ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)

ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)0%

ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 61

ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: گروہ مصنّفین
زمرہ جات: صفحے: 61
مشاہدے: 30617
ڈاؤنلوڈ: 4783

تبصرے:

ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 61 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30617 / ڈاؤنلوڈ: 4783
سائز سائز سائز
ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)

ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ماہِ رمضان

تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ

تالیف: مجلسِ مصنّفین

ترجمہ: سیّد سعید حیدر زیدی

سن شائع: رمضان المبارک ۱۴۲۴ھ ‘ نومبر ۲۰۰۳

۱

عرضِ ناشر

ماہِ رمضان ”شہراللہ“ یعنی اللہ کا مہینہ ہے، اس مہینے میں خدا کی طرف سے برکتوں، رحمتوں اوربخششوں کا نزول ہوتا ہےیہی وہ مہینہ ہے جس میںاللہ رب العزت کی طرف سے اپنے بندوں کومعنوی نعمات سے فیضیاب ہونے اوران سے استفادے کی کھلی دعوت دی جاتی ہے۔

خدا کی جانب توجہ، اعمالِ صالحہ کی جانب رجحان اور روزے کی فرضیت کی بنا پر یہ مہینہ تزکیہ و تہذیب ِ نفس اور گناہوں سے چھٹکارے اور نجات کا مہینہ ہے۔

احادیث و روایات میں اس مہینے کو قرآن کی بہار قرار دیا گیا ہےلوگ اس مہینے میں قرآن کی جانب متوجہ ہوتے ہیںسال کے دوسرے دنوں کے مقابلے میں ماہِ رمضان کے ایام میں قرائت ِ قرآن کا زیادہ اہتمام ہوتا ہے۔

پھر اس مہینے میںروزے فرض کر کے، اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کو مزید امتیاز دیا ہے اوردوسرے اسباب کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس، روحانی بالیدگی اورمعنوی پاکیزگی کیلئے روزے کی صورت میں ایک اور جامع دستور ِعمل فراہم کیا ہے۔

زیرِ نظر کتاب، ماہِ رمضان کی فضیلت واہمیت، اس مہینے میں قرآنِ کریم سے اُنس و رغبت، دعا و مناجات اور روزے کی حکمت کے بارے میں مختصر اور جامع مضامین پر مشتمل ہےاس کتاب میں حجت الاسلام محمد محمدی اشتہاردی اور حجت الاسلام حسین سوری لکی کے مضامین سے استفادہ کیا گیا ہے۔

امید ہے نوجوان طلبا وطالبات ان مضامین سے مستفید ہوں گے۔

ہمیں اپنی کارکردگی جانچنے اور اس میں بہتری کیلئے اپنے قارئین کی طرف سے بے لاگ تبصروں کا ہمیشہ انتظار رہتا ہے۔

۲

ماہِ رمضان کی فضیلت واہمیت

زیرِ نظرمضمون میں ہم دوسرے مہینوں پر ماہ ِرمضان کی فضیلت و برتری کے بارے میں کچھ گفتگو کرنا چاہتے ہیںتاکہ اس مہینے کی معرفت اوراس کی بصیرت کے ساتھ اس کا استقبال کریں اور اس سے مستفید ہوںامام زین العابدین علیہ السلام نے اپنی ایک دعا میں اللہ رب العزت سے درخواست کی ہے کہ وہ انہیںماہِ رمضان کی فضیلتوں سے آگاہ فرمائےآپ ؑ فرماتے ہیں :

اَللّٰهُمَّ صَلِّی عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَأَلْهِمْنٰا مَعْرِفَةَ فَضْلِهِ وَاِجْلاٰلَ حُرْمَتِهِ وَ التَّحَفُّظَ مِمّٰا حَظَرْتَ فیهِ

بارِ الٰہا! محمد اور آلِ محمدپر رحمت نازل فرما اور ہمیں اس مہینے کی فضیلت و برتری جاننے، اس کی عزت و حرمت کو ملحوظ رکھنے اور جن چیزوں سے اس مہینے میں تو نے منع کیا ہے، ان سے اجتناب کی ہدایت فرما(صحیفہ سجادیہ۔ دعا نمبر۴۴)

۱:لفظ رمضان کے معنی

۲:اسلام سے پہلے ماہِ رمضان کا مقام

۳:رمضان، ماہِ نزولِ قرآن

۴:ماہِ رمضان میں شب ِ قدر کا وجود

۵:خدا کا مہینہ اور شفاعت کرنے والا مہینہ

۶:ماہِ رمضان کا مخصوص تقدس

۷:احادیث کی رو سے ماہِ رمضان کی فضیلت

۳

 لفظ رمضان کے معنی

عربی لغت کے ماہرین کی تشریحات کے مطابق ”رمضان“ لفظ ”رمض“ سے لیا گیا ہے اور انہوں نے ”رمض“ کے معنی بیان کرتے ہوئے دو مفاہیم کا تذکرہ کیا ہے۔

۱:-”العین“ نامی عربی لغت کے مئولف خلیل بن احمد کے بقول: ”رمض“ کے معنی موسمِ خزاں میں ہونے والی بارش ہے، جو سطح زمین سے گردوغبار اور گندگی کو دھو ڈالتی ہے۔

اس بنیاد پر، اس مہینے کو رمضان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسان کی روح کو اور اس کے نفس کو آلودگیوں اور نجاستوں سے صاف اور پاک کردیتا ہے۔

۲:-طریحی نے ”مجمع البحرین“ میں اور احمد بن محمد نے ”مصباح المنیر“ میں لفظ رمضان کو ”رمض“ اور ”رمضا“ سے ماخوذ قرار دیا ہےجس کے معنی وہ گرم اور سلگتی ہوئی ریت اور پتھر ہیں جو سورج کی براہِ راست تپش سے جھلسنے لگتے ہیں۔

طریحی نے ”مجمع البحرین“ میں کہا ہے کہ:رَمَضَتْ قَدَمُهُ بِالْحرّ، اُحْتِرُقَتْ (رَمَضَتْ قَدَمُهُ یعنی اس کے پائوں جل گئے)

لہٰذا اس ماہِ مبارک کو رمضان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ مہینہ اپنی خصوصیات کی وجہ سے گناہ اور گمراہیوں کے اسباب ختم کرکے، انسان کے راستے سے کمال کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرتا ہے، اور اس کے اخلاق کی اصلاح اور پاکیزگی کیلئے مواقع فراہم کرتا ہے۔

۴

”زمخشری“ کہتے ہیں کہ: اس ماہ کو رمضان اس لئے کہا گیا ہے کہ اس مہینے میں گناہ جل کرختم ہوجاتے ہیں(تفسیر کشاف سورہ بقرہ کی آیت ۱۵۸ کی تفسیر میں)

جبکہ کچھ احادیث کے مطابق ”رمضان“ خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہےسعد بن طریف کہتے ہیں: ہم سترہ افراد، امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھےاس محفل میں رمضان کا ذکر چھڑ گیا، امام ؑنے فرمایا:

لاٰ تَقوُلوُ هذٰا رَمضٰانٌ، وَلاٰ ذَهَبَ رَمَضٰانٌ، وَلاٰ جٰاءَ رَمَضٰانُ، فَاِنَّ رَمَضٰانَ اِسْمٌ مِنْ أَسْمٰائِ اللّٰهِ عَزَّوَ جَلَّ لاٰ یَجِیی ءْوَلاٰ یَذْهَبُ

یہ نہ کہا کروکہ یہ رمضان ہے اور رمضان گیا، رمضان آیا، کیونکہ رمضان اللہ رب العزت کے ناموں میں سے ایک نام ہےجس کا آنے اور جانے (اور تغیر و تبدل) سے کوئی تعلق نہیں پھر فرمایاکہا کرو کہ: ماہ ِرمضان( فروع کافی ج ۴۔ ص ۶۹ اور۷۰)

دوسری متعدد احادیث میں بھی ماہ ِرمضان کو ”شہر اللّٰہ“ کہا گیا ہے۔

اس طرح یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ دوسرے مہینوں پراس مہینے کی خاص ظاہری اور باطنی فضیلت کی وجہ سے اسے ”رمضان“ کا نام دیا گیا ہےیہ مہینہ گناہ کے اسباب و عوامل کے خاتمے اور ان سے چھٹکارے کا مہینہ ہےاس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ ”شہر اللّٰہ“ (اللہ کا مہینہ) ہےوہ مہینہ جسے خدا وندِ عالم نے اپنے آپ سے نسبت دی ہے اور اسے اپنا نام دیا ہے۔

۵

۲۔ اسلام سے پہلے ماہِ رمضان کا مقام

اس مہینے کو صر ف اسلام میں اور بعثت نبویؐ کے بعد ہی فضیلت و برتری حاصل نہیں ہوئیبلکہ اسلام سے پہلے بھی یہ اسی حیثیت کا حامل تھازمانی لحاظ سے اس مہینے کی ایک فضیلت یہ ہے کہ تمام آسمانی کتب اسی مہینے میں انبیا پر نازل ہوئیںاس بارے میں امام جعفرصادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

نَزَلَتِ التَّوْراٰةُفی سِتِّ مَضَیْنَ مِنْ شَهرِ رَمَضٰانَ، وَ نَزَلَ الإنْجیلُ فی اِثْنَتیٰ عَشَرَةَ مَضَتْ مِنْ شَهرِ رَمَضٰان، وَ نَزَلَ الزَّبُورُ فی ثَمٰانِیَ عَشَرَ مَضَتْ مِنْ شَهرِ رَمَضٰان، وَ نَزَلَ الْفُرقٰانُ فی لَیْلَةِ الْقَدْرِ

تورات ماہ ِرمضان کی چھے تاریخ کو نازل ہوئی، انجیل ماہ ِرمضان کی بارہ تاریخ کو نازل ہوئی، زبور ماہِ رمضان کی اٹھارہ تاریخ کو نازل ہوئی اور قرآن مجید شب ِ قدر میں نازل ہوا(بحار الانوار۔ ج۱۲۔ ص۷۵)

اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ارشاد ہے کہ:صحف ِابراہیم (علیہ السلام) ماہِ رمضان کی پہلی رات کو نازل ہوا تھا(وسائل الشیعہ  ج۷۔ ص۲۲۵)

اسلام سے پیشتر بھی، ماہِ رمضان کی فضیلت و بزرگی کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ رسول کریمؐ اپنی بعثت سے قبل بھی ماہ ِرمضان کا خاص احترام کیا کرتے تھے، اس کے خاص تقدس کے قائل تھےآپؐ ہر سال ماہ ِمبارک رمضان میں کوہ ِحرا کی چوٹی پر تشریف لے جاتے، وہاں غارِ حرا میں معتکف ہو کر عبادتِ الٰہی انجام دیتے، اس مہینے کے اختتام پر کوہ ِحرا سے اتر کر سب سے پہلے ”بیت اللہ“ جاتے، سات مرتبہ اس کے گرد چکر لگاتے، اور اس کے بعد اپنے درِ دولت واپس تشریف لاتے(سیرۃ ابن ہشام۔ ج ۱۔ ص ۲۵۱، ۲۵۲)

رسولِ کریمؐ ماہ ِرمضان کے علاوہ کسی اور مہینے میں بھی عبادت کیلئے کوہِ حراپر تشریف لے جاسکتے تھےآخر کیا وجہ تھی کہ آپؐ نے اس مقصد کے لئے ماہ ِرمضان ہی کا انتخاب کیا؟ آنحضرت ؐ کا ماہ ِرمضان کو منتخب کرنا، یقیناً دوسرے مہینوں پر اس ماہ کے خصوصی امتیاز کا اظہار ہے۔

۶

۳۔ رمضان، ماہِ نزولِ قرآن

ماہِ رمضان کے سوا سال کے کسی اور مہینے کا نام قرآنِ مجید میں نہیں آیا ہےقرآنِ کریم میں اس مہینے کا ”نزولِ قرآن“ کے مہینے کے طور پر ذکر کیا گیا ہےسورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۸۵میں ارشادِ الٰہی ہے کہ :

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ، فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ

ماہ ِرمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے، جو لوگوںکے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیںلہٰذا جوشخص اس مہینے کو پائے، اس کا فرض ہے کہ روزہ رکھے۔

مذکورہ بالا آیت کے علاوہ بھی قرآنِ مجید میں اور متعدد آیات موجود ہیں، جو ماہِ رمضان اور شب ِ قدر میں نزولِ قرآن پر دلالت کرتی ہیںجیسے سورہ قدر کی پہلی آیت اور سورہ ٔدخان کی تیسری آیت۔

اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَة الْقَدْرِ

بے شک ہم نے اسے (یعنی قرآن ِمجید کو) شب ِ قدر میںنازل کیا ہے(سورہ قدر۹۷۔ آیت۱)

اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیلٍَ مُّبٰرَکٍَ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ

ہم نے اس (قرآن) کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے، ہم بے شک عذاب سے ڈرانے والے تھے(سورہ ٔدخان۴۴آیت۳)

ان آیاتِ قرآنی سے بخوبی یہ بات روشن ہے کہ قرآنِ مجید، پیغمبر اسلامؐ پرماہِ مبارک رمضان میں نازل ہوا ہےالبتہ اس مہینے میں آنحضرتؐ پر نزولِ قرآن کی کیفیت کیا تھی؟ اس بار ے میں ایک علیحدہ گفتگو کی ضرورت ہے، جس کا یہاں موقع نہیں۔

لہٰذا ماہ ِرمضان میں قرآنِ مجید کا نازل ہونا، اس مہینے کی فضیلت اور بزرگی پرایک اور دلیل ہےقرآنِ مجید جو حق اور باطل کو واضح کرتا ہے، جو تزکیہ و تعلیم کاذریعہ اور انسان کے رشد و کمال کا موجب ہے۔

۷

۴۔ماہ ِرمضان میں شب ِقدر کا وجود

دوسرے تمام مہینوں پر ماہِ رمضان کی فضیلت اور بزرگی کی ایک علامت یہ ہے کہ شب ِ قدر اسی مہینے میں ہے، وہ رات جس کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے کہ:

لَیْلَُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْر

شب ِقدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے(سورہ قدر ۹۷آیت۳)

ایک شخص نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا: اس سے کیا مراد ہے کہ: شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے؟ امام ؑنے جواب دیا: اس سے مراد یہ ہے کہ اس رات میں انجام دیا جانے والا نیک عمل، ایسے ہزار مہینوں میں انجام دیئے جانے والے نیک عمل سے بہتر ہے، جن میں شب ِ قدر نہیں ہوتی(فروع کافی۔ ج ۴ص ۱۵۸)

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ شب ِ قدر، اسلام کے بعد کی تاریخ سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ یہ اسلام سے پہلے بھی موجود تھیجیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

کتابِ خدا میں، خدا کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہےآسمانوں اور زمین کی خلقت کے آغاز سے اب تک اورجب مہینوں کاآغاز ہوا اس وقت سے ماہِ رمضان موجود رہا ہے اور قلب ِ ماہِ رمضان شب ِ قدر ہے(وسائل الشیعہ ج۷ص۲۵۸)

۸

۵۔خدا کا مہینہ اور شفاعت کرنے والا مہینہ

احادیث میں پیغمبر اسلامؐ اورائمہ معصومین ؑکی زبانی، ماہ ِرمضان کے لئے متعدد نام ذکر ہوئے ہیںمثلاً ماہ ِتوبہ، ماہ ِمواسات، ماہ ِانابہ، ماہ ِمحوِ سیئات، ماہ ِصبر، ماہِ مغفرت، ماہ ِضیافۃاللہ، ماہِ قیام، ماہ ِاسلام، ماہِ طہور، ماہِ تمحیص (ماہ ِتصفیہ)(۱) وغیرہ۔ ۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ یہ مہینہ ”شھر اللّٰہ“ (اللہ کا مہینہ) ہےجیسے کہ پیغمبر اسلام ؐنے خطبہ شعبانیہ کے آغاز میں فرمایا ہے کہ:

اَیُّهَا النّٰاسُ! اِنَّةُ قَدْ اَقْبَلَ اِلَیْکُمْ شَهرُ اللّٰهِ

اے لوگو! بے شک، اللہ کا مہینہ، تمہاری طرف آرہا ہے(عیون اخبار الرضاج ۱۔ ص ۲۹۵)

یعنی خدا وند ِعالم نے زمانے کے اس حصے کو اپنے آپ سے نسبت دی ہےاور یہی نسبت جسے ”اضافہ تشریفیہ“ کہتے ہیں، ماہِ رمضان کے غیر معمولی شرف اور اسکی منزلت کو نمایاں کرتی ہے۔

ایک اور موضوع قیامت میں ماہِ رمضان کے درخشاں چہرے کے ساتھ ظاہر ہونے کا موضوع ہےماہِ رمضان، میدانِ حشر میں بہترین اورخوشنما ترین صورت میںسامنے آئے گا اور جن لوگوں نے اس کا احترام کیا ہوگا ان کی شفاعت کرے گاخداوندِ عالم اس درخشاں چہرے کو جنتی لباس دے گا، سچے مومن اس کے نزدیک آئیں گے اور دنیا میں جس قدر انہوں نے اس کی اطاعت کی ہوگی ان لباسوں میں سے اسی قدر لباس حاصل کریں گےاور روایات کے الفاظ میں: فَیُشَرِّفُھُمُ اللّٰہُ بِکَراٰماتِہِ (اس طرح خدا وندِعالم اپنی کرامات کے ذریعے انہیں افتخار اور منزلت بخشتا ہےبحار انوارج ۳۷ص۵۳)

۱ان ناموں میں سے بعض کا ذکر صحیفہ سجادیہ کی دعا نمبر ۴۴ میں آیا ہے۔

۹

۶۔ماہِ رمضان کا مخصوص تقدس

دوسرے مہینوں پر ماہِ رمضان کو حاصل مخصوص تقدس کو جو امور واضح کرتے ہیں، ان میں سے ایک امر یہ ہے کہ اس مہینے میں کئے گئے گناہوں کی سزا، دوسرے مہینوں میں کئے گئے گناہوں کی سزا سے کہیں زیادہ شدید ہوگیلہٰذا روایت کی گئی ہے کہ جب حضرت علی ؑکے شیعوں میں سے ”نجاشی“ نام کے ایک شاعر نے ماہ ِرمضان میں شراب پی، تو حضرت علی ؑ نے شراب نوشی کی حد کے طور پرا سے اسی کوڑے لگائےاسکے بعد اسے ایک رات کے لئے قید خانے میں ڈالوایا، اور اگلے دن مزید بیس کوڑے اسے لگائےاس نے عرض کیا: اے امیر المومنین ؑ! آپ نے شراب نوشی کی حد کے طو رپرمجھے اسّی کوڑے مارے، پس اب یہ بیس کوڑے مجھے کیوں مارے گئے ہیں؟

حضرت ؑنے جواب دیا:

هٰذٰا لِتَجَرِّیکَ عَلیٰ شُرْبِ الْخَمْرِ فی شَهرِ رَمضٰان

یہ بیس کوڑے، ماہِ رمضان میں شراب نوشی کی جسارت کی وجہ سے تمہیں مارے گئے ہیں(فروع کافی۔ ج۷ص۲۱۶)

۱۰

۷۔احادیث کی رو سے ماہ ِرمضان کی فضیلت

پیغمبر اسلامؐ اور ائمہ معصومین ؑ کے کلام میں، مختلف تعبیروں کے ذریعے ماہِ رمضان کی بزرگی اور فضیلت کو بیان کیا گیا ہےان تعبیروں میں سے ہر تعبیر دوسرے مہینوں پر اس مہینے کی عظمت کی نشاندہی کرتی ہےیہاں آپ کی خدمت میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔

۱:- پیغمبر اسلامؐ نے ماہ ِشعبان کے آخری جمعے کو، جبکہ ماہِ رمضان کی آمد آمد تھی، مسجدنبوی میں اس مہینے کی فضیلت اور شان میں ایک خطبہ ارشاد فرمایااس خطبے کے ہر حصے میں ماہِ رمضان کی کسی فضیلت کو بیان کیا گیا ہےکیونکہ یہ کافی طویل خطبہ ہے، اس لئے ہم اس کا صرف ابتدائی حصہ یہاں نقل کر رہے ہیں۔

اَیُّهَا النّٰاسُ اِنَّهُ قَدْ اَقْبَلَ اِلَیْکُمْ شَهرُ اللّٰهِ بِالْبَرَکَةِ وَالرَّحْمَةِ وَالْمَغْفِرَةِ، شَهرٌ هُوَ عِنْدَاللّٰهِ اَفْضَلُ الشُّهُورِ، اَیّٰامُهُ اَفْضَلُ الاَیّٰامِ، وَلَیاٰلِیهِ اَفْضَلُ اللَّیاٰلِی، وَ ساٰعٰاتُهُ اَفْضَلُ السّٰاعٰاتِ، هُوَ شَهرُدُعِیتُمْ فیهِ اِلیٰ ضِیٰافَةِ اللّٰهِ، وَ جُعِلْتُمْ فیهِ مَنْ اَهلِ کَرَامَةِ اللّٰهِ، اَنْفٰاسُکُمْ فیهِ تَسْبیحٌ، وَنَوْمُکُمْ، فیهِ عِبٰادَةٌ وَ عَمَلُکُمْ فیهِ مَقْبُولٌ، وَ دُعاؤُکُمْ فیهِ مُسْتَجٰابٍ

اے لوگو! بے شک خدا کا مہینہ (ماہ ِرمضان) اپنی برکت، رحمت اور مغفرت لئے، تمہاری طرف رواں دواں ہےیہ مہینہ خدا کے نزدیک بہترین مہینہ ہے، اس کے دن بہترین دن ہیں، اس کی راتیں بہترین راتیں ہیں، اس کی ساعتیں بہترین ساعتیں ہیںیہ وہ مہینہ ہے جس میں تمہیں خدا کے یہاں ضیافت پر مدعو کیا گیا ہے اور تم اس مہینے میں خدا کی کرامت کے اہل ہوئے ہو۔

۱۱

اس مہینے میں تمہاری سانسیں تسبیح کا ثواب رکھتی ہیں اور تمہارا سونا عبادت کا اجر رکھتا ہے، اس مہینے میں تمہارے اعمال درگاہ ِالٰہی میں مقبول اور تمہاری دعائیں قبول ہیں(عیون اخبار الرضاج ۱۔ ص۲۹۵)

خطبے کے اس حصے میں پایا جانے والا قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ ماہِ رمضان میں مومن انسان کا سانس لینا بھی خدا کی تسبیح کا ثواب رکھتا ہےحالانکہ سانس کے ذریعے انسانی بدن کے اندر کی آلودہ ہوا خارج ہوتی ہےاگر یہ ہوا خارج نہ ہو تو انسان کا دم گھٹ جائے اور اسکی موت واقع ہوجائےاس کے باوجود یہی سانس ماہ ِرمضان میں خدا کی تسبیح کا ثواب رکھتی ہےاسی طرح یہاںاس مہینے میں انسان کا سونا بھی عبادت قرار دیا گیا ہےجبکہ صورت یہ ہے کہ عبادت کے لئے نیت اور ہوش و حواس کا ہونا ضروری ہے، نیز اسے اختیارکے ساتھ انجام دیا جانا چاہئےجبکہ نیند کے عالم میں نیت، ہوش اور اختیار و ارادے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاپھر بھی ماہِ رمضان میں یہی نیند درگاہ ِالٰہی میں عبادت تسلیم کی جاتی ہے۔

۲:-صحیفہ سجادیہ میں امام زین العابدین علیہ السلام ایک دعا کے ایک حصے میں اس بات کا شکر ادا کرنے کے بعد کہ خداوند ِعالم نے ماہ ِرمضان کو حق تک پہنچنے کا ایک راستہ قرار دیا ہے، فرماتے ہیں:

فَاَبٰانَ فَضِیلَتَهُ عَلیٰ ساٰئِرِ الشُّهُورِ بِماٰ جَعَلَ لَهُ مِنَ الْحُرُماٰتِ الْمَوْفُورَةِ، وَالْفَضاٰئِلِ الْمَشْهُوْرَةِ

چنانچہ (اللہ نے) دوسرے مہینوں پر اس ماہ کی فضیلت اور برتری کو اس کے انتہائی تقدس اور اس کی آشکارا فضیلتوں کی وجہ سے واضح فرمایا(صحیفہ سجادیہدعا ۴۴)

۱۲

۳:- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک کلام میں فرمایاہے:

مُحَمَّدٌ فی عِباٰدِ اللّٰهِ کَشَهرِ رَمَضاٰن فِی الشُّهُورِ

بندگانِ خدا کے درمیان محمد کی حیثیت ایسی ہی ہے، جیسی مہینوں کے درمیان ماہِ رمضان کی حیثیت( بحار الانوارج۳۷ص۵۳)

۴:- نیز آنحضرت ؐہی کا ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰهَ اِخْتاٰرَ مِنَ الأَیّاٰمِ الْجُمُعَةَ، وَ مِن الشُّهُورِ شَهرَ رَمَضاٰن، وَ مِنَ اللَّیاٰلِی لَیْلَةَ الْقَدْرِ

بے شک خدا نے دنوں میں سے جمعے کے دن کو منتخب کیا ہے، مہینوں میں سے ماہِ رمضان کو چُنا ہے اورشبوں میں سے شب ِ قدر کا انتخاب کیا ہے( بحار الانوار۔ ج ۳۶ص۳۷۲ اور۲۹۶)

۵:-حضرت سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ :پیغمبر اسلام ؐ نے اپنی ایک گفتگو کے دوران فرمایا: جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے، اور کہا کہ خداوند عالم فرماتا ہے:

شَهرُ رَمَضاٰن سَیّدُ الشُّهُورِ، وَ لَیْلَةُ الْقَدْرِ سَیِّدَ ةٌاللَّیاٰلی، وَالْفِرْدَوْسُ سَیِّدُ الْجَناٰنَ

ماہ ِرمضان مہینوں کا سردار، شب ِ قدر شبوں کی سردار ہے اور فردوس جنت کے باغات کی سردار ہے(بحار الانوار۔ ج۴۰ص۵۴)

ایک دوسری گفتگو میں آپؐ نے فرمایا:

جمعہ دنوں کا سردار، رمضان مہینوں کا سردار، اسرافیل فرشتوں کا سردار، آدم انسانوں کے سردار، میں پیغمبروں کا سردار اور علی اوصیاء کے سردارہیں(بحار الانوار۔ ج۴۰ص۴۷)

۱۳

۶:-امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو کے دوران فرمایا:

عِزُّالشُّهُورِ شَهرُ اللّٰهِ شَهرُ رَمَضاٰن، وَقَلْبُ شَهرُ رَمَضاٰنَ لَیْلَةُ الْقَدْرِ

مہینوں کی عزت، خدا کا مہینہ رمضان ہے اور ماہِ رمضان کا دل شب ِ قدر ہے( تہذیب الاحکام۔ ج ۱۔ ص ۴۰۶)

۷:-پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ شعبانیہ کے ایک حصے میں ماہِ مبارک رمضان کی شان میں فرمایا:

اَنَّ أَبْواٰبَ الْجَناٰنِ فی هٰذَا الشَّهرِ مُفَتَّحَةً فَاسْئلُوا رَبَّکُمْ اَنْ لاٰ یُغْلِقَهاٰ عَلَیْکُمْ، وَ اَبْواٰبَ النِّیرانِ مُغَلقَةٌ فَاسئَلوُا رَبَّکُمْ أَنْ لاٰ یَفْتَحَهاٰ عَلَیْکُمْ، وَ الشّیاٰطینَ مَغْلُولَةٌ فَاسْئَلوُا رَبَّکُمْ اَنْ لاٰ یُسَلِّطَهاٰ عَلَیْکُمْ

بے شک اس مہینے میں جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، خدا سے دعا کرو کہ ان دروازوں کو تمہارے اوپر بند نہ کرے اوراس مہینے میں جہنم کے دروازے بند ہیں، خدا سے دعا کرو کہ ان دروازوں کو تمہارے لئے نہ کھولےاور شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے، پروردگار سے دعا کرو کہ انہیں تم پر مسلط نہ کرے(عیون اخبار الرضا۔ ج۱ص۲۹۵)

۱۴

ماہِ رمضان سے استفادہ

آخر میں پہلے تو خود اپنے آپ سے اور پھر محترم قارئین سے وعظ و نصیحت کے عنوان سے انتہائی خلوص کے ساتھ عرض ہے کہ:

ماہِ رمضان اس قدر فضیلت، برکت اور رحمت کی وجہ سے کیا واقعی ہماری گہری فکری اور عملی توجہ کا مستحق نہیں؟

خداوند ِعالم نے اس قدر برکت، لطف اور رحمت کا مہینہ ہمیں نصیب کیا ہےاس سے لا تعلقی یا اس پر شعوری اور سنجیدہ توجہ نہ دینا، کیا ایک اہم موقع ضائع کردینے کے مترادف نہیں ہے؟

وہ مہینہ جس میں خدا نے ہمیں اپنی رحمت کے دسترخوان پر مدعو کیا ہے، اور ہمیں اپنے خوانِ نعمت کا مہمان بنایا ہے، کیا مناسب نہیں کہ ہم اس دعوت کوقبول کریں اور اس دسترخوان کی معنوی برکات سے استفادہ کریں؟

کیا ہمیں پیغمبر اسلام ؐکا یہ فرمان یاد نہیں ہے کہ:اِنَّ الشَّقِیَّ مَنْ حُرِّمَ فی هٰذا الشَّهْرِالْعَظیِمِ (بے شک وہ شخص بدقسمت ہے جو اس عظیم مہینے کی برکات سے محروم رہے۔ عیون اخبار الرضاج ۱۔ ص۲۹۵)

اس مہینے کی معنوی برکتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ بقول رسولِ کریم ؐ:

جو کوئی اس مہینے میں ایک مومن کی دعوت ِافطار کرے، تویہ ایسا ہے جیسے اس نے ایک غلام کو آزاد کیا ہواور ایسے شخص کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

اس موقع پر ایک شخص نے سوال کیا:اے اللہ کے رسولؐ !ہم سب لوگ اس بات کی قدرت نہیں رکھتے کہ کسی کو افطار کرائیں پیغمبر ؐنے اسے جواب دیا:

۱۵

اِتَّقُوا النّٰارَ وَ لَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ اِتَّقُوا النّٰارَ وَلَوْبِشَرْبَةِماٰءٍ

آتش دوزخ سے بچو، چاہے پیاسے کو تھوڑے سے پانی کے ذریعے سیراب کرکے(عیون اخبار الرضا۔ ج۱ص۲۹۵)

یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ اس مہینے میں، اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان گناہوں سے پرہیز کرےلہٰذا جب حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس مہینے کے سب سے افضل عمل کے بارے میں سوال کیا، تو آنحضرت ؐ نے جواب دیا:

أَفْضَلُ الَأ عْماٰلِ فی هَذَا الشَّهرِ اَلْوَرَعُ عَنْ مَحاٰرِمِ اللّٰهِ

اس مہینے میں بہترین عمل، ان کاموں سے پرہیز کرنا ہے جنہیںخداوند ِعالم نے حرام قرار دیاہے(عیون اخبار الرضاج۱ص۲۹۵)

قرآن سے اُنس ورغبت اور اس سے استفادے کی بہار

ماہ ِرمبارکِ رمضان، قرآنِ مجید کی ولادت، اُس سے اُنس، اُس کی بہار، اُس کی معرفت اور اُس سے فکری اور عملی استفادے کا مہینہ ہے۔

وہ مہینہ جس کی شب ِ قدر میں قلب ِ پیغمبرؐ نے امینِ وحی سے پورا کا پوراقرآن اخذ کیا اور قرآنِ مجید لوح محفوظ سے رسولِ مقبول ؐ کے وسیع اور نورانی قلب پر منعکس ہوا۔

وہ مہینہ جس میں ہم سب روزے، عبادت وپرستش اور دعا و مناجات کے ذریعے معنوی تیاری و آمادگی کے ساتھ قرآنِ کریم کا استقبال کرتے ہیں، او رچاہتے ہیں کہ خالص اللہ کے لئے روزے کے پُربرکت آثار کے سائے میں اور عبادتوں اور دعائوں کے ہمراہ قرآنِ کریم سے اپنے ربط و تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں۔

۱۶

قرآن، ماہِ رمضان کے پیکر میں ڈالی جانے والی روح ہے، جس نے اس مہینے کی عظمت اور اہمیت کو کئی گنا بڑھا دیاہے۔

قرآن ماہِ رمضان کا قلب ہے، اور اس قلب اور اس کی دھڑکنوں کے بغیر روزہ داروں کی معنوی حیات کی رگوں میں حقیقت کا جوہر رواں دواں نہیں ہوسکتا۔

قرآن، دلوں کی بہار اور ماہِ رمضان، قرآن کی بہار ہےلہٰذا امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا ہے:

لِکُلِّ شَیْ ءٍ رَبیعٌ، وَ رِبیعُ القُرآنِ شَهرُ رَمَضان

ہر چیز کی بہار ہے اور قرآن کی بہار ماہ ِرمضان ہے۔

( بحار الانوارج۹۶۔ ص۳۸۶)

قرآنِ مجید کی شان اور عظمت کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:

وَ تَفَقَّهُوا فِیهِ فَاِنَّهُ رَبیعُ الْقُلوبِ

اوراس (قرآن) میں غور و فکر کرو، کہ (یہ) دلوں کی بہار ہے۔

( نہج البلاغہ۔ خطبہ۱۱۰)

نیز امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق:

قَلْبُ شَهُرِ رَمَضان لَیْلَةُ الْقَدْرِ

ماہ ِرمضان کا دل، شب ِقدر ہے( بحار الانوار۔ ج۹۶ص۳۸۶)

لہٰذا یہ بات کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ماہِ رمضان کی برکتوں کا بڑا حصہ قرآنِ کریم سے وابستہ ہےاس مہینے میں ہمیں اپنے دلوں کی کھیتی میں قرآن کے نورانی احکامات کا بیج بوناچاہئے تاکہ وہ ٹھیک ٹھیک نشو ونما پائےہمیں اپنی روح کی غذا کے لئے اس ماہ میں قرآنی پھلوں سے استفادہ کرنا چاہئے اور اس مہینے میںقرآنی برکات کے زیر سایہ اپنے قلب کی قوت کو بڑھانا چاہئے۔

قرانِ کریم سے اس قسم کا استفادہ، اس سے حقیقی اُنس و رغبت کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

۱۷

قرآنِ مجید سے اُنس ورغبت

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:

مَنْ اَنَسَ بِتَلاوَةِ الْقُرآنِ، لَمْ تُوحِشْهُ مُفارَقَةُ الاِخْوانِ

جو شخص قرآن کی تلاوت سے اُنس ورغبت رکھتا ہے، وہ اپنے بھائیوں کی جدائی سے وحشت زدہ نہیں ہوتا(عزرالحکم)

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا ہے:

لَوْماتَ مِنْ بِیْنِ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغرِبِ لَما اسْتَوْحَشْتُ، بَعْدَ اَنْ یَکُونَ الْقُرْآنُ مَعِی

اگر مشرق و مغرب کے درمیان پائی جانے والی تمام موجودات نابود ہوجائیں اور میں تنہا رہ جائوںلیکن اس موقع پر قرآن میرے ہمراہ ہو، تو مجھے ذرّہ برابر وحشت محسوس نہ ہوگی( اصول کافی ج۲۔ ص۶۱۰)

اس مقام پریہ سوال ضرور سامنے آتا ہے کہ قرآنِ کریم سے اُنس و لگائو آخرہے کیا چیز، جو انسان کو اس قدر مضبوط اور پختہ کر تاہے اور اس سے ہر قسم کے اضطراب اورتنائو کو دور کر دیتاہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ: اُنس کے معنی دراصل کسی چیزسے رغبت، پیاراوراس کا ہمدم و ہمنشین ہوجانا ہےجیسے شیرخوار بچے کا اپنی ماںکی آغوش سے اُنسیت رکھناکبھی کبھی کسی چیز سے اُنس اتنا شدید ہوجاتا ہے کہ وہ ماں کی آغوش سے بچے کے اُنس سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے جیسا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے انہیں موت سے ڈرانے والے منافقین سے، فرمایا تھا کہ:

وَاللّٰهِ لاَ بْنُ اَبِی طاٰلِبٍ اَنَسُ بِالْمَوْتِ مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْیِ اُمِّهِ

خدا کی قسم ابو طالب کے بیٹے (علی ؑ) کو موت سے اس سے بھی زیادہ اُنسیت ہے، جتنی اُنسیت شیرخوار بچے کو اپنی ماں کی آغوش سے ہوتی ہے(نہج البلاغہ۔ خطبہ۵)

۱۸

سچا عارف وہ ہے، جو خدا اور اس کے کلام سے اُنس والفت رکھتا ہو۔ لہٰذا حضرت علی علیہ السلام نے آیت قرآن: یٰاَیُّهَاالْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ (اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے رب سے دھوکے میں رکھا ہےسورہ انفطار۸۲آیت ۶) کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاہے کہ:وَکُنْ للّٰهِ مُطیعاً وَ بِذِکْرِهِ اَنِساً (خداوندِعالم کے مطیع وفرمانبردار بنو اور خدا کی یاد سے اُنس و رغبت پیدا کرونہج البلاغہ خطبہ۲۲۳)

لہٰذا اُنس کا حقیقی اور واقعی مفہوم یہ ہے کہ انسان کسی چیز کے عشق میں مبتلا ہوجائے اور اس کے ساتھ شدید اور اٹوٹ تعلق کے ساتھ اُس کا ہمدم و ہم جان ہوجائےیہ جذبہ اُس چیز سے انسان کے تعلق اور بندھن کو محکم اور مضبوط کرتا ہے جس سے اسے اُنس ہوتا ہے۔

خدا اور کلامِ خدا سے ایسا ہی اُنس، اولیائے الٰہی اور ہر عارف اورسچے مومن کے اوصاف میںسے ہےلہٰذا میر المومنین حضرت علی علیہ السلام، بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

اَللّٰهُمَّ اِنِّکَ اَنَسُ الاَ نِسِینَ لاَ وْلِیاٰئکَ اِنْ اَوْ حَشَتْهُمُ الْغُرْبَةُ اَنَسَهُمْ ذِکْرُکَ

بارِ الٰہا! تو اپنے دوستوں کے ساتھ، تمام اُنس رکھنے والوں سے زیادہ مانوس ہے۔ ۔ اگرتنہائی سے ان کا دل گھبراتا ہے تو تیرا ذکر ان کا مونس و ہمدم ہوتا ہے(نہج البلاغہ۔ خطبہ۲۲۴)

۱۹

ماہ ِرمضان میں نورِقرآن کی تابانی

کیونکہ ماہ ِرمضان، ماہِ نزولِ قرآن، ماہ ِخدا اور ماہ ِتزکیہ و تہذیب ِ نفس ہے اور قرآنِ مجید اسی مہینے میں واقع شب ِقدرمیں قلب ِپیغمبرؐ پر نازل ہوا ہےلہٰذا ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ماہ ِرمضان، قرآنی نور کی تابانی اور قرآنِ کریم سے اُنس ورغبت کا مہینہ ہے۔

روزہ دار اس مہینے میں خدا کے مہمان ہوتے ہیں اورقرآنِ کریم کے بابرکت دسترخوان کے گرد بیٹھتے ہیںلہٰذا انہیں اس ماہ میں قرآنِ کریم کی تلاوت سے خاص رغبت کا ثبوت دینا چاہئے اور آیاتِ قرآنی میں غوروفکر اور قرآنی مفاہیم سے فکری اور عملی استفادے کے ذریعے اپنے معنوی رشد و کمال میں اضافہ کرنا چاہئے۔

اسی بنیاد پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک برس ماہِ شعبان کے آخری جمعے کو اپنے معروف خطبہ شعبانیہ میں ارشاد فرمایا کہ:

هُوَ شَهرُ دُعِیتُمْ فیه اِلیٰ ضِیاٰفَةِ اللّٰهِ وَ مَنْ تَلافِیهِ آیَةً مِنَ الْقُرآنِ کانَ لَهُ مِثْلُ اَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرآنَ فِی غَیْرِهِ مِنَ الشّهُورِ

ماہ ِرمضان وہ مہینہ ہے، جس میں تمہیں خدا نے اپنا مہمان مدعو کیا ہےتم میں سے جو کوئی اس مہینے میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے گا اس کا اجر دوسرے کسی مہینے میں پورے قرآن کی تلاوت کے ثواب کے برابر ہے(عیون اخبار الرضا۔ ج۲۔ ص۲۹۵)

ماہِ رمضان کی دعائوں میں، ہدایت ورہنمائی کی کتاب کے طور پر قرآن اور اس سے اُنس کا بکثرت تذکرہ آیا ہےماہِ رمضان کے ہر دن کی دعائیں، جو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں، ان میں سے دوسرے دن کی دعامیں ہے کہ:

۲۰