اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )0%

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض ) مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 200

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 200
مشاہدے: 180657
ڈاؤنلوڈ: 5304

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 200 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180657 / ڈاؤنلوڈ: 5304
سائز سائز سائز
اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

نتیجہ مساوی نکلا،دونوں راضی ہوگئےاخر جواب تو وہی نکلا جو بابا اور نانا نے دیا تھااور ہم نہیں چاہتے تھے کہ اپ کا یہ دانہ توڑ دیںتو مادر گرامی نے فرمایا: اسے تم نے نہیں توڑا بلکہ خدا کے حکم سے جبرئیل امین ؑنے دوبرابر حصہ کیااور جسے خدا نے توڑا ہو وہ اس جیسے لاکھ دانے سے بہتر ہے

بچوّں کے درمیان مساوات

نعمان بن بشیر کہتا ہے کہ ایک دن میرے والد نے مجھے ایک تحفہ دیا،لیکن دوسرے بھائیوں کو نہیں دیا تو میری ماں(عمرہ بنت رواحہ )نے میرے باپ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: میں اس برتاؤ پر راضی نہیں ہوں جب تک تیرے اس عمل کی رسول خدا (ص) تائید نہ کریںمیرے باپ نے عاجزانہ طور پر ماجرابیان کیا:تو اپﷺ نے فرمایا: کیا سب کو دیدیے؟ کہا نہیںتو اپﷺ نے فرمایا: پس خدا سے ڈرواور اولادوں کیساتھ مساوات و برابری سے پیش اؤمیں اس ظالمانہ رفتار پر گواہی نہیں دیتا(1)

والدین نظم و حقوق کا خیال رکھیں

امیر المؤمنین(ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اسلام(ص)میرے گھر پر ارام فرمارہے تھے، امام حسن (ع)نے پانی مانگا اپ اٹھے اور کچھ دودھ لے کر ائے اور امام حسن (ع)کو پیش کیا،امام حسین (ع)نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور کاسہ خود لے کر پینا چاہا پیغمبر اسلام (ص)نے امام حسن(ع) کی حمایت کی اور امام حسین(ع) کو نہیں دیایہ منظر حضرت زہرا(س) دیکھ رہی تھیں،کہنے لگیں: یا رسول اللہ(ص)!کیا حسن(ع)سے زیادہ محبت ہے؟تو فرمایا:نہیں بلکہ اس لئے حسن(ع) کا دفاع کررہا ہوں کہ اس نے پہلے پانی مانگا تھامیں نے اس کی نوبت کا خیال کیا ہے

--------------

(1):- بحار الانوار ،ج23،ص273

۴۱

ایک شخص رسول خداﷺ کی خدمت میں اپنے دو بچوّں کیساتھ حاضر ہوا،ایک بچےّ کو پیار کیا دوسرے سے کوئی محبت کا اظہار نہیں کیا تو اپ نے فرمایا: یوں اپنے بچوّں میں غیر عادلانہ رفتار نہ کرو،بلکہ ان کے ساتھ اسی طرح مساوات اوربرابری کا رویہ اختیار کرو جس طرح دوسرے تمہارے ساتھ رویہ اختیار کرنا چاہتے ہیں(1)

بچےّ کو خدا شناسی کا درس دیں

بیٹے کے حقوق  کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: 

وَ امَّا حَقُّ وَلَدِكَ فَانْ تَعْلَمَ انَّهُ مِنْكَ وَ مُضَافٌ الَيْكَ فِي عَاجِلِ الدُّنْيَا بِخَيْرِهِ وَ شَرِّهِ وَ انَّكَ مَسْئُولٌ عَمَّا وَلِيتَهُ مِنْ حُسْنِ الْادَبِ وَ الدَّلَالَةِ عَلَ ی رَبِّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ الْمَعُونَةِ عَلَ ی طَاعَتِهِ فَاعْمَلْ فِي امْرِهِ عَمَلَ مَنْ يَعْلَمُ انَّهُ مُثَابٌ عَلَ ی الْاحْسَانِ الَيْهِ مُعَاقَبٌ عَلَ ی الْاسَاءَةِ الَيْه‏ (2)

یعنی بیٹے کا حق باپ پر یہ ہے کہ وہ اسے اپنی اولاد سمجھے اور اس دنیا میں اس کی نیکی اور بدی کو تمہاری طرف نسبت دی جائے گی،اور تم ہی اس کا ولی ہوگا، اور تم پر لازم ہے کہ اسے با ادب بناؤ اسے اصول دین کا سبق سکھاؤ اور خدا کی اطاعت اور بندگی کی راہ پر لگاؤ اور اس سلسلے میں اس کی مدد کرو تاکہ خدا کے نزدیک تم سرخ رو ہو سکے اور اجر پا سکو، اگر ان امور میں سستی کی تو تم نے عذاب الہٰی کو اپنے لئے  امادہ کیا ہے، پس ضروری ہے کہ اسے  کچھ اس طرح تربیت دو کہ تیرے مرنے کے بعد جب لوگ اسے دیکھیں تو تمہیں اچھے نام سے یاد کریں، اور تم بھی خداکے سامنے جواب دہ ہو اور اجر وثواب پا سکو

شیخ شوشتری(رض) جو اپنے زمانے کے نامور عرفاء میں سے تھے 80 سال کی عمر میں 283ھ میں وفات پاچکے ہیں، کہتے ہیں: میں تین سال کا تھا کہ دیکھا میرے ماموں محمد بن سواد رات کے وقت نماز شب میں مصروف ہیںمجھ سے کہا بیٹا کیا اپنے خدا کو یاد نہیں کروگے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے؟ میں نے کہا: کیسے اسے یاد کروں؟ تو جواب دیا جب سونے کا وقت ائے تو 3بار دل سے کہو:

--------------

(1):- بحار الانوار ،ج23،ص113

(2):-من‏ل ايحضره‏ الفقيه    ج2 ، ص 621  ، حقوق اسل امی،ص ۱۵۶

۴۲

(خدا میرے ساتھ ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے اور میں اس کے حضور میں ہوں)

کچھ راتیں گزر گئیں پھر مجھ سے کہا اس جملے کو سوتے وقت 7 مرتبہ پڑھ لیا کرومیں نے ایسا کیا تو اس ذکر کی لذت اور مٹھاس کو میں محسوس کرنے لگاایک سال کے بعد مجھ سے کہا اسے اپنی پوری زندگی پڑھا کرویہی ذکر تمیںس دنیا و اخرت دونوںمیں سرخ رو کریگااس طرح میرے پورے وجود میں بچپنے میں ہی خدا پر ایمان مضبوط ہوگیا تھا(1)

کاشف الغطا اور بیٹے کی تربیت

حضرت ایةاللہ شیخ جعفر کاشف الغطاء(رح) اپنے بچےّ کی تربیت کرنے کے لئے ایک مؤثر طریقہ اپناتے ہیں، وہ یہ ہے: اپ چاہتے ہیں کہ اپ کا بیٹا بھی سحر خیزی اور نماز شب کا عادی ہوجائےاور اخر عمر تک اس عمل کو انجام دیتا رہےایک رات اذان صبح سے پہلے بیٹے کے بستر کے قریب ائے اور بالکل ارام سے اسے بیدار کرنے لگے اور کہا عزیزم !اٹھو حرم مولا علی (ع)چلیں

بیٹے نے کہا:بابا اپ جائیں میں بعد میں اؤں گا کہا نہیں بیٹا میں منتظر رہوں گابیٹا اٹھا اور حرم کی طرف وضو کرکے روانہ ہوئےایک فقیرحرم مطہر کے سامنے بیٹھ کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا رہا تھا

اس وقت ایةاللہ کاشف الغطاء (رح) نے کہا: بیٹا ! یہ شخص کس لئے یہاں بیٹاا ہے؟

کہا: بھیک مانگنے کے لئے

کہا:اسے  کتنے درہم ملتے ہونگے؟

بیٹا:شاید کچھ رقم ملتی ہوگی اور واپس جاتا ہوگا

کیا یقینا اسے دینار ملتا ہوگا؟

بیٹا:البتہ یقینا تو پیش بینی نہیں کرسکتا لیکن کچھ نہ کچھ تو ضرور ملتا ہوگا یا ممکن ہے خالی ہاتھ بھی جاتا ہوگا

--------------

(1):-  الگوہای تربیت کودکان ونوجوانان،ص49

۴۳

یہاں جس نکتے کی طرف اپ بچےّ کو متوجہ کرانا چاہتے تھے ٹھیک اسی جگہ پر اگئے اوراپنا مطلب کے لئے زمینہ فراہم ہوگیااور فرمایا: بیٹا دیکھ یہ گدا گر کمانے کے لئے سویرے سویرے یہاں اتا ہے جبکہ اسے سوفیصد  یقین تونہیں پھر بھی اتنی جلدی نیند سے بیدار ہوکر اتا ہے؛ لیکن تیںر  تو اس ثواب پر پورا پورا یقین ہے کہ جو خدا تعالیٰٰ نے سحر خیزی کے لئے معین کیا ہے اور ائمہ طاہرین (ع)کے فرامین پر بھی یقین رکھتے ہو، پس کیوں سستی کرتے ہو؟!!

اس خوبصورت تمثیل نے اتنا اثر کیا کہ بیٹے نے زندگی کے اخری لمحات تک نماز شب کو ترک نہیں کیا(1)

ہمیں بھی یہی درس ملتا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہںد کہ ہمارے بچےّ بھی سحر خیز ہوں تو پہلے ہم خود اس پر عمل پیرا ہوںچنانچہ رسول اللہ(ص)کے پاس ایک ماں  اپنے بیٹے کو لے ائی کہ اسے نصیحت کریں کہ وہ خرما نہ کھائےکیونکہ حکیموں نے اس کے لئے  منع کیا ہےیا رسول اللہ (ص) اسے نبوت کی مبارک زبان سے سمجھائیں ممکن ہے وہ باز اجائےاپ نے فرمایا:بہت اچھا اج اسے لے جائیں کل لے ائیںدوسرے دن جب ائی تو بڑی نرمی سے نصیحت کی: بیٹا ماں کی باتوں کو سنا کرو اور کھجور کھانے سے پرہیز کرو تاکہ تمہاری بیماری ٹھیک ہوجائے اور بعد میں تم زیادہ  کھجور کھا سکواور زیادہ کھیل کود کر سکواور خوش وخرم زندگی بسر کرسکو اور تمہاری ماں بھی تم پر راضی ہوسکےبچےّ نے اپ(ص) کی باتوں کو قبول کرلیا اور کہا: اب بات سمجھ میں ائی کہ کیوں کھجور نہ کھاؤںاب میں دلیل سمجھ گیا جب باتیں ختم ہوئیں تو ماں نے تشکر بھرے لہجے میں کہا:یا رسول اللہ (ص)یہی باتیں کل بھی تو اپ بتا سکتے تھے

فرمایا: کیونکہ کل میں خود کھجور کھا چکا تھا اچھی بات اس وقت مؤثر ہوتی ہے جب خود اس پر عمل کرو(2)

--------------

(1):- الگوہای تربیت کودکان ونوجوانان ،ص208

(2):- الگوہای تربیت کودکان ونوجوانان ،ص316

۴۴

امام خمینی اور بچوّں کی تربیت

امام خمینی ؒ کی بیٹی نقل کرتی ہے کہ امام خمینی(رح) بچوّں پر بہت مہربان تھےہم گھر میں بڑے مہر ومحبت  کیساتھ رہتے تھے لیکن ہم جب کوئی برا کام کرتے تو سختی سے منع کرتے تھےعملی طور پر ہمیں سمجھادیا گیا تھا کہ کوئی کام ان کی مرضی کے خلاف نہیں کریں گےہم بھی فروعی کاموں میں ازاد لیکن اصولی کاموں میں سخت پابند تھےہم میں سے کسی کی مجال نہیں تھی کہ مخالفت کرےہمیشہ ہمیں پابند رکھتے تھے کہ کوئی گناہ نہ کریں اوراداب اسلامی کی پابندی کریںاس کے علاوہ ہم جتنا شوروغل مچائیں کچھ نہیں کہتے تھے اور نہ کوئی اعتراض کرتےہاں اگر کسی پڑوسی کی طرف سے کوئی شکایت اتی  تو سختی سے اعتراض کرتے تھےہم گھر کے صحن میں کھیل کود میں مصروف ہوتے تھےنماز کے وقت بھی اگر کھیلتے تو کبھی نہیں کہتے،بچو اذان کا وقت ہوگیا ہے اؤ وضو کریں نماز پڑھیںبلکہ خود اذان سے ادھا گھنٹہ پہلے مصلّی پر کھڑے ہو جاتے تھے اوراپ کو دیکھ کر ہم بھی نماز کے لئے تیار ہوجاتےاور جب بھی ہمیں کسی کام سے روکتے تھے زندگی بھر میں  وہ کام انہیں انجام دیتے ہوئے ہم نے نہیں دیکھا،حجاب اور پردے کے بارے میں سخت حساس تھے، اور گھر میں کوئی بھی غیر اخلاقی باتیں جیسے غیبت،جھوٹ،کسی بڑے کی بے احترامی یا کسی مسلمان کی توہین نہیں کرنے دیتے تھے اپ معتقد تھے کہ بچےّ ازادانہ کھیل کود کریںفرماتے تھے اگر بچےّ شرارت نہ کریں تو وہ بیمار ہیں ان کا علاج کرنا چاہئے

اپ کے بیٹے سید احمد خمینی(رح) سے جب انٹرویو لیا گیا تو فرمایا: میری بیوی گھریلو عادت کے مطابق بچی کو میٹھی اور گہری  نیند سے نماز صبح کے لئے اٹھایا کرتی تھیجب امام خمینیؓ کو یہ معلوم ہوا تو پیغام بھیجا کہ: اسلام کی مٹھاس کو بچےّ کے لئے تلخ نہ کرو! یہ بات اس قدر مؤثر تھی کہ میری بیٹی اس دن کے بعد خود تاکید کرتی تھی کہ انہیں نماز صبح کے لئے ضرور جگایا کریں اس وقت میں نے لااکراہ فی الدین  کو سمجھا(1)

--------------

(1):- خاطرات فریدہ خانم مصطفوی ،پابہ پای افتاب،100

۴۵

بچوّں کومستحبات پر مجبور نہ کریں

والدین کو چاہئے کہ ان پر سختی نہ کریں اور مستحبات پر مجبور نہ کریں، کیونکہ اس کا نتیجہ منفی ہوگا جیسا کہ اس مسیحی کا قصہ مشہور ہے کہ مسلمان بھائی نے اسے صبح سے لے کر رات تک مسجد میں قید رکھا،دوسرے دن جب اسے جگانے گیا تو اس نے کہا: بھائی مجھے بال بچےّ بھی پالنا ہے تم کسی اور بے کار ادمی کو تلاش کرو اس طرح وہ دوبارہ مسیحیت کی طرف چلاگیا

ایک جوان کہتا ہے کہ ہمارے والد صاحب ہم تمام بہن بھائیوں کو نماز شب کے لئے جگایا کرتے تھےمیں بہت چھوٹا تھا نیند سے اٹھنا میرے لئے سخت ہوتاتھا، جب مجھے اواز دیتے تھے، حسن اٹھوتو میں بستر میں لیٹ کر ہی زور سے ولا الضالین کہتا تھا(1)

بچوّں کی تربتت اور والدین کی رفتار

یہ بھی واضح ہے کہ بچوّں کے لئے سب سے نزدیک ترین عملی نمونہ اس کے والدین ہیں، بچوّں کو زبان سے نصیحت کرنے، زبانی تعلیم دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے والدین کی رفتار سے وہ ادب سیکھتے ہیں اور یہی بہترین روش تعلیم بھی ہے:

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع انَّهُ قَالَ كُونُوا دُعَاةَ النَّاسِ بِاعْمَالِكُمْ وَ لَا تَكُونُوا دُعَاةً بِالْسِنَتِكُم‏ (2)

 امام صادق نے فرمایا:لوگو! تم ،لوگوں کو اپنے کردار کے ذریعے نیکی کی طرف دعوت دو نہ کہ  زبانی

شاعر کہتا ہے:اولاد بداخلاق ہو یا خوش اخلاق،یہ استاد اور معلم کے سکھانے اور تربیت دینے کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ ماں  کی تربیت گاہ سے اسے ورثے میں ملا ہےاور یہ بھی معلوم ہے کہ اچھی اولاد کی تربیت نادان ماں کے لئے ممکن نہیں اسی طرح عورت اگر پاک دامن اور خوش خلق ہو تو یہ تاریک راتوں میں چمکنے والے درخشان ستاروں کی مانند ہے فرزندان ملت کی خوش بختی اور سعادت ایسی باشعور ماؤں کے ہاتھ میں ہے

--------------

(1):- قصص العلما،ص185

(2):-بح ار ال انو ار     5 ،ص198  ب اب 7- الهد اية و ال اضل ال و التوفيق

۴۶

کودک ہر انچہ دارد از اغوش مادر است             زشتخوی باشد و گر نیک محضر است

در دفتر معلم و اموزگار نیست             ان تربیت کہ زادہ دامان مادر است

فرزند خوب، مادر نادان نپرورد             این نکتہ نزد مردم دانا مقرّر است

زن چون عفیف باشد و دانا و نیکخوی             در تیرگی جہل چو تابندہ اختر است

در دست مادرانِ خردمندِ و باہنر             خوشبختی و سعادت ابناء کشور

بچوّں کےحضور میں دعا مانگیں

والدین کا بچوّں کے لئے نمونہ بننے کے لئے صرف برے کاموں سے بچنا کافی  نہیں ہے بلکہ اچھے اور نیک کاموں کو انجام دینا بھی ضروری ہے کیونکہ نیک کاموں کے بہت سارے نمونے اور مصداق ہیں،جیسے نماز پڑھنا کہ اگر ہم جلدی جلدی پڑھیں تو ہمارے بچےّ بھی جلدی جلدی پڑھیں گےاور اگر ہم اہستہ اہستہ پڑھیں تو وہ بھی اہستہ پڑھیں گے اسی طرح ہم صرف اپنی مشکلات کی دوری کے لئے دعا کرتے ہیں یا دوسروں کے لئے بھی دعا کرتے ہیں اس میں بھی نمونہ بن سکتے ہیں چنانچہ روایت ہے:

 عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ اخِيهِ الْحَسَنِ قَالَ رَايْتُ امِّي فَاطِمَةَ ع قَامَتْ فِي مِحْرَابِهَا لَيْلَةَ جُمُعَتِهَا فَلَمْ تَزَلْ رَاكِعَةً سَاجِدَةً حَتَّ ی اتَّضَحَ عَمُودُ الصُّبْحِ وَ سَمِعْتُهَا تَدْعُو لِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ تُسَمِّيهِمْ وَ تُكْثِرُ الدُّعَاءَ لَهُمْ وَ لَا تَدْعُو لِنَفْسِهَا بِشَيْ‏ءٍ فَقُلْتُ لَهَا يَا امَّاهْ لِمَ لَا تَدْعُوِنَّ لِنَفْسِكِ كَمَا تَدْعُوِنَّ لِغَيْرِكِ فَقَالَتْ يَا بُنَيَّ الْجَارُ ثُمَّ الدَّارُ (1)

امام حسن(ع) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ  شب جمعہ کو میں نے اپنی مادر گرامی کو دیکھا کہ محراب عبادت میں اپ کھڑی ہیں مسلسل نمازیں پڑھی جارہی ہیں یہاں تک کہ صبح کا وقت اگیا اپ مؤمنین مردوں اور عورتوں کے حق میں نام لے لے کر دعا مانگتی رہیں لیکن اپنے لئے کوئی دعا نہیں مانگںا میں نے عرض کیا مادر گرامی !اپ نے کیوں اپنے لئے دعا نہیں  مانگںک؟ تو میری ماں نے کہا: بیٹا پہلے پڑوسی پھر اہل خانہ

--------------

(1):-وس ائل‏ الشيعة، 7،ص112، ب اب استحب اب اختي ار ال انس ان الدع

۴۷

یہ ایک درس اور نمونہ ہے ہمارے لئے جو امام حسن مجتبیٰ (ع)کے ذریعے جناب فاطمہ(س) ہمیں دے رہی ہیں اور ہمیں بھی چاہئے کہ اپنی اولاد کے لئے ایسا درس دیں جو اپنی دعاؤں میں دوسرے مؤمنین کو بھی یاد کریں تاکہ لاکھوں گنازیادہ ثواب زیادہ ملے

چنانچہ روایت میں ہے کہ اگر کوئی اپنے کسی مؤمن بہن اور بھائی کے لئے ان کی غیر موجودگی میں دعا کرے، اس کے لئے پہلے اسمان سے ندا ائے گی کہ اے بندہ خدا اس کے عوض میں  اللہ تعالیٰٰ نے تمہیں ایک لاکھ کے برابر اجر عطا کیا، دوسرے اسمان سے اواز ائے گی دو برابر اجر عطا کیا ، تیسرے اسمان سے ندا ائے گی تین لاکھ کےبرابر اسی طرح ساتویں اسمان سے ندا ائے گی سات لاکھ  کے برابر اجر عطا کیا

بچوّں کی تربیت میں معلم کا کردار

ابوسفیان کا بیٹا معاویہ نے 41ھ میں مسند خلافت پر انے کے بعد یہ ٹھان لی کہ علی (ع)کو لوگوں کے سامنے منفورترین ادمی کے طور پر  تعارف کرائے اس مکروہ ہدف کے حصول کے لئے علی (ع)کے دوستوں کو تلوار اور نیزوں کے ذریعے فضائل علی (ع)بیان کرنے سے منع کیا گیا، دوسری طرف علی (ع)کے دشمنوں کو بیت المال میں سے جی بھر کے مال و زر دیا گیا تاکہ اپ کے خلاف پیغمبر(ص) کی طرف سے احادیث گڑم لیںاس کے علاوہ پورے عالم اسلام میں یہ حکم جاری کردیا گیاکہ نمازجمعہ کے بعد ہر مسجد سے ان پر لعن کیا جائےیہ عملی بھی ہوا اور بچےّ باتوں باتوں میں اپ پر لعن کرنے لگےعمر بن عبد العزیز جو اموی خلفاء میں سے ہے،بچپن میں دوسرے بچوّں کے ساتھ علی(ع) پر لعن کر رہا تھا اس وقت وہاں سے اس کے استاد جو ایک مؤمن اور صالح انسان تھے کا گزر ہواوہاں سے تو خاموش نکل گیا،لیکن جب مدرسہ کا وقت ہوا اور عمر ایا تو استاد نماز میں مشغول ہوا نماز کو طول دینا شروع کیا، عمر سمجھ گیا کہ نماز تو صرف بہانہ ہے

عمر نے پوچھا:حضرت استاد کیا میں ناراضگی کی علت دریافت کر سکتا ہوں؟

تو استاد نے کہا: بیٹا کیا اج تم نے علی پر لعن کاا؟

کہا: ہاں

۴۸

کب سے تمہیں معلوم ہوا کی اہل بدر پر خدا غضبناک ہوا ہے؟ جبکہ ان پر خدا راضی ہےکیا علی اہل بدر میں سے نہیں تھے؟

 کہا: کیا بدر اور اہل بدر کے لئے ان کے صالح اعمال کے سوا کوئی اور چیزباعث افتخار ہے؟

عمر نے کہا:میں اپ کے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ اج کے بعد زندگی بھر ان پرلعن نہیں کرونگا کئی سال اسی طرح گزر گئےایک دن اس کا والد جو حاکم مدینہ تھا نماز جمعہ کا خطبہ فصیح وبلیغ انداز میں دے رہا تھالیکن جب علی پر لعن کرنے کا وقت ایا تو اس کی زبان میں لکنت پیدا ہوئی جس سے عمر کو بہت تعجب ہوا

کہا:بابا جان! میں نہیں جانتا کہ کیوں کر اپ کی فصاحت وبلاغت ادھر اکر ماند پڑ گئی اور زبان بند ہوگئی ؟!

کہا:میرے بیٹے! اس پر تم متوجہ ہوا؟!

بیٹے نے کہا:جی ہاں

باپ نے کہا:میرے بیٹے صرف تمہیں اتنا بتادوں کہ اگر اس مردالٰہی (علی(ع)) کے فضائل میں سے جتنا میں جانتا ہوں ان لوگوں کو پتہ چل جائے تو یہ سب ان کی اولادوں کے پروانے بن جائیں گے اور ہمارے پیچھے کوئی نہیں ائیں گے

جب عمر بن عبدالعزیز نے یہ سنا تو اپنے استاد کی نصیحت پربھی یقین ہوگیااس وقت اس نے یہ عدں کرلیا کہ اگر کبھی برسر اقتدار ایا تو ضرور اس نازیبا عمل کو روک دوں گا اور جب 99ھ میں یہ برسر اقتدار ایا تو سب سے پہلا کام یہی کیا کہ علی ؑپر لعن طعن کو ممنوع قرار دیا اس لعن کے بدلےانّ الله یأمر بالعدل والاحسان کی تلاوت کرنے  کا حکم دیا

دینی تعلیم دینا واجب

روایت میں ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا: افسوس ہواخری زمانے کی اولادوں پر کہ ان کے والدین انہیں دینی تعلیم نہیں دیں گے، کسی نے سوال کیا اپ کی مراد مشرک والدین ہے ؟ فرمایا: نہیں، بلکہ میری مراد مؤمن والدین ہیں جو اپنے بچوّں کو دینی تعلیم نہیں دلائیں گے اور اگر بچےّ کوئی چیز سیکھنا چاہیں تو منع کریں گے اور دنیا کی معمولی چیز انہیں دے کر اپنے اوپر راضی رہیں گے، میں ایسے والدین سے بیزار ہوں

۴۹

بچوّں کو تعلیم دینے کا ثواب

پیغمبر اسلامﷺ نے فرمایا: جب استاد بچےّ کو تعلیم دیتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہلاتا ہے تو اس وقت خدا وند اس بچےّ اور اس کے والدین اور معلّم کو اتش جہنم سے رہائی کا پروانہ عطا کرتا ہے(1) امام صادق (ع)نے رسول خداﷺسے روایت کی ہے: ایک دن حضرت عیسی ٰ(ع) ایک قبر کے قریب سے گزرے اس صاحب قبر پر عذاب ہورہا تھا دوسرے سال جب وہاں سے گزرے تو عذاب ٹل چکا تھا

سوال کیا پروردگارا!کیا ماجراہے؟

وحی ائی اس کے بیٹے نے ایک راستے کی مرمت کی اور ایک یتیم کو پناہ دی، اس نیک عمل کی وجہ سے اسے عذاب سے نجات مل گئی

امام حسین(ع) اور معلم کی قدردانی

عبد الرحمن سلمی نے امام حسین(ع)  کے بیٹے کو سورۂ حمد یاد کرایا تو امام  نے معلم کی قدر دانی کرتے ہوئے  اسےکچھ جواہرات ، اورکپڑے دیے  تو وہاں پر موجود لوگوں نے تعجب کیساتھ کہا: اتنا زیادہ انعام؟!تو امامؑ  نے فرمایا: کہاں یہ مالی انعام اس معلم کی عطا (تعلیم)کے برابر ہوسکتا ہے؟(2)

والدین سے زیادہ استاد کا حق

سکندر اپنے استاد کا بہت زیادہ احترام کرتا تھا، جب اس سے وجہ پوچھی تو کہا: میرےباپ نے مجھے عالم ملکوت سے زمین پر لایا اور استاد نے زمین سے اٹھا کراسمان پر لے گیا(3)

--------------

(1):-   جامع احادیث شیعہ،ج15،ص9    (2):- مستدرک الوسائل،ج1،ص290

(3):- کشکول شیخ بہائی،ص27

۵۰

امام سجاد (ع)فرماتے ہیں: تیرے استاد کا تجھ پر یہ حق ہے کی تو اسے محترم سمجھے اور مجالس میں اس کا احترام کرے اس کی باتیں غور سے سنے اور ان پر توجہ دے اپنی اواز ان کی اواز  سے زیادہ اونچی نہ کرے اور اگر کوئی شخص ان سے کچھ پوچھے تو تم جواب نہ دے اور لوگوں کو اس سے استفادہ کرنے دے اس کے پاس کسی کی غیبت نہ کرے اور جب کوئی تیرے سامنے اس کی برائی کرے توتم اس کا دفاع کرے، تم  ان کے عیوب پر پردہ ڈالے اور ان کی اچھائیاں ظاہر کرے ان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر نہ بیٹھے اور ان کے دوستوں سے دشمنی کا اغاز نہ کرے  اگر تو ا یسا کرے گا تو خدا تعالیٰٰ کے فرشتے گواہی دینگے کہ تم نے ان کی  جانب توجہ دی ہے اور تم نے علم لوگوں کی توجہ مبذ ول کرانے کے لئے نہیں بلکہ خدا کے لئے حاصل کیا ہےاور شاگردوں کا حق تجھ پر یہ ہے کہ تم یہ جان لے کہ خدا تعالیٰٰ نے تجھے جو علم بخشا ہے اور اس کی جو راہیں تجھ پر کھولی ہیں اس کے سلسلے میں تجھے ان کا سرپرست قرار دیا ہے لہذا اگر تو انہیں اچھی  طرح پڑھائے اور نہ انہیں ڈرائے اور نہ ہی ان پر غضبناک ہو تو خدا تعالیٰٰ اپنے فضل سے تیرا علم بڑھائے گا اور اگر تو لوگوں کو اپنے علم سے دور رکھے اور جب وہ تجھ سے اس کی خواہش کریں تو انہیں ڈرائے او ران پر غضبناک ہو تو عین مناسب ہوگا کہ خدا تعالیٰٰ تجھ سے علم کی روشنی چھین لے اور لوگوں کے دلوں میں تیری حیثیت گھٹادے(1)

والدین کی ظلم وستم اور فراری بچےّ

یہ ایک ستم رسیدہ بچی کا خط ہے جواس نے  اپنے باپ کے ظلم وستم سے دل برداشتہ ہوکر گھر سے فرار ہونے سے پہلے لکھا تھا:بابا یہ پہاہ اور اخری خط ہے جسے غور سے پڑھ لو تو شاید اپ کا ضمیر جو مردہ ہوچکا ہے بیدا ر ہوجائے اور سمجھ لو کہ کس قدر خود خواہ اور پست فطرت انسان ہو!بابا میں تم سے متنفر ہوں دوبارہ تیرا منحوس چہرہ نہیں دیکھوں گی، تم اس قابل نہیں کہ تمہیں باپ کہہ کر پکاروںبلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تو باپ ہونے کے لئے کبھی پیدا نہیں ہواتم ایک پلید اور کثیف بلا ہوتم نے مجھے بچپن سے لے کر اب تک ساری چیزوں سے محروم رکھا،

--------------

(1):- مکارم الاخلاق،ص484

۵۱

میری پیاری ماں کو طلاق دیکر خوشی اور نشاط کا دروازہ مجھ پر بند کردیاجبکہ میرے لئے میری ماں کے علاوہ کوئی نہ تھا ایک بیٹی کے لئے ماں سے بڑھ کر اور کون دل سوز ہوسکتا ہے؟ میں کبھی بھی اس دن کو فراموش نہیں کروں گی جس دن تم نے میری ماں کو طلاق دی اور وہ مجھے اخری بار اپنی اغوش میں لے کرگرم انسؤں سے میرے چہرے کو تر کرکے چلی گئی اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں چلی گئی  وہ زندہ ہے یا مردہ؟لیکن اس دن جب تم نے مجھے اواز دی بیٹی میں تیرے لئے خوش خبری لایا ہوں، کہ تیری ماں مر گئی ہےیہ کہہ کر قہقہہ لگانا شروع کیا اس دن ماں سے ملنے کی امید بالکل ختم ہوگئی اور جب میں اپنی ماں کی جدائی میں رونے لگی تو تم نے مجھے ٹھوکر ماری اور میں بیہوش ہوگئی اور میں نہ جان سکی کہ میں کہاں کھڑی ہوں؟!بابا کیا مجھے ماں کی جدائی میں رونے کا بھی حق نہ تھا؟ ارے بابا !اب میں وہ نو سالہ نہیں رہی اب میں تمہارا اس وحشی رویے کو برداشت اور تحمل نہیں کرسکتی یہ رات کے ساڑھے گیارہ  بج چکے ہیں جب کہ تم اور تمہاری بیوی ابھی تک فلم ہال سے گھر واپس نہیں لوٹے کل صبح میں اس جہنم سے ہمیشہ کے لئے نکل جاؤں گیاور دنیا والوں کو بتادوں گی کہ ایسے ظالم،بے رحم اور سنگدل باپ بھی دنیا میں موجود ہیں مگر لوگوں کو یقین نہیں ائے گا(1)

اولاد صالح  خدا کی بہترین نعمت

حسن بن سعید کہتاہے کہ خدا نے ہمارے دوستوں میں سے ایک دوست کو بیٹی عطا کی تو وہ بہت افسردہ حالت میں امام صادق (ع) کی خدمت میں ایاامام(ع)نے فرمایا:کیوں غمگین ہو؟اگر خداتعالیٰٰ تجھ پر وحی نازل کرے اور کہے کہ میں تمہارے بارے میں فیصلہ کروں یا تم فیصلہ کروگے؟ تو تم کیا جواب دوگے؟اس نے عرض کیا: میں کہوں گا بار خدایا! جو تو انتخاب کرے وہی میرے لئے ٹھیک ہےامامؑ نے قران کی اس ایہ کی تلاوت فرمائی جس میں حضرت خضر(ع) کی داستان ذکر ہوئی ہے، کہ حضرت خضر (ع) نے ایک لڑکے کو پکڑ کر مارڈالا جس پر حضرت موسی (ع)نے سخت اعتراض کیا تھا،جس کی علت یوں بتائی:فَارَدْنَا ان يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكَاةً وَاقْرَبَ رُحْمًا (2)

--------------

(1):-  الگوئی تربیت کودکان و نوجوانان،ص248

(2):-  الکہف،81

۵۲

"تو میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دیدے جو پاکیزگی اور  صلئہ رحم میں بھی اس سے بہترہو"

خدا تعالیٰٰ نے اس بیٹے کے بدلے میں انہیں ایک بیٹی عطا کی جس کی نسل سے (70)ستّر پیغمبران الٰہی وجود میں ائے(1)

دوران جاہلیت میں بچیوں کی ولادت پر ماں باپ بہت غمگین ہوجاتے تھےایک دن امیر اسحاق بن محمد کو خبر ملی کہ ان کے ہاں بیٹی ہوئی ہے،تو وہ بہت غمگین ہوگیا اور کھانا پینا بھی چھوڑ دیابہلول عاقل نے جب یہ خبر سنی تو کہا: اے امیر! کیا خدا نے سالم اور بے عیب ونقص بیٹی عطا کی اس لےں تم غمگین ہوگئے ہو؟!کیا تمہارا دل چاہتا تھا کہ مجھ جیسا ایک پاگل بچہ تجھے عطا ہوجاتا؟!اسحاق بے اختیار ان حکیمانہ باتوں کو سن کرمسکرانے لگا اور خواب غفلت سے بیدار ہوا(2)

 بیٹی کی عظمت

رسول خدا(ص)نے فرمایا:جو بھی بازار جائے اور کوئی تحفہ اپنے گھر والوں کے لئے خریدے تو ایسا ہے کہ مستحق افراد میں صدقہ دیا ہواس تحفہ کو تقسیم کرتے وقت بیٹیوں کو بیٹوں پر مقدم رکھےکیونکہ جو بھی اپنی بیٹی کو خوش کرے تو ایسا ہے جیسے اولاد اسماعیل(ع) میں سے ایک غلام ازاد کیا ہواور اگر بچےّ کو خوش کیا تو خوف خدا میں گریہ کرنے کا ثواب ہےاور جو بھی خوف خدا میں روئے وہ بہشتی ہے(3)

--------------

(1):-   سفينة البح ار،ج1،ص108   

(2):- مجموعہ قصص و حکایات بہلول عاقل

(3):- اثار الصادقین،ج15،ص310

۵۳

اسی لئے بیٹے سے زیادہ بیٹی کو اسلام نے  توجہ کا مرکز قرار دیا ہے:شاعر کہتا ہے:

بیٹا ہوسکتا نہیں بیٹی سے خدمت میں سوا     ہے یہ تاریخ کے صفحات پہ اب تک لکھا

بیٹوں نے زر کے لئے باپ کا کاٹا ہے گلا    ہاتھ سے بیٹی کے چھوٹا نہیں دامان وفا

پھوڑدیں بیٹوں نے جب شاہجہاں کی انکھیں    بیٹی ہی بن گئی اس سوختہ جاں کی انکھیں

ہوئی سو بار جہاں میں یہ حقیقت روشن   بیٹی کردیتی ہے ماں باپ کی تربت روشن

کون کہتا ہے  کہ بے وزن وبہا ہے بیٹی    ادمیت کے لئے حق کی عطا ہے بیٹی

کیا خبر کتنے نبیوں کی دعا ہے بیٹی   شمع اغوش رسول دوسرا ہے بیٹی

جس کے دامن میں یہ غنچہ ہو اسی سے پوچھو

قیمت اس گل کی رسول عربیﷺ سے پوچھو

بیٹی کیا چیز ہے یہ قلب نبی سے پوچھو     جذبہء الفت شاہ مدنی سے پوچھو

فاطمہ اور نہ خاتون جنان  کہتے تھے    اپنی بیٹی کو نبی پیار سے ماں کہتے تھے(1)

بچوّں پر  والدین کے حقوق

اللہ تعالیٰٰٰ نے انسانوں بلکہ ہر ذی روح کے لئے دنیا  میں  ماں  باپ سے زیادہ مہربان اور دلسوز مولمق کو  وجود نہیں بخشا خصوصا بنی نوع انسان  کے لئے ماں باپ کی محبت اور شفقت جو خدا تعالیٰٰٰ نے ان کے دلوں میں  ڈالی ہے، ناقابل بیان ہے، یعنی اسے  بیان کرنے سے زبان قاصر  ہے اب چونکہ یہ اپنی اولاد کے لئے اپنا ارام وسکون کھو بیٹھتے ہیں ؛ تو اس کے مقابلے میں اولاد پر بھی(هل جزاء الاحسان الّا الاحسان) کے مطابق  خدا وند حکیم نے  ان کا احترام واجب قرار دیاہے  بلکہ اپنی عبادت اور بندگی کا حکم دینے کے فورا بعد والدین پر احسان کرنے کا حکم دیاہے

--------------

(1):- کتاب والفجر،ص۱۴۰

۵۴

والدین کا چہرہ دیکھنا عبادت

اس بارے میں رسول گرامی اسلام ﷺ سے روایت ہے:

قَالَ رَسُولُ اللهِ ص مَا مِنْ رَجُلٍ يَنْظُرُ الَ ی وَالِدَيْهِ نَظَرَ رَحْمَةٍ الَّا كَتَبَ اللهُ لَهُ بِكُلِّ نَظْرَةٍ حَجَّةً مَبْرُورَةً قِيلَ يَا رَسُولَ اللهِ وَ انْ نَظَرَ الَيْهِ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ قَالَ وَ انْ نَظَرَ الَيْهِ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ الْفِ مَرَّةٍ (1)

ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے  والدین کے چہرے  پر مہربان اور احسان کے ساتھ نظررحمت کرے گا، اس کے لئے  خدا تعالیٰٰٰ ہر  ایک نگاہ  کے بدلے  ایک مقبول حج لکھ  دیتا ہے کسی نے سوال کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! اگر دن میں سو مرتبہ  نظر کرے  تب بھی؟! تو اپ ﷺ نے فرمایا: اگر ایک لاکھ مرتبہ دیکھے تو  بھی ایک لاکھ حج مقبول اس کے لئے لکھ دیگا

بچوّں پر باپ کے حقوق

وَ امَّا حَقُّ ابِيكَ فَانْ تَعْلَمَ انَّهُ اصْلُكَ فَانَّكَ لَوْلَاهُ لَمْ تَكُنْ فَمَهْمَا رَايْتَ مِنْ نَفْسِكَ مَا يُعْجِبُكَ فَاعْلَمْ انَّ ابَاكَ اصْلُ النِّعْمَةِ عَلَيْكَ فِيهِ فَاحْمَدِ اللهَ وَ اشْكُرْهُ عَلَ ی قَدْرِ ذَلِكَ وَ لَا قُوَّةَ الَّا بِالله (2)

اولاد پر باپ کا حق یہ ہےکہ جان لو وہ تمہاری اصل اور جڑ ہے اور تم اس کی فرع اورشاخ اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی نہ ہوتے اور خدا کی تھک پر نعمتوں کے موجب وہ تھے، اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرو

--------------

(1):-مستدرك‏ الوس ائل،ج 15 ، ص 204    جملة من حقوق الو الدين

(2):-من‏ل ايحضره‏ الفقيه،ج2 ، ص621ب اب الحقوق ،ص 618

۵۵

اور کوئی بھی طاقت خدا  کی طاقت سے زیادہ نہیں  ہے اور یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ہر انسان یہ شعور رکھتا ہے کہ اس کے مہربان باپ نے اسے بہت ساری مشکلات اور سختیوں سے نجات دلائی ہے اور محفوظ رکھا ہے، ہمارے بچپنے کازمانہ لیجئے کہ ہماری جسمانی طور پر پرورش  کرنے کے لئےہمارے والدین  دن رات زحمتیں اٹھاتےہیں اور اپنا سکون اور چین کھو دیتے ہیںاسی لئے ہمیں چاہئے کہ خدا کی عبادت اور شکر گزاری کے بعد والدین کی شکر گزاری  بھی ضرور کریںلیکن حدیث شریف کی روشنی میں پھر بھی کما حقّہ ان کا شکر ادا نہیں کرسکتے:

عَنْ حَنَانِ بْنِ سَدِيرٍ عَنْ ابِيهِ قَالَ قُلْتُ لِابِي جَعْفَرٍ ع هَلْ يَجْزِي الْوَلَدُ وَالِدَهُ فَقَالَ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ الَّا فِي خَصْلَتَيْنِ انْ يَكُونَ الْوَالِدُ مَمْلُوكا فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ اوْ يَكُونَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَيَقْضِيَهُ عَنْه (1)

حنان بن سدیر نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ امام محمد باقر (ع) سے سوال کیا کہ کیا بیٹا اپنے باپ کا حق ادا کرسکتا ہے یا نہیں؟! تو فرمایا: صرف دو صورتوں میں ممکن  ہے: پہلا یہ کہ اگر باپ کسی کا غلام ہو اور اسے بیٹا خرید کر ازاد کردے، یا اگر باپ کسی کا مقروض ہو اور بیٹا اس کا قرض ادا کرے

باپ کا احترام واجب

قران مجید کی ایتوں کے علاوہ روایات اسلامی میں بھی ماں باپ کے حقوق اور احترام کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے، اور ساتھ ہی احترام کرنے کا ثواب اور اثر اوراحترام نہ کرنے کا گناہ اور برا اثر بھی جگہ جگہ ملتا ہے: 

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ قَالَ انَّ يُوسُفَ لَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِ الشَّيْخُ يَعْقُوبُ دَخَلَهُ عِزُّ الْمُلْكِ فَلَمْ يَنْزِلْ الَيْهِ فَهَبَطَ جَبْرَئِيلُ فَقَالَ يَا يُوسُفُ ابْسُطْ رَاحَتَكَ فَخَرَجَ مِنْهَا نُورٌ سَاطِعٌ فَصَارَ فِي جَوِّ السَّمَاءِ فَقَالَ يُوسُفُ يَا جَبْرَئِيلُ مَا هَذَا النُّورُ الَّذِي خَرَجَ مِنْ رَاحَتِي فَقَالَ نُزِعَتِ النُّبُوَّةُ مِنْ عَقِبِكَ عُقُوبَةً لِمَا لَمْ تَنْزِلْ الَ ی الشَّيْخِ يَعْقُوبَ فَلَا يَكُونُ مِنْ عَقِبِكَ نَبِيٌّ  (2)

---------------

(1):-  بحار الانوار ، ج ۱۷، ص ۶۶

(2):-الك افي ، ج 2 ، ص 311    

۵۶

چنانچہ امام صادق(ع) سے منقول ہے کہ جب حضرت یعقوب (ع) مصر میں وارد ہوئے تو حضرت یوسف (ع)بھی بہت سارے لوگوں کے ساتھ ان کے استقبال کے لئے نکلے جب نزدیک ہوئے تو مرتبہ و جلالت شہنشاہی سبب بنی کہ اپ سواری سے نیچے نہیں اترے(اگرچہ یہ بعید نظر اتا ہے کہ خدا کا نبی ایسا کرے ! بہرحال روایت کے صحیح ہونے یا نہ ہونے  میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے) تو جبرئیل امین (ع)نے کہا: اے یوسفؑ!  ہاتھ کھولیےاور جب یوسفؑ نے اپنی مٹھی کھولی تو اس میں سے ایک نور اسمان کی طرف رہا ہونے لگاتو حضرت یوسف(ع)نے سوال کیا :جبرئیل یہ کیا ہے؟! جبرئیل نے کہا: یہ نبوت کا نور تھا کہ تیری نسل سے خارج ہوگیااور یہ اس لئے تیری نسل سے خارج ہوگیا کہ تم اپنے باپ کے احترام میں سواری سے نیچے نہیں اترےاسی لئے سلسلہ نبوت اپ کے بھائی کے صلب سے جاری ہوا پیغمبر اسلام ﷺ کے ایک قریبی رشتہ دار نے سوال کیا: میرے ماں باپ فوت ہوچکے ہیں اور ان کا میرے اوپر حق ہے کیسے اسے اتاروں؟ تو فرمایا: ان کے لئے نماز پڑھو، مغفرت طلب کرو، اور ان کی وصیت پر عمل کرو، اور ان کے دوستوں کا احترام کرو، اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک رکھو،اور فرمایا: ماں کا حق باپ کےحقوق سے دوگنا زیادہ ہے(1)

فریضہ است زحق بر تو احترام پدر              پس از خداو پیمبر بُوَد مقام پدر

اگر چہ حرمت مادر نگاہ باید داشت             بحکم شرع بود واجب احترام پدر

بچوّں پر ماں کے حقوق

وَ امَّا حَقُّ امِّكَ فَانْ تَعْلَمَ انَّهَا حَمَلَتْكَ حَيْثُ لَا يَحْتَمِلُ احَدٌ احَدا وَ اعْطَتْكَ مِنْ ثَمَرَةِ قَلْبِهَا مَا لَا يُعْطِي احَدٌ احَدا وَ وَقَتْكَ بِجَمِيعِ جَوَارِحِهَا وَ لَمْ تُبَالِ انْ تَجُوعَ وَ تُطْعِمَكَ وَ تَعْطَشَ وَ تَسْقِيَكَ وَ تَعْرَ ی وَ تَكْسُوَكَ وَ تَضْحَ ی وَ تُظِلَّكَ وَ تَهْجُرَ النَّوْمَ لِاجْلِكَ وَ وَقَتْكَ الْحَرَّ وَ الْبَرْدَ لِتَكُونَ لَهَا فَانَّكَ لَا تُطِيقُ شُكْرَهَا الَّا بِعَوْنِ اللهِ وَ تَوْفِيقِه‏ (2)

--------------

(1):-ترجمه رس الة الحقوق،ص۱۳۹

(2):-من‏ل ايحضره‏ الفقيه ، ج2 ، ب اب الحقوق  ص621

۵۷

تیری ماں کا حق تجھ پر یہ ہے کہ تو جان لے کہ وہ تجھے اٹھاتی رہی کہ کوئی بھی کسی کو اس طرح نہیں اٹھاتااور اپنےدل کا پھل کھلاتی رہی  کہ اج تک کسی نے کسی کو نہیں کھلایااور وہ اپنی پوری طاقت اور پورے وجود کے ساتھ تمہاری حفاظت کرتی رہیاور اپنی بھوک اور پیاس کی پروانہیں کی لیکن تجھے وہ سیر اور سیراب کرتی رہیاور خود برہنہ رہی لیکن تیرے لباس کا بندوبست کرتی رہی اور خود کو دھوپ میں اورتجھے اپنی محبت کےسایہ میں رکھتی رہی،اور خود اپنی رات کی نیند اور ارام کی پروا نہیں لیکن تمہاری نیند اور ارام وسکون کا خیال ورتمہیں گرمی اور سردی سے بچاتی رہی، تاکہ تو اس کا بن کے رہے،  پس تم کسی بھی صورت میں اس کی شکرگزاری نہیں کرسکتےہو مگر یہ کہ خدا تجھے اس کی توفیق دے

امام سجاد(ع)کے کلام میں باپ کے حقوق  پر  ماں کے حقوق کو مقدم کیا گیاہے، شاید اس کی وجہ  یہ  ہوسکتی ہے کہ بیٹے کی شخصیت سازی میں ماں کا زیادہ  کردار ہوتا ہےاور وہ زیادہ زحمتیں اور مشقتیں  برداشت کرتی ہےاور یہ دین مبین اسلام کا طرّہ امتیاز ہے  وگرنہ  دوسرے  مکاتب فکر اور ادیان والے اتنی عظمت اور احترام کے قائل نہیں  ہیں

عورت کو ماں کی حیثیت سے جو حقوق اسلام نے دیا ہے وہ مغربی دنیا میں اس کا تصور بھی  نہیں کر سکتا وہاں جب بچہ قانونی طور پر حد بلوغ کو پہنچتا ہے تو گھر چھوڑ جاتا ہےاور ماں باپ سے بالکل الگ زندگی گزارنے کی فکر میں رہتا ہےاور ایسا رویہ گھریلو ماحول کو بالکل بے مہر و محبت ماحول میں تبدیل کر دیتا ہےکئی کئی سال گزرجاتے ہیں لیکن اولاد اپنے والدین کو دیکھنے اور ملنے بھی نہیں اتی اور حکومت بھی مجبور ہو جاتی ہے کہ ایسے والدین کو بوڑھوں کے گھر (old house)منتقل کریں

افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیگانوں کی اندھی تقلید نے اسلامی معاشرے میں بھی یہ حالت وکیفیت پیدا کردی ہےجہاں والدین گھر کے چشم و چراغ ہیں وہاں اہستہ اہستہ انہیں گھر سے دور اور الگ کرتے جارہے ہیںاور بوڑھوں کے گھر بھیجنا شروع کر دیا ہے

قران مجید نے اس غلط ثقافت پر مہر بطلان لگادی ہے اور ماں باپ کے حقوق کے بارے میں سختی سے تاکید کی ہے یہاں تک کہ اپنی عبادت کا حکم دینے کیساتھ ساتھ ماں باپ پر احسان اور نیکی کرنے کا حکم دیا ہےیعنی اللہ کی عبادت کے فورا بعد والدین کے حقوق کا خیال کرنے کا حکم دیا گیا ہےان حقوق کو ہم چند قسموں میں بیان کریں گے

۵۸

حق احسان

متعدد ایات میں یکتا پرستی کی طرف دعوت کیساتھ ساتھ ماں باپ پر احسان کرنے کا بھی حکم ایا ہے:

وَاعْبُدُوا اللهَ وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ احْسَانًا(1)

 خدا کی عبادت کرو اور اس کیساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھرھاؤ اور والدین کیساتھ احسان کرودوسری جگہ فرمایا:

قُلْ تَعَالَوْا اتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ الا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ احْسَانًا (2)

 کہہ دیجئے کہ اؤ ہم تمہیں بتائیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا کیا حرام کیا ہےخبردار کسی کو اس کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا

وَاذْ اخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي اسْرَائِيلَ لا تَعْبُدُونَ الا اللهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ احْسَانا وَذِي الْقُرْبَی وَالْيَتَامَی وَالْمَسَاكِينِ(3)

"اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ قرابتداروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا"

اور احسان سے مراد کچھ محدود چیزیں نہیں بلکہ سب نیک اور شائستہ کام مراد ہیں جو انسان کسی دوسرے کے لئے انجام دیتا ہےاولاد پر والدین  کا بہت بڑا حق ہے

احسان کرنابہترین عبادت

قَالَ قُلْتُ لِابِي عَبْدِ اللهِ ع ايُّ الْاعْمَالِ افْضَلُ قَالَ الصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا وَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ وَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ (4)

--------------

(1):- نساء ۳۶

 (2):- انعام ۱۵۱

(3):- بقرہ ۸۳

(4):-وس ائل‏ الشيعة    ،ج  15، ص 19

۵۹

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادق (ع)سے سوال کیا: کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ تو  امام نے فرمایا:نماز کا اول وقت  پر  پڑھنا، والدین کے ساتھ نیکی کرنا  اور  خدا  کی راہ  میں  جہاد  کرنا

کافروالدین پربھی احسان!

عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنِ الرِّضَا ع فِي كِتَابِهِ الَ ی الْمَامُونِ قَالَ وَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ وَاجِبٌ وَ انْ كَانَا مُشْرِكَيْنِ وَ لَا طَاعَةَ لَهُمَا فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ وَ لَا لِغَيْرِهِمَا فَانَّهُ لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ (1)

فضل بن شاذان ؓ امام رضا (ع)سے روایت کرتے ہیں کہ اپ نے مامون کو خط لکھا جس میں والدین کی اطاعت کو واجب قرار دیا، اگرچہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو ؛ سوائےمعصیت خدا  کے کیونکہ معصیت الہٰی  میں مخلوق  کی اطاعت جائز نہیں ہے

عَنْ ابِي جَعْفَرٍ ع قَالَ ثَلَاثٌ لَمْ يَجْعَلِ اللهُ لِاحَدٍ فِيهِنَّ رُخْصَةً ادَاءُ الْامَانَةِ الَ ی الْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ وَ الْوَفَاءُ بِالْعَهْدِ لِلْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ وَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ بَرَّيْنِ كَانَا اوْ فَاجِرَيْنِ (2)

امام صادق (ع)سے روایت ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں خدا نے کسی کے لئے بھی رخصت نہیں دی ہے:

1.  امانت کا واپس کرنا اگرچہ انسان فاسق ہو یا نیک ہو 2.   وعدہ وفا کرنا خواہ اچھا انسان ہو یا برا

3.  والدین کے ساتھ احسان کرنا، خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں

 خصوصا  ماں کا حق اولاد کے اوپر زیادہ ہے جیسا کہ  امام صادق(ع) فرماتے ہیں: ایک شخص رسول خدا (ص)کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں ایک ایسا جوان ہوں جو خدا کی راہ میں جہاد کرنے کی خواہش رکھتا ہوں لیکن میری ماں اس کام کی طرف ہرگز مائل نہیںرسول اکرم(ص) نے فرمایا: واپس جاؤ اور اپنی ماں کے پاس رہو اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق پر مبعوث فرمایا ہے ایک رات ماں کی خدمت کرنا خدا کی راہ میں ایک سال جہاد کرنے سے بہتر ہے(3)

--------------

(1):-وس ائل‏ الشيعة    ، ج 16 ، ص 155

(2):-وس ائل‏ الشيعة    ، ج 21 ، ص490

(3):- جامع السعادات،ج2،ص261

۶۰