مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 297219
ڈاؤنلوڈ: 7465

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 297219 / ڈاؤنلوڈ: 7465
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پر چلنا شروع کردیا ۔ اور اسے عبور کر کے اس کے گھر تک جا پہنچے۔

ابراہیم(ع) نے اس عابد سے پوچھا کہ کونسا دن بزرگ تر ہے، عابد نے کہا روزِ جزا کہ اس دن لوگوں سے باز پرس ہوگی ابراہیم(ع) نے فرمایا ہاتھ اٹھا کر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں کہ ہمیں اس دن کے شر سے امن میں رکھے اس عابد نے کہا میں کس لیے دعا کروں کہ میں گزشتہ تیس سال سے خدا کی درگاہ میں دعا کرتا ہوں جو قبول نہیں ہوتی ابراہیم(ع) نے کہا میں تجھے بتاؤں کہ کیوں تیری دعا قبول نہیں ہوتی، کہنے لگا کیوں نہیں، آپ(ع) نے فرمایا جب خدا اپنے بندے کو دوست رکھتا ہے تو اس کی دعا محفوظ کر لیتا ہے تاکہ اس کا بندہ اس سے اپنا راز کہتا رہے اس سے خواہش رکھے اور طلب کرتا رہے اور جب خدا کسی بندے سے دشمنی رکھتا ہے تو اس کی دعا جلد مستجاب کرتا ہے یا اس کے دل میں ناامیدی پیدا کردیتا ہے پھر آپ(ع) نے اس عابد سے کہا تو نے کیا دعا کی تھی، اس عابد نے بتایا کہ ایک مرتبہ بکریوں کا ایک ریوڑ میرے پاس سے گزرا اس ریوڑ کے ساتھ ایک بچہ تھا جس کی زلفیں اس کی پشت پر لٹک رہی تھیں میں نے اس سے پوچھا اے فرزند یہ ریوڑ گوسفند کس کا ہے تو اس بچے نے جواب دیا، ابراہیم(ع) خلیل اﷲ(ع) کا، میں نے خدا سے دعا کی کہ اگر اس  زمین میں تیرا کوئی خلیل ہے تو اس سے میری ملاقات کروادے۔ ابراہیم(ع) نے فرمایا خدا نے تیری دعا مستجاب کی ہے میں ابراہیم(ع) خلیل اﷲ ہوں یہ سن کر وہ عابد آپ(ع) کے گلے لگ گیا جب خدا نے محمد(ص) کو مبعوث کیا تو ایک دوسرے سے مصافحہ کرنا مقرر فرمایا۔

۱۲ـ          رسول خدا(ص) نے فرمایا میں تمام پیغمبران و مرسلین کا سردار ہوں اور ملائکہ مقربین سے بہتر ہوں میرے اوصیاء سیدالوصیین ہیں۔ میری ذریت(ع) تمام انبیاء و مرسلین کی ذریت سے بہتر ہے میری بیٹی فاطمہ(س) عالمین کی عورتوں کی سردار ہے میری ازواج مطہرات مومنین کی مائیں ہیں میری امت بہترین امت ہے کہ قیام کرتی ہے میں روز قیامت تمام انبیاء(ع) سے زیادہ پیروکار رکھتا ہوں گا میں حوض رکھتا ہوں جو نہایت وسیع و عریض اور تا حدِ نگاہ پھیلا ہوا ہے اور جس کے جام ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہیں اس حوض پر میرا خلیفہ وہ ہوگا جو اس دنیا میں بھی میرا خلیفہ ہے عرض  کیا گیا کہ وہ کون ہے تو فرمایا وہ علی ابن ابی طالب(ع) ہے جو میرے بعد مسلمانوں کا امام ان کا امیرالمومنین و سردار ہے وہ

۲۸۱

 اپنے دوستوں کو اس حوض سے سیراب کرے گا اور اپنے دشمنوں کو وہاں سے اس طرھ دور کردے گا جس طرح کوئی کسی بیگانے اونٹ کو اپنے پانی سے دور کردیتا ہے۔

پھر آپ(ع) نے فرمایا اس دنیا میں جوکوئی علی(ع) کو دوست رکھتا ہے اور اس کی اطاعت کرتا ہے وہ کل میرے حوضِ کوثر پر وارد ہوگا اور بہشت میں میرے ساتھ میرے درجے کے برابر ہوگا لیکن جو کوئی علی(ع) کو دشمن رکھتا ہے اور اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ روزِ قیامت نہ تو مجھے ہی دیکھ سکے گا اور نہ میں اسے دیکھوں گا وہ علیحدہ کھڑا کانپ رہا ہوگا اور اسے خاموشی والی سمت سے دوزخ میں کھینچ کر لے جایا جائے گا۔

۱۳ـ          حضرت علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا جو کوئی کھانا تناول کرنے کے وقت اﷲ کا نام لے تو خدا اس بندے سے حق نعمت کا سوال نہیں پوچھے گا۔

۱۴ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو شخص کسی گرئی ہوئی روٹی یا کجھور یا کسی اور خوراک کو اٹھا کر کھالے ( احترام نعمت کی وجہ سے) تو وہ خوراک ابھی اس کے شکم سے باہر نہیں آئے گی مگر وہ بخشش دیا جائے گا۔

۱۵ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے جنابِ علی(ع) سے فرمایا اے علی(ع) تو مسلمانوں کا امام ان کا امیرالمومنین(ع) اور اندھیری راتوں میں روشن چاند کی طرح ان کا قائد ہے تو تمام خلق پر میرے بعد حجتِ خدا ہے تو سیدِ اوصیاء اور وصی الانبیاء(ع) ہے اے علی(ع) جب مجھے آسمان ہفتم اور اس جگہ سے سدرة المنتہی اور وہاں سے حجاب ہائے قدس ( حجاب نور) تک لے جایا گیا تو خداوند عالمین نے اپنی مناجات سے میری عزت افزائی فرمائی۔ اور بہت سے پوشیدہ راز مجھ سے بیان فرمائے اور اسی دوران فرمایا اے محمد(ص) تو میں نے کہا ” لبیک و سعدیک“ تو ہی برکت والا اور بلند مرتبہ ہے تو خدا نے فرمایا جان لو کہ علی(ع) میرے اولیاء(ع) کا امام ہے اور پیشوا ہے اور جو میری اطاعت کرے اس کے لیے وہ ایک نور ہے اور وہی وہ کلمہ ہے جس کو میں نے متقین کے لیے لازم قرار دیا ہے جس نے اس کی اطاعت کی اس نےمیری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی تم یہ خوشخبری علی(ع) کو پہنچا دو۔

۲۸۲

جب حضرت محمد(ص) زمین پر تشریف لائے تو انہوں نے حضرت علی(ع) کو وہ خوش خبری دی جو خدا نے ان کے حق میں فرمائی تھی، جنابِ امیر(ع) نے کہا یا رسول اﷲ(ص) کیا میری عزت اس درجے پر پہنچی ہوئی ہے کہ ایسے مقام بلند پر میرا ذکر ہوا؟ حضرت(ص) نے فرمایا ہاں اے علی(ع) اپنے پروردگار کا شکر ادا کرو۔ یہ سن کر جنابِ امیر(ع) پروردگار کی اس نعمت کے لیے سجدہ شکر میں گر گئے  آخر آںحضرت(ص) نے فرمایا اے علی(ع) سر اٹھاؤ کہ حق تعالی تم پر اپنے ملائکہ سے فخر و مباہات کرتا ہے۔

۱۶ـ          طاؤس یمانی سے روایت ہے کہ امام زین العابدین(ع) دعا کے وقت فرماتے

اے خدا ۔ اے میرے معبود مجھے تیری  عزت و جلال کی قسم اگر میں تیری ظاہر کردہ اول فطرت سے لےکر تیری قبولیت کے دوام تک عبادت کروں اور ہر جھپکنے والی آنکھ پر موجود بالوں کی تعداد کے برابر تیری مخلوق کے ادا کردہ شکر ( تیری خاطر) اور حمد کے برابر تیرا شکر ادا کروں تب بھی میں قاصر ہوں کہ تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کرسکوں جو ابھی مجھ پر پوشیدہ ہیں اگر میں تمام زمین میں دفن لوہے کے خزائن کو اپنے دانتوں سے کھینچ کر باہر لے آؤں اور اپنے اشکوں سے تمام روئے ارض کو سیراب کردوں اور تیرے خوف کی وجہ سے جاری شدہ میرے اشکوں سے تمام زمین و آسمان کے سمندر خون سے پڑ اور آلودہ ہوجائیں تو تب بھی میں تیرا حق واجب ادا نہیں کرسکتا اور اگر اس کے بعد بھی اگر تو مجھے عذاب دینا چاہے تو تمام مخلوق کا عذاب مجھے دے سکتا ہے اور جہنم میں میرے جسم کو اتنا بڑا کرسکتا ہے کہ جہنم کے تمام طبقات میرے جسم کے حجم سے پڑ ہوجائیں اور کسی دوسرے کے لیے بڑا جگہ نہ رہے اور جہنم کا ایندھن صرف میرا بدن ہی قرار پائے تو تب بھی یہ تیرے عدل کے تقاضے کے مطابق کم ہوگا  جب کہ میں اس سے زیادہ کا سزاوار ہوں گا۔

۲۸۳

مجلس نمبر۵۰

(۱۶ ربیع الاول سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جب مسلمان چھینک کر خاموش ہوجاتا ہے تو فرشتے اس کی طرف سے الحمد اﷲ رب العالمین کہتے ہیں اور اگر یہ خود سے الحمد ﷲ رب العالمین کہے تو ملائکہ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ خدا نے تمہیں معاف کیا۔

۲ـ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا، خدا فرماتا ہے کہ اے میرے صدیق بندو دنیا میں تم میری عبادت کی نعمت سے سرفراز ہوئے اب اس سبب سے تم بہشت کی نعمت سے سرفراز ہوجاؤ۔

مکروہ خصلتیں

۳ـ          رسول خدا (ص) نے فرمایا اے ( میری) امت خدا تمہارے لیے چند خصلتوں کو مکروہ رکھتا ہے اور تمہیں ان سے منع کرتا ہے۔

نماز میں فضول کام کرنا۔

صدقہ دے کر احسان جتلاتا۔

قبرستان میں ہنسنا۔

لوگوں کے گھروں میں جھانکنا۔

عورت کے فرج کو دیکھنا( دوران جماع کہ یہ پیدا ہونے والے بچے کے لیے) باعث اندھاپن ہے۔

جماع کے وقت بات کرنا کہ اس سے بچہ گونگا پیدا ہونے کا احتمال ہے۔

عشا سے پہلے سونا۔

زیرآسمان برہنہ غسل کرنا۔

زیر آسمان جماع کرنا۔

۲۸۴

پانی ، نہر و غیرہ میں برہنہ داخل ہونا۔ کہ اس میں پاکباز فرشتے ہوتے ہیں۔

حمام میں برھنہ جانا۔

صبح کی نماز میں اقامت و نماز کے دوران گفتگو کرنا یہاں تک کہ نماز قضاء ہو جائے۔

دریا کی سطح (ساحل) جو پتھر کی نہ ہو پر سونا (معصوم(ع) نے فرمایا جو شخص ایسی سطح پر جو پتھر کی نہ ہو سوئے تو میں اس سے بری ہوں وہ اپنے خون کا خود ذمہ دار ہے۔)

گھر میں تنہا سونا۔

حالتِ حیض میں عورت سے پرہیز نہ کرنا( کرنا اس سے بچے کا مجزوم یا مبروص پیدا ہونے کا خدشہ ہے)

احتلام کے بعد بغیر غسل بیوی سے مقاربت کرنا( احتمال ہے کہ اس سے بچہ دیوانہ ہوگا اور اگر ایسا ہوتو وہ شخص اپنی سرزنش خود کرے)

جزام کے مریض سے بغیر فاصلہ رکھے بات کرنا ( فرمایا جب جذامی سے بات کرو تو ایک زراع کا فاصلہ رکھ لو اور اس سے ایسے گریز کرو جسیے شیر کو دیکھ کر بھاگا جاتا ہے)

جاری پانی میں پیشاب کرنا۔

ثمر دار کجھور کے درخت کے نیچے پیشاب کرنا۔

کھڑے ہوکر جوتا پہننا۔

بغیر چراغ کے تاریک گھر میں داخل ہونا۔

نماز پڑھنے کہ جگہ پر پھونک مارنا۔

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا خدا نے ایک قوم پر نعمتوں کا نزول کیا مگر انہوں نے اس کا شکر ادا نہ کیا تو پر عذاب نازل کیا گیا پھر ایک قوم پر عذاب کیا گیا تو اس نے صبر کیا تو اس قوم پر نعمتیں نازل کی گئیں۔

ابن بکیر کہتے ہیں کہ حجاج لعین نے علی(ع) کے دو موالیوں کے گرفتار کیا۔اور ان میں سے ایک

۲۸۵

 پھر آپ(ع) نے فرمایا جو کوئی لغزش ( گناہ) ترک نہ کرے اور عذر ( دلیل، حجت) قبول نہ کرے اس کے گناہ معاف نہیں ہوں گے۔ پھر آپ(ع) نے فرمایا کیا میں تمہیں اس سے بھی بدتر کی خیز نہ دوں عرض ہوا کیوں نہیں یا رسول اﷲ(ص)، آپ(ص) نے فرمایا ایسا بندہ ہے کہ جس کے شر سے لوگوں کو امان نہ ہو اور کسی قسم کے خیر کی امید نہ ہو۔ پھر جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا۔ اے لوگو!بیشک عیسیٰ بن مریم(ع) نے بنی اسرائیل سے فرمایا جاہلوں سے حکمت حاصل نہ کرو کہ وہ تم ستم کریں گے اور اس (علم) کے اہل سے دریغ نہ کرو لیکن اگر تم سے ستم کرے تو ستم گاروں کی مدد نہ کرو کہ ستم اس کے فضل کو باطل کردے گا جان لو کہ امور تین قسم کے ہیں۔

اول : وہ کہ جس کی کامبیابی  تم پر آشکار ہے اس کے پیرو رہو۔

دوم : وہ کہ جس کی گمراہی تم پر آشکار ہے اس سے کنارہ کش ہو جاؤ۔

سوم : یہ کہ جو امر مورد اختلاف ہے اسے خدا کی طرف پلٹا دو۔ ( اس سلسلے میں احکامات ربانی سے راہنمائی لو۔)

۱۴ـ          حضرت پیغمبر(ص) نے فرمایا خدا نے داؤد کو وحی کی اے داؤد(ع) جس طرح کسی شخص پر آفتاب کی روشنی وتمازت تنگ نہیں ہے اسی طرح میری رحمت بھی اس پر تنگ نہیں جو اس میں آنا چاہے اور بدفالی( بدشگونی) کا کوئی نقصان نہیں پہنچتا مگر جوکوئی اسے اختیار کرے وہ نقصان میں ہے بد فالان فتنہ سے دور نہیں ہیں۔ میرے نزدیک ترین بندوں میں سے روز قیامت، تواضع اختیار کرنے والے ہیں اور متکبر مجھ سے دور ہیں۔

۱۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا ہمارے شیعوں میں سے جو کوئی چالیس(۴۰) احادیث یاد کرے خدا روزِ قیامت اسے دانشمند اور فقیہہ محشور کرے گا اور اس پر عذاب نہیں کرے گا۔

۱۴ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے علی ابن ابی طالب(ع) سے فرمایا اے علی(ع) تم میرے صاحبِ حوض ہو، تم میرے پرچم برادر ہو میرے وعدے کو پورا کرنے والے اورمیرے قلب کے حبیب ہو، تم میرے علم کے وارث ہو، تم وراثتِ پیغمبران(ع) کے امانت دار ہو، تم خدا کی زمین پر اس ( خدا) کے امین ہو۔ تم اس کی خلق پر حجت ہو، تم رکن ایمان اور تاریکی شبِ ( ظلمت و گمراہی) میں چراغ ہدایت

۲۸۶

 اور اہل دنیا کے لیے پرچم بلند ہو، جو کوئی تیری پیروی کرے وہ نجات یافتہ اور جو تیری مخالفت کرے وہ ہلاکت میں ہے تم راہِ روشن ہو، تم صراط مستقیم ہو، تم قائدہ العز المحجلین ہو، اس بندے کے مولا ہو جس کا میں مولا و سردار ہوں اورمیں ہر مومن و مومنہ کا مولا ہوں اور پاک و طاہر (نفس) کے علاوہ تم سے کوئی محبت نہیں کرتا اور خبیث و بذر زادہ تم سے دشمنی رکھتا ہے۔

میرا پروردگار  جس وقت مجھے آسمان پر لے گیا  تو اس نے سب سے پہلے مجھے فرمایا اے محمد(ص) میرا سلام علی(ع) کو پہنچا دے اور اسے اطلاع دے کہ اولیاء کا امام اور اہل اطاعت کا نور ہے، اے علی(ع) تمہیں یہ کرامت مبارک ہو۔

۱۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا اے بصیر، ہم شجر علم ہیں، ہم اہل بیت(ع) نبی ہیں، جبرائیل(ع) کی آمد و رفت ہمارے ہی گھر میں ہے، ہم علمِ خدا کے انتظام کرنے والے ہیں اور خدا کی  وحی کے معاون ہیں( اس کےلیے) جو کوئی ہمارا پیرو ہوگا۔ اور جو کوئی مخالف ہوگا وہ ہلاک ہوگا یہ خدا پر ہمارا حق ہے۔

۱۶ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا شیعیان علی(ع) میں سے فقراء اور علی(ع) کی عترت کو اس ( علی(ع)) کے بعد سبک (کمتر) نہ جانو کیونکہ ان میں سے ہر ایک دو قبیلوں، مانند ربیعہ ومغر کی شفاعت کرے گا۔

۲۸۷

مجلس نمبر ۵۱

( ۱۹ ربیع الاول سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           امام باقر علیہ السلام سے قول خدا ” کہا جائیگا کون ہے دعا نویس“ ( یعنی جھاڑ پھونک کرنے والا) کی تفسیر بیان کرنے کی درخواست کی گئی تو امام(ع) نے فرمایا یہ قول ابن آدم(ع) کے لیے ہے جب اسے موت گھیر لیتی ہے تو کہتا ہے کہ کیا کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے کیا کوئی طبیب ہے( جو مجھے اس مرض سے نجات دلا سکے) وہ گمان کرتا ہے کہ میرے عزیز یا دوست یا میرا خاندان میرے کام آئیں گے آپ(ع) نے فرمایا اس روز ساق سے ساق مل جائے گا یعنی دنیا آخرت کے ساتھ ہو جائیگی پھر آپ(ع) نے فرمایا اس دن کا انجام دینے والا پروردگار عالمین ہے۔

۲ـ           امام باقر(ع) نے فرمایا کوئی سال کسی دوسرے سال سے کم بارانی نہیں رکھتا لیکن خدا اسے جہاں چاہتا ہے برساتا ہے بیشک لوگ جب نافرمانی کرتے ہیں تو جو بارش ان کے مقدر میں ہوتی ہے خدا اسے اس سال دوسری طرف منتقل کردیتا ہے اور اسے بیابانوں پہاڑوں اور دریاؤں پر برساتا ہے بیشک خدا کیڑے کو اس کے بل( سوراخ ) میں رزق دیتا ہے اور انسان کو اس کی خطا کی وجہ سے عذاب دیتا ہےاور یہ طاقت رکھتا ہےکہ اس عذاب کا رخ دوسری طرف موڑ دے مگر یہ کہ اہل معصیت نہ ہوں پھرامام(ع) نے فرمایا۔ اے صاحبانِ بصیرت عبرت حاصل کرو میں مصحف علی( ع) میں پاتا ہوں کہ جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا جب زنا کثیر ہوگا تو نا گہانی اموات زیادہ ہوں گی، جب تول میں کمی ہوگی تو خدا زراعت کو کم اور قحط کو مسلط کردے گا، جب لوگ زکوة نہ دیں گے تو زمین سے زراعت و میوہ کی برکت  ختم ہوجائے گی، جب ناحق فیصلے ہوں گے تو ظلم کی معاونت کرنے والے دشمنان ان پر مسلط  کردے گا، جب نقصِ عہد ہوگا تو خدا دشمنوں کو مسلط کردے گا، جب لوگ قطع رحم کریں گے تو خدا مال کو شرپسندوں کے ہاتھ دیدے گا اور ان کو لوگوں پر اس وقت مسلط کردے گا جب وہ (لوگ، مخلوق) امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور میرے خاندان کی پیروی کے انکار ہوں گے اور اس وقت نیک لوگ دعا کرے گے مگر وہ قبول نہیں ہوگی۔

۲۸۸

۳ـ امام باقر(ع) نے فرمایا توریت میں مرقوم ہے کہ اے موسی(ع) میں نے تمہیں پیدا کیا اور طاقت دی اپنی اطاعت کا تمہیں حکم دیا اور اپنی نافرمانی سے تمہیں منع کیا اگر تم میری نافرمانی کرو گے تو تمہاری مدد نہ کی جائے گی اور اگر میری اطاعت کرو گے تو میں تمہاری مدد کروں گا اے موسی(ع) تم میری اطاعت کرو میں تم پر اپنا عہد پورا کروں گا اور نافرمانی پر کوئی حجت قبول نہ کروں گا۔

۴ـ مسروق کہتے ہیں کہ ہم عبداﷲ بن مسعود کے پاس تھے اور ان سے قرآن کے بارے میں دریافت کررہے تھے کہ ہم میں سے ایک نوجوان نے ان سے پوچھا ، کیا تمہارے پیغمبرص(ص) نے تمہیں اس بات کی خبر  دی ہے کہ ان(ص) کے بعد کتنے خلفاء ہوں گے؟عبداﷲ(رض) نے کہا تم ابھی نوجوان ہو جبکہ اس سوال کو تم سے پہلے کسی نے نہیں پوچھا، ہاں پیغمبر(ص) ن ہمیں اطلاع دی ہے  کہ انکے بعد نقباء بنی اسرائیل کے موافق بارہ خلفاء ہوں گے۔

۵ـ          شعبی نے اپنے چچا قیس بن عبد سے روایت کیا ہے کہ ہم عبداﷲ بن مسعود(رض) کے پاس حلقے کی صورت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک بیابانی عرب آیا اس نے پوچھا تم میں عبداﷲ بن مسعود(رض) کون ہے عبداﷲ نے جواب دیا میں ہوں بتاؤ کیا کام ہے، اس نے کہا کیا تمہارے پیغمبر(ص) نے تمہیں بتایا ہےکہ ان کے بعد کتنے خلفاء ہوں گے عبداﷲ بن مسعود(رض) نے کہا ہاں انہوں نے بتایا ہے کہ وہ نقباء بنی اسرائیل کی تعداد کے برابر بارہ(۱۲) ہوں گے۔

۶ـ           قیس بن عہد کہتے ہیں ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور ابن مسعود(رض) ہمارے ہمراہ تھے ایک بیابانی عرب آیا اور اس نے پوچھا کیا عبداﷲ ابن مسعود(رض) تمہارے درمیان ہے عبداﷲ(رض) نے کہا ہاں میں ہوں بتا تجھے کیا کام ہے، عرب نے کہا اے عبداﷲ(رض) کیا تمہارے بنی(ص) نے تمہیں خبر دی ہے کہ ان(ص) کے بعد کتنے خلفاء تمہارے خلفاء تمہارے درمیان ہوں گے۔

عبداﷲ بن مسعود(رض) نے کہا کہ تم نے مجھ سے وہ پوچھا ہے جو میرے عراق سے واپس آنے سے لے کر اب تک کسی نے دریافت نہیں کیا، ہاں انہوں نے فرمایا ہے کہ ان کے بعد بارہ خلفاء ہوںگے جو نقباء بنی اسرائیل کی تعداد کے برابر ہوں گے۔

۷ـ          اشعث ابن مسعود سے روایت ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا میرے بعد نقباء بنی اسرائیل کی تعداد

۲۸۹

کے برابر بارہ خلفاء ہوں گے۔

۸ـ          جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ پیغمبر(ص) کی خدمت میں تھا میں نے سنا کہ آپ(ص) نے فرمایا میرے بعد بارہ امیر ہوں گے یہاں تک کہہ کر رسول خدا(ص) کی آواز پوشیدہ ہوگئی میں نے اپنے والد سے دریافت کیا کہ پیغمبر(ص) کی آواز پوشیدہ ہونے کے بعد انہوں نے کیا فرمایا میرے والد نے کہا، انہوں نے فرمایا یہ تمام قریش سے ہوں گے۔

۹ـ           رسول خدا(ص) نے فرمایا میری امت میں امر (امامت) ہمیشہ قائم رہے گا اور غلبہ رکھے ہوئے ہوگا۔ یہاں تک کہ بارہ خلفاء مکمل ہوجائیں اور یہ تمام قریش سے ہونگے۔

قاضی شریح ( قاضی کوفہ، شریح ابنِ حارث)

۱۰ـ          قاضی شریح کہتے ہیں کہ میں نے ایک مکان سونے کی اسی (۸۰) اشرفیوں کے عوض خریدا اور دو راستگو اور عادل لوگوں کو اس کی تحریر ( معاہدہ) لکھ کر گواہ مقرر کیا جب یہ خبر جنابِ امیرالمومنین(ع) کو پہنچی تو انہوں نے اپنے غلام قنبر کو بھیج کر مجھے طلب کیا، جب میں آپ(ع) کی خدمت میں آیا تو آپ(ع) نے فرمایا۔ اے شریح میں نے سنا ہے تونے ایک مکان خریدا۔ جس کی تحریر کر تونے عادل گواہ مقرر کیے ہیں اور اسے (مالک کو) رقم ادا کی ہے۔

میں نے کہا ہاں ایسا ہی ہے تو جنابِ امیر(ع) نے فرمایا اے شریح خدا سے در کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی بندہ آئے اور تیری بہ تحریر دھری کی دھری رہ جائے اور وہ تجھے بغیر کسی گواہ کے اس گھر سے نکال لے جائے اور قبر کے حوالے کردے۔ اے شریح حرام کے مال سے بے وقعت چیزیں مت خرید کہ یہ دنیا و آخرت میں تیرا نقصان کریں پھر آپ(ع) نے فرمایا اے شریح اگر میں تجھ سے گھر خریدوں تو میں اس تحریر کو اس طرح لکھوں  گا  کہ اس تحریر کے بعد اس گھر کا کوئی دو درھم میں بھی خریدار نہ ہو۔میں نے عرض کیا امیرالمومنین(ع) مجھے بھی بتائیں کہ وہ تحریر کیا ہوگی آپ(ع) نے فرمایا ” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ اس گھر کو بندہ خوار اور قبر والے مردے سے دارِ فریب میں فنا ہونے والے اور لشکر نابود میں شامل ایک بندے نے خریدا ہے۔ یہ گھر چار خصوصیت رکھتا ہے۔ اول آفات کا شکار کرنا دوئم

۲۹۰

عیوب میں مبتلا کرنا۔ سوئم مصیبتوں میں گھیرنا اور چہارم ہوس میں کھینچنا۔ جان لوکہ شیطان گمراہ کرنے والا ہے اس گھر کے فریب خوردہ خریدار نے اسے اس آرزو سے خریدا ہے کہ اسے موت نہیں آئے گی جب کہ موت اسے باہر کھینچ لے جائے گی، قناعت کی عزت اس سے چھین جائے گی اور ذلت اس کا مقدر بن جائے گی گویا یا ہر قسم کا خسارہ اس کے خریدار کے لیے ہے لہذا عہدہ اس شخص کے لیے ہے جوکہ ان تمام کی نفی کرے دیکھو کہ قیصر روم اور خسرو نے جو محلات بنائے اور جو مال ان میں جمع کیا وہ تمام کا تمام  اپنے فرزندوں کے لیے چھوڑ گئے۔ جان لو کہ روزِ قیامت یہی موقف تمہارے سامنے لائے جائیں گے۔ اور اس وقت قضاوت عدل سے بے ھودہ لوگوں کو نقصان پہنچے گا عقل اسی میں ہے کہ بندہ ہوس کو اختیار نہ کرے۔ اور اس دن اہل دنیا کو جو نقصان پہنچے گا اسے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھے ۔ سنا ہے کہ اس دن منادی میدانوں میں آواز دےگا کہ حق اس بندے کے لیے ہے کہ جسکی آنکھیں روشن اورکھلی رہیں۔ لہذا تمہیں آج یا کل کوچ کر جانا ہے اس لیے نیک اعمال کا توشہ ہمراہ لےلو آرزوئیں  ساتھ لے کر مت جاؤ کہ یہ تمہیں موت سے ہمکنار کریں گی کوچ اور زوال نزدیک ہے۔

۱۱ـ           جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا وہ فرشتے جو زمین میں مقرر ہیں اور اسکا چکر لگاتے ہیں وہ امت کا درود و سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔

۱۲ـ          ابوحمزہ ثمالی کہتے ہیں کہ میں مسجد کوفہ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک صاحب مسجد کے ساتویں ستون کے نزدیک نماز پڑھ رہے ہیں اور ان  کا رکوع و سجود بہترین ہے میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ صاحب فورا سجدے میں چلے گئے ہیں اور فرمانے لگے خدایا مجھ میں یہ ہمت نہیں ہے کہ میں تیری نافرمانی کروں۔کہ تیری ہر محبوب ترین چیز تیری اطاعت کرتی ہے میرا یہ ایمان ہے کہ تو مجھ پر حق رکھتا ہے۔ خدایا میں نے تیری نافرمانی اس کی طرح نہیں کہ کہ جس طرح تجھ سے ایک فرزند( عیسی(ع)) منسوب کردیا گیا ہے اور تیرا شریک ٹھہرایا گیا ہے تیرے حق کی خاطر میں نے تیری کسی چیز (حکم) میں معصیت یا نافرمانی نہیں کی اور نہ ہی تیری عبادت اختیار کرنے سے مجھ میں تکبر کا عنصر پیدا ہوا ہے نہ ہی میں تیری راہ سے بھٹکا ہوں اور نہ ہی تیری ربوبیت کا انکاری ہوا ہوں

۲۹۱

 بارالہا اگر میں ہوس کی پیروی کروں تو شیطان اپنے حجت و بیان کے بعد مجھے خوار کروادئے گا اور اگر اس صورت میں تو مجھ پر عذاب کرے تو یہ تیرا ستم نہ ہوگا۔ خدایا تو مجھ پر اپنے لطف و رحمت سے رحم کر رحم کر اے ارحم الراحمین۔ابوحمزہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ فارغ ہوئے اور مسجد سے باہر تشریف لے گئے میں نے ان کا پیچھا کیا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے سیاہ فام غلام سے جاملے اور اس سے کچھ کہا جو میری سمجھ میں نہ آیا  میں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں تو بتایا گیا یہ علی ابن حسین(ع) ہیں میں نے کہا میں ان پر قربان یہ یہاں کس لیے آئے تھے بتایا گیا جو کچھ تم نے دیکھا اسی کے واسطے یہ یہاں آئے تھے۔

۱۳ـ          برابن عازب سے روایت ہے کہ جب رسول خدا(ص) نے خندق کھودنے کا حکم دیا تو اس میں سے ایک بہت بڑا اور پھیلا ہوا سخت پتھر برآمد ہوا جس پر کدال پھاوڑے کام نہیں کررہے تھے۔ لہذا رسول خدا(ص) بنفس نفیس تشریف لائے اور اپنی عبا کو زمین پر رکھ کر کدال اٹھائی اور ” بسم اﷲ“ پڑھ کر اس پتھر پر کدال سے ایک ضرب لگائی تو اس کا تیسرا حصہ ٹوٹ گیا۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا” اﷲ اکبر“ کہ اس نے مجھے شام کی کنجی عطا فرمائی ہے اور میں سرخ محلات یہیں سے دیکھ رہا ہوں پھر آپ(ص) نے ” بسم اﷲ“ پڑھ کر دوسری ضرب لگائی تو اس پتھر کا دوسرا ثلث حصہ بھی ٹوٹ گیا آپ(ص) نے فرمایا ” اﷲ اکبر“ کہ اس نے مجھے کلید فارس بھی عطا کی بخدا مدائن کے سفید محل مجھے یہیں سے نظر آرہے ہیں پھر آپ(ص) نے تیسری بار کدال پتھر پر ماری تو وہ پتھر پورا شگافتہ ہوگیا۔ آپ(ص) نے فرمایا ” اﷲ اکبر“ کہ اس نے مجھے کلید یمن بھی عطا کی اور مجھے شہر صنعا کا دروازہ یہیں سے نظر آرہا ہے۔

وفات فاطمہ بنت اسد(ع)

۱۴ـ          ایک روز علی بن ابی طالب(ع) گریہ کرتے ہوئے رسول اﷲ(ص) کے پاس آئے اور کہا” انا ﷲ و انا الیہ راجعون“ رسول خدا(ص) نے فرمایا اے علی(ع) کیوں رور رہے ہو۔ عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) میری والدہ وفات پاگئی ہیں یہ سن کر جنابِ رسول خدا(ص) نے گریہ کیا اور فرمایا اے علی(ع) اگر وہ تمہاری ماں تھیں تو میریبھی ماں تھیں۔ میرا عمامہ لے لو اور اس سے ان کا پیراہن بناؤ اور انہیں اسی میں کفن دو اور

۲۹۲

عورتوں سے کہو کہ انہیں غسل دیں اور اس وقت تک باہر نہ لائیں جب تک میں نہ آجاؤں اور باقی اعمال انجام نہ دے لوں۔

جنابِ رسول خدا(ص) ایک ساعت کے بعد تشریف لائے۔ ان کی میت اٹھائی اور ان کا جنازہ پڑھانے تشریف لے گئے بی بی(س) کا جنازہ اس طرح پڑھایا گیا کہ کسی اور کے جنازے کو اس طرح پڑھاتے نہیں دیکھا گیا آپ(ع) کے جنازے پر چالیس تکبیریں کہی گئیں۔ پھر جنابِ رسول خدا(ص)  آپ(ع) کی قبر میں اترے اور اس میں لیٹ کر اسکی کشادگی کو تعین فرمایا اور جنابِ امیرالمومنین(ع) اور امام حسن(ع) کو بھی قبر کے اندر بلایا پھر  اس عمل سے فارغ ہوکر جناب امیر(ع) اور امام حسن(ع) کو فرمایا کہ وہ قبر سے باہر تشریف لے جائیں پھر بی بی(ع) کو قبر کے اندر اتارا اور انکے سرہانے کھڑے ہوکر فرمایا اے فاطمہ(س) میں محمد(ص) اولاد آدم کا سردار ہوں جب منکر نکیر آئیں اور آپ(ع) سے پوچھیں کہ آپ(ع) کا پروردگار کون ہے تو فرمائیےگا خدا میرا پروردگار ہے پھر فرمائیے گا محمد(ص) میرا رسول اور اسلام میرا دین پھر فرمائیے گا میرا بیٹا میرا ولی اور امام ہے پھر آپ(ع) نے فرمایا اے خدا فاطمہ(س) کو قول حق پر قائم رکھ پھر جنابِ رسول خدا(ص) قبر سے باہر تشریف لائے اور چند مٹھی خاک آپ(ع) کی قبر پر ڈالی جب قبر پر مٹی ڈال دی گئی تو آپ(ص) نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس مٹی کو برابر کیا اور دبایا۔ یہ دیکھ کر عمار یاسر آگے بڑھے۔ اور عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) میرے ماں باپ آپ(ص) پر قربان کیا وجہ ہے کہ جس طرح یہ نماز جنازہ پڑھائی گئی ہے کسی اور کی نہیں پڑھائی گئی، جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا اے ابویقظان وہ اسی لائق تھیں۔ ابو طالب(ع) کثیرالعیال تھے۔ یہ فاطمہ(س) دوسرے بچوں کا کم اورمیرا خیال زیادہ رکھا کرتی تھیں وہ انہیں برھنہ رکھیتیں اور مجھے لباس پہناتی تھیں۔ وہ مجھے عمدہ طریقے سے نہلاتیں اور ان کی نسبت مجھے زیادہ صاف ستھرا رکھتی تھیں۔ عمار(رض) نے پوچھا آپ(ص) ان(فاطمہ(س)) کی قبر میں بے حس و حرکت اور خاموش کیوں لیٹ گئے تھے ، آپ(ص) نے فرمایا اس لیے کہ لوگ روز قیامت برھنہ محشور ہوں گے اور میں نے خدا سے اصرار کیا کہ انہیں ستر عورت میں محشور کیا جائے ۔ مجھے قسم ہے اس کی جس ک قبضے میں میری جان ہے میں ابھی ان کی قبر سےباہر بھی نہ آیا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ان کے سرکی سمت نور کے دو چراغ روشن ہیں دو چراغ ان کے پہلو میں ہیں اور دو چراغ ان کے قدموں کی

۲۹۳

طرف روشن ہیں اور دو فرشتوں کو ان کی قبر پر موکل کیا گیا ہے کہ روزِ قیامت تک ان کےلیے مغفرت طلب کرتے رہیں۔

۱۵ـ          ابو مسلم کہتے ہیں ۔ میں حسن بصری اور انس بن مالک کے ہمراہ ام المومنین ام سلمہ(رض) کے گھر گیا انس بن مالک گھر کے دروازے کے باہر ہی بیٹھ گئے اور ہم دونوں گھر میں داخل ہوگئے حسن بصری نے بی بی(ع) کو سلام کیا کہ۔ اے میری ماں آپ پر خدا کی رحمت اور اسکی برکات اور میرا سلام ہو بی بی(س) نے جواب دیا تم کون ہو میری جان میرے فرزند، حسن نے کہا میں حسن بصری ہوں بی بی(س) نے فرمایا کس لیے آئے ہو کہا کہ آپ وہ حدیث ہم سے بیان فرمائیں جو پیغمبر(ص) نے علی(ع) کے بارے میں ارشاد فرمائی ہے۔ بی بی ام سلمہ(رض) نے فرمایا خدا کی قسمیہ حدیث جومیں بیان کررہی ہوں وہ میں نے اپنے کانوں سے جنابِ رسول خدا(ص) سے سنی ہے اور اگر یہ ایسے نہ ہو تو میرے دونوں کان بہرے ہوجائیں میں نے اپنی دونوں آنکھوں سے جنابِ رسول خدا(ص) کو یہ حدیث بیان کرتے دیکھا ہے اگر ایسا نہ ہوتو میں دونوں آنکھوں سے اندھی ہو جاؤں اور میرے دل نے اسے حفظ کر لیا اگر جھوٹ ہو اور اس طرح سے نہ ہو تو میرے دل پر مہر لگا دی جائے اور اس پر بوجھ رکھا جائے میں نے سنا کہ جنابِ رسول خدا(ص) نے علی(ع) سےفرمایا۔ اے علی(ع) جوکوئی تیری ولایت کا منکر ہو اور اس حالت میں خدا سے ملاقات کرے ( روز حساب) تو اسکی ملاقات اس طرح ہوگی جیسے کسی بت پرست کی ملاقات خدا سے ہو۔ ابومسلم کہتے ہیں کہ میں نے سنا حسن بصری نے کہا” اﷲ اکبر“ میں گواہی دیتا ہوں کہ علی(ع) میرے اور ہر مومن کے مولا ہیں پھر جب ہم گھر سے باہر آئے تو انس نے پوچھا تم نے تکبیر کیوں بلند کی تھی۔ ہم نے کہا کہ ہم نے بی بی ام سلمہ(س) سے گزارش کی تھی کہ وہ اس حدیث کو بیان فرمائیں جو انہوں نے جنابِ رسول خدا(ص) سے علی(ع) کے بارے میں سنی ہے لہذا جب انہوں نے حدیث بیان کی تو ہم نے تکبیر بلند کی پھر ہم نے وہ حدیث انس بن مالک کو سنائی تو اس نے بھی گواہی دی کہ اسی طرح تین یا چار احادیث اس نے جنابِ رسول خدا(ص) سے علی(ع) کے بارے میں سنی ہیں۔ صلواة ہو محمد(ص) اور ان کی آل پاک(ع) پر جو طاہر ہیں۔

۲۹۴

مجلس نمبر ۵۲

( ۲۴ ربیع الاول سنہ۳۶۸ھ)

حروف جُمِل( حروف ابجد)

۱ـ           ابوالجارود زیاد بن منذر بیان کرتے ہیں کہ ہم سے امام باقر(ع) نے فرمایا جب عیسی بن مریم(ع) پیدا ہوئے تو ان کی نشوو نما اسقدر زیادہ تھی کہ وہ ایک دنمیں دوسرے لڑکوں کے دوبارہ کے برابر بڑھتے۔ جب وہ سات ماہ کے ہوگئے تو ان کی والدہ انہیں لے کر ایک اتالیق کے پاس گئیں۔ جب عیسی(ع) کو اس اتالیق کے سامنے بٹھایا گیا تو اس نے ان سے کہا۔ کہو” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ عیسی(ع) نے کہا” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ پھر اس اتالیق نے کہا اب میں تمہیں حروفِ ابجد سکھاتا ہوں۔ کہو ” ابجد“ عیسی(ع) نے سر اٹھایا اور فرمایا کیا تم جانتے ہو ابجد کیا ہے اس اتالیق نے چھڑی اٹھائی تاکہ عیسی(ع) کوسزنش کرے عیسی(ع) نے کہا اتالیق مجھے مت مارو اگر تمہیں معلوم ہے تو مجھے بتاؤ ورنہ میں تمہیں بتاتا ہوں اتالیق نے کہا تم بتاؤ۔

عیسی(ع) نے فرمایا ” الف“ آلاء خدا ہے یعنی خدا کی نعمتیں ”ب“ بھیجتہ اﷲہے”ج“ جمال خدا ہے” د“ دین خدا ہے” ہوز“ ہولِ ( خوف) دوزخ ہے ”و“ سے مراد وائے اہل دوزخ پر اور اہل دوزخ کی ہلاکت ہے ” ز“ زافیر دوزخ یعنی اہل جہنم کی فریاد اور جہنم کا گناہ گاروں کے لیے جوش مارنا ہے” ح“۔ ”حطی“ کہ استغٰفار سے گناہ کم و زائل ہوتے ہیں۔ ” ک“ ۔”کلمن“ کہ یہ کلمات خدا ہیں اور یہ تبدیل نہ ہوں گے” سعفض“ یعنی پیمانہ کے عوض پیمانہ ہے اور جزاء کے بدلے جزاء ہے” قرشت“ کہ سب قبروں میں لٹا دیئے جائیں گے اور پھر محشور ہوں گے اس اتالیق نے مادرِ عیسی(ع) سے کہا کہ اے خاتون اپنے فرزند کو لے جائیے یہ دانشمند ہیں اور انہیں کسی معلم کی ضرورت نہیں۔

۲ـ           عثمان بن عفان نے رسول خدا(ص) سے  کہا کہ ابجد کی تفسیر فرمائیے جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا

۲۹۵

میں تمہیں تفسیرِ ابجد بتاتا ہوں کہ تمام عجائبات اس میں ہیں وائے ہوعالم پر کہ تفسیر ابجد کا اسے علم نہیں۔ آپ(ص) نے فرمایا ”الف“ سے مراد خدا کی نعمتیں ہیں اور یہ حرف اسما کے راہنما مٰیں سے ہے ” با“ بھجتہ خدا یعنی خدا کی خوشی ہے” ج“ جنت و جلال وجمال خدا ہے” د“ دینخدا ہے ” ہوز“ یعنی ہا“ ہاویہ ہے  وائے ہو اس پر کہ جو دوزخ میں نیچے چلا جائے اور وائے ہو اہل دوزخ پر ”ز” سے مراد زاویہ  دوزخ ہے اور خدا کی پناہ کہ  جو کچھ جہنم کے اس گوشے زاویہ میں ہے ” حطی“ اس سے مراد یہ کہ گناہ مغفرت طلب کرنے سے زائل ہوتے اور کم ہوتے ہیں اور جو کچھ جبرائیل(ع) نیچے لاتا ہے شب قدر میں یہاں تک کہ اس کی سفیدی ظاہر ہو۔ ” ط“ سے طوبیٰ ان کے ساتھ ہے ( مغفرت طلب کرنے والوں کے ساتھ) اور یہ وہ جنت ہے کہ خدا نے اسے لگایا ہے اور روح القدس کو اس میں پھونکا ہے اس کی شاخیں بہشت کی پچھلی دیوار سے نمایاں ہیں اور اس سے بہشیتوں کو لباس و زیور عطا کیے جاتے ہیں۔ ”یے“ یداﷲ ہے جو اس کی تمام خلق پر ہے سبحانہ و تعالیٰ عما یشرکونیعنی اﷲ کی ذات اس سے کس بلندتر یہ جس سے وہ شرک کرتے ہیں۔” ک“ یعنی کلمن“ کہ یہ کلام خدا ہے اور کلمات خدا میں تبدیلی نہیں ہے اور اس کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں ”ل“ کہ یہ بہشتیوں کا الحام و درود  ہے جو وہ اپنے پیغمبر(ص) کی زیارت کے وقت بھیجتے ہیں اور تحیہ و درود  جو وہ ایک دوسرے پر بھیجتے ہیں اور دوزخی ایک دوسرے پر ملامت کرتے ہیں۔ ”م“ ملک خدا ہے کہ زوال نہیں رکھتا” و“ دوام خدا ہے کہ اسے فنا نہیں ہے”ن“ نون والقلم وما یسطرون ہے کہ قلم نور اور کتابِ نور سے لوح محفوظ میں ہے کہ مقربین اس پر گواہ ہیں اور خدا گواہی کے لیے کافی ہے ” سعفص“ یعنی ”ص“ کہ پیمانہ پیمانے کے ساتھ اور بدلہ بدلے کے ساتھ ہے۔ یعنی جزاء جزاء کے ساتھ چنانچہ صرف وہی جزاء دیتا ہے بیشک خدا بندے پر ستم نہ کرے گا۔ ” قرشت“ یعنی ان کو دفن کیا جائے گا اور محشور کیا جائیگااور ان کو ( لوگوں کو) منتشر کردیا جائیگا۔ روز قیامت کی طرف اور وہ ( خدا) ان میں حکم کرے گا اور اس وقت ستم نہ ہوگا۔

۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جب بندہ کسی ظلم کو دیکھئے اور ظالم پر نفرین کرے تو خدا فرماتا ہے یہ دوسری جگہ ہے کہ تم نے ظلم پر نفرین کیا ہے اگر چاہو تو میں تمہارے عمل کو اسطرح قبول کروں کہ تم

۲۹۶

میرے عفو کے حقدار ہوجاؤ۔

۴ـ          حبیب بن عمرو کہتے ہیں میں جنابِ امیر(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے آپ(ع) کے مرض الموت کے دوران آپ(ع) کے زخم کو کھول کر دیکھا اور ان سے کہا یا امیرالمومنین(ع) آپکا زخم زیادہ نہیں ہے اور اس سے آپ(ع) کو کوئی خطرہ نہیں۔

جناب امیر(ع) نے فرمایا اے حبیب میں تمہیں داغِ مفارقت دے جاؤں گا یہ سن کر میں نے گریہ کیا اور میرے ہمراہ آپ(ع) کی صاحبزادی ام کلثوم(س) جو کہ آپ(ع) کے پاس تشریف فرما تھیں وہ بھی رونے لگیں۔ جنابِ امیر(ع) نے یہ دیکھ کر ان سے فرمایا اے میری دختر تم کیوں گریہ کناں ہو بی بی(س) نے جواب دیا بابا مجھے آپ(ع) کی جدائی کا غم رلارہا ہے جنابِ امیر(ع) نے فرمایا بیٹی گریہ مت کرو خدا کی قسم اس وقت جو کچھ تمہارا باپ دیکھ رہا ہے اگر تم بھی دیکھ لیتی تو گریہ نہ کرتی حبیب کہتے ہیں میں نے پوچھا یا امیرالمومنین(ع) آپ(ع) کیا دیکھ رہے ہیں آپ(ع) نے فرمایا اے حبیب میں دیکھ رہا ہوں کہ آسمان کے تمام فرشتے تشریف لائے ہیں اور ان کے پیچھے پیغمبران کھڑے ہیں جو کہ میری ملاقات کے مشتاق ہیں۔ اور میرے برادر محمد(ص) رسول خدا(ص) بھی میرے پاس تشریف فرما ہیں اور ارشاد فرمارہے ہیں کہ میرے پاس آؤ جس گرفتاری ( تکلیف) میں تم مبتلا ہو اس سے کہیں بہتر تمہارے لیے تیار ہے۔ حبیب کہتے ہیں کہ ابھی میں جناب امیر(ع) کے پاس سے رخصت نہیں ہوا تھا کہ آپ(ع) کی رحلت ہوگئی۔

جب آپ(ع) کی وفات کو دوسرا دن ہوا تو امام حسن(ع) صبح کے وقت مبنر پر گئے اور خطبہ ارشاد فرمایا کہ اس خدا کی حمد و ستائش ہے، اے لوگو! یہ شب تھی کہ اس میں قرآن نازل ہوا یہ وہ شب تھی کہ اس میں عیسی بن مریم(ع) کو آسمان پرلے جایا گیا۔ یہ وہ شب تھی کہ اس میں یوشع بن نون۰(ع) قتل ہوئے اور اس شب میں جناب امیر(ع) دنیا سے رخصت ہوئے خدا کی قسم گذشتہ انبیاء(ع) اور اوصیاء(ع) میں سے کوئی بھی میرے والد سے پہلے بہشت میں نہ جائے گا اور ان کی مانند کوئی دوسرا نہ تھا کہ جب رسول خدا(ص) ان کو جہاد پر بھیجتے تو جبرائیل(ع) ان کے دائیں طرف اور میکائیل(ع) ان کے بائیں طرف ان کے ہمراہ جنگ کرتے۔ انہوں نے اپنے پیچھے کوئی سونے چاندی کا ترکہ نہیں چھوڑا سوائے ان

۲۹۷

 سات  سو درہم کے جو ان کی ذاتی ملکیت تھے اور جن سے وہ اپنے گھر والوں کے لیے ایک غلام خریدنا چاہتے تھے۔

۵ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا (لوگو) میں تمہیں آگاہ نہ کروں اس بندے سے کہ جس پر دوزخ کی آگ حرام ہے؟ عرض کیا گیا کیوں نہیں یا رسول اﷲ(ص) ، آپ(ص) نے فرمایا برائی سے دوری اختیار کرنے والا۔لوگوں میں مانوس ( یعنی محبت و خوش خلقی کرنے والا) نرمی اختیار کرنے والا اور سادگی اختیار کرنے والا۔

۶ـ           عیص بن قسم کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے اپنے والد(ع) سے اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) گندم کی روٹی ہرگز سیر ہو کہ نہ کھاتے۔ اور جوکی روٹی بھی بھوک سے کم تناول فرماتے تھے۔

۷ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا خدا فرماتا ہے اے ابن آدم جو کچھ میں نے تمہیں حکم دیا ہے اس کی اطاعت کر اور مجھ سے ہدایت طلب کر۔

۸ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا، خدا فرماتا ہے اے ابن آدم تو مجھے صبح و شام یاد کرتا کہ میں تیرے شبہات دور کرؤں اور تجھے ہدایت بخشوں۔

رسول خدا(ص) کی رحلت کے بعد علی(ع) کا خطبہ

۹ـ           یہ خطبہ جنابِ امیر(ع) نے رحلت پیغمبر(ص) سے نو(۹) روز بعد جب کہ وہ جمع قرآن سے فارغ ہوچکے تھے ارشاد فرمایا۔ آپ(ع) نے فرمایا تمام شکر و تعریف س خدا کے لیے ہے جس نے اوہام و تخیلات کو اس کی ذات تک پہنچنے سے سوائے موجود ہونے کے عاجز کردیا۔ اور عقلوں پر پردہ ڈال دیا ہے اس بات سے کہ وہ اس کیذات میںشبہ یا شکل کو تصور و تخیل کرسکے بلکہ اس کی ذات میں کوئی تفاوت و فرق نہیں اس کے کمال میں عددی تجزیہ کے ذریعے اجزا نہیں کیے جاسکتے۔ اس نے اشیا کو جگہوں کے اختلاف کے بغیرہ ایک دوسرے سے جدا کیا۔ ان اشیاء سے بغیر ملے ہوئے اس نے قدرت پائی بغیرآلات کی مدد سے اس نےان اشیاء کو پہچانا جب کہ مخلوق کا علم بغیر آلات و اوزار کے نہیں ہوتا، اس کے اور معلوم کے درمیان اس کے علاوہ کسی کا علم نہیں ہے اگر یہ کہا جائے کہ وہ تھا

۲۹۸

تو ازلیت وجود کی توضیح و تشریح کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ ” ولم یزل“ ہے تو کلی عدم کی بناء پر کہا جاسکتا ہے اور اﷲ تعالی کی ذات پاک منزہ ہے اس شخص کے قول سےکہ جس نے اس کے علاوہ کسی کی بندگی کی اور کسی کو اپنا معبود اس کے علاوہ بنایا۔

ہم اس حمد کے ساتھ اس کی حمد و ثناء کرتے ہیں کہ جو اس نےاپنی مخلوق کے لیے پسند کی اور جس کی قبولیت کو اپنی ذات کے لیے ضروری قرار دیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد(ص) اس کے بندے اور رسول(ص) ہیں یہ دو شہادتین قول کو سربلند اور عمل کو دو چند کرتی ہیں، میزان ہلکی ہوجاتی ہے جب دونوں اس سے اٹھائی جاتی ہیں اور میزان بھاری ہوجاتی ہے جب دونوں اس میں رکھ دی جاتی ہیں، ان ہی دونوں شہاتوں کے ذریعے جنت حاصل ہوتی ہے اور دوزخ سے نجات ملتی ہے اور پل صراط سے گذرا جاسکتا ہے اور درود وسلام  سے رحمت پاتے ہیں اور پس تم اپنے نبی(ص) پر کثرت سے درود بھیجو۔ یقینا اﷲ اور اسکے فرشتے بنی(ص) پر درود بھیجتے ہیں اے صاحبانِ ایمان تم بھی اس(ص) پر درود بھیجو اور سلام کرو جیسا کی سلام کرنے کا حق ہے۔

اے لوگو! اسلام سے بڑھ کر کوئی شرف اور پرہیزگاری سے عزیزتر کوئی کرم و بزرگی نہیں۔ گناہوں سے اجتناب سے بڑھ کر کوئی پناہ گاہ نہیں توبہ سے کامیاب ترین کوئی سفارش کنندہ نہیں۔ علم سے زیادہ نفع بخش کوئی خزانہ نہیں۔ حلم سے بلندتر کوئی عزت نہیں ادب سے بلیغ ترین کوئی حساب نہیں غصب سے گھٹیا کوئی نسب نہیں۔ عقل سے زیادہ کوئی جمالِ آراستہ و پیراستہ نہیں جھوٹ کی برائی سے بڑھ کر کوئی برائی نہیں خاموشی سے زیادہ حفاظت کرنے والی کوئی شئے نہیں۔ عافیت سے خوبصورت کوئی لباس نہیں اور کوئی غائب موت سے زیادہ قریب نہیں۔

لوگو: جو شخص سطح زمین پر چلتا ہے وہ اپنی قبر کی طرف جاتا ہے شب و روز زندگیوں کو ختم کرنے میں تیزی میں مصروف ہیں ہر جاندار کے لیے ایک روزی ہے۔  ہر دانے کا ایک کھانے والا ہے اور تم موت کی غذا ہو اور بیشک جس نے گردشِ ایام کو پہچان لیا وہ تیاری سے غافل نہ رہا۔ کوئی مالدار اپنے مال کی وجہ سے اور کوئی فقیر اپنی غربت اور قلت مال کی وجہ سے موت سے نجات نہیں پائےگا۔

۲۹۹

اے لوگو: جس کو خوفِ خدا ہے وہ ظلم سے بچا۔ جس شخص نے اپنی گفتگو پر دھیان نہیں دیا اس کی بیہودہ گوئی ظاہر ہوگئی۔ جس نے خیر کو شر سے نہیں پہچانا وہ جانوروں کی طرح ہے مستقبل کے بڑے فاقے( احتیاج) کی موجودگی مصیبت کو چھوٹا نہیں کرتی۔ دور ہو دور ہو تم نے نا واقفیت کا اظہار نہیں کیا سوائے اس کے جو تم میں نافرمانیاں اور گناہ پائے جاتے تھے اس نے راحت کو مشقت سے اور مفلسی اور محتاج کو آسودگی سے قریب نہیں کیا۔ کوئی شر شر نہیں، جس کے بعد جنت ہو اور کوئی خیر، خیر نہیں جس کے بعد دوزخ ہو۔ ہر آسودگی و مداحت سوائے جنت کے حقیر و کم تر ہے۔ اور ہر غم جہنم کے علاوہ عافیت ہے۔

۱۰ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا ۔ کیا میں تمہاری اس چیز کے لیے راہنمائی نہ کردوں کہ جس سے تمہارے گناہوں کا کفارہ اور نیکیوں میں اضافہ ہو۔ عرض کیا گیا کیوں نہیں یا رسول اﷲ(ص)، آپ(ص) نے فرمایا جب وضو کرو تو کامل کرو مسجد میں بہت زیادہ جایا کرو نماز کے وقت کا انتظار کرو۔ وہ بندہ تم میں سے نہیں جو نماز کے وقت کا منتظر رہے اور مسلمانوں کے ساتھ با جماعت نماز ادا کرے مگر اپنے گھر کو برائی سے پاک نہ کرے سوائے اس کے کہ فرشتے اس کے لیے کہیں کہ خدایا اسے معاف فرمادے اور اس پر رحم کر، جب نماز پڑھو تو اپنی صفوں کو پر کرو، جب تمہارا امام ” اﷲ اکبر“ کہے تو تم بھی اﷲ اکبر“ کہو ۔ اور جب وہ ” سمیع اﷲ حمدہ“ کہے تو تم ” اللہم ربنا لک الحمد“ کہو۔ اور بہترین صف مردوں کی اگلی صف ہے اور آخری صف ( گناہوں سے ) بری ہے۔

۱۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا ۔ جب موسی بن عمران(ع) نے چاہا کہ وہ جناب خضر(ع) سے رخصت لیں تو انہوں نے (موسی(ع)) جنابِ خضر(ع) سے کہا کہ مجھے کچھ نصیحت کریں۔ انہوں نے فرمایا بلا ضرورت سفر مت کرو۔ بے سبب مت مسکرؤ اپنے گناہوں اور اپنی خطاؤں کو یاد رکھو اور لوگوں کے عیوب سے چشم پوشی کرو۔

۱۲ـ          حذیفہ بن یمان(رض) سے یمان(رض) نے اپنی موت کے وقت اپنے فرزند کو وصیت کی کہ اے میرے بیٹے جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے نا امید رہو۔ لوگوں سے حاجت نہ رکھو کہ اس کا حاصل فقر ہے اپنے گذرے ہوئے کل سے اپنے آج کو بہتر گزارو جب نماز ادا کرو تو اسے بہتر

۳۰۰