پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا 0%

پھر میں ہدایت پاگیا مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 253

پھر میں ہدایت پاگیا

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 253
مشاہدے: 75247
ڈاؤنلوڈ: 6962

تبصرے:

پھر میں ہدایت پاگیا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 253 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 75247 / ڈاؤنلوڈ: 6962
سائز سائز سائز
پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

والی ہے کہ جو صحابہ موجود تھے اور انھوں نے رسول کی تینوں وصیتیں سنی تھیں وہ صرف تیسری ہی وصیت کو بھول گئے ؟ حالانکہ یہ لوگ صرف ایک مرتبہ سنکر لمبے لمبے قصیدے یاد کرلیتے تھے اس کو نہیں بھولتے تھے توکیسے مان لیا جائے کہ اس کو بھول گئے ؟ ہر گز نہیں یہ بھولے نہیں تھے (اور نہ اتنا بھولے تھے ) بلکہ سیاست نے ان کو بھلا دینے پر مجبور کیا تھا ۔۔۔۔ اصحاب کے مضحکہ خیز چیزیہ بھی ہے اور یقینا پہلی وصیت حضرت علی کے خلیفہ بنانے کی تھی جس کو راوی نے بھلا دیا ہے ۔

حالانکہ  جویائے حق کو چھپانے کے باوجود وصیت کی خوشبو پہونچ ہی جاتی ہے چنانچہ بخاری نے کتاب الوصایا اور مسلم نے کتاب الوصیہ میں نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ عائشہ کے سامنے ذکر کیا گیا کہ نبی نے علی کے لئے وصیت فرمائی تھی(1) (آپ نے دیکھا اگر وصیت نہیں تھی تو عائشہ کے سامنے اس کا  ذکر کیسے ہوا ؟ مترجم) آپ خود ہی ملاحظہ فرمائیے کہ خدا اپنے نور کو کس طرح ظاہر کرتا ہے  چاہے ظالم کتنا چھپائیں ، میں اپنی بات کی طرف پھر پلٹتا ہوں ، کہ جب ایسے ایسے صحابہ رسول اکرم کی وصیت نقل کرنے میں غیر معتبر ہیں تو بے چارے تابعین وتبع تابعین کی کیا ملامت کیجائے ۔

اور جب ام المومنین عائشہ ذکر علی کو برداشت نہیں کرسکتی تھیں اور نہ ہی کسی قیمت پر حضرت علی کاذکر خیر پسند کرتی تھیں جیسا کہ ابن سعد نے اپنی طبقات میں(2) اور بخاری نے اپنی صحیح میں ۔۔۔باب مرض النبی ووفاتہ میں ۔۔۔۔ تحریر کیا ہے اور جب ام المومنین عائشہ حضرت علی کی موت کی خبر سن کر سجدہ شکر ادا کرتی ہوں تو پھر ان سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ حضرت علی کیلئے وصیت رسول کا ذکر کریں گی ؟ ام المومنین عائشہ کیلئے ہر خاص وعام جانتا ہے کہ یہ حضرت علی سے بغض رکھتی تھیں اون ان سے عداوت رکھتی تھیں (نہ صرف حضرت علی سے )بلکہ علی واولاد علی (ع) اور اہل بیت مصطفی سےبہت زیادہ عداوت رکھتی تھیں ۔۔۔ 

لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم

--------------

(1):- صحیح بخاری ج 3 ص 68 باب مرض النبی ووفاتہ ،صحیح مسلم ج 2 ص 14 کتاب الوصیہ

(2):- طبقات ابن سعد ، القسم الثانی من الجزاف ص 29

۲۲۱

نصوص کے مقابلہ میں اجتہاد

اس تحقیق و تفتیش کرے دوران میں اس نتیجہ پر پہونچا کہ امت مسلمہ پر سب سے بڑی مصیبت جو پڑی ، وہ اصحاب کرام کا نصوص صریحہ  کے مقابلہ میں اجتھاد  کرنا ہے " اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حدود خدا پائمال ہوئے سنت رسول (ص) مٹ گئی صحابہ کے بعد پیدا ہونے والے ائمہ اور علما صحابہ کے اجتہاد پر قیاس کرنے لگے اور انتہا یہ ہوگئی کہ بعض اوقات اگر صحابہ کا فعل سنت نبوی بلکہ نص قرآنی سے ٹکرا گیا تو یہ لوگ اصحاب کے فعل کو حجت مانتے تھے اور سنت رسول ونص قرآنی کوچھوڑ دیتے تھے ،آپ اس کو مبالغہ نہ سمجھیں اسی کتاب میں عرض کرچکا ہوں کہ قرآن میں تمیم کے لئے نص صریح موجود ہونے اور سنت رسول مین اس کے ثابت ہونے کے باوجود اصحاب نے خود رائی سے کام لیا اور کہدیا کہ اگر پانی نہ ملے تو نماز چھوڑ دو اور عبداللہ بن عمر نے اس اجتہاد کو صحیح ثابت کرنے کیلئے ایک علت بیان کردی جس کو ہم اسی کتاب میں کسی دوسری جگہ ذکر کرچکے ہیں

اصحاب میں میں جس نے سب سے پہلے باب اجتہاد  کو پاٹوں پاٹ کھولا ہے وہ خلیفہ ثانی ہیں جنھوں  نے وفات رسول کے بعد قرآنی نصوص کے مقابلہ میں اپنی رائے استعمال فرمائی ہے چنانچہ قرآن نے مستحقین زکات کی آٹھ قسموں میں ایک قسم مولفۃ القلوب کی رکھی ہے لیکن حضرت عمر نے مولفۃ القلوب کا حصہ یہ کہہ کر ختم کردیا کہ ہم کو تمہاری ضرورت نہیں ہے "

اور نصوص نبوی کے مقابلہ میں اجتہاد اتنے زیادہ کئے ہیں کہ ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ حضرت  تو خود پیغمبر (ص) کی زندگی میں کئی مرتبہ آپ ہی سے ٹکرائے گئے تھے صلح حدیبیہ اور مرض الموت میں قلم ودوات کا نہ دینا اورحسبنا کتاب اللہ کہدینے کا تذکرہ میں اسی کتاب میں کرچکا ہوں ۔ لیکن یہاں پر ایک دوسرا واقعہ نقل کرنا چاہتا ہوں ، اور شاید اس سے عمر کی نفسیات  کا مزید اندازہ ہوسکے کہ اس شخص نے جیسے طے کر رکھا تھا ، کہ سر کار رسالت سے مجادلہ ،معارضہ ،مناقشہ ضرور کروں گا ۔ واقعہ یہ ہے کہ رسولخدا (ص) نے ابو ہریرہ کو یہ کہہ کر

۲۲۲

بھیجا کہ تمہاری ملاقات جس شخص سے ہو اور اس کو دیکھو کہ (زبان سے )لا الہ الا اللہ کہہ رہا ہو اور دل سے اس کا یقین بھی رکھتا ہو تو تم اس کو جنت کی بشارت دیدو ۔ ابو ہریرہ نکلے اور (اتفاق سے )عمر سے ملاقات ہوگئی ۔ عمر نے پورا واقعہ سن کر ان کو روکا کہ یہ نہ کرو اور اتنی دھنائی کی کہ ابو ہریرہ چوتڑوں کے بھل زمین پر گر پڑے اور پھر روتے ہوئے رسول خدا(ص) کی خدمت میں پہونچے اور پورا ماجرا سنایا ۔رسول (ص) نے عمر سے کہا  تم نے یہ کیوں کیا ؟ عمر نے کہا " کیا آپ نے اس کو بھیجا تھا کہ جو شخص دل سے یقین رکھتے ہوئے زبان سے لا الہ الا اللہ کہے اس کویہ جنت کی بشارت دیدے ؟ رسول (ص) نے فرمایا : ہاں ! عمر نے کہا ایسا مت کیجئے مجھے ڈر ہے لوگ صرف لا الہ الا اللہ ہی پر بھروسہ کرنے لگے گے ! اور حضرت عمر کے صاحبزادے کو یہ خطرہ تھا کہیں لوگ تمیم پر بھروسہ نہ کرلیں اس لئے وہ لوگوں سے کہا کرتے تھے : احتلام کے بعد پانی نہ ملے تو نماز چھوڑ دیا کرو ۔۔کاش یہ لوگ نصوص کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتے اپنے عظیم اجتہاد سے اس کو بد لنے کی کوشش نہ کرتے جس کے نتیجہ میں شریعت کو مٹادیا ،حرمات الہی کو بیکار کردیا ، امت مسلمہ کو متعدد مذاہب ،مخلتف آراء اور فرقوں میں بانٹ دیا ۔

عمر کی متعدد مقامات پر رسول اور سنت رسول کی مخالفت کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ رسول کو معصوم نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایک عادی انسان سمجھتے تھے جو کبھی غلطی کرتا ہے اور کبھی حق تک پہونچ جاتا ہے اور یہیں سے اہل سنت والجماعت کے علماء کا یہ عقیدہ ہوگیا کہ رسول اللہ صرف تبلیغ قرآن میں معصوم تھے اس کے علاوہ دیگر امور میں دیگر انسانوں کی طرح خطا کرتے تھے اور اس عقیدہ پر دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے کئی مرتبہ ان کی رائے کی غلطی کی اصلاح کی ۔

جب رسول (ص) کا یہ عالم تھا ۔۔۔جیسا کہ بعض جاہل لوگ روایت کرتے ہیں ۔۔۔کہ آپ اپنے گھرمیں چت لیٹے ہوئے تھے ۔ اور شیطان کی بانسری سن ر ہے تھے اور عورتیں دف بجارہی تھیں اور شیطان کھیل رہا تھا کہ اتنے میں عمر گھر میں داخل ہوئے (ان کو دیکھتے ہی ) شیطان بھاگا اور جلدی جلدی عورتوں نے دفوں کو اپنے اپنے چوتڑوں کے نیچے چھپالیا ، تو رسول خدا نے فرمایا : اے عمر جب شیطان تم کو دیکھتا ہے کہ تم ایک گھاٹی سے جارہے ہو تو وہ دوسری گھاٹی سے راستہ طے کرتا ہے تو پھر اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے

۲۲۳

کہ دین کے معاملات میں عمر اپنی ذاتی رائے رکھتے ہوں اور اپنے کو اس قابل سمجھتے ہوں کہ سیاسی امور میں بلکہ دینی امور میں بھی رسول خدا سے معارضہ کرسکیں جیسا کہ ابو ہریرہ کا واقعہ شاہد ہے ۔

نصوص کے مقابلہ میں ذاتی رائے کے استعمال کرنے اور اجتہاد کرنے کے نظر یہ سے صحابہ کے اندر ایک مخصوص جماعت پیدا ہوگئی  تھی جس کی قیادت  عمربن خطاب کرتے تھے ۔ اور یہی وہ جماعت تھی جس نے واقعہ قرطاس پر حضرت عمر کی بھرپور تائید کی تھی ،حالانکہ عمر کی رائے نص صریح کے مقابلہ میں تھی ، اور اسی سے ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہیں کہ اس جماعت نے نص غدیر کو ایک سیکند کے لئے بھی قبول نہیں کیا تھا ، جس میں رسول خدا نے حضرت علی (ع) کو خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے نامزد کیا تھا ، اور یہ لوگ موقعہ کی تلاش میں تھے چنانچہ وفات نبی کے بعد یہ موقعہ ان کو مل گیا اور سقیفہ کے اندر ابو بکر کا انتخاب اسی نظریہ اجتہاد کا نتیجہ تھا ۔ اورجب ان کی حکومت مضبوط ہوگئی اورخلافت کے سلسلہ میں لوگوں نے رسول کے نصوص  کو فراموش کردیا ان لوگوں نے ہر چیز میں اجتہاد کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ کتاب خدا بھی ان کے زد سےنہ بچ سکی اور انھوں نے حدود الہی کو معطل کرنا احکام الہی کو مبدل کرنا شروع کردیا ، اسی کے نتیجہ میں حضرت علی (ع) کا حق غصب  کرلینے کے بعد جناب فاطمہ (س) کا تکلیف دہ مسئلہ پیش آیا اور اس کے بعد مانعین زکات کا مسئلہ درپیش ہوا یہ سب نصوص کے مقابلہ میں اجتھاد کا نتیجہ تھا ۔ اور پھر عمر کی خلافت اسی اجتہاد کاحتمی نتیجہ تھی ، کیونکہ ابو بکر نے اپنی ذاتی رائے استعمال کرکے اس شوری کو بھی ختم کردیا جس کے سہارے اپنی خلافت کی صحت پر استدلال کرتے تھے ، اورجب جب عمر تخت خلافت پر بیٹھے تو انھوں نے مٹی کو اور بھی گیلا کردیا جس چیز کو خدا اور رسول (ص) نے حرام(1) قراردیا تھا انھوں نے اس کو حلال کردیا اور جس کو خدا اور رسول نے حلال قراردیا تھا اس کو حرام کردیا(2)

اور جب حضرت عثمان کا دور آیا تو انھوں نے حدکردی اور اپنے سے پہلے والوں سے چار قد م آگے

--------------

(1):- جیسے ایک ہی وقت میں تین طلاق کا جائز کردینا ملاحظہ وہ صحیح مسلم باب الطلاق الثلاث ،سنن ابی داود ج 1ص 344

(2):- جیسے متعہ الحج اور متعۃ النساء کو حرام کردینا ملاحظہ ہو صحیح مسلم کتاب الحج ،صحیح بخاری کتاب الحج باب التمتع

۲۲۴

ہی چلے گئے ،سیاسی ودینی زندگی میں انھوں نے اجتہاد ات کے وہ کرشمے دکھائے کہ ان کے خلاف عام بغاوت ہوگئی اور اس اجتہاد کی قمیت  زندگی دے کرچکائی

اور پھر جب حضرت علی (ع) کا دور آیا تو لوگوں کو سنت رسول کی طرف اور قرآن کی طرف پلٹانے میں بڑی زحمتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ آپ نے چاہا کہ ان بد عتوں کوختم کردیا جائے جو دین میں داخل کر دی گئی ہیں ، لیکن بعض لوگوں نے چیخنا شروع کردیا "واسنۃ عمراہ" (ہائے عمر کی سنت ختم کی جارہی ہے) مجھے یقین ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ جن لوگوں نے حضرت علی کی مخالفت کی اور ان سے امادہ پیکار ہوئے اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ آپ لوگوں کو صحیح راستہ پر لانا چاہتے تھے اور ان نصوص صحیحہ کا پیرو بنانا چاہتے تھے اور ایک چوتھائی صدی تک دین میں جن بدعتوں کا اضافہ کیاگیا تھا اور جو اجتہادات کئے گئے تھے ان کا خاتمہ کردینا چاہتے تھے ا س لئے لوگوں نے مخالفت شروع کردی، کیونکہ لوگوں نے عموما اور دنیا پرستوں نے خصوصا اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس لئے یہ لوگ مال خدا کو ذاتی جائداد بنانے اور اللہ کے بندوں کوغلام بنانے سونے چاندی کاڈھیر لگانے کمزوروں کے معمولی حقوق تک نہ دینے کے عادی ہوچکے تھے ،

ہم نے یہ دیکھا کہ مستکبرین ہر زمانہ میں خود رائی کی طرف مائل تھے اور اس کیلئے ڈنکا پیٹتے تھے تاکہ ہر طریقہ سے اپنا الو سیدھا کریں ۔لیکن نصوص ۔۔۔خواہ وہ قرآنی ہوں یا رسول کی ہوں ۔۔۔۔ ان کے اور ان کے مقاصد کے درمیان پہاڑ بن کر حائل ہوجاتے تھے ۔

اس کے علاوہ ہر عصر ومصر میں ایسے اجتھاد کے انصار ومددگار بھی پیدا ہوجاتے ہیں بلکہ مستضعفین بھی ایسے اجتہاد کو پسند کرتے ہیں ، کیونکہ اس میں سہولت وآسانی ہے اور نص میں پابندی وعدم حریت ہوتی ہے اس لئے سیاسی حضرات اس کو "حکم ثیو قراطی"یعنی خدائی حکم کہتے ہیں اور اجتہاد میں کسی قسم کی قید وبند نہیں ہوتی اسمیں حریت ہوتی ہے اس لئے اس کو "حکم دیمقراطی" یعنی جمہوری کہتے ہیں ۔ پس سقیفہ میں جمع ہونے والےحضرات نے "حکومت ثیوقراطیہ " کو جس کی بنیاد رسول اسلام نے نصوص قرآنی پر رکھی تھی ، حکومت دیمقراطیہ سے بدل دیا ،جس میں پبلک جس کو مناسب سمجھے اس کو قائد چن لے حالانکہ صحابہ کلمہ

۲۲۵

دیمقراطیہ کو تو جانتے ہی نہ تھے کیونکہ یہ عربی نہیں ہے اس کی جکہ نظام شوری کو جانتے وپہچانتے تھے(1) ۔ آج جو لوگ نصی خلافت کو نہیں مانتے وہ نظام دیمقراطی کے علمبردار ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں سب سے پہلے اسلام نے اس نظام کو جاری کیا ہے ۔ یہی لوگ اجتہاد وتجدید کے نعرے لگاتے ہیں اور یہ لوگ بڑی حد تک مغربی نظام سے قریب ہیں ، اسی لئے مغربی حکومتیں ان لوگوں کی بڑی تعریفیں کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ درحقیقت یہی لوگ ترقی پسند مسلمان ہیں ۔

لیکن شیعہ حضرات حکومت ثیوقراطیہ کے قائل ہیں ( یعنی خدائی حکومت کے) اور یہ لوگ نص کے مقابلے میں اجتہاد کو قبول نہیں کرتے ۔ یہ لوگ حکومت ا لہی اور حکومت شورائی میں فرق کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک شوری کا نصوص سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اجتہاد وشوری صرف ان مقامات پر قابل قبول ہے جہاں پر قرآن یا رسول کی نص موجود نہ ہو ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جس خدا نے محمد (ص) کو رسول بنا کر بھیجا اسی نے ان کو حکم دیا "وشاورھم فی الامر "(پ 4 س 3 (آل عمران) آیت 159) اور ان سے (حسب دستور سابق)کا م کاج میں مشورہ کرلیا کرو۔۔۔۔لیکن جہاں تک قیادت بشر (امامت وخلافت )کا سوال ہے اس میں خدا کا حکم ہے" وربکم یخلق ما یشاء ویختار ما کان لهم الخیرة "( پ 20س 28 (قصص) آیت 68) اور تمہار پروردگار جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور( جسے چاہتا ہے ) منتخب کرتا ہے اور یہ انتخاب لوگوں کے اختیار میں نہیں ہے ۔ پس شیعہ چونکہ رسول خدا کے بعد حضرت علی کی امامت کے قائل ہیں اس لئے وہ نص سے تمسک کرتے ہیں اور اگر وہ صحابہ پر طعن کرتے ہیں تو صرف صحابہ پر جنھوں نے نص کو چھوڑ کر ذاتی رائے پر عمل کرنا شروع کردیا ، اور اس طرح حکم خدا اور رسول  کو ضائع وبرباد کردیا اور اسلام میں اتنا بڑا شگاف پیدا کردیا جو آج تک پر نہ ہوسکا ۔ اور اسی لئے مغربی حکومتیں اور ان کے مفکرین شیعوں کو ناپسند کرتے ہیں اور ان کو متعصب ورجعت پسند کہتے ہیں ۔ کیونکہ شیعہ قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں جو قرآن چور کے ہاتھ کاٹنے کا زانی کو رجم کرنے کا جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دیتا ہے اور یہ ساری باتیں ان کی نظر میں

--------------

(1):-ویسے واقعہ یہ ہے کہ جمہوری نظام پر بھی انتخاب نہیں کیا گیا کیونکہ جن لوگوں نے ابوبکر کو چنا تھا وہ کسی بھی طرح عوام کے نمائندے نہ تھے

۲۲۶

جنگی پن اور بربریت ہیں ۔

اس بحث کے درمیان میں بات کو اچھی طرح سمجھ گیا ، کہ دوسری صدی ہجری سے اجتہاد کا دروازہ سنیوں نے کیوں بند کردیا اس لئے کہ اسی اختہاد نے امت مسلمہ کو مصائب ،پریشانیوں ،ایسی خونی جنگوں میں مبتلا کردیا  جس نے ہر خشک وتر کو تباہ کردیا ، اسی اجتہاد نے اس خیر امت کو ایسی پست قوم میں مبتلا کردیا ۔ جس میں لاقانونیت کا دور دورہ ہے ۔جس پر قبائل نظام کی حکمرانی ہے جو اسلام سے پھر جاہلیت کیطرف پلٹ چکی ہے ۔البتہ شیعوں کے یہاں جب تک نصوص موجود ہیں اجتہاد کادروازہ بھی کھلا ہے کسی کو ان نصو ص میں تبدیلی کاحق نہیں ہے اور اس سلسلہ میں شیعوں کی سب سے زیادہ مدد ان بارہ اماموں نے کی ہے جو اپنے جد (رسول خدا ) کے علوم کے وارث تھے کیونکہ ان تمام ائمہ کی روش ایک تھی ،اور ان کہنا تھا : دنیا میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس میں خدا نے حکم نہ دیا ہو اور رسول نے اس کو بیان نہ کیا ہو (یعنی ان کے یہاں ذاتی راۓ کی گنجائش نہیں ہے)۔اور میں اس بات کو بی سمجھ گیا کہ جب اہل سنت والجماعت نے ان اصحاب کی اقتدا ء کی جو ایسے مجتہد تھے ۔ کہ جنھوں نے احادیث نبوی کو قلمبند کرنے سے روک دیا تھا ۔ تو غیاب نصوص کی صورت میں یہ لوگ رائے ،قیاس ، استصحاب پر عمل کرنے کیلئے مجبور ہوگئے ۔اور ان تمام باتوں سے یہ بھی سمجھ گیا کہ شیعہ علی بن ابی طالب ہی سے وابستہ رہے جو باب مدینۃ العلم تھے " اورجو لوگوں سے کہا کرتے تھے ۔ مجھ سے ہر چیز کے بارے میں پوچھ سکتے ہوکیونکہ رسول خدا نے مجھے علم کے ہزار بات تعلیم کردیئے ہیں اور ایک ایک باب سے ہزار ہزار بات میرے اوپر کھل گئے ہیں(1) ۔اور غیر شیعہ معاویہ ابن ابی سفیان سے چپک گئے جس کوسنت نبوی کا علم ہی نہیں تھا اگر تھا بھی تو بہت ہی کم ۔ اور یہی معاویہ جو باغی گروہ کا لیڈر تھا حضرت علی (ع) کی وفات کے بعد مومنین کا امیر بن بیٹھا اور دین خدا میں اپنی رائے پر اتنا زیادہ عمل کیا کہ اس کے پیشرو اس سے کہیں پیچھے رہ گئے اور اہلسنت حضرات فرماتے ہیں معاویہ کاتب وحی تھا ۔ اور علمائے مجتہدین میں سے تھا میری سمجھ میں بات نہیں آئی کہ جس نے امام حسن سید شباب اہل الجنہ کو

--------------

(1):- تاریخ دمشق ج 2 ص484 حالات حضرت علی ،مقتل الحسین (خوارزمی )ج 1 ص 38 ،الغدیر (امینی)ج 3 ص 120

۲۲۷

زہر سے قتل کرایا ہو یہ لوگ اس کو کیونکر مجتہد مانتے ہیں ؟ شاید اس کا بھی جواب یہ لوگ دیں کہ یہ بھی اس کا اجتہاد تھا اس نے اجتہاد کیا مگر اس میں غلطی ہوگئی ۔۔۔۔

نہ معلوم یہ لوگ اس شخص کو کیونکر مجتہد کہتے ہیں جس نے امت سے ظلم وجبر کے ذریعہ اپنے لئے پھر اپنے بعد اپنے بیٹے یزید کیلئے بیعت لی اور نظام شوری کو شہنشاہی میں بدل دیا ؟ جس شخص نے لوگوں کو حضرت علی اور ذریت مصطفی پر منبروں سے لعنت کرنے پر مجبور کیا ہو اور یہ سنت سئیہ ساٹھ سال تک جاری  رکھی ہو اس کو یہ لوگ کیونکر مجتہد تسلیم کرکے ایک اجر کا مستحق قراردیتے ہیں ؟ اور اس کو کاتب الوحی کس طرح کہتے ہیں؟ ۔۔۔کیونکہ رسول اللہ پر 23 سال تک وحی نازل ہوتی رہی اس 23 سال میں 11 سال تک معاویہ مشرک رہا اور رسول خدا فتح مکہ کےبعد مکہ میں اقامت پذیر نہیں ہوئے اور معاویہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا اس کے بعد کوئی ایسی روایت مجھے نہیں ملی کہ معاویہ نے مدینہ میں سکونت کی ہو پھر معاویہ کسی طرح کاتب وحی ہوگیا؟ لا حول ولا قوة الا با الله العلی العظیم

میں وہی پرانا سوال پھر دہراتاہوں کہ دونوں میں سے کون حق پر تھا اور کون باطل پر تھے ۔ اوریا پھر معاویہ اور اس کے پیروکار ظالم تھے اور باطل پر تھے حالانکہ رسول  خدا نے دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ کردیا تھا ، اگرچہ بعض سنی جو  مدعی سنت ہیں اس میں کج بحثی کرتے ہیں اور مجھ پر بحث کے دوران اور معاویہ کا دفاع کرنے والے حضرات سے گفت وشنید کرنے کے بعد یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ معاویہ اور اس کے پیروکار سنت رسول کے بہر حال پیرو نہیں تھے خصوصا اگر کوئی ان کے حالات پر مطلع ہوجائے تو اسے بھی اس کا یقین ہوجائے گا کیونکہ یہ لوگ شیعیان علی سے بغض رکھتے ہیں،۔ عاشور ہ کے دن عید مناتے ہیں ، جن اصحاب نے رسول  خدا کو ان کی زندگی میں اذیت پہونچا کران کی زندگی اجیرن کردی تھی ، ان کا دفاع کرتے ہیں ان کی غلطیوں کو سراہتے ہیں ، ان کے اعمال کوجائز قراردیتے کی کوشش کرتے ہیں ۔

بھائی یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ حضرت علی اور اہلبیت کو بھی دوست رکھیں اور ان کے دشمنوں اور قاتلوں کو رضی اللہ بھی کہتے رہیں ؟ کیایہ ہوسکتا ہے کہ آپ خدا اور رسول کو بھی دوست رکھیں اورجو لوگ

۲۲۸

خدا اور رسول (ص) کے احکام کوبدل دیتے ہیں اور احکام الہی میں اپنی رائے سے اجتہاد وتاویل کرتے ہیں انکا بھی دفاع کریں ؟

جو شخص رسول اللہ کا احترام نہ کریں بلکہ ان پر ہذیان کا اتہام لگائے آپ لوگ کیسے اس کا احترام کرتےہیں ؟ جو لوگوں کو اموی یا عباسی حکومت نے اپنے سیاسی اغراض کے پیش نظر امام بنایا ہو اس کی تو آپ لوگ تقلید کرتے ہیں ؟ اور جن  کے اسماء(1) ۔ اور تعداد (2) تک کو رسول اللہ نے معین کرکے بتادیا ہو ان کو آپ چھوڑ دیتے ہیں ؟ آخر یہ کون سی عقلمندی ہے ؟ جو شخص نبی کی صحیح معرفت نہ رکھتا ہو اس کی تو تقلید کیجائے اورجو باب مدینۃ العلم ہو اور بمنزلئ ہارون ہوا سکو چھوڑ دیا جائے

--------------

(1):-صحیح بخاری ج 4 ص 164 ،مسلم ص 119 فی باب الناس تبع لقریش

(2):- ینا بیع المودۃ

۲۲۹

اہل سنت والجماعت کی اصطلاح  کا موجد؟

میں نے تاریخ میں بہت ڈھونڈ ھا لیکن مجھے صرف اتنا ملا کہ جس سال معاویہ تخت حکومت پر بیٹھا سب نے مشفق ہو کر اس سال کا نام" عام الجماعت " رکھ دیا ۔واقعہ یہ ہے کہ عثمان کے قتل کئے جاسے کے بعد امت دوحصوں میں بٹ گئی (1) شیعیان علی (2) پیروان معاویہ اور جب حضرت علی شہید کردیئے گئے اور معاویہ نے امام حسن صلح کرلی اور معاویہ امیر المومنین بن گیا تو اس سال کا نام " عام الجماعۃ " رکھا گیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اہل سنت والجماعت وہ جماعت ہے جو سنت معاویہ کی پیروی کرتی ہے اور معاویہ پر اجتماع کرتی ، اس کا مطلب رسول اللہ کی پیروی کرنے والی جماعت نہیں اسلئے ماننا پڑیگا کہ اہلبیت رسول ہی اپنے جد کی سنت کوسب سے زیادہ جاننے والے ہیں نہ یہ طلقاء ! اس لئے کہ گھر والے ہی گھر کی بات کو زیادہ جانتے ہیں اور مکہ والے ہی مکہ کی گھاٹیوں کو سب سے زیادہ جانتے ہیں ، لیکن ہم نے ائمہ اثنا عشر کی مخالفت کی جن کے رسول خدا نے نص کردی تھی ، اور بارہ اماموں کے دشمنوں کی ہم نے پیروی شروع کردی ۔

اور اس حدیث کے اعتراف کے باوجود جس میں رسول خدا نے بارہ12 خلیفہ کاذکر فرمایا ہے اور کہا ہے یہ سب کے سب قریش سے ہوں گے ۔ہم جب بھی خلفاء کا شمار کرتے ہیں ۔ چوتھے خلیفہ پرآکر ٹھہر جاتے ہیں ۔ اور شاید معاویہ نے ہم لوگوں کانام جو اہل سنت والجماعت رکھا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ حضرت علی وار اہل بیت کے لئے اس نے جو لعنت کی سنت جاری کی ہے اس پر لوگ مجتمع ہوجائیں اور معاویہ کی یہ سنت 60 سال تک جاری رہی عمربن عبدالعزیز کے علاوہ کوئی اس کو ختم نہیں کرسکا اسی لئے بعض مورخین کا بیان ہے کہ عبدالعزیز اگر چہ خود بھی اموی تھا لیکن بنی امیہ نے اس کے قتل کا پلان آپسی مشورہ سے تیار کرلیا تھا ، کیونکہ (اس نے سنت (یعنی حضرت علی پر لعنت ) کو ختم کردیا تھا

۲۳۰

اے میرے خاندان والو! اے میرے گھر والو ہم کو تعصب چھوڑ کر حق کو تلاش کرنا چاہیئے ۔کیونکہ ہم بنی عباس کے بھینٹ چڑھائے ہوئے ہیں ہم بزرگوں کے جمود فکری کے شکار ہوئے ہیں ہم تو معاویہ ،عمر وعاص ،مغیرہ بن شعبہ جیسے چالاک ومکار لوگوں کی مکاری وچالبازی کے شکار ہوئے ہیں ۔۔۔ اپنی حقیقی اسلامی تاریخ کو تلاش کرو تاکہ روشن حقائق تک ہماری رسائی ہوسکے ۔خدا اس کا دہرا اجر دےگا ۔ہوسکتا ہے تمہارے ہی ذریعہ سے خدا ورسول اسلام کے بعد مصائب میں گرفتار امت مسلمہ کے افتراق کو اتفاق سے بدل دے یہ امت 73 فرقوں میں بٹ چکی ہے ممکن ہے تمہاری وجہ سے پھر ان سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردے ۔

آؤ آؤ ہم سب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور اتباع اہلبیت کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوکر امت مسلمہ کو متحد کرسکیں ۔ اہل بیت رسول وہ ہیں جن کی اتباع کا حکم رسول خدا نے ہم کو دیا ہے اور فرمایا ہے ، اہل بیت سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے ۔ اور ان سے پیچھے بھی نہ رہ جانا ورنہ ہلاکت تمہار ا مقدر بن جائے گی ۔ ان کو تعلیم دینے کی کوشش نہ کرنا یہ تم سب سے زیادہ عالم ہیں(1)

اگر ہم ایسا کریں گے تو خدا اپنی ناراضگی اور اپنے غضب کو ہم سے اٹھالے گا ۔اور خوف کے بعد ہمارے لئے امن قرار دے گا اور ہم کو زمین پر متمکن بنادےگا اور ہم کو زمین پر خلیفہ بنادےگا اور ہمارے لئے اپنے ولی الامام المھدی (عج) کو ظاہر کردے گا۔ جن کیلئے رسول اللہ (ص) نے ہم سے وعدہ کیا ہے ، وہ ظاہر ہو کر دنیا کو عدل ،انصاف سے اسی طرح پر کردیں گے جس طرح ہو پہلے ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی ۔ اور انھیں کے ذریعہ پوری زمین میں خدا اپنے نور کو مکمل کرےگا ۔

--------------

(1):- الدر المنثور (سیوطی) ج 2 ص 60 اسد الغابہ ج 3 ص 127 الصوعق المحرقہ (ابن حجر) ص 148،226 ،ینا بیع المودۃ ص 41 و355 کنز العمال ج 1ص 168 مجمع الزوائد ج 9 ص 163

۲۳۱

مناظرہ کی دعوت

یہ تبدیلی میری روحانی سعادت کا سبب بنی کیونکہ میں نے نئے مذہب کے انکشاف یا اسلام حقیقی تک رسائی کی وجہ سے ضمیر کی راحت ودل کی فرحت کا احساس کیا اور خوشبو ں نے مجھے گھیر لیا اور خدا کی نعمت ہدایت ورشاد سے سرشار ہوگیا اور اب میرے دل میں جو خیالات تھے ان کے چھپانے پر میں کسی طرح قادر نہیں تھا ۔ چنانچہ میں نے اپنے دل میں کہا بمفاد آیۃ "واما بنعمۃ ربک فحدث " اپنے دل کی بات کا لوگوں سے بیان کرنا ضروری ہے اور یہ نعمت ایمان  توبہت بڑی نعمت ہے دنیا وآخرت میں نعمت کبری کہلانے کی یہی مستحق ہے نیز حق بات نہ کہنے والا گونگا شیطان ہے اور حق کےبعد تو گمراہی کے سواکچھ نہیں ہے ان سب باتوں کو سوچتے ہوئے اظہار کرنا ضروری سمجھا اور جس بات نس اس حقیقت کو نشر کرنے کیلئے میرے شعور کو مزید یقین وپختگی بخشی وہ اہل سنت والجماعت کی اہل بیت سے دور تھی ، میں نے سوچا ہوسکتا ہے تاریخ نے ان کے ذہنوں پر جو حال بچھا رکھا ہے وہ پردہ اٹھ جائے اوریہ لوگ بھی حق کی پیروی کنے لگیں یہ میری شخصی وذاتی رائے تھی ۔"کذالک کنتم من قبل  فمن الله علیکم "(پ 5 س 4 (نساء ) آیة 94 ) ( مسلمانو) پہلے تم خود بھی تو ایسے ہی تھے پھر خدانے تم پر احسان کیا (کہ تم بے کھٹکے مسلمان ہوگئے )

چنانچہ معہد میں جو چاراساتذہ میرے ساتھ کام کرتے تھے میں نے ان کو دعوت دی ، ان میں سے دوتو دینی تربیت دیتے تھے ، اور تیسرا زبان عربی کا استاد تھا اور چوتھا اسلامی فلسفہ کا استاد تھا اور یہ چاروں قفصہ کے نہیں تھے ، بلکہ ٹیونس ،جمال سوسہ  کے رہنے والے تھے میں نے ان لوگوں سے کہا آپ لوگ اس عظیم موضوع پر مجھ سے بحث کیجئے میں نے انپر ہی ظاہر کیا تھا کہ میں بعض چیزوں کو سمجھ نہیں پایا ہوں اور اس سلسلہ میں بہت مضطرب وپریشان ہوں اس لئے آپ حضرات میری رہنمائی فرمائیں ۔سب نے

۲۳۲

وعدہ کرلیا کہ چھٹی کےبعد میرے گھر پر آئیں گے میں نے ان کو کتاب "المراجعات"پڑھنے کو دیا کہ اس کتاب کا مولف عجیب وغریب باتوں کا دعوی کرتا ہے ان میں سے تین نے تو کتاب کو بہت پسند کیا ۔ لیکن چوتھے نے چارپانچ نشستوں کے بعد یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کرلی ، مغرب چاند پر کمند ڈال رہا ہے اورآپ لوگ ابھی تک خلافت اسلامیہ کےچکر میں الجھے ہیں ۔

ہم نے ایک ماہ کے اندر ابھی کتاب ختم بھی نہیں کی تھی کہ وہ تینوں شیعہ ہوگئے ، اس سلسلہ میں میں نے بھی حقیقت تک پہونچنے میں ان کی بڑی مدد کی کیونکہ دوران تحقیق میری معلومات کا فی وسیع ہوگئی تھیں اور میں ہدایت کامزہ چکھ چکا تھا ، اس کے بعد میں نے عادت بنائی کہ ہر مرتبہ قفصہ کے دوستوں میں سے اور مسجد میں دروس کہنے کہ وجہ سے لوگ مجھ سے رابطہ رکھتے تھے ان میں سے صوفیت کے رشتہ  کی بنا پر جن لوگوں سے تعلقات استوار تھے ان میں سے اور بعض ان شاگردوں میں سے جو ہمہ وقت مجھ سے اتصال رکھتے تھے ،ان میں  سے کسی نہ کسی ایک کو بلاتا رہتا تھا اور تبلیغ کرتا رہتا تھااور ابھی ایک سال ہی گزر ا تھا کہ ہماری تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا ۔ ہم اہلبیت کو اور ان کے دوستوں کو دوست رکھتے تھے ، اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے تھے عیدوں میں خوشی مناتے تھے اور عاشورہ کو غم مناتے تھے مجلس کرتے تھے ، جب میں نے قفصہ میں پہلی مرتبہ محفل عید غدیر منعقد کی تو اسی کی مناسبت سے سب سے پہلا خط اپنے شیعہ ہوجانے کا السید الخوئی اور السید محمد باقر الصدر کو تحریر کیا اور میرا معاملہ خاص وعام کے نزدیک مشہور ہوچکا تھا کہ میں شیعہ  ہوگیا ہوں ، اور آل رسول کے تشیع کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہوں اور پھر اسی کے ساتھ ساتھ میرے خلاف اتہامات والزمات کا سلسلہ بڑے زور وشور سے شروع ہوگیا ۔ مثلا میں اسرائیل کا جاسوس ہوں میرا کام ہی یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے دین کے معاملہ میں مشکوک بنادوں ،یا مثلا میں صحابہ کو گالیاں دیتا ہوں یا میں بہت بڑا فتنہ پرداز ہوں وغیرہ وغیرہ ۔

دارالسلطنت ٹیونس میں میں نے اپنے دوستوں راشد الغنوشی اور بعد الفتاح مورو سے اتصال پیدا کیا ان دونوں سے بڑی سخت بحث ہوئی ۔ ایک دن عبدالفتاح کے گھر بات کرتے ہوئے میں نے کہا مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے اوپر اپنی کتابوں کا پڑھنا ،تاریخوں کا مطالعہ کرنا واجب ہے

۲۳۳

اور میں نے بطور مثال کہا جیسے بخاری میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کو نہ عقل قبول کرتی ہے نہ دین قبول کرتا ہے بس اتنا کہنا تھا کہ دونوں بھڑک اٹھے ،آپ کون ہیں بخاری پر تنقید کرنے والے ؟ اس کے بعد میں نے بہت کوشش کی کہ ان کو قانع کرکے پھر سے بحث کا سلسلہ شروع کروں لیکن ان لوگوں نے یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کرلی : اگر تم شیعہ ہوگئے ہو تو ہم تو کسی قیمت پر شیعہ نہ ہوں گے ہمارے پاس اس سے زیادہ اہم کام ہیں ، ہم کو اس حکومت کا مقابلہ کرنا ہے جو اسلام پر عمل نہیں کرتی میں نے کہا اس سے کیا فائدہ ہوگا ؟ جب اقتدار تمہارے ہاتھ میں آجائے گا اور تم خود اسلام کی حقیقت کو نہ پہچانتے ہوگے تو اس سے بھی زیادہ کروگے ،مختصر یہ کہ ملاقات کا خاتمہ نفرت پر ہوا ۔

اس کے بعد تو ہمارے خلاف شدید قسم کے پروپیگنڈے شروع ہوگئے اور اس میں اخوان المسلمین کے وہ لوگ بھی شریک ہوگئے جو اسلامی تحریک کے رخ کو نہیں پہچانتے تھے چنانچہ متوسط قسم کے طبقہ میں انھوں نے میرے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ یہ شخص حکومت کا ایجینٹ ہے اور مسلمانوں کو ان کے دین میں مشکوک بنانا چاہتا ہے تاکہ مسلمان جو حکومت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں اس سے غافل ہوجائیں ۔

اخوان المسلمین میں کام کرنے والے جوان اور صوفیت کاپرچار کرنے والے بوڑھے رفتہ رفتہ ہم سے الگ ہوگئے اورہم خود اپنے شہروں میں قبیلہ میں ، رشتہ داروں میں ، دوستوں میں اجنبی ہوکر رہ گئے اور یہ زمانہ بڑا سخت ہمارے اوپر گزرا ،لیکن خداوند عالم نے ہم کو ان کے بدلے میں  ان سے اچھے لوگ دیدئیے چنانچہ دوسرے دوسرے شہروں سے جوان آنے لگے اور مجھ سے حقیقت کےبارے میں سوال کرنےلگے اور میں اپنی حد بھر انتہا سے زیادہ کوشش کرکے ان کم مطمئن کرنے کی کوشش کرتا رہا چنانچہ دارالسلطنت قیراوان ،سوسہ ، سید بو زید کے بہت سے جوان شیعہ ہوگئے اور میں اپنی گرمیوں کی تعطیلات منانے کیلئے عراق جاتے ہوئے یورپ سے بھی گزرا جہاں اپنے بعض دوستوں سے ملاقات کی جو فرانس یا ہا لینڈ میں تھے اور ان سے جب اس موضوع پر بات کی توہ لوگ بھی شیعہ ہوگئے ،الحمد لله علی ذلک

جب میں نے نجف اشرف جاکر سید محمد باقر الصدر کے گھر میں ان سے ملاقات کی اور اس جگہ کچھ دیگر علماء

۲۳۴

بھی تھے تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور سید صدر نے مجھے آگے بڑھا کر سب سے متعارف کرانا شروع کیا کہ یہ ٹیونس میں تشیع کے بیج ہیں اور اسی کے ساتھ انھوں نے بتایا کہ جب ان کا پہلا خط عید غدیر کی محفل کے سلسلے میں میرے پاس آیا تو میں اتنا متاثر ہو ا کہ بیساختہ میری آنکھوں سےآنسو بہنے لگے تب میں نے ان سے شکایت کی کہ میرے خلاف پروپیگنڈے کئے جارہے ہیں اور مجھے گوشہ نشینی اختیار کرنی پڑگئی ہے اور یہ باتیں اب میرے برداشت سے باہر ہوتی جارہی ہیں !

اس وقت سید نے اپنے کلام کے درمیان فرمایا : بھائی یہ زحمتیں تو تم کو برداشت کرنی ہوگی کیونکہ اہل بیت کا راستہ بہت دشوار وسخت ہے ایک شخص نے پیغمبر (ص) کے پاس آکر کہا میں آپ کو دوست رکھتا ہوں تو آنحضرت نے فرمایا " تم کو کثرت ابتلاء کی بشارت دیتا ہوں ،پھر اس نے کہا میں آپ کے ابن عم علی ابن ابی طالب(ع)  سے بھی محبت کرتاہون تو رسول(ص) نے کہا" میں تجھ کو کثرت اعداء کی بشارت دیتاہوں ، پھر اس نے کہا ! میں حسن وحسین کوبھی دوست رکھتا ہوں تو فرمایا " پھر فقر اور کثرت بلاء کے لئے تیار ہوجاؤ ، ہم نے دعوت حق کے سلسلہ میں کیا پیش کیا ہے ؟ امام حسین علیہ السلام کو دیکھو انھوں نے دعوت حق کی قیمت اپنی ، اپنے اہل وعیال کی، ذریت وخاندان کی ، اصحاب وانصار کی قربانی پیش کرکے ادا کی ہے اور مرور زمانہ کے ساتھ شیعوں ن ےجو قربانیاں دی ہیں ،اور آج تک دیتے چلے آرہے ہیں ان کے مقابلہ میں ہم نے کیا کیا ؟ برادر اس قسم کی پریشانیوں اور راہ حق میں قربانی کی مشقت کاتحمل کرو ، اگر تمہارے ذریعہ سے ای آدمی ہدایت یافتہ ہوجائے تویہ تمہارے لئے دنیا ومافیھا سے بہتر ہے ،

اسی طرح سید نے مجھے نصیحت کی کہ گوشہ نشینی اختیار نہ کرو اورحکم دیا کہ برادران اہل سنت کے قریب رہو چاہے وہ تم سے کتنے ہی دور ہونے کی کوشش کریں تم ان سے قربت اختیار کرو ۔ نیز مجھے حکم دیا کہ ان کے ساتھ نماز جماعت پڑھوں تا کہ قطع تعلق نہ ہونے پائے کیونکہ یہ لوگ اپنے بزرگوں اور واہیات تاریخ کے قربان گاہ پر بھینٹ چرھادیے گئے ہیں ۔ اور لوگ جس سے واقف نہیں ہوتے اس کے دشمن تو ہوتے ہی ہیں

۲۳۵

اسی طرح تقریبا السید الخوئی نے بھی مجھے نصیحت فرمائی اور سید محمد علی طباطبائی الحکیم نے بھی اسی قسم کی نصیحت کی اور برابر اپنے متعدد خطوط میں اس قسم کی نصیحتیں تحریر کرتے رہے جس کا اثر ہمارے نئے شیعہ بھائیوں پر بہت ہوا ، اس کے بعد مختلف مواقع پر نجف اشرف اور علمائے نجف کی زیارت سے مشرف ہوتا رہا اور میں نے اپنی جگہ طے کر لیا تھا کہ ہرقیمت پر ہر سال گرمیوں کی چھٹیاں نجف اشرف میں گزارا کرونگا اور سید محم باقر الصدر کے دروس میں شرکت کیا کروں گا کیونکہ اس کے دروس سے میں سے کافی استفادہ کیاتھا ۔اسی طرح یہ بھی طے کر لیا تھا کہ بارہ اماموں کی زیارت بھی کروں گا چنانچہ خدانے میری تمنا پوری کردی ،یہاں تک کہ میں امام رضا کی زیارت سے بھی مشرف ہوا جن کامزار ایران  کے ایک شہر مشہد میں ہے  جو روس کی سرحدوں سے قریب ہے وہاں بھی میں نے بڑے علماء سے ملاقات کی اور استفادہ کیا ، سید خوئی جن کی میں تقلید کرتاہوں انھوں نے خمس وزکاۃ میں تصرف کا وکالتنامہ بھی دیا تاکہ اس سے شیعہ ہونے والے مسلمانوں کی کتابوں وغیرہ  سے مدد کرتا رہوں اور میں نے ایک عظیم کتابخانہ بنا یا جس میں وہ اہم کتابیں  بہر حال جمع کردیں جن کی ضرورت بحث کے وقت ہوتی ہے اس میں سنی وشیعہ دونوں کی کتابیں موجود ہیں اس کا نام " مکتبۃ اہل البیت (ع)" ہے اس سے بہت لوگوں نے استفادہ کیا ہے ،خداوند عالم نے میری خوشی کو دگنا اور میری سعادت کو اس وقت دگنا کردیا جب تقریبا پندرہ سال پہلے میں  نے شہر قفصہ کے حاکم سے خواہش کی کہ جس سڑک پر میں رہتا ہوں اس کا نام " شارع الاما م علی " رکھ دیا جائے اور اس نے قبول کرلیا لہذا میں اس کا شکر گزار ہوں یہ حاکم حضرت علی طرف بہت جھکاؤ رکھتا ہے میں نے اس کو بطور تحفہ "المراجعات" بھی دی ۔خدا اس کو جزائے خیر دے اور اس کی تمنا پوری کرے لیکن بعض حاسدوں نے ا س بورڈ کو ہٹاناچاہا مگر خدانے ان کو ناکامیاب بنادیا ، اور اب دنیا کے ہر گوشہ سے میرے پاس جوخطوط آتے ہیں ان کے پتہ پر "شارع امام علی" لکھا ہوتا ہے اس مبارک نام سے ہمارے قدیم شہر کو بہت برکت عطا کی ، ائمہ معصومین او رعلمائے نجف کی نصیحتوں پر عمل کرتے ہوئے دیگر مسلمان بھائیوں سے عمدا قربت پیدا کرتا ہوں ، انھیں کے ساتھ جماعت پرھتا ہوں جس سے کھینچاؤ میں کافی کمی آگئی ہے اور جوانوں کو اپنی نماز وضو ،عقائد کے سلسلہ میں جب وہ سوال کر تے ہیں تو کافی حد تک مطمئن کردیتا ہوں ۔

۲۳۶

حق کی جیت

جنوب ٹیونس کے کسی دیہات میں ایک شادی میں چند عورتیں آپس میں گفتگو کررہی تھیں کہ فلاں شخص کی بیوی جس کا یہ نام ہے وہ ۔۔۔۔۔اور ان عورتوں کے بیچ میں ایک بیٹھی ہوئی بوڑھی عورت ان کی گفتگو سن رہی تھی کہ فلاں کے ساتھ فلاں  کی لڑکی  کی شادی ہوگئی تو اس کو بہت تعجب ہوا ۔ عورتوں نے اس بوڑھی عورت سے پوچھا کہ تم کو اس پر تعجب کیوں ہورہا ہے؟ اس نے کہا میں نے دونوں کو دودھ پلایا ہے وہ آپس میں بہن بھائی ہیں ، پس پھر کیا تھا عورتوں نے اپنے اپنے شوہروں سے ذکر کیا اور جب مردوں نے تحقیق کی تو بات صحیح ثابت ہوئی ،لڑکی کے والد نے بھی اعتراف کیا اور لڑکے کے والد نے بھی کہا کہ  اس بڑھیا نے دودھ پلایا ہے پھر تو دونوں قبیلوں میں قیامت آگئی اور وہ لاٹھی چلی کہ خدا کی پناہ ہر ایک دوسرے پر الزام لگارہا تھا کہ اس حادثہ کا سبب دوسرا ہے ، اور اب ان پر قیامت آئےگی خدا کا قہر نازل ہوگا ، مشکل اور اس لئے بھی بڑھ گئی تھی کہ شادی کو دس سال ہوچکے  تھے اور تین بچے  بھی پیدا ہوچکے تھے آخر  ان کا کیا ہوگا ۔ عورت تو سنتے ہی اپنے  باپ کے گھر بھاگ گئی۔ اور کھانا پینا چھوڑ دیا  ،خودکشی پر آمادہ ہوگئی کیونکہ وہ یہ صدمہ نہیں برداشت کرسکی کہ اس نے اپنے بھائی سے شادی کرلی اور اس سے بچے بھی پیدا ہوگئے اور اس کو ذرہ برابر خبربھی نہ تھی  مارپیٹ  میں  دونوں طرف کے لوگ زخمی  ہوگئے خدا خدا کرکے ایک شیخ قبیلہ کے بیج بچاؤ  کرنے پر لڑائی ختم ہوئی اور اس شیخ نے دونوں کو نصیحت کی کہ اس سلسلہ میں علماء سے رجو ع کرو ہوسکتا ہے وہ لوگ کوئی ایسا فتوی  دیدیں جس سے مسئلہ کا حل مل جائے ۔ اب یہ لوگ آس پاس کے بڑے بڑے شہروں میں جا جا کر علماء سے سوال کرتے  لیکن جب بھی کسی عالم سے ملاقات کرکے پورا قصہ سناتے تو وہ فورا شادی کو حرام کہہ دیتا اور میاں بیوی  میں علیحدگی کرانے کا حکم دیتا کہ ان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ایک دوسرے سے جدا کر دو ، ایک غلام آزاد کرو ۔ دومہینے کا مسلسل روزہ رکھو اسی قسم کے دیگر فتاوی سے پالا پڑتا ،

۲۳۷

ہوتے ہوتے یہ لوگ قفصہ بھی پہونچے وہاں کے علما نے بھی وہی جواب دیا کیونکہ مالکی فرقہ کے یہاں ایک قطرہ دودھ پینے سے نشر حرمت ہوجاتی ہے اس لئے کہ امام مالک کا فتوی یہی ہے کیونکہ امام مالک دودھ کا قیاس شراب پر کرتے ہیں جیسے اگر کوئی چیز ایسی ہو کہ اس کے زیادہ مقدار استعمال کرنے سے نشہ پیدا ہوجاتا ہو تو اس چیز کی قلیل مقدار بھی حرام ہوجائےگی ، لہذا ایک قطرہ دودھ بھی نشر حرمت  کا سبب ہوگا لیکن یہاں پر ایک شخص نے ان لوگون کو تنہائی میں چپکے سے میرا پتہ بتایا اور کہا: اس معاملہ میں تم لوگ تیجانی سے سوال کرو وہ ہرمذہب کو بہت اچھی طرح جانتا ہے میں نے خود دیکھا ہے کہ اس نے ان علماء سے کئی مرتبہ بحث ومناظرہ کیا  اور ہر مرتبہ سب کو شکست دے دی۔

یہ باتیں مجھے شوہر نے اسو وقت بتائیں جب میں نے ان لوگوں کو اپنے کتب خانہ میں لے گیا اور انھوں نے پورا واقعہ شروع سے آخر تک تفصیل کے ساتھ مجھے بتایا اور اس نے کہا مولانا : میری بیوی خود کشی پر آمادہ ہے میرے بچے آوارہ ہورہے ہیں ، میرے پاس اس قضیہ کا کوئی حل نہیں ہے ، لوگوں نے آپ کا پتہ بتایا اور یہاں آکر جب میں نے اتنی کتابیں دیکھیں تو خوش ہوگیا کہ میرا مسئلہ حل ہوجائے گا کیونکہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی کتابیں کہیں نہیں دیکھیں۔

میں نے پہلے تو قہو ہ پیش کیا پھر پوچھا کہ تمہاری بیوی نے کتنی مرتبہ اس عورت کا دودھ پیا تھا اس نے کہا یہ تو میں نہیں جانتا لیکن میری بیوی نے دو یا تین مرتبہ دودھ پیا ہے اور اس کے باپ نے بھی یہی بتایا ہے کہ وہ دو تین مرتبہ اپنی بیٹی کو اس بڑھیا کے پاس دودھ پلانے کیلئے لےگیا تھا ، اس پر میں نے کہا اگر یہ بات صحیح ہے تو شادی درست ہے ۔ وہ بیچارہ دوڑ کر میرے قدموں پر گر پڑا کبھی میرا سر چومتا کبھی میرا ہاتھ چومتا اور کہتا جات خدا آپ کو نیکی عطا کرے آپ نے میرے لئے سکو ن کا دروازہ کھول دیااور  پھر جلدی سے اٹھ کر بھاگا نہ مجھ سے سوال کیا وار نہ قہوہ ہی ختم کیا اور نہ مجھ سے دلیل پوچھی جانے کے لئے اجازت لی تاکہ جلدی سے اپنی بیوی اور بچوں اور قبیلہ والوں کو یہ خبر سنائے ،

لیکن وہ دوسرے دن ساتھ آدمیوں کو لے کر میرے پاس آیا اور سب کو میرے سامنے کرتے ہوئے ہر ایک کا تعارف کرانے لگا ۔یہ میرے والد ہیں ، یہ میری زوجہ کے والد ہیں ، یہ دیہات کے سردار ہیں ۔ یہ امام جمعہ

۲۳۸

جماعت ہیں ۔ یہ دینی مرشد ہیں ، یہ شیخ عشیرہ ہیں ، یہ مدیر مدرسہ ہیں یہ سب کے سب میرے پاس رضاعت کے مسئلہ کے سلسلہ میں آئے تھے کہ آپ نے اس کو کیونکر حل فرمایا ؟ میں سب کو کتب خانہ میں لیکر آیا اور مجھے امید تھی کہ یہ سب مجھ سے جھگڑا کرینگے ، میں نے سب  کو قہوہ پیش کیا اور مرحبا کہا : ان لوگوں نے کہا ہم آپ کے پاس اس لئے آئے ہیں کہ جب رضاعت کو قرآن نے حرام کیا ہے تو آپ نے کیسے اس کو حلال کردیا؟ اور رسول نے فرمایا ہے : جو چیزیں نسب سے حرام ہوتی ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہوجاتی ہیں اور امام مالک نے بھی حرام قراردیا ہے !

میں :- میرے بزرگ آپ آٹھ آدمی ہیں اور میں اکیلا ہوں اگر میں سب سے بحث کروں تو شاید سب کو قانع نہ کرپاؤں  اور سارا وقت بحث ومناظرہ کے نذر ہوجائے اس لئے آپ اپنے میں سے ایک کو منتخب کرلیں وہ مجھ سے مناظرہ کرے اورآپ سب حکم ہوجائیں ،آپ کا فیصلہ دونوں کو تسلیم کرنا ہوگا ۔ سب نے  میری تجویز پسند کیا اور مرشد دینی کا انتخاب اس لئے ہوا کہ وہ سب سے زیادہ اعلم واقدر (قدرت رکھتے)ہیں۔

مرشد:- جس چیز کو خدا ورسول وائمہ نے حرام قراردیا ہے آپ نے کس دلیل سے اسکو حلال قراردیا ہے ؟

میں :- اعوذ باللہ ! بھلا میں ایسا کرسکتا ہوں ؟ قصہ یہ ہے کہ خدانے رضاعت کی آیت کومجمل اتارا ہے اس کی تفصیل نہیں بیان کی ہے بلکہ تفصیل رسول کے حوالہ کردی ہے اور انھوں نے کیف وکم کے ساتھ مقصد کو واضح کردیا ہے ۔

مرشد:- امام مالک ایک قطرہ سےبھی نشر حرمت کے قائل ہیں ۔

میں :- جی ہاں ! میں جانتا ہوں لیکن امام مالک تمام مسلمانوں کیلئے حجت نہیں ہیں ورنہ آپ دوسرےائمہ کو کیا کہیں گے ؟

مرشد :- خدا ان تمام ائمہ سے راضی اور ان کو بھی راضی کرے یہ سب کے سب رسول خدا کی بات کہتے ہیں

میں :- آپ خد ا کے سامنے کون سی حجت پیش کریں گے اس بات پر کہ آپ امام مالک کی تقلید کرتے ہیں اور ان کی رائے نص رسول کے خلاف ہوتی ہے  ؟

مرشد:- انھوں نے حیرت سے کہا سبحان اللہ !

۲۳۹

میں  یہ نہیں مان سکتا کہ امام مالک جو امام دارالہجرہ ہیں وہ نصوص نبویہ کی مخالفت کرتے ہیں  حاضرین کو بھی تعجب ہوا تھا اور انھوں نے میری اس جراءت کو بہت ہی عجیب وغریب سمجھا کیونکہ مجھ سے پہلے کسی نے ایسا ریمارک امام مالک پر نہیں کیا تھا میں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کیا امام مالک کا شمار صحابہ میں ہوتا ہے؟

مرشد:- مرشد نے کہا  نہیں !

میں :- میں نے کہا  کیا ان کا شمار تابعین میں ہوتا ہے ؟

مرشد:- کہا ! نہیں بلکہ وہ تبع تابعین میں سے ہیں ۔

میں :- میں نے پھر کہا حضرت علی اور امام مالک میں کون زیادہ قریب ہے ؟

مرشد:- حضرت علی کیونکہ وخلفائے راشدین میں سے ہیں !حاضرین یمں سے ایک صاحب بولے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ باب مدینۃ العلم ہیں ، میں نے کہا :پھر آپ نے باب مدینۃ العلم کو چھوڑ کر ایسے شخص کی تقلید کیوں  کی جواز صحابہ میں سے ہے نہ تابعین میں سے  بلکہ جس کی ولادت فتنہ کے بعد ار لشکر یزید کے ذریعہ مدینۃ رسول  کے تاراج ہونے کے بعد ہوئی ہے یزید کے لشکر والوں  نے جو کچھ کرنا تھا کیا ،بہترین صحابہ کو قتل کردیا ، ہتک حرمت الہی کی خود ساختہ بدعت جاری کرکے سنت رسول کو بدل دیا ، اب آپ خود ہی سوچئے ان تمام حالات کے بعد ان ائمہ سے انسان کیونکر مطمئن ہوسکتا ہے ۔جو ظالم حکومت کے منظور نظر تھے اور حکومت کی مرضی ےک مطابق فتوی دیا کرتے تھے ۔

ایک شخص:- اتنے میں ایک شخص بولا : میں نے سنا ہے آپ شیعہ ہوگئے ہیں اور حضرت علی کی عبادت کرتے ہیں ؟ اتنا سنتے ہی اس کے بغل میں بیٹھے ہوئے آدمی نے اس کو ایسا گھونسا مارا جس سے اس کو کافی تکلیف پہنچی اور کہاچپ ہوجا ؤ تم کو شرم نہیں آتی  کہ ایسے فاضل شخص کے بارے میں ایسی بات کرتے ہو، میں نے بہت سے علما ء کو دیکھا ہے لیکن ابی تک میں نے کسی عالم کے پاس اتنا بڑا کتابخانہ نہیں دیکھا ، یہ شخص جو بات بھی کہہ رہا ہے بہت اعتماد وبھروسے اور اطمینان سے کہہ رہا ہے ۔میں :- میں نے فورا اس کو جواب دیا جی ہاں ! یہ صحیح ہے کہ میں شیعہ ہوں ،لیکن شیعہ حضرت علی کی پرستش نہیں کرتے بلکہ وہ امام مالک کے عوض حضرت علی کی تقلید کرتے ہیں جنکو آپ لوگ بھی باب مدینۃ العلم

۲۴۰