پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا 0%

پھر میں ہدایت پاگیا مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 253

پھر میں ہدایت پاگیا

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 253
مشاہدے: 75272
ڈاؤنلوڈ: 6962

تبصرے:

پھر میں ہدایت پاگیا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 253 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 75272 / ڈاؤنلوڈ: 6962
سائز سائز سائز
پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سفر حجاز

جدہ پہونچ کر میں اپنے دوست بشیر سے ملا جو میرے آنے سے بیحد خوش ہوگیا تھا ۔ فورا اپنےگھر لےگیا اور میرا بہت اکرام کیا : فرصت کے اوقات میں ہم کو اپنی گاڑی سے تفریح گاہوں ،مزارات وغیرہ گھماتا تھا ۔ ہم دونوں ایک ساتھ عمرہ کرنے گئے اور چند دن (دنیا ومافیھا کو بھول کر) صرف عبادت وتقوی میں غرق رہے ۔ میں نےاپنے دوست سے عراق چلے جانے کی وجہ سے جو ملاقات میں تاخیر ہوگئی تھی ۔ اس کی معذرت چاہی اور انکشاف جدید یا فتح کا تذکرہ بھی کیا ۔ اس نے بہت کھلے دل سے سب کچھ سنا ۔اور اس کو کچھ حالات پر اطلاع بھی تھی ۔ چنانچہ اس نے مجھ سے کہا : میں نے سنا ہے کہ آج کل (بھی) ان میں بہت بڑے بڑے علماء ہیں اور جو باتیں وہ کہتے ہیں ان کے یہاں ہیں ۔ بس ان متعدد فرقے ہیں جو کافر ومنحرف ہیں ۔ہر سال حج کے زمانہ میں میں ہمارے لئے مشکلات پیدا کردیتے ہیں  میں نے پوچھا :- وہ کون سے مشکلات ہیں جو یہ لوگ پیدا کردیتے ہیں ۔ ؟ اس نےکہا : قبروں کے ارد گرد نمازیں پڑھتے ہیں ۔ بقیع میں گروہ درگروہ داخل ہوتے ہیں ۔روتے پیٹتے ہیں اپنی جیبوں  میں پتھر کے ٹکڑے رکھے رہتے ہیں اس پر سجدہ کرتے ہیں اور جب سید نا حمزہ کی قبر پر پہونچتے ہیں تو سروسینہ پیٹتے ہیں ۔ایسا غل غپاڑہ مچاتے ہیں جیسے اسی وقت وہ مرتے ہیں ۔ انھیں تمام باتوں کی وجہ سے سعودی حکومت نے ان کے مزاروں میں داخلہ پر پابندی لگادی تھی !

میں نے مسکراتے ہوئے کہا کیا  اسی لئے آپ لوگ ان کو اسلام سے منحرف کہتے ہیں ؟ اس نے کہا یہ اور اس کے علاوہ بھی ! یہ آتے تو زیارت رسول کے لئے ہیں لیکن رسول کی زیارت کے بجائے کھڑے ہو کر عمر وابو بکر کو گالیاں دیتے ہیں ان پر لعنت کرتے ہیں ۔ بعض تو ایسے (بے ہودہ )ہوتے ہیں جو ابو بکر وعمر کی قبروں پر غلاظت ونجاست ڈال دیتے ہیں ۔۔۔۔ اس سے مجھے اپنے والد ماجد کی بات

۸۱

یادآگئی کہ جب وہ حج سے پلٹے تھے ۔ تو انھوں نے بھی یہی بات کہی تھی ۔ لیکن انھوں نے کہا تھا کہ

نبی کی قبر پر گندگی ڈال دیتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ میرے والد نے خود اپنی آنکھوں سے تو دیکھا نہیں تھا صرف سنا تھا ۔کیونکہ ان کا بیان اس طرح تھا : ہم نے سعودی سپاہیوں کو دیکھا کہ وہ بعض حاجیوں کو لاٹھی سے ماررہے ہیں ۔جب ہم لوگ نے اس پر اعتراض کیا کہ یہ حجاج بیت اللہ کی توہین ہے !

تو انھوں نے کہا ارے یہ مسلمان نہیں ہیں ۔یہ شیعہ ہیں جو غلاظتوں کو لے کر آئے تھے کہ قبر رسول پر ڈال دیں ! اس پر ہم لوگوں نے بھی ان پر لعنت کی اور ان پر تھوکا !

اوراب میں اپنے اس ساتھی سے جو سعودی ہے " مدینہ منورہ" میں پیدا ہوا ہے یہ سن رہاہوں کہ یہ لوگ قبر رسول کی زیارت کرنے آتے ہیں اور غلاضتوں کو ابو بکر وعمر کی قبروں پر ڈالتے ہیں ۔مجھے دونوں روایتوں میں شک ہے کیونکہ میں نے خود حج کیا ہے اور دیکھا ہے کہ وہ حجرہ مبارکہ جس میں رسول مقبول اور ابو بکر وعمر کی قبریں ہیں وہ ہر وقت مقفل رہتا ہے کسی کی مجال نہیں ہے کہ اس حجرہ کے قریب جاکر اس کے دروازے یا کھڑکیوں کو بوسہ دے لے ۔چہ جائیکہ اس میں کچھ ڈال دے اور اور اولا تو اس لئے ناممکن ہے کہ اس حجرہ میں نہ تو سوراخ ہے اور نہ روشندان ہے ۔کہ جس سے کوئی چیز پھینکی جا سکے ۔ثانیا ایسے سخت قسم کے فوجیوں کا پہرہ ہر دروازے پررہتا ہے ۔جو نگرانی وحفاظت میں ماہر  ہوتے ہیں ان کے ہاتھوں میں کوڑے ہوتے ہیں جس سے وہ لوگ ہر اس شخص کی پٹائی کردیتے ہیں جو دروازہ یا جالیوں کے قریب ہونا چاہیئے یا حجرہ کے اندر دیکھنا چاہے ۔ میرا گمان غالب یہ ہے کہ سعودی سپاہیوں میں جو لوگ شیعوں کو کافر سمجھتے ہیں ۔ انھوں نے شیعوں پریہ افتراء وبہتان لگایا ہے تاکہ شیعوں کو مارنے کا جواز پیدا ہوسکے یا کم از کم مسلمانوں کو ان سے جنگ پر آمادہ کیاجاسکے یا اتنا فائدہ تو ہوگا ہی کہ جب  شیعوں کو مارا جائے گا تو لوگ خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہیں گے ۔ کوئی اعتراض نہیں کرسکے گا ۔ اور یہ لوگ جب اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں گے تو شیعوں کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ ہوجائے گا ۔کہ یہ لوگ رسول اللہ (ص) سے بغض رکھتے ہیں ۔آنحضرت (ص) کی قبر پر غلاظت ڈالتے ہیں اسی طرح ایک تیر سے دوشکار ہوجائے گا ۔

۸۲

اس کی مثال ایسی ہے کہ مجھے ایک بہت ہی معتبرہ اور ثقہ فاضل نے بیان کیا : ہم لوگ خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے کہ ایک نوجوان کو اژدھام کی وجہ سے گرمی چڑھ گئی اس کو اچھو لگ گیا اور اس نے قے کردیا بس پھر کیا تھا حجر اسود کے حفاظت کرنے والے سپاہی اس پر ٹوٹ پڑے اور اتنا مارا کہ وہ ادھ مرا ہوگیا ۔ پھر اسے نکال دیا اور اس پر الزام لگا یا یہ نجاست لے کر آیا تھا کہ خانہ کعبہ پر مل دے ۔اس پر چند گواہ مہیا کرلئے اور اس بیچارے کو اسی دن قتل کردیا گیا ۔

میرے ذہن میں یہ خیالات فلمی تصویروں کی طرح گزر تے رہے اور کافی دیرتک میں اپنے سعودی دوست کے بارے میں سوچتا رہا کہ اس کے خیالات شیعوں کے بارے میں کیسے ہیں ؟ باربار اس کے یہ جملے : یہ لوگ گریہ وبکا کرتے ہیں ۔ منہ پر طمانچے مارتے ہیں پتھر پرسجدہ کرتے ہیں ۔ قبروں کے آس پاس نمازیں پڑھتے ہیں الخ باربار میرے ذہن میں آتے تھے اور میں نے اپنے آپ سے پوچھا کیا صرف ان باتوں سے کلمہ گو کو کافر قراردیا جاسکتا ہے ؟ یہ لوگ تو اقرار شہادتین کے ساتھ نماز بھی پڑھتے ہیں ۔ زکات بھی دیتے ہیں ، روزہ بھی رکھتے ہیں ،حج بھی کرتے ہیں ، امر بالمعروف ونہیں ازمنکر بھی کرتے ہیں ۔کیا ان باتوں کے باوجود یہ کافر ہیں ۔؟

میں اپنے دوست سے نہ دشمنی مول لینا چاہتا تھا اور نہ ایسی بحث کرنا چاہتا تھا ۔جس کا کوئی فائدہ نہ ہو اس لئے یہ کہہ کر : خداہم کو اور ان کو صراط مستقیم کی ہدایت دے اور ان دشمنان دین پر خدا کی مارپڑے جو اسلام اور مسلمانوں کی جڑ کھودنے میں لگے رہتے ہیں ۔ !خاموش ہوگیا ۔ اس کے بعد اس عمرہ کے دوران اور جب بھی مکہ مکرمہ کی زیارت سے مشرف ہوتا( حالانکہ اس وقت بہت تھوڑے عمرہ کرنے والے طواف کرتے ہوتے تھے ) یہ معمول بنایا تھا کہ نماز پڑھ کے اپنے پورے وجود کے ساتھ گڑا گڑا کر خدا سے دعا کرتا تھا کہ میری بصیرت کھول دے اور حق وحقیقت کی طرف میری ہدایت فرمادے مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر میں نے اس آیت مبارکہ کو سامنے رکھ کر :"وجاهدو فی سبیل الله حق جهاده هو اجتباکم وما جعل علیکم فی الدین من حرج ملة ابیکم ابراهیم هو سما کم المسلمین من قبل وفی هذا

۸۳

لیکون الرسول شهیدا علیکم وتکونوا شهدا علی الناس فاقیموا الصلواة واتو الزکاة واعتصموا بالله هو مولا کم فنعم المولی ونعم النصیر (پ 17 س 22 (الحج آیت 78)

ترجمہ:- اور جو جہاد کرنے کا حق ہے خدا کی راہ میں (اس طرح )جہاد کرو۔ اسی نے تم کو برگزیدہ کیا ۔ اور امور دین میں تم پر کسی طرح کی سختی نہیں کی ۔تمہارے باپ ابراہیم کے مذہب کو (تمہارا مذہب بنادیا ہے ) اسی خدا نے تمہارے پہلے ہی سے مسلمان (فرمانبردر بندے ) نام رکھا اور اس قرآن میں (بھی ) تو جہاد کرو تاکہ رسول تمہارے مقابلے میں گواہ نہیں اور تم توگوں کے مقابلہ میں گواہ بنو ۔اور تم پابندی سے نماز پڑھا کرو اور زکواۃ دیتے رہو اور خدا ہی کو مضبوط پکڑو وہی تمہارا سرپرست ہے اور کیا اچھا مددگار ہے ۔ کہنا شروع کیا ۔اور سیدنا ابراہیم یا اپنے باپ ابراہیم (جیسا کہ قرآن نے کہا ہے ) سے مناجات کرنے لگا : اے ہمارے باپ  ،اے وہ ذات گرامی جس نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے ۔دیکھئے تو آپ کی اولادوں میں آپ کے بعد کتنا اختلاف ہوگیا ۔ کچھ عیسائی ۔کچھ مسلمان ہوگئے ۔پھر یہودیوں میں اختلاف ہوا وہ 71 فرقوں میں بٹ گئے ،عیسائی 72 فرقوں میں تقسیم ہوگئے اور مسلمان تہتر فرقہ ہوگئے ۔اور سب کے سب گمراہ ہیں جیسا کہ آپ کے بیٹے محمد نے خبر دی ہے صرف لے دے کے ایک فرقہ آپ کے مذہب پر باقی رہ گیا ہے ۔

یہ اختلاف وتفرقہ کیا سنت الہی ہے جو اس نے اپنے بندوں میں جاری کیا ہے ؟ جیسے کہ قدریہ فرقہ کہتا ہے کہ خود خدا نے ہر شخص کے لئے معین کردیا ہے کہ وہ یہودی یا عیسائی ہوجائے یا مسلمان ہوجائے یا ملحد ہوجائے یا مشرک ہوجائے ۔۔۔یا یہ اختلاف وتفرقہ محبت دنیا اور تعلیمات الہی سے دوری کا نتیجہ ہے ؟ کیونکہ جب بندوں نے خدا کو فراموش کردیا تو خدا نے بندوں کو بھلا دیا ۔میری عقل قضا وقدر کی تصدیق پر تیار نہیں ہے کہ خود خدا ہی نے انسان کے انجام کو حتمی بنادیا ہے (بندے اس کو بدل نہیں سکتے ) میرا عقیدہ ویقین کہتا ہے

۸۴

کہ خدا نے ہم کو پیدا کرکے ہدایت بخشی ، اچھے برے کی تمیز مرحمت فرمائی  پھر انبیا ء ورسولوں کو بھیج  کر ہمارے مشکلات کو حل کیا جو باتیں ہمارے لئے مبہم تھیں انبیاء نے ان کی وضاحت کردی ، حق وباطل کو پہچنوادیا ۔لیکن انسان کو زندگانی دنیا اور اس کی زیبائش نے انانیت وتکبر نے ،جہالت ونادانی نے عناد سرکشی نے ظلم وطغیان نے حق سے پھرادیا ،شیطان کا تابع بناکر رحمان سے دور کردیا ۔اس کو غیر جگہ پر پہونچا دیا ، اسی بات کو خدا بہت ہی اچھے اور مختصر پیرایہ میں اس طرح کہتا ہے :

ان الله لا یظلم الناس شیئا ولکن الناس انفسهم یظلمون(پ 11 (یونس ) آیه 44)

ترجمہ:- خدا تو بندوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا ۔لیکن یہ بندے خودہی اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں ۔

اے بابا ابراہیم ! یہودونصاری جنھوں نے آپسی دشمنی کی بنا پر بینہ آنے کے بعد بھی حق کی مخالفت کی ہے وہ اتنی زیادہ ملامت کے مستحق نہیں ہیں ۔ جتنی یہ امت مسلمہ جس کو خدا نے آپ کے بیٹے محمد کے ذریعے تاریکیوں سے نکال کر نور میں لے آیا ،جس کی خیر امت قراردیا ،اسی امت نے شدید اختلاف کے بیج بوئے ۔ تفرقہ اندازی کی ایک نے دوسرے کو کافر قرار دیا ۔ حالانکہ رسول اللہ نے پہلے ہی ڈرایا تھا ۔ پہلے ہی سے متنبہ کردیا تھا ۔ اور بڑی سختی سے فرمایا  تھا ۔ کسی مسلمان کے لئے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی کوچھوڑ دے ،آخر اس امت کو کیا ہوگیا ہے جن کے درمیان پھوٹ پڑگئی ہے جو ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی ہے جو چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں بٹ گئی ہے ۔ ایک دوسرے  کوچھوڑ ے رہتے ہیں ۔۔۔ اے بابا ابراہیم ! اس امت کو کیا ہوگیا ہے جو کبھی خیرالامم تھی ۔ شرق وغرب اس کے زیرنگیں تھے جسنے پوری دنیا کو ہدایت ،علوم ،معرفت تہذیب وتمدن بخشا تھا ۔ آج وہ سب سے کم سب سے ذلیل ہوگئی ہے ۔اس کی زمین غصب کر لی گئی اس کے افراد کو ان کے وطن سے دیس نکال دے دیا گیا ہے ان کی مسجد اقصی مٹھی بھر صہیونیوں کے

۸۵

قبضہ میں ہے ۔ وہ اس کو آزاد بھی نہیں کراسکتے ۔اگر آپ مسلمانوں کے شہروں کو دیکھیں تو ہر جگہ فقر فاقہ بھکمری فقیری ،ویران  زمینیں ،مہلک امراض بدخلقی ،کج فکری ،ظلم وستم ،گندگی حشرات الارض صرف بیت الخلاء لے لیجئے  یورپ میں کیسے ہیں اور ہمارے یہاں کیسے ہیں ؟ اگر مسافر یورپ کے کسی بیت الخلاء میں جاتا ہے تو سب کے سب صاف وشفاف شیشہ کی طرح چمکتے ہوے بہترین قسم کی خوشبو لیکن ہمارے یہاں کے بیت الخلاء ،معاذاللہ ان کی کثافت ،نجاست ،گندگی ،بدبو کی وجہ سے مسافر قدم نہیں رکھ سکتا ۔حالانکہ ہم وہ ہیں کہ جس کو اسلام نے بتایا ہے ۔نظافت جزو ایمان ہے " گندگی جزو شیطان ہے ، کیا ایمان یورپ میں اور شیطان ہمارے یہاں منتقل ہوگیا ہے ؟ آخر مسلمان اپنے عقیدے کے اظہار سے کیوں ڈرتے ہیں ؟ حد یہ ہے کہ اپنے ملکوں میں اظہار نہیں کرسکتے ۔مسلمان کو اپنے اوپر بھی اختیار نہیں ،چہرہ پر اختیار نہیں ہے ۔ وہ داڑھی نہیں رکھ سکتا ۔اسلامی لباس نہیں پہن سکتا ،لیکن فاسق علی الاعلان شراب پی سکتا ہے ،زنا کرسکتا ہے ،آبرو ریزی ہتک عزت کرسکتا ہے ۔اور مسلمان اس کو روک نہیں سکتا ۔بلکہ امر بمعروف ونہی از منکر نہیں کرسکتا ۔مجھے لوگوں نے یہاں تک بتایا کہ بعض اسلامی ملکوں میں جیسے مصرو مغرب (وغیرہ )باپ اپنی بیٹی کو شدت فقرہ احتیاج کی بنا پر حرام کاری کرے لئے مجبور کرتاہے

فلا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم

خدایا ! تو نے اس امت سے کیوں دوری اختیار کر لی ! تو نے کیوں اس امت کو اندھیرے میں ڈبوڈیا تا ہوا چھوڑدیا؟ نہیں نہیں ۔خدا یا میں تیری جناب میں استغفار کرتا ہوں ۔تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں (بلکہ )یہ امت ہی تجھ سے دورہوگئی اسی نے شیطان کا راستہ اختیار کرلیا ۔تو نے تو اپنی کتاب میں خودہی کہا ہے : ومن یعش عن ذکر الرحمان نقیض له شیطانا فهو له قرین (پ 25 س 43(الزخرف) آیت 36)

ترجمہ:- اور جو شخص خدا کی یاد سے اندھا بنتا ہے ہم (گویا خود) اس کے لئے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو ہوی اس کا (ہر دم کا )ساتھی ہے

۸۶

وما محمد الا رسول قد خلت من قبله الرسل افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیه فلن یضرالله شیئا وسیجزی الله الشاکرین (پ 4 س 3 (آل عمران)آیت 144)

ترجمہ:- اور محمد تو صرف رسول ہیں (خدا نہیں ہیں ) ان سے پہلے اور بھی بہتر ے پیغمبر گزرچکے ہیں ۔پھر کیا اگر (محمد) اپنی موت سے مرجائیں یا مار ڈالے جائیں تو تم پاؤں (اپنے کفر کی طرف) پلٹ جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھرے گا (بھی )تو سمجھ لوکہ ) ہرگز خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑے گا اور عنقریب خدا کا شکر کرنے والوں کو اچھا بدلہ دےگا ۔

اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ امت مسلمہ جس پستی ،رسوائی فقیری تک پہونچ گئی ہے یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ صراط مستقیم سےبھٹک چکی ہے ۔اور اس میں بھی شک نہیں ہے کہ مٹھی بھر لوگ یا ایک فرقہ پوری امت کے زاویہ فکرو مسیر کو نہیں بدل سکتا رسول خدا نے پہلے ہی فرمایا تھا ۔ تم لوگ امر بمعروف ونہی ازمنکر کرتے رہنا ورنہ خدا تمہارے اوپر تمہارے بروں کو مسلط کردے گا ۔تو تمہارے نیکوں کی دعائیں بھی مستجاب نہ ہوں گی ! پالنے والے تو نے جو نازل کیا ہے ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں تیرے رسول کی پیروی کرتے ہیں ۔ لہذا ہم کو شاہدین میں شمار کرے میرے معبود ہدایت کے بعد ہمارے دلوں کوکج نہ کر ہم پر اپنی رحمت نازل فرما تو بڑا ہی بخشش کرنے والا ہے ۔خدایا ہم نے خود ہی اپنے نفسوں پر ظلم کیا ہے اگر تو نے ہم کو معاف نہ کیا ہم پر رحم نہ کیا تویقینا ہم گھاٹے میں رہیں گے ۔

اپنے دوست بشیر کا خط اس کے رشتہ دار کے نام لے کر میں نے مدینہ منورہ کاسفر کیا تاکہ جب تک مدینہ میں رہوں بشیر کے رشتہ دارہی کے پاس قیام کروں ۔میری روانگی سے پہلے بشیر نے ٹیلفون سے بھی بات کرلی تھی ۔مدینہ پہونچتے ہی میرے میزبان نے مرحبا اور اپنے گھر لے گیا ۔سامان وغیرہ رکھنے کے بعد میں نے سب سے پہلے دیار رسول میں پہونچ کردربار رسول میں حاضری دی ۔لیکن حاضری سے پہلے غسل کیا ۔سب سے اچھا اور پاک وپاکیزہ لباس پہنا

۸۷

خوشبو لگائی پھر بیتابانہ چلا ۔لیکن زمانہ حج کے اعتبار سے زائرین کی کافی کمی تھی ۔ اس لئے بہت ہی آرام سے رسول اللہ و ابو بکر وعمر کی قبور کے سامنے کھڑا ہوگیا ۔حج کے موقع پر یہ شرف نہیں حاصل کرسکا تھا کیونکہ اژدھام بہت تھا اور میں نے بلاوجہ یہ کوشش کی تھی کہ بطور تبرک کسی جالی کو بوسہ دے سکوں ۔میرے ارادہ کو تاڑتے ہی وہاں پر کھڑے ہوئے سپا ہی نے مجھے زور سے ڈانٹا وہاں ہر ہر دروازہ پر سپاہی رہتا ہے ۔ اور جب دعا اور دوستو کے سلام کو پہونچانے میں مجھے وہاں کچھ دیر کھڑا رہنا پڑا تو سپاہی نے حکم دیا کہ واپس جاؤ ۔میں نے چاہا بھی کہ ان میں سے کسی ایک سے بات کروں مگر بے فائدہ !

میں وہاں سے واپس آکر روضہ مطہرہ میں اس جگہ بیٹھ گیا جہاں بیٹھ کر قرآن پڑھا کرتا تھا اور لحن سے قرآن پڑھنے لگا ۔ اورباربار تکرار کرتا تھا ۔مجھے یہ خیال ہوتا تھا کہ جیسے رسول اللہ میری تلاوت کوسماعت فرمارہے ہیں تلاوت کرتے کرتے میں سوچنے لگا ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ دوسے مردوں کی طرح رسول خدا بھی مردہ ہوں ؟ اگر ایسا ہے تو ہم اپنی نمازوں میں مخاطب کرتے ہوئے کیوں کہتے ہیں" السلام علیک ایها النبی ورحمة الله وبرکاته " (اے نبی آپ پر خدا کیا سلام اور اس کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ) اور جب تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ سیدنا خضر علیہ السلام زندہ ہیں اور سلام کرنے والوں کو جواب دیتے ہیں ۔بلکہ صوفی طریقوں کے جملہ مشائخ کا حتمی عقیدہ ہے کہ شیخ احمد تیجانی یا عبدالقادر جیلانی ان کے پاس جاگتے میں (خواب میں نہیں) ظاہر بظاہر آتے ہیں ۔ تو پھر ہم رسول خدا (ص) کے بارے میں اس قسم کی کرامت کے سلسلے میں کیوں بخل کرتے ہیں ؟حالانکہ آنحضرت (ص) علی الاطلاق افضل الخلق ہیں ۔لیکن پھر یہ سوچ کر سکون ہوا کہ تمام مسلمان ایسا نہیں کہتے صرف وہابیوں کا عقیدہ ہے ۔جن سے میں اب متنفر ہونے لگا تھا ۔ ایک تو اسی وجہ سے اور دوسرے بہت سے اسباب کی وجہ سے ۔ منجملہ ان کے وہ سختی بھی ہے جس کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہے کہ جو مومنین ان کے عقیدہ کے خلاف ہیں ان پر کس قدر شدت وسختی کرتے ہیں (آپ سوچ بھی نہیں سکتے )۔

ایک مرتبہ میں بقیع کی زیارت کے لئے وہاں کھڑے ہو کر ارواح اہل بیت (ع) کے لئے ترحم کی دعا

۸۸

کررہا تھا ۔اور میرے قریب ہی ایک بہت ہی بوڑھا شخص رورہا تھا ۔اس کے رونے سے میں سمجھ گیا ۔یہ شیعہ ہے اس کے بعد وہ روبقبلہ ہو کر نماز پڑھنے لگا ۔ اور وہ جیسے ہی سجدہ میں گیا ۔ میں نے ایک فوجی کو دیکھا جو (تقریبا)دوڑ تا ہوا آیا شاید وہ دیرسے اس بوڑھے کے حراکات وسکنات کی نگرانی کررہا تھا ۔اور آتے  ہی زور سے ٹھوکر ماری کہ بڈھا الٹ گیا اور چند منٹ تک وہ ہوش وحواس ہی کھو بیٹھا تھا اور فوجی جوتوں ،گھونسوں  ،لاتوں  سے ایک طرف   اسی کی پٹائی کررہا تھا اور دوسری طرف گالیوں کی بوچھار کررہا تھا ۔یہ دیکھ کر مجھ سے ضبط نہ ہوسکا اور مجھے خیال ہوا کہ شاید بڈھا مرچکا یمں نے فوجی سے کہا : ارے کیوں مار رہے ہو یہ نماز پڑھ رہا تھا ۔ تم یہ حرام کام کیوں کررہے ہو؟ فوجی نے مجھے بی لتاڑ پلائی اور دھمکی دی کہ اگر خاموش نہ رہے تو تمہاری بھی یہی گت بنادوں گا اور جب میں نے اس کی آنکھوں میں شرارے دیکھے تو الگ ہوگیا ۔ اور اپنے اوپر سخت غصہ آرہا تھا کہ مظلوم کی مدد بی نہیں کرسکتا ۔ اور سعودیوں پر بھی غصہ آرہا تھا کہ بغیر کسی روک ٹوک  کے جس کے ساتھ جو بی چاتا ہے برتاؤ کرتے ہیں ۔کوئی ایسا نہیں ہاے جو انکو اس روک سکے ؟ کچھ زائرین بھی وہاں تھے جو اس منظر کو دیکھ رہے تھے ۔بعض نے کہا "لاحول ولا قوة الا بالله " اور بعض نے کہا یہ بڈھا نے کہا یہ بڈھا اسی کا مستحق تھا ۔ یہ قبور کے پاس نماز پڑھ رہا تھا اور یہ حرام ہے یہ سن کر میں اپنے کو قابو میں نہ رکھ سکا اور پھٹ پڑا کہ : کس نے کہا کہ قبروں کے پاس نماز حرام ہے ؟ اس نے کہا رسول اللہ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے ۔میں نے بغیر کچھ سوچھے کہہ دیا کہ تم لوگ رسول خدا پر الزام لگاتے ہو ! پھر میں ڈرا کہیں یہ سب مجھے نہ چمٹ جا ئیں یا اس فوجی کو آوازیں دیدیں اور وہ میرا حال بھی بڈھے جیسا کردے لہذا بہت نرمی سے بولا اگر رسول اللہ نے منع کیا ہے تو لاکھوں آدمی کیوں مخالفت کرتے ہیں؟ کیونکہ حجاج زائرین فعل حرام کا ارتکاب کرتے ہیں؟ کیونکہ قبر رسول وابوبکر وعمر کے آس پاس مسجد نبوی میں نمازیں پڑھتے ہیں ؟ اور پورے اسلامی ممالک کی مسجدوں میں نماز پڑتھے ہیں اور اگر مان بھی لیاجائے قبروں کے پاس  نماز حرام ہے تو کیا اتنی شدت سے روکنا چاہیے یا نرمی سے؟مجھے آپ اجازت دیں تو اس اعرابی کا قصہ سناؤں جس نے رسول اللہ کی مسجد میں پیشاب کردیا تھا ۔خود رسول واصحاب رسول کی موجودگی میں بلا کسی شرم وحیا کے

۸۹

اس نے موت دیا ۔ اورجب بعض حضرات ننگی تلوار لیکر اٹھے کہ اس کو قتل کردیں تو رسول اللہ نے روک دیا اور فرمایا ۔اس کو چھوڑ دو اس پر سختی نہ کرو ۔جہاں اس نے پیشاب کیا وہاں ایک ڈول پانی بہا دو تم کو آسانی کے لئے پیدا کیاگیا ہے ۔ نہ یہ کہ سختی کرنے کے لئے ۔لوگوں کوخوش رکھنے کے لئے نہ کہ نفرت دلانے کے لئے ۔پھر تمام صحابہ نے حکم رسول کی پابندی کی اور رسول خدا نے اعرابی کوپکار کر اپنے پاس  بٹھایا ۔مرحبا کہا بہت نرمی اور لطف ومدارات سے گفتگو فرمائی اور اس کو سمجھایا ۔یہ خدا کا گھر ہے اس کو نجس نہیں کرنا چاہیے ۔اخلاق  رسول کو دیکھ کر اعرابی مسلمان ہوگیا ۔ اور پھر ہمیشہ مسجد میں اچھے اور پاک لباس میں آتا تھا ۔خدا وند عالم نے کتنی سچی بات اپنے رسول سے کہی ہے " ولوکنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک (پ 4 س 3(آل عمران) آیت 159)

ترجمہ:- تم اگر بد مزاج اور سخت دل ہوئے تب تو یہ لوگ (خدا جانے کب کے ) تمہارے گرد سے تتر بتر ہوگئے ہوتے ! قصہ سننے کے بعد بعض موجود حضرات بہت متاثر ہوئے اور ایک شخص مجھے الگ لے جا کر پوچھنے لگا ۔ : آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ؟ میں نے کہا :ٹیونس  کا اس نے مجھے سلام  کیا ۔ اور کہا :- برادر ! تم کو خدا کا واسطہ اپنی جان کی حفاظت کرو ۔یہاں اس قسم کی بات   ہرگز نہ کرو میں تم کو قربۃ الی اللہ نصیحت کرتا ہوں ۔آپ نے ان لوگوں کے دلوں میں اپنے لئے بغض وکینہ پیداکرلیا ہے ۔ یہ لوگ جو اپنے کو حرمین کا نگران سمجھتے ہیں اور حاجیوں کے ساتھ ایسی سختی کا برتاؤ کرتے ہیں کسی میں یہ جراءت نہیں ہے جو اپنی رائے جو کا اظہار کرسکے یا ایسی روایات بیان کرسکے جو ان کی روایتوں کے موافق نہ ہو یا ایسے عقیدہ کا اظہار کرسکے جو ان  کے عقیدے کے مخالف ہو۔

میں نے اپنے نئے دوست کے گھر واپس آگیا جن کا نام بھی  نہیں جانتا تھا ۔ وہ رات کا کھانا لے کر آئے اور میرے سامنے بیٹھ گئے کھانا شروع کرنے سے پہلے  ہی انھوں نے مجھ سے پوچھا کہا ں کہاں گئے تھے ؟ میں نے شروع سے لے کرآخر تک اپنا پورا قصہ بیان کردیا اور بڑے واضح لفظوں میں کہہ دیا ۔بھائی اب مجھے وہابیت سے نفرت ہونے لگی ہے اور شیعیت کی طرف میلان بڑھتا جارہا ہے ۔اتنا سنتے ہی ان کے چہرہ کا رنگ بد ل گیا اور مجھ سے کہنے لگے ۔ خبردار اب

۹۰

اس قسم کی گفتگو دوبارہ نہ کرنا ۔اتنا کہہ کر مجھے چھوڑ کر چلے گئے ۔میں انتظار کرتے کرتے تھک گیا سوگیا ۔علی الصباح مسجد نبوی کی اذان سے قبل میں بیدار ہوا تو دیکھا کھانا اسی طرح اپنی جگہ رکھا ہوا ہے جس سے میں سمجھا کہ میرا میزبان پھر پلٹ کر نہیں آیا ۔ اب میں اس کے بارے میں مشکوک ہوگیا اور مجھے خطرہ لاحق ہوگیا کہ کہیں وہ سی آئی ڈی کا آدمی نہ ہو ۔ لہذا میں فورا اٹھا اور مکان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر نکل  کھڑا ہوا ۔ دن بھر تو حرم نبوی میں رہا زیارت کرتا تھا نمازیں پڑھتا تھا ۔صرف قضائے حاجت اور وضو کے لئے باہر نکلتا تھا ۔نماز عصر کے بعد ایک خطیب کو سنا جو نمازیوں کو وعظ کررہاتھا ۔ میں بھی ادھر ہی چلا گیا ۔ بعض موجودلوگوں سے پتہ چلا کہ یہ مدینہ کا قاضی ہے میں نے بڑی توجہ سے سنا وہ شخص بعض آیتوں کی تفسیر بیان کررہا تھا ۔ درس ختم کرکے جب وہ جانے لگا تومیں نے روک کر پوچھا ۔ سیدی !آیہ تطہیر سے مراد کون لوگ ہیں ؟ اس نے فورا کہا ! ازواج مطہرات  جن کے ذکر سے آیت کی ابتدا ء ہوئی ہے : یا نساء النبی لستن الخ ۔ میں نے کہا :شیعہ علماء تو صرف پنجتن پاک کے لئے مخصوص کہتے ہیں ۔ فطری بات ہے کہ میں نے پراعتراض کیا کہ آیت میں ابتدا  یا نساء النبی (اے نبی کی بیویو) سے ہوئی ہے انھوں نے کہا: جہاں تک رسول کی عورتوں سے خطاب تھا ۔ تمام صیغے جمع مونث کے لائے گئے ۔مثلا :لستن ۔۔۔ان اتقیتن ،فلا تخضعن ۔۔قلن ۔۔ قرن۔۔ بیوتکن ۔۔۔ لاتبرجن ۔۔ اقمن ۔۔۔ آتین۔۔۔۔ اطعن ۔وغیرہ اور جب ان کی بات ختم  اہل بیت کا ذکر آیا تو صیغہ بھی بدل گیا ۔۔لیذھب عنکم ویطہرکم " کہا گیا ۔ میری بات سنکر اس نے چشمہ اٹھا کر دیکھتے ہوئے  کہا: خبردار ان زہریلے افکار سے ہوشیار ہوجاؤ ۔شیعہ کلام خدا کی من مانی تفسیر کرتے ہیں ۔ حضرت علی اور ان کی ذریت کے بارے میں ان کے پاس ایسی ایسی آیتیں ہیں ۔ جس کو ہم لوگ نہیں جانتے ان کے پاس مخصوص قرآن ہے جس کو یہ مصحف فاطمہ " کہتے ہیں میں تم کو ہوشیار کرتا ہوں کہیں ان کے چنگل میں نہ پھنس جاؤ ۔

میں نے کہا سیدی ! اس کی تو آپ فکر نہ کریں ان کے بارے میں مجھے بہت کچھ معلوم ہیں تو حقیقت جاننا چاہتا تھا ۔ قاضی نے کہا  : تم کہا ں کے رہنے والے ہو؟ عرض کیا ٹیونس کا ۔

۹۱

تمہارا نام کیا ہے ؟ میں نے کہا :- التیجانی ! یہ سن کر قاضی بڑے فخر سے ہنسا اور بولا ! کیا تم جانتے ہو احمد التیجانی کون تھا؟  میں نے کہا:- ہاں وہ شیخ الطریقہ تھے ۔قاضی نے کہا ! وہ فرانسیسی استعمار کا ایجینٹ تھا ۔ الجزائر اور ٹیونس میں فرانس کے قد م صرف اسی کی وجہ سے جمے تھے ۔ اگر تم کبھی پیرس جاؤ تو قومی لائبیریری "ضرور دیکھنا اور وہاں قاموس فرنسی کاخود مطالعہ کرنا باب (1) کے اندر تم پڑھوگے کہ فرانس نے "وسام الشرف" (فرانس کا سب سے بڑا تمغہ)احمد التیجانی کو اس کے ان خدمات کے صلہ میں جو اس نے فرانس کے لئے انجام دیئے تھے ۔دیا تھا ۔ اور وہ خدمات ایسے تھے جن کا قیاس بھی نہیں کیا جاسکتا مجھے اس کے قول سے تعجب ہوا ۔بہر حال شکریہ ادا کرکے میں ان سے رخصت ہو کر چلا آیا ۔مدینہ میں پورے ایک ہفتہ قیام کیا تاکہ چالیس نمازیں پڑھ لوں ۔اور تمام زیارتیں بھی کرلوں مدینہ کے دوران قیام میں بہت باریک بینی سے کام لیتا رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہابیت سے نفرت بڑھتی گئی مدینہ منورہ سے کوچ کرکے اردن پہنچا وہاں اپنے دوستوں  سے ملاقات کی جن سے زمانہ حج تعارف ہوا تھا اور جس کی طرف میں پہلے اشارہ کرچکا ہوں ۔

ان لوگوں کے پاس تین دن رہا ۔یہ لوگ شیعوں سے کینہ ہم لوگوں سے زیادہ رکھتے ہیں وہی روایات وہی پڑوپیگنڈے جو ٹیونس میں تھے ۔ یہاں بھی تھے ۔ جس سے بھی میں نے پوچھا تم کسی دلیل سے شیعوں کو دشمن رکھتے ہو؟ سب ہی نے سنی سنائی باتیں دہرادیں دلیل نام کی چیز کسی کے پاس نہیں تھی ۔ اور نہ ان میں سے کسی نے شیعوں کی کتابیں پڑھی تھیں ۔ نہ شیعوں سے نشست وبرخاست کی تھی ۔ حد یہ ہے کہ اپنی زندگی میں کسی شیعہ سے ملاقات تک نہیں کی تھی ۔

اردن سے سوریہ آیا ۔ دمشق میں جامع  اموی" کو دیکھا اس کے پہلو میں مرقد سر امام حسین ہے اس کی زیارت کی ۔صلاح الدین ایوبی ، اور سیدہ زینب کے ضریح کی زیارت سے مشرف ہوا ۔ بیروت سے ڈائریکٹ طرابلس گیا ۔ سمندری سفر پورے چاردن جاری رہا ان چار دنوں یمں جسمانی اور فکری دونوں سکون ملا ۔ پورے سفر کی ریل میرے  ذہن میں چلتی رہی اور اس کا انجام یہ ہوا کہ بیک وقت میرے دل میں شیعوں کی طرف جھکاؤ اور میلان جتنا بڑھا ۔وہابیت سے دوری ونفرت بھی اتنی ہوتی گئی ۔

۹۲

الحمد للہ ان کی دسیسہ کاریوں کو میں نے پہچان لیا ۔خدا نے جو فضل وانعام مجھ پر فرمایا ۔اور جو عنایت ومہربانی فرمائی اس پر اس کی حمد کی اور اس سے دعا کی مجھے راہ حق کی ہدایت کرے ۔

آخر سرزمین وطن پر پہنچا ۔ سب سے زیادہ بے چینی خاندان اہل عیال دوستوں سے ملنے کی تھی ۔شکر خدا سب بخیر وعافیت تھے ۔م

گھر میں داخل ہوتے ہیں مجھے معلوم ہوا کہ میری عدم موجودگی میں بہت سی کتابیں آئی ہیں ۔ میں فورا سمجھ گیا کہا ں سے آئی ہیں ۔ اورجب ان بنڈلوں کو کھولا تو پورا گھر کتابوں سے بھر گیا ۔ اس سے ان لوگوں کا احترام اور ان سے محبت مزید بڑھ گئی ۔جو وعدہ خلافی نہیں کرتے اور میں نے دیکھا کہ مجھے وہاں جنتی کتابیں بطور تحفہ پیش کی گئی تھیں ۔ان کی کئی گنا کتابیں میرے گھر بھیجی گئی ہیں ۔

۹۳

ابتدائے تحقیق

میری خوشی کی انتہا نہ رہی ایک کمرہ میں جس کا نام میں نے کتب خانہ رکھا ۔ تمام کتابوں کو ترتیب سے رکھا ۔اور چند دن آرام کئے چونکہ درسی سال کی ابتدا ہورہی تھی ۔اس لئے ایک ٹائم ٹیبل تیار کیا ۔جس میں تین دن مسلسل پڑھانے کے اور چار دن آرام کے ہر ہفتہ میں رکھا ۔

اس کے بعد کتابوں کے مطالعہ میں جٹ گیا ۔چنانچہ"عقایدالامامیه " "اصل الشیعه واصولها" کو پڑھنے کے بعد میری ضمیر کو بہت سکون ملا ۔کیونکہ خود میرا ضمیر بھی انھیں عقائد کو پسند کرتا تھا جو شیعوں کے تھے اس کے بعد ،سید شرف الدین الموسوی کی کتاب "المراجعات" پڑھی  ابھی چند ہی صفحاپ پڑھے تھے کہ کتاب کی کشش نے پڑھنےپر مجبور کردیا ۔ اور پھر یہ عام ہوگیا کہ کسی شدید مجبوری کے بغیر میں کتاب چھوڑتا ہی نہیں تھا ۔کبھی کبھی تو کالج میں بھی اپنے ساتھ لئے چلا جاتا تھا شیعہ عالم کی صاف گوئی وصراحت اور سنی عالم کی مشکلات کو حل کردینے نے مجھے دہشت زدہ کردیا تھا  کتاب کی صورت مین میری آرزو مجھے مل گئی ۔کیونکہ یہ کتاب عام دھرے پر نہیں لکھی گئی تھی ۔ کہ مولف کا جو جی چاہے  کسی مناقشہ ومعارضہ کے بغیر لکھ دے ۔ بلکہ "المراجعات "دومختلف مذہب (شیعہ وسنی ) کے دو زبر دست عالموں کے درمیان گفتگو ۔۔۔خط وکتابت کی صورت میں ۔۔۔ہوئی تھی جس میں ہر چھوٹی وبڑی چیز کا دونوں ایک دوسر ے سےمحاسبہ کرتے تھے ۔ اور پوری بحث کا دارومدار مسلمانوں کے دو بنیادی مدارک پر تھے ۔۔۔۔ یعنی قرآن کریم اور سنت صحیحہ ۔۔۔اس پوری بحث کو اس میں جمع کردیا گیا تھا ۔ پس وہ کتاب کیا تھی گویا جو یائے حقیقت کو منزل تک پہنچانے والی تھی ۔ یہ کتاب بہت ہی مفید ہے اور میرے اورپر اس کا بہت بڑا احسان ہے

اس کتاب کوپڑھتے پڑھتے جب میں اس منزل پر پہونچا کہ صحابہ  احکام (اوامر) رسول کی پابندی نہیں

۹۴

کرتے تھے تو میں مبہوت ہوگیا ۔ مولف نے اس کی مثالیں دی ہیں ان میں ایک تو روزپنچشنبہ کی مصیبت کا حادثہ ۔۔۔۔ اس سے واقعہ قرطاس مراد ہے ۔۔۔۔ کیونکہ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سیدنا عمر ابن الخطاب حکم رسول پر اعتراض کرسکتے ہیں اور ان کی طرف (معاذاللہ) ہذیان کی نسبت دے سکتے ہیں ۔ شروع میں تو مجھے یہی گمان ہوا کہ یہ شیعوں کی روایت   ہے ۔لیکن میری حیرت و دہشت کی اس وقت انتہا نہیں رہی جب میں نے یہ دیکھا کہ شیعہ عالم صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے حوالہ سے نقل کررہا ہے میں نے اپنے دل میں کہا اگر یہ روایت واقعا صحیح بخاری میں ہے تو پھر اس میں ایک  رائے ہوگی میں نے فورا ٹیونس کا سفر کیا اور وہاں سے صحیح بخاری ،صحیح مسلم،  مسند امام احمد ۔صحیح  ترمذی ، موطا امام مالک ۔انکے علاوہ  دوسری مشہور کتابوں کو خریدا میں نے گھر آنے کا بھی انتظار نہیں کیا ۔ٹیونس سے قفصہ تک  کا راستہ بھر بخاری کوالٹ پلٹ کر واقعہ قرطاس تلاش کرتا رہا ۔ اگر چہ میری دلی تمنا تھی کہ وہ نہ ملے مگر میری بد قسمتی کہ وہ عبارت مل گئی  اور میں نے اس کو کئی مرتبہ پڑھا جیسا شرف الدین نے لکھا تھا وہی تھا ۔ میں نے چاہا سرے سے اصل واقعہ ہی کوجھٹلادیا جائے کیونکہ سیدنا عمر ایسا اقدام نہیں کرسکتے لیکن جو باتیں صحاح میں ہیں ان کا کیونکر انکار کیا جاسکتا ہے ۔ اور صحاح  بھی اہل سنت  کی ۔ اسکے بارے میں ہم لوگ چوں بھی نہیں کرسکتے اور جسکی صحت کی گواہی پر مہر تصدیق ثبت ہے ۔ صحاح میں شک کرنا بعض کو جھٹلا دینے کا مطلب سارے معتقدات کو چھوڑ دینا ہے ۔اگر شیعہ عالم اپنی کتابوں سے نقل کرتا تو میں قیامت تک تسلیم نہ کرتا لیکن اس نے اہل سنت کی صحاح سے نقل کیا ہے جس  میں خدشہ کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے ۔ہم نے خود یہ طے کر رکھا ہے کہ قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب بخاری ہے اس لئے اس کو ماننا پڑے گا ۔ ورنہ پھر صحاح میں شک کرنا پڑے گا اور صحاح میں شک کرنے کا مطلب یہ  ہے کہ ہمارے پاس احکام میں سب سے کوئی ایسی چیزیں نہیں ہے جس پر ہم بروسہ کرسکیں کیونکہ کتاب خدا میں جو آئے ہیں وہ مجمل طور سے ہیں ۔ صحاح کے انکار نہ کرسکنے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہم لوگ عہد رسالت سے بہت بعد میں آئے ہیں دینی احکام "ابا من جد" جو بھی ہم کو وراثت میں ملے ہیں انھیں صحاح کے وساطت سے ملے ہیں لہذا ان کتابوں کو نہ چھوڑا جاسکتا ہے ۔نہ جھٹلا یا جاسکتا ہے اس مشکل بحث میں داخل ہوتے ہی میں نے اپنے نفس سے یہ عہد لیا تھا کہ صرف انھیں صحیح

۹۵

حدیثوں پر بھروسہ کرونگا جو شیعہ سنی دونوں کے یہاں متفق علیہ ہوگی اور ان تمام حدیثوں کو چھوڑ دوں گا ۔جن کو صرف سنی یا  شیعوں  نے لکھا ہوگا ۔ اس معتدل طریقہ پر عمل کرکے میں جذباتی اثرانگیزیوں سے دور رہ سکوں گا   اور مذہبی وقومی یا وطنی تعصبات سے محفوظ رہ سکوں گا اور اسی کے ساتھ شک پر عمل نہیں کروں گا ۔تاکہ حبل یقین یعنی صراط مستقیم تک پہونچ سکوں ۔

۹۶

گہری تحقیق کا آغاز

۹۷

"اصحاب "

شیعوں اور سنیوں کی نظر میں

 تمام بحثوں میں سب سے امہم بحث (جس کو "سنگ بنیاد " کہا جائے ) اصحاب کی زندگی ان کے عقائد کردار کی بحث ہے جو انسان کو حقیقت تک پہنچادیتی ہے کیونکہ ہر چیز کے لئے یہی حضرات ستون ہیں ۔ انھیں سے ہم نے دین لیا ہے تاریکیوں میں احکام خدا کی معرفت کے لئے انھیں کے نور سے روشنی حاصل کرتے ہیں ۔ چونکہ علمائے ماسبق صرف انھیں حضرات پر اکتفا کرتے تھے لہذا ان کے بارے میں ان کی سیرت کے بارے میں کافی بحث وتمحیص سے کام لیا ہے ۔ اور متعدد کتابیں تالیف  فرمائی ہیں ۔مثلا" اسدالغابہ فی تمیز الصحابہ " "الاصابہ فی معرفۃ الصحابہ "" میزان الاعتدال" اور نہ جانے کتنی کتابیں ہیں جن میں زندگانی صحابہ کو نقد وتحلیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔۔۔ لیکن سب اہل سنت کے مخصوص نظریہ کے مطابق لکھی گئی ہیں ۔

اس لئے ان میں یہ اشکال ہے کہ پہلے والے علماء نہ صرف یہ کہ تاریخ وسیرت کی کتابین  عباسی اور اموی حکّام کے حسب منشاء لکھاکرتے تھے جن کی اہل بیت سے دشمنی طشت ازبام ہے بلکہ جو بھی اموی وعباسی حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتا تھا یہ علمائے کرام صرف انھیں کے چشم وابرو کے اشارے پر رقص کرتے تھے اس لئے صرف انھیں کے اقوال کو حجت سمجھ لینا اور دوسرے ان علماء کے اقوال کو

۹۸

کو کوڑے دان میں ڈال دینا انصاف سے بعید نہیں ہے ۔ جنھیں صرف ولائے اہل بیت کے جرم میں حکومتوں نے قتل کردیا ۔ملک بد کردیا ۔ان پر مصائب کے پہاڑ توڑ دیئے ۔ان کی زندگی اجیرن بنادی ۔ان ظالم ومنحرف حکومتوں کے خلاف انقلاب کا مرکز بھی یہی علماء تھے ۔ ان تمام چیزوں میں بنیادی چیز "صحابہ " تھے ۔کیونکہ یہی وہ لوگ تھے جب رسول اکرم نے قیامت تک گمراہی سے بچانے والی تحریر لکھنی چاہی تو اختلاف کربیٹھے ۔یہی حضرات ہیں جنھوں نے امت اسلامیہ کو فضیلت سے محروم کردیا اور گمراہی کے راستہ پر ڈال دیا کہ آج امت ٹکڑیوں میں بٹ گئی ۔کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ اختلافات پھوٹ پڑے ۔امت کمزور ہوگئی ۔ اسلام کا رعب ودبدبہ مخالفین کے دلوں سے جاتارہا ۔

یہی تھے جنھوں نے خلافت میں اڑنگے لگائے ۔کچھ لوگ حکومت حاصل کر لینے میں کامیاب ہوگئے کچھ لوگ مد مقابل بن کر ابھرے ۔جس کے نتیجے میں شیعہ علی اور شیعہ معاویہ میں امت تقسیم ہوگئی ۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے کتاب خدا اور حدیث رسول کی تفسیر میں اختلاف ڈال دیا جس کے نتیجہ میں متعدد فرقے پیدا ہوگئے ۔مختلف کلامی وفکری مدارس وجود میں آگئے ،مختلف فلسفے ظاہر ہوگئے جن کا سرچشمہ سیاسی اسباب تھے ۔ اور حصول تخت وتاج تھا ۔

اگر صحابہ نہ ہوتے تو نہ مسلمان تقسیم ہوتے نہ آپس میں اختلاف ہوتا جتنے بھی اختلافات ہوئے ہیں یا ہونگے ان کی بازگشت صحابہ کے اختلاف کی طرف ہے ۔حالانکہ سب کا خدا ایک ہے ،قرآن ایک ،رسول ایک قبلہ ایک ، اور سب ہی ان چیزوں پر متفق ہیں ۔ لیکن رسول کے انتقال کے بعد سب سے پہلا اختلاف سقیفہ بنی ساعدہ میں رونما ہوا جو آج تک جاری ہے ۔اور (عقیدت صحابہ کی برکت سے)الی ماشا اللہ باقی رہے گا میں نے علمائے شیعہ سے گفتگو کرکے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ان کے یہاں صحابہ کی تین قسمیں ہیں ۔

1:- پہلی قسم:-

 وہ نیک صحابہ جنھوں نے خدا ورسول کی کما حقہ معرفت حاصل کی اور موت پر بیعت کی ،رسول کے سچے صحابی رہے قولا وعملا رسول کے بعد بھی نہیں بدلے بلکہ اپنے عہد پر باقی رہے اور یہی

۹۹

وہ اصحاب ہیں جن کی خدانے اپنی کتاب میں متعدد جگہ تعریف وتوصیف کی ہے اور رسول نےبھی بکثرت ومواقع پر ان کی مدح سرائی کی ہے شیعہ ان اصحاب کاذکر بڑے احترام وتقدیس سے کرتے ہیں اور جس طرح اہل سنت احترام وتقدیس کرتے ہیں رضی اللہ کہتے ہیں شیعہ بھی یہی سب کہتے اور کرتے ہیں ۔

2:- دوسری قسم:-

ان اصحاب کی ہے جو اسلام لائے اور رسول کی پیروی کی خواہ خوف سے خواہ شوق سے مگر کی ، یہ لوگ رسول پر احسان جتاتے تھے کہ ہم ایمان لائے اور بعض اوقات رسول کو اذیت بھی پہونچاتے تھے ۔آنحضرت کے اوامر ونواہی کی بجا آوری نہیں کرتے تھے ۔بلکہ نصوص صریحہ کے مقابلہ میں اپنی رائ کی اہمیت دیتے تھے ۔یہاں تک کہ کبھی تو قرآن نے ان کی توبیخ کی اور کبھی ان کی تہدید کی اور بہت سی آیتوں میں ان کو رسوا بھی کیا ۔ رسول نے بھی بہت سی حدیثوں میں ڈرایا دھمکایا ہے ۔شیعہ ان اصحاب کا ذکر ان کے افعال کے ساتھ کرتے ہیں ۔نہ کوئی احترام کرتے ہیں نہ تقدیس ۔

3:- تیسری قسم:-

 ان منافقین کی ہے جو رسول کے ساتھ ان کو نقصان پہونچانے کی فکر میں رہتے تھے یہ بظاہر تو مسلمان تھے مگر درپردہ وہ کافر تھے ۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کو ضرر پہونچانے کے لئے رسول کے قریب رہتے تھے ۔خدا نے پورا سورہ منافقون ان کےبارے میں میں نازل کیا ہے ۔ بہت سی جگہوں پر ان کا ذکر ہے ۔ ان کو جہنم کے سب سے نچلے طبقہ کی دھمکی دی گئی ہے رسول نے بھی ان کاذکر کیا ہے ۔ان سے بچنے کے لئے کہا ہے ۔بعض اصحاب کو منافقین کےنام بھی بتادیے تھے ۔اور ان کی علامتیں بھی یہ قسم اصحاب کی ایسی ہے کہ شیعہ وسنی دونوں ان پر لعنت کرتے ہیں اور ان سے براءت کرتے ہیں ۔ ایک اور قسم بھی ہے وہ بھی اگرچہ صحابہ ہیں لیکن قرابت رسول خلقی ،نفسی ،فضائل ،خدا ورسول کی طرف سے دی ہوئی خصوصیات کی بنا پر سب سے الگ تھلگ ہیں ان کے برابر کا کوئی نہیں ہے اور نہ ان کے درجہ تک کوئی پہونچ سکتا ہے اور یہ وہ اہلبیت ہیں جن سے خدا نے رجس کو دور کردیا ہے اور پاک وپاکیزہ بنادیا ہے(1)

--------------

(1):- پ 22 س 33 (احزاب )آیت 33

۱۰۰