ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)

ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)0%

ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 61

ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: گروہ مصنّفین
زمرہ جات: صفحے: 61
مشاہدے: 30624
ڈاؤنلوڈ: 4783

تبصرے:

ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 61 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30624 / ڈاؤنلوڈ: 4783
سائز سائز سائز
ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)

ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مدرسہ دعا کے تین اہم سبق

دعا اور خدا وندِ عالم سے التماس و استدعا، جسے ماہِ رمضان کے پروگرام کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور جو رمضان اور روزے کے مفہوم کی تکوین میں بنیادی کردار کی حامل ہے، وہ بارگاہِ الٰہی میں فقط حاجات و ضروریات کے پورا ہونےکی درخواست کا نام نہیں ہے، بلکہ اسکے تین پہلو ہیںواضح الفاظ میں عرض ہے کہ ہمیں مکتب ِ دعا سے تین عظیم اوراہم ترین سبق حاصل کرنے چاہئے، اور دعا کرے ہوئے ہمیں ان تینوں پر گہر ی توجہ رکھنی چاہئے۔

٭ دعا بلائوں کی دوری اور حاجات کی قبولیت کا ذریعہ ہےجیسا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے ایک کلام میں فرمایا:

اِدْفَعوُااَمْوَاجَ الْبَلاءِ عَنْکُمْ بِالدُّعاٰءِ قَبْلَ وُرودِ الْبَلاءِ

بلائوں کے طوفان کو آنے سے پہلے، دعا کے ذریعے اپنے آپ سے دور کر دو( بحار الانوارج ۱۳ص ۲۸۹ )

٭دعا کے ساتھ نالہ و فریاد، خضوع و خشوع اور راز و نیاز ہوتا ہےاور یہ خصوصیت انسان کے غرور کو توڑتی ہے اور قلب کو معنوی نعمتوں کی قبولیت کیلئے تیار کرتی ہےاسکے نتیجے میں دلی سکون، قوتِ قلب اور عالی ہمتی انسان کو ملتی ہےخداوند ِعالم کا قول ہے :

اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّ خُفْیًَ

تم اپنے رب کو گڑگڑا کر اور خاموشی کے ساتھ پکاروسورہ اعراف۷آیت ۵۵

۴۱

٭ان سب سے اہم ترین چیز پیغمبر اسلامؐ اورائمہ معصومین ؑسے منقول دعائوں کے بلند معارف اور گہرے اور پُر معنی نکات سے مالا مال مضامین کی جانب ہمار ی توجہ ہے، جو درحقیقت انسان سازی کی عظیم درسگاہ کی حیثیت رکھتے ہیںمثال کے طور پر صحیفہ ٔ سجادیہ کی پہلی دعا اور اسی طرح نہج البلاغہ کا پہلا خطبہ، دونوں میں یکساں طور سے عالی ترین سطح پر معارف ِاسلامی کو بیان کیا گیا ہے اور معارف اور حقیقی عرفان کے سود مند ترین درس ہمیں دیئے گئے ہیں۔

دعائوں کے مضامین پر گہرا غور و فکر انسان کی معلومات اور معرفت کی سطح بلند کرنے کا باعث ہے اورعالی درجہ تعمیری اور تکامل بخش مفاہیم و اقدار، جن میں سرِ فہرست توحید اور اسکے مختلف پہلو ہیں، کے بارے میں انسان کی شناخت و معرفت کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔

کچھ لوگوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا: ہم دعا کرتے ہیں لیکن وہ قبول نہیں ہوتی، اسکی کیا وجہ ہے؟ امام ؑنے انہیں جواب دیا :

لِاَنَّکُمْ تَدْعوُنَ مَنْ لاٰتَعْرِفوُنَهُ

وجہ یہ ہے کہ تم ایسی ہستی کو پکارتے ہو، جس کی معرفت نہیں رکھتے(بحار الانوار۔ ج ۹۳۔ ص۳۶۸)

یعنی دعا کرتے ہوئے خدا کی معرفت و شناخت اور اصولِ تکامل پر بھی توجہ ہونی چاہئے۔

۴۲

روزے کے وجوب کا فلسفہ

خداوند ِحکیم نے انسان کو آزاداور خود مختار خلق کیا ہے، اسے خیر و شر کے انتخاب کا اختیار دیا ہے، اور اپنے انبیاؑ کے ذریعے حق اور باطل کے راستے اس کے لئے متعین اور واضح کئے ہیں۔

ایسے لوگ جنہوں نے اﷲ رب العزت کے احکام و فرامین سے ماخوذ زندگی کی صحیح راہ قبول کی ہے، انہوں نے درحقیقت اپنی فطرت سے اٹھنے والی آواز کا مثبت جواب دیا ہے، انبیاؑ کے مکتب کی پیروی کی ہے، اوراپنے آپ کو حیوانات کی سرشت ”مطلق آزادی“ سے محفوظ رکھ کر، خدا کے مقرر کردہ فرائض اور ذمے داریوں کی قبولیت کے اعزاز سے سرفراز ہو کر، اﷲ کے اس عہد نامے پر دستخط کئے ہیں کہ :

اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ اِنَّه لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌوَّاَنِ اعْبُدُوْنِیْ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ

اولادِ آدم کیا ہم نے تم سے اس بات کا عہد نہیں لیا تھا کہ خبردار شیطان کی اطاعت نہ کرنا، کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، اور میری عبادت کرنا کہ یہی صراط مستقیم اور سیدھا راستہ ہےسورہ یٰسن ۳۶- آیت ۶۰، ۶۱

آیاتِ قرآنی اوراحادیث ِمعصومین ؑسے پتا چلتا ہے کہ رُستگار اور نجات یافتہ لوگ فقط خدا پرست اورفرائضِ الٰہی کے پابند افراد ہیںجبکہ اِن کے سوا دوسرے انسان، انسانیت کے شرف و فضیلت سے محروم لوگ ہیں۔

”روزہ“ دین اسلام کے بلند اور ارفع احکام میں سے ایک حکم ہے، جو دنیا و آخرت کی سعادت، تزکیہ نفس، تعمیر کردار اور جسمانی سلامتی کا ضامن ہےجو خدا کی ایک ایسی عظیم نعمت ہے، جسے اﷲ رب العزت نے اپنے بندوں پر واجب کر کے ان پر احسان کیا ہے۔

۴۳

روزہ، انسان کو گناہ سے باز رکھنے اور سرکش نفس کو سرکوب کرنے والا عامل ہےروزہ، نفس کی اصلاح، اسکی تربیت اورنفسانی خواہشات اور حیوانی غرائز کے کنٹرول میں بنیادی کردار کا حامل ہے۔

ماہِ مبارک رمضان نزدیک آنے پر مردِ مسلمان اس الٰہی فریضے کی انجام دہی اور خدائی ضیافت سے استفادے کیلئے خود کوآمادہ کرتا ہے اور سب ہی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس پُر فیض اور انتہائی بابرکت مہینے سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہوں۔

ماہِ رمضان کی برکتوں بالخصوص روزے کے متعلق زیادہ سے زیادہ جاننے کے لئے ہم آیاتِ قرانی اور احادیث ِ معصومین ؑکی روشنی میں، روزے کے وجوب کے فلسفے اور حکمت کے بارے میں گفتگو کریں گےذیل میں ہم چار پہلوئوں سے روزے کے وجوب کا جائزہ لیں گے۔

۱:-معنوی اور روحانی پہلو

آیات و روایات کے مطابق، روزے کے فلسفے کا معنوی، روحانی اور اخلاقی پہلو دو رخ اور دو ابعاد سے قابل بحث و تحقیق ہے۔

الف : تقویٰ کے رخ سے

ب : بندوں کے خلوص کا امتحان

۲:-روزے کا اُخروی پہلو (قیامت کی یاد دہانی)

۳:- اجتماعی پہلو، عدالت ِ اجتماعی کے قیام کی جانب ایک قدم

۴:-جسمانی پہلو، جسم کی صحت وسلامتی

۴۴

معنوی اور روحانی پہلو

آیات و روایات کے مطابق، روزے کے فلسفے کا معنوی، روحانی اوراخلاقی پہلو دو رخ اور دو ابعاد سے قابل بحث و تحقیق ہے۔

الف : تقویٰ کے رخ سے

اسلام میں تقویٰ، بنیادی اخلاقی قدر ہے اوراسے اسلامی احکام وضع کرنے کا مقصد قرار دیا گیا ہےبعض عبادات، بلکہ بنیادی طور پر بذات خود عبادت کا مقصد، یہ ہے کہ انسان عبادی اعمال کی انجامدہی کے ذریعے متقی بنیں۔

خداوندِ عالم، قرآنِ مجید میں فرماتا ہے کہ :

یٰاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ

اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں، جس طرح تمہارے پہلے والوں پر فرض کئے گئے تھے، شاید تم اسی طرح متقی بن جائوسورہ بقرہ ۲- آیت ۱۸۳

یہ آیہ شریفہ، اس انسان ساز عبادت کا فلسفہ، ایک مختصر لیکن انتہائی پُر معنی جملے”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ“ (شاید تم اسی طرح متقی بن جائو) میں بیان کرتی ہے۔

روزہ، انسانی زندگی کے تمام میدانوں اور تمام پہلوئوں میں، تقویٰ اور پرہیز گاری کی روح کی پرورش کا ایک موثر عامل ہے۔

روزہ، مختلف رخ اور جہات رکھتا ہے، جن میں سے سب سے اہم ترین اسکا معنوی، اخلاقی اور تربیتی پہلو ہےروزہ انسان کی روح اور ارادے کو قوی کرتا ہے اوراسکی نفسانی خواہشات کو متوازن بناتا ہے۔

۴۵

روزہ دار کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ روزے کی حالت میں کھانے پینے اور اسی طرح جنسی لذت سے پرہیز کرے اورعملاً یہ بات ثابت کرے کہ وہ حیوان نہیں ہے جواپنی خواہشات کی تسکین کیلئے اِدہر اُدہر منھ مارتا پھرتا ہےبلکہ وہ اپنے سرکش نفس کو لگام دے سکتا ہے، اور اپنی نفسانی خواہشات پر غلبہ پا سکتا ہےدرحقیقت روزے کا سب سے بڑا مقصد، اسکا یہی روحانی اور معنوی اثر ہے۔

ایسے انسان جو طرح طرح کی لذیذ غذائوں اور ٹھنڈے میٹھے مشروبات تک دسترس رکھتے ہیں، اور جوں ہی انہیں بھوک یا پیاس محسوس ہوتی ہے، بے دریغ ان اشیا سے استفادہ کرتے ہیں، وہ نہروں کے کنارے اگنے والے درختوں کی طرح ہیںناز و نعم میں پرورش پانے والے یہ درخت ذرا سی سختی پر پژمردہ ہو جاتے ہیں اگر انہیں صرف چند دن پانی نہ ملے تو مرجھا کر خشک ہو جاتے ہیںلیکن صحرائوں، سنگلاخ پہاڑوں اور خشک میدانی علاقوں میں اگنے والے درخت جو ابتدا ہی سے جلتے سورج، تیز وتند ہوائوں اور سخت سردیوں کا سامنے کرتے ہیں اور طرح طرح کی محرومیوں کے ساتھ نشو و نما پاتے ہیں، وہ مضبوط، سخت جان اور دیر تک قائم رہنے والے ہوتے ہیں۔

روزہ بھی انسان کی روح کے ساتھ یہی عمل انجام دیتا ہےاور وقتی اور عارضی پابندیوں کے ذریعے اسے سخت کوش اور مضبوط قوت ِارادی کا مالک بناتا ہے، اوراسے مشکلات کے خلاف مقابلے کی طاقت فراہم کرتا ہے اور سرکش خواہشاتِ نفسانی کوکنٹرول کرکے انسانی قلب کو نور اور پاکیزگی بخشتا ہے۔

روزہ، ایک انتہائی اہم عبادت ہےاگر مخصوص آداب و شرائط کے ساتھ، اور جس طرح اللہ رب العزت چاہتا ہے اُس طرح انجام پائے تو تعمیر کردار اور تزکیہ و تہذیب ِنفس کے سلسلے میں بہت زیادہ تاثیر کاحامل ہے۔

روزہ، انسانی نفس کو گناہوں اوراخلاقِ بد سے پاک کرنے اور اسے معنوی و انسانی ارتقا اور نشو و نما کے لئے آمادہ کرنے کے سلسلے میں بنیادی کردار کا حامل ہے۔

۴۶

روزہ رکھنے والا انسان گناہوں کو ترک کرنے کے ذریعے، نفس امارہ کو لگام دے کر، اسے کنٹرول کر کے، اپنے اختیار میں لیتا ہے۔

روزہ داری کے ایام، گناہوں کو ترک کرنے اور ریاضت ِ نفس کا زمانہ ہیں، جہاد بالنفس اور پرہیز گاری کی مشق کادور ہیں اس زمانے میں انسان اپنے نفس کو گناہوں اور غلاظتوں سے پاک کرنے کے علاوہ جائز لذتوں، جیسے کھانے پینے سے بھی اجتناب برتتا ہے اور اس عمل کے ذریعے اپنے نفس کو جِلا اور نورانیت بخشتا ہےکیونکہ بھوک باطن کی جِلا اور خدا کی جانب توجہ کا باعث ہوتی ہےانسان اکثر بھوک کے عالم میں اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے، جبکہ پیٹ بھرا ہونے کی صورت میں، وہ اس کیفیت سے عاری ہوتا ہے۔

اسلام نے پُرخوری کی مذمت کی ہے اور انسان کو کم خوری کی تاکید کی ہےکیونکہ انسان شکم سیری کی حالت میں دعا و مناجات کی لذت نہیں اٹھا پاتاجبکہ بھوک کی حالت میں عبادات و مناجات میں زیادہ لذت محسوس کرتا ہے۔

رسولِ مقبول صلی اﷲ علیہ و الہ وسلم کا ارشاد ہے:

لاتشبعوا فیطفی نورالمعرفة من قلوبکم

پُرخوری نہ کرو، کیونکہ اس سے تمہارے قلب میں معرفت کا نوربجھ جاتا ہے(مستدرک الوسائل - ج ۳- ص ۸۱)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

نعم العون علی اسرالنفس و کسرعا دتها التجوع

بھوک، نفس کی بہترین مددگار اور اسکی عادتوں کا خاتمہ کرتی ہے(حوالہ سابق)

حضرت علی علیہ السلام نے روایت کی ہے کہ: خداوند ِعالم نے شب ِمعراج رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) سے فرمایا:

۴۷

یا احمد! لوذقت حلاوةالجوع، والصمت، والخلوة، وماورثوامنها قال:یارب!ما میراث الجوع؟ قال: الحکمة، وحفظ القلب، والتقرب التی، والحزن الدائم، وخفّة بین الناس، و قول الحق، ولا یبالی عاش بیسر او بعسر

اے احمد! کاش آپ بھوک، خاموشی، تنہائی اور ان کے آثار کی مٹھاس کو چکھتےرسول اﷲ ؐنے عرض کیا : بارِالٰہا! بھوک کا فائدہ کیا ہے؟ فرمایا: حکمت، قلب کی حفاظت، میرا تقرب، دائمی حزن، کم خرچی، حق گوئی اور سختی میں ہو یا آسانی میں بیباکیمستدرک الوسائل۔ ج۳۔ ص۸۲

علامہ محمد حسین طباطبائی ؒ آیہ شریفہ”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ“ (سورہ بقرہ۲- آیت ۱۸۳) کی تفسیر میں فرماتے ہیں :اسلام کی تعلیمات ِعالیہ اور اسکے بیانات ِوافیہ سے پتا چلتا ہے کہ پاک پروردگار کی ذات اس بات سے منزہ ہے کہ اسے کسی چیز کی احتیاج و نیاز ہواوروہ ہر قسم کے نقص اور کمی سے مبرا ہےپس عبادات کا فائدہ صرف اور صرف بندے کوہوتا ہے، خدا کونہیں، اور گناہوں کا بھی یہی حال ہےخداوندِ عالم قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَ نْفُسِکُمْ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا (اب تم نیک عمل کرو گے، تواپنے لئے اور بُرا کرو گے، تو اپنے لئےسورہ بنی اسرائیل ۱۷- آیت ۷)

پس اطاعت یا معصیت کے اثرا ت خود انسان پر عائد ہوتے ہیں جو صرف اور صرف نیاز اور تہیدستی کی خصوصیت کا حامل ہے:یٰاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَی ﷲِ وَاللّٰهُ هُوَا لْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ (اے انسانو! تم سب بارگاہِ الٰہی کے فقیر ہو، اور اﷲ صاحب ِ دولت اور قابلِ حمد و ثنا ہے سورہ فاطر ۳۵- آیت ۱۵)

روزے کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ“ یعنی یہ حکم اس لئے وضع کیا گیا ہے کہ تم پرہیز گار بن جائو، اس لئے نہیں کہ پروردگار کو تمہارے روزے کی ضرورت ہے۔

۴۸

البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ روزے کے ذریعے حصولِ تقویٰ کی امید کی جا سکتی ہےکیونکہ انسان فطرتاً یہ بات محسوس کرتا ہے کہ اگر کوئی عالمِ طہارت اور قدس سے تعلق پیدا کرنا چاہے اور کمال و روحانیت کے مرتبے پر پہنچنے کا خواہشمند ہو اور چاہتا ہو کہ معنوی ارتقا کے درجات طے کرے، تواس کے لئے سب سے پہلے جو چیز ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ وہ بے لگامی اور خواہشات ِنفسانی سے پرہیز کرے، سرکش نفس کو کنٹرول کرے اور اسے بے لگام ہو کر جہاں دل چاہے منھ مارنے کی اجازت نہ دے، مادی زندگی کے مظاہر میں ڈوب جانے اور انہی سے دل لگانے سے خود کو پاک رکھے۔

مختصر یہ کہ جو چیز اسکے اور خدا کے درمیان رکاوٹ ہو، اس سے دور رہےاور یہ تقویٰ شہوتوں پر قابو پانے اور نفسانی خواہشات سے دور رہنے کے ذریعے حاصل ہوتا ہےاورجوچیز عام لوگوں کے حال سے مناسب ہے، وہ یہ ہے کہ جن امور کی تمام ہی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے، جیسے کھانا پینا اور جائز شہوات کی جانب میلان، تو ان پر کنٹرول سے کام لیں، تاکہ اس مشق کے ذریعے انہیں قوتِ ارادی حاصل ہو، اور ناجائز نفسانی خواہشات سے بھی دور رہ سکیں اور تقربِ الٰہی کی سمت بڑھیںکیونکہ جوشخص جائز اور مباح امور(کو چھوڑنے کے سلسلے) میں خدا کی بات مانتا ہے وہ ناجائز اور حرام امور (کو چھوڑنے کے سلسلے) میں اسکی بہتر اطاعت اور فرمانبرداری قبول کرے گا(تفسیر المیزان ج ۳۔ ص۹)

ایسا شخص جو ماہِ رمضان میں روزے رکھے، اور اس ایک مہینے میں ارتکاب ِگناہ اور برے اخلاق و کردار سے اجتناب کرے، وہ ماہِ مبارکِ رمضان کے بعد بھی ترکِ گناہ اور اخلاقِ بد سے پرہیز کی اس حالت کو باقی رکھ سکتا ہے۔

روزہ، ایک ایسی عبادت ہے جس میں جائز لذتوں کو چھوڑنے اور گناہوں سے دوری کی باعث، روزہ دار شخص کا دل پاک ہو جاتا ہے اوروہ خدا کے سوا کسی اور کے ذکر اور فکر سے آزاد رہتا ہے۔

۴۹

روزے کا اہم ترین فلسفہ تقویٰ کا حصول ہےاخلاقی خوبیوں اور انسانی خصلتوں کا حصول، خدا کی طرف سے واجب کئے گئے اس حکم کا لازمہ ہےکیونکہ (روزے کے عبادت ہونے سے قطع نظر) بھوک انسان کو ان میلانات اور کششوں سے بازرکھتی ہے جو اسے سرکشی اور گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں اور اسکے اندر انسانی خُلق وخُو کو زندہ کرتی ہےلہٰذا تقویٰ، اپنی اصلاح کرنے والے انسان کی بلند ترین خصوصیت ہے۔

تقویٰ کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے :

فَاءِنَّ تَقْوَیٰ ﷲِ دَوَاُ دَاءِ قُلُوبِکُمْ، وَ بَصَرُ عَمَیٰ أَ فْئِدَتِکُمْ، وَشِفَاءَ مَرَضِآ اَجْسَادِکُمْوَصَلَاحُ فَسَادِ صُدُورِکُمْ، وَطُهُورُ دَنَسِ أَنْفُسِکُمْ، وَ جِلَاءُ غَشَاءِ أَبْصَارِکُمْ، وَأَمْنُ فَزَعِ جَأْشِکُمْ، وَ ضِیَائُ سَوَادِ ظُلْمَتِکُمْ

بے شک تقویٰ تمہارے قلوب کی بیماری کی شفا بخش دوا، فکر و شعور کی تاریکیوں کے لئے اجالا، جسموں کی بیماریوں کے لئے شفا، سینے کی تباہ کاریوں کے لئے اصلاح، نفس کی کثافتوں کے لئے پاکیزگی، آنکھوں کی تیرگی کے لئے نور، دل کی دہشت کے لئے ڈھارس اور جہالت کے اندھیروں کے لئے روشنی ہے(نہج البلاغہ - خطبہ ۱۹۶)

۵۰

ب : بندوں کے خلوص کا امتحان

اخلاص کا شمار، معنوی ارتقا و کمال کے اعلیٰ ترین مراحل میں ہوتا ہےاخلاص کے اثر سے قلب نورِ الٰہی کی ضیا پاشیوں کا مرکز بن جاتا ہے اور حکمت و دانش، دل سے نکل کر زبان پر جاری ہو جاتے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے :فَرَضَ اللّٰهُ  وَ الصِّیَامَ اَبْتِلَاءً لِا خْلَاصِ اَلْخَلْقِ (اﷲ نے روزہ واجب کیا ہے، تاکہ اسکے ذریعے لوگوں کا اخلاص آزمائےنہج البلاغہ - کلمات قصار ۲۵۲)

حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کے معروف خطبہ فدک میں ہے کہ :۔۔۔ فرض ﷲ الصیام تثبیتاً للاخلاص (خداوندِ عالم نے اخلاص کے ثبوت کیلئے روزہ واجب کیا ہےبحارالانوار - ج ۹۳- ص ۳۶۸)

ان روایات سے، روزے اور اخلاص کے درمیان پائے جانے والے ایک خاص تعلق کاپتا چلتا ہےبندوں کا اخلاص جانچنے کی خاطر روزہ واجب کرنا، اخلاص کی اہمیت کی بھی علامت ہے۔

ایسا انسان جو نفسانی خواہشات سے پرہیز کرتا ہے اور ایک ماہ کے عرصے پر محیط ایک خاص زمانے میں، اپنے آپ کو فقہی اور اخلاقی احکامات ملحوظ رکھنے کا پابند بناتا ہے، اگر اسکے اعمال اخلاص کے ساتھ نہ ہوں تو وہ کسی خاص معنوی قدر و قیمت کے حامل نہیں ہوں گے۔

لہٰذا ایک ایسا انسان جو روزے کی سختیاں اور مشکلات برداشت کرتا ہے، اسے اخلاص کا مالک ہونا چاہئےیعنی اسکے اعمال صرف اور صرف خدا کی رضا اور خوشنودی کے لئے ہونے چاہئیں۔

احادیث میں ملتا ہے کہ اس عمل کی کوئی قدر و قیمت نہیں جس میں اخلاص نہ ہوحتیٰ روزہ بھی جو اس قدر اہمیت اور فضیلت رکھتا ہے کہ خدا کو مطلوب ہے اور اسکے بارے میں خود خداوند ِ عالم نے فرمایا ہے کہ : الصوم لی وانا اجزی بہ (روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اسکی پاداش دیتا ہوںوسائل الشیعہ  - ج۷- ص ۲۹۲)

۵۱

وہی عبادت درگاہِ خداوندی میں قبولیت کا شرف پاتی ہے اور قرب و کمال کا سبب بنتی ہے جو ہر قسم کے دکھاوے، خود پسندی اور خود نمائی سے پاک ہو اور جسے صرف اور صرف رضائے الٰہی کے حصول کے لئے انجام دیا گیا ہو۔

اخلاص، عمل کی قدر وقیمت اور قبولیت کا پیمانہ ہےجس قدر اخلاص زیادہ ہو گا، اُسی قدر عمل بھی مکمل ہو گا۔

درحقیقت تقویٰ کے حصول کی شرط ”اخلاص“ ہےاور یہ تو آپ جان ہی چکے ہیں کہ روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہےاگر کوئی شخص ماہ ِرمضان کی عبادتوں کو اخلاص کے ساتھ انجام دے، تو اس نے خداوندِ عالم کا حقیقی مہمان بن کر قرب ِالٰہی کے مقام اور معنوی و اخلاقی مقامات حاصل کر لئے ہیں۔

۲:-روزے کا اُخروی پہلو (قیامت کی یاد دہانی)

روزے کے واجب کئے جانے کا دوسرا قابلِ بحث وگفتگو پہلو، اسکا اُخروی پہلو ہےجو دراصل قیامت کے دن کی یاد دلانا ہےیعنی جو انسان روزہ رکھ کر بھوک اور پیاس کی سختیاں برداشت کرتا ہے، اسے روزِ قیامت کی بھوک اور پیاس کا خیال آتا ہے۔ قیامت کے دن کی سختیوں کی جانب اس کا یوں متوجہ ہونا، اسکے کردار اور عمل پر قابلِ لحاظ اثر مرتب کرتا ہے۔

اگر انسان اپنے اعمال و کردار کی جانب متوجہ رہے، خود کو وعظ و نصیحت کرتا رہے اور ہمیشہ یہ خیال اسکے دل میں رہے کہ اسے ایک دن اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے، اسکی ایک ایک حرکت اور ایک ایک سکوت کا حساب دینا ہے، تو اسکا یہ احساس اسکے مزاج اور اخلاق پر نہایت مثبت اثرات مرتب کرے گاجس کے نتیجے میں وہ بارگاہِ الٰہی سے زیادہ سے زیادہ اجر وثواب کا حقدار بن جائے گا۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا ارشاد ہے:

۵۲

فان قال:فلم امروابالصوم؟ قیل لکی یعرفواالم الجوع، والعطش، فیستد لواعلی فقر الاٰخرة، ولیکون الصائم خاشعًا ذلیلاً مستکینًا ماجورًا محتسبًا، عارفًاصابرًالما اصابه من الجوع والعطش، فیستوجب الثوابمع مافیه من الانکسار عن الشهوات، و لیکون ذٰلک واعظًالهم فی العاجل، ورائضًا لهم علی اداء ما کلّفهم و دلیلاًلهم فی الاٰجل، ولیعرفواشدّة مبلغ ذٰلک علی اهل الفقروا لمسکنة فی الدّنیا، فیودّوا الیهم ما افترض ﷲتعالیٰ لهم فی اموالهم(بحارالانوار - ج ۹۳- ص ۳۶۹)

اگر کوئی پوچھے کہ روزے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ تواسکا جواب یہ ہے: تاکہ انہیں معلوم ہوکہ بھوک اور پیاس کی تکلیف کیا ہوتی ہے، اور اس ذریعے سے وہ آخرت کے فقروفاقے کو محسوس کریں، نیز (اس کے ذریعے) ان میں خضوع وخشوع اور فروتنی پیدا ہو اور وہ اسکا اجر حاصل کریں، اور یہ سمجھیں کہ ان کا اجر خدا کے پاس ہے، انہیں خدا کی معرفت حاصل ہو، انہیں بھوک اور پیاس سے جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کریں، تاکہ ثواب کے مستحق قرار پائیںاس کے ساتھ ساتھ (روزے کے ذریعے) ان میں موجود خواہشاتِ نفسانی کمزور ہوں، (روزہ) دنیا میں ان کیلئے وعظ و نصیحت کا موجب ہو اور فریضے کی انجامدہی کے لئے ایک مشق ہو، اور آخرت میں ان کے لئے رہنما ہو اورانہیں معلوم ہو کہ دنیا میں فقراو مساکین کس مشکل کا سامنا کرتے ہیں۔ خدا نے ان کے اموال میں فقرا ومساکین کا جو حق واجب کیا ہے وہ انہیں ادا کریں۔

یہ حدیث، جس میں امام رضا علیہ السلام نے روزے کے واجب ہونے کا فلسفہ بیان فرمایا ہے، اس میں روزے کے اُخروی پہلو، یعنی روزِ قیامت کی بھوک اور پیاس کی یاد دہانی کے علاوہ فقرا اور مساکین کی مشکلات کی جانب توجہ کابھی ذکر ہےجس کا تعلق روزے کے اجتماعی پہلو سے ہے، جس پر آئندہ سطور میں ہم روشنی ڈالیں گے۔

ایک دوسرے مقام پر امام رضا علیہ السلام ہی نے ارشاد فرمایا ہے کہ :

۵۳

انما امروا بالصوم لکی یعرفوا الم الجوع والعطش فیستدلوا علی فقر الآخرة

لوگوں کو روزے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ وہ بھوک اور پیاس کو محسوس کریں، اور اس کے توسط سے آخرت کے فقر اور بے چارگی کو درک کریں( من لایحضرا لفقیہ ج ۲ص ۴۳)

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے، خطبہ شعبانیہ میں فرمایا ہے :

وذکروا بجوعکم وعطشکم جوع یوم القیامۃ وعطشہ۔

اور روزے میں تمہاری بھوک اور پیاس کے ذریعے تمہیں قیامت کی بھوک اور پیاس یاد دلائے( بحار الانوارج ۹۶ص ۳۵۶)

اس باب میں بیان ہونے والی روایات سے مجموعاً جو بات سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کو روزے کی حالت میں بھوک اور پیاس برداشت کرا کے، اسے آخرت کی جانب متوجہ کیا جائے اور ایسا انسان جوروزے کی سختیاں اور مشکلات برداشت کرتا ہے، وہ اس موقع پر قیامت کے دن کے فقر اور مشکلات کی جانب متوجہ ہو۔

۵۴

۳:- اجتماعی پہلو‘ عدالت ِ اجتماعی کے قیام کی جانب ایک قدم

روزے کا اجتماعی پہلو کسی سے پوشیدہ نہیںروزہ افرادِ معاشرہ کے درمیان مساوات اور برابری کا ایک درس ہےروزہ رکھ کر صاحب ِحیثیت افراد بھی معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے بھوکے اور نادار افراد کی کیفیت محسوس کرتے ہیں، اور اپنی شبانہ روز کی خوراک میں کفایت شعاری کے ذریعے ان کی مدد کا اہتمام کر سکتے ہیں۔

البتہ بھوکے اور نادار افراد کی حالت بیان کر کے بھی شکم سیر افراد کو ان کے حال کی جانب متوجہ کیا جاسکتا ہےلیکن اگر یہ مسئلہ حسی اور عینی پہلو حاصل کر لے تو اسکا اثربڑھ جاتا ہےروزہ اس اہم سماجی مسئلے کو حسی رنگ دیتا ہےلہٰذا امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک معروف روایت میں آیا ہے کہ جب آپ ؑسے روزے کے وجوب کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ ؑ نے فرمایا :

اما العلة فی الصیام لیستوی به الغنی والفقیر، و ذٰلک لانّ الغنّی لم یکن لیجد مسّ الجوع، فیرحم الفقیر، لاّن الغنّی کلّما اراد شیئا قدر علیه، فاراد اﷲعزّوجلّ ان یستوی بین خلقه، و ان یذیق الغنیّ مسّ الجوع والالم، لیرقّ علی الضّعیف و یرحم الجائع

روزہ اس وجہ سے واجب کیا گیا ہے، تاکہ اسکے ذریعے امیر اور غریب برابر ہوجائیںکیونکہ دولت مند افراد نے بھوک کا ذائقہ نہیں چکھا ہوتاکہ (جس کے زیرِ اثر) وہ غریبوں پر رحم کریںکیونکہ دولت مندوں کے لئے ہر وہ چیز فراہم ہو جاتی ہے جو وہ چاہتے ہیںلہٰذا خدا نے چاہا کہ اپنے بندوں کے درمیان مساوات پیداکرے، اورصاحبانِ مال ودولت کو بھی بھوک اور اس کے درد و رنج کا ذائقہ چکھائے، تاکہ وہ کمزور و لاچارافراد پر مہربانی اور بھوکوں پر رحم کریں( بحارالانوار۔ ج ۹۶ص ۳۷۱)

۵۵

حمزہ بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں تحریر کیا کہ: خداوندِ عزوجل نے روزہ کیوں فرض کیا ہے؟ اس کے جواب میں امام ؑنے مجھے تحریر کیا کہ :لیجد الغنیّ مسّ الجوع فیمنّ علی الفقیر (تاکہ صاحبانِ دولت بھوک کا مزہ چکھیں اورفقیر پر احسان کریں۔ بحارالانوار۔ ج۹۶۔ ۳۶۹)

ان روایات کے مجموعی مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ روزے کے وجوب کی وجوہ میں سے ایک وجہ، عدالت ِ اجتماعی کے قیام کے سلسلے میں ا قدام ہےتاکہ دولت مند اور صاحب ِ حیثیت افرادروزے کے ذریعے محروم اور مفلس افراد کی بھوک، غربت اور بے چارگی کا درد محسوس کریں اور فقرا اورمساکین کی مدد کریں۔

معاشرے میں بھوکے، غریب اور محتاج افراد ایک کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں، جبکہ دولت مند اور صاحب ِ ثروت افراد کی بھی کمی نہیں، کتنا اچھا ہو کہ دولت مند افراد، ماہِ مبارک رمضان میں محروم اور فقیر افراد کی فکر کریں، اور معاشرے میں عدلِ اجتماعی کے قیام کے لئے ایک قدم اٹھائیں اور حتیٰ الامکان ان لوگوں کی مدد کریں۔

ذرا بتایئے اگر دولت مند ممالک کے لوگ، سال کے صرف چند دن روزہ رکھ لیں اور بھوک کا مزہ چکھیں توکیا پھر بھی دنیا میں بھوک و افلاس باقی رہ سکتاہے؟

۵۶

۴:-جسمانی پہلو‘ جسم کی صحت وسلامتی

آج اور اسی طرح قدیم طب میں بیماریوں کے علاج کے سلسلے میں ”امساک“ کا معجزآسا اثر ثابت شدہ ہےبہت سی بیماریوں کی اصل وجہ حد سے زیادہ پیٹ بھر کر کھانا ہےکیونکہ جسم کا حصہ نہ بننے والا اضافی غذائی مواد، بدن کے مختلف حصوں میں مزاحم چربی کی صورت میں، یا خون میں اضافی شوگر، یا کولیسٹرول کی شکل میں باقی رہ جاتا ہےیہ اضافی مواد، بدن کے مختلف حصوں میں دراصل مختلف جراثیم اور متعدی بیماریوں کی نشو و نما کے لئے بدبودار کیچڑ کی سی حیثیت رکھتا ہےان بیماریوں سے مقابلے کا بہترین راستہ، امساک (Control)اور روزے کے ذریعے اس کیچڑ کو بدن سے ختم کرنا ہے۔

روزہ اس کوڑے، اور بدن میں جذب نہ ہونے والے اضافی مواد کو جلا کردرحقیقت بدن کو جھاڑ پونچھ دیتا ہے۔

روزہ، نظامِ ہضم کے لئے ایک طرح کا آرام (Rest) اور اسکی سروس اور مرمت کاموثر عامل ہےکیونکہ یہ نظام سال بھر مستقل مصروف ِکار رہتا ہے، لہٰذا اس کیلئے یہ آرام ضروری ہے۔

اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ اسلام، روزہ دار انسان کو سحر اور افطار میں حد سے زیادہ کھانے پینے سے گریز کا حکم دیتاہےتاکہ جسمانی صحت وسلامتی کے سلسلے میں روزہ اپنا مکمل اثر دکھائےبصورتِ دیگر ممکن ہے اسکا بالکل الٹا نتیجہ برآمد ہو۔

پیغمبر اسلامؐ کی ایک معروف حدیث ہے:صوموا تصحوا (روزہ رکھو تاکہ تندرست ر ہوبحار الانوار - ج ۹۶- ص ۲۵۵)

ایک دوسرے مقام پر پیغمبر اسلام ؐفرماتے ہیں:المعدة بیت کل داء والحمیة راس کل داء (معدہ تمام بیماریوں کا گھر، اور امساک سب سے بہترین علاج ہے)

لہٰذا روزہ جسمانی صحت اور معدے کو آرام پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہےبالخصوص سال میں ایک مہینے کے روزے، ان لوگوں کی صحت و سلامتی کے لئے بہت مفید ہوتے ہیں، جو پُرخوری کے عادی ہوں۔

۵۷

روم سے تعلق رکھنے والے ایک عالم کے مطابق : سب سے پہلی بیماری کا تعلق پُرخوری سے ہے اور پہلا علاج بھی کھانے پینے سے پرہیز ہےاسی بات کو آج سے چودہ سو برس قبل، اسلام کے عظیم پیشوا، حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے وحی سے الٰہام لیتے ہوئے، دنیائے انسانیت کے سامنے، ان الفاظ میں بیان کر دیا تھا کہ:المعدة بیت کل داء و الحمیة راس کل داء ۔

امریکہ سے تعلق رکھنے والا ”ڈاکٹر کارلو“ لکھتا ہے: بیمار شخص کو چاہئے کہ ہر سال کچھ عرصے کیلئے کھانے پینے سے پرہیز کرے، کیونکہ جب تک غذا جسم کو ملتی رہتی ہے، میکروب نشو و نما پاتے رہتے ہیںلیکن جب انسان کھانے پینے سے پرہیز کرتا ہے تو میکروب کمزور پڑنے لگتے ہیںوہ مزید کہتا ہے کہ: روزہ جسے اسلام نے واجب کیا ہے وہ جسم کی سلامتی کا سب سے بڑا ضامن ہے(تفسیر نمونہج۱ص ۶۳۲)

کتاب ”طب النبی ؐ“ میں پیغمبر اسلام ؐسے ایک حدیث نقل کی گئی ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:

لاتمیتوا القلب بکثرة الطعام والشراب، فان القلب یموت کا لزرع اذا کثر علیه الماء

اپنے دلوں کو زیادہ کھانے اور زیادہ پینے کے ذریعے نہ مارو، کیونکہ ایسے شخص کا دل (جس کا معدہ کھانے پینے کی اشیا سے بھرا ہوا ہو) مر جاتا ہےاس کھیتی کی مانند، کہ جب اس میں حد سے زیادہ پانی آجائے تو وہ برباد ہو جاتی ہے۔

مذکورہ گفتگو سے پتا چلتا ہے کہ شاید روزے کے وجوب کا ایک سبب جسمانی صحت وسلامتی ہےالبتہ جیسا کہ ہم نے ابتدا میں عرض کیا کہ روزے کا سب سے بڑا فلسفہ تقویٰ کا حصول، تہذیب ِ نفس اور معنوی کمالات اور اخلاقی صفات سے آراستہ ہونا ہےاور ان اعلیٰ مراتب تک پہنچنے کے لئے چند مقدمات سے گزرنا لازم ہے جن میں سے ایک جسمانی صحت وسلامتی بھی ہے اور اسلام نے اس نکتے پربھی توجہ دی ہے۔

۵۸

فہرست

عرضِ ناشر 2

ماہِ رمضان کی فضیلت واہمیت. 3

لفظ رمضان کے معنی 4

۲۔ اسلام سے پہلے ماہِ رمضان کا مقام 6

۳۔ رمضان، ماہِ نزولِ قرآن. 7

۴۔ماہ ِرمضان میں شب ِقدر کا وجود 8

۵۔خدا کا مہینہ اور شفاعت کرنے والا مہینہ 9

۶۔ماہِ رمضان کا مخصوص تقدس. 10

۷۔احادیث کی رو سے ماہ ِرمضان کی فضیلت. 11

ماہِ رمضان سے استفادہ 15

۵۹

قرآن سے اُنس ورغبت اور اس سے استفادے کی بہار 16

قرآنِ مجید سے اُنس ورغبت. 18

ماہ ِرمضان میں نورِقرآن کی تابانی 20

اولیائے خدا کے، قرآن سے اُنس و لگائو کے نمونے.. 24

قرآن کا اصل مقصد، اس کے احکام پر عمل. 30

بارگاہِ الٰہی میں دعا ومناجات کاموسمِ بہار 33

اسلام کی نظر میں دعا کی اہمیت اور اسکی تاکید 34

مکتب ِ دعا سے بہتر استفادے کیلئے آداب کا ملحوظ رکھنا 37

مدرسہ دعا کے تین اہم سبق. 41

روزے کے وجوب کا فلسفہ 43

معنوی اور روحانی پہلو 45

ب : بندوں کے خلوص کا امتحان. 51

۶۰