پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا 0%

پھر میں ہدایت پاگیا مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 253

پھر میں ہدایت پاگیا

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 253
مشاہدے: 75250
ڈاؤنلوڈ: 6962

تبصرے:

پھر میں ہدایت پاگیا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 253 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 75250 / ڈاؤنلوڈ: 6962
سائز سائز سائز
پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بارے میں پوچھا جواب سے مجھے اندازہ ہو کہ وہ کوئی ڈاکٹر ہے جو عنقریب آنے والا ہے اسی اثناء میں میرے دوست نے کہا:" میں آپ کو یہاں پر اس لئے لایا ہوں کہ آپ کا تعارف ایک ڈاکٹر سے کرادوں جو تاریخ کا سب سے بڑا ماہر ہے ۔ اور بغداد یونیورسٹی   میں تاریخ کا پروفیسر ہے اور اس نے عبدالقادر جیلانی پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے شاید وہ آپ کے لئۓ مفید ہو کیونکہ میں تاریخ کا اکسپرٹ نہیں ہوں ۔

ہم لوگوں نے وہاں کچھ ٹھنڈا پیا اتنے میں وہ ڈاکٹر بھی آگیا ۔میرا دوست اس کے احترام میں کھڑا ہوگیا ۔اور اس کو سلام کرکے مجھے اس کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا : ان کو کچھ عبدالقادر جیلانی کےبارے میں بتائیے اور ہم سے اجازت لے کر کسی کام سے چلا گیا ۔ڈاکٹر نے میرے لئے ٹھنڈا منگوایا اور مجھ سے میرے  نام ،شہر ،پیشہ ،وغیرہ کے بارے میں پوچھنے لگا ۔اسی طرح اس نے مجھ سے کہا ٹیونس میں عبدالقادر جیلانی کے بارے میں جو چیزیں مشہور ہیں ۔مجھے بھی ان کےبارے بتائیے۔

میں نے اس سلسلہ میں ڈاکٹر سےبہت سارے واقعات بتائے ۔یہاں تک کہ میں نے بتایا ہماری طرف مشہور ہے شب معراج جب جبرائیل آگے بڑھنے سے ڈرگئے کہ کہیں جل نہ جاؤں توجناب عبدالقادر نے رسول خدا کو اپنے کندھے پرسوار کر لیا ۔ اور رسول اللہ نے فرمایا : میرے قدم تیر گردن پر اور تیرے قدم قیامت تک اولیاء کی گردنوں پر ہوں گے ۔

ڈاکٹر میرا کلام سن کر بہت ہنسا ۔اب مجھے یہ نہیں معلوم ان حکایات کو سنکر ہنسا یا اس ٹیونسی استاد پر ہنسا جو اس کے سامنے بیٹھا تھا ۔ اولیاء اور صالحین کے بارے میں تھوڑی دیر مناقشہ کرنے کے بعد ڈاکٹر بولا:- میں نے سات سات تک تحقیق وجستجو کی اور اس درمیان میں متعدد ممالک کا سفر کیا ۔مثلا پاکستان ، ترکی ، مصر ، بریطانیہ ،اور تمام ان مقامات پر گیا ۔ جہاں ایسے محفوظات تھے عبدالقادر جیلانی کی طرف منسوب تھے ۔ان محفوظات کو دیکھا ان کی تصویریں  حاصل کیں ۔ لیکن کہیں سے یہ بات نہیں ثابت ہوتا کہ عبدالقادر سلالہ رسول سے تھے ۔ زیادہ سے زیادہ ان کے اولاد واحفاد کی جو جو اشعار منسوب ہیں ان میں ایک شخص نے کہا ہے : میرے جد رسول اللہ تھے ۔ اور اس کو رسول کی اس حدیث

۴۱

  پر حمل کیا گیا ہے ۔ کہ آنحضرت نے فرما یا " میں ہر متقی کا جد ہوں ۔ جیسا کہ بعض علماء کا یہی خیال بھی ہے ۔اور جوبات میرے نزدیک ثابت ہے وہ یہ ہے کہ عبدالقادر ایرانی النسل تھے ۔ عرب نہیں تھے ۔ ایران کے ایک شہر جیلان (گیلان) میں پیدا ہوئے تھے ۔ اور اسی لئے جیلانی کہا جاتا ہے پھر یہ بغداد آگئے تھے وہیں تعلیم حاصل کی اور ایسے وقت میں مدرس ہوئے جب اخلاقی برائیاں عروج پرتھیں ۔

جیلانی ایک زاہد قسم کے آدمی تھے لہذا لوگ ان سے محبت کرنے لگے ان کے مرنے کے بعد لوگوں نے " الطریقۃ القادریہ" کی بنیاد رکھی جو انھیں کی طرف منسوب ہے جیسا کہ ہر صوفی کےماننے والے ایسا ہی کرتے ہیں پھر اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ واقعہ ہے کہ عربوں کی حالت اس سلسلہ میں بہت افسوسناک ہے ۔

اس سے میری رگ وہابیت پھڑک اٹھی ۔میں نے ڈاکٹر سے کہا " اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ بھی وہابی الفکر ہیں ۔ آخر وہ لوگ بھی تو یہی کہتے ہیں جو آپ فرمارہے ہیں کہ کوئی ولی وغیرہ نہیں ہے ۔

ڈاکٹر : جن نہیں! میں وہابی نہیں ہوں ۔مسلمانوں میں افسوسناک بیماری یہ ہے کہ یا تو حد افراط پر ہیں ۔ یا حد تفریط پر یاتو وہ ہر اس خرافات تک کو مان لیں گے جس پرنہ کوئی عقلی دلیل ہے نہ نقلی اور یا ہر چیز  کو جھٹلانے پر تل جائیں گے ۔چاہے وہ انبیاء کے معجزات ہی ہوں ۔ بلکہ اپنے نبی کے معجزات اور حدیثوں کا صرف اس لئے انکار بیٹھے ہیں کہ ان کی خواہشات کے مطابق نہیں ہیں یا جو من گھڑت عقیدہ ان کا ہے اس عقیدہ کے خلاف ہے ۔کچھ لوگ مشرق کی کہتے ہیں تو کچھ مغرب کی ۔

 صوفی لوگ  کہتے  ہیں کہ شیخ عبدالقادر کا ایک ہی وقت میں بغداد اور ٹیونس دو نوں جگہ پہونچنا ممکن ہے وہ ایک ہی وقت میں ٹیونس کے مریض کو شفا دےسکتے ہیں اور عین اسی وقت دجلہ سے ڈوبے والے کو نکال سکتے ہیں یہ افراط ہے ۔۔۔وہابی ۔۔۔۔ صوفیوں کے بلکل بر خلاف ۔۔۔ہر چیز کو جھٹلاتے ہیں ۔ انتہا یہ ہے کہ اگر کوئی بنی کو وسیلہ بنائے تو اس کو بھی مشرک کہتے ہیں یہ تفریط ہے ۔ برادر نہ یہ درست ہے ۔نہ وہ ۔بلکہ جیسا کہ خدا نے کہا ہے :

وکذلک جعلنا کم امة وسطا لتکونوا شيهدا علی الناس (پ 3 س 2 بقره آیت 143)

۴۲

ترجمہ:( اور جس طرح تمہاری قبلہ کے بارے میں ہدایت کی )- اسی طرح تم کو عادل امت بنایا تاکہ لوگوں کے مقابلہ میں تم گواہ بنو۔ اور رسول (محمد) تمہارے مقابلہ میں گواہ بنیں ۔۔۔۔ ہم کو اس طرح ہونا چاہیے ۔ ڈاکٹر کا کلام مجھے بہت پسند آیا میں نے اس کاشکریہ ادا کیا ۔ او رجو کچھ اس نے کہا تھا اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ۔ ڈاکٹر نے اپنا بیگ کھول کر عبدالقادر جیلانی کےبارے میں اپنی لکھی ہوئی ایک کتاب مجھے بطور ہدیہ پیش کی ۔ اور کھانے کی دعوت دی ۔ لیکن میں نے معذرت کرلی ۔پھر ہم لوگ  بیٹھے باتیں کرتے رہے کبھی ٹیونس کےبارے میں کبھی شمال افریقہ کے بارے میں یہاں تک کہ ہمارا دوست واپس آیا اور ہم لوگ رات کو گھر پہونچے ۔پورا دن زیارتوں او ربحث ومباحثہ میں گزار دیا تھا مجھے تھکن کا احساس ہورہا تھا ۔ لہذا لیٹے ہی سوگیا ۔

علی الصباح اٹھ کر نمازپڑھی ۔اور اس کتاب کا مطالعہ شروع کردیا ۔ عبدالقادر کے زندگی سے متعلق تھی ۔ میرا دوست اس وقت اٹھا جب میں آدھی کتاب پڑھ چکا تھا ۔اور وقتا فوقتا تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد نا شتہ کے لئے آتارہا ۔لیکن جب تک میں نے کتاب ختم نہیں کرلی ناشتہ کے لئے نہیں اٹھا اس نے گویا مجھے بانھ دیا تھا اور مجھے شک ہوگیا تھا مگر شک زیادہ تر نہیں رہا ۔عراق سے نکلتے نکلتے شک دور ہوچکا تھا ۔

۴۳

شکوک وسوالات

تین دن تک اپنے دوست کے یہاں  مستقل  آرام  کرتا رہا اریہ ان لوگوں کےبارے سوچتا رہا جن کا میں نے انکشاف کیا تھا گویا یہ لوگ چاند پر رہنے والے تھے (اگر ایسا نہیں تھا تو) ان کے بارے میں لوگوں نے صرف رسواکن اور غلط پروپیگنڈے کیوں کئے تھے ؟ ا ن کی معرفت کے بغیر  ان کو کیوں ناپسند کرتارہا ۔اور کیوں ان کی طرف سے کینہ رکھتا تھا؟ شایدان سب پروپیگنڈوں کا نتیجہ ہو ۔جو مسلسل ان کے خلاف کئے جاتے تھے کہ یہ لوگ علی کی پرستش کرتے ہیں ۔ اور اپنے ائمہ کو خدا کا مرتبہ دتے ہیں اور کہتے ہیں خدا ان کے اماموں میں حلول کئے ہوئے ہے یہ لوگ خدا کے بجائے پتھر (سجدہ گاہ) کو سجدہ کرتے ہیں ۔ یہ لوگ قبر رسول پر صرف اس لئے آتے ہیں ۔ ۔۔۔جیسا کہ میرے باپ حج کی واپسی پر بیان کیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔کہ قبر مطہر پر غلاظت وگندگی ڈالیں اسی لئے سعودیوں نے گرفتار کرکے ان کو قتل کرنے کا حکم دے دیا ۔۔۔اوریہ لوگ ۔۔۔اور یہ لوگ ۔۔۔جو جی چاہے ان کے بارے میں کہے کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔

ذرا سوچیے مسلمان ان چیزوں کو سن کر شیعوں سے کیسے کینہ نہ رکھے گا ۔ اور ان کو کیوں کر دشمن نہ رکھے گا ۔بلکہ ان سے قتال پر کیوں آمادہ نہ ہوگا ۔

لیکن میں (اپنے ان تجربات کے بعد) کیوں کر ان پروپیگنڈوں کا یقین کرلوں ۔میں نے جو کچھ بھی دیکھا ہے یا سنا ہے یہ آنکھوں دیکھا اور اپنے کانوں سنا ہے ۔اب تو ان کے درمیان رہتے ہوئے ایک ہفتہ سے زیادہ ہوگیا ۔میں نے ان کی ہر بات عقل ومنطق کے مطابق پائی ۔ان کی باتیں عقلوں میں اتر جاتی ہیں ۔ بلکہ سچ پوچھئے تو ان کی عبادتیں ،نمازیں ،اخلاق علماء کا احترام مجھے اتنا پسند آیا کہ میں تمنا کرنے لگا کہ کاش میں بھی ان کی طرح کا ہوجاتا ۔ میں خود اپنے سے پوچھتاہوں کیا یہ لوگ واقعی رسول اکرم

۴۴

کوناپسند کرتے ہیں ؟ میں جب بھی حضور کا نام لیتا ہوں ۔۔۔۔۔اور زیادہ تر ان لوگوں کا امتحان لینے کے لئے ایسا کرتا ہوں۔۔۔۔۔تو یہ لوگ دل وجان اور پورے خلوص کے ساتھ زور سے کہتے ہیں ۔"اللهم صلی علی محمد وآل محمد " پہلے میں یہ بھی سوچتا تھا کہ کہیں یہ لوگ منافقت نہ برتتے ہوں ۔لیکن جب میں نے ان کی کتابوں کو پڑھا توپتہ چلا کہ یہ لوگ شخصیت رسول (ص) کی اس قدر احترام ،تقدس، تزیہ کرے قائل ہیں جس کا عشر عشیر ہماری کتابوں میں نہیں ہے تومیری ساری بد گمانی دور ہوگئی ۔ یہ لوگ تورسول اکرم کو قبل از بعثت بھی اور بعد از بعثت بھی معصوم مانتے ہیں اور ہم اہلسنت والجماعت صرف تبلیغ قرآن کے سلسلہ میں معصوم مانتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کواپنا جیسا خطا کار انسان مانتے ہیں بلکہ ہم تو آنحضرت کو خطاکار اوربعض صحابہ کو خطا سے مبرا سمجھتے ہیں ہمارے پاس اس کی بہت سی مثالیں ہیں حالانکہ شیعہ حضرات کسی بھی قیمت پر رسول کی غلطی اور دوسروں کی تصویب کو تسلیم ہی نہیں کرتے پھر ان تمام باتوں کے باوجود میں کیسے مان لوں کہ شیعہ رسول (ص) کو ناپسند کرتے ہیں ؟

یہ کیسے ممکن ہے ایک دن میں نے اپنے دوست سے درج ذیل گفتگو کی اور اس کو قسم دلادی کہ بالکل صاف صاف بات کرو گفتگو یہ تھی ۔

میں :- " کیا آپ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ وکرم اللہ وجہہ کو نبی مانتے ہیں ؟ کیونکہ آپ لوگوں میں سے جو بھی ان کا تذکرہ کرتا ہے"علیه السلام " ضرور لگا دیتا ہے "۔

دوست:-" نہیں نہیں ! ہم لوگ جب امیر المومنین یا کسی امام کا تذکرہ کرتے ہیں تو علھم السلام کہتے ہیں ۔لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہے کہ وہ حضرات انبیاء ہیں ۔ یہ حضرات ذریت رسول کااور آنحضرت کی عترت ہیں ۔ جن پر خدانے قرآن میں صلواۃ  وسلام بھیجنے کا حکم دیا ہے ۔اس لئے ہم لوگ" علیهم الصلاة والسلام " بھی کہتے ہیں "۔

میں :- "برادر ہم لوگ صرف رسول اللہ اورآپ سے پہلے والے انبیاء پر صلاۃ وسلام کے قائل ہیں اس میں حضرت علی اور ان کی اولاد رضی اللہ عنھم کا کوئی دخل نہیں ہے "۔

۴۵

میں :-" میں آپ سے خواہش کرتاہوں کہ آپ مزید مطالعہ کیجئے تاکہ حقیقت واضح ہوجائے ۔"

میں :-"میرے دوست میں کون سی کتاب پڑھوں ؟ کیا آپ نے مجھ سے نہیں فرمایا تھا کہ احمد امین کی کتابیں شیعوں پر حجت نہیں ہیں ۔ تو پھر اسی طرح شیعوں کی کتابیں ہمارے لئے حجت نہیں ہیں ۔ اورنہ ہم ان پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ کیاآپ نے نہیں کہا تھا ، عیسائیوں کی طرح جو کتابیں معتمد ہیں ۔ان میں حضرت عیسی کا قول تحریر ہے کہ :" میں خدا کا بیٹا ہوں "جب کہ قرآن کہتا ہے ۔۔۔اور قرآن اصدق القائلین ہے ۔۔۔حضرت عیسی کی زبانی نقل کرتے ہوئے : میں نے تو ان سے صرف وہی کہا تھا جس کا تو نے حکم دیا تھا کہ اس خدا کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا (سب ہی کا) رب ہے ۔

دوست :- جی ہاں ! میں نے کہا تھا اور آپ سے بھی جس کا مطالبہ کرتاہوں وہ یہی ہے کہ آپ عقل منطق کو استعمال کریں اورقرآن کریم اور سنت صحیحہ سے استدلال کریں جب گفتگو کسی مسلمان سےہو ۔لیکن اگر گفتگو کسی یہودی یا عیسائی سے ہو تو استدلال قرآن سے نہیں کیا جائے گا ۔

میں :-" میں کس کتاب سے حقیقت کا پتہ لگاؤں کیوں کہ ہر مؤلف ،ہر فرقہ ،ہر مذہب کا دعوی ہے کہ وہی حق پر ہے باقی سب باطل پر ہیں ۔"

دوست:-" میں بہت ہی بدیہی وحسی دلیل پیش کرتا ہوں ، مسلمان اختلاف مذاہب وتشتت فرق کے باوجود اس دلیل پر متفق ہیں مگر آپ نہیں جانتے یہ تعجب ہے ۔آپ دعا کیجئے :ربّ زدنی علما "اچھا یہ بتائیے کیا آپ نے یہ آیت پڑھی ہے ؟"

"ان الله وملائکته یصلون علی النبی یا ایها الذین آمنوا صلو اعلیه وسلموا تسلیما (پ 22 س 33 (احزاب) آیت 56)

اسمیں شک نہیں کہ خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر (اور ان کی آل ) پر دوردو بھیجتے ہیں ۔ تو اے ایماندارو! تم بھی درود بھیجتے رہو اور برابر سلام کرتے رہو :۔۔۔۔۔۔ کی تفسیر پڑھی ہے ؟

۴۶

شیعہ وسنی تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اصحاب کرام رسول اللہ کے پاس آکر بولے : ہم کو معلوم ہوگیا کہ آپ پر کیوں سلام بھیجیں ؟ لیکن یہ نہیں معلوم کیونکر درود بھیجیں تو آنحضرت نے فرمایا اس طرح کہو:

"اللهم صل علی محمد وآل محمد کمام صلیت علی ابراهیم وآل ابراهیم فی العالمین انک حمید مجید "

اور دیکھ میرے اوپر کھبی دم بریرہ درود نہ بھیجنا ! اصحاب نے پوچھا سرکار یہ دم کٹی درود کیا ہے ؟ فرمایا :اللھم صلی علی محمد " کہہ کر چپ ہوجانا (سنو) خدا کامل ہے کامل ہی کو قبول کرتا ہے ان تمام اسباب کی وجہ سے صحابہ اور تابعین سب نے رسول خدا کے حکم کو پہچان لیا اور وہ سب مکمل درود بھیجا کرتے تھے اسی لئے امام شافعی نے اہل بیت کے لئے فرمایا ہے

یا آل بیت رسول الله حبکم + فرض من الله فی القرآن انزله

کفاکم من عظیم القدر انکم+ من لم یصل علیکم لا صلاة له

اے اہل بیت رسول تمہاری محبت تواس قرآن میں واجب کی گئی ہے جس کو خدا نے نازل فرمایا ہے ۔تمہاری جلالت قدر کے لئے یہی بات کافی ہے کہ جو تم پر (نماز میں )درود نہ بھیجے اس کی نماز ،نماز ہی نہیں ہے ۔

میرے دوست کا کلام میرے کانوں میں رس  گھول رہا تھا اوردل میں اتر تا جارہا تھا اور میرا نفس اس کو قبول کرنے پر آمادہ تھا ۔سابقا میں نے یہ بات کسی کتاب میں پڑھی تھی ۔مگر اس وقت زور دینے کے باوجود کتاب کانام یا د نہیں آرہا تھا میں نے اتنا مان لیا کہ ہم لوگ بھی جب رسول پر درود بھیجتے  ہیں تو آل واصحاب سب ہی پر بھیجتے ہیں ۔ لیکن شیعوں کی طرح صرف حضرت علی کے ذکر پر علیہ السلام نہیں کہتے میرے دوست نے مجھ سے پوچھا ۔بخاری کےبارے میں کیاخیال ہے" ؟ وہ سنی تھے یا شیعہ ؟

میں :- اہل سنت والجماعت کےبڑے جلیل القدر امام تھے ۔خدا کی کتاب کے بعد ان کی کتاب تمام کتابوں سے زیادہ صحیح ہے ۔میرے اتنا کہنے پرمیرا دوست اٹھا اور اپنی لائبریری سے صحیح بخاری نکال

۴۷

لایا  ۔اور بخاری کھول کر جس صفحہ کو تلاش کر رہا تھا ۔ تلاش کرکے مجھے دیا اور کہا پڑھو ! میں نے پڑھنا شروع کیا : مجھ سےفلان بن فلان نے بیان کیا اور اس سے علی نے الخ میری آنکھوں کو یقین نہیں آرہا تھا اور اتنا تعجب ہوا کہ مجھے شبہ ہونے لگا یہ واقعی صحیح بخاری نہیں ہے؟ میں بے چینی کے ساتھ صفحہ اور کور کو دیکھنے لگا جب میرے دوست کو احساس ہو ا کہ مجھے شک ہے تو اس نے مجھ سے کتاب لے کر کیا دوسرا صفحہ نکال کر دیا ۔ اس میں تھا کہ مجھ سے علی ابن الحسین (علیھما السلام )نے بیان کیا ۔ اس کو دیکھنے کے بعد میں نے کہا سبحان اللہ ! میرا دوست (شاید میرے اس جملہ سے قانع ہو کر مجھے تنہا چھوڑ کرچلا گیا ۔اور میں سوچنے لگا ۔ بار بار ان صفحات کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا اورپڑھتا رہا اور یہ تلاش کرتارہا کہ یہ کتاب کہاں چھپی ہے ؟ دیکھا تو مصر کی شرکۃ الحلبی واولادہ کی مطبوعہ ہے اور وہیں سے نشر کی گئی ہے ۔

خدایا ! میں کب تک مکابرہ کروں ۔کب تک دشمنی کروں اس نے تو ہماری کتاب بخاری سے حسی دلیل پیش کردی اور امام بخاری قطعا شیعہ نہیں تھے ۔یہ تو سنیوں کے امام اور بہت بڑے محدث تھے کیا میں حقیقت تسلیم کرلوں یعنی ان کی طرح علی علیہ السلام کہنے لگوں لیکن مجھے ڈر لگتا ہے کہیں اس حقیقت کے ماننے پر کئی اور حقیقتوں کو نہ ماننا پڑے ۔مجھے اس حقیقت کا اعتراف پسند نہیں ہے ۔میں اپنے دوست سے دومرتبہ شکست کھا چکا ہوں ۔ایک تو عبد لقادر جیلانی کی قداست  کوچھوڑ کر مجھے اعتراف کرنا پڑھا تھا کہ (امام موسی الکاظم) ان سے اولی ہیں ۔ اور یہ بھی تسلیم کرلیا تھا کہ علی کے ساتھ علیہ السلام جائز ہے ۔ لیکن اس مرتبہ شکست نہیں کھاناچاہتا ۔ارے میں وہی تو ہوں جو کچھ دنوں پہلے مصر میں مانا ہوا عالم تھا اپنے اوپر فخر کرتا تھا ،ازہر شریف کے علماء میری تعریف کرتے تھکتے نہیں تھے ۔ اور آج میں اپنے کو مغلوب ،شکست خوردہ محسوس کررہا ہوں ۔ وہ بھی کن لوگوں کے سامنے !جن کو ہمیشہ غلطی پر سمجھا کرتا تھا ۔ میں لفظ "شیعہ" کو گالی سمجھتا تھاے ۔

(درحقیقت )یہ تکبر در حب ذات ہے ،یہ انانیت ،عصبیت ،لجوج پن ہے ۔ خداوندا! مجھے رشد کا الہام کردے ! میری (حقیقت کے قبول کرنے پر) مدد فرما چاہے وہ تلخ ہو ! پروردگارا ! میر ی بصارت وبصیرت کو کھول دے ،صراط مستقیم تک میری ہدایت فرما ، مجھے ان لوگوں میں سے قراردے جو باتوں

۴۸

کو سن کر اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں ۔خدایا! مجھے حق دکھادے مجھے حق کی پیروی کی توفیق مرحمت کردے ۔میری نظر میں باطل کو باطل قراردیدے مجھے اس سے بچنے کی توفیقات عطافرما ۔

میرا دوست جب گھر واپس آیاتو میں اپنے دعائیہ کلمات کی تکرار کررہا تھا ۔اس نے مسکرا تے ہوے کہا : خدا ہم کو ،تم کو ، تمام مسلمانوں   ہدایت دے وارخدا نے کہا ہے : جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتا ہے ہم ان کو اپنے راستہ کی ضرورہدایت کرتےہیں اور خدا تو احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے " اس آیت میں جہاد سے مراد حقیقت تک پہونچنے کے لئے علمی بحث ومباحثہ کرنا ہے ۔جو شخص حق کا متلاشی ہوتا ہے خدا اس کو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے ۔

۴۹

نحف کا سفر

 ایک رات میرے دوست نے مجھے بتایا کال انشااللہ نجف چلیں گے ۔میں نے پوچھا نجف کیا ہے ؟ اس نے کہا وہاں حوزہ علمیہ ہے اور امام علی ابن ابیطالب کا مرقد (مطہر ) ہے مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا کہ حضرت علی کی قبر مشہور کیسے ہوئے ؟ کیونکہ ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ سیدنا علی کی قبر معروف کا کہیں وجود نہیں ہے ۔

ہم لوگ ایک عمومی گاڑی پر سوار ہو کر کوفہ پہونچے وہاں ہم اتر گئے ۔مسجد کوفہ جو ایک اسلامی آثار قدیمہ میں سے ہے اس کی زیات کی ۔میرا دوست تاریخی چیزوں کو دکھاتا رہا ہے ۔مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کی زیارت کرائی ۔اورمختصرا ان کی شہادت کا ذکر کیا ۔اور مجھے اس محراب میں بھی لے کیا جس میں حضرت علی (علیہ السلام) کو شہید کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد ہم نے امام علی (علیہ السلام) کا وہ مکان بھی دیکھا ۔جس میں آپ اپنے دونوں بیٹوں سیدنا حسن وسیدنا حسین (علیھما السلام) کےساتھ رہا کرتے تھے ۔ اس مکان میں ایک کنواں بھی ہے جس کے پانی سے یہ لوگ وضو بھی کرتے تھے اور اسی کے پانی کو پیتے تھے ۔ میں نے وہاں ایسی روحانیت محسوس کی کہ اتنی دیر کے لئے دنیا ومافیھا کو فراموش کربیٹھا ۔اور میں امام علی (علیہ السلام) کے زہد میں ڈو ب گیا کہ آپ امیرالمومنین اور چوتھے خلیفہ راشد ہو کر بھی ایسی معمولی زندگی بسر کرتے تھے ۔

یہ بات لائق توجہ ہے ہ وہاں کے لوگ بڑے بامروت ومتواضع ہیں ۔ہم لوگ جدھر سے گزر جاتے تھے لوگ احتراما کھڑے ہوجاتے تھے ۔ اور ہم کو سلام کرتے تھے میرا دوست ان میں اکثر کو پہچانتا بھی تھا ۔ معہد کوفہ کے مدیر نے ہماری دعوت کی وہاں ہماری ملاقات اس

۵۰

کے بچوں سے ہوئی اور وہ رات اسی کے پاس ہم لوگوں نے بڑی راحت وارام سے بسر کی مجھے تویہ محسوس ہورہا تھا۔ جیسے اپنے قبیلہ وخاندان میں ہوں ۔ وہ لوگ اہل سنت والجماعت کا ذکر کرتے تو کہتے :ہمارے سنی بھائی ! ہم ان کی گفتگو سے جب مانوس ہوگئے تو ہم نے بطور امتحان بعض سوالات بھی کئے کہ دیکھیں یہ لوگ کہاں تک سچے ہیں ؟

 اس کے بعد ہم نجف کے لئے روانہ ہوگئے جو کوفہ سے دس کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے وہاں پہونچتے ہی مجھے بغداد کی مسجد الکاظمیہ  کی یاد تازہ ہوگئی کہ سنہری منارے جن کے بیچ میں خالص سونے کا گنبد تھا ۔شیعہ زائرین کی حسب عادت ہم نے بھی اذن دخول پڑھ کر حرم امام علی میں قدم رکھا ۔یہاں مجھے (حضرت امام)موسی الکاظم کی مسجد جامع سے زیادہ تعجب خیز چیزیں دکھائی دی ۔ اپنی عادت کے مطابق میں نے فاتحہ پڑھی لیکن یہ شک بہر حال رہا ۔ کہ آیا اس قبر میں الامام علی (ع) کا جسم ہے ؟ میں نے اپنے کو قانع کرنا چاہا ۔لیکن کہاں کوفہ کا وہ سادہ سا مکان  جس میں امام رہتے تھے اور کہاں یہ ! میں نے اپنے دل میں کہا حاشا وکلا جب کہ پوری دنیا کے مسلمان فاقوں سے مررہے ہوں تو کیا علی (ع) اس سونے چاندی پر راضی ہوسکتے ہیں ؟ خصوصا جب کہ راستہ میں فقرا ہاتھ پھیلائے گزرنے والوں سے بھیک مانگ رہے تھے ۔میری زبان حال کہہ رہی تھی ۔ اے شیعو! تم غلطی پر ہو کم از کم اس غلطی کا تو اعتراف کر ہی لو رسول اکرم نے حضرت علی کو تمام قبروں کو برابر کرنے کے لئے بھیجا تھا ۔پھر آخر یہ سونے وچاندی سے لدی ہوئی قبریں ! اگر یہ شرک باللہ نہ بھی ہوں تو کم ازکم ایسی فاش غلطی ضرور ہے جس کو اسلام معاف نہیں کرسکتا ۔

میرے دوست نے ایک خشک مٹی کر ٹکڑے (سجدہ گا ہ) کی طرف ہاتھ بڑھا تے ہوئے مجھ سے پوچھا کیا تم بھی نماز پڑھناچاہتے ہو؟ میں نے تیزی سے جواب دیا۔ہم لوگ قبور کے ارد گرد نماز نہیں پڑھا کرتے  دوست نے کہا اچھا تو پھر اتنی دیر انتظار کرو کہ میں دورکعت نماز پڑھ کر آجاؤں ۔اس کے انتظار میں ضریح پر جوچیزیں ٹنگی ہوئی تھیں ان کو پڑھنے لگا اور سنہری جالیوں کے بیچ س اندر کی چیزوں کو دیکھنے لگا ۔ جس کے اندر دنیا کے سکوں کے ڈھیر پڑھے ہوئے تھے

۵۱

درہم ،ریال ،دینا ر لیرہ سب ہی کچھ یہ وہ تدرائے تھے ۔جو زائرین ضریح کے اندر ڈال دیا کرتے تھے تاکہ روضہ کے متعلق جو امور خیر انجام دئیے جائیں ۔ ان میں یہ بھی شریک ہوجائیں ۔وہ سکے اتنے زیادہ تھے کہ میرا خیال ہے مہینوں میں جمع ہوئے ہونگے لیکن میرے دوست نے مجھے بتایا  کہ ذمہ دار حضرات روزانہ نماز عشاء کے بعدان سکوں کو نکال لیتے ہیں یہ صرف ایک دن میں ڈالے گئے سکے ہیں ۔

 میں اپنے دوست کے پیچھے پیچھے مدہوش ہوکر نکلا گویا میری تمنا یہ رہی ہو کہ کاش اس میں تھوڑا سا مجھے بھی مل جاتا ۔ یا فقراء ومساکین پر تقسیم کردیا جاتا ۔ کیونکہ فقراء ومساکین کی تعداد بھی الی ماشااللہ تھی ۔روضہ کے چاروں طرف جو دیوار کھینچی ہوئی ہے ۔ روضہ سے نکل کر میں ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔ کہیں پر نمازجماعت ہورہی تھی ۔ اور ایک دو نہیں کئی کئی اور کہیں پر کوئی خطیب تقریر کررہا تھا اور لوگ بیٹھے سن رہے تھے خطیب بڑے اونچے منبر پر تھا ۔ اتنے میں کچھ لوگوں کے رونے کی آوازیں بھی آنے لگیں ۔ کچھ سسک سسک کر رورہے تھے کچھ زورزور سے اور اپنے سینہ پر ہاتھ ماررہے تھے ۔میں نے چاہا کہ اپنے دوست سے پوچھوں  کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ رو رہے ہیں ۔ اور سروسینہ کوٹ رہے ہیں کہ اتنے میں ہمارے قریب ایک جنازہ گزرا بعض لوگوں کو دیکھا و صحن سے پتھرا اکھاڑ رہے ہیں اور اس میں میت کو رکھ رہے ہیں ۔ اس وقت میرا خیان یہ ہوا کہ اس عزیز میت پر یہ لوگ رورہے ہونگے

۵۲

علماء سےملاقات

 میرا دوست حرم کے ایک گوشہ میں بنی ہوئی ایک ایسی مسجد میں لے گیا ۔جہاں پوری مسجد میں سجادہ بچھا ہوا تھا اور اس کے محراب مین بہت ہی جلی اورعمدہ خط سے قرآنی آیات لکھی ہوئی تھیں ۔ میری نظر ان چند بچوں پر جاکر جم گئی جو عمامہ لگائے محراب کے قریب مشغول مباحثہ تھے ، اور ہر ایک کے ہاتھ میں کتاب تھی ۔اس بہترین منظر کو دیکھ کر میں بہت خوش ہوا ۔ میں نے ابھی  تک ایسے شیوخ نہیں دیکھے تھے جن کی عمریں تیرہ 13 سال سے لیکر سولہ 16 تک تھیں ۔ اس لباس نے ان کے جمال وخوبصورتی میں چار چاند لگادیئے تھے ۔ بس یہی معلوم ہوتا تھا کہ یہ چاند کے ٹکڑے ہیں ۔ میرے دوست نے ان سے " السید" کے بارے میں پوچھا ۔انھوں نے بتایا وہ نماز جماعت پڑھانے گئے ہیں ۔ میں نہیں سمجھا کہ جس "السید کے بارے میں میرے دوست نے پوچھا ہے وہ کون ہے؟ البتہ اتنا ضرور سمجھ گیا تھا کہ وہ کوئی عالم دین ہیں ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس سے مراد "السید الخوئی" ہیں جو فی الحال زعیم الحوزۃ العلمیہ " ہیں ۔ شیعوں کے یہاں السید " صرف انھیں کو کہا جاتا ہے ۔جو خاندان رسالت سے ہوں اور السید خواہ عالم ہو یا طالب علم سیاہ عمامہ باندھتا ہے جب کہ دوسرے علماء سفید عمامہ باندھتے ہیں اورالشیخ سے مخاطب کئے جاتے ہیں ۔ وہاں کچھ اور اشراف لوگ ہیں جو عالم تو نہیں ہیں ۔ مگر شریف ہیں وہ لوگ سبز عمامہ باندھتے ہیں ۔

میرے دوست نے مجھ سے کہا کہ ۔آپ یہاں تشریف رکھئے میں ذرا سید سے ملاقات کرلوں ان طلاب نے مجھے مرحبا کہا اور تقریبا نصف دائرہ کی صورت میں بیٹھ گئے ۔ اور میں ان کے چہروں کو دیکھ رہا تھا ۔ اور یہ محسوس کررہا تھا کہ یہ گناہوں سے پاک ہیں ان کی سریت اور ان کا طبع بہت شفاف ہے ۔اتنے میں میرے ذہن میں رسول اکرم کی

۵۳

حدیث یادآگئی ۔ ہر انسان فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔لیکن اس کے ماں باپ اس کو یہودی بنادیتے ہیں یا عیسائی بنادیتے ہیں یا مجوسی بنادیتے ہیں ۔ میں نے اپنے دل میں کہا" یا اس کو شیعہ بنادیتے ہیں ۔

 ان طلاب نے مجھ سے پوچھا آپ کہاں کے رہنےو الے ہیں ۔؟ میں نے کہا ٹیونس کا ! انھوں نے پو چھا کیا آپ کے یہاں بھی حوزات علمیہ ہیں ؟ عرض کیا یونیورسٹیاں اور مدارس ہیں ۔ اس کے بعد تو چاروں طرف سے سوالات کی بوچھار ہونے لگی ۔ اور ہر سوال مرکزی اور مشکل تھا ۔ یمں ان بے چاروں کو کیا بتاتا جن کا عقیدہ یہ ہے کے پورے عالم اسلام میں حوزات علمیہ ہیں ۔ جن میں فقہ واصو الدین والشریعہ اور تفسیر پڑھائی جاتی ہے ۔ان کو یہ نہیں معلوم کہ عالم اسلام میں او رہمارے ملکوں میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مدارس قرآنیہ کے بدلے بچوں کے لئے باغیچے بنوادئیے گئے ہیں جن کی نگرانی نصرانی راہبات کے سپرد ہے اب کیا می ان سے کہہ دیتا کہ آپ لوگ ہمارے بہ نسبت بہت پسماندہ ہیں ؟

ایک نے انھیں میں سے پوچھا ٹیونس میں کون سا مذہب رائج ہے ؟ میں نے کہا مالکی ! میں نے دیکھا کہ بعض ہنسنے لگے ۔ لیکن میں نے کوئی توجہ نہیں کی ان میں نے ایک نے کہا: آپ لوگ مذہب جعفری کو بھی جانتے ہیں ؟ میں نے کہا نہیں یہ کون سانیا نام ہے ؟ نہیں ہم لوگ مذاہب اربعہ ۔۔۔حنفی ،مالکی، شافعی ، حنبلی ۔۔۔۔۔ کے علاوہ کسی اور مذہب کو نہیں جانتے اور جو مذہب ان چاروں کے علاوہ ہوگا وہ یقینا غیراسلامی ہوگا ۔

اس نے ہنستے ہوئے کہا: معاف کیجئے گا مدہب جعفری ہی خالص اسلام ہے ۔کیا آپ نہیں جانتے ابو حنیفہ امام جعفر صادق کے شاگرد تھے ؟ اور اسی سلسلے میں ابو حنیفہ نے کہا" لولا السنتان لهلک النعمان" اگر دوسال (جو امام جعفر صادق کی شاگردی میں گزارے )نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا ۔ میں یہ سن کر خاموش ہوگیا ۔اور کوئی جواب نہیں دیا ۔

۵۴

ان لوگوں نے ایسی بات کہہ دی جس کو میں آج سے پہلے سنا ہی نہ تھا لیکن میں نے خدا کی حمد کی کہ ان کے امام ۔۔۔۔جعفر صادق ۔۔۔امام مالک کے استاد نہیں تھے ۔لہذا میں نے کہا ہم لوگ مالکی ہیں ۔ حنفی نہیں ہیں ۔ اس جوان نے کہا چاروں مذاہب والے بعض نے بعض سے تعلیم حاصل کی ہے ۔احمد بن حنبل امام شافعی سے تحصیل کیا ہے اور امام شافعی نے امام مالک سے ،امام مالک نے امام ابو حنیفہ سے اور امام ابو حنیفہ نے امام جعفر صادق سے سب کچھ اخذ کیا ہے ! اسی طرح سب کے سب جعفربن محمد کے شاگرد ہیں ۔ امام جعفر صادق پہلے آدمی ہیں ۔ جنھوں نے اپنے جد کی مسجد (مسجد النبی ) میں جامعہ اسلامیہ (اسلامی یونیورسٹی) کی بنیاد ڈالی اور چار ہزار سے زیادہ محدث وفقیہ نے آپ سے شرف تلمذ حاصل کیا ۔مجھے اس بچے کے حافظہ پر بہت تعجب ہوا ۔یہ جو باتیں کہہ رہا تھا ۔اس طرح کہہ رہاتھا ۔جیسے ہم لوگ قرآن کے سوروں کو یاد کرکے فرفرسناتے ہیں اور اس وقت تومیری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے بعض تاریخی مصادر کے حوالوں کو جلدوں ابواب وفصول کے ساتھ بیان کرنا شروع کردیا ۔اس نے اس طرح میرے ساتھ گفتگو شروع کردی جیسے کوئی استاد اپنے طالب علم سے کرتا ہے ۔ میں نے اس کے سامنے اپنی کمزوری کا اچھی طر ح احساس کرلیا تھا ۔ اور اس وقت میری تمنا کہ کاش اپنے دوست کے ساتھ میں بھی چلا گیا ہوتا ۔ ان بچوں میں نہ پھنسا ہوتا ان میں سے جس نے بھی فقہ یا تاریخ کے بارے میں جو سوال پوچھا وہ ایسا ہی تھا کہ میں جواب نہیں دے سکا ۔ایک نے پوچھا آئمہ میں سے کس کی تقلید کرتے ہیں؟ میں نے کہا امام مالک کی ! اس نے کہا :آ پ اس میت کی تقلید کیونکر کرتے ہیں جس میں اور آپ میں چودہ صدی کا فاصلہ ہے؟ اگر آپ ان سے اس وقت کے جدید مسائل کےبارے میں پوچھیں تو کیا جواب دے سکیں گے ؟ میں نے تھوڑی دیر سوچا اس کے بعد کہا تمہارے امام جعفر صادق کو مرے ہوئے بھی چودہ سال گزر چکے ہیں آپ لوگ کس کی تقلید کرتے ہیں ؟ تمام بچوں نے فورا جواب دیا : ہم لوگ السید الخوئی کی تقلید کرتے ہیں ۔ وہی اس وقت ہمارے

۵۵

 قائد اور مرجع ہیں ! میں یہ نہ سمجھ پایا کہ الخوئی اعلم ہیں یا (امام) جعفر الصادق (ع)؟

مختصر یہ کہ میں ان بچوں کے ساتھ موضوع بدلنے کی فکر میں تھا ۔ میں ان سے ایسا سوال کرناچاہتا تھا جس سے وہ میرا مسئلہ بھول جائیں ۔ چنانچہ میں نے ان سے نجف کی آبادی کے بارے میں پوچھا اوریہ پوچھا کہ نجف وبغداد میں کتنا فاصلہ ہے؟ کیاآپ لوگوں نے عراق کے علاوہ کوئی اور ملک بھی دیکھا ہے؟ وہ جیسے جواب دیتے تھے میں فورا دوسرا سوال کردیتا تھا میرا مقصد ان کو الجھائے رکھنا تھا تاکہ یہ مجھ سے سوالات نہ کرسکیں ۔کیونکہ میں نے احساس کرلیا تھا ۔کہ میں ان بچوں کے مقابلہ میں کمزور ہوں لیکن ان کے سامنے تو اعتراف کرنہیں سکتا تھا اگر چہ دل میں معترف تھا کیونکہ وہ عزت وبزرگی وعلم جو مصر میں مجھے حاصل ہوا تھا ۔وہ بخاربن کر یہاں اڑگیا ۔خصوصا ان بچوں سے ملنے کے بعد کہنے والے کی اس حکمت کو پہچان گیا جس نے کہا ہے

فقل لمن یدعی فی العلم فلسفة

عرفت شیئا وغابت عنک اشیاء

ترجمہ :-اس شخص سے کہہ دو جو علم میں فلسفہ بگھارتا ہو کہ تم نے ایک ہی چیز کو پہچانا ہے اور بہت سی چیزیں تم سے غائب ہوگئیں ہیں " اور میں نے یہ طے کرلیا ان بچوں کو عقل ازہر کے ان بوڑھوں سے زیادہ ہے جن سے میرا مقابلہ ہوا تھا ۔ اور ان بزرگوں سے بھی زیادہ ہے جن کی معرفت مجھےٹیونس میں حاصل ہوئی تھی۔

اتنے السید الخوئی تشریف لائے اور ان کے ساتھ علماء کی ایک جماعت تھی جن کے چہرے سے ہیبت وقار ظاہر ہورہا تھا ۔ سارے طلاب تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے انھیں کے ساتھ میں بھی کھڑا ہوگیا ۔اور سب آگے بڑھ بڑھ کر السید الخوئی کا ہا تھ چومنے لگے لیکن میں اپنی جگہ پر میخ کی طرح قائم رہا ۔ سید کے بیٹھتے ہی سب بیٹھ گئے ۔ سید خوئی نے ہر ایک کو مخاطب کرکے مساکم اللہ بالخیر کہنا شروع کردیا ۔جس سے وہ کہتے تھے وہ بھی جواب

۵۶

میں یہی کہتا تھا ۔ یہا تک کہ میرا نمبر آیا تو میں نے بھی وہی کہہ دیا ۔اس کےبعد میرے دو ست نے سید خوئی سے آہستہ آہستہ میری طرف اشارہ کرکے کہا ۔ اور مجھ سے کہا آپ سید کے قریب آجائے ۔ سید نے مجھے اپنے داہنی طرف بٹھایا ۔سلام ودعا کے بعد میرے دوست نے مجھ سے کہا ۔ سید سے بتاؤ کہ ٹیونس میں  تم شیعوں کے بارے میں کیا سنتے رہے ہو ؟ میں نے کہا برادر جو قصے کہانیاں وہاں سنتے رہے ہیں ۔ وہی ہمارے لئے کافی ہیں میرے نزدیک سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ میں یہ معلوم کروں کہ شیعہ کیا کہتے ہیں ؟ میں کچھ  سوالات کرنا چاہتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ جوابات بالکل صریح ہوں لیکن میرے دوست نے اصرار کرنا شروع کردیا کہ پہلے آپ سید کوبتا ئیے کہ آپ کا عقیدہ شیعوں کےبارے میں کیا ہے ؟

میں :-"ہمارے نزدیک شیعہ اسلام کے لئے یہودو نصاری سے زیادہ سخت نقصان دہ ہیں ۔ کیونکہ یہود ونصاری خدا کی عبادت کرتے ہیں ۔ جناب موسی کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں  لیکن شیعہ ( جیسا کہ ان کےبارے میں سنا جاتا ہے) علی کی عبادت کرتے ہیں اور انھیں کی تقدیس بیان کرتے ہیں ۔ ہاں شیعوں میں ایک فرقہ جو خدا کی عباد کرتا ہے لیکن وہ بھی حضرت علی کو حضرت رسول کی جگہ جانتے ہیں ۔ پھر میں نے جبرئیل کا قصہ بتایا کہ شیعوں کی بنا پر انھوں نے کتنی بڑی خیانت کی کہ رسالت علی تک پہونچانے کے بجائے محمد کی پہونچا گئے ۔ سید خوئی نے تھوڑی دیر سرجھکا یا اور دیکھتے ہوئے کہا ہو گواہی دیتے ہیں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد (ص) اللہ کے  رسو ل ہیں ۔ خدا ان پر اور ان کے پا ک پاکیزہ آل پر رحمت نازل کرے اور (حضرت) علی اللہ کے ایک بندے ہیں ۔ اس کے بعد دوسرے بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اورمیری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے ۔دیکھو غلط پروپیگنڈے کس طرح لوگوں کو غلط راستہ پر ڈال دیتے ہیں اور یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے میں نے دوسروں سے اس سے بھی زیادہ سنا ہے ۔" لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم" اس کے بعد میری طرف متوجہ ہوئے فرمایا

۵۷

سید : کیا آپ نے قرآن پڑھا ہے ؟

میں :- دس سال کی عمر میں آدھا قرآن حفظ کرلیا تھا ۔

سید :- کیا آپ جانتے ہیں کہ اسلامی فرقے اپنے مذہبی اختلاف کے باوجود کریم پر متفق ہیں ؟ جو قرآن ہمارے پاس موجود ہے ۔ وہی قرآن آپ حضرات کے پاس بھی موجود ہے ۔

میں :- جی ہاں ! اس بات کوجانتا ہوں ۔

سید :- پھر کیا آپ نے خداوندعالم کایہ قول نہیں پڑھا"وما محمد الا رسول قد خلت من قبله الرسل " (پ 4 س 3 (آل عمران) آیت 144) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تو صرف رسول ہیں (خدا نہیں ہیں ) ان سے پہلے اور بھی بہتر  ے پیغمبر گزرچکے ہیں ۔۔۔ اسی طرح خدا کا یہ قول" محمد رسو ل الله والذین معه اشداء علی الکفار (پ 26 س 48 (فتح) آیت 29) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)خد کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر بڑے سخت ہیں اسی طرح  خدا کای قول  :ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول الله وخاتم النبین (پ 22 س 23(احزاب) آیت 40) ۔(لوگو) محمد تمہارے مردوں میں سے (حقیقتا )کسی کے باپ نہیں ہیں ۔ بلکہ اللہ کے رسول اورآخری نبی ہیں ۔

میں :- جی ہاں ! میں ان آیات کو بخوبی جانتا ہوں ۔

سید:- پھر اس میں علی کو نبوت کا کہاں ذکر ہے ؟جب ہمارا قرآن محمد کو رسول اللہ کہتا ہے توہمارے اوپر یہ الزام کہاں سے لگا دیاگیا ؟ میں خاموش ہوگیا ۔میرے پاس کوئی جواب بھی نہیں تھا ۔سید نے پھر کہنا شروع کیا رہی جبریئل کی خیانت والی بات تو حاشا للہ (واستغفراللہ) یہ تو پہلے الزام سے بھی بد تر ہے ۔کیونکہ خدا نے جب جبرئیل کو آنحضرت کے پاس بھیجا ہے تو محمد کی عمر چالیس سال تھی اورعلی کا بچپنا تھا۔حضرت علی کی عمر چھ سال رہی ہوگی ۔ پس کیا جبرئیل بوڑھے اور بچے میں فرق نہیں کرسکتے تھے ؟

 سید خوئی کی اس منطقی دلیل پر میں کافی دیرخاموش رہا ۔اور ان کی دلیلوں کےبارے میں

۵۸

سرجھکائے ہوئے غور کرتارہا اور اس گفتگو کی چاشنی محسوس کرتارہا ۔جو میرے دل کی گہرائیوں میں اتر گئی تھی ۔ اور جس نے میری آنکھوں سے پردہ اٹھادیا تھا می اپنے دل میں کہہ رہا تھا اس منطق کو کون نہ مانے گا ؟

سید :- سید نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا میں آپ کوبتا نا چاہتا ہوں ۔ تمام اسلامی فرقوں میں صرف اور صرف ایک فرقہ شیعہ ہے جو انبیاء اور ائمہ کی عصمت کا قائل ہے ۔ جب ہمارے آئمہ جو ہماری طرح کے بشر ہیں ۔وہ معصوم ہیں تو  پھر جبرئیل جو ملک مقرب اورخدا نے ان کو روح الامین کہا ہے بھلا وہ کیسے خطا کار ہوسکتے ہیں ؟

میں :- پھر ان پروپگنڈوں کا مدرک کیا ہے ؟

سید :- جو اسلام دشمن عناصر ہیں اور مسلمانوں میں تفرقہ اندازی کرناچاہتے ہیں ایک کو دوسرے سےلڑانا چاہتے ہیں یہ انھیں لوگوں کی کارستانیاں ہیں ۔ ورنہ مسلمان سب آپس میں بھائی بھائی ہیں خواہ سنی ہوں یا شیعہ کیونکہ سب ہی ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں کوئی مشرک نہیں ہے سب کا قرآن ایک ہے نبی ایک ہے قبلہ ایک ہے ۔شیعہ وسنی میں صرف فقہی اختلافات ہیں جیسے خود اہل سنت میں ہیں کہ مالک ابو حنیفہ کے مخالف ہیں اور وہ شافعی کے و ھکذا ۔

میں :- اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ لوگوں کےبارے میں جو باتیں کہی جاتی ہیں وہ محض افتراء ہیں ۔

سید:- آپ الحمداللہ عقلمند ہیں ۔تجربہ کار ہیں ۔ شیعہ شہروں کو دیکھا ہے ۔متوسط طبقوں میں گھومے بھی ہیں ۔ کیا آپ نے اس قسم کے خرافات اپنی آنکھوں سے دیکھی یا کسی شیعہ سے سنی ہیں ؟

میں :- جی نہیں ! نہ میں نے دیکھا ہے نہ سنا ہے میں خدا کی حمد کرتا ہوں کہ اس نے شپ میں استاد منعم سے میری ملاقات کرادی یہی میرے عراق آنے کا سبب بنے ہیں ۔ اور یہاں میں نے بہت سی چیزوں کو پہچانا ہے جن کومیں جانتا بھی نہیں تھا ۔

۵۹

یہ سن کر میرا دوست منعم زور سے ہنسا وار بولا انھیں چیزوں میں سے حضرت علی کی قبر کا وجود بھی ہے ۔ میں نے اشارہ سے روکا اور کہنے لگا ۔میں نے یہاں آکر بہت کچھ سیکھا ۔بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان بچوں سے بھی سیکھا اورمیری تمنا ہے کا ش مجھے مہلت ملتی کہ اس طرح کے حوزہ علمیہ میں میں بھی تعلیم حاصل کرتا ۔

سید :- اھلاوسہلا ! اگر آپ علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو حوزہ آپ کی ذمہ داری لیتا ہے اور میں آپ کا خادم ہوں ۔اس پیش کش کو تمام حاضرین نے پسند کیا ۔خصوصا میرے دوست منعم کا چہرہ تو خوشی کے مارے دمک رہا تھا ۔

میں :- لیکن میں شادی شدہ ہوں بیوی کے علاوہ ودوبچے بھی ہیں ۔

سید :- میں آپ کے تمام لوزمات کا متکفل ہوتاہوں گھر ،تنخواہ اور جس کی بھی ضرورت ہو ۔اہم چیز یہ ہے کہ آپ تعلیم حاصل کریں ۔ میں نے تھوڑی دیرغور کرنے کے بعد اپنے دل میں کہا یہ بات غیر معقول ہے کہ پانچ سال مدرس رہ کر میں پھر طالب علم بنوں اور اتنی جلدی میں فیصلہ کرنا بھی آسان نہیں ہے ۔

میں نے سید خوئی کی اس پیشکش پر ان کا شکریہ ادا کیا ۔اور عرض کیا کہ عمرہ سے واپسی کے بعد اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کروں گا ۔ ۔سردست تومجھے کتابوں کی شدید ضرورت ہے اس پر سید خوئی نے حکم دیا ان کو کتابیں دے دی جائیں اس حکم پر کچھ علماء اٹھے اور کچھ الماریوں کو کھولا اور پلک جھپکتے ہی میرے سامنے  کتابوں کا انبار تھا ۔کچھ نہیں تو ساٹھ ستر دورے رہے ہوں گے ۔ ہر شخص ایک دورہ لے آیا اور سید خوئی نے فرمایا ۔یہ میری طرف سے ہدیہ ہے ! میں نے دیکھاکہ اتنی زیادہ کتابوں کا ہمراہ لے جانا بہت ہی مشکل ہے خصوصا جب کہ میں سعودیہ جارہا ہوں ۔اور سعودی حضرات کیس قسم کی کتاب  اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیتے کہ کہیں ان کے عقائد کے خلاف باتیں لوگوں تک پہونچ جائیں ۔ لیکن میں نے ان کتابوں کے بارےمیں تفریط سے کام لینا چاہا" میں نے تو اپنی زندگی میں ایسی کتابیں نہیں دیکھی تھیں "

۶۰