مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 296765
ڈاؤنلوڈ: 7462

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 296765 / ڈاؤنلوڈ: 7462
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نہ بتاؤں کہ جس سے خدا تیری آنکھیں روشن کردے اور تیرا فرزند تجھے واپس مل جائے یعقوب(ع) نے کہا کیوں نہیں چنانچہ جبرائیل(ع) نے کہا تو پھر آپ یہ الفاظ کہیں کہ یہ آپ(ع) کے جد آدم(ع) نے بھی ادا کیے اور خدا نے ان کی توبہ قبول کی تھی۔ اور جب یہ الفاظ نوح(ع) نے کہے تو ان کی کشتی کوہ جودی پر جا ٹھہری اور وہ غرق ہونے سے بچ گئے اور جب آپ(ع) کے جد ابراہیم(ع) کو آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے انہی الفاظ کو ادا کیا اور خدا نے اس آگ کو سرد کر دیا۔ یعقوب(ع) نے جبرائیل(ع) سے اس دعا کے لیے درخواست کی تو فرمایا کہو پروردگار میں تجھے واسطہ دیتا ہوں بحق محمد(ص) و علی(ع) و فاطمہ(س) و حسن(ع) و حسین(ع) کا کہ یوسف(ع) و بنیامین کو میرے پاس پہنچا دے اور میری آنکھوں کی بینائی مجھے لوٹا دے۔ ابھی یعقوب(ع) کی دعا ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ بشیر ( خوشخبری دینے والا) یوسف(ع) کا پیراہن لے کر آیا اور اسے یعقوب(ع) کے چہرے پر ڈال دیا حضرت یعقوب(ع) کی بینائی واپس آگئی جنابِ یعقوب(ع) نے اپنے فرزندوں سےکہا، میں تم سے کہتا تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہین جانتے انہوں نے کہا اے پدر بزرگوار ہمارے گناہوں کی مغفرت طلب کریں ہم خطا کار ہیں اور وہ معاف فرمانے والا ہے ۔ دوسری روایت میں امام جعفر صادق(ع) سے نقل ہوا ہے کہ ان کے لیے استغفار کرنے کے واسطے سحر کا انتظار کرنے لگے۔ غرض کہ جب یعقوب(ع) مصر تشریف لائے اور یوسف(ع) ان کو استقبال کرنے گئے تو شوکتِ شاہی مانع ہوئی اور اپنی سواری پر ہی سوار رہے اور با پیادہ استقبال کرنے نہ گئے لہذا جبرائیل(ع) نازل ہوئے اور فرمایا اے یوسف(ع) خدا فرماتا ہے کہ تونے میرے صالح و صدیق بندے کا استقبال با پیادہ نہیں کیا ہے لہذا تو اپنے ہاتھوں کو کھول جب یوسف(ع) نے بحکم خدا اپنے ہاتھ کھولے تو ان کے ہاتھوں نور ان کی انگلیوں کے راستے زائل ہوگیا یوسف(ع) نے جبرائیل(ع) سے کہا اے جبرائیل(ع) یہ کیا ہوا جبرائیل(ع) نے کہا یہ نور اس لیے تجھ سے لیا گیا ہے کہ اب تیری پشت سے ہرگز کوئی پیغمبر(ص) نہیں آئے گا اور جو کچھ تو نے یعقوب(ع) کے ساتھ کیا ہے( ان کا استقبال با پیادہ اور عاجزی سے نہیں کیا ) یہ اس کی سزا ہے۔

بہر حال سب کے سب خوش وخرم مصر میں داخل ہوگئے یوسف(ع) نے اپنے والد(ع) سے کہا بابا جان یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے جس کو خدا نے یہاں پورا ہونا لکھا تھا اس کے بعد فرمایا اے

۲۴۱

میرے خدا مجھے مسلمان مارنا اور صالحین کے ساتھ ملحق رکھنا ایک اور روایت میں امام جعفر صادق(ع) سے منقول ہے کہ یوسف(ع) بارہ سال کے تھے جب انہیں زندان میں دالا گیا اور وہ اس زندان میں اٹھارہ برس اور پھر رہائی کے بعد انہوں نے اپنی زندگی کے اسی(۸۰) سال گزارے اور ایک سو دس(۱۱۰) سال کی عمر میں وفات پائی۔

جناب شیخ صدوق(رح) نے اس مجلس کے بعد اسی دن(۲۱صفر ۳۶۸ھ) اس حدیث کا اضافہ فرمایا کہ مسیب بن نجبہ نے بیان کیاہے کہ امیرالمومنین(ع) جناب علی ابن ابی طالب(ع) سے پوچھا گیا کہ ہمیں بتائیں ، جناب رسول خدا(ص) کے اصحاب کیسے تھے ہمیں جناب ابوذر(رح) کے بارے میں بتائیں۔

جناب امیر(ع) فرمایا ابوذر(رح) علم حاصل کرنے والے تھے پھر پوچھا گای حذیفہ(رح) کیسے تھے آپ(ع) نے فرمایا وہ منافقین کے ناموں کو بے نقاب کیا کرتے تھے۔ پوچھا گیا عمار یاسر(رض) کیسے تھے۔ جناب امیر(ع) نے فرمایا ان کے بدن کے تمام حصے ایمان سے پر تھے، چیزیں بھول جایا کرتے تھے مگر جب یاد آتیں تو انہیں اچھی طرح یاد کر لیا کرتے تھے پھر دریافت کیا گیا کہ عبداﷲ بن مسعود کی بابت بیان کریں امیرالمومنین(ع) نے  فرمایا قرآن کو بہتر پڑھا کرتا تھا کیونکہ اس کے سامنے نازل ہوا تھا پھر فرمایا گیا کہ جناب سلمان فارسی(رض) کا حال بتائیں تو فرمایا، وہ علم اولین و آخرین کو جانتے تھے وہ ایک ایسا سمندر تھے کہ تمام نہیں ہوتا۔( وسعت علم کی طرف اشارہ ہے) اور ہمارے خاندان سے تھے جناب امیر(ع) سے گذارش کیا گیا کہ کچھ اپنے بارے میں بتائیں تو فرمایا میں جب کبھی رسول خدا(ص) سے پوچھتا تو مجھ سے بیان فرماتے اور اگر میں خاموش رہتا تو خود ہی مجھ سے بات کرنے لگتے تھے۔

۲۴۲

مجلس نمبر۴۴

(۲۵ صفر سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ               امام باقر(ع) نے فرمایا نیکیاں گناہوں کو دھو دیتی ہیں مگر نیکی کے بعد گناہ ، نیکیوں کو بدنما کر دیتے ہیں۔ ( یا یہ کہ بدی کے بعد نیکی سے بہتر کوئی نیکی نہیں اور نیکی کے بعد بدی سے بدتر کوئی بدی نہیں)

۲ـ              امام باقر(ع) نے فرمایا ظلم کی تین اقسام ہیں۔

        اول :۔ وہ جس کو خدا معاف کردیتاہے۔

        دوئم :۔ کہ جس کو وہ چھوڑ دیتا ہے۔

        سوم :۔ وہ کہ جسے خدا معاف نہیں کرتا۔

        اول:۔ جسے وہ معاف نہیں کرتا وہ اس کے ساتھ شرک کرنا ہے۔

        دوم :۔ جس کو وہ چھوڑ دیتا ہے وہ بندوں کے حقوق ہیں( حقوق العباد کی معافی کا حق وہ مخلوق کو ہی دیتا ہے۔ اس لیے اس کی معافی وہ بندوں پر ہی چھوڑتا ہے۔)

        سوم :۔ جسے معافی کردیتا ہے وہ اس( بندے) کا اپنے نفس پر ستم ہے، پھر امام(ع) نے فرمایا کہ ظالم کو روز قیامت مظلوم سے غصب کیے گئے حق سے کہیں زیادہ ( بصورت عذاب) ادا کرنا پڑے گا۔

۳ـ             امام باقر(ع) نے فرمایا ۔ اے فلاں ۔ امیروں کی محفل میں مت بیٹھو کیونکہ جب تک تم ان کے درمیان ہوتو معتقد ہوتے ہو کہ یہ نعمتیں خدا دے رہا ہے مگر جب اٹھتے ہو تو یہ خیال رکھتے ہو کہ خدا ہمیں کوئی نعمت عطا نہیں کررہا ہے۔

۴ـ              امام باقر(ع) نے قول خدا”قولوا للناس حسنا “ کی تفسیر کے سلسلے میں ارشاد فرمایا لوگوں میں سے بہتر وہ ہیں کہ جو بات وہ اپنے لیے پسند کرتے ہیں ( خوش گفتاری) وہی دوسرے سے کرتے ہیں خدا دشنام طرازی اور مومنین کو طعنہ دینے والے پر لعنت کرتا ہے اور کسی سے فحش کلامی اور بیہودہ بات کہنے والے کو دشمن رکھتا ہے۔

۲۴۳

۵ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا اچھے اعمال انسان کو بری موت سے بچاتے ہیں اور ہر ایک سے خوش رفتاری ( اچھے کاموں میں سبقت ) کرنا صدقہ ہے دنیا میں خوش رفتاری کرنے والا آخرت میں بھی خوش رفتار ہوگا اور دنیا میں برائی کرنے والوں کو آخرت میں بھی برائی ملے گی پہلا بندہ جو بہشت میں داخل ہوگا اور خوش خلق ہے اور پہلا بندہ جو دوزخ میں جائے گا وہ بدکار ہے۔

۶ـ           امام باقر(ع) نے فرمایا خدا نے موسی بن عمران(ع) سے جو بات راز میں کی ہے کےضمن میں توریت میں مرقوم ہے کہ خدا نے فرمایا، اے موسی(ع) اپنے پوشیدہ عیوب کے بارے میں مجھ سے ڈرو تاکہ میں تمہارے عیب لوگوں سے پوشیدہ رکھوں، اپنی خواہشوں اور لذتوں کے حصول کے لیے اپنے دل میں مجھے یاد رکھو تاکہ میں تمہاری لغزشون سے تمہاری حفاظت کروں اور جو لوگ تمہارے اختیار میں ہیں ان پر اپنے غصے کو روکے رکھو تاکہ میرے غضب کا شکار نہ بنو۔ میرے راز کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھو اور میرے دشمن سے نفرت کرو اور اسے میرے خلق اور راز سے آگاہ نہ کرو کیوںکہ وہ میرے بارےمیں ناسزا ( شرک) کہیں گے اور اس طرح تم ان کے ناسزا کہنے ہیں ان کے شریک اور گناہ گار ہوجاؤ گے۔

۷ـ          اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ امیرالمومنین(ع) اپنے سجدے کے دوران خدا سے کہتے ، اے میرے آقا میں تجھ سے راز کی بات کہتا ہوں کہ جس طرح ایک ذلیل بندہ اپنے مولاسے راز کی بات کہتا ہے میں تجھ سے طلب کرتا ہوں اس بندے کی طرح جو جانتا ہے کہ تو عطا کرتا ہے اور جو کچھ تیرے پاس ہے وہ کم نہیں ہوتا میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اس بندے کی طرح جو یہ جانتا ہے کہ تیرے سوا کوئی گناہ معاف نہیں کرسکتا۔ اور میں تجھ پر توکل رکھتا ہوں اس بندے کی طرح کہ جو یہ جانتا ہے کہ تو ہر چیز پر طاقت و قدرت رکھتا ہے۔

۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جو شخص نمازِ عصر کے بعد ستر بار استغفار کرئے تو خدا اس کے سات سو گناہ معاف فرماتا ہے اگر وہ شخص گناہ گار نہ ہوگا تو اس کے باپ کے گناہ معاف کرئے گا اور اگر اس کا باپ کوئی گناہ نہ رکھتا ہو تو اس کی ماں کے گناہ معاف فرمائے گا، اگر وہ کوئی گناہ نہ رکھتی ہوگی تو اس شخص کےبھائی کے گناہ معاف فرمائے جائیں گے اگر اس کےبھی نہ ہوں گے تو

۲۴۴

 اس کی بہن کے گناہوں کو معاف کیا  جائے گا اور اگر اس کی بہن بھی کوئی گناہ نہ رکھتی ہوگی تو خداوند کریم اس کے رشتہ داروں کے گناہوں کو بالترتیب معاف فرما دے گا۔

۹ـ           جابر کہتے ہیں کہ امام باقر(ع) سے عرض کیا گیا، وہ لوگ کیسے ہیں کہ جب قرآن کی کوئی آیت یا کوئی ( بھلائی) کی بات انہیں یاد دلائی جائے تو ان پر اثر نہیں ہوتا یہاں تک کہ اگر ان کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں بھی قطع ہو جائیں تب بھی وہ خبر دار نہیں ہوتے۔

امام(ع) نے فرمایا سبحان اﷲ۔ یہ شیطان کی حالت ہے جس پر کوئی اثر نہیں ہوتا ورنہ بیشک قرآن ، نرمی، رقتِ قلب اور اشک و خوف کا اثر رکھتا ہے۔

۱۰ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی واجب نماز کو اس کے وقتِ مقررہ پر درست طریقے سے ادا کرئے تو فرشتہ اس نماز کو پاک و روشن حالت میں آسمان پر لے جاتا ہے جہاں یہ نماز آواز دیتے ہے کہ خدایا اس بندے کی حفاظت اس طرح کر جس طرح اس نےمیری حفاظت کی اے بندے میں تجھے اس طرح خدا کے حوالے کرتی ہوں کہ جس طرح تونے مجھے ایک کریم فرشتے کے حوالے کیا ہے۔ اور جو کوئی نماز کو بے وقت و بے عذر ادا کرئے اور اس کی درست ادائیگی نہ کرئے تو ایک فرشتہ اس نماز کو بہ حالت تاریکی اوپر لے جاتا ہے جہاں یہ نماز آواز دیتی ہے کہ خدایا اس بندے کو اس طرح ضائع کر جس طرح اس نے مجھے ضائع کیا ہے اور اس کی رعایت نہ کر جس طرح اس نے میری رعایت نہیں کی۔

پھر امام صادق(ع) نے فرمایا جب بندہ خدا کے سامنے کھڑا ہوگا تو اس سے پہلا سوال واجب نماز کا ہوگا۔ پھر زکوة واجب کا سوال کیا جائیگا اس کے بعد واجب روزہ اور پھر واجب حج کا سوال ہوگا پھر ہمارے خاندان کی ولایت کے بارے میں پوچھا جائیگا اگر وہ بندہ ہمارے خاندان کی ولایت کا معترف ہوگا اور اس عقیدے پر فوت ہوا ہوگا تو باقی اعمال یعنی نماز، روزہ ، حج، زکوة، وغیرہ قبول ہوں گے۔ اگر وہ ہماری ولایت کا اعتراف نہیں کرے گا تو خدا اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرے گا۔

اسی سلسلہ سند سے امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جب نمازِ واجب پڑھو تو اس کے مقررہ وقت پر

۲۴۵

 پڑھو اور اس خوف سے اسے وداع کرو کہ کہیں یہ واپس نہ ہوجائے اپنی آنکھوں کو اپنی جائے سجدہ پر رکھو اور بہتر پڑھو جان لو کہ تم اسکے ( خدا) سامنے کھڑے ہو اور اسے دیکھ نہیں سکتے مگر وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔

نزول سورہ دہر

۱۱ـ           امام صادق(ع) نے اپنے والد(ع) سے اس قول خدا کہ ” اپنی نذر کو پورا کرتے ہیں“ (ہل اتی آیت ۷) کی تفسیر کو روایت کیا ہے کہ۔ حسن(ع) و حسین(ع) کمسن تھے کہ بیمار ہوگئے اور جنابِ رسول خدا(ص) دو اشخاص کے ہمراہ ان کی عیادت کو تشریف لائے اور دونوں کی صحت کے متعلق ارشاد فرمایا، ” اے ابوالحسن(ع) (علی(ع)) اگر اپنے دونوں فرزندوں کے لیے نذر کرو تو خدا انہیں شفا عطا کرے گا“۔

جنابِ امیر(ع) نے فرمایا میں کہ بطور شکرانہء خدا تین روزے رکھوں گا یہ سن کر جنابِ فاطمہ(س)، جنابِ حسن(ع) جنابِ حسین(ع) اور بی بی فضہ(رض) نے بھی اسی ںذر کا ارادہ کیا اور منت مانی۔

خدا نے انہیں لباسِ عافیت ( شفا) پہنایا تو صبح سب نے نیت کی اور روزہ رکھ لیا مگر گھر میں خوراک کا انتظام موجود نہ تھا کہ جس سے روزہ افطار کیا جاتا جنابِ امیر(ع) نے یہ دیکھا تو اپنے قریبی ہمسائے” شمعون“ جو کہ یہودی تھا اور اون کا کاروبار کرتا تھا کے ہاں گئے اور فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ تجھ سے کچھ اون لے کر دخترِ محمد(ص) کو دوں جو اس کو تیرے لیے بن دے اور تو اس کے بدلے مجھے کچھ جو دیدے یہودی کے اس پر اقرار کے بعد کچھ مقدار اون کے عوض  تین صاع ( تقریبا پونے تین کلو ایک صاع کا وزن ہوتاہے) جو اس یہودی کی طرف سے ادا ہونے قرار پائے۔

جنابِ امیر(ع) نے وہ اون اور جو اس یہودی سے لیے اور گھر تشریف لائے اور بی بی فاطمہ(س) کو اون اور جو کے بارے میں بتایا بی بی(س) نے اس معاملے کو قبول فرما کر ایک تہائی اون بننے کے بعد ایک صاع جو لی اور اسے پیس کر اس کا آٹا گوندھا اور سب گھر والوں کی تعداد کے مطابق پانچ روٹیاں بنائیں۔

۲۴۶

جنابِ امیر(ع) جب نماز مغرب کو پیغمبر(ص) کے ساتھ ادا کر کے گھر واپس تشریف لائے تو دسترخوان بچھایا گیا اورپانچوں اقراؤ  روزہ افطار کرنے بیٹھ گئے۔ جب جنابِ امیر(ع) نے افطار کی غرض سے پہلا لقمہ اٹھایا تو ایک مسکین نے دروازے پر صدا دی کہ اے اہل بیت(ع) محمد(ص) تم پر سلام ہو۔ میں ایک مسکین ہوں مجھے اس کھانے میں سے عطا کیجیے جس میں سے آپ(ع) تناول فرماتے ہیں خدا آپ(ع) کو بہشت کا کھانا عطا کرئے گا۔جنابِ امیر(ع) نے لقمہ ہاتھ سے رکھ دیا اور بی بی فاطمہ(س) سے کہا اے صاحبہ مجدو و یقین” اے دختر خیرالناس کل اجمعین“ دروازے پر ایک مسکین کھڑا نالہ و زاری کرتا ہے اور غمگین ہے اگر اسے کچھ نہ دیا گیا تو یہ خدا سے شکایت کرئے گا اور خدا نے بہشت کو بخیلوں پر حرام قرار دیا ہے اور بخیل کے لیے غم اور آتش دوزخ کو رکھا ہے فاطمہ(س) نے چہرہ مبارک جنابِ امیر(ع) کی طرف کیا اور فرمایا اے ابن عم میں نے آپ(ع) کی بات سنی، میں خوراک کی خاطر پستی و ملامت نہیں چاہتی میں خدا کی ذات سے امید وابسطہ رکھتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ ہم اس نیکی میں با جماعت شریک ہوں اور بابا جان(ص) کی شفاعت کے حقدار ہو کر فردوس میں جائیں یہ کہہ کر بی بی(س) نے وہ سارا کھانا اٹھایا اور اس مسکین کو دیدیا اور سب کے سب بھوکے ہی سو گئے اور پانی کے سوا کوئی دوسری چیز انہوں نے نہ چکھی۔اگلی شام دوسرے دن کے افطار کے لیے بی بی(س) نے پھر ایک تہائی اون کو بنا اور ایک صاع جو لے کر اسے پیسا اور اس سے گھر کے افراد کی تعداد کے مطابق پانچ روٹیاں بنائیں۔جنابِ امیر(ع) نے نمازِ مغرب رسول خدا(ص) کے ساتھ ادا کی اور گھر تشریف لائے ان کے آنے پر دسترخوان بچھایا گیا جب سب لوگ روزہ افطار کرنے بیٹھے اور جنابِ امیر(ع) نے پہلا لقمہ اٹھایا تو ایک یتیم مسلمان دروازے پر آکھڑا ہوا اور صدا دی ، اے اہل بیت(ع) تم پر سلام ہو میں ایک مسلمان یتیم ہوں آپ(ع) جو کچھ تناول فرماتے ہیں اس میں سے مجھے بھی کچھ عنایت کریں خدا آپ(ع) کو بہشت کی خوراک عطا کرئے گا، علی(ع) نے لقمہ سے رکھا دیا اور بی بی فاطمہ(س) سے فرمایا اے فاطمہ(س) تم دخترِ سید کریمان ہو۔ تم دخترِ پیغمبر(ص) ہو اور جانتی ہو کہ بخیل کو دوزخ کی طرف کھینچا جائے گا اور اسے حمیم پلایا جائے گا اور آگ کا عذاب دیا جائے گا بی بی(س) نے جنابِ امیر(ع) کی طرف دیکھا اور فرمایا میں تمام تر تکلیف خدا کی خاطر اٹھاتی ہوں، یہ تکلیف اس تکلیف سے کہیں کم تر ہے جو میرا فرزند کربلا میں اٹھائے گا اسے قتل کیا جائے گا اور اس کا قاتل دوزخ میں گرایا جائے گا یہ کہہ بی بی(س) نے دسترخوان پر

۲۴۷

 جو کچھ بھی تھا اس سائل کو دیدیا اور سب کے سب پانی سے افطار کر کے سو گئے۔اگلے دن بی بی فاطمہ(س) نے بقیہ تہائی اون کو کات کر بنا اور آخری صاع جو کو پیس کر پانچ روٹیاں تیار کیں جنابِ امیر(ع) جنابِ رسول خدا(ص) کے ساتھ نماز ادا کر کے واپس آئے تو افطار کے لیے دسترخوان بچھایا گیا اور جب جنابِ امیر(ع) نے پہلا لقمہ اٹھایا تو ناگاہ دروازے پر صدا سنائی دی کہ اے خاندان محمد(ص) آپ(ع) پر سلام ہو میں اسیرِ مشرکین تھا اور قید کے دوران مجھے کھانا نہیں دیا گیا مجھے کچھ عطا کیجئے جنابِ امیر(ع) نے لقمہ ہاتھ سے رکھ دیا اور فاطمہ(س) سے فرمایا اے نبی احمد(ص) کی دختر اے نبی سید کی دختر ایک اسیر تیرے در پر آیا ہے جو کہ کمزور ہے اور قید میں رہا ہے اگر اس کی حاجت پوری نہ کی گئی تو یہ خدا سے شکایت کرئے گا اور آج جو ہم بوئیں گے وہی کل کاٹیں گے لہذا مایوس مت ہو۔ بی بی(س) نے فرمایا بیشک اب مزید جو نہیں رہے کہ ہم ان سے روٹی بنالیں اور ہم تین راتوں سے بھوکے بھی ہیں اس کے باوجود ہم اسے خالی نہیں لوٹائیں گے خدا ہم پر کرم کرئے گا کہ ہم نے ایک کمزور کی مدد کی یہ کہہ کر دسترخوان پر جو کچھ بھی تھا اسے اٹھایا اور اس اسیر کو دیدیا نذر کے مطابق یہ آخری روزہ تھا صبح کو گھر میں کوئی چیز ایسی نہ تھی کہ جسے تناول فرماتے۔شعیب بیان کرتے ہیں کہ جنابِ امیر(ع)، حسن(ع)، و حسین(ع) کو رسول خدا(ص) کے پاس لائے یہ دونوں فرزند خالی پیٹ تھے اور بھوک کی وجہ سے ان پر ضعف طاری تھا۔ جنابِ رسول خدا(ص) نے جب انہیں اس حال میں دیکھا تو علی(ع) سے فرمایا اے ابوالحسن(ع) مجھے یہ سختی بھلی معلوم نہیں پڑتی پھر انہیں اپنے ہمراہ لیا اور فاطمہ(س) کے پاس آئے وہ محرابِ عبادت میں تھیں اور بھوک کی وجہ سے ان کا پیٹ ان کی پشت کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ اور آپ(ع) کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں رسول خدا(ص) نے ان کی اس حال میں دیکھا تو انہیں اپنی آغوش میں لے لیا اور فرمایا خدایا میں تجھ سے استغاثہ کرتا ہوں کہ یہ تین روز سے اس حال میں ہیں۔تب جبرائیل(ع) تشریف لائے اور فرمایا۔ اے محمد(ص)، خدا جو کچھ تمہارے خاندان کو دینے پر آمادہ ہوا ہے وہ لے لو۔ آپ(ص) نے فرمایا وہ کیا ہے جبرائیل(ع) نے فرمایا”هَلْ أَتى‏ عَلَى الْإِنْسانِ حينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً  إِنَّ هذا كانَ لَكُمْ جَزاءً وَ كانَ سَعْيُكُمْ مَشْكُوراً “کہ گذرا ہے انسان پرایک ایسا زمانہ کہ یاد میں نہ تھا۔۔۔ (تا آخر آیت)اے محمد(ص) یہ تمہارے خاندان کے لیے خدا کی طرف سے کہ تمہاری کوشش کا قدردان وہ (خدا) ہے۔حسن بن مہران نے حدیث بیان کی ہے کہ پیغمبر(ص) اپنی جگہ سے اٹھے اور فاطمہ(س) کے گھر

۲۴۸

 گئے اور سب گھر والوں کو اکٹھا کیا اور اپنا سر جھکا کر گریہ کرنے لگے اور فرمایا تم تین روز سے اس حالت میں ہو اور مجھے اطلاع نہیں ہے تو جبرائیل(ع) ان آیات کے ہمراہ تشریف لائے” بیشک نیک لوگ اس سے جام پیئیں گے جو کہ کافور سے ممزوج ہیں اس چشمہ سے خدا کے بندے پیئیں گے اور اچھی طرح ان کو جوش آئے گا“ ( ہل اتی ، ۵) پھر فرمایا کہ یہ وہ چشمہ ہے جو پیغمبرف(ص) کے گھر سے انبیاء(ع) و مومنین کے گھروں تک جاری ہے علی(ع) و فاطمہ(س) و حسن(ع)، حسین(ع) اور ان کی کنیز کا اس نذر کو پورا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس دن کے شر سے ڈرتے ہیں کہ جس دن چہرے بدنما اور خوفناک ہوں گے اور وہ مسکین، یتیم اور اسیر کو صرف اس(خدا) کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیشک تمہیں یہ راہِ خدا میں دیا جارہا ہے جس کا بدلہ تم سے اس کے سوا کچھ اور نہیں چاہتے کہ تم اس کی قدردانی کرو اور خدا کی قسم سوائے خدا کی قدردانی کےوہ اس سے اپنی ذاتی غرض و نمائش کا مقصد نہیں رکھتے اور اس کا ثواب وہ صرف خدا سے چاہتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ خدا نے ان کو اس دن کے عذاب سے محفوظ رکھا ہے اور انہیں نورانی چہرہ و دل شاد عطا کیا ہے اور انہیں بہشت سے نوازا ہے کہ اس میں سکونت اختیار کریں گے اور ان کے لیے فرش حریر بچایا جائیگا اور انہیں تختِ بہشت پر تکیہ کروایا جائیگا اور بہشت کے حلے پہنائے جائیں گے اور نہ ان پر سورج کی جلانے والی گرمی ہوگی اور نہ ہی ٹھٹھرانے والی سردی۔ ابن عباس(رض) فرماتے ہیں کہ جس وقت اہل بہشت آرام سے اس میں بیٹھے ہوں گے اور سورج کو دیکھیں گے تو اے پروردگار سے عرض کریں گے کہ پروردگار تو نے قرآن میں ارشاد فرمایا تھا کہ بہشت میں سورج کو نہ دیکھو گے خدا جبرائیل(ع) کو ان کی طرف بھیجے گا اور انہیں اطلاع دے گا کہ یہ سورج نہیں یہ علی(ع) و فاطمہ(س) مسکرائے ہیں اور بہشت ان کے مسکرانےسے روشن ہوگئی ہے۔

سورہ ” ہل اتی“ تا آیت ”كانَ سَعْيُكُمْ مَشْكُوراً “ تمہارے اس عمل کی قدردانی میں نازل کی گئی اور تمہارے بارے میں اتاری گئی۔

۲۴۹

مجلس نمبر۴۵

( ۲۸ صفر سنہ۳۶۸ھ)

جنابِ عبدالمطلب(ع) کا خواب

۱ـ           جنابِ ابو طالب(ع)،جنابِ عبدالمطلب(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز میں ( عبدالمطلب(ع)) حجر اسماعیل(ع) میں سو رہا تھا کہ ایک خواب دیکھا جس نے مجھے خوف زدہ کر دیا میں کاہن بیدار ہوا اور کاہن قریش کے پاس گیا ان دنوں میں اپنی قوم کا سردار تھا جب اس نے مجھے دیکھا کہ میں کانپ رہا ہوں اور میرے بال کندھوں پر پڑے ہل رہے ہیں تو کہنے لگا آج کیا بات ہے، عرب کے سردار کا رنگ متغیر ہے کہیں حوادثاتِ زمانہ سے تو یہ حال نہیں ہوگیا۔ میں نے کہا ہاں کچھ ایسا ہی ہے آج رات میں حجر اسماعیل(ع) میں سویا ہوا تھا اور میں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک درخت میری پشت سے اگا اور اس قدر بلند ہوا کہ اس کی شاخیں آسمان تک پہنچ گئیں اور پھیلاؤ میں مشرق و مغرب میں چلی گئیں، پھر دیکھا کہ اس سے ایک نور ظاہر ہوا جو ستر(۷۰) آفتاب کے نور کے برابر ہےعرب و عجم اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں اور ہر روز اس کی بزرگی و عظمت بڑھتی جارہی ہے پھر قریش کے ایک گروہ نے چاہا کہ وہ اسے اکھاڑ دیں مگر جب وہ اس کے نزدیک ہوئے تو ایک نوجوان جو سب لوگوں سے زیادہ شکیل و جمیل تھا آگے بڑھا اور انہیں پکڑا کر ان کی پشتیں توڑ دیں ان کی آنکھیں نکال دیں، پھر میں نے چاہا کہ میں اس درخت کو پکڑلوں میں نے اپنا ہاتھ بلند کیا تو اس نوجوان نے مجھے آواز دی ” تم اپنا ہاتھ ہٹا لو تمہارا اس میں کوئی حصہ نہیں“ میں نے اسے کہا میرا حصہ کس لیے نہیں جب کہ یہ درخت میرا ہے اس نے کہا یہ حصہ ان کا ہے جو اس میں آویزاں ہیں۔ میری آنکھ خوف کی وجہ سے کھل گئی میں اٹھا تو میرا رنگ متغیر تھا۔

جنابِ عبدالمطلب(ع) فرماتے ہیں کہ میں نےدیکھا کہ اس کاہن کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا اس نے کہا اے عبدالمطلب(ع) اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو سنو تمہاری پشت( صلب) سے

۲۵۰

 ایک فرزند پیدا ہوگا جو مشرق ومغرب کا مالک ہوگا اور لوگوں کے درمیان پیغمبری کرے گا۔ عبدالمطلب(ع) کہتے ہیں کہ اس کے بعد میرے دل سے غم ختم ہوگیا۔ پھر آپ(ع) نے مجھ سے فرمایا اے ابوطالب(ع) کوشش کرو کہ وہ مدد کرنے والا جوان تم بن جاؤ۔ لہذا ابوطالب(ع) ہمیشہ آںحضرت(ص) کی نبوت کے بعد اس خواب کا تذکرہ کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ واﷲ وہ درخت ابوالقاسم امین(ص) ہیں۔

۲ـ           عبداﷲ ابن عباس(رض) نے اپنے والد عباس(رض) سے روایت کی ہے ک جب میرے بھائی عبداﷲ پیدا ہوئے تو ان کے چہرے پر آفتاب کے نور کی مانند ایک نور تھا میرے پدر بزرگوار جناب عبدالمطلب(ع) نے فرمایا کہ میرے اس فرزند کی شان بلند ہوگی پھر میں نے ایک شب خواب دیکھا کہ عبداﷲ کی ناک سفید پرندہ نکلا اور پرواز کر کے مشرق ومغرب تک پہنچا اور پھر واپس آکر بامِ کعبہ پر بیٹھ گیا اس وقت قریش کے تمام لوگوں نے اس کو سجدہ کیا اور حیرانی سے اسے تکنے لگے ناگاہ ایک روشنی ہوئی جو زمین و آسمان اور مشرق و مغرب پر چھا گئی میں بیدار ہوا تو ایک کاہنہ کے پاس گیا جو قبیلہ بنی مخزوم سے تھی اسے میں نے اپنے خواب کا حال بیان کیا وہ کہنےلگی اے عباس اگر تم نے واقعی یہ خواب دیکھا ہے اور اگر یہ سچا ہے تو تمہارے بھائی کے صلب سے ایک فرزند پیدا ہوگا کہ اہلِ مشرق و مغرب اس کے تابع ہوں گے۔ عباس(رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں ہمیشہ سے عبداﷲ کے لیے زوجہ کی فکر میں رہتا۔ تا آنکہ آمنہ(س) سے ان کا عقد ہوگیا ، وہ ( آمنہ) قریش کی عورتون میں زینت و زیبائی میں سب پر مقدم تھیں پھر جنابِ رسالت ماب(ص) کی پیدائش سے پہلے جناب عبداﷲ(ع) کا انتقال ہوگیا میں نے جب آںحضرت(ص) کو دیکھا تو مشاہدہ کیا کہ ان کی آنکھوں کے درمیان نورِ لامع موجود ہے اور جب میں نے انہیں گود میں لیا تو مجھے ان(ص) سے مشک کی خوشبو آئی میں نے محسوس کیا کہ میں خود ایک نافہ مشک کی طرح معطر ہوگیا ہوں۔

آمنہ(س) نے مجھ سے کہا کہ جب مجھے درد زہ شروع ہوا تو میں نے اپنے گھر میں بہت سی آوزیں سنیں جو آدمیوں کی آوازوں سے متشابہ تھیں۔ پھر میں نے سندس بہشت کا ایک علم دیکھا جو یاقوت کی چھڑ میں لگا ہوا تھا اور جس کی وسعت ن زمین و آسمان کو گھیرا ہوا تھا اور ایک نور آںحضرت(ص) کے سر سے بلند تھا جس نے آسمان کو روشن کر رکھا تھا اس نور میں نے ملکِ شام کے قصر دیکھے

۲۵۱

جو نور کی زیادتی کے سبب آگ  کےشعلے معلوم ہورہے تھے پھر میں نے اپنے چاروں طرف اسفرود کی مانند پرندے دیکھے جو اپنے پر مجھ پر پھیلائے ہوئے تھے پھر میں(آمنہ) نے دیکھا کہ شعیرہ اسدیہ گذرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ اے آمنہ(س) تمہارے اس فرزند(ص) سے کاہنوں اور بتوں کو کیا کیا دیکھنا نصیب ہوگا اس کے بعد میں نے ایک بلند قامت نوجوان کو دیکھا جو کہ مجھے عبدالمطلب(ع) کی مانند دکھائی دیئے انہوں نے میرے فرزند کو گود میں لیا اور اپنا لعاب دہن ان کے منہ میں دیا ان کے پاس ایک سونے کی کنگھی بھی تھی انہوں نے میرے فرزند کا شکم مبارک چاک کیا اور ان کا دل نکال کر چاک کیا اور اس میں سے ایک سیاہ نقطہ نکال کر پھینک دیا۔ پھر حریرِ سفید کی ایک تھیلی نکالی اور اس میں سے ایک سفید رنگ کی گھاس کی طرح کی کوئی چیز نکال کر دل میں بھر دی اور دل کو اس کے مقام پر رکھ دیا پھر انہوں نے میرے فرزند(ص) کے شکم مبارک پر اپنا ہاتھ پھیرا اور آںحضرت(ص) سے باتیں کرنے لگے آپ(ص) ان کی باتوں کے جواب دیتے جاتے مجھے ان کی باتیں سمجھ نہ آسکیں سوائے چند الفاظ کے وہ یہ تھے کہ خدا کے حفظ و امان اور حمایت میں رہو میں نے تمہارے دل کو ایمان و علم و یقین و شجاعت سے بھر دیا ہے اور تم بہترین خلق ہو وہ خوش بخت ہے جو تمہاری حمایت کرے اور اس پر وائے ہو جو تمہاری مخالفت کرے اس کے بعد انہوں نے ایک دوسری تھیلی نکالی جو حریر سبز کی تھی اور اس میں سے ایک انگوٹھی نکال کر اس سے حضرت(ص) کے دونوں کاندھوں کے درمیان مہر لگائی جس کا نقش  ابھر آیا پھر انہوں نے حضرت(ص) سے کہا کہ میرے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ میں تم میں روح القدس پھونک دوں۔ غرض یہ کہ انہوں نے حضرت(ص) کے سینے میں روح القدس پھونک دی پھر انہوں نے حضرت(ص) کو ایک پیراہن پہنایا اور کہا یہ دنیا میں تمہارے لیے آفتوں سے امان ہے۔

اے عباس(رض) یہ وہ امور تھے جن کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا عباس(رض) کہتے ہیں کہ میں نے آںحضرت(ص) کے شانوں کو کھولا اور اس  مہر کو پرھا، میں یہ باتیں ہمیشہ پوشیدہ رکھا کرتا تھا یہاں تک کہ میں بھول گیا اور جب مشرف یہ اسلام ہوا تو حضرت(ص) نے مجھے خود یہ باتیں یاد دلائیں۔

۳ـ          امام صادق(ع) نے اپنے والد(ع) نے روایت کی ہے کہ دعا کو پانچ مواقع پر غنیمت جانو( کہ یہ قبولیت کے مواقع ہیں۔)

۲۵۲

     اول :۔ جس وقت قرآن پڑھا جائے۔

     دوم :۔ بوقت اذان

     سوم :۔ بوقت نزول باران

     چہارم :۔ جس وقت دو لشکر قصدِ شہادت کے لیے آمنے سامنے کھڑے ہوں

پنجم :۔ مظلوم کی نفرین کہ اس کے اور عرش کے درمیان اس وقت کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔

۴ـ جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا ۔ چار آدمیوں کی دعا کے سامنے آسمان کے دروازے کھلے رہتے ہیں کہ وہ سیدھی عرش پر پہنچی ہے اور رد نہیں ہوتی۔

        اول :۔ باپ کی دعا فرزند کے لیے۔

        دوم :۔ مظلوم کی دعا ( یا بد دعا) ظالم کے لیے۔

        سوم :۔ عمرہ کرنے والے کی دعا یہاں تک کہ وہ واپس اپنے وطن پلٹ آئے۔

        چہارم :۔ روزہ دار کی دعا یہاں تک کہ وہ افطار کرے۔

۵ـ          جناب علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا گرفتاری ہرگز دعا سے شایستہ تر نہیں جو کچھ بھی عظیم ہو اس کی گرفتاری ( مصیبت میں مبتلا ہوجانا) عافیت کے ساتھ ہے کہ اس بلا سے امان نہیں ہے۔

۶ـ جناب امیر(ع) فرماتےہیں کہ رسول خدا(ص) جب نئے موسم کو میوہ دیکھتے تو اس کو بوسہ دیتے اور دونوں آنکھوں پر رکھتے پھر لبوں پر رکھ کر فرماتے خدایا جس طرح تونے اس کو دنیا میں ہمارے لیے عافیت میں کیا ہے اسے آخرت میں بھی ہمارے لیے عافیت بنا دے۔

۷ ـ مالک جہنی کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) کی خدمت میں ایک پھول پیش کیا گیا جب انہوں نے وصول کیا تو اسے اپنی دونوں آنکھوں کو لگایا اور اس کی خوشبو سونگھی پھر فرمایا جو کوئی پھول لے تو اس کی خوشبو سونگھے اور آنکھوں کو لگا کر کہے ”اللهم صلی علی محمد و آل محمد(ص) “ تو اس کے گناہ معاف فرمائے جائیں گے۔

8ـ جنابِ علی بن ابی طالب(ع) فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے مجھے تعلیم دی کہ جب بھی نیا لباس زیب تن کرو تو کہو ۔ حمد ہے اس خدا کی جس نے یہ لباس مجھے پہنایا جو لوگوں کے درمیان

۲۵۳

 افتخار کی علامت ہے۔ خدایا اس لباس کو میرے لیے باعثِ برکت بنا دے کہ میں اسے پہن کر تیری رضا طلب کروں اور تیری مساجد کو آباد کروں۔ جنابِ امیر(ع) فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی اس طرح کسی لباس کو زیب تن کرے گا تو اس کے گناہیں معاف کر دیا جائے گا۔

۹ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا کہ بندہ کو چاہئے کہ اذان فجر سننے کے بعد کہے: خدایا میں تیرے آنے والے دن میں تیری نماز ادا کرنا چاہتا ہوں اور تیرے حضور تیری درگاہ میں دعا مانگتا ہوں کہ تو میری توبہ قبول کر لے اور تو قبول کرنے اور مہربانی فرمانے والا ہے۔

پھر جب اذان مغرب سنے تو کہے بارالہا میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر رات میں مروں تو تائب ہی مروں۔

۱۰ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو شخص نیا کپڑا خرید کر پہننے سے پہلے چھتیس (۳۶) بار انا انزلنا پڑھے مگر جب”تنزل الملائکة “ تک پہنچے تو تھوڑا سا پانی لے کر اس کپڑے پر دالے پھر دو رکعت نماز ادا کرے اور بارگاہ رب العزت میں دعا کرے کہ حمد اس خدا کی جس نے مجھے رزق عطا کیا جس سے میں لوگوں کے درمیان آراستہ ہوا، اپنا ستر چھپایا اور اس (لباس) میں میں اپنے پروردگار کی نماز ادا کرتا ہوں۔ امام(ع) فرماتےہیں کہ جب تک یہ لباس پرانا ہو کر ناقابل استعمال نہ ہو جائے گا وہ بندہ وسعت میں رہے گا۔ ( یعنی وسعتِ رزق سے سر فراز رہے گا۔)

۱۱ـ           امام صادق(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کی ہے کہ رسول خدا(ص) جب بھی کسی یہودی نصرانی یا غیر مسلم کو دیکھتے تو فرماتے حمد اس رب العزت کی جس نے مجھے اسلام کے ذریعے تم پر برتری و فضیلت دی کہ قرآن میری کتاب ہے اور جس نے علی(ع) کو امام اور مومنین کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا اور کعبہ کو میرا قبلہ قرار یا بیشک خدا ان غیر مسلموں کے درمیان مومنین کو ہرگز دوزخ میں داخل نہ کرے گا۔

۱۲ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو بندہ کسی آفت زدہ معذور یا اپاہچ کو دیکھے تو دل میں تین باریہ خیال کرے اور کہے کہ اس خدا کی حمد ہے جس نے مجھے عافیت دی ہے( مکمل پیدا کیا ہے) اور اگر وہ چاہتا تو مجھے بھی ایسا ہی پیدا کرسکتا تھا( یا بناسکتا تھا) یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے مجھے اس امتحان

۲۵۴

سے دور رکھا۔

۱۳ـ             ابوالحسن امام رضا(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول خدا(ص) میں تشریف لائے، ناگاہ ایک شخص کو دیکھا جس کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا آپ(ص) نے دریافت کیا یہ کون ہے بتایا گیا کہ یہ عالم ہے آپ(ص) نے پوچھا یہ کس چیز کا عالم ہے تو عرض کیا گیا کہ یہ عرب کے شعار کے مطابق علم الانساب اور حوادثاتِ زمانہ جاہلیت کی لوگوں کو خبریں دیتا ہے آپ(ص) نے فرمایا یہ ایسا علم ہے کہ اس کے سامنے جاننے سے انسان کو کوئی فائدہ نہیں اور نہ جاننے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

۱۴ـ             امام صادق(ع) نے فرمایا اسلام کی عمارت پانچ ستونوں پرکھڑی ہے۔

اول :۔ نماز۔ دوم :۔ روزہ ۔  سوم :۔ زکوة  چہارم:۔ حج  پنجم:۔ ولایت امیرالمومین(ع) اور ان کے فرزندوں(ع) کی امامت۔

۱۵ ـ            جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اعتراف زبان اورمعرفت دل کا نام ایمان ہے جبکہ اس پر عمل اعضاء کے ساتھ ہے۔

۱۶ـ              جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا اسلام اس وقت تک برہنہ ہے جب تک اس کا لباس حیاء اس کا زیور وفا، اس کی مردانگی عمل صالح اور اس کے ستون پرہیزگاری کو اختیار نہ کیا جائے اور جان لوکہ ہر چیز بنیاد رکھتی ہے اور اسلام کی بنیاد ہمارے خاندان کی محبت ہے۔

۱۷ـ             جنابِ ابو جعفر(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص جنابِ رسول خدا(ص) کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ(ص) کیا وہ شخص مومن ہے جو” لا الہ الا اﷲ“ کہے ۔رسول اﷲ(ص) نے فرمایا ۔ ہمارے اس پیغام کو یہود و ںصاری تک پہنچا دو کہ جب تک وہ مجھے دوست نہ رکھیں گے اور دشمنی ختم نہ کریں گے جنت میں نہ جائیں گے اور وہ شخص جھوٹا ہے اور جو یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ مجھے دوست رکھتا ہے مگر علی(ع) سے دشمنی کرتا ہے۔

۱۸ـ             جنابِ رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا اے علی(ع) میں حکمت کاشہر ہوں اور تم اس کا دروازہ ہو اور کوئی بھی اس وقت تک شہر میں داخل نہیں ہوسکتا جب تک دروازے سے نہ گزرے اور ہوشخص جھوٹا ہے جو یہ کہے کہ مجھے دوست رکھتا ہے مگر تم سے دشمنی رکھے کیوںکہ میں تم سے اور تم مجھ سے ہو تیرا

۲۵۵

گوشت میرا گوشت اور تیرا خون میرا خون میرا خون ہے تیری روح میری روح اور تیرا باطن و ظاہر ہے، تم میری امت کے امام اور میرے بعدمیرے خلیفہ ہو بندہ جو تیرے فرمان پر عمل کرے خوش بخت ہے جو تیری نافرمانی کرے وہ بدبخت ہے وہ شخص فائدے میں ہے جو تیرا دوست ہے اور جو تیرا دشمن ہے وہ نقصان اٹھاتا کامیاب ہے وہ شخص جو تیری تعمیل کرتا ہے اور جو تجھ سے جدا ہے ہلاکت میں ہے تیری اور تیرے بعد تیری نسل سے ائمہ(ع) کی مثال کشتی نوح کی ہے کہ جو کوئی اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور جس کسی نے اس کا انکار کیا وہ غرق ہوا اور تیری نسل میں سے ائمہ(ع) کی مثال ستاروں جیسی ہے کہ اگرکوئی ایک پوشیدہ ہوا ہے دوسرا ظاہر ہوگیا اور یہ قیامت تک جاری رہے گا۔

۲۵۶

مجلس نمبر۴۶

( یہ مجلس ماہ صفرسنہ۳۶۸ھ ختم ہونے سے دو شب پہلے پڑھی گئی)

۱ـ           امام جعفر صادق(ص) نے فرمایا۔ جو کوئی اپنے بھائی کے (برے) عمل پر (صرف) کراہت کا مظاہرہ کرتا ہے تو یہ اس کے لیے برا ہے اگر وہ اسے روکنے  پر قادر ہے اور اس کو نہیں روکتا تو اس نے خیانت کی ہے۔ جو کوئی احمق کی رفاقت سے دوری اختیار نہیں کرے گا تو وہ بھی اسی کی طرح کا ہوجائے گا۔

۲ـ           جنابِ رسول خدا(ص) فرمایا بیشک خدا نے مجھے علی بن ابی طالب(ع) کا بھائی بنایا اور میری دختر کا آسمان پر اس کیساتھ نکاح کیا اور اپنے مقرب فرشتوں کواس پر گواہ کیا اور اس کو میرا وصی و جانشین بنایا علی(ع) مجھ سے ہے میں اس سے ہوں اس کا دوست میرا دوست اور اس کا دشمن میرا دشمن ہے فرشتے اس کی دوستی سے خدا کا تقرب طلب کرتے ہیں۔

۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا خدا نے اسلام کو تمہارا پسندیدہ دین بنایا ہے اور سخاوت و حسن خلق و خوش رفتاری کو اس کےساتھ متصل کردیا ہے۔

۴ـ          جناب رسول خدا(ص) سے منقول ہے کہ زیادہ مزاح انسان کی آبرو کھو دیتا ہے اور زیادہ ہنسنا ایمان کو نقصان پہنچاتا ہے جب کہ جھوٹ سے چہرے کی رونق جاتی رہتی ہے۔

۵ـ          رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی مسلمان ہے اس کو چاہیے کہ وہ مکر و فریب نہ کرے کیوںکہ میں نے جبرائیل(ع) سے سنا کہ مکرو فریب آگ میں ہے( یعنی مکر و فریب کرنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے) پھر فرمایا وہ ہم سے نہیں جو کسی مسلمان کو دھوکہ دیتا ہے اور وہ ہم سے نہیں ہے جو کسی مسلمان سے خیانت کرتا ہے پھر فرمایا کہ جبرائیل(ع) ف روح الامین، رب العالمین کی طرف سے مجھ پر نازل ہوا اور خدا کا پیغام دیا کہ اے محمد(ص) آپ(ص)  کے لیے ضروری ہے کہ حسن خلق اختیار کریں کیوںکہ بدخلقی دنیا و آخرت کے خیر کو لے جاتی ہے آگاہ ہوجائیں کہ آپ(ص) کی امت میں سے خوش خلق آخرت میں آپ کے درجہ میں میرے ( خدا کے) ساتھ رہے گا۔

۲۵۷

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی نماز واجب کو پڑھے اور اس کے بعد تیس بار تسبیح” سبحان اﷲ“ کہے تو اس کے گناہوں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا اور سب کچھ نیچے پھینک دیا جائے گا۔( ختم کردیا جائے گا)

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کچھ قیدی رسول خدا(ص) کے پاس لائے گئے تو آپ(ص) نے حکم دیا کہ ان تمام کو قتل کردو لیکن ان میں سے اس ایک قیدی کو جدا کردو، اس مرد نے عرض کیا، اے محمد(ص) میرے ماں باپ آپ(ص) پر قربان آپ(ص) نے مجھے کیوں الگ کردیا جب کہ ان کے لیے اپنا حکم برقرار رکھا ہے فرمایا جبرائیل(ع) نے مجھے خدا کی طرف سے خبر دی ہے کہ تم میں پانچ صفتیں ایسی ہیں جو خدا اور اس کے رسول کو پسند ہیں، تم اپنی ناموس کے لیے غیرت مند، سخی، حسن خلق سے کام لینے والے۔ زبان سے سچ بولنے والے اور شجاع ہو جب اس شخص نے یہ سنا تو مشرف با اسلام ہوگیا  اور خلق دل کے ساتھ جنابِ رسول خدا(ص) کی طرف سے جنگ میں شریک ہو اور رتبہء شہادت پر فائز ہوا۔

حضرت عیسی(ع) کے لیے خدا کی ہدایات

۸ـ          عبداﷲ بن سلیمان جس نے آسمانی کتابوں کو پڑھا تھا کہتا ہے کہ میں نے انجیل میں پڑھا۔ کہ خدا نے عیسی(ع) سے فرمایا اے عیسی(ع)، میرے امر میں کوشش کرو میری بات سنو اور میری اطاعت کرؤ اے ابن طاہرہ مطاہرہ بتول(س) (جناب مریم(س)) میں نے تمہیں اس(مریم(ع)) سے بطور علامت ونشانی پیدا کیا تم مجھ واحد کی عبادت کرو اور مجھ پر توکل کرو تم قوت کے ساتھ کتاب لے لو اور سریانی زبان میں اہل سوریا کو اس کی تبلیغ کرو کہ میں ہمیشہ سے اور ہمیشہ رہنے والا خدا ہوں اور تم اس کی تصدیق کرو کہ کہ جو میرے پیغمبر(ص) امی ہیں جو صاحب شتر( ناقہ۔ اونٹ) ہیں جو صاحب زرہ و عمامہ ہیں جو کہ ان کا تاج ہے اور صاحب ہراواہ(لکڑی کاہاتھ میں پکڑنے والا عصا) ونعلین ہیں تم ان کی تصدیق کرو جوکہ صاحب روشن چشم و بلند پیشانی و خوبصورت ناک ہیں۔ جن کے دندان گنے ہوئے( یعنی موتیوں کی لڑی کی مانند ہیں) اور گردن سیمیں و درازے ہے جن کے سینے سے ناف تک بال ہیں( سینے سے ناف  تک بالوں کی لکیر ہے) اور شکم و سینہ بے بال ہےجن کا چہرہ روشن و

۲۵۸

 خوبصورت ہے جنگی انگلیاں باریک اور بازو اور ٹانگیں متناسب ہیں کہ جب چلتا ہے تو بدن کا حصہ معلوم ہوتی ہیں اسکی چال میں وقار ہے کہ جیسے بلندی سے پتھر نیچے آئے جب یہ لوگوں کے درمیاں ہوتو ان پر حاوی و مقدم ہوتا ہے اور جس کے چہرے کا پسینہ ایسا ہے کہ جیسے مروارید ۔ اور مشک کی خوشبو رکھتا ہے اور اس جیسا نہ پہلے دیکھا گیا ہے نہ دیکھا جائے گا اور وہ ازدواج کی خوشبو سے بر مگر کم نسل رکھتا ہے بیشک اس کی نسل اس کی دختر مبارکہ سے ہے جو بہشت میں گھر رکھتی ہے وہ آخری زمانے میں اس کی ( بی بی فاطمہ(س) کی) کفالت کرے گا جیسے زکریا(ع) نے تیری والدہ کی کفالت کی اس کے دو فرزند ہوں گے اور دونوں شہید ہونگے اس کا ( رسول خدا (ص) کا) دین اسلام اور کلام قرآن ہے جبکہ میں اسلام (سلامتی) ہوں۔ وہ بندہ خوش قسمت ہے اس کے زمانے کو پائے۔ اس کے روزگار (نبوت) کو دیکھے اور اس کی بات سنے۔

عیسی(ع) نے عرض کیا۔ پررودگار طوبیٰ کیا چیز ہے ارشادِ رب العزت ہوا۔ طوبیٰ بہشت کا ایک درخت ہے جس کو میں نے لگایا ہے اور اس کا سایہ تمام بہشت پر ہے اور اس کا بیج رضوان سے ہے اس کا پانی تسنیم سے آتا ہے جوکافور کی طرح یخ ہے اور جس کا مزہ زنجبیل کی طرح ہے جو کوئی اس چشمے کا پانی پیئے گا وہ کبھی پیاسا نہیں ہوگا۔ عیسی(ع) نے عرض کیا بار الہا مجھے بھی اس چشمے سے سیراب کردے ارشاد ربانی ہوا اے عیسی(ع) نوع بشر پر حرام ہے کہ وہ اس سے پیئے۔ جب تک کہ یہ پیغمبر(ص) (حضرت محمد(ص)) اس سے نہ پی لے اور جب تک اس کی امت نہ پی لے اے عیسی(ع) میں تمہیں اپنے نزدیک اٹھالوں گا اور آخری زمانے میں نیچے بھیج دونگا۔ تاکہ تم اس پیغمبر(ص) کی امت کے عجائب دیکھو تم ان رسول خدا(ص) کے فرزند(ع) کے ساتھ مل کر دجال لعین کو دفع کرنے میں مدد دینا اور میں تمہیں نماز کے وقت نیچے بھیجوں گا تاکہ ان(ع) کے ساتھ نماز ادا کرنا کہ وہ امت مرحومہ ہے۔

۹ـ           ابن عباس(ع) سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ خدانے کس وجہ سے بہشت کو پوشیدہ رکھا ہے جبکہ قرآن میں طیب ازواج و خدام اور شراب و میوہ کی خبر دی ہے ابن عباس(رض) جس وجہ سے پوشیدہ رکھا وہ وجہ جنت عدن ہے جس کو بروز جمعہ بنایا گیا اور پوشیدہ رکھا گیا ہے اسے اہل زمین وآسمان میں سے کسی نے نہیں دیکھا اور جب تک اسکے اہل اس میں داخل نہ ہوجائیں

۲۵۹

 اسے نہیں دکھایا جائیگا اور جب خدا نے اسے خلق کیا تو اس سے تین مرتبہ فرمایا کہ بات تو اس نے جواب دیا” طوبیٰ للمومنین“ تو خدا نے فرمایا بے شک طوبی مومنین کے لیے ہے۔

ضحاک نے مقاتل میں ابن عباس(ع) سے نقل کیا ہے رسول خدا(ص) فرمایا آگاہ ہو جاؤ جو کوئی یہ چھ صفتین رکھتا ہے وہ مومن ہے۔

اول :۔ سچ کہے۔  دوئم:۔ وعدہ وفا کرے ۔  سوئم:۔ امانت واپس کرے۔ چہارم:۔ اپنے والدین سے احسان کرے۔ پنجم:۔ صلہ رحم کرے اور ششم:۔ اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے۔

۱۰ـ          ایک شخص امیرالمومنین(ع) کے پاس حاضر ہوا اور کہا یا امیر المومنین(ع) میں آپ(ع) سے ایک حاجب رکھتا ہوں جنابِ امیر(ع) نے فرمایا اے بندے اپنی اس حاجت کو زمین پر لکھ دو میں تمہاری بدحالی ظاہر نہیں کرنا چاہتا اس زمین پر لکھا میں فقیر و ضرورت مند ہوں جنابِ امیر(ع) نے حکم دیا کہ اسے دو عدل لباس پہنا دو اس حاجت مند نے جناب امیر(ع) کے لیے دعائیہ کلمات ادا کیے کہ تو نے مجھے وہ لباس عطا کیا ہے جو گو کہ پرانا ہوجائے گا مگر میں تیرے لیے دعا کرتا ہوں کہ  تجھے ہزارہا لباس عطا ہوں، میں ستائش کرتا ہوں کہ تیری حرمت سدار ہے، تیرا دیا ہوا یہ لباس آخرت میں قبول ہو میں تیری ہزار مدح و ثناء کرتاہوں کہ تیرا نام زندہ رہے اس کی طرح پہاڑ اور درخت زندہ رہتے ہیں بارش کی وجہ سے تم اپنی زندگی میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ احسان کرنے سے ہاتھ کو مت روکو کہ اسکی جزا آخرت میں ملتی ہے۔

جناب امیر(ع) نے سونے کے سو دینار مزید اسے دیدیے جناب امیر(ع) سے عرض کیا گیا کہ آپ(ع) نے اسے توانگر بنا دیا ہے۔ جناب امیر(ع) فرمایا میں نے جناب رسول خدا(ص) سے سنا کہ لوگوں کی قدردانی کرو۔ پھر آپ(ع) نے فرمایا میں اسے عجیب خیال نہیں کرتا کہ اپنی دولت سے غلام خریدوں۔ مگر کسی پر احسان اس وجہ سے نہیں کرتا ہوں کہ اس سے آزاد بندے کو خریدوں ( جزا کی خاطر احسان کرتا ہوں)

۲۶۰