اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )0%

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض ) مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 200

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 200
مشاہدے: 180663
ڈاؤنلوڈ: 5304

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 200 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180663 / ڈاؤنلوڈ: 5304
سائز سائز سائز
اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

جزیرة العرب میں ناجائز شادیاں

مساعات

بیگناہ بچیوں کی دردمندانہ موت اور قتل کے نتیجے میں عورتوں کی تعداد کم ہوتی گئیاور بیوی کے بغیر لوگوں کے لئے زندگی گزارنا ناممکن تھا،جس کا انجام یہ ہوا کہ عورتیں کرایہ پر دینے لگےیہ عورت کی بیچارگی کی انتہا تھی کہ چوپائیوں کی طرح کرائے پر دی جاتی تھی! عبداللہ بن جدعان اور عبداللہ بن ابی مکہ اور یثرب میں اپنی کنیزوں کو کرایہ پر دےکر بہت بڑے مالدار بن گئےاور یہ بھی رسم تھی اگر مقروض قرض نہ چکا سکا تو قرض دینے والا اس کی بیٹی یا بیوی کو لے کر زنا پر مجبور کرتا اور زنا کے پیسے سے اپنا قرض واپس لیتا تھایہ رسوائی (مساعات ) کے نام سے مشہور تھیاس کے علاوہ بھی مختلف قسم کے نامشروع اور ذلّت امیز نکاح رائج تھےجن میں سے کچھ یہ ہیں:

نکاح الاستیضاع

یہ نکاح شرم اور ترین نکاح ہےاگر کوئی شخص کسی شجاع،دلیر،خوبصورت اورنامور شخص کا ہمشکل فرزند کا خواہاں ہو تو بغیر کسی شرم و حیا کے اپنی بیوی کو اسی صفت کے مالک فرد کے پاس بھیج دیتا تھااور جب حاملہ ہو اور زنا زادہ پیدا ہو جائے تورسم ورواج کے مطابق اسی شوہر کا سمجھا جاتا تھا!

نکاح الرہط

یہ نکاح اجتماعی اور گروہی نکاح کہلاتا ہے تقریبا دس افراد پر مشتمل ایک گروہ ایک دوسرے کی رضایت کے ساتھ ایک عورت کیساتھ ہمبستری کرتے تھےاگر بچہ پیدا ہوجائے تو وہ عورت اپنی مرضی سے کسی ایسے شخص کی طرف نسبت دیتی جو زیادہ خرچہ دیتا رہا ہولیکن اگر کوئی بچی پیدا ہوجائے تو اعلان نہیں کرتیکیونکہ کوئی بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھاعمروبن عاص جس

۱۴۱

نے جنگ صفین میں حکمیت ایجاد کرکے خلافت کو علی (ع)سے لے کر معاویہ کے لئے برقراررکھا،اسی اجتماعی نکاح سے پیدا ہوا تھا، اس کی ماں لیلی نے اسے عاص بن وائل کی طرف منسوب کیاجبکہ ابو سفیان اپنے اخری دم تک یہ ادعا کرتا رہا کہ عمرو میرا بیٹا تھا لیکن عاص بن وائل لیلی کو زیادہ پیسہ دیتا تھا اس لئے اسے بعنوان باپ انتخاب کیا

نکاح البدل

یعنی اپنی بیوی دوسرےکےپاس اور اس کی بیوی اپنے پاس لاناجو ایک خاص جملے کیساتھ مبادلہ کیا جاتا تھا

انزل الیّ عن امرائتک و انزل لک عن امرائتی

نکاح المقت

یہ بھی رائج تھا کہ اگر کوئی شخص مر جائے تو اس کی بیوی کوبھی ارث کے طور پر بڑا بیٹا اپنی تحویل میں لے لیتا تھااگر سوتیلی ماں ہو اور جوان و خوبصورت ہوتو اس سے استمتاع بھی کرلیتا تھا یا کسی اور کو دےدیتا اور اس کا مہر لے لیتا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کس قدر بےبس اورمظلوم تھی کہ ایسی نکاح کوتسلیم کرنے کے سوا اور کچھ نہ کر سکتی تھیاسلام نے اس قسم کے نکاح کرنے سے سختی کیساتھ منع کرتے ہوئے فرمایا:

وَلا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ ابَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاء الا مَا قَدْ سَلَفَ انَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاء سَبِيلا.(1)

اور ان کیساتھ تم نکاح نہ کرو جن سے تمہارے اباء و اجداد نے کیا ہےبیشک کھلی ہوئی برائی اور پروردگار کا غضب اور بدترین راستہ ہے

نکاح الجمع

عرب کے ثروتمند لوگ اپنے مال و ثروت کو بڑھانے کے لئے کنیزوں کو خریدتے یا جسم فروش عورتوں کو ایک قرارداد کے مطابق اکٹھی کرتے اور انہیں اہل فن وادب، موسیقار اور عشوہ گرکے ہاں بیجتے  تاکہ بیشتر پیسےکما سکیں اور ان میں سے ہر ایک کے

--------------

(1):- سورہ نساء ۲۲

۱۴۲

لئے الگ گھر مہیا کرکے اس کے دروازے پر ایک خاص قسم کا جنڈےا کھڑا کرتے جو اس بات کی دلیل تھی کہ ہر کوئی داخل ہوکر اپنی جنسی خواہشات کو پوری کرسکتا ہےایسی عورتیں قینات کے نام سے مشہور تھیں

نکاح الخدن

خدن لغت میں دوست یا معشوقہ کو کہا جاتا ہے کہ مرد اپنی معشوقہ کیساتھ محرمانہ رابطہ پیدا کرکےزناکا مرتکب ہوتا تھا عرف جاہلی میں اسے رسمی اور قانونی قرار دیا گیا تھاجبکہ قران مجید نے اس قسم کے روابط سے منع کرتے ہو ئے فرمایا:

مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلا مُتَّخِذَاتِ اخْدَانٍ(2)

یعنی ان کنیزوں کے ساتھ شادی کرو جوپاکدامن ہوں نہ کہ کھلم کھلا زنا کار ہوں اور نہ چوری چھپے دوستی کرنے والی ہوں

نکاح الشغار

یہ نکاح مبادلی ہے یعنی اپنی بیوی کے مہر میں اپنی بیٹی دوسرے کو دینایہ معاملہ بھی دو مردوں کے درمیان ہوتا تھا، یہاں بھی بے چاری عورت اپنی مرضی کی مالک نہیں تھی(2)

--------------

(1):- سورہ نساء ۲۵

(2):- حقوق زن در اسلام و جہان،ص37

۱۴۳

دوسری فصل

اسلام میں عورت کی قدر و منزلت

جب تمام انسانی معاشرے مختلف قسم کے انحرافات میں گرے ہوئے تھے، بعض معاشرہ یا سوسایٹیزکثرت شہوت کی وجہ سے عورت کو اپنا معبود بناچکے تھے تو بعض معاشرہ  غفلت کی وجہ سے عورت کو بے ارادہ حیوان سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ عورت روح انسانی سےخالی ہے لہذا قابل تقدیر نہیں ہےاور یہ مظلوم عورت بھی جہالت اور نادانی اور ناچاری کی وجہ سے خاموش رہتی

ایسے موقع پر پیغمبر اسلام(ص)،رحمة للعالمین بن کر خدا کی طرف سے مبعوث ہوئے اور ان تمام غلط اور نا جائز رسومات اور انسان کی ناجائز تجاوزات کو ختم کرکے اپ نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا کہ عورت کو اپنا حق اور مرد کو اپنا حق دےکر ظلم و ستم اور بے انصافی کا خاتمہ کیا

پوری دنیا میں اسلام وہ اولین مکتب ہے جو مرد اورعورت کے لئے برابرحقوق کاقائل ہوااور عورت کو حق مالکیت اور استقلال عطا کیا کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرسکے نہ صرف حق دیا بلکہ اس سےبھی بالا تر کہ مرد سے بھی زیادہ عورت کا احترام اور اس کی قدر و منزلت کا قائل ہوااور فرمایا:مرد کوعورت پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے خدا کے نزدیک سب برابر ہیں فضیلت اور برتری کا معیار صرف تقوائے الٰہی ہے جیسا کہ قران کریم نے فرمایا:

يَايهُّا النَّاسُ انَّا خَلَقْنَاكمُ مِّن ذَكَرٍ وَ انث ی ‏ وَ جَعَلْنَاكمُ‏ْ شُعُوبًا وَ قَبَائلَ لِتَعَارَفُوا انَّ اكْرَمَكمُ‏ْ عِندَ اللهِ اتْقَئكُمْ  انَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ" (1) اےانسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ اپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگارہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے"

--------------

(1):- الحجرات13

۱۴۴

اس ایہ شریفہ سے اس فاسد عقیدہ کا بھی قلع قمع ہوجاتا ہے جس کے بعض معاشرہ قائل تھے کہ عورت قیامت کے دن بہشت میں داخل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس میں روح انسانی نہیں پائی جاتی اور وہی انسان کو بہشت سے نکالنے والی ہےوہ شیطان کی نسل ہے جسے صرف مرد کے وجود کے لئے مقدمہ کے طور پر خدا نے خلق کیا ہے

دوسری ایة میں ارشاد فرمایا:

خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا(1)

"عورت بھی مرد کا ہم جنس اور بدن کا حصہ ہے"اور فرمایا:

احِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ الَی نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَانتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ(2)

"تمہارے لئے ماہ رمضان کی رات میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا  گیا  ہےعورت تمہارے لئے عیوب کو چھپانے کے لئے لباس ہے جس طرح تم ان کے لئے عیوب کو چھپانے کا وسیلہ ہے"

اس لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیںجب عورت کو کسی چیز کا مالک نہیں سمجھتا تھا اس وقت فرمایا:

وَلا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَی بَعْضٍ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْن(3)

"اور خبردار جو خدا نے بعض افراد کو بعض سے کچھ زیادہ دیا ہے اس کی تمنّا اور ارزو نہ کرنا مردوں کے لئے وہ حصہّ ہے جو انہوں نے کمایا ہے  اور عورتوں کے ئے وہ حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے"

 جب عورت کو اجتماعی امور میں شریک ہونے کا حق نہیں دیا جارہا تھا اس وقت اسلام نےعورت کو بھی مرد کے برابر ان

--------------

(1):- الزمر ۶

(2):- البقرہ ۱۸۷

(3):- النساء  ۳۲

۱۴۵

اجتماعی امور میں شریک ٹہھراتے ہوئے فرمایا :

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ اوْلِيَاء بَعْضٍ يَامُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ(1)

"مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں اپس میں سب ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ہیں کہ یہ سب ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں"

 اس طرح متعدد ایات اور روایات میں عورت کی قدر ومنزلت کو کبھی بیٹی کی حیثیت سے تو کبھی ماں کی، کبھی بیوی کی حیثیت سے تو کبھی ناموس اسلام کی،دنیا پر واضح کردیا ہے کیونکہ ہر انسان کے لئے ناموس کی زندگی میں یہ تین یا چار مرحلہ ضرور اتا ہےیعنی ایک خاتون کسی کی ماں ہے تو کسی کی بیٹیاور کسی کی بہن ہے تو کسی کی بیوی ہوا کرتی ہے

اسلام نے بھی ان تمام مراحل کا خاص خیال رکھتے ہوئے عورت کی شخصیت کو اجاگر کیا ہےہم ان مراحل کو سلسلہ وار بیان کریں گے، تاکہ عورتوں کے حقوق کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں اور اس میں کوتاہی نہ ہونے پائے

اسلام میں عورت کا مقام

پیغمبر اسلام(ص) ہمیشہ عورتوں کیساتھ مہر و محبت اور پیار کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 

حُبِّبَتْ الَيَّ النِّسَاءُ وَ الطِّيبُ وَ جُعِلَتْ فِي الصَّلَاةِ قُرَّةُ عَيْنِي(2)

"میں دنیا میں تین چیزوں سے زیادہ محبت کرتا ہوں:عطر،عورت اور نماز کہ جو میری انکھوں کی روشنائی ہے"

یاد رہے اپ(ص) کا یہ فرمانا شہوت وغرائز جنسی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اپ ایسے فرامیں کے ذریعےعورت کی قدر و منزلت اور شخصیت کو اجاگر کرنا چاہتےہیںکیونکہ اس عرب جاہلیت کے دور میں عورتوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں تھیہر قسم کے حقوق سے محروم تھیان کے کسی اچھے عمل کو بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے لیکن جب اسلام کا ظہور ہوا جس نے

--------------

(1):- توبہ ۷۱

(2):- وسائل الشیعہ ، ج۸، ص۱۱۶

۱۴۶

نیکی میں مرد اور عورت کو برابر مقام عطا کیامؤمنہ عورت کے بارے میں امام صادق (ع)نےفرمایا:

المراة الصالحة خیر من الف  رجل غیر صالحٍ(1)

"ایک پاک دامن عورت ہزار غیر پاک دامن مرد سے بہتر ہے"

اسی طرح ان سے محبت کرنے کو ایمان کی نشانی بتاتے ہوئے فرمایا:

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع قَالَ مَا اظُنُّ رَجُلًا يَزْدَادُ فِي الْايمَانِ خَيْرا الَّا ازْدَادَ حُبّا لِلنِّسَاءِ(2)

“میرا گمان ہے کہ کسی کا ایمان میں اضافہ نہیں ہوتا مگر اسی مقدار میں عورت سے محبت میں اضافہ ہو جائے” اس سے ظاہر  ہوتا ہے کہ جتنا ایمان میں اضافہ ہوگااتنی عورت سے محبت ہوگی

اسلام کی نگاہ میں ماں کا مرتبہ

اسلام کی نگاہ میں ماں کا مرتبہ بہت بلند ہے خدا تعالیٰ کے بعد دوسرا مرتبہ ماں کو حاصل ہےچنانچہ رسول خدا(ص)سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں: بہر بن حکیم نے اپنے دادا سے نقل کیا ہے:

جَاءَ رَجُلٌ الَی النَّبِيِّ ص فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ مَنْ ابَرُّ قَالَ امَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ امَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ امَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ابَاكَ(3)

راوی کہتا ہے کہ تین مرتبہ میں نے سوال کیا کس کیساتھ نیکی کروں ؟ تو اپ نے فرمایا: ماں کیساتھ نیکی کرو، اور چوتھی بار جب پوچھا تو فرمایا: باپ کیساتھ نیکی کرو

یعنی جب سوال ہوا کہ سارے خلائق میں کون سب سے زیادہ نیکی اور حسن معاشرت کا مستحق ہے؟ تو فرمایا: ماں ماں ماں اور چوتھی مرتبہ فرمایا: باپ

--------------

(1):- وسائل الشیعہ ،ج14،123   

(2):- الکافی ،ج۵، ص۳۲۰  

(3):- الکافی ،ج۲، ص ۱۵۹

۱۴۷

اور مزید فرمایاالجنة تحت اقدام الامهات ماؤں کے قدموں تلے جنت ہے

اور فرمایا:اذا دعاک ابواک، فاجب امّک (1)

جب ماں باپ دونوں ایک ساتھ تیںئ  بلائیں تو ماں کو مقدّم رکھواور یہ سب  ماں کی اپنے گھر والوں پر جان نثاری  اور خدمت کا نتیجہ ہے  چنانچہ شاعر نے اس مطلب کو اس طرح اپنے اشعار میں سمیٹا ہے:

عمر ایثار کی راہوں میں بسر کرتی ہے          خار کو پھول تو ذروں کو گہر کرتی ہے

یعنی ارائش ہر شام و سحر کرتی ہے        یہ وہ ہستی ہے جو ویرانے کو گھر کرتی ہے

کتنے صحرا کو بنا ڈالا ہے جنت اس نے     کردیا فرد کو دودن میں جماعت اس نے(2)

اسلام کی نظر میں بیٹی کا مرتبہ

بغیر مقدمہ کے احادیث اور ان کا ترجمہ بیان کرتا چلوں جنہیں پڑھ کر ہر مسلمان اپنے اندر خوشی اورمسرت کا احساس کرنے لگتا ہے کہ واقعا ہم ایسے رہبر اسلام کے پیروکار ہیں جن سے فقط مہر ومحبت،شفقت، احسان اور نیکی کا درس ملتا ہےبیٹی کی شأن میں فرماتے ہیں:

قَالَ رَسُولُ اللهِ ص خَيْرُ اوْلَادِكُمُ الْبَنَاتُ و یمن المراة ان یکون بکرها جاریة(3)

یعنی بہترین اولاد بیٹی ہے اور عورت کی خوش قدمی کی علامت یہ ہے کہ پہلا فرزند بیٹی ہواسی طرح امام صادق  نے فرمایا:

 عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع قَالَ الْبَنَاتُ حَسَنَاتٌ وَ الْبَنُونَ نِعْمَةٌ فَالْحَسَنَاتُ يُثَابُ عَلَيْهَا وَ النِّعْمَةُ يُسْالُ عَنْهَا(4)

"بیٹیاں حسنہ ہیں اور بیٹے نعمت ہیں،حسنات پر ثواب دیاجاتاہے اور نعمتوں پر حساب لیا جاتا ہے"

---------------

(1):- الکافی ،ج۲، ص ۱۵۹

(2):- ڈاکٹر پیام اعظمی، والفجر، تنظیم المکاتب، لکھنؤ،ہندوستان،۱۹۹۸

(3):- مستدرک الوسائل،ج2،ص 615614

(4):- وسائل الشیعہ ،جج15،ص104، من لایحضر،ج۳، ص۴۸۱

۱۴۸

ابن عباس پیغمبر اسلام (ص)سے نقل کرتے ہیں کہ اپﷺ نے فرمایا؛ وہ شخص جس کے ہاں لڑکی ہو اورکبھی اس کی اہانت نہ کی ہو اور بیٹے کو اس بیٹی پر ترجیح نہ دی ہو تو خداوند اسے بہشت میں جگہ عطا کریگا

اور فرمایا: کوئی شخص بازار سے بچوّں کے لئے کوئی چیز خریدے اور گھر میں ائے تو سب سے پہلے بچی کو دیدو بعد میں بچےّ کوجس باپ نے بچیوں کو خوش کیا تو اسے خوف خدا میں رونے کا ثواب عطا کریگا، یعنی قرب الٰہی حاصل ہوگا(1)

رسول گرامی اسلام(ص)نے فرمایا:جس شخص نے بھی تین بیٹیوں یا تین بہنوں کا خرچہ برداشت کیا  تو اس پر بہشت واجب ہے(2)

جب امیرالمؤمنین (ع)حضرت فاطمہ(س) کی خواسگاوری کے لئے تشریف لائے توباوجود اس کے کہ قران مجید نے صریحتا پیغمبر(ص) کو مؤمنین کی جان ومال میں تصرف کرنے کی مکمل طور پر اجازت دی ہے،فاطمہ(س) کی عظمت کی خاطر اپ سے مشورہ کے لئے تشریف لاتے ہیں اور رضایت طلب کرنے کے بعد ہی علی(ع) کو ہاں میں جواب دیتے ہیںجس سے دور جاہلیت میں زندگی گزارنے والوں پر واضح ہوجاتا ہے کہ عورتوں کو ان کا حق کس طرح دیا جاتا ہےاور یہ بھی بتا دیا جاتا ہےکہ مشترک زندگی کا اغاز اور ازدواج کے لئے اولین شرط لڑکی کی رضایت ہےجس کے بغیر والدین اپنی بیٹی کو شوہر کے ہاں نہیں بھیج سکتے

اسلام میں بیوی کا مرتبہ

جس قدر قدیم دور میں حتیٰ موجودہ دور میں بھی زیادہ تر ظلم وستم بیویوں پر ہوتا تھا اور ہوتا ہے اسی قدر اسلام نے بھی ان سے متعلق شدید ترین دستورات اور مجازات بھی وضع کیا ہے جو دین مقدس اسلام کی طرف سے بیویوں پر خاص عنایت ہےچنانچہ قران مجید نے حکم دیا:

--------------

(1):- محمد خاتم پیغمبران،ج1،ص183

(2):- ائین ہمسر داری،ص504

۱۴۹

وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ(1) ، هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَانتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ(2)

یعنی عورتوں کیساتھ نیکی او مہربانی کیا کرو، وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہوپیغمبر اسلام(ص)نے فرمایا:

اقربکم منّی مجلسا یوم القیامةخیرکم لاهله(3)

قیامت کےدن میرے نزدیک تم میں سے سب سے قریب وہ ہو گا جواپنےعیال پر زیادہ مہربان ہوگااور فرمایا:من اخلاق الانبیاء حبّ النساء (4) یعنی عورت سے محبت اخلاق انبیا (ع) میں سے ہے

احسن الناس ایماناالطفم باهله وانا الطفکم باهلي یعنی ایمان کے لحاظ سے بہترین شخص وہی ہے جو اپنی اہلیہ کی نسبت زیادہ مہربان ہومیمونہ ہمسر پیغمبر اسلام(ص) فرماتی ہیں:میں نے رسول خدا (ص)سے سنا کہ اپ(ص) فرماتے تھے میری امّت میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کیساتھ بہترین سلوک کرے اور بہترین عورت وہ ہے جو اپنے شوہر کیساتھ بہترین گفتار و کردار ادا کرے اور جب بھی کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے تو اسے ہر دن اور رات ہزار شہیدوں کا ثواب ملتا ہےاور جو شخص اپنی بیوی کیساتھ نیک سلوک کرے تو اسے بھی ہر دن سو شہیدوں کا ثواب ملتاہےعمر نے سوال کیا: یا رسول اللہ (ص)مرد اور عورت میں اتنا فرق کیوں؟ تو اپ نے فرمایا:جان لو خدا کے نزدیک عورتوں کا اجر مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہےخدا کی قسم شوہر کا اپنی بیوی پر ستم کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہےاے لوگو! دو ضعیفوں کی نسبت خدا کا خوف کرو: ایک یتیم دوسری بیویخدا تعالیٰ قیامت کے دن تم سے پوچھے گا جو بھی ان دونوں کیساتھ نیکی کریگا،رحمت الٰہی اسے نصیب ہوگی اور جو بھی ان دونوں کیساتھ برائی کرے گا خدا کا غیظ و غضب اس پر نازل ہوگا(5)

--------------

(1):- نساء،۱۹

(2):- نساء ۱۸۷

(3):- فروع کافی ،ج 5،ص320

(4):- فروع کافی ،ج5،ص320  

(5):- سیری در زندگانی حضرت زہرا،37

۱۵۰

اگے فرماتے ہیں:

خيركم خيركم لاهله و انا خيركم لاهلي ما اكرم‏ النّساء الّا كريم‏ و لا اهانهنّ الّا لئيم(1)

یعنی کریم النفس ہے وہ انسان جو عورتوں کا احترام کرے اور پست فطرت ہے وہ انسان جو ان کی اہانت کرے

فرمایا: مجھے جبرئیل نے عورتوں کے بارے میں اتنی سفارش کی کہ میں نے گمان کیا کہ ان کے لئے "اف" تک کہنا بھی جائز نہیں ہوگاجبرئیل نے کہا: یا محمد ﷺ! عورتوں کے متعلق اللہ تعالیٰٰ سے ڈروکیونکہ وہ لوگ تمہارے ہاتھوں  کنیزیں ہیں جنہیں تم نے خدا تعالیٰٰ کی طرف سے بطور امانت تحویل میں لئے ہیں خدا کے کلام کے ذریعے اور محمد ابن عبد اللہ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے ذریعے  ان کو اپنی زوجیت میں لئے ہیں  پس تم پر ان کے لئے کچھ حقوق ہیں جن کے ذریعے تم ان کے نفوس پر مالک بنے ہواور تمہارے ساتھ زندگی گزارتی ہیں پس ان پر رحم کیا کرو اور ان کے حقوق دیا کروپیغمبر اسلام (ص)بستر احتضار پر ارام فرما رہے ہیں اور اہم ترین اور حساس ترین مطالب کو مختصر اور سلیس الفاظ میں اپنی امت کے لئے بیان فرما رہے ہیں: من جملہ عورتوں کے بارے میں ان کے شوہروں سے مخاطب ہوکر فرما رہے ہیں:

 اللهَ اللهَ فِي النِّسَاءِ وَ فِيمَا مَلَكَتْ ايْمَانُكُمْ فَانَّ اخِرَ مَا تَكَلَّمَ بِهِ نَبِيُّكُمْ ع انْ قَالَ اوصِيكُمْ بِالضَّعِيفَيْنِ النِّسَاءِ وَ مَا مَلَكَتْ ايْمَانُكُم‏‏(2)

 دوسری جگہ فرمایا:الله الله في النساء انهن عوان بين ايکديکم اخذتموهن بامانة الله قال ها حتي تلجلج لسانه و انقطع کلامه (3)

عورتوں کے بارے میں خدا کو فراموش نہیں کرنا ان کیساتھ نیکی کرو،ان کے حقوق ادا کرو،ظلم نہ کرو یہ تمہارے گھروں میں زندگی گزاررہی ہیں اور تمہاری ہی کفالت میں ہیںاور خدا کیساتھ تو نے وعدہ کیا ہے کہ ان کیساتھ نیکی،عدالت،مہرومحبت سے پیش

--------------

(1):-نهج الفص احة (مجموعه كلم ات قص ار حضرت رسول اكرم ،ص472

(2):-الك افي،ج۷،ص51،ب اب صدق ات النبي  و ف اطمة و ال ائمة

(3):- تحف العقول،ص۳۰

۱۵۱

ائیں گے کیونکہ فرمان خداوندی بھی ہے کہ ان وعدوں کو نہ بھلاؤیہ کلمات زبان مبارک پر جاری رکھتے ہوئے اپ کی روح مبارک بدن عنصری سے پرواز کر گیا اور ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئےانا لله وانا الیه راجعون امیر المؤمنین (ع)نے بھی پیغمبر اسلام ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئےاپنی اخری وصیت میں عورت کے بارے میں سفارش کی:

 قَالَ ع اللهَ اللهَ فِي النِّسَاءِ وَ فِيمَا مَلَكَتْ ايْمَانُكُمْ فَانَّ اخِرَ مَا تَكَلَّمَ بِهِ نَبِيُّكُمْ انْ قَالَ اوصِيكُمْ بِالضَّعِيفَيْنِ النِّسَاءِ وَ مَا مَلَكَتْ ايْمَانُكُمْ(1)

" اللہ اللہ عورتوں اور کنیزوں اور غلاموں کے بارے میں خدا کو فراموش نہ کروان کے ساتھ نیکی کرنا کیونکہ تمارے  نبی پاک  ﷺ نے  اپنی  اخری وصیت میں یہی  تاکید  کی تھی کہ  دوضعیفوں (عورت اور غلام ) کا خیال رکھا جائے"

 اپ ہی دوسری جگہ فرماتے ہیں:

فَانَّ الْمَرْاةَ رَيْحَانَةٌ وَ لَيْسَتْ‏ بِقَهْرَمَانَة(2)

"عورت پھول ہے نہ پہلوان" پس اس کیساتھ پھولوں کی سی رفتار کیا کرو"

جہاں خواتین کے لئے کام کرنا مناسب نہیں

اگرچہ اسلام نے عورت کو مکمل ازادی دی ہے وہ کمانا چاہے تو کما سکتی ہے،یا تجارت کرنا چاہے تو تجارت کر سکتی ہےلیکن انہی کی مصلحت کے پیش نظر ان کو کچھ جگہوں پر کام کرنے سے منع کیا گیا ہے:

o   جہاں کام اور اشتغال کی وجہ سے خواتین کی شرافت اور کرامت زیر سؤال چلی جائے

o   جہاں کام اور اشتغال کی وجہ سے خواتین کی سرپرستی اور سب سے بڑی مسؤلیت  مادری پر انچ پڑے

o   جہاں شوہر اسے جانے کی اجازت  نہ دے

--------------

(1):- مستدرک الوسائل ،ج۱۴، ص ۲۵۴

(2):- نہج البلاغہ نامہ 31  

۱۵۲

o   جہاں کام اور اشتغال کا ماحول خواتین کے لئے مناسب اور مفید نہ ہو

o   ایسا بھاری کام جو ان کی جسمانی سلامتی کے لئے خطرہ ہو

o   اگر خود عورت کے لئے مالی ضرورت نہ ہو تو  کام کرنا مناسب نہیں

امام خمینی (رح)نے فرمایا: البتہ دفتروں میں کام کرنا ممنوع نہیں اس شرط کیساتھ کہ حجاب اسلامی کا خیال رکھا جائے

اجتماعی روابط کے حدود

دین مقدس اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان اجتماعی روابط کے لئے شرط رکھی ہے کہ کسی قسم کی ہیجان انگیزی پیدا نہ ہواگر وہ ہر قسم کی جنسی میلانات سے دور ہو کر اپنی عفت و کرامت اور تقویٰ کی حفاظت کرتے ہوئے اجتماع میں فعالیت کرسکتی ہے تو دین اسلام مانع نہیں بن سکتا

جہاں مرد اور عورت پر رعایت واجب

1.  روابط اجتماعی میں حجاب کا خیال واجب ہے

نامحرموں پر نگاہ کرنا حرام ہے قران مجید نے بھی سختی سے منع کرتےہوئے فرمایا:

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ ابْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ ازْكَ ی لَهُمْ انَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ ابْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ (1)

"اپ مؤمنین سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچا کر رکھیں یہ ان کے لئے پاکیزگی کا باعث ہے اللہ کو ان کے اعمال کا یقینا خوب علم ہے اور مؤمنہ عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں"

--------------

(1):- نور  ۳۰۳۱

۱۵۳

پیغمبر اسلام (ص)نے فرمایا:وَ النَّظَرَ فَانَّهَا سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ‏ ابْلِيس (1)

"حرام نگاہ شیطانی تیروں میں سے زہر الود تیر ہے"

کیونکہ یہی نگاہ جنسی غریزہ کو بیدار کرنے کا سبب بنتی ہےچنانچہ اس کی مثال سورہ یوسف میں ملتی ہے:

فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ ارْسَلَتْ الَيْهِنَّ وَاعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَا وَاتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ فَلَمَّا رَايْنَهُ اكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ ايْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلّهِ مَا هَذَا بَشَرًا انْ هَذَا الا مَلَكٌ كَرِيمٌ (2)

" جب زلیخا نے مصر کی عورتوں کی ملامت اور مذمت سنی تو انہیں دعوت دی اور ایک عظیم محفل سجائی، ہر ایک کے لئے ایک ایک تکیہ گاہ بھی فراہم کیا ساتھ ہی ہر ایک کے ہاتھ میں چھری بھی تھما دی اور پھل بھیاس کے بعد حضرت یوسف (ع)کو سجھا کر اس مجلس میں انے کا حکم دیاجب مصری عورتوں نے یوسف (ع)کو دیکھا تو اپ کاحسن وجمال دیکھ کر حیرانگی کے عالم میں تکبیر کہنے لگیں اور ترنج (پھل) کے بجائے اپنے ہاتھوں کو زخمی کردیا اور کہنے لگیں:تبارک اللہ ! یہ انسان نہیں بلکہ یہ حسین وجمیل فرشتہ ہے"جو چیز اس ایہ شریفہ میں حیران کن ہے وہ مصری عورتوں کا حضرت یوسف (ع)کو دیکھ کر اپنے ہاتھوں کو زخمی کرناہےاور ایک ہی نظر سے اپنے کنٹرول سے باہر ہوکر انسانی روح وروانی سلامت سے ہاتھ دھو بیٹھیں اس وقت زلیخا بھی فاتحانہ انداز میں مصری خواتین سے کہنے لگی:

قالَتْ فَذلِكُنَّ الَّذي لُمْتُنَّني‏ فيهِ وَ لَقَدْ اوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ

یہ ہے وہ غلام جس کی محبت میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں

2.  خواتین اپنی زینتوں کو روابط اجتماعی میں نامحرموں سے چھپائے رکھیں:

وَ لا يُبْدينَ زينَتَهُنَّ الا ما ظَهَرَ مِنْها وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَل ی جُيُوبِهِن (3)  

--------------

(1):-  نہج الفصاحہ3115

(2):- یوسف  ۳۱

(3):- نور  ۳۱

۱۵۴

 کیونکہ یہ زینتیں اور زیورات بھی نامحرموں کو عورت کی طرف جلب کرنے کا سبب بنتی ہیں اور تلذذ ایجاد کرتی ہیں اس لئے حرام قراردیا گیااسی لئے فقہاء و مجتہدین کا فتوی ہے کہ عورت کا چررہ اور ہتھیلیوں کے علاوہ سارا بدن زینت ہے جس کا نامحرموں کے سامنے ظاہر کرنا حرام ہے

3.  بات کرنے کا اہنگ ہیجان انگیز نہ ہو چنانچہ قران کا حکم ہے:

فلاتخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبه مرض (1)

 اگاہ ہوجاؤ مردوں کے ساتھ نرم اور نازک لہجے میں بات نہ کروکہیں ایسا نہ ہو کہ بیمار دل والے تیری طمع میں نہ پڑجائیں

4.  نامحرموں کیساتھ ہنسی مذاق نہ کرو

پیغمبر اسلام(ص)نے فرمایا:

مَنْ فَاكَهَ امْرَاةً لَا يَمْلِكُهَا حُبِسَ بِكُلِّ كَلِمَةٍ كَلَّمَهَا فِي‏ الدُّنْيَا الْفَ عَامٍ فِي النَّار(2)

جس نے نامحرم عورت کیساتھ مذاق کیا خداوند اسے ہر ایک کلمے کے مقابلے میں ہزارسال جہنم میں قید کریگا

5.  عورتیں تنگ اور نازک لباس نہ پہنیں

 اور مغربی تہذیب کی یلغار کے لئے زمینہ فراہم نہ کریں اور حق یہ ہے کہ ایک مسلمان خاتون اپنی حقیقی اور خدائی حیثیت اور شخصیت کو ان  محرمات سے دور رہ کر برقرار رکھے اور اجتماعی و خاندانی بقا کی تلاش کرتی رہےاب ہمیں خود مطالعہ کرنا چاہئے کہ کون سی عورت جو حجاب اسلامی کی پابند ہے،بے عفتی اور ہتک عزت کا شکار ہوتی ہے یا بے پردہ عورت؟ کون سی عورت جنسی فساد میں مبتلا  اور غیروں کے ہوا وہوس کا شکار ہوتی ہے؟ یقینا بے پردہ عورت ہی ان مصیبتوں میں مبتلا ہوتی ہےاسی لئے اسلام نے حجاب پر زور دیکر عورتوں کی شخصیت،حرمت اور عزت بچانے کا اہتمام کیا ہے

---------------

(1):- احزاب ۳۲

(2):- ثواب الاعمال و عقاب الاعمال       النص       283       عقاب مجمع عقوبات الاعمال ، ص : 280

۱۵۵

اسلام میں ضرب الامثال

گذشتہ مباحث اور انے والے مباحث سے کلی طور پر جو نتیجہ نکالا گیاہے، ان کو ضرب الامثال کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے اور اخر میں نتیجہ نکالیں گے کہ اسلام نے جو مرتبہ اور منزلت عورت کو دی ہے وہ کسی اور معاشرہ یا مکتب اور مذہب نے نہیں دی ہے چنانچہ اسلام کہتا ہے:

o   عورت شوہر کے ہاتھوں خدا کی امانت ہے

o   عورت میاں کے لئے اور شوہر بیوی کے لئے لباس  ہے

o   عورت ریحانہ یعنی پھول ہے نہ پہلوان

o   عورت وہ بچھو ہے جس کے کاٹنے میں بھی لذت ملتی ہے

o   عورت ایک ایسی بلا ہے جس سے فرار بھی ممکن نہیں

o   عورت ٹیڑی ہڈی کی طرح ہے جسے سیدھی کرنا چاہے تو وہ ٹوٹ جاتی ہے

o   وہ عورت اچھی ہے جو رفتار میں مغرور، بخیل اور ڈرپوک ہو

o   فقط عقل مند عورتوں سے مشورہ کرو

o   مرد کی بیجا غیرت دکھانے سے عورت برائی کی طرف جاتی ہے

کچھ نکات:

<   ان ضرب المثالوں میں سے بعض حقائق پر مشتمل ہیں لیکن بعض بے ہودہ ہیں

<   ان ضرب المثال میں سے بعض  قابل تخصیص ہیں

<   بعض مثالوں جیسے عورت منفور ترین مخلوق وکو اس وقت کے یورپی ممالک  قبول نہیں کرتے ہیں، بلکہ یہ یورپی انقلاب سے پہلے کی بات ہے

۱۵۶

<   ان مثالوں میں اکثر تناقض پایا جاتا ہے

<   اکثر مثالوں کو دین مبین اسلام قبول نہیں کرتا

<   کوئی بھی ضرب المثل اسلامی ضرب المثل (امانت الٰہی) کی عظمت کو نہیں پہنچتا

لیکن بعض دفعہ ناشناس مسلمان بھی عورت کو اس قدر ان کے مقام اور مرتبہ سے گراکر حیوانوں کے صف میں شمار کرنے لگتے ہیں

چنانچہ ابوہریرہ کہتا ہے:«يقطع الصلاة المراة و الحمار و الكلب» (1)

 کہ اگر نماز گزار کے سامنے سے عورت،گدھا اور کتا گذرے تو اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہےاگے کہتا ہے :

و الظُعن يمرُّون بين يديه: المراة و الحمار و البعير(2)

 اگر سامنے کوئی چیز رکھے تو عورت،گدھا،اور اونٹ کے گذرنے سے نماز نہیں ٹوٹتیایک اور جگہ کہا:

 يقطع الصلاة الكلب الاسود و الحمار و المراة(3)

عورت،گدھا اور کالا کتا گذرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہےچنانچہ جناب عائشہ نے کہا:

جعلتمونا بمنزلة الكلب و الحمار»(4)

ہمیں تم لوگوں نےگدھا اور کتے کے لائن میں کھڑی کی؟!

----------------

(1):-صحيح مسلم 1: 145 ـ المحلی 4: 8

(2):-السنن الكبری 3: ۱۶۶ و 3554 ـ مصنف ابن ابي شيبه 1: 315

(3):-المحلی 4: 11

(4):-مصنف ابن ابی شيبه 1: 315

۱۵۷

عکرمہ نے کہا:عورت،کتا اور گدھا کے علاوہ یہودی،نصرانی اور مجوسی کے گذرنے سے بھی نماز ٹوٹ جاتی ہے

عن عكرمة يقطع الصلاة الكلب و المراة و الخنزير و الحمار و اليهودی و النصرانی و المجوسی(1)

یہ مثالیں اس لئے نقل کی گئی ہیں تا کہ ان سے  عبرت  حاصل کریں :

وَتِلْكَ الْامْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ(2)

--------------

(1):- ہمان

(2):- سورہ حشر، ۲۱

۱۵۸

تیسری فصل

خواتین کے حقوق

قران مجید نے مرد وعورت کو ابتدائی خلقت سے لے کر بہشت میں سکونت اختیار کرنے تک برابر اور یکسان قرار دیا ہے اور مؤمنہ عورتوں کو عالم بشریت کے لئے بعنوان نمونہ پیش کیا ہے: حضرت اسیہ(س) (فرعون کی بیوی) اور حضرت مریم(س) کو تمام مؤمنین کے لئے نمونہ قرار دیا قران نے رحمت،مودت اور محبت کو زوجیت کا فلسفہ قرار دیا اور والدین کیساتھ احسان کرنے کو خدا کی عبادت کرنے کے برابر سمجھا اجتماعی امور میں بھی عورتوں کی مشارکت کو یاد کرتے ہوئے ملکۂ سبا کا عاقلانہ فیصلہ اور حضرت شعیب(ع) کی بیٹیوں کی کہانی کو بیان کیا ہےجس میں ان کی شرم وحیا کو ان کی نیک رفتار و کردار کی نشانی کے طور پر دنیا کے لئے پیش کیا ہے

خواتین کے اجتماعی حقوق

اسلام نے خواتین کو مکمل طور پر اپنے حقوق دیے ہیں جیسے حق حیات،حق تعلیم وتعلم،حق مالکیت،حق ازادی، حق انتخاب، حق معاملہ وتجارت،حق تصرف،حق نفقہ،حق ارث ومہر و

اسلام نے مردوں سے زیادہ خواتین کے حقوق کا انتظام کیا ہے

عورتوں کے حقوق اورامام خمینی

اسلامی جمہوری ایران کے قانون اساسی میں عورت کے حقوق کو یوں مشخص کیا گیا ہے:

o   عورتوں کے مادی اور معنوی حقوق کا احیاء اور ان کی شخصیت کو رشدونکھار پیدا کرنے کے لئے مناسب زمینہ فراہم کرنا

o   ماؤں کی حمایت،خصوصا حاملگی اور بچوّں کی حضانت کے دوران ان کا خاص خیال رکھنااور بچوّں کی سرپرستی کے حوالے سے مشکلات کا دفع کرنا

o   خاندان کی بقا کے لئے صالح عدالت گاہ کا انعقاد کرنا

۱۵۹

o   بیواؤں اور عمر رسیدہ عورتوں اور بے سرپرستوں کے لئے انشورنس کا قیام

امام خمینی کا امریکی خبر نگار کو انٹرویو

امام خمینی(رح) امریکی لاس انجلس ٹائمزمفسر کو 1357ش میں یوں انٹرویو دے رہے ہیں:

س: عورتوں کے اجتماعی مسائل جیسے، یونیورسٹیز میں کام کرنا اورتعلیم حاصل کرنا اپکے نزدیک کیسا ہے؟

اپ نے جواب دیا: خواتین، اسلامی معاشرے میں ازاد ہیںاور انہیں  یونیورسٹیز یا دوسرے سرکاری اداروں میں کام کرنے سے کبھی نہیں روکا گیا، جس چیز سے روکا جاسکتا ہے وہ اخلاقی مفاسد ہیں جو مرد اور عورت دونوں پر حرام ہیں(1)

متخصص عورت اور واجب کفائی

اسلام نے نہ صرف عورتوں کو کام کرنے سےنہیں روکا بلکہ بعض مقام پر ان کی موجودگی کو واجب کفائی قراردیا ہےجیسے ڈاکٹرنی اور جراح عورت کا ہسپتال میں ہونا،اسی طرح استانی کا بچیوں کے سکول میں ہونا، خواتین کے لئے درزی عورت کا ہونا یا ایسے موارد جہاں خود عورتوں کے ساتھ لین دین ہو، وہاں خواتین کی فعالیت اور موجودگی کو اسلام واجب کفائی سمجھتا ہے

خواتین کے ثقافتی حقوق

فرہنگ اسلام میں جیسے تعلیم و تربیت، ہنر وغیرہ کے حصول میں بھی خواتین کو ازادی دی گئی ہےخصوصاتعلیم وتربیت کے میدان میں تو اسلام نے اسی صراحت کیساتھ عورتوں پر بھی حصول تعلیم کو واجب قرار دیا ہے جس طرح مردوں پر واجب قرار دیا ہےقال:قَالَ النَّبِيُّ ص طَلَبُ الْعِلْمِ‏ فَرِيضَةٌ عَلَی كُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَةٍ ايْ عِلْمِ التَّقْوَی وَ الْيَقِينِ (2) اسلام نے اس مسئلہ پر اس قدر زور دیا ہے کہ شوہربھی بیوی کو تعلیم وتعلم سے نہیں روک سکتا اگرچہ دوسرے موارد میں

--------------

(1):- صحیفہ نور،ج4،ص39

(2):-محجة البیض اء،ج1،ص18  

۱۶۰