مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 297216
ڈاؤنلوڈ: 7465

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 297216 / ڈاؤنلوڈ: 7465
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مجلس نمبر۴

(سلخ رجب سنہ۳6۷ھ)

وصی پیغمبر(ص) کون ہے

۱ ـ          سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میں نے رسول خدا(ص) سے پوچھا کہ آپ(ص) کی امت سے آپ کا وصی کون ہے کیونکہ کوئی پیغمبر مبعوث نہیں ہوا مگر یہ کہ اس نے اپنی امت سے وصی قرار دیا ہے رسول خدا(ص) نے فرمایا ابھی تک میرے لیے یہ بیان نہیں ہوا سلمان کہتے ہیں میں کچھ مدت خدا سے درخواست کرتا رہا اور اشتیاق میں رہا پھر ایک دن میں مسجد میں آیا تو رسول خدا(ص) نے مجھے آواز دی اور فرمایا اے سلمان تم سے مجھ سے میرے وصی کے بارے میں پوچھا تھا تم بتاؤ کہ وصی موسی(ع) کون تھے؟ میں نے کہا ان کے وصی یوشع بن نون(ع) تھے پیغمبر(ص) نے تھوڑا تامل کیا پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ انھوں نے یوشع کو اپنا وصی کیوں بنایا میں نے کہا خدا اور اس کا رسول اس کو زیادہ بہتر جانتے ہیں آپ(ص) نے فرمایا ان کو اس لیے وصی بنایا گیا کیوںکہ یوشع(ع)، موسی(ع) کے بعد ان کی امت کے سب سے بڑے عالم تھے اور میرا وصی اورمیری امت کا عالم میرے بعد علی(ع) ابن ابی طالب(ع) ہے۔

۲ ـ          لیث بن سلیم بیان کرتے ہیں کہ جب میں جنابِ رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ علی(ع)، فاطمہ(س)، حسین(ع) آپس میں یہ فرمارہے ہیں کہ ان میں سے کون جنابِ رسول خدا(ص) کے زیادہ نزدیک ہے۔ اسی اثناء میں جنابِ رسول خدا(ص) تشریف لائے، اور فاطمہ(س) کو آغوش میں لیا پھر علی(ع) کو اپنے قریب کیا اور حسن(ع) اور حسین(ع) کو دائیں اور بائیں کاندھے پر سوار کر کے فرمایا تم سب مجھ سے اور میں تم سے ہوں۔

۳ ـ         رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی جب بھی اپنے بستر پر سونے کے لیے جائے اور سورة ”قل ہو اﷲ“ کو پڑھے تو خدا اس کے پچاس سال کے گناہ معاف کردیتا ہے۔

۴ ـ         ہارون بن حمزہ کہتے ہیں میں نے امام جعفر صادق(ع) سے سنا کہ اﷲ نے چار ہزار فرشتے پیدا

۲۱

کیئے جو گرد آلود حالت میں قیامت تک امام حسین(ع) کی قبر مبارک پر گریہ کرتے ہیں گے۔ جو زائر قبر امام حسین(ع) کی زیارت کے لیے جائے گا یہ فرشتے اس کی زیارت کریں گے اور اس زائر کی زیارت اس طرح قبول کی جائے گی گویا اس نے میری زیارت کی اگر وہ بیمار ہوگا تو اس کی عیادت کی جائے گی اگر مرجائے گا تو اس کا تشیع جنازہ کروایا جائے گا اور وہ فرشتے قیامت تک اس کی مغفرت طلب کرتے رہیں گے۔

۵ ـ         ابوحمزہ ثمالی بیان کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا کہ خدا سے اتنے زیادہ امیدوار مت ہوجاؤ کہ گناہوں پر دلیر ہوجاؤ۔ اور نہ ہی اتنے خوف زدہ ہوجاؤ کہ اس کی رحمت سے مایوس ہوجاؤ۔

6 ـ          پیغمبر(ص) نے فرمایا۔ اے لوگو! بے شک اﷲ نے میری اطاعت تم پر فرض کی ہے اور میری نافرمانی کرنے سے تم کو منع کیا ہے اور میرے امر کی پیروی کو تم پر واجب کیا ہے اور میرے بعد تم پر فرض کیا گیا ہے کہ علی(ع) کی اطاعت کرو جس طرح میری اطاعت فرض کی گئی ہے اور تم کو منع کیا گیا ہے علی(ع) کی نافرمانی سےجس طرح میری نافرمانی سے منع کیا گیا ہے۔ خدا نے اس کو میرا وزیر و وصی و وارث قرار دیا وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اس کی دوستی ایمان ہے اور اس کی دشمنی کفر ہے جو اس سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اس کا دشمن میرا دشمن ہے وہ مولا و آقا ہر اس آدمی کا ہے کہ جس کو مولا و آقا میں ہوں اور میں ہر مسلمان مرد و عورت کا مولا ہوں میں اور وہ اس امت کے دو باپ ہیں۔

۷ ـ         علی بن سالم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں امام صادق(ع) کی خدمت میں ماہِ رجب میں گیا کہ اس کے چند دن باقی تھے جب آپ(ع) نےمجھے دیکھا تو فرمایا اے سالم اس مہینے کوئی روزہ رکھا ہے عرض کیا بخدا نہیں یا ابن رسول اﷲ(ص) فرمایا اس کے ثواب کو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا تیرے ہاتھ سے جاتا ہوا یہ مہینہ ایسا ہے کہ خدا نے اس کو بہت فضیلت دی ہے اور اس کے احترام کو عظیم کیا ہے اور اپنی کرامت کو اس کے روزہ دار کے لیے کھلا کیا ہے میں نے عرض کیا یاابن رسول اﷲ جو کچھ اس ماہ میں باقی رہ گیا ہے اس کا روزہ رکھوں تو دیگر روزہ داروں کی

۲۲

 طرح ثواب مل جائے گا۔ فرمایا اے سالم۔ جوکوئی ایک دن اس ماہ کے آخر کا روزہ رکھتا ہے تو اس کے لیے امان ہے جان دینے کی سختی میں اور امان ہے ہر خوف ناک موت سے اور عذاب قبر سے اور جو کوئی دو دن اس ماہ کے آخر کا روزہ رکھتا ہے وہ وسیلہ اس کا پل صراط سے گزرنے کا ہے اور جو کوئی تین دن اس ماہ کے آخر کا روزہ رکھتا ہے تو روز قیامت کی سختیوں اور دوزخ سے اسے نجات ملے گی۔

۸ ـ         رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے فرمایا اے علی(ع) تیرے شیعہ روز قیامت کامیاب ہیں جو کوئی ان میں سے کسی ایک اہانت کرتا ہے اس نے تیری اہانت کی اور جوکوئی تیری اہانت کرے اس نے میری اہانت کی ہے اور جو کوئی میری اہانت کرتا ہے خدا اس کو آتش دوزخ میں گرادے گا۔ کہ ہمیشہ اس میں رہیں گے اور یہ کیا برا انجام ہے اے علی(ع) تم  مجھ سے ہو اور میں تم سے تمہاری روح میری روح ہے تمہاری طینت میری طینت سے ہے اور تمہارے شیعہ پیدا ہوئے ہماری اضافی طینت سے جو کوئی ان کو دوست رکھتا ہے ہم کو دوست رکھتا ہے جو کوئی ان کو دشمن رکھتا ہے ہم کو دشمن رکھتا ہے اور جو کوئی ان سے پیار کرتا ہے وہ ہم سے پیار کرتا ہے اے علی(ع) کل میں مقام محمود پر کھڑا تمہارے شیعوں کی شفاعت کروں گا اے علی(ع) یہ خوشخبری ان کو دے دو اے علی(ع) تمہارے شیعہ خدا کے شیعہ ہیں اور تمہارے مددگار خدا کے مددگار ہیں تمہارے دوست خدا کے دوست ہیں تمہاری حزب خدا کی حزب ہے اے علی(ع) سعادت مند ہے وہ بندہ جو تمہیں دوست رکھتا  ہے اور بدبخت ہے وہ جو تمہیں دشمن رکھتا ہے اے علی(ع) تمہارے لیے بہشت میں خزانہ ہے اور دونوں طرف سے اس پر تسلط رکھتے ہو حمد ہے اس پروردگارہے اور رحمت ہو اس کی بہترین خلق محمد(ص) پر اور ان کی آل پاک پر اور ان کا کردار نیک و نجیب وخوش رفتار ہے۔

۲۳

مجلس نمبر۵

(۲ شعبان سنہ۳۶۷ھ)

۱ـ           امام جعفر صادق(ع) بن محمد(ع) نے فرمایا شعبان کا روزہ قیامت کےلیے ذخیرہ ہے جو بندہ شعبان میں روزہ رکھتا ہو خدا اس کی زندگی کے کاموں کی اصلاح کرے گا اور دشمن کےشرکو اس سے دور کرے گا سب سے کمتر ثواب جو کوئی ایک دن شعبان کا روزہ رکھے گا اس کے لیے یہ ہے کہ بہشت اس پر واجب ہو جاتی ہے۔

۲ـ           علی بن فضال اپنے باپ سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے کہا میں نے سنا علی بن موسیٰ رضا(ع) نے فرمایا جو کوئی مغفرت طلب کرتا ہے خدا سے شعبان میں تو خدا ستر بار اس کے گناہوں کو معاف کرتا ہے اگرچہ وہ ستاروں کی گنتی کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔

۳ـ          رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی چاہے کہ روز قیامت خدا سے ملاقات کرے تو اسے چاہیے کہ وہ نامہ، عمل، یگانہ پرستی، اور میری نبوت پر ایمان رکھے پھر آٹھ دروازے بہشت کے اس کے سامنے کھل جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا اے ولی خدا جس دروازے سے چاہو داخل ہو جاؤ جب صبح ہوگی تو وہ بندہ کہے گا حمد ہے اس خدا کی کہ جو تاریکی شب کو لے گیا اور اپنی رحمت سے دن کو لے آیا پھر اس سے کہا جائے گا اے نئی خلق خوش آمدید۔ خداوند نے تیرے دونوں کاتب تیرے محافظ زندہ رکھے ہیں۔ پھر پہلے دائیں طرف متوجہ ہوگا اور پھر اپنے بائیں طرف اور کہے گا ”بسم اﷲ الرحمن الرحيم“ سہارا اﷲ کے نام کا جو سب کو فیض پہنچانے والا خاص فیض رساں ہے“ بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں کوئی معبود حق بجز خدائے یگانہ کہ اس کا کوئی شریک نہیں محمد(ص) اس کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ وقت آنے والا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے اور خدا زندہ کرنے والا ہے ہر اس چیز کو جو قبروں میں ہے میں اس عقیدہ پر زندہ ہوں اور اسی پر مروں گا اور اسی پر اٹھایا جاؤں گا انشاء اﷲ، خدایا میرا سلام محمد(ص) اور ان کی آل تک پہنچا دے۔

۲۴

قیامت میں فاطمہ(س) کی سواری

۴ـ          ابو جعفر محمدبن علی باقر(ع) فرماتے ہیں کہ جابر بن عبداﷲ انصاری(رح) بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا تو میری بیٹی فاطمہ(س) جنت کے ایک ناقہ پر سوار ہوکر میدانِ محشر میں آئے گی اس ناقہ کے دونوں پہلوؤں پر ریشم و دیباج کے جھول لٹک رہے ہوں گے اس کی مہار تازہ موتیوںکی اس کے چاروں پائے زمرد سبز کے اسکی دم مشکِ اذفر کی اور اس کی آنکھیں سرخ یاقوت کی ہوں گی، اس کی پشت پر ایک قبہ ( ہودج) نور کا ہوگا جس کا ظاہر اس کے باطن سے نمایاں ہوگا اور باطن ظاہر سے نظر آئے گا اس کا باطن عفو الہی سے مملو ہوگا اور ظاہر رحمت الہی سے گھرا ہوا ہوگا ان(فاطمہ(س)) کے سر پر نور کا ایک تاج ہوگا اس تاج کے ستر رکن (گوشے) ہوں گے ہر رکن موتیوں اور یاقوت سے مرصع ہوگا اور یہ جوہرات میدان محشر میں یوں چمکتے ہوں گے جیسے آسمان پر ستارے چمکتے ہیں پھر ان کے دائیں طرف ستر ہزار فرشتے اور بائیںطرف ستر ہزار فرشتے ہونگے جبرائیل امین اس ناقہ کی مہار کو پکڑے ہوئے ہوں گے اور بلند آواز سے ندا دیں گے کہ اے اہل محشر اپنی آنکھیں بند کر لو تاکہ فاطمہ(س) بنت محمد(ص) کی سواری میدان محشر سے گزر جائے۔

اس دن کوئی رسول، نبی، کوئی صدیق، اور کوئی شہید ایسا نہ ہوگا جو اس اعلان کو سن کر اپنی آنکھیں بند نہ کرے یہاں تک کہ فاطمہ(س) گزر جائیں گی اور خود کو عرشِ پروردگار تک پہنچا دیں گی پھر خود کو ناقہ سے گرا دیں گی اور فریاد کریں گی اے میرے اﷲ ، اے میرے مالک تو میرے اورمجھ پر ظلم کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کردے خدایا میرے اور میرے بیٹوں کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ کردے اس وقت خدا کی طرف سے جواب آئے گا اے میری حبیبہ اور اے میرے حبیب(ص) کی بیٹی تم جو چاہو مانگو میں تمہیں عطا کروں گا اور جس کی چاہو شفاعت کرو میں قبول کروں گا مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے کہ آج کوئی ظالم مجھ سے نہیں بچ سکے گا، فاطمہ(س) عرض کریں گی اے میرے اﷲ اے میرے مالک آج میں اپنی ذریت اپنے محبوں اپنے شیعوں اور اپنی ذریت کے شیعوں کی

۲۵

 شفاعت کرتی ہوں پس اﷲ کی طرف سے آواز آئے گی کہاں ہے فاطمہ(س) کی اولاد، ان کے (فاطمہ(س) کے) شیعہ، ان کے محب، ان کی اولاد کے شیعہ، پس وہ لوگ اس شان سے آئیں گے کہ چاروں طرف سے رحمت کے فرشتے حلقہ کیئے ہوں گے اور فاطمہ(س) ان کی رہبر ہوںگی یہاں تک  کہ ان کو داخل بہشت کریں گی۔

۵ـ رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی چاہے کہ وہ نجات کی کشتی پر سوار ہو، محکم حلقہ کے ساتھ ہو اور اﷲ کی رسی کو تھامے ہوئے ہو تو اسے چاہیے کہ میرے بعد علی(ع) کا حبدار ہو  اس کے دشمن کا دشمن ہو اور چاہیے کہ ان اماموں کی اقتدا کرے جو اس کے فرزندوں سے ہیں کیوںکہ یہ میرے خلفا و اولیا ہیں، حجت خدا ہیں اس کی مخلوق پر میرے بعد اور سردار ہیں میری امت کے اور پیشوا ہیں جنت کی طرف ان کی حزب(جماعت) میری حزب ہے اور میری حزب خدا کی حزب ہے اور اس کے دشمنوں کی حزب شیطان کی حزب ہے۔

۲۶

مجلس نمبر۶

(سات شعبان سنہ۳۶۷ھ)

۱ـ           جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان خدا کا مہینہ ہے جو کوئی ایک دن میرے مہینے کا روزہ رکھے گا میں روز قیامت اس کا شفیع ہوں گا اور جو کوئی دو دن میرے مہینے کا روزہ رکھے گا اس کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور جو کوئی تین دن میرے مہینے کا روزہ رکھے گا تو اس سے کہا جائے گا تیرا عمل محکم ہوگیا ہے  اور جو کوئی ماہ رمضان کا روزہ رکھے گا اور اپنی زبان کی حفاظت کریگا اور لوگوں کو تکلیف نہ دے گا خدا اس کے گذشتہ آئیندہ وگناہوں کو معاف کردے گا اور دوزخ سے اس کو آزاد کرے گا اور اس کو دار قرار میں لے آئے گا اور اس کی شفاعت  اہل توحید میں سے قبول کرے گا چاہے اس کے گناہ اعداد رمل یا کوہ عالج کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔

۲ـ           امام موسی بن جعفر(ع) ہارون رشید کے ہاں پہنچے تو اس وقت وہ ایک آدمی پر غصے ہو رہا تھا۔ آپ(ع) نے فرمایا بے شک تو اس پر خدا کے لیے غصے ہو رہا ہے مگر تجھے اس پر اس کے علاوہ غصہ نہیں کرنا چاہئے۔

۳ـ          امام صادق(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا ہے کہ رسول خدا(ص) ایک دفعہ کچھ آدمیوں کے پاس سے گزرے کہ وہ ایک پتھر کو اوپر کی طرف پھینک رہے تھے ۔( بطور پاپانسہ) اور ان کا یہ عمل بار بار تھا اور آپ(ص) نے ان سے فرمایا یہ کیا کام ہے؟ کہنےلگے اپنی کامیابی کی آزمائش کررہے ہیں آپ(ص) نے فرمایا کیا میں تم کو کامیاب ترین آدمی سے آگاہ کروں؟ عرض کرنےلگے کیوں نہیں یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) نے فرمایا طاقتور ترین اور کامیاب تر تم میں سے وہ بندہ ہے کہ جب وہ خوش ہوجائے تو اسکی خوشی اس کو گناہ و باطل کی طرف نہ کھینچے اور جب غصہ کرے تو اپنے غصہ کو گفتار حق سے ختم کردے اور جب طاقتور ہو تو ناحق کسی پر ہاتھ نہ ڈالے۔

۴ـ          یونس بن ظہبان کہتے ہیں امام جعفر بن محمد(ع) نے فرمایا کہ اپنی عبادت کو مشتہر کرنے سے اس

۲۷

کے خلوص میں شک ہوتا ہے میرے والد(ع) نے اپنے والد(ع) سے انہوں نے اپنے جد(ع) سے روایت کیا اور مجھے بتایا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا سب سے بڑا عبادت گزار وہ آدمی ہے جو اپنے فرائض بجالائے سب سے بڑا سخی وہ آدمی ہے جو اپنے مال کی زکوٰة ادا کرے اورسب سے بڑا زاہد آدمی وہ ہے جو حرام سے اجتناب کرے سب سے بڑا صاحب تقوی (متقی) وہ ہے جو اپنے نفع و نقصان می سچ کہے اور سب سے بڑا عقل مند وہ آدمی ہے۔ کہ لوگوں کے لیے وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے اور لوگوں کے لیے ناپسند کرئے جو وہ اپنے لیے ناپسند کرتا ہے، سب سے زیادہ ہوشیار و عقلمند آدمی وہ ہے جو موت کو شدت سے یاد کرے اور سب سے زیادہ رشک کے قابل وہ آدمی ہے جو زیرِ خاک چلا جائے اور عذاب و سزا سے محفوظ اور ثواب کی امید رکھتا ہو۔ سب سے بڑا غافل وہ ہے جو دنیا کے تغیرات(حالات) کو بدلتا ہوئے دیکھے اور پھر اس سے نصیحت حاصل نہ کرے سب سے بڑا معتبر وہ ہے جو دنیا پر اعتبار نہ کرے، اور سب سے بڑا عالم وہ ہے جس کے علم کے اندر تمام انسانوں کے علوم جمع ہوجائیں سب سے بڑا شجاع  وہ آدمی ہے جو اپنی خواہشات نفس پر غالب آجائے جو آدمی علم میں سب سے بڑا ہے اس کی قیمت سب سے زیادہ ہے۔ اور سب سے کم قیمت وہ آدمی ہے جو سب سے کم علم ہو، اور سب سے کم لذت حاصل کرنے والا حاسد ہے سب سے کم راحت پانے والا بخیل ہے اور سب سے بڑا بخیل وہ آدمی ہے جو اس چیز میں بخل کرے جس کو خدا نے اس پر واجب کیا ہے سب سے زیادہ حق کا سزاوار وہ آدمی ہے جو ان میں سب سے زیادہ صاحب علم ہو اور جان لو کہ سب سے کم حرمت و عزت والا آدمی فاسق ہے اور سب سے کم وفادار آدمی غلام ہے اور کم دوست رکھنے والا آدمی فقیر ہے سب سے زیادہ مفلس و فقیر لالچی( طمع کرنے والا) ہے جب کہ سب سے بڑا غنی وہ آدمی ہے جو حرص کو اسیر(قیدی) نہ ہو اور ایمان میں سب سے بلند ترین ( افضل) وہ آدمی ہے جو بہت زیادہ خوش خلق ہو سب سے زیادہ مکرم وہ ہے جو سب سے زیادہ صاحب تقوی ہو اور قدر ومنزلت میں سب سے بڑا وہ آدمی ہے جو بے معنی و بے مطلب باتوں کو ترک کردے سب سے زیادہ پرہیزگار آدمی وہ ہے جو دکھاوے کو چھوڑدے خواہ وہ اس کا حق  رکھتا ہو سب سےکم مروت آدمی وہ ہے جو جھوٹ بولتا ہو اور بدبخت تریں آدمی وہ ہے جو ( بداعمال) ہی

۲۸

 کیوں نہ ہو بادشاہ ہوتا ہے سب سے زیادہ قابل نفرت آدمی وہ ہے جو متکبر (غرور کرنے والا) ہو اور سب سے بڑا مجاہد وہ آدمی ہے جو گناہوں کو ترک کردے سب سے زیادہ فرزانہ آدمی وہ ہے جو جاہلوں سے گریز کرے سب سے زیادہ سعادت مند آدمی وہ ہے جو مکرم لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک رکھے اور سب سے زیادہ عقلمند آدمی وہ ہے جو لوگوں سے زیادہ مدارات کرے سب سے زیادہ تہمت کا مستحق وہ آدمی ہے جو متہم ( تہمت لگانے والے) لوگوں کا ہمنشین ہو اور سب سے بڑا سرکش وہ آدمی ہے جو اسے قتل کرے جس نے کوئی قتل نہ کیا ہو اور اس کو مارے جس نے کسی کو نہ مارا ہو۔ وہ آدمی دوسروں کو معاف کرنے کا زیادہ حق دار ہے جو سزا دینے پر قدرت رکھتا ہو۔ سب سے زیادہ گناہ کا سزا وار وہ ہے جو سامنے تعریف کرے اور پیٹھ پیچھے غیبت کرے سب سے زیادہ ذلیل آدمی وہ ہے جو لوگوں کی اہانت اور بے عزتی کرے اور سب سے زیادہ حزم و احتیاط والا آدمی وہ ہے جو اپنے غصے کو پی جائے سب سے زیادہ با صلاحیت آدمی وہ ہے جو لوگوں کے ساتھ صلح رکھے اور بہترین شخص وہ ہے جس سے دوسرے لوگ نفع حاصل کریں۔

۵ـ          جابر بن عبداﷲ انصاری کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نےفرمایا بے شک خدا نےمجھے برگزیدہ کیا اور مجھے رسول(ص) بنایا اور کتابوں کی سردار کتاب مجھ پر نازل کی جب میں ( رسول خدا(ص) )نے عرض کیا اے میرے مالک اے میرے معبود نے موسی(ع) کو فرعون کی طرف بھیجا تو اس نے تجھ سے چاہا کہ اس کے بھائی ہارون(ع) کو اس کےساتھ کردے اور اس کا وزیر بنا دے اور اس کے بازو سے اسے قوت دے میرے مالک تو نے اس کی بات کی تصدیق کی میں بھی میرے مالک میرے معبود تجھ سے خواہش رکھتا ہوں کہ میرے خاندان سے میرے لیے وزیر مقرر کردے اور میرے بازو کو اس کے ذریعے قوی کردے تو خدا  نے علی(ع) کو وزیر اور میرا بھائی بنایا اس کو بہادر کیا اور اس کی ہیبت کو دلِ دشمن میں قرار دیا اور وہ اول بندہ ہے کہ جو مجھ پر ایمان لایا اورمیری تصدیق کی اور وہ اول بندہ ہے کہ جس نے میرے ساتھ یگانہ پرستی( خدائے واحد کی عبادت ) کی میں نے اسے خدا سے مانگا اور خدا نے اس کو مجھے عطا  کیا وہ سید اوصیاء ہے اور اس کا آنا سعادت ہے اس کی اطاعت میں موت شہادت ہے اس کا نام تورات میں میرے نام کےساتھ ہے اس کی زوجہ

۲۹

 صدیقہ کبریٰ میری بیٹی ہے اور اس کے دو بیٹے اہل بہشت کے سردار ہیں اور یہ دونوں بیٹے میرے ہیں علی(ع) اور یہ دونوں اور باقی امام(ع) خدا  کی حجت ہیں اس کی مخلوق پر پیغمبروں کے بعد۔ اور علی(ع) میری امت میں علم کا دریا ہیں جو کوئی ان کی پیروی کرے گا نجات پائے گا دوزخ سے اور جو کوئی ان کی اقتدار کرے گا  تو یہ اسے صراط مستقیم کی رہبری کریں گے خدا ان سے دوستی رکھنے والے شخص کو بہشت کے علاوہ کہیں اور داخل نہیں کرے گا۔

۳۰

مجلس نمبر۷

( دس شعبان سنہ۳۶۷ھ)

فضائل شعبان

۱ـ           ابن عباس(رض) کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے اس ضمن میں کہ ان کے پاس فضائل شعبان کا مذاکرہ کیا گیا فرمایا شعبان مبارک مہینہ ہے اور یہ میرا مہینہ ہے اور حاملان عرش اس کو ماہ بزرگ شمار کرتے ہیں اور اس کے حق کو پہچانتے ہیں یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں مومنین کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے جس طرح ماہ رمضان میں اضافہ ہوتا ہے اور بہشت اس ماہ میں سجائی جاتی ہے اور اس کا نام شعبان اس لیے ہے کہ مومنین کا رزق اس میں منشعب (تقسیم ہونا پھیلایا جانا) ہوتا ہے اور یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں کی گئی ایک نیکی ستر نیکیوں کے برابر ہے اس میں بدی ختم ہوتی اور گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور نیکی قبول ہوتی ہے خدائے جبار اس میں اپنے بندوں کی احتیاج کرتا ہے اور اس میں روزہ رکھنے والوں اور رات کو جاگنے والوں پر نگاہ رکھتا ہے ( ملائکہ) حاملان عرش اسی مقصد کیلیے قائم ہیں۔ پس علی(ع) بن ابی طالب(ع) اٹھے اور کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اﷲ(ص) اس ماہ کے فضائل ہمارے لیے بیان کریں تاکہ شوق روزہ پیدا ہو اور اس ماہ میں ہماری عبادت میں اضافہ ہو اور رب جلیل کی رضا کے لیے اس ماہ میں کوشش کی جائے، پیغمبر(ص) نےفرمایا جو کوئی پہلی شعبان کو روزہ رکھےگا تو خدا اس کے لیے ستر نیکیاں لکھے گا جو عبادت کے برابر ہیں، جو کوئی دوسرے دن روزہ رکھے گا تو اس کے وہ گناہ جو ہلاک کردینے والے ہیں مٹادیئے جائیں گے جو کوئی تیسرے دن شعبان کا روزے رکھے گا ستر درجہ اس دروازے کے جو یاقوت کے ساتھ بہشت میں مرصع ہے اس کے لیے بلند کرے گا، جو کوئی چوتھی شعبان کا روزہ رکھے گا تو اس کے رزق میں وسعت ہوگی جو کوئی پانچواں دن کا روزہ رکھے گا تو اس کے بندوں میں محبوب ہوگا۔ جو کوئی چھٹے دن کا روزہ رکھے گا تو ستر قسم کی بلائیں اس سے دور کی جائیں گی۔ جو کوئی ساتویں دن کا روزہ رکھے گا تو وہ ابلیس اور اس لشکر سے تمام عمر محفوظ رہے گا، جو کوئی آٹھویں دن کا روزہ رکھے گا تو دنیا سے نہ

۳۱

 جائے گا جب تک حوض قدس سے نوش نہیں کرلیتا جو کوئی نویں دن کا روزہ رکھے گا تو جس وقت قبر میں منکر نکیر سوالات کرتے ہیں نہیں کریں گے اور وہ مورد لطف ٹھہرایا جائے گا۔ جو کوئی دسویں دن شعبان کا روزہ رکھے گا تو خدا ستر ذراع اس کی قبر کو وسعت دے گا، جو کوئی گیارہویں دن کا روزہ رکھے گا اس کی قبر میں گیارہ چراغ نور کے روشن ہوں گے جو کوئی بارہویں دن کا روزہ رکھے گا اس ماہ میں تو ہر روز نوے ہزار فرشتے اس کی قبر میں اسے دیکھنے کے لیے آتے  رہیں گے یہاں تک کہ صور پھونگا جائے، جو کوئی تیرہویں شعبان کا روزہ رکھے گا تو فرشتے سات آسمانوں کے فرشتے اس کے لیے مغفرت طلب کریں گے جو کوئی چودہویں دن کا رزہ رکھے گا تو جانوروں اور درندوں کو الہام ہوگا کہ اس کے لیے مغفرت طلب کریں یہاں تک جکہ دریا کو مچھلیوں کو بھی اس سے مطلع کیا جائے گا۔ جو کوئی اس ماہ کے پندرہویں دن کا روزہ رکھے گا۔ تو رب العزت اس کو ندا دے گا کہ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم میں تجھے آتشِ جہنم میں نہیں جلاؤں گا، جو کوئی سولہویں دن کا روزہ رکھے گا تو اس کے لیے آگ کے ستر(۷۰) دریا بجھا دیئے جائیں گے جو کوئی سترہویں دن کا روزہ رکھے گا تو اس پر بہشت کے تمام دروازے کھول دیئے جائیں گے جو کوئی اٹھارہویں دن کا روزہ رکھے گا تو اس پر دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جائیں گے جو کوئی انیسویں دن کا روزہ رکھے گا تو ستر ہزار قصرِ بہشت ، در اور یاقوت کے اس کو عطا کیے جائیں گے جو کوئی بیسویں دن کا روزہ رکھے گا تو ستر ہزار بہشت کی حوروں کے ساتھ اس کی تزویج کی جائے گی جو کوئی اکیسویں دن کا روزہ رکھے گا تو فرشتے اس کو مرحبا کہیں گے اور اپنے بالوں کو اس کے ساتھ مس کریںگے جو کوئی بائسویں دن کا روزہ رکھے گا تو سر ہزشارا حلة سندس و استبرق اس کو پہنائے جائیں گے جو کوئی تیئسویں دن کا روزہ رکھے گا تو خدا اسے ایک نوری وسیلہ حرکت عطا کرے گا تاکہ اپنی قبر سے بہشت میں پرواز کرے جو کوئی چوبیسویں دن کا روزہ رکھے گا تو خدا ستر ہزار توحید پرستوں کے لیے اس کی شفاعت قبول کرےگا جو کوئی پچیسویں دن کا روزہ رکھے گا وہ نفاق سے بری ہوگا جو کوئی اس ماہ کے چھبیسویں دن کا روزہ رکھے گا تو خدا اسے پل صراط پر سے گزرنے کا اجازت نامہ عطا کرے گا۔ جو کوئی اس کے ستائیسویں دن کا روزہ رکھے گا تو خدا برائت نامہ دوزخ اس کے لیے لکھ دے گا، جو کوئی اس ماہ

۳۲

کے اٹھائیسویں دن کا روزہ رکھے گا تو روز قیامت اس کا چہرہ چمکتا ہوگا، اور جو کوئی اس ماہ کے انتیسویں دن کا روزہ رکھے گا تو اسے خدا کے رضوان اکبر کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ اور جو کوئی تیسویں دن ماہ شعبان کا روزہ رکھے گا تو جبرائیل عرش کے سامنے سے اس کو ندا دے گا کہ اے فلاں تم نے اپنے عمل کو مضبوط کر لیا ہے اور جو گناہِ اس سے پہلے تجھ سے ہوئے اس معاف ہوگئے ہیں۔ خدا فرماتا ہے چاہے تیرے گناہ آسمان کے ستاروں، بارش کے قطروں، درختوں کے پتوں، ریگستاں اور خاک کے زروں کے برابر اور ایام دنیا کے برابر ہی کیوں نہ ہوں میں نے وہ سب معاف کردیئے ہیں اور یہ خدا کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے اس کے بعد ماہِ رمضان ہے لہذا تم شعبان کا روزہ رکھو، ابن عباس(رض) کہا لوگو! یہ ہے شعبان کے مہینے کی فضیلت۔

۲ـ           اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ امیر المومنین(ع) ایک دن منبر کوفہ پر بیٹھے اور فرمایا میں اوصیاء کا سردار ہوں میں وصی سید الانبیاء ہوں۔ میں تمام مسلمانوں کو امام ہوں، میں متقیوں کا پیشوا ہوں، میں تمام عورتوں کی سردار کا شوہر ہوں، میں وہ ہوں جو دائیں ہاتھ میں انگشتری پہنتا ہے، میں وہ ہوں     جو اپنی پیشانی کو خاک پر رکھتا ہے، میں وہ ہوں جس نے دو ہجرتیں کی ہیں اور دو بیعتیں کی ہیں،میں صاحبِ بدر و حنین ہوں میں دو تلواروں سے قتال کرنے والا جہوں، میں دو گھوڑوں پر بیٹھ کر جنگ کرنے والا ہوں، میں وارثِ علم اولین ہوں، میں عالمین پر پیغمبروں کے بعد خدا کی حجت ہوں اور محمد بن عبداﷲ خاتم الانبیاء(ص) ہیں۔ میں ان کا دوست ہوں، مرحوم(رحمت کیا گیا) ہوں اور میرا دشمن ملعون ہے، میں رسول خدا(ص) کا بہت خاص دوست ہوں، رسول خدا(ص) نے فرمایا اے علی(ع)، تیری محبت تقوی و ایمان اور تیری دشمنی کفر و نفاق ہے میں (محمد(ص)) حکمت کو گھر ہوں اور تم (علی(ع)) اس کی چابی ہو وہ شخص جھوٹا ہے جو یہ گمان کرے کہ وہ مجھے دوست رکھتا ہے مگر تیرا دشمن ہے، وصلی اﷲ علی محمد و آلہ الطاہرین۔ ( جناب صدوق(رح) نے اسی دن مجلس کے بعد درج ذیل حدیث کو بیان فرمایا۔)

۳ـ          عبدا لرحمن بن سمرہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) مجھے نجات کی رہبری کریں فرمایا اے ابن سمبرہ جس وقت خیالات مختلف اور رائیں متفرق ہوجائیں تو تم علی ابن ابی طالب(ع) کے

۳۳

ساتھ ہوجانا کیونکہ وہ امام ہے اورمیرے بعد تم پر خلیفہ ہے وہ فاروق ہے جو تشخیص کرتا ہے۔ حق و باطل کے درمیان اور جو کوئی اس سے سوال پوچھے اس کو جواب دیتا ہے جو کوئی اس سے راہنمائی چاہے وہ اس کی راہنمائی کرتا ہے جو کوئی اس  سے حق طلب کرے اس کو دیتا ہے جو کوئی اس سے ہدایت طلب کرے اسے ہدایت ملتی ہے جو بھی اس سے پناہ طلب کرے اس کو پناہ دیتا ہے اور جو کوئی اس سے متمسک ہوتا ہے اس کو نجات دیتا ہے جو کوئی اس کی اقتدا کرتا ہے اس کی رہبری کرتا ہے، اے بن سمرہ وہ سلامت رہا جس نے اس کو تسلیم کیا اور اس کو دوست کرکھا اور وہ ہلاک ہوا جس نے اس کورد کیا اور اسے دشمن رکھا اے ابن سمرہ بیشک علی(ع) مجھ سے ہے اس کی روح میری روح ہے اس کی طینت میری طینت سے ہے وہ میرا بھائی ہے میں اس کا بھائی ہوں وہ میری دختر فاطمہ(س) جو تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہے( جو اولین و آخرین میں سے ہیں) کا شوہر ہے اس کے دو بیٹے میری امت کے امام ہیں یہ دونوں جوانان بہشت کےسردار ہیں او وہ حسن(ع) و حسین(ع) ہیں اور نو(۹) امام حسین(ع) کے فرزندوں سے ہیں کہ ان کا نواں قائم ہے جو میری امت اور زمین کو عدل و اںصاف سے پر کردے گا جیسا کہ اس سے پہلے ظلم و جور سے پر ہوچکی ہوگی۔

۳۴

مجلس نمبر ۸

(۱۴ شعبان سنہ۳۶۷ھ)

۱ـ           علی بن فضال اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ علی بن موسیٰ رضا(ع) سے نیمہ شعبان کی رات کے بارے میں پوچھا تو فرمایا یہ وہ رات ہے کہ اس میں خدا لوگوں کی گردنوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے اور گناہانِ کبیرہ کو معاف کرتا ہے میں نے کہا کیا دوسری راتوں کی طرح اس رات کی بھی عبادت ہے فرمایا اس میں کوئی وظیفہ نہیں لیکن اگر چاہو تو نافلہ پڑھ لو اور خدا کا ذکر اس رات زیادہ سے زیادہ کرو اور نمازِ جعفر بن ابی طالب(ع) پڑھو۔ زیادہ سے زیادہ استغفار کرو اور دعا مانگو کیونکہ میرے والد(ع) نے مجھ سے فرمایا کہ اس رات میں دعا مستجاب ہوتی  ہے  میں نے امام(ع) سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں یہ رات شب برات ہے فرمایا یہ رات شب قدر کی رات کی طرح ہے جو ماہ رمضان میں ہے۔

۲ـ           امام صادق(ع) نے اپنے آباء(ع) سے روایت کیا ہے کہ امیرالمومنین(ع) نے فرمایا تمام خیر تین خصلتوں میں جمع ہے نظر میں سکوت میں (خاموشی میں) اور کلام میں ہر وہ نظر جو سبق حاصل کرنے کے لیے نہ ہو وہ سہو ہے ہر وہ خاموشی جس میں غور و فکر نہ ہو غفلت ہے اور ہر وہ کلام جس میں ذکر خدا نہیں ہے وہ لغو ہے خوش قسمت ہے وہ آدمی جس کی نظر عبرت جس کی خاموشی غور و فکر اور جس کا کلام ذکر الہی ہو اور وہ اپنی خطا پر گریہ کرے اور لوگ اس کے شر سے محفوظ رہیں۔

زہد یحیٰ(ع)

۳ـ          عبداﷲ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا زہدِ یحی بن زکریا(ع) اس درجہ بڑھا ہوا تھاکہ ایک دن بیت المقدس میں آئے تو وہاں عالموںاور رہبوںکو دیکھا کہ اون کے پیراہن پہنے ہوئے اون کی ٹوپیاں سر پر رکھے ہوئے اور اپنے گلے میں زنجیریں ڈال کر مسجد کے ستونوں سے خود کو باندھے ہوئے ہیں یحیی(ع) نے جب اس حال میں ان کو دیکھا تو اپنی والدہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ مجھے بھی بالوں والا پیراہن اور پشم کی ٹوپی بنادیں تاکہ بیت المقدس میں جاکر خدا کی عبادت

۳۵

زاہدوں اور راہبوں کے ساتھ کروں والدہ نے کہا ٹھہرو تمہارے والد پیغبر خدا آجائیں تو ان سے مشورہ کروںگی جب حضرت زکریا(ع) گھر آئے تو مادرِ یحییٰ نے ان کی بات کو ان کے سامنے پیش کیا زکریا(ع) نے فرمایا میرے پیارے بیٹے تم ابھی بہت چھوٹے ہو کہ اس کام کو کرو۔

یحیی(ع) نے کہا بابا جان کیا آپ نےمجھے سے بہت کم عمر بچوں کو نہیں دیکھا کہ جن کو موت نے لے لیا ہے حضرت زکریا(ع) نے کہاہاں دیکھا ہے پھر ان کی والدہ سے کہا تم ان کو بالوں والا پیراہن اور پشم کی ٹوپی بنا دو ان کی والدہ نے یہ چیزوں بناکر انہیں دیں حضرت یحیی(ع) بالوں والا پیراہن اور پشم کی ٹوپی پہن کر بیت المقدس میں عبادت کرنے والوں کےساتھ عبادت میں مغشول ہو گئے یہاں تک کہ بالوں کے موٹے پیراہن نے آپ کے جسم مبارک کو گھلا دیا ایک دن حضرت(ع) نے اپنے بدن کی طرف نگاہ کی تو دیکھا کہ ان کا جسم بہت لاغر اور کمزور ہوگیا ہے تو رونے لگے تب خدا نے وحی کی اے یحیی(ع) کیا بدن کی کمزوری پر روتے ہو میں اپنی عزت وجلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر جہنم کو ایک بار دیکھ لو تو لوہے کا پیراہن لوگے یہ سن کر حضرت یحیی(ع) اس قدر روئے کہ آپ کے رخسار مجروح ہوگئے یہاں تک کہ دندان مبارک دکھائی دینے لگے جب یہ خبر ان کی والدہ کو پہنچی تو ان کو دیکھنے کے لیے گئیں جبکہ زکریا(ع) زاہدوں اور راہبوں کے پاس آئے اوریحییٰ(ع) کو خبر دی کہ آپ کا چہرہ بے حد زخمی ہے یحیی(ع) نے کہا مجھے اس کی خبر نہیں زکریا(ع) نےکہا اے میرے بیٹے کیوں اتنی مشقت کرتے ہوبے شک میں نے تیرے پیدا ہونے کی خدا سے دعا کی تھی کہ وہ مجھے اولاد صالح عطا کرے جو میرے لیے راحت اور مسرت کا سبب ہو۔ یحییٰ(ع) نے کہا بابا جان آپ نے خود ہی تو مجھے اس کا حکم دیا ہے زکریا(ع) نےکہا میں نے اس طرح کرنے کو کب تھا یحیی(ع) نے کہا آپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ بہشت اور دوزخ کے درمیان ایک گھاٹی ہے جس سے کوئی بھی نہ گزرسکے گا مگروہ کہ جو خوفِ خدا سے بہت زیادہ ہو۔ کہا ہاں میں نے یہ کہا تھا اے فرزند کہ سعی وکوشش کر خدا کی بندگی میں کیوںکہ تجھے کسی دوسرے امر کے واسطے پیدا کیا گیا ہے یحییٰ(ع) اٹھے اور اپنے پیراہن کو اتار دیا ان کی والدہ نے ان کو آغوش میں لیا اور کہا اے فرزند میں تمہارے دونمدے کے ٹکڑے بنا دوں کہ تم اپنے دونوں رخساروں پر رکھو جس سے تمہارے دانت چھپ جا ئیں اور وہ تمہارے

۳۶

آنسوؤں کو بھی جذب کر لیں یحییٰ(ع) نے کہا جو آپ بہتر سمجھیں تو ان کی والدہ نے دوٹکڑے بنا دیئے اور ان کی گالوں پر رکھ دیئے تھوری ہی دیر میں وہ نمدے ان کے آنسوؤں سے تر ہو گئے کہ ان کے نچوڑنےسے ان کی انگلیوں پر پانی جاری ہوگیا یہ حال زکریا(ع) نے دیکھا تو گریہ کناں ہوئے اور آسمان کی جانب چہرہ کر کے کہا اے خدایا یہ میرا فرزند ہے اور یہ اس کے آنسو ہیں اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

زکریا(ع) جب چاہتے کہ بنی اسرائیل کو وعظ و نصیحت کریں تو دائیں بائیں نظر کرتے اگر یحییٰ(ع) موجود ہوتے تو بہشت دوزخ کا نام نہ لیتے تھے۔ ایک دن زکریا(ع) نے خطبہ دیا جبکہ یحییٰ(ع) موجود نہ تھے آپ نے واعظ شروع کیا تو حضرت یحیی(ع) مجمع میں آئےسر لپیٹے ہوئے اور لوگوں کے درمیان بیٹھ گئے زکریا(ع) نے دائیں بائیں دیکھا اور کہنے لگے مجھے میرے حبیب جبرائیل(ع) نے یہ خبر دی کہ خدا فرماتا ہے جہنم میں ایک پہاڑ ہے جس کو سکران کہتے ہیں اور اس پہاڑ کے نیچے ایک وادی ہے جس کو غضبان کہتے ہیں کیونکہ وہ قہر و غضب خدا کے سبب سے جلائی گئی ہے اس وادی میں ایک کنواں ہے جس گہرائی سوسال کی راہ کے برابر ہے اس میں آگ کے بہت سے تابوت ہیں ان تابوتوں میں آگ کے بہت سے صندوق ہیں اور آگ کے لباس اور طوق و زنجیریں ہیں۔ یحیی(ع) نے سنا تھا سراٹھایا اور فریاد کی”واغفلنا“ کہ ہم کس قدر غافل ہیں پھر اٹھے اور دیوانہ وار بیابان کی طرف رخ کر گئے زکریا(ع) مجلس سے اٹھ کر یحیی(ع) کی والدہ کے پاس آئے اورکہا یحیی(ع) کے پیچھے جاؤ اور اسے تلاش کرو میں ڈرتا ہوں کہ اب اسے زندہ نہ دیکھوں گا ان کی والدہ اٹھیں اور ان کی تلاش میں نکلیں اور بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے پاس پہنچیں ان لوگوں نے پوچھا آپ کہاں جارہی ہیں کہا میں یحیی(ع) کی تلاش میں جارہی ہوں کہ انہوں نے جہنم کی آگ کا تذکرہ سن لیا ہے اور خوف سے بیابان کی طرف چلے گئے ہیں وہ جوان انکی والدہ کے ہمراہ چل پڑے یہاں تک کہ ایک چروا ہے سے ملاقات ہوئی اسے ان کا حلیہ اور علامات بتائی گئیں تو اس نے کہا ہاں آپ کو شاید یحیی(ع) کی تلاش ہے فرمایا ہاں وہ میرا بیٹا ہے اس کے سامنے دوزخ کا ذکر ہوا ہے اور وہ صحرا کی طرف آیا ہے چروا ہے نے کہا کہ میں نے انہیں فلاں جگہ پر اس حال دیکھا کہ ان کا تمام بدن آنسوؤں میں

۳۷

 ڈوبا ہوا ہے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر کہتے ہیں اے میرے مالک تیری عزت وجلال کی قسم میں اس وقت تک ٹھنڈا پانی نہ پیئوں جب تک اپنی قدر ومنزلت اور اپنے مقام کو تیرے نزدیک نہ دیکھ لوں ان کی والدہ یہ سن کر ان کے پاس پہنچیں جب ان کی نگاہ ماں پر پڑی اور ان کو دیکھا تو خود کو ان تک پہنچایا ان کی والدہ نے انہیں اپنے سینے سے لگایا اور قسم دے کر گھر چلیں یحیی(ع)  لباس بدل کر لیٹ گئے اور انھیں نیند آگئی یہاں تک کہ نماز کا وقت آگیا اور بیدار نہ ہوئے خواب میں ان کو یہ آواز آئی ”اے یحییٰ“ بن زکریا(ع) کیا میرے گھر سے بہتر کوئی اور گھر ہے یا مجھ سے بہتر کوئی ہمسایہ چاہتے ہو“ یہ سن کر نیند سے بے دار ہوئے اور کہا اے میرے معبود مجھ پر نفرین ہے مجھے در گزر فرما۔ تیری عزت کی قسم تیرے بیت المقدس کے سایہ کےعلاوہ میں کوئی اور سایہ نہیں چاہتا پھر والدہ سے کہا میرے بالوں کے موٹے کپڑے لا دیں ان کی والدہ نے کپڑے تو دے دیئے مگر حضرت(ع) سے لپٹ گئیں اور باہر جانے سے روکنے لگیں حضرت زکریا(ع) نے کہا اس کو چھوڑ دو کیونکہ اس کے دل کے پردے کھول دیئے گئے ہیں یہ دنیاوی راحت و آرام سے فائدہ نہیں حاصل کرسکتا۔ یحیی(ع) اٹھے اور اپنے کپڑے بدلے اور بیت المقدس میں جاکر زاہدوں اور راہبوں کےساتھ عبادت میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔

۴ـ          ابن عباس(ع) کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا اے لوگو کون ہے جو خدا سے صحیح واحسن اور سچ بات کرنے والا ہے اے لوگو بے شک تمہارے رب جل جلالہ، نے مجھے حکم دیا ہے کہ علی(ع) کو علم دے کر تمہارا امام اور خلیفہ اور اپنا وصی بنادوں اور اس کو اپنا بھائی اور وزیر مقرر کروں اے لوگوں! بے شک علی(ع) میرے بعد بابِ ہدایت ہے اور میرے رب کی طرف بلانے والا ہے وہ صالح المومنین ہے کون ہے اپنے قول میں بہتر اس بندے سے کہ جو خدا کی طرف بلانے والا ہے اور عملِ صالح بجالاتا ہے اور کہتا ہے کہ بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں،اے لوگو! بیشک علی(ع) مجھ سے ہے اور اس کے فرزند میرے فرزند ہیں اور وہ میری حبیبہ(ع) کا شوہر ہے اس کا فرمان میرا فرمان ہے۔ اس کی نہی میری نہی ہے اس کی مصیبت (نافرمانی) میری معصیت ہے اے گروہ انس بیشک علی(ع) اس امت کا

۳۸

 صدیق ہے اس امت کا فاروق ہے اس امت کا محدث ہے وہ ہارون(ع) و آصف(ع) وشمعون(ع) ہے اور باب حطہ ہے وہ کشتی نجات ہے وہ طالوت(ع) و ذوالقرنیں(ع) ہے اے لوگو!وہ وسیلہء آزمایشِ بشر ہے وہ حجت عظمی اور آیت کبری ہے وہ امام اہل دنیا اور عروہ الوثقی ہے اے لوگو! علی(ع) حق کے ساتھ اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے اور یہ اسکی زبان سے جاری ہوتا ہے اے لوگو! علی(ع) دوزخ کو تقسیم کرنے والے ہیں ان کا محب دوزخ میں داخل نہیں ہوگا اور ان کا دشمن اس سے نجات نہیں پائے گا وہ بہشت کے تقسیم کرنے والے ہیں ان کا دشمن اس میں داخل نہیں ہوگا اور اس کا دوست اس سے محروم نہیں ہوگا اے میرے اصحاب بے شک میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور اپنے پروردگار کی رسالت تم تک پہنچاتا ہوں لیکن تم نصیحت کرنے والے کو دوست نہیں رکھتے ہو۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ اﷲ سے مغفرت طلب کرو اور میں بھی مغفرت طلب کرتا ہوں۔

۳۹

مجلس نمبر۹

( سولہ شعبان سنہ۳۶۷ھ)

۱ـ           جنابِ امیرالمومنین(ع) نے فرمایا سخی اس دنیا میں اور متقی آخرت میں لوگوں کے سردار ہیں۔

۲ـ           رسول خدا(ص) نے فرمایا اﷲ کی طرف سے مومن پر مومن کے سات حق واجب کئے گئے اور ان کے بارے میں خدا سوال کرے گا (۱) اپنی نظر میں احترام کرنا۔(۲) اپنے سینے (قلب) میں اس سے محبت کرنا۔(۳) اپنے مال میں اس کی مواسات کرنا۔(۴) جو اپنے لیے پسند ہو اس کےلیے بھی وہی کچھ پسند کرنا۔(۵) اس کی غیبت کو حرام سمجھنا۔(۶) بیماری میںاس کی عیادتکرنا (۷) تشیع جنازہ کرنا اور اس کی موت کے بعد اس کے متعلق اچھائی کے سوا کچھ نہ کہنا۔

۳ـ          رسول خدا(ص) نے فرمایا علی ابن ابی طالب(ع) کی ولایت خدا کی ولایت ہے اس کی دوستی خدا کی دوستی ہے اس کی پیروی خدا کا فریضہ ہے  اس کا دوست خدا کا دوست ہے اور اس کا دشمن خدا کا دشمن ہے اس کے ساتھ جنگ کرنا خدا کے ساتھ جنگ کرنا ہے اور اس کے ساتھ حرب خدا کے ساتھ حرب کرنا ہے اور اس کو سلام کرنا خدا کو سلام کرنا ہے۔

۴ـ          سلیمان بن جعفر جعفری کہتے ہیں کہ جنابِ موسی بن جعفر(ع) نے فرمایا کہ میرے والد(ع) نے اپنے والد(ع) سے انہوں نے اپنے والد(ع) سے انہوں نے سید عابدین علی بن حسین(ع) سے اور انہوں نے سید الشہدا حسین بن علی ابی طالب(ع) سے روایت کہ امیرالمومنین علی بن ابی طالب(ع) ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو بے ھودہ اور فضول باتیں کر رہا تھا آپ ٹھہرے اور فرمایا اے فلاں یہ کیا عمل ہے جو تم انجام دے  رہے ہو؟۔۔۔۔

بیشک تم جو اعمال و افعال انجام دیتے ہو تمہارے دونوں محافظ فرشتے اسکے نامہ بر ہیں لہذا خداوند کا ذکر کرو تاکہ تمہیں فائدہ ہو اور تم بے فائدہ بات سے رک جاؤ۔

۴۰