پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا 15%

پھر میں ہدایت پاگیا مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 253

پھر میں ہدایت پاگیا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 253 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 80076 / ڈاؤنلوڈ: 7864
سائز سائز سائز
پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

اور آخر کار ان کو امت اسلامیہ کا مرجع اکبر  کیونکہ آدھا دین تو صرف تنہا عائشہ کے پاس تھا ،

اور شاید دوسرا دین ابو ہریرہ کے پاس تھا ،جس نے بنی امیہ کے حسب منشاء خوب خوب روایات جعل کی تھیں اسی لئے انھوں نے ابو ہریرہ کواپنا مقرب بنالیا ، مدینہ کی گورنری ابوہریرہ کے حوالہ کودی، ابو ہریرہ کے لئے "قصرعقیق" بنوایا گیا ، جب کہ یہ بیچارے ایک مفلس قلاش آدمی تھے ان کو راویہ الاسلام کا لقب دیا گیا ، اسی طرح بنی امیہ کے پاس ایک نیا پورا دین آگیا ۔۔۔آدھا عائشہ کے ذریعہ آدھا ابو ہریرہ کے ذریعہ ۔۔۔جس میں کتاب خدا اور سنت رسول نام کی صرف وہ چیزیں تھیں جن کو یہ لوگ پسند کرتے تھے ، اور جس کے ذریعہ  ان کی سلطنت مضبوط ہوسکتی تھی ظاہر ہے کہ یہ دین تناقضات  وخرافات کا مجموعہ ہوگا ۔ اور اس طرح حقائق کو ختم کرکرے ان کی جگہ تاریکیوں کو دیدی گئی اور بنی امیہ نے لوگوں کو اسی نئے دن پر چلانا شروع کردیا اوراسی پر لوگوں کو ابھارا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین خدا ایک مضحکہ خیز چیزیں کے رہ گیا ۔ جس کی کوئی قدروقیمت ہی نہ رہی اور لوگ معاویہ سے اتنا ڈرنے لگے جتنا خدا سے نہیں ڈرتے تھے ۔

ہم جب اپنے علماء سے پوچھتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب جنکی بیعت مہاجرین وانصار نے کی تھی ان سے معاویہ کا جنگ کرنا کیسا ہے ؟ اور جنگ بھی ایسی کہ جس نے مسلمانوں کو شیعہ ،سنی دوفرقے میں بانٹ دیا ار اسلام میں اس کی وجہ سے ایسا رخنہ پڑگیا جو آج تک نہ بھر سکا ، تو وہ لوگ بڑی سادگی  سےحسب عادت جواب دیتے ہیں : علی ومعاویہ دونوں ہی بڑے جلیل القدر صحابی ہیں دونوں نے اجتہاد کیا علی کا اجتہاد مطابق واقع تھا لہذا ان کو دو اجر ملے گا لیکن معاویہ نے اپنے اجتہاد میں غلطی کی اس لئے ان کو صرف ایک اجر ملے گا ۔ہمارے لئے جائز نہیں ہے کہ ان کے حق میں یا ان کے بر خلاف کچھ کہیں ، خود خدا وند عالم کا ارشاد ہے ،تلک امة قد خلت لها ما کسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون(پ ۱ س ۲ (البقرة)آیت ۱۳۲)

ترجمہ:- (اے یہودیو) وہ لوگ تھے جو چل بسے جو انھوں نے کمایا ان کے آگے آیا اور جو تم کماؤ گے تمہارے آگے آئیگا اور جو کچھ وہ کرتے تھے اس کی پوچھ گچھ تم سے نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔

۱۶۱

افسو س کی بات یہی ہے کہ ہمارے علماء کے جوابات اسی قسم کے ہوتے ہیں جو سفسطہ ہوتے ہیں ۔جن کو نہ عقل قبول کرتی ہے نہ دین نہ شریعت ۔۔ میرے معبود  میں رائ کی غلطی ،خواہش کی لغزش ،شیاطین کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتاہوں ۔

بھلا وہ کون سی عقل سلیم ہے جو معاویہ کے اس اجتہاد پر اس کے لئے اجر کی قائل ہوگی جس کی بنا پر اس نے امام المسلمین سے جنگ کی بے گناہ مومنین کو قتل کیا ، ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا جس کا شمار صرف خدا ہی کرسکتا ہے ،مورخین کے نزدیک مشہور ہے کہ معاویہ اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کے لئے اور ان کو راستہ سے ہٹانے کے لئے  اپنے مشہور طریقہ پر عمل کرتا تھا یعنی زہر آلود شہد کھلا دیتا تھا اورکہا کرتا تھا :خدا کا لشکر تو شہد میں ہے ۔

نہ معلوم یہ لوگ کیسے اس کو مجتہد مانتے ہیں اور اس کو اجر دینے کے لئے تیار ہیں حالانکہ "باغی گروہ" کا سردار تھا چنانچہ  مشہور حدیث  میں جس کو تمام محدثین نے لکھا ہے " آیا ہے : افسوس عمار یاسر پر ہے جس کو ایک باغی گروہ قتل کرےگا ۔ ۔۔اور معاویہ واس کے اصحاب نے جناب عمار کو قتل کیا ہے اس کو کیونکر مجتہد کہتے ہیں جس نے حجر بن عدی اور اس کے اصحاب کر بڑی بے دردی سے قتل کیا اور صحرائے شام  میں" مرج عذرا" میں دفن کردیا کیونکہ ان لوگوں نے حضرت علیج پر لعنت کرنے سے انکار کردیا تھا ۔۔۔۔۔ جس شخص نے سردار جوانان جنت امام حسن کو زہر دے کر قتل کرادیا کیسے اس کو عادل صحابی مانتے ہیں ؟ جس شخص نے امت مسلمہ سےجبرو زبر دستی سےپہلے تو اپنے لئے پھراپنے بد کار بیٹے یزید کے لئے بیعت لی جس نے شوری کے نظام کو بدل کر قیصر کی حکومت قائم کی(۱)

جس نے لوگوں کو حضرت علی اور ان کے اہل بیت پر منبروں سے لعنت کرنے کیلئے مجبور کیا اور جن لوگوں نے انکار کیا ان کو قتل کردیا اور یہ لعنت ایسی سنت بن گئی جس پر جوان بوڑھے ہوگئے بچے جوان ہوگئے ،بھلا ایسے شخص کو کیوں کر مجتھد کہا جاسکتا ہے؟ اور اس کو مستحق اجبر قرار دیا جاسکتا ہے؟

--------------

(۱):- خلافت وملوکیت (مودودی )یوم الاسلام (احمد امین)

۱۶۲

لا حول ولا قوة الا با الله

پھر یہی سوال اٹھتا کہے کہ دونوں میں سے کون حق پر تھا اور کون باطل پر تھا ؟ یا تو علی اور ان کے شیعہ ظالم تھے اور باطل پر تھے اوریا معاویہ اور اس کے ساتھی ظالم تھے اور باطل پر تھے ۔ حالانکہ رسول اللہ نے سب چیز واضح کردیا تھا ۔جو بھی ہو ہر صورت میں تمام صحابہ کی عدالت بہر حال ثابت نہیں ہوتی ۔اور نہ یہ منطق عقل سلیم پر پوری اترتی ہے ،ہر ہر چیز کی متعدد مثالیں ہیں جن کو خدا کے علاوہ کوئی احصاء نہیں کرسکتا ۔

اگر میں تفصیل میں جاؤں  اور ہر واقعہ کے بارے میں ہر پہلو سے بحث کروں تو کئی ضخامت جلدوں کی ضرورت ہوگی ۔ مگر چونکہ میں نے  اختصار  کا ارادہ کرلیا ہے  اور اس بحث میں صرف بعض مثالوں پر اکتفاء کی ہے ۔ اور یہ الحمداللہ ہماری قوم کے مزعومات کو باطل کرنے کے لئے کافی ہے ہماری قوم کا عالم یہ ہے کہ مدتوں سے ہماری فکروں   کو جامد بنادیا ہے اوریہ پابندی لگادی ہے کہ میں حدیث سمجھنے کی کوشش نہ کروں ۔ عقل وشریعت کے معیار پر تاریخی واقعات کی تحلیل نہ کروں ۔ جب کہ قرآن کریم اور سنت رسول ہم کو میزان عقل پر تولنے کا حکم دیتی ہے ۔

اس لئے میں نے طے کر لیا ہے کہ میں سرکشی کروں گا اور تعصب کے جس غلاف میں مجھے لیٹا گیاہے ، اس سے باہر نکلوں گا ۔ ب یس سال سے جن بیڑیوں میں مجھے جکڑا گیا ہے اس سے آزادی حاصل کرکے رہوں گا ۔ میری زبان حال ان سے کہہ رہی ہے ۔ اے کاش میری قوم یہ جان لیتی کہ میرے خدانے مجھے کیوں بخش یدا اور میرا اکرام کیوں کیا ۔کاش میری قوم بھی اس نئی دنیا کا انکشاف کر لیتی جس کی وہ جہالت کے باوجود شدت سے مخالفت کرتی ہے ۔

٭٭٭٭٭

۱۶۳

تبدیلی کاآغاز

تین مہینے تک میں بہت پریشان رہا ۔ عالم یہ تھا کہ خواب میں بھی افکار مجھے پریشان کرے ۔مختلف قسم کے وہم وگمان افکار ووسواس میں گھرا رہتا تھا ۔  خصوصا بعض اصحاب سے تو مجھے اپنی جان کا خوف تھا ۔ کیونکہ تاریخی واقعات جو مجھے بتائے گئے ہو حیرتناک  حد تک ڈراونے تھے ۔ اس لئے کہ پوری زندگی مجھے جو تربیت دی گئی تھی وہ اولیاء اللہ اور اس کے نیک بندوں کا احترام کرنا تھا ورنہ اگر کوئی ان کے حق  میں بے ادبی کردے یا جسارت کردے چاہے ان کی عدم موجود گی  میں یا ان کے مرنے کے بعد بھی تو وہ لوگ بے ادبی کرنے والوں کو ضرور سزا دیتے تھے ۔اس لئے میں بہت ڈرتا تھا ۔ چنانچہ حیاۃ الحیوان (۱) الکبری میں خود میں نے پڑھا تھا کہ ایک شخص عمر بن الخطاب کو گالیاں دیا کرتا تھا ،قافلہ والے اس کو روکتے تھے مگرو وہ نہیں مانتا تھا آخر ایک دن وہ پیشاب کررہا تھا کہ بہت ہی زہریلے سانپ نے اس کو ڈس لیا اور  وہ وہیں کا وہیں مرگیا ۔پھر لوگوں نے اس کے لئے قبر کھول دی تو دیکھا وہاں بھی کا لا زہریلا ناگ موجود  ہے ۔ پھر لوگوں نے دوسری قبر کھودی وہاں بھی وہ ناگ تھا ایسا کئی مرتبہ ہوا تو بعض عارفین نے کہا اس کو جہاں چاہے دفن کرو اگر تم پوری زمین بھی کھود ڈالو گے تو ہر جگہ یہ کالا سانپ ملے گا ۔ کیونکہ خدا اس کو آخرت سے پہلے دنیا میں عذاب دینا چاہتا ہے اس لئے کہ اس نے سیدنا عمر کو گالیاں دی تھیں ۔اس لئے میں خوفزدہ اور متحیر ہوکر اس مشکل بحث میں پڑنے سے کتراتا تھا خصوصا جب کہ میں نے "الزیتونیۃ یونیورسٹی" کی ایک فرع میں پڑھا تھا " افضل الخلفاء علی التحقیق سیدنا ابو بکر ہیں اس کے بعد حضرت عمر فاروق ہیں جو حق اور باطل میں فرق کرتے تھے ۔ اس کے بعد سیدنا عثمان بن عفان

--------------

(۱):- یہ واقعہ الاسود السالخ کے حالات میں دمیری نے حیات الحیوان کے اندر لکھا ہے ۔

۱۶۴

ذوالنورین ہیں جن سے ملائکہ رحمان بھی شرماتے تھے ۔ اس کے بعد سیدنا علی باب مدینۃ علی نبی ہیں ان چاروں کے بعد عشرہ مبشرہ کے باقی چھ ۶ افراد طلحہ ، زبیر ، سعد ، عبدالرحمان ،ابی عبیدہ ہیں ، اس کےبعد تمام صحابہ کانمبر آتا ہے ۔ہمارے علماء زیادہ تر اس آیت سے استدلا ل ہم کو سکھاتے ہیں :" لانفرق بین احد میں رسلہ " کہ تمام صحابہ کو ایک آنکھ سے دیکھنا چاہیے کسی پر کوئی اعتراض نہین کرنا چاہے ۔

اسی لئے میں کئی مرتبہ ڈرا اور کئی مرتبہ استغفار پڑھا ۔ اس بحث کو ختم کرنا چاہا کیونکہ اس سے صحابہ کے بارے میں شک ہونے لگتا ہے اور اس کانتیجہ اپنے دین میں شک کرتا ہوتا ہے ۔لیکن اس تمام مدت میں اپنے علماء سے بات کرنے پر مجھےبہت سے ایسے تناقضات ملے جن کو عقل قبول نہیں کرتی  اور علماء نے مجھے ڈرانا شروع کردیا اگر صحابہ کے بارے میں میں ایسی ہی بحث کرتا رہا تو خدا اپنی نعمت مجھ سے سلب کر لے گا ۔ اور مجھے ہلاک کردےگا لیکن ان تمام دشمنیوں  اور تکذیب کے بعد بھی  تلاش حقیقت کو خواہش نے ہر مرتبہ  مجھے نئی طرح سے بحث کرنے پر ابھارا اور میں نے اپنے اندر ایک ایسی قوت پارہا تھا جو مجھے بحث جاری رکھنے پر مجبور کر رہی تھی۔

٭٭٭٭٭

۱۶۵

ایک مولانا سے گفتگو

میں نے اپنے ایک عالم سے کہا :- جب معاویہ بے گناہوں کو قتل کرکے ،لوگوں کی عزت آبرو لوٹ کرکے آپ کے نزدیک مجتہد ہے ۔ اور ایک اجر کا مستحق ہے اور یزید فرزند رسول کو قتل کرکے مدینہ کو اپنے لشکر  کے لئے مباح کرکے خطا کار مجتہد ہوسکتا ہے اور ایک اجر کا مستحق ہے یہاں تک کہ آپ میں سے بعض نے یہاں تک کہدیا : حسین تو اپنے نانا کی تلوار سے قتل کئےگئے ۔ اس سے صرف فعل یزید  کو جائز کرنا مقصود ہے تو پھر اگر میں اجتہاد کروں اور بعض صحابہ کے بارف میں مشکوک ہوجاؤں اور بعض  کے بارے میں  مشکوک نہ ہوں  تو اگر میرا اجتہاد صحیح ہے تو مجھے بھی دو اجر اور غلط ہے تو ایک اجر تو ملنا ہی چاہیے جب کہ میرے اجتہاد کا قیاس معاویہ ویزید کے افعال پر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ قاتل اولاد پیغمبر ہیں اور میں تو صرف شک وعدم شک کی بحث میں ہوں اس کے علاوہ بعض صحابہ میں عیب  نکالنے کا مطلب ان پر سب وشتم اور لعن کرنا نہیں ہے بلکہ میرا مقصد تمام گمراہ  فرقوں میں نجات پانے والے فرقہ کی تلاش ہے ۔اور یہ صرف میرا ہی فریضہ نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کا فریضہ ہے تو آخر ایسا کرنے پر میں کیوں گردن زنی کے قابل ہوں ؟ اور خدا دلوں کے بھید سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ میرا ارادہ کیا ہے ؟

مولانا :- اے بیٹا ! باب اجتھاد مدتوں پہلے بند ہوچکا ہے ۔

میں :- کس نے بند کیاہے ؟

مولانا :-ائمہ اربعہ  نے (یعنی امام ابو حنیفہ ، مالک ، شافعی ، احمد بن حنبل نے )

میں :- (بڑی بے باکی سے ) اگر خدا اور رسول اور خلفائے راشدین (جن کی پیروی کا حکم دیاگیا ہے ) نے نہیں بند کیا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ جیسے ان لوگوں نے اجتہاد کیا تھا میں  بھی اجتہاد

۱۶۶

کروں گا ۔

مولانا:- جب تک تم کو سترہ ۱۷ علوم میں مہارت نہ  جائے اجتہاد کرہی نہیں سکتے ان میں اہم علوم مثلا یہ ہیں ۔ تفسیر ،لغت ، نحو،صرف ، بلاغت ، حدیث ،تاریخ وغیرہ وغیرہ ،۔

میں :- نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا :- میں اس لئے اجتہاد کرنا نہیں  چاہتا کہ لوگوں کو قرآن وسنت کے احکام بتاؤں یا اسلام کے اندر میں بھی کوئی صاحب مذہب بن جاؤں ۔ہر گز نہیں ! میں تو صرف حق وباطل کو پہچاننے اور یہ سمجھنے کے لئے کہ حضرت علی حق پر تھے یہ حضرت معاویہ ؟! اجتہاد کرنا چاہتا ہوں ۔ اور اس کے لئے ۱۷ علوم میں مہارت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دونوں کی زندگی کا مطالعہ اور یہ دیکھنا کہ کس نے کیا کیا ہے ؟حقیقت کو پہچاننے کے لئے کافی ہے ۔

مولانا:-  تم کو ان کی کیا ضرورت ہے ؟ تلک امۃ قد خلت لھا ما کسبت ولکم ما کسبتم والا تسئلون عما کانوا یعملون (پ ۱ سورہ بقرہ آیت ۱۳۴)

ترجمہ:- (اے یہودیو)وہ لوگ تھ جو چل بسے جو انھوں نے کیا ان کے آگے آیا اور جو تم کروگے وہ تمہارے آگے آئے گا ۔اور وہ جوکچھ بھی کرتے تھے اس کی پوچھ گچھ تم سے (تو )نہیں ہوگی ۔

میں :- آپ تسئلون کی (ت) کو پیش پڑھ رہے یا زبر ؟

مولانا :- میں پیش پڑھ رہا ہوں( تسئلون)

میں :- شکر خدا کا ۔ آگر آپ زبر پڑھتے تو بحث کی گنجائش ہی نہیں تھی ۔۔۔۔ زبر سے مطلب ہوگا کہ تم کوسوال کرنے کا حق نہیں ہے ۔۔۔ہاں پیش پڑھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے افعال کا سوال ہم سے نہیں کیا جائے گا ۔ اوریہ ایسا ہی ہے جیسے ایک اور جگہ ارشاد ہے ۔ہر انسان اپنے اعمال کا گروی ہوگا ۔ یا مثلا انسان کو اتنا ہی ملے گا جتنی وہ کوشش کرے گا ۔ قرآن نے ہم کو امم سابقہ کے حالات معلوم کرنے پر ابھارا ہے اور کہا ہے کہ ہم اس

۱۶۷

 سے عبرت حاصل کریں اسی لئے خدا نے فرعون ،ہامان ،نمرود ،قارون ،کا جہاں قصہ بیان کیا ہے وہیں انبیائے سابقین کا بھی ذکر کیا ہے ۔ یہ تسلی وتشفی کے لئے ذکر نہیں کیا ہے بلکہ حق وباطل کی معرفت کے لئے ان واقعات کو بیان کیاگیا ہے ۔اب رہی آپ کی یہ بات کہ مجھے بحث سے کیا فائدہ ؟  تو عرض ہے کہ مجھے اس سے فائدہ ہے ۔ اولا تو اس لئے کہ ولی خدا کو پہچان کر اس سے محبت کروں اور دشمن خدا کو پہچان کر اس سے دشمنی کروں ۔ اور قرآن یہی بات چاہتا ہے ۔بلکہ اس کو واجب قراردیتا ہے ۔اور دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ میں اس کی عبادت کس طرح کروں؟ اور جو فرائض اس نے واجب کئے ہیں ان کو کس طرح ادا کروں تاکہ اس کے ارادہ ومنشاء کے مطابق ہو۔ نہ یہ کہ میں فرائض کو اسطرح ادا کروں جس طرح ابو حنیفہ یادوسرے مجتہدین چاہتے ہیں ۔ کیونکہ امام مالک نماز میں بسم اللہ  کو مکروہ سمجھتے ہیں ۔ حالانہ ابو حنیفہ واجب جانتے ہیں اور دوسرے لوگ بغیر بسم اللہ کے نماز ہی باطل سمجھتے ہیں ۔اور چونکہ  نماز دین کا ستو ن ہے  اور تمام (فرعی ) اعمال کی مقبولیت کا دارومدار نماز پر ہے اس لئے میں نہیں چاہتا کہ میری نماز باطل ہو ۔اسی طرح مثلا شیعہ کہتے ہیں : وضو میں پیروں کا مسح کرنا واجب ہے اور اہل سنت کہتے ہیں پیروں کا دھونا واجب ہے ۔ اور قرآنی آیت اسطرح ہے : وامسحوا برؤو سکم وارجلکم "یہ صریحی طور سے مسح کو بتا تی ہے ۔ مولانا اب آپ ہی بتائیے ایک عقلمند مسلمان بغیر بحث ودلیل کے کس ایک کو قبول کرے اور دوسرے کو رد کردے؟

مولانا:- تم یہ بھی کرسکتے ہو تمام مذاہب سے اچھی اچھی باتیں لے لو کیونکہ یہ سب ہی اسلامی فرقے ہیں اور سب ہی کا مدرک رسول ہیں ۔

میں :- مجھے ڈر ہے کہیں میں اس آیت کا مصداق نہ بن جاؤں:"أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ"(پ ۲۵ س ۴۵ (الجاثیه ) آیت ۲۳)

۱۶۸

ترجمہ :- بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور (اس کی حالت) سمجھ بو جھ کر خدانے اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے ایور اس کے کان  اور دل پر علامت مقرر کر دی ہے ۔( کہ یہ ایمان نہ لائےگا )اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے پھر خدا کے بعد اس کی ہدایت کون کرسکتا ہے تو کیا تم لوگ (اتنا بھی)غور نہیں کرتے ؟۔

 مولانا! جب تک ایک شی کو ایک مذہب حلال اور دوسرا حرام کرتا رہے گا اس وقت تک میں یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ سارے کے سارے مذہب حق ہیں ۔ کیونکہ یہ محال ہے کہ ایک ہی شئ ایک ہی وقت میں حلال بھی ہو اور حرام بھی ہو ۔جب کہ رسول کے احکام میں کوئی تناقض نہیں تھا۔ کیونکہ وہ سب وحی قرآنی کے مطابق تھے: ولو کان من عند غیرالله لوجدوا فیه اختلافا کثیرا (پ ۵س۴ (نساء)آیت ۸۲)

اگر یہ (قرآن  ) غیر خدا کے پاس سے (آیا ) ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے ۔ اور چونکہ مذاہب اربعہ میں بہت اختلاف سے اس لئے یہ نہ خدا کی طرف سے ہے نہ رسول کی طرف سے ہے ،کیونکہ رسول قرآن کے خلاف نہیں کہہ سکتے ،

مولانا:- نے جب محسوس کیا کہ میرا کلام منطقی ہے اورمیری دلیلیں مضبوط ہیں تو بولے : میاں میں تم کو قربۃ الی اللہ ایک نصیحت کرتاہوں  ۔تم چاہے جس چیز میں شک کرنا لیکن (خبردار)خلفائے راشدین کےبارے میں کبھی شک نہ کرنا ۔کیونکہ یہ چاروں اسلام کے ستون ہیں اور اگر ان میں سے ایک ستون بھی گر گیا تو عمارت گر جائے گی ۔۔

میں :- مولانا ! استغفراللہ اگر یہ چاروں ستون ہیں تو پھر رسول خدا (ص) کہاں گئے ؟

مولانا:- وہ تو خود ہی عمارت ہیں ۔ پورا سلام تو حضور ہی ہیں ۔

میں مولانا کی اس تحلیل سے مسکرایا اور بولا دوبارہ استغفراللہ کہتا ہوں ۔ مولانا آپ بغیر سوچے فرما دیتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان چاروں کے بغیر رسول خدا بذات خود کچھ  بھی نہیں ہیں ۔ حالانکہ خدا کہتا ہے :

۱۶۹

"هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيداً "(پ ۲۶ س ۴۸(الفتح) آیت ۲۸)

ترجمہ:-یہ وہی  تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب رکھے اور گواہی کے لئے بس خدا کا فی ہے۔

خدا نے صرف محمد کو رسول بنا کر بھیجا ان کی رسالت میں ان چاروں میں سے کسی ایک کو نہیں شریک قراردیا اور نہ ان کے علاوہ کسی دوسرے کو شریک قراردیا ۔اسی سلسلہ میں خدا فرماتا ہے:" كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ "(پ۲ س۲(بقره)آیت ۱۵۱)

ترجمہ:- (مسلمانو!یہ احسان بھی ویسا ہی ہے) جیسے ہم نے تم میں  تم ہی کا ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیتین پڑھ کر سنائے اورتمہارے نفس کو پاکیزہ کرے اور تمہیں کتاب (قرآن ) اور عقل کی باتیں سکھائے جن کی تمہیں (پہلے سے) خبر نہ تھی ۔"

مولانا :-ہم نے اپنے بزرگوں اور ائمہ سے یہی سکھا تھا ۔اور ہم لوگ اپنے زمانہ میں نہ علماء سے مناقشہ کرتے تھے اور نہ ہی مجادلہ کرتے تھے جس طرح آج کی آپ لوگوں کی طرح کی نئی نسل کرتی ہے ،آپ  لوگ ہر چیز میں شک کرنے لگے  حدیہ ہے کہ اب دین میں بھی شک کرنے لگے ۔اب قیامت کے آثار ہیں ۔ کیونک رسول نے فرمایا ہے ۔قیامت برے لوگوں ہی کی وجہ سے آئےگی ۔

میں :-مولانا! آپ مجھے خوفزدہ کررہےہیں ۔میں خود دین میں شک کروں یا دوسرے کو مبتلا کروں اس سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں ، میں اس خدائے واحد پر ایمان لایا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ اس کے ملائکہ اس کی نازل کردہ کتابوں ،بھیجے ہوئے رسولوں پر ایمان رکھتاہوں ۔ میں خدا کے بندے اور اس کے رسول سیدنا محمد پر ایمان رکھتا ہوں ، اور یہ تسلیم کرتاہوں کہ وہ انبیاء ومرسلین میں سب سے افضل تھے اور میں ایک مسلمان ہوں،

۱۷۰

پھر آپ مجھ پر کیوں اتہام لگارہے ہیں ؟

مولانا :- میں تو تم پر اس سے بھی بڑا الزام لگاتا ہوں ۔ تم سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر کے بارے میں شک کرتے ہو حالانکہ رسول خدا نے فرمایا ہے : اگر میری پوری امت کے ایمان کو ابو بکر کے ایمان سے تولا جائے تو ایمان  ابو بکر کا پلہ بھاری ہوگا ۔اور سیدنا عمر کے بارے میں فرمایا  ہے : میری امت میرے اوپر پیش کی گئی تو وہ ایسی قمیص  پہنی تھی  جو سینہ تک بھی نہیں پہنچ پارہی تھی پھر میرے سامنے عمر کو پیش کیا گیا ان کی قمیص زمین کو خط دے رہی تھی لوگوں  نےکہا حضور آپ نے اس کی کیا تاویل فرمائی ؟ فرمایا : دین ! اور تم آج چودھویں صدی ہجری میں آئے ہو ۔عدالت صحابہ میں شک کرتے ہو۔ خصوصا ابو بکر وعمر کی عدالت میں کیا تم نہیں جانتے اہل عراق سب کے سب اہل شقاق ہیں ۔ اہل کفر ونفاق ہیں ؟

میں :- میری سمجھ میں نہیں آرہا  تھا کہ میں اس شخص کے بارے میں کیاکہوں جو ادعائے علم کرتا ہے اور گناہوں پر فخر کرتا ہے ۔ اب وہ احسن طریقہ جدال سے جھوٹ ،افتراء اور ایسے لوگوں کے سامنے جو آنکھ بند کرکے دین کو پسند کرتے ہیں جھوٹے جھوٹے الزامات لگانے لگا ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ لوگوں کی آنکھیں سرخ ہوگئیں ۔ اوربعضوں کے گردن کی رگیں پھول گئیں ، اور میں نے ان کے چہروں سے شرکاہ کا اندازہ کرلیا ۔ لہذا فورا دوڑ کر گیا اور امام مالک کی کتاب "موطاء" اور صحیح بخاری اٹھا لا یا ۔اور عرض  کیا مولانا صاحب مجھے جس چیز  نے ابو بکر کے بارے میں شک پر ابھارا وہ خود رسول خدا کی ذات ہے ۔ لیجئے موطا پڑھیئے ۔ مالک نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے احد کے شہیدوں کے لئے فرمایا : میں ان لوگوں کی گواہی دیتاہوں ! اس پر ابو بکر صدیق نے کہا : اے رسو اللہ(ص) کہ ہم ان کے بھائی نہیں ہیں  ہم بھی اسی طرح اسلام لائے جیسے وہ لائے تھے ہم نے بھی اسی طرح جہاد کیا ۔جس طرح انھوں نے جہاد کیا تھا ۔رسول خدا نے فرمایا : ہاں! لیکن مجھے نہیں معلوم  کہ تم لوگ میرے بعد کیا احداث (ایجاد بدعت) کروگے ۔ اس پر ابو بکر روئے پھر اور روئے اور کہا (کیا ) ہم آپ کے بعد

۱۷۱

باقی رہیں گے(۱) ۔

اس کے بعد میں نے صحیح بخاری کھولی اس میں ہے : عمر بن خطاب حفصہ  کے پاس آئے حفصہ کے پاس اسماء بنت عمیس بھی موجود تھی عمر نے اسماء کو دیکھ کر پوچھا یہ کون ہے ؟ حفصہ نےکہا اسماء بنت  عمیس ! عمر نے کہا یہی  حبشہ  ہے یہی بحریہ ہے ۔ اسماء نے کہا :ہاں ! اس پر عمر بولے : ہماری ہجرت تم سے پہلے ہے اس لئے ہم رسول خدا سےبہ نسبت تمہارے زیادہ احق ہیں ! اسماء کو یہ سن کر غصہ آگیا اور بولیں: ہر گز نہیں خدا کی قسم ایسا ہیں ہوسکتا ۔تم رسول اللہ کے ساتھ تھے ،آپ تمہارے بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے ۔جاہلوں کو وعظ کرتے تھے  اور ہم لوگو ایسی (جگہ )یا زمین میں تھے جو اجنبیوں کی اور دشمنوں کی تھی ۔حبشہ میں ہم نے جو کچھ کیا ہو خدا اور اس کے رسول  کے لئے کیا خدا کی قسم ہم لوگ  جب بھی کھانا کھا تے یا پانی پیتے تھے رسول خدا کا ذکر ضرور کرتے تھے  ،ہم کو اذیت پہونچتی تھی ۔ہم  ہر وقت  خوفزدہ رہتے تھے ۔(لہذا تم لوگ ہمارے برابر کیسے ہوسکتے ہو؟ ) میں اس واقعہ کا ذکر رسول سے ضرور کروں گی ۔ خدا کی قسم ان سے پوچھو ں گی  نہ جھوٹ بولوں گی نہ (کمی )و زیادتی کروں گی ۔ پھر جب رسول خدا آئے تو اسماء نے کہا یا رسول اللہ عمر نے یہ کہا تھا آنحضرت نے پوچھا تم نے کیا کیا ؟ اسماء نےکہا میں نے یہ یہ کہا ! آنحضرت نے فرمایا : تم سے زیادہ وہ حق نہیں ہے ۔ ان کے اوران کے ساتھیوں کی صرف ایک ہجرت ہر اور تم اہل سفینہ کی دو دو ہجرت ہے ۔اسماء بیان کرتی ہیں( اس واقعہ کے بعد) ابو موسی  اور دیگر اصحاب سفینہ برابر میرے پاس آتے تھے اور اس حدیث کے بارے میں پوچھتے تھے ۔ دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جو ان لوگوں کے دلوں کو اس حدیث سے زیادہ فرجت بخشی ہو ہور نہ ہی کوئی چیز ان کے نزدیک اس سے بھی زیادہ اہم تھی(۲)

--------------

(۱):- موطاء امام مالک ج ۱ ص ۳۰۷ المغازی للواقدی ص ۳۱۰

(۲):- صحیح بخاری ج ۳ ص ۲۸۷ باب غزوہ خیبر "

۱۷۲

جب شیخ(مولانا ) نے  اور ان کے ساتھ لوگوں نے اس کو پڑھا تو ان کے چہرے بدل گئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ، اور یہ سب اس کا انتظار کرنے لگے کہ دیکھیں مغلوب مولانا صاحب کیا جواب دیتے ہیں لیکن مولانا نے بڑے تعجب سے پلکوں کو اٹھا کر دیکھا اور فرمایا : رب زدنی علما (خدا یا میرے علم میں اضافہ کر)

میں :- جب سب سے پہلے خود رسول اللہ نے ابو بکر کے بارے میں شک کیا اورابو بکر کیلئے گواہی  نہیں دی ،اس لئے کہ حضور کو معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ آنحضرت کے بعد کیا کیا کریں گے ؟اور جب  خود رسول خدا(ص) نے اسماء بنت عمیس پر عمر بن خطاب کی فضیلت کو قبول نہیں کیا ،بلکہ اسماء کو عمر پر فضیلت  نہ دوں ،اور ظاہر  ہے کہ یہ دونوں حدیثیں  تمام ان حدیثوں سے متعارض ہیں جو ابو بکر وعمر کی فضیلت  میں وارد ہوئی ہیں بلکہ یہ دونوں حدیثیں واقع سے بہت قریب ہیں اور سمجھ میں آنے والی ہیں بہ نسبت فرضی حدیثوں کے جو فضائل میں آئی ہیں بلکہ یہ دونوں تمام فضائل والی حدیثوں کو باطل کردیتی ہیں ، حاضرین نے کہا یہ کیسے؟

میں :-رسول خدا(ص) نے ابو بکر کی گواہی نہیں دی اور فرمایا :نہ معلوم میرے بعد تم کیا کیا کروگے ؟ اور یہ بات معقول ہے اور قرآن نے اس کا اثبات کیا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ ان لوگوں نے رسول کے بعد بہت سی تبدیلی کردی ۔ اسی لئے ابوبکر روئے تھے کیونکہ انھوں نے تبدیلی بھی کی تھی اور حضرت فاطمہ کو غضبناک بھی کیا تھا (جیسا کہ گزرچکا ) اور اسی تبدیلی کی وجہ سے مرنے کے پہلے بہت پشیمان تھے اور یہ تمنا کرتے تھے کہ کا ش میں بشر نہ ہوتا ۔

اب رہی ایمان  ابو بکر والی حدیث کہ تمام امت سے اس کاوزن زیادہ تھا تو یہ باطل بھی ہے اور عقل میں نہ آنے والی بھی ہے اس لئے کہ جو شخص چالیس سال تک مشرک رہا ہو ، بتوں کی پرستش کرتا رہا ہو وہ پوری امت محمدی کے ایمان سے زیادہ  ایمان رکھتا ہو ناممکن ہے ۔کیونکہ امت محمدی کے اندر اولیاء اللہ شہدا اور وہ ائمہ بھی ہیں جنھوں نے اپنی پوری عمریں جہاد فی

۱۷۳

سبیل اللہ میں گزاردیں پھر ابو بکر اس حدیث کے مصداق کیسے ہوسکتے ہیں ؟ اگر واقعا یہی مصداق ہوتے تو عمر کے آخری حصہ میں یہ تمنا نہ کرتے کہ کاش میں بشر نہ ہوتا ۔ اگر ان کا ایمان پوری امت سے زیادہ ہوتا تو سیدۃ النساء فاطمہ بنت رسول ان پر غضبناک نہ ہوتیں اور ہر نماز کے بعد ابو بکر پر بد دعا نہ کرتیں ۔

 مولانا صاحب تو چپ رہے  کچھ بولے ہی نہیں لیکن بعض موجود لوگوں نے کہا :خدا کی قسم اس حدیث نے ہم کو شک میں ڈال دیا ۔ اس وقت مولانا صاحب بولے

مولانا:- آپ یہی چاہتے تھے نا !؟ آپ نے سب کوشک میں مبتلا کردیا ۔میرے جواب دینے کے بجائے انھیں میں سے ایک بول اٹھا :جی نہیں ! حق انھیں کے ساتھ ہے ہم نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی کتاب مکمل نہیں پڑھی ہو لوگ تو آپ حضرات کی اندھی تقلید کرتے تھے جو کہتے تھے ۔بے چون وچرا مان لیتے تھے ۔اب ہم پر حقیقت ظاہر ہوئی کہ حاجی جو کہہ رہے ہیں وہی صحیح ہے اب ہمارا فریضہ ہے کہ پڑھیں اور بحث کریں بعض اور  حاضرین نے بھی اس شخص کی تائید کی اور درحقیقت یہ حق وصداقت کی فتح تھی یہ جبر وقہر کا غلبہ نہیں تھا البتہ عقل ودلیل وبرہان کی کامیابی تھی اگر تم سچے ہوتو اپنی دلیل پیش کرو!

اس واقعہ نے میری ہمت بڑھا دی او ر میں نے بحث کے دروازوں کو پاٹوں پاٹ کھول اور دیا اور بسم اللہ وبا للہ وعلی ملۃ رسول اللہ کہہ کر اس میں کود پڑا ۔پروردگار عالم سے ہدایت وتوفیق کی امید رکھتے ہوئے کیونکہ اس نے وعدہ کیا ہے جو حق کو تلاش کرے گا ۔ وہ اس کی ہدایت کرے گا اور خدا وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔

بڑی دقت کے ساتھ مسلسل تین سال تک میں بحث وتحقیق کرتارہا  کیونکہ جو پڑھتا تھا اس کو دہراتا تھا ۔اور بعض اوقات تو بار بار ایک کتاب کوپہلے صفحہ سے آخری صفحہ تک پڑھتا تھا ۔

چنانچہ میں نے علامہ شرف الدین الموسوی کی "المراجعات"پڑھی اور کئ کئی بار پڑھا اس کتاب نے میرے سامنے ایسے نئے آفاق کھول دیئے جو میری ہدایت کاسبب بنے اور میرے دل میں

۱۷۴

پیش کش کوئی بھی چیز سات صدی تک ائمہ اہلبیت کی پیروی سے نہیں ہٹا سکی ،حالانکہ ان سات صدیوں میں شیعوں کو دربدر کیا گیا ۔ دفتر عطا سے ان کے نام کاٹ دیئے  ان کوچن چن کر جبال وکوہ میں تلاش کرکے قتل کیاگیا ان کے خلاف ایسے ایسے جھوٹے پروپیگنڈے کئے گئے جس سے لوگ ان سے نفرت کرنے لگے اور اس کے آثار آج بھی شیعوں میں باقی ہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ائمہ اہلبیت کوچھوڑ کر کسی اور کی پیروی نہیں کی ۔

لیکن ان تمام مصائب کا بڑے صبر وسکون وثبات قدم سے مقابلہ کرتے ہوئے شیعوں نے حق کا دامن نہیں چھوڑا اور نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ کی ،میں آج بھی اپنے بڑے سےبڑے عالم کو چلینج کرتاہوں کہ وہ شیعہ علماء کے پاس بیٹھ کر ان سے بحث کرے تو شیعہ ہوئے بغیر واپس نہیں ہوگا ۔

اس خدا کا شکر ہے جس نے ہماری اس بات کی ہدایت کی اور اگر خدا ہدایت نہ کرتا تو ہدایت ناممکن تھی ۔خدا کی حمد اور ا س کا شکر ہے کہ اس نے فرقہ ناجیہ تک میری رہبری کردی جس کی مدتوں سے تلاش تھی اور اب مجھے یقین ہے کہ حضرت علی واہل بیت سے تمسک عروۃ الوثقی سے تمسک  ہے اور احادیث رسول بھی بکثرت  اس پر موجود ہیں اور مسلمانوں نے ان پر اجماع کیا ہے اور جو بھی گوش شنوا رکھتا ہوگا صرف عقل ہی اس کے لئے بہترین دلیل ہے ، علی الاطلاق حضرت علی تمام صحابہ سے اعلم اورسب سے زیاد ہ شجاع تھے اور امت کا اس پر اجماع ہے ۔ صرف یہی اجماع حضرت علی کے مستحق خلافت ہونے پر مضبوط دلیل ہے ۔خدا وند عالم کا ارشاد ہے:-" وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكاً قَالُوَاْ أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ"(پ ۲ س۲ (بقره) آیت ۲۴۷)

ترجمہ:- اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ بیشک خدا نے تمہاری درخواست کے مطابق

۱۷۵

طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر کیا ہے تب کہنے لگے ۔اس کی حکومت ہو پر کیوں کر ہوسکتی ہے ۔ حالانکہ سلطنت کے حقدار اس سے زیادہ تو ہم ہیں ۔ کیونکہ اسے تو مال کے اعتبار سے بھی فارغ البالی تک نصیب نہیں (نبی نے کہا)خدا نے اسے تم پر فضیلت دی ہے اور (مال میں نہ سہی )علم اور جسم کا پھیلاؤ تو اسی خدا نے زیادہ فرمایا ہے اور خدا اپنا ملک جسے چاہے دے اور خدا بڑا گنجائش والا ہے اور واقف کارہے ۔اور رسول  نے فرمایا : ان علیا منی وانا منہ وھو ولی کل مومن بعدی(۳) ۔یقینا علی مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ۔ اور علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں ۔ زمخشری نے چند اشعار حضرت علی کے لئے کہے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔

کثر الشک ولاختلاف وکل ----- یدعی انّه الصراط السوی

فتمسک بلا اله الا الله----- وحبی لاحمد وعلی

فاز کلب یحب اصحاب الکهف ----کیف اشقی بحب آل علی

اختلاف اور شک بہت زیادہ ہوگیا ہے اور ہر شخص یہی دعوی کرتا ہے کہ وہ سیدھے راستہ پر ہے لہذا میں نے لا الہ الا اللہ سے تمسک کیا اور احمد وعلی کی محبت سے ، اصحاب کہف کا کتا ان سے محبت کرنے کی وجہ سے کامیاب ہوگیا۔ پھر بھلا میں آل علی سے محبت کرکے کیوں نہ کامیاب ہوجاؤں

ہاں الحمدللہ میں نے بدل پالیا ۔ اور رسول خدا کے بعد امیر المومنین سید الوصین ،قائد الغر المحجلین اسداللہ الغالب  الامام  علی ابن ابی طالب اور سیدی شباب الجنۃ ریحانتی الرسول ، ابی محمد الحسن الزکی اور الامام ابی عبداللہ الحسین اور بضعۃ المصطفی ،سلالۃ النبوۃ وام الائمہ ،معدن الرسالہ ،جن کے غضب پر موقوف ہو غضب رب العزت سیدۃ النساء العالمین فاطمۃ الزہراء کی پیروی کرنے لگا ۔

امام مالک کے بدلے استاذ الائمہ معلم الامہ الامام جعفر الصادق علیہ السلام کواختیار کر لیا امام حسین کی ذریت

--------------

(۱):- صحیح ترمذی ج ۵ ص ۲۹۶ ،خصائص نسائی ص ۸۷ ع،مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۱۱۰

۱۷۶

سے نو معصومین جو ائمہ المسلمین ہیں اور اولیاء اللہ الصالحین ہیں ان سے تمسک کرنے لگا ۔

الٹےپاؤں کفر کی طرف پلٹ جانے والے صحابہ جیسے معاویہ ،عمر وعاص ،مغیرہ بن شعبہ ،ابی ہریرہ عکرمہ ،کعب الاحبار ، کے بدلے ان صحابہ کو اختیار کرلیا جنھوں نے پیغمبر سے کئے ہوئے معاہدے کو توڑا نہیں ۔ جیسے عمار یاسر ، سلمان فارسی ، ابو ذر غفاری ،مقدادبن الاسود ،خزیمہ بن ثابت ،ذوالشہادتین  ابی بن کعب وغیرہ اور اس بابصیرت افروز تبدیلی پر خدا کی حمد وثنا کرتا ہوں ۔

اور اپنی قوم کے ان علما کے عوض جنھوں نے ہماری عقلوں کو جامد کردیا اور جن کی اکثریت نے ہرزمانہ میں حکام وسلاطین کی جی حضوری کی ،ان شیعہ علماء کو اختیار کیا جنھوں نے کبھی اجتھاد کادروازہ بند نہیں کیا اور نہ کبھی دینی معاملات میں سستی دکھائی ۔اورنہ کبھی ظالم وجابر امراء وسلاطین کی چوکھٹ پر جب سائی کی ۔

 ہاں متعصب وپتھر جیسے سخت افکار :جو تناقضات پر عقیدہ رکھتے ہوں"  کے بدلے آزاد روشن کھلے ذہن ودماغ والے ،افکار کو اختیار کرلیا جو حجت ودلیل وبرہان پر ایمان رکھتے  ہیں اور جیسا کہ آج کل کہا جاتا ہے ہم نے اپنے ذہن پر تیس ۳۰ سال کرے پڑے ہوئے گرد  دوغبار کو دورکرکے اپنے دماغ کو دھوڈالا یعنی  بنی امیہ کی گمراہیوں کے بدلے میں معصومین  پر عقیدہ رکھ کر اپنی باقی زندگی کو پاک کر لیا ۔ خداوند  محمد وآل محمد کی ملت پر زندہ  رکھ اور ان کی سنت پر موت دے انھیں کے ساتھ میرا حشر کر کیونکہ تیرے نبی کا قول ہے : انسان جس کو دوست رکھتا ہے اسی کے ساتھ محشور ہوتا ہے ۔۔شیعہ ہوکر میں اپنی اصل کی طرف پلٹ آیا ۔کیونکہ  میرے باپ اورچچا شجرہ نسب کے اعتبار سے بتایا  کرتے تھے کہ ہم ان سادات میں ہیں جوعباسی حکومت کی ناقابل برداشت سختیوں سے مجبور ہوکر عراق سے فرار کرکے شمالی افریقہ میں پنا ہ گزیں ہوگئے تھے ۔ اورآج تک ہمارے آثار وہاں باقی ہیں اور شمال افریقہ مین ہم جیسے بہت ہسے ہیں جو اشراف کہلاتے ہیں کیوں کہ وہ نسل سادات سے ہیں لیکن وہ لوگ بنی امیہ وبنی عباس کی بدعتوں میں سرگرداں ہوگئے ۔ اور اب ان کے پاس سوائے اس احترام کے جو لوگوں کے دلوں میں اب تک موجود ہے ۔کچھ نہیں ۔ خدا کی حمد ہدایت  دینے پر ہے ۔ شیعہ ہونے پر ہے اور بصارت وبصیرت کے حق پر ہونے پر ہے ۔

۱۷۷

اسباب تشیع

جن اسباب کی بنا پر میں شیعہ ہوا ہوں وہ تو بہت ہیں ، اس مختصر سے رسالہ میں ان سب کے تحریر کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔ صرف بعض اسباب کاذکر کرتاہوں ۔

(۱):- خلافت پر نص

چونکہ اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے میں نے قسم کھالی تھی کہ انھیں چیزوں پر اعتماد کروں گا جو فریقین (سنی وشیعہ)کے نزدیک معتمد ہوں اور جس کو کسی ایک فرقہ نے لکھا ہے اس کو چھوڑ دوں گا ۔اسی اصول پر میں نے ابو بکر اور علی میں سے کس کو کس پر فضیلت ہے " کے مسئلہ پر بحث کی اور یہ کہ خلافت علی کے لئے نص موجود ہے جیسا کہ شیعہ حضرات کا دعوی ہے یا خلافت کا مسئلہ انتخاب وشوری پر موقوف ہےجیسا کہ اہل سنت والجماعت کا دعوی ہے ۔

جو یائے حق اگر اپنے کو تمام تعصبات سے الگ کرکے صرف حقیقت کو تلاش کریگا تو اس کو حضرت علی کی خلافت پر نص مل جائے گی ،جیسے نبی کریم کا ارشاد ہے " من کنت مولاہ فعلی مولاہ " جب آنحضرت حجۃ الوداع سے واپس آرہے تھے تو اس حدیث کو ارشاد فرمایا تھا اور اس ارشاد کے بعد یا باقاعدہ مبارکبادی کی رسم ادا کی گئی اورخود ابو بکر وعمر نے حضرت علی کو ان الفاظ سے تہنیت پیش کی :- ابو طالب کے فرزند مبارک ہو مبارک تم تمام مومنین ومومنات کے مولا ہوگئے(۱)

--------------

(۱):- مسند احمد بن حنبل ج ۴ ص ۲۸۱ ، سر العالمین للغزالی ص ۱۲ ،تذکرۃ الخواص (ابن جوزی) ص ۲۹ ،الریاض النضرہ (طبری )ج ۲ ص ۱۶۹، کنز العمال ج ۶ ص ۳۹۷ ، البدایۃ والنھایہ (ابن کثیر) ج ۵ ص ۲۱۲ ،تاریخ ابن عساکر ج ۲ ص ۵۰ ،تفسیر رازی ج ۲ ص ۶۳ ،الحاوی للفتاوی (سیوطی ) ج ۱ ص ۱۱۲

۱۷۸

اس حدیث پر سنی شیعہ سب کاا جماع ہے اس بحث میں میں صرف اہل سنت کی کتابوں کا حوالہ دے رہا ہوں وہ بھی سب نہیں بلکہ جتنا میں نے ذکر کیا ہے اس کا کئی گنا چھوڑدیا ہے اگر کوئی مزید تفصیل چاہتا ہے تو وہ علامہ امینی کی"الغدیر" کا مطالعہ کرے جس کی اب تک ۱۳ جلدیں چھپ چکی ہیں ۔ اس کتاب میں مصنف نے صرف ان راویوں کا ذکر کیا ہے جو اہل سنت والجماعت  کے یہاں ثابت ہیں ۔ اب رہی یہ بات کہ سقیفہ میں ابو بکر کے انتخاب پر اجماع ہوگیا تھا اور اس کے بعد مسجد میں ان کی بیعت کی گئی تو یہ صرف دعوی ہی دعوی ہے اس پر دلیل نہیں ہے ۔ کیونکہ جب حضرت علی ،حضرت عباس ، تمام بنی ہاشم ، اسامہ بن زید ، سلمان فارسی ، ابو ذر غفاری ، مقداد بن اسود ، عمار یاسر، حذیفہ یمانی ، خزیمہ بن ثابت ، ابو بریدہ الاسلمی ، البراء بن عازب ،ابی ابن کعب ، سہل بن حنیف ،سعد بن عبادہ ، ابو ایوب انصاری ،جابر بن عبداللہ انصاری  ،خالد بن سعید اور ان کے علاوہ بہت سے صحابہ نے بیعت سے انکار کیا(۱) ۔ تو خدا کے بندو! اب اجماع کہاں رہا؟ حالانکہ اگر صرف حضرت علی ہی بیعت نہ کرتے  تو یہی بات اجماع پر طعن کے لئے کافی تھی ۔ کیونکہ بالفرض اگر رسول اکرم کی طرف سے علی کے لئے نص نہیں تھی تو خلافت کے تنہا کنڈیٹ تو بہر حال  وہ تھے ۔

حضرت ابو بکر کی بیعت کسی مشورہ کے ہوئی ہے بلکہ لوگ متوجہ ہی نہیں تھے خصوصا  اہل حل وعقد کو پتہ ہی نہیں چلا کہ بیعت ہوگئی  جیسا کہ علمائے مسلمین کہتے ہیں کیونکہ لوگ تو رسول کی تجہیز وتکفین میں مشغول تھے ، صورت حال یہ ہوئی کہ مدینہ والوں کو دفعۃ اپنے نبی کے مرنے کی اطلاع ہوئی اور وہ

--------------

(۱):-طبری ،ابن اثیر ، تاریخ الخلفاء ، تاریخ الخمیس ، استیعاب ، بلکہ جن لوگوں نے بھی ابو بکر کی بیعت کا ذکر کیا ہے ۔

۱۷۹

لوگ ابھی رونے پیٹنے ہی میں تھے ، کہ لوگوں سے زبردستی بیعت لے لی گئی(۱) ۔ اور اس زبردستی کا ثبوت اس واقعہ سے بھی ملتا ہے کہ لوگوں نے حضرت فاطمہ کے گھر کو جلا دینے کی دھمکی بھی دی  کہ بیعت نہ کرنے والے نہ نکلے تو ہم اس گھر کو آگ لگا دیں گے ۔۔۔ پھرآپ ہی بتائیے ایسی صورت میں یہ بات کیسے کہی جاسکتی ہے کہ ابو بکر کی بیعت لوگوں کے مشورہ اور اجماع سے ہوئی ہے ؟

خود حضرت عمر کا فرمان ہے : ابو بکر کی بیعت بغیر سوچے سمجھے عمل میں آگئی ہے خدا نے مسلمانوں کو اس کے شر سے بچالیا  اب اگر کوئی ایسا کرے تو اس کو قتل کردو ۔ (دوسری روایت میں ہے ) جو اس قسم کی بیعت کے لئے دعوت دے اس کو قتل کردو ! پس معلوم ہوا کہ نہ تو ابو بکر کی بیعت (صحیح )ہوئی ہے اور نہ لوگوں کی جنھوں نے ان کی بیعت کی ہے(۲)

اسی بیعت کے لئے حضرت علی فرماتے ہیں: خدا کی قسم ابو قحافہ کے بیٹے (ابو بکر) نے زبردستی کھینچ تان کر خلافت کی قمیص پہنی ہے حالانکہ ابو بکر جانتے ہیں خلافت کیلئے میں ایسا ہی ہوں جیسے وہ لوہا جس کے چاروں طرف چکی کا پاٹ گھومتا  رہتا ہے ،مجھ سے سیلاب (علم )جاری ہوتا ہے اور میرے بلندی (مرتبہ )تک پرندے پرواز نہیں کرسکتے(۳)

قبلیہ ،انصار ےک سردار سعد بن عبادہ بیان کرتے ہیں : سقیفہ کے دن ابو بکر وعمر نے انصار پر ہجوم کرلیا ۔ میں نے بڑی کوشش کی ان کو خلافت سے روک دوں اور دور رکھوں لیکن مریض ہونے کی وجہ سے میں ان کا مقابلہ نہ کرسکا ! اورج ب انصار نے ابو بکر کی بیعت کرلی تو سعد نے کہا : خدا کی قسم میں کبھی تمہاری بیعت نہ کرو ں گا  ،یہاں تک کہ میرے ترکش میں جتنے تیر ہیں سب  تم پر نہ چلادوں اور اپنے نیزوں کی انیوں کو تمہارے خون سے خضاب نہ کردوں اور جب تک میرے ہاتھوں کی طاقت باقی ہے اس وقت تک تم تلوار سے حملہ نہ کروں اور اپنے خاندان  وقبیلے کے ساتھ تم سے جنگ نہ کروں خدا کی قسم اگر انسانوں کے ساتھ جن بھی تمہارے شریک ہوجائیں تب بھی تمہاری بیعت نہ کروں گا یہاں تک کہ اپنے خدا کے سامنے پیش ہوں

--------------

(۱):- تاریخ الخلفاء (ابن قتیبہ )ج ۱ ص ۸۱

(۲):صحیح بخاری ج ۴ ص ۱۲۷

(۳):- شرح نہج البلاغہ (محمد عبدہ) ج ۱ ص ۳۴ خطبہ شقشقیہ 

۱۸۰

چنانچہ جناب سعد نہ تو ان کی جماعت میں شریک ہوتے تھے نہ ان کے ساتھ جمعہ پڑھتے تھے ۔نہ ان کے ساتھ حج کرتے تھے (یہ بھی احتمال عبارت ہے کہ نہ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے مترجم) اور سعد کو کچھ مددگار مل گئے ہوتے تو ان سے جنگ سے پیچھے نہ ہٹتے اور اگر کوئی ان سے  ان لوگوں کے ساتھ جنگ کرنے پر بیعت کرتا تو یہ باقاعدہ جنگ کرتے جناب سعد اپنے اسی حال پر باقی رہے یہاں تک کہ شام میں زمانہ ،خلافت عمر میں وفات پائی(1)

٭ جب خود بقول عمر "جنھوں نے اس بیعت کے ارکان مضبوط کئے تھے "یہ ایک ناگہانی بیعت تھی ۔جس کے شر سے خدا نے مسلمانوں کو بچالیا ۔اور اس بیعت کی وجہ سے مسلمانوں کا کیا حال ہوگیا ۔

٭ جب یہ خلافت بقول حضرت علی جو اس کے شرعی مالک تھے " تقمص تھی یعنی ابوبکر نے اپنے جسم پر اس قمیص کو کھینچ تان کر فٹ کرلیا تھا ۔

٭جب یہ خلافت بقول سعد بن عبادہ جنھوں نے مرتے دم تک ان لوگوں کے ساتھ جمعہ وجماعت چھوڑ دی تھی " ظلم تھی ۔

٭ جب یہ خلا فت کی بیعت غیر شرعی تھی کیونکہ اکابر صحابہ اورخصوصا نبی کے چچا نے اس سے کنارہ کشی کی تھی ، تو پھر ابو بکر کی خلافت کی صحت پر کون سی دلیل ہے ؟ ۔۔۔۔ صحیح جواب تو یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔۔۔۔ لہذا اس سلسلہ میں شیعوں ہی کا قول درست ہے کیونکہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک بھی حضرت علی کی خلافت پر نص موجود ہے ۔ البتہ انھوں نے صحابہ کی عزت وآبرو بچانے کے لئے اس نص کی تاویل کی ہے ۔ اس لئے انصاف پسند عادل شخص کے لئے نص کو قبول کرنیکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے خصوصا اگر اس واقعہ کے متعلقات کا علم ہوجائے(2)

2:-فاطمہ کا ابو بکر سے اختلاف

--------------

(1):- تاریخ الخلفاء ،ج 1 ص 171

(2):- ملاحظہ فرمائیے ۔ السقیفہ والخلافۃ (عبدالفتاح ) سقیفہ (محمد رضا مظفر )

۱۸۱

فریقین کےیہاں یہ موضوع بھی متفق علیہ ہے ! اگر چہ کوئی منصف وعاقل ا س کا اعتراف نہ بھی کرے کہ ابو بکر نے جناب سیدہ پر ظلم کیا ہے ۔ تب بھی ابو بکر کی غلطی مانے بغیر چارہ نہیں ہے ۔ کیونکہ جوشخص بھی اس المناک داستان کو پڑھیگا۔ اس کو علم الیقین  ہوگا کہ  ابو بکر نے جان بوجھ کر جناب زہرا کو اذیت دی ہے اور ان کوجھٹلا یا ہے ۔ تاکہ معصومہ حدیث غدیر وغیرہ سے اپنے  شوہر کے استحقاق خلافت پر استدلال نہ کرسکیں ۔(کیونکہ اگر آج ابوبکر فدک میں جناب معصومہ کوسچا مان لیتے  تو کل شوہر کی خلافت کے دعوی پر بھی سچا ماننا پڑتا  اس لئے جان بوجھ کر بنت رسول کو جھوٹا کہا گیا ہے مترجم )

اور اس بات پر بہت سے قرائن بھی موجود ہیں ۔ مثلا مورخین نے لکھا ہے ۔جناب فاطمہ خود انصار کی مجلسوں میں جاکر اپنے ابن عم کی نصرت وبیعت کے لئے لوگوں کو بلاتی تھیں اور لوگ کہدیا کرتے تھے ۔ بنت رسول اب تو ہم نے اس شخص (ابو بکر )کی بیعت کر لی ہے اگر آپ کے شوہر ابو بکر سے پہلے ہمارے پاس آجاتے  تو ہم علی کےعلاوہ کسی کی بیعت نہ کرتے ،اور حضرت علی فرماتے تھے ، کیا میں رسول  (ص) کے جنازہ کو  گھر میں چھوڑ دیتا ۔کفن ودفن نہ کرتا؟ لوگوں سے اپنی سلطنت وحکومت کی خواہش کرتا ؟ اورجناب فاطمہ ان لوگوں کے جواب میں کہتی تھیں: ابو الحسن نے وہی کیا جو ان کو کرنا چاہیے تھا ! ان لوگوں نے جو کچھ کیا ان سے خدا سمجھے گا(1) ۔

اگر ابو بکر نے یہ سب غلطی یا اشتباہ کی وجہ سے کیا ہوتا تو جناب فاطمہ سمجھا کر مطمئن کردیتیں ۔ لیکن وہ اتنا ناراض تھیں کہ مرتے مرتے مرگیئں مگر ان دونوں سے بات بھی نہیں کی کیونکہ ابو بکر نے ہر مرتبہ آپ کے دعوی کو رد کردیا تھا ۔ نہ آپ کی نہ حضرت علی (ع) کی کسی کی بھی گواہی قبول نہیں کی ان تمام باتوں کی وجہ سے جناب معصومہ اتنا ناراض تھیں کہ اپنے شوہر کو وصیت کردیا تھا ۔ مجھے رات کو چپکے سے دفن کردینا  اور ان لوگوں کو میرے جنازے پر نہ آنے دینا(2) ۔

اب جب کہ بات رات کو دفن کرنے کی آگئی ہے تو عرض کرتا چلوں کہ میں جب بھی مدینہ گیا تو بڑی

--------------

(1):- تاریخ الخلفا(ابن قتیبہ)ج 1 ص 19 ،۔شرح نہج البلاغہ (معتزلی )بیعت ابی بکر

(2):- بخاری ج 2 ص 26 ،مسلم ج 2 ص 72" باب لا نورث ما ترکنا ہ صدقۃ "

۱۸۲

کوشش اس بات کے لئے کی کہ کچھ حقیقتوں کا پتہ چلا سکوں ،چنانچہ میں نے درج ذیل نتائج کا انکشاف کیا ہے ملاحظہ فرمائیے :

(1):- جناب فاطمہ کی قبر مجہول ہے کوئی نہیں جانتا کہاں ہے؟ بعض کا خیال ہے "حجرہ نبویہ میں ہے " بعض کا نظریہ  ہے کہ حجرہ نبی کےمقابلہ میں جو آپ کا گھر تھا ۔ اسی میں دفن ہیں کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جنت البقیع " میں اہل بیت کی قبروں کے بیچ  میں ہے لیکن صحیح جگہ کی تشخیص یہ لوگ بھی نہیں کرسکے ۔۔۔ اس سے میں اس نتیجہ پر پہونچا  کہ جناب فاطمہ کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی ہر نسل یہ سوال کرے آخر کیا بات ہے کہ جناب  فاطمہ نے اپنے شوہر کو وصیت کی کہ ان کو رات کی تاریکی میں چپکے سے دفن کردیا جائے اور ان لوگوں میں سے کوئی آپ کے جنازے پر نہ آئے ! اس طرح ممکن ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے مسلمان کو بعض چونکا دینے والے حقائق کا پتہ چل جائے ۔

(2):- دوسرا نتیجہ میں نے یہ نکالا کہ عثّمان بن عفان کے قبر کی زیارت کرنے والے کو کافی مسافت طے کرنے کے بعد بقیع کےآخر میں ایک دیوار کے نیچے جا کر قبر ملتی ہے اس کے بر خلاف اغلب صحابہ بقیع میں داخل  ہونے کے بعد ہی ان  کی قبریں مل جاتی ہیں ۔ یہاں تک کہ مالک بن انس جو تبع تابعین سے ہیں ۔ اور ایک مشہور مذہب (مالکی) کے سربراہ ہیں ان کی قبر  ازواج رسول کے قریب ہی ہے اور اس سے مورخین کی یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ عثمان کو" حش کوکب" میں دفن کیا گیا ہے ۔ حش کوکب یہودیوں کی زمین ہے جب مسلمانوں نے عثمان کو بقیع  رسول میں دفن نہیں ہونے دیا تو ان کے ورثا نے مجبورا حش کوکب میں دفن کیا ۔( پہونچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا )

پھر معاویہ تخت خلافت پر بیٹھا  تو  اس نے یہودیوں سے اس زمین کوخرید کر بقیع میں شامل کردیا تاکہ عثمان کی قبر بھی بقیع میں کہی جانے لگی ۔جو شخص بھی بقیع کی زیارت کرے گا اسپر یہ حقیقت واضح ہوجائیگی ۔

مجھے تو سب سے زیادہ تعجب اس پر ہے کہ جناب رسولخدا سے ملحق ہونے والی سب سے پہلی شخصیت جناب فاطمہ کی ہے کیونکہ سب سے زیادہ فاصلہ جو بتایا جاتا ہے وہ چھ مہینہ کا ہے لیکن وہ اپنے باپ کے پہلو میں دفن نہیں ہوسکیں پس جب جناب فاطمہ اپنے باپ کے پہلو میں دفن نہ ہوسکیں حالانکہ آپ نے وصیت کردی تھی کہ

۱۸۳

مجھے چپکے سے دفن کردیا جائے تو اگر امام حسن انپے جد کے پہلو میں دفن نہ ہوسکیں  تو تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ جب امام حسین اپنے بھائی امام حسن (ع) کا جنازہ لے کر آئے  کہ پہلوئے رسول میں دفن کر دیا جائے تو ام المومنین عائشہ اس کو روکنے کے لئے خچر پر سوار ہوکر آئیں اورچیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں : میرے گھر میں اس کو دفن نہ کرو جس کو میں دوست نہیں رکھتی  اس منع کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی امیہ اور بنی ہاشم صف باندھ کر کھڑے ہوگئے اور ایک دوسرے پر حملے کیلئے آمادہ ہوگئے ۔ لیکن امام حسین (ع) نے وصیت کردی تھی کہ میرے سلسلہ میں ذرہ برابر بھی خون نہ بہایا جائے اسی موقع پر ابن عباس نے اپنے مشہور اشعار کہے

تجمّلت تبعّلت  ولو عشت تفیلت ----- لک التسع من الثمن وفی الکل تصرفت

تم اونٹ پر  بیٹھ چکی  ہو (جنگی  جمل کی طرف اشارہ ہے ) اور(آج ) خچر پر بیٹھی ہو (امام حسن کا جنازہ روکنے کے لئے عائشہ خچر پر بیٹھ کر آئی تھیں ) اگر تم زندہ  رہ گئیں تو ہاتھی پر بھی بیٹھوگی ۔ تمہارا حصہ تو 1/8 میں سے 1/9  ہے مگر تم نے پورے میں تصرف کرلیا(1) خوفناک  حقائق میں سے ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے  اس گھر میں بیوی کا حصہ ہے پھر پورے گھرپر عائشہ  کو کیا حق تھا کہ وہ منع کرتیں ؟اورجب نبی کا کوئی وارث ہی نہیں ہوتا جیسا کہ ابو بکر نے کہا اور اسی بنیاد پر جناب فاطمہ کا حق نہیں دیا تو پھر ابو بکر کی بیٹی کو نبی کی میراث کیسے مل رہی ہے ؟ کیا قرآن میں ایسی کوئی آیت ہے جو یہ بتاتی ہو کہ بیٹی کو میراث نہیں ملتی  مگر بیوی کو ملتی ہے ؟ یا سیاست  نے ہر چیز کو الٹ پلٹ دیا تھا بیٹی کو کچھ نہ دے کر بیوی کو سب کچھ دیدیا گیا ؟بعض مورخین نے یہاں پر ایک دلچسپ قصہ لکھا ہے اور چونکہ وہ میراث سے متعلق ہے اس لئے اس کا ذکر کر دینا مناسب ہے ۔ابن ابی الحدید معتزلی نہج البلاغہ کی شرح میں فرماتے ہیں :

--------------

(1):- شوہر کے ترکہ میں بیوی کو آٹھواں حصہ ملتا ہے جب شوہر صاحب اولاد ہو اور رسول خدا کی نو بیویاں تھیں تو ترکہ جو آٹھواں حصہ  ملتا  اس میں تمام بیویاں  شریک ہوتیں یعنی آٹھویں حصہ کا ہر ایک کو 1/9 ملتا تو عائشہ کا حق صرف 1/9 ہے مگر انھوں نے پورے قبضہ جمالیا (مترجم)

۱۸۴

حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں عائشہ وحفصہ عثمان کے پاس آئیں وار ان سے کہا رسول خدا کی میراث ہم دونوں میں تقسیم کردیجئے ۔عثمان ٹیک لگائے بیٹھے تھے یہ سنتے ہی ٹھیک سے بیٹھ گئے اور عائشہ کو مخاطب کرتے ہوئے بولے : اور یہ جو بیٹھی ہیں دونوں ایک اعرابی کو لے کر آئیں جو اپنے پیشاب سے طہارت کرتاہے اور تم دونوں نے گواہی دی کہ رسول خدا نے فرمایا : ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے ! اب اگر واقعا رسول کسی کو وارث  نہیں بناتے (یعنی رسول کا کوئی وارث نہیں ہوتا )تو تم دونوں رسول کے بعد کیا مانگنے آئی ہو؟ اگر رسول کا وارث  ہوتا تو تم لوگوں نے فاطمہ کو ان کے حق سے کیوں روکا ، عائشہ اپنا سامنہ  لے کر رہ گئیں اور وہاں سے غصّہ کی حالت  میں نکلیں ۔اور فرمایا نعثل کو قتل کردو یہ تو کافر ہوگیا ہے ۔ (1)

3:- علی کی پیروی اولی ہے

میرے شیعہ ہونے اور آباء اجدا کے مذہب کوچھوڑ نے کا ایک سبب حضرت علی (ع) اور ابوبکر کے درمیان عقلی ونقلی دلیلوں سے موازنہ کرنا ہے ۔ میں اس سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ میں صرف اسی اجماع کو قابل بھروسہ سمجھتا ہوں جس پر سنی و شیعہ دونوں متفق ہوں ۔ اس اعتبار سے جب میں نے فریقین کی کتابوں کی کھنگا لا تویہ دیکھا کہ صرف علی بن ابیطالب کی خلافت پر اجماع ہے سنی وشیعہ دونوں ان مصادر  کی بنا پر جو دونوں کے یہاں ہیں حضرت علی کی امامت  پر متفق ہیں اور حضرت ابو بکر کی خلافت کو صرف سنی مسلمان ہی تسلیم کرتے ہیں حضرت ابو بکر  کی خلافت کے بارے میں حضرت عمر کا قول ہم پہلے نقل کرآئے ہیں ۔

بہت سے حضرت علی کے فضائل ومناقب جسکو شیعہ ذکر کرتے ہیں ان کی سند ہے ان کا حقیقی وجود ہے ۔

--------------

(1):- شرح اب ابی الحدید ج 6 ص 22 ۔222

۱۸۵

اور اہل سنت کی معتبر کتابوں سے ثابت ہے اور اتنے زیادہ طریقوں سے ثابت ہے کہ شک کی وہاں تک رسائی ہی نہیں ہے ۔حضرت علی کے فضائل کو صحابہ کی ایک جم غفیر نے نقل کیا ہے ۔ احمد بن حنبل تو کہتے ہیں ۔ جتنے فضائل حضرت علی کے آئے ہیں کسی صحابی کے لئے نہیں آئے ہیں(1) قاضی اسماعیل نسائی ،ابو علی نیشا پوری کہتے ہیں ، جتنی اچھی سندوں کے ساتھ حضرت علی کے مناقب وارد ہوئے ہیں کسی بھی صحابی کے لئے نہیں وارد ہوئے ہیں(2) ۔

آپ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ بنی امیہ نے مشرق سے لے کر مغرب تک کے لوگوں کو حضرت پر لعنت کرنے ان پر سب وشتم کرنے ، ان کی فضیلت کاذکر نہ کرنے پر مجبور  کر رکھا تھا ۔ حدیہ تھی کہ کسی کو اجازت نہ تھی کہ علی نام رکھے ۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود حضرت علی کے اتنے فضائل ومناقب مذکور ہیں ، اسی لئے امام شافعی کہتے ہیں ،مجھے اس شخص پر بہت زیادہ تعجب  ہے جس کے فضائل دشمنوں نے حسد کی وجہ سے دوستوں نے خوف کی وجہ سے چھپائے لیکن پھر بھی اتنے زیادہ فضائل مذکور ہیں جن سے مشرق ومغرب پر ہیں ،

اسی طرح میں نے حضرت ابو بکر کے سلسلہ میں بھی فریقین کی کتابوں کو چھان مارا لیکن خود اہل سنت والجماعت جو حضرت ابو بکر کو حضرت علی پر ترجیح دیتے ہیں ان کے یہاں بھی حضرت علی کے فضائل کے برابر فضیلت والی حدیثیں نہیں ملیں ۔ اس کے علاوہ ابو بکر کے فضائل کی جو روایتیں موجود بھی ہیں اور تاریخی کتابوں میں یا تو ان کی بیٹی عائشہ سے ہیں جس کا موقف حضرت علی کےساتھ کیا تھا ؟ دنیا جانتی ہے اس لئے انھوں نے اپنے باپ کو اونچا ثابت کرنے کے لئے اپنی زندگی صرف کردی اورفرضی روایتوں سے فضیلت ثابت کرنی چاہی ہے اور یا ابو بکر کی فضیلت کی روایات عبداللہ بن عمر سے منقول  ہیں یہ حضرت بھی حضرت علی کے جانی دشمنوں میں تھے ان کا عالم یہ تھا کہ ساری دنیا نے حضرت علی کی بیعت کر لی تھیں مگر آپ نے حضرت

-------------

 (1):- المستدرک علی الصحیحین (حاکم) ج 3 ص 107 مناقب (خوارزمی)ص 3، 19 تاریخ الخلفاء ص 168 ،الصواعق المحرقہ لابن حجر الہیثمی ص 72 ،تاریخ ابن عساکر ج2 ص 63 ،شواہد التنزیل (حسکانی) ج1 ص 19

(2):- الریاض النضرۃ (طبری)ج 2 ص 282 ، صواعق محرقہ (ابن حجر )ص 118

۱۸۶

علی کی بیعت نہیں کی ۔۔۔۔ اس کے بر خلاف آپ نے یزید ملعون کی بیعت اس کے ہاتھوں پر نہیں پاؤں پکڑ کے کی ہے تفصیل کے لئے تاریخی کتابیں پڑھئے (مترجم) ۔۔۔۔ اور آپ (عبداللہ بن عمر) فرمایا کرتے تھے رسول خدا کے بعد افضل الناس ابوبکر تھے ، ان کے بعد عمر ان کے بعد عثمان تھے اس کے بعد کسی کو فضیلت نہیں ہے سب ہی برابر کے ہیں(1)

آپ نے توجہ فرمائی اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت علی بازاری لوگوں کے برابر تھے حضرت علی کے لئے نہ کوئی فضل تھا ، نہ فضیلت ! آخر یہ عبداللہ کس دنیا میں رہتے تھے ان کو تو ان حقائق کا پتہ ہی نہیں جن کو اعلام امت اور ائمہ امت  ائمہ امت نے تحریر کیا ہے کہ حسن سندوں کے ساتھ جتنی فضیلت کی روایات علی کے لئے ہیں کسی صحابی کے لئے نہیں ہیں ۔ کیا عبداللہ بن عمر نے حضرت علی کی ایک بھی فضیلت نہیں سنی تھی ؟ اجی سنی بھی تھی اور یاد بھی تھی لیکن سیاست کی دنیا عجیب ہوتی ہے ۔(خرد کا نام جنوں رکھ دیا کا خرد+ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے )

عائشہ وعبداللہ بن عمر کے علاوہ جن لوگوں نے ابو بکر کی فضیلت بیان کی ہے ان کے اسمائے گرامی پرھئے ! عمرو بن العاص ،ابو ہریرہ ،عروۃ ،عکرمہ ، وغیرہ ہیں ، اور تاریخ کا بیان ہے کہ یہ سب حضرت علی کے دشمن تھے اور ان سے کبھی تو ہتھیاروں سے جنگ کرتے تھے کبھی دسیسہ کاری سے ،اوریہ بھی نہ ہو تو حضرت علی کے دشمنوں کے لئے فرضی حدیثیں جعل کیا کرتے تھے ،امام احمد بن حنبل کہتے ہیں حضرت علی کے بہت زیادہ دشمن تھے دشمنوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح علی میں کوئی عیب تلاش کرلیں مگر ناکامیاب رہے تو یہ لوگ حضرت علی کے اس دشمن کے پاس آگئے جس نے حضرت علی سے حرب وقتال کیا تھا  اور اپنی مکاریوں کی بنا پر اس کی تعریفیں کرنے لگے ،(2) ۔لیکن خدا کا اعلان ہے : انهم یکیدون کیدا واکید کیدا فمهل الکافرین امهلهم رویدا (3) بیشک یہ کفار اپنی تدبیر کررہے ہیں اور میں اپنی تد بیر کررہا ہوں اس لئے کافروں کو مہلت دو پس ان کو تھوڑی

--------------

(1):- صحیح بخاری ج 2 ص 202

(2):- فتح الباری شرح صحیح بخاری ج 7 ص 83 تاریخ الخلفاء (سیوطی ) ص 199 صواعق المحرقہ (ابن حجر)ص 125

(3):- پ 30 س 87 آیت 15،16،17

۱۸۷

سی مہلت دو ۔

یقینا پروردگار عالم کا معجزہ ہے کہ مسلسل چھ سوسال حضرت علی اورآل علی کی مخالف حکومت کے بعد بھی حضرت علی کے فضائل موجود ہیں ، میں چھ سوسال کہہ رہا ہوں کہ بنی عباس بھی بغض حسد، ظلم قتل اہل بیت کے سلسلہ میں اپنے اسلاف بنی امیہ سے کم نہیں تھے ، بلکہ دو ہاتھ آگے ہی تھے ،ابو فراس ہمدانی ان کےمیں کہتا ہے

ما نال منهم بنو حرب وان عظمت     تلک الجرائر الادون نیلکم

کم غدرة لکم فی الدین واضحة      وکم دم لرسول الله عندکم

انتم له شیعة فیما ترون وفی       اظفار کم من بنیه الطاهرین

(ترجمہ):- بنی امیہ نے آل محمد (ص) کو بہت ستایا ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ ے ، اے بنی عباس ! بنی امیہ کے مظالم آل محمد پر چاہے جتنے زیادہ ہوں تم سے پھر بھی  کم ہیں ،تم نے دین کے بارے میں ان کے ساتھ کتنی ہی مرتبہ  صاف صاف غداری کی ۔تمہارے بہائے ہوئے کتنے خون کا قصاص رسول خدا کے پاس  ہے ۔ بظاہر تم اپنے کو آل محمد کا شیعہ کہتے ہو لیکن محمد کی اولاد طاہرین کا خون تمہارے ناخنوں  میں اب تک ہے ۔۔۔۔ ان تمام تاریکیوں کے باوجود جب ایسی حدیثیں علی کی فضیلت میں ہیں تویہ صرف خدا کا کرم ہے اور اس کی حجت بالغہ ہے ۔

ابو بکر باوجودیکہ خلیفہ اول تھے ، اور اتنا اثر ونفوذ رکھتے تھے اور اموی سلاطین باوجود دیکہ ابو بکر ،عمر، عثمان کے حق ہیں روایت کرنے والوں کا منہ موتیوں سے بھردیتے تھے ان کے لئے مخصوص عطیہ ورشوت معین کی جاچکی تھی اور اس کے باوجود کہ ابوبکر کے لئے فضائل ومناقب کی جعلی حدیثوں کی بھر مار کر دی گئی تھی ۔ اور ان  سے تاریخ کے صفحات سیاہ کردیئے گئے تھے ۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود "حضرت علی کی شان میں واقعی فضیلت کی جو احادیث ہیں ان کا عشر عشیر بھی ابو بکر کے لئے نہیں ہے اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ملاحظہ  فرمائیے کیا ابو بکر کی شان میں نقل کی جانی والی روایات کی اگر تحریر کی جائے تو تاریخ نے جوان کے تنا قضات لکھے ہیں ان کے ساتھ یہ روایات جمع ہی نہیں ہوسکتیں اور نہ عقل وشرع ان کو قبول کرسکتی ہے

۱۸۸

حدیث" لوزن ایمان ابی بکر بایمان امتی لرجح ایمان ابی بکر " کے سلسلہ میں حقیر پہلے بھی بحث کرچکا ہے لیکن مزید سنئے ۔

٭ اگر رسول خدا کو معلوم ہوتا کہ ابوبکر کاایمان اس وجہ کا ہے تو اسامہ بن زید کی سرکردگی میں ابو بکر کو قرار نہ دیتے ،

٭اگر رسولخدا کو معلوم ہوتا کہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے تو ابوبکر کے لئے گواہی دینے سے انکار نہ کرتے بلکہ جس طرح شہدائے احد کیلئے گواہی دی تھی ان کے لئے بھی گواہی دیتے اور یہ نہ فرماتے کہ مجھے نہیں معلوم میرے بعد تم کیا کیا کروگے ؟ جس پر ابو بکر بہت روئے تھے(1) ۔

٭اگررسول خدا کو معلوم ہوتاکہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے تو علی کو بھیج کر ان سے سورہ براءت کی تبلیغ کوروک نہ دیتے(2)

٭ اگر رسول خدا کو معلوم ہوتا کہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے توخیبر میں علم دینے کے لئے نہ فرماتے : کل میں ایسے شخص کو علم دوں گا جو خدا ورسول کو دوست رکھتا ہوگا اور خدا اور رسول اس کو دوست رکھتے ہوں  گے کرار ہوگا غیر فرار ہوگا خدا نے اس کے دل کا امتحان لے لیا ہوگا اس کے بعد حضرت علی کو علم دیا ابوبکر کو نہیں دیا(3) بلکہ اگر خدا کو معلوم ہوتا کہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے یا یہ کہ ابو بکر کا ایمان پوری امت  محمد کے ایمان سے زیادہ ہے تو جس وقت انھوں نے نبی کی آواز پر اپنی آواز بلند کی تھی خدا ان کے اعمال  کے حبط کردیئے جانے کی دھمکی نہ دیتا(4) ۔

٭ اگرعلی  اور ان کے پیرو کار وں  کو معلوم ہوتا کہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے تو یہ لوگ کبھی بھی ابو بکر کی بیعت سے انکار نہ کرتے

٭ اگر فاطمہ کو ایمان ابو بکر کا وزن معلوم ہوتا تو غضبناک نہ ہوتیں ان سے بات چیت نہ بند کرتیں ان کے سلام کاجواب دیتیں ان کے لئے ہر نماز کے بعد بدعا نہ کرتیں ، ان کو اپنے جنازہ

-------------

(1):- موطاء  امام مالک ج 1 ص 307 مغازی واقدی ص 310

(2):- مسند احمد ج 4 ص 339 ، مسند احمد ج 2 ص 319مستدرک حاکم ج 3 ص 51  

(3):- صحیح مسلم باب فضائل علی ابن ابی طالب

(4):- بخاری ج 4 ص 184

۱۸۹

شریک نہ ہونے  دینے کی وصیت کی(1)

٭ خودابو بکر کو اپنے ایمان کی اس بلندی کا علم ہوتا تو چاہے فاطمہ کے گھر میں لوگ جنگ ہی کرنے کے لئے اکٹھا ہوئے ہوتے اور دروازہ بند کر لئے ہوتے جب بھی یہ فاطمہ کے گھر کو کھلوانے  کی کوشش نہ کرتے ، فجاوۃ السلمی کو آگ میں جلایا نہ ہوتا ، سقیفہ میں قلادۃ بیعت عمر یا ابو عبیدہ کے گردن میں ڈال دیا ہوتا(2) ۔ اور اگر ابو بکر  کا ایمان اتنا وزنی ہوتا جو پوری امت کے ایمان پر بھاری ہوتا تو اپنی عمر کےآخری لمحات میں فاطمہ کے ساتھ جو اقدامات کئے ہیں ان پر فجاءۃ السلمی کے جلانے پر اور خلافت کا عہدہ سنبھالنے پر نادم وپشیمان نہ ہوتے اسی طرح یہ تمنا نہ کرتے کا ش میں مینگنی ہوتا ، کاش میں بال ہوتا ، کاش میں بشر نہ ہوتا ، شوچئے  کیا ایسے شخص کا ایمان پوری امت اسلامیہ کے برابر ہوسکتا ہے ؟ نہیں ! چہ جائیکہ  پوری ملت اسلامیہ پر بھاری ہو۔ اب آئیے اس حدیث کو لیجئے ۔"لو کنت متخذ خلیلا لاتخذت  ابابکر خلیلا " اگرمیں کسی کو خلیل بنا تا تو ابو بکر ہی کو خلیل بناتا ۔۔۔۔۔ یہ بھی پہلی حدیث کی طرح بوگس ہے ۔ ہجرت سے پہلے مکہ میں جب "مواخاۃ صغری" رسول  نے قراردی ہے اور ہجرت کے بعد مدینہ میں جب آنحضرت نے انصار ومہاجرین  میں مواخات قراردی ہے جس کو "مواخاۃ کبری" کہا جاتا ہے ، اس دونوں میں ابو بکر  کہاں چلے گئے تھے ؟ رسول خدا نے ان کو کیوں اپنا بھائی نہیں بنایا ؟ دونوں موقعوں پر رسول اکرم نے حضرت علی ہی کو کیوں اپنا بھائی قراردیا ؟ اور فرمایا : اے علی تم دنیا وآخرت  میں میرے بھائی ہو (3) ۔ ابو بکر کو کیوں محروم قرار دیا ؟ نہ آخرت کا بھائی نہ آخرت کا خلیل کچھ بھی تو نہ بنایا ۔ میں اس بحث کو طول نہیں دینا چاہتا ۔ بس انھیں دوحدیثوں  پر اکتفا کرتاہوں جو کتب اہل سنت والجماعت میں موجود ہیں ۔ رہے شیعہ تو وہ ان حدیثوں کو بالکل مانتے ہی نہیں

--------------

(1):- الامامۃ والسیاسۃ ج 1 ص 14 ،رسائل الحاحظ ص 301 ،اعلام النساء ج 3 ص 1215

(2):- تاریخ طبری ج 4 ص 52، الامامۃ والسیاسۃ ج 1 ص 181 ،تاریخ مسعودی ج 1 ص 414

(3):- تذکرۃ الخواص (ابن جوزی) ص 23 تاریخ دمشق (ابن عساکر) ج 1 ص107  ،المناقب (خوارزمی) ص 7 ،فصول المہمہ(ابن صباغ) ص 21

۱۹۰

اور بہت مضبوط دلیلیں  پیش کرتے ہیں کہ یہ حدیثیں ابو بکر کے مرنے کے بعد وضع کی گئی ہیں

یہ تو فضائل  کا قصہ ہے اب اگر ہم فریقین کی کتابوں میں حضرت علی کی برائیوں کی تلاش کریں تو سعی بسیار کے بعد بھی ایک برائی بھی آپ کو نہ ملے گی ۔ البتہ حضرت علی (ع) کے علاوہ دوسروں کی برائیوں کی بھرمار آپ کو اہل سنت کی صحاح ،کتب سیر ، کتب تاریخ میں ملے گی ۔

اس طرح فریقین کا اجماع صرف  حضرت علی (ع) کے لئے مخصوص ہے جیسا کہ تاریخ بھی کہتی ہے کہ صحیح بیعت صرف حضرت علی (ع) کے لئے ہوئی ہے ۔کیونکہ علی بیعت لینے سے انکار کررہے تھے مہاجرین وانصار نے اصرار کرکے بیعت کی ہے چند انگلیوں پر گنے جانے والے افراد نے بیعت نہیں کی تو آپ نے ان کو بیعت پر مجبور بھی نہیں کیا   حالانکہ بقول عمر ابو بکر بیعت ناگہانی تھی ،خدا نے  مسلمانوں کو اس کے شر سے بچالیا ۔۔۔ابو بکر نے اپنی بیعت نہ کرنے والوں کو قتل کرادیا بیعت پر مجبور کیا مترجم ۔۔۔۔۔ اور عمر کی خلافت اس وصیت کے پیش نظر تھی جو ابو بکر نے عمر کیلئے کی تھی ، اور عثمان کی بیعت تو ایک تاریخی مضحکہ خیزی تھی ،کیونکہ عمر نے چھ آدمیوں کو خلافت کا کنڈیڈیٹ اپنی طرف سے معین کرکے ان کے لئے لازم قرار دیدیا تھا ، کہ یہ چھ حضرات اپنے میں کسی ایک کو خلیفہ منتخب کرلیں ۔ اگر چار  کی رائے  ایک طرف ہو اور دو کی ایک طرف تو دو کو قتل کردو  اور اگر تین تین ہوں تو جس تین کے ساتھ عبدالرحمن بن عوف ہوں اس کی بات مان لو اور اگر ایک معین وقت گزرجائے اور یہ لوگ کسی پر اتفاق نہ کر پائیں تو ان چھ  کےچھ کو قتل کردو ۔ یہ قصہ طویل بھی ہے اور عجیب بھی ۔

مختصر یہ ہے کہ عبدالرحمان بن عوف نے حضرت علی کو منتخب کیا اور ان سے کہا شرط یہ ہے کہ آپ مسلمانوں میں حکم خدا وسنت رسول  وسیرت شیخین (ابو بکر وعمر) کے مطابق حکم کریں گے ۔ حضرت علی نےسیرت شیخین کی شرط کو قبول نہیں کیا ۔ مگر عثمان نے قبول کرلیا اس لئے وہ خلیفہ بنادیئے گئے ۔ حضرت علی شوری سے باہر چلے گئے ۔ اورآپ کو نتیجہ پہلے ہی سے معلوم تھا ۔آپ نے اس کاذکر اپنے مشہور خطبہ شقشقیہ میں بھی کیا ہے ۔

حضرت علی کے بعد معاویہ تخت خلافت پر بیٹھے انھوں نے خلافت کو ملوکیت سےبدل دیا ۔

۱۹۱

جس پر بنی امیہ یکے بعد دیگرے حکومت کرتے رہے ،بنی امیہ کے بعد خلافت کی گیند بنی عباس کے پالے میں چلی گئی ۔اس کے بعد پھرخلیفہ وہ شخص ہوتا تھا جس کو موجودہ خلیفہ نامزد کر جائے ۔ یا جو طاقت وقہر وغلبہ سے سلطنت چھین لے ۔ اور پھر اسلامی تاریخ میں صحیح (1) بیعت کا وجود ہی ختم ہوگیا ۔ یہاں تک کہ کمال اتاترک ،نے خلافت اسلامیہ کےتابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی اور اس پورے دورمیں صحیح بیعت صرف علی (ع) کے لئے ہی ہوئی تھی ۔

--------------

(1):- صحیح بیعت سے مراد وہ بیعت ہے جو ناگہانی نہ ہو اور لوگ خود بخود بیعت کریں کسی کو مجبور نہ کیا جائے

۱۹۲

(4)

احادیث حضرت علی (ع) کی اطاعت کو واجب بتاتی ہیں

جن حدیثوں نے میری گردن پکڑ کر حضرت علی کی اقتدا پر مجبو رکردیا وہ وہی حدیثیں ہیں جن کو علمائے اہل سنت نے اپنی صحاح میں نقل کیا ہے ۔ اور ان کے صحیح ہونے کی تاکید کی ہے اور شیعوں کے یہاں تو الی ماشااللہ احادیث ہیں جو حضرت علی کے لئے نص ہیں ۔ لیکن میں اپنی عادت کے مطابق صرف انھیں احادیث پر اعتماد کروں گا ۔ ۔اور انھیں سے استدلال کروں گا جو فریقین کے یہاں متفق علیھا ہوں ، انھیں سے چند یہ ہیں

(1) :- "حدیث مدینہ " " انا مدینة العلم وعلی بابها " (1)

رسول  خدا(ص) کے بعد تشخیص قیادت کے سلسلے میں یہ حدیث ہی کافی ہے کیونکہ جاہل کے مقابلہ میں عالم کی اتباع کی جاتی ہے خود ارشاد رب العزت ہے"قل هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون(پ 23 س 39 (زمر) آیت 9) ۔اے رسو ل تم پوچھو تو بھلا کہیں جاننے والے اور نہ جاننے والے لوگ برابر  ہوسکتے ہیں ؟ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے" قُلْ هَلْ مِن شُرَكَآئِكُم مَّن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ قُلِ اللّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لاَّ يَهِدِّيَ إِلاَّ أَن يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (پ 11 س10 (یونس) آیت 35) ۔ تو جو شخص دین کی راہ دکھاتا ہے کیا وہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کے حکم کی پیروی  کی جائے یا وہ شخص جو دوسرے کی ہدایت تو درکنار ( خود جب تک دوسرا اس کو راہ رنہ دکھائے نہیں پاتا ) تو تم کو کیا  ہوگیا ہے تم کیسے حکم لگاتے ہو ؟

ظاہر سی بات ہے عالم ہدایت کرتا ہے اور جاہل ہدایت کی جاتی ہے ، جاہل دوسروں سے کہیں زیادہ ہدایت کا محتاج ہوا کرتا ہے ۔

--------------

(1):- مستدرک حاکم ج 3 ص 127 ،تاریخ ابن کثیر ج 7 ص 258 ، مناقب (احمد بن حنبل )

۱۹۳

اس سلسلے میں تاریخ کا متفقہ بیان  ہے کہ حضرت علی(ع) مطلقا تمام صحابہ سے زیادہ عالم تھے اور اصحاب امہات المسائل میں حضرت علی کی طرف رجوع کیا کرتے تھے ، لیکن حضرت علی نے کسی صحابی کی طرف کبھی بھی رجوع نہیں فرمایا اس کے برخلاف  ابو بکر کہا کر تے تھے"لا ابقانی الله لمعضلة لیس لها ابو الحسن " (خدانے مجھے کسی ایسی مشکل کے لئے زندہ نہ رکھے  جس کے (حل )کیلئے حضرت علی نہ ہوں ) اور عمر بار بار کہتے تھے :لولا علی لهلک عمر" اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ۔حبر الامۃ ابن عباس کہا کرتے تھے ۔ میرا اور تمام اصحاب محمد کا علم حضرت علی کے علم کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے جیسے سات سمندروں کے مقابلہ میں ایک قطرہ(2) خود حضرت علی فرمایا کرتے تھے ۔ میرے مرنے سے پہلے (جو چاہو) مجھ سے پوچھ لو ۔ خدا کی قسم اگر تم قیامت تک ہونے والی کسی چیز کے بارے میں پوچھو گے تو اس کو بھی بتا دوں گا  ۔ مجھ سے قرآن کے بارے میں پوچھو ۔خدا کی قسم قرآن کی کوئی ایسی آیت نہیں ہے جس کو میں نہ جانتا ہوں کہ یہ رات میں اتری ہے یا دن میں  پہاڑ پر اتری یا ہموار زمین پر(3) ۔اور ادھر ابوبکر کا یہ عالم تھا کہ جب ان سے "ابّ" کے معنی پوچھے گئے جو اس آیت میں ہے ۔وفاکهة وابّا متاعا لکم ولانعامکم (پ 30 س80 (عبس) آیت 20،21،22) ۔اور میو ے اورچارا (یہ سب کچھ )تمہارے اور تمہارے چارپایوں کے فائدے کے لئے (بنایا) تو اس کے جواب میں کہنے لگے ۔ کون سا آسمان مجھ پر سایہ کرےگا اور کون سی زمین مجھے اٹھا ئےگی اگر میں کہوں کہ کتاب خدا  میں ایسی آیت ہے جس کے معنی میں نہیں جانتا ۔۔۔اور عمر کہتے تھے ،: عمر سے زیادہ ہر شخص فقہ جانتا ہے انتہا یہ ہے کہ پردہ میں بیٹھنے والیاں بھی ،" حضرت عمر  سے ایک آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو عمر نے پہلے تو اس کو ڈانٹا پھر درہ لے کر اس پر پل پڑے اور اتنا مارا کہ وہ لہو لہان ہوگیا کہنے لگے ایسی چیزوں کے بارےمیں نہ پوچھا کرو کہ اگر ظاہر ہوجائیں  تو تم کو برا لگے(4) ۔

--------------

(1):- استیعاب ج 3 ص 39 ،مناقب (خوارزمی )ص 48، ریاض النفرۃ ج 2 ص 124

(2):- حوالہ سابق

(3):- الریاض النفرۃ (محب الدین) ج 2 ص 198 ، تاریخ الخلفاء (سیوطی) ص 124 ،اتقان ج 2 ص 219 ،فتح الباری ج 8 ص 485 ،تہذیب ج 7 ص 328

(4):- سنن دارمی ج 1 ص 54 ،تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 232 ،در منثور ج 6 ص111

۱۹۴

بے چارے سائل نے کلالۃ کے معنی پوچھ لئے تھے ۔

طبری نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت عمر کہتے تھے ۔ اگر مجھے "کلالۃ " کے معنی معلوم ہوتے تو یہ بات میرے نزدیک شام کے قصروں سے زیادہ محبوب تھی ۔۔۔ ابن ماجہ نے بی سنن میں عمر کے حوالہ سے لکھا ہے کہ موصوف فرماتے تھے : تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگر رسول اللہ (ص) نے ان کو بیان کردیا ہوتا تو مجھے دنیا وما فیھا سے زیادہ سے محبوب ہوتیں " کلالۃ ، ربا ، خلافت ،

سبحان اللہ ! ناممکن ہے کہ رسول خدا نے ان چیزوں کو بیان نہ کیا ہو ۔

(2):- "حدیث منزلت "" یا علی انت منی بمنزلة هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی "

 اے علی تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی بس یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا !

اس حدیث سے حضرت علی کی وزارت (ولایت) وصیات ،خلافت صریحی طور سے ثابت ہوتی ہے جیسا کہ صاحبان عقل کے نزدیک یہ بات مخفی نہیں ہے ۔ جب جناب موسی میقات رب کے لئے گئے تھے تو ان کی عدم موجودگی میں جناب ہارون آپ کے وزیر ،وصی ،خلیفہ تھے یہی چیز حضرت علی کیلئے بھی ثابت ہے ، اس حدیث سے دو باتیں اور بھی ثابت ہوتی ہیں ۔

(1):- حضرت ہارون کی طرح حضرت علی(ع) حضرت رسول (ص) کی تمام خصوصیات کے نبوت کے علاوہ حامل تھے ۔

(2):- حضرت علی(ع) رسولخدا (ص) کے علاوہ آپ کے تمام اصحاب سے افضل وبرتر تھے ۔

(3):- "حدیث غدیر"" من کنت مولاه فهذا علی مولاه اللهم وآل من والاه وعاد من عاداه وانصر من نصره واخذل من خذله وادر الحق معه حیث مادار :!"

۱۹۵

جس لوگوں کا عقیدہ  ہے کہ ابو بکر ،عمر ،عثمان اس شخص پر فضیلت رکھتے ہیں ،جس کو رسول خدانے اپنے بعد مومنین کا ولی بنا یا ہے ،ان لوگوں کے خیال باطل کو باطل کرنے کے لئے صرف یہ حدیث اکیلی ہی کافی ہے ۔اور جن لوگوں نے صحابہ کا بھرم رکھنے کے لئے سا حدیث میں لفظ "مولی" کی تاویل کی ہے اس سے مراد "محب اور ناصر" ہے ان کی تاویل بے اعتبار ہے کیونکہ جس اصلی معنی کا رسول  نے ارادہ کیا تھا  اس معنی سے اس کو موڑنا ہے ۔کیونکہ شدید گرمی میں جب رسول خدا نے کھڑے ہوکر فرمایا ۔ کیا تم لوگ گواہی نہیں دیتے ہو کہ میں مومنین کے نفوس پر مومنین سے زیادہ اولویت رکھتا ہوں ،تو سب نے کہا بیشک یا رسول اللہ ! تب آپ نے فرمایا " من کنت مولاہ الخ " یعنی جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں ،خدا یا جو علی کو دوست رکھے تو بھی اس کو دوست رکھ ۔ اور جو علی سے دشمنی رکھےتو بھ اس کو دوشمن رکھ ، جو علی کی مدد کرے تو اس کی مدد کر جو علی کی مدد نہ کرے تو بھی اس کی مدد نہ کر "جدھر علی مڑیں اسی طرف حق کو موڑدیے !

یہ نص صریح ہے کہ حضور  حضرت علی کو اپنی امت پر خلیفہ بنارہے ہیں ، ہر عقلمند اسی مطلب کو قبول کریگا اور دور از کار تاویلوں کوترک کرےگا ۔ رسول کا احترام صحابہ کے احترام سے کہیں زیادہ ہے اس لئے کہ اگر یہ مان لیاجائے کہ صرف یہ بتانے کے لئے کہ علی ناصر ہیں اور محب ہیں آنحضرت نے چلچلاتی دوپہر میں جس کی گرمی ناقابل برداشت تھی صرف اتنا کہنے کیلئے اکٹھا کیا تھا تو یہ رسول کامذاق اڑانا ہے ان کو (معاذاللہ) احمق ثابت کرتا ہے اس کے علاوہ جو محفل مبارکباد منعقد کی گئی تھی اس کی کیا تاویل کی جائیگی ؟ بھلا اتنی سی بات کیلئے ایسی محفل تبریک کی کیا ضرورت تھی ؟ جس میں سب سے پہلے امہات المومنین نے مبارک باد پیش کی پھر ابو بکر وعمر آکر بولے ،۔مبارک ہو مبارک ابوطالب کے فرزند تم تمام مومنین ومومنات کےمولا ہوگئے آگر خلافت وامامت مراد نہ ہوتی تو رسول یہ سب نہ کرتے نہ محفل سجتی نہ مبارک باد پیش کی جاتی ؟

واقعہ اور تاریخ دونوں تاویل کرنے والوں کو جھٹلاتے ہیں ارشاد خدا ہے ۔وان فریقا منهم لیکتمون الحق وهم یعلمون (پ 3 س 2 (بقره ) آیت 146) اور ان میں ایسے بھی ہیں جو دیدہ ودانستہ حق بات کو چھپاتے ہیں ۔

۱۹۶

(4)"حدیث تبلیغ""علی منی وانا منه ولا یودی عنی الا انا او علی (1) ۔

"علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ،میری طرف سے اس کی تبلیغ میرے یا علی کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا "

یہ حدیث بھی ایسی ہے جس میں صاحب رسالت نے وضاحت کردی کہ میری طرف سے پہونچانے کی اہلیت صرف علی کے اندر ہے ، رسول نےحج اکبر کے موقعہ پر ابو بکر کو سورہ برائت دیکر بھیج دیا تھا پھر جبرئیل کے آنے کے بعدآنحضرت نے حضرت علی کو بھیج  کر یہ کام ان کے سپرد کردیا اور ابوبکر کو واپس بلالیا اس وقت فرمایا تھا" لا یودی عنی الا اناوعلی " اور ابو بکر روتے ہوئے واپس آئے تھے ۔ اور آکر پوچھا یا رسول اللہ کیا میرے بارےمیں  کچھ نازل ہوا ہے ؟ تو فرمایا خدانے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یا خود پہونچاوں یا پھر علی پہونچا ئیں اسی طرح ایک دوسرے مناسب موقع پر فرمایا : اے علی تم میرے بعد امت جن چیزوں میں اختلاف کرے گی اس کو بیان کرنے والے ہو(2) ۔

جب  رسول خدا کی طرف سے صرف حضرت علی تبلیغ  کرسکترے ہیں اور اختلاف امت کی وہی ر سول کے بعد وضاحت  کرسکتے ہیں تو جن لوگوں کو"اب" یا"کلالة" کے معنی تک نہ معلوم ہوں ان کے ان کو حضرت علی پر کیوں کر مقدم کرسکتے ہیں ؟ خدا کی قسم یہ وہ مصیبت ہے جس میں امہ مسلمہ گرفتار ہے اور اسی لئے یہ امت ان فرائض کو نہیں پورا کر سکتی جس کو خدا نے اس کے سپرد کیا تھا ، اس میں خدا یا رسول یا علی کی کوتاہی ہیں ہے بلکہ اس میں سراسر ان لوگوں کی خطا وکوتاہی ہے جنھوں نے نافرمانی کی اور دین الہی میں تبدیلی کردی ، ارشاد خدا ہے :

--------------

(1):-سنن ابن ماجہ ج 1 ص 44 ،خصائص النسائی ص 20 ،صحیح الترمذی ج 5 ص 300 ،جامع الاصول (ابن کثیر ) ج 9 ص 471 ،الجامع الصغیر (سیوطی) ج 2 ص 56

(2):- تاریخ دمشق (ابن عساکر) ج 2 ص 488، کنوز الحقائق (مناوی) 203 ،کنز العمال ج 5 ،ص 33

۱۹۷

واذا قیل لهم تعالوا الی ما انزل الله والی الرسول قالوا حسبنا ما وجدنا علیه آباءنا اولوکان آباءهم لا یعلمون شیئا ولا یهتدون (پ 7 س 5 (مائده ) آیت 104)

ترجمہ :- اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو(قرآن) خدا نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤ (اور جو کچھ کہیں اس کو سنو اور مانو) تو کہتے ہیں کہ ہم نے جس (رنگ) میں اپنے باپ دادا کو پایا وہی ہمارے لئے کافی ہے (کیا یہ لوگ لکیر کے فقیر ہی رہیں گے ) اگر چہ ان کے باپ دادا (چاہے ) کچھ نہ جانتے ہوں اور نہ ہدایت یافتہ ہوں ۔

(5):- "حدیث الدّار یوم الانذار" " رسولخدا(ص) نے حضرت علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :" ان هذا اخی ووصیی وخلیفتی فاسمعوا له واطیعو" (1)

یہ (علی) میرا بھائی ہے اور میرا وصی ہے اور میرے جانشین ہے لہذا اس کا حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو!

یہ حدیث بھی ان صحیح حدیثوں میں سے ہے جس کو موخین نے ابتدا ئے بعثت میں لکھا ہے اور رسول خدا (ص) کے معجزات میں شمار کیا ہے ،لیکن برا ہوسیاست کا جس نے حقائق بدل دیئے اور واقعات کو ملیامٹ کردیا اور یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں  ہے کیونکہ وہ تو تاریک دورتھا ،آج عصر نور میں بھی یہی حرکت کی جارہی ہے ،محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب حیات محمدی میں اس حدیث کو مکمل طور سے لکھا ہے ملاحظہ فرمائیے ،"طبع اول سنہ 1354 ھ  کا صفحہ 104 لیکن اس کتاب کا جب دوسرا ایڈیشن اور اس کے بعد والے ایڈیشنز چھپتے ہیں تو اس میں(وصی ،خلیفتی من بعدی) کا لفظ حذف کردیا جاتا ہے   اسی طرح تفسیر طبری کے ج 19 ص 121 سے "وصیتی وخلیفتی "

--------------

(1):- تاریخ طبری ج 2 ص 219 ،تاریخ ابن اثیر ج 2 ص 62 ،السیرۃ الحلبیہ ج 1 ص 311 ،شواہد التنزیل ج 1 ص 371 کنزل العمال ص 15 ،تاریخ ابن عساکر ج 1 ص 85 ،تفسیر الخازن (علاء الدین ) ج 3 ص 371 حیات محمد (ہیکل )چاپ اول باب وانذر عشیرتک الاقربین

۱۹۸

کو کاٹ کر ا س کی جگہ ان ھذا اخی وکذا کذا لکھا دیا جاتا ہے ،مگر ان تحریف کرنے والوں کو پتہ نہیں ہے کہ طبری نے اپنی تاریخ کے ج 2 ص 219 پر پوری حدیث لکھی ہے دیکھئے یہ لوگ کس طرح تحریف کرتے ہیں اور یہ نور خدا کو بجھانا چاہتے ہیں مگر واللہ متم نورہ ۔۔۔۔۔ اس بحث کے درمیان حقیقت حال کے واضح ہوجانے کے لئے میں نے (حیات محمد) کا پہلا ایڈیشن ڈھونڈ ھنا شروع کیا اور سعی بسیار وزحمت کثیر وخرچ کثیر کے بعد بمصداق جویندہ یا بندہ " وہ نسخہ مجھے مل ہی گیا ۔اور اہم بات یہ ہے کہ واقعا یہ تحریف ہے اور اس سے میرے اس یقین کو مزید تقویت ملی ہے  اہل سوء کی ساری کوشش اس بات کے لئے ہے کہ وہ سچے واقعات اور ثابت حقائق کو مٹادیں تاکہ ان کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کوئی قوی دلیل نہ پہونچ سکے ،

لیکن منصف مزاج حق کامتلاشی جب اس قسم کی تحریفات کو دیکھے گا تو ان سے اور دور ہوجائے گا اور اس کو یقین ہوجائے گا کہ یہ لوگ معجزہ  کرنے دسیسہ کاری کرنے ،حقائق کو بدلنے کیلئے ہر قیمت دینے  کو تیار ہیں ۔ اور انھوں نے ایسے قلم خرید لئے ہیں اور ان کے لئے القاب اور اسناد کی بھر مار اسی طرح کردی  ہے جس طرح مال ودولت سے ان کو چھکا دیا ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اہل قلم ان صحابہ کی آبرو بچانے کے لئے جو رسول کے بعد الٹے پاؤں پھر گئے تھے ۔ اور جنھوں نے حق کو باطل سے بدل دیا تھا ۔ ہر طرح دفاع کریں چاہے شیعوں کو گالی دینا پڑے ان کوکافر کہنا پڑے" كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ قَدْ بَيَّنَّا الآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ" پ 1 س 2 (بقره ) آیت 118

ترجمہ :- اسی طرح انھیں کی سی باتیں وہ لوگ بھی کرچکے ہیں جو ان سے پہلے تھے ۔ ان سب کے دل آپس میں ملتے جلتے ہیں جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کو تو اپنی نشانیاں صاف طورسے دکھاچکے ۔

۱۹۹

"وہ صحیح حدیثیں جو اہل بیت کی اتباع کو واجب بتاتی ہیں "

(1):-" حدیث ثقلین" رسول خدا (ص ) کا ارشاد ہے" یا ایها النا س ! انی ترکت فیکم ماان اخذتم به لن تضلو کتاب الله وعترتی اهلبیتی " لوگو میں تم میں ایسی چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں کہ اگر تم نے ان سے تمسک کیا تو گمراہ نہ ہوگے اور وہ خدا کی کتاب اور میری عترت (یعنی ) میرے اہل بیت  ہیں  اور اس طرح بھی فرمایا" یوشک ان یاتی رسول ربی  وانی تارک فیکم الثقلین اولهما کتاب الله فیه الهدی والنور واهلبیتی اذکر کم الله اهلبیتی اذکر کم الله اهلبیتی (1) ۔

قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد آجائے  اور یمں لبیک کہوں ، میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزوں کوچھوڑ رہاہوں پہلی چیز قرآن ہے جس میں ہدایت ونور ہے اور( دوسری چیز) میرے اہلبیت ہیں الخ۔

 اس حدیث میں پہلے ہم خوب غوروفکر کرتے ہیں جس کو صحاح اہل سنت والجماعت میں ذکر کیا ہے  تو ہم کو پتہ چلتا ہے کہ صرف شیعہ حضرات ہی ثقلین (قرآن وعترت ) کی پیروی کرتے ہیں اور اہل سنت حضرت عمر کی اتباع "حسبنا کتاب اللہ" میں کرتے ہیں کاش کتاب اللہ ہی پر عمل کرتے اور اس کی تاویل اپنی خواہشات کے مطابق نہ کرتے ،جب خود حضرت عمر کتاب اللہ میں کلالۃ اورآیت تمیم کا مطلب نہیں جانتے تھے بلکہ مزید دیگر احکام کو نہیں جانتے تھے تو جو لوگ ان کے بعد دنیا میں پیدا ہوئے  ہیں اوربغیر کسی اجتہاد کےبا لنصوص قرآنیہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کرکے عمر کی تقلید کرتے ہیں وہ بے چارے قرآن کو کیا سمجھیں گے ؟

--------------

(1):- صحیح مسلم باب فضائل علی ج 5 ص 122 صحیح ترمذی ج 5 ص 328  ،مستدرک الحاکم ج 2 ص 148 ،مسند امام احمد بن حنبل ج 3 ص 17

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253