پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا 15%

پھر میں ہدایت پاگیا مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 253

پھر میں ہدایت پاگیا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 253 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 80104 / ڈاؤنلوڈ: 7883
سائز سائز سائز
پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

بارے میں پوچھا جواب سے مجھے اندازہ ہو کہ وہ کوئی ڈاکٹر ہے جو عنقریب آنے والا ہے اسی اثناء میں میرے دوست نے کہا:" میں آپ کو یہاں پر اس لئے لایا ہوں کہ آپ کا تعارف ایک ڈاکٹر سے کرادوں جو تاریخ کا سب سے بڑا ماہر ہے ۔ اور بغداد یونیورسٹی   میں تاریخ کا پروفیسر ہے اور اس نے عبدالقادر جیلانی پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے شاید وہ آپ کے لئۓ مفید ہو کیونکہ میں تاریخ کا اکسپرٹ نہیں ہوں ۔

ہم لوگوں نے وہاں کچھ ٹھنڈا پیا اتنے میں وہ ڈاکٹر بھی آگیا ۔میرا دوست اس کے احترام میں کھڑا ہوگیا ۔اور اس کو سلام کرکے مجھے اس کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا : ان کو کچھ عبدالقادر جیلانی کےبارے میں بتائیے اور ہم سے اجازت لے کر کسی کام سے چلا گیا ۔ڈاکٹر نے میرے لئے ٹھنڈا منگوایا اور مجھ سے میرے  نام ،شہر ،پیشہ ،وغیرہ کے بارے میں پوچھنے لگا ۔اسی طرح اس نے مجھ سے کہا ٹیونس میں عبدالقادر جیلانی کے بارے میں جو چیزیں مشہور ہیں ۔مجھے بھی ان کےبارے بتائیے۔

میں نے اس سلسلہ میں ڈاکٹر سےبہت سارے واقعات بتائے ۔یہاں تک کہ میں نے بتایا ہماری طرف مشہور ہے شب معراج جب جبرائیل آگے بڑھنے سے ڈرگئے کہ کہیں جل نہ جاؤں توجناب عبدالقادر نے رسول خدا کو اپنے کندھے پرسوار کر لیا ۔ اور رسول اللہ نے فرمایا : میرے قدم تیر گردن پر اور تیرے قدم قیامت تک اولیاء کی گردنوں پر ہوں گے ۔

ڈاکٹر میرا کلام سن کر بہت ہنسا ۔اب مجھے یہ نہیں معلوم ان حکایات کو سنکر ہنسا یا اس ٹیونسی استاد پر ہنسا جو اس کے سامنے بیٹھا تھا ۔ اولیاء اور صالحین کے بارے میں تھوڑی دیر مناقشہ کرنے کے بعد ڈاکٹر بولا:- میں نے سات سات تک تحقیق وجستجو کی اور اس درمیان میں متعدد ممالک کا سفر کیا ۔مثلا پاکستان ، ترکی ، مصر ، بریطانیہ ،اور تمام ان مقامات پر گیا ۔ جہاں ایسے محفوظات تھے عبدالقادر جیلانی کی طرف منسوب تھے ۔ان محفوظات کو دیکھا ان کی تصویریں  حاصل کیں ۔ لیکن کہیں سے یہ بات نہیں ثابت ہوتا کہ عبدالقادر سلالہ رسول سے تھے ۔ زیادہ سے زیادہ ان کے اولاد واحفاد کی جو جو اشعار منسوب ہیں ان میں ایک شخص نے کہا ہے : میرے جد رسول اللہ تھے ۔ اور اس کو رسول کی اس حدیث

۴۱

  پر حمل کیا گیا ہے ۔ کہ آنحضرت نے فرما یا " میں ہر متقی کا جد ہوں ۔ جیسا کہ بعض علماء کا یہی خیال بھی ہے ۔اور جوبات میرے نزدیک ثابت ہے وہ یہ ہے کہ عبدالقادر ایرانی النسل تھے ۔ عرب نہیں تھے ۔ ایران کے ایک شہر جیلان (گیلان) میں پیدا ہوئے تھے ۔ اور اسی لئے جیلانی کہا جاتا ہے پھر یہ بغداد آگئے تھے وہیں تعلیم حاصل کی اور ایسے وقت میں مدرس ہوئے جب اخلاقی برائیاں عروج پرتھیں ۔

جیلانی ایک زاہد قسم کے آدمی تھے لہذا لوگ ان سے محبت کرنے لگے ان کے مرنے کے بعد لوگوں نے " الطریقۃ القادریہ" کی بنیاد رکھی جو انھیں کی طرف منسوب ہے جیسا کہ ہر صوفی کےماننے والے ایسا ہی کرتے ہیں پھر اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ واقعہ ہے کہ عربوں کی حالت اس سلسلہ میں بہت افسوسناک ہے ۔

اس سے میری رگ وہابیت پھڑک اٹھی ۔میں نے ڈاکٹر سے کہا " اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ بھی وہابی الفکر ہیں ۔ آخر وہ لوگ بھی تو یہی کہتے ہیں جو آپ فرمارہے ہیں کہ کوئی ولی وغیرہ نہیں ہے ۔

ڈاکٹر : جن نہیں! میں وہابی نہیں ہوں ۔مسلمانوں میں افسوسناک بیماری یہ ہے کہ یا تو حد افراط پر ہیں ۔ یا حد تفریط پر یاتو وہ ہر اس خرافات تک کو مان لیں گے جس پرنہ کوئی عقلی دلیل ہے نہ نقلی اور یا ہر چیز  کو جھٹلانے پر تل جائیں گے ۔چاہے وہ انبیاء کے معجزات ہی ہوں ۔ بلکہ اپنے نبی کے معجزات اور حدیثوں کا صرف اس لئے انکار بیٹھے ہیں کہ ان کی خواہشات کے مطابق نہیں ہیں یا جو من گھڑت عقیدہ ان کا ہے اس عقیدہ کے خلاف ہے ۔کچھ لوگ مشرق کی کہتے ہیں تو کچھ مغرب کی ۔

 صوفی لوگ  کہتے  ہیں کہ شیخ عبدالقادر کا ایک ہی وقت میں بغداد اور ٹیونس دو نوں جگہ پہونچنا ممکن ہے وہ ایک ہی وقت میں ٹیونس کے مریض کو شفا دےسکتے ہیں اور عین اسی وقت دجلہ سے ڈوبے والے کو نکال سکتے ہیں یہ افراط ہے ۔۔۔وہابی ۔۔۔۔ صوفیوں کے بلکل بر خلاف ۔۔۔ہر چیز کو جھٹلاتے ہیں ۔ انتہا یہ ہے کہ اگر کوئی بنی کو وسیلہ بنائے تو اس کو بھی مشرک کہتے ہیں یہ تفریط ہے ۔ برادر نہ یہ درست ہے ۔نہ وہ ۔بلکہ جیسا کہ خدا نے کہا ہے :

وکذلک جعلنا کم امة وسطا لتکونوا شيهدا علی الناس (پ ۳ س ۲ بقره آیت ۱۴۳)

۴۲

ترجمہ:( اور جس طرح تمہاری قبلہ کے بارے میں ہدایت کی )- اسی طرح تم کو عادل امت بنایا تاکہ لوگوں کے مقابلہ میں تم گواہ بنو۔ اور رسول (محمد) تمہارے مقابلہ میں گواہ بنیں ۔۔۔۔ ہم کو اس طرح ہونا چاہیے ۔ ڈاکٹر کا کلام مجھے بہت پسند آیا میں نے اس کاشکریہ ادا کیا ۔ او رجو کچھ اس نے کہا تھا اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ۔ ڈاکٹر نے اپنا بیگ کھول کر عبدالقادر جیلانی کےبارے میں اپنی لکھی ہوئی ایک کتاب مجھے بطور ہدیہ پیش کی ۔ اور کھانے کی دعوت دی ۔ لیکن میں نے معذرت کرلی ۔پھر ہم لوگ  بیٹھے باتیں کرتے رہے کبھی ٹیونس کےبارے میں کبھی شمال افریقہ کے بارے میں یہاں تک کہ ہمارا دوست واپس آیا اور ہم لوگ رات کو گھر پہونچے ۔پورا دن زیارتوں او ربحث ومباحثہ میں گزار دیا تھا مجھے تھکن کا احساس ہورہا تھا ۔ لہذا لیٹے ہی سوگیا ۔

علی الصباح اٹھ کر نمازپڑھی ۔اور اس کتاب کا مطالعہ شروع کردیا ۔ عبدالقادر کے زندگی سے متعلق تھی ۔ میرا دوست اس وقت اٹھا جب میں آدھی کتاب پڑھ چکا تھا ۔اور وقتا فوقتا تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد نا شتہ کے لئے آتارہا ۔لیکن جب تک میں نے کتاب ختم نہیں کرلی ناشتہ کے لئے نہیں اٹھا اس نے گویا مجھے بانھ دیا تھا اور مجھے شک ہوگیا تھا مگر شک زیادہ تر نہیں رہا ۔عراق سے نکلتے نکلتے شک دور ہوچکا تھا ۔

۴۳

شکوک وسوالات

تین دن تک اپنے دوست کے یہاں  مستقل  آرام  کرتا رہا اریہ ان لوگوں کےبارے سوچتا رہا جن کا میں نے انکشاف کیا تھا گویا یہ لوگ چاند پر رہنے والے تھے (اگر ایسا نہیں تھا تو) ان کے بارے میں لوگوں نے صرف رسواکن اور غلط پروپیگنڈے کیوں کئے تھے ؟ ا ن کی معرفت کے بغیر  ان کو کیوں ناپسند کرتارہا ۔اور کیوں ان کی طرف سے کینہ رکھتا تھا؟ شایدان سب پروپیگنڈوں کا نتیجہ ہو ۔جو مسلسل ان کے خلاف کئے جاتے تھے کہ یہ لوگ علی کی پرستش کرتے ہیں ۔ اور اپنے ائمہ کو خدا کا مرتبہ دتے ہیں اور کہتے ہیں خدا ان کے اماموں میں حلول کئے ہوئے ہے یہ لوگ خدا کے بجائے پتھر (سجدہ گاہ) کو سجدہ کرتے ہیں ۔ یہ لوگ قبر رسول پر صرف اس لئے آتے ہیں ۔ ۔۔۔جیسا کہ میرے باپ حج کی واپسی پر بیان کیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔کہ قبر مطہر پر غلاظت وگندگی ڈالیں اسی لئے سعودیوں نے گرفتار کرکے ان کو قتل کرنے کا حکم دے دیا ۔۔۔اوریہ لوگ ۔۔۔اور یہ لوگ ۔۔۔جو جی چاہے ان کے بارے میں کہے کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔

ذرا سوچیے مسلمان ان چیزوں کو سن کر شیعوں سے کیسے کینہ نہ رکھے گا ۔ اور ان کو کیوں کر دشمن نہ رکھے گا ۔بلکہ ان سے قتال پر کیوں آمادہ نہ ہوگا ۔

لیکن میں (اپنے ان تجربات کے بعد) کیوں کر ان پروپیگنڈوں کا یقین کرلوں ۔میں نے جو کچھ بھی دیکھا ہے یا سنا ہے یہ آنکھوں دیکھا اور اپنے کانوں سنا ہے ۔اب تو ان کے درمیان رہتے ہوئے ایک ہفتہ سے زیادہ ہوگیا ۔میں نے ان کی ہر بات عقل ومنطق کے مطابق پائی ۔ان کی باتیں عقلوں میں اتر جاتی ہیں ۔ بلکہ سچ پوچھئے تو ان کی عبادتیں ،نمازیں ،اخلاق علماء کا احترام مجھے اتنا پسند آیا کہ میں تمنا کرنے لگا کہ کاش میں بھی ان کی طرح کا ہوجاتا ۔ میں خود اپنے سے پوچھتاہوں کیا یہ لوگ واقعی رسول اکرم

۴۴

کوناپسند کرتے ہیں ؟ میں جب بھی حضور کا نام لیتا ہوں ۔۔۔۔۔اور زیادہ تر ان لوگوں کا امتحان لینے کے لئے ایسا کرتا ہوں۔۔۔۔۔تو یہ لوگ دل وجان اور پورے خلوص کے ساتھ زور سے کہتے ہیں ۔"اللهم صلی علی محمد وآل محمد " پہلے میں یہ بھی سوچتا تھا کہ کہیں یہ لوگ منافقت نہ برتتے ہوں ۔لیکن جب میں نے ان کی کتابوں کو پڑھا توپتہ چلا کہ یہ لوگ شخصیت رسول (ص) کی اس قدر احترام ،تقدس، تزیہ کرے قائل ہیں جس کا عشر عشیر ہماری کتابوں میں نہیں ہے تومیری ساری بد گمانی دور ہوگئی ۔ یہ لوگ تورسول اکرم کو قبل از بعثت بھی اور بعد از بعثت بھی معصوم مانتے ہیں اور ہم اہلسنت والجماعت صرف تبلیغ قرآن کے سلسلہ میں معصوم مانتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کواپنا جیسا خطا کار انسان مانتے ہیں بلکہ ہم تو آنحضرت کو خطاکار اوربعض صحابہ کو خطا سے مبرا سمجھتے ہیں ہمارے پاس اس کی بہت سی مثالیں ہیں حالانکہ شیعہ حضرات کسی بھی قیمت پر رسول کی غلطی اور دوسروں کی تصویب کو تسلیم ہی نہیں کرتے پھر ان تمام باتوں کے باوجود میں کیسے مان لوں کہ شیعہ رسول (ص) کو ناپسند کرتے ہیں ؟

یہ کیسے ممکن ہے ایک دن میں نے اپنے دوست سے درج ذیل گفتگو کی اور اس کو قسم دلادی کہ بالکل صاف صاف بات کرو گفتگو یہ تھی ۔

میں :- " کیا آپ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ وکرم اللہ وجہہ کو نبی مانتے ہیں ؟ کیونکہ آپ لوگوں میں سے جو بھی ان کا تذکرہ کرتا ہے"علیه السلام " ضرور لگا دیتا ہے "۔

دوست:-" نہیں نہیں ! ہم لوگ جب امیر المومنین یا کسی امام کا تذکرہ کرتے ہیں تو علھم السلام کہتے ہیں ۔لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہے کہ وہ حضرات انبیاء ہیں ۔ یہ حضرات ذریت رسول کااور آنحضرت کی عترت ہیں ۔ جن پر خدانے قرآن میں صلواۃ  وسلام بھیجنے کا حکم دیا ہے ۔اس لئے ہم لوگ" علیهم الصلاة والسلام " بھی کہتے ہیں "۔

میں :- "برادر ہم لوگ صرف رسول اللہ اورآپ سے پہلے والے انبیاء پر صلاۃ وسلام کے قائل ہیں اس میں حضرت علی اور ان کی اولاد رضی اللہ عنھم کا کوئی دخل نہیں ہے "۔

۴۵

میں :-" میں آپ سے خواہش کرتاہوں کہ آپ مزید مطالعہ کیجئے تاکہ حقیقت واضح ہوجائے ۔"

میں :-"میرے دوست میں کون سی کتاب پڑھوں ؟ کیا آپ نے مجھ سے نہیں فرمایا تھا کہ احمد امین کی کتابیں شیعوں پر حجت نہیں ہیں ۔ تو پھر اسی طرح شیعوں کی کتابیں ہمارے لئے حجت نہیں ہیں ۔ اورنہ ہم ان پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ کیاآپ نے نہیں کہا تھا ، عیسائیوں کی طرح جو کتابیں معتمد ہیں ۔ان میں حضرت عیسی کا قول تحریر ہے کہ :" میں خدا کا بیٹا ہوں "جب کہ قرآن کہتا ہے ۔۔۔اور قرآن اصدق القائلین ہے ۔۔۔حضرت عیسی کی زبانی نقل کرتے ہوئے : میں نے تو ان سے صرف وہی کہا تھا جس کا تو نے حکم دیا تھا کہ اس خدا کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا (سب ہی کا) رب ہے ۔

دوست :- جی ہاں ! میں نے کہا تھا اور آپ سے بھی جس کا مطالبہ کرتاہوں وہ یہی ہے کہ آپ عقل منطق کو استعمال کریں اورقرآن کریم اور سنت صحیحہ سے استدلال کریں جب گفتگو کسی مسلمان سےہو ۔لیکن اگر گفتگو کسی یہودی یا عیسائی سے ہو تو استدلال قرآن سے نہیں کیا جائے گا ۔

میں :-" میں کس کتاب سے حقیقت کا پتہ لگاؤں کیوں کہ ہر مؤلف ،ہر فرقہ ،ہر مذہب کا دعوی ہے کہ وہی حق پر ہے باقی سب باطل پر ہیں ۔"

دوست:-" میں بہت ہی بدیہی وحسی دلیل پیش کرتا ہوں ، مسلمان اختلاف مذاہب وتشتت فرق کے باوجود اس دلیل پر متفق ہیں مگر آپ نہیں جانتے یہ تعجب ہے ۔آپ دعا کیجئے :ربّ زدنی علما "اچھا یہ بتائیے کیا آپ نے یہ آیت پڑھی ہے ؟"

"ان الله وملائکته یصلون علی النبی یا ایها الذین آمنوا صلو اعلیه وسلموا تسلیما (پ ۲۲ س ۳۳ (احزاب) آیت ۵۶)

اسمیں شک نہیں کہ خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر (اور ان کی آل ) پر دوردو بھیجتے ہیں ۔ تو اے ایماندارو! تم بھی درود بھیجتے رہو اور برابر سلام کرتے رہو :۔۔۔۔۔۔ کی تفسیر پڑھی ہے ؟

۴۶

شیعہ وسنی تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اصحاب کرام رسول اللہ کے پاس آکر بولے : ہم کو معلوم ہوگیا کہ آپ پر کیوں سلام بھیجیں ؟ لیکن یہ نہیں معلوم کیونکر درود بھیجیں تو آنحضرت نے فرمایا اس طرح کہو:

"اللهم صل علی محمد وآل محمد کمام صلیت علی ابراهیم وآل ابراهیم فی العالمین انک حمید مجید "

اور دیکھ میرے اوپر کھبی دم بریرہ درود نہ بھیجنا ! اصحاب نے پوچھا سرکار یہ دم کٹی درود کیا ہے ؟ فرمایا :اللھم صلی علی محمد " کہہ کر چپ ہوجانا (سنو) خدا کامل ہے کامل ہی کو قبول کرتا ہے ان تمام اسباب کی وجہ سے صحابہ اور تابعین سب نے رسول خدا کے حکم کو پہچان لیا اور وہ سب مکمل درود بھیجا کرتے تھے اسی لئے امام شافعی نے اہل بیت کے لئے فرمایا ہے

یا آل بیت رسول الله حبکم + فرض من الله فی القرآن انزله

کفاکم من عظیم القدر انکم+ من لم یصل علیکم لا صلاة له

اے اہل بیت رسول تمہاری محبت تواس قرآن میں واجب کی گئی ہے جس کو خدا نے نازل فرمایا ہے ۔تمہاری جلالت قدر کے لئے یہی بات کافی ہے کہ جو تم پر (نماز میں )درود نہ بھیجے اس کی نماز ،نماز ہی نہیں ہے ۔

میرے دوست کا کلام میرے کانوں میں رس  گھول رہا تھا اوردل میں اتر تا جارہا تھا اور میرا نفس اس کو قبول کرنے پر آمادہ تھا ۔سابقا میں نے یہ بات کسی کتاب میں پڑھی تھی ۔مگر اس وقت زور دینے کے باوجود کتاب کانام یا د نہیں آرہا تھا میں نے اتنا مان لیا کہ ہم لوگ بھی جب رسول پر درود بھیجتے  ہیں تو آل واصحاب سب ہی پر بھیجتے ہیں ۔ لیکن شیعوں کی طرح صرف حضرت علی کے ذکر پر علیہ السلام نہیں کہتے میرے دوست نے مجھ سے پوچھا ۔بخاری کےبارے میں کیاخیال ہے" ؟ وہ سنی تھے یا شیعہ ؟

میں :- اہل سنت والجماعت کےبڑے جلیل القدر امام تھے ۔خدا کی کتاب کے بعد ان کی کتاب تمام کتابوں سے زیادہ صحیح ہے ۔میرے اتنا کہنے پرمیرا دوست اٹھا اور اپنی لائبریری سے صحیح بخاری نکال

۴۷

لایا  ۔اور بخاری کھول کر جس صفحہ کو تلاش کر رہا تھا ۔ تلاش کرکے مجھے دیا اور کہا پڑھو ! میں نے پڑھنا شروع کیا : مجھ سےفلان بن فلان نے بیان کیا اور اس سے علی نے الخ میری آنکھوں کو یقین نہیں آرہا تھا اور اتنا تعجب ہوا کہ مجھے شبہ ہونے لگا یہ واقعی صحیح بخاری نہیں ہے؟ میں بے چینی کے ساتھ صفحہ اور کور کو دیکھنے لگا جب میرے دوست کو احساس ہو ا کہ مجھے شک ہے تو اس نے مجھ سے کتاب لے کر کیا دوسرا صفحہ نکال کر دیا ۔ اس میں تھا کہ مجھ سے علی ابن الحسین (علیھما السلام )نے بیان کیا ۔ اس کو دیکھنے کے بعد میں نے کہا سبحان اللہ ! میرا دوست (شاید میرے اس جملہ سے قانع ہو کر مجھے تنہا چھوڑ کرچلا گیا ۔اور میں سوچنے لگا ۔ بار بار ان صفحات کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا اورپڑھتا رہا اور یہ تلاش کرتارہا کہ یہ کتاب کہاں چھپی ہے ؟ دیکھا تو مصر کی شرکۃ الحلبی واولادہ کی مطبوعہ ہے اور وہیں سے نشر کی گئی ہے ۔

خدایا ! میں کب تک مکابرہ کروں ۔کب تک دشمنی کروں اس نے تو ہماری کتاب بخاری سے حسی دلیل پیش کردی اور امام بخاری قطعا شیعہ نہیں تھے ۔یہ تو سنیوں کے امام اور بہت بڑے محدث تھے کیا میں حقیقت تسلیم کرلوں یعنی ان کی طرح علی علیہ السلام کہنے لگوں لیکن مجھے ڈر لگتا ہے کہیں اس حقیقت کے ماننے پر کئی اور حقیقتوں کو نہ ماننا پڑے ۔مجھے اس حقیقت کا اعتراف پسند نہیں ہے ۔میں اپنے دوست سے دومرتبہ شکست کھا چکا ہوں ۔ایک تو عبد لقادر جیلانی کی قداست  کوچھوڑ کر مجھے اعتراف کرنا پڑھا تھا کہ (امام موسی الکاظم) ان سے اولی ہیں ۔ اور یہ بھی تسلیم کرلیا تھا کہ علی کے ساتھ علیہ السلام جائز ہے ۔ لیکن اس مرتبہ شکست نہیں کھاناچاہتا ۔ارے میں وہی تو ہوں جو کچھ دنوں پہلے مصر میں مانا ہوا عالم تھا اپنے اوپر فخر کرتا تھا ،ازہر شریف کے علماء میری تعریف کرتے تھکتے نہیں تھے ۔ اور آج میں اپنے کو مغلوب ،شکست خوردہ محسوس کررہا ہوں ۔ وہ بھی کن لوگوں کے سامنے !جن کو ہمیشہ غلطی پر سمجھا کرتا تھا ۔ میں لفظ "شیعہ" کو گالی سمجھتا تھاے ۔

(درحقیقت )یہ تکبر در حب ذات ہے ،یہ انانیت ،عصبیت ،لجوج پن ہے ۔ خداوندا! مجھے رشد کا الہام کردے ! میری (حقیقت کے قبول کرنے پر) مدد فرما چاہے وہ تلخ ہو ! پروردگارا ! میر ی بصارت وبصیرت کو کھول دے ،صراط مستقیم تک میری ہدایت فرما ، مجھے ان لوگوں میں سے قراردے جو باتوں

۴۸

کو سن کر اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں ۔خدایا! مجھے حق دکھادے مجھے حق کی پیروی کی توفیق مرحمت کردے ۔میری نظر میں باطل کو باطل قراردیدے مجھے اس سے بچنے کی توفیقات عطافرما ۔

میرا دوست جب گھر واپس آیاتو میں اپنے دعائیہ کلمات کی تکرار کررہا تھا ۔اس نے مسکرا تے ہوے کہا : خدا ہم کو ،تم کو ، تمام مسلمانوں   ہدایت دے وارخدا نے کہا ہے : جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتا ہے ہم ان کو اپنے راستہ کی ضرورہدایت کرتےہیں اور خدا تو احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے " اس آیت میں جہاد سے مراد حقیقت تک پہونچنے کے لئے علمی بحث ومباحثہ کرنا ہے ۔جو شخص حق کا متلاشی ہوتا ہے خدا اس کو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے ۔

۴۹

نحف کا سفر

 ایک رات میرے دوست نے مجھے بتایا کال انشااللہ نجف چلیں گے ۔میں نے پوچھا نجف کیا ہے ؟ اس نے کہا وہاں حوزہ علمیہ ہے اور امام علی ابن ابیطالب کا مرقد (مطہر ) ہے مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا کہ حضرت علی کی قبر مشہور کیسے ہوئے ؟ کیونکہ ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ سیدنا علی کی قبر معروف کا کہیں وجود نہیں ہے ۔

ہم لوگ ایک عمومی گاڑی پر سوار ہو کر کوفہ پہونچے وہاں ہم اتر گئے ۔مسجد کوفہ جو ایک اسلامی آثار قدیمہ میں سے ہے اس کی زیات کی ۔میرا دوست تاریخی چیزوں کو دکھاتا رہا ہے ۔مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کی زیارت کرائی ۔اورمختصرا ان کی شہادت کا ذکر کیا ۔اور مجھے اس محراب میں بھی لے کیا جس میں حضرت علی (علیہ السلام) کو شہید کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد ہم نے امام علی (علیہ السلام) کا وہ مکان بھی دیکھا ۔جس میں آپ اپنے دونوں بیٹوں سیدنا حسن وسیدنا حسین (علیھما السلام) کےساتھ رہا کرتے تھے ۔ اس مکان میں ایک کنواں بھی ہے جس کے پانی سے یہ لوگ وضو بھی کرتے تھے اور اسی کے پانی کو پیتے تھے ۔ میں نے وہاں ایسی روحانیت محسوس کی کہ اتنی دیر کے لئے دنیا ومافیھا کو فراموش کربیٹھا ۔اور میں امام علی (علیہ السلام) کے زہد میں ڈو ب گیا کہ آپ امیرالمومنین اور چوتھے خلیفہ راشد ہو کر بھی ایسی معمولی زندگی بسر کرتے تھے ۔

یہ بات لائق توجہ ہے ہ وہاں کے لوگ بڑے بامروت ومتواضع ہیں ۔ہم لوگ جدھر سے گزر جاتے تھے لوگ احتراما کھڑے ہوجاتے تھے ۔ اور ہم کو سلام کرتے تھے میرا دوست ان میں اکثر کو پہچانتا بھی تھا ۔ معہد کوفہ کے مدیر نے ہماری دعوت کی وہاں ہماری ملاقات اس

۵۰

کے بچوں سے ہوئی اور وہ رات اسی کے پاس ہم لوگوں نے بڑی راحت وارام سے بسر کی مجھے تویہ محسوس ہورہا تھا۔ جیسے اپنے قبیلہ وخاندان میں ہوں ۔ وہ لوگ اہل سنت والجماعت کا ذکر کرتے تو کہتے :ہمارے سنی بھائی ! ہم ان کی گفتگو سے جب مانوس ہوگئے تو ہم نے بطور امتحان بعض سوالات بھی کئے کہ دیکھیں یہ لوگ کہاں تک سچے ہیں ؟

 اس کے بعد ہم نجف کے لئے روانہ ہوگئے جو کوفہ سے دس کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے وہاں پہونچتے ہی مجھے بغداد کی مسجد الکاظمیہ  کی یاد تازہ ہوگئی کہ سنہری منارے جن کے بیچ میں خالص سونے کا گنبد تھا ۔شیعہ زائرین کی حسب عادت ہم نے بھی اذن دخول پڑھ کر حرم امام علی میں قدم رکھا ۔یہاں مجھے (حضرت امام)موسی الکاظم کی مسجد جامع سے زیادہ تعجب خیز چیزیں دکھائی دی ۔ اپنی عادت کے مطابق میں نے فاتحہ پڑھی لیکن یہ شک بہر حال رہا ۔ کہ آیا اس قبر میں الامام علی (ع) کا جسم ہے ؟ میں نے اپنے کو قانع کرنا چاہا ۔لیکن کہاں کوفہ کا وہ سادہ سا مکان  جس میں امام رہتے تھے اور کہاں یہ ! میں نے اپنے دل میں کہا حاشا وکلا جب کہ پوری دنیا کے مسلمان فاقوں سے مررہے ہوں تو کیا علی (ع) اس سونے چاندی پر راضی ہوسکتے ہیں ؟ خصوصا جب کہ راستہ میں فقرا ہاتھ پھیلائے گزرنے والوں سے بھیک مانگ رہے تھے ۔میری زبان حال کہہ رہی تھی ۔ اے شیعو! تم غلطی پر ہو کم از کم اس غلطی کا تو اعتراف کر ہی لو رسول اکرم نے حضرت علی کو تمام قبروں کو برابر کرنے کے لئے بھیجا تھا ۔پھر آخر یہ سونے وچاندی سے لدی ہوئی قبریں ! اگر یہ شرک باللہ نہ بھی ہوں تو کم ازکم ایسی فاش غلطی ضرور ہے جس کو اسلام معاف نہیں کرسکتا ۔

میرے دوست نے ایک خشک مٹی کر ٹکڑے (سجدہ گا ہ) کی طرف ہاتھ بڑھا تے ہوئے مجھ سے پوچھا کیا تم بھی نماز پڑھناچاہتے ہو؟ میں نے تیزی سے جواب دیا۔ہم لوگ قبور کے ارد گرد نماز نہیں پڑھا کرتے  دوست نے کہا اچھا تو پھر اتنی دیر انتظار کرو کہ میں دورکعت نماز پڑھ کر آجاؤں ۔اس کے انتظار میں ضریح پر جوچیزیں ٹنگی ہوئی تھیں ان کو پڑھنے لگا اور سنہری جالیوں کے بیچ س اندر کی چیزوں کو دیکھنے لگا ۔ جس کے اندر دنیا کے سکوں کے ڈھیر پڑھے ہوئے تھے

۵۱

درہم ،ریال ،دینا ر لیرہ سب ہی کچھ یہ وہ تدرائے تھے ۔جو زائرین ضریح کے اندر ڈال دیا کرتے تھے تاکہ روضہ کے متعلق جو امور خیر انجام دئیے جائیں ۔ ان میں یہ بھی شریک ہوجائیں ۔وہ سکے اتنے زیادہ تھے کہ میرا خیال ہے مہینوں میں جمع ہوئے ہونگے لیکن میرے دوست نے مجھے بتایا  کہ ذمہ دار حضرات روزانہ نماز عشاء کے بعدان سکوں کو نکال لیتے ہیں یہ صرف ایک دن میں ڈالے گئے سکے ہیں ۔

 میں اپنے دوست کے پیچھے پیچھے مدہوش ہوکر نکلا گویا میری تمنا یہ رہی ہو کہ کاش اس میں تھوڑا سا مجھے بھی مل جاتا ۔ یا فقراء ومساکین پر تقسیم کردیا جاتا ۔ کیونکہ فقراء ومساکین کی تعداد بھی الی ماشااللہ تھی ۔روضہ کے چاروں طرف جو دیوار کھینچی ہوئی ہے ۔ روضہ سے نکل کر میں ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔ کہیں پر نمازجماعت ہورہی تھی ۔ اور ایک دو نہیں کئی کئی اور کہیں پر کوئی خطیب تقریر کررہا تھا اور لوگ بیٹھے سن رہے تھے خطیب بڑے اونچے منبر پر تھا ۔ اتنے میں کچھ لوگوں کے رونے کی آوازیں بھی آنے لگیں ۔ کچھ سسک سسک کر رورہے تھے کچھ زورزور سے اور اپنے سینہ پر ہاتھ ماررہے تھے ۔میں نے چاہا کہ اپنے دوست سے پوچھوں  کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ رو رہے ہیں ۔ اور سروسینہ کوٹ رہے ہیں کہ اتنے میں ہمارے قریب ایک جنازہ گزرا بعض لوگوں کو دیکھا و صحن سے پتھرا اکھاڑ رہے ہیں اور اس میں میت کو رکھ رہے ہیں ۔ اس وقت میرا خیان یہ ہوا کہ اس عزیز میت پر یہ لوگ رورہے ہونگے

۵۲

علماء سےملاقات

 میرا دوست حرم کے ایک گوشہ میں بنی ہوئی ایک ایسی مسجد میں لے گیا ۔جہاں پوری مسجد میں سجادہ بچھا ہوا تھا اور اس کے محراب مین بہت ہی جلی اورعمدہ خط سے قرآنی آیات لکھی ہوئی تھیں ۔ میری نظر ان چند بچوں پر جاکر جم گئی جو عمامہ لگائے محراب کے قریب مشغول مباحثہ تھے ، اور ہر ایک کے ہاتھ میں کتاب تھی ۔اس بہترین منظر کو دیکھ کر میں بہت خوش ہوا ۔ میں نے ابھی  تک ایسے شیوخ نہیں دیکھے تھے جن کی عمریں تیرہ ۱۳ سال سے لیکر سولہ ۱۶ تک تھیں ۔ اس لباس نے ان کے جمال وخوبصورتی میں چار چاند لگادیئے تھے ۔ بس یہی معلوم ہوتا تھا کہ یہ چاند کے ٹکڑے ہیں ۔ میرے دوست نے ان سے " السید" کے بارے میں پوچھا ۔انھوں نے بتایا وہ نماز جماعت پڑھانے گئے ہیں ۔ میں نہیں سمجھا کہ جس "السید کے بارے میں میرے دوست نے پوچھا ہے وہ کون ہے؟ البتہ اتنا ضرور سمجھ گیا تھا کہ وہ کوئی عالم دین ہیں ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس سے مراد "السید الخوئی" ہیں جو فی الحال زعیم الحوزۃ العلمیہ " ہیں ۔ شیعوں کے یہاں السید " صرف انھیں کو کہا جاتا ہے ۔جو خاندان رسالت سے ہوں اور السید خواہ عالم ہو یا طالب علم سیاہ عمامہ باندھتا ہے جب کہ دوسرے علماء سفید عمامہ باندھتے ہیں اورالشیخ سے مخاطب کئے جاتے ہیں ۔ وہاں کچھ اور اشراف لوگ ہیں جو عالم تو نہیں ہیں ۔ مگر شریف ہیں وہ لوگ سبز عمامہ باندھتے ہیں ۔

میرے دوست نے مجھ سے کہا کہ ۔آپ یہاں تشریف رکھئے میں ذرا سید سے ملاقات کرلوں ان طلاب نے مجھے مرحبا کہا اور تقریبا نصف دائرہ کی صورت میں بیٹھ گئے ۔ اور میں ان کے چہروں کو دیکھ رہا تھا ۔ اور یہ محسوس کررہا تھا کہ یہ گناہوں سے پاک ہیں ان کی سریت اور ان کا طبع بہت شفاف ہے ۔اتنے میں میرے ذہن میں رسول اکرم کی

۵۳

حدیث یادآگئی ۔ ہر انسان فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔لیکن اس کے ماں باپ اس کو یہودی بنادیتے ہیں یا عیسائی بنادیتے ہیں یا مجوسی بنادیتے ہیں ۔ میں نے اپنے دل میں کہا" یا اس کو شیعہ بنادیتے ہیں ۔

 ان طلاب نے مجھ سے پوچھا آپ کہاں کے رہنےو الے ہیں ۔؟ میں نے کہا ٹیونس کا ! انھوں نے پو چھا کیا آپ کے یہاں بھی حوزات علمیہ ہیں ؟ عرض کیا یونیورسٹیاں اور مدارس ہیں ۔ اس کے بعد تو چاروں طرف سے سوالات کی بوچھار ہونے لگی ۔ اور ہر سوال مرکزی اور مشکل تھا ۔ یمں ان بے چاروں کو کیا بتاتا جن کا عقیدہ یہ ہے کے پورے عالم اسلام میں حوزات علمیہ ہیں ۔ جن میں فقہ واصو الدین والشریعہ اور تفسیر پڑھائی جاتی ہے ۔ان کو یہ نہیں معلوم کہ عالم اسلام میں او رہمارے ملکوں میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مدارس قرآنیہ کے بدلے بچوں کے لئے باغیچے بنوادئیے گئے ہیں جن کی نگرانی نصرانی راہبات کے سپرد ہے اب کیا می ان سے کہہ دیتا کہ آپ لوگ ہمارے بہ نسبت بہت پسماندہ ہیں ؟

ایک نے انھیں میں سے پوچھا ٹیونس میں کون سا مذہب رائج ہے ؟ میں نے کہا مالکی ! میں نے دیکھا کہ بعض ہنسنے لگے ۔ لیکن میں نے کوئی توجہ نہیں کی ان میں نے ایک نے کہا: آپ لوگ مذہب جعفری کو بھی جانتے ہیں ؟ میں نے کہا نہیں یہ کون سانیا نام ہے ؟ نہیں ہم لوگ مذاہب اربعہ ۔۔۔حنفی ،مالکی، شافعی ، حنبلی ۔۔۔۔۔ کے علاوہ کسی اور مذہب کو نہیں جانتے اور جو مذہب ان چاروں کے علاوہ ہوگا وہ یقینا غیراسلامی ہوگا ۔

اس نے ہنستے ہوئے کہا: معاف کیجئے گا مدہب جعفری ہی خالص اسلام ہے ۔کیا آپ نہیں جانتے ابو حنیفہ امام جعفر صادق کے شاگرد تھے ؟ اور اسی سلسلے میں ابو حنیفہ نے کہا" لولا السنتان لهلک النعمان" اگر دوسال (جو امام جعفر صادق کی شاگردی میں گزارے )نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا ۔ میں یہ سن کر خاموش ہوگیا ۔اور کوئی جواب نہیں دیا ۔

۵۴

ان لوگوں نے ایسی بات کہہ دی جس کو میں آج سے پہلے سنا ہی نہ تھا لیکن میں نے خدا کی حمد کی کہ ان کے امام ۔۔۔۔جعفر صادق ۔۔۔امام مالک کے استاد نہیں تھے ۔لہذا میں نے کہا ہم لوگ مالکی ہیں ۔ حنفی نہیں ہیں ۔ اس جوان نے کہا چاروں مذاہب والے بعض نے بعض سے تعلیم حاصل کی ہے ۔احمد بن حنبل امام شافعی سے تحصیل کیا ہے اور امام شافعی نے امام مالک سے ،امام مالک نے امام ابو حنیفہ سے اور امام ابو حنیفہ نے امام جعفر صادق سے سب کچھ اخذ کیا ہے ! اسی طرح سب کے سب جعفربن محمد کے شاگرد ہیں ۔ امام جعفر صادق پہلے آدمی ہیں ۔ جنھوں نے اپنے جد کی مسجد (مسجد النبی ) میں جامعہ اسلامیہ (اسلامی یونیورسٹی) کی بنیاد ڈالی اور چار ہزار سے زیادہ محدث وفقیہ نے آپ سے شرف تلمذ حاصل کیا ۔مجھے اس بچے کے حافظہ پر بہت تعجب ہوا ۔یہ جو باتیں کہہ رہا تھا ۔اس طرح کہہ رہاتھا ۔جیسے ہم لوگ قرآن کے سوروں کو یاد کرکے فرفرسناتے ہیں اور اس وقت تومیری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے بعض تاریخی مصادر کے حوالوں کو جلدوں ابواب وفصول کے ساتھ بیان کرنا شروع کردیا ۔اس نے اس طرح میرے ساتھ گفتگو شروع کردی جیسے کوئی استاد اپنے طالب علم سے کرتا ہے ۔ میں نے اس کے سامنے اپنی کمزوری کا اچھی طر ح احساس کرلیا تھا ۔ اور اس وقت میری تمنا کہ کاش اپنے دوست کے ساتھ میں بھی چلا گیا ہوتا ۔ ان بچوں میں نہ پھنسا ہوتا ان میں سے جس نے بھی فقہ یا تاریخ کے بارے میں جو سوال پوچھا وہ ایسا ہی تھا کہ میں جواب نہیں دے سکا ۔ایک نے پوچھا آئمہ میں سے کس کی تقلید کرتے ہیں؟ میں نے کہا امام مالک کی ! اس نے کہا :آ پ اس میت کی تقلید کیونکر کرتے ہیں جس میں اور آپ میں چودہ صدی کا فاصلہ ہے؟ اگر آپ ان سے اس وقت کے جدید مسائل کےبارے میں پوچھیں تو کیا جواب دے سکیں گے ؟ میں نے تھوڑی دیر سوچا اس کے بعد کہا تمہارے امام جعفر صادق کو مرے ہوئے بھی چودہ سال گزر چکے ہیں آپ لوگ کس کی تقلید کرتے ہیں ؟ تمام بچوں نے فورا جواب دیا : ہم لوگ السید الخوئی کی تقلید کرتے ہیں ۔ وہی اس وقت ہمارے

۵۵

 قائد اور مرجع ہیں ! میں یہ نہ سمجھ پایا کہ الخوئی اعلم ہیں یا (امام) جعفر الصادق (ع)؟

مختصر یہ کہ میں ان بچوں کے ساتھ موضوع بدلنے کی فکر میں تھا ۔ میں ان سے ایسا سوال کرناچاہتا تھا جس سے وہ میرا مسئلہ بھول جائیں ۔ چنانچہ میں نے ان سے نجف کی آبادی کے بارے میں پوچھا اوریہ پوچھا کہ نجف وبغداد میں کتنا فاصلہ ہے؟ کیاآپ لوگوں نے عراق کے علاوہ کوئی اور ملک بھی دیکھا ہے؟ وہ جیسے جواب دیتے تھے میں فورا دوسرا سوال کردیتا تھا میرا مقصد ان کو الجھائے رکھنا تھا تاکہ یہ مجھ سے سوالات نہ کرسکیں ۔کیونکہ میں نے احساس کرلیا تھا ۔کہ میں ان بچوں کے مقابلہ میں کمزور ہوں لیکن ان کے سامنے تو اعتراف کرنہیں سکتا تھا اگر چہ دل میں معترف تھا کیونکہ وہ عزت وبزرگی وعلم جو مصر میں مجھے حاصل ہوا تھا ۔وہ بخاربن کر یہاں اڑگیا ۔خصوصا ان بچوں سے ملنے کے بعد کہنے والے کی اس حکمت کو پہچان گیا جس نے کہا ہے

فقل لمن یدعی فی العلم فلسفة

عرفت شیئا وغابت عنک اشیاء

ترجمہ :-اس شخص سے کہہ دو جو علم میں فلسفہ بگھارتا ہو کہ تم نے ایک ہی چیز کو پہچانا ہے اور بہت سی چیزیں تم سے غائب ہوگئیں ہیں " اور میں نے یہ طے کرلیا ان بچوں کو عقل ازہر کے ان بوڑھوں سے زیادہ ہے جن سے میرا مقابلہ ہوا تھا ۔ اور ان بزرگوں سے بھی زیادہ ہے جن کی معرفت مجھےٹیونس میں حاصل ہوئی تھی۔

اتنے السید الخوئی تشریف لائے اور ان کے ساتھ علماء کی ایک جماعت تھی جن کے چہرے سے ہیبت وقار ظاہر ہورہا تھا ۔ سارے طلاب تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے انھیں کے ساتھ میں بھی کھڑا ہوگیا ۔اور سب آگے بڑھ بڑھ کر السید الخوئی کا ہا تھ چومنے لگے لیکن میں اپنی جگہ پر میخ کی طرح قائم رہا ۔ سید کے بیٹھتے ہی سب بیٹھ گئے ۔ سید خوئی نے ہر ایک کو مخاطب کرکے مساکم اللہ بالخیر کہنا شروع کردیا ۔جس سے وہ کہتے تھے وہ بھی جواب

۵۶

میں یہی کہتا تھا ۔ یہا تک کہ میرا نمبر آیا تو میں نے بھی وہی کہہ دیا ۔اس کےبعد میرے دو ست نے سید خوئی سے آہستہ آہستہ میری طرف اشارہ کرکے کہا ۔ اور مجھ سے کہا آپ سید کے قریب آجائے ۔ سید نے مجھے اپنے داہنی طرف بٹھایا ۔سلام ودعا کے بعد میرے دوست نے مجھ سے کہا ۔ سید سے بتاؤ کہ ٹیونس میں  تم شیعوں کے بارے میں کیا سنتے رہے ہو ؟ میں نے کہا برادر جو قصے کہانیاں وہاں سنتے رہے ہیں ۔ وہی ہمارے لئے کافی ہیں میرے نزدیک سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ میں یہ معلوم کروں کہ شیعہ کیا کہتے ہیں ؟ میں کچھ  سوالات کرنا چاہتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ جوابات بالکل صریح ہوں لیکن میرے دوست نے اصرار کرنا شروع کردیا کہ پہلے آپ سید کوبتا ئیے کہ آپ کا عقیدہ شیعوں کےبارے میں کیا ہے ؟

میں :-"ہمارے نزدیک شیعہ اسلام کے لئے یہودو نصاری سے زیادہ سخت نقصان دہ ہیں ۔ کیونکہ یہود ونصاری خدا کی عبادت کرتے ہیں ۔ جناب موسی کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں  لیکن شیعہ ( جیسا کہ ان کےبارے میں سنا جاتا ہے) علی کی عبادت کرتے ہیں اور انھیں کی تقدیس بیان کرتے ہیں ۔ ہاں شیعوں میں ایک فرقہ جو خدا کی عباد کرتا ہے لیکن وہ بھی حضرت علی کو حضرت رسول کی جگہ جانتے ہیں ۔ پھر میں نے جبرئیل کا قصہ بتایا کہ شیعوں کی بنا پر انھوں نے کتنی بڑی خیانت کی کہ رسالت علی تک پہونچانے کے بجائے محمد کی پہونچا گئے ۔ سید خوئی نے تھوڑی دیر سرجھکا یا اور دیکھتے ہوئے کہا ہو گواہی دیتے ہیں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد (ص) اللہ کے  رسو ل ہیں ۔ خدا ان پر اور ان کے پا ک پاکیزہ آل پر رحمت نازل کرے اور (حضرت) علی اللہ کے ایک بندے ہیں ۔ اس کے بعد دوسرے بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اورمیری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے ۔دیکھو غلط پروپیگنڈے کس طرح لوگوں کو غلط راستہ پر ڈال دیتے ہیں اور یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے میں نے دوسروں سے اس سے بھی زیادہ سنا ہے ۔" لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم" اس کے بعد میری طرف متوجہ ہوئے فرمایا

۵۷

سید : کیا آپ نے قرآن پڑھا ہے ؟

میں :- دس سال کی عمر میں آدھا قرآن حفظ کرلیا تھا ۔

سید :- کیا آپ جانتے ہیں کہ اسلامی فرقے اپنے مذہبی اختلاف کے باوجود کریم پر متفق ہیں ؟ جو قرآن ہمارے پاس موجود ہے ۔ وہی قرآن آپ حضرات کے پاس بھی موجود ہے ۔

میں :- جی ہاں ! اس بات کوجانتا ہوں ۔

سید :- پھر کیا آپ نے خداوندعالم کایہ قول نہیں پڑھا"وما محمد الا رسول قد خلت من قبله الرسل " (پ ۴ س ۳ (آل عمران) آیت ۱۴۴) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تو صرف رسول ہیں (خدا نہیں ہیں ) ان سے پہلے اور بھی بہتر  ے پیغمبر گزرچکے ہیں ۔۔۔ اسی طرح خدا کا یہ قول" محمد رسو ل الله والذین معه اشداء علی الکفار (پ ۲۶ س ۴۸ (فتح) آیت ۲۹) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)خد کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر بڑے سخت ہیں اسی طرح  خدا کای قول  :ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول الله وخاتم النبین (پ ۲۲ س ۲۳(احزاب) آیت ۴۰) ۔(لوگو) محمد تمہارے مردوں میں سے (حقیقتا )کسی کے باپ نہیں ہیں ۔ بلکہ اللہ کے رسول اورآخری نبی ہیں ۔

میں :- جی ہاں ! میں ان آیات کو بخوبی جانتا ہوں ۔

سید:- پھر اس میں علی کو نبوت کا کہاں ذکر ہے ؟جب ہمارا قرآن محمد کو رسول اللہ کہتا ہے توہمارے اوپر یہ الزام کہاں سے لگا دیاگیا ؟ میں خاموش ہوگیا ۔میرے پاس کوئی جواب بھی نہیں تھا ۔سید نے پھر کہنا شروع کیا رہی جبریئل کی خیانت والی بات تو حاشا للہ (واستغفراللہ) یہ تو پہلے الزام سے بھی بد تر ہے ۔کیونکہ خدا نے جب جبرئیل کو آنحضرت کے پاس بھیجا ہے تو محمد کی عمر چالیس سال تھی اورعلی کا بچپنا تھا۔حضرت علی کی عمر چھ سال رہی ہوگی ۔ پس کیا جبرئیل بوڑھے اور بچے میں فرق نہیں کرسکتے تھے ؟

 سید خوئی کی اس منطقی دلیل پر میں کافی دیرخاموش رہا ۔اور ان کی دلیلوں کےبارے میں

۵۸

سرجھکائے ہوئے غور کرتارہا اور اس گفتگو کی چاشنی محسوس کرتارہا ۔جو میرے دل کی گہرائیوں میں اتر گئی تھی ۔ اور جس نے میری آنکھوں سے پردہ اٹھادیا تھا می اپنے دل میں کہہ رہا تھا اس منطق کو کون نہ مانے گا ؟

سید :- سید نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا میں آپ کوبتا نا چاہتا ہوں ۔ تمام اسلامی فرقوں میں صرف اور صرف ایک فرقہ شیعہ ہے جو انبیاء اور ائمہ کی عصمت کا قائل ہے ۔ جب ہمارے آئمہ جو ہماری طرح کے بشر ہیں ۔وہ معصوم ہیں تو  پھر جبرئیل جو ملک مقرب اورخدا نے ان کو روح الامین کہا ہے بھلا وہ کیسے خطا کار ہوسکتے ہیں ؟

میں :- پھر ان پروپگنڈوں کا مدرک کیا ہے ؟

سید :- جو اسلام دشمن عناصر ہیں اور مسلمانوں میں تفرقہ اندازی کرناچاہتے ہیں ایک کو دوسرے سےلڑانا چاہتے ہیں یہ انھیں لوگوں کی کارستانیاں ہیں ۔ ورنہ مسلمان سب آپس میں بھائی بھائی ہیں خواہ سنی ہوں یا شیعہ کیونکہ سب ہی ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں کوئی مشرک نہیں ہے سب کا قرآن ایک ہے نبی ایک ہے قبلہ ایک ہے ۔شیعہ وسنی میں صرف فقہی اختلافات ہیں جیسے خود اہل سنت میں ہیں کہ مالک ابو حنیفہ کے مخالف ہیں اور وہ شافعی کے و ھکذا ۔

میں :- اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ لوگوں کےبارے میں جو باتیں کہی جاتی ہیں وہ محض افتراء ہیں ۔

سید:- آپ الحمداللہ عقلمند ہیں ۔تجربہ کار ہیں ۔ شیعہ شہروں کو دیکھا ہے ۔متوسط طبقوں میں گھومے بھی ہیں ۔ کیا آپ نے اس قسم کے خرافات اپنی آنکھوں سے دیکھی یا کسی شیعہ سے سنی ہیں ؟

میں :- جی نہیں ! نہ میں نے دیکھا ہے نہ سنا ہے میں خدا کی حمد کرتا ہوں کہ اس نے شپ میں استاد منعم سے میری ملاقات کرادی یہی میرے عراق آنے کا سبب بنے ہیں ۔ اور یہاں میں نے بہت سی چیزوں کو پہچانا ہے جن کومیں جانتا بھی نہیں تھا ۔

۵۹

یہ سن کر میرا دوست منعم زور سے ہنسا وار بولا انھیں چیزوں میں سے حضرت علی کی قبر کا وجود بھی ہے ۔ میں نے اشارہ سے روکا اور کہنے لگا ۔میں نے یہاں آکر بہت کچھ سیکھا ۔بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان بچوں سے بھی سیکھا اورمیری تمنا ہے کا ش مجھے مہلت ملتی کہ اس طرح کے حوزہ علمیہ میں میں بھی تعلیم حاصل کرتا ۔

سید :- اھلاوسہلا ! اگر آپ علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو حوزہ آپ کی ذمہ داری لیتا ہے اور میں آپ کا خادم ہوں ۔اس پیش کش کو تمام حاضرین نے پسند کیا ۔خصوصا میرے دوست منعم کا چہرہ تو خوشی کے مارے دمک رہا تھا ۔

میں :- لیکن میں شادی شدہ ہوں بیوی کے علاوہ ودوبچے بھی ہیں ۔

سید :- میں آپ کے تمام لوزمات کا متکفل ہوتاہوں گھر ،تنخواہ اور جس کی بھی ضرورت ہو ۔اہم چیز یہ ہے کہ آپ تعلیم حاصل کریں ۔ میں نے تھوڑی دیرغور کرنے کے بعد اپنے دل میں کہا یہ بات غیر معقول ہے کہ پانچ سال مدرس رہ کر میں پھر طالب علم بنوں اور اتنی جلدی میں فیصلہ کرنا بھی آسان نہیں ہے ۔

میں نے سید خوئی کی اس پیشکش پر ان کا شکریہ ادا کیا ۔اور عرض کیا کہ عمرہ سے واپسی کے بعد اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کروں گا ۔ ۔سردست تومجھے کتابوں کی شدید ضرورت ہے اس پر سید خوئی نے حکم دیا ان کو کتابیں دے دی جائیں اس حکم پر کچھ علماء اٹھے اور کچھ الماریوں کو کھولا اور پلک جھپکتے ہی میرے سامنے  کتابوں کا انبار تھا ۔کچھ نہیں تو ساٹھ ستر دورے رہے ہوں گے ۔ ہر شخص ایک دورہ لے آیا اور سید خوئی نے فرمایا ۔یہ میری طرف سے ہدیہ ہے ! میں نے دیکھاکہ اتنی زیادہ کتابوں کا ہمراہ لے جانا بہت ہی مشکل ہے خصوصا جب کہ میں سعودیہ جارہا ہوں ۔اور سعودی حضرات کیس قسم کی کتاب  اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیتے کہ کہیں ان کے عقائد کے خلاف باتیں لوگوں تک پہونچ جائیں ۔ لیکن میں نے ان کتابوں کے بارےمیں تفریط سے کام لینا چاہا" میں نے تو اپنی زندگی میں ایسی کتابیں نہیں دیکھی تھیں "

۶۰

 لہذا میں نے دوست منعم اور حاضرین سے کہا میرا راستہ کافی طویل ہے ۔دمشق واردن سے ہوتے ہوئے سعودیہ جانا ہے واپسی میں لمبا سفر ہے میں مصر ولیبیا ہوتا ہوا ٹیونس پہونچوں گا  وزن کی زیاد تی کے علاوہ اکثر حکومتیں اپنے ملک میں کتابیں داخل ہونے دیتیں ۔ اس پر سید خوئی نے کہا : آپ اپنا ایڈریس  ہم کو دیتے جائیے ہم آپ کے پتہ پر بھیجوا دیں گے ۔ یہ رائے مجھے بہت پسندآئی ۔چنانچہ میں انے اپنا شخصی کارڈ جس پر ٹیونس کا پتہ تھا ۔ ان کے حوالہ کردیا ۔اور شکریہ ادا کیا ۔جب رخصت ہوکر چلنے کے لئے کھڑا ہوا تو وہ بھی کھڑے ہوگئے اور فرمایا : میں آپ کے لئے سلامتی کی دعاکرتا ہوں ۔ آپ جب میرے جد کی قبر پر پہونچیں تو میرا سلام کہہ دیں ۔ اس جملہ سے تمام حاضرین متاثر ہوگئے اور میں بھی بہت متاثر ہوا ۔میں نے دیکھا ان کی آنکھیں ڈبڈبا آئی ہیں یہ دیکھ کر میں نے کہا ناممکن ہے کہ یہ لوگ غلطی پر ہوں ۔ناممکن ہے کہ یہ جھوٹے ہوں ۔ ان کی ہیبت ، عظمت ،تواضع بتارہی تھی کہ واقعا یہ شریف خاندان سے ہیں ۔ پھر میں بے اختیار ہوکر معانقہ کرنے کے بجائے ان کے ہاتھوں کو چومنے لگا ۔ میرےکھڑے ہوتے ہی سب لوگ کھڑے ہوگئے اور مجھے سلام کرنے لگے ۔وہ بچے جو مجھ سے مجادلہ کررہے تھے ۔ کچھ ان میں سے میرے ساتھ ہوگئے ۔ اور مجھ سے خط وکتابت کے لئے میرا ایڈریس مانگنے لگے جومیں نے دےدیا ۔

سید خوئی کی مجلس میں جو لوگ بیٹھے تھے ان میں سے ایک کی دعوت پر ہم کو پھر کوفہ جانا پڑا اور یہ  صاحب منعم کے دوست ابو شبر تھے ۔ہم ان کے گھر اترے اور چند مثقف (اپٹوڈیٹ) نوجوانوں کے ساتھ ساری رات ہم لوگوں نے باتوں میں کاٹ دی ۔ ان نوجوانوں میں کچھ  سید محمد باقر الصدر کے شاگرد بھی تھے انھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ سید صدر سے بھی ملاقات کریں ۔ اور انھوں نے اطمینان دلایا کہ اگلے دن ہم ملاقات کرادیں گے ۔ میرے دوست منعم کو بھی یہ تجویز بہت پسند آئی ۔لیکن ان کو اس کا بہت افسوس تھا کہ کہ کسی ضروری کا م کی وجہ سے جو بغداد میں درپیش ہے وہ ہمارے ساتھ باقرالصدر کے یہاں نہ جاسکیں گے ۔ آخر کار ہم لوگ اس

۶۱

بات پر متفق ہوگئے کہ جب تک منعم بغداد سے واپس نہ آجائیں ہم سب ان کے انتظار میں تین چار دن ابو شبر ہی کے مکان میں قیام کریں ۔چنانچہ منعم نماز صبح کے بعد روانہ ہوگئے ۔ اور ہم لوگ سونے کے لئے چلے گئے ۔

یہ واقعہ ہے کہ جب طلاب کے ساتھ میں رات بھرجاگا تھا ۔ ان سے کافی استفادہ کیا اور مجھے اس پر کافی تعجب ہوا کہ حوزہ میں آخر کتنے مختلف قسم کے علوم فنون پڑھائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ یہ طلاب علوم اسلامی مثلا فقہ ، شریعت ، توحید ، کے علاوہ اقتصادیات ، علم الاجتماع ،علم سیاست ،تاریخ ،لغات علوم فلک اور نہ جانے کیا کیا پڑھا کرتے تھے ۔

۶۲

سید باقر الصدر سے ملاقات

سید ابو شبر کےساتھ میں سید محمد باقر الصدر ےکے گھر کی طرف روانہ ہوا ۔راستہ میں انھوں نے مجھے مشہور علماء اور تقلید وغیرہ کے بارے میں بتانا شروع کیا ۔جب سید محمد باقر الصدر کے گھر میں داخل ہوئے دیکھا کہ پورا گھر طلاب علوم دین سے بھرا ہوا ہے زیادہ تر ان میں عمامہ پوش نوجوان تھے ۔ سید محمد باقرالصدر ہمارے احترام میں کھڑے ہوگئے اور سلام کیا ۔سبھوں نے مجھے آگے بڑھادیا ۔ سید محمد صدر نے میری بہت خاطر مدارات کی اپنے بغل میں بیٹھنے کی جگہ دی ، ٹیونس الجزائر اور وہاں کے مشہور علماء کےبارےمیں مجھ سے سوالات کرنےلگے جیسے الخضر حسین ، الطاہر بن عاشور وغیرہ وغیرہ ، مجھے ان کی گفتگو بہت پسند آئی ۔ اس ہیبت واحترام کے باوجود ان کے چہرے  سے عیاں تھا اور جس کا اظہار حاضرین سے ہورہا تھا  میں نے اپنے لئے کوئی زحمت نہیں محسوس کی ۔مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے میں ان کو پہلے سے جانتا ہوں ۔ اس جلسہ سے مجھے کافی فائدہ ہوا ۔کیونکہ طلاب کے سوالات اور سید کے جوابات دونوں کو سن رہاتھا اور اس وقت مجھے زندہ علماء کی تقلید کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ ہوا جو بڑی وضاحت کے ساتھ اور ڈائریکٹ تمام اعتراضات کے جوابات دیتے ہیں ۔ اور مجھے یقین ہوگیا کہ شیعہ بھی مسلمان ہی جو صرف خدا کی عبادت کرتے ہیں ۔ اور محمد(ص) کی رسالت کو مانتے ہیں کیونکہ  کبھی کبھی مجھے شک ہوتا تھا اور شیطان میرے دل میں وسوسہ پیدا کرتا تھا کہ میں نے جو کچھ دیکھا ہے کہیں صرف ایک ڈرامہ نہ ہو۔ جس کو یہ لوگ تقیہ کہتے ہیں ۔۔یعنی جوعقیدہ رکھتے ہیں اس کے برخلاف اظہار کرتے ہیں ۔۔۔۔لیکن یہ شک بہت جلد زائل ہوگیا اور وسوسے ختم ہوگئے کیونکہ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ جتنے بھی لوگوں کو میں نے دیکھا اور سنا ہے (اور ان کی تعداد ہزاروں میں ہے) وہ سب کے سب محض

۶۳

ڈرامہ پیش کرتے ہوں ، اورآخر اس ڈرامہ کی ضرورت کیا ہے ؟ میں ایسا کون سا آدمی ہوں ؟ ان کی نظروں میں میری کیا اہمیت کیوں ہونے لگی کہ یہ میری خاطر تقیہ کرنے لگیں ؟ اور پھر ان کی قدیم کتابیں جو صدیوں پہلے لکھی گئی ہیں ۔ یا نئی کتابیں جو مہینوں پہلے چھپ چکی ہیں سب ہی میں وحدانیت خدا اور ثنائے رسالت ہے جیسا کہ ان کتابوں کے مقدموں میں خود میں نے پڑھا تھا ۔ (پھر ان سب کو کیوں کر تقیہ پر محمول کروں ؟) اور اس وقت میں سید باقر الصدر کے مکان میں ہوں جو عراق وخارج عراق میں مشہور ترین مرجع ہیں  جب بھی ان کی زبان پر نام محمد (ص) آتا ہے تمام حاضرین بیک زبان زور سے کہتے ہیں : اللھم صلی علی محمد وآل محمد ۔

جب نماز کا وقت  آیا تو سب لوگ مسجد میں گئے جو سید کر گھر کے پہلو میں تھی ۔ وہاں سید صدر نے نماز ظہرین باجماعت پڑھائی ۔اور مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے میں صحابہ کرام کے درمیان زندگی کیونکہ ظہر وعصر کے بیچ میں ایک نمازی نے ایسی دعا پڑھی کہ میں جھوم اٹھا اس کی آواز میں جادو تھا ۔ دعا ختم ہونے کے بعد سب نے کہا " اللھم صلی علی محمد وآل محمد " پوری دعا میں خدا کی حمد وثنا تھی پھر محمد وآل محمد  کی تعریف ودرود کا ذکر تھا ۔

سید صدر نماز کے بعد محراب میں بیٹھ گئے اور لوگوں نے چپکے چپکے اور زور زور سے مسائل پوچھنے شروع کردیئے وہ چپکے سے پوچھے گئے سوال  کا جواب آہستہ سے اور زور سے پوچھنے گئے سوال کا جواب زور سے دیتے تھے ۔ سائل کو جب جو اب مل جاتا تھا تو سید کا ہاتھ چوم کر چلا جاتا تھا ۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے پاس ایسا جید عالم ہے جو ان کی مشکلات کو حل کرتا ہے اور انھیں جیسی زندگی بسر کرتا ہے ۔

آخر ہم سید صدر کی بزم وصحبت سے واپس آئے اور اسکی یادآج بھی ہمارے دل میں کسک پید اکرتی ہے ۔سید صدر نے ہمارے ساتھ جو عنایت ومہربانی اور میزبانی فرمائی تھی اس نے قبیلہ خاندان کیا مجھے اپنے اہل عیال کو بھلا دیا تھا  مجھے ان کے حسن اخلاق ،تواضع ،عمدہ معاملہ کی وجہ سے یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اگر ایک ماہ ان کے ساتھ رہ گیا تو شیعہ ہوجاؤں گا

۶۴

وہ جب بھی مجھے دیکھتے تھے مسکراتے تھے اور خود ابتدا بہ سلام کرتے تھے ۔ مجھ سے کہتے تھے کسی چیز کی کمی تو نہیں ہے؟ ان چاردنوں میں صرف سونے کے علاوہ ہر وقت ان کے ساتھ رہتا تھا ۔ان سے ملنے والوں اور ہر طرف سے آنے والے علماء کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔ میں نے وہاں سعودیوں کو دیکھا جب کہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ حجاز میں بھی شیعہ ہوں گے ۔ اسی طرح بحرین ،قطر ،امارات ،لبنان ، سوریہ ،ایران ،افغانستان ، ترکی ،افریقہ ہر جگہ کے علماء آتے تھے اور سید بذات خود ان سے گفتگو فرماتے تھے۔ ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے اورجب وہ جاتے تھے تو خوش وخرم ہوکر جاتے تھے میں یہاں ایک واقعہ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ اور اس میں سید کا فیصلہ سنانا چاہتا ہوں اور اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کاذکر ضروری بھی  تاکہ مسلمانوں کو احساس ہو کہ حکم خدا کو کھو کر انھوں نے کتنا بڑا نقصان اٹھایا ہے ۔

سید صدر کے پاس چار آدمی آئے میرا خیال ہے کہ و ہ سب عراقی تھے کیونکہ ان کا لہجہ چغلی کھارہا تھا ۔ ان میں سے ایک نے اپنے جد(دادا) سے مکان بطور میراث حاصل کیا تھا ۔اور اس مکان کو دوسرے کے ہاتھ بیج ڈالا تھا ۔ خریدار بھی موجود تھا ،بیچنے کے ایک سال بعد دو بھائی آئے اور انھوں نے ثابت کیا کہ میت کے شرعی وارث ہم ہیں لہذا مکان ہمارا ہے ۔چاروں سید کے سامنے بیٹھ گئے اور ہر ایک نے اپنے اپنے کاغذات اور دلائل پیش کئے ۔ سید صدر نے سارے کاغذات پڑھنے کے بعد ان سے گفتگو کی اور پھر چند منٹوں میں فیصلہ دے دیا کہ خریدار کو مکان میں حق تصرف ہے اور مکان اسی کا ہے اور بیچنے والے سے کہا تم نے مکان کی جو قیمت لی ہے وہ ان دونوں بھائیوں کو ان کے حصے کے برابر واپس کردو۔ اور پھر سب سید کا ہاتھ چوم کر روانہ ہوگئے اور آپس میں معانقہ کرنے لگے یہ دیکھ کر میں دہشت زدہ ہوگیا ۔مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ۔میں نے ابو شبر سے پوچھا کیا جھگڑا ختم ہوگیا ؟ اس نے کہا " ہاں ! سب نے اپنا حق لے لیا ۔میں نے کہا ۔ سبحان اللہ ! اتنی آسانی سے اتنے مختصر وقت میں

۶۵

اتنا بڑا جھگڑا ختم ہوگیا ۔ ہمارے یہاں تو کم سے کم دس سال لگ جائے اور اس میں کوئی نہ کوئی مرجاتا ۔ اور پھر یہ چکر ان کی نسلوں میں چلتا ۔ اور محکمہ اور وکیلوں کو جو رقم دی جاتی وہ مکان کی قیمت سے زیادہ نہ بھی ہوتی تو اس مدت میں مکان کے برابر رقم ضرور خرچ ہوجاتی ۔اور پھر محکمہ ابتدائی (کچہری ) سے لے کر محکمہ استئناف(ہائی کورٹ) تک اور پھر جزا وسزا تک زمانہ گزر جاتا اور کمر توڑ اخراجات ،رشوتوں ،خستگی و پریشانیوں کے بعد انجام میں آپس میں عداوت ودشمنی قبیلوں میں بغض وعناد پیدا ہوتا ۔ ابو شبر نے بتایا ہمارے یہاں بھی یہی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ہے ! میں نے پوچھا وہ کیسے ؟ انھوں نے کہا اگر لوگوں نے اپنے مقدمات گورنمنٹ کی عدالت میں پیش کردئیے تو پھر ان کا بھی یہی حشر ہوتا ہے ۔ لیکن جولوگ دینی مرجع کی تقلید کرتے ہیں اور اسلامی احکام کی پابندی کرتے ہیں وہ اپنے جھگڑے صرف مراجع کرام کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ وہ حضرات منٹوں میں فیصلہ کردیتے ہیں ۔جیسا کہ تم نے ابھی دیکھا ۔اور عقلمند قوم کے لئے بھلا اللہ سے بہتر کون حکم کرسکتا ہے ؟ سید صدر نے تو ان سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا ۔لیکن اگر یہ حکومتی عدالتوں میں جاتے تو وہ لوگ ان کے سروں کو بھی ننگا کردیتے (یعنی جسم سے کپڑے اتار لیتے ) اس تعبیر ومحاورہ پر مجھے خوب ہنسی آئی کیونکہ یہ محاورہ ہمارے یہاں بھی آج تک بولا جاتا ہے میں نے کہا سبحان اللہ ! میں اب تک اس جھٹلاتا رہا ۔اور اگر میں نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیا ہوتا تو کبھی بھی باور نہ کرتا ۔ابو شبر نے کہا ۔برادر آپ اسکی تکذیب نہ کریں یہ تو بہت معمولی سا واقعہ ہے دوسرے واقعات جو بہت زیادہ الجھے ہوتے ہیں ۔ جن میں خون بہتاہے ایسے واقعات کا یہ مراجع چند گھنٹوں کے اندر فیصلہ کردیا کرتے ہیں ۔ میں نے تعجب سے کہا: اس کا مطلب یہ ہوا کہ عراق میں دومتوازی حکومتیں ہیں ؟ انھوں نے کہا نہیں نہیں حکومت تو صرف ایک ہی ہے لیکن وہ شیعہ حضرات جو مراجع کی تقلید کرتے ہیں ۔ ان کا حکومت سے کوئی واسطہ نہیں ہے کیونکہ اس وقت کی حکومت بعثی ہے اسلامی حکومت نہیں ہے اس لئے شیعہ حضرات یہاں سکونت کی وجہ سے شہری حقوق ،شخصی حقوق ، ٹیکس ،وغیرہ میں حکومت وقت ہی کے پابند ہیں ۔ لہذا اگر کسی غیر شیعہ سے

۶۶

کوئی جھگڑا ہوجائے تویہ بھی مجبورا اپنا معاملہ گورنمنٹ ہی کی عدالتوں میں پیش کرتے ہیں ۔ کیونکہ غیر شیعہ مسلمان عالم دین کو قاضی بنانے پر راضی نہیں ہوتا لیکن اگر دونوں شیعہ ہوں تو پھر مراجع فیصلہ کرتے ہیں جیسے اگر دونوں غیرشیعہ ہوں تو حتما حکومت کے فیصلہ کو مانتے ہیں ۔ ہمارے یہاں دینی مرجع جو حکم دے دے وہ تمام شیعوں پر نافذ ہوگا ۔ اس لئے جن جگھڑوں کا فیصلہ مرجع کرتا ہے وہ اسی وقت ختم ہوجاتے ہیں ۔جبکہ حکومت کے فیصلے مہینوں کیا سالوں طول پکڑجاتے ہیں ۔یہ ایسی بات تھی جو میرے دل سے چپک گئی کہ ان لوگوں میں احکام الہی پر رضا مندی کا شعور ہے اور خدا کے اس قول کا مطلب سمجھ میں آگیا :

"ومن لم یحکم بما انزالله فاولیک  هم الکافرون ومن لم یحکم بما انزالله فاولیک هم الظالمون ومن لم یحکم بما انزالله فااوالیک هم الفاسقون (پ 6 س 5(مائده ) آیت 44،45،47)

ترجمہ :- اور (سمجھ لو) بو شخص خدا  کی نازل کی ہوئی (کتاب) کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں ۔۔۔۔اور جو شخص خدا کی نازل کی ہوئی (کتاب ) کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں ۔ اور جو شخص خدا کی نازل کی ہوئی (کتاب) کے موافق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ بدکار ہیں ۔۔۔۔اسی طرح میرے دل مین ان ظالموں کے لئے نفرت وکینہ پیدا ہوگیا ۔ جو خدا کے مبنی بر انصاف "احکام کے بدلے بشری "مبنی بر ظلم " احکام کو اجرا کرتے ہیں ۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ بڑی بے شرمی وبے حیائی کے ساتھ احکام الہی کامذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں خدائی احکام وحشی وبربری ہیں ۔کیونکہ ان میں اجرائے حدود ہوتا ہے چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے ، زانی کو رجم کردیا جاتا ہے ۔قاتل کو قتل کردیا جاتا ہے ۔ بھلا سوچئے تو یہ اجنبی نظریات کہاں سے آئے ؟ ظاہر ہے یہ سب مغرب کی دین ہے  اور اس دشمنا  ن اسلام کی طرف سے پھیلائے گئے ہیں ۔جن پر اسلامی قوانین کی روسے قتل کا حکم نافذ ہوچکا تھا ۔کیونکہ یہ سب چور ،خائن ،زانی ،مجرم ،قاتل ہیں کاش ان پر احکام الہی نافذ ہوگئے  ہوئے تو آج ہم سکون وچین سے سوتے ۔

۶۷

سید صدر اور میرے درمیان اس دوران مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی اور میں ان سے ہر اس چھوٹی  بڑی  بات کے بارے میں سوال کرتا تھا ۔ جس کو میرے  دوستوں نے شیعوں کے عقائد کے بارے میں مجھ سے بیان کئے تھے اور یہ کہ شیعہ صحابہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں ۔اور اپنے ائمہ کےبارے میں کیا نظریات رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ دیگر وہ چیزیں جو ان کے عقائد کے خلاف تھیں ۔ ان کو نمک مرچ لگا کر مجھ سے بیان کرتے تھے میں نے ایک ایک کرکے سید صدر سے سب کے بارے میں پوچھا ۔

چنانچہ  میں نے ان سے امام علی کےبارے میں پوچھا ۔کہ آپ لوگ آذان میں ان کی ولایت کی گواہی کیوں دیتے ہیں ؟

سید صدر:- حضرت امیر المومنین علی (ع) خدا کے ان بندوں میں تھے جن کو خدا نے منتخب کیا تھا اور ان کو شرف بخشا تھا کہ انبیاء کے بعد مسلسل کار ہائے رسالت کو انجام دیں اور وہی بندے انبیاء کے اوصیاء رہیں ۔ ہر نبی کا ایک وصی تھا اور حضرت علی رسول خدا کے وصی تھے ۔ خدا ورسول کی بیان کردہ فضیلتوں کی بنا پر ہم حضرت علی کو تمام صحابہ پر فضیلت دیتے ہیں ۔اور اس موضوع پر قرآن وحدیث سے نقلی دلیلوں کے ساتھ ہم عقلی دلیلیں بھی رکھتے ہیں اور ان دلیلوں میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ جہاں ہمارے اعتبار سے صحیح ومتواتر ہیں اہل سنت والجماعت کے طریقوں سے بھی صحیح ومتواتر ہیں ۔ہمارے علماء نے اس موضوع پر بہت کتابیں لکھی ہیں اور چونکہ اموی حکومت نے اس حقیقت کو چھپائے اور علی وآل علی سے جنگ کرکے ،ان کو قتل وغارت کرکے ،انتہا یہ ہے کہ مسلمانوں کے منبروں  سے حضرت علی (ع) پر لعنت ۔سب وشتم کراکے اور لوگوں کو اس پر زور وزبردستی سے آمادہ کرکے حضرت علی کانام ونشان مٹا دینا چاہا تھا ۔ اس لئے ان کے شیعہ ان کے ماننے والے والوں نے اذان میں اعلان کرنا شروع کردیا وہ ولی اللہ ہیں اور کسی  بھی مسلمان کے لئے ولی اللہ کو سب وشتم کرناجائز نہیں ہے یہ کام صرف ظالم حکومت کے ارادوں کو ناکام بنانے کے لئے کیاگیا تھا ۔

۶۸

تاکہ عزت خد ا اس کے رسول اور مومنین ہی کے لئے رہے اور تاکہ یہ ایک تاریخی کارنامہ بن جائے جس سے مسلمان نسلا بعد نسل اس بات کا احساس کرتے ہیں کہ علی حق پر تھے اور ان کے دشمن باطل پر تھے ۔

ہمارے فقہا نے شہادت ثالثی (یعنی علی ولی اللہ ) کومستحب کہا ہے نہ کہ واجب کہا ہے ۔ ار نہ اقامت کا جزء کہا ہے ۔ اگر موذن یا اقامت کہنے والا جزء کی نیت سے کہے تو اس کی اذان واقامت باطل ہے اور عبادت و معاملات میں مستحبات توالی مااللہ میں ۔ جن کا شمار بھی ممکن نہیں ہے ۔ اگر کوئی  ان کو بجالاتا ہے تو ثواب ملےگا نہیں بجالاتا ہے تو کوئی عقاب نہیں ہے ۔ مثلا مستحب ہے کہ"اشهد ان لا  اله الا الله وان محمد رسول الله ک ے بعد اشهد ان الجنة حق وان النار حق وان الله یبعث من فی القبور کہے :

میں :- ہمارے علماءنے ہم کو بتایا ہے کہ افضل خلفاء بالتحقیق سیدنا ابو بکر الصدیق ہیں اس کے بعد سیدنا عمر فاروقہ یں ۔اس کے بعد سیدنا عثمان اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنھم اجمعین ہیں ۔؟

سید صدر:- تھوڑی دیر خاموشی رہنے کے بعد بولے :ہر ایک کے منہ میں زبان ہے جس کا جو جی چاہیے کہہ سکتا ہے لیکن ادلہ شرعیہ سے ثابت کرنا مشکل ہے ۔اس کے علاوہ اہل سنت کے معتبر کتابوں میں جو لکھا ہے  یہ قول اس کے صریحی طور سے مخالف ہے کیونکہ ان کی کتابوں میں ہے افضل الناس ابو بکر ہیں اس کے بعد عثمان ان میں حضرت علی کا نام بھی نہیں ہے ان کو تو بازاری لوگوں میں شمار کیا گیا ہے ۔حضرت علی کا نام تو متاخرین علماء نے خلفائے راشدین کے نام کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔

میں:- اس کے بعد میں نے اس سے سجدہ گاہ کےبارے میں پوچھا جس کو یہ حضرات "التربۃ الحسینۃ  کہتے ہیں ۔

سید صدر:- سب سےپہلی بات تو یہ معلوم ہونی چاہئے کہ ہم"مٹی پر سجدہ کرتے ہیں مٹی کو سجد نہیں کرتے

۶۹

جیسا کہ بعض لوگ جو شیعوں کوبدنام کرتے ہیں اس قسم کی شہرت دیتے ہیں ۔سجدہ صرف خداوند عالم ہی کےلئے ہوتا ہے اور شیعہ سنی سب کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ سب سے افضل زمین پر سجدہ کرنا ہے یا جو چیزیں زمین  سے اگتی ہوں ان پر سجدہ کرنا ہے بشرطیکہ کھائی نہ جاتی ہوں ۔ اس کے علاوہ کسی اور چیز پرسجدہ جائز نہیں ہے ۔ رسول اسلام مٹی کا فرش بنالیتے تھے یہ کبھی مٹی اور گھاس پوس  کی سجدہ گاہ بنا لیتے م تھے ۔اور اس پر سجدہ فراتے تھے ۔یہی تعلیم اصحاب کو بھی دی وہ لوگ بھی زمین پر یا سنگریزوں پر سجدہ کرتے تھے ۔ کپڑے کے گوشہ پرسجدہ کرنے سےمنع فرماتے تھے ۔ہمارے یہاں یہ چیزیں بدیہیات میں سے ہے امام زین العابدین  نے اپنے باپ کی قبر سے تھوڑی سی مٹی اٹھالی تھی ۔ اور اسی پرسجدہ کرتے تھے کیونکہ وہ طیب وطاہر مٹی تھی ۔اس پر سید الشہدا کا خون بہاتھا ۔ یہی سیرت آج تک شیعوں میں جاری ہے ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ خاک شفا کرے علاوہ کسی مٹی پرسجدہ جائز ہی نہیں ہے ۔ بلکہ ہم کہتے ہیں ہرپاک مٹی اور پاک پتھر پر سجدہ جائز ہے ۔جیسے چٹائی اور اس سجاد ے پرجائز ہے جو کھجور کی پتیوں سے بنائے گئے ہوں ۔

میں :- سیدنا الحسین (رض) کا ذکر آجانے کی وجہ سے میں نے کہا :- شیعہ کیوں روتے ہیں ؟ اور کیوں منہ پر طمانچہ مارتے ہیں ؟ اور اتنا اپنے کو مارتے ہیں کہ خون بہتے لگتا ہے ۔یہ تو اسلام میں حرام ہے کیونکہ رسول اکرم کا ارشاد ہے :جو منہ پر طمانچہ مارے اور گریباں چاک کرے جاہلیت کے دعوے کرے کوہ ہم میں سے نہیں ہے !

سید صدر:- حدیث تو صحیح ہے لیکن امام حسین (ع) کے ماتم پر منطبق نہیں ہوتی کیونکہ جوخون حسین کا انتقام لینے کا اعلان کرے حسین کے راستہ پر چلے،وہ جاہلیت کا دعوی نہیں کرسکتا اس کے علاوہ شیعہ انسان ہیں ان میں عالم بھی ہیں اور جاہل بھی ہیں ۔ان کے بھی احساسات ہیں ۔ جب امام حسین اور ان کے اہل وعیال ،اصحاب وانصار کے قتل ، ہتک حرمت ، اسیری کا تذکرہ سنتے ہیں تو ان کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں ۔ اس پر وہ لائق اجر ہیں کیونکہ ان کی نیتیں سب فی سبیل اللہ ہیں ۔

۷۰

اور خدا اپنے بندوں کی ان نیتوں پرجزادیتا ہے ۔ خود میں نے چند ہفتے قبل مصری حکومت کی رسمی تقریروں کو جو جمال عبدالناصر کی موت پر نشر کی گئی تھیں ۔سنا ہے اس میں کہا گیا تھا کہ جب جمال عبدالناصر کی موت کی خبر نشر ہوئی ہے تو آٹھ آدمیوں نے خود کشی کرلی تھی ۔ کچھ نے اپنے کو چھت کے اوپر سے گرادیا تھا ۔ کچھ لوگ ریل کے نیچے آکر کٹ گئے تھے ۔ وغیرہ وغیرہ  زخمی اور دیوار ہوجانے والے اس کے علاوہ تھے ۔ اس قسم کے واقعات بہت ہیں ۔ جو صاحبان عواطف( جذباتی حضرات) کو درپیش آتے ہیں ۔ تو جب مسلمان جمال الدین عبدالناصر کی موت پر اپنے کو ہلاک کرسکتے ہیں ۔حالانکہ جمال عبدالناصر کی موت طبعی وفطری تھی ۔  تو کیا ہم شیعوں کویہ حق نہیں ہے کہ ہم اہل سنت کے بارے میں حکم لگائیں کہ وہ امام حسین پر گریہ کرنے کے سلسلے میں غلطی پر ہیں ۔ کیونکہ انھوں نے امام حسین کے عاشور کے مصائب ہی سننے میں زندگی کاٹ دی ہے ۔ اورآج تک مصائب ہی کی زندگی بسرکرتے چلے آرہے ہیں ۔ امام حسین پر تو خود رسول خدا روئے ہیں ۔ اور ان کے رونے پرجبرائیل رونے لگے ہیں تو کیا رسول کو غلط کہا جاسکتا ہے ؟

میں :- شیعہ حضرات اپنے اولیاء کے قبور پر سونے چاندی کے نقش ونگار کیوں بناتے ہیں ۔ جب کہ اسلام نے حرام قرار دیا ہے ؟

سید صدر:-یہ بات شیعوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے اور نہ حرام ہے برادران اہلسنت کی مسجدیں خواہ وہ عراق میں ہوں یا مصرمیں یا ترکی میں میں یا کسی اور اسلامی ملک یمں ہر جگہ ان میں سونے چاندی کے نقش ونگار بنائے جاتے ہیں ۔ اسی طرح مدینہ میں مسجد رسول بھی ہے مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ پر ہر سال ایسا غلاف چڑھاتے ہیں ۔ جس پر سونے سے نقش ونگار اورآیات کندہ ہوتی ہیں اور کروڑوں درہم خرچ ہوتا ہے یہ بات شیعوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے ۔

(این گناہی است کہ در شہر شما نیز کنند)

میں :- سعودی علماء کہتے ہیں ۔قبروں کا مس کرنا صالحین سے دعا کرنا ان سے حصول برکت کرنا

۷۱

یہ سب شرک آپ کی کیا رائے ہے ؟

سید صدر:- اگر قبروں کو اس نیت سے مس کرنا (چومنا) اور صالحین سے یہ سمجھ کر دعا کرنا  کہ یہ نفع وضرر پہونچاتے ہیں تب تو یہ شرک ہے اس میں دورائے نہیں ہیں ۔ مسلمان موحد ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ صرف خدا ہی نفع وضرر پہونچاتا ہے ۔ مسلمان اولیاء یا ائمہ (علیھم السلام )سے دعا اس لئے کرتا ہے کہ یہ حضرات خدا کی بارگاہ میں اس کے لئے وسیلہ بن جائیں ۔ اور یہ شرک نہیں ہے ۔اور اس بات پر تمام مسلمان  چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی رسول خدا کے زمانہ سےآج تک متفق ہیں ۔ سوائے وہابیوں کے یعنی سعودی علماء کے جن کا آپ نے ذکر کیا ۔اور جو اپنے جدید مذہب سے جو اسی صدی کی پیداوار ہے ۔مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت کرتے ہیں ۔ ان لوگوں نے اپنے اعتقادات کے ذریعے سارے مسلمانوں میں فتنہ کا بیچ بودیا اور تمام مسلمانوں کو کافر قراردیدیا ہے ۔ان کا خون مباح قراردیدیا ۔ یہی وہ لوگ ہیں ۔جو بوڑھے جاجیوں کو صرف اس حکم پر اندھا دھند پیٹتے ہیں کہ وہ بیچارے جوش عقیدت میں کہتے ہیں : السلام علیک یا رسول اللہ" آنحضرت کی ضریح مقدس کو چومنے نہیں دیتے ۔ان لوگوں نے ہمارے علماء سے کئی مناظرے بھی کئے لیکن سب میں اپنی ہٹ دھرمی پر باقی رہے ۔

جناب سید شرف الدین ۔۔جو ایک شیعہ عالم تھے ۔۔۔جب عبدالعزیز آل سعود کے زمانہ میں حج سے مشرف ہوئے تو عید الاضحی کی تہنیت کے سلسلہ میں حسب معمول قصر ملک میں جن علماء کو دعوت دی گئی ان میں یہ بھی تھے ۔ جب ان کی باری آئی اور شاہ عبدالعزیز سے مصافحہ کیا تو شاہ کو ایک تحفہ پیش کیا ۔۔۔ وہ تحفہ قرآن تھا جو کھال کے غلاف کے اندر تھا۔۔۔۔۔ بادشاہ نے لے کر فورا احتراما اپنے سرپر رکھا اور چوما ۔ جناب سید شرف الدین نے اسی وقت کہا : اے بادشاہ !آپ اس جلد کو کیون چوم رہے ہیں ؟ اور اس کا کیوں احترام کررہے ہیں یہ تو بکری کی کھال ہے ؟ بادشاہ نے کہا :- میرا ارادہ اس قرآن کا ہے جو اس

۷۲

جلد(کھال) کے اندر ہے میں اس غلاف کی تعظیم نہیں کررہا ہوں ! سید شرف الدین نے فرمایا:احسنت ایها الملک" ہم لوگ بھی جب حجرہ نبوی کی کھڑکی  یا دروازے کو چومتے ہیں تو ہمارا مقصد کھڑکی یا دروازے کا احترام نہیں ہوتا ۔کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ یہ لوہے کا ہے نہ نفع پہونچا سکتا ہے نہ ضرر ! ہم ان لکڑیوں اور اس لوہے کے پیچھے جوذات ہے اس کی یعنی رسول اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی تعظیم کرتے ہیں ۔ جیسے غلاف کے احترام سے آپ کا مقصد قرآن کا احترام ہوتاہے ۔ اتنا کہنا تھا کہ سارے حاضرین نے خوش ہوکر نعرہ تکبیر بلند کی اور سب نے یک زبان ہو کر کہا :تم نے سچ کہا ! بادشاہ اس وقت مجبور ہوگیا اور اس نے حکم دیا کہ تمام حجاج کرام رسو لخدا (ص) کے آثار کو تبرک کے طور پر بوسہ دے سکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ جب اس کے بعد دوسرا بادشاہ آیا تو اس نے پہلے والا طریقہ رائج کردیا ۔

قصہ لوگوں کے مشرک ہوجانے کا نہیں ہے ،قصہ سیاسی ہے جس کابنیادی مقصد مسلمانوں کی مخالفت  ان کو قتل کرنا ہے ۔ تاکہ اس راستہ سے ان کا ملک ان کی سلطنت مضبوط ہوجائے  ان لوگوں نے امت محمدیہ کے ساتھ جوکچھ بھی کیا ہے اس کا سب سے بڑا گواہ تاریخ ہے ۔

میں :- پھر میں نے صوفیت کے بارے میں پوچھا ۔

سید صدر:-نے مختصرا جواب دیا : اس میں کچھ پہلو اچھے ہیں اور کچھ اچھے نہیں ہیں ۔ اچھے پہلو! مثلا تربیت نفس ،نفس کو سخت زندگی کا عادی بنانا لذت دنیا سے کنارہ کشی، عالم ارواح کی طرف بلند پروازی وغیرہ ۔برے پہلو! گوشہ نشینی ،حقیقی زندگی سے فرار ،چند لفظی اعداد کے اندر ذکر خدا کو محدود کر دینا وغیرہ وغیرہ ۔اور اسلام (جیسا کہ سب ہی جانتے ہیں ) اچھے پہلوؤں کو قبول کرتا ہے ۔سلبی چیزوں کو ناپسند کرتا ہے ۔مجھے کہنے دیجئے کہ اسلام کے تمام مبادی اور تعلیمات ایجابی ہیں ۔ سلبی نہیں ہیں !

۷۳

حیرت وشک

اس میں شک نہیں کہ سید محمد باقر الصد ر کے جوابات واضح اور قانع کرنے والے تھے ۔لیکن مجھ جیسا شخص جس نے اپنی عمر کے 25 سال تقدیس واحترام صحابہ کے ماحول میں گزارے ہوں خصوصا جس کے رگ وپے میں ان خلفائے راشدین کی محبت وعظمت سرایت کرچکی ہو جن کی سنت سے تمسک کرنے اور جن کے راستہ پر چلنے کی رسول خدا نے تاکید کردی ہو ۔ اور ان خلفاء میں بھی سرفہرست سیدنا ابو بکر وسیدنا عمرالفاروق ہوں ۔ اس کے دل ودماغ میں سید صدر کی باتیں کیسے اثرانداز ہوتیں ؟ میں نے جب سے عراق کی زمین پر قدم رکھا ہے سیدنا ابو بکر وعمر کانام سننے کے لئے میرے کان ترس گئے ہیں ۔ البتہ  ان کے بدلے ایسے عجیب وغریب نام اور امور سننے میں آتے رہے ہیں ۔ جن سے میں بالکل ہی ناواقف ہوں ۔(مثلا)بارہ اماموں کے نام ۔ اور یہ دعوی کہ امام علی کے لئے رسول اللہ نے مرنے سے پہلے نص کردی تھی ۔(وغیرہ وغیرہ) بھلا میں اس بات کو کیونکر مان سکتا ہوں کہ تمام مسلمان یعنی صحابہ کرام جو رسول اللہ کے بعد خیرالبشر تھے وہ سب  کے سب کیسے امام علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف متفق ہوگئے تھے ۔؟ حالانکہ ہم کو تو گہوارہ ہی سے یہ سیکھا یا جاتا ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنھم امام علی کا احترام کرتے تھے ۔ ان کے حق پہچانتے تے ۔کیونکہ آپ فاطمہ الزہرا (س) کے شوہر حسن وحسین (ع) کے باپ تھے ۔ باب مدینۃ العلم تھے ۔ جیسے کہ خود سیدنا علی علیہ السلام ابو بکر صدیق کے حق کو پہچانتے تھے جو سب سے پہلے مسلمان ،رسول اللہ کے غار کے ساتھی تھے جیسا کہ خود قران نے ذکر کیا ہے ۔رسول خدا نے اپنے مرض الموت میں نماز کی امامت بھی صدیق کے حوالہ کردی تھی ۔ اور فرمایا تھا : میں اگر کسی کو خلیل بناتا  تو وہ ابو بکر ہوتے اور انھیں اسباب کی بنا پر مسلمانوں نے ان کو اپن خلیفہ چن لیا تھا ۔

۷۴

اسی طرح امام علی سیدنا عمر کے حق کو بھی پہچانتے تھے جن کے ذریعہ خدا نے اسلام کو عزت بخشی ۔اور رسول اکرم نے ان کا نام فاروق (حق وباطل میں فرق کرنے والا) رکھا ۔ اسی طرح حضرت امام علی سیدنا عثمان کے حق کو بھی پہچانتے تھے جن سے ملائکہ رحمان حیا کرتے تھے ۔ اور جنھوں نے جیش العسرہ کوسازوسامان سے آراستہ کیا تھا ۔ جن کا نام رسول اللہ نے ذوالنورین رکھا تھا آخر یہ ہمارے شیعہ بھائی ان باتوں سے کیونکر جاہل ہیں ؟ یا پھر یہ لوگ تجاہل عارفانہ  کرتے ہیں اور ان لوگوں کو ایسے عام آدمی خیال کرتے ہیں جن کو خواہشات اور طمع دنیا حق کی پیروی سے باز رکھ سکتی ہے اور یہ لوگ رسول خدا کی وفات کے بعد ان کی نافرمانی کرنے لگتے ہیں ۔حالانکہ یہ وہی لوگ تو ہیں جو رسول کے احکام کی تعمیل میں ایک دوسرے پر سبقت لےجانے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔ عزت اسلام ونصرت حق کی خاطر اپنے آباء اولاد ،خاندان تک کو قتل کردیا کرتے  تھے ۔ انھیں میں ایسے بھی تھے جو رسول کی اطاعت کے لئے اپنے باپ اور بیٹے کو قتل کریتے تھے ۔ناممکن ہے کہ طمع دنیا ( حصول تخت خلافت) ان کو دھوکہ دے سکے اور یہ رسول کے بعد ان کی باتوں کو پس پشت ڈالدیں ۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ نہیں نہیں ناممکن ہے ۔ انھیں تصورات  وخیالات  کی بنا پر میں شیعوں کی ہر بات نہیں مانتا تھا ۔اگر چہ بہت سی باتوں پر میں قانع ہوچکا تھا ۔میں شک وحیرت میں پڑگیا ۔شک تو اس وجہ سے جو علمائے شیعہ نے میری عقل میں ڈال دیا تھا کیونکہ ان کا کلام معقول ومنطقی ہوتا ہے ۔ اور جس حیرت میں میں ڈوب گیا وہ یہ تھی کہ میرے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ صحابہ کرام (رض) کیا اس بد اخلاقی کے درجہ تک گر سکتے ہیں کہ ہماری طرح کے عادی انسان بن جائیں گے کہ نہ تو رسالت ان پر صیقل کرسکے اور نہ ہدایت محمدی ان کو مہذب بنا سکی ؟ اہم بات تو یہ ہے کہ یہی شک وحیرت کمزوری کی ابتدا اور اس بات کے اعتراف کا سبب بن گئی کہ دال میں کالا ضرور ہے جس کی تحقیق حقیقت تک پہونچنے کے لئے ضروری ہے ۔

۷۵

ہمار دوست منعم آگیا تھا اور ہم لوگ عازم کربلا ہوگئے ۔وہاں پر ہم نے سیدنا الحسین کی محنتوں کا اندازہ اس طرح لگا یا جس طرح شیعہ لگاتے ہیں ۔ وہا ں جاکر ہم کو پتہ چلا کہ سیدنا الحسین مرے نہیں ہیں ان کی ضریح کے ارد گررد لوگوں کاہجوم اور پروانوں کی طرح  گرنا ،تڑپ تڑپ کر رونا یہ سب ایسی باتیں تھیں کہ ہم نے اس کا مثل دیکھا ہی نہیں تھا ۔معلوم یہ ہوتا تھا ۔ کہ جیسے حسین ابھی شہید ہوے ہیں ۔ میں نے خطبیبوں کو دیکھا منبروں سے حادثہ کربلا کو نوحہ وزاری کے ساتھ ان طرح بیان کر رہے تھے کہ سننے والا اپنے دل پر قابو رکھ ہی نہیں سکتا تھا ۔ پھوٹ پھوٹ کر رونے پر مجبور تھا ۔ اور پھر میں بھی رونے لگا بے تحاشا رونے لگا ۔ عنان صبر ہاتھوں سے چھوٹ گئی انپے نفس کو آزاد کردیا کہ دل بھر کر رولے ۔ اور جب میں چپ ہو تو مجھے ایسی روحانی راحت ملی ہے کہ جس سے میں اس کے قبل تک نا آشنا تھا ۔گویا پہلے میں حسین کے دشمنوں کی صف میں تھا اور اب دفعۃ ان کے ان اصحاب وانصار میں شامل ہوگیا جو اپنی جان فدا کرنے پر تیار تھے ۔ خطیب حر کا قصہ بیان کررہا تھا۔ یہ بھی پہلے ان فوجی سرداروں میں تھے جو حسین (ع) سے جنگ کے لئے آئے تھے لیکن (عاشورکے دن) میدان جنگ میں شاخ نخل کی طرح کانپ رہے تھے اور جب ان کے کسی ساتھی نے پوچھا ۔کیا تم موت سے ڈر رہے ہو؟ تو حر(رح) نے کہا  نہیں خدا کی قسم نہیں ۔ بلکہ میں اپنے کو جنت ودوزخ کے بیچ میں پارہا ہوں یہ کہہ کر گھوڑے کر ایز لگائی اور حسین(ع) کی خدمت میں پہونچ کر کہنے لگے ۔فرزند رسول کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟۔۔۔۔اتنا سنتے ہی میں زمین پر گر کر بچھاڑ کھانے لگا گویا میں حر ہوں  اور حسین سے کہہ رہا ہوں فرزند رسول(ع) کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ فرزند رسول مجھے معاف کردیجئے ۔خطیب کی آواز بہت اثر انگیز تھی ۔لوگ ڈھاڑھیں مار مار کر رونے لگے ۔ اسی وقت میرا دوست میری چیخ کی آواز سن کر متوجہ ہو ا اور روتاہوا مجھ پر جھک پڑا اور مجھے سینے سے اس طرح چمٹالیا ۔جیسے ماں بچہ کو چمٹا لیتی ہے اور بار بار کہہ رہا تھا یا حسین یا حسین (ع) وہ چند لمحے ایسے تھے جس میں میں حقیقی گریہ کا مطلب میری سمجھ میں آیا ۔ اور میں نے محسوس کیا جیسے میرے آنسوؤں  نے میرے قلب اور اندر سےمیرے پورے جسم کو دھودیا ۔

۷۶

اور رسول کی اس حدیث کا مطلب سمجھا! جو میں جانتا ہوں اگر تم جان لیتے تو بہت کم ہنستے زیادہ تر روتے !

تمام دن میں دل گرفتہ رہا ۔میرے دوست نے بہت ہی تسلی وتشفی دی بعض مرطبات کھانے کو لا کردئیے مگر سب بیکار ۔میری اشتہاء ختم ہوچکی تھی ۔ میں انے اپنے دوست سے کہا ۔ مقتل حسین کا قصہ مجھ کو سناؤ کیونکہ واقعات کربلا کے بارے میں نہ زیادہ نہ کم مجھے کچھ بھی معلوم نہیں تھا صرف اتنا جانتا تھا کہ جب ہمارے بزرگ اس کا ذکر کرتے تھے تو کہتے تھے ۔جن دشمنان اسلام ومنافقین نے سید نا عمر ،سیدنا عثمان کو قتل کیا اور سیدنا علی کو شہید کیا انھیں نے سیدنا (امام ) حسین کو بھی شہید کرڈالا۔اس سے زیادہ ہم کو کچھ بھی نہیں معلوم تھا ۔ بلکہ ہم تو عاشورا کے دن کو ایک اسلامی عید کے عنوان ے مناتے تھے ۔اس دن زکاۃ نکالی جاتی ہے قسم قسم کےکھانے پکائے جاتے ہیں ۔اشتہاء بڑھانے والی غذائیں تیارکی جاتی ہیں ۔ چھوٹے بڑوں کے پاس عیدی مانگنے جاتے ہیں ۔ تاکہ اس عیدی سے کھانے پینے اور کھیلنے کی چیزیں خریدی جاسکیں ۔

یہ صحیح ہے کہ بعض دیہاتوں میں کچھ تقلیدی اور رسمی امور پائے جاتے تھے مثلا وہ (عاشورکو) آگ روشن کرتے تھے ۔اس دن کوئی کام نہیں کرتے تھے ۔نہ شادی بیاہ کی رسم انجام دیتے تھے ۔ نہ خوشی مناتے تھے ۔ لیکن ہم لوگ اس کو"عادت ورسم" کہہ کر ٹال دیا کرتے تھے ۔ ہمارے علماء عاشورا کے فضائل میں اس دن رحمتوں وبرکتوں کے بارے میں حدیثیں سنایا کرتے تھے ۔یہ بھی ایک عجیب بات ہے ۔

یہاں (حرم امام حسین ع) سے ہم لوگ حسین (ع) بھائی (جناب ) عباس کی ضریح کی زیارت کے لئے گئے مجھے تو خیر نہیں معلوم تھا کہ یہ کون ہیں؟ لیکن میرے دوست نے ان کی شجاعت وبہادری کا قصہ سنایا تھا ۔ متعدد وعلماء وافاضل سے بھی ہم نے ملاقات کی مگر مجھے کسی کا نام یاد نہیں ہے ۔ ہاں بعض کے القاب یاد ہیں ۔ جیسے بحرالعلوم السید الحکیم ،کاشف الغطاء ،آل یسین طباطبائی ، فیروز آبادی ،اسد حیدر وغیرہ ۔

۷۷

اور حق یہ ہے کہ  یہ بڑے تقوی والے علماء ہیں ۔ ان کے چہرے پر رعب وجلال ہے ۔ شیعہ ان کا بہت احترام کرتے ہیں ۔اپنے مال کا خمس ا ن کو لاکر دیتے ہیں ۔ اور یہ علماء انھیں رقوم س حوزات علمیہ کی ادارت  کرتے ہیں ۔ مدارس بنواتے ہیں ۔ چھاپہ خانے لگواتے ہیں ،ہر اسلامی ملک سے آنے والے طالب علموں کا خرچ اسی سے دیتے ہیں ، یہ لوگ خود مستقل ہوتے ہیں حکام وقت سے دور یا نزدیک کا کوئی رابطہ نہیں رکھتے یہ ہمارے علماء کی طرح نہیں ہیں کہ جو فتوی تو فتوی گفتگو بھی اس حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں کرتے جو ان کوتنخواہ  دیتی ہے اور جب چاہتی ہے تقرر کرتی ہے ۔اور جب چاہتی ہے معزول کردیتی ہے ۔

میرے لئے تویہ نئی دنیا تھی جس کا (کولمبس کی طرح) میں نے پتہ لگا یا  خدانے میرے لئے انکشاف کردیا تھا ۔ اس دنیا سے نفرت کے بعد میں مانوس ہوچکا تھا ۔ عداوت کے بعد اس سے محبت کرنے لگاتھا ۔ اس دنیا نے مجھے نئے نئے افکار دیئے تھے ۔میرے دل میں اطلاع ۔ بحث ،تلاش ،جستجو کی محبت پیدا کردی تھی ۔تاکہ اپنی گمشدہ حقیقت کو پالوں جس نے میرے خیالات میں اس وقت ہلچل پیدا کردی تھی جب  میں نے یہ حدیث پڑھتی تھی کہ بنی اسرائیل اکہتر 71 فرقوں میں بٹ گئے تھے اور نصاری 72 بہتر میں میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوجائےگی ۔ایک کے علاوہ سب ہی جہنمی ہوں گے ۔

ادیان متعددہ کے بارے میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے کو بر حق اور دوسرے کا باطل پر سمجھتا ہے ۔لیکن جب میں اس حدیث کو پڑھتا ہوں تو متحیر ہوجاتا ہوں ۔ میرا تبحر  صرف حدیث پر نہیں ہے بلکہ ان مسلمانوں پر بھی ہے جو اس حدیث کو پڑھتے ہیں ، اپنے خطبوں میں تکرار کرتے ہیں ہیں اور بغیر کسی تحلیل کے گزر جاتے ہیں اور مدلول حدیث سے بحث ہی نہیں کرتے جس سے فرقہ "ناجیہ" کا پتہ چل سکے ۔

تعجب خیز بات یہ ہے کہ ہر فرقہ دعوی کرتا ہے کہ صرف وہی "فرقہ ناجیہ " ہے حدیث کے آخر میں یہ بھی ہے لوگوں نے پوچھا وہ کون ہیں یا رسول اللہ ؟ فرمایا ! وہ لوگ مراد ہیں جو اسی راستہ پر ہوں گے جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں اب آپ ہی بتا ئیے کیا کوئی ایسا فرقہ ہے جو کتاب وسنت سے متمسک ہو؟

۷۸

یا کوئی ایسا اسلامی فرقہ ہے جو اس کے علاوہ کسی اور چیز کا مدعی ہو؟ اگر امام مالک یا ابو حنیفہ یا امام شافعی یا احمد بن حنبل سے پوچھا جائے تو کیا ان میں سے کوئی قرآن صحیحہ سے تمسک کے علاوہ کچھ اور کہہ سکتا ہے ۔؟

یہ تو سنیو ک فرق ہی اب انہی ک ساتہ اگر شیعہ فرقو کو جن کو می ہمیشہ فاسد العقیدہ اور منحرف سمجہا کرتا تہا   بہی شامل  کرلیا جائ تو یہ حضرات بہی مدعی ہی کہ ہم بہی قرآن اور سنت صحیحہ  س متمسک ہی جو اہل بیت طاہرین س منقول ہ  اور ان کا کہنا ہ گہر وال گہر کی بات زیادہ بہتر جانت ہی تو ایسی صورت می کیا یہ سب ک سب حق پر ہوسکت ہی ؟ ناممکن ہ کیونکہ حدیث شریف صرف ایک کو حق پر بتاتی ہ ہا سب ہی کا حق پر ہونا اس وقت ممکن ہ جب حدیث جعلی وجہوی مان لی جائ اور یہ اس لئ ناممکن ہ کہ حدیث سنی وشیعہ دونو ک یہا متواتر ہ یا یہ مان لیا جائ کہ حدیث کا نہ کوئی مدلول ہ نہ کوئی مطلب ؟ لیکن استغفراللہ جو رسول اپنی طرف س کچہ کہتاہی نہ ہو  جس کی تمام حدیثی حکمت وعبرت ہو وہ کوئی ایسی بات کیونکر کہہ سکتا ہ جس ک مدلول ومعنی ہی نہ ہو  اس لئ ہمار سامن اس بات ک علاوہ کوئی چارہ نہی ہ کہ ہم یہ تسلیم کرلی کہ صرف ایک ہی فرقہ جتنی ہ اور حق پر ہ باقی سب باطل پر ہی یہ حدیث جس طرح حیرت می ال دیتی ہ اسی طرح نجات چاہن وال کو تلاش حق پر مجبور کردیتی ہ یہی وجہ ہ کہ شیعو س ملاقات ک بعد میر اوپر حیرتو کا پہا و پا اور اندرونی طور س می مذبذب ہوگیا ہوسکتا ہ انہی کی بات حق ہو ممکن ہ کہ یہی سچ کہت ہو ؟ لہذا  می خود ہی کیو نہ تحقیق کرالو  تاکہ دودہ کا دودہ پانی پانی جدا ہوجائ اور خود اسلام ن اپن قرآن وسنت ک ذریعہ حکم دیا ہ کہ بحث وفحص ،تفتیش وتحقیق س کام لیا جائ قرآن کا ارشاد ہ ے "والذین جاهدوا فینا لنهدینم سبلنا " (پ 21 س 29 (عنکبوت) آیت آخری)اور جن لوگو ن ہماری راہ می جہاد کیا انہی ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کری گ دوسری جگہ ارشاد ہ : الذین یستمعون القول فیتبعون احسنه اولئک الذین هداهم الله

۷۹

والئک هم اولوالالباب (پ 23 س 39 (الزمر ) آیت 18)

ترجمہ:- جو لوگ بات کو جی لگا کر سنتے ہیں اور پھر ان میں سے اچھی بات پر عمل کرتے ہیں یہی لوگ وہ ہیں ۔جن کی خدا نے ہدایت کی اور یہی عقلمند ہیں ۔۔۔۔ خود رسول اکرم (ص) نے فرماایا :-" اپنے دین کے بارےمیں اس طرح بحث کر کہ لوگ تم کو دیوانہ کہنے لگیں "۔ لہذا بحث و فحص ہر مکلف پر شرعی واجب ہے ۔

اس عہد وپیمان اور سچے ارادے کے ساتھ عراق کےاپنے شیعہ دوستوں سے رخصت ہوا ان سے معانقہ کرکے رخصت ہوتے ہوئے مجھے بہت افسوس ہورہا تھا ۔کیونکہ میں نے بھی ان سے محبت کی تھی ۔اور انھوں نے بھی دل سے مجھے چاہا تھا ۔ میں ایسے عزیز دوستوں کو چھوڑ رہا تھا جنھوں نے میرے ساتھ خلوص کا برتاؤ  کیا میرے لئے اپنے وقت کی قربانی دی کسی اور وجہ سے نہیں "جیسا کہ خود انھوں نے کہا ہم کسی خوف یا لالچ سے ایسا نہیں کررہے ہیں بلکہ صرف رضائے خدا کے لئے! کیونکہ حدیث میں ہے : اگر خدا تیری وجہ سے ایک شخص کو ہدایت کردے تو وہ پوری دنیا سے بہتر ہے ۔"

شیعوں کے وطن اور ان کے ائمہ کے عتبات عالیات کے شہر عراق سے بیس دن قیام کرکے وداع ہورہا تھا ۔ اور یہ بیس دن اس طرح گزرگئے جیسے کوئی لذیذ خواب دیکھنے والے کی تمنا ہوکہ خواب پورا کئے بغیر بیدار نہ ہو ۔ عراق کو مختصر سی مدت کے بعد چھوڑا جس پر افسوس رہا ۔ عراق میں ان قلوب کو چھوڑا جو محبت اہل بیت پر دھڑکتے ہیں ۔اور وہاں سے بیت اللہ الحرام وقبر سیدالاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ الطیبن والطاہرین کی زیارت کے ارادہ سے حجاز کے لئے روانہ ہوگیا ۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253