امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟0%

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟ مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)
صفحے: 41

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: صفحے: 41
مشاہدے: 24314
ڈاؤنلوڈ: 4913

تبصرے:

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 41 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24314 / ڈاؤنلوڈ: 4913
سائز سائز سائز
امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟

مصنف:- آیۃ اللہ ابراھیم امینی

ترجمہ سید سعید حیدرزیدی

۱

عرضِ ناشر

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

امام حسین علیہ السلام نے کیوں قیام فرمایا؟

اِس سوال پر اسلامی تاریخ کے ہردور میں اظہارِ خیال کیاگیا ہے اور اِس تحریک اور قیام کے مختلف مقاصد ومحرکات بیان کئے گئے ہیں۔اظہارِ خیال کرنے والے بعض حضرات نے انتہائی جزئی مطالعے، کوتاہ فکری، کسی خاص فکری رجحان سے وابستگی یا بدنیتی کی بنا پرامام حسین ؑ کے قیام کا مقصد ایسی چیزوں کو قرار دیا ہے جو اسلام کی روح، تاریخی حقائق، امام حسین ؑ کی شخصیت اور آپ ؑ کے مقامِ عصمت وامامت کے یکسرمنافی ہیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ نواسہ رسول کا اقدام نسلی یا قبائلی چپقلش کا نتیجہ تھا، یا امام ؑ نے امت کے گناہوں کی بخشش کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیاوغیرہ وغیرہ اِسی قسم کے مقاصد میں سے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے مصنفین، شعرااور مقررین بھی، بے سوچے سمجھے ایسے مقاصد کی ترویج اور تشہیر کیا کرتے ہیں۔

مختصر یہ کہ امام حسین ؑ کی تحریک کے مقاصد کو جاننے اور سمجھنے کے لیے بھرپور کام کی ضرورت اب بھی باقی ہے اور اِس سلسلے میں مختلف زاویہ نگاہ سے جائزے اور تحقیق کاکام جاری رہنا چاہیے۔ دو مضامین پر مشتمل زیرِنظر کتابچہ اِسی جذبے اور خواہش کے تحت شائع کیا جارہا ہے۔ پہلا مضمون حوزہ علمیہ قم کے ممتازعالمِ دین آیت اللہ ابراہیم امینی سے ایک انٹرویو ہے، جو امام خمینی علیہ الرحمہ کی چھٹی برسی کی مناسبت سے منعقدہ سیمینار بعنوان ” امام خمینی و فرہنگِ عاشورا“ کے موقع پر علامہ امینی سے کیا گیاتھا۔ اِس انٹرویو میں جنابِ عالی نے امام حسین ؑ کے کلمات کی روشنی میں آپ ؑ کے قیام کا مقصد واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرا مضمون بھی حوزہ علمیہ قم ہی کی ایک علمی شخصیت حجت الاسلام محمد باقر شریعتی سبزواری کی تحریر ہے، جس میں اُس دور کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے امام حسین ؑ کے فرامین ہی کے ذریعے امام ؑ کی تحریک کے مقصد کی وضاحت کی گئی ہے۔

امید ہے امام حسین ؑ کی تحریک کو سمجھنے اور اُس سے سبق لیتے ہوئے دورِ حاضر میں اپنے فریضے کے تعین کے سلسلے میں تمام پڑھنے والوں خصوصاً جواں نسل کے لیے اِن مضامین کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔

۲

امام حسین ؑ نے کیوں قیام فرمایا؟

سوال: امام حسین علیہ السلام اپنی تحریک کے ذریعے کیا ہدف یا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟

شہادت، احیائے اسلام، اصلاحِ امت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، خدا کی طرف سے عائد فریضے کی ادائیگی، یزید کی ظالم حکومت کی سرنگونی اور عادلانہ اسلامی حکومت کا قیام، وہ نمایاں نقطہ ہائے نظر ہیں جو امامؑ کی تحریک کی تفسیر اورآپ ؑ کے مقاصد و محرکات کی تشریح کے سلسلے میں محققین اوراہلِ نظرافراد کی جانب سے پیش کیے جاتے ہیں۔ عاشورا کی تحریک کے فلسفے اور اہداف اور اس بارے میں اٹھائے گئے سوالات کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے اورآپ اپنی رائے کا دوسری آرا، خیالات اور نظریات سے کس طرح موازنہ کرتے ہیں؟

* امام حسین ؑ کے قیام کے ہدف و مقصد کے بارے میں مختلف نظریات اور خیالات پائے جاتے ہیںمصنفین و متکلمین نے امام حسین ؑ کی تحریک کے مختلف مقاصد بیان کیے ہیںکبھی اس تحریک کو ایک ایسی تحریک کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کاپورا دستورِ عمل (program)خداوندِ عالم کی جانب سے مقرر کردیا گیا تھا اور امام حسین ؑ کا کام محض اس کو جامہ عمل پہنانا تھا اور آپ ؑ پر لازم تھا کہ خداوندِ متعال اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے آپ ؑ جن کاموں کے لیے مامور کیے گئے ہیں انہیں بغیر کسی معمولی ردوبدل کے قدم بقدم انجام دیں۔

بعض دوسرے لوگوں کے خیال میں امام حسین ؑ کی تحریک ایک سوچی سمجھی تحریک تھییہ لوگ کبھی اس تحریک کے مقصد کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور کبھی حکومتِ وقت یعنی یزید کی حکومت سے ٹکراؤ اور بسا اوقات حکومتِ اسلامی کے قیام کے لیے جدوجہد قرار دیتے ہیںکچھ دوسرے لوگوں کا تجزیہ ہے کہ امام حسین ؑ پر ایک فریضہ عائد ہوتا تھا اورآپ ؑ نے تعبداً اپنی یہ ذمے داری پوری کی، وغیرہ، وغیرہ۔۔۔ ۔

اِس بارے میں اور دوسری باتیں بھی بیان اور تحریر کی جاتی ہیںباوجود یہ کہ اس بارے میں کافی کتب تحریر کی گئی ہیں اور مختلف نظریات اور افکار کا اظہار کیا گیا ہے لیکن اب تک یہ مسئلہ بخوبی واضح نہیں ہوا کہ اس تحریک میں امام حسین ؑ کی سوچ کیا تھی۔

۳

یہ محض تاریخی بحث نہیں، بلکہ ایک ایسی بحث ہے جو تحریکِ اسلامی، حکومتوں، حکومتوں کے خلاف جدوجہد کرنے والوں اور ایسے افراد کے لیے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں بطورِ کلی ایک مشعلِ راہ ہوسکتی ہےامام حسین ؑ جو ایک معصوم فرد اور امام تھے، اُن کا طرز و اسلوب قطعی طور پر مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل کی حیثیت رکھتا ہےافسوس کی بات ہے کہ جس طرح اِس مسئلے کی وضاحت ہونی چاہیے تھی ایسی نہیں ہوئی اور نہ ہی (امام ؑ کی) اس تحریک سے خاطر خواہ استفادہ کیا گیا ہے۔

امام حسین ؑ کے کلمات آپ ؑ کے ہدف اور محرکات کی ترجمانی کرتے ہیں اِس موضوع پر تحقیق اور اِس کی تشریح کے لیے ایک مفصل اور جداگانہ تالیف کی ضرورت ہے جو سرِ دست اِس مختصر موقع اور وہ بھی انٹرویو کی صورت میں ممکن نہیںالبتہ مختصر طور پر کہوں گا کہ ہمیں امام حسین ؑ کے مقصد اور ہدف کو خودآنجناب ؑ کے کلمات سے اخذ کرنا چاہیےجن لوگوں نے امام حسین ؑ کی تحریک کے مقاصد پر گفتگو کی ہے، اُن میں سے بھی اکثر نے امام ؑ کے کلمات کا سہارا لیا ہےلیکن کیونکہ امام حسین ؑ کے کلمات بکھرے ہوئے اور}موقع محل کی مناسبت سے{ مختلف ہیں اِس لیے اِن حضرات میں سے ہر ایک نے ان میں سے کسی ایک حصے کو لے کر اس سے استفادہ کیا ہے اور دوسرے مفاہیم سے صرفِ نظر کیا ہے اور صرف کسی ایک پہلو پر اپنی فکر مرکوز رکھی ہے۔

ہم ابتدا میں امام حسین ؑ کے ان کلمات میں سے کچھ کو بیان کریں گے جو آپ ؑ نے اپنے ہدف کے بارے میں فرمائے ہیں اور اس کے بعد ان کی جمع بندی کر کے ان سے نتیجہ اخذ کریں گےاگر ہم ان مختلف کلمات کا باہم اور یکجا کرکے تجزیہ کریں، تو سب ایک ہی راہ کی وضاحت کرتے ہیں، اور یوں ان میں تضادا ور اختلاف نظر نہیں آتا، بلکہ یہ سب ایک ہی ہدف کی نشاندہی کرتے ہیں اور وہ ہدف بھی بخوبی روشن اور واضح ہے۔

۴

امر بالمعروف اور نہی عن المنکراپنی اصلاحی تحریک کے لیے امام ؑ کا وسیلہ

جب مدینہ میں امام حسین ؑ کے بھائی محمد بن حنفیہ نے آپ ؑ کو مشورہ دیا کہ آپ ؑ اِس سفر پر روانہ نہ ہوئیے، تو امام ؑ نے ان کی بات قبول نہ کی اور}سفر پر روانہ ہوتے ہوئے {ایک وصیت نامہ تحریر کیا، جس کے ایک حصے سے امام حسین ؑ کے مقصد کی وضاحت ہوتی ہےامام ؑ اس وصیت نامے کے ایک حصے میں تحریر فرماتے ہیں:

وَ أَنّی لَمْ أَخْرُجْ أشِراًوَلاٰبَطِراًوَلاٰ مُفْسِداًوَلاٰظٰالِماً وَاِنَّمٰاخَرَجْتُ لِطَلَبِ الْاِصْلاٰحِ فی اُمَّةِ جَدّی اُریدُأَنْ آمُرَبِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهیٰ عَنِ الْمُنْکَرِوَأَسیرَبِسیرَةِ جَدّی وَأَبی عَلیِّ بْنِ أَبی طٰالِبٍ

میں خود خواہی، غرور، فتنہ انگیزی اور ظلم کے لیے نہیں نکل رہا، بلکہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کی غرض سے نکل رہا ہوںمیں چاہتا ہوں کہ معروف کا حکم دوں اور منکر سے روکوں اور اپنے نانااور والد علی ابن ابی طالب ؑ کی سیرت پر عمل کروں۔(۱)

یہ اصلاح طلبی دراصل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہی ہے، اس سے مختلف کوئی چیز نہیںیعنی امام ؑ چاہتے ہیں کہ امت کی اصلاح کریں اور اصلاح کا یہ عمل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے جامہ عمل پہنے۔

امامؑ کس قسم کی اصلاح چاہتے ہیں؟ وہ آپ ؑ کے اِس جملے سے ظاہرہےفرماتے ہیں:

میں اپنے جد اور والد کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں۔

--------------

۱۔ موسوعہ کلماتِ امام الحسین ؑ ص۲۹۱

۵

اسلام اور سیرتِ پیغمبرؐ سے اسلامی معاشرے اور حکومت کا انحراف

امام حسین ؑ نے محسوس کیا تھا کہ معاویہ اور اُن کے بعد یزید اور کچھ اُن سے قبل کی حکومتوں کے دوران لوگوں کے درمیان ایسے اعمال رواج پاگئے ہیں جو پیغمبر اکرم ؐ اور حضرت علی ؑ کی سیرت کے برخلاف ہیں۔

پیغمبر اسلام ؐاپنی حکومت میں ایک خاص سیرت اور طریقے پر کاربند تھےاقتصاد کے بارے میں آنحضرتؐ کی ایک خاص روش تھیدوسرے معاملات میں بھی آپ کا خاص طریقہ کار تھاحضرت علی ؑ کی بھی وہی سیرت رہیلیکن افسوس کہ پیغمبرؐکی رحلت کے بعد اگرچہ کچھ مدت تک ایک حد تک آپؐ کی سیرت پر عمل جاری رہا لیکن بعد میں بعض انحرافات نے سر ابھارا۔

جب حکومت کی باگ ڈور علی ابن ابی طالب ؑ نے سنبھالی، تو آپ ؑ نے معاملاتِ حکومت کو پیغمبراسلام صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلمی نہج پر واپس لانے کی کوشش کیاسی وجہ سے آپ ؑ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑاکیونکہ لوگ دوسرے طریقوں کے عادی ہوچکے تھےلہٰذا امیر المومنین ؑ کو اس سلسلے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی، شاید آپ ؑ کوشہید بھی اسی بنا پرکیاگیا۔

اسلامی معاشرے کا بھی یہی حال تھا، وہاں بھی لوگوں کی عبادات میں، اُن کے اخلاق میں اور اُن کے سماجی امور میں ایسی چیزیں وجود میں آگئی تھیں جو اسلام سے موافق نہ تھیں، اس لحاظ سے اسلام کے لیے ایک خطرہ جنم لے رہا تھا۔

ایک اور بات یہ تھی کہ وہ حکمراں جو خلیفہ رسولؐ کے عنوان سے، پیغمبر ؐ کے جانشین کے طور پر حکومت کر رہے تھے، اُن کا طرزِ عمل پیغمبرؐ کے طرزِ عمل سے مختلف تھا، اسلام کی تعلیمات کے منافی تھا۔

اگر یہی صورتحال جاری رہتی، تواسلام کی ایک غلط تصویر لوگوں کے سامنے آتی، اور وہ اسی کو اسلام سمجھ بیٹھتےعلاوہ ازایں خود لوگوں کے درمیان بھی ایسی باتیں رائج ہوگئی تھیں جو اسلام اور سیرتِ پیغمبر ؐکے موافق نہ تھیں۔

۶

امام ؑ کی اصلاحی تحریک کا عنوان: سیرتِ پیغمبر ؐاور سیرتِ علی ؑ کا احیا

ان وجوہات کی بنا پر امام حسین ؑ سمجھتے تھے کہ اصلاح کاعمل ناگزیرہے، اور یہ اصلاح پیغمبر ؐاور علی ابن ابی طالب ؑ کی سیرت کا احیا تھییہ دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام حسین ؑ کا ہدف اور مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے پیغمبر اسلامؐ اور امیر المومنین علی ؑ کی سیرت کا احیا تھایعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر احیا کا وسیلہ ہے، خود ہدف اور مقصد نہیںہدف درحقیقت پیغمبر اسلام ؐ اور حضرت امیرؑ کی سیرت کو زندہ کرناتھا۔

اموی حکومت کی دونمایاں خصوصیات:حدودِ الٰہی کا تعطل اور علانیہ فسق وفجور

امام حسین ؑ نے جب مکہ سے کوفہ کے ارادے سے اپنے سفر کا آغاز کیا، تو اثنائے راہ میں آپ ؑ کی ملاقات فرزدق سے ہوئیامام ؑ نے اس سے عراق کے حالات دریافت کیےاس نے جواب دیا:

لوگوں کے دل آپ ؑ کے ساتھ ہیں لیکن اُن کی تلواریں آپ ؑ کے خلاف ہیں۔

امام ؑ نے اُس سے اپنے سفر کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

اِنَّ هٰؤُلاٰءِ قَوْمٌ لَزِمُوا طٰاعَةَ الشَّیْطٰانِ وَتَرَکُواطٰاعَةَ الرَّحْمانِ وَ أَظْهَروُا الْفَسٰادَ فِی الْأَرْضِ وَاَبْطَلُوا الْحُدُودَ وَشَرِبُوا الْخُمُورَ وَ اسْتَأْثَروُا فی أَمْوٰالِ الْفْقَرٰاءِ وَالْمَسٰاکینَ وَأَنا أَوْلیٰ مَنْ قٰامَ بِنُصْرَةِ دینِ اللّٰهِ وَاعْزٰازِ شَرْعِهِ وَالْجِهٰادِ فی سَبیلِهِ لِتَکُونَ کَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلَیٰا (۱)

یعنی

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے شیطان کی اطاعت کی ہے، رحمن کی اطاعت کو ترک کردیاہے۔

البتہ یہاں ممکن ہے ” ھٰؤُلاٰءِ“ حکام کی جانب اشارہ ہو (اور زیادہ یہی معنی ظاہر ہوتے ہیں) اور ممکن ہے پورے معاشرے کے لیے ہو۔

--------------

۷

ان لوگوں نے فساد کو ظاہر کیا ہے۔

بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی فساد کا مرتکب ہوتا ہے، لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی فساد کا اظہار کرتا ہے، علیٰ الاعلان فسق وفجور کا مرتکب ہوتا ہےاِن لوگوں کے بارے میں امام ؑ فرماتے ہیں کہ انہوں نے زمین پر فساد کو ظاہر کیا ہے، یہ لوگ درحقیقت فساد کو رواج دینے والے ہیںیہ ایک اہم اور خطرناک مسئلہ ہے۔

انہوں نے حدودِ الٰہی کو معطل کردیا ہے۔

یعنی شرعی حدود پر عمل نہیں کرتےان کا اندازِ حکومت کچھ اور ہےپیغمبر ؐ نے حکومت کی تھی لیکن اُن کی حکومت دینی اور اسلامی قوانین کی حدود میں تھیلیکن ان لوگوں نے اس اندازِ حکومت کو ترک کردیا ہے، حدودِ الٰہی کو قدموں تلے روند ڈالا ہے۔

یہ لوگ شراب پیتے ہیں۔

حالانکہ شراب نوشی اسلام میں حرام ہے۔

فقرا اور مساکین کے مال کو اپنی مرضی سے خرچ کرتے ہیں۔

فقرا کے حقوق ادا نہیں کیے جاتے، بیت المال کومن مانے طریقے اور اپنی حکومت کے استحکام کے لیے استعمال کرتے ہیں، فقرااور محتاجوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال نہیں کرتےجبکہ پیغمبر اسلام ؐکے دور میں اس کا استعمال عوام الناس اور فقرا کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے کیاجاتا تھادلائل یہ ثابت کرتے ہیں اور خود پیغمبر اکرم ؐ نے بھی اسی طرح عمل کیا اور امیر المومنین ؑ بھی اسی طرح عمل کرنا چاہتے تھےمگر افسوس کہ آپ ؑ کو بکثرت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

جب عنانِ حکومت اُن لوگوں کے ہاتھ میں آئی، تواُن کاطرزِ عمل یہ کہہ رہا تھا کہ یہ اموال ہمارے اختیار میں ہیں، ہم مسلمانوں کے حاکم ہیں، اس مال کواپنی حکومت کی حفاظت کے لیے خرچ کریں گے، اب فقرا کا جو حال ہوہوا کرے!!!

۸

امام ؑ کی تحریک اسلام کی حفاظت کے لیے دفاعی جہاد

مذکورہ کلمات سے پتا چلتا ہے کہ امام حسین ؑ کے مدینہ سے نکلنے اور اس طویل سفر کے آغاز کا سبب ان خرابیوں کا مشاہدہ اور اُن کی اصلاح کا عزم تھا۔ آپ ؑ فرماتے تھے کہ میں دین خدا کی نصرت، اس کی شریعت کی بالادستی اور اس کی راہ میں جہاد کے سلسلے میں سب سے زیادہ ذمے دار ہوں۔

امام حسین ؑ کے قیام کا محرک(motive) اُس وقت کے مسلمانوں کی ابترحالت اور خاص کر اُس زمانے کی حکومتوں کا طرزِ عمل تھا کہ جس کی وجہ سے حدودِ الٰہی معطل تھے، فقرا بُرے حال میں تھے اور بیت المال کے اموال ناجائز مدوں میں خرچ ہو رہے تھےحضرت ؑ اس صورتحال کے خاتمے کے لیے قیام چاہتے تھے اور ا س قیام کے لیے خود کو دوسروں سے زیادہ ذمے دار سمجھتے تھےکیونکہ آپ ؑ نواسہ رسولؐ اور امامِ مسلمین تھے اور ان حالات کو خاموش تماشائی کی حیثیت سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔

پس معلوم ہوا کہ امام ؑ کا یہ اقدام ایک قسم کا جہاد تھا، اسلام کے تحفظ کے لیے دفاعی جہاد تھاایرانی عوام کی اسلامی تحریک بھی اسی طرح تھی، اور رہبر انقلاب امام خمینیؒ کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہ تحریک ایک دفاعی جہاد ہے۔

امام حسین ؑ نے بصرہ کے معززین کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:

وَقَدْبَعَثْتُ رَسُولی اِلَیْکُمْ بِهٰذَاالْکِتٰابِ، وَأَنَاأَدْعُوکُمْ اِلیٰ کِتٰابِ اللّٰهِ وُسُنَّةِ نَبیِّهِ فَاِنَّ السُّنَّةَ قَدْاُمیتَتْ وَاِنَّ الْبِدْعَةَ قَدْاُحیِیَتْ (۱)

میں نے اِس خط کے ہمراہ اپنا سفیر تمہاری جانب روانہ کیا ہے، اور تمہیں کتابِ خدا اور سنتِ رسول کی طرف دعوت دیتا ہوںدرحقیقت سنت مردہ ہوچکی ہے(یعنی لوگ اِس پر عمل پیرا نہیں۔ ) اور بدعت زندہ ہوگئی ہے۔“یعنی وہ چیزیں جو دین کا جز نہیں دین کے اندر داخل کردی گئی ہیں۔ اگر تم میری بات سنو اور میرے فرمان کی اطاعت کرو، تو میں راہِ راست کی جانب تمہاری رہنمائی کروں گایہ راہِ راست وہی سیرتِ پیغمبرؐ اور سیرتِ علی ؑ ہے یعنی وہی خالص اور حقیقی اسلام ہے۔

--------------

۱:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۳۶

۹

البتہ یہاں امام ؑ نے یہ توفرمایا ہے کہ میں راہِ راست کی جانب تمہاری راہنمائی کروں گا، لیکن یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ یہ راہِ راست حکومت کا قیام ہے یا کوئی دوسری چیزیہاں بھی امام ؑ نے اپنی تحریک کا مقصد سنت کا احیا اور بدعت کا خاتمہ بیان کیا ہے۔جب مروان نے امام حسین ؑ سے کہا کہ وہ یزید کی بیعت کرلیں، تو امام ؑ نے اس کے جواب میں جو کلمات ادا کیے وہ بھی آپ ؑ کے قیام کے مقصد کو واضح کرتے ہیں:

اِنّٰالِلّٰهِ وَاِنّٰاالَیْهِ رٰاجِعُونَ وَعَلیَ الْاِسْلاٰمِ اَلسَّلاٰمُ اذْ قَدْبُلِیَتِ الأُمَّةُ بِرٰاعٍ مِثْلِ یَزیدَ

جب لوگ یزید جیسے شخص کی حکومت میں مبتلا ہوجائیں، تو اسلام کو خداحافظ کہہ دینا چاہیے۔(1) اِن کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین ؑ یزید کی حکومت کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اِسے اسلام و مسلمین کے لیے خطرناک سمجھتے تھے اور اسی بنا پر اس کی بیعت کو ناجائز قرار دیتے تھے۔آپ ؑ نے اسی گفتگو کے ذیل میں فرمایا:وَلَقَدْسَمِعْتُ جَدّی یَقُولُ:أَلْخِلاٰ فَةُ مُحَرَّمَةٌ عَلیٰ اٰلِ ابی سُفْیٰان ۔میں نے اپنے نانا سے سنا ہے، انہوں نے فرمایاتھا کہ خلافت آلِ ابی سفیان پر حرام ہے۔پتا چلا کہ امام حسین ؑ کا مقصد یزید کی خلافت کے خلاف قیام تھا اور یہ تحریک امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک صورت تھیایک دوسرے مقام پر امام ؑ نے محمد بن حنفیہ سے فرمایا:

یٰاأَخی وَاللّٰهِ لَوْلَمْ یَکُنْ فی الدُّنْیٰا مَلْجَأً وَلاٰمَأْویً لَمٰابٰایَعْتُ یَزیدَ بْنَ مُعٰاوِیَةَ

اے میرے بھائی! اگر مجھے دنیا میں کوئی بھی جائے پناہ نہ ملے، تب بھی میں یزید ابن معاویہ کی بیعت نہیں کروں گا۔(2)

امام حسین ؑ کے یزید ابن معاویہ کی بیعت نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یزید خلیفہ رسولؐ کے عنوان سے مسلمانوں پر حکومت کرتا تھا، اس کی رفتار و گفتار پیغمبر کی رفتار و گفتار سمجھی جاتی تھی، لہٰذا اس کے وہ اعمال و افعال بھی جو اسلام اور سیرتِ پیغمبرؐکے برخلاف تھے، پیغمبر ؐاور اسلام ہی کے حساب میں شمار کیے جاتے اور یہ ایک بہت بڑا خطرہ تھا۔

--------------

1:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۸۴

2:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۸۹

۱۰

نہی عن المنکرکا پہلا مرحلہ‘ بیعت سے انکاراور حکومتِ یزید کوناجائز قرار دینا

اِن حالات میں وہ لوگ (بنی امیہ) فرزندِ رسول حسین ابن علی ؑ سے یزید کے لیے بیعت لینا چاہتے تھےیعنی وہ چاہتے تھے کہ امام حسین ؑ بیعت کے ذریعے یزید کی حکومت اور اُس کے اعمال کی صحت پر مہرِ تصدیق ثبت کریں اور انہیں اسلام کے مطابق قرار دیں۔

واضح بات ہے کہ امام حسین ؑ یہ نہیں کرسکتے تھے اور نہی عن المنکرکا پہلا قدم آپ ؑ کا یزید کی بیعت سے انکار اور اُس کی حکومت کو غیر قانونی قرار دیناتھا۔

اپنے نانا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرقدِ مطہر سے وداع کے موقع پر امام حسین ؑ نے جو کلمات ارشاد فرمائے وہ بھی آپ ؑ کی تحریک کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہیں، آپ نے فرمایا:

بِاَبی اَنْتَ وَاُمّی لَقَدْخَرَجْتُ مِنْ جَوارِکَ کُرْهاًوَفُرِّقَ بَیْنی وَ بَیْنَکَ حَیْثُ اَنّی لَمْ اُبٰایِعْ لِیَزیدَ بْنِ مُعٰاوِیَةَ شٰارِبِ الْخُمُورِوَرٰاکِبِ الْفُجُورِوَهٰااَنَاخٰارِجٌ مِنْ جَوٰارِکَ عَلَی الْکَرٰاهَةِ فَعَلَیْکَ مِنّیِ السَّلاٰمُ

اے رسول اللہ! آپؐ پر میرے ماں باپ فدا ہوںمیں بحالتِ مجبوری آپؐ کے جوار سے نکل رہاہوںمیرے اورآپؐ کے درمیان جدائی آپڑی ہےکیونکہ میں یزید ابن معاویہ کی بیعت نہیں کرناچاہتا، جو شراب خوراور فاسق ہے۔ میں مجبوری کے عالم میں آپ کے جوار سے نکل رہا ہوں۔ آپ پر میرا سلام ہو(۱)

مذکورہ کلمات اور ان ہی جیسے دوسرے کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین ؑ کی تحریک کا مقصد حکومت کی اصلاح اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی تھا۔ آپ ؑ کا ہدف سیرتِ پیغمبرؐ کا احیا اور بدعتوں کا خاتمہ تھا۔

--------------

۱:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ۔ ص۲۸۷

۱۱

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے امامؑ کے مرحلہ بہ مرحلہ اقدامات اور مؤقف

امام حسین ؑ کے بعض بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؑ اس فریضے کی انجام دہی کے لیے مرحلہ بہ مرحلہ اور قدم بقدم آگے بڑھے اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب آپ ؑ مدینہ میں تھے اور اُن لوگوں (بنی امیہ) نے آپ ؑ سے بیعت لینا چاہی، تو آپ ؑ نے ان کے مطالب ہ بیعت کی مخالفت کا فیصلہ کیااور مدینہ چھوڑ دیاکیونکہ اگرآپ ؑ مدینہ میں رہتے، توآپ ؑ کو بیعت پر مجبور کردیاجاتااِس موقع پرآپ ؑ کو مکہ کے سوا کوئی دوسری مناسب جگہ نظر نہیں آئیکیونکہ ایک تو یہ مدینہ سے نزدیک تھا، اور دوسرے ایک مقدس و محترم شہر اور حجاج اور زائرین کے جمع ہونے کی جگہ تھابنابرایں آپ ؑ پر لازم تھا کہ مدینہ چھوڑ کر مکہ تشریف لے جائیں اور اس ذریعے سے امربالمعروف اور نہی عن المنکرکریںالبتہ انجامِ کار کیا ہوگا؟ یہ دوسرا موضوع ہے جو فی الحال پیشِ نظر نہیںچنانچہ جب مدینہ سے نکلتے وقت عبداللہ ابن مطیع نے امام ؑ سے اُن کی منزل کے بارے میں سوال کیا، توآپ ؑ نے فرمایا:

أَمّٰا فی وَقْتی هٰذٰاأُریدُ مَکَّةَ فَاِذٰاصِرْتُ اِلَیْهٰااِسْتَخَرْتُ اللّٰهَ تَعٰالیٰ فی أَمْری بَعْدَ ذٰلِکَ

اِس وقت میں مکہ کا قصد رکھتا ہوں، پس مکہ پہنچ کر خدا سے اپنے کام کے بارے میں طلبِ خیر کروں گا(1)

یہ پہلا مرحلہ ہےمیں اس جملے سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ حضرت ؑ کا قصد اپنے فریضے کی انجام دہی تھا اور فریضے کی انجام دہی کی صورت ہر مرحلے میں مختلف تھیفریضے کی انجام دہی مدینہ میں یہ تھی کہ بیعت نہ کریں اور وہاں سے نکل جائیں، بعد میں کیاہوگا، اور کیا کرنا پڑے گا، یہ بعد کی بات ہے۔مکہ میں بھی امام ؑ نے حالات اور پیش آنے والے واقعات کے مطابق فیصلہ کیامیرے خیال میں امام خمینیؒ نے بھی اپنی جدوجہد کے دوران اسی طریقہکار کی پیروی کی، قدم بقدم آگے بڑھے اور صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کیے اور اپنا فریضہ انجام دیااپنی جدوجہد کے آغاز میں فرمایا کہ حکومت کے دین مخالف اقدامات پر خاموش نہیں رہا جاسکتا، ہمارا فرض ہے

--------------

1:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۰۲

۱۲

کہ اِن پر اپنی مخالفت کااظہارکریںاس زمانے میں امام خمینی ؒ محض بیانات جاری کرنے پر اکتفا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جوں جوں قوت میں اضافہ ہوا اُسی تناسب سے بڑے بڑے فیصلے کیےیہاں تک کہ پیرس سے واپسی پر بہشتِ زہرا ؑ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

ہم عوام کی تائید اور حمایت سے حکومت تشکیل دیں گے۔

امام حسین ؑ کی تحریک نے بھی مرحلہ بہ مرحلہ، قدم بقدم شکل اختیار کیپہلا مرحلہ مدینہ سے نکلنا تھامکہ پہنچ کر ایک عرصے تک وہاں اقامت اختیار کرنا دوسر امرحلہ تھامکہ میں بھی مختلف حوادث و واقعات پیش آئےمیں یہاں کچھ اہم حوادث کی جانب اشارہ کروں گا: جب امام حسین ؑ مکہ تشریف لے گئے، تو کیونکہ مکہ مسلمانوں کی آمدورفت کا مرکز تھا، لہٰذایہ خبرپورے عالمِ اسلام میں پھیل گئی کہ فرزندِ رسول حسین ابن علی ؑ نے مدینہ چھوڑ دیا ہےسب لوگ ایک دوسرے سے امام حسین ؑ کے مدینہ چھوڑنے کی وجہ دریافت کرتے تھےامام ؑ کے اس اقدام نے حکومت سے آپ ؑ کی ناراضگی کو لوگوں کے سامنے واضح کردیا اور یہ خود ایک بڑی بات اور اہم واقعہ تھاحکومت کے خلاف یہ کھلااقدام انتہائی مؤثررہا اور اس لحاظ سے امام ؑ کا یہ اقدام کامیاب رہااہلِ کوفہ جو امام حسین ؑ اور امیر المومنین ؑ کے شیعہ تھے، جب اُنہیں پتا چلا کہ امام حسین ؑ حکومت کے خلاف اعتراض کے طورپر مکہ تشریف لے آئے ہیں، تواُن کی طرف سے امام ؑ کے نام خطوط کاتانتا بندھ گیا (اِن خطوط کی تعداد چالیس ہزار اور اس سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے)اِن خطوط میں امام ؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی اور آپ ؑ کی نصرت اور حمایت کا وعدہ کیا گیا تھا۔

دوسری طرف امام حسین ؑ کی مکہ آمد کی وجہ سے جو صورتحال رونما ہورہی تھی، یزید کی حکومت نے اسے ایک سنجیدہ خطرہ محسوس کیااسی بنا پر ا س نے فیصلہ کیا کہ امام ؑ کو ہرقیمت پر مکہ ہی میں قتل کردیا جائےمکہ جو حرمِ امنِ الٰہی ہے، وہاں امام حسین ؑ کے قتل ہونے کے نتیجے میں پوری سلطنتِ اسلامیہ میں موجود تمام مسلمانوں پر حکومت کارعب اور خوف ووحشت طاری ہوجائے گاجب امام ؑ کو حکومت کے اس ارادے کی خبر موصول ہوئی، توامام حسین ؑ نے محسوس کرلیا کہ بہرصورت مکہ چھوڑ دینا ہی

۱۳

ان کا فریضہ ہےاس کے لیے آپ ؑ کے پاس دو وجوہات تھیںایک یہ کہ قتل نہ ہوں اور حرمِ الٰہی کا احترام محفوظ رہےدوسرے یہ کہ اہلِ کوفہ کی جانب سے امام حسین ؑ کو بکثرت خطوط موصول ہوئے تھے، جن میں آپ ؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی اور حمایت کا وعدہ کیا گیا تھا، لہٰذاآپ ؑ کے لیے مناسب بات یہی تھی کہ آپ ؑ اُن کی یہ دعوت قبول کرلیں۔

جس زمانے میں امام ؑ مکہ میں تھے، تو ابن عباس آپ ؑ کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور کہا: اے فرزندِ رسول ؑ ! آپ ؑ مکہ سے کیوں جانا چاہتے ہیں؟ مکہ ہی میں رہیے، یہاں آپ ؑ زیادہ اور بہتر طور پر امن میں ہیںلوگ آپ ؑ کے اردگرد ہیں اورآپ ؑ کی جان محفوظ رہے گیمکہ سے باہر نکلنا آپ ؑ کے لیے خطرناک ہےحضرت ؑ نے اُنہیں جواب دیا:

لَاِنْ اُقْتَلَ وَاللّٰهِ بِمَکٰانٍ کَذٰااَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اُستُحِلَّ بِمَکَّةَ وَهٰذِهِ کُتُبُ اَهْلِ الْکُوفَةِ وَرُسُلُهُمْ وَقَدْوَجَبَ عَلَیَّ اِجٰابَتُهُمُ وَقٰامَ لَهُمْ الْعُذْرُعَلَیّ عِنْدَاللّٰهِ سُبْحٰانَهُ (1)

پہلی بات تو یہ کہ: ” حرمِ امنِ الٰہی مکہ میں میرا خون بہانا مباح ہوجائے }یہ مجھے روا نہیں{ اِس سے زیادہ مجھے کسی اور جگہ قتل ہونا پسند ہے“ ۔

یعنی مجھے قتل کرنے کے بعد حکومت کہے کہ ہمارا سامنا ایک ایسے شخص سے تھا جس کی وجہ سے مکہ کا امن وامان اور احترام خطرے میں تھا، لہٰذا ہم اسے مکہ ہی میں قتل کرنے پر مجبور ہوگئے تھے اور اس طرح مکہ میں میرا خون بہانا جائز قرار دے دیا جائے۔

مکہ میں کسی کا خون بہانا جائز ہوجانا ایک بہت اہم مسئلہ ہےاور یہ خود امام حسین ؑ کے خلاف بدترین پروپیگنڈا شمار ہوتا۔

اس کے بعد فرمایا:

یہ اہلِ کوفہ کے خطوط اور اُن کے نمائندے ہیں، اور مجھ پر واجب ہے کہ اُن کا جواب دوں تاکہ اُن پر خدا کی حجت تمام ہوجائے۔

--------------

1:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص۳۲

۱۴

یہاں ایک مرتبہ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ امام ؑ کہتے ہیں کہ مجھ پر دعوت قبول کرنا واجب ہےیعنی میرا فرض ہے کہ ان کی دعوت قبول کروں اور مکہ سے نکلوںیہ وہی بات ہے، یعنی فریضے کی انجام دہی کے لیے تحریک۔

پھر جب ابن زبیر نے امام ؑ کو یہ تجویز پیش کی کہ :أَقِمْ فی هٰذَاالْمَسْجِدِ أَجْمَعُ لَکَ النّٰاسَ ۔ (آپیہاں حرم ہی میں ٹھہریے میں آپ کے لیے لوگوں کو جمع کرتا ہوں) تو امام ؑ نے فرمایا:

وَاللّٰهِ لِأَنْ اُقْتَلَ خٰارِجاً مِنهٰا بِشِبْرٍأَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ أَنْ اُقْتَلَ دٰاخِلاً مِنْهٰا بِشِبْرٍ

خدا کی قسم حرم سے ایک بالشت باہر قتل ہونا، مجھے حرم کے اندر مارے جانے سے زیادہ پسندہے۔(1)

یہاں ایک مسئلہ تو حرم کی حرمت کے پامال ہوجانے کا ہے اور دوسرا یہ کہ دشمن اِس قتل سے پروپیگنڈے کے میدان میں فائدہ اٹھائے گاپھر جب امام ؑ نے مکہ سے عراق کی سمت سفر کاآغاز کرنا چاہا، تو ابن زبیر سے فرمایا:

وَاللّٰهِ لَقَدْ حَدَّثْتُ نَفْسی بِاِ تْیٰانِ الْکُوفَةِ وَلَقَدْکَتَبَ اِلَیَّ شیعَتی بِهٰا وَأَشْرٰافُ أَهْلِهٰا وَاَسْتَخیرُ اللّٰهَ

میں نے سوچا ہے کہ کوفہ چلا جاؤں۔ کوفہ سے میرے شیعوں اور وہاں کے معززین نے مجھے خطوط لکھے ہیں اور میں اپنے لیے خداسے خیر کا طلبگار ہوں۔(2)

ایک دوسری عبارت ہے:

أَ تَتْنی بَیْعَةُ أَرْبَعینَ أَلْفاً یَحْلِفُونَ لی بِالطَّلاٰقِ وَالْعِتٰاقِ مِنْ اَهْلِ الْکُوفَةِ

مجھے پتا چلا ہے کہ چالیس ہزار اہلِ کوفہ نے میری بیعت کی ہے۔ (3)

--------------

1:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ۔ ص ۳۲۴

2:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۲۴

3:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۲۳

۱۵

اِس مرحلے میں بھی فریضے کی ادائیگی کا مسئلہ واضح ہےامام حسین ؑ نے اپنی تحریک کے مختلف مراحل میں گاہ بگاہ اپنا اصل مقصد بیان کیا ہے، جو سیرتِ پیغمبر ؐکا احیا اور بدعتوں کا خاتمہ ہےجب درمیانِ راہ میں عبداللہ ابن مطیع نے امام ؑ سے ملاقات کی اور کہاکہ آپ کیوں حرمِ خدا اور اپنے نانا کے حرم سے نکلے ہیں؟ تو امام ؑ نے جواب دیا:

اِنَّ اَهْلَ الْکُوفَةِ کَتَبُوا اِلَیَّ یَسْأَلُونَنی اَنْ اَقْدِمَ عَلَیْهِمْ لِمٰارَجُوا مِنْ اِحْیٰاءِ مَعْالِمِ الْحَقِّ وَاِمٰا تَةِ الْبِدَعِ

اہلِ کوفہ نے مجھے خطوط لکھے ہیں ! اورمجھ سے چاہا ہے کہ میں اُن کی طرف آؤں، کیونکہ اُنہیں امید ہے کہ اس طرح سے حق کا احیا ہوگا اور بدعت نابود ہوگی۔(1)

کیونکہ مسئلہ فریضے کی ادائیگی کا ہے، اس لیے حضرت ؑ اپنے قتل کے امکان کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے اور اپنی ذمے داری کی ادائیگی کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔جب حر کے لشکر سے امام ؑ کا سامنا ہوا، تو نماز کے وقت آپ ؑ نے اپنے اصحاب کے سامنے ایک خطبہ ارشاد فرمایااس وقت آپ ؑ کوفہ کے قریب تھے، حالات پلٹا کھاچکے تھے اور صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی تھیہم دیکھتے ہیں کہ اس حال میں بھی اپنے ہدف اور مقصد کا حصول امام ؑ کے پیش نظر ہےآپ ؑ اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں:

  اِنَّهُ قَدْ نَزَلَ مِنَ الْأَمْرِمٰاقَدْ تَرَوْنَ وَاِنَّ الدُّنْیٰا قَدْ تَغَیَّرَتْ وَ تَنَکَّرَتْ وَأَدْبَرَمَعْرُوفُهٰا وَاسْتَمْرَّتْ جِدّاًوَ لَمْ یَبْقَ مِنْهٰا اِلاّٰ صُبٰابَةٌ کَصُبٰابَةِ الْاِنٰاءِ وَخَسیْسِ عَیْشٍ کَالْمَرْعَی الْوَبیلِ، أَلاٰ تَرَوْنَ أَنَّ الْحَقَّ لاٰ یُعْمَلُ بِهِ وَانَّ الْبٰاطِلَ لاٰ یُتَنٰاهیٰ عَنْهُلِیَرْغَبَ الْمؤْمِنُ فی لِقٰاءِ اللّٰهِ مُحِقّاً، فَاِنّی لاٰأَرَی الْمَوْتَ اِلاّٰ سَعادَةً وَالْحَیٰاةَ مَعَ الظّّٰالِمینَ اِلاّٰ بَرَماً

ہمارے معاملے نے کیا صورت اختیار کرلی ہے اُسے آپ دیکھ رہے ہیںدرحقیقت حالاتِ زمانہ دگرگوں ہوگئے ہیں، برائیاں ظاہر ہوگئی ہیں اور نیکیوں اور فضیلتوں نے اپنا رُخ موڑ لیا ہےاچھا ئیوں میں سے صرف اتنا رہ گیا ہے جتنا برتن کی تہہ میں رہ جانے والا پانی اب زندگی ایسی ہی ذلت آمیز اور پست ہوگئی ہے جیسے کوئی سنگلاخ اور بنجرمیدان۔ کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ حق پر عمل

--------------

1:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۴۱

۱۶

نہیں ہورہا اور باطل سے پرہیز نہیں کیا جارہا؟ ایسے حالات میں مومن کے لیے بہترہے کہ وہ اپنے پروردگارسے ملاقات کی تمنا کرےسچ ہے کہ میں ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو سوائے رنج و ذلت کے کچھ اور نہیں سمجھتا اور ایسے حالات میں موت ہی کو سعادت سمجھتا ہوں۔(1) یہاں بھی فریضے کی ادائیگی ہی پیش نظر ہے، لیکن ذرابلندی پرنظرآتی ہےاس سے پہلے تک شہادت اور مارے جانے کی بات نہ تھی لیکن اب ان حالات میں اِس بات کا امکان بہت زیادہ ہےایسا نہیں ہے کہ اِس مرحلے میں امام ؑ بس حصولِ شہادت کے لیے آگے بڑھ رہے ہیںنہیں، حضرت ؑ حق کے دفاع اور باطل کی نابودی کے لیے کوشاں ہیں، خواہ اِس راہ میں قتل ہی کیوں نہ ہوجائیںیہاں عبارت بدلتی ہے، کہتے ہیں:

میں ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو رنج وذلت کے سوا کچھ اور نہیں سمجھتا اور ایسے حالات میں موت ہی کو سعادت سمجھتا ہوں۔

یہاں پھرمقصد اور ہدف واضح و روشن ہےوہی اوّلین مقصد اب بھی سامنے ہےلیکن اب اِس نے زیادہ قوت اور شدّت حاصل کرلی ہےکیونکہ اب مقصد کی راہ میں جانثاری کا تذکرہ بھی ہے۔

اِن تمام کلمات کو سامنے رکھیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ فریضے کی انجام دہی، یعنی حکومت کے خلاف جدوجہد کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں میں سنتِ پیغمبرؐ کا احیا اور بدعتوں کا خاتمہ امام حسین ؑ کا مقصد تھا امام ؑ قدم بقدم اپنے فریضے کی انجام دہی کی جانب بڑھے اور ہر موقع پر اِس کی مناسبت سے ردِعمل کا اظہار کیا۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ کااقدام حصولِ حکومت کے لیے تھا ان کی یہ بات ہمارے بیان کردہ اس مقصد اورہدف سے ٹکراؤ نہیں رکھتی اور یہی بات ہے فریضے کی انجام دہی کے لیے حکومت کے خلاف جہاد لازم تھاامربالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا ضروری تھایہی فریضے اور ذمے داری کی انجام دہی ہے، اس کے سوا کوئی اور چیز نہیں جسے ایک دوسرے سے متصادم کہا جاسکے۔

--------------

1:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۵۵

۱۷

شہادت کے لیے امام ؑ کی آمادگی اور اِس کا احساس

مدینہ سے مکہ اور پھر وہاں سے کربلا کی جانب سفر کے دوران امام حسین ؑ کے کلمات میں ایسی عبارتیں بھی ملتی ہیں جن میں امام حسین ؑ اپنی شہادت کی خبر دیتے نظرآتے ہیںمثلاً جب حضرت ؑ نے مدینہ سے عزمِ سفر کیا تو امِ سلمہؓ نے آپ ؑ سے کہا: ” عراق کے لیے نہ نکلئے کیونکہ میں نے رسول اللہ ؐسے سنا ہے کہ آپ ؐنے فرمایا تھا: میرا فرزند حسین عراق میں قتل کیا جائے گا۔“ حضرت ؑ نے فرمایا:

وَ اللّٰهِ اِنّی مَقْتُولٌ کَذٰلِکَوَاِنْ لَمْ أَخْرُجْ اِلیَ الْعِرٰاقِ یَقْتُلُونی أَیْضاً

آپ صحیح فرماتی ہیں، میں اسی طرح قتل ہوؤں گا جس طرح آپ فرماتی ہیں اگر میں عراق نہ جاؤں تب بھی مجھے قتل کر دیں گے۔(۱)

یہ وہ خبر ہے جو حضرت امِ سلمہ کی حدیث کی تائید کرتی ہےحضرت ؑ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ سے فرمایا:

اَ تٰانی رَسُولُ اللّٰهِ بَعْدَ مٰا فٰارَقْتُکَ فقال:یٰاحُسَیْنُ اُخْرُجْ فَاِنَّ اللّٰه قَدْشٰاءَ اَنْ یَرٰاکَ قَتیلاً

آپ سے جدا ہونے کے بعد پیغمبرؐ میرے خواب میں آئے اور فرمایا: اے حسین ؑ نکل کھڑے ہو! خدا کی مرضی یہی ہے کہ تمہیں مقتول دیکھے۔(۲)

پھر مکہ میں ابن عباس اور ابن زبیر سے فرمایا:

اِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ قَدْ أَمَرَنی بِأَمْرٍ وَأَنَامٰاضٍ فیهِ

پیغمبر ؐنے مجھے ایک حکم دیاہے اور میں اس حکم کی تعمیل میں مشغول ہوں۔ (۳)

--------------

۱:- موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۹۳

۲:- موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۲۹

۳:- موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۲۵

۱۸

بظاہر یہ حکم وہی بات ہے جسے آپ ؑ نے خواب میں دیکھاتھابعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ کا اقدام ایک پہلے سے طے شدہ دستورِ عمل (program)تھا، جس کی انجام دہی پر امام ؑ مامور تھے، بعید نہیں کہ اِن لوگوں نے امام ؑ کے انہی کلمات سے یہ نظریہ اخذ کیا ہو۔

میری نظر میں یہ بات درست نہیں ہے کہ پیغمبر ؐنے امام حسین ؑ کی تحریک اور شہادت کا منصوبہ پہلے سے معین اور منظم کر رکھا تھا اوراُنہیں حکم دیا ہوا تھا کہ اسے تعبداً انجام دیںاصولی طور پربات یہ ہے کہ امام حسین ؑ اِس سفر کے دوران مختلف مواقع پر اپنی شہادت اور موت کو محسوس کررہے تھے۔ یعنی ایسا نہیں تھا کہ آپ ؑ کو اپنی شہادت کایقین ہو، البتہ آپ ؑ کو اِس کا احساس اور گمان تھا۔ بعض لوگ (امام خمینیؒ کے فرزند )حاج آقا احمد خمینی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے تھے کہ یہ میری زندگی کاآخری برس ہے۔ کیا وہ (احمد خمینی)علمِ غیب رکھتے تھے؟

خود میں نے بہت سے بزرگ افراد سے سنا ہے کہ وہ بعض حادثات کو قبل از وقت محسوس کرلیتے تھے۔ مومن انسان اپنی موت کاوقت نزدیک آنے پر اُسے محسوس کرلیتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ امام حسین ؑ نے جو خواب دیکھا اور جن کلمات میں حضرت ؑ نے اپنی موت اور شہادت کا ذکر کیا، اُن سے مجموعی طور پر یہ پتا چلتا ہے کہ آپ ؑ موت اور شہادت قبول کرنے پر تیار تھے اِس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ حضرت ؑ نے طے کرلیا تھا کہ وہ شہید ہوں گے اورآپ ؑ ؑ گئے ہی حصولِ شہادت کے لیے تھے، لہٰذا امام حسین ؑ کا ہدف ہی شہادت تھاامام حسین ؑ شہادت کے لیے نہیں گئے تھے، بلکہ سنتِ پیغمبرؐ کے احیا اور بدعتوں کے خاتمے کے لیے آپ ؑ نے قیام فرمایاتھا، اب چاہے اِس اقدام کے نتیجے میں آپ ؑ کو شہادت قبول کرنا پڑے اس صورت میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آپ ؑ کا مقصد ہی حصولِ شہادت تھابلکہ مقصدایک ایسا امر تھا جسے انجام دینا لازم تھا، خواہ اِس کی قیمت شہادت کی صورت میں ادا کرنی پڑے۔

۱۹

امام ؑ کی تحریک کے اصلاحی پہلو

سوال: جنابِ عالی! آپ کی نظر میں امام حسین ؑ کی تحریک اسلام کی حقیقی سیرت کے احیا کے لیے ایک اصلاحی قیام تھاکیا اس اصلاحی تحریک کے متعلق یہ تصور درست ہے کہ امام ؑ کی اصلاحی تحریک کے دو پہلو تھے ایک اُس زمانے کے اسلامی سماج میں پائی جانے والی دینی فکر اور دینداری کی اصلاح اور دوسرا اُس دور کے سماجی اور حکومتی نظام کی اصلاح۔

جو کچھ ہم اسلام کے بارے میں جانتے ہیں، اجمالی طور پر وہ یہ ہے کہ اسلام میں دو گانگی نہیں ہےاسلام ایک ایسی حقیقت ہے جو سیاسی امور میں بھی دخل رکھتا ہے، ثقافتی، سماجی، اخلاقی، اقتصادی اور رفاہی امور میں بھیدرحقیقت اسلام ایک مجموعہ ہے کہ اگر اس کے تمام اجزا پر عمل ہو، تو یہ دنیا اورآخرت دونوں میں انسانوں کی سعادت کا ضامن ہے۔

اِس امر (اسلامی نظام کے مکمل نفاذ) کو جامہ عمل پہنانے کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہےحکومت کا اس کے سوا کوئی کام نہیں۔ حکومت ہی کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کے اقتصادی امور کی بھی اصلاح کرے، معاشرے کی سیاست کو بھی صحیح خطوط پر چلائے، لوگوں کے عبادی امور کی انجام دہی کے لیے بھی راہ ہموار کرے، اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں سے بھی جنگ کرے، اچھے اخلاق کی ترویج بھی کرے، وغیرہ وغیرہحکومتِ اسلامی مجموعاً اِن تمام باتوں کی ذمے دارہے۔

وہ چیز جو امام حسین ؑ کی نظر میں باعثِ تشویش تھی اور جس کی خاطرآپ ؑ نے قیام کیا، تحریک چلائی، وہ یہ تھی کہ آپ دیکھ رہے تھے کہ سیرتِ پیغمبر ختم ہوچکی ہے اور اس کی جگہ دوسرے طریقے اختیار کرلیے گئے ہیں، ایسے طریقے جو اسلامی نہیںاگر پہلے حکومت دینی حدود میں ہوتی تھی، تو اب حکومت دین اور احکامِ شریعت کی پابندیوں سے آزاد ہوگئی ہے، ایک شہنشاہیت میں بدل گئی ہے۔ پہلے پیغمبر اسلامؐ معاشرتی امور اسلامی قوانین کی اساس پر چلاتے تھے، اب حاکم اپنی دلی خواہش کے مطابق عمل کرتا ہے۔ پہلے پیغمبرؐبیت المال کو فقرا اور مساکین کے امور کی اصلاح کے لیے صرف کرتے تھے، اب اُسے حکومت بچانے کے لیے لٹایا جارہا ہےپہلے پیغمبراسلام ؐ نے بعض کاموں کی ممانعت کی تھی، اب حکمراں خودانہی کاموں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

۲۰