اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )0%

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض ) مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 200

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 200
مشاہدے: 180788
ڈاؤنلوڈ: 5315

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 200 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180788 / ڈاؤنلوڈ: 5315
سائز سائز سائز
اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

امیر المؤمنین(ع)نے فرمایا:

 فَانَّ الْمَرْاةَ رَيْحَانَةٌ وَ لَيْسَتْ بِقَهْرَمَانَةٍ(1)

بیشک عورت گلزار زندگی کا پھول ہے نہ پہلوانلیکن یاد رکھو کہ مرد حضرات اپنی جسمانی قدرت اور طاقت کے زور پر کبھی بھی اس گلستان خلقت کے پھولوں کوجنہیں  ما ں،بہن،بیٹی اور شریک حیات کے نام سے  یاد کئے  جاتے ہیں،  جوطراوت اور شادابی کیساتھ کھلا کرتی ہیں ؛اپنے مکہ، طمانچہ اور ٹھوکر کا نشانہ نہ بنائیںدین مقدس اسلام مردوں کو اپنی ناموس خصوصا شریک حیات کے بارے میں خبردار کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو اس لطیف اور نازک شریک حیات کو جوتیری زندگی کی خوشی،سکون اور ارام کا باعث ہے، ضائع کرے:قَالَ رَسُولُ اللهِ ص انَّمَا الْمَرْاةُ لُعْبَةٌ مَنِ اتَّخَذَهَا فَلَا يُضَيِّعْهَا (2) پیغمبر اسلام(ص)نے فرمایا عورت گھر میں خوشی کا سبب ہے ایسا نہ ہو کہ کوئی اسے اپنے تحویل میں لے لے اور اسے ضائع کردے

خاندانی اختلافات کا علاج

گھریلو اختلافات کا طولانی ہونا ایک سخت بیماری ہے جو خاندان کے جسم پر لاحق ہوتی ہے جس سے  چھٹکارا حاصل کرنا اور علاج کرنا بہت ضروری ہے

1.  پہلا علاج تو یہ ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے وظائف کو سمجھے اور ان پر عمل کرے

2.  دوسرا علاج توقّعات کو کم کرنا ہے حقیقی اکسیر اوردوا یہی ہے اور یہ شرطیہ علاج ہےصرف ایک دفعہ ازمانا شرط ہے

3.  تیسرا علاج اپنی نفسانی خواہشات، خودخواہی ، غرور اور خودپسندی کے خلاف قیام کرنا ہے جس سے نہ صرف اختلافات ختم ہوسکتے ہیں بلکہ موجودہ اختلافات صلح و صفائی میں بدل سکتے ہیں

--------------

(1):- بحار الانوار،ج۷۴، ص۲۱۵

(2):- بحار الانوار،ج۷۴، ص۲۱۵

۱۲۱

4.  چوتھا علاج ایک دوسرے کے اعتراضات اور اشکالات کو سننا اور موافقت اور مفاہمت کے لئے قدم اٹھاناچنانچہ قران مجید مردوں کو نصیحت کرتاہے کہ طبیب اور حکیم کی طرح  علاج اور معالجہ کریںاور گھریلو ماحول میں جزّابیت، طراوت اور شادابی  کو برقرار رکھیں

قران مجید کہہ رہا ہے کہ اگر بیوی نے نافرمانی شروع کی تو فورا مارنا پیٹنا شروع نہ کریں بلکہ پہلے مرحلے میں وعظ و نصیحت کرکے اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کریں اور اگر پھر بھی نہ مانے تو دوسرا  راستہ اختیار کریںیعنی ایک ساتھ سونا چھوڑدیںاور پھر بھی بات نہ مانے تو مار کر اسے مہار کرلولیکن گھریلو اور خاندانی زندگی میں بہترین قاعدہ یہ ہے کہ شوہر مظہر احسان ہو بہترین انسان وہ ہے کہ اگر عورت خطا اور نافرمانی کی مرتکب ہو جائے تو اسے معاف کرتے ہوئے اس کی اصلاح شروع کرےاور راہ اصلاح  اس سے دوری اختیار کرنا نہیں جو محبت اور اشتی کی راہوں کو بند کرتا ہوبلکہ صحیح راستہ وہی ہے جو محبت اور اشتی کی راہوں کو کھول دے

 قُلْتُ لِابِي عَبْدِ اللهِ ع مَا حَقُّ الْمَرْاةِ عَلَ ی زَوْجِهَا الَّذِي اذَا فَعَلَهُ كَانَ مُحْسِنا قَالَ يُشْبِعُهَا وَ يَكْسُوهَا وَ انْ جَهِلَتْ غَفَرَ لَهَا (1)

کسی نے امام صادق(ع) سے سوال کیا کہ بیوی کا مرد پر کیا حق ہے جسے اگر وہ ادا کرے تو مظہر احسان بن جائے؟ امام نے فرمایا: اسے کھانا دے بدن ڈھانپنے کے لئے کپڑا دے اور اگر کوئی جہالت یا نافرمانی کرے تو اسے معاف کردے

اوپر ایہ شریفہ میں تیسرے مرحلہ پر مارنے کا حکم ایا ہے،لیکن مارنے کی کوئی حد بھی مقرر کی ہے یا نہیں؟یہ تو اپ جانتے ہیں کہ جس چیز کی اطاعت کرنا عورت پر واجب ہے وہ فقط مباشرت اور ہمبستری کے لئے تیار رہنا ہے کہ شوہر جب بھی اس چیز کا تقاضا کرے عورت تیار رہے اور انکار نہ کرےباقی کوئی کام بھی اس کے ذمہ نہیں ہے یہاں تک کہ بچےّ کو دودھ پلانا بھیاور شوہر کو حق نہیں پہنچتا کہ اسے جامڑو لگانے، کپڑے  دہلانے اور کھانا پکانے پر مجبور کرے  بلکہ یہ وہ کام ہیں جو باہمی تفاہم اور رضامندی سے انجام دیے جائیںورنہ شوہر کو ان کاموں میں مار پیٹ کرکے اپنی بات منوانا  تو دور کی بات،مواخذہ تک کرنا

--------------

(1):-    وسائل الشیعہ ،ج ۲۱، ص۵۱۱

۱۲۲

جائز نہیں ہےمرد کو یہ بھی جان لینا چاہئے کہ بیوی کنیز اور نوکرانی کی حیثیت سے گھر نہیں لائی گئی ہے بلکہ بحیثیت ہمسرلائی گئی ہے

دوسرا سوال یہ ہے کہ مار پیٹ کی حد کیا ہے اس کاجواب یہ ہے کہ یہاں بھی مرد مارپیٹ کے حدود کو معین نہیں کرسکتا بلکہ اسلام نے اس کی مقدار اور حدود کو معین کیا ہےاس قسم کی مار پیٹ کو ہم تنبیہ بدنی کے بجائے نوازش اور پیار سے تشبیہ دیں تو زیادہ بہتر ہوگا

اس سلسلے میں قران مجید میں ایک بہت دلچسپ اور سبق اموز داستان موجودہے جوحضرت ایوبؑ     اور ان کی زوجہ محترمہ کا قصہ ہے: حضرت ایوب(ع) طویل عرصے تک بیمار رہے اپ کا اللہ اور اپنی زوجہ کے سوا کوئی اور سہارا نہ رہاوہ  خادمہ سخت پریشان تھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطان ملعون نے اکر کہا: اگر ایوب مجھ سے شفاء طلب کرے تو میں کوئی ایسا کام کروں گا کہ ایوب ٹھیک ہوجائےجب یہ کنیز خدا  اپنے شوہر کے پاس ائی  اور اس بات کا اظہار کیا تو حضرت ایوب(ع) سخت ناراض ہوئے اور قسم کھائی کہ اگر میں ٹھیک ہوجاؤں تو تجھے سو کوڑے ماروں گاحالانکہ اپ کی مہربان بیوی کے علاوہ کوئی اور دیکھ بھال کرنے والا نہ تھااور جب اپ بیماری سے شفایاب ہوگئے تو خدا نے انہیں دستور دیا:

وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ انَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ انَّهُ اوَّابٌ(1)

اور ایوب(ع) تم اپنے ہاتھوں میں سینکوں کا مٹھا لے کر اس سے مارو اور قسم کی خلاف ورزی نہ کرو - ہم نے ایوب (ع)کو صابر پایا ہے- وہ بہترین بندہ اور ہماری طرف رجوع کرنے والا ہےصبر ایوب (ع) دنیا میں ضرب المثل  کی حیثیت رکھتا ہے اور روایات کی بنا پر انہوں نے واقعا صبر کیا ہےاموال سب ضائع ہوگئے اولاد سب تلف ہوگئیاپنے جسم میں بھی طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوگئیں لیکن مسلسل صبر کرتے رہےاور کبھی فریاد نہ کیاس واقعہ سے ہمیں جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی ایسا موقع ائے تو ہاتھ اٹھانے سے پہلے یہ سوچ کراسے معاف کرے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہمیں معاف کریگا

------------

(1):- سورہ ص ۴۴

۱۲۳

جہنمی مرد

رسول اللہ(ص)نے فرمایا:  مَنْ اضَرَّ بِامْرَاةٍ حَتَّ ی تَفْتَدِيَ مِنْهُ نَفْسَهَا لَمْ يَرْضَ اللهُ لَهُ بِعُقُوبَةٍ دُونَ النَّارِ لِانَّ الهَ يَغْضَبُ لِلْمَرْاةِ كَمَا يَغْضَبُ لِلْيَتِيم‏ (1)

 ہر وہ شخص جو اپنی بیوی کو اس قدر اذیت و اذار دے کہ وہ اپنے حق مہر سے دست بردار ہونے پر مجبور ہوجائے تو خدا تعالی اس کے لئے اتش جہنم سے کم عذاب پر راضی نہیں ہوگاکیونکہ خداوند عورت کی خاطر اسی طرح غضبناک ہوتا ہے جس طرح یتیم کی خاطر غضبناک ہوتا ہے

بس ہمیں چاہئے کہ اپنی اخرت کی فکر کریںثانیا مرد  اپنی مردانگی دکھاتے ہوئے اسے کچھ اضافی چیز دیکر ازاد کرے تاکہ اپنا وقار اور تشخّص برقرار رکھ سکےچنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ حضرت سلیمان (ع)نے دیکھا کہ ایک چڑا چڑیا سے کہہ رہا ہے کہ اگرتوچاہے تو میں تخت سلیمان (ع)کوتیرے قدموں میں نچھاور کردوںجب یہ باتیں حضرت سلیمان(ص) نے سنی تو فرمایا: کیا تجھ میں اتنی ہمّت ہے؟ توچڑے نے کہا یا نبی اللہ! اتنی ہمت تو کہاںلیکن مادہ کے سامنے نر کو اپنا وقار برقرار رکھنا چاہئے

قَالَ رَسُولُ اللهِ ا يَضْرِبُ احَدُكُمُ الْمَرْاةَ ثُمَّ يَظَلُّ مُعَانِقَهَا ؟(2)

پیغمبر اسلام (ص)نے فرمایا کیسے بیوی کو ان ہاتھوں سے بانہوں میں لیتے ہو جن سے ان پر تشدد کرتے ہو؟! اور کیا تم میں سے کوئی ہے جو بیوی کو مارے اور پھراسے گلے لگائے؟!

بہت ہی غیر منصفانہ رویّہ ہے کہ شخص اپنے ہاتھوں کو اپنی شریک حیات کے اوپر کبھی غیض و غضب اور مار پیٹ کا ذریعہ بنائے اورکبھی انہی ہاتھوں سے اپنی جنسی خواہشات پوری کرنےکیلئے اسے بانہوں میں لے!

--------------

(1):- وسائل الشیعہ ،ج۲۲ ص ۲۸۲

(2):- وسائل الشیعہ ،ج ۲۰ص ۱۶۷

۱۲۴

مارنا پیٹنا بڑا گناہ ہے کیونکہ مارنے کا ہمیں حق نہیں ہے، اور مارنے کی صورت میں شریعت نے دیت واجب کردیا ہےجس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

1.  شوہر کے مارنے کی وجہ سے بیوی کے چہرے پر صرف خراش اجائے تو ایک اونٹ دیت واجب ہے

2.  اگر خون بھی جاری ہوا تو دو اونٹ واجب ہیں

3.  اگر بیوی کا چہرہ  مارنے کی وجہ سے کالا ہوجائے تو چھ مثقال سونا واجب ہے

4.  اگر چہرہ سوجھ جائے تو تین مثقال سونا واجب ہے

5.  اگر صرف سرخ ہوگیاتو ڈیڑھ مثقال سونا واجب ہےہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ان دیات کے ساتھ  قصاص لینے کا بھی حق رکھتی ہے

مارنا اور گالی دینا جہالت

کس قدر نادان اور جاہل ہیں وہ لوگ جو اپنی شریک حیات کومارتے اور گالی دیتے ہیںایسے شوہر پر تعجب کرتے ہوئے رسول اسلام(ص) نے فرمایا:

انِّي اتَعَجَّبُ مِمَّنْ يَضْرِبُ امْرَاتَهُ وَ هُوَ بِالضَّرْبِ اوْلَی مِنْهَا لَا تَضْرِبُوا نِسَاءَكُمْ بِالْخَشَبِ فَانَّ فِيهِ الْقِصَاصَ وَ لَكِنِ اضْرِبُوهُنَّ بِالْجُوعِ وَ الْعُرْيِ حَتَّی تُرِيحُوا [تَرْبَحُوا] فِي الدُّنْيَا وَ الْاخِرَة(1)

میں اس شخص پر تعجب کرتا ہوں جو اپنی بیوی کو مارتاہے جبکہ وہ خود زیادہ سزا  کا مستحق ہےہاں مسلمانو!اپنی بیویوں کو لاٹھی سے نہ مارنا اگر ان کو تنبیہ کرنے پر مجبور ہوجائے تو انہیں بھوکے اور ننگے رکھ کر تنبیہ کرویہ طریقہ دنیا اور اخرت دونوں میں تیرے فائدے میں ہے

--------------

(1):- بحار،ج ۱۰۰، ص۲۴۹ 

۱۲۵

اور یہ حدیث اس ایہ شریفہ کی تفسیرہے جس میں فرمایا:

 وَ الَّاتی تخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَ اهْجُرُوهُنَّ فی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوهُنَّ فَانْ اطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيهْنَّ سَبِيلا  انَّ اللهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيرًا(1)

اور جن عورتوں کی سرکشی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اگر باز نہ ائیں تو  خواب گاہ الگ کردو(اور پھر بھی باز نہ ائیں تو )انہیں مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو ان کے خلاف بہانہ تلاش نہ کرو کہ خدا بلنداور بزرگ ہے

شوہر میں بیوی کی پسندیدہ خصوصیات

مال و دولت

کیونکہ یہ گھریلو ارام وسکو ن اور زندگی میں رونق کا سبب بنتا ہے، لہذا لوگوں کو چاہئے کہ معقول اور مشروع طریقے سے رزق و روزی کے لئے کوشش اور تلاش کریںاور گھر والوں کی ضروریات  پوری کریں

قدرت اور توانائی

عورت مرد کو اپنا نگہبان اور محافظ سمجھتی ہے لہذا محافظ کو قوی اور مضبوط ہونا چاہئے

باغیرت ہو

عورت چاہتی ہے کہ اس کا شوہر ہر کام میں دوسرے مردوں سے کمزور نہ رہےخواہ دینی امور میں ہو یا دنیاوی امور میں اگر غیرت نہ ہو تو وہ شخص یقینا سست ہوگاحدیث میں ملتا ہے کہ جس میں غیرت نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں

--------------

(1):- نساء  ۳۴

۱۲۶

مستقل زندگی گزارے

بیوی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر خود مستقل زندگی گزارے اور کسی پر محتاج نہ ہو، تاکہ دوسرے کی منّت و سماجت نہ کرنا پڑے

معاشرے میں معززہو

یہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے لیکن بیوی کی زیادہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شوہر معاشرے میں معزز ہو اور اس کی عزت کو اپنی عزت سمجھتی ہے

نرم مزاج ہو

عورت کبھی نہیں چاہتی کہ اس کا شوہر خاموش طبیعت ہو کیونکہ خاموش بیٹھنے سے عورت کو سخت تکلیف ہوتی ہے لہذا وہ چاہتی ہے کہ اس کے ساتھ نرم لہجے میں میٹھی میٹھی باتیں کرتا رہے

صاف ستھرا رہے

یہ بات ہر انسان کی طبیعت میں اللہ تعالیٰ نے ودیعت کی ہے کہ وہ صفائی کو پسند کرتا ہے اور گندگی اور غلاظت سے نفرت کرتا ہےاس بارے میں بہت سی روایات موجود ہیں: النضافة من الایمانصفائی نصف ایمان ہے عورت بھی اپنے شوہر کو پاک و صاف دیکھنا پسند کرتی ہے، لہذا مردوں کو چاہئے کہ اپنی داڑھی اور بالوں کی اصلاح کرتے رہیںخوشبو استعمال کریںسیرت پیغمبر(ص)میں بھی ہمیں یہی درس ملتاہے

۱۲۷

خوش سلیقہ ہو

عورت چاہتی ہے کہ اگر وہ کوئی کام کرے تو اسے شوہر سراہاے اور اس سے غافل نہ رہےاگر بچےّ گھر میں بد نظمی پیداکریں تو ان کی اصلاح کرےاور منظّم کرے

مؤمن ہو

یہ ساری صفات میں اہم ترین صفت ہے اگر ایمان ہے تو  سب کچھ  ہے  اور اگر ایمان نہ ہو تو کچھ بھی نہیںکیونکہ یہی ایمان ہے جو تمام خوبیوں اور اچھائیوں کی بنیاد ہےلہذا خدا تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ ہمیں بھی ایمان اور اخلاق کے زیور سے اراستہ اور مزیّن فرما امین یا رب العالمین

۱۲۸

دوسرا حصہ

خواتین کا مقام اور حقوق

۱۲۹

پہلی فصل

عورت تاریخ کی نگاہ میں

تاریخ بشریت میں عورت کا مرتبہ

اصل موضوع "عورتوں کے حقوق اسلام کی نگاہ میں" پر گفتگو کرنے سے پہلے اسلام سے قبل عورتوں کی حالت اور موقعیت کا مختصر مطالعہ ضروری ہے تاکہ بہتر سمجھ سکے کہ پیغمبر اسلام(ص)نے کتنی زحمتیں برداشت کرکے ان کی چھینی ہوئی حیثیت اور حقوق دوبارہ انہیں دلادئے ہیں

ابتدائی دورمیں عورت کی حیثیت

قدیم ترین زمانے میں مختلف ممالک میں کلی طور پرلوگ عورتوں پر حکومت کرتے تھے کیونکہ ہر معاشرے میں مخصوص اداب اور رسوم حاکم تھے جو دینی اور قانونی نہ تھے ان اداب و رسوم میں عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی بلکہ جانوروں کی طرح ان کی دیکھ بارل ہوتی تھیجس طرح بیڑس بکریوں کو گوشت کی خاطر یا فروخت  کے لئے پالتے تھے اسی طرح عورتوں کو بھی پیسہ کمانے یا جنسی خواہشات کو پورا کروانے کے لئے وسیلہ کے طور پر سنبھال کر رکھتے تھےیہاں تک کہ اگر قحط پڑجائے تو ذبح کرکے عورتوں کا گوشت کھایا کرتے تھےعورت صرف شوہر کے گھر میں نہیں بلکہ اپنے باپ کے گھر میں بھی مظلوم تھیکسی چیز پر انہیں اختیار نہیں تھا حتی شوہر کا انتخاب بھی باپ کی مرضی سے ہوتا تھااور حقیقت میں باپ اور شوہر کے درمیان ایک قسم کا معاملہ تھا اگر گھر کا رئیس، باپ ہو یا بھائی یا شوہر،جسے چاہے اسے بخش دیتا یا فروخت کردیتا، یا فقط عیاشی کے عنوان سے نسل بڑھانے اور خدمت گزاری کے لئے کسی اور کو عاریہ دیتا  اور ان سے اجارہ لیتا تھاہم یہاں چند ممالک اور انسانی معاشرے میں عورتوں کی حیثیت کا جائزہ لیں گے:

۱۳۰

یونان میں عورت کی حیثیت

یونان اور روم کو متمدن ممالک اور پیش رفتہ معاشرہ تصور کرتے ہیں لیکن وہاں پر بھی خواتین کی زبون حالی اتنی تھی کہ انہیں شیطان کی نسل اور نجس سمجھی جاتی تںیزاسپرٹی نامی ایک شخص کہتا ہے: (عورت ایک بلند بال اور کوتاہ فکر حیوان ہے)یہ مقولہ  اس قدر مشہور ہوگیا کہ ادبیات عرب میں ضرب المثل کے طور پر استعمال ہونے لگاالمرئة  حیوان طویل الشعر وقصیر الفکریونان والے جب بھی عورت کے بچہ دینے سے مایوس ہوجاتے تو اسے موت کے گھاٹ اتاردیتے تھے ان کے ہاں یہ ضرب الامثال موجود ہیں:

o   تین  شر: طوفان، اگ اور عورت

o   شادی نہ کرو اگر کرلی تو بیوی کو حاکم نہ  نباؤ

o   عورت کو جھوٹ اور کتے کو ہڈی کے ذریعے راضی کرو

o   اچھی اور بری بیوی دونوں کو کوڑے کی ضرورت ہے

o   شوہر کی خوش بختی یا بد بختی اس کی بیوی ہے

o   شریر بیوی سے ہوشیار رہو اور اچھی بیوی پر اعتماد نہ کرو

o   شادی کرنا ایک بلا ہے، جس کے لئے لوگ دعاکرتے ہیں(1)

اٹلی میں عورت کی حیثیت

o   عورت اور گائے کو اپنے ہی شہر یا گاؤں سے انتخاب کرو

o   خوبصورت عورت کا مسکرانا شوہر کے بٹوے کا رونا ہے o      تین چیزیں قانون سے بالاتر ہیں: عورت، خچر،اور سور

--------------

(1):- بہشت خانوادہ، ص ۳۳۵

۱۳۱

o   خوک بکرے سے زیادہ مزاحم ہے اور عورت ان دونوں سے بھی زیادہ

o   شیطان کو بھی خبر نہیں کہ عورت خنجر کو کہاں تیز کرتی ہے

o   اگر ساری عمر بیوی کو اپنے دوش پر اٹھاتے رہو اور ایک لمحہ کے لئے اسے زمین پر رکھو  تو کہے گی: میں تھک گئی ہوں

ایران باستان میں عورت کی حیثیت

<   عورت ایک بلا ہے اور ہرگھر میں یہ بلا ہوناضروری ہے

<   گھوڑا،تلوار اور بیوی  کسی سے وفا نہیں کرتیں

<   عورت اور اژدھا دونوں مٹی کے اندر ہی اچھے ہیں

<   عورت کا خدا اس کا شوہر ہے

<   عورت جیل خانہ ہے اور شوہر اس کا قیدی

<   بیوی ایک، خدا ایک عورت اور خدا میں دو خصوصیات مشترک ہیں:1.اللہ اپنا شریک پسند نہیں کرتا اور عورت بھی2. اللہ زندگی اور موت دینے والا ہے اور عورت بھی

روم میں عورت کی حیثیت

روم والے اگرچہ قوانین اور حقوق میں بڑی ترقی کرچکے لیکن عورتوں کے بارے میں عام لوگوں کا خشونت امیز رویے اورسر سخت نظریہ تھاان کا یہ عقیدہ تھا کہ چونکہ عورت میں روح انسانی نیںے پائی جاتی لہذا روز قیامت دوبارہ محشور ہونے کے لائق نہیں ہےاور وہ مکمل طور پر شیطان اور مختلف روحوں کا مظہر ہےاسلئے اسے ہنسنے اور بات کرنے کا حق نہیںرومی عورت کو مال تجارت شمار کرتے تھے اسلئے جب بھی گھر کا سردار یا مالک مرجاتا تو عورتوں کو وراثت کے طور پر تقسیم کرتے تھے(1)

--------------

(1):- حقوق زن در اسلام و جہان،ص9

۱۳۲

کہاوتیں:

o   عورت کوصرف رونا اتا ہے تاکہ وہ جھوٹ بول سکے

o   بہترین عورتیں بھی شیطان  کی الہ کار ہیں

o   اگر بوڑھی عورت کو دھوکہ دے سکے تو سمجھ لو شیطان تیرے جال میں پھنس گیا

o   عورت صرف اپنی عمر اور ان چیزوں کو چھپاتی ہے  جنہیں نہیں جانتی

o   عورت اور بکری کو جلد ہی گھر میں بند کردینا  چاہئے، ورنہ وہ بھیڑیے  کی شکار ہونگی

قرون وسطی میں عورت کا مقام

قرون وسطی میں بھی عورت کو اجتماعی حقوق حاصل نہ تھےبلکہ وہ ایک بردہ اور کنیز کی حیثیت سے زندگی گزارتی تھیعورت کو عامل فساد اور منفور خدا تصور کرتے تھے اور معتقد تھے کہ ادم کو بھشت سے نکالنے کا سبب بھی ییم عورت تھی

جب قرون وسطی میں ایک کشیش سے پوچھا گیا:کیا اس گھر میں  داخل ہوسکتا ہے جس میں نامحرم عورت موجود ہو؟  جواب دیا ہرگز ہرگزحتی محرم بھی داخل ہوجائے، تب بھی حرام ہے اگرچہ نگاہ نہ بھی کرے(1)

حضرت مسیح(ع)نے بھی عورت کے بغیر  زندگی گزاری ہے اگر کوئی حقیقی مسیح بننا چاہتے ہیں تو کبھی بھی شادی نہ کرےیہی وجہ ہے کہ مسیحی پادری(روحانی پاپ) زندگی بھر شادی نہیں کرتےدلیل یہ ہے کہ شادی کرنا خدا کو ناراض کرنے کا سبب ہے کیونکہ ایک ہی دل میں خدا کی محبت اور عورت کی محبت جمع نہیں ہوسکتیاور شادی شدہ روح القدس کا حامل نہیں ہوسکتا

روس میں عورت کی حیثیت

روس کی ثقافت میں بھی عورت کو ایک حیوان سے زیادہ  نہیں سمجھتے تھےان  کی کہاوتیں کچھ یوں ہیں:

--------------

(1):- علی شریعتی؛ فاطمہ فاطمہ است،ص 59

۱۳۳

O:-نہ چوزے کو مرغی کہہ سکتے ہیں اور نہ عورت کو انسانo:-جب بچی کی ولادت ہوتی ہے تو چار دیواریں رونے لگتی ہیں

o:-عورت سایہ کی مانند ہے اگر اس کے پیچھے دوڑیں تو وہ باتگ جاتی ہےاور اگر اس سے دور با گیں گے تو وہ پیچھے پیچھے انے لگتی ہے

o   جس نے جوان بیوہ عورت سے شادی نہیں کی  اس نے بدبختی نہیں دیکھی ہے

o   عورت کے بال لمبے ہیں اور عقل پیچیدہ ہے

o   اگر اپ چاہتے ہیں کہ کوئی خبر پوری دنیا تک پھیل جائے تو بیوی کو سناؤ

o   خوبصورت عورت انکھوں کے لئے  جنت ہے، روح  کے لئے جہنم اور جیب کے لئے برزخ ہے

o   ازادی نیک عورت کو بھی فاسد کرتی ہے

o   عورت صرف دو دن پیاری ہے: جس دن تیرے گھر  پہلی مرتبہ قدم رکھے اور جس دن اسے دفن کردے

o   اپنی بیوی کو اپنی جان سے زیادہ پیار کرو، لیکن اسے ڈرانے میں بھی کسی قسم کی کوتاہی نہ کرو

o   جتنا اسے زیادہ مارو گے اتنی ہی  اچھی غذا کھاؤ گے

o   عورت ایک ہی وقت ۷۷ چیزوں کے بارے میں سوچتی ہے

o   عورت بےجا شکایت کرتی ہے، عمدا  جھوٹ بولتی ہے، اشکارا روتی ہے اور چھپ چھپ  کے خوشی مناتی ہے

o   عورت کے رونے اور کتے کے لنگڑانے سے دھوکہ نہ کھائیں

o   اگر شوہر اپنی خوبصورت بیوی کو دن میں تین بار نہ ماریں تو وہ چھت سے بھی اوپر جانے لگتی ہے

o   عاقل انسان عورت کے رونے میں پانی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتا

o   عورت کو ہتھوڑی کے ساتھ مارو اور سونے کے پانی سے علاج کرو(1)

--------------

(1):- بہشت خانوادہ، ص ۳۲۹

۱۳۴

مغربی دنیا میں عورت کی حیثیت

فرانس یورپی ممالک میں تمدن کا گہوارہ کے نام سے مشہور ہےان ممالک میں عورت کی حیثیت کا صرف اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھی عورت شوہر سے جدا ہوجائے یا طلاق دیا جائے تو اسے زرّہ برابر اپنے بچوّں پر حق حاصل نہیںیہ کہاں کا انصاف ہے ماں کی عطوفت کو پس پشت ڈال کرایک سادہ ترین اورطبیعی ترین حق جو ماں اور اولاد کے درمیان رابطہ قائم کرنا ہے، ماں کو حاصل نہ ہو کہ وہ اپنے لخت جگر سے مل سکے جبکہ یہ حق  تو حیوانوں میں بھی پایا جاتا ہےدرحقیقت یہ تمدن نہیں بلکہ توحّش یا وحشت گری ہے

موجودہ تورات میں عورت کوموت سے زیادہ تلخ معرفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ عورت کمال انسانی تک نہیں پہنچ سکتی یہودی جو اپنے اپ کو بہترین اور پاک ترین قوم کہلاتے ہیں، معتقد ہیں کہ نہ عورتوں کی گواہی، نذر،قسم، قبول ہےاور نہ ارث کی مستحق(1)

کہاوتیں:

o   عورت مردوں کے لئے صابن کی حیثیت  رکھتی ہے

o   اگر کوئی مرد بہت زیادہ بوڑھا ہوجائے تو یہ اس کی بیوی کی وجہ سے ہے

o   بدشکل عورت عشق کی بہترین دوا ہے

o   عورت کا انتخاب کرنا اور ہندوانہ کا انتخاب کرنا بہت مشکل ہے

o   ہمیشہ پرہیزگاری کا دم بھرنے والی عورت پر اعتماد نہ کرو

--------------

(1):- محمد تقی سجادی؛سیری کوتاہ در زندگانی فاطمہ ،ص23

۱۳۵

انگلستان میں عورت کی حیثیت

o   عورت شر بھی ہے اورضرورت بھی

o   بیوی یعنی بندر  خرابی کا خود شوہر  مسؤل ہے

o   عورت کے پاس زبان کے علاوہ کوئی اور اسلحہ نہیں ہے

o   بدشکل عورت درد دل ہے اور خوبصورت عورت دردسر

o   عورت دس سالگی میں فرشتہ، پندرہ سالگی میں طاہرہ، چالیس سالگی میں ابلیس اس کے بعد عفریتہ (چالاک ) ہے

o   جسے  عورت سے پیار نہیں اس نے سورنی کے پستان سے دودھ پیا ہے

o   کتا ہمیشہ قابل اعتماد ہے اور عورت پہلی فرصت ملنے تک

o   عورت تیرے سامنے مسکراتی ے اور پیٹھ پیچھے تیرا گلہ کاٹتی ہے

o   بیوی سے کہو :بہت خوبصورت ہو، تاکہ وہ خوشی سے دیوانی ہو جائے

o   عورت جس قدر اپنی شکل وصورت  میں زیادہ دقت کرتی ہے اسی قدر وہ گھر یلو زندگی سے ازاد ہوتی ہے

o   عورت کی مثال کشتی کے بادنما کی ہے کہ ہوا کا رخ جس طرف پھرجائے  اسی طرف یہ بھی پھر جاتی ہے

o   عورت کی نصیحت کوئی اہم تو نہیں لیکن اگر کسی نے نہیں سنی تو وہ  انسان پاگل ہے

o   عورت جب چاہے خوب روتی ہے اور جب چاہے خوب ہنستی ہے

o   اگرچہ عورت کے پاس منطقی دلیل نہیں ہے لیکن گھر میں اس کی بات  ہی حرف اخر ہے

o   اگر تم نے اپنی بیوی کوخچر بنایا  تو وہ تمہیں گائے بنادے گی

o   اچھی بیوی، اچھے شوہر کی مرہون منت ہے

o   بیوہ عورت سے شادی نہ کرو، مگر یہ کہ اس کے پہلے  شوہر کو پھانسی دی گئی ہو 

o   جس نے بھی چار بچوں والی  بیوہ عورت سے شادی کی، اس نے چار چوروں سے شادی کی ہے

۱۳۶

چین میں عورت کی حیثیت

o   بدصورت عورت  والے شوہر کو محافظ یا قلعہ کی ضرورت نہیں

o   بیٹے کو گھر میں اور بیوی کو بسترمیں نصیحت کرو

o   جس طرح گندم کے دانے توے پر پھولتے ہیں اسی طرح عورت گھر کا  راز  فاش کر کےپھولتی ہے

o   اگر کوئی شخص کسی عورت پر دیوانہ ہوجائے تو دیکھتے رہنا وہ عورت ہی اسے عاقل بنا دے گی

o   عورت جب منہ سے انکار کر رہی ہوتی ہے تو انکھوں سے وہ ہاں کر رہی ہوتی ہے

جاپان میں عورت کی حیثیت

o   عورت کی زبان ایک ایسی تلوار ہے جسے کبھی زنگ نہیں لگتا

o   جوشخص اپنی بیوی کو مارتاہے تو وہ تین دن بھوکا رہتاہے

o   اندھیری رات، عشق اور عورت انسان کودھوکے میں ڈال دیتی ہیں

o   جس کی باوفا اورمہربان بیوی ہو وہ  دولت مند  انسان ہے

o   جب تک گندم کو گودام میں اور عورت کو قبر میں نہ اتارے اعتماد نہ کرو

o   جب خدا تعالیٰ کسی پر اپنا غضب نازل کرنا چاہتا ہے تو اس کا نکاح کسی کی اکلوتی بیٹی سے کراتا ہے

جرمنی میں عورت کی حیثیت

o   جہاں عورت کی حکومت ہے وہاں شیطان اس کی اطاعت کے لئے تیار ہے

o   عورت  شکل سے فرشتہ ، دل سے سانپ اورعقل کے لحاظ سے گدھی ہوتی ہے

o   جوشخص مال دار عورت سے شادی کرے گا وہ اس کا غلام ہوگا

۱۳۷

o   جب ایک عورت مرجاتی ہے تو ایک فساد یا فتنہ ختم ہوجاتا ہے

o   بوڑھا مرد اگر جوان لڑکی سے شادی کرے تو اس کی موت خوشی اور قہقہ میں بدل جاتی ہے

o   عورت کے، ہاں اور نہ کرنے کے درمیان ایک سوئی کے برابر بھی فاصلہ نہیں ہوتا

o   عورت  کا منہ کبھی بند نہیں ہوتا

o   شیطان کو ایک مرد گمراہ کرنے کے لئے دس گھنٹے کی ضرورت ہے لیکن عورت کو دس مرد گمراہ  کے لئے  ایک گھنٹہ درکار ہے

o   عورت جب رورہی ہوتی ہے وہ چھپ کر ہنس رہی ہوتی ہے(1)

ہندوستان میں عورت کی حیثیت

ہندو مذہب کے پیروکار معتقد ہیں کہ عورت کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتیاور کوئی روح ان میں نہیں پائی جاتی، اسلئے جب بھی شوہر مرجاتا تار تو اسی کے ساتھ بیوی کو بھی جلاتے تھےاور شوہر پر تشریفاتی طور پر قربان کرتے تھےاس سنت کا نام ستی (sati) ہے گذشتہ ایک قرن تک یہ سنت جاری رہیاور اب بھی بعض متعصب ہندو اس سنت کو انجام دیتے ہیں

کہاوتیں:

o   عورت کو تعلیم دینا بندر کے ہاتھوں خنجر دینے کے مترادف ہے

o   عورت کے بغیر گھر شیطان رہنے  کی جگہ ہے

o   عورت کا گھر میں داخل ہونا خوش بختی کی ابتدا ہے

--------------

(1):- بہشت خانوادہ،ص۳۲۱

۱۳۸

o   عورت شوہر کی عدم موجودگی میں روتی رہتی ہے اور زمین  پانی کے نہ ہونے پر روتی رہتی ہے

o   ہزار ادمی ایک بات پر متفق ہو سکتے ہیں لیکن دو بہنوں کا اتفاق ہونا محال ہے

o   مرد کوشہوت سے دلچسپی ہے اور عورت کو مرد سے

o   بیوی اور بٹوا سخت طریقے سے باندھ کر اپنے ساتھ لے کر جاؤ

o   خوبصورت عورت سب کی ہے اور بدشکل عورت اپنے شوہر کی

o   اچھی عورت وہ ہے جو  گھر میں رہے یا قبر میں رہے

o   ادمی پہاڑ کی مانند ہے  اور عورت اہرم کی مانند

عصر جاہلیت میں عورت کی حیثیت

اسلام سے پہلے عصر جاہلیت میں عورت نہ فقط ابتدائی حقوق (روٹی، کپڑا اور مکان) سے محروم تھی بلکہ ہر حیوانوں سے پست تر اور بدتر شمار ہوتی تھی اور اشیائے فروخت کے طور پر بازار میں خرید و فروخت ہوتی تھیبعض وجوہات جیسے فقر و تنگدستی اور جنگوں میں شکست کے موقع پر اسیرہونے کے خوف سے موت کے گھاٹ اتاری جاتی تھیاور لوگ ویسے بھی عورت کے وجود کو اپنے لئے ننگ وعارسمجھتے ہوئے زندہ درگور کرتے تھے

بیٹی کا زندہ درگور کرناعرب میں عام رواج بن گیا تھا بعض لوگ بچیوں کے پیدا ہوتے ہی سر قلم کرتے تھے تو بعض لوگ پہاڑی کے اوپر سے پھینک دیتے تھےتو بعض لوگ پانی میں پھینک دیتے تھے تو بعض لوگ زندہ درگور کرتے تھے

جب بھی عورت بچہ جنم دیتی تو ایک طرف گڑھا تیار اور دوسری طرف بچےّ کا لباس تیار رکھا جاتا اوراگر بچی ہوتو گڑھے میں ڈال دیتے اوراگر بچّہ ہو تو اسے فاخرانہ لباس پہناتے تھےداستان قیس قساوت اور سنگدلی کامنہ بولتا ثبوت ہےیہ شخص پیغمبر اسلام(ص) پر ایمان لانے کے بعد رو رہا تھا پیغمبر اسلام (ص)نے وجہ دریافت کی تو کہا:یا رسول اللہ(ص) اس بات پر افسوس کر رہا ہوں اے کاش!دعوت اسلام کچھ سال پہلے ہم تک پہنچ جاتی تو

۱۳۹

میں اپنی بچیوں کو زندہ درگور نہ کرتا! یا رسول اللہ (ص) میں اپنے ہاتھوں سے تیرہ بچیوں کو زندہ درگور کرچکا ہوںتیرہویں بچی جو میرے کہیں سفر کے دوران پیدا ہوئی تھی میری بیوی نے مجھ سے چھپا کر اپنے کسی عزیز کے ہاں رکھ دی تھی اور مجھ سے کہنے لگی بچی جو دنیا میں ائی تھی وہ مر گئی میں نےبھی اس کی بات پر اطمنان کر لی، کچھ سال گزرنے کے بعد میں کسی سفر سے جب واپس گھر پہنچا تو دیکھا گھر میں بہت ہی لاڈلی اور خوبصورت بچی ہےاپنی بیوی سے کہا یہ لڑکی کون ہے؟ اس نے تردد کے ساتھ جواب دیا یہ تمہاری بیٹی ہے تو میں اسے فورا  گھسیٹ گھسیٹ  کر محلے سے دور لے جارہاتھا اور میری بیٹی زار زار رورہی تھی اور کہہ رہی تھی:بابا میں کبھی اپ سے کچھ نہیں مانگوں گی اور نہ اپ کے دسترخوان پر بیٹھوں گی اور نہ کبھی اپ سے لباس مانگوں گی

لیکن مجھے رحم نہ ایا اور اسےبھی دفن کردیا

جب رسول گرامی(ص)نے یہ ماجرا سنا تو انکھوں میں انسو ائے اور فرمانے لگے:

 من لا یَرحم لا یُرحم جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا اور فرمایا: اے قیس ! تمہارے لئے برا دن انے والا ہےقیس نے کہا مولا ابھی میں اس گناہ کی سنگینی کو کم کرنے کے لئے کیا کرسکتا ہوں ؟ اس وقت رسول اللہ(ص)نے فرمایا:

اعتق عن کلّ مولودةٍ نسمةً

یعنی اسی تعداد میں کہ تم نے زندہ درگور کیا ہے، کنیزوں کو ازاد کرو(1)

--------------

(1):-   حقوق زن در اسلام،ص15

۱۴۰