن کو خدا کے علاوہ کوئی احصاء نہیں کرسکتا ۔

اگر میں تفصیل میں جاؤں  اور ہر واقعہ کے بارے میں ہر پہلو سے بحث کروں تو کئی ضخامت جلدوں کی ضرورت ہوگی ۔ مگر چونکہ میں نے  اختصار  کا ارادہ کرلیا ہے  اور اس بحث میں صرف بعض مثالوں پر اکتفاء کی ہے ۔ اور یہ الحمداللہ ہماری قوم کے مزعومات کو باطل کرنے کے لئے کافی ہے ہماری قوم کا عالم یہ ہے کہ مدتوں سے ہماری فکروں   کو جامد بنادیا ہے اوریہ پابندی لگادی ہے کہ میں حدیث سمجھنے کی کوشش نہ کروں ۔ عقل وشریعت کے معیار پر تاریخی واقعات کی تحلیل نہ کروں ۔ جب کہ قرآن کریم اور سنت رسول ہم کو میزان عقل پر تولنے کا حکم دیتی ہے ۔

اس لئے میں نے طے کر لیا ہے کہ میں سرکشی کروں گا اور تعصب کے جس غلاف میں مجھے لیٹا گیاہے ، اس سے باہر نکلوں گا ۔ ب یس سال سے جن بیڑیوں میں مجھے جکڑا گیا ہے اس سے آزادی حاصل کرکے رہوں گا ۔ میری زبان حال ان سے کہہ رہی ہے ۔ اے کاش میری قوم یہ جان لیتی کہ میرے خدانے مجھے کیوں بخش یدا اور میرا اکرام کیوں کیا ۔کاش میری قوم بھی اس نئی دنیا کا انکشاف کر لیتی جس کی وہ جہالت کے باوجود شدت سے مخالفت کرتی ہے ۔

٭٭٭٭٭

۱۶۳

تبدیلی کاآغاز

تین مہینے تک میں بہت پریشان رہا ۔ عالم یہ تھا کہ خواب میں بھی افکار مجھے پریشان کرے ۔مختلف قسم کے وہم وگمان افکار ووسواس میں گھرا رہتا تھا ۔  خصوصا بعض اصحاب سے تو مجھے اپنی جان کا خوف تھا ۔ کیونکہ تاریخی واقعات جو مجھے بتائے گئے ہو حیرتناک  حد تک ڈراونے تھے ۔ اس لئے کہ پوری زندگی مجھے جو تربیت دی گئی تھی وہ اولیاء اللہ اور اس کے نیک بندوں کا احترام کرنا تھا ورنہ اگر کوئی ان کے حق  میں بے ادبی کردے یا جسارت کردے چاہے ان کی عدم موجود گی  میں یا ان کے مرنے کے بعد بھی تو وہ لوگ بے ادبی کرنے والوں کو ضرور سزا دیتے تھے ۔اس لئے میں بہت ڈرتا تھا ۔ چنانچہ حیاۃ الحیوان (1) الکبری میں خود میں نے پڑھا تھا کہ ایک شخص عمر بن الخطاب کو گالیاں دیا کرتا تھا ،قافلہ والے اس کو روکتے تھے مگرو وہ نہیں مانتا تھا آخر ایک دن وہ پیشاب کررہا تھا کہ بہت ہی زہریلے سانپ نے اس کو ڈس لیا اور  وہ وہیں کا وہیں مرگیا ۔پھر لوگوں نے اس کے لئے قبر کھول دی تو دیکھا وہاں بھی کا لا زہریلا ناگ موجود  ہے ۔ پھر لوگوں نے دوسری قبر کھودی وہاں بھی وہ ناگ تھا ایسا کئی مرتبہ ہوا تو بعض عارفین نے کہا اس کو جہاں چاہے دفن کرو اگر تم پوری زمین بھی کھود ڈالو گے تو ہر جگہ یہ کالا سانپ ملے گا ۔ کیونکہ خدا اس کو آخرت سے پہلے دنیا میں عذاب دینا چاہتا ہے اس لئے کہ اس نے سیدنا عمر کو گالیاں دی تھیں ۔اس لئے میں خوفزدہ اور متحیر ہوکر اس مشکل بحث میں پڑنے سے کتراتا تھا خصوصا جب کہ میں نے "الزیتونیۃ یونیورسٹی" کی ایک فرع میں پڑھا تھا " افضل الخلفاء علی التحقیق سیدنا ابو بکر ہیں اس کے بعد حضرت عمر فاروق ہیں جو حق اور باطل میں فرق کرتے تھے ۔ اس کے بعد سیدنا عثمان بن عفان

--------------

(1):- یہ واقعہ الاسود السالخ کے حالات میں دمیری نے حیات الحیوان کے اندر لکھا ہے ۔

۱۶۴

ذوالنورین ہیں جن سے ملائکہ رحمان بھی شرماتے تھے ۔ اس کے بعد سیدنا علی باب مدینۃ علی نبی ہیں ان چاروں کے بعد عشرہ مبشرہ کے باقی چھ 6 افراد طلحہ ، زبیر ، سعد ، عبدالرحمان ،ابی عبیدہ ہیں ، اس کےبعد تمام صحابہ کانمبر آتا ہے ۔ہمارے علماء زیادہ تر اس آیت سے استدلا ل ہم کو سکھاتے ہیں :" لانفرق بین احد میں رسلہ " کہ تمام صحابہ کو ایک آنکھ سے دیکھنا چاہیے کسی پر کوئی اعتراض نہین کرنا چاہے ۔

اسی لئے میں کئی مرتبہ ڈرا اور کئی مرتبہ استغفار پڑھا ۔ اس بحث کو ختم کرنا چاہا کیونکہ اس سے صحابہ کے بارے میں شک ہونے لگتا ہے اور اس کانتیجہ اپنے دین میں شک کرتا ہوتا ہے ۔لیکن اس تمام مدت میں اپنے علماء سے بات کرنے پر مجھےبہت سے ایسے تناقضات ملے جن کو عقل قبول نہیں کرتی  اور علماء نے مجھے ڈرانا شروع کردیا اگر صحابہ کے بارے میں میں ایسی ہی بحث کرتا رہا تو خدا اپنی نعمت مجھ سے سلب کر لے گا ۔ اور مجھے ہلاک کردےگا لیکن ان تمام دشمنیوں  اور تکذیب کے بعد بھی  تلاش حقیقت کو خواہش نے ہر مرتبہ  مجھے نئی طرح سے بحث کرنے پر ابھارا اور میں نے اپنے اندر ایک ایسی قوت پارہا تھا جو مجھے بحث جاری رکھنے پر مجبور کر رہی تھی۔

٭٭٭٭٭

۱۶۵

ایک مولانا سے گفتگو

میں نے اپنے ایک عالم سے کہا :- جب معاویہ بے گناہوں کو قتل کرکے ،لوگوں کی عزت آبرو لوٹ کرکے آپ کے نزدیک مجتہد ہے ۔ اور ایک اجر کا مستحق ہے اور یزید فرزند رسول کو قتل کرکے مدینہ کو اپنے لشکر  کے لئے مباح کرکے خطا کار مجتہد ہوسکتا ہے اور ایک اجر کا مستحق ہے یہاں تک کہ آپ میں سے بعض نے یہاں تک کہدیا : حسین تو اپنے نانا کی تلوار سے قتل کئےگئے ۔ اس سے صرف فعل یزید  کو جائز کرنا مقصود ہے تو پھر اگر میں اجتہاد کروں اور بعض صحابہ کے بارف میں مشکوک ہوجاؤں اور بعض  کے بارے میں  مشکوک نہ ہوں  تو اگر میرا اجتہاد صحیح ہے تو مجھے بھی دو اجر اور غلط ہے تو ایک اجر تو ملنا ہی چاہیے جب کہ میرے اجتہاد کا قیاس معاویہ ویزید کے افعال پر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ قاتل اولاد پیغمبر ہیں اور میں تو صرف شک وعدم شک کی بحث میں ہوں اس کے علاوہ بعض صحابہ میں عیب  نکالنے کا مطلب ان پر سب وشتم اور لعن کرنا نہیں ہے بلکہ میرا مقصد تمام گمراہ  فرقوں میں نجات پانے والے فرقہ کی تلاش ہے ۔اور یہ صرف میرا ہی فریضہ نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کا فریضہ ہے تو آخر ایسا کرنے پر میں کیوں گردن زنی کے قابل ہوں ؟ اور خدا دلوں کے بھید سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ میرا ارادہ کیا ہے ؟

مولانا :- اے بیٹا ! باب اجتھاد مدتوں پہلے بند ہوچکا ہے ۔

میں :- کس نے بند کیاہے ؟

مولانا :-ائمہ اربعہ  نے (یعنی امام ابو حنیفہ ، مالک ، شافعی ، احمد بن حنبل نے )

میں :- (بڑی بے باکی سے ) اگر خدا اور رسول اور خلفائے راشدین (جن کی پیروی کا حکم دیاگیا ہے ) نے نہیں بند کیا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ جیسے ان لوگوں نے اجتہاد کیا تھا میں  بھی اجتہاد

۱۶۶

کروں گا ۔

مولانا:- جب تک تم کو سترہ 17 علوم میں مہارت نہ  جائے اجتہاد کرہی نہیں سکتے ان میں اہم علوم مثلا یہ ہیں ۔ تفسیر ،لغت ، نحو،صرف ، بلاغت ، حدیث ،تاریخ وغیرہ وغیرہ ،۔

میں :- نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا :- میں اس لئے اجتہاد کرنا نہیں  چاہتا کہ لوگوں کو قرآن وسنت کے احکام بتاؤں یا اسلام کے اندر میں بھی کوئی صاحب مذہب بن جاؤں ۔ہر گز نہیں ! میں تو صرف حق وباطل کو پہچاننے اور یہ سمجھنے کے لئے کہ حضرت علی حق پر تھے یہ حضرت معاویہ ؟! اجتہاد کرنا چاہتا ہوں ۔ اور اس کے لئے 17 علوم میں مہارت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دونوں کی زندگی کا مطالعہ اور یہ دیکھنا کہ کس نے کیا کیا ہے ؟حقیقت کو پہچاننے کے لئے کافی ہے ۔

مولانا:-  تم کو ان کی کیا ضرورت ہے ؟ تلک امۃ قد خلت لھا ما کسبت ولکم ما کسبتم والا تسئلون عما کانوا یعملون (پ 1 سورہ بقرہ آیت 134)

ترجمہ:- (اے یہودیو)وہ لوگ تھ جو چل بسے جو انھوں نے کیا ان کے آگے آیا اور جو تم کروگے وہ تمہارے آگے آئے گا ۔اور وہ جوکچھ بھی کرتے تھے اس کی پوچھ گچھ تم سے (تو )نہیں ہوگی ۔

میں :- آپ تسئلون کی (ت) کو پیش پڑھ رہے یا زبر ؟

مولانا :- میں پیش پڑھ رہا ہوں( تسئلون)

میں :- شکر خدا کا ۔ آگر آپ زبر پڑھتے تو بحث کی گنجائش ہی نہیں تھی ۔۔۔۔ زبر سے مطلب ہوگا کہ تم کوسوال کرنے کا حق نہیں ہے ۔۔۔ہاں پیش پڑھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے افعال کا سوال ہم سے نہیں کیا جائے گا ۔ اوریہ ایسا ہی ہے جیسے ایک اور جگہ ارشاد ہے ۔ہر انسان اپنے اعمال کا گروی ہوگا ۔ یا مثلا انسان کو اتنا ہی ملے گا جتنی وہ کوشش کرے گا ۔ قرآن نے ہم کو امم سابقہ کے حالات معلوم کرنے پر ابھارا ہے اور کہا ہے کہ ہم اس

۱۶۷

 سے عبرت حاصل کریں اسی لئے خدا نے فرعون ،ہامان ،نمرود ،قارون ،کا جہاں قصہ بیان کیا ہے وہیں انبیائے سابقین کا بھی ذکر کیا ہے ۔ یہ تسلی وتشفی کے لئے ذکر نہیں کیا ہے بلکہ حق وباطل کی معرفت کے لئے ان واقعات کو بیان کیاگیا ہے ۔اب رہی آپ کی یہ بات کہ مجھے بحث سے کیا فائدہ ؟  تو عرض ہے کہ مجھے اس سے فائدہ ہے ۔ اولا تو اس لئے کہ ولی خدا کو پہچان کر اس سے محبت کروں اور دشمن خدا کو پہچان کر اس سے دشمنی کروں ۔ اور قرآن یہی بات چاہتا ہے ۔بلکہ اس کو واجب قراردیتا ہے ۔اور دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ میں اس کی عبادت کس طرح کروں؟ اور جو فرائض اس نے واجب کئے ہیں ان کو کس طرح ادا کروں تاکہ اس کے ارادہ ومنشاء کے مطابق ہو۔ نہ یہ کہ میں فرائض کو اسطرح ادا کروں جس طرح ابو حنیفہ یادوسرے مجتہدین چاہتے ہیں ۔ کیونکہ امام مالک نماز میں بسم اللہ  کو مکروہ سمجھتے ہیں ۔ حالانہ ابو حنیفہ واجب جانتے ہیں اور دوسرے لوگ بغیر بسم اللہ کے نماز ہی باطل سمجھتے ہیں ۔اور چونکہ  نماز دین کا ستو ن ہے  اور تمام (فرعی ) اعمال کی مقبولیت کا دارومدار نماز پر ہے اس لئے میں نہیں چاہتا کہ میری نماز باطل ہو ۔اسی طرح مثلا شیعہ کہتے ہیں : وضو میں پیروں کا مسح کرنا واجب ہے اور اہل سنت کہتے ہیں پیروں کا دھونا واجب ہے ۔ اور قرآنی آیت اسطرح ہے : وامسحوا برؤو سکم وارجلکم "یہ صریحی طور سے مسح کو بتا تی ہے ۔ مولانا اب آپ ہی بتائیے ایک عقلمند مسلمان بغیر بحث ودلیل کے کس ایک کو قبول کرے اور دوسرے کو رد کردے؟

مولانا:- تم یہ بھی کرسکتے ہو تمام مذاہب سے اچھی اچھی باتیں لے لو کیونکہ یہ سب ہی اسلامی فرقے ہیں اور سب ہی کا مدرک رسول ہیں ۔

میں :- مجھے ڈر ہے کہیں میں اس آیت کا مصداق نہ بن جاؤں:"أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ"(پ 25 س 45 (الجاثیه ) آیت 23)

۱۶۸

ترجمہ :- بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور (اس کی حالت) سمجھ بو جھ کر خدانے اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے ایور اس کے کان  اور دل پر علامت مقرر کر دی ہے ۔( کہ یہ ایمان نہ لائےگا )اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے پھر خدا کے بعد اس کی ہدایت کون کرسکتا ہے تو کیا تم لوگ (اتنا بھی)غور نہیں کرتے ؟۔

 مولانا! جب تک ایک شی کو ایک مذہب حلال اور دوسرا حرام کرتا رہے گا اس وقت تک میں یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ سارے کے سارے مذہب حق ہیں ۔ کیونکہ یہ محال ہے کہ ایک ہی شئ ایک ہی وقت میں حلال بھی ہو اور حرام بھی ہو ۔جب کہ رسول کے احکام میں کوئی تناقض نہیں تھا۔ کیونکہ وہ سب وحی قرآنی کے مطابق تھے: ولو کان من عند غیرالله لوجدوا فیه اختلافا کثیرا (پ 5س4 (نساء)آیت 82)

اگر یہ (قرآن  ) غیر خدا کے پاس سے (آیا ) ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے ۔ اور چونکہ مذاہب اربعہ میں بہت اختلاف سے اس لئے یہ نہ خدا کی طرف سے ہے نہ رسول کی طرف سے ہے ،کیونکہ رسول قرآن کے خلاف نہیں کہہ سکتے ،

مولانا:- نے جب محسوس کیا کہ میرا کلام منطقی ہے اورمیری دلیلیں مضبوط ہیں تو بولے : میاں میں تم کو قربۃ الی اللہ ایک نصیحت کرتاہوں  ۔تم چاہے جس چیز میں شک کرنا لیکن (خبردار)خلفائے راشدین کےبارے میں کبھی شک نہ کرنا ۔کیونکہ یہ چاروں اسلام کے ستون ہیں اور اگر ان میں سے ایک ستون بھی گر گیا تو عمارت گر جائے گی ۔۔

میں :- مولانا ! استغفراللہ اگر یہ چاروں ستون ہیں تو پھر رسول خدا (ص) کہاں گئے ؟

مولانا:- وہ تو خود ہی عمارت ہیں ۔ پورا سلام تو حضور ہی ہیں ۔

میں مولانا کی اس تحلیل سے مسکرایا اور بولا دوبارہ استغفراللہ کہتا ہوں ۔ مولانا آپ بغیر سوچے فرما دیتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان چاروں کے بغیر رسول خدا بذات خود کچھ  بھی نہیں ہیں ۔ حالانکہ خدا کہتا ہے :

۱۶۹

"هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيداً "(پ 26 س 48(الفتح) آیت 28)

ترجمہ:-یہ وہی  تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب رکھے اور گواہی کے لئے بس خدا کا فی ہے۔

خدا نے صرف محمد کو رسول بنا کر بھیجا ان کی رسالت میں ان چاروں میں سے کسی ایک کو نہیں شریک قراردیا اور نہ ان کے علاوہ کسی دوسرے کو شریک قراردیا ۔اسی سلسلہ میں خدا فرماتا ہے:" كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ "(پ2 س2(بقره)آیت 151)

ترجمہ:- (مسلمانو!یہ احسان بھی ویسا ہی ہے) جیسے ہم نے تم میں  تم ہی کا ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیتین پڑھ کر سنائے اورتمہارے نفس کو پاکیزہ کرے اور تمہیں کتاب (قرآن ) اور عقل کی باتیں سکھائے جن کی تمہیں (پہلے سے) خبر نہ تھی ۔"

مولانا :-ہم نے اپنے بزرگوں اور ائمہ سے یہی سکھا تھا ۔اور ہم لوگ اپنے زمانہ میں نہ علماء سے مناقشہ کرتے تھے اور نہ ہی مجادلہ کرتے تھے جس طرح آج کی آپ لوگوں کی طرح کی نئی نسل کرتی ہے ،آپ  لوگ ہر چیز میں شک کرنے لگے  حدیہ ہے کہ اب دین میں بھی شک کرنے لگے ۔اب قیامت کے آثار ہیں ۔ کیونک رسول نے فرمایا ہے ۔قیامت برے لوگوں ہی کی وجہ سے آئےگی ۔

میں :-مولانا! آپ مجھے خوفزدہ کررہےہیں ۔میں خود دین میں شک کروں یا دوسرے کو مبتلا کروں اس سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں ، میں اس خدائے واحد پر ایمان لایا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ اس کے ملائکہ اس کی نازل کردہ کتابوں ،بھیجے ہوئے رسولوں پر ایمان رکھتاہوں ۔ میں خدا کے بندے اور اس کے رسول سیدنا محمد پر ایمان رکھتا ہوں ، اور یہ تسلیم کرتاہوں کہ وہ انبیاء ومرسلین میں سب سے افضل تھے اور میں ایک مسلمان ہوں،

۱۷۰

پھر آپ مجھ پر کیوں اتہام لگارہے ہیں ؟

مولانا :- میں تو تم پر اس سے بھی بڑا الزام لگاتا ہوں ۔ تم سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر کے بارے میں شک کرتے ہو حالانکہ رسول خدا نے فرمایا ہے : اگر میری پوری امت کے ایمان کو ابو بکر کے ایمان سے تولا جائے تو ایمان  ابو بکر کا پلہ بھاری ہوگا ۔اور سیدنا عمر کے بارے میں فرمایا  ہے : میری امت میرے اوپر پیش کی گئی تو وہ ایسی قمیص  پہنی تھی  جو سینہ تک بھی نہیں پہنچ پارہی تھی پھر میرے سامنے عمر کو پیش کیا گیا ان کی قمیص زمین کو خط دے رہی تھی لوگوں  نےکہا حضور آپ نے اس کی کیا تاویل فرمائی ؟ فرمایا : دین ! اور تم آج چودھویں صدی ہجری میں آئے ہو ۔عدالت صحابہ میں شک کرتے ہو۔ خصوصا ابو بکر وعمر کی عدالت میں کیا تم نہیں جانتے اہل عراق سب کے سب اہل شقاق ہیں ۔ اہل کفر ونفاق ہیں ؟

میں :- میری سمجھ میں نہیں آرہا  تھا کہ میں اس شخص کے بارے میں کیاکہوں جو ادعائے علم کرتا ہے اور گناہوں پر فخر کرتا ہے ۔ اب وہ احسن طریقہ جدال سے جھوٹ ،افتراء اور ایسے لوگوں کے سامنے جو آنکھ بند کرکے دین کو پسند کرتے ہیں جھوٹے جھوٹے الزامات لگانے لگا ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ لوگوں کی آنکھیں سرخ ہوگئیں ۔ اوربعضوں کے گردن کی رگیں پھول گئیں ، اور میں نے ان کے چہروں سے شرکاہ کا اندازہ کرلیا ۔ لہذا فورا دوڑ کر گیا اور امام مالک کی کتاب "موطاء" اور صحیح بخاری اٹھا لا یا ۔اور عرض  کیا مولانا صاحب مجھے جس چیز  نے ابو بکر کے بارے میں شک پر ابھارا وہ خود رسول خدا کی ذات ہے ۔ لیجئے موطا پڑھیئے ۔ مالک نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے احد کے شہیدوں کے لئے فرمایا : میں ان لوگوں کی گواہی دیتاہوں ! اس پر ابو بکر صدیق نے کہا : اے رسو اللہ(ص) کہ ہم ان کے بھائی نہیں ہیں  ہم بھی اسی طرح اسلام لائے جیسے وہ لائے تھے ہم نے بھی اسی طرح جہاد کیا ۔جس طرح انھوں نے جہاد کیا تھا ۔رسول خدا نے فرمایا : ہاں! لیکن مجھے نہیں معلوم  کہ تم لوگ میرے بعد کیا احداث (ایجاد بدعت) کروگے ۔ اس پر ابو بکر روئے پھر اور روئے اور کہا (کیا ) ہم آپ کے بعد

۱۷۱

باقی رہیں گے(1) ۔

اس کے بعد میں نے صحیح بخاری کھولی اس میں ہے : عمر بن خطاب حفصہ  کے پاس آئے حفصہ کے پاس اسماء بنت عمیس بھی موجود تھی عمر نے اسماء کو دیکھ کر پوچھا یہ کون ہے ؟ حفصہ نےکہا اسماء بنت  عمیس ! عمر نے کہا یہی  حبشہ  ہے یہی بحریہ ہے ۔ اسماء نے کہا :ہاں ! اس پر عمر بولے : ہماری ہجرت تم سے پہلے ہے اس لئے ہم رسول خدا سےبہ نسبت تمہارے زیادہ احق ہیں ! اسماء کو یہ سن کر غصہ آگیا اور بولیں: ہر گز نہیں خدا کی قسم ایسا ہیں ہوسکتا ۔تم رسول اللہ کے ساتھ تھے ،آپ تمہارے بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے ۔جاہلوں کو وعظ کرتے تھے  اور ہم لوگو ایسی (جگہ )یا زمین میں تھے جو اجنبیوں کی اور دشمنوں کی تھی ۔حبشہ میں ہم نے جو کچھ کیا ہو خدا اور اس کے رسول  کے لئے کیا خدا کی قسم ہم لوگ  جب بھی کھانا کھا تے یا پانی پیتے تھے رسول خدا کا ذکر ضرور کرتے تھے  ،ہم کو اذیت پہونچتی تھی ۔ہم  ہر وقت  خوفزدہ رہتے تھے ۔(لہذا تم لوگ ہمارے برابر کیسے ہوسکتے ہو؟ ) میں اس واقعہ کا ذکر رسول سے ضرور کروں گی ۔ خدا کی قسم ان سے پوچھو ں گی  نہ جھوٹ بولوں گی نہ (کمی )و زیادتی کروں گی ۔ پھر جب رسول خدا آئے تو اسماء نے کہا یا رسول اللہ عمر نے یہ کہا تھا آنحضرت نے پوچھا تم نے کیا کیا ؟ اسماء نےکہا میں نے یہ یہ کہا ! آنحضرت نے فرمایا : تم سے زیادہ وہ حق نہیں ہے ۔ ان کے اوران کے ساتھیوں کی صرف ایک ہجرت ہر اور تم اہل سفینہ کی دو دو ہجرت ہے ۔اسماء بیان کرتی ہیں( اس واقعہ کے بعد) ابو موسی  اور دیگر اصحاب سفینہ برابر میرے پاس آتے تھے اور اس حدیث کے بارے میں پوچھتے تھے ۔ دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جو ان لوگوں کے دلوں کو اس حدیث سے زیادہ فرجت بخشی ہو ہور نہ ہی کوئی چیز ان کے نزدیک اس سے بھی زیادہ اہم تھی(2)

--------------

(1):- موطاء امام مالک ج 1 ص 307 المغازی للواقدی ص 310

(2):- صحیح بخاری ج 3 ص 287 باب غزوہ خیبر "

۱۷۲

جب شیخ(مولانا ) نے  اور ان کے ساتھ لوگوں نے اس کو پڑھا تو ان کے چہرے بدل گئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ، اور یہ سب اس کا انتظار کرنے لگے کہ دیکھیں مغلوب مولانا صاحب کیا جواب دیتے ہیں لیکن مولانا نے بڑے تعجب سے پلکوں کو اٹھا کر دیکھا اور فرمایا : رب زدنی علما (خدا یا میرے علم میں اضافہ کر)

میں :- جب سب سے پہلے خود رسول اللہ نے ابو بکر کے بارے میں شک کیا اورابو بکر کیلئے گواہی  نہیں دی ،اس لئے کہ حضور کو معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ آنحضرت کے بعد کیا کیا کریں گے ؟اور جب  خود رسول خدا(ص) نے اسماء بنت عمیس پر عمر بن خطاب کی فضیلت کو قبول نہیں کیا ،بلکہ اسماء کو عمر پر فضیلت  نہ دوں ،اور ظاہر  ہے کہ یہ دونوں حدیثیں  تمام ان حدیثوں سے متعارض ہیں جو ابو بکر وعمر کی فضیلت  میں وارد ہوئی ہیں بلکہ یہ دونوں حدیثیں واقع سے بہت قریب ہیں اور سمجھ میں آنے والی ہیں بہ نسبت فرضی حدیثوں کے جو فضائل میں آئی ہیں بلکہ یہ دونوں تمام فضائل والی حدیثوں کو باطل کردیتی ہیں ، حاضرین نے کہا یہ کیسے؟

میں :-رسول خدا(ص) نے ابو بکر کی گواہی نہیں دی اور فرمایا :نہ معلوم میرے بعد تم کیا کیا کروگے ؟ اور یہ بات معقول ہے اور قرآن نے اس کا اثبات کیا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ ان لوگوں نے رسول کے بعد بہت سی تبدیلی کردی ۔ اسی لئے ابوبکر روئے تھے کیونکہ انھوں نے تبدیلی بھی کی تھی اور حضرت فاطمہ کو غضبناک بھی کیا تھا (جیسا کہ گزرچکا ) اور اسی تبدیلی کی وجہ سے مرنے کے پہلے بہت پشیمان تھے اور یہ تمنا کرتے تھے کہ کا ش میں بشر نہ ہوتا ۔

اب رہی ایمان  ابو بکر والی حدیث کہ تمام امت سے اس کاوزن زیادہ تھا تو یہ باطل بھی ہے اور عقل میں نہ آنے والی بھی ہے اس لئے کہ جو شخص چالیس سال تک مشرک رہا ہو ، بتوں کی پرستش کرتا رہا ہو وہ پوری امت محمدی کے ایمان سے زیادہ  ایمان رکھتا ہو ناممکن ہے ۔کیونکہ امت محمدی کے اندر اولیاء اللہ شہدا اور وہ ائمہ بھی ہیں جنھوں نے اپنی پوری عمریں جہاد فی

۱۷۳

سبیل اللہ میں گزاردیں پھر ابو بکر اس حدیث کے مصداق کیسے ہوسکتے ہیں ؟ اگر واقعا یہی مصداق ہوتے تو عمر کے آخری حصہ میں یہ تمنا نہ کرتے کہ کاش میں بشر نہ ہوتا ۔ اگر ان کا ایمان پوری امت سے زیادہ ہوتا تو سیدۃ النساء فاطمہ بنت رسول ان پر غضبناک نہ ہوتیں اور ہر نماز کے بعد ابو بکر پر بد دعا نہ کرتیں ۔

 مولانا صاحب تو چپ رہے  کچھ بولے ہی نہیں لیکن بعض موجود لوگوں نے کہا :خدا کی قسم اس حدیث نے ہم کو شک میں ڈال دیا ۔ اس وقت مولانا صاحب بولے

مولانا:- آپ یہی چاہتے تھے نا !؟ آپ نے سب کوشک میں مبتلا کردیا ۔میرے جواب دینے کے بجائے انھیں میں سے ایک بول اٹھا :جی نہیں ! حق انھیں کے ساتھ ہے ہم نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی کتاب مکمل نہیں پڑھی ہو لوگ تو آپ حضرات کی اندھی تقلید کرتے تھے جو کہتے تھے ۔بے چون وچرا مان لیتے تھے ۔اب ہم پر حقیقت ظاہر ہوئی کہ حاجی جو کہہ رہے ہیں وہی صحیح ہے اب ہمارا فریضہ ہے کہ پڑھیں اور بحث کریں بعض اور  حاضرین نے بھی اس شخص کی تائید کی اور درحقیقت یہ حق وصداقت کی فتح تھی یہ جبر وقہر کا غلبہ نہیں تھا البتہ عقل ودلیل وبرہان کی کامیابی تھی اگر تم سچے ہوتو اپنی دلیل پیش کرو!

اس واقعہ نے میری ہمت بڑھا دی او ر میں نے بحث کے دروازوں کو پاٹوں پاٹ کھول اور دیا اور بسم اللہ وبا للہ وعلی ملۃ رسول اللہ کہہ کر اس میں کود پڑا ۔پروردگار عالم سے ہدایت وتوفیق کی امید رکھتے ہوئے کیونکہ اس نے وعدہ کیا ہے جو حق کو تلاش کرے گا ۔ وہ اس کی ہدایت کرے گا اور خدا وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔

بڑی دقت کے ساتھ مسلسل تین سال تک میں بحث وتحقیق کرتارہا  کیونکہ جو پڑھتا تھا اس کو دہراتا تھا ۔اور بعض اوقات تو بار بار ایک کتاب کوپہلے صفحہ سے آخری صفحہ تک پڑھتا تھا ۔

چنانچہ میں نے علامہ شرف الدین الموسوی کی "المراجعات"پڑھی اور کئ کئی بار پڑھا اس کتاب نے میرے سامنے ایسے نئے آفاق کھول دیئے جو میری ہدایت کاسبب بنے اور میرے دل میں

۱۷۴

پیش کش کوئی بھی چیز سات صدی تک ائمہ اہلبیت کی پیروی سے نہیں ہٹا سکی ،حالانکہ ان سات صدیوں میں شیعوں کو دربدر کیا گیا ۔ دفتر عطا سے ان کے نام کاٹ دیئے  ان کوچن چن کر جبال وکوہ میں تلاش کرکے قتل کیاگیا ان کے خلاف ایسے ایسے جھوٹے پروپیگنڈے کئے گئے جس سے لوگ ان سے نفرت کرنے لگے اور اس کے آثار آج بھی شیعوں میں باقی ہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ائمہ اہلبیت کوچھوڑ کر کسی اور کی پیروی نہیں کی ۔

لیکن ان تمام مصائب کا بڑے صبر وسکون وثبات قدم سے مقابلہ کرتے ہوئے شیعوں نے حق کا دامن نہیں چھوڑا اور نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ کی ،میں آج بھی اپنے بڑے سےبڑے عالم کو چلینج کرتاہوں کہ وہ شیعہ علماء کے پاس بیٹھ کر ان سے بحث کرے تو شیعہ ہوئے بغیر واپس نہیں ہوگا ۔

اس خدا کا شکر ہے جس نے ہماری اس بات کی ہدایت کی اور اگر خدا ہدایت نہ کرتا تو ہدایت ناممکن تھی ۔خدا کی حمد اور ا س کا شکر ہے کہ اس نے فرقہ ناجیہ تک میری رہبری کردی جس کی مدتوں سے تلاش تھی اور اب مجھے یقین ہے کہ حضرت علی واہل بیت سے تمسک عروۃ الوثقی سے تمسک  ہے اور احادیث رسول بھی بکثرت  اس پر موجود ہیں اور مسلمانوں نے ان پر اجماع کیا ہے اور جو بھی گوش شنوا رکھتا ہوگا صرف عقل ہی اس کے لئے بہترین دلیل ہے ، علی الاطلاق حضرت علی تمام صحابہ سے اعلم اورسب سے زیاد ہ شجاع تھے اور امت کا اس پر اجماع ہے ۔ صرف یہی اجماع حضرت علی کے مستحق خلافت ہونے پر مضبوط دلیل ہے ۔خدا وند عالم کا ارشاد ہے:-" وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكاً قَالُوَاْ أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ"(پ 2 س2 (بقره) آیت 247)

ترجمہ:- اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ بیشک خدا نے تمہاری درخواست کے مطابق

۱۷۵

طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر کیا ہے تب کہنے لگے ۔اس کی حکومت ہو پر کیوں کر ہوسکتی ہے ۔ حالانکہ سلطنت کے حقدار اس سے زیادہ تو ہم ہیں ۔ کیونکہ اسے تو مال کے اعتبار سے بھی فارغ البالی تک نصیب نہیں (نبی نے کہا)خدا نے اسے تم پر فضیلت دی ہے اور (مال میں نہ سہی )علم اور جسم کا پھیلاؤ تو اسی خدا نے زیادہ فرمایا ہے اور خدا اپنا ملک جسے چاہے دے اور خدا بڑا گنجائش والا ہے اور واقف کارہے ۔اور رسول  نے فرمایا : ان علیا منی وانا منہ وھو ولی کل مومن بعدی(3) ۔یقینا علی مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ۔ اور علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں ۔ زمخشری نے چند اشعار حضرت علی کے لئے کہے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔

کثر الشک ولاختلاف وکل ----- یدعی انّه الصراط السوی

فتمسک بلا اله الا الله----- وحبی لاحمد وعلی

فاز کلب یحب اصحاب الکهف ----کیف اشقی بحب آل علی

اختلاف اور شک بہت زیادہ ہوگیا ہے اور ہر شخص یہی دعوی کرتا ہے کہ وہ سیدھے راستہ پر ہے لہذا میں نے لا الہ الا اللہ سے تمسک کیا اور احمد وعلی کی محبت سے ، اصحاب کہف کا کتا ان سے محبت کرنے کی وجہ سے کامیاب ہوگیا۔ پھر بھلا میں آل علی سے محبت کرکے کیوں نہ کامیاب ہوجاؤں

ہاں الحمدللہ میں نے بدل پالیا ۔ اور رسول خدا کے بعد امیر المومنین سید الوصین ،قائد الغر المحجلین اسداللہ الغالب  الامام  علی ابن ابی طالب اور سیدی شباب الجنۃ ریحانتی الرسول ، ابی محمد الحسن الزکی اور الامام ابی عبداللہ الحسین اور بضعۃ المصطفی ،سلالۃ النبوۃ وام الائمہ ،معدن الرسالہ ،جن کے غضب پر موقوف ہو غضب رب العزت سیدۃ النساء العالمین فاطمۃ الزہراء کی پیروی کرنے لگا ۔

امام مالک کے بدلے استاذ الائمہ معلم الامہ الامام جعفر الصادق علیہ السلام کواختیار کر لیا امام حسین کی ذریت

--------------

(1):- صحیح ترمذی ج 5 ص 296 ،خصائص نسائی ص 87 ع،مستدرک الحاکم ج 3 ص 110

۱۷۶

سے نو معصومین جو ائمہ المسلمین ہیں اور اولیاء اللہ الصالحین ہیں ان سے تمسک کرنے لگا ۔

الٹےپاؤں کفر کی طرف پلٹ جانے والے صحابہ جیسے معاویہ ،عمر وعاص ،مغیرہ بن شعبہ ،ابی ہریرہ عکرمہ ،کعب الاحبار ، کے بدلے ان صحابہ کو اختیار کرلیا جنھوں نے پیغمبر سے کئے ہوئے معاہدے کو توڑا نہیں ۔ جیسے عمار یاسر ، سلمان فارسی ، ابو ذر غفاری ،مقدادبن الاسود ،خزیمہ بن ثابت ،ذوالشہادتین  ابی بن کعب وغیرہ اور اس بابصیرت افروز تبدیلی پر خدا کی حمد وثنا کرتا ہوں ۔

اور اپنی قوم کے ان علما کے عوض جنھوں نے ہماری عقلوں کو جامد کردیا اور جن کی اکثریت نے ہرزمانہ میں حکام وسلاطین کی جی حضوری کی ،ان شیعہ علماء کو اختیار کیا جنھوں نے کبھی اجتھاد کادروازہ بند نہیں کیا اور نہ کبھی دینی معاملات میں سستی دکھائی ۔اورنہ کبھی ظالم وجابر امراء وسلاطین کی چوکھٹ پر جب سائی کی ۔

 ہاں متعصب وپتھر جیسے سخت افکار :جو تناقضات پر عقیدہ رکھتے ہوں"  کے بدلے آزاد روشن کھلے ذہن ودماغ والے ،افکار کو اختیار کرلیا جو حجت ودلیل وبرہان پر ایمان رکھتے  ہیں اور جیسا کہ آج کل کہا جاتا ہے ہم نے اپنے ذہن پر تیس 30 سال کرے پڑے ہوئے گرد  دوغبار کو دورکرکے اپنے دماغ کو دھوڈالا یعنی  بنی امیہ کی گمراہیوں کے بدلے میں معصومین  پر عقیدہ رکھ کر اپنی باقی زندگی کو پاک کر لیا ۔ خداوند  محمد وآل محمد کی ملت پر زندہ  رکھ اور ان کی سنت پر موت دے انھیں کے ساتھ میرا حشر کر کیونکہ تیرے نبی کا قول ہے : انسان جس کو دوست رکھتا ہے اسی کے ساتھ محشور ہوتا ہے ۔۔شیعہ ہوکر میں اپنی اصل کی طرف پلٹ آیا ۔کیونکہ  میرے باپ اورچچا شجرہ نسب کے اعتبار سے بتایا  کرتے تھے کہ ہم ان سادات میں ہیں جوعباسی حکومت کی ناقابل برداشت سختیوں سے مجبور ہوکر عراق سے فرار کرکے شمالی افریقہ میں پنا ہ گزیں ہوگئے تھے ۔ اورآج تک ہمارے آثار وہاں باقی ہیں اور شمال افریقہ مین ہم جیسے بہت ہسے ہیں جو اشراف کہلاتے ہیں کیوں کہ وہ نسل سادات سے ہیں لیکن وہ لوگ بنی امیہ وبنی عباس کی بدعتوں میں سرگرداں ہوگئے ۔ اور اب ان کے پاس سوائے اس احترام کے جو لوگوں کے دلوں میں اب تک موجود ہے ۔کچھ نہیں ۔ خدا کی حمد ہدایت  دینے پر ہے ۔ شیعہ ہونے پر ہے اور بصارت وبصیرت کے حق پر ہونے پر ہے ۔

۱۷۷

اسباب تشیع

جن اسباب کی بنا پر میں شیعہ ہوا ہوں وہ تو بہت ہیں ، اس مختصر سے رسالہ میں ان سب کے تحریر کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔ صرف بعض اسباب کاذکر کرتاہوں ۔

(1):- خلافت پر نص

چونکہ اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے میں نے قسم کھالی تھی کہ انھیں چیزوں پر اعتماد کروں گا جو فریقین (سنی وشیعہ)کے نزدیک معتمد ہوں اور جس کو کسی ایک فرقہ نے لکھا ہے اس کو چھوڑ دوں گا ۔اسی اصول پر میں نے ابو بکر اور علی میں سے کس کو کس پر فضیلت ہے " کے مسئلہ پر بحث کی اور یہ کہ خلافت علی کے لئے نص موجود ہے جیسا کہ شیعہ حضرات کا دعوی ہے یا خلافت کا مسئلہ انتخاب وشوری پر موقوف ہےجیسا کہ اہل سنت والجماعت کا دعوی ہے ۔

جو یائے حق اگر اپنے کو تمام تعصبات سے الگ کرکے صرف حقیقت کو تلاش کریگا تو اس کو حضرت علی کی خلافت پر نص مل جائے گی ،جیسے نبی کریم کا ارشاد ہے " من کنت مولاہ فعلی مولاہ " جب آنحضرت حجۃ الوداع سے واپس آرہے تھے تو اس حدیث کو ارشاد فرمایا تھا اور اس ارشاد کے بعد یا باقاعدہ مبارکبادی کی رسم ادا کی گئی اورخود ابو بکر وعمر نے حضرت علی کو ان الفاظ سے تہنیت پیش کی :- ابو طالب کے فرزند مبارک ہو مبارک تم تمام مومنین ومومنات کے مولا ہوگئے(1)

--------------

(1):- مسند احمد بن حنبل ج 4 ص 281 ، سر العالمین للغزالی ص 12 ،تذکرۃ الخواص (ابن جوزی) ص 29 ،الریاض النضرہ (طبری )ج 2 ص 169، کنز العمال ج 6 ص 397 ، البدایۃ والنھایہ (ابن کثیر) ج 5 ص 212 ،تاریخ ابن عساکر ج 2 ص 50 ،تفسیر رازی ج 2 ص 63 ،الحاوی للفتاوی (سیوطی ) ج 1 ص 112

۱۷۸

اس حدیث پر سنی شیعہ سب کاا جماع ہے اس بحث میں میں صرف اہل سنت کی کتابوں کا حوالہ دے رہا ہوں وہ بھی سب نہیں بلکہ جتنا میں نے ذکر کیا ہے اس کا کئی گنا چھوڑدیا ہے اگر کوئی مزید تفصیل چاہتا ہے تو وہ علامہ امینی کی"الغدیر" کا مطالعہ کرے جس کی اب تک 13 جلدیں چھپ چکی ہیں ۔ اس کتاب میں مصنف نے صرف ان راویوں کا ذکر کیا ہے جو اہل سنت والجماعت  کے یہاں ثابت ہیں ۔ اب رہی یہ بات کہ سقیفہ میں ابو بکر کے انتخاب پر اجماع ہوگیا تھا اور اس کے بعد مسجد میں ان کی بیعت کی گئی تو یہ صرف دعوی ہی دعوی ہے اس پر دلیل نہیں ہے ۔ کیونکہ جب حضرت علی ،حضرت عباس ، تمام بنی ہاشم ، اسامہ بن زید ، سلمان فارسی ، ابو ذر غفاری ، مقداد بن اسود ، عمار یاسر، حذیفہ یمانی ، خزیمہ بن ثابت ، ابو بریدہ الاسلمی ، البراء بن عازب ،ابی ابن کعب ، سہل بن حنیف ،سعد بن عبادہ ، ابو ایوب انصاری ،جابر بن عبداللہ انصاری  ،خالد بن سعید اور ان کے علاوہ بہت سے صحابہ نے بیعت سے انکار کیا(1) ۔ تو خدا کے بندو! اب اجماع کہاں رہا؟ حالانکہ اگر صرف حضرت علی ہی بیعت نہ کرتے  تو یہی بات اجماع پر طعن کے لئے کافی تھی ۔ کیونکہ بالفرض اگر رسول اکرم کی طرف سے علی کے لئے نص نہیں تھی تو خلافت کے تنہا کنڈیٹ تو بہر حال  وہ تھے ۔

حضرت ابو بکر کی بیعت کسی مشورہ کے ہوئی ہے بلکہ لوگ متوجہ ہی نہیں تھے خصوصا  اہل حل وعقد کو پتہ ہی نہیں چلا کہ بیعت ہوگئی  جیسا کہ علمائے مسلمین کہتے ہیں کیونکہ لوگ تو رسول کی تجہیز وتکفین میں مشغول تھے ، صورت حال یہ ہوئی کہ مدینہ والوں کو دفعۃ اپنے نبی کے مرنے کی اطلاع ہوئی اور وہ

--------------

(1):-طبری ،ابن اثیر ، تاریخ الخلفاء ، تاریخ الخمیس ، استیعاب ، بلکہ جن لوگوں نے بھی ابو بکر کی بیعت کا ذکر کیا ہے ۔

۱۷۹

لوگ ابھی رونے پیٹنے ہی میں تھے ، کہ لوگوں سے زبردستی بیعت لے لی گئی(1) ۔ اور اس زبردستی کا ثبوت اس واقعہ سے بھی ملتا ہے کہ لوگوں نے حضرت فاطمہ کے گھر کو جلا دینے کی دھمکی بھی دی  کہ بیعت نہ کرنے والے نہ نکلے تو ہم اس گھر کو آگ لگا دیں گے ۔۔۔ پھرآپ ہی بتائیے ایسی صورت میں یہ بات کیسے کہی جاسکتی ہے کہ ابو بکر کی بیعت لوگوں کے مشورہ اور اجماع سے ہوئی ہے ؟

خود حضرت عمر کا فرمان ہے : ابو بکر کی بیعت بغیر سوچے سمجھے عمل میں آگئی ہے خدا نے مسلمانوں کو اس کے شر سے بچالیا  اب اگر کوئی ایسا کرے تو اس کو قتل کردو ۔ (دوسری روایت میں ہے ) جو اس قسم کی بیعت کے لئے دعوت دے اس کو قتل کردو ! پس معلوم ہوا کہ نہ تو ابو بکر کی بیعت (صحیح )ہوئی ہے اور نہ لوگوں کی جنھوں نے ان کی بیعت کی ہے(2)

اسی بیعت کے لئے حضرت علی فرماتے ہیں: خدا کی قسم ابو قحافہ کے بیٹے (ابو بکر) نے زبردستی کھینچ تان کر خلافت کی قمیص پہنی ہے حالانکہ ابو بکر جانتے ہیں خلافت کیلئے میں ایسا ہی ہوں جیسے وہ لوہا جس کے چاروں طرف چکی کا پاٹ گھومتا  رہتا ہے ،مجھ سے سیلاب (علم )جاری ہوتا ہے اور میرے بلندی (مرتبہ )تک پرندے پرواز نہیں کرسکتے(3)

قبلیہ ،انصار ےک سردار سعد بن عبادہ بیان کرتے ہیں : سقیفہ کے دن ابو بکر وعمر نے انصار پر ہجوم کرلیا ۔ میں نے بڑی کوشش کی ان کو خلافت سے روک دوں اور دور رکھوں لیکن مریض ہونے کی وجہ سے میں ان کا مقابلہ نہ کرسکا ! اورج ب انصار نے ابو بکر کی بیعت کرلی تو سعد نے کہا : خدا کی قسم میں کبھی تمہاری بیعت نہ کرو ں گا  ،یہاں تک کہ میرے ترکش میں جتنے تیر ہیں سب  تم پر نہ چلادوں اور اپنے نیزوں کی انیوں کو تمہارے خون سے خضاب نہ کردوں اور جب تک میرے ہاتھوں کی طاقت باقی ہے اس وقت تک تم تلوار سے حملہ نہ کروں اور اپنے خاندان  وقبیلے کے ساتھ تم سے جنگ نہ کروں خدا کی قسم اگر انسانوں کے ساتھ جن بھی تمہارے شریک ہوجائیں تب بھی تمہاری بیعت نہ کروں گا یہاں تک کہ اپنے خدا کے سامنے پیش ہوں

--------------

(1):- تاریخ الخلفاء (ابن قتیبہ )ج 1 ص 81

(2):صحیح بخاری ج 4 ص 127

(3):- شرح نہج البلاغہ (محمد عبدہ) ج 1 ص 34 خطبہ شقشقیہ 

۱۸۰