پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا 15%

پھر میں ہدایت پاگیا مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 253

پھر میں ہدایت پاگیا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 253 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 80004 / ڈاؤنلوڈ: 7853
سائز سائز سائز
پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

 لہذا میں نے دوست منعم اور حاضرین سے کہا میرا راستہ کافی طویل ہے ۔دمشق واردن سے ہوتے ہوئے سعودیہ جانا ہے واپسی میں لمبا سفر ہے میں مصر ولیبیا ہوتا ہوا ٹیونس پہونچوں گا  وزن کی زیاد تی کے علاوہ اکثر حکومتیں اپنے ملک میں کتابیں داخل ہونے دیتیں ۔ اس پر سید خوئی نے کہا : آپ اپنا ایڈریس  ہم کو دیتے جائیے ہم آپ کے پتہ پر بھیجوا دیں گے ۔ یہ رائے مجھے بہت پسندآئی ۔چنانچہ میں انے اپنا شخصی کارڈ جس پر ٹیونس کا پتہ تھا ۔ ان کے حوالہ کردیا ۔اور شکریہ ادا کیا ۔جب رخصت ہوکر چلنے کے لئے کھڑا ہوا تو وہ بھی کھڑے ہوگئے اور فرمایا : میں آپ کے لئے سلامتی کی دعاکرتا ہوں ۔ آپ جب میرے جد کی قبر پر پہونچیں تو میرا سلام کہہ دیں ۔ اس جملہ سے تمام حاضرین متاثر ہوگئے اور میں بھی بہت متاثر ہوا ۔میں نے دیکھا ان کی آنکھیں ڈبڈبا آئی ہیں یہ دیکھ کر میں نے کہا ناممکن ہے کہ یہ لوگ غلطی پر ہوں ۔ناممکن ہے کہ یہ جھوٹے ہوں ۔ ان کی ہیبت ، عظمت ،تواضع بتارہی تھی کہ واقعا یہ شریف خاندان سے ہیں ۔ پھر میں بے اختیار ہوکر معانقہ کرنے کے بجائے ان کے ہاتھوں کو چومنے لگا ۔ میرےکھڑے ہوتے ہی سب لوگ کھڑے ہوگئے اور مجھے سلام کرنے لگے ۔وہ بچے جو مجھ سے مجادلہ کررہے تھے ۔ کچھ ان میں سے میرے ساتھ ہوگئے ۔ اور مجھ سے خط وکتابت کے لئے میرا ایڈریس مانگنے لگے جومیں نے دےدیا ۔

سید خوئی کی مجلس میں جو لوگ بیٹھے تھے ان میں سے ایک کی دعوت پر ہم کو پھر کوفہ جانا پڑا اور یہ  صاحب منعم کے دوست ابو شبر تھے ۔ہم ان کے گھر اترے اور چند مثقف (اپٹوڈیٹ) نوجوانوں کے ساتھ ساری رات ہم لوگوں نے باتوں میں کاٹ دی ۔ ان نوجوانوں میں کچھ  سید محمد باقر الصدر کے شاگرد بھی تھے انھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ سید صدر سے بھی ملاقات کریں ۔ اور انھوں نے اطمینان دلایا کہ اگلے دن ہم ملاقات کرادیں گے ۔ میرے دوست منعم کو بھی یہ تجویز بہت پسند آئی ۔لیکن ان کو اس کا بہت افسوس تھا کہ کہ کسی ضروری کا م کی وجہ سے جو بغداد میں درپیش ہے وہ ہمارے ساتھ باقرالصدر کے یہاں نہ جاسکیں گے ۔ آخر کار ہم لوگ اس

۶۱

بات پر متفق ہوگئے کہ جب تک منعم بغداد سے واپس نہ آجائیں ہم سب ان کے انتظار میں تین چار دن ابو شبر ہی کے مکان میں قیام کریں ۔چنانچہ منعم نماز صبح کے بعد روانہ ہوگئے ۔ اور ہم لوگ سونے کے لئے چلے گئے ۔

یہ واقعہ ہے کہ جب طلاب کے ساتھ میں رات بھرجاگا تھا ۔ ان سے کافی استفادہ کیا اور مجھے اس پر کافی تعجب ہوا کہ حوزہ میں آخر کتنے مختلف قسم کے علوم فنون پڑھائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ یہ طلاب علوم اسلامی مثلا فقہ ، شریعت ، توحید ، کے علاوہ اقتصادیات ، علم الاجتماع ،علم سیاست ،تاریخ ،لغات علوم فلک اور نہ جانے کیا کیا پڑھا کرتے تھے ۔

۶۲

سید باقر الصدر سے ملاقات

سید ابو شبر کےساتھ میں سید محمد باقر الصدر ےکے گھر کی طرف روانہ ہوا ۔راستہ میں انھوں نے مجھے مشہور علماء اور تقلید وغیرہ کے بارے میں بتانا شروع کیا ۔جب سید محمد باقر الصدر کے گھر میں داخل ہوئے دیکھا کہ پورا گھر طلاب علوم دین سے بھرا ہوا ہے زیادہ تر ان میں عمامہ پوش نوجوان تھے ۔ سید محمد باقرالصدر ہمارے احترام میں کھڑے ہوگئے اور سلام کیا ۔سبھوں نے مجھے آگے بڑھادیا ۔ سید محمد صدر نے میری بہت خاطر مدارات کی اپنے بغل میں بیٹھنے کی جگہ دی ، ٹیونس الجزائر اور وہاں کے مشہور علماء کےبارےمیں مجھ سے سوالات کرنےلگے جیسے الخضر حسین ، الطاہر بن عاشور وغیرہ وغیرہ ، مجھے ان کی گفتگو بہت پسند آئی ۔ اس ہیبت واحترام کے باوجود ان کے چہرے  سے عیاں تھا اور جس کا اظہار حاضرین سے ہورہا تھا  میں نے اپنے لئے کوئی زحمت نہیں محسوس کی ۔مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے میں ان کو پہلے سے جانتا ہوں ۔ اس جلسہ سے مجھے کافی فائدہ ہوا ۔کیونکہ طلاب کے سوالات اور سید کے جوابات دونوں کو سن رہاتھا اور اس وقت مجھے زندہ علماء کی تقلید کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ ہوا جو بڑی وضاحت کے ساتھ اور ڈائریکٹ تمام اعتراضات کے جوابات دیتے ہیں ۔ اور مجھے یقین ہوگیا کہ شیعہ بھی مسلمان ہی جو صرف خدا کی عبادت کرتے ہیں ۔ اور محمد(ص) کی رسالت کو مانتے ہیں کیونکہ  کبھی کبھی مجھے شک ہوتا تھا اور شیطان میرے دل میں وسوسہ پیدا کرتا تھا کہ میں نے جو کچھ دیکھا ہے کہیں صرف ایک ڈرامہ نہ ہو۔ جس کو یہ لوگ تقیہ کہتے ہیں ۔۔یعنی جوعقیدہ رکھتے ہیں اس کے برخلاف اظہار کرتے ہیں ۔۔۔۔لیکن یہ شک بہت جلد زائل ہوگیا اور وسوسے ختم ہوگئے کیونکہ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ جتنے بھی لوگوں کو میں نے دیکھا اور سنا ہے (اور ان کی تعداد ہزاروں میں ہے) وہ سب کے سب محض

۶۳

ڈرامہ پیش کرتے ہوں ، اورآخر اس ڈرامہ کی ضرورت کیا ہے ؟ میں ایسا کون سا آدمی ہوں ؟ ان کی نظروں میں میری کیا اہمیت کیوں ہونے لگی کہ یہ میری خاطر تقیہ کرنے لگیں ؟ اور پھر ان کی قدیم کتابیں جو صدیوں پہلے لکھی گئی ہیں ۔ یا نئی کتابیں جو مہینوں پہلے چھپ چکی ہیں سب ہی میں وحدانیت خدا اور ثنائے رسالت ہے جیسا کہ ان کتابوں کے مقدموں میں خود میں نے پڑھا تھا ۔ (پھر ان سب کو کیوں کر تقیہ پر محمول کروں ؟) اور اس وقت میں سید باقر الصدر کے مکان میں ہوں جو عراق وخارج عراق میں مشہور ترین مرجع ہیں  جب بھی ان کی زبان پر نام محمد (ص) آتا ہے تمام حاضرین بیک زبان زور سے کہتے ہیں : اللھم صلی علی محمد وآل محمد ۔

جب نماز کا وقت  آیا تو سب لوگ مسجد میں گئے جو سید کر گھر کے پہلو میں تھی ۔ وہاں سید صدر نے نماز ظہرین باجماعت پڑھائی ۔اور مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے میں صحابہ کرام کے درمیان زندگی کیونکہ ظہر وعصر کے بیچ میں ایک نمازی نے ایسی دعا پڑھی کہ میں جھوم اٹھا اس کی آواز میں جادو تھا ۔ دعا ختم ہونے کے بعد سب نے کہا " اللھم صلی علی محمد وآل محمد " پوری دعا میں خدا کی حمد وثنا تھی پھر محمد وآل محمد  کی تعریف ودرود کا ذکر تھا ۔

سید صدر نماز کے بعد محراب میں بیٹھ گئے اور لوگوں نے چپکے چپکے اور زور زور سے مسائل پوچھنے شروع کردیئے وہ چپکے سے پوچھے گئے سوال  کا جواب آہستہ سے اور زور سے پوچھنے گئے سوال کا جواب زور سے دیتے تھے ۔ سائل کو جب جو اب مل جاتا تھا تو سید کا ہاتھ چوم کر چلا جاتا تھا ۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے پاس ایسا جید عالم ہے جو ان کی مشکلات کو حل کرتا ہے اور انھیں جیسی زندگی بسر کرتا ہے ۔

آخر ہم سید صدر کی بزم وصحبت سے واپس آئے اور اسکی یادآج بھی ہمارے دل میں کسک پید اکرتی ہے ۔سید صدر نے ہمارے ساتھ جو عنایت ومہربانی اور میزبانی فرمائی تھی اس نے قبیلہ خاندان کیا مجھے اپنے اہل عیال کو بھلا دیا تھا  مجھے ان کے حسن اخلاق ،تواضع ،عمدہ معاملہ کی وجہ سے یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اگر ایک ماہ ان کے ساتھ رہ گیا تو شیعہ ہوجاؤں گا

۶۴

وہ جب بھی مجھے دیکھتے تھے مسکراتے تھے اور خود ابتدا بہ سلام کرتے تھے ۔ مجھ سے کہتے تھے کسی چیز کی کمی تو نہیں ہے؟ ان چاردنوں میں صرف سونے کے علاوہ ہر وقت ان کے ساتھ رہتا تھا ۔ان سے ملنے والوں اور ہر طرف سے آنے والے علماء کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔ میں نے وہاں سعودیوں کو دیکھا جب کہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ حجاز میں بھی شیعہ ہوں گے ۔ اسی طرح بحرین ،قطر ،امارات ،لبنان ، سوریہ ،ایران ،افغانستان ، ترکی ،افریقہ ہر جگہ کے علماء آتے تھے اور سید بذات خود ان سے گفتگو فرماتے تھے۔ ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے اورجب وہ جاتے تھے تو خوش وخرم ہوکر جاتے تھے میں یہاں ایک واقعہ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ اور اس میں سید کا فیصلہ سنانا چاہتا ہوں اور اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کاذکر ضروری بھی  تاکہ مسلمانوں کو احساس ہو کہ حکم خدا کو کھو کر انھوں نے کتنا بڑا نقصان اٹھایا ہے ۔

سید صدر کے پاس چار آدمی آئے میرا خیال ہے کہ و ہ سب عراقی تھے کیونکہ ان کا لہجہ چغلی کھارہا تھا ۔ ان میں سے ایک نے اپنے جد(دادا) سے مکان بطور میراث حاصل کیا تھا ۔اور اس مکان کو دوسرے کے ہاتھ بیج ڈالا تھا ۔ خریدار بھی موجود تھا ،بیچنے کے ایک سال بعد دو بھائی آئے اور انھوں نے ثابت کیا کہ میت کے شرعی وارث ہم ہیں لہذا مکان ہمارا ہے ۔چاروں سید کے سامنے بیٹھ گئے اور ہر ایک نے اپنے اپنے کاغذات اور دلائل پیش کئے ۔ سید صدر نے سارے کاغذات پڑھنے کے بعد ان سے گفتگو کی اور پھر چند منٹوں میں فیصلہ دے دیا کہ خریدار کو مکان میں حق تصرف ہے اور مکان اسی کا ہے اور بیچنے والے سے کہا تم نے مکان کی جو قیمت لی ہے وہ ان دونوں بھائیوں کو ان کے حصے کے برابر واپس کردو۔ اور پھر سب سید کا ہاتھ چوم کر روانہ ہوگئے اور آپس میں معانقہ کرنے لگے یہ دیکھ کر میں دہشت زدہ ہوگیا ۔مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ۔میں نے ابو شبر سے پوچھا کیا جھگڑا ختم ہوگیا ؟ اس نے کہا " ہاں ! سب نے اپنا حق لے لیا ۔میں نے کہا ۔ سبحان اللہ ! اتنی آسانی سے اتنے مختصر وقت میں

۶۵

اتنا بڑا جھگڑا ختم ہوگیا ۔ ہمارے یہاں تو کم سے کم دس سال لگ جائے اور اس میں کوئی نہ کوئی مرجاتا ۔ اور پھر یہ چکر ان کی نسلوں میں چلتا ۔ اور محکمہ اور وکیلوں کو جو رقم دی جاتی وہ مکان کی قیمت سے زیادہ نہ بھی ہوتی تو اس مدت میں مکان کے برابر رقم ضرور خرچ ہوجاتی ۔اور پھر محکمہ ابتدائی (کچہری ) سے لے کر محکمہ استئناف(ہائی کورٹ) تک اور پھر جزا وسزا تک زمانہ گزر جاتا اور کمر توڑ اخراجات ،رشوتوں ،خستگی و پریشانیوں کے بعد انجام میں آپس میں عداوت ودشمنی قبیلوں میں بغض وعناد پیدا ہوتا ۔ ابو شبر نے بتایا ہمارے یہاں بھی یہی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ہے ! میں نے پوچھا وہ کیسے ؟ انھوں نے کہا اگر لوگوں نے اپنے مقدمات گورنمنٹ کی عدالت میں پیش کردئیے تو پھر ان کا بھی یہی حشر ہوتا ہے ۔ لیکن جولوگ دینی مرجع کی تقلید کرتے ہیں اور اسلامی احکام کی پابندی کرتے ہیں وہ اپنے جھگڑے صرف مراجع کرام کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ وہ حضرات منٹوں میں فیصلہ کردیتے ہیں ۔جیسا کہ تم نے ابھی دیکھا ۔اور عقلمند قوم کے لئے بھلا اللہ سے بہتر کون حکم کرسکتا ہے ؟ سید صدر نے تو ان سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا ۔لیکن اگر یہ حکومتی عدالتوں میں جاتے تو وہ لوگ ان کے سروں کو بھی ننگا کردیتے (یعنی جسم سے کپڑے اتار لیتے ) اس تعبیر ومحاورہ پر مجھے خوب ہنسی آئی کیونکہ یہ محاورہ ہمارے یہاں بھی آج تک بولا جاتا ہے میں نے کہا سبحان اللہ ! میں اب تک اس جھٹلاتا رہا ۔اور اگر میں نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیا ہوتا تو کبھی بھی باور نہ کرتا ۔ابو شبر نے کہا ۔برادر آپ اسکی تکذیب نہ کریں یہ تو بہت معمولی سا واقعہ ہے دوسرے واقعات جو بہت زیادہ الجھے ہوتے ہیں ۔ جن میں خون بہتاہے ایسے واقعات کا یہ مراجع چند گھنٹوں کے اندر فیصلہ کردیا کرتے ہیں ۔ میں نے تعجب سے کہا: اس کا مطلب یہ ہوا کہ عراق میں دومتوازی حکومتیں ہیں ؟ انھوں نے کہا نہیں نہیں حکومت تو صرف ایک ہی ہے لیکن وہ شیعہ حضرات جو مراجع کی تقلید کرتے ہیں ۔ ان کا حکومت سے کوئی واسطہ نہیں ہے کیونکہ اس وقت کی حکومت بعثی ہے اسلامی حکومت نہیں ہے اس لئے شیعہ حضرات یہاں سکونت کی وجہ سے شہری حقوق ،شخصی حقوق ، ٹیکس ،وغیرہ میں حکومت وقت ہی کے پابند ہیں ۔ لہذا اگر کسی غیر شیعہ سے

۶۶

کوئی جھگڑا ہوجائے تویہ بھی مجبورا اپنا معاملہ گورنمنٹ ہی کی عدالتوں میں پیش کرتے ہیں ۔ کیونکہ غیر شیعہ مسلمان عالم دین کو قاضی بنانے پر راضی نہیں ہوتا لیکن اگر دونوں شیعہ ہوں تو پھر مراجع فیصلہ کرتے ہیں جیسے اگر دونوں غیرشیعہ ہوں تو حتما حکومت کے فیصلہ کو مانتے ہیں ۔ ہمارے یہاں دینی مرجع جو حکم دے دے وہ تمام شیعوں پر نافذ ہوگا ۔ اس لئے جن جگھڑوں کا فیصلہ مرجع کرتا ہے وہ اسی وقت ختم ہوجاتے ہیں ۔جبکہ حکومت کے فیصلے مہینوں کیا سالوں طول پکڑجاتے ہیں ۔یہ ایسی بات تھی جو میرے دل سے چپک گئی کہ ان لوگوں میں احکام الہی پر رضا مندی کا شعور ہے اور خدا کے اس قول کا مطلب سمجھ میں آگیا :

"ومن لم یحکم بما انزالله فاولیک  هم الکافرون ومن لم یحکم بما انزالله فاولیک هم الظالمون ومن لم یحکم بما انزالله فااوالیک هم الفاسقون (پ ۶ س ۵(مائده ) آیت ۴۴،۴۵،۴۷)

ترجمہ :- اور (سمجھ لو) بو شخص خدا  کی نازل کی ہوئی (کتاب) کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں ۔۔۔۔اور جو شخص خدا کی نازل کی ہوئی (کتاب ) کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں ۔ اور جو شخص خدا کی نازل کی ہوئی (کتاب) کے موافق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ بدکار ہیں ۔۔۔۔اسی طرح میرے دل مین ان ظالموں کے لئے نفرت وکینہ پیدا ہوگیا ۔ جو خدا کے مبنی بر انصاف "احکام کے بدلے بشری "مبنی بر ظلم " احکام کو اجرا کرتے ہیں ۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ بڑی بے شرمی وبے حیائی کے ساتھ احکام الہی کامذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں خدائی احکام وحشی وبربری ہیں ۔کیونکہ ان میں اجرائے حدود ہوتا ہے چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے ، زانی کو رجم کردیا جاتا ہے ۔قاتل کو قتل کردیا جاتا ہے ۔ بھلا سوچئے تو یہ اجنبی نظریات کہاں سے آئے ؟ ظاہر ہے یہ سب مغرب کی دین ہے  اور اس دشمنا  ن اسلام کی طرف سے پھیلائے گئے ہیں ۔جن پر اسلامی قوانین کی روسے قتل کا حکم نافذ ہوچکا تھا ۔کیونکہ یہ سب چور ،خائن ،زانی ،مجرم ،قاتل ہیں کاش ان پر احکام الہی نافذ ہوگئے  ہوئے تو آج ہم سکون وچین سے سوتے ۔

۶۷

سید صدر اور میرے درمیان اس دوران مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی اور میں ان سے ہر اس چھوٹی  بڑی  بات کے بارے میں سوال کرتا تھا ۔ جس کو میرے  دوستوں نے شیعوں کے عقائد کے بارے میں مجھ سے بیان کئے تھے اور یہ کہ شیعہ صحابہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں ۔اور اپنے ائمہ کےبارے میں کیا نظریات رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ دیگر وہ چیزیں جو ان کے عقائد کے خلاف تھیں ۔ ان کو نمک مرچ لگا کر مجھ سے بیان کرتے تھے میں نے ایک ایک کرکے سید صدر سے سب کے بارے میں پوچھا ۔

چنانچہ  میں نے ان سے امام علی کےبارے میں پوچھا ۔کہ آپ لوگ آذان میں ان کی ولایت کی گواہی کیوں دیتے ہیں ؟

سید صدر:- حضرت امیر المومنین علی (ع) خدا کے ان بندوں میں تھے جن کو خدا نے منتخب کیا تھا اور ان کو شرف بخشا تھا کہ انبیاء کے بعد مسلسل کار ہائے رسالت کو انجام دیں اور وہی بندے انبیاء کے اوصیاء رہیں ۔ ہر نبی کا ایک وصی تھا اور حضرت علی رسول خدا کے وصی تھے ۔ خدا ورسول کی بیان کردہ فضیلتوں کی بنا پر ہم حضرت علی کو تمام صحابہ پر فضیلت دیتے ہیں ۔اور اس موضوع پر قرآن وحدیث سے نقلی دلیلوں کے ساتھ ہم عقلی دلیلیں بھی رکھتے ہیں اور ان دلیلوں میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ جہاں ہمارے اعتبار سے صحیح ومتواتر ہیں اہل سنت والجماعت کے طریقوں سے بھی صحیح ومتواتر ہیں ۔ہمارے علماء نے اس موضوع پر بہت کتابیں لکھی ہیں اور چونکہ اموی حکومت نے اس حقیقت کو چھپائے اور علی وآل علی سے جنگ کرکے ،ان کو قتل وغارت کرکے ،انتہا یہ ہے کہ مسلمانوں کے منبروں  سے حضرت علی (ع) پر لعنت ۔سب وشتم کراکے اور لوگوں کو اس پر زور وزبردستی سے آمادہ کرکے حضرت علی کانام ونشان مٹا دینا چاہا تھا ۔ اس لئے ان کے شیعہ ان کے ماننے والے والوں نے اذان میں اعلان کرنا شروع کردیا وہ ولی اللہ ہیں اور کسی  بھی مسلمان کے لئے ولی اللہ کو سب وشتم کرناجائز نہیں ہے یہ کام صرف ظالم حکومت کے ارادوں کو ناکام بنانے کے لئے کیاگیا تھا ۔

۶۸

تاکہ عزت خد ا اس کے رسول اور مومنین ہی کے لئے رہے اور تاکہ یہ ایک تاریخی کارنامہ بن جائے جس سے مسلمان نسلا بعد نسل اس بات کا احساس کرتے ہیں کہ علی حق پر تھے اور ان کے دشمن باطل پر تھے ۔

ہمارے فقہا نے شہادت ثالثی (یعنی علی ولی اللہ ) کومستحب کہا ہے نہ کہ واجب کہا ہے ۔ ار نہ اقامت کا جزء کہا ہے ۔ اگر موذن یا اقامت کہنے والا جزء کی نیت سے کہے تو اس کی اذان واقامت باطل ہے اور عبادت و معاملات میں مستحبات توالی مااللہ میں ۔ جن کا شمار بھی ممکن نہیں ہے ۔ اگر کوئی  ان کو بجالاتا ہے تو ثواب ملےگا نہیں بجالاتا ہے تو کوئی عقاب نہیں ہے ۔ مثلا مستحب ہے کہ"اشهد ان لا  اله الا الله وان محمد رسول الله ک ے بعد اشهد ان الجنة حق وان النار حق وان الله یبعث من فی القبور کہے :

میں :- ہمارے علماءنے ہم کو بتایا ہے کہ افضل خلفاء بالتحقیق سیدنا ابو بکر الصدیق ہیں اس کے بعد سیدنا عمر فاروقہ یں ۔اس کے بعد سیدنا عثمان اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنھم اجمعین ہیں ۔؟

سید صدر:- تھوڑی دیر خاموشی رہنے کے بعد بولے :ہر ایک کے منہ میں زبان ہے جس کا جو جی چاہیے کہہ سکتا ہے لیکن ادلہ شرعیہ سے ثابت کرنا مشکل ہے ۔اس کے علاوہ اہل سنت کے معتبر کتابوں میں جو لکھا ہے  یہ قول اس کے صریحی طور سے مخالف ہے کیونکہ ان کی کتابوں میں ہے افضل الناس ابو بکر ہیں اس کے بعد عثمان ان میں حضرت علی کا نام بھی نہیں ہے ان کو تو بازاری لوگوں میں شمار کیا گیا ہے ۔حضرت علی کا نام تو متاخرین علماء نے خلفائے راشدین کے نام کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔

میں:- اس کے بعد میں نے اس سے سجدہ گاہ کےبارے میں پوچھا جس کو یہ حضرات "التربۃ الحسینۃ  کہتے ہیں ۔

سید صدر:- سب سےپہلی بات تو یہ معلوم ہونی چاہئے کہ ہم"مٹی پر سجدہ کرتے ہیں مٹی کو سجد نہیں کرتے

۶۹

جیسا کہ بعض لوگ جو شیعوں کوبدنام کرتے ہیں اس قسم کی شہرت دیتے ہیں ۔سجدہ صرف خداوند عالم ہی کےلئے ہوتا ہے اور شیعہ سنی سب کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ سب سے افضل زمین پر سجدہ کرنا ہے یا جو چیزیں زمین  سے اگتی ہوں ان پر سجدہ کرنا ہے بشرطیکہ کھائی نہ جاتی ہوں ۔ اس کے علاوہ کسی اور چیز پرسجدہ جائز نہیں ہے ۔ رسول اسلام مٹی کا فرش بنالیتے تھے یہ کبھی مٹی اور گھاس پوس  کی سجدہ گاہ بنا لیتے م تھے ۔اور اس پر سجدہ فراتے تھے ۔یہی تعلیم اصحاب کو بھی دی وہ لوگ بھی زمین پر یا سنگریزوں پر سجدہ کرتے تھے ۔ کپڑے کے گوشہ پرسجدہ کرنے سےمنع فرماتے تھے ۔ہمارے یہاں یہ چیزیں بدیہیات میں سے ہے امام زین العابدین  نے اپنے باپ کی قبر سے تھوڑی سی مٹی اٹھالی تھی ۔ اور اسی پرسجدہ کرتے تھے کیونکہ وہ طیب وطاہر مٹی تھی ۔اس پر سید الشہدا کا خون بہاتھا ۔ یہی سیرت آج تک شیعوں میں جاری ہے ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ خاک شفا کرے علاوہ کسی مٹی پرسجدہ جائز ہی نہیں ہے ۔ بلکہ ہم کہتے ہیں ہرپاک مٹی اور پاک پتھر پر سجدہ جائز ہے ۔جیسے چٹائی اور اس سجاد ے پرجائز ہے جو کھجور کی پتیوں سے بنائے گئے ہوں ۔

میں :- سیدنا الحسین (رض) کا ذکر آجانے کی وجہ سے میں نے کہا :- شیعہ کیوں روتے ہیں ؟ اور کیوں منہ پر طمانچہ مارتے ہیں ؟ اور اتنا اپنے کو مارتے ہیں کہ خون بہتے لگتا ہے ۔یہ تو اسلام میں حرام ہے کیونکہ رسول اکرم کا ارشاد ہے :جو منہ پر طمانچہ مارے اور گریباں چاک کرے جاہلیت کے دعوے کرے کوہ ہم میں سے نہیں ہے !

سید صدر:- حدیث تو صحیح ہے لیکن امام حسین (ع) کے ماتم پر منطبق نہیں ہوتی کیونکہ جوخون حسین کا انتقام لینے کا اعلان کرے حسین کے راستہ پر چلے،وہ جاہلیت کا دعوی نہیں کرسکتا اس کے علاوہ شیعہ انسان ہیں ان میں عالم بھی ہیں اور جاہل بھی ہیں ۔ان کے بھی احساسات ہیں ۔ جب امام حسین اور ان کے اہل وعیال ،اصحاب وانصار کے قتل ، ہتک حرمت ، اسیری کا تذکرہ سنتے ہیں تو ان کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں ۔ اس پر وہ لائق اجر ہیں کیونکہ ان کی نیتیں سب فی سبیل اللہ ہیں ۔

۷۰

اور خدا اپنے بندوں کی ان نیتوں پرجزادیتا ہے ۔ خود میں نے چند ہفتے قبل مصری حکومت کی رسمی تقریروں کو جو جمال عبدالناصر کی موت پر نشر کی گئی تھیں ۔سنا ہے اس میں کہا گیا تھا کہ جب جمال عبدالناصر کی موت کی خبر نشر ہوئی ہے تو آٹھ آدمیوں نے خود کشی کرلی تھی ۔ کچھ نے اپنے کو چھت کے اوپر سے گرادیا تھا ۔ کچھ لوگ ریل کے نیچے آکر کٹ گئے تھے ۔ وغیرہ وغیرہ  زخمی اور دیوار ہوجانے والے اس کے علاوہ تھے ۔ اس قسم کے واقعات بہت ہیں ۔ جو صاحبان عواطف( جذباتی حضرات) کو درپیش آتے ہیں ۔ تو جب مسلمان جمال الدین عبدالناصر کی موت پر اپنے کو ہلاک کرسکتے ہیں ۔حالانکہ جمال عبدالناصر کی موت طبعی وفطری تھی ۔  تو کیا ہم شیعوں کویہ حق نہیں ہے کہ ہم اہل سنت کے بارے میں حکم لگائیں کہ وہ امام حسین پر گریہ کرنے کے سلسلے میں غلطی پر ہیں ۔ کیونکہ انھوں نے امام حسین کے عاشور کے مصائب ہی سننے میں زندگی کاٹ دی ہے ۔ اورآج تک مصائب ہی کی زندگی بسرکرتے چلے آرہے ہیں ۔ امام حسین پر تو خود رسول خدا روئے ہیں ۔ اور ان کے رونے پرجبرائیل رونے لگے ہیں تو کیا رسول کو غلط کہا جاسکتا ہے ؟

میں :- شیعہ حضرات اپنے اولیاء کے قبور پر سونے چاندی کے نقش ونگار کیوں بناتے ہیں ۔ جب کہ اسلام نے حرام قرار دیا ہے ؟

سید صدر:-یہ بات شیعوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے اور نہ حرام ہے برادران اہلسنت کی مسجدیں خواہ وہ عراق میں ہوں یا مصرمیں یا ترکی میں میں یا کسی اور اسلامی ملک یمں ہر جگہ ان میں سونے چاندی کے نقش ونگار بنائے جاتے ہیں ۔ اسی طرح مدینہ میں مسجد رسول بھی ہے مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ پر ہر سال ایسا غلاف چڑھاتے ہیں ۔ جس پر سونے سے نقش ونگار اورآیات کندہ ہوتی ہیں اور کروڑوں درہم خرچ ہوتا ہے یہ بات شیعوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے ۔

(این گناہی است کہ در شہر شما نیز کنند)

میں :- سعودی علماء کہتے ہیں ۔قبروں کا مس کرنا صالحین سے دعا کرنا ان سے حصول برکت کرنا

۷۱

یہ سب شرک آپ کی کیا رائے ہے ؟

سید صدر:- اگر قبروں کو اس نیت سے مس کرنا (چومنا) اور صالحین سے یہ سمجھ کر دعا کرنا  کہ یہ نفع وضرر پہونچاتے ہیں تب تو یہ شرک ہے اس میں دورائے نہیں ہیں ۔ مسلمان موحد ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ صرف خدا ہی نفع وضرر پہونچاتا ہے ۔ مسلمان اولیاء یا ائمہ (علیھم السلام )سے دعا اس لئے کرتا ہے کہ یہ حضرات خدا کی بارگاہ میں اس کے لئے وسیلہ بن جائیں ۔ اور یہ شرک نہیں ہے ۔اور اس بات پر تمام مسلمان  چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی رسول خدا کے زمانہ سےآج تک متفق ہیں ۔ سوائے وہابیوں کے یعنی سعودی علماء کے جن کا آپ نے ذکر کیا ۔اور جو اپنے جدید مذہب سے جو اسی صدی کی پیداوار ہے ۔مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت کرتے ہیں ۔ ان لوگوں نے اپنے اعتقادات کے ذریعے سارے مسلمانوں میں فتنہ کا بیچ بودیا اور تمام مسلمانوں کو کافر قراردیدیا ہے ۔ان کا خون مباح قراردیدیا ۔ یہی وہ لوگ ہیں ۔جو بوڑھے جاجیوں کو صرف اس حکم پر اندھا دھند پیٹتے ہیں کہ وہ بیچارے جوش عقیدت میں کہتے ہیں : السلام علیک یا رسول اللہ" آنحضرت کی ضریح مقدس کو چومنے نہیں دیتے ۔ان لوگوں نے ہمارے علماء سے کئی مناظرے بھی کئے لیکن سب میں اپنی ہٹ دھرمی پر باقی رہے ۔

جناب سید شرف الدین ۔۔جو ایک شیعہ عالم تھے ۔۔۔جب عبدالعزیز آل سعود کے زمانہ میں حج سے مشرف ہوئے تو عید الاضحی کی تہنیت کے سلسلہ میں حسب معمول قصر ملک میں جن علماء کو دعوت دی گئی ان میں یہ بھی تھے ۔ جب ان کی باری آئی اور شاہ عبدالعزیز سے مصافحہ کیا تو شاہ کو ایک تحفہ پیش کیا ۔۔۔ وہ تحفہ قرآن تھا جو کھال کے غلاف کے اندر تھا۔۔۔۔۔ بادشاہ نے لے کر فورا احتراما اپنے سرپر رکھا اور چوما ۔ جناب سید شرف الدین نے اسی وقت کہا : اے بادشاہ !آپ اس جلد کو کیون چوم رہے ہیں ؟ اور اس کا کیوں احترام کررہے ہیں یہ تو بکری کی کھال ہے ؟ بادشاہ نے کہا :- میرا ارادہ اس قرآن کا ہے جو اس

۷۲

جلد(کھال) کے اندر ہے میں اس غلاف کی تعظیم نہیں کررہا ہوں ! سید شرف الدین نے فرمایا:احسنت ایها الملک" ہم لوگ بھی جب حجرہ نبوی کی کھڑکی  یا دروازے کو چومتے ہیں تو ہمارا مقصد کھڑکی یا دروازے کا احترام نہیں ہوتا ۔کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ یہ لوہے کا ہے نہ نفع پہونچا سکتا ہے نہ ضرر ! ہم ان لکڑیوں اور اس لوہے کے پیچھے جوذات ہے اس کی یعنی رسول اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی تعظیم کرتے ہیں ۔ جیسے غلاف کے احترام سے آپ کا مقصد قرآن کا احترام ہوتاہے ۔ اتنا کہنا تھا کہ سارے حاضرین نے خوش ہوکر نعرہ تکبیر بلند کی اور سب نے یک زبان ہو کر کہا :تم نے سچ کہا ! بادشاہ اس وقت مجبور ہوگیا اور اس نے حکم دیا کہ تمام حجاج کرام رسو لخدا (ص) کے آثار کو تبرک کے طور پر بوسہ دے سکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ جب اس کے بعد دوسرا بادشاہ آیا تو اس نے پہلے والا طریقہ رائج کردیا ۔

قصہ لوگوں کے مشرک ہوجانے کا نہیں ہے ،قصہ سیاسی ہے جس کابنیادی مقصد مسلمانوں کی مخالفت  ان کو قتل کرنا ہے ۔ تاکہ اس راستہ سے ان کا ملک ان کی سلطنت مضبوط ہوجائے  ان لوگوں نے امت محمدیہ کے ساتھ جوکچھ بھی کیا ہے اس کا سب سے بڑا گواہ تاریخ ہے ۔

میں :- پھر میں نے صوفیت کے بارے میں پوچھا ۔

سید صدر:-نے مختصرا جواب دیا : اس میں کچھ پہلو اچھے ہیں اور کچھ اچھے نہیں ہیں ۔ اچھے پہلو! مثلا تربیت نفس ،نفس کو سخت زندگی کا عادی بنانا لذت دنیا سے کنارہ کشی، عالم ارواح کی طرف بلند پروازی وغیرہ ۔برے پہلو! گوشہ نشینی ،حقیقی زندگی سے فرار ،چند لفظی اعداد کے اندر ذکر خدا کو محدود کر دینا وغیرہ وغیرہ ۔اور اسلام (جیسا کہ سب ہی جانتے ہیں ) اچھے پہلوؤں کو قبول کرتا ہے ۔سلبی چیزوں کو ناپسند کرتا ہے ۔مجھے کہنے دیجئے کہ اسلام کے تمام مبادی اور تعلیمات ایجابی ہیں ۔ سلبی نہیں ہیں !

۷۳

حیرت وشک

اس میں شک نہیں کہ سید محمد باقر الصد ر کے جوابات واضح اور قانع کرنے والے تھے ۔لیکن مجھ جیسا شخص جس نے اپنی عمر کے ۲۵ سال تقدیس واحترام صحابہ کے ماحول میں گزارے ہوں خصوصا جس کے رگ وپے میں ان خلفائے راشدین کی محبت وعظمت سرایت کرچکی ہو جن کی سنت سے تمسک کرنے اور جن کے راستہ پر چلنے کی رسول خدا نے تاکید کردی ہو ۔ اور ان خلفاء میں بھی سرفہرست سیدنا ابو بکر وسیدنا عمرالفاروق ہوں ۔ اس کے دل ودماغ میں سید صدر کی باتیں کیسے اثرانداز ہوتیں ؟ میں نے جب سے عراق کی زمین پر قدم رکھا ہے سیدنا ابو بکر وعمر کانام سننے کے لئے میرے کان ترس گئے ہیں ۔ البتہ  ان کے بدلے ایسے عجیب وغریب نام اور امور سننے میں آتے رہے ہیں ۔ جن سے میں بالکل ہی ناواقف ہوں ۔(مثلا)بارہ اماموں کے نام ۔ اور یہ دعوی کہ امام علی کے لئے رسول اللہ نے مرنے سے پہلے نص کردی تھی ۔(وغیرہ وغیرہ) بھلا میں اس بات کو کیونکر مان سکتا ہوں کہ تمام مسلمان یعنی صحابہ کرام جو رسول اللہ کے بعد خیرالبشر تھے وہ سب  کے سب کیسے امام علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف متفق ہوگئے تھے ۔؟ حالانکہ ہم کو تو گہوارہ ہی سے یہ سیکھا یا جاتا ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنھم امام علی کا احترام کرتے تھے ۔ ان کے حق پہچانتے تے ۔کیونکہ آپ فاطمہ الزہرا (س) کے شوہر حسن وحسین (ع) کے باپ تھے ۔ باب مدینۃ العلم تھے ۔ جیسے کہ خود سیدنا علی علیہ السلام ابو بکر صدیق کے حق کو پہچانتے تھے جو سب سے پہلے مسلمان ،رسول اللہ کے غار کے ساتھی تھے جیسا کہ خود قران نے ذکر کیا ہے ۔رسول خدا نے اپنے مرض الموت میں نماز کی امامت بھی صدیق کے حوالہ کردی تھی ۔ اور فرمایا تھا : میں اگر کسی کو خلیل بناتا  تو وہ ابو بکر ہوتے اور انھیں اسباب کی بنا پر مسلمانوں نے ان کو اپن خلیفہ چن لیا تھا ۔

۷۴

اسی طرح امام علی سیدنا عمر کے حق کو بھی پہچانتے تھے جن کے ذریعہ خدا نے اسلام کو عزت بخشی ۔اور رسول اکرم نے ان کا نام فاروق (حق وباطل میں فرق کرنے والا) رکھا ۔ اسی طرح حضرت امام علی سیدنا عثمان کے حق کو بھی پہچانتے تھے جن سے ملائکہ رحمان حیا کرتے تھے ۔ اور جنھوں نے جیش العسرہ کوسازوسامان سے آراستہ کیا تھا ۔ جن کا نام رسول اللہ نے ذوالنورین رکھا تھا آخر یہ ہمارے شیعہ بھائی ان باتوں سے کیونکر جاہل ہیں ؟ یا پھر یہ لوگ تجاہل عارفانہ  کرتے ہیں اور ان لوگوں کو ایسے عام آدمی خیال کرتے ہیں جن کو خواہشات اور طمع دنیا حق کی پیروی سے باز رکھ سکتی ہے اور یہ لوگ رسول خدا کی وفات کے بعد ان کی نافرمانی کرنے لگتے ہیں ۔حالانکہ یہ وہی لوگ تو ہیں جو رسول کے احکام کی تعمیل میں ایک دوسرے پر سبقت لےجانے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔ عزت اسلام ونصرت حق کی خاطر اپنے آباء اولاد ،خاندان تک کو قتل کردیا کرتے  تھے ۔ انھیں میں ایسے بھی تھے جو رسول کی اطاعت کے لئے اپنے باپ اور بیٹے کو قتل کریتے تھے ۔ناممکن ہے کہ طمع دنیا ( حصول تخت خلافت) ان کو دھوکہ دے سکے اور یہ رسول کے بعد ان کی باتوں کو پس پشت ڈالدیں ۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ نہیں نہیں ناممکن ہے ۔ انھیں تصورات  وخیالات  کی بنا پر میں شیعوں کی ہر بات نہیں مانتا تھا ۔اگر چہ بہت سی باتوں پر میں قانع ہوچکا تھا ۔میں شک وحیرت میں پڑگیا ۔شک تو اس وجہ سے جو علمائے شیعہ نے میری عقل میں ڈال دیا تھا کیونکہ ان کا کلام معقول ومنطقی ہوتا ہے ۔ اور جس حیرت میں میں ڈوب گیا وہ یہ تھی کہ میرے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ صحابہ کرام (رض) کیا اس بد اخلاقی کے درجہ تک گر سکتے ہیں کہ ہماری طرح کے عادی انسان بن جائیں گے کہ نہ تو رسالت ان پر صیقل کرسکے اور نہ ہدایت محمدی ان کو مہذب بنا سکی ؟ اہم بات تو یہ ہے کہ یہی شک وحیرت کمزوری کی ابتدا اور اس بات کے اعتراف کا سبب بن گئی کہ دال میں کالا ضرور ہے جس کی تحقیق حقیقت تک پہونچنے کے لئے ضروری ہے ۔

۷۵

ہمار دوست منعم آگیا تھا اور ہم لوگ عازم کربلا ہوگئے ۔وہاں پر ہم نے سیدنا الحسین کی محنتوں کا اندازہ اس طرح لگا یا جس طرح شیعہ لگاتے ہیں ۔ وہا ں جاکر ہم کو پتہ چلا کہ سیدنا الحسین مرے نہیں ہیں ان کی ضریح کے ارد گررد لوگوں کاہجوم اور پروانوں کی طرح  گرنا ،تڑپ تڑپ کر رونا یہ سب ایسی باتیں تھیں کہ ہم نے اس کا مثل دیکھا ہی نہیں تھا ۔معلوم یہ ہوتا تھا ۔ کہ جیسے حسین ابھی شہید ہوے ہیں ۔ میں نے خطبیبوں کو دیکھا منبروں سے حادثہ کربلا کو نوحہ وزاری کے ساتھ ان طرح بیان کر رہے تھے کہ سننے والا اپنے دل پر قابو رکھ ہی نہیں سکتا تھا ۔ پھوٹ پھوٹ کر رونے پر مجبور تھا ۔ اور پھر میں بھی رونے لگا بے تحاشا رونے لگا ۔ عنان صبر ہاتھوں سے چھوٹ گئی انپے نفس کو آزاد کردیا کہ دل بھر کر رولے ۔ اور جب میں چپ ہو تو مجھے ایسی روحانی راحت ملی ہے کہ جس سے میں اس کے قبل تک نا آشنا تھا ۔گویا پہلے میں حسین کے دشمنوں کی صف میں تھا اور اب دفعۃ ان کے ان اصحاب وانصار میں شامل ہوگیا جو اپنی جان فدا کرنے پر تیار تھے ۔ خطیب حر کا قصہ بیان کررہا تھا۔ یہ بھی پہلے ان فوجی سرداروں میں تھے جو حسین (ع) سے جنگ کے لئے آئے تھے لیکن (عاشورکے دن) میدان جنگ میں شاخ نخل کی طرح کانپ رہے تھے اور جب ان کے کسی ساتھی نے پوچھا ۔کیا تم موت سے ڈر رہے ہو؟ تو حر(رح) نے کہا  نہیں خدا کی قسم نہیں ۔ بلکہ میں اپنے کو جنت ودوزخ کے بیچ میں پارہا ہوں یہ کہہ کر گھوڑے کر ایز لگائی اور حسین(ع) کی خدمت میں پہونچ کر کہنے لگے ۔فرزند رسول کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟۔۔۔۔اتنا سنتے ہی میں زمین پر گر کر بچھاڑ کھانے لگا گویا میں حر ہوں  اور حسین سے کہہ رہا ہوں فرزند رسول(ع) کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ فرزند رسول مجھے معاف کردیجئے ۔خطیب کی آواز بہت اثر انگیز تھی ۔لوگ ڈھاڑھیں مار مار کر رونے لگے ۔ اسی وقت میرا دوست میری چیخ کی آواز سن کر متوجہ ہو ا اور روتاہوا مجھ پر جھک پڑا اور مجھے سینے سے اس طرح چمٹالیا ۔جیسے ماں بچہ کو چمٹا لیتی ہے اور بار بار کہہ رہا تھا یا حسین یا حسین (ع) وہ چند لمحے ایسے تھے جس میں میں حقیقی گریہ کا مطلب میری سمجھ میں آیا ۔ اور میں نے محسوس کیا جیسے میرے آنسوؤں  نے میرے قلب اور اندر سےمیرے پورے جسم کو دھودیا ۔

۷۶

اور رسول کی اس حدیث کا مطلب سمجھا! جو میں جانتا ہوں اگر تم جان لیتے تو بہت کم ہنستے زیادہ تر روتے !

تمام دن میں دل گرفتہ رہا ۔میرے دوست نے بہت ہی تسلی وتشفی دی بعض مرطبات کھانے کو لا کردئیے مگر سب بیکار ۔میری اشتہاء ختم ہوچکی تھی ۔ میں انے اپنے دوست سے کہا ۔ مقتل حسین کا قصہ مجھ کو سناؤ کیونکہ واقعات کربلا کے بارے میں نہ زیادہ نہ کم مجھے کچھ بھی معلوم نہیں تھا صرف اتنا جانتا تھا کہ جب ہمارے بزرگ اس کا ذکر کرتے تھے تو کہتے تھے ۔جن دشمنان اسلام ومنافقین نے سید نا عمر ،سیدنا عثمان کو قتل کیا اور سیدنا علی کو شہید کیا انھیں نے سیدنا (امام ) حسین کو بھی شہید کرڈالا۔اس سے زیادہ ہم کو کچھ بھی نہیں معلوم تھا ۔ بلکہ ہم تو عاشورا کے دن کو ایک اسلامی عید کے عنوان ے مناتے تھے ۔اس دن زکاۃ نکالی جاتی ہے قسم قسم کےکھانے پکائے جاتے ہیں ۔اشتہاء بڑھانے والی غذائیں تیارکی جاتی ہیں ۔ چھوٹے بڑوں کے پاس عیدی مانگنے جاتے ہیں ۔ تاکہ اس عیدی سے کھانے پینے اور کھیلنے کی چیزیں خریدی جاسکیں ۔

یہ صحیح ہے کہ بعض دیہاتوں میں کچھ تقلیدی اور رسمی امور پائے جاتے تھے مثلا وہ (عاشورکو) آگ روشن کرتے تھے ۔اس دن کوئی کام نہیں کرتے تھے ۔نہ شادی بیاہ کی رسم انجام دیتے تھے ۔ نہ خوشی مناتے تھے ۔ لیکن ہم لوگ اس کو"عادت ورسم" کہہ کر ٹال دیا کرتے تھے ۔ ہمارے علماء عاشورا کے فضائل میں اس دن رحمتوں وبرکتوں کے بارے میں حدیثیں سنایا کرتے تھے ۔یہ بھی ایک عجیب بات ہے ۔

یہاں (حرم امام حسین ع) سے ہم لوگ حسین (ع) بھائی (جناب ) عباس کی ضریح کی زیارت کے لئے گئے مجھے تو خیر نہیں معلوم تھا کہ یہ کون ہیں؟ لیکن میرے دوست نے ان کی شجاعت وبہادری کا قصہ سنایا تھا ۔ متعدد وعلماء وافاضل سے بھی ہم نے ملاقات کی مگر مجھے کسی کا نام یاد نہیں ہے ۔ ہاں بعض کے القاب یاد ہیں ۔ جیسے بحرالعلوم السید الحکیم ،کاشف الغطاء ،آل یسین طباطبائی ، فیروز آبادی ،اسد حیدر وغیرہ ۔

۷۷

اور حق یہ ہے کہ  یہ بڑے تقوی والے علماء ہیں ۔ ان کے چہرے پر رعب وجلال ہے ۔ شیعہ ان کا بہت احترام کرتے ہیں ۔اپنے مال کا خمس ا ن کو لاکر دیتے ہیں ۔ اور یہ علماء انھیں رقوم س حوزات علمیہ کی ادارت  کرتے ہیں ۔ مدارس بنواتے ہیں ۔ چھاپہ خانے لگواتے ہیں ،ہر اسلامی ملک سے آنے والے طالب علموں کا خرچ اسی سے دیتے ہیں ، یہ لوگ خود مستقل ہوتے ہیں حکام وقت سے دور یا نزدیک کا کوئی رابطہ نہیں رکھتے یہ ہمارے علماء کی طرح نہیں ہیں کہ جو فتوی تو فتوی گفتگو بھی اس حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں کرتے جو ان کوتنخواہ  دیتی ہے اور جب چاہتی ہے تقرر کرتی ہے ۔اور جب چاہتی ہے معزول کردیتی ہے ۔

میرے لئے تویہ نئی دنیا تھی جس کا (کولمبس کی طرح) میں نے پتہ لگا یا  خدانے میرے لئے انکشاف کردیا تھا ۔ اس دنیا سے نفرت کے بعد میں مانوس ہوچکا تھا ۔ عداوت کے بعد اس سے محبت کرنے لگاتھا ۔ اس دنیا نے مجھے نئے نئے افکار دیئے تھے ۔میرے دل میں اطلاع ۔ بحث ،تلاش ،جستجو کی محبت پیدا کردی تھی ۔تاکہ اپنی گمشدہ حقیقت کو پالوں جس نے میرے خیالات میں اس وقت ہلچل پیدا کردی تھی جب  میں نے یہ حدیث پڑھتی تھی کہ بنی اسرائیل اکہتر ۷۱ فرقوں میں بٹ گئے تھے اور نصاری ۷۲ بہتر میں میری امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوجائےگی ۔ایک کے علاوہ سب ہی جہنمی ہوں گے ۔

ادیان متعددہ کے بارے میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے کو بر حق اور دوسرے کا باطل پر سمجھتا ہے ۔لیکن جب میں اس حدیث کو پڑھتا ہوں تو متحیر ہوجاتا ہوں ۔ میرا تبحر  صرف حدیث پر نہیں ہے بلکہ ان مسلمانوں پر بھی ہے جو اس حدیث کو پڑھتے ہیں ، اپنے خطبوں میں تکرار کرتے ہیں ہیں اور بغیر کسی تحلیل کے گزر جاتے ہیں اور مدلول حدیث سے بحث ہی نہیں کرتے جس سے فرقہ "ناجیہ" کا پتہ چل سکے ۔

تعجب خیز بات یہ ہے کہ ہر فرقہ دعوی کرتا ہے کہ صرف وہی "فرقہ ناجیہ " ہے حدیث کے آخر میں یہ بھی ہے لوگوں نے پوچھا وہ کون ہیں یا رسول اللہ ؟ فرمایا ! وہ لوگ مراد ہیں جو اسی راستہ پر ہوں گے جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں اب آپ ہی بتا ئیے کیا کوئی ایسا فرقہ ہے جو کتاب وسنت سے متمسک ہو؟

۷۸

یا کوئی ایسا اسلامی فرقہ ہے جو اس کے علاوہ کسی اور چیز کا مدعی ہو؟ اگر امام مالک یا ابو حنیفہ یا امام شافعی یا احمد بن حنبل سے پوچھا جائے تو کیا ان میں سے کوئی قرآن صحیحہ سے تمسک کے علاوہ کچھ اور کہہ سکتا ہے ۔؟

یہ تو سنیو ک فرق ہی اب انہی ک ساتہ اگر شیعہ فرقو کو جن کو می ہمیشہ فاسد العقیدہ اور منحرف سمجہا کرتا تہا   بہی شامل  کرلیا جائ تو یہ حضرات بہی مدعی ہی کہ ہم بہی قرآن اور سنت صحیحہ  س متمسک ہی جو اہل بیت طاہرین س منقول ہ  اور ان کا کہنا ہ گہر وال گہر کی بات زیادہ بہتر جانت ہی تو ایسی صورت می کیا یہ سب ک سب حق پر ہوسکت ہی ؟ ناممکن ہ کیونکہ حدیث شریف صرف ایک کو حق پر بتاتی ہ ہا سب ہی کا حق پر ہونا اس وقت ممکن ہ جب حدیث جعلی وجہوی مان لی جائ اور یہ اس لئ ناممکن ہ کہ حدیث سنی وشیعہ دونو ک یہا متواتر ہ یا یہ مان لیا جائ کہ حدیث کا نہ کوئی مدلول ہ نہ کوئی مطلب ؟ لیکن استغفراللہ جو رسول اپنی طرف س کچہ کہتاہی نہ ہو  جس کی تمام حدیثی حکمت وعبرت ہو وہ کوئی ایسی بات کیونکر کہہ سکتا ہ جس ک مدلول ومعنی ہی نہ ہو  اس لئ ہمار سامن اس بات ک علاوہ کوئی چارہ نہی ہ کہ ہم یہ تسلیم کرلی کہ صرف ایک ہی فرقہ جتنی ہ اور حق پر ہ باقی سب باطل پر ہی یہ حدیث جس طرح حیرت می ال دیتی ہ اسی طرح نجات چاہن وال کو تلاش حق پر مجبور کردیتی ہ یہی وجہ ہ کہ شیعو س ملاقات ک بعد میر اوپر حیرتو کا پہا و پا اور اندرونی طور س می مذبذب ہوگیا ہوسکتا ہ انہی کی بات حق ہو ممکن ہ کہ یہی سچ کہت ہو ؟ لہذا  می خود ہی کیو نہ تحقیق کرالو  تاکہ دودہ کا دودہ پانی پانی جدا ہوجائ اور خود اسلام ن اپن قرآن وسنت ک ذریعہ حکم دیا ہ کہ بحث وفحص ،تفتیش وتحقیق س کام لیا جائ قرآن کا ارشاد ہ ے "والذین جاهدوا فینا لنهدینم سبلنا " (پ ۲۱ س ۲۹ (عنکبوت) آیت آخری)اور جن لوگو ن ہماری راہ می جہاد کیا انہی ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کری گ دوسری جگہ ارشاد ہ : الذین یستمعون القول فیتبعون احسنه اولئک الذین هداهم الله

۷۹

والئک هم اولوالالباب (پ ۲۳ س ۳۹ (الزمر ) آیت ۱۸)

ترجمہ:- جو لوگ بات کو جی لگا کر سنتے ہیں اور پھر ان میں سے اچھی بات پر عمل کرتے ہیں یہی لوگ وہ ہیں ۔جن کی خدا نے ہدایت کی اور یہی عقلمند ہیں ۔۔۔۔ خود رسول اکرم (ص) نے فرماایا :-" اپنے دین کے بارےمیں اس طرح بحث کر کہ لوگ تم کو دیوانہ کہنے لگیں "۔ لہذا بحث و فحص ہر مکلف پر شرعی واجب ہے ۔

اس عہد وپیمان اور سچے ارادے کے ساتھ عراق کےاپنے شیعہ دوستوں سے رخصت ہوا ان سے معانقہ کرکے رخصت ہوتے ہوئے مجھے بہت افسوس ہورہا تھا ۔کیونکہ میں نے بھی ان سے محبت کی تھی ۔اور انھوں نے بھی دل سے مجھے چاہا تھا ۔ میں ایسے عزیز دوستوں کو چھوڑ رہا تھا جنھوں نے میرے ساتھ خلوص کا برتاؤ  کیا میرے لئے اپنے وقت کی قربانی دی کسی اور وجہ سے نہیں "جیسا کہ خود انھوں نے کہا ہم کسی خوف یا لالچ سے ایسا نہیں کررہے ہیں بلکہ صرف رضائے خدا کے لئے! کیونکہ حدیث میں ہے : اگر خدا تیری وجہ سے ایک شخص کو ہدایت کردے تو وہ پوری دنیا سے بہتر ہے ۔"

شیعوں کے وطن اور ان کے ائمہ کے عتبات عالیات کے شہر عراق سے بیس دن قیام کرکے وداع ہورہا تھا ۔ اور یہ بیس دن اس طرح گزرگئے جیسے کوئی لذیذ خواب دیکھنے والے کی تمنا ہوکہ خواب پورا کئے بغیر بیدار نہ ہو ۔ عراق کو مختصر سی مدت کے بعد چھوڑا جس پر افسوس رہا ۔ عراق میں ان قلوب کو چھوڑا جو محبت اہل بیت پر دھڑکتے ہیں ۔اور وہاں سے بیت اللہ الحرام وقبر سیدالاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ الطیبن والطاہرین کی زیارت کے ارادہ سے حجاز کے لئے روانہ ہوگیا ۔

۸۰

سفر حجاز

جدہ پہونچ کر میں اپنے دوست بشیر سے ملا جو میرے آنے سے بیحد خوش ہوگیا تھا ۔ فورا اپنےگھر لےگیا اور میرا بہت اکرام کیا : فرصت کے اوقات میں ہم کو اپنی گاڑی سے تفریح گاہوں ،مزارات وغیرہ گھماتا تھا ۔ ہم دونوں ایک ساتھ عمرہ کرنے گئے اور چند دن (دنیا ومافیھا کو بھول کر) صرف عبادت وتقوی میں غرق رہے ۔ میں نےاپنے دوست سے عراق چلے جانے کی وجہ سے جو ملاقات میں تاخیر ہوگئی تھی ۔ اس کی معذرت چاہی اور انکشاف جدید یا فتح کا تذکرہ بھی کیا ۔ اس نے بہت کھلے دل سے سب کچھ سنا ۔اور اس کو کچھ حالات پر اطلاع بھی تھی ۔ چنانچہ اس نے مجھ سے کہا : میں نے سنا ہے کہ آج کل (بھی) ان میں بہت بڑے بڑے علماء ہیں اور جو باتیں وہ کہتے ہیں ان کے یہاں ہیں ۔ بس ان متعدد فرقے ہیں جو کافر ومنحرف ہیں ۔ہر سال حج کے زمانہ میں میں ہمارے لئے مشکلات پیدا کردیتے ہیں  میں نے پوچھا :- وہ کون سے مشکلات ہیں جو یہ لوگ پیدا کردیتے ہیں ۔ ؟ اس نےکہا : قبروں کے ارد گرد نمازیں پڑھتے ہیں ۔ بقیع میں گروہ درگروہ داخل ہوتے ہیں ۔روتے پیٹتے ہیں اپنی جیبوں  میں پتھر کے ٹکڑے رکھے رہتے ہیں اس پر سجدہ کرتے ہیں اور جب سید نا حمزہ کی قبر پر پہونچتے ہیں تو سروسینہ پیٹتے ہیں ۔ایسا غل غپاڑہ مچاتے ہیں جیسے اسی وقت وہ مرتے ہیں ۔ انھیں تمام باتوں کی وجہ سے سعودی حکومت نے ان کے مزاروں میں داخلہ پر پابندی لگادی تھی !

میں نے مسکراتے ہوئے کہا کیا  اسی لئے آپ لوگ ان کو اسلام سے منحرف کہتے ہیں ؟ اس نے کہا یہ اور اس کے علاوہ بھی ! یہ آتے تو زیارت رسول کے لئے ہیں لیکن رسول کی زیارت کے بجائے کھڑے ہو کر عمر وابو بکر کو گالیاں دیتے ہیں ان پر لعنت کرتے ہیں ۔ بعض تو ایسے (بے ہودہ )ہوتے ہیں جو ابو بکر وعمر کی قبروں پر غلاظت ونجاست ڈال دیتے ہیں ۔۔۔۔ اس سے مجھے اپنے والد ماجد کی بات

۸۱

یادآگئی کہ جب وہ حج سے پلٹے تھے ۔ تو انھوں نے بھی یہی بات کہی تھی ۔ لیکن انھوں نے کہا تھا کہ

نبی کی قبر پر گندگی ڈال دیتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ میرے والد نے خود اپنی آنکھوں سے تو دیکھا نہیں تھا صرف سنا تھا ۔کیونکہ ان کا بیان اس طرح تھا : ہم نے سعودی سپاہیوں کو دیکھا کہ وہ بعض حاجیوں کو لاٹھی سے ماررہے ہیں ۔جب ہم لوگ نے اس پر اعتراض کیا کہ یہ حجاج بیت اللہ کی توہین ہے !

تو انھوں نے کہا ارے یہ مسلمان نہیں ہیں ۔یہ شیعہ ہیں جو غلاظتوں کو لے کر آئے تھے کہ قبر رسول پر ڈال دیں ! اس پر ہم لوگوں نے بھی ان پر لعنت کی اور ان پر تھوکا !

اوراب میں اپنے اس ساتھی سے جو سعودی ہے " مدینہ منورہ" میں پیدا ہوا ہے یہ سن رہاہوں کہ یہ لوگ قبر رسول کی زیارت کرنے آتے ہیں اور غلاضتوں کو ابو بکر وعمر کی قبروں پر ڈالتے ہیں ۔مجھے دونوں روایتوں میں شک ہے کیونکہ میں نے خود حج کیا ہے اور دیکھا ہے کہ وہ حجرہ مبارکہ جس میں رسول مقبول اور ابو بکر وعمر کی قبریں ہیں وہ ہر وقت مقفل رہتا ہے کسی کی مجال نہیں ہے کہ اس حجرہ کے قریب جاکر اس کے دروازے یا کھڑکیوں کو بوسہ دے لے ۔چہ جائیکہ اس میں کچھ ڈال دے اور اور اولا تو اس لئے ناممکن ہے کہ اس حجرہ میں نہ تو سوراخ ہے اور نہ روشندان ہے ۔کہ جس سے کوئی چیز پھینکی جا سکے ۔ثانیا ایسے سخت قسم کے فوجیوں کا پہرہ ہر دروازے پررہتا ہے ۔جو نگرانی وحفاظت میں ماہر  ہوتے ہیں ان کے ہاتھوں میں کوڑے ہوتے ہیں جس سے وہ لوگ ہر اس شخص کی پٹائی کردیتے ہیں جو دروازہ یا جالیوں کے قریب ہونا چاہیئے یا حجرہ کے اندر دیکھنا چاہے ۔ میرا گمان غالب یہ ہے کہ سعودی سپاہیوں میں جو لوگ شیعوں کو کافر سمجھتے ہیں ۔ انھوں نے شیعوں پریہ افتراء وبہتان لگایا ہے تاکہ شیعوں کو مارنے کا جواز پیدا ہوسکے یا کم از کم مسلمانوں کو ان سے جنگ پر آمادہ کیاجاسکے یا اتنا فائدہ تو ہوگا ہی کہ جب  شیعوں کو مارا جائے گا تو لوگ خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہیں گے ۔ کوئی اعتراض نہیں کرسکے گا ۔ اور یہ لوگ جب اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں گے تو شیعوں کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ ہوجائے گا ۔کہ یہ لوگ رسول اللہ (ص) سے بغض رکھتے ہیں ۔آنحضرت (ص) کی قبر پر غلاظت ڈالتے ہیں اسی طرح ایک تیر سے دوشکار ہوجائے گا ۔

۸۲

اس کی مثال ایسی ہے کہ مجھے ایک بہت ہی معتبرہ اور ثقہ فاضل نے بیان کیا : ہم لوگ خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے کہ ایک نوجوان کو اژدھام کی وجہ سے گرمی چڑھ گئی اس کو اچھو لگ گیا اور اس نے قے کردیا بس پھر کیا تھا حجر اسود کے حفاظت کرنے والے سپاہی اس پر ٹوٹ پڑے اور اتنا مارا کہ وہ ادھ مرا ہوگیا ۔ پھر اسے نکال دیا اور اس پر الزام لگا یا یہ نجاست لے کر آیا تھا کہ خانہ کعبہ پر مل دے ۔اس پر چند گواہ مہیا کرلئے اور اس بیچارے کو اسی دن قتل کردیا گیا ۔

میرے ذہن میں یہ خیالات فلمی تصویروں کی طرح گزر تے رہے اور کافی دیرتک میں اپنے سعودی دوست کے بارے میں سوچتا رہا کہ اس کے خیالات شیعوں کے بارے میں کیسے ہیں ؟ باربار اس کے یہ جملے : یہ لوگ گریہ وبکا کرتے ہیں ۔ منہ پر طمانچے مارتے ہیں پتھر پرسجدہ کرتے ہیں ۔ قبروں کے آس پاس نمازیں پڑھتے ہیں الخ باربار میرے ذہن میں آتے تھے اور میں نے اپنے آپ سے پوچھا کیا صرف ان باتوں سے کلمہ گو کو کافر قراردیا جاسکتا ہے ؟ یہ لوگ تو اقرار شہادتین کے ساتھ نماز بھی پڑھتے ہیں ۔ زکات بھی دیتے ہیں ، روزہ بھی رکھتے ہیں ،حج بھی کرتے ہیں ، امر بالمعروف ونہیں ازمنکر بھی کرتے ہیں ۔کیا ان باتوں کے باوجود یہ کافر ہیں ۔؟

میں اپنے دوست سے نہ دشمنی مول لینا چاہتا تھا اور نہ ایسی بحث کرنا چاہتا تھا ۔جس کا کوئی فائدہ نہ ہو اس لئے یہ کہہ کر : خداہم کو اور ان کو صراط مستقیم کی ہدایت دے اور ان دشمنان دین پر خدا کی مارپڑے جو اسلام اور مسلمانوں کی جڑ کھودنے میں لگے رہتے ہیں ۔ !خاموش ہوگیا ۔ اس کے بعد اس عمرہ کے دوران اور جب بھی مکہ مکرمہ کی زیارت سے مشرف ہوتا( حالانکہ اس وقت بہت تھوڑے عمرہ کرنے والے طواف کرتے ہوتے تھے ) یہ معمول بنایا تھا کہ نماز پڑھ کے اپنے پورے وجود کے ساتھ گڑا گڑا کر خدا سے دعا کرتا تھا کہ میری بصیرت کھول دے اور حق وحقیقت کی طرف میری ہدایت فرمادے مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر میں نے اس آیت مبارکہ کو سامنے رکھ کر :"وجاهدو فی سبیل الله حق جهاده هو اجتباکم وما جعل علیکم فی الدین من حرج ملة ابیکم ابراهیم هو سما کم المسلمین من قبل وفی هذا

۸۳

لیکون الرسول شهیدا علیکم وتکونوا شهدا علی الناس فاقیموا الصلواة واتو الزکاة واعتصموا بالله هو مولا کم فنعم المولی ونعم النصیر (پ 17 س 22 (الحج آیت 78)

ترجمہ:- اور جو جہاد کرنے کا حق ہے خدا کی راہ میں (اس طرح )جہاد کرو۔ اسی نے تم کو برگزیدہ کیا ۔ اور امور دین میں تم پر کسی طرح کی سختی نہیں کی ۔تمہارے باپ ابراہیم کے مذہب کو (تمہارا مذہب بنادیا ہے ) اسی خدا نے تمہارے پہلے ہی سے مسلمان (فرمانبردر بندے ) نام رکھا اور اس قرآن میں (بھی ) تو جہاد کرو تاکہ رسول تمہارے مقابلے میں گواہ نہیں اور تم توگوں کے مقابلہ میں گواہ بنو ۔اور تم پابندی سے نماز پڑھا کرو اور زکواۃ دیتے رہو اور خدا ہی کو مضبوط پکڑو وہی تمہارا سرپرست ہے اور کیا اچھا مددگار ہے ۔ کہنا شروع کیا ۔اور سیدنا ابراہیم یا اپنے باپ ابراہیم (جیسا کہ قرآن نے کہا ہے ) سے مناجات کرنے لگا : اے ہمارے باپ  ،اے وہ ذات گرامی جس نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے ۔دیکھئے تو آپ کی اولادوں میں آپ کے بعد کتنا اختلاف ہوگیا ۔ کچھ عیسائی ۔کچھ مسلمان ہوگئے ۔پھر یہودیوں میں اختلاف ہوا وہ 71 فرقوں میں بٹ گئے ،عیسائی 72 فرقوں میں تقسیم ہوگئے اور مسلمان تہتر فرقہ ہوگئے ۔اور سب کے سب گمراہ ہیں جیسا کہ آپ کے بیٹے محمد نے خبر دی ہے صرف لے دے کے ایک فرقہ آپ کے مذہب پر باقی رہ گیا ہے ۔

یہ اختلاف وتفرقہ کیا سنت الہی ہے جو اس نے اپنے بندوں میں جاری کیا ہے ؟ جیسے کہ قدریہ فرقہ کہتا ہے کہ خود خدا نے ہر شخص کے لئے معین کردیا ہے کہ وہ یہودی یا عیسائی ہوجائے یا مسلمان ہوجائے یا ملحد ہوجائے یا مشرک ہوجائے ۔۔۔یا یہ اختلاف وتفرقہ محبت دنیا اور تعلیمات الہی سے دوری کا نتیجہ ہے ؟ کیونکہ جب بندوں نے خدا کو فراموش کردیا تو خدا نے بندوں کو بھلا دیا ۔میری عقل قضا وقدر کی تصدیق پر تیار نہیں ہے کہ خود خدا ہی نے انسان کے انجام کو حتمی بنادیا ہے (بندے اس کو بدل نہیں سکتے ) میرا عقیدہ ویقین کہتا ہے

۸۴

کہ خدا نے ہم کو پیدا کرکے ہدایت بخشی ، اچھے برے کی تمیز مرحمت فرمائی  پھر انبیا ء ورسولوں کو بھیج  کر ہمارے مشکلات کو حل کیا جو باتیں ہمارے لئے مبہم تھیں انبیاء نے ان کی وضاحت کردی ، حق وباطل کو پہچنوادیا ۔لیکن انسان کو زندگانی دنیا اور اس کی زیبائش نے انانیت وتکبر نے ،جہالت ونادانی نے عناد سرکشی نے ظلم وطغیان نے حق سے پھرادیا ،شیطان کا تابع بناکر رحمان سے دور کردیا ۔اس کو غیر جگہ پر پہونچا دیا ، اسی بات کو خدا بہت ہی اچھے اور مختصر پیرایہ میں اس طرح کہتا ہے :

ان الله لا یظلم الناس شیئا ولکن الناس انفسهم یظلمون(پ 11 (یونس ) آیه 44)

ترجمہ:- خدا تو بندوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا ۔لیکن یہ بندے خودہی اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں ۔

اے بابا ابراہیم ! یہودونصاری جنھوں نے آپسی دشمنی کی بنا پر بینہ آنے کے بعد بھی حق کی مخالفت کی ہے وہ اتنی زیادہ ملامت کے مستحق نہیں ہیں ۔ جتنی یہ امت مسلمہ جس کو خدا نے آپ کے بیٹے محمد کے ذریعے تاریکیوں سے نکال کر نور میں لے آیا ،جس کی خیر امت قراردیا ،اسی امت نے شدید اختلاف کے بیج بوئے ۔ تفرقہ اندازی کی ایک نے دوسرے کو کافر قرار دیا ۔ حالانکہ رسول اللہ نے پہلے ہی ڈرایا تھا ۔ پہلے ہی سے متنبہ کردیا تھا ۔ اور بڑی سختی سے فرمایا  تھا ۔ کسی مسلمان کے لئے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی کوچھوڑ دے ،آخر اس امت کو کیا ہوگیا ہے جن کے درمیان پھوٹ پڑگئی ہے جو ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی ہے جو چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں بٹ گئی ہے ۔ ایک دوسرے  کوچھوڑ ے رہتے ہیں ۔۔۔ اے بابا ابراہیم ! اس امت کو کیا ہوگیا ہے جو کبھی خیرالامم تھی ۔ شرق وغرب اس کے زیرنگیں تھے جسنے پوری دنیا کو ہدایت ،علوم ،معرفت تہذیب وتمدن بخشا تھا ۔ آج وہ سب سے کم سب سے ذلیل ہوگئی ہے ۔اس کی زمین غصب کر لی گئی اس کے افراد کو ان کے وطن سے دیس نکال دے دیا گیا ہے ان کی مسجد اقصی مٹھی بھر صہیونیوں کے

۸۵

قبضہ میں ہے ۔ وہ اس کو آزاد بھی نہیں کراسکتے ۔اگر آپ مسلمانوں کے شہروں کو دیکھیں تو ہر جگہ فقر فاقہ بھکمری فقیری ،ویران  زمینیں ،مہلک امراض بدخلقی ،کج فکری ،ظلم وستم ،گندگی حشرات الارض صرف بیت الخلاء لے لیجئے  یورپ میں کیسے ہیں اور ہمارے یہاں کیسے ہیں ؟ اگر مسافر یورپ کے کسی بیت الخلاء میں جاتا ہے تو سب کے سب صاف وشفاف شیشہ کی طرح چمکتے ہوے بہترین قسم کی خوشبو لیکن ہمارے یہاں کے بیت الخلاء ،معاذاللہ ان کی کثافت ،نجاست ،گندگی ،بدبو کی وجہ سے مسافر قدم نہیں رکھ سکتا ۔حالانکہ ہم وہ ہیں کہ جس کو اسلام نے بتایا ہے ۔نظافت جزو ایمان ہے " گندگی جزو شیطان ہے ، کیا ایمان یورپ میں اور شیطان ہمارے یہاں منتقل ہوگیا ہے ؟ آخر مسلمان اپنے عقیدے کے اظہار سے کیوں ڈرتے ہیں ؟ حد یہ ہے کہ اپنے ملکوں میں اظہار نہیں کرسکتے ۔مسلمان کو اپنے اوپر بھی اختیار نہیں ،چہرہ پر اختیار نہیں ہے ۔ وہ داڑھی نہیں رکھ سکتا ۔اسلامی لباس نہیں پہن سکتا ،لیکن فاسق علی الاعلان شراب پی سکتا ہے ،زنا کرسکتا ہے ،آبرو ریزی ہتک عزت کرسکتا ہے ۔اور مسلمان اس کو روک نہیں سکتا ۔بلکہ امر بمعروف ونہی از منکر نہیں کرسکتا ۔مجھے لوگوں نے یہاں تک بتایا کہ بعض اسلامی ملکوں میں جیسے مصرو مغرب (وغیرہ )باپ اپنی بیٹی کو شدت فقرہ احتیاج کی بنا پر حرام کاری کرے لئے مجبور کرتاہے

فلا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم

خدایا ! تو نے اس امت سے کیوں دوری اختیار کر لی ! تو نے کیوں اس امت کو اندھیرے میں ڈبوڈیا تا ہوا چھوڑدیا؟ نہیں نہیں ۔خدا یا میں تیری جناب میں استغفار کرتا ہوں ۔تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں (بلکہ )یہ امت ہی تجھ سے دورہوگئی اسی نے شیطان کا راستہ اختیار کرلیا ۔تو نے تو اپنی کتاب میں خودہی کہا ہے : ومن یعش عن ذکر الرحمان نقیض له شیطانا فهو له قرین (پ 25 س 43(الزخرف) آیت 36)

ترجمہ:- اور جو شخص خدا کی یاد سے اندھا بنتا ہے ہم (گویا خود) اس کے لئے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو ہوی اس کا (ہر دم کا )ساتھی ہے

۸۶

وما محمد الا رسول قد خلت من قبله الرسل افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیه فلن یضرالله شیئا وسیجزی الله الشاکرین (پ 4 س 3 (آل عمران)آیت 144)

ترجمہ:- اور محمد تو صرف رسول ہیں (خدا نہیں ہیں ) ان سے پہلے اور بھی بہتر ے پیغمبر گزرچکے ہیں ۔پھر کیا اگر (محمد) اپنی موت سے مرجائیں یا مار ڈالے جائیں تو تم پاؤں (اپنے کفر کی طرف) پلٹ جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھرے گا (بھی )تو سمجھ لوکہ ) ہرگز خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑے گا اور عنقریب خدا کا شکر کرنے والوں کو اچھا بدلہ دےگا ۔

اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ امت مسلمہ جس پستی ،رسوائی فقیری تک پہونچ گئی ہے یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ صراط مستقیم سےبھٹک چکی ہے ۔اور اس میں بھی شک نہیں ہے کہ مٹھی بھر لوگ یا ایک فرقہ پوری امت کے زاویہ فکرو مسیر کو نہیں بدل سکتا رسول خدا نے پہلے ہی فرمایا تھا ۔ تم لوگ امر بمعروف ونہی ازمنکر کرتے رہنا ورنہ خدا تمہارے اوپر تمہارے بروں کو مسلط کردے گا ۔تو تمہارے نیکوں کی دعائیں بھی مستجاب نہ ہوں گی ! پالنے والے تو نے جو نازل کیا ہے ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں تیرے رسول کی پیروی کرتے ہیں ۔ لہذا ہم کو شاہدین میں شمار کرے میرے معبود ہدایت کے بعد ہمارے دلوں کوکج نہ کر ہم پر اپنی رحمت نازل فرما تو بڑا ہی بخشش کرنے والا ہے ۔خدایا ہم نے خود ہی اپنے نفسوں پر ظلم کیا ہے اگر تو نے ہم کو معاف نہ کیا ہم پر رحم نہ کیا تویقینا ہم گھاٹے میں رہیں گے ۔

اپنے دوست بشیر کا خط اس کے رشتہ دار کے نام لے کر میں نے مدینہ منورہ کاسفر کیا تاکہ جب تک مدینہ میں رہوں بشیر کے رشتہ دارہی کے پاس قیام کروں ۔میری روانگی سے پہلے بشیر نے ٹیلفون سے بھی بات کرلی تھی ۔مدینہ پہونچتے ہی میرے میزبان نے مرحبا اور اپنے گھر لے گیا ۔سامان وغیرہ رکھنے کے بعد میں نے سب سے پہلے دیار رسول میں پہونچ کردربار رسول میں حاضری دی ۔لیکن حاضری سے پہلے غسل کیا ۔سب سے اچھا اور پاک وپاکیزہ لباس پہنا

۸۷

خوشبو لگائی پھر بیتابانہ چلا ۔لیکن زمانہ حج کے اعتبار سے زائرین کی کافی کمی تھی ۔ اس لئے بہت ہی آرام سے رسول اللہ و ابو بکر وعمر کی قبور کے سامنے کھڑا ہوگیا ۔حج کے موقع پر یہ شرف نہیں حاصل کرسکا تھا کیونکہ اژدھام بہت تھا اور میں نے بلاوجہ یہ کوشش کی تھی کہ بطور تبرک کسی جالی کو بوسہ دے سکوں ۔میرے ارادہ کو تاڑتے ہی وہاں پر کھڑے ہوئے سپا ہی نے مجھے زور سے ڈانٹا وہاں ہر ہر دروازہ پر سپاہی رہتا ہے ۔ اور جب دعا اور دوستو کے سلام کو پہونچانے میں مجھے وہاں کچھ دیر کھڑا رہنا پڑا تو سپاہی نے حکم دیا کہ واپس جاؤ ۔میں نے چاہا بھی کہ ان میں سے کسی ایک سے بات کروں مگر بے فائدہ !

میں وہاں سے واپس آکر روضہ مطہرہ میں اس جگہ بیٹھ گیا جہاں بیٹھ کر قرآن پڑھا کرتا تھا اور لحن سے قرآن پڑھنے لگا ۔ اورباربار تکرار کرتا تھا ۔مجھے یہ خیال ہوتا تھا کہ جیسے رسول اللہ میری تلاوت کوسماعت فرمارہے ہیں تلاوت کرتے کرتے میں سوچنے لگا ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ دوسے مردوں کی طرح رسول خدا بھی مردہ ہوں ؟ اگر ایسا ہے تو ہم اپنی نمازوں میں مخاطب کرتے ہوئے کیوں کہتے ہیں" السلام علیک ایها النبی ورحمة الله وبرکاته " (اے نبی آپ پر خدا کیا سلام اور اس کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ) اور جب تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ سیدنا خضر علیہ السلام زندہ ہیں اور سلام کرنے والوں کو جواب دیتے ہیں ۔بلکہ صوفی طریقوں کے جملہ مشائخ کا حتمی عقیدہ ہے کہ شیخ احمد تیجانی یا عبدالقادر جیلانی ان کے پاس جاگتے میں (خواب میں نہیں) ظاہر بظاہر آتے ہیں ۔ تو پھر ہم رسول خدا (ص) کے بارے میں اس قسم کی کرامت کے سلسلے میں کیوں بخل کرتے ہیں ؟حالانکہ آنحضرت (ص) علی الاطلاق افضل الخلق ہیں ۔لیکن پھر یہ سوچ کر سکون ہوا کہ تمام مسلمان ایسا نہیں کہتے صرف وہابیوں کا عقیدہ ہے ۔جن سے میں اب متنفر ہونے لگا تھا ۔ ایک تو اسی وجہ سے اور دوسرے بہت سے اسباب کی وجہ سے ۔ منجملہ ان کے وہ سختی بھی ہے جس کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہے کہ جو مومنین ان کے عقیدہ کے خلاف ہیں ان پر کس قدر شدت وسختی کرتے ہیں (آپ سوچ بھی نہیں سکتے )۔

ایک مرتبہ میں بقیع کی زیارت کے لئے وہاں کھڑے ہو کر ارواح اہل بیت (ع) کے لئے ترحم کی دعا

۸۸

کررہا تھا ۔اور میرے قریب ہی ایک بہت ہی بوڑھا شخص رورہا تھا ۔اس کے رونے سے میں سمجھ گیا ۔یہ شیعہ ہے اس کے بعد وہ روبقبلہ ہو کر نماز پڑھنے لگا ۔ اور وہ جیسے ہی سجدہ میں گیا ۔ میں نے ایک فوجی کو دیکھا جو (تقریبا)دوڑ تا ہوا آیا شاید وہ دیرسے اس بوڑھے کے حراکات وسکنات کی نگرانی کررہا تھا ۔اور آتے  ہی زور سے ٹھوکر ماری کہ بڈھا الٹ گیا اور چند منٹ تک وہ ہوش وحواس ہی کھو بیٹھا تھا اور فوجی جوتوں ،گھونسوں  ،لاتوں  سے ایک طرف   اسی کی پٹائی کررہا تھا اور دوسری طرف گالیوں کی بوچھار کررہا تھا ۔یہ دیکھ کر مجھ سے ضبط نہ ہوسکا اور مجھے خیال ہوا کہ شاید بڈھا مرچکا یمں نے فوجی سے کہا : ارے کیوں مار رہے ہو یہ نماز پڑھ رہا تھا ۔ تم یہ حرام کام کیوں کررہے ہو؟ فوجی نے مجھے بی لتاڑ پلائی اور دھمکی دی کہ اگر خاموش نہ رہے تو تمہاری بھی یہی گت بنادوں گا اور جب میں نے اس کی آنکھوں میں شرارے دیکھے تو الگ ہوگیا ۔ اور اپنے اوپر سخت غصہ آرہا تھا کہ مظلوم کی مدد بی نہیں کرسکتا ۔ اور سعودیوں پر بھی غصہ آرہا تھا کہ بغیر کسی روک ٹوک  کے جس کے ساتھ جو بی چاتا ہے برتاؤ کرتے ہیں ۔کوئی ایسا نہیں ہاے جو انکو اس روک سکے ؟ کچھ زائرین بھی وہاں تھے جو اس منظر کو دیکھ رہے تھے ۔بعض نے کہا "لاحول ولا قوة الا بالله " اور بعض نے کہا یہ بڈھا نے کہا یہ بڈھا اسی کا مستحق تھا ۔ یہ قبور کے پاس نماز پڑھ رہا تھا اور یہ حرام ہے یہ سن کر میں اپنے کو قابو میں نہ رکھ سکا اور پھٹ پڑا کہ : کس نے کہا کہ قبروں کے پاس نماز حرام ہے ؟ اس نے کہا رسول اللہ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے ۔میں نے بغیر کچھ سوچھے کہہ دیا کہ تم لوگ رسول خدا پر الزام لگاتے ہو ! پھر میں ڈرا کہیں یہ سب مجھے نہ چمٹ جا ئیں یا اس فوجی کو آوازیں دیدیں اور وہ میرا حال بھی بڈھے جیسا کردے لہذا بہت نرمی سے بولا اگر رسول اللہ نے منع کیا ہے تو لاکھوں آدمی کیوں مخالفت کرتے ہیں؟ کیونکہ حجاج زائرین فعل حرام کا ارتکاب کرتے ہیں؟ کیونکہ قبر رسول وابوبکر وعمر کے آس پاس مسجد نبوی میں نمازیں پڑھتے ہیں ؟ اور پورے اسلامی ممالک کی مسجدوں میں نماز پڑتھے ہیں اور اگر مان بھی لیاجائے قبروں کے پاس  نماز حرام ہے تو کیا اتنی شدت سے روکنا چاہیے یا نرمی سے؟مجھے آپ اجازت دیں تو اس اعرابی کا قصہ سناؤں جس نے رسول اللہ کی مسجد میں پیشاب کردیا تھا ۔خود رسول واصحاب رسول کی موجودگی میں بلا کسی شرم وحیا کے

۸۹

اس نے موت دیا ۔ اورجب بعض حضرات ننگی تلوار لیکر اٹھے کہ اس کو قتل کردیں تو رسول اللہ نے روک دیا اور فرمایا ۔اس کو چھوڑ دو اس پر سختی نہ کرو ۔جہاں اس نے پیشاب کیا وہاں ایک ڈول پانی بہا دو تم کو آسانی کے لئے پیدا کیاگیا ہے ۔ نہ یہ کہ سختی کرنے کے لئے ۔لوگوں کوخوش رکھنے کے لئے نہ کہ نفرت دلانے کے لئے ۔پھر تمام صحابہ نے حکم رسول کی پابندی کی اور رسول خدا نے اعرابی کوپکار کر اپنے پاس  بٹھایا ۔مرحبا کہا بہت نرمی اور لطف ومدارات سے گفتگو فرمائی اور اس کو سمجھایا ۔یہ خدا کا گھر ہے اس کو نجس نہیں کرنا چاہیے ۔اخلاق  رسول کو دیکھ کر اعرابی مسلمان ہوگیا ۔ اور پھر ہمیشہ مسجد میں اچھے اور پاک لباس میں آتا تھا ۔خدا وند عالم نے کتنی سچی بات اپنے رسول سے کہی ہے " ولوکنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک (پ 4 س 3(آل عمران) آیت 159)

ترجمہ:- تم اگر بد مزاج اور سخت دل ہوئے تب تو یہ لوگ (خدا جانے کب کے ) تمہارے گرد سے تتر بتر ہوگئے ہوتے ! قصہ سننے کے بعد بعض موجود حضرات بہت متاثر ہوئے اور ایک شخص مجھے الگ لے جا کر پوچھنے لگا ۔ : آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ؟ میں نے کہا :ٹیونس  کا اس نے مجھے سلام  کیا ۔ اور کہا :- برادر ! تم کو خدا کا واسطہ اپنی جان کی حفاظت کرو ۔یہاں اس قسم کی بات   ہرگز نہ کرو میں تم کو قربۃ الی اللہ نصیحت کرتا ہوں ۔آپ نے ان لوگوں کے دلوں میں اپنے لئے بغض وکینہ پیداکرلیا ہے ۔ یہ لوگ جو اپنے کو حرمین کا نگران سمجھتے ہیں اور حاجیوں کے ساتھ ایسی سختی کا برتاؤ کرتے ہیں کسی میں یہ جراءت نہیں ہے جو اپنی رائے جو کا اظہار کرسکے یا ایسی روایات بیان کرسکے جو ان کی روایتوں کے موافق نہ ہو یا ایسے عقیدہ کا اظہار کرسکے جو ان  کے عقیدے کے مخالف ہو۔

میں نے اپنے نئے دوست کے گھر واپس آگیا جن کا نام بھی  نہیں جانتا تھا ۔ وہ رات کا کھانا لے کر آئے اور میرے سامنے بیٹھ گئے کھانا شروع کرنے سے پہلے  ہی انھوں نے مجھ سے پوچھا کہا ں کہاں گئے تھے ؟ میں نے شروع سے لے کرآخر تک اپنا پورا قصہ بیان کردیا اور بڑے واضح لفظوں میں کہہ دیا ۔بھائی اب مجھے وہابیت سے نفرت ہونے لگی ہے اور شیعیت کی طرف میلان بڑھتا جارہا ہے ۔اتنا سنتے ہی ان کے چہرہ کا رنگ بد ل گیا اور مجھ سے کہنے لگے ۔ خبردار اب

۹۰

اس قسم کی گفتگو دوبارہ نہ کرنا ۔اتنا کہہ کر مجھے چھوڑ کر چلے گئے ۔میں انتظار کرتے کرتے تھک گیا سوگیا ۔علی الصباح مسجد نبوی کی اذان سے قبل میں بیدار ہوا تو دیکھا کھانا اسی طرح اپنی جگہ رکھا ہوا ہے جس سے میں سمجھا کہ میرا میزبان پھر پلٹ کر نہیں آیا ۔ اب میں اس کے بارے میں مشکوک ہوگیا اور مجھے خطرہ لاحق ہوگیا کہ کہیں وہ سی آئی ڈی کا آدمی نہ ہو ۔ لہذا میں فورا اٹھا اور مکان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر نکل  کھڑا ہوا ۔ دن بھر تو حرم نبوی میں رہا زیارت کرتا تھا نمازیں پڑھتا تھا ۔صرف قضائے حاجت اور وضو کے لئے باہر نکلتا تھا ۔نماز عصر کے بعد ایک خطیب کو سنا جو نمازیوں کو وعظ کررہاتھا ۔ میں بھی ادھر ہی چلا گیا ۔ بعض موجودلوگوں سے پتہ چلا کہ یہ مدینہ کا قاضی ہے میں نے بڑی توجہ سے سنا وہ شخص بعض آیتوں کی تفسیر بیان کررہا تھا ۔ درس ختم کرکے جب وہ جانے لگا تومیں نے روک کر پوچھا ۔ سیدی !آیہ تطہیر سے مراد کون لوگ ہیں ؟ اس نے فورا کہا ! ازواج مطہرات  جن کے ذکر سے آیت کی ابتدا ء ہوئی ہے : یا نساء النبی لستن الخ ۔ میں نے کہا :شیعہ علماء تو صرف پنجتن پاک کے لئے مخصوص کہتے ہیں ۔ فطری بات ہے کہ میں نے پراعتراض کیا کہ آیت میں ابتدا  یا نساء النبی (اے نبی کی بیویو) سے ہوئی ہے انھوں نے کہا: جہاں تک رسول کی عورتوں سے خطاب تھا ۔ تمام صیغے جمع مونث کے لائے گئے ۔مثلا :لستن ۔۔۔ان اتقیتن ،فلا تخضعن ۔۔قلن ۔۔ قرن۔۔ بیوتکن ۔۔۔ لاتبرجن ۔۔ اقمن ۔۔۔ آتین۔۔۔۔ اطعن ۔وغیرہ اور جب ان کی بات ختم  اہل بیت کا ذکر آیا تو صیغہ بھی بدل گیا ۔۔لیذھب عنکم ویطہرکم " کہا گیا ۔ میری بات سنکر اس نے چشمہ اٹھا کر دیکھتے ہوئے  کہا: خبردار ان زہریلے افکار سے ہوشیار ہوجاؤ ۔شیعہ کلام خدا کی من مانی تفسیر کرتے ہیں ۔ حضرت علی اور ان کی ذریت کے بارے میں ان کے پاس ایسی ایسی آیتیں ہیں ۔ جس کو ہم لوگ نہیں جانتے ان کے پاس مخصوص قرآن ہے جس کو یہ مصحف فاطمہ " کہتے ہیں میں تم کو ہوشیار کرتا ہوں کہیں ان کے چنگل میں نہ پھنس جاؤ ۔

میں نے کہا سیدی ! اس کی تو آپ فکر نہ کریں ان کے بارے میں مجھے بہت کچھ معلوم ہیں تو حقیقت جاننا چاہتا تھا ۔ قاضی نے کہا  : تم کہا ں کے رہنے والے ہو؟ عرض کیا ٹیونس کا ۔

۹۱

تمہارا نام کیا ہے ؟ میں نے کہا :- التیجانی ! یہ سن کر قاضی بڑے فخر سے ہنسا اور بولا ! کیا تم جانتے ہو احمد التیجانی کون تھا؟  میں نے کہا:- ہاں وہ شیخ الطریقہ تھے ۔قاضی نے کہا ! وہ فرانسیسی استعمار کا ایجینٹ تھا ۔ الجزائر اور ٹیونس میں فرانس کے قد م صرف اسی کی وجہ سے جمے تھے ۔ اگر تم کبھی پیرس جاؤ تو قومی لائبیریری "ضرور دیکھنا اور وہاں قاموس فرنسی کاخود مطالعہ کرنا باب (1) کے اندر تم پڑھوگے کہ فرانس نے "وسام الشرف" (فرانس کا سب سے بڑا تمغہ)احمد التیجانی کو اس کے ان خدمات کے صلہ میں جو اس نے فرانس کے لئے انجام دیئے تھے ۔دیا تھا ۔ اور وہ خدمات ایسے تھے جن کا قیاس بھی نہیں کیا جاسکتا مجھے اس کے قول سے تعجب ہوا ۔بہر حال شکریہ ادا کرکے میں ان سے رخصت ہو کر چلا آیا ۔مدینہ میں پورے ایک ہفتہ قیام کیا تاکہ چالیس نمازیں پڑھ لوں ۔اور تمام زیارتیں بھی کرلوں مدینہ کے دوران قیام میں بہت باریک بینی سے کام لیتا رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہابیت سے نفرت بڑھتی گئی مدینہ منورہ سے کوچ کرکے اردن پہنچا وہاں اپنے دوستوں  سے ملاقات کی جن سے زمانہ حج تعارف ہوا تھا اور جس کی طرف میں پہلے اشارہ کرچکا ہوں ۔

ان لوگوں کے پاس تین دن رہا ۔یہ لوگ شیعوں سے کینہ ہم لوگوں سے زیادہ رکھتے ہیں وہی روایات وہی پڑوپیگنڈے جو ٹیونس میں تھے ۔ یہاں بھی تھے ۔ جس سے بھی میں نے پوچھا تم کسی دلیل سے شیعوں کو دشمن رکھتے ہو؟ سب ہی نے سنی سنائی باتیں دہرادیں دلیل نام کی چیز کسی کے پاس نہیں تھی ۔ اور نہ ان میں سے کسی نے شیعوں کی کتابیں پڑھی تھیں ۔ نہ شیعوں سے نشست وبرخاست کی تھی ۔ حد یہ ہے کہ اپنی زندگی میں کسی شیعہ سے ملاقات تک نہیں کی تھی ۔

اردن سے سوریہ آیا ۔ دمشق میں جامع  اموی" کو دیکھا اس کے پہلو میں مرقد سر امام حسین ہے اس کی زیارت کی ۔صلاح الدین ایوبی ، اور سیدہ زینب کے ضریح کی زیارت سے مشرف ہوا ۔ بیروت سے ڈائریکٹ طرابلس گیا ۔ سمندری سفر پورے چاردن جاری رہا ان چار دنوں یمں جسمانی اور فکری دونوں سکون ملا ۔ پورے سفر کی ریل میرے  ذہن میں چلتی رہی اور اس کا انجام یہ ہوا کہ بیک وقت میرے دل میں شیعوں کی طرف جھکاؤ اور میلان جتنا بڑھا ۔وہابیت سے دوری ونفرت بھی اتنی ہوتی گئی ۔

۹۲

الحمد للہ ان کی دسیسہ کاریوں کو میں نے پہچان لیا ۔خدا نے جو فضل وانعام مجھ پر فرمایا ۔اور جو عنایت ومہربانی فرمائی اس پر اس کی حمد کی اور اس سے دعا کی مجھے راہ حق کی ہدایت کرے ۔

آخر سرزمین وطن پر پہنچا ۔ سب سے زیادہ بے چینی خاندان اہل عیال دوستوں سے ملنے کی تھی ۔شکر خدا سب بخیر وعافیت تھے ۔م

گھر میں داخل ہوتے ہیں مجھے معلوم ہوا کہ میری عدم موجودگی میں بہت سی کتابیں آئی ہیں ۔ میں فورا سمجھ گیا کہا ں سے آئی ہیں ۔ اورجب ان بنڈلوں کو کھولا تو پورا گھر کتابوں سے بھر گیا ۔ اس سے ان لوگوں کا احترام اور ان سے محبت مزید بڑھ گئی ۔جو وعدہ خلافی نہیں کرتے اور میں نے دیکھا کہ مجھے وہاں جنتی کتابیں بطور تحفہ پیش کی گئی تھیں ۔ان کی کئی گنا کتابیں میرے گھر بھیجی گئی ہیں ۔

۹۳

ابتدائے تحقیق

میری خوشی کی انتہا نہ رہی ایک کمرہ میں جس کا نام میں نے کتب خانہ رکھا ۔ تمام کتابوں کو ترتیب سے رکھا ۔اور چند دن آرام کئے چونکہ درسی سال کی ابتدا ہورہی تھی ۔اس لئے ایک ٹائم ٹیبل تیار کیا ۔جس میں تین دن مسلسل پڑھانے کے اور چار دن آرام کے ہر ہفتہ میں رکھا ۔

اس کے بعد کتابوں کے مطالعہ میں جٹ گیا ۔چنانچہ"عقایدالامامیه " "اصل الشیعه واصولها" کو پڑھنے کے بعد میری ضمیر کو بہت سکون ملا ۔کیونکہ خود میرا ضمیر بھی انھیں عقائد کو پسند کرتا تھا جو شیعوں کے تھے اس کے بعد ،سید شرف الدین الموسوی کی کتاب "المراجعات" پڑھی  ابھی چند ہی صفحاپ پڑھے تھے کہ کتاب کی کشش نے پڑھنےپر مجبور کردیا ۔ اور پھر یہ عام ہوگیا کہ کسی شدید مجبوری کے بغیر میں کتاب چھوڑتا ہی نہیں تھا ۔کبھی کبھی تو کالج میں بھی اپنے ساتھ لئے چلا جاتا تھا شیعہ عالم کی صاف گوئی وصراحت اور سنی عالم کی مشکلات کو حل کردینے نے مجھے دہشت زدہ کردیا تھا  کتاب کی صورت مین میری آرزو مجھے مل گئی ۔کیونکہ یہ کتاب عام دھرے پر نہیں لکھی گئی تھی ۔ کہ مولف کا جو جی چاہے  کسی مناقشہ ومعارضہ کے بغیر لکھ دے ۔ بلکہ "المراجعات "دومختلف مذہب (شیعہ وسنی ) کے دو زبر دست عالموں کے درمیان گفتگو ۔۔۔خط وکتابت کی صورت میں ۔۔۔ہوئی تھی جس میں ہر چھوٹی وبڑی چیز کا دونوں ایک دوسر ے سےمحاسبہ کرتے تھے ۔ اور پوری بحث کا دارومدار مسلمانوں کے دو بنیادی مدارک پر تھے ۔۔۔۔ یعنی قرآن کریم اور سنت صحیحہ ۔۔۔اس پوری بحث کو اس میں جمع کردیا گیا تھا ۔ پس وہ کتاب کیا تھی گویا جو یائے حقیقت کو منزل تک پہنچانے والی تھی ۔ یہ کتاب بہت ہی مفید ہے اور میرے اورپر اس کا بہت بڑا احسان ہے

اس کتاب کوپڑھتے پڑھتے جب میں اس منزل پر پہونچا کہ صحابہ  احکام (اوامر) رسول کی پابندی نہیں

۹۴

کرتے تھے تو میں مبہوت ہوگیا ۔ مولف نے اس کی مثالیں دی ہیں ان میں ایک تو روزپنچشنبہ کی مصیبت کا حادثہ ۔۔۔۔ اس سے واقعہ قرطاس مراد ہے ۔۔۔۔ کیونکہ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سیدنا عمر ابن الخطاب حکم رسول پر اعتراض کرسکتے ہیں اور ان کی طرف (معاذاللہ) ہذیان کی نسبت دے سکتے ہیں ۔ شروع میں تو مجھے یہی گمان ہوا کہ یہ شیعوں کی روایت   ہے ۔لیکن میری حیرت و دہشت کی اس وقت انتہا نہیں رہی جب میں نے یہ دیکھا کہ شیعہ عالم صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے حوالہ سے نقل کررہا ہے میں نے اپنے دل میں کہا اگر یہ روایت واقعا صحیح بخاری میں ہے تو پھر اس میں ایک  رائے ہوگی میں نے فورا ٹیونس کا سفر کیا اور وہاں سے صحیح بخاری ،صحیح مسلم،  مسند امام احمد ۔صحیح  ترمذی ، موطا امام مالک ۔انکے علاوہ  دوسری مشہور کتابوں کو خریدا میں نے گھر آنے کا بھی انتظار نہیں کیا ۔ٹیونس سے قفصہ تک  کا راستہ بھر بخاری کوالٹ پلٹ کر واقعہ قرطاس تلاش کرتا رہا ۔ اگر چہ میری دلی تمنا تھی کہ وہ نہ ملے مگر میری بد قسمتی کہ وہ عبارت مل گئی  اور میں نے اس کو کئی مرتبہ پڑھا جیسا شرف الدین نے لکھا تھا وہی تھا ۔ میں نے چاہا سرے سے اصل واقعہ ہی کوجھٹلادیا جائے کیونکہ سیدنا عمر ایسا اقدام نہیں کرسکتے لیکن جو باتیں صحاح میں ہیں ان کا کیونکر انکار کیا جاسکتا ہے ۔ اور صحاح  بھی اہل سنت  کی ۔ اسکے بارے میں ہم لوگ چوں بھی نہیں کرسکتے اور جسکی صحت کی گواہی پر مہر تصدیق ثبت ہے ۔ صحاح میں شک کرنا بعض کو جھٹلا دینے کا مطلب سارے معتقدات کو چھوڑ دینا ہے ۔اگر شیعہ عالم اپنی کتابوں سے نقل کرتا تو میں قیامت تک تسلیم نہ کرتا لیکن اس نے اہل سنت کی صحاح سے نقل کیا ہے جس  میں خدشہ کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے ۔ہم نے خود یہ طے کر رکھا ہے کہ قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب بخاری ہے اس لئے اس کو ماننا پڑے گا ۔ ورنہ پھر صحاح میں شک کرنا پڑے گا اور صحاح میں شک کرنے کا مطلب یہ  ہے کہ ہمارے پاس احکام میں سب سے کوئی ایسی چیزیں نہیں ہے جس پر ہم بروسہ کرسکیں کیونکہ کتاب خدا میں جو آئے ہیں وہ مجمل طور سے ہیں ۔ صحاح کے انکار نہ کرسکنے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہم لوگ عہد رسالت سے بہت بعد میں آئے ہیں دینی احکام "ابا من جد" جو بھی ہم کو وراثت میں ملے ہیں انھیں صحاح کے وساطت سے ملے ہیں لہذا ان کتابوں کو نہ چھوڑا جاسکتا ہے ۔نہ جھٹلا یا جاسکتا ہے اس مشکل بحث میں داخل ہوتے ہی میں نے اپنے نفس سے یہ عہد لیا تھا کہ صرف انھیں صحیح

۹۵

حدیثوں پر بھروسہ کرونگا جو شیعہ سنی دونوں کے یہاں متفق علیہ ہوگی اور ان تمام حدیثوں کو چھوڑ دوں گا ۔جن کو صرف سنی یا  شیعوں  نے لکھا ہوگا ۔ اس معتدل طریقہ پر عمل کرکے میں جذباتی اثرانگیزیوں سے دور رہ سکوں گا   اور مذہبی وقومی یا وطنی تعصبات سے محفوظ رہ سکوں گا اور اسی کے ساتھ شک پر عمل نہیں کروں گا ۔تاکہ حبل یقین یعنی صراط مستقیم تک پہونچ سکوں ۔

۹۶

گہری تحقیق کا آغاز

۹۷

"اصحاب "

شیعوں اور سنیوں کی نظر میں

 تمام بحثوں میں سب سے امہم بحث (جس کو "سنگ بنیاد " کہا جائے ) اصحاب کی زندگی ان کے عقائد کردار کی بحث ہے جو انسان کو حقیقت تک پہنچادیتی ہے کیونکہ ہر چیز کے لئے یہی حضرات ستون ہیں ۔ انھیں سے ہم نے دین لیا ہے تاریکیوں میں احکام خدا کی معرفت کے لئے انھیں کے نور سے روشنی حاصل کرتے ہیں ۔ چونکہ علمائے ماسبق صرف انھیں حضرات پر اکتفا کرتے تھے لہذا ان کے بارے میں ان کی سیرت کے بارے میں کافی بحث وتمحیص سے کام لیا ہے ۔ اور متعدد کتابیں تالیف  فرمائی ہیں ۔مثلا" اسدالغابہ فی تمیز الصحابہ " "الاصابہ فی معرفۃ الصحابہ "" میزان الاعتدال" اور نہ جانے کتنی کتابیں ہیں جن میں زندگانی صحابہ کو نقد وتحلیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔۔۔ لیکن سب اہل سنت کے مخصوص نظریہ کے مطابق لکھی گئی ہیں ۔

اس لئے ان میں یہ اشکال ہے کہ پہلے والے علماء نہ صرف یہ کہ تاریخ وسیرت کی کتابین  عباسی اور اموی حکّام کے حسب منشاء لکھاکرتے تھے جن کی اہل بیت سے دشمنی طشت ازبام ہے بلکہ جو بھی اموی وعباسی حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتا تھا یہ علمائے کرام صرف انھیں کے چشم وابرو کے اشارے پر رقص کرتے تھے اس لئے صرف انھیں کے اقوال کو حجت سمجھ لینا اور دوسرے ان علماء کے اقوال کو

۹۸

کو کوڑے دان میں ڈال دینا انصاف سے بعید نہیں ہے ۔ جنھیں صرف ولائے اہل بیت کے جرم میں حکومتوں نے قتل کردیا ۔ملک بد کردیا ۔ان پر مصائب کے پہاڑ توڑ دیئے ۔ان کی زندگی اجیرن بنادی ۔ان ظالم ومنحرف حکومتوں کے خلاف انقلاب کا مرکز بھی یہی علماء تھے ۔ ان تمام چیزوں میں بنیادی چیز "صحابہ " تھے ۔کیونکہ یہی وہ لوگ تھے جب رسول اکرم نے قیامت تک گمراہی سے بچانے والی تحریر لکھنی چاہی تو اختلاف کربیٹھے ۔یہی حضرات ہیں جنھوں نے امت اسلامیہ کو فضیلت سے محروم کردیا اور گمراہی کے راستہ پر ڈال دیا کہ آج امت ٹکڑیوں میں بٹ گئی ۔کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ اختلافات پھوٹ پڑے ۔امت کمزور ہوگئی ۔ اسلام کا رعب ودبدبہ مخالفین کے دلوں سے جاتارہا ۔

یہی تھے جنھوں نے خلافت میں اڑنگے لگائے ۔کچھ لوگ حکومت حاصل کر لینے میں کامیاب ہوگئے کچھ لوگ مد مقابل بن کر ابھرے ۔جس کے نتیجے میں شیعہ علی اور شیعہ معاویہ میں امت تقسیم ہوگئی ۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے کتاب خدا اور حدیث رسول کی تفسیر میں اختلاف ڈال دیا جس کے نتیجہ میں متعدد فرقے پیدا ہوگئے ۔مختلف کلامی وفکری مدارس وجود میں آگئے ،مختلف فلسفے ظاہر ہوگئے جن کا سرچشمہ سیاسی اسباب تھے ۔ اور حصول تخت وتاج تھا ۔

اگر صحابہ نہ ہوتے تو نہ مسلمان تقسیم ہوتے نہ آپس میں اختلاف ہوتا جتنے بھی اختلافات ہوئے ہیں یا ہونگے ان کی بازگشت صحابہ کے اختلاف کی طرف ہے ۔حالانکہ سب کا خدا ایک ہے ،قرآن ایک ،رسول ایک قبلہ ایک ، اور سب ہی ان چیزوں پر متفق ہیں ۔ لیکن رسول کے انتقال کے بعد سب سے پہلا اختلاف سقیفہ بنی ساعدہ میں رونما ہوا جو آج تک جاری ہے ۔اور (عقیدت صحابہ کی برکت سے)الی ماشا اللہ باقی رہے گا میں نے علمائے شیعہ سے گفتگو کرکے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ان کے یہاں صحابہ کی تین قسمیں ہیں ۔

1:- پہلی قسم:-

 وہ نیک صحابہ جنھوں نے خدا ورسول کی کما حقہ معرفت حاصل کی اور موت پر بیعت کی ،رسول کے سچے صحابی رہے قولا وعملا رسول کے بعد بھی نہیں بدلے بلکہ اپنے عہد پر باقی رہے اور یہی

۹۹

وہ اصحاب ہیں جن کی خدانے اپنی کتاب میں متعدد جگہ تعریف وتوصیف کی ہے اور رسول نےبھی بکثرت ومواقع پر ان کی مدح سرائی کی ہے شیعہ ان اصحاب کاذکر بڑے احترام وتقدیس سے کرتے ہیں اور جس طرح اہل سنت احترام وتقدیس کرتے ہیں رضی اللہ کہتے ہیں شیعہ بھی یہی سب کہتے اور کرتے ہیں ۔

2:- دوسری قسم:-

ان اصحاب کی ہے جو اسلام لائے اور رسول کی پیروی کی خواہ خوف سے خواہ شوق سے مگر کی ، یہ لوگ رسول پر احسان جتاتے تھے کہ ہم ایمان لائے اور بعض اوقات رسول کو اذیت بھی پہونچاتے تھے ۔آنحضرت کے اوامر ونواہی کی بجا آوری نہیں کرتے تھے ۔بلکہ نصوص صریحہ کے مقابلہ میں اپنی رائ کی اہمیت دیتے تھے ۔یہاں تک کہ کبھی تو قرآن نے ان کی توبیخ کی اور کبھی ان کی تہدید کی اور بہت سی آیتوں میں ان کو رسوا بھی کیا ۔ رسول نے بھی بہت سی حدیثوں میں ڈرایا دھمکایا ہے ۔شیعہ ان اصحاب کا ذکر ان کے افعال کے ساتھ کرتے ہیں ۔نہ کوئی احترام کرتے ہیں نہ تقدیس ۔

3:- تیسری قسم:-

 ان منافقین کی ہے جو رسول کے ساتھ ان کو نقصان پہونچانے کی فکر میں رہتے تھے یہ بظاہر تو مسلمان تھے مگر درپردہ وہ کافر تھے ۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کو ضرر پہونچانے کے لئے رسول کے قریب رہتے تھے ۔خدا نے پورا سورہ منافقون ان کےبارے میں میں نازل کیا ہے ۔ بہت سی جگہوں پر ان کا ذکر ہے ۔ ان کو جہنم کے سب سے نچلے طبقہ کی دھمکی دی گئی ہے رسول نے بھی ان کاذکر کیا ہے ۔ان سے بچنے کے لئے کہا ہے ۔بعض اصحاب کو منافقین کےنام بھی بتادیے تھے ۔اور ان کی علامتیں بھی یہ قسم اصحاب کی ایسی ہے کہ شیعہ وسنی دونوں ان پر لعنت کرتے ہیں اور ان سے براءت کرتے ہیں ۔ ایک اور قسم بھی ہے وہ بھی اگرچہ صحابہ ہیں لیکن قرابت رسول خلقی ،نفسی ،فضائل ،خدا ورسول کی طرف سے دی ہوئی خصوصیات کی بنا پر سب سے الگ تھلگ ہیں ان کے برابر کا کوئی نہیں ہے اور نہ ان کے درجہ تک کوئی پہونچ سکتا ہے اور یہ وہ اہلبیت ہیں جن سے خدا نے رجس کو دور کردیا ہے اور پاک وپاکیزہ بنادیا ہے(1)

--------------

(1):- پ 22 س 33 (احزاب )آیت 33

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253