مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 297218
ڈاؤنلوڈ: 7465

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 297218 / ڈاؤنلوڈ: 7465
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جنابِ موسیٰ(ع) کی خدا سے گفتگو

۸ـ          عبدالعظیم بن عبداﷲ حسنی نے جنابِ موسیٰ(ع) کی خدا سے گفتگو کو امام دہم جنابِ علی بن محمد ( امام علی نقی(ع)) سے نقل کیا ہے۔

امام(ع)نے فرمایا کہ موسی بن عمران(ع) نے خدا سے کہا یا رب العزت اس بندے کو کیا اجر ملے گا جو میری نبوت کو گواہی دے گا اور اقرار کرے گا، خدا نے فرمایا ایسے بندے کی موت کے وقت جب اسے فرشتے لینے آئیں گے تو اسے نوید بہشت دیں گے موسی(ع) نے دریافت کیا اس بندے کو کیا اجر ملے گا جو نماز ادا کرئےگا، ارشاد باری تعالی ہوا ایسا بندہ جب حالت سجدہ یا قیام و رکوع میں ہوتا ہے تو میں اپنے ملائکہ کے ساتھ اس پر فخر کرتاہوں اور جو کوئی اس طرح کرے گا میں اسے عذاب نہ دون گا۔ موسیٰ(ع) نے دریافت کیا صلہء رحمی کرنے والے بندے کی اجر کیا ہے ارشاد ہوا میں اسے طویل عمر عطا کروں گا اور سکرات موت ( جانکنی کی حالت ) کو اس پر آسان کروں گا بہشت کے خازن اسے آواز دیں گے اور اپنی طرف جلد آنے کے لیے پکاریں گے وہ جہاں سے چاہے گا بہشت میں داخل ہوگا موسیٰ(ع) نے پوچھا یا خدایا ایسے بندے کو کیا صلہ ملےگا جو لوگوں کو تکلیف نہیں دیتا اور ان سے اچھائی سے پیش آتا ہے  فرمایا روز قیامت دوزخ اسے پکار کر کہے گی کہ تیرا راستہ میری طرف نہیں آتا موسیٰ(ع) نے دریافت کیا رب العزت اس بندے کے لیے کیا انعام ہے جو دل و زبان سے تجھے یاد کرتا ہے  جواب ملا۔ اس کو قیامت کے دن سایہ عرش میں جگہ دوں گا اور اپنی پناہ میں رکھوں گا۔ موسی(ع) نے پوچھا اس بندے کے لیے کیا اکرام ہے جو تیری کتابِ حکمت کی ظاہرہ و پوشیدہ طور پر تلاوت کرے ارشاد ہوا وہ پل صراط سے برق کی طرح گزر جائے گا موسیٰ(ع) نے عرض کیا یا رب العزت ایسے شخص کو کیا اجر ملے گا جو اکیلا تیری رضا کی خاطر لوگوں کے ظلم و آزار سہتا ہے اور صبر کرتا ہے، خداوند کریم نے فرمایا ایسے کے لیے روزِ قیامت کے خوف کم دیئے جائینگے، موسیٰ(ع) نے سوال کیا، ایسے بندے کو کیا اجر ملے گا جس کی آنکھیں تیرے ڈر سے اشکبار رہتی ہیں، ارشاد ہوا ایسے چہرے کو میں دوزخ کی گرمی سے بچاؤں گا اور قیامت کے سخت خوف

۲۰۱

سے امان بخشوں گا، موسی(ع) نے عرض کیا بارالہا جو شخص تجھ سے شرم محسوس کرے اور خیانت ترک کردے اسے کیا اجر ملے گا۔ فرمایا روز قیامت اس کو امان دوں گا۔ پھر موسی(ع) نے دریافت کیا یا خدا ایسے شخص کو کیا سزا ملے گی جو جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کردے جواب ملا قیامت کے دن اس کی طرف نظر نہیں کروں گا اور اس کی لغزش معاف نہیں کروں گا، پھر موسی(ع) نے پوچھا جو بندہ کسی کافر کو اسلام کی دعوت دے اس کا اجر کیا ے، ارشاد ہوا کہ اسے اجازت ہوگی کہ جس کی چاہے شفاعت  کرے پھر دریافت کیا کہ یا خداوند ایسے شخص کا کیا انعام ہے جو اپنی نمازیں وقت پر ادا کرے جواب آیا جس چیز کا سوال کرئے اسے عطا کروں گا اور اپنی بہشت کو اس پر مباح کردوں گا، موسی(ع) نے دریافت کیا کہ ایسے بندے کو کیا ملے گا جو تیرے خوف سے اپنا وضو مکمل کرتا ہے، فرمایا جب اس کو روز قیامت مبعوث کروں گا تو اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک نور روشن کردوں گا جس سے روشنی خارج ہوگی، موسی(ع) نے پھر سوال کیا اے رب العزت ایسے آدمی کے لیے کیا اجر ہے جو ماہِ رمضان کے روزے تیری خاطر رکھتا ہے، ارشاد خداوندی ہوا کہ میں اس بندے کو روز قیامت ایک ایسی جگہ کھڑا کروں گا جہاں اسے کوئی خوف نہ ہوگا اور جو دنیا کو دکھانے کے واسطے روزے رکھتا ہے اس کا روزہ ایسا ہے کہ جیسے نہیں رکھا۔

۹ـ           نوف بکالی کہتے ہیں کہ میں مسجد کوفہ میں آستانہ امیرالمومنین(ع) پر حاضر ہوا اور انہیں سلام پیش کیا آںحضرت(ع) نے جواب میں وعلیک السلام یا نوف و رحمتہ اﷲ برکاتہ کہا، میں عرض کیا یا امیرالمومنین(ع) مجھے کچھ نصیحت فرمائیں۔ آپ(ع) نے فرمایا اچھائی کرو تاکہ تمہارے ساتھ اچھائی ہو میں نے کہا یا امیرالمومنین(ع) کچھ اور بیان فرمائیں تو آپ(ع) نے فرمایا بہتر کہو تاکہ تمہیں اچھائی سے یاد کیا جائے غیبت سے بچے رہو کہ اس کی خواری دوزخ کی مانند ہے اے نوف وہ بندہ جو غیبت کی وجہ سے لوگوں کا گوشت کھاتا ہے اور خود کو حلال زادہ کہتا ہے وہ  جھوٹ بولتا ہے( کہ وہ حلال زادہ ہے) اور جو یہ گمان کرتا ہے کہ وہ حلال زادہ ہے جب کہ میرا اور میری اولاد میں سے (منصوص) اماموں کا دشمن ہے وہ جھوٹا ہے اور وہ بندہ جھوٹا ہے جو خود کو حلال زادہ کہتا ہے مگر زنا کو پسند کرتا ہے اور خدا کی نافرمانی پر شب و روز دلیر ہوا ہے۔ پھر فرمایا اے نوف میری اس وصیت

۲۰۲

کو قبول کرو، کہ راہِ ہدایت س مت ہٹو اور خدا کی دشمنی مت مول لو صلہ رحمی کرو تا کہ خدا تمہاری عمر دراز کرے اور خوش خلق رہو تاکہ تمہارے حساب میں کمی واقع ہو اے نوف اگر چاہو کہ تم روز قیامت میرے ساتھ محشور ہو تو ظالمین کی مدد نہ کرو اے نوف جو کوئی مجھے دوست رکھتا ہے وہ روز قیامت میرے ساتھ ہوگا کیونکہ اگر کوئی شخص کسی پتھر کو بھی دوست رکھتا ہے تو وہ اسی پتھر کے ساتھ محشور ہوگا اے نوف کہیں یہ نہ ہو کہ تم غرور میں آجاؤ اور خدا کی نافرمانی کرنے لگو کہ وہ اس دن تمہیں رسوا کرے گا جب تم اس سے ملاقات کرو گے اے نوف جو کچھ میں نے تم سے کہا اس کی حفاظت کرو تاکہ دنیا اور آخرت میں خیر پاؤ۔

۱۰ـ          انس بن مالک رسول خدا(ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا خیر اوصیاء اور سیدالشہدا میں سے وہ بندہ تم پر آئے گا کہ جس کا مقام میرے نزدیک انبیاء سے بھی برتر ہے اسی اثناء میں علی ابن ابی طالب(ع) تشریف لائے اور کہا یا رسول اﷲ(ص) ایسا مت فرمائیں جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے ابوالحسن(ع) میں کیوں اس طرح نہ کہوں جب کہ تم وفا کرنے والے اور صاحبِ حوض ہو اور میرے اس عہد ( فرض) کے ادا کرنے والے ہو جو میرے ذمے ہے۔

۲۰۳

مجلس نمبر۳۸

( چار صفر سنہ۳۶۸ھ)

فضائل اذان اور بلال(رح)

۱ـ           عبداﷲ بن علی کہتے ہیں کہ میں اپنا زاد راہ لیے بصرہ سے مصر کی طرف سفر کر رہا تھا کہ مجھے راستے میں ایک بزرگ دکھائی دیئے جن کی رنگت گندمی اور سر کے بال سفید تھے انہوں نے دو عدد لباس۔ ایک سیاہ اور ایک سفید اٹھائے ہوئے تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں، مجھے بتایا گیا کہ یہ رسول خدا(ص) کے موذن بلال(رح) ہیں۔

ہم نے اپنا سامان سمیٹا اور ان کے پاس چلےگئے اور سلام پیش کیا انہوں نےسلام کا جواب دیا میں نے انہیں کہا یا شیخ آپ نے جو کچھ رسول خدا(ص)سے سنا ہے  وہ ہمین تعلیم فرمایئیں انہوں نے کہا  تمہیں کیا پتہ میں کون ہوں۔ میں نے انہیں مطلع کیا کہ وہ مئوذن رسول خدا(ص) بلال(رح) ہیں تو انہوں نے یہ سن کر گریہ کیا انہیں دیکھ کر میری آنکھیں بھی اشکبار ہوگئیں ہمیں گریہ کرتا دیکھ کر وہ لوگ جو دور تھے قریب آگئے اور ہمارے حزن میں شامل ہوگئے کچھ دیر بعد جنابِ بلال(رح) نے کہا بیٹا تم کہاں کے رہنے والے ہو میں بتایا کہ میں عراق کا رہنے والا ہوں یہ سن کر انہوں نے کہا مبارک ہو مبارک ہو میرے بیٹے جو میں تمہیں تعلیم کروں اسے لکھ لو۔ پھر فرمایا”بسم اﷲ الرحمن الرحيم “ میں نے جنابِ رسول خدا(ص) نے سنا کہ اذان دینے والے لوگ لوگوں کے روزوں ان کے گوشت اور ان کے خون کے امین ہیں وہ خدا سے بجز اس کے کچھ نہیں چاہتے کہ انہیں شفاعت عطا ہو۔ اور ان کی شفاعت قبول ہوگی میں نے جناب بلال(رح) سے کہا مجھے کچھ اور زیادہ تعلیم کریں۔

جنابِ بلال(رح) نے کہا لکھو”بسم اﷲ الرحمن الرحيم “ میں نے رسول خدا(ص) سے سنا جو کوئی چالیس(۴۰) سال اذان کہے گا تو خدا اس کے کردار کو روزِ قیامت چالیس خوش

۲۰۴

کردار صدیقین جن کے اعمال قبول شدہ ہوں گے کے برابر کردے گا یہ سن کر میں نے کہا ” رحمک اﷲ“  بلال(رح) نے فرمایا مزید لکھو۔ پھر فرمایا ”بسم اﷲ الرحمن الرحيم “ میں نے جنابِ رسول خدا(ص) نے سنا جو کوئی بیس سال تک اذان دے گا تو خدا اس کو روز قیامت ایک ایسے نور کے ساتھ محشور کرے گا جو کہ زمین و آسمان کے نور کے برابر ہوگا، میں نے کہا مزید بتائیں کہا لکھو”بسم اﷲ الرحمن الرحيم “ میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ کوئی دس سال اذان کہے گا تو خدا اس کو بہشت میں حضرت ابراہیم(ع) کے ساتھ گنبد میں ٹھہرائے گا اور ان ( ابراہیم(ع)) کے درجے کے برابر سکونت عطا کرے گا۔

میں نے بلال(رح) سے گذارش کی کہ مجھے کچھ اسکے علاوہ بھی بتائیں انہوں نے کہا لکھو ”بسم اﷲ الرحمن الرحيم “ میں نے جنابِ رسول خدا(ص) سے سنا کہ جو کوئی بھی ایک سال اذان دے گا تو خدا روزِ قیامت اسے اس طرح محشور کرے گا جیسے کہ اس کے تمام گناہ معاف کردیئے گئے ہوں بیشک وہ کوہِ احد کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ میں نے کہا مزید بیان کریں بلال(رح) نے کہا اس کی حفاظت کرو اس پر عمل کرو اور اسے سمجھو کہ میں نے رسول خدا(ص)سے سنا جو کوئی راہِ خدا میں ایک نماز کو از روے ایمان اور حکم خدا کے مطا بق ادا کرے گا اور تقریب حق کے لیے اذان دے گا  تو خدا اس کے گذشتہ گناہوں کو معاف فرمادے گا اور آیندہ عمر کے لیے اس کی حفاظت کرے گا اور بہشت میں اسے شہیدوں کے درمیان رکھے گا میں نے بلال(رح) سے کہا خدا آپ پر رحمت نازل کرے آپ نے جو بہتریں چیز رسول خدا(ص) سے سنی وہ مجھ سے بیان فرمائیں، بلال(رح)  نے کہا واے ہو تم پر اے پسر کہ تم نے میرا دل کاٹ کر رکھ دیا ہے پھر گریہ کرنے لگے ان کے ساتھ میں بھی گریہ کرنے لگا یہاں تک کہ ان کا حزن اور میرا حزن ایک ہوگیا کچھ دیر بعد بلال(رح) نے کہا ”بسم اﷲ الرحمن الرحيم “ روز قیامت خدا لوگوں کو ایک زمین میں جمع کرے گا تو نورانی فرشتوں کو کہ جن کے پاس گھوڑے ہوں گے مئوذنوں کے پاس بھیجے گا ان فرشتوں کے پاس نور کے پرچم ہوںگے اور جو گھوڑے  وہ لائے ہوں گے ان کی لگامیں سبز زبرجد۔ خورجین ترک اورمشک اذفر کی ہوں گی ان گھوڑوں پر وذن سوار ہوں گے اور بلند آواز میں اذان دیں گے پھر وہ فرشتے ان

۲۰۵

گھوڑوں کی لگامیں کھینچیں گے اور وہ سرپٹ بھاگنا شروع ہوجائیں گے اس کے بلال(رح) نے شدید گریہ فرمایا یہاں تک کہ بے حال ہو گئے۔ جب انہیں کچھ سکون ہوا تو میں نے گریہ کا سبب دریافت کیا انہوں نے کہا وائے ہو تم پر مجھے کچھ یاد آگیا ہے  جو میں نے اپنے دوست جنابِ رسول خدا(ص) سے سنا تھا آپ(ص) فرماتے تھے کہ قسم ہے مجھے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا بیشک جب موذن ان گھوڑوں کو سر پٹ دوڑاتے ہوئے لوگوں کے پاس سے گذریں گے تو کہیں گے”اﷲاکبر اﷲ اکبر “ میری امت کے لوگ یہ سن کر پکارنے لگیں گے۔ اس وقت اسامہ بن زید(رض) نے رسول خدا(ص) سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ(ص) وہ پکار کیا ہوگی فرمایا وہ پکار تسبیح و تہلیل اور خدا کی حمد ہوگی۔ جب مئوذن کہے گا”أَشْهَدُ أَنْ‏ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ “ تو میری امت جواب میں کہے گی اس کی دنیا میں عبادت کے لیے یہ کافی ہے تو جواب ملے گا سچ کہا جب مئوذن کہیں گے ”أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ “ تو میری امت جواب دے گی کہ یہ( محمد(ص)) ہمارے پروردگار کی طرف سے رسالت کے ساتھ مبعوث ہوئے اور ہم بغیر دیکھے ان پر ایمان لائے تو جواب آئے گا سچ ہے اور وہی ہے جو تمہیں رسالت ادا کرتا ہے تم اس کے مومن ہوئے اب یہ خدا پر تمہارا حق جہے کہ وہ تمہیں تمہارے پیغمبر(ص) کے ساتھ رکھے اور اس منزل پر پہنچا دے جہاں ہر وہ چیز ہے جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا نہ ہی کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی کا دل اس کا ادراک کرسکا پھر بلال(رح) نے میری (عبداﷲ) طرف دیکھا اور کہا وہ مئوذن کہ جس نے خدا کے حکمکے مطابق عمل کیا اسے خدا کے سوا کوئی موت نہیں دیتا۔

عبداﷲ بن علی کہتے ہیں کہ میں نے  کہا آپ(بلال(رح)) پر اﷲ کی رحمت ہو مجھ پر تفضل کریں اور اس کے علاوہ بھی کچھ بتائیں اور جو کچھ آپ نے رسول خدا(ص) سے بہشت کے بارے میں سنا وہ بتائیں کیوں کہ آپ کی ملاقات رسول خدا(ص) سے رہی ہے جبکہ میں نے انہیں نہیں دیکھا بلال(رض) نے کہا لکھ”بسم اﷲ الرحمن الرحيم “ میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ بہشت کی اینٹیں سونے۔ چاندی اور یاقوت سے بنائی گئی ہیں اس کے کنگرے سبز، سرخ اور زرد یاقوت کے ہیں یہ سن کر میں نے اپنا ہاتھ بلال(رح) پر رکھا تو انہوں نے کہا وائے ہو تم پر اپنا ہاتھ ہٹا مجھے تکلیف پہنچ رہی ہے میں نے کہا جب تک آپ مجھے بتائیں گے نہیں کہ بہشت کا حلقہ کیا ہے میں اپنا ہاتھ آپ پر

۲۰۶

 سے نہیں ہٹاؤں گا مجھے بتائیں کہ جنابِ رسول خدا(ص) نے اس بارے میں کیا بتایا ہے بلال(رح) نے کہا ”بسم اﷲ الرحمن الرحيم “ بہشت کے کچھ دروازوں میں ایک دروازہ صبر نام کا ہے اور یاقوت سرخ کا بنا ہوا ہے یہ دروازہ حلقہ نہیں رکھتا اور پھر شکر کے دروازے ہیں جو کہ سفید یاقوت سے بنائے گئے ہیں ان دونوں دروازوں کے درمیان پانچ سو(۵۰۰) سال کی مسافت کا فاصلہ ہے یہ بوقتِ بلا( غم) نالہ و غوغا بھی کرتے  ہیں اور رب العزت انہیں قوتِ گویائی بھی عطا کرتا ہے ، میں نے بلال(رح) سے پوچھا بلا کیا ہے تو انہوں نے بتایا بلا سے مراد مصائب۔ بیماریاں درد و غم ہیں میں نے پوچھا کیا صبر بھی بلا رکھتا ہے کہا نہیں صبر۔ بلا نہیں رکھتا ۔ اس کے علاوہ یاقوت زرد کا بھی ایک دروازہ ہے۔ اور بہت کم لوگ ہوں گے جو اس دروازے سے گذریں گے میں نے بلال(رح) سے کہا خدا آپ پر رحمت کرے اس بارے میں مزید بیان کریں اور مجھ  پر فضل کریں میں نے ان باتوں میں آپ کا محتاج ہوں بلال(رح) نے کہا تم مجھ سے اپنا ہاتھ نہیں ہٹاتے اور تکلیف پہنچاتے ہو۔ یہ دروازہ باب اعظم ہے اس میں سے صالح بندے داخل ہوں گے کہ جن کے مشتاق خدا اور اہل زہد ہیں میں نے پوچھا خدا آپ پر رحمت کرے جس وقت وہ بہشت میں آئیں گے کیا کرینگے، بلال(رح) نے جواب دیا جس وقت وہ بہشت میں داخل ہوں گے وہ کشتیوں پر سوار ہوں گے اور لولو کی نہروں میں سیر کریں گے ان کشتیوں میں ان کے ساتھ نور کے فرشتے موجود ہوں گے جو بے تحاشہ نورانی لباس  اٹھائے ہوئے ہوں گے، میں نے پوچھا آپ پر خدا کی رحمت ہو کیا نور سبز بھی ہوتا ہے بلال(رح) نے جواب دیا وہ سبز نورانی لباس پہنے ہوں گے اور نور رب العالمین کو پرتو ہے۔ میں نے پھر پوچھا یہ نہر کیا ہے تو بلال نے بتایا کہ  یہ جنت الماوی ہے میں نے پوچھا کیا اس کے درمیان کوئی اور چیز بھی ہے انہوں نے بتایا کہ اس کے درمیان جنت عدن ہے جو کہ تمام بہشتوں کا عین وسط ہے اور جنت عدن چہرہ بھی رکھتی ہے جو کہ سرخ یاقوت اور لولو گا ہے پھر میں نے بلال(رح) سے پوچھا کیا اس کے درمیان کچھ اور بھی ہے تو کہا ہاں جنتِ فردوس ہے میں نے پوچھا وہ کس طرح کی ہے تو کہنےلگے وائے ہو تم پر تم نے مجھے سرگرداں کردیا ہے، میں نے کہا آپ نے مجھے سرگرداں کردیا ہے میں اپنا ہاتھ اس وقت تک آپ سے نہیں ہٹاؤں گا جب تک آپ مجھے اس کے بارے میں

۲۰۷

 مکمل معلومات فراہم نہیں کردیتے مجھے جنت الفردوس کے بارے میں بتائیں بلال(رح) نے کہا اس کا چہرہ نور کا ہے میں نے پوچھا غرفہ اسی میں ہے کہا کہ وہ نور رب العالمین ہے میں نے کہا مزید  بیان کریں تو کہا وائے ہو تم پر خدا تم پر رحم کرے رسول خدا(ص) نےفرمایا ہے وہ بندہ خوش قسمت ہے کہ بیان کردہ اوصاف میں سے اگر اس سے کچھ بیان ہوا ہے تو ان پر اعتقاد رکھے اور ایمان لائے اور باور کرے کہ یہ حقیقت ہے لہذا دینا کے مال و دولت کی رغبت نہ رکھے اور اپنے حساب کی حفاظت کرے میں نے کہا میں اس کا اعتقاد رکھتا ہوں، بلال(رح) نے کہا تم سچ کہتے ہو خود کو اس کے نزدیک کرو اور محکم بناؤ نا امید مت رہو عمل کرو اور تقصیر نہ کرو  اور خوف خدا رکھو پھر بلال(رح) نے تین مرتبہ آہ و زاری کی اور یوں محسوس ہوا اور کہ بے جان ہوگئے ہیں پھر کچھ دیر بعد مجھ سے فرمایا میرے ماں باپ تجھ پر قربان اگر محمد(ص) تمہیں دیکھتے تو ان کی آنکھیں روشن ہوتیں کہ تم نے ان اوصاف کے بارے سوال کیے ہیں پھر کہنے لگے نجات۔ نجات۔ جلدی جلدی۔ کوچ کوچ ۔ عمل عمل۔ دیکھنا کہیں تقصیر نہ کر بیٹھنا پھر جو کچھ مجھے وداع کرتے وقت فرمایا وہ یہ تھا کہ خدا سے ڈرنا اور جو کچھ میں نے تمہیں بتایا وہ امت محمد(ص) تک پہنچا دو۔ میں نے کہا میں آپ کی ہدایت پر عمل کروں گا انشاء اﷲ، بلال(رح) نے کہا میں تیرے دین اور تیری امانت کو خدا کے حوالے کرتا ہوں خدا اپنی چاہت سے تمہیں توشہ تقوی عطا کرے اور تم اس(خدا) کی اطاعت کرتے وہو۔

۲ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا تم جب بھی مئوذن کو کہتے سنو”أَشْهَدُ أَنْ‏ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ “ تو جوکوئی بھی سن کر اقرار کرے کہ میں نے جان لیا اور قبول کرتا ہوں کہ معبود صرف خدا ہے اسکے علاوہ کوئی اور نہیں اور محمد(ص) خدا کے رسول ہیں اور میرے لیے یہ بات فائدہ مند ہے اور جو کوئی اس کا بھی اقرار کرے کہ میں اس کی مدد کرتا ہوں اور دھوکے باز کا انکار کرتا ہوں وہ تمام منکر و حاسدین اور تابعین و مومنین کی تعداد کے برابر ثواب پائےگا۔

۳ـ          رسول خدا(ص) نے فرمایا عرش پر لکھا ہے”انا اﷲ لَاإِلَه َإِلَّااناوَحْدَی لَاشَرِيكَ لی وَمُحَمَّدٌعَبْدِيَ وَرَسُولِي أَيَّدْتُهُ‏ بِعَلِيِ‏ “میں خدا ہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے میرا کوئی شریک نہیں محمد(ص) میرا رسول ہے اور میرا بندہ ہے۔ میں نے اسکی مدد علی(ع) کے ذریعے کی۔ جنابِ رسول

۲۰۸

خدا(ص) فرماتے ہیں کہ اسی ضمن میں خدا نے  اس آیت کو نازل کیا ۔

”هُوَ الَّذي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَ بِالْمُؤْمِنينَ“

(انفال ، ۶۲)اور وہ ہے کہ جس نے تیری تائید و مدد اپنے مومنین کے ذریعے سے کی۔

نصر سے مراد علی(ع) ہے اور مومنین میں بھی داخل ہیں اس لیے دوںوں لحاظ سے اس آیت کے مورد علی(ع) ہیں۔

۴ـ          ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں کہ امام باقر(ع) نے فرمایا اے ابو حمزہ علی(ع) کو اس مقام سے نیچے مت کرو جو خدا نے انہیں دیا ہے اور نہ ہی اس سے برتر کرو علی(ع) کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اہل زمین ( منافقین و کفار) سے جنگ کرتے ہیں اور اہل بہشت کی تزویج کرتے ہیں۔

۵ـ          رسول خدا(ص) نے فرمایا شب معراج، میں نے عرش کے ایک ستون پر لکھا ہوا دیکھا

”انا اﷲ لَاإِلَهَ إِلَّااناوَحْدَی خَلَقت جَنّته عَدن‏وَمُحَمَّدٌصَفوَتی أَيَّدْتُهُ‏ بِعَلِيِ و نَصَرتُه بِعَلِی“

میں خدا ہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں میں واحد ہوں میں نے بہشت عد کو اپنے ہاتھ سے خلق کیا محمد(ص) میری برگزیدہ خلق ہیں اور ان کی تائید اور مدد علی(ع) کے ذریعے سے کی گئی۔“

۶ـ           جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں۔

اول :۔       میرے لیے زمین کو مسجد طہور مقرر کیا گیا۔

دوم :۔               غنیمت مجھ پر حلال کی گئی۔

سوم :۔              میری مدد خوف سے کی گئی۔

چہارم :۔     کلمات پر معنی عطا کیے گئے۔

پنجم :۔               اور مجھے شفاعت عطا کی گئی۔

۷ـ          امام محمد باقر(ع) اپنے اجداد(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا لوگو علی(ع) کا دامن پکڑ لو کیوںکہ و صدیق اکبر اور فاروق اعظم ہیں جو حق اور باطل کے درمیان فرق معلوم کرواتا ہے جو

۲۰۹

 کوئی اس کو دوست رکھتا ہے خدا اس شخص کی ہدایت فرماتا ہے جو کوئی اسے دشمن رکھے تو خدا بھی اسے دشمن رکھتا ہے جو کوئی اس سے اختلاف رکھے گا خدا اس کو نابود کردےگا اس کے دو فرزند اس امت کے سردار ہیں یہ دونوں حسن(ع) اور حسین(ع) ہیں اور میرے بیٹے ہیں حسین(ع) کی نسل سے رہبر آئمہ(ع) ہیں کہ خدا نے انہیں میرا علم و فہم عطا کیا ہے تم انہیں دوست رکھنا اور پیٹھ مت پھیرنا کہ خدا کے عذاب کا شکار ہوجاؤ اور جو کوئی خطا کرے گا وہ اپنے پر وردگار کے غضب کا شکار ہوگیا ہے یہ زندگی اس دنیا کےلیے نہیں اور مال و دولت جو دنیا میں ہے وہ فریب ہے۔

۲۱۰

مجلس نمبر ۳۹

( بروز جمعہ سات صفرسنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی شیعہ مومن انتقال کرجائے اور دفن ہوجائے تو خدا ستر ہزار فرشتے معمور کرتا ہے جو اس کے لیے رحمت طلب کرتے ہیں اور جب وہ اپنی قبر سے باہر نکلے تو اس کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔

۲ـ           امام صادق(ع) نے اپنے والد(ع) سے روایت کی ہے کہ جو کوئی نماز گزار وفات پا جائے وہ اہل قبلہ سے ہے  اور اس کا حساب خدا پر ہے۔

۳ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا تم میں سے جو کوئی کسی مسلمان کا تشییع جنازہ ادا کرے تو ایسے شخص کو روزِ قیامت چار شفاعتیں عطا کی جائیں گی اور  فرشتے اس سے کہیں گے کہ یہ تیرے اس عمل ( تشییع جنازے) کے واسطے ہیں۔

۴ـ          معمر بن راشد کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع)سے سنا کہ ایک یہودی جنابِ رسول خدا(ص) کی خدمت میں آیا اور آںحضرت(ص) کو سخت نظروں سے دیکھا۔ رسول خدا(ص) نے اس سے دریافت کیا کہ اے یہودی کیا حاجت رکھتے ہو؟ اس نے پوچھا مجھے بتاؤ تم افضل ہو یا موسی(ع) بن عمران(ع) جب کہ اس نے خدا سے کلام کیا اور اسے توریت و عصا دیا گیا، دریا کو اس کے واسطے شگافتہ کیا گیا اور ایک بادل ہمیشہ اس کے سر پر سایہ فگن رہتا تھا جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا اے شخص یہ بہتر نہیں کہ اپنی تعریف خود ہی کی جائے لیکن تمہیں بتانے کے واسطے میں کہتا ہوں کہ جب آدم(ع) نے گناہ کیا تو خدا سے توبہ کرنے لیے انہوں نے کہا خدایا میں تجھے محمد و آل محمد(ص)  کے حق کا واسطہ دیتا ہوں میری توبہ قبول فرما لے تو خدا نے ان کی توبہ قبول کرلی۔

جب نوح(ع)کشتی پر سوار ہوئے اور غرق ہونے کے خوف میں مبتلا ہوئے تو یوں کہا خدایا بحق محمد(ص) و آل محمد(ص) مجھے  غرق ہونے سے بچالے اور خدا نے انہیں بچالیا۔

جب ابراہیم(ع) کو آگ میں گرایا گیا تو انہوں نے خدا کے حضور یہ کہا خدایا تجھے محمد(ص) و آل محمد(ص) کے حق کا

۲۱۱

 واسطہ مجھے اس آگ سے بچا تو رب العزت نے آگ سرد کردی اور انہیں بچالیا اور سلامت رکھا۔

جب موسی(ع) نے اپنا عصا پھینکا اور ڈرنے لگے تو خدا کو واسطہ دیا کہ خدایا میں تجھے محمد و آل محمد(ص) کے حق کا واسطہ دیتا ہوں مجھے ان سے امان دے تو خدا نے موسی(ع) سے فرمایا: مت ڈرو اور انہیں امان دی۔ اے یہودی تم مجھ سے میری فضیلت پوچھتے ہو۔ اگر موسی(ع) مجھے پا لیتے اور مجھ پر ایمان نہ لاتے تو انہیں ان کا ایمان اور ان کی نبوت کوئی فائدہ نہ پہنچا سکتی تھی اے یہودی میری ذریت میں سے میرے ایک فرزند مہدی(عج) ہیں جب وہ ظہور فرمائیں گے تو عیسیٰ بن مریم(ع) ان کی مدد کے لیے اتریں گے اور میرے فرزند کی امامت میں نماز ادا کریں گے۔

عبادتِ حضرت سجاد(ع)

۵ـ          طاوس یمانی کہتے ہیں ایک دفعہ میرا گزر ایک ایسے پتھر کے پاس سے ہوا جس پر ایک شخص سجدے کی حالت میں عبادت کررہا ہے میں رک گیا اور چاہا کہ انہیں شناخت کروں تو کیا دیکھا کہ وہ امام سجاد(ع) ہیں مجھے خیال آیا کہ یہ اہل بیت(ع) نبوت(ص) سے ہیں اور خدا کے صالح بندے ہیں اور ان سے اپنے حق میں دعا کروانا غنیمت ہے میں انتظار کرنے لگا جب امام(ع) نے نماز ختمکی تو بارگاہ رب العزت میں دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے اور فرمایا سرداروں کے سردار میں اپنے گناہ گار ہاتھ تیری بارگاہ میں لیے کھڑا ہوں ۔ میری دونوں آنکھیں تجھ سے خیر کی امید لیے ہوئے ہیں اور میں خوار اور پشیمان حالت میں تیری بارگاہ میں دعا کرتا ہوں بارالہا تو حق رکھتا ہے کہ فضل و کرم سے اس کا جواب دے کہ تو نے مجھے بدبخت پیدا کیا ہے کہ میں ہمیشہ گریہ کروں یا خوش بخت کہ تجھ سے بخشش کی امید رکھوں یا خدایا میں بخشش کی خوشخبری کی امید رکھتا ہوں میرے آقا میرے اعضاء گرز کھانے کے واسطے بنے ہیں اور ڈرتا ہوں جب تو منہ کے ذریعے مجھے حمیم پلائے گا میرے آقا اگر بندے کو یہ طاقت نصیب ہوتی کہ وہ تیری بادشاہی سے دور بھاک جائے تو سب سے پہلے میں تیرے عذاب کے خوف سے راہ فرار اختیار کرتا۔لیکن میں جانتا ہوں کہ تیری سلطنت میں تیرے

۲۱۲

 شکنجے سے بچ کر میں کہیں نہیں جا سکتا اس واسطے میں تجھ سے صبر کا خواستگار ہوں کہ تجھ سے راہ فرار نہیں ہے میرے آقا میں تیرا مطیع ہوں اور تیری اطاعت میں ہوں اور تیرے حکم کی نافرمانی کی تاب نہیں رکھتا میرے مالک میں یہ اعتبار رکھتا ہوں کہ تو اپنے فضل سے مجھے بخش سے گا خدایا تجھے تیری آبرو کا واسطہ مجھ سے در گزر فرما۔ اے میرے سردار مجھ پر رحم فرما اس سے پہلے کہ میں اپنے بستر پر پڑا ہوں اور دوستوں کے ہاتھوں پہلو بہ پہلو ہو رہا ہوں اور قبل اس کے کہ میں پتھر کی سل پر گرا ہوا ہوں اور میرے نیک ہمسائے مجھے غسل دے رہے ہوں۔  مجھ پر رحم کر قبل اس کے کہ میرا جنازہ میرے رشتہ داروں کے کندھوں پر ہو اور میرا گھر ایک تاریک قبر ہو میری وحشت و غربت اور تنہایی پر رحم کر۔

طاوس یمانی کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے گریہ کیا کہ میرا گلا رندھ گیا تو آںحضرت(ع) نے میری طرف توجہ کی اور فرمایا اے یمانی کیوں گریہ کرتے ہو کیا یہ موقع گناہ گاروں کا نہیں میں نے کہا میرے حبیب خدا کی قسم یہ حق ہے کہ ہو ( خدا) آپ کو رد نہ کرے کہ آپ(ع) کے جد رسول خدا(ص) ہیں۔

اس وقت کافی لوگ آںحضرت(ع) کے پاس جمع ہوگئے جنابِ سجاد(ع) نے اپنا رخ لوگوں کی طرف کیا اور فرمایا اے لوگو میں دینا کی بجائے تمہیں آخرت کی وصیت کرتا ہوں کیوں کہ تم دنیا کے بارے میں جانتے ہو۔ جان لو کہ دنیا کا لالچ رکھنے والا پکڑا جائے گا اے میرے دوستو دنیا ایک گزر گاہ ہے اور آخرت ہمیشہ رہنے والا گھر ہے اپنی اس گزرگاہ سے آخرت میں آسائش گاہ کے لیے توشہ لیے رکھو اور جو تمہارے رازوں سے آگاہ ہے اس سے اپنے راز پوشیدہ رکھنے کی کوشش مت کرو، اپنے دل دنیا سے جدا کیے رکھو اس سے پہلے کہ تمہیں اس سے تنہا و جدا کیا جائے کیا تم سنتے اور دیکھتے نہیں ہو کہ تم سے پہلی امتوں کے لوگ جو اس زمانے کے طلب گار تھے آج کس طرح رسوا ہوئے ہیں اور زندگی کی خوشی آج کس طرح غم میں بدل گئی ہے اور وہ درد و بلا کا شکار ہوگئے ہیں آج وہ نمونہ عبرت بن گئے ہیں۔ بس تم اپنے اورمیرے لیے مغفرت طلب کرتے رہو۔

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا، مدینے میں ایک مسخرہ رہتا تھا جو لوگوں کو ہنسایا کرتا تھا ایک دن امام سجاد(ع) ، جنابِ علی بن حسین(ع) کا گزر اس کے پاس سے ہوا آپ(ع) اپنے دو غلاموں کے ہمراہ تھے،

۲۱۳

 جب اس مسخرے کی نظر آپ(ع) پر پڑی تو لوگوں سے کہنے لگا مجھ میں یہ طاقت نہیں کہ انہیں ہنسا سکوں تاہم یہ کہہ کر اس نے تمسخر کی خاطر آپ(ع) کے دوش مبارک سے آپ(ع) کی ردا کھینچ لی امام سجاد(ع) نے اس کے اس فعل پر کوئی توجہ نہ دی لوگوں نے یہ دیکھا تو اس مسخرے سے چادر واپس لی اور امام سجاد(ع) کے دوش مبارک پر ڈال دی۔ امام عالی مقام(ع) نے لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ شخص کون ہے۔ لوگوں نے بتایا یہ ایک مسخرہ ہے جولوگوں کو ہنساتا ہے۔ امام عالی مقام(ع)  نے فرمایا اس سے کہو خدا کی طرف سے ایک دن مقرر ہے جس میں بے ہودہ حرکتیں کرنے والے نقصان میں رہیں گے۔

۷ـ          جناب امیرالمومنین (ع) نے فرمایا اہل دین نشانیاں رکھتے ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں ان کے کلام میں سچ، ان میں امانت داری، وفائے عہد، کمزور پر صلہ رحمی، عورتوں سے اچھا سلوک، خوش خلقی، والدین کی فرمانبرداری ، علم کی پیروی، خدا کا قرب حاصل کرنا، اور نیکی ان کا شعار ہے، جان لو کہ طوبیٰ ان سے ہے، طوبیٰ بہشت کا ایک درخت ہے کہ جس کی جڑیں پیغمبر(ص) میں ہیں اور ہر مومن کے گھر میں اس کی ایک شاخ ہے یہ شاخ اتنی وسیع ہے کہ اگر اس کی سیر کرنا چاہو تو ایک تیز رفتار گھوڑا جو سو سال اس کے سائے میں دوڑے تو اس کے سائے سے باہر نہ نکل سکے گا پس آگاہ رہو اور اس نعمت کے لیے رغبت کرو۔ مومن نیکیوں میں مشغول ہےکہ لوگ اس سے آرام پاتے ہیں جب رات ہوتی ہے تو وہ (مومن) اپنے چہرے کو خاک پر رکھتا ہے اور سجدہ کرتا ہے اور ان اعضاء کے ساتھ اس کا شکر بجالاتا ہے جو اس کے لیے محترم ہیں اور اسے آزادی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔

۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا خدا نے اپنے حبیب کو مخصوص مکارم اخلاق سے مزین کیا جو کہ یقین، قناعت، صبر، شکر، حلم، حسنِ خلق، سخاوت، غیرت، شجاعت اور مروت ہیں لہذا اے لوگو اگر تم ان مکارم کو اپنے اندر موجود پاؤ تو خدا کی حمد اور اس کاشکر ادا کرو اور خدا سے ان میں اضافے کی دعا کرو۔

۹ـ           امام رضا(ع) نے اپنے اجداد(ع) نے نقل کیا ہے کہ جب امام حسن مجتبی(ع) کا وقت رحلت قریب آیا تو وہ رونے لگے ان سے پوچھا  گیا آپ(ع) رسول خدا(ص) سے اتنا قریبی رشتہ رکھنے کے باوجود بھی گریہ

۲۱۴

فرمارہے ہیں جبکہ آپ(ع) کے بارے میں بہت سی احادیث و اقوال بھی کہے گئے ہیں آپ(ع) نے بیس (۲۰) حج با پیادہ انجام دیئے ہیں اور اپنے مال یہاں تک کہ اپنی نعلیں کو بھی راہ خدا میں تقسیم کردیا ہے امام(ع) نے فرمایا میرا گریہ دو سبب سے ہے ایک خدا سے ملاقات کا خوف اور دوسرا میرے دوستوں سے میری دوری۔

۱۰ـ          جنابِ رسول خدا(ص) سے جبرائیل(ع) ، ان سے میکائیل(ع) ، ان سے اسرافیل(ع)،اور ان سے خدا نے فرمایا ۔ میں خدا ہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں میں نے اپنی طاقت سے خلق کو  پیدا کیا اور جس کو پیغمبر(ص) بنایا چاہا اس کو چن لیا اور ان ہی میں سے میں نے اپنے صفی و خلیل اپنے حبیب محمد(ص) کو چنا ہے اور اس کو خلق پر مبعوث کیا ہے اور اس کے بعد علی(ع) کو اس کے لیے چنا اس کو اس کا برادر۔ وصی۔ وزیز اور(حق) ادا کرنے والا خلیفہ اپنے بندوں پر بنایا۔ تاکہ میرے قرآن کو امت کے سامنے بیاں کرئے اور ان کو تبلیغ کرے اور ان کی گمراہی میں رہبر بنے۔ میں نے اسے  اپنا باب قرار دیا اور جوکوئی اس میں گزرے دوزخ سے امان پائے وہ میرا قلعہ ہے جوکوئی اس میں آئے پناہ میں ہے وہ آسمانوں اور زمین میں میری حجت ہے۔ اسکی ولایت اور میرے رسول احمد(ص) کی نبوت کا اقرار کیے بغیر میں اپنی مخلوق کے کسی عمل کو ہرگز قبول نہیں کروں گا۔ علی(ع) وہ ہے کہ جس کے دونوں ہاتھ میرے بندوں پر کھلے ہیں وہ جن نعمتوں کو دوست رکھتا ہے وہ اسے عطا کی گئی ہیں وہ ولی ہے اور شناسا ہے۔ میری مخلوق میں سے  جو کوئی بھی اس کی ولایت سے روگرداں اور اسکی پہچان نہیں رکھتا اور اس سے دشمنی رکھتا ہے مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم ہے میں بھی اس کا دشمن ہوں اور اسے  دوزخ میں ڈالوں گا اور یہ کیسا برا انجام ہے۔ اور جو کوئی جہاں کہیں بھی اس سے محبت کرے گا میں اسے بہشت عطا کروں گا اور دوزخ سے پناہ دوں گا۔

۲۱۵

مجلس نمبر۴۰

(سب ۱۱ صفر سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           جنابِ علی بن ابی طالب(ع) فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے مجھے طلب کیا اور فرمایا اے علی(ع) تم یمن جاکر لوگوں کی اصلاح کرو۔ میں نے کہا یا روسول اﷲ(ص) وہ لوگ تعداد میں بہت زیادہ ہیں اور ان میں سے کچھ مجھ سے زیادہ عمر کے بزرگ بھی ہیں جب کہ میں جوان ہوں جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا اے میرے رفیق علی(ع) جب تم ان کے نزدیک پہنچ جاؤ تو با آواز بلند یہ کہنا اے اشجار۔ اے پتھرو۔ اے مٹی کے ڈھیلو۔ رسول خدا(ص) تمہیں درود و سلام کہتے ہیں۔ جنابِ امیر(ع) فرماتے ہیں جب میں یمن پہنچا اور ان لوگوں کے درمیان گیا تو ان لوگوں نے مجھے دیکھ کر اپنے ہتھیار نکال لیئے اور اپنی برہنہ تلواروں اور اپنے نیزوں و تیروں کا رخ میری طرف کر لیا۔ یہ دیکھ کر میں نے بہ ہدایت رسول خدا (ص) بلند آواز سے کہا اے اشجار۔ اے پتھرو۔ اے مٹی کے ڈھیلو تمہیں رسول خدا(ص) درود و سلام کہتے ہیں۔ جناب امیر(ع) فرماتےہیں اس آواز کا بلند ہونا تھا کہ وہاں سے درخت پتھر مٹی کے ڈھیلے وغیرہ سب کے سب غائب ہوگئے یہ دیکھ کر وہ تمام لوگ نہایت پریشان ہوئے اور ان کے ہتھیار ان کے ہاتھوں سے گر گئے ان کے قلب و جسم لرزنے لگے اور وہ جلدی سے میرے گرد اکٹھے ہوگئے میں نے بحکم خدا اور رسول(ص) ان کی اصلاح کی اور واپس چلا آیا۔

زہر سے قتلِ محمد(ص) کا منصوبہ

۲ـ           جنابِ امیر(ع) فرماتے ہیں کچھ یہودی ایک یہودیہ کے پاس آئے جس کا نام عبدہ تھا اور اس سے کہا جانتی ہو کہ محمد(ص) نے بنی اسرائیل کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور یہودیت کو ویران کر کے رکھ دیا ہے لہذا ہم یہ بیش قیمت زہر لے کر تمہارے پاس آئے ہیں جسے تمام اشراف یہود نے مل کر خریدا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ تو کسی طرح محمد(ص) کو  یہ زہر دے دے  اگر تو نے ایسا کر لیا تو ہم تجھے منہ مانگا انعام دیں گے اس عورت عبدہ نے وہ زہر ان سے لے لیا اور ایک گوسفند کے گوشت کو

۲۱۶

بھون کر تمام رؤساء یہود کو دعوت دی اور پھر آںحضرت(ص) کی خدمت میں جاکر انہیں کہا، اے محمد(ص) آپ جانتے ہیں کہ میں کس لیے حاضر ہوئی ہوں آپ(ص) بمعہ اپنے اصحاب میرے گھر پر دعوت قبول فرمائیں اور مجھے سر بلند فرمائیں رسول خدا(ص) اپنے اصحاب جن میں جنابِ امیر(ع) ابو دجانہ۔ ابو ایوب۔ سہل بن حنیف۔ اور دیگر انصاران بھی تھے کے ہمراہ اس کے گھر تشریف لے گئے اور دیکھا کہ تمام یہودی کھڑے ہیں آپ(ص) نے فرمایا بیٹھ جاؤ تو کہنے لگے ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ خدا کے رسول (ص) سے پہلے بیٹھیں، پھر وہ عورت بھنا ہوا گوسفند لائی اور سامنے رکھ دیا قدرت خدا سے گوسفند کے شانے کا گوشت گویا ہوا اور رسول خدا(ص) سے کہا یا رسول اﷲ(ص) مجھے مت کھائیں مجھے مسموم(زہر آلود) کردیا گیا ہے۔ رسول خدا(ص) نے عبدہ(زن یہودیہ ) کو بلایا اور اس سے فرمایا اے عورت تو کس کی خاطر ایسےکام کی مرتکب ہوئی۔ وہ عورت کہنےلگی میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اگر آپ(ص) خدا کے رسول(ص) ہیں تو یہ زہر آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکےگا اور اگر آپ(ص) ( نعوذ باﷲ) جھوٹے ہیں یا جادو گر ہیں تو اپنی قوم کو آپ(ص) سے نجات دلاؤں گی۔

اسی وقت جبرائیل(ع) نازل ہوئے اور رسول خدا(ص) سے فرمایا خدا آپ(ص) کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ کہو” بسم اﷲ والاملک“ اےمحمد(ص) یہ وہ نام ہے کہ ہر مومن اسے جان لے گا تو یہی کہے گا اور جان لو کہ ہر مومن عزیز ہے اور اس ( خدا) کے نور سے آسمان و زمین تابندہ ہیں اور ہر شیطان مردود کا سر اس کے سامنے نیچا ہے ہر قسم کے شر۔ زہر ، بیماری اور ہر بدی میں یہ کلمہ ” بسم الﷲ والا ملک“ یکتا ہے اور بجر اس خدا کے کوئی معبود حق نہیں اس نے قرآن میں سے جو کچھ نیچے بھیجا ہے مومنین کے لیے رحمت وشفا ہے اور ستم گاروں کے لیے نقصان ہے۔ پیغمبر(ص) نے اس کلمہ کی تلقین اپنے اصحاب کو بھی فرمائی۔ پھر فرمایا اگر سب لوگوں نے کھا لیا ہوتو چلو اور اپنے سر منڈھا ڈالو۔

آواز ناقوس

۳ـ          حارث اعور کہتے ہیں ہم امیرالمومنین(ع) کے ساتھ حیرہ کے مقام پر گئے اور وہاں دیکھا

۲۱۷

کہ ایک ویرانی( گرجے یا کلیسا کا اہل کار) ناقوس بجا رہا ہے جناب امیر(ع) نے فرمایا اے حارث جانتے ہو یہ ناقوس کیا کہہ رہا ہے میں نے کہا یا امیر(ع) خدا بہتر جانتا ہے یا خدا کا رسول(ص) یا پھر اس کے چچا کا بیٹا، جنابِ امیر نے فرمایا یہ کہتا ہے اس دنیا کی مثال ویرانی جیسی ہے اور کہتا ہے” لا الہ الا اﷲ“ حقا حقا صدقا صدقا“ بیشک دنیا نے ہم کو فریب دیا اور ہمیں سرگرم کیا۔ ہمارے دل کو اچک لیا اور ہمین گمراہ کیا اے دنیا کے بیٹے ٹھہر ٹھہر۔ اے دنیا کے بیٹے مار مار، اے دنیا کے بیٹے جمع کر جمع کر،دنیا فانی ہے صدی  بہ صدی کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ہمارا کوئی رکن سست ہوجاتا ہے( مرجاتا ہے) اور اس نے ضائع کیا ہمیشہ رہنے والے گھر کو اور فانی جگہ کو وطن بنایا۔ اور ہم نہیں جانتے کہ ہم نے اس میں کیا تقصیر کی ہے مگر یہ کہ مرنے کے بعد اس کا پتہ چلتا ہے۔

میں ( حارث) نے کہا یاامیرالمومنین(ع) کیا ںصاری کو یہ بات معلوم ہے تو جواب میں فرمایا اگر جانتے تو خدا کے مقابلے میں عیسی(ع) کی عبادت نہ کرتے۔

حارث کہتے ہیں میں اس ویرانی(گرجے کے اہکار) کے پاس گیا اور کہا تجھے مسیح کی قسم یہ ناقوس جو کچھ کہہ رہا ہے تجھے علم ہے اس نے کہا مجھے بتاؤ تب میں نے اسے کلمہ بہ کلمہ جناب امیر(ع) کا بیان سنایا اس ویرانی نے مجھے کہا تجھے تیرے پیغمبر(ص) کی قسم اس بات کی اطلاع تجھے کس نے دی ہے میں نے کہا اس مرد نے جو کل میرے ساتھ تھا اس نے پوچھا کیا تمہارے پیغمبر(ص) اور اس کے درمیان کوئی رشتہ داری ہے میں کہا ہاں وہ ہمارے پیغمبر(ص) کے چچا کے بیٹے ہیں اس نے کہا تجھے تیرے پیغمبر(ص) کا واسطہ مجھے بتا، کیا اس بات کو انہوں نے اپنے پیغمبر(ص) سے سنا ہے میں نے اثبات میں جواب دیا تو وہ ویرانی مسلمان ہوگیا اور کہنے لگا میں نے توریت میں پڑھا تھا کہ ایک آخری نبی(ص) آئے گا جو ناقوس کی آواز کی تفسیر بتائے گا۔

۴ـ          انس کہتے ہیں کہ ایک تاریک شب میں میں دو آدمیوں کے ساتھ جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا جنابِ رسول خدا(ص) نے ہمیں فرمایا علی(ع) کے گھر جاؤ ہم علی(ع) کے گھر گئے اور آہستہ سے دروازہ کھٹکھٹایا علی(ع) ایک اونی ردا شانوں پر ڈالے اور رسول خدا(ص) کی شمشیر کی مانند ایک شمشیر ہاتھ میں لیے باہر تشریف لائے اور فرمایا کیا بات ہے جو اس وقت آئے ہو خیریت ہے، ہم نے کہا

۲۱۸

 ہمیں رسول خدا(ص) نے آپ(ص) کے ہاں آنے کا حکم دیا ہے اور وہ خود بھی تشریف لارہے ہیں اتنے میں رسول خدا(ص) بھی تشریف لے آئے اور فرمایا اے علی(ع)، جنابِ امیر (ع) نے کہا لبیک یا رسول اﷲ(ص) فرمایا جو کچھ گذشتہ شب تمہارے ساتھ پیش آیا ہے اس کی خبر میرے اصحاب کو دو۔ جنابِ امیر(ع) نے فرمایا یا رسول اﷲ(ص) مجھے بتائے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے رسول خدا(ص) نے فرمایا اے علی(ع) خدا کو حق بات کرنے سے شرم نہیں آتی لہذا تم بھی شرم محسوس نہ کرو، جنابِ امیر(ع) نے فرمایا یا رسول اﷲ(ص) گذشتہ شب مجھے غسل کی حاجت ہوئی تو میں نے گھر میں پانی تلاش کیا کہ غسل کروں جب نہ ملا تو حسن(ع) کو ایک طرف بھیجا اور حسین(ع) کو دوسری طرف تاکہ پانی تلاش کریں جب انہیں آنے میں دیر ہوگئی تو میں پشت کے بل لیٹ گیا کہ تاریکی شب میں یکا یک ہاتف غیبی کی آواز سنائی دی کہ اے علی(ع) اٹھو اور اس پانی کے برتن کو لے لو اور غسل کرو میں نے وہ برتن لیا اور غسل کر لیا پھر سندس کا وہ غلاف جو اس برتن کے اوپر تھا اسے اس برتن میں پھینک  دیا اس وقت اس برتن کو ہوانے اوپر اٹھایا تب اس برتن میں سے ایک گھونٹ میری  پیشانی اور میرے سر پر گرا جس کی خنکی میرے دل و جسم کو خنک کر گئی۔

جنابِ رسول(ص)  خدا نے فرمایا اے علی(ع) مبارک ہو مبارک ہو کہ تم نے اس طرح فجر کی کہ جبرائیل(ع) تمہارا خادم تھا اور وہ  پانی نہر کوثر اور برتن بہشت کا تھا پھر آپ(ص) تین بار فرمایا کہ مجھے جبرائیل(ع) نے اس کی خبر دی ہے۔

۵ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا اپنے بھائی کی  شماتت ( مذاق اڑانا۔ نقصان پر خوش ہونا) ظاہرامت کرو کہ خدا اس پر رحم کردے اور کہیں تمہیں بلا میں مبتلا نہ کردے۔

۶ـ           ابوذر(رح) کہتے ہیں کہ میں نے رسول خدا(ص) سے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) ایک آدمی اپنے لیے کام کرتا ہے اور لوگ اسے دوست رکھتے ہیں رسول خدا(ص) نے فرمایا مومنین کےلیے یہ فوری اور نزدیکی خوشخبری ہے۔

۷ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا میری امت کے زہد و یقین رکھنے والوں کے لیے نیکی و بھلائی ہے جبکہ بخیل اور آرزو رکھنے والوں کےلیے ہلاکت ہے۔

۲۱۹

۸ـ          اصبغ ابن نباتہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں امیرالمومنین(ع) کے ساتھ مسجد کوفہ میں موجود تھا اس وقت جنابِ امیر(ع) نے فرمایا ۔ اے اہل کوفہ  خدا نے تمہیں وہ چیز بخشی ہے جو کسی اور کو نہیں دی گئی اور یہ ہے کہ تمہارے اس گھر( مسجد کوفہ) میں تمہاری نماز کو فضیلت بخشی ہے یہ میرا گھر ہے یہ آدم(ع)  و نوح(ع) و ادریس(ع) کا گھر ہے یہ گھر ابراہیم(ع) کا گھر ہے۔ یہ خضر(ع) کا گھر ہے یہ گھر ان چار مسجدوں میں سے ایک ہے کہ جن کو خدا نے ان کے اہل کے لیے چنا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ( خدا) اس میں حجر اسود کو نصب کرے کہ یہ مسجد روز قیامت دو سفید چادروں میں لپٹی اپنے اہل کی شفاعت کررہی ہوگئی جو کہ رد نہ ہوگئی ایک دن ایسا آئے گا۔ اور ایک زمانہ آئے گا کہ میرے فرزندوں میں سے مہدی(ع) اس میں نماز پڑھے گا اور روئے زمین پر کوئی مومن ایسا نہ ہوگا جس کے لیے یہ نماز کا گھر نہ ہو کہ وہ اس میں آئے گا یا اس کا دل اس میں آنے کو چاہے گا۔ اس لیے اسے مت چھوڑ اور اپنی نمازوں میں اس مسجد کے ذریعے تقریب خدا طلب کرو اور اپنی حاجات کے لیے اس میں رغبت کرو اگر لوگ جانتے کہ اس میں کیا برکت ہے تو قطار در قطار اس کی طرف آتے چاہے ان کےہاتھ پیر برف میں دھنسے ہوئے ہی کیوں نہ ہوتے۔( یا وہ برف سے ڈھکنے پہاڑ ہی عبور کر کے کیوں نہ آتے)

۹ـ           جنابِ امیرالمومنین علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا عورتوں کی عقل ان کے جمال سے اور مردوں کا جمال ان کی عقلوں سے ہے۔

۱۰ـ          جنابِ علی بن ابی طالب(ع) نے خدا کے قول، فراموش نہ کرو حصے کو دنیا سے (قصص،۷۷) کی تفسیر کے سلسلے میں فرمایا، اپنی تندرستی، طاقت، فراغت، جوانی اور نشاط کو فراموش مت کرو۔ اس سے طلب آخرت کرو( طلب آخرت کے لیے، انہیں استعمال کرو)

۱۱ـ           جنابِ علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا رسول خدا(ص) نے حسن(ع) و حسین(ع) کے ہاتھ کو پکڑ کر فرمایا جو کوئی ان دونوں اور ان کے ماں(ع) باپ(ع) کو دوست رکھتا ہے وہ روز قیامت ہمارے ساتھ اور ہمارے درجے میں ہوگا۔

۱۲ـ          جنابِ علی ابن حسین(ع)، امام چہارم(ع) نے فرمایا خدا فرماتا ہے میری خلق میں سے کوئی مجھے

۲۲۰