مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 296727
ڈاؤنلوڈ: 7462

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 296727 / ڈاؤنلوڈ: 7462
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

طریقے سے دنیا سے روانہ کرو اور جان لو کہ نیک وجہ کے بغیر کوئی عمل انجام نہ دو۔

۱۳ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا اپنے مسلمان بھائی کو دوست رکھو اور جو کچھ اپنے لیے بہتر سمجھتے  ہو اس کے لیے بھی وہی  بہتر جانو۔ جس چیز سے تم کنارہ کشی اختیار کرتے ہو۔ اس کو بھی اس سے کنارہ کش رہنے کے لیے کہو۔ اور جب  اسے کوئی ضرورت ہو تو اس کی ضرورت پوری کرو۔ اگر تمہیں اس سے کوئی خواہش ہو تو اسے بیان کرو اس کے لیے خیر کو اختیار کیے رکھو۔کہ وہ بھی تمہارے لیے خیر چاہتا ہے اس کی پشت پر رہو تاکہ وہ تمہاری پشت پناہی کرے۔ اگر وہ تم سے اوجھل ہو تو اسے کے عیوب ظاہر نہ کرو۔ اگر وہ حاضر ہوتو اس کی تعظیم کرو۔ اور اس کا احترام کرو کیوں کہ وہ تم سے ہے اور تم اس سے ہو۔ اگر اسے تم سے کوئی شکوہ ہے تو اس سے جدا مت رہو بلکہ اس سے اس شکوہ کا سبب دریافت کرو اور جو تمہارے دل میں ہے وہ اس سے بیان کرو اور اس سے پوچھ لو اگر اسے کوئی نفع پہنچے تو خدا کی حمد کرو اور شکر ادا کرو اور اگر وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہو تو اس کی مدد کرو اسکی چارہ جوئی کرو۔

مواخات

۱۴ـ          مخدوج بن زید زھلی کہتے ہیں جب رسول اﷲ(ص) نے  مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ رشتے میں منسلک کردیا تو علی(ع) سے فرمایا اے علی(ع) تم میرے بھائی ہو۔ اور تم مجھ(ص) سے وہ نسبت رکھتے ہو جو ہارون(ع) کو موسی(ع)  سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا۔ اے علی(ع) لوگ نہیں جانتے کہ روز قیامت مجھے سب سے پہلے بلایا جائیگا۔ میں عرش کے دائیں طرف کھڑا ہوں گا اور میں نے حلہِ سبز زیب تن کیا ہوگا۔ اس کے بعد پیغمبروں کو بھی طلب کیا جائیگا۔ جو سایہ عرش میں دائیں طرف دو صفین بنائے کھڑے ہوں گے۔اور سبز بہشتی لباس زیب تن کیے ہوں گے۔

اے علی(ع) آگاہ ہو جاؤ۔ کہ سب سے پہلے وہاں جس امت کا محاسبہ ہوگا وہ میری امت ہوگی۔ میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ مجھ سے نسبت کی وجہ سے تمہیں سب سے پہلے مقام قرب کے لیے دعوت دی جائے گی۔ اور میں اپنا پرچم جو کہ پرچم حمد ہے تمہیں عطا کروں گا۔ تم اسے ان دونوں

۳۰۱

 صفوں کے درمیان اٹھائے ہوگے آدم(ع) اور تمام خلقِ خدا روز قیامت میرے پرچم تلے ہوگی جس کا طول ہزار سال کی مسافت کے برابر ہوگا۔ اس علم کی چوب  چاندی کی اور چوٹی سرخ یاقوت کی ہوگی اس علم کے تین پلےہوں گے ایک مشرق دوسرا مغرب اور تیسرا تمام جہاں پر پھیلا ہوا ہوگا۔ ان پر تین سطریں لکھی ہوں گی۔ پہلی ” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ دوسری میں ” الحمد ﷲ رب العالمین“ اور تیسری سطر میں” لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ“ لکھا ہوگا۔ اس ہر سطر کا طول ہزار برس کی راہ کے برابر اور اس کا عرض بھی اتنا ہی وسیع ہوگا۔ اے علی(ع) تم وہ علم اٹھاؤ گے حسن(ع) تمہارے دائیں جانب اور حسین(ع) تمہارے بائیں جانب ہوں گے۔ تم سایہ عرش میں میرے پاس آؤ گے ایک سبز بہشتی حلہ تمہیں پہنایا جائے گا اس وقت خدا کی طرف سے منادی آواز دے گا اے محمد(ص) کیا اچھا باپ ہے تمہارا ابراہیم(ع) اور کیسا اچھا بھائی ہے تمہارا علی ابن ابی طالب(ع)۔

۳۰۲

مجلس نمبر۵۳

( ۲۶ ربیع الاول سنہ۳۶۸ھ)

حروف معجم( حروف تہجی)

۱ـ           ابوالحسن علی بن موسی رضا(ع) نے فرمایا کہ سب سے پہلے خدا نے اپنی خلق کو پہچاننے کے لیے حروف تہجی کو تخلیق کیا جب کسی آدمی کے سرپر لاٹھی ماری جائے تو خیال یہ ہے کہ وہ بعض کلام کو بیان نہیں کرسکتا تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ اس پر حروف معجم پیش کیے جائیں پھر اس کو اتنی دیت دی جائے جتنے حروف ہجامن  سے اس نے ادا نہیں کیے میرے والد(ع) نے اپنے والد(ع) اور انہوں نے اپنے دادا(ع) کے حوالے جنابِ امیر(ع) سے روایت کیا ہے کہ الف سے مراد خدا کی نعمتیں ہیں۔

” ب“ بھجتہ اﷲ ( باقی بدیع السموات والارض) ” ت“ سے قائم آل محمد(ص) کے ذریعے سے تمام امور ” ت“ تکمیل عمل سے ہے” ث“ اعمال صالحہ کا ثواب ہے جو مومنین کے لیے ہے ”ج“ جلال و جمال خدا ہے”ح“ خدا کا حلم ہے جو گناہ گاروں کے لیے ہے ”خ“ سے مراد خمول یعنی گناہ گاروں کے ذکر کی خدا کے نزدیک گمنامی ہے”د“ دین خدا ہے ( جو اس نے اپنے بندے کے لیے بنایا) ” ذ“ ذوالجلال سے ہے”ر“ رؤوف و رحیم کے لیے ہے”ز“ قیامت کے زلزلے کے لیے ہے ” س“ سناء اﷲ کی بلند شان اور اس کی سرمدیت ”ش“ کہ خدا جو چاہے اور جو ارادہ کرے اور تم نہیں چاہتے جو وہ چاہتا ہے”ص“ کہ لوگوں کی صراط پر مدد کرنے میں (خدا) وعدے کا سچا ہے اور ظالموں کو گھات لگاکر پکڑنے والا ہے ” ض“ یعنی وہ بندہ گمراہ ہے جو آل محمد(ص) کا مخالف ہے” ط“ سے مراد طوبی ہے جو مومنین کے لیے ہے اور وہ کیا اچھا مرجع ہے ”ظ “ سے مراد ظن ہے کہ مومنین کا خدا کے بارے میں بہتر رائے رکھنا اور کافروں کا ظن انہیں نقصان پہنچانے والا ہے” ع“ (عین) عالم سے ہے اور ”غ“ (غین) غنی سے کہ جو ( خدا) بے نیاز ہے اور کوئی حاجت نہیں رکتھا ”ف“ سے مراد دانہ گھٹی کو شگافتہ کرنے والا اور افواجِ جہنم سے ہے”ق“ قرآن ہے اور اس کا جمع

۳۰۳

 کرنا اور پڑھانا خدا پر ہے ”ک“ کافی کے لیے اور ”ل“ سے مراد کفارہ کا لغو ہے کہ جو وہ خدا پر بہتان اور جھوٹ باندھتے ہیں۔”م“ سے مراد خدا کا مالک یوم الدین ہونا ہے کہ اس کےسوائے اس کا کوئی مالک نہیں ہے اور خدا فرمائے گا کہ آج کس کا مالک اور کس کی ملکیت ہے تو اس وقت ارواح پیغمبران و رسول و حجت خدا  سب مل کر کہیں گے کہ یہ خدائے قہار کی ملکیت ہے۔ خدا فرمائے گا ” آج ہر ایک کو اس کے کہے کا اجر دیا جائیگا۔ آج کے دن کسی پر ظلم نہیں کیا جائیگا۔ بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے( مومن، آیت نمبر۱۶) ” ن“ سے مراد نوالِ ( مہربانی و بخشش) خدا ہے جو صرف مومنین کے لیے ہے۔ اور کفار کے لیے” نکال“( عذاب) و کیفر الہی ہے ” و“ وائے ہے اس پر جو خدا کی نافرمانی کرتا ہے ”ھ“ کہ یہ خدا پر آسان ہے کہ جو اس کی نافرمانی کرے اسے حقیر و ذلیل کرے( رجوع کریں پچھلے صفحات پر”ھ“ کی تفسیر ہاویہ جو کہ دوزخ کا ساتواں طبقہ ہےسے کی گئی ہے) ”ل“ یعنی لا الہ الا اﷲ ہے اور یہ کلمہء اخلاص ہے اور جو کوئی بھی اسے خلوص دل سے کہے تو اس پر بہشت واجب ہوگی۔ ” ی“ کہ اس سے مراد یداﷲ ہے یعنی خدا کا ہاتھ جو اس کی تمام خلق پر ہے اور وہ رزق عطا کرتا ہے اور جو اس کے بارے میں شرک کیا جاتا ہے وہ اس سے پاک و بلند ہے۔ پھر امام(ع) نے فرمایا خدا نے قرآن کو ان کے حروف کے ساتھ نازل کیا ہے جو تمام عرب میں مستعمل و رائج ہیں پھر خدا نے فرمایا اے محمد(ص) کہہ دو اگر تمام جن و انس جمع ہوکر اس قرآن کا مثل لے آئیں تو وہ نہیں لاسکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے معاون و مددگار بن جائیں۔ ( بنی اسرائیل، ۸۸)

۲ـ           جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا جو شخص نماز جمعہ کے بعد ایک مرتبہ سورہ حمد اور سات مرتبہ ” قل ھو اﷲ“ اس کے بعد ایک مرتبہ ” سورہ حمد“ اور پھر سات بار ” قل اعوذ برب الناس“ پڑھے تو اس پر مصیبت نہ آئے گی اور وہ فتنے کو نہ دیکھے گا اور اگلے جمعہ تک اسی طرح رہے گا ۔ اگر وہ دعا کرے گا کہ بارالہا مجھے ہمارے پیغمبر(ص) اور جناب ابراہیم(ع) کے ساتھ اہل بہشت میں داخل کردے جو برکت سے بر ہے اور جس کے آباد کرنے والے فرشتے ہیں تو  خدا اسے اس میں داخل کردے گا اور اسے جنابِ ابراہیم(ع) اور میرے ( رسول خدا(ص)) ساتھ دارالسلام میں وارد کرے گا۔

۳۰۴

کفن چور اور اسکا ہمسایہ

۳ـ          امام زین العابدین(ع) فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص قبریں کھود کر کفن چوری کیا کرتا تھا۔ اس کے ہمسائے میں ایک بوڑھا شخص سکونت پذیر تھا جو قریب المرگ تھا ایک دن اس نے اس کفن چور کو بلایا اور اس سے کہا تم میرے بہترین ہمسائے ہو۔ میں تم سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ یہ دو مکمل کفن رکھے ہیں ان میں سے تجھے جو بہتر لگے  وہ اٹھا لے اور میرے مرنے کے بعد میری قبر کو کھود کر دوسرے لوگوں کی مانند میرا کفن چوری نہ کرنا۔ اس کفن چورنے یہ سن کر انکار کیا اورکفن نہ لیا۔ مگر اس بوڑھے آدمی نے اصرار کیا اور بوڑھا وہ عمدہ کفن اسے دیدیا جو اس چورنے رکھ لیا۔ جب وہ بوڑھا شخص فوت ہوگیا۔ تو اس کفن چور کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اب اس بوڑھے کو کیا معلوم ہوگا کہ میں نے اس کا کفن چوری کیا ہے یا نہیں لہذا اس کا کفن چوری کرنا چاہیے۔ جب اس بناش ( کفن چور) نے اس کی قبر کھول کر اس کفن اتارنا چاہا تو ہاتف غیبی نے آواز دی کہ ” ایسا مت کر“ بناش یہ سن کر خوفزدہ ہوگیا اور اپنا ہاتھ روک کر گھر چلا آیا۔ گھر آکر اس نے اپنے فرزند سے کہا کہ میں تمہارے لیے کیسا باپ ثابت ہوا ہوں فرزند نے کہا۔ آپ بہترین والد ہیں اس  نے کہا میں تم سے ایک حاجت رکھتا ہوں ۔ فرزند نے کہا فرمائیں۔ اس نے کہا جب میں مرجاؤں اور لوگ مجھے جلادیں تومیری راکھ اکٹھی کرنا اور اسے خوب کوٹ کر تیز ہوا میں بکھیر دینا یہ میری وصیت ہے اس لڑکے نے کہا ٹھیک ہے۔

جب وہ نباش مرا اور اسے جلایا گیا تو اس کے فرزند نے اس کی لاش کی راکھ اکٹھی کی اور اسے کوٹ کر تیز ہوا میں بکھیر دیا تو خدا نے بیابان اور دریا کو حکم دیا کہ اس کی راکھ اکٹھی کی جائے، جب راکھ اکٹھی ہوگئی تو حکم دیا کہ اسے (نباش) میرے سامنے حاضر کیا جائے لہذا نباش کو لاکھڑا کیا گیا۔ خدا نے اس سے کہا تونے اپنے فرزند کو یہ وصیت کیوں کی۔ نباش نے جواب دیا خدایا تیری عزت اور تیرے خوف کی وجہ سے میں نے ایسا کیا۔ خدا نے ارشاد فرمایا میں تیری اس خدا خوفی کی وجہ سے تجھ سے راضی ہوں اور تیرے خوف کو ہٹاتا ہوں اور تجھے معاف فرماتا ہوں۔

۳۰۵

۴ـ          جنابِرسول خدا(ص) نے فرمایا جب بندہ اپنا کفن تیار کرتا ہے اور اسے دیکھتا ہے تو خدا اس کے اس عمل کا اسے اجر عطا کرتا ہے۔

۵ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا بہشت میں غرفہ ( دریچہ ،کھڑگی ، بالاخانہ وغیرہ) ہے کہ جس کا اندروں اس کے بیرون سے اور بیرون اس کے اندرون سے پیدا ہوا ہے اور میری امت میں سے ایسے لوگ جو خوش کلام۔ لوگوں کو کھانا کھلانے والے۔ اپنا اسلام ظاہر کرنے والے اور عبادت شنبہ کرنے والے ہوں گے وہاں قیام کریںگے جناب علی ابن ابی طالب(ع) نے رسول اﷲ(ص) سے کہا یا رسول اﷲ(ص) ان باتوں کی وضاحت فرمائیں۔

آپ(ص) نے فرمایا ۔ اے علی(ع) جانتے ہو خوش کلام کیا ہے وہ یہ ہے کہ صبح و شام دس بار سبحان اﷲ والحمد ﷲ ولا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر“ کہے لوگوں کو کھانا کھلانا یہی ہے کہ مرد جو کچھ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے نماز شبینہ یہ ہے کہ جو کوئی شخص نمازِ عشاء اور نمازِ فجر کو با جماعت مسجد میں ادا کرے اور یہ اس طرح ہے کہ جیسے کسی نے تمام رات عبادت میں گذاردی ہو۔ اور اسلام کا ظاہر کرنا یہ ہے کہ انسان مسلمان پر سلام بھیجنے میں بخل سے کام نہ لے۔

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا کوئی شخص کسی نیک کام کے انجام کا سوچ کر اس میں سستی نہ  کرے۔

۷ـ          امام رضا(ع) کے غلام سے منقول ہے کہ امام (ع) نے فرمایا کوئی مومن اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس میں تین خصلتیں موجود نہ ہوں، اول اپنےپروردگار کی سنت پر عمل ، دوئم اپنے نبی(ص) کی سنت پر عمل کرنا اور  سوئم اپنے امام(ع) کی سنت پر عمل۔

پروردگار کی سنت یہ ہے کہ راز کو راز رہنے دیا جائے اسے تلاش نہ کیا جائے خدا فرماتا ہے ” دانائی پوشیدہ ہے“ ( دانائی یعنی علم الغیب) اور کوئی ایک شخص بھی اس سے آگاہ نہیں ہوتا مگر وہ رسول کہ جس کو وہ ( خدا) خود پسند کرے۔

پیغمبر(ص) کی سنت یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ مدارات کی جائے کیوںکہ خدا نے اپنے پیغمبر(ص) کو حکم دیا ہے کہ لوگوں سے نیکی سے پیش آؤ عفو اختیار کرو اور خواہشات سے منہ پھیر لو۔

۳۰۶

اپنے امام کی سنت یہ ہے کہ سختی میں صابر رہو اور شکوہ نہ کرو خدا فرماتا ہے کہ جو لوگ سختی میں صبر کرتے ہیں وہی متقی ہیں۔

۸ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے امام حسین(ع) سے فرمایا اے حسین(ع) تیرے صلب سے ایک فرزند پیدا ہوگا جس کا نام زید ہوگا۔ وہ اور اس کے ساتھی روزِ قیامت لوگوں کی گردنوں پر اپنے قدم رکھتے ہوں گے۔( فضیلت میں بلند مقام پر فائز ہوں گے) اور نورانی چہرے لیے بغیر حساب بہشت میں داخل ہوں گے۔

۹ـ           جناب رسول خدا(ص) نے اپنے بالوں پر اپنا دستِ مبارک رکھ کر فرمایا ۔ جس کسی نے میرے ایک بال کو بھی آزار پہنچایا اس نے مجھے آزار پہنچایا۔ جس نے مجھے آزار پہنچایا اس نے خدا کو آزاردہ کیا۔ اور جو کوئی خدا کو آزردہ کرے تو زمین و آسمان اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔

نیک یا بد

۱۰ـ          عبایہ بن ربعی کہتے ہیں کہ ایک انصاری جوان عبداﷲ ابن عباس کے پاس آیا تو عبداﷲ(رض) نے اسے تعظیم دی اور پاس بٹھایا۔لوگوں نے عبداﷲ ابن عباس(رض) کو مطلع کیا کہ یہ نو جوان جس کی آپ نے تعظیم کی ہے وہ نو سال سے بدکاری میں مبتلا ہے اور رات کو قبرستان جاکر قبروں کو کھودتا ہے ، تو عبداﷲ نے کہا مجھے اس وقت بتایا جائے جب یہ قبرستان گیا ہو، لہذا ایک شب یہ نوجوان قبرستان گیا تو عبداﷲ ابن عباس کو اس کی اطلاع دی گئی عبداﷲ اس کے تعاقب میں قبرستان گئے اور اس کا فعل وعمل دیکھنے کی غرض سے ایک گوشے میں چھپ کر کھڑے ہوگئے جہاں سے  وہ جوان انہیں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ اس جوان نے ایک قبر کھودی اور اس میں لیٹ گیا پھر اس کی صدا بلند ہوئی کہ واے ہو مجھ پر میں تنہا اپنی لحد میں خوف زدہ ہوگا اور زیر زمین ہوں گا تب مجھے کوئی خوشی حاصل نہیں ہوگی۔ کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں گا۔ میری لحد مجھ سے کہے گی تم پر وائے ہو تم نے مجھے پس پشت رکھا لہذا میں تمہیں دشمن رکھتی ہوں تم ایسے وقت میں میری آغوش میں آے ہو کہ میں دیکھتی ہوں کہ انبیاء و

۳۰۷

 ملائکہ صف باندھے کھڑے ہیں۔ کل بروز قیامت تجھے کون بچائے گا اور شکنجہ دوزخ سے کون پناہ دے گا۔ پھر اس نو جوان نے فریاد کی کہ میں نے نافرمانی کی اور ہر کسی کو چاہے کہ وہ نافرمانی نہ کرے میں ہر بار اپنے پروردگار سے اس بات کا عہد کرتا ہوں مگر پھر توڑ دیتا ہوں اور بے وفائی ( نافرمانی) کی تکرار ( بار بار) کرتا ہون ۔ جب وہ جوان قبر سے باہر آیا تو عبداﷲ ابن عباس(رض) نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا اور کہا تم بہتر گور کن ہو کہ اپنے گناہ سک عمدگی سے قبر میں یاد کرتے ہو پھر آپ اس کے ساتھ قبرستان سے باہر آئے اور جدا ہوگئے۔

۱۱ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جب روزِ قیامت آواز دی جائے گی کہ زین العابدین(ع) کہاں ہیں تو میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے فرزند علی(ع) بن حسین(ع) بن علی(ع) بن ابی طالب(ع) کے لیے صفوں کے درمیان راستہ بنا دیا جائیگا۔

۱۲ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا اے علی(ع) تم میرے بھائی اور میں تمہارا بھائی ہوں مجھے بنوت کے لیے چنا گیا ہے اور تمہیں امامت کے لیے میں صاحب تنزیل ہوں اور تم صاحب تاویل میں اور تم اس امت کے دو باپ ہیں اے علی(ع) میرے وصی ، خلیفہ ، وزیر اور وارث ہو تم میرے دو فرزندوں کے والد ہو تیرے شیعہ میرے شیعہ، تیرے ساتھی میرے ساتھی، تیرے دوست میرے دوست اور تیرے دشمن میرے دشمن ہیں اے علی(ع) تم میرے رفیق ہو کل بروزِ قیامت تم میرے ساتھ حوض کوثر پر ہوگے اور مقام محمود میں میرے ہمراہ ہوگے۔ تم جس طرح دنیا میں میرے علمدار ہو اسی طرح قیامت میں  بھی میرے پرچم بردار ہوگے۔ خوش بخت ہے وہ بندہ جو تجھے دوست رکھے اور وہ بد بخت ہے جو تجھ سے دشمنی رکھتا ہ۔آسمان کے فرشتے تیری دوستی اور تیری ولایت کے ذریعے تقربِ خدا حاصل کرتے ہیں خدا کی قسم تیرے دوست زمین کی نسبت آسمان میں زیادہ ہیں اور اے علی(ع) تم میری امت کے امین ہو اور میرے بعد ان پر خدا کی حجت ہو۔ تیرا کلام میرا کلام  ہے، تیرا امر میرا امر ہے، تیری اطاعت میری اطاعت ہے، تجھے ملامت کرنا مجھے ملامت کرنا ہے، تیری نافرمانی میری نافرمانی ہے، تیرا گروہ میرا گروہ ہے اور میرا گروہ خدا کا گروہ ہے اور وہ ایسے ہیں کہ اﷲ اور اس کے رسول(ص) کو دوست رکھتے ہیں اور ایمان لاتے ہیں بیشک خدا کا گروہ ( حزب اﷲ) ہی کامیاب و غالب ہے۔

۳۰۸

مجلس نمبر ۵۴

 ( سلخ ربیع الاول سنہ۳۶۸ ھ۔ بموقع رؤیت ہلال)

۱ـ               جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا تم میں سے جو کوئی بہتر وضو کرتا ہے، اپنی نماز درست پڑھتا ہے ، اپنے مال کو زکوة دیتا ہے، اپنی زبان کی حفاظت کرتا ہے، اپنے غصے کو قابو میں رکھتا ہے، اپنے گناہوں کی مغفرت اور اہل بیت(ع) کی خیر خواہی کرتا ہے تو اس کا ایمان کامل ہے اور اس کے لیے بہشت کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔

۲ـ              جنابِ رسول خدا(ص) نے اس خطبے میں ارشاد فرمایا اے لوگو جو کوئی ہمارے خاندان کو دشمن رکھتا ہے خدا اسے یہودی مبعوث کرےگا، جابر ابن عبداﷲ اںصار(رض) کہتے ہیں کہ مین نے رسول خدا(ص) سے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) اگر وہ روزہ رکھتا ہو نماز پڑھتا ہو اور اس بات کا معتقد بھی ہو کہ وہ مسلمان ہے تو کیا وہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا بیشک وہ روزہ رکھتا ہو نماز پڑھتا ہو۔ اور معتقد ہو کہ مسلمان ہے( تو بھی ایسا ہی ہوگا۔)

۳ـ             جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی مسلمانوں کی جماعت سے جدا ہوا اس نے رشتہء اسلام کو گردن سے اتار دیا عرض کیا گیا۔ یا رسول اﷲ(ص) مسلمانوں کی جماعت کونسی ہے آپ(ص) نے ارشاد فرمایا اہل حق بیشک وہ کم ہی کیوں نہ ہوں۔

۴ـ              زید بن ارقم بیان کرتے ہیں کہ کچھ اصحاب رسول(ص) ایسے تھے جن کے دروازے مسجد میں کھلتے تھے ایک روز جنابِ رسول خدا(ص) نے حکم دیا کہ سواے علی(ع) کے دروازے کے مسجد میں باقی تمام اصحاب کے دروازے بند کردئیے جائیں لوگوں نے اس بارے میں جناب رسول خدا(ص) سے بات کی تو رسول خدا(ص) اپنی جگہ سے اٹھے اور خدا کی حمد و ستائش کے بعد فرمایا۔

مجھے مامور کیا گیا ہے( خدا کی طرف سے ) کہ میں سوائے علی(ع) کے دروازے کے بعد مسجد میں کھلنے والے تمام دروازے بند کروا دوں پھر فرمایا خدا کی قسم ایسا میں نےخود نہیں کیا نہ ہی میں ان دروازوں کو کھلواتا ہوں اور نہ ہی بند کرواتاہوں میں جیسا حکم وصول کرتا ہوں ویسے ہی اس کی پیروی

۳۰۹

کرتا ہوں۔

۵ـ          جنابِ علی ابن ابی طالب(ع) فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا کسی ایک کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ اس مسجد میں جنب داخل ہو سوائے میرے ( رسول خدا(ص)) اور علی(ع) و فاطمہ(س) و حسن(ع) و حسین(ع) کے اور جو کوئی میرے اہل بیت(ع) میں سے ہے وہ مجھ سے ہے۔

۶ـ           جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا تمام دروازے جو اس مسجد میں کھلتے ہیں بند کروادیئے جائیں سواے علی ابن ابی طالب(ع) کے دروازے کے۔

۷ـ          ابو عمران ( عمران) سے روایت ہےکہ رسول خدا(ص) نے فرمایا گھروں کے دروازے کو مسجد کی سمت سے بند کردو سوائے علی(ع) کے دروازے کے۔

۸ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا کوئی بندہ مومن نہیں مگر یہ کہ وہ مجھے اپنی ذات سےبھی زیادہ دوست رکھے اور میرے خاندان(ع) کو اپنے خاندان سے زیادہ دوست رکھے اور میری ذات کو اپنی ذات سے پہلے دوست رکھے ایک شخص نے کھڑے ہو کر اس حدیث کے راوی عبدالرحمن سے کہا کہ اے عبدالرحمن تم ترتیب وار اس حدیث کو بیان کیا ہے خدا اس سے (حدیث سے) دلوں کو زندہ رکھے۔

۹ـ           عون بن عبداﷲ کہتے ہیں کہ میں محمد بن حنفیہ(ع) کے ہمراہ ان کے آستانے پر موجود تھا کہ زید بن حسن(رح) ان کے پاس سے گزرے آپ نے انہیں دیکھا تو کہا اولاد حسین(ع) سے زید بن علی(رض) نامی ایک جوان قتل ہوگا۔ جو عراق میں تختہ دار پر لٹکایا جائیگا ۔ جو کوئٰی اسے دیکھے اور اس کی مدد نہ کرے گا خدا اسے منہ کے بل دوزخ میں گرائے گا۔

۱۰ـ          زیاد بن منذر کہتے ہیں میں امام باقر(ع) کے پاس بیٹھا تھا کہ زید بن علی(ع) بن حسین(ع) تشریف لائے امام(ع) نے انہیں دیکھا تو فرمایا یہ اپنے خاندان کے سردار ہیں اور ان ( اہل بیت(ع)) کے خون کو طلب کرنے (بدلہ لینے) والے ہیں یہ بہت زیادہ نجیب ہیں۔ پھر فرمایا اے زید تیری والدہ کیسے شریف فرزند کی والدہ ہیں۔

۱۱ـ           ابوحمزہ ثمالی کہتے ہیں کہ میں حج پر گیا تو امام علی بن حسین(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا

۳۱۰

 انہوں نے مجھ سے فرمایا ، اے ابو حمزہ  کیا میں تجھے اپنا خواب بتاؤں جو میں نے دیکھا میں نے کہا کیوں نہیں تو فرمایا سنو میں نے دیکھا کہ میں بہشت میں تکیہ لگائے بیٹھا ہوں کہ میرے پاس بہترین حوریں آئیں اور اس سے پہلے میں نے ایسی حوریں نہیں دیکھی تھیں ان میں سے ایک نے مجھ سے کہا اے علی(ع) بن حسین(ع) میں تمہیں تہنیت پیش کرتی ہوں اور تمہیں زید(رح) کی مبارک باد دیتی ہوں۔ ابو حمزہ بیان کرتے ہیں کہ میں جب دوسرے سال حج پر گیا۔ اور امام(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ وہ اپنے فرزند زید(رح) کو آغوش میں لیے بیٹھے ہیں۔ آپ(ع) نے فرمایا اے ابو حمزہ یہ میرا فرزند میرے اس خواب کی تعبیر ہے۔ کہ میں نے اس(زید) کی پیدائش سےپہلے اسے دیکھا اور خدا نے اسے سچ کر دکھایا۔“ ( یوسف، ۱۰۰)

۱۲ـ          عبدالرحمن بن سبابہ کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے مجھے ہزار اشرفیان دیں اور فرمایا کہ انہیں اپنے خاندان والوں میں تقسیم کردو۔ لہذا میں نے ان اشرفیوں کو زید بن علی (ع) کے ہمراہ شہید ہونے والوں کے لواحقین میں تقسیم کردیا۔ اور عبداﷲ بن زبیر جو کہ فضیل کے برادر تھے کے حصے میں چار اشرفیاں آئیں۔

۱۳ـ          سلمان فارسی(رض) کہتے ہیں کہ ایک دن میں رسول خدا(ص) کے پاس بیٹھا تھا کہ علی بن ابی طالب(ع) تشریف لائے رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے فرمایا اے علی(ع) میں تجھے ایک خوشخبری نہ دوں۔ علی (ع) نے کہا کیوں نہیں یا رسول اﷲ(ص) آپ نے فرمایا جبرائیل(ع) نے خدا کی طرف سے مجھے خبر دی ہے کہ اس نے تیرے حبداروں اور شیعوں کو سات خصلتیں عطا کی ہیں اول ، سکرات موت میں آسانی۔ دوئم وحشت قبر اور اس کے اندھیرے میں روشنی۔ سوئم ۔ خوف محشر سے امان۔ چہارم۔ بوقت میزان پلڑے کا بھاری ہونا۔ پنجم ۔ پل صراط سے گزرنا۔ ششم ۔ تمام سابق امتوں سے پہلے جنت میں داخل ہونا۔ ہفتم ۔ دوسری امتوں سے ۸۰ سال پہلے بہشت میں  داخلہ۔

۱۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی اپنےمومن بھائی کے اس عیب کو بیان کرے جو خود اس نے اس مومن میں دیکھا ہو اور اپنے کان سے سنا ہو تو ایسے لوگوں کے بارے میں خدا ارشاد فرماتا ہے۔

۳۱۱

” بیشک جو بندے دوستے رکھتے ہیں ہرزگی کو اور مومنین میں اس کو رواج دیتے ہیں تو ان کے لیے دنیا اور آخرت دردناک عذاب ہے“ ( نور، ۲۰)

۱۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا غیبت یہ ہے کہ تم اپنےبھائی کے اس عیب کو بیان کرو جسے خدا نے پوشیدہ رکھا ہوا ہے اور بہتان یہ ہے کہ تم اسے اس سے نسبت دو جو اس میں نہیں ہے۔

۱۶ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا کیسا برا بندہ ہے وہ جو دو منہ اور دو زبانیں رکھتا ہو جو اپنے بھائی کے سامنے اس کی تعریف کرے اور پس پشت اس کا گوشت کھائے۔ اور اگر خدا اسے عطا کرے تو اس سے حسد رکھے۔ اور اگر مصیبت میں گرفتار ہو تو اسے چھوڑ دے۔

۱۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی کسی کی منہ پر تعریف کرے اور پس پشت اس کے عیب بیان کرے تو روزِ محشر اسے ایسے حاضر کیا جائے گا کہ اس کی زبان آتشیں ہوگی۔

۱۸ـ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی حکمران( امام عادل(ع)) کی نافرمانی کرے تو اس نے خدا کی نافرمانی کی اور اس کی نہی میں داخل ہوگیا خدا فرماتا ہے۔”خود کو اپنے ہاتھوں مہلک ( ہلاکت) میں نہ گراؤ۔“ بقرہ، ۱۹۵)

۱۹ـ          امام رضا(ع) نے اپنے شیعوں سے فرمایا اے گروہ شیعہ تم اطاعت سلطان کو ترک کر کے خود کو خوار نہ کرو۔ اگر وہ عادل ہے تو خدا اس کی بقاء چاہتا ہے۔ اگر وہ ظالم ہے تو اس کی اصلاح چاہو کہ تمہارے سلطان کی اصلاح تمہاری اصلاح ہے سلطان عادل شفیق باپ کی طرح ہے اس کے لیے دوست رکھو اس چیز کو جو تم اپنے لیے دوست رکھتے ہو۔ اور جو تم اپنے لیے نہیں چاہتے اس کے لیے بھی نہ چاہو۔

۲۰ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا ” ولد الزنا“ کی تین نشانیاں ہیں۔

اول : حاضرین سے بد اخلاقی     دوئم : زنا کا اشتیاق سوئم : ہمارے خاندان سے دشمنی۔

۲۱ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی نماز پنجگانہ جماعت کے ساتھ ادا کرے اس سے خوش گمان رہو اور اس کی گواہی قبول کرو۔

۳۱۲

امام علی نقی(ع) اور توحید

۲۲ـ          حضرت عبدالعظیم بن عبداﷲ حسنی(رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے آقا امام دہم جنابِ علی نقی(ع) بن محمد(ع) بن علی(ع) بن موسی(ع) بن جعفر(ع) بن محمد(ع) بن علی(ع) بن حسین(ع) بن علی(ع) ابن ابی طالب(ع) کی خدمت میں گیا جب آپ(ع) نے مجھے دیکھا تو خوش آمدید کہا پھر فرمایا اے ابو القاسم تم واقعی ہمارے عزیز دوست ہو میں نے ان سے کہا اے فرزند رسول(ص) میں چاہتا ہوں کہ اپنا دین (عقیدہ) آپ(ع) کے سامنے پیش کروں اگر یہ آپ(ع) کو پسند ہو اور آپ مطمن ہون تو میں اس پر ثابت قدم رہوں یہاں تک کہ دیدار الہی سے فیضیاب ہو جاؤں آپ(ع) نے فرمایا ، اے ابوالقاسم بیان کرو میں نے عرض کیا کہ میں کہتا ہوں کہ اﷲ تبارک و تعالی واحد ہے اس جیسی کوئی شئے نہیں وہ حدالبطال اور حد تشبیہہ دونوں سےخارج ہے وہ جسم ،صورت، عرض اور جوہر نہیں ہے بلکہ وہ جسموں کو مجسم مجسم کرنے والا صورتوں کی صورت گری کرنے اور تمام عرض اور جوہر کا خالق ہے وہ ہر شئی کا رب ہے اس کا مالک اور بنانے والا اور اس کا ایجاد کرنے والا ہے۔ اور یہ کہ محمد اس کے بندے اس کے رسول اور خاتم النبیین ہیں کہ جن کے بعد قیامت تک کوئی بنی نہیں ہوگا۔ اور میں کہتا ہوں کہ رسول اکرم(ص) کے بعد امام، خلیفہ اور ولی امر ۔ امیرالمومنین علی بن ابی طالب(ع) ہیں پھر امام حسن(ع) پھر امام حسین(ع) پھر علی بن حسین(ع) پھر محمد(ع)بن علی(ع) پھر جعفر بن محمد(ع) پھر موسی بن جعفر(ع) پھر علی بن موسی(ع) پھر محمد بن علی(ع) اور پھر آپ(ع) ہیں میرے آقا۔امام(ع) نے فرمایا میرے بعد میرے فرزند حسن(ع) ( امام حسن عسکری(ع))ہوں گے پھر ان کے بعد لوگوں کا رویہ ان کے جانشین کے ساتھ کیسا ہوگا، میں نے عرض کیا یا ابن رسول اﷲ(ص) لوگ ان کے ساتھ کیسا رویہ رکھیں گے آپ(ع) نے فرمایا کیوںکہ اس شخصیت و وجود  کو دیکھا نہیں جاسکتا اور نہ اس کا ذکر اس کے نام سے جائز ہے، پھر وہ ظاہر ہوگا۔ اور زمین کو عدل و اںصاف سے بھردے گا۔ جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر ہوگی ہیں( عبدالعظیم(ع)) نے کہا کہ میں اقرار کیا کہ بے شک ان دوست اﷲ کا دوست ہے اور ان کا دشمن اﷲ کا دشمن ہے ان کی اطاعت اﷲ  کی  اطاعت ہے ان کی نافرمانی اﷲ کی نافرمانی و گناہ ہے اور میرا قول یہ ہے کہ معراج حق ہے قبر میں سوال و بازپرس حق ہے جنت حق ہے جہنم حق ہے صراط حق ہے۔ میزان حق ہے اور حق ہے اور یقینا قیامت آنے والی ہے جس میں کوئی شک نہیں بے شک

۳۱۳

جو لوگ قبر میں ہیں اﷲ تعالی ان کو اٹھائے گا اور میں اس کا بھی قائل ہوں کہ بعد ولایت واجب فرائض میں نماز ، زکوة، روزہ، حج،جہاد امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔ حضرت علی بن محمد(ع) ( امام علی نقی(ع)) نے فرمایا اے ابو القاسم بخدا یہی اﷲ کا وہ دین ہے جس کا اس نے پسند فرمایا ہے لہذا تم اس پر ثابت قدم رہو۔ اﷲ تعالی تمہیں دنیاوی اور آخرت کی زندگی میں قول ثابت کے ساتھ ثابت قدم رکھے۔

۲۳ـ                 امام باقر(ع) کے ہاں غضب کا ذکر ہوا تو فرمایا بندہ بعض دفعہ غضب(غصہ) کرتا ہے اور اسی پر اکتفا نہیں کرتا یہاں تک کہ جہنم میں چلا جاتا ہے جوشخص غصے میں آئے اور کھڑا ہو تو اسے چاہئیے کہ بیٹھ جائے تاکہ خدا اس پر اسے شیطان کے تسلط کو ہٹادے۔ اگر بیٹھا ہے تو کھڑا ہو جائے اور جو شخص اپنے عزیزوں پر غصہ کرے اسے چاہیے کہ اگر بیٹھا ہے تو کھڑا ہو جائے اور ان کے پاس سے  دور چلا جائے کیوںکہ رحم میں جب امن ہو تو راحت و احترام ہوتا ہے۔

۲۴ـ                 لیث ابن ابوسلیم کہتے ہیں کہ ایک انصادی مرد نے بیان کیا کہ ایک بہت زیادہ گرم دن میں پیغمبر اکرم(ص) ایک درخت کے سائے میں آرام فرمارہے تھے کہ ایک شخص آیا جس نے اپنے پیراہن کو اتارا اور شدید گرم ریت پر لیٹ کر اپنی پشتِ برھنہ کو جھلسا ڈالا پھر وہ اٹھا اور اپنی پیشانی کو ریت پر رکھ کر داغنے لگا اور کہنے لگا اے نفس لے مزہ چکھ کر کہ  جوکچھ خدا کے پاس ہے وہ اس سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ جنابِ رسول خدا(ص) نے اس شخص کے اس فعل کو دیکھا پھر جب اس شخص نے لباس پہن لیا تو آپ(ص) نے اسے پاس آنے کا اشارہ کیا وہ قریب آیا تو آپ(ص) نے فرمایا اے بندے میں نے تجھے ایک ایسا فعل کرتے دیکھا جو میں نے پہلے کسی دوسرے کو کرتے نہیں دیکھا تو ایسا کیوں کررہا تھا۔ اس شخص نے کہا میں خوف خدا کی وجہ سے ایسا کررہا تھا اور خدا کی خوفکی وجہ سے ہی میں اپنے نفس کا تکلیف کا مزہ چکھا رہا تھا۔ خدا کے پاس جو کچھ ہے وہ کہیں عظیم تر ہے۔ پیغمبر(ص) نے فرمایا اے بندے تم نے جو کچھ خوفِ خدا کے سلسلے میں کیا ہے حق ہے اور خدا تم سے اہل آسمان پر مباہات کرتا ہے۔ پھر آپ(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا اے گروہ حاضرین تم اپنے اس رفیق کے پاس جاؤ کہ وہ تمہارے حق میں دعا کرے تمام اصحاب اس کے پاس گئے، اس نے ان کے لیے دعا کی کہ” اے خدایا ہمارے عمل کو ہدایت سے پر کردے تقوی کو ہمارا توشہ بنا اور بہشت کو ہمارا مسکن قرار دے۔

۳۱۴

مجلس نمبر۵۵

( چار ربیع الاول سنہ۳۶۸ھ)

ظاہری خلافت اور خطبہء علی(ع)

۱ـ           اصبع بن نباتہ کہتے ہیں کہ جب جنابِ امیر(ع) نے خلافت ظاہری کی زمام سنبھالی اور تختِ خلافت پر تشریف فرما ہوئے اور لوگوں نے آپ(ع) کی بیعت کر لی تو آپ(ع) مسجد میں تشریف لائے کہ عمامہ رسول (ص) سر پر رکھے ہوئے ان کی عباء زیب تن کیے ہوئے ان کی نعلین مبارک پاؤں میں پہنے ہوئے اور ان(ص) کی تلوار کمر سے لگائے منبر پر تشریف لے گئے اور تحت الحنک کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے، اپنی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر لیا اور اپنے شکم مبارک کے نیچے رکھ کرخطبہ ارشاد فرمایا۔

آپ(ع) نے فرمایا اے لوگو! سوال کر لو مجھ سے قبل اس کے کہ مجھے نہ پاؤ  یہ علم سے سیریہے(سیرابی ہے) یہ لعابِ رسول (ص) کا اثر ہے یہ وہی علم ہے جو رسول اﷲ(ص) نے میرے سینے میں بھرا تھا سوال کر لو مجھ سے کہ میرے پاس اولین و آخرین کا علم ہے خدا کی قسم اگر میرے لیے مسندِ قضا بچھا دی جائے اور میں اس پر بیٹھ جاؤں تو اہل توریت کے فیصلے توریت سے اہل زبور کے زبور سے اہل انجیل کے انجیل سے اور اہل قرآن کے قرآن سے کروں اور خدا کی تمام کتابیں کہنے لگیں  کہ جو کچھ اﷲ تعالی نے ہم میں نازل فرمایا ہے اس میں سے جو کچھ آپ(ع) نے فتوی دیا ہم اس کی تصدیق کرتی ہیں۔

تم لوگ روز وشب قرآن کی تلاوت کرتے ہو کیا تم میں سے کوئی بھی ایسا ہے جو یہ جانتا ہو کہ اس میں کیا نازل ہوا ہے اگر قرآن میں یہ آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں ماضی۔ حال اور قیامت تک ہونے والے تمام حالات واقعات سے آگاہ کرتا۔ اور وہ آیت یہ ہے کہ” اﷲجسے چاہتا ہے محو کر دیتا ہے اور جو چاہتا ہے قائم کردیتا ہے اور ام الکتاب تو اسی کے پاس ہے۔(رعد، ۳۹)

۳۱۵

پھر آپ(ع) نے فرمایا سوال کر لو مجھ سے قبل اس کے کہ مجھے نہ پاؤ ، اس کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور روح کو پیدا کیا اگر تم مجھ کسی آیت کے متعلق سوال کرو تو میں بتاؤں گا کہ کون سی آیت رات میں نازل ہوئی کونسی آیت مکی ہے اور کونسی مدنی کونسی سفر میں نازل ہوئی اور کونسی حضر میں کونسی آیات ناسخ ہیں اور کونسی منسوخ کونسی محکم ہے اور کونسی متشابہ اور کس کی کیا تاویل ہے اور کیا تنزیل ہے جس کی تمہیں خبر نہیں۔

یہ سن کر ایک شخص جس کا نام دغلب تھا جو کہ منہ پھٹ اور تیز زبان والا تھا کھڑا ہوا اور کہا اے ابن ابی طالب(ع) آپ(ع) نے بہت بلند دعوی کیا ہے میں اپنے سوالات سے آپ(ع) کو نادم کردوں گا، آپ(ع) نے فرمایا پوچھ اس نے کہا، کیا آپ(ع) نے اپنے پروردگار کو کبھی دیکھا ہے آپ(ع) نے فرمایا وائے ہو تم پر اے دغلب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس پروردگار کی میں عبادت کروں اسے نہ دیکھوں دغلب نے کہا آپ(ع) نے کس طرح سے اسے دیکھا ہے آپ(ع) نے فرمایا تم پر واے ہو اسے آنکھوں سے ظاہرا دیکھنے کی انسان میں طاقت نہیں اسے حقیقت ایمان رکھتے ہوئے چشم قلب سے دیکھا جاسکتا ہے تم پر واے ہو اے دغلب بیشک میرا پروردگار دوری، نزدیکی، حرکت وسکون ، بدن اور آنے جانے، کھڑا ہونے اور بیٹھے کی خصوصیات سے متصف نہیں ہے وہ لطیف ہے کہ اس کا لطف قائم ہے وہ نہ ہی بزرگی سے وصف ہوتا ہے اور نہ ہی اس بات سے کہ اسے ستر سے وصف کیا جائے وہ جلیل ہے مگر سختی نہیں رکھتا وہ مہربان و رحیم ہے مگر رقعت قلب نہیں رکھتا مومن ہ مگر عادات نہیں رکھتا درک کرتا ہے مگر حس جسمانی سے نہیں بولنے والا ہے مگر تلفظ نہیں رکھتا۔ وہ تمام چیزوں میں ہے مگر تمام چیزوں سے باہر مگر جدائی کے طور پر نہیں تمام چیزوں کے اوپر ہے مگر فوقیت مکان کے علاوہ ہر چیز سے آگے ہے لیکن کہنے سے آگے نہیں وہ ہر چیز میں داخل ہے لیکن کوئی چیز نہیں وہ ہر چیز ہے مگر چیز نہیں دغلب یہ سن کر مدہوش ہوگیا۔ اور کہنے لگا خدا کی قسم میں نے اس طرح کا جواب پہلے کبھی نہیں سنا۔ خدا کی قسم آئندہ میں اس طرح کا سوال نہیں کروں گا۔

پھر آپ(ع) نے فرمایا اے لوگو! سوال کر لو مجھ سے س سے قبل کہ مجھے نہ پاؤ۔ یہ سن کر اشعث بن قیس اٹھا اور کہنے لگا اے امیرالمومنین(ع) تم اہل مجوس سے کیوں کر جزیہ لیتے ہو حالانکہ ان

۳۱۶

 پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی اور کوئی پیغمبر ان پر مبعوث نہیں ہوا آپ(ع) نے فرمایا ہاں اے اشعث خدا نے ان پر کتاب نازل کی اور ایک پیغمبر ان پر بھیجا۔ ان کا ایک بادشاہ تھا۔ وہ ایک رات مست ہوا اور اس نے اپنی بیٹی کو اپنے بستر پر طلب کیا اور اس سے ہم بستری کی۔ صبح جب یہ خبر اس کی قوم کو پہنچی تو وہ اس کے محل میں جمع ہوئے اور کہنےلگے اے بادشاہ تم نے ہمارے دین کو تباہ و برباد کردیا ہے تو باہر نکل کہ ہم تجھ پر حد جاری کریں اور تیرا قصہ ہی پاک کردیں۔ بادشاہ نے ان سے کہا کہ تم میرے پاس آؤ اور میری دلیل سنو اگر مطمئن ہو جاؤ تو مجھ سے یہ مطالبہ نہ کرنا ورنہ جو تم چاہو ویسا ہی ہوگا۔ وہ سب اس کی بات سننے کے لیے راضی ہوگئے۔ اس نے ان سے کہا تم جانتے ہو کہ خدا نے اپنی مخلوق میں سے گرامی ترین ہستی حضرت آدم(ع) کو پیدا کیا اور انہی سے ہماری ماں حوا(ع) کو خلق کیا لوگوں نے کہا کہ ہاں تو درست کہتا ہے پھر اس بادشاہ نے کہا کیا آدم(ع) و حوا(ع) نے اپنی بیٹوں کو اپنے بیٹیوں سے تزویج نہ کیا کہنے لگے ہاں ایسا ہی ہے بادشاہ نے کہا پس دین یہی ہے ان لوگوں نے یہ سن کر اس فعل پر ایک دستور قائم کردیا تو خدا نے ان کے سینوں سے علم کو محو کردیا اور کتابِ نور کو ان کے درمیان سے اٹھالیا اور یہ لوگ کافر ہوگئے کہ بے حساب دوزخ میں جائیں گے اور منافقین ان سے بھی بدتر ہیں۔ اشعث نے کہا میں نے اب تک اس طرح کا جواب نہیں سنا تھا خدا کی قسم میں آئندہ اس قسم کا سوال نہ پوچھوں گا۔

پھر جنابِ امیر(ع) نے فرمایا اے لوگو! مجھ سے سوال کرلو اس سے قبل کہ مجھے نہ پاؤ۔ مسجد کے ایک کونے میں دور بیٹھا ہوا ایک شخص اپنے عصا کے سہارے کھڑا ہوا اور اسی کے سہارے چلتا ہوا لوگوں کے سروں پر سے ہوتا ہوا منبر کے قریب پہنچا اور عرض کیا یا امیرالمومنین(ع) مجھے ایسے عمل کی راہنمائی کریں کہ جب اسے انجام دوں تو دوزخ سے نجات پاؤں۔

آپ(ع)نے فرمایا اے شخص سنو۔ سمجھو اوریقین کرو کہ دنیا تین خصلتوں کی بنا پر قائم ہے ، عالم جو اپنے علم پر عمل کرے اور اسے بیان کرے، مالدار جو اپنے مال میں سے اہل دین کے لیے بخل نہ کرے اور فقیر جو صابرہو۔

جب عالم اپنے علم کو پوشیدہ کرے اور غنی اپنے مال سے دریغ کرے اور فقیر صبر نہ

۳۱۷

 کرے ، واے صدا واے کہ اس وقت دنیا ہلاک ہوجائے گی اور عارفان اس کو جانتے ہیں کہ دنیا کفر کی طرف چلی جائے گی لوگ مسجدوں اور جماعت کی کثرت پر فریفتہ و مغرور نہ ہوں بعض لوگ تو ایسے ہیں کہ ان کے بدن تو جمع ہیں مگر ان کے دل پریشان و پراکندہ ہیں۔

اےلوگو! بے شک انسانوں کے تین گروہ ہیں اول زاہد دوئم راغب اور سوئم صابر یہ لوگ وہ ہیں کہ دنیا کی کسی چیز سے جو ان کی طرف آئے اس سے خوش نہ ہوں اور جو چیز چلی جائے اس پر غمگین و محزون نہ ہوں اس لیے کہ وہ عاقبت کی جزا کو جانتے ہیں اور دنیا کے حاصل شدہ کی طرف راغب نہیں ہیں یہ دنیا کے حلال و حرام کی پرواہ نہیں کرتے اس شخص نے جنابِ امیر(ع) سے عرض کیا کہ اس زمانے میں مومن کی کیا پہچان ہے آپ(ع) نے فرمایا وہ ایسا ہے کہ صرف اس چیز کی طرف نظر کرے جو واجب خدا ہے اور جو چیز اس واجب خدا کے مخالف ہے سے بیزار رہے۔ بے شک کہ اس کے دوست اس چیز کو پسند کرتے ہوں، اس شخص نے کہا آپ(ع) نے بالکل درست فرمایا اے امیرالمومنین(ع) یہ کہہ کہ وہ غائب ہوگیا۔ اصبغ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعدہم نے اسے دوبارہ نہ دیکھا لوگ اس کے پیچھے گئے مگر وہ نہ مل سکا لوگوں نے جنابِ امیر(ع) سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو جنابِ امیر(ع) مسکرائے اور فرمایا تم لوگ کیا چاہتے ہو۔ وہ میرے برادر خضر(ع) تھے۔

پھر آپ(ع) نے فرمایا اے لوگو مجھ سے جو پوچھنا چاہو پوچھ لو اس سے قبل کہ مجھے نہ پاؤ اس بار مجمع میں سے کوئی شخص آپ(ع) کی اس صدا پر کھڑا نہ ہوا یہ دیکھ کر جنابِ امیر(ع) نے خدا کی حمد و ستائش کی اور پیغمبر(ص) پر صلوات بھیجی اور پھر امام حسن(ع) سے فرمایا اے حسن(ع) منبر پر آؤ اور گفتگو کرو مبادا قریش میرے بعد تمہیں نہ پہچانیں ، جناب حسن(ع) ہچکچائے اور فرمایا بابا جان میں آپ(ع) کے ہوتے ہوئے کس طرح گفتار کرسکتا ہوں جنابِ امیر(ع) نے فرمایا میرے فرزند میرے ماں باپ تم پر قربان میں تمہاری نظروں سے پوشیدہ ہوجاتا ہوں اور دور سے تمہاری گفتگو سنتا ہوں۔ امام حسن(ع) منبر پر گئے اور نہایت بلاغت سے خدا کی حمد بیان کی اور محمد(ص) اور ان کی آل(ع) پر درود بھیجنے  کے بعد فرمایا۔

اے لوگو! میں نے اپنے جد رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں جو کوئی شہر میں داخل ہوںا چاہے وہ دروازے سے داخل ہو یہ فرما کر امام حسن(ع) مبنر سے

۳۱۸

 نیچے اتر آئے۔ جناب امیر(ع) یہ سن کر آئے اور انہیں گلے لگا کر پیار کیا پھر آپ(ع) نے امام حسین(ع) کو فرمایا اے حسین(ع) اب تم منبر پر جاؤ اور گفتگو کرو کہیں یہ نہ ہو کہ میرے بعد قریش کہنے لگیں کہ حسین(ع) میں طاقت گفتار نہیں ہے اے فرزند تم اپنے بھائی کے کلام کے بعد کلام کرو حسین(ع) منبر پر گئے اور فرمایا اے لوگو مین نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ میں علم کا شہر ہوں اورعلی(ع) اس کا دروازہ ہیں جو کوئی اس میں داخل ہوگا نجات پائے گا اور جو کوئی تخلف کرے گا ہلاک ہوگا۔ جناب امیر(ع) یہ سن کر اپنی جگہ سے اٹھے اور ان کو آغوش میں لےلیا اور بوسہ لیا اور فرمایا۔

اے لوگو: گواہ رہو کہ یہ دونوں مبارک فرزند رسول خدا(ص) کے فرزند ہیں یہ دو امانتیں ہیں جو رسول خدا(ص) نے میرے سپرد کیں میں انہیں تمہارے سپرد کرتا ہوں اور رسول خدا(ص) تم سے ان کی نسبت دریافت کریں گے۔

۲ـ           ابوبصیر کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا اے ابو بصیر( کسی نقصان پر) مغموم و پریشان نہیں ہونا چاہیے میں نے عرض کای یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) پھر ایسے موقع پر کیا کیا جائے آپ(ع) نے فرمایا جب کوئی ایسا مرحلہ درپیش ہو تو قبر کو یاد کرنا چاہئے اور یہ یاد کرنا چاہیے کہ وہاں پر تنہائی ہوگی اس کی گرمی کھانی پڑے گی اور بوسیدگی کا سامنا کرنا پڑے گا وہاں تیرے تمام روابط کاٹ دیئے جائیں گے اور دنیا ہاتھ سے چلی جائے گی اور اس حالت پر تیری دونوں آنکھیں اشک بہائین گی لہذا حرص سے باز رہو۔

۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ابوذر غفاری(رح) رسول خدا(ص) کے پاس آئے اس وقت جنابِ جبرائیل(ع) وحبہ کلبی کی صورت میں آنحضرت(ص) کے پاس موجود تھے اور تنہائی میں ان(ص) سے بات کر رہے تھے جنابِ ابوذر(رض) نے جب انہیں دیکھا تو مخل ہونے سے گریز کرتے ہوئے واپس چلے گئے۔ یہ دیکھ کر جبرائیل(ع) نے رسول خدا(ص) سے کہا اے محمد(ص) ، ابوذر (رح) ہمارے قریب آئے اور ہمیں سلام نہیں کیا اگر یہ سلام کرتے ہم انہیں اس کا جواب دیتے پھر جبرائیل(ع) نے فرمایا اے محمد(ص) یہ ایک دعا پڑھتے ہیں کہ جس کی وجہ سے یہ اہل آسمان میں معروف ہیں جب میں آپ(ص) کے پاس سے رخصت ہو جاؤں تو آپ(ص) ان سے اس دعا کے بارے میں پوچھیے گا، جب جبرائیل(ع) تشریف لے گئے اور ابوذر(رح)

۳۱۹

 خدمت پیغمبر(ص) میں حاضر ہوئے تو پیغمبر(ص) نے ان سے فرمایا اے ابوذر(رح) آپ پہلے آئے مگر واپس چلے گئے آپ کس وجہ سے ہمیں سلام کرنے سے مانع ہوئے ابوذر نے کہا یا رسول اﷲ(ص) جب میں حاضر ہوا اور دیکھا کہ آپ(ص) اور وحبہ کلبی تخلیہ میں بات کررے ہیں تو اس تخلیہ کے مد نظر میں نے آپ(ص) کی گفتگو میں مخل ہونے سے گریز کیا جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا اے ابوذر(رض) وہ جبرائیل(ع) تھے اگر تم اس وقت ہمیں سلام کرتے تو ہم تمہیں اس کا جواب دیتے ابوذر نے یہ سنا تو پشیمان ہوئے کہ انہیں سلام نہیں کرسکا پھر رسول خدا(ص) نے فرمایا اے ابوذر تم ایک دعا پڑھتے ہو جس کے سبب تم اہل آسمان میں معروف و مقبول ہو وہ دعا کیا ہے ہمیں بتاؤ ابوذر(رض) نے کیا یا رسول اﷲ(ص) میں کہتا ہوں کہ بارالہا میں تجھ سے ایمان چاہتا ہوں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد(ص) تیرے رسول ہیں یا خدا تو مجھے ہر بلا سے عافیت دے اور عافیت پر شکر کرنے کی توفیق عطا فرما اور مجھے لوگوں کے شر سے بچا۔

۴ـ عبداﷲ بن روفی کہتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے اپنے ہر دو اصحاب کے درمیان برادرانہ رشتہ قائم کیا مگر علی(ع) کو کسی کا بھائی نہ بنایا جب جناب علی ابن ابی طالب(ع) تشریف لائے تو انہوں نے جنابِ رسول خدا(ص) سے کہا یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) نے سب کے درمیان مواخات قائم کی لیکن مجھے تنہا چھوڑ دیا جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا اے علی(ع) خدا کی قسم کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے میں نے تجھے اپنے لیے رکھ چھوڑا ہے تم میرے بھائی میرے وصی اور میرے وارث ہو علی(ع) نے کہا یا رسول اﷲ(ص) وہ وراثت کیا ہے آپ(ص) نے فرمایا جو کچھ مجھ سے پہلے پیغمبروں نے اپنے وصیین کے لیے چھوڑا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی کتاب اور وسنت پیغمبر(ص) ہے اے علی(ع) تم اور تمہارے دونوں فرزند میرے ہمراہ بہشت میں قصر خصوصی میں سکونت پذیر ہوںگے۔

۵ـ جنابِ سلمان فارسی(رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے پیغمبر(ص) سے سنا کہ میرے بعد بہترین خلق میرے وزیر اور وصی علی بن ابی طالب(ع) ہیں۔

جناب علی(ع) کو برا کہنے والوں سے ابلیس کی گفتگو

۶ـ           سلمان فارسی(رض) سے روایت ہے کہ ابلیس چند آدمیوں کے پاس سے گزرا جو حضرت علی(ع) کو

۳۲۰