مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 297214
ڈاؤنلوڈ: 7465

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 297214 / ڈاؤنلوڈ: 7465
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۴ـ          زید ابن شحام کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی سات بار یہ پڑھے گا” اسئل ﷲ الجنة واعوذ باﷲ من النار “ اے اﷲ میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور آگ سے تیری پناہ مانگتا ہوں اس کے سوا اور کچھ نہیں“ تو آگ کہے گی خدایا اس کو مجھ سے پناہ میں رکھ۔

۵ـ          معاذ بن مسلم کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا، نعمت کے دشمنوں ( حسد کرنے والوں) پر صبر کرو کیوں کہ بہترین جواب اس بندہ کو تیرے لیے یہ ہے کہ وہ خدا کی معصیت کرے“ او تم ان کے حسد کرنے پر خدا کی اطاعت کرو۔

۶ـ           عمرو بن ابومقدام کہتے ہیں، امام باقر(ع) نے فرمایا جو کوئی ایک بار” آیت الکرسی“ پڑھے تو خدا اس کی ہر برائی دنیا اور ہزار برائی آخرت کی مٹادے گا اور دنیا کی مشکلات میں سے آسان ترین فقر ہے اور آخرت کی مشکلات میں سے آسان ترین عذابِ قبر ہے۔

۷ـ          مدرک بن ھز کہتے ہیں امام صادق(ع) نےفرمایا اے مدرک خدا رحمت کرے گا اس بندے پر کہ جو لوگوں کی محبت کو ہماری طرف کھینچ لائے جو کچھ ہم سے سمجھے ان کے لیے بیان کرے اور اگر کسی کو منکر پائے تو اس کو چھوڑ دے۔

۸ـ          ہشام بن سالم نےکہا کہ امام صادق(ع) نے فرمایا، ایک دن داؤد(ع) باہر گئے اور زبور کو پڑھا جب تک وہ زبور پڑھتےرہے پہاڑ و پتھر اور پرندے درندہ کوئی ایسا نہ تھا کہ وہ بھی ان کے ساتھ ہم آواز نہ ہوا ہو داؤد(ع) اسی طرح پڑھتے گئے یہاں تک کہ ایک پہاڑ کے پاس پہنچ گئے اس پہاڑ پر ایک پیغمبر جن کا نام حزقیل(ع) تھا کا مکان تھا جب انہوں نے نے پتھروں پہاڑوں پرندوں اور درندوں کی آوازوں کو سنا تو جان گئے کہ داؤد(ع) ہیں داؤد(ع) نے کہا اے حزقیل(ع) کیا مجھے اجازت دیتے ہو کہ پہاڑ پر تمہارے پاس آؤں کہا نہیں یہ سن کر داؤد(ع) نے گریہ کیا خدا نے حزقیل(ع) کو وحی کی، اے حزقیل(ع) داؤد(ع) کی سرزنش نہ کرو اور مجھ سے عافیت طلب کرو، حزقیل(ع) اٹھے اور حضرت داؤد(ع) کا ہاتھ پکڑا اور ان کو اوپر لے گئے حزقیل(ع) نے کہا داؤد(ع) کیا تم نےقصد خطا کیا ہے نہیں کہا کیا عبادت کے دوران خود بینی میں مبتلا ہوئے، کہا نہیں، کہا تو کیا دل دنیا کے حوالے کیا اور اس سے شہوت و لذت چاہتے ہو کہا ہاں یہ بات میرے دل میں گزری ہے، حزقیل(ع) نے کہا کہ جب اس خیال نےتم پر غلبہ کیا تو تم نے

۱۰۱

 کیا، کیا داؤد(ع) نے کہا کہ مجھ پر جب یہ کیفیت طاری ہوئی تو میں ایک پہاڑی درے میں گیا اور جو وہاں دیکھا اس سے مجھے عبرت حاصل ہوئی میں نے وہاں دیکھا کہ لوہے کے ایک تخت پر ایک کھوپڑی اور کچھ بوسیدہ ہڈیاں پڑی ہوئی ہیں اس تخت پر یہ تحریر کھدی ہوئی تھی کہ میں اروی سلم کا بیٹا ہوں میں نے ہزار سال حکومت کی اور  ہزاروں شہر آباد کیے ہزاروں عورتوں سے مقاربت کی مگر میری عمر میرے بستر پر خاک ہوگئی اب میرے سرہانے پتھر ہیں جن کا میں ہم نشین ہوں لہذا نیک و بد جو بھی  مجھے دیکھے دنیا کے فریب میں نہ آئے۔

۹ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی اپنے روزے کو قول صالح کے ساتھ یا عمل صالح کے ساتھ ختم کرے تو خدا اس کا روزہ قبول کرےگا عرض کیا گیا یا بن(ع) رسول اﷲ(ص) قول صالح کیا ہے فرمایا ” لا الہ الا اﷲ کی گواہی اور عمل صالح اخراج فطرہ ہے۔

۱۰ـ          امام صادق(ع) نے روایت کیا اپنے آباء(ع) سے کہ امیر المومنین(ع) نے بروز عیدالفطر لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا اے لوگو! آج تمہارا محسن تمہیں ثواب دے گا اور بدکاروں کو نقصان، یہ دن قیامت کے دن سے متشابہ ہے اس دن تم گھروں سے اس طرح باہر آتے ہو جس طرح قیامت کے دن قبروں سے باہر آؤ گے اور اپنے پروردگار کے سامنے اس طرح حاضر ہوگے جیسے کہ آج ہو پس آج کے دن خود کو اسی طرح اس کے حضور میں حاضر سمجھو۔ اور یاد کرو اس وقت کو جب تم پلٹائے جاؤ گے اپنی منزل بہشت یا دوزخ کی طرف، اور جان لو اے خدا کے بندو کہ روزہ دار مرد وزن کے لیے سب سے چھوٹا انعام یہ ہے کہ ایک فرشتہ انہیں ندا دے گا کہ اے بندو خوشخبری لے لو تمہارے تمام گناہ معاف کردیے گئے اور قائم ہو جاؤ کہ تم آیندہ شاد رہوگے امام صادق(ع) نے اپنے اصحاب میں سے ایک سے فرمایا  جب شب عیدالفطر ہو تو نماز مغرب کو پڑھو اور سجدہ کرو اور اس میں کہو” يا ذالطول یا ذالحول يا مصطفيٰ محمد و ناصره صل علیٰ محمد وآل محمد و اغفرلی کل ذنب اذنبتة انا وهو فی کتاب مبين “ اے فضل و بخشش والے قدرت و اختیار والے اےمحمد(ص) کو منتخب کرنے والے اور ان کے مددگار تو محمد(ص) و آل محمد(ص) پر اپنی رحمتیں نازل فرما اور میرے گناہ بخش دے جو میں نے کیے اور میں بھول گیا مگر تیرے پاس کھلی و روشن

۱۰۲

 کتاب میں درج ہیں“ پھر سو بار کہو” واتوب الی اﷲ“ میں اﷲ کی طرف توبہ کرتا ہوں مغرب و عشاء کے بعد اور نمازِ عید انہی تکبیرات ایام تشریق کو پڑھو کہو”اﷲاکبر اﷲ اکبر لا اله الا اﷲ واﷲ اکبر وﷲ اکبر والحمد اﷲ علی ماهدانا والحمد ﷲ علی ما ابلانا “ اﷲ سب سے بڑا ہے اﷲ  سب سے بڑا ہے نہیں کوئی معبود مگر اﷲ اور اﷲ سب سے بڑا ہے اﷲ ہی کے لیے حمد ہے اور اﷲ سب سے بڑا ہے اور اس بات پر کہ اس نے ہماری ہدایت کی اور اس کی حمد ہے کہ اس نے ہم لوگوں کو آزمایا اور اس میں یہ نہ کہو ”ورزقنا من بهيمة الانعام “ ہم لوگوں کورزق دیا جائے چوپائے جانوروں کا “ کیوںکہ یہ عبادت مخصوص ایام تشریق کی ہے( یعنی ۱۱۔۱۲۔۱۳ ذالحجہ)

۱۰۳

مجلس نمبر۲۲

( یوم عیدالفطر،یکم شوال سنہ۳۶۷ھ)

۱ـ           امام صادق(ع) نے اپنے آباء طاہرین(ع) سے روایت کیا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا خدا فرماتا ہے، اے میرے بندو تم تمام گمراہ ہو بجز اس کے کہ جس کی میں راہنمائی کرتا ہوں اور تم تمام فقیر ہوتے مگر یہ کہ میں نے تمہیں امیر بنایا اور تمام گناہ گار ہوتےمگر یہ میں نے تمہاری حفاظت کی ہے۔

اعرابی اور طلبِ قیمتِ اونٹ

۲ـ           امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول خدا(ص) نے پاس  آیا اور آپ(ص) سے کہا کہ مجھے میرے اونٹ کی قیمت جو کہ ستر(۷۰) درہم قرار پائی تھی ادا کردیں رسول خدا(ص) نےفرمایا کہ اے اعرابی کیا میں تجھے رقم ادا نہیں کرچکا، اس نے انکار کیا۔ آپ(ص) نے پھر فرمایا کہ وہ میں تجھے ادا کرچکا ہوں۔ اس نےکہا کہ اس بات کا فیصلہ میں لوگوں ( کسی منصف) سے کرواؤں گا۔ آپ(ص) اس کے ساتھ قریشی کے ایک فرد کے پاس گئے اس قریش نے طرفین کے بیانات سنے اور کہا یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) اقرار کرتے ہیں کہ آپ(ص) نے اونٹ خریدا اور ادائگی کردی تا ہم آپ(ص) رقم کی ادائگی کے سلسلے میں دو گواہ پیش کریں یا پھر ستر(۷۰) درہم اس اعرابی کو ادا کردیں۔ پیغمبر(ص) یہ سن کر غضبناک ہوگئے اور اپنی ردا کو کھینچتے ہوئے فرمایا خدا کی قسم اب میں اس شخص کے پاس تجھے لے کر جاؤں گا جو ہمارے درمیان حکمِ خدا کے مطابق فیصلہ کرے گا،لہذا آپ(ص) اسے لے کر امیرالمومنین علی بن ابی طالب(ع) کے پاس فیصلے کے لیے آئےعلی(ع) نے اعرابی سے پوچھا کہ تیرا مدعا کیا ہے اس نے کہا کہ ستر ردہم اونٹ کی قیمت جو کہ میں ان کے ہاتھ فروخت کیا تھا۔ علی(ع) نے پوچھا رسول خدا(ص) آپ کیا فرماتے ہیں آپ(ص) نے فرمایا کہ میں نے اس کو ادا کردیے تھے۔ علی(ع) نے کہا اے اعرابی کیا یہ سچ نہیں کہتے اعرابی نے کہا یہ ٹھیک نہیں ہے میں نے وصول نہیں کیے ۔ علی(ع) نےتلوار نکالی اور اس کا سر اڑا دیا رسول خدا(ص)نے فرمایا علی(ع) یہ کیا،کیا جناب امیرالمومنین(ع) نے فرمایا یا رسول اﷲ(ص) اس نے آپ(ص) کی تکذیب کی اور جو کوئی

۱۰۴

آپ(ص) کی تکذیب کرے اسکا خون حلال ہے پیغمبر(ص) نے فرمایا اےعلی(ع) جان لو کہ جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا تیرا فیصلہ حکم خدا کے مطابق ہے لیکن دوبارہ ایسا مت کرنا۔

امام صادق(ع) اور عصمتِ انبیاء(ع)

۳ـ          علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے پوچھا کہ کس کی گوہی وول کی جائے ور کس کی گوہی قول نہکی جائے ، امام(ع) نے فرمایا اے علقمہ جو شخص فطرت اسلام پر ہو اس کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے علقمہ کہتے ہیں میں نے پوچھا کیا گناہ گار کی گواہی بھی قابل قبول ہے تو فرمایا اگر قبول نہیں کرو گے تو پھر صرف انبیاء(ع) اور اوصیا(ع) ہی گواہی دیں گے جو کہ معصوم ہیں اور جب تک گناہ گار کے گناہ کو آنکھوں سے خود نہ دیکھو لو یا دو ایسے آدمی جوکہ اہل عدالت اور آبرومدن ہوں گواہی نہ دیں یقین مت کرو ور وہ شخص جسکا گناہ چھپا ہوا ہے( یعنی اس کے گناہ کے گواہ نہیں) کے گناہ کی غیبت جو کوئی بھی کرے گناہ گار ہے اور خدا سے کٹ گیا ہےاور شیطان سے پیوستہ ہے میرے والد(ع) نے اپنے والد(ع) سے روایت کیا اور مجھ سے بیان کیا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی کسی مومن کی غیبت کرے گا تو خدا ان دونوں کو بہشت میں اکھٹا نہیں کرے گا اور جو کوئی کسی ایسی برائی کو کسی مومن کی طرف منسوب کرے جو اس میں نہ ہو تو ان دونوں کے درمیان سے عصمت قطع ہوجائے گی یہ غیبت کرنے والا ہمیشہ دوزخ میں رہے گا اور یہ کیا برا انجام ہے، علقمہ نےکہا  اے فرزند رسول(ص) لوگ ہمیں بڑے گناہوں سے منسوب کرتے ہیں ہمارے دل ان سے تنگ ہیں، فرمایا اے علقمہ لوگوں کی پسند کو اپنی کمزوری سمجھ اور اپنی زبان کو کمزوری کی وجہ سے ضبط کر تم کس طرح بچ سکتے ہو اس چیز سے  کہ جس سے پیغمبران خدا نہ بچ سکے اور نہ اس کے رسول اور نہ اس کی حجتیں کیا یوسف(ع) کو زنا سے متہم نہیں کیا گیا، اور کیا ایوب(ع) کو مصیبت میں مبتلا ہونے پر گناہ سے متہم نہیں کیا گیا، داؤد(ع) کو متہم نہ کیا گیا کہ ایک پرندے کے پیچھے گئے  یہاں تک کہ اوریا کی بیوی کو دیکھا اور اس کے عاشق ہوگئے اور اس کے شوہر کو تابوت کے آگے بھیجا یہاں تک کہ قتل ہوگئے اور اس کی بیوی سے شادی کرلی کیا موسی(ع) کو متہم نہ کیا کہ عنین (نامرد) ہے اور ان کو آزار دیا مگر خدا نے انکو ان تمام سے بری کیا یہ تمام پیغمبر

۱۰۵

خدا کے نزدیک آبرومند تھے لیکن کیا ان تمام انبیاء(ع) کو متہم نہ کیا گیا کہ جادوگر ہیں دنیا طلب ہیں مریم بنت عمران(ع) کو متہم نہ کیا کہ ایک بنجارے مرد یوسف سے حاملہ ہوئی ہے ہمارے پیغمبر(ص) کو متہم نہ کیا گیا کہ شاعر و دیوانہ ہے، کیا آپ(ص) کو متہم نہ کیا گیا کہ زید بن حارثہ کی بیوی کا عاشق ہوا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس کو اپنے نکاح میں لے آئے، کیا روزِ بدر آپ کو متہم نہ کیا گیا کہ ایک چادر سرخ کو اپنے لیے غنیمت سے لیا یہاں تک کہ خدا نے اس مخمل کی چادر کو عیاں کیا اور ان کو بری کیا خیانت سے اور قرآن میں نازل کیا کہ وہ پیغمبر نہیں ہے کہ جو غنیمت سے چوری کرے جو کوئی غنیمت سے چوری کرے گا وہ روزِ قیامت اسی میں جکڑا ہوا ہوگا کیا متہم نہ کیا کہ ابن عمش علی(ع) کے بارے میں ہوائے نفس سے بات کرتا ہے یہاں تک کہ خدا نے ان کی تکذیب کی اور فرمایا ” کہ وہ ہوائے نفس سے بات  نہیں کرتا بیشک وہ وحی ہوتی ہے جو اس کو پہنچتی ہے(نجم) اور اس کو متہم نہ کیا کہ یہ اپنے جھوٹ سے رسول خدا(ص) کو جھوٹا جانتے ہیں یہاں تک کہ خدا نے ان کو وحی بھیجی” کہ تم سے پہلے رسولوں کی بھی تکذیب کی گئی اور انہوں نے اپنی تکذیب پر صبر کیا اور آزردہ ہوئے یہاں تک کہ ان کو خدا کی مدد آپہنچی“ (انعام، ۲۴) اور جب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ مجھے کل رات خدا آسمان پر لے گیا تو کہا گیا کہ تمام رات یہ اپنے بستر سے تو اٹھے نہیں پھر کیسے آسمان پر گئے ہیں، اور اب جو کچھ اوصیاء کے بارے میں کہتے ہیں، کیا اس سے پہلے سید الاوصیاء کو متہم نہیں کرتے رہے کہ اپنی خاطر لوگوں کا خون گرارہے ہیں( جمل و صفین) جب کہ چاہتا ہے کہ ابوجہل کی بیٹی کو فاطمہ(س) پر سوتن لے آئے۔ تو رسول خدا(ص) نے ان لوگوں کی تکذیب میں کہا کہ فاطمہ(س) میرے بدن کا ٹکڑا ہے جو کوئی اس کو آزار دے گا اس نےمجھے آزار دیا جوکوئی اس کو غضبناک کرے گا اس نے مجھے غضبناک کیا۔

پھر امام صادق(ع) نے فرمایا اے علقمہ لوگ کیسی کیسی عجیب باتیں علی(ع) کے بارے میں کرتے ہیں ایک گروہ ان کومعبود جانتا ہے تو دوسرا گناہ گار، معبود رکھنے اور ان (علی(ع)) پر ربوبیت کی تہمت سے زیادہ آسان ان کی معصیت ہے۔ اے علقمہ وہ (لوگ) عقیدہ،تثلیث کے قائل تو نہیں ہیں مگر ان (علی(ع)) کو خلق بھی نہیں مانتے کبھی کہتے ہیں کہ وہ اﷲ کا جسم ہیں، کبھی انہیں آسمان

۱۰۶

 کہتے ہیں ،کبھی کہتے ہیں کہ صورت ہے۔ اے علقمہ اﷲ کی ذات ان تمام سے نہایت بلند ہے۔ جو لوگ خدا کولائق نہیں جانتے وہ تیری عزت کیسے کریں گے۔ بس تم یہ کرو کہ جس چیز کو تم برا جانتے ہو اس سے دور رہو خدا سے مدد طلب کرو اور صابر رہو بےشک یہ زمین خداکی ہے اور وہ جسے چاہتا ہےدیتا ہے اور اس کا وارث بناتا ہے عافیت متقیوں کے لیے ہی ہے، بنی اسرائیل نے بھی موسیٰ(ع) سے کہا تھا کہ تم سے پہلے بھی ہم مصیبت میں تھے اور اب بھی مصیبت میں ہیں خدا فرماتا ہے” کہو اے موسیٰ(ع) امید ہے ( خدا) دشمنوں کو نابود کردے اور تم کو زمین میں اس کی جگہ لے آئے اور دیکھے کہ تم کیا کام کرتے ہو“۔

آںحضرت(ص) کے قتل کا منصوبہ

۴ـ          امام علی بن حسین(ع) نے فرمایا کہ ایک دن رسول خدا(ص) گھر سےباہر تشریف لائے اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد فرمایا مجھے خبرملی ہےکہ تین اشخاص نے میرے قتل کے لیے لات و عزی کی قسم کھائی ہے رب کعبہ کی قسم وہ جھوٹے ہیں۔اے لوگو تم میں سے کوئی ہے جو ان سے میرا دفاع کرے کسی طرف سے جواب نہ پاکر رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو طلب کیا جو کہ بخار کی وجہ سے گھر میں استراحت فرمارہے تھے عامر بن قتادہ گئے اور انہیں بلا لائے۔ امیرالمومنین(ع) اسطرح تشریف لائے کہ ایک ہتھیار جس کے دو گوشے تھے گردن میں حمائل تھا علی(ع) نے رسول خدا(ص) سے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) یہ کیسی خبر ہے، جو میں سنتا ہوں آپ(ص) نےفرمایا علی مجھے خدا کے  پیامبر( جبریل(ع)) نے اس کی خبر دی ہے۔ علی(ع) نے فرمایا یا رسول اﷲ(ص) مجھے اجازت دیں میں تنہا ان کے سامنے جاؤںگا۔ رسول خدا(ص) نے اپنی رزہ علی(ع) کو پہنائی۔اپنی تلوار ان کے آراستہ کی اپنی پوشاک ان کو زیب تن کروائی اور اپنا عمامہ ان کے سر پر رکھ کر اپنے گھوڑے پر ان کو سوار کروایا۔امیرالمومنین(ع) گئے تین دن تک ان کی کوئی خبر نہ آئی یہاں تک کہ جبرائیل(ع) بھی ان کی کوئی خبر نہ لائے فاطمہ(س) دونوں بچوں حسن(ع) اور حسین(ع) کو ساتھ لے کر رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا بابا کیا یہ دونوں بچے بن باپ کے ہوگئے ہیں یہ سن کر پیغمبر(ص) کی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے اور فرمایا جو کوئی مجھے علی(ع) کی خبر دے گا میری طرف

۱۰۷

 سے اسے بہشت کی بشارت ہے۔ یہ سن کر لوگوں کوجدھر کا راستہ ملا چل پڑے یہاں تک کہ پیغمبر(ص) کو غمزدہ دیکھ کر بوڑھی عورتیں بھی علی(ع) کو ڈھوںڈنے نکل گئیں۔

اسی اثناء میں عامر بن قتادہ واپس آئے اور آںحضرت(ص) کو علی(ع) کی واپسی کی خوشخبری سنائی جب کہ اسی دوران جبرائیل(ع) بھی حضور(ص) کو اطلاع پہنچا چکے تھے۔ لہذا امیرالمومنین(ع) تین اونٹوں دو گھوڑوں اور دو اسیروں کو ساتھ لے کر پہچن گئے رسول خدا(ص) نے استقبال کے بعد فرمایا اے علی(ع) تمہاری غیر حاضری میں منافقین نے آزار دینے والی باتیں پھیلائی ہیں لہذا جو بیتی ہے وہ تم خود سناؤ تاکہ یہ لوگ گواہ رہیں۔ عل(ع) نے بیان کیا یا رسول اﷲ(ص) جب میں آپ(ص) کے پاس سے روانہ ہو کران کی وادی میں پہنچا تو دیکھاا کہ یہ تینوں اونٹوں پر سوار ہیں انہوں نے مجھے آوازدی  کہ تم کو ن ہو میں نے انہیں بتایا میں علی ابن ابی طالب(ع) برادر رسول خدا(ص) ہوں یہ کہنے لگے کہ ہم کسی رسول کو نہیں جانتے تیرا قتل اور محمد(ص) کا قتل ہمارے لیے برابر ہے۔یا رسول اﷲ(ص) یہ جو اشخاص میں اپنے ہمراہ لایا ہوں ان میں سے ایک کے  ساتھ میرا مبارزہ شروع ہوگیا۔ اس کے اور میرے درمیان چند داؤد پیچ کا رد و بدل ہوا تھا کہ یکا یک ایک سرخ آندھی نے ہمیں آگھیرا اسی آندھی سے آواز سنائی دی جو یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) کی تھی کہ اے علی(ع) میں نے اس کی زرہ کا گریبان پکڑ رکھا ہے تم اس کے بازو اور اس کے شانے پر ضرب لگاؤ۔ میں نے ایسا ہی کیا مگر اس ضرب کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا اس کے بعد یکا یک سرخ آندھی تھم کر زرد آندھی چلنا شروع ہوگئی اور آپ(ص)  کی آواز مجھے پھر سنائی دی کہ اس کی ران پر اپنی زرہ اتار کر مارو میں نے ایسا ہی کیا اور اس ضرب سے ان کی ران کو قطع کردیا ۔ اگلے حملے میں میں نے اس کا سر قلم کر دیا اور اس کے جسم سے دور پھینک دیا باقی دو مردوں نےمجھ سے کہا کہ جنگ روک دو ہم نے سنا ہے کہ تمہارا رفیق مہربان و دلسوز ہے۔ ہمیں اس کےپاس لے جاؤ اور ہمارے قتل میں جلدی نہ کرو جس کو تونے قتل کیا ہے ہمارا سردار تھا اور ایک ہزار پہلوانوں پر بھاری تھا لہذا یا رسول اﷲ(ص) میں انہیں لے کر آگیا ہوں۔

رسول خدا(ص) نے یہ سننے کے بعد فرمایا اے علی(ع) آندھی کے دوران جو پہلی آواز تم نے سنی وہ جبرائیل(ع) کی تھی اور دوسری میکائیل کی تھی ان دونوں مردوں میں سے ایک کو آگے کرو جب وہ آگے

۱۰۸

 بڑھا تو رسول اﷲ(ص) نے فرمایا کہو لا الہ الا اﷲ اور میری رسالت کی گواہی دو وہ بولا کوہ ابوقبیس کو کھود ڈالنا آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ یہ اعتراف کروں کہ آپ(ص) نے علی(ع) کو حکم دیا کہ اس کی گردن اڑا دو مگر قبل اس کے دوسرے کو پیش کرو جب وہ آیا تو اسے بھی یہی کہا گیا مگر اس نے بھی انکار کیا، علی انہیں لے کر پیچھے چلے تاکہ بحکم رسول(ص) ان کی گردنیں اڑا دیں تو جبرائیل تشریف لائے اور بتایا کہ اے محمد(ص) خداوند آپ کو سلام فرماتا ہے  اور حکم دیتا ہے کہ ان کو قتل نہ کرو کیونکہ یہ اپنے قبیلے میں خوش خلق اور سخی ہیں آپ(ص) نے علی(ع) کو روک دیا ان اشخاص نے رسول خدا(ص) سے کہا کہ کیا یہ خبر آپ(ص) کو آپ(ص) کے خدا نے بتائی ہے کہ ہم سخی و خوش خلق ہیں، آپ(ص) نے فرمایا ہاں یہ سن کر وہ نہایت متاثر ہوئے اور قبول اسلام کے بعد انہوں نے رسول اﷲ(ص) کو بتایا کہ اپنے بھائی کے مقابلے میں ہم ایک درہم کی وقعت بھی نہ رکھتے تھے اور یہ کہ جنگ عبوس ہم نے نہیں کی امام علی بن حسین(ع)نے اس کے بعد فرمایا کہ یہ حسن خلق اور سخاوت ہی تھی جو ان کو بہشت کی طرف کھینچ لائی۔

۱۰۹

مجلس نمبر۲۳

(۳ شوال کی شب سنہ۳۶۷ھ)

۱:ـامام صادق(ع) نے اپنے اجدادسے روایت کی ہے کہ جب امیرالمومنین(ع) ایک قبرستان سے گزرے تو فرمایا اے خاک نشینو (اہل تربت) اے آوارگان(اہل غربت) دوسرے لوگ تمہارے گھروں کو استعمال میں لے آئے ہیں اور انہوں نے تمہاری عورتوں سے شادیاں کرلی ہیں اور تمہارے اموال تقسیم کرلیے ہیں یہ ہیں خبریں ہمارے پاس تمہارے پاس ہمارے لیے کیا خبریں ہیں پھر منہ اپنے اصحاب کی طرف چہرہ کیا اور فرمایا اگر یہ بات کرنے کی اجازت رکھتے تو تم کو خبر دیتے کہ بہترین توشہ تقویٰ ہے۔

۲ـ امام صادق(ع) نے اپنے آباء(ع) سے روایت کیا کہ حضرت علی(ع) نے فرمایا کوئی دن اولادِ آدم(ع) پر ایسا نہیں گزرتا کہ ان کو نہ کہا جائے کہ اے پسر آدم میں نیا دن ہوں، اورتم پر گواہ ہوں مجھ میں بہتر کہو اور بہتر کرو تاکہ روزِ قیامت تمہارے لیے گواہی دوں میرے جانے کےبعد تم ہرگز مجھے نہیں دیکھو دگے۔

۳ـ جنابِ علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا مسلمان تین دوست رکھتا ہے ایک اس سے کہتاہے کہ میں تیری زندگی اور موت میں تیرے ساتھ ہوں اور وہ اس کا عمل ہے، دوسرا کہتا ہے کہ تیری موت کے وقت تک تیرے ساتھ ہوں وہ اس کا مال ہے کہ جب انسان مرگیا تو اس کے مال کا وارث کوئی اور ہے، تیسرا کہتا ہے میں تیرے ساتھ صرف قبر کے کنارے تک ہوں اور پھر تجھے چھوڑ دوں گا وہ اس کا فرزند ہے۔

۴ـ جنابِ علی(ع) نے فرمایاکوئی شخص اپنی موت کو حق کیساتھ نہیں پہچانتا اس لیے کہ اسے علم نہیں کہ موت کے بعد زندگی کے بارے میں کیسا حساب ہونے والا ہے۔

۵ـ جناب امیرالمومنین(ع) نے بصرہ میں خطبہ پڑھا خدا کی حمد و ستائش اور نبی(ص) پر درود بھیجنے کے بعد فرمایا! چاہے کسی کی عمر طویل ہو یا مختصر زندگی کے لیے عبرت ہے اور مردہ کی نصیحت زندہ شخص کے لیے  یہ ہے کہ جو دن گزر گیا وہ واپس نہیں آئے گا اور جو آنے والا ہے اس پر بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی حال اور مستقبل جو کہ ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہیں روزِ حساب علیحدہ علیحدہ ہو جائیں گے موت تمام پر غالب ہے اس دن تمام اعمال سامنے لائے جائیں گے اور مال اور اولاد

۱۱۰

سے اس دن فائدہ نہیں پہنچا سکے گا سوائے اس کے کہ نیک اعمال انجام دیئے جائیں، پھر آپ(ص) نے فرمایا اے میرے شیعو صبر کرنا اس کردار پر کہ نیکی کر کے اس کے ثواب سے بے نیاز ہو جاؤ کہ ایسے پر عذاب نہیں ہے۔ اطاعت خدا صبر کرنا آسان تر ہے بہ نسبت اس کے کہ عذاب کے خوف پر صبر کر لیا جائے۔ جان لو کہ انسان کی عمر محدود ہے مگر وہ اپنی آرزوئیں بلند رکھتا ہے اور اپنے نفس کے تابع ہے اور جان لو کہ جو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اس کی عمر ناچاری میں بسر ہوتی ہے یہ فرما کر جنابِ امیر (ع) کی  آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے اور آپ(ع) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ” اور بیشک محافظ تم پر نگران ہیں کراما کاتبین کہ وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو“

۶ـ امیرالمومنین(ع) نے فرمایا تمام خیر تین خصلتوں میں جمع ہے نظر میں سکوت میں اور کلام میں، ہر وہ نظر جو بے عبرت ہو سہو ہے، ہر وہ خاموشی جو بے فکر ہو وہ غفلت ہے اور ہر وہ بات جس میں ذکر خدا نہ ہو لغو ہے، خوش قسمت ہے وہ بندہ جس کی نظر میں عبرت اور جس کی خاموشی میں فکر اور جس کی بات میں ذکرِ خدا ہو جو اپنے گناہوں پر گریہ کرے اور لوگ اس کےشر سے محفوظ رہیں۔

۷ـ امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین(ع) نے فرمایا پانچ مواقع پر دعا کو غنیمت سمجھ، قرآن پڑھنے کے وقت، اذان کے وقت اور بارش آنے کے وقت اور دشمن پر حملہ کے وقت جب دونوں طرف سے صفیں قائم ہوں قصدِ شہادت کے لیے ( حق و باطل کی معرکہ آرائی کے وقت) اور اس وقت  کہ جب مظلوم پکارے۔ ان اوقات میں دعا سیدھی پردہ عرش تک  جاتی ہے۔

۸ـ      جنابِ امیر(ع) نے فرمایا غفلت زدہ انسان لباس خریدتے ہیں کہ اس کو زیب تن کریں جب کہ اصل لباس کفن ہے، بہترین گھر بناتے ہیں تاکہ اس میں رہیں جبکہ اصل گھر قبر ہے آپ(ع) سے پوچھا گیا کہ ایسی کیا چیز ہے جو موت کا خوف نہیں رہنے دیتی ، آپ(ع) نےفرمایا حرام سے کنارہ کشی اور اعمال صالح کو انجام دینے سے موت کو خوف نہیں رہتا پھر فرمایا کہ خدا کی قسم ابن ابی طالب(ع) کو کوئی پرواہ نہیں کہ موت اس پر آپڑے یا وہ موت کو پالے جنابِ امیر(ع) نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا اے لوگو! بیشک دنیا نہ رہنے والا گھر ہے جبکہ آخرت زندگی کا گھر  ہے اپنی گذرگاہ کے لیے توشہ لے لو اور کسی کے راز کو جو تمہارے سینے میں ہے عیاں نہ کرو اپنے دلوں کو دنیا سے جدا رکھو اس سے پہلے کہ یہ تمہیں تنہا و جدا کردے ( دین سے) اور تم محتاج ہوجاؤ ، تم آخرت کے لیے پیدا ہوئے ہو دنیا زہر کی طرح ہے کہ بندہ اس کو کھاتا ہے مگر پہچانتا نہیں اور موت آگھیرتی ہے فرشتے کہتے ہیں کہ تم نے آگے کیا بھیجا جب کہ تم کہتے ہو کہ تم نے پیچھے کیا چھوڑا اپنے کاغذ عیش سے مت بھرو اور برائی کو نظر انداز مت کرو کہ تمہارے نقصان دہ ہے محروم وہ بندہ ہے کہ جس نے راہ صراط کو چھوڑ دیا ہو تم

۱۱۱

اس بندے پر رشک کرو،جس نے اپنے مال سے صدقات اور راہ خدا میں خرچ کیا اور جس کا بستر بہشت میں لگا ہے۔

۹ـ           رسول خدا(ص) نے فرمایا امام میرے بعد بارہ ہوں گے کہ پہلے اے علی(ع) تم ہو اور آخری امام قائم ہے کہ خدا  اس کے ہاتھ پر مشرق و مغرب کی زمینوں کو فتح کرے گا۔

۱۰ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ لوگوں نے جنابِ رسول خدا(ص) کے اس فرمان کو بھلا دیا جو کہ انہوں نے جنابِ امیر(ع) کے بارے میں اس وقت ارشاد فرمایا تھا جب کہ آپ(ع) حجرہ ام ابراہیم میں تشریف فرماتھے۔ اور یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح غدیر خم کے فرمان کو بھلا دیا گیا ہے۔

امام(ع) نے فرمایا کہ آںحضرت(ص) حجرہ ام ابراہیم میں تشریف فرما تھے اور اصحاب بھی آپ(ص) کے ساتھ موجود تھے ناگاہ جنابِ امیر المومنین(ع) تشریف لائے تو اصحاب نے جنابِ امیر(ع) کے لیے جگہ نہ چھوڑی، جنابِ رسول خدا(ص) نے یہ ماجرا دیکھا تو فرمایا۔ اے لوگو! یہ میرے اہل بیت(ع) ہیں جب کہ تم انہیں احترام دینے میں مانع ہو۔ میں ابھی زندہ ہوں اور تمہارے درمیان موجود ہوں۔ تم آگاہ ہو جاؤ کہ خدا کی قسم اگر میں تمہارے درمیان نہ بھی رہوں تب بھی خدا تو موجود ہوگا وہ تمہیں دیکھ رہا ہوگا ۔ تہنیت و بشارت اس بندے کے لیے ہے جو علی(ع) کی پیروی کرئے گا۔ اس سے محبت رکھے گا اور اس کی اولاد میں سے ( منصوص) اوصیاء(ع) کے سامنے سر تسلیم خم کردے گا۔ یہ مجھ پر واجب ہے کہ میں ایسے بندے کو اپنی شفاعت مٰیں داخل کروں۔ ایسا بندہ جو علی(ع) اور اولاد علی(ع) کے اوصیاء(ع) کی پیروی و اتباع کرے گا وہ یوں شمار ہوگا کہ گویا اس نے میری پیروی و اتباع کی وہ بندہ یقینا مجھ سے ہے۔ یہ سنت ابراہیم(ع) ہے جو کہ ہمارے لیے قائم کی گئی ہے۔ میں ابراہیم سے ہوں اور ابراہیم مجھ  سے ہیں میرا فضل ان کا فضل اور انکی فضیلت ہے جبکہ میں ان ( ابراہیم(ع)) سے افضل ہوں جس کی تصدیق یہ قول خدا ہے کہ” بعض بعض کی ذریت سے ہیں  اور خدا سننے والا اور علم رکھنے والا ہے۔“ ( آل عمران، ۳۳)

امام(ع) فرماتے ہیں کہ آنحضرت(ص) کی حجرہ ام ابراہیم میں تشریف فرما ہونے کا سبب یہ تھا کہ آپ(ص) کے پاؤں مبارک پر زخم آگیا تھا جب کہ ہڈی کو کوئی گزند نہ پہنچا  تھا اور اس وقت لوگ آپ کی عیادت کی غرض سے جمع تھے۔

وصلی اﷲ علیٰ سيدنا محمد وآل الطيبين الطاهرين

۱۱۲

مجلس نمبر۲۴

(۴ شوال سنہ۳۶۷ھ )

شہادت حسین(ع) کی خبر

۱ـ           ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا جب روز قیامت ہوگا تو عرش رب العالمین کو ہر زینت دینے والی چیز سے زینت دی جائے گی اور اسے آراستہ کیا جائے گا اورنور کے دو منبر لائے جائیں گے کہ ہر ایک کا طول سو میل ہوگا ایک کو عرش کے دائیں طرف رکھا جائے اور دوسرے کو عرش کے بائیں طرف پھر حسن(ع) ایک منبر تشریف فرما ہوں گے اور حسین(ع) دوسرے پر تشریف رکھیں گے پروردگار اپنے عرش کو ان سے زینت دے گا جیسا کہ عورت اپنے دونوں کانوں میں گوشوارے پہن لیتی ہے۔

۲ـ           ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن میں رسول خدا(ص) کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ امام حسن(ع) آئے رسول خدا(ص) نے جب ان کو دیکھا تو گریہ کیا اور پھر فرمایا میرے پاس آؤ اے میرے بیٹے پھر ان کو اپنے نزدیک کیا اور اپنے دائیں زانو پر بٹھا دیا پھر حسین(ع) آئے ںحضرت(ص) نے جب ان کو دیکھا تو گریہ کیا اور کہا آؤ آؤ میری جان میرے بیٹے ان کو بھی اپنے نزدیک بلایا اور بائیں زانو پر بٹھا دیا پھر جنابِ فاطمہ(س) آئیں جب انہیں دیکھا تو گریہ کیا پھر انہیں اپنے برابر بٹھا دیا اور پھر امیر المومنین(ع) آئے ان کو بھی جب دیکھا تو گریہ کیا ان کو بھی اپنے پاس طلب کیا اور اپنے دائیں پہلو میں بٹھایا ابن عباس کہتے ہیں میں نے کہا یا رسول اﷲ(ص) آپ نے ان میں سے جس کسی کو بھی دیکھا گریہ کیا کیا آپ(ص) کے لیے ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا کہ آپ کو دیکھ کر خوش ہوتے، فرمایا خدا کی قسم کہ جس نے مجھے حق کے ساتھ نبوت عطا کی اور تمام لوگوں پر مجھے  برگزیدہ کیا یہ سب گرامی ترین خلق ہیں خدا نزدیک اور روئے زمین پر کوئی ایسا آدمی نہیں ہے کہ ان سے زیادہ میرا محبوب ہو علی ابن ابی طالب(ع) میرا بھایی ہے میرا مددگار ہے اور میرے بعد صاحب امر ہے ۔ میرے لوا کو اٹھانے والا ہے

۱۱۳

اور دنیا و آخرت میں میرے حوض کا صاحب اور ہر مسلمان کا مولی و سردار ہے ہر مومن کا امام ہے اور ہر متقی کا قائد ہے وہ میرا وصی و خلیفہ میرے خاندان اور میری امت پر ہے میری زندگی میںاور میری موت کے بعد بھی اس کو دوست میرا دوست ہے اس کا محب میرا محب ہے اس کا دشمن میرا دشمن ہے اس کی ولایت سے میری امت رحمت میں ہے اور جو کوئی بھی اس کا مخالف ہے وہ ملعون  ہے اور جب یہ (علی(ع)) آئے تو میں نے اس لیے گریہ کیا کہ مجھے یاد آیا کہ میرے بعد میری امت اس کے ساتھ غداری ودغا و مکر کرے گا اور اس کو مسند خلافت سے ہٹایا جائے گا جس کے لیے میں نے اس کو مقرر کیا ہے میرے بعد لوگ انہیں مصیبت میں گرفتار کردیںگے یہاںتک  کہ اس کے سر میں تلوار سے ضرب لگائی جائے گی اور ان کی ڈاڑھی خون سے خضاب و رنگین ہوجائے گی اس بہتریں مہینہ کے اندر جس کو ماہ رمضان کہتے ہیں جبکہ خدا نے اس مہینہ میں قرآن کا نازل کیا ہے لوگوں کی ہدایت کے لیے اور یہ کھلی گواہی( دلیل) ہے حق و باطل میں فرق کرنے کےلیے اور میری بیٹی فاطمہ(س) جو اولین و آخرین کی عورتوں کی سردار ہے اور میرے بدن کاٹکڑا ہے اور میری آنکھوں کا نور ہے اور میرے دل کا ثمر ہے اورمیری روح ہے، میرا مرکز ہے میرا پہلو ہے، حوریہ انسیہ ہے، اور ہر وقت محراب عبادت میں اپنے پروررفگار کے سامنےکھڑی رہتی ہے اس کا نور آسمان کے فرشتوں کو روشن کردیتا ہے جس طر چاند ستاروں کا نور زمین کو روشن کرتا ہے اور خدا اپنے فرشتوں کو فرماتا ہے میرے فرشتو میری کنزی فاطمہ(س) کو دیکھو کہ میرے سامنے کھڑی ہے اس کا دل مریے خوف سے لرزتا ہے اور میری عبادت میں مصروف ہے گواہ رہو کہ اس کے شیعوں کو میں نے دوزخ سے امان دی ہے لہذا جب میں ( محمد(ص)) نے اس کو دیکھا تو مجھے یاد آیا کہ میرے بعد امت کے لوگ اس کے ساتھ کیا سلوک کریں گے اس کے گھر کو گرائیں گے اس کی حرمت کو زیر پاء کریں گے اس کے حق کو غصب کیا جائیگا اس کی وراثت کو ممنوع کردیا جائے گا اس کا پہلو شکستہ کیا جائیگا یہاں تک کہ اس کا جنین ساقط ہوجائےگا یہ فریاد کرے گی یا محمداہ مگر اس کو جواب نہیں ملے گا یہ استغاثہ کرےگی مگر کوئی اس کی مدد نہیں کرےگا میرےبعد یہ ہمیشہ پریشان اور غم زدہ رہے گی اور مصیبت میں گرفتار روتی  رہے گی اس کو یاد آئے گا کہ وحی اس کے گھر سے منقطع ہوگئی ہے، میری جدائی کے

۱۱۴

صدمے سے یہ خوف زدہ ہوجایا کرے گی اور مجھ جیسے شفیق باپ جس کا یہ مرکز تھی کو یاد کر کے غمزہ ہو جائے گی تب خداوند اس کے ساتھ فرشتوں کو مانوس کرےگا اور بالکل اسی طرح جس طرح یہ مریم بن عمران کو ندا کرتے تھے کہیں گے کہ فاطمہ(س) خدا نے تجھے برگزدیدہ کیا تمام عالمین کی عورتوں سے اور تجھے پاک کیا اے فاطمہ(س) قنوت پڑھو اور رکوع و سجود کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو، اس کے بعد اس کی بیماری کا آغاز ہوگا تب خدا مریم بنت عمران کو بھیجے گا جو بیماری میں ان کی انیس ہوں گی اور ان کی تیمار داری کریں گی فاطمہ(س) اس مقام پر کہیں گی اے پروردگار میں اس زندگی سے تنگ آگئی ہوں اور اہل دنیا سے ملول ہوں مجھے میرے والد(ص) تک پہنچا دے یا اے خداندا انہیں مجھ تک پہنچا دے یہ وہ پہلی فرد ہوں گی جو میرے دنیا سے جانے کے بعد میرے خاندان سے مجھے آکر ملیں گی اور اس حال میں کہ مخزون و گرفتار بلا اور شہید مجھ تک وارد ہوں گی  اس وقت میں خدا سے درخواست کروں گا کہ خدایا لعنت کر اس شخص پر کہ جس نے اس پر ظلم کیا ہے اور سزا دے پر اس  شخص کو کہ جس نے ان کا حق غصب کیا ہے اور خوار  کر اس بندے کو جس نے ان کو خوار کای ہے اور اسے ہمیشہ کے لیے جہنم رسید کردے جنہوں نے اس کے پہلو پر دروازہ گرایا ہے جس سے اس کا جنین ساقط ہوا ہے میری اس دعا پر ملائکہ آمین کہیں گے پھر حسن(ع)  یہ میرا بیٹا میرا فرزند ہے یہ میرےبدن کا ٹکڑا اور میری آنکھوں کا نور، میرے دل کو روشنی اور میرے دل کا ثمر(میوہ) ہے وہ جوانانَ بہشت کا سردار ہے اور خدا کی حجت ہے میری امت پر اس کا امر میرا امر ہے اور اس کا قول میرا قول ہے جو کوئی اس کی پیروی کرے گا اس نے میری پیروی کی جو کوئی اسکی نافرمانی کرے  گا گویا اس نے میری نافرمانی کی جب میں نے اس کو دیکھا تومجھے یاد آیا کہ میرے بعد اس کی اہانت کی جا ئے گی میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اس پر کھلم کھلا ستم کریں گے اور اس کے دشمن اس کو قتل کردیں گے اس وقت سات آسمانوں کے فرشتے اس کی موت پر گریہ کریں گے اور تمام چیزیں یہاں تک کہ پرندے اور دریا کی مچھلیاں بھی اس پر گریہ کریں گی جو آنکھ اس پر گریہ کرے گی وہ اس دن دندھی نہ ہوگی کہ جس دن دوسری آنکھیں اندھی ہوں گی اور جوکوئی اس پر مخزون ہوگا تو اس دن جس دن تمام دل مخزون ہون گے وہ مخزون نہ ہوگا اور جوکوئی بقیع میں اس کی زیارت کرے گا تو اس کے قدم پل صراط

۱۱۵

پر مضبوط ہون گے۔ اس دن کہ جس دن تمام لغزش کھا رہے ہوں گے اور اس کے بعد حسین(ع)، حسین(ع) مجھ سے ہے اور میرا فرزند ہے اور بہتریں خلق ہے اپنے بھائی کے بعد مسلمانوں کا امام ہے اور مومنین کا ولی ہے اور عالمین پر خدا کا خلیفہ ہے وہ غیاثِ مستغیثین و امان طلب کرنے والوں کی پناہ اور تمام خلق پر خدا کی حجت ہے۔ وہ جوانان بہشت کا سردار اور نجات کا دروازہ ہے اس کا امر میرا امر ہے اور اس کی اطاعت میری اطاعت ہے جو اس کی پیروی کرتا ہے اس نےم میری پیروی کی ہے اور کوئی اسکی نافرمانی کرے اس نے میری نافرمانی کی جب میں نے اس کو دیکھا تو مجھے یاد آگیا کہ میرے بعد اس کے ساتھ کیا کیا جائے گا میں دیکھاہوں کہ میں جو اپنے حرم اور اپنے قرب میں لوگوں کو پناہ دینے والا ہوں اسی کے فرزند کو پناہ نہ دی جائے گی۔

میں اس کو خواب میں اپنی آغوش میں لوں گا اور اپنے سینے سے لگاؤں گا اور حکم دونگا کہ میرے گھر سے ہجرت کر لیں میں اس کو شہادت کی بشارت دوں گا کہ اس جگہ سے کوچ کریں اس زمین کی طرف جوکہ اس کی قتل گاہ ہے، زمین کرب و بلا و قتل و رنج جہاں ایک گروہ مسلمین اس کی مدد کرے گا یہ سردار شہداء امت ہے ، روز قیامت میںاس کو ایسے دیکھتا ہوں کہ یہ تیر کھانے کے بعد اپنے گھوڑے سے زمین پر گرا ہے اور جیسے گوسفند کے سر کومظلومانہ کاٹا جاتا ہے اس کا سرکاٹ دیا جائے گا، پھر رسول خدا(ص) نے گریہ کیا اور وہ تمام بندےبھی جو آپ کے پاس جمع تھے رونے لگے اور صدائے شیون بلند ہوگئی آںحضرت(ص) اٹھے اور فرمایا خدا یا میں تجھ  سے شکایت کرتا ہوں اس کی جو میرے اہل بیت(ع) سےمیرے بعد کیا جائے گا اور پھر اپنے گھر کے اندر تشریف لے گئے۔

۳ـ          مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ ان کے جد(ع) نے فرمایا کہ ایک دن حسین بن علی(ع) امام حسن(ع) کے پاس تشریف لے گئے اور گریہ کیا امام حسن(ع) نے فرمایا اے ابو عبداﷲ(ع) تم کو کیا چیز رلاتی ہے امام حسین(ع) نےفرمایا برادر میں اس پر گریہ کرتا ہوں جو کہ آپ کے ساتھ روا رکھا جا ئے گا امام حسن(ع) نے فرمایا میرے ساتھ جو ہوگا وہ زہر ہے کہ جس کومیرے حلق سے نیچے اتارا جائے گا اور میں قتل کردیا جاؤں گا مگر اے ابو عبداﷲ(ع) ( حسین(ع)) میں اس دن کو بھی دیکھ رہا ہوں کہ جس دن تیس ہزار مرد جو کہ ہمارے جد(ص) کی امت ہونے کا دعوی کریں گے تیرے گرد گھیرا ڈال لیں

۱۱۶

گے اور تیرے قتل کے لیے اور تیرا خون گرانے، تیری حرمت کی ہتک کرنے، تیری زریت کو اسیر کرنےاور تیرا مال لوٹنے کےلیے تجھ سے جنگ کریںگے بنی امیہ لعنت کی مستحق ٹھہرائی جائے گی آسمان راکھ اور خون برسائے گا اور ہر چیز آپ(ع) پر گریہ کرے گی یہانتک  کہ بیابان کے وحشی جانور اور دریا کی مچھلیان بھی آپ پر گریہ کناں ہونگے۔

توضیع وسیلہ

۴ـ          ابوسعید خدری(رض) کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا جب بھی خدا سے کوئی حاجت طلب کرو تو اسے وسیلے کا واسطہ دے کر کرو، پوچھا گیا پیغمبر(ص) سے کہ وسیلہ کیا ہے فرمایا وہ درجہ ہے جو کہ میں بہشت میں رکھتا ہوں کہ اس کے ہزار درجے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان ایک مہینہ گھوڑا دوڑنے کی راہ کا فاصلہ ہے اور یہ درجے گوہر، زبرجد، یاقوت اور سونے چاندی کے ہیں، ان کو  قیامت میں لایا جائے گا اور میرے برابر میں رکھ دیا جائے گا اور یہ جیسا کہ چاند روشن ہوتا ہے روشن ہوں گے، اس دن کوئی پیغمبر و صدیق و شہید نہ ہوگا کہ جو کہے گا، خوش قسمت ہے وہ بندہ جو یہ درجہ رکھتا ہے تو خدا کی طرف سے ندا آئے گی کہ تمام پیغمبر اور تمام خلائق سن لو کہ یہ درجہ محمد(ص) کا ہے پھر میں آؤں گا اور نور کی قبا دفوش پر رکھوں گا او تاج ملک واکلیل کرامت علی بن ابی طالب(ع) کے سر پر ہوگا پھر لوا حمد کو میرے آگے رکھا جائے گا اس پر لکھا ہوگا” لا الہ الا اﷲ“ اور وہی فلاح پاگئے جو خدا کو پہنچ گئے۔ جب پیغمبر(ص) گزریں گے تو کہیں گے کیا یہ مقرب فرشتے ہیں کہ ہم ان کو نہیں پہچانتے اور ہم نے ان کو نہیں دیکھا اور جب فرشتے گزریں گے۔ تو کہیں گے کہ کیا یہ دنوں پیغمبر مرسل ہیں یہاں تک کہ میں اس درجے سے اوپر جاؤں گا اوو علی(ع) میرے پیچھے آئیں گے اور یہاں تک کہ میں سب سے بلند مقام پر آؤں گا اور علی(ع) مجھ سے ایک درجہ نیچے ہوگا اس دن کوئی پیغمبر و صدیق و شہید نہ ہوگا کہ کہے گا، خوش قسمت ہیں یہ دو بندے خدا کے نزدیک کہ کیسے گرامی ہیں پھر خدا کی طرف سے ندا آئے گی۔ کہ تمام پیغمبر و صدیق وشہید و مومنین یہ سن لین کہ یہ میرے حبیب محمد(ص) ہیں اور یہ میرا ولی علی(ع) ہے اور خوش قسمت ہے وہ شخص جو انہیں دوست رکھتا ہے اور اس کے لیے آج کا دن نہایت برا ہے

۱۱۷

جو ان کا دشمن ہے اس کے بعد رسول خدا(ص) نے فرمایا اس دن تیرے دوست خوش و خرم ہوں گے اور ان کے چہرے نورانی اور دل شاد ہوں گے اور وہلوگ جوتجھے دوست نہیں رکھتے ان کے چہرے اس دن سیاہ اور قدم لرزاں ہوں گے پھر ان کے  درمیان سے دو فرشتے بر آمد ہوں گے اور میرے سامنے آئیں گے ایک رضوان، کلید دار بہشت اور دوسرا مالک، کلید دار دوزخ ہوگا، رضوان میرے نزدیک ہوگا اور کہے گا میں کلید دار بہشت ہوں یہ جنت کی کنجیاں ہیں جو کہ رب العزت نے آپ(ص) کے لیے بھیجی ہیں لہذا اے احمد(ص) ان کو لے لو میں کہوں گا حمد ہے اس خدا کی جس نے مجھ پر اپنا فضل کیا میں نے اپنے پروردگار سے انہیں قبول کیا پھر یہ کنجیاں میں اپنے بھائی علی(ع) کے سپرد کروں گا۔ پھر مالک دوزخ میرے سامنے آئے گا اور کہے گا میں کلید دار جہنم ہوں یہ دوزخ کی کنجیاں ہیں جو کہ رب العزت نے آپ(ص) کے لیے بھیجیں ہیں انہیں قبول فرمائیں، میں  یہ کنجیاں بھی علی(ع) کو دے دونگا اور پھر میں اس مقام پر کھڑا ہوں گا جہاں گناہ گاروں کو جہنم رسید کیا جائے گا ( دھانہ جہنم) اس جگہ جہنم کے شرارے اٹھ رہے ہوں گے علی(ع) جہنم کی مہار تھامے ہوں گے اور دوزخ علی(ع) سے فرماتی ہوگی کہ مجھے چھوڑ دو کہ تمہارے نور سے میری آگ سرد ہوئی جاتی ہے علی(ع) فرمائینگے کہ زرا ٹھہر جا اے دوزخ اور کہیں گے کہ فلاں شخص کو پکڑ لے یہ میرا دشمن ہے اور فلاں کو چھوڑ دے کہ یہ میرا دوست ہے ۔ رسول خدا(ص) فرماتے ہیں کہ دوزخ اس دن علی(ع) کے لیے اتنی فرمانبردار اور مطیع ہوگی اور کہ جیسے ایک غلام اپنے آقا کے لیے فرمانبردار ہوتا ہے کہ آقا جیسے چاہے اسے دائیں بائیں کھینچ لے۔ اس دن بہشت بھی علی(ع) کے لیے مطیع تر ہوگی کہ اسے اپنے دوستوں کے لیے جو بھی حکم دیں گے وہ عمل کرے گی۔

صلی اﷲ علیٰ سيدنا خير خلقه محمد وآل محمدوآله اجمعين

۱۱۸

مجلس نمبر ۲۵

(۱۷ ذالحجہ سنہ۳۶۷ھ)

( یہ مجلس طوس میں زیارت گاہِ حضرت رضا(ع) پر پڑھی گئی)

ثواب زیارت

۱ـ           حسین بن یزید کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا کہ میرے فرزند موسیٰ(ع) سے ایک فرزند پیدا ہوگا جو کہ جنابِ امیر(ع) کا ہم نام ہوگا وہ زمین طوس خراسان میں زہر سے قتل کیا جائے گا اور اسی جگہ اس کی تدفین نہایت غربت کے عالم میں ہوگی تم میں سے جوکوئی بھی اس کے مقام (عظمت) کو پہچانتے ہوئے اس کی زیارت کرے گا تو خدا اس کو فتح مکہ کی راہ میں مال خرچ کرنے اور جہاد کرنے کے برابر اجر دے گا۔

۲ـ           جابر جعفی نے کہا کہ ابوجعفر(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا میرے بدن کا ایک ٹکڑا خراسان میں دفن ہوگا اور جو کوئی اس کی زیارت کرے گا تو خدا اس کی مصیبت کو اس سے دور  کرے گا اور اس کا گناہ باقی نہ رہے گا اور خدا تمام گناہ معاف کردے گا۔

۳ـ          ابو نصر بزنطی کہتے ہیں میں ابوالحسن رضا(ع) کا خط پڑھا جس میں درج تھا کہ میرے شیعوں کو یہ پیغام دو کہ جو کوئی میری زیارت کرے گا تو یہ خدا کے نزدیک ایک ہزار حج کے برابر ہے آپ کے فرزند ابوجعفر(ع) نے کہا ہزار حج کے برابر فرمایا ہاں پھر فرمایا خدا کی قسم سو ہزار( ایک لاکھ) حج اس کے لیے ہے جو ہماری معرفت حق کے ساتھ زیارت کرے۔ ( یعنی ہمارے مقام کی معرفت رکھتے ہوئے)

۴ـ          ابونصر بزنطی کہتے ہیں کہ  میں نے امام رضا(ع) سے سنا کہ جو کوئی میری زیارت کرے گا معرفتِ حق کے ساتھ تو اس کی شفاعت قیامت کے دن قبول ہوگی۔

۵ـ          نعمان بن سعد کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا ، ایک فرزند میرے فرزندوں میں

۱۱۹

سے

۱۲۰