اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )0%

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض ) مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 200

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 200
مشاہدے: 180686
ڈاؤنلوڈ: 5304

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 200 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180686 / ڈاؤنلوڈ: 5304
سائز سائز سائز
اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط

(حقوق و فرائض  )

ت ا لیف

غلام مرتضیٰ  انصاری پاروی

۱

مقدمہ

الحمد لله رب العالمين والصلوة و السلام عليٰ اشرف الانبياء والمرسلين ولعنة الله عليٰ اعدائهم اجمعين

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ توفیق نصیب ہوئی کہ خاندان کے اخلاق وفرائض کے عنوان سے ایک کتاب تدوین  کرکے خاندانی اور معاشرتی  مبتلا بہ چیدہ چیدہ مسائل اوران کا حل بیان کروں یہ مختصر کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے

پہلا حصہ کلیات اور پانچ فصلوں پر مشتمل ہےکلیات میں حقوق کا مفہوم اور اس کے ماخذ کے ساتھ خاندان کی تعریف ، اس کی ضرورت،اداب اور اصول  پہلی فصل میں والدین پر بچوّں کی ذمہ داریاں اور اولاد کی تربیت (پیدائش سے پہلے اور پیدائش کے بعد) کے مختلف مراحل کو موزون مثالوں اور واقعات کے ساتھ بیان کیا گیا ہےدوسری فصل میں میاں بیوی کے متقابل حقوق اور فرائض کو اورتیسری فصل میں خاندانی اخلاق اور اس کا اثر، خاندانی خوش بختی کے اصول اور بداخلاقی کا سنگین نتیجہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہےچوتھی فصل میں خاندان کے متعلق معصومین ؑ کے فرامین اور سفارشات پانچویں فصل میں خاندانی اختلافات اور ان کا علاج  اور اس کے ساتھ ان خوبیوں کو بیان کیا گیا ہے جنہیں خواتین اپنے شوہر میں دیکھنا پسند کرتی ہیں،دوسرے حصے میں عورت کا مقام اور ان کے حقوق  کو تاریخی پس منظر کے ساتھ بیان کیا گیا ہےپہلی فصل میں مختلف ممالک اور معاشرے خصوصا دور جاہلیت میں عورت کی حیثیت اور مرتبہ کو بیان کرکے ان کا اسلامی معاشرے میں عورت کو دی گئی حیثیت اور مرتبہ سے موازنہ کیا گیا ہےدوسری فصل میں اسلام میں عورت کو مختلف زاویے ( ماں، بیوی، بیٹی ) سے دی ہوئی  قدرو منزلت، اجتماعی روابط و ضوابط، اصول اور حدود تیسری فصل میں خواتین کے اجتماعی،ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی حقوق کو مختلف زاویے سے بیان کیا گیا ہےچوتھی ٖفصل میں خواتین کی اسلامی ازادی  اورمغربی ازادی میں فرق کو بیان کیا گیا ہےانشاء اللہ یہ کتاب اردو زبان میں ایک منفرد اور مفید کتاب ثابت ہوگیخدا وند اس معمولی سی کاوش  کو اپنی بارگاہ  میں چہاردہ معصومین (ع)کے صدقے میں قبول فرمائے امین

  غلام مرتضیٰ انصاری      پاروی           یکم ربیع الثانی۱۴۳۵ہ

۲

کلیات

حقوق کیا ہیں؟

حقوق سے مراد ان قواعد اور اصول کا مجموعہ ہے جن کا خیال ایک معاشرہ یا خاندان کے افراد ایک دوسرے سے روابط کے دوران کرتے ہیں اور انہیں قواعد کے مطابق ہر ایک کے اختیارات اور ازادی کو معین کیا جاتاہے(1)

انسان ایک معاشرتی حیوان ہے جو ہمیشہ ایک دوسرے کا محتاج ہے،اجتماعی اور خاندانی زندگی اس وقت ممکن ہے کہ معاشرہ یا خاندان پر ایک جامع قانون حاکم ہو، ورنہ ہر کوئی اپنی مرضی سے چلے گا، جس کا نتیجہ خاندان اورمعاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہوجائےگااس لئے ہر ایک پر لازم ہے کہ ان قوانین کا احترام کریںانہی قوانین کو علمی اصطلاح میں حقوق کہتے ہیںجس کا مقصد لوگوں کی مکمل ازادی کے لئے حدود کا تعین کرناہےجن کا خیال کرنے سے اجتماعی اور خاندانی زندگی محفوظ ہوسکتی ہےعورت بھی خاندان کا ایک اہم رکن ہے بلکہ یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ وہ خاندان کا محورہے، ان کے حقوق بھی اسلامی معاشرے میں بہت اہم ہیں،جن کا خیال کرنا باپ، شوہر اور اولاد پر فرض ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خاندان کے وجود میں انے کی بنیاد تولید نسل کا انگیزہ ہے،کہ اس طریقے سے انسان اپنے وجود کی بقا کو محفوظ کرتا ہےکچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عورتوں میں طبیعی طور پر ماں بننے کا شوق پایا جاتاہے اور یہی انگیزہ اسے خاندان کی تشکیل پر ابھارتا ہے

ٹھیک ہے کہ یہ انگیزے اور رجحان اسباب تو بن سکتے ہیں لیکن علت تامہ نہیں،کیونکہ بہت سے خاندان ایسے ہیں  جن میں اولاد نہیں ہوتی یا زندہ نہیں رہتی،پھر بھی مرد اور عورت دونوں میں ایک دوسرے کے لئے عشق و محبت پائی جاتی ہےاور کبھی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے طلاق نہیں دی جاتی ہےاس سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی کرنے اور خاندان تشکیل دینے کے اور بھی علل و اسباب ہیں چنانچہ پیغمبراسلام ﷺ فرماتے ہیں:جس نے شادی کرلی اس نے ادھا دین بچا لیا(2)

--------------

(1):- باقر عاملی ؛حقوق خانوادہ ،ص201

(2):- مجلسی،محمد تقی؛ روضةالمتقین،ج8،ص38

۳

کیونکہ شادی جوانوں کو لغزش، انحرافات،بے عفتی اور برائی سے بچاتی ہےپس ان مشکلات کا حل قران مجید میں موجود ہے کہ انسان کی فطرت اور طبیعت میں جفت خواہی  اور جنسی خواہشات ڈال دیا  جس کے نتیجے میں خاندان وجود میں ایامیاں بیوی ایسے دو عنصر ہیں جو جب تک ایک دوسرے کو نہیں چاہتے اور تعاون نہیں کرتے، دونوں ناقص ہیںیہ دونوں مل کر ایک دوسرے کی زندگی کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیںیہ نہ صرف دو فزیکل یا جسمانی رابطہ اور تولید نسل ہے کہ جو  خوشیوں کا باعث ہےاور نہ صرف ظاہری اور مادی امور، جو میاں بیوی کو ایک دوسرے کے نزدیک کرے اس  میں ایک ظریف نکتہ چھپا ہوا ہے کہ وہ روحی اور جسمی احتیاج ہے کہ خالق کائنات نے تمام جانداروں کوایک دوسرے کا محتاج خلق کیا ہےقران کی رو سے خلقت انسان ابتدا ہی سے جفت جفت وجود میں ائی ہےاور ہر ایک اپنی فطرت کے مطابق  اپنی جفت اور ہمسر کی تلاش میں رہتاہےاور دونوں اپنے خاص طوروطریقے سے فطری وظیفہ کو انجام دیتے ہیں  نتیجتا ایک دوسرے کو کامل کر تے ہیںقران کہہ رہا ہےوَخَلَقْنَاكُمْ ازْوَاجًا   کہ ہم نے تمہیں جفت جفت پیدا کیا(1) وَمِنْ ايَاتِهِ انْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ انفُسِكُمْ ازْوَاجًا لِّتَسْكُنُواالَيْهَا وَجَعَلَ َ يْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً انَّ فِي ذَلِكَ لَايَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (2) "یہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ تمہارے لئے اپنی جنس میں سے ہمسر خلق کیا تاکہ سکون اور ارام کا سبب بنے اور تمہارے درمیان دوستی اور محبت ایجاد کی" اور فرمایا:

وَاللهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ ازْوَاجًا(3) "یعنی خد ا نے تمہیں مٹی سے پید ا کی ا پھر نطفہ سے ا ور پھر جفت جفت قر ا ر دی ا "

پیدائش حقوق کی وجوہات:

انسان کو چونکہ اپنے اپ سے زیادہ محبت ہے اس لئے چاہتا ہے کہ جتنا ہوسکے زندگی کی نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرے اور بہتر زندگی گزارنے کے لئے ان وسائل سے فائدہ اٹھائے، لیکن جس طرح بچہ بغیر ماں باپ کے اپنی زندگی کو جاری نہیں رکھ سکتا اور اکیلا زندگی کے تمام مسائل کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اسی

--------------

(1):- ورہ  نبأ8(2):- سورہ  روم21(3):- فاطر11

۴

وجہ سے وہ خاندانی اور اجتماعی طور پر زندگی گزارنے کو ترجیح دیتا ہےایک دوسرے کی مدد کرتا ہے،اور اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق مسئولیت اور ذمہ داری کو قبول کر لیتا ہےایک شخص زمینداری کرتا ہے تو دوسرا مستری کا کام،ایک دفتر میں کام کرتا ہے تو دوسرا  ہسپتال میں، اور جب اجتماعی زندگی کا دارومدار ایک دوسرے کے تعاون پر ہے تو ذمہ داریاں بھی متعین ہوتی ہیںاس طرح معاشرے میں قوانین نافذ ہوتے ہیں تاکہ معاشرے میں افراط و تفریط پیدا نہ ہو

حقوق کے ماخذ

بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ قانون کا ماخذ عقل ہے کہ ہماری عقل لوگوں کے اچھے اور برے اعمال میں تشخیص دے سکتی ہے یہی وجہ ہے عقل کہتی ہے کہ برائیوں سے روکنا اور اچھائیوں کی طرف رغبت پیدا کرناچاہئےبعض کہتے ہیں کہ قانون خالق کائنات کی طرف سے عالم بشریت کے لئے بنایاگیا ہے جسے انبیاء کے ذریعے  لوگوں  پر نافذ کیاگیا ہےان دونوں نظریات کے ماننے والوں نے اپنےاپنے دعوے کوثابت کرنے کے لئے مختلف دلائل پیش کئے ہیںہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ حقوق کا سرچشمہ وہی اسلامی قوانین ہیں جسے خدا تعالیٰ نے نبیوں کے ذریعے خود تعیّن کیا ہےکیونکہ خدا کی ذات ہے جو انسانی افعال کے مصالح اور مفاسد سے زیادہ ا گاہ ہےاور ان قوانین کو دریافت کرنے کے لئے مکتب تشیع کے مطابق چار منبع اور سرچشمہ ہیں:

1:-قران مجید

قران مجید میں حقوق کے بارے میں تقریبا پانچ سو ایات ذکر ہوئی ہیں،جنہیں ایات الاحکام کہا جاتا ہےقران ایک ایسی کتاب ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہےیہ راہ ہدایت تک پہنچنے کے لئے محکم ذریعہ ہے،جو بھی اس کے مطابق عمل کرے گا اسے اجرملے گا،اور جس نے بھی اس کتاب کے مطابق فیصلہ کیا اس نے عدل سے کام لیا اور جس نے بھی اس کتاب کی طرف کسی کی راہنمائی کی تو گویا اس نے صراط مستقیم کی طرف بلایا

۵

2:-سنت

ممکن ہے یہ پانچ سو ایات قوانین زندگی کی تمام جزئیات پر تو دلالت نہیں کرتی،کیونکہ جیسے احکام نماز,روزہ,حج,جھاد اور خمس وکی بہت سی جزئیات پائی جاتی ہیں اور ان جزئیات کو بیان کرنا سنت کا کام ہےہاں البتہ ان جزئیات کا بیان انہی ایات کی تفسیر ہوسکتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ انبیاء(ع) اپنی طرف سے بیان کرتے ہوں،چنانچہ قران مجید گواہی د ے رہا ہے:

 وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَی انْ هُوَ الَّا وَحْيٌ يُوحَی(1)

"اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے"اس طرح شیعہ عقیدے کے مطابق سنت سے مراد گفتار و رفتار و تقریر معصوم(ع) ہے

3:-اجماع

اصطلاح میں اجماع سے مراد یہ ہے کہ تمام اسلامی دانشوروں کا کسی شرعی حکم پر اتفاق نظر اور وحدت عقیدہ ہولیکن اہل سنت کے نزدیک اجماع؛ قران و سنت سے ہٹ کر ایک مستقل اصل ہے یعنی امت کا اجماع اور اہل حلّ و عقد بھی اسلامی قانون کا سرچشمہ ہےاس لئے اگر کتاب اور سنت سے کسی حکم پر دلیل نہ ملے لیکن علماء کا اتفاق رائے معلوم ہو جائے تو اسی اجماع پر بنا رکھ کر فقیہ فتوی دیتا ہےلیکن شیعوں کے نزدیک اجماع، کتاب و سنت سے ہٹ کر کوئی اور مستقل اصل نیںب، بلکہ معتقد ہیں کہ یہ اجماع، رائے معصوم کی شمولیت پر دلالت کرتا ہوقاعدۂ لطف کا تقاضایہ ہے کہ اگر مجتہدین کسی غلط حکم پر متّفق ہو جائیں تو امام پرلازم ہے کہ وہ اس میں اختلاف ڈالدے اور اجتماع کرنے سے بچائے

4:-عقل

اہل سنت کہتے ہیں کہ رائے،اجتہاد اور قیاس وہی عقلی تشخیص ہے جو قوانین اسلامی کا ایک الگ سرچشمہ ہے

--------------

(1):- النجم4،۳

۶

اخبارئین کہتے ہیں چونکہ عقل ناقص اور خطاکار ہے اسلئے لوگوں کے لئے عقل حلال اور حرام کا تعین نہیں کر سکتیہاں صرف یہ کہ عقل کومددگار کہہ سکتے ہیں لیکن مجتہدین فرماتے ہیں عقل اور شریعت کے درمیان ایک مستحکم اور نہ ٹوٹنے والا رابطہ ہے، اور کہا جاتاہے:

 کلّما حکم به العقل حکم به الشرع و کلّما حکم به الشرع حکم به العقل

وَ اكْبَرُ حُقُوقِ اللهِ عَلَيْكَ مَا اوْجَبَهُ لِنَفْسِهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَی مِنْ حَقِّهِ- الَّذِي هُوَ اصْلُ الْحُقُوقِ وَ مِنْهُ تَفَرَّعَ- ثُمَّ مَا اوْجَبَهُ عَلَيْكَ لِنَفْسِكَ مِنْ قَرْنِكَ الَی قَدَمِكَ عَلَی اخْتِلَافِ جَوَارِحِك(1)

امام سجاد(ع)  منشأحقوق کے بارے میں فرماتے ہیں کہ بندوں کے تمام حقوق کا سرچشمہ وہی حقوق  اللہ ہیں اور باقی حقوق اسی کی شاخیں ہیں اگر سارے حقوق کو ایک  درخت شمار کرلے تو اس درخت کی جڑ حق اللہ ہےاور باقی لوگوں کے حقوق اس کی شاخیں اور پتے ہیں(2)

اس بات کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح  انسانوں  پر ایک دوسرے کے حقوق ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ہیں کیونکہ خداوندانسان کا مالک حقیقی ہے جسے حق تصرف حاصل ہے جس کی اجازت کے بغیر  ہم کسی دوسرے کے حقوق میں تصرف نہیں کر سکتےیہی وجہ ہے کہ تمام حقوق خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی، اخلاقی ہو یا فقہی، حق الٰہی کے تابع ہیںپس انسان کبھی بھی اپنے لئے کسی حق کا  خدا سے مطالبہ نہیں کرسکتا کیونکہ جب کسی چیز کا مالک ہی نہیں تو کس حق کا مطالبہ کرے گا ؟

--------------

(1):- بحار الانوار ،    ج71،باب 1 جوامع الحقوق   ص  2

(2):- محمد تقی مصباح یزدی؛ نظریہ حقوقی اسلام،ص211

۷

یہاں تک کہ ہم اپنے اعضائے بدن  پر تصرف نہیں کرسکتےمگر یہ کہ خدا نے ہمارے لئے جائز قرار دیا ہوکیونکہ یہ سب خدا کی دین اور عطا ہےاگر ہم ان حقوق خدا کو درک کرلیں گے تو اپنی ذمہ داریوں کوبھی ہر مرحلے میں پہچان سکیں گےاس بحث سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر قسم کے حقوق خواہ وہ حقوق  والدین ہوں یا حقوق اولاد یا بیوی کے حقوق، سب کچھ خدا کی طرف سے عطا کردہ  حقوق ہیں اور خدا ہی کا حکم ہے کہ ان حقوق کا خیال کریںتاکہ قیامت کے دن ہمیں جزا دی جائے

خاندان کی تعریف

خاندان ایک اجتماعی گروہ کا نام ہے جس کا مقصد لوگوں کی روحی اور ذہنی سلامتی کو برقرار رکھاح ہے

تاریخ بشریت کی ابتدا سے لے کر اج تک  اس روئے زمین پر مرد اور عورت دونوں نے خاندان کو تشکیل دے کرایک دوسرے کیساتھ زندگی گزارتے ہوئے پیار و محبت کیساتھ اپنی اولاد کی پرورش کی ہےاور اس دنیا سے اپنا رخت سفر باندھ لیا ہےاور تمام مصلحنہ جہاں جیسے انبیاء الٰہی کی یہی کوشش رہی ہے کہ خاندان کا نظام اتنا پائیدار اور مستحکم کریں کہ کوئی بھی اسے متلاشی اور درہم برہم نہ کرسکے

مختلف نظریوں اورزاویوں سے خاندان کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں،جن میں سے بعض سطحی ہیں اور بعض عمیقیعنی جس قدر ہماری معرفت اور شناخت خاندان کی نسبت زیادہ ہوگی اتنا ہی اس مقدس  اجتماع میں ہم رونق پیدا کر سکیں گے اور ناپائیداری کا خاتمہ کرسکیں گےجیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ بعض لوگوں کا خیال  ہے کہ خاندانی تشکیل کا واحد سبب جنسی خواہشات ہیں کہ مرد اور عورت صرف اسی سلسلے میں پابندہیں کہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال کریںاس کے علاوہ اور کوئی ذمہ داری نہیں ہےحالانکہ اسلام میں اس کی بنیاد اس سے کہیں اہم چیز پر استوار ہےجس  کی معرفت اور پہچان بہت ضروری ہےتاکہ مرد اور عورت دونوں اس اہم اصول سے منحرف نہ ہوں

۸

خاندان کی ضرورت

مرد اور عورت کی سعادت اور خوشیاں اسی میں ہے کہ الٰہی سنت کے دائرے میں رہیں اور سطحی جذبات سے متأثر نہ ہوںدونوں کو جان لینا چاہئے کہ اب ایک جان دو قالب ہوگئے ہیں اور ہونے والی اولاد دونوں کےجگر کے ٹکڑے ہیںامام صادق (ع)سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام (ص)نے ازدواجی زندگی کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

عَنْ ابِي جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ص مَا بُنِيَ بِنَاءٌ فِي الْاسْلَامِ احَبُّ الَ ی اللهِ تَعَالَ ی مِنَ التَّزْوِيجِ (1)

یعنی اسلامی نقطہ نگاہ سے ازدواج کی بنیاد سے بڑھ کر زیادہ پسندیدہ  بنیاد نہیں ڈالی گئی کیونکہ ازدواج کی بنیاد عشق و محبت کی بنیاد ہےاور اگر اسلامی  معیاروں کے مطابق ہو تو یہ خاندان کبھی دربدر نیںل ہوگا

اور فرمایا: وہ بدترین شخص ہے جو غیر شادی شدہ مر جائے،اس کی پوری رات کی عبادت سے شادی شدہ کی دو رکعت نماز بہتر ہےاس با مقصد خاندان کی تشکیل دینے سے پہلے ضروری ہے کہ نیک اور با سیرت بیوی کا انتخاب ہوکیونکہ پوری زندگی اور انے والی نسلوں کی پرورش انہی کے ہاتھوں میں ہےاسی لئے بیوی کے انتخاب کرنے کا ایک معیار اس کی خاندان کی اصالت ہےیعنی نہ صرف بیوی کا ایمان اور اخلاق دیکھا جائے بلکہ ان کے خاندان کو بھی مد نظر رکھا جائےکیونکہ خاندان کی صفات از طریق وراثت اولاد میں منتقل ہوتی ہیںاس لئے حقیقی، با تقوی اور پسندیدہ صفات  جیسے شجاعت و کرامت کے مالک خاندان میں شادی کرنا چاہئےیہی وجہ ہے کہ پیغمبر(ص)نے فرمایا: 

 اخْتَارُوا لِنُطَفِكُمْ فَانَّ الْخَالَ احَدُ الضَّجِيعَيْنِ   (2)

--------------

(1):- روضةالمتقین ج8،ص82امن لا یحضرہ، ج۳، ص۳۸۳

(2):- مستدرک الوسائل ج14، ص۱۷۴

۹

یعنی ہمسر کے انتخاب میں خاندانی اصالت کا خیال رکھنا، کیونکہ اقرباء اور رشتہ دار تمہاری اولاد کی صفات میں تیرا شریک ہیںاسی طرح کم ذات خاندان میں شادی کرنے سےروکتے ہوئے فرمایا:

قَالَ لِلنَّاسِ ايَّاكُمْ وَ خَضْرَاءَ الدِّمَنِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللهِ وَ مَا خَضْرَاءُ الدِّمَنِ قَالَ الْمَرْاةُ الْحَسْنَاءُ فِي مَنْبِتِ السَّوْءِ (1)

 لوگو! تم لوگ خضراء دمن سے بچو کسی نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! خضراء دمن سے کیا مراد ہے؟! تو فرمایا: وہ  خوبصورت عورت جو  برے  گھر  اور  ماحول  میں پلی ہو

تشکیل خاندان کے اداب

قران مجید نے متعدد بار خاندانی امور،ارکان، احکام،اخلاق اور اس کی حفاظت کے بارے میں ارشاد فرمایا: میاں بیوی پاکدامن ہوں اور نامحرم کیساتھ ہنسی  مذاق نہ کریں کیونکہ خواتین کی کرامت، شرافت اور عزت نامحرم لوگوں کی صحبت سے دوری اختیار کرنے میں ہےاسی طرح خاندان کی چار دیواری اورمعاشرے کی عفت اور حرمت کے تجاوز کرنے والوں کو ڈرایا گیا ہےخلاصہ یہ کہ قران کریم میں انے والے بچےّ کی ذہنی اور روانی صحت سے بحث کی گئی ہےجیسا کہ ارشاد ہوا:

يَا ايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لِيَسْتَاذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ ايْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَی بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمُ الْايَاتِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ وَاذَا بَلَغَ الْاطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَاذِنُوا كَمَا اسْتَاذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمْ ايَاتِهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ(2)

--------------

(1):- من لا یحضرہ الفقیہ ، ج۳، ۳۹۱

(2):- سورہ نور،  ۵۹ ۵۸

۱۰

اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں خاندانی مسائل کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرمایا: "اے ایمان والو! ضروری ہے تمہاری کنیزیں  اور وہ بچےّ جو ابھی حدّبلوغ  کو نہیں پہنچے ہیں،تین اوقات میں تم سے اجازت لے کرکمرے میں داخل ہوا کریں:

فجر کی نماز سے پہلے، دوپہر کو جب تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں، اس کے بعد ایک دوسرے کے پاس بار بار انے میں نہ تم پر کوئی حرج ہے اور نہ ان پراللہ تعالیٰ اس طرح تمہارے لئے نشانیاں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ بڑا دانا،حکمت والاہے"اور جب تمہارے بچےّ بلوغ کو پہنچ جائیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اجازت لیا کریںجس طرح پہلے (ان سے بڑے ) لوگ اجازت لیا کرتے تھےان ایات سے درج ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں:

1.  جب بیوی کیساتھ خلوت میں بیٹھنے لگو تو بچوّں کو بغیر اجازت اندر انے سے منع کریں

2.  کبھی بھی ماں باپ نازک لباس(sleeping dress ) میں بچوّں کے پاس نہ جائیںنہ باپ کو حق پہنچتا ہے کہ نامناسب لباس پہن کر بچوّں کے سامنے ائے اور نہ ماں کوتاکہ معمولی سا بھی تحریک امیز منظر اولادوں کے سامنے پیدا نہ ہو

امام صادق(ع) سے منقول ہے:

لا یجامع الرجل امرئته وفی البیت صبی فانّ ذالک یورث الزنا (1)

یعنی کسی شخص کو حق نہیں ہے کہ وہ ایسے کمرے میں بیوی کیساتھ ہمبستری کرے جس میں بچہ بیدار ہو، کیونکہ یہ منظر بچےّ کے لئے فساد اور فحشاء کی طرف انحراف کا باعث بنتا ہے:

قَالَ رَسُولُ اللهِ ص وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ انَّ رَجُلًا غَشِيَ امْرَاتَهُ وَ فِي الْبَيْتِ صَبِيٌّ مُسْتَيْقِظٌ يَرَاهُمَا وَ يَسْمَعُ كَلَامَهُمَا وَ نَفَسَهُمَا مَا افْلَحَ ابَدا اذَا كَانَ غُلَاما كَانَ زَانِيا اوْ جَارِيَةً كَانَتْ زَانِيَة (2)

---------------

(1):- وسائل الشیعہ ،ج14،ص94

(2):- الکافی  ، ج۵، ص۵۰۰

۱۱

امام صادق (ع)پیغمبر اسلام ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اپ نے فرمایا: اس ذات  کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ؛ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرے اور اس کمرے میں کوئی بچہ جاگ رہا ہو اور ان دونوں کو دیکھ رہا ہو اور ان دونوں کی اواز اور سانسوں کوسن رہا ہو، تو وہ پیدا ہونے والا کبھی نیک انسان نہیں ہوگا، اگر وہ بچہ ہو تو زانی  ہوگا اور اگر بچی ہو تو زانیہ ہوگی

خاندان تشکیل دینے کے تین اصول

شوہر اور بیوی کا باہمی عشق و محبت

یہ چیز اللہ تعالیٰٰ نےانسان کی فطرت میں پوشیدہ رکھی ہےاور یہ ضرورت ہم دوسرے جانداروں میں بھی مشاہدہ کر سکتے ہیںانسان اگر تنہائی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے تو زیادہ غمگین اورفکر مند  ہوجاتا ہےاسی لئے اپنے ہم نوع کے عطوفت و محبت کے سانچے میں اپنے اپ کو ڈالتا ہےخدا تعالیٰٰ نے تشکیل خاندان سے پہلے میاں بیوی کے درمیان کچھ یوں محبت اور مودت ایجاد کی ہے کہ جس کے بغیردونوں کو سکون نہیں ملتایہی محبت ہے جس کی وجہ سے مرد اور عورت ازدواجی زندگی  میں داخل ہونے کے لئے قدم  اٹھاتے ہیں

ایک شخص نے حضرت رسول خدا(ص) کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ(ص)! اس ازدواجی کام نے مجھے تعجب میں ڈال دیا ہے کہ ایک اجنبی مرد اور اجنبی عورت  ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں ہیں،  جیسے ہی عقد ازدواج میں داخل ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کے لئے انتہائی محبت اور پیارکرنے لگتے ہیںرسول خدا(ص)نے فرمایا: ازدواجی امور کی بنیاد کو خدا نے انسانی فطرت میں رکھاہے جس کی ضرورت کو اپنے اندرشدت سے احساس کرتے ہیں، اس کے بعد یہ ایہ شریفہ  تلاوت فرمائی:

۱۲

وَمِنْ ايَاتِهِ انْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ انفُسِكُمْ ازْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا الَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً انَّ فِي ذَلِكَ لَايَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ(1)

اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیاہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اورپھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے  کہ اس میں  صاحبانِ فکر کئےہ   بہت سی  نشانیاں پائی جاتی ہںِ  چنانچہ شیخ صدوق روایت  کرتے ہیں:

عَنِ النَّبِيِّ انَّهُ قَالَ مِنْ سُنَّتِي التَّزْوِيجُ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي (2)

یہ عشق و محبت خدا تعالیٰٰ کی عظیم عنایت ہے کہ جس پر رسول خدا(ص)نے فخر کرتے ہوئے فرمایا:نکاح میری سنت ہے جو بھی اس سنت سے منہ پھیرے گا وہ مجھ میں سے نہیں ہوگا قران مجید نے بھی اس کام کی طرف شوق دلاتے ہوئے فرمایا:

وَانكِحُوا الْايَامَی مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَامَائِكُمْ ان يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللهُ مِن فَضْلِهِ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ(3)

اور اپنے غیر شادی شدہ ازاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل وکرم سے انہیں مالدار بنا دے گا کہ خدا بڑی وسعت والا اور صاحب علم ہے

خاندان میں مرد کا احساس ذمہ داری

علامہ طباطبائی(رح) فرماتے ہیں: فالنساء هن الرکن الاول و العامل الجوهري للاجتماع الانساني  (4)

--------------

(1):- روم ۲۱

(2):- مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۱۵۲

(3):- نور 32

(4):- المیزان ،ج4،ص223

۱۳

خواتین خاندانی اجتماع  کی تشکیل اوراستحکام کی اصلی اور واقعی سنگ بنیاد ہیں، اس عظیم جاذبہ کو خدا نے عورت کے وجود میں قرار دیا ہے اور اسے ارام و سکون کا باعث قرار دیا ہے اور اس رکن اصلی کی حفاظت اور حراست کو مردوں کے ذمہ لگایا ہے،کیونکہ خدا نے مرد میں وہ توانائی اور قدرت پیدا کی ہے جس کے ذریعے وہ اس کی حفاظت کر سکتاہےقران مجید کہہ رہاہے:

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا انفَقُوا مِنْ امْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللهُ(1)

مرد عورتوں کے حاکم اور محافظ ہیں ان فضیلتوں کی بنا پر جو خدا نے بعض کو بعض پر دی ہیں اور اس بنا پر کہ انھوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ کیا ہے پس نیک عورتیں وہی ہیں جو شوہروں کی اطاعت کرنے والی اور ان کی غیرموجودگی میں ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہیں جن کی خدا نے حفاظت چاہی ہے

اس ایہ شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہےاور ازدواجی زندگی میں مادی ضرورتوں کو پورا کرنا بھی مردوں کے ذمہ لگایااور ناموس کی حفاظت اور دفاع بھی مرد پر واجب کردیا،جس کے لئے وہ اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتا

 دوام زندگی اور اس کی حفاظت

سب جانتے ہیں کہ ایک کامیاب زندگی وہ ہے جس میں میاں بیوی دونوں ایک دوسرے پر راضی اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں اپنے اپ کو برابر کے شریک جانتے ہوںاور یہ رؤوف ورحیم اللہ کی انسانوں پر بہت بڑی مہربانی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان وہ محبت ڈال دی جس کی وجہ سے دونوں میں فداکاری  کا جذبہ موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ دونوں میاں بیوی  ان اسباب سے پرہیز کرتے ہیں  جو ان میں جدائی کا باعث ہوںاور دونوں کی یہی خواہش رہتی ہے کہ اس رشتے کی بنیادیں مستحکم تر ہوں، اور ایہ شریفہ(وجعل بینکم مودة و رحمة) کا مصداق بنیں

--------------

(1):- نساء 34

۱۴

ایہ شریفہ میں مودت سے کیا مراد ہے ؟

مفسرین نے درج ذیل احتمالات ذکر کئے ہیں:

الف: مودت یعنی ازدواجی زندگی کے اغاز میں ایک دوسرے سے مرتبط ہونے کا شوق، لیکن ممکن ہے زندگی کو دوام بخشنے یا اخر تک پہنچانے میں دونوں میں سے کوئی ایک ناتواں اور ضعیف ہو جائےاور دوسرے کی خدمت کرنے پر قادر نہ ہو اس طرح رحمت بھی مودت کی جانشین بنے گییہ دونوں اس قدر ایک دوسرے سے عشق و محبت رکھتے ہیں کہ اگر کوئی اور اکر اس ناتواں کی مدد کرے تو اس مدد گار کا بھی احترام کرنے لگتے ہیںاور یہ دونوں ایک دوسرے کی خاطر اپنے اپ کو اب و اتش میں ڈال دیتے ہیں تاکہ دوسرا ارام و راحت میں رہےجبکہ اس وقت نہ خواہشات جنسی اور شہوانی درکار ہیں اور نہ کوئی جوانی کےمسائلاس ضعف اور ناتواںی کے دور میں فقط ایک دوسرے کی حفاظت اور نگہداری ان کے لئے زیادہ اہم ہے

ب:رحمت:مودت بڑوں سے ہوتی ہے جو ایک دوسرے کی خدمت کرسکے لیکن رحمت چھوٹوں کیساتھ مربوط ہے کہ جو رحمت کے سائے میں پرورش پاتےہیںچنانچہ رسول خدا(ص)نے فرمایا:

وَ ارْحَمُوا صِغَارَكُمْ (1)

تم اپنے چھوٹوں پر رحم کرومودت غالبا دو طرفہ ہوتی ہے لیکن رحمت یک طرفہلیکن کسی بھی معاشرہ، اجتماع یا خاندان کی بقاء متقابل خدمات پر منحصر ہے جو مودت ہی سے ممکن ہے نہ محبت سے(2)

--------------

(1):-وس ائل‏ الشيعة ،ج 10 ،ص313

(2):- تفسیر نمونہ،ج16،ص391

۱۵

پہلی فصل

والدین پر بچوّں کی ذمہ داریاں

اولاد کی تعریف

قال اللہ تعالی:

 وَاعْلَمُوا انَّمَا امْوَالُكُمْ وَاوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ وَانَّ اللهَ عِندَهُ اجْرٌ عَظِيمٌ(1)  

اور جان لو یہ تمہاری اولاد اور تمہارے اموال ازمائش ہیں اور خدا کے پاس اجر عظیم ہے

 انَّمَا امْوَالُكُمْ وَ اوْلَادُكمُ‏ْ فِتْنَةٌ  وَ اللهُ عِندَهُ اجْرٌ عَظِيم‏(2)

تمہارے اموال اور تمہاری اولاد بس ازمائش ہیں اور اللہ کے ہاں ہی اجر عظیم ہے

 كلمه" فتنه" کا معنی  ازمایش  اور امتحان میں مبتلا ہونا ہے  اور یہاں اموال اور اولاد  جو دنیاوی  زندگی کی جذاب زینتوں میں سے ہیں؛کے ذریعے انسان کو امتحان میں مبتلا کررہا ہے  کیونکہ نفس انسان ان دونوں کی طرف اس قدر دلچسپی رکھتا ہے کہ ان کی خاطر اخرت کو بھی بھول جاتا ہے  اسی طرح دوسری جگہ فرمایا:

"الْمالُ وَ الْبَنُونَ زِينَةُ الْحَياةِ الدُّنْيا"(3)

یعنی مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں

قال رسول الله: انهم ثمرة القلوب وقرة الاعین (4)

--------------

(1):- انفال28

(2):- التغابن ۱۵

(3):- کہف  ۴۶

(4):- بحار الانوار،ج 104،97

۱۶

رسول اللہ (ص)نے فرمایا: اولاد دلوں کا ثمرہ ہے اور انکھوں کی ٹھنڈکاور فرمایا:انّ لکل شجرة ثمرة وثمرةالقلب الولد (1)

ہر درخت کا پھل ہوتا ہے اور دل کا پھل اولاد ہے

رُوِيَ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ انَّهُ قَالَ بِئْسَ الشَّيْ‏ءُ الْوَلَدُ انْ عَاشَ كَدَّنِي وَ انْ مَاتَ هَدَّنِي فَبَلَغَ ذَلِكَ زَيْنَ الْعَابِدِينَ ع فَقَالَ كَذَبَ وَ اللهِ نِعْمَ الشَّيْ‏ءُ الْوَلَدُ انْ عَاشَ فَدَعَّاءٌ حَاضِرٌ وَ انْ مَاتَ فَشَفِيعٌ سَابِقٌ (2)

اولاد کی اتنی فضیلت کے باوجود ایک دن حسن بصری نے کہا: اولاد کتنی بری چیز ہے!اگر وہ زندہ رہے تو مجھے زحمت میں ڈالتی ہے اور اگر مرجائے تو مجھے غمگین کرجاتی ہےامام سجاد(ع) نے یہ سنا تو فرمایا: خدا کی قسم اس نے جھوٹ بولا ہے بہترین چیز اولاد ہے اگر یہ زندہ رہے تو چلتی پھرتی دعا ہے، اور اگر مر جائے تو شفاعت کرنے والا ہےیہی وجہ ہے کہ روایت میں ملتا ہے کہ حضور (ص)نے فرمایا: سقط شدہ بچےّ سے جب قیامت کے دن کہا جائے گا کہ بہشت میں داخل ہوجاؤتو وہ کہے گا:حتی یدخل ابوای قبلی (3) خدایا جب تک میرے والدین داخل نہیں ہونگے تب تک میں داخل نہیں ہونگا

یہی وجہ ہے رسول خدا ﷺ نے فرمایا:

--------------

(1):- میزان الحکمة،28608

(2):- مستدرک الوسائل،ج15،ص112

(3):- ہمان،ص96

۱۷

عَنِ النَّبِيِّ ص قَالَ‏ تَجِي‏ءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اطْفَالُ الْمُؤْمِنِينَ عِنْدَ عَرْضِ الْخَلَائِقِ لِلْحِسَابِ فَيَقُولُ اللهُ تَعَالَ ی لِجَبْرَئِيلَ ع اذْهَبْ بِهَؤُلَاءِ الَ ی الْجَنَّةِ فَيَقِفُونَ عَلَ ی ابْوَابِ الْجَنَّةِ وَ يَسْالُونَ عَنْ ابَائِهِمْ وَ امَّهَاتِهِمْ فَتَقُولُ لَهُمُ الْخَزَنَةُ ابَاؤُكُمْ وَ امَّهَاتُكُمْ لَيْسُوا كَامْثَالِكُمْ لَهُمْ ذُنُوبٌ وَ سَيِّئَاتٌ يُطَالَبُونَ بِهَا فَيَصِيحُونَ صَيْحَةً بَاكِينَ فَيَقُولُ اللهُ سُبْحَانَهُ وَ تَعَالَ ی يَا جَبْرَئِيلُ مَا هَذِهِ الصَّيْحَةُ فَيَقُولُ اللهُمَّ انْتَ اعْلَمُ هَؤُلَاءِ اطْفَالُ الْمُؤْمِنِينَ يَقُولُونَ لَا نَدْخُلُ الْجَنَّةَ حَتَّ ی يَدْخُلَ ابَاؤُنَا وَ امَّهَاتُنَا فَيَقُولُ اللهُ سُبْحَانَهُ وَ تَعَالَ ی يَا جَبْرَئِيلُ- تَخَلَّلِ الْجَمْعَ وَ خُذْ بِيَدِ ابَائِهِمْ وَ امَّهَاتِهِمْ فَادْخِلْهُمْ مَعَهُمُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِي‏ (1)

اپ نے فرمایا: قیامت کے دن مؤمنین کے بچےّ اہل محشر کے سامنے حساب دینے ائیں گے اللہ تعالیٰٰ جرةئیل ؑ سے کہے گا ان کو جنت میں لے جاؤ تو وہ بچےّ جنت کے دروازے پر کہیں گے: کہاں ہیں ہمارے والدین؟ ان سے کہاجائے گا: تمہارے لئے خزانہ بہشت ہے لیکن تمہارے والدین تمہاری طرح نہیں تھے، ان کے بہت سارے گناہ تھے جن کا ان سے حساب طلب کیا جائے گاجب یہ سنیں گے تو وہ سب چیخنے اور چلانے لگیں گے اللہ تعالیٰٰ جبرئیل سے اس کی وجہ پوچھے گا تو جبرئیل جواب دے گا: یا اللہ! توہی بہترجانتا ہے یہ مؤمنین کے بچےّ ہیں جو کہتے ہیں کہ جب تک ان کے والدین بھی جنت میں داخل نہیں ہوتے اس وقت تک یہ بچےّ بھی جنت میں داخل نہیں ہونگے اس وقت اللہ تعالیٰٰ کہے گا: اے جبرئیل ان کے والدین کو ان اہل محشر میں سے نکالیں تاکہ میری رحمت  کے طفیل میں ان کے بچےّ  ان کے ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل ہوجائیں

---------------

(1):-مستدرك الوس ائل و مستنبط المس ائل ؛ ج‏2 ؛ ص389

۱۸

اولاد صالح باقیات الصالحات ہیں

عَنِ النَّبِيِّ ص انَّهُ قَالَ‏ خَمْسَةٌ فِي قُبُورِهِمْ وَ ثَوَابُهُمْ يَجْرِي الَ ی دِيوَانِهِمْ مَنْ غَرَسَ‏ نَخْلًا وَ مَنْ حَفَرَ بِئْرا وَ مَنْ بَنَ ی لِلهِ مَسْجِدا وَ مَنْ كَتَبَ مُصْحَفا وَ مَنْ خَلَّفَ ابْنا صَالِحا (1)

رسول خداﷺ سے روایت ہے کہ پانچ ادمی ایسے ہیں کہ مرنے کے بعد ان کا ثواب ان کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے:ایک وہ جس نے درخت بویا،دوسرا وہ جس نے  پانی کا کنواں کھودا، تیسرا جس نے مسجد بنائی، چوتھا وہ جس نے قران لکھا، پانچواں جس نے فرزند صالح چھوڑا

تربیت اولاد کے لئے زمینہ سازی

تربیت اولاد کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیںہر مکتب اور مذہب انسانی تربیت کی ضرورت کو درک کرتے ہیں اگر اختلاف ہے تو روش اور طریقے میں ہےتربیت کی اہمیت کو پیغمبر اسلام (ص)یوں فرماتے ہیں:

وَ كَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْانْصَارِيُّ يَدُورُ فِي سِكَكِ الْانْصَارِ بِالْمَدِينَةِ وَ هُوَ يَقُولُ عَلِيٌّ خَيْرُ الْبَشَرِ فَمَنْ ابَ ی فَقَدْ كَفَرَ يَا مَعَاشِرَ الْانْصَارِ ادِّبُوا اوْلَادَكُمْ عَلَ ی حُبِّ عَلِيٍّ فَمَنْ ابَ ی فَانْظُرُوا فِي شَانِ امِّهِ (2)

جابر بن عبداللہ انصاریؒ مدینے میں انصار کے کانوںمیں یہ کہتے ہوئے گھوم رہے تھے: علی(ع) سب سے بہتر اور نیک  انسان ہیںپس جس نے بھی ان سے منہ پھیرا وہ کافر ہوگیا اے انصارو! تم لوگ اپنے بچوّں کومحبت علیؑ     کی تربیت دو،اگر ان میں سے کوئی قبول نہیں کرتا ہے تواس کی ماں کو دیکھو کہ وہ کیسی عورت ہے ایک اور حدیث میں فرمایا: اپنی اولادوں کو تین چیزوں کی تربیت دو: اپنے نبی(ص) اور اس کی ال پاک(ع) کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کریں اور قران مجید کی تعلیم دیں

--------------

(1):-  جامع الاخبار(للشعيري ) ؛  ص105

(2):-من ل ا یحضره الفقیه ،ج۳، ص ۴۹۳

۱۹

رَوَ ی فُضَيْلُ بْنُ عُثْمَانَ الْاعْوَرُ عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع انَّهُ قَالَ مَا مِنْ مَوْلُودٍ يُولَدُ الَّا عَلَ ی الْفِطْرَةِ فَابَوَاهُ اللَّذَانِ يُهَوِّدَانِهِ وَ يُنَصِّرَانِهِ وَ يُمَجِّسَانِه (1)

امام صادق (ع) نےپیغمبر اسلام (ص)سے روایت کی ہے  کہ اپ نے فرمایا:دنیا میں انے والا ہربچہ فطرت (توحید) پر پیداہوتا ہےلیکن اس کے والدین یا اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں

پیدائش سے پہلے

 اسی لئے اسلام نے بچےّ کے دنیا میں انے سے پہلے سے تربیت کرنے کا حکم دیا:

اولاد کے لئےباایمان ماں کاانتخاب

اپ(ص)نے فرمایا: اپنے نطفوں  کے لئے مناسب اور پاکدامن رحم تلاش کروپہلے  ذکر کرچکا کہ خاندانی صفات بھی قانون وراثت کے مطابق اولادوں میں منتقل ہوتی ہیں خواہ وہ صفات اچھی ہو یا بریاسی لئے حضرت زہرا (س)کی شہادت کے بعد امیرالمؤمنین(ع) نے نئی شادی کرنا چاہی تو اپنے بھائی عقیل سے کہا کہ کسی شجاع خاندان میں رشتہ تلاش کروتاکہ ابوالفضل جیسے شجاع اور با وفا فرزند عطا ہوں

دلہن باعث خیر و برکت

رُوِيَ عَنْ ابِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ اوْصَ ی رَسُولُ اللهِ ص عَلِيَّ بْنَ ابِي طَالِبٍ ع فَقَالَ يَا عَلِيُّ اذَا دَخَلَتِ الْعَرُوسُ بَيْتَكَ فَاخْلَعْ خُفَّيْهَا حِينَ تَجْلِسُ وَ اغْسِلْ رِجْلَيْهَا وَ صُبَّ الْمَاءَ مِنْ بَابِ دَارِكَ الَ ی اقْصَ ی دَارِكَ فَانَّكَ اذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ اخْرَجَ اللهُ مِنْ بَيْتِكَ سَبْعِينَ الْفَ لَوْنٍ مِنَ الْفَقْرِ وَ ادْخَلَ فِيهِ سَبْعِينَ الْفَ لَوْنٍ مِنَ الْبَرَكَةَ وَ انْزَلَ عَلَيْهِ سَبْعِينَ رَحْمَةً وَ تَامَنَ الْعَرُوسُ مِنَ الْجُنُونِ وَ الْجُذَامِ وَ الْبَرَصِ انْ يُصِيبَهَا مَا دَامَتْ فِي تِلْكَ الدَّارِ (2)

---------------

(1):- من لایحضرہ الفقیہ،ج۲، ص۴۹

(2):- من لایحضرہ الفقیہ ،ج۳،ص ۵۵۱

۲۰