مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 296681
ڈاؤنلوڈ: 7462

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 296681 / ڈاؤنلوڈ: 7462
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 برا کہہ رہے تھے۔ ابلیس ان کے سامنے جا کھڑا ہوا اور ان سے کہنے لگا میرا نام ابومرہ ہے میں نے تمہاری اس بات کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا کہ تم اپنے سردار علی بن ابی طالب(ع) کو برا کہتے ہو انہوں نے اس سے کہا تجھے کیسے پتا ہے کہ وہ ہمارا سردار ہے۔ ابلیس نے کہا کہ میں نے تمہارے پیغمبر(ص) کا قول سنا ہے کہ من کنت مولا فعلی مولا۔ خدایا اسے دوست رکھ جو اسے دوست رکھے اور دشمن رکھ جو اس سے دشمنی رکھے۔ مدد کر اس کی جو اس کی مدد کرے اور چھوڑدے اسے جو اسے چھوڑے۔ ان لوگوں نے ابلیس سے پوچھا کیا تو اس کے دوستوں اور شیعوں میں سے ہے۔ اس نے کہا نہیں میں تو اسے دوست رکھتا ہوں۔ جو اس سے دشمنی رکھے  کہ میں اس شخص کے مال اور اس کی اولاد میں شریک ہوتا ہوں۔ ان لوگوں نے اس سے کہا ۔ اے ابو مرہ تم ہمیں علی(ع) کے بارے میں کچھ بتاؤ اس نے کہا اے گروہ ناکثین۔ قاسطین و مارقین۔ میں نے خدا کی بارہ ہزار سال تک عبادت کی جب مجھے تنہائی کا خوف طاری ہوا تو میں نے خدا سے شکایت کی خدا نے مجھے آسمان پر طلب کر لیا جہاں میں بارہ ہزار سال دیگر فرشتوں کے ہمراہ عبادت کرتا رہا ایک اچانک ہمارے اوپر سے نور کا ایک پرتو گرزا۔ اس نور  نے خدا کی تسبیح و تقدیس کی اور تمام فرشتے اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ فرشتوں نے عرض کیا یا سبوح قدوس کیا یہ نور کسی مقرب فرشتے یا پیغمبر مرسل کا ہے۔ خدا کی طرف سے آواز آئی کہ نور نہ تو کسی مقرب فرشتے کا ہے اور نہ ہی کسی پیغمبر مرسل کا یہ نور طینتِ علی بن ابی طالب(ع) ہے۔

۷ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا رسول خدا(ص) نے علی (ع) کو یمن بھیجا وہاں ایک شخص کا گھوڑا قابو سے باہر ہو گیا۔ اور اس نے ایک شخص کو کچل دیا جو مرگیا۔ مقتول کے ورثا نے گھوڑے کے مالک کو پکڑا اور امیرالمومنین(ع) کی خدمت میں لاکر اس پر قتل کا دعوی دائر کردیا۔ گھوڑے کے مالک نے گواہ پیش کیا کہ میرا گھوڑا قابو سے باہر ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ شخص مارا گیا یہ سن کر جناب امیر(ع) نے مقتول کا خون بہا اس گھوڑے والے پر قرار نہ دیا۔

مقتول کے ورثاء اس فیصلے کو لیے رسول خدا(ص) کی خدمت میں آئے اور جنابِ امیر(ع) کے اس فیصلے کی شکایت کی اور کہنے لگے کہ علی(ع) نے ہم پر ستم کیا ہے۔ اور ہمارے مقتول کا خون بہا ضائع کر

۳۲۱

 دیا ہے۔ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا علی(ع) ستم کرنے والے نہیں ہیں اور ستم کے لیے پیدا نہیں ہوئے میرے بعد سرداری اور ولایت علی(ع) کے پاس ہے اس کا حکم میرا حکم اور اس کا قول میرا قول ہے اور اس کے قول و حکم کو کوئی رد نہیں کرتا مگر کافر، اور مومن ان کے ہر قول اور حکم اور ولایت کو قبول کرتا ہے جب اہل یمن نے رسول خدا(ص) سے علی(ع) کے بارے میں یہ فضائل سنے تو کہنے لگے یا رسول اﷲ(ص) ہم علی(ع) کے فیصلے پر راضی ہیں، آپ(ص) نے فرمایا جو کچھ تم اب کہہ رہے ہو یہی تمہاری توبہ ہے۔

۳۲۲

مجلس نمبر۵۶

(آٹھ ربیع الثانی سنہ۳۶۸ھ)

خروج زید(رح)

۱ـ           فضیل بن یسار کہتے ہیں جس صبح زید(رح) بن علی بن حسین(ع) نے کوفہ میں خروج کیا میں ان کے پاس حاضر تھا میں نے سنا وہ فرمارہے تھے کہ کیا تم میں سے کوئی ایسا بندہ ہے جو میرے ساتھ مل کر شام کے ان دھوکے بازوں سے جنگ کرے اس (خدا) کے حق کی قسم کہ جس نے پیغمبر(ص) کو بشیر و نذیر مبعوث کیا جو کوئی بھی میرے ساتھ اس جنگ میں شامل ہوگا اور مدد کرے گا میں روزِ قیامت اس کا ہاتھ پکڑ کر اذانِ خدا سے اسے بہشت میں لے جاؤں گا۔

جب زید(رح) شہید ہوگئے تو میں نے ایک اونٹ کرایہ پر حاصل کیا اور مدینہ چلا آیا مدینہ آکر میں امام صادق(ع) کی خدمت میں جاپہنچا میں نے سوچا کہ مجھے جنابِ زید(رح) کی شہادت کے بارے میں امام(ع) کو نہیں بتانا چاہیے کہ وہ مغموم ہوں گے امام(ع) نے مجھ سے فرمایا اے فضیل میرے چچا زید(رح) کو کیا ہوا ہے یہ سن کر میں مغموم ہوگیا اور رونے لگا امام(ع) نے فرمایا کیا انہیں قتل کردیا گیا ہے میں نے کہا ہاں خدا کی قسم انہیں قتل کردیا گیا ہے پھر امام(ع) نے فرمایا کیا انہیں دار پر لٹکایا گیا ہے میں نے جواب دیا ہاں بخدا انہیں سولی دی گئی ہے یہ سن کر امام(ع) گریہ فرمانے لگے آپ(ع) کے آنسو مروارید کی طرح آپ(ع) کے رخساروں پر رواں تھے پھر آپ(ع) نے فرمایا اے فضیل کیا تم نے میرے چچا(رح) کے ہمراہ اہل شام کے خلاف جنگ میں حصہ لیا میں نے کہا جی ہاں میں ان(رح) کے ہمراہ تھا امام(ع) نے پوچھا ان(رح) کے ساتھ کتنے آدمی شہید ہوئے میں نے امام(ع) کو بتایا کہ ان(رح) کے ساتھ چھ آدمی شہید ہوئے امام(ع) نے مجھ سے کہا کیا تم ان کی شہادت میں شک رکتھے ہو۔ میں نے عرض کیا اگر میں شک رکھتا تو ان کے ساتھ جنگ میں شریک ہی کیوں ہوتا امام(ع) نے فرمایا کاش خدا مجھے بھی ان کے ساتھ شہادت عطا فرماتا خدا کی قسم میرے چچا زید(رح) اور ان کے ساتھ اس طرح شہید ہوئے ہیں کہ جس طرح علی بن

۳۲۳

ابی طالب(ع) اور ان کے اصحاب درجہء شہادت پر فائز ہوئے تھے۔

۲ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا رسول خدا(ص) سے دریافت کیا گیا کہ کونسی آمدنی بہتر ہے آپ(ع) نے فرمایا زراعت جو لوگ بوتے ہیں اور پھر اس پر محنت کرتے ہیں اور دن بھر اس کے حق کو ادا کرتے ہیں عرض ہوا یا رسول اﷲ(ص) اس کے بعد کونسی آمدنی بہتر ہے آپ(ص) نے فرمایا گوسفند رکھنا کہ اس سلسلے میں بارانی چراہ گاہوں کو تلاش کرتے ہیں اور اس کے ساتھ نماز پڑھتے اور زکوة ادا کرتے ہیں پھر جنابِ رسول اﷲ(ص) سے عرض کیا گیا کہ گوسفند کے بعد کونسی روزی بہتر ہے آپ(ص) نےفرمایا گائے رکھنا کہ صبح شام دودھ دیتی ہے ، جنابِ رسول خدا(ص)  سے پھر دریافت کیا گیا کہ گائے کے بعد کونسی روزی بہتر ہے آپ(ص) نے فرمایا پھلدار درخت کہ توانگری میں راحت دیتا ہے۔(یعنی سایہ ہوا وغیرہ) اور گرانی( یعنی قحط ، غربت وغیرہ) میں خوراک مہیا کرتا ہے لیکن اگر کوئی شخص پھلدار درخت کو بیچ دے تو اس سے حاصل شدہ رقم اسے پریشانی میں مبتلا رکھتی ہے تا ہم وہ اسے بیچ کر کوئی دوسرا پھلدار درخت خریدنا چاہتا ہو آپ(ص) سے ایک مرتبہ پھر دریافت کیا گیا کہ درخت کے بعد کونسی روزی موزون ہے مگر جنابِ رسول خدا(ص) نے سکوت اختیار کیا پھر آپ(ص) سے دریافت کیا گیا کہ اونٹ سے اپنا رزق کمانا کیسا ہے آپ(ص) نے فرمایا یہ بدبختی و جفا کاری اور رنج و در بدری رکھتا ہے اور صبح و شام اپنے مالک سے کوئی وفاداری نہیں رکھتا اس کا خیر (رزق) کنجوسی اور دقت سے حاصل ہوتا ہے آگاہ رہو کہ اشقیاء نابکار اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

۳ـ          رسول خدا(ص) نے حجت الوداع کے موقع پر یہ خطبہ مسجد خیف میں ادا فرمایا۔

آپ(ص) نے فرمایا اﷲ تعالی اس بندے کی مدد فرمائے جو میری باتیں سنے انہیں یاد رکھے اور ان لوگوں تک پہنچا دے جن تک میری باتیں نہیں پہنچ سکیں۔اے لوگو! غور سے سنو! تم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو فقیہہ بنے ہوئے ہیں مگر اصل میں وہ فقیہہ نہیں ہیں۔ اور بہت سے ایسے ہیں جو اپنے سے بڑے فقہاء کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ تین باتیں ایسی ہیں کہ جن کی وجہ سے مردِ مسلم اپنے دین میں دھوکا نہیں کھا سکتا پہلی بات یہ ہے کہ اس کا ہر عمل خالصتا اﷲ کے لیے ہو دوسری بات یہ ہے کہ ائمہ مسلمین(ع) کی ہدایت پر کار بند رہے  تیسری

۳۲۴

 بات یہ ہے کہ اپنی قوم ( جماعت) سے مکمل وابستہ رہے اس کا ساتھ نہ چھوڑے۔

۴ـ          امام صادق(ع) نے جنابِ امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا میں اسلام کی راہ میںوہ کچھ متعین کرتا ہوں جو نہ مجھ سے پہلے دوسروں (خلفاء) نے اختیار کیا اور نہ ہی میرے بعد اختیار کیا جائے گا اسلام تسلیم کرنے کا نام ہے یہ تسلیم و تصدیق اور یقین ہے اور یقین کا مطلب ادا کرنا ہے اور وہ اعمال (صالح) کا ادا کرنا ہے مومن دین کو خدا سے لیتا ہے ( یعنی خدا کے بتائے ہوئے راستوں پر چلتا ہے) جان لوکہ تمہارا دین تمہاری دنیا ہے اس سے تمسک رکھو کہ کہیں کوئی شخص تمہیں اس سے علیحدہ نہ کردے دین داری میں ثواب اور بے دینی میں گناہ ہے دین دار کا گناہ معاف فرمادیا جائے گا مگر بے دین کے ثواب قبول نہ کیے جائیں گے۔

 ابوشاکر دیصانی

۵ـ          ابوشاکر دیصانی امام صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ(ع) روشن ستاروں میں سے ایک ہیں۔ آپ(ع) کے والد(ع) انتہائی روشن بدر کامل تھے آپ(ع) کی والدہ(ع) بڑی شان والی دانشمند اور پارسا خاتوں ہیں آپ(ع) کی تخلیق بہترین عناصر و جواہر سے ہوئی ہے۔ جب دانشمند علماء کا ذکر ہوتا ہے تو سب آپ(ع) ہی کی طرف رخ کرتے ہیں۔ اے علم و دانش کے سمندر مجھے یہ بتائیں کہ اس جہاں کے خلق ہونے پر کیا دلیل ہے۔ ( حدوثِ عالم پر کیا دلیل ہے)

امام صادق(ع) نے فرمایا ہم اس پر نزدیک ترین چیز سے استدلال کرتے ہیں پھر امام(ع) نے مرغی کا انڈا لانے کا حکم صادر فرمایا۔ جب پیش کیا گیا تو امام نے اسے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھا اور فرمایا یہ ایک قلعہ ہے جس کے اندر جھلی ہے۔ جس میں ایک رقیق مادہ  ہے اس میں بہنے والی چاندی اور بہنے والا سونا ہے پھر وہ پھٹتا ہے اور بچہ بر آمد ہوتا ہے کیا اس میں کوئی چیز داخل ہوتی ہے شاکر نے کہا نہیں ۔ آپ(ع) نے فرمایا اس جہاں کی تخلیق پر یہی دلیل ہے، ابوشاکر نے کہا آپ(ع) نے موضوع کے لحاظ سے بہترین دلیل دی ہے اور ایک بڑے موضوع کو مختصرا بیان فرمایا ہےلیکن آپ(ع) جانتے ہیں کہ ہم اس چیز کو کبھی قبول نہیں کرتے جس کو ہم نے خود آنکھ سے نہ دیکھا ہو یا زبان سے نہ

۳۲۵

چکھا ہو، کان سے نہ سنا ہو یا ناک سے نہ سونگھا ہو یا ہمارے دل نے اس دلیل کو محسوس کر کے اس سے استنباط نہ کیا ہو۔

امام(ع) نے فرمایا تم نے حواس خمسہ کا ذکر کیا وہ بغیر اس کے ( دلیل کے) کوئی فائدہ نہیں دیتے جیسا کہ تاریکی بغیر چراغ کے دور نہیں ہوتی۔

۶ـ           ایک شخص نے امام رضا(ع) کی خدمت میں عرض کیا کہ حدوث عالم کی کیا دلیل ہے آپ(ع) نے فرمایا تم نہیں تھےپھر پیدا ہوگئے تم نے اپنے وجود کو خود پیدا نہیں کیا، تمہیں کسی اور نے پیدا کیا جو تم جیسا نہیں ہے۔ ( خدا نے تمہیں پیدا کیا ہے)

۷ـ          ایک دن جنابِ رسول خدا(ص) نے مسجد قباء میں اںصار کی موجودگی میں جنابِ علی ابن ابی طالب(ع) سے فرمایا اے علی(ع) میرے بھائی ہو اور میں تمہارا بھائی ہوں اے علی(ع) تم میرے وصی و خلیفہ اور میرے بعد میر امت کے امام ہو میرے بعد کوئی تم سے پیوستہ ہے وہ خدا سے پیوستہ ہے اور جو کوئی تیرا دشمن ہے وہ خدا کا دشمن ہے جوکوئی تیرے ساتھ بغض رکھتا ہے وہ خدا کے ساتھ بغض رکھتا ہے جس نے تیری مدد کی اس نے خدا کی مدد کی اور جس نے تجھے چھوڑا اس نے خدا کو چھوڑا اے علی(ع) تم میری دختر(س) کے ہمسر ہو میرے دو فرزندوں کے والد ہو۔ اے علی(ع) جب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو میرے پروردگار نے تیرے بارے  میں وصیت فرمائی کہ اے محمد(ص) ، میں نے کہا ”لبيک و سعديک تبارکت و تعاليت “  تو ارشاد ربانی ہوا کہ علی(ع) امام متقیئین، سفید چہروں والے لوگوں کا قائد اور مومنین کا یعسوب ہے۔

۸ـ          جنابِ رسول خدا(ص) ایک دن منزل ام ابراہیم میں تھے آپ(ص) کے اصحاب بھی آپ(ص) کے ہمراہ تھے اس دوران علی بن ابی طالب(ع) تشریف لائے جب آپ کو دیکھا تو پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا اے لوگوں کے گروہ تمہارے درمیان تم میں سے بہترین خلق تشریف لائی ہے۔

میرے بعد یہ تمہارا سردار ہے اس کی اطاعت تم پر فرض ہے بالکل اسی طرح جس طرح میری اطاعت تم پر فرض ہے اور جس طرح میری نافرمانی حرام ہے اس کی نافرمانی بھی حرام ہے اے لوگو میں حکمت کا گھر ہوں اور علی(ع) اس گھر کی کنجی ہیں اور سواے چابی کے کوئی بھی گھر میں داخل ہونے

۳۲۶

سے قاصر ہوتا ہے جھوٹا ہے وہ شخص جوکہ مجھے دوست رکھنے کا دعوی کرتا ہے مگر علی(ع) سے دشمنی رکھتا ہے۔

۹ـ   امام صادق(ع) نے فرمایا کہ ایک دن رسول خدا(ص) نے جابر بن عبداﷲ اںصاری(رح) سے فرمایا اے جابر تم یقینا میرے فرزند محمد بن علی بن حسین بن علی(ع) سے ملاقات کرو گے جو  توریت میں باقر(ع) کے نام سے مشہور ہیں جب تم ان سے ملو تو انہیں میرا سلام پہنچا دینا۔ چنانچہ جابر(رض) نے اپنی مدتِ حیات میں امام باقر(ع) کے زمانے تک پائی اور جب ان کی امام(ع) سے ملاقات ہوئی تو امام باقر(ع) ایک چھوٹے سے بچے تھے۔ اور اپنے والد جنابِ علی بن حسین(ع) کے پاس تشریف فرما تھے۔جابر(رض) نے جب انہیں دیکھا تو کہا اے بیٹے میرے پاس آئیں۔ جب امام باقر(ع) ان کے قریب آئے تو جابر(رض) نے کہا پیٹھ پھیریں جب امام(ع) نے اپنی پشت مبارک جابر(رض) کی طرف پھیری تو جابر(رض) نے کہا کہ پروردگار کعبہ کی قسم یہ رسول خدا(ص) کے شمائل ہیں پھر جابر نے علی بن حسین(ع) کی طرف رخ کر کے پوچھا کہ یہ کون ہیں تو جنابِ علی بن حسین(ع) نے فرمایا یہ میرے فرزند اور میرے بعد امام(ع) ہیں ان کا نام باقر(ع) ہے جابر(رض) یہ سن کر اٹھے اور امام باقر(ع) کے قدموں میں گر گئے اور ان کی قدم بوسی کے بعد کہا میری جان آپ(ع) پر قربان یا ابن رسول اﷲ آپ(ع) کے جد(ص) نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں ان کا سلام آپ(ع) کو پہنچا دوں یہ سن کر امام(ع) کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا اے جابر تم پر بھی میرے جد میرے والد جناب رسول خدا(ص) کا سلام ہو، تم پر ان کا سلام تب تک ہو جب تک یہ آسمان و زمین قائم ہیں۔ اے جابر یہ اس لیے ہے کہ تم نے ان کا سلام مجھ تک پہنچایا ہے۔

رسول خدا(ص) اور معراج

۱۰ـابن عباس کہتے ہیں جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ جب مجھے آسمان پر لے جایا گیا اور جبرائیل(ع) نےمجھے دریائے نور پر پہنچا دیا تو کہا قول خدا ہے کہ”خدا نے ظلمات اور نور کو بنایا۔“(انعام، ۱) پھر جبرائیل(ع) نے کہا اے محمد(ص) آپ(ص) خدا کی برکت سے اسے عبور کریں۔کہ خدا نےآپ(ص) کی آنکھوں کو منور کیا ہے اورآپ(ص)کے لیے راستہ کھول دیا ہےاوریہ وہ دریا ہے کہ جس سے آج تک کوئی نہیں گزرا، نہ ہی کوئی مقرب فرشتہ اور نہ ہی کوئی پیغمبر مرسل البتہ میں روزانہ ایک مرتبہ اس میں

۳۲۷

 غوطہ زن ہوتا ہوں۔ اور جب میں باہر آکر اپنے پروں کو جھاڑتا ہوں تو میرے پروں سے گرنے والے نور کے ہر قطرے سے خدا ایک مقرب فرشتہ خلق کرتا ہے جس کے بیس ہزار چہرے اور ہر چہرے کے دہن میں چالیس ہزار زبانیں ہوتی ہیں وہ اپنی ہرزبان سے ایک علیحدہ لغت میں گفتگو کرتا ہے کہ ہر زبان دوسری زبان کی گفتگو کو نہیں سمجھ پاتی۔

پھر رسول خدا(ص) اس نور کے دریا سے گذر کر حجابات نور تک جا پہنچے ان حجابات کی تعداد پانچ سو ہے اور ہر حجاب کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے پھر جبرائیل(ع) نے کہا اے محمد(ص) آپ آگے چلیں جنابِ رسول خدا(ص) نے پوچھا کہ اے جبرائیل(ع) آپ میرے ساتھ کیوں نہیں چلتے جبرائیل(ع) نے  کہا کہ مجھے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ میں اس جگہ سے آگے جاؤں پھر رسول خدا(ص) جہاں تک خدا نے چاہا آگے تشریف لے گئے یہاں تک کہ آپ(ص) نے پروردگار کی آواز سنی کہ اس نے فرمایا ” میں محمود ہوں اور تم محمد(ص) میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے لیا ہے جو کوئٰی تیرے ساتھ پیوستہ ہے وہ میرے ساتھ پیوستہ ہے اور جو کوئی تم سے قطع تعلق کرے گا میں اس کی سرکوبی کروں گا۔ تم نیچے میرے بندوں کے پاس جاؤ اور انہیں میری بخشش اور کرامت کی خبر دو میں نے کسی پیغمبر کو اس کے وزیر کے بغیر مبعوث نہیں کیا تم میرے رسول ہو اور تمہارا وزیر علی بن ابی طالب(ع) ہے“

رسول خدا(ص) زمین پر تشریف لے آئے۔ اور چاہنے کے باوجود بھی لوگوں کو بیان نہ  کرسکے کہ کہیں لوگ اس بارے میں زبان درازی نہ کریں لہذا چھ سال اسی طرح بیت گئے تو خدا نے اس آیت کا نزول فرمایا ” شائید تم ترک کرتے ہو حصہ سے جو کچھ تم کو وحی ہوئی ہے اور تیرا سینہ اس سےتنگ ہے“ ( ہود، ۱۲) رسول خدا(ص) نے اس قول کے بعد خود کو تیار کیا کہ وہ ولایت علی(ع) کو عامتہ الناس میں بیان فرمائیں یہاں تک کہ آٹھ دن گذر گئے پھر اس آیت کا نزول ہوا” اے رسول پہنچا دو جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اگر نہ پہنچایا تو تم نے تبلیغ رسالت نہیں کی خدا تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔(مائدہ ، ۶۸) رسول خدا(ص) نے اس آیت کے نزول کے بعد فرمایا اب وقت ہے۔ کہ میں حکم خداوندی کا اعلان کردوں اور دستور ربانی کا اجرا کردون اور لوگوں کی ہرزہ سرائی کو خاطر میں نہ لاؤں ورنہ کہیں وہ (خدا) مجھے دنیا و آخرت میں عقوبت و عذاب

۳۲۸

سے نہ گزارے اس وقت کہ جب رسول خدا(ص) نے یہ فرمایا اس وقت جبرائیل(ع) نے ۔۔۔۔ جناب علی(ع) بن ابی طالب(ع) کے لیے امیرالمومنین(ع) کے الفاظ کے ساتھ سلام پیش کیا۔ جناب امیر(ع) بھی اس وقت وہیں موجود تھے علی(ع۹ نے رسول خدا(ص) سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ(ص) میں نے کسی کی آواز سنی ہے مگر کسی کو نہیں دیکھا جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا یہ جبرائیل ہیں اور خدا کی طرف سے خدا کے وعدے کی تصدیق کے لیے تشریف لائے ہیں، وہ وعدہ جو خدا نے میرے ساتھ کیا ہے۔

پھر رسول خدا(ص) نے حکم عام دیا کہ تمام لوگ پے در پے علی(ع) کو امیر المومنین(ع) کے لقب کے ساتھ سلام پیش کریں۔ پھر آپ(ص) نے بلال کو حکم دیا کہ وہ آواز دیں کہ کوئی شخص بھی غدیر خم سے آگے نہ جائے۔ غدیر خم کے مقام پر جب دوسرا دن ہوا تو رسول خدا(ص) اپنے اصحاب کے ہمراہ باہر تشریف لائے اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا۔

اے لوگو! بے شک خدا نے مجھے رسول بنا کر تمہاری طرف بھیجا اورتم پر نگران مقرر کیا اور خدا نے مجھے ارشاد فرمایا ہے کہ میں اس کا حکم تمہیں بیان کروں اگرتم اس کی مخالفت کرو تو تمہیں عذاب وعقوبت دے گا اور اس نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں کسی کی پرواہ کیئے بغیر اس کا حکم تمہیں سناؤں اور اس کے عذاب و سزا سے کہیں آسان ہے کہ مین ایسے لوگوں کی پرواہ نہ کروں خدا مجھے معراج پر لے گیا اور فرمایا ” اے محمد(ص) میں محمود ہوں اور تم محمد(ص) میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے مشتق کیا ہے جو کوئی تیرے ساتھ پیوستہ ہے وہ میرے ساتھ پیوستہ ہے جوکوئی تجھ سے قطع تعلق کرے میں اس کی سرکوبی کروں گا تم نیچے جاؤ اور میرا یہ حکم لوگوں کو سنا دو اور انہیں بتاؤ کہ میں نے کسی پیغمبر کو اس کے وزیر کے بغیر مبعوث نہیں کیا اور یہ کہ تم میرے رسول ہو اور علی(ع) ابن ابی طالب(ع) تیرا وزیر ہے“ جناب رسول خدا(ص) نے یہ حکم خداوندی سنانے کے بعد جنابِ علی بن ابی طالب(ع) کے دونوں ہاتھ پکڑے اور اوپر اٹھا دیئے یہاں تک کہ جناب رسول خدا(ص) کی زیر بغل سفیدی نمودار ہوگئے اس سے پہلے کبھی اس طرح کا عمل نہ دیکھا گیا تھا۔

پھر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے لوگو بیشک خدا میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور جس کا میں مولا و آقا ہوں اس کے مولا و آقا علی(ع) ہیں بارالہا تو اسے دوست رکھ جو علی(ع)

۳۲۹

 کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو اس سے دشمنی رکھے مدد کر اس کی جو اس کی مدد کرے اور چھوڑدے اس کو جو اسے چھوڑ دے۔

پھر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ خدا کی قسم منافقین و کج دل اس سے بیزار ہیں اور کہتے ہیں کہ رسول (ص) نے عصبیت کی وجہ سے ایسا کیا ہے سلمان(رض) ، مقداد(رض) ، ابوذر(رض)  اور عمار بن یاسر(رض) کہتے ہیں کہ ہم اس مجمع سے اس وقت تک باہر نہ گئے جب تک اس آیت کا نزول نہ ہوگیا کہ “ آج میں نے تیرے دین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارا دین اسلام قرار دیا۔(مائدہ، آیت نمبر۳) اور اس آیت کو تین دفعہ بیان کیا گیا۔

جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمای کہ میرے پروردگار کی طرف سے میری رسالت کے لیے وصی کا عنایت کیا جانا اورمیرے بعد تمہارا علی بن ابی طالب(ع) کی ولایت کا اقرار کرنا ہی کمال دین اور نعمتوں کا تمام ہونا ہے۔

۳۳۰

مجلس نمبر۵۷

( گیارہ ربیع الثانی سنہ۳۶۸ھ)

جنابِ موسیٰ(ع) کو خدا کا ارشاد

۱ـ           مفضل بن عمر روایت کرتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے جنابِ موسی بن عمران(ع) کی خدا سے گفتگو کے ضمن میں فرمایا کہ خدا نے کہا اے پسر عمران وہ بندہ جھوٹا ہے جو یہ گمان کرتا ہے کہ مجھ سے محبت رکھتا ہےمگر رات کو سویا رہتا ہے اور مجھے یاد نہیں کرتا۔ جبکہ ہر دوست اپنے دوست سے تنہائی میں ملاقات کا خواہش مند ہوتا ہے اے موسی(ع) جب رات ہوتی ہے تو میں اپنے دوستوں کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور ان کے دلوں کو غیر کی طرف رغبت سے اپنی طرف لاتا ہوں اور ان سے گفتگو کرتا ہوں اے پسر عمران(ع) تم اپنے دل سے میرے لیے خشوع اور اپنے جسم سے میرے لیے خضوع کرو اور رات کی تاریکی میں اپنی آنکھوں سے اشک بہا کر مجھ سے بخشش طلب کرو اور دعا کرو تم مجھے اپنے نزدیک اور قبول کرنے والا پاؤ گے۔

۲ـ           مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) اس دعا کو پڑھا کرتے۔

اے معبود اگر تیری نافرمانی کروں تو کیسے تجھ سے امداد طلب کروں اور تجھے کیسے پکاروں مگر میں تجھے ہی چاہتا ہوں کیوں کہ صرف تیری میری ہی محبت اس دل میں ہے، میں گناہ گار ہوں اور گناہوں سے پر ہاتھ تیری بارگاہ میں بلند کرتا ہوں کیوںکہ میری نگاہ امید صرف تیری ہی جانب ہے میرے مولا تو بزرگ تر ہے اور میں اسیر تر ہوں اور میری اسیری میرے جرم و گناہ کی بدولت ہے معبود اگر تو میرے گناہوں کی مجھ سے باز پرس کرے تو میں تجھ سے رحم کی درخواست کروں۔ اے معبود اگر تو مجھے مجرم قرار  دے اورمیرے لیے دوزخ کا حکم صادر فرمائے تو میں شہادت دوںگا کہ”لا اله الا اﷲ محمدا رسول اﷲ “ بارالہا تو مجھے اپنی اطاعت سے شاد کرنا کہ میرے گناہ مجھے نقصان نہ دیں۔ اور مجھے وہ کچھ عطا کر  جس میں تو خوش ہو۔ اور جو کچھ تیرے نقصان کے لیے نہیں ہے وہ

۳۳۱

معاف فرمادے اے  ارحم الراحمین۔

۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی یہ کہے میں خدا کے احکامات کو جانتا ہوں مگر پھر بھی ان میں جھوٹ بولے تو (خدا کے احکامات کی نافرمانی کی وجہ سے ) عرش خدا ہل جاتا ہے۔

۴ـ          امام صادق(ع) سے دنیا کے زہد کے بارے میں پوچھا گیا۔ تو آپ(ع) نے ارشاد فرمایا جو کوئی دنیا کا حلال ، ترین حساب کی خاطر اور اس کا حرام ، خوف عتاب کی خاطر چھوڑ دے وہ دنیا کا زہد اختیار کیے ہوئے ہے۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے بیٹے کو اس کی کسی غلطی پر ڈانٹ رہا تھا آپ(ع) نے اس سے ارشاد فرمایا اے بندے تم اس بچے کے قصور پر بے تابی کا اظہار کرتے ہو کیونکہ تم بڑی مصیبت سے غافل ہو اگر تم اس بچے کےقصور ( نقصان) پر صبر و شکر کر کے اس کو قبول کر لیتے تو بڑی مصیبت سے بچ جاتے۔

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا روزِ قیامت تین بندے خدا کے نزدیک رہیں گے یہاں تک کہ وہ تمام لوگوں کے حساب سے فارغ ہوجائے گا۔

اول : وہ بندہ کہ جو ظلم کی طاقت رکھنے کے باوجود ظلم نہ کرے۔

دوئم : وہ کہ جو دو آدمیوں کے درمیان راہ چلے مگر اس کا جھکاؤ کسی ایک کی طرف زیادہ نہ ہو( یعنی اںصاف کرے)

سوئم : وہ جو ہر حالت میں حق سچ کہے چاہے اس کا فائدہ یا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔

۷ـ          مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے ناجی ( نجات پانے والے) کی پہچان کے بارے میں پوچھا تو آپ(ع) نے فرمایا جس کے قول و فعل میں تضاد نہیں وہ ناجی ہے جس کے قول و فعل میں تضاد ہے اس کا ایمان رعایت رکھتا ہے۔

۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا مساجد میں جانا تمہارے لیے ضروری ہے کیوںکہ یہ زمین پر خدا کا گھر ہیں جو کوئی میں طہارت کے ساتھ آئے گا خدا اسے گناہوں سے پاک کرے گا اور اسے اپنے زائرین میں شمار کرے گا لہذا مساجد میں کثرت سے نماز ادا کیا کرو اور مختلف جگہوں

۳۳۲

 کی مساجد میں نمازیں پڑھو کیوں کہ ہر وہ جگہ جہاں تم نے نماز ادا کی ہوگی روِ قیامت تمہاری گواہی دے گی۔

۹ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا علم ، بردباری کے ساتھ طلب کرو، وقار کو اپنا زیور بناؤ، اے شاگردو اپنے استادوں کی تواضع کرو۔ اور دانشمندو تم جبر نہ کرو کہ کہیں باطل تمہارے حق کو نہ لے جائے۔

۱۰ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا تم مکارم اخلاق اختیار کرو کیونکہ خدا انہیں ( خوش خلق کو) اپنا دوست رکھتا ہے تم پر قرآن پڑھنا واجب ہے کہ بہشت کے درجات اس کی آیات(جو کہ بندے نے پڑھی ہوں گی) کو شمار کر کے عطاد کیے جائیں گے روزِ قیامت خدا قرآن کے قاری سے فرمائے گا کہ پڑھو اور اوپر جاؤ جب وہ ایک آیت پڑھے گا تو ایک درجہ بلند ہوگا۔ تم پر لازم ہے کہ خوش خلقی اختیار کیے رہو کہ ایسے کو خدا، شب زندہ دار ( عبادات شبینہ کرنے والا) کے برابر درجہ عطا کرے گا اور روزہ دار کے برابر ثواب دے گا۔ پھر امام(ع) نے فرمایا تم پر لازم ہے کہ خوش ہمسائیگی اختیار کو ۔ جان لو کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہے ، تم پر لازم ہے کہ مسواک کرو کیوںکہ یہ نیکی اور پاکیزگی کا طریقہ ہے اور تم پر واجب ہے کہ واجبات کو ادا کرو اور حرام چیزوں کو ترک کردو۔

۱۱ـ           حضرت امام جعفر صادق(ع) ارشاد فرماتے ہین کہ روزِ قیامت دو اشخاص مقام حساب میں خدا کے سامنے ایسے ہوں گے کہ دنیا میں ایک دولتمند تھا اور دوسرا فقیر۔ وہ فقیر خدا سےعرض کرےگا خدایا تو نے مجھ کیوں کھڑا کیا ہے تیری عزت وجلال کی قسم دنیا میں میرے پاس کچھ مال و دولت نہ تھا جس کے سبب میں کسی کی حق تلفی کرتا یا کسی پر ظلم کرتا مجھے تیری بارگاہ سے بقدر گزر اوقات ہی روزی ملتی تھی۔

اﷲ فرمائے گا ہمارا بندہ سچ کہتا ہے اسے بہشت میں لے جاؤ پھر اس دولت مند کو اتنے عرصے تک حساب و کتاب کے لیے محشر میں کھڑا کیا جائے گا کہ اس کے پسینے سے چالیس اونٹ سیراب ہوسکیں گے جب وہ اپنی دولت اور اپنے مال کے حساب سے فارغ ہوجائے گا تو اسے بہشت میں لے جایا جائیگا ۔ اسے دیکھ کر اس فقیر ساتھی پوچھے گا کہ اتنی دیر کیوں لگی تو وہ کہے گا کہ

۳۳۳

میرے ذمے بہت لمبا حساب تھا ایک سے فارغ نہ ہونے پاتا کہ دوسرا پیش کیا جاتا جب بہت عرصے کے بعد حساب ختم اور رحمت الہی کا نزول ہوا تو توبہ کرنے والوں میں شامل کر کے مجھے بخش دیا گیا۔

پھر یہ امیر آدمی اس فقیر سےپوچھے گا کہ تم کون ہو۔ وہ کہے گا میں وہی مرد فقیر ہوں جو تمہارے ساتھ حساب میں کھڑا تھا۔ بہشت کی نعمتوں اور راحتوں نے میرے اندر ایسی تبدیلی پیدا کردی ہے کہ تم مجھے پہچان ہی نہ سکے۔

۱۲ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا اے علی (ع) تم میرے بھائی ہو اور میں تمہارا بھائی ہوں اے علی(ع) تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اے علی(ع) تم میرے وصی اور خلیفہ ہو اور میری امت پر حجت خدا ہو خوش بخت ہے وہ شخص جو تجھے دوست رکھتا ہے اور بدبخت ہے وہ جو تیرا دشمن ہے۔

۱۳ـ          جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا شیعیان علی(ع) ہی روز قیامت کامیاب ہیں۔

۱۴ـ          جناب رسول خدا(ص) نے جناب علی بن ابی طالب(ع) سے ارشاد فرمایا جب روز قیامت ہوگا تو تیرے لیے ایک نورانی نجیب گھوڑے کو پیش کیا جائے گا ۔ تیرے سر پر تاج ہوگا۔ جس کا نور درخشان و روشن ہوگا اور نزدیک ہوگا  کہ وہ اہل محشر کی آنکھوں کو خیرہ کردے کہ خدا کی طرف سے آواز آئے گی” کہاں محمد(ص) رسول اﷲ کا خلیفہ“ تم عرض کروگے میں حاضر ہوں پھر جارجی ندا دے گا۔

”ا ے علی(ع) جو کوئی تجھے دوست رکھتا ہے بہشت میں جائے اور جو کوئی تجھے دشمن رکھتا ہے دوزخ میں جائے“ اے علی(ع) تم قسیم نار و جنت ہو۔

۳۳۴

مجلس نمبر۵۸

 (۱۵ ربیع الثانی سنہ۳۶۸ھ)

ایک تاجر

۱ـ           ایک شخص جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) میں نے دریا کا سفر کیا اور کچھ مال لے کر چین گیا جس سے مجھے کثیر منافع حاصل ہوا میرے دوست اس بات پر مجھ سے حسد کرتے ہیں۔ کہ میں اپنے اہل و عیال اور عزیز رشتے داروں کو اس (مال)سے وسعت دیتا ہوں۔

رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا دنیا کا مال جب بھی زیادہ ہو وہ اپنے رکھنے والے کو مصیبت و بلا میں گرفتار کرے گا۔ مالدار ہرگز رشک نہ کریں مگر یہ کہ وہ اپنے مال کو خدا کی راہ میں خرچ کریں پھر آپ(ص) نے ارشاد فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ تمہیں ایک ایسے بندے سے آگاہ کروں جو کہ کمتر مال کے عوض فورا کثیر منافع لے کر آیا ہے اور اس کا یہ تمام منافع خزانہ خدا میں جمع ہے۔ اصحاب نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) نے ارشادفرمایا وہ شخص جو تمہاری طرف آرہا ہے اسے دیکھو جب لوگوں نے اس طرف نگاہ کی تو دیکھا کہ ایک انصاری پرانا لباس پہنے ان کی طرف آرہا تھا۔

جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا یہی مرد آج خیرو اطاعت  میں اس قدر بلند ہوگیا ہے کہ اس کو ملنے والے حصے میں سے سب سے کم تر حصے کو اگر اہل آسمان و زمین میں تقسیم کردیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ تمام کے گناہ معاف ہوجائیں اور بہشت ان پر واجب ہوجائے اصحاب نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) اس شخص نے ایسا کیا عمل کیا ہے کہ جس کی بدولت یہ اس کا حقدار ہوا ہے آپ(ص) نے ارشاد فرمایا تم خود اس سے پوچھو اصحاب نے اپنا رخ اس کی طرف کیا اور کہا ۔اے شخص تونے آج کونسا عمل انجام دیا ہے کہ جس کے صلے میں تجھے ثواب کثیر کا مژدہ خدا نے سنایا ہے۔

اس شخص نے کہا میں نہیں جانتا کہ میں نے ایسا کیا کام سرانجام دیا ہے مگر یہ ہے کہ

۳۳۵

 جب میں گھر سے باہر آیا اور اپنے روزمرہ کام کے سلسلے میں جانے لگا تو مجھے یہ خطرہ ہوا کہ اگر آج مین نے اپنے کام کا انجام نہ دیا تو یہ نقصان ہوجائے گا۔ لیکن پھر نے سوچا کہ میں اپنے اس کام کی بجائے جنابِ علی بن ابی طالب(ع) کی زیارت کروں کیوںکہ مین نے جناب رسول خدا(ص) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ علی(ع) کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے یہ سن کر جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا ہاں خدا کی قسم عبادت ہے اور کیا کوئی عبادت اس سے بہتر ہے، اے بندہ خدا تو اپنے عیال کے لیے درھم و دینار لینے کے واسطے گھر سے نکلا تھا جو تیرے ہاتھ نہیں آئے اور اس کے عوض تونے علی(ع) کے چہرے کی طرف محبت و عقیدت اور اس کی فضیلت کے اعتقاد کے ساتھ دیکھا اور یہ اس سے بہتر تھا کہ تمام دنیا کے سرخ سونے کو خدا کی راہ میں خرچ کردیا جاے جان لو کہ جو بندہ اس راستے کو اختیار کرے وہ ہزار گناہ گاروں کی شفاعت کا حق رکھتا ہے اور خدا اس کی شفاعت کے بدلے انہیں ( ہزار بندوں کو)دوزخ سے محفوظ رکھے گا۔

۲ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا خدا کے بندے وہ ہیں جو بہشت کے باغوں کی طرف دوڑتے ہیں عرض کیا گیا کہ بہشت کے باغ کیا ہیں تو جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا بہشت کے باغ حلقہ ذکر ہیں۔

آداب حمام

۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جب حمام میں جاؤ اور لباس اتارو تو کہو بارالہا میری گردن نفاق سے آزاد کردے اور مجھے ایمان پر قائم کردے خدایا میں بدی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

پھر جب پانی کے نزدیک جاؤ اور اسے استعمال کرنے لگو تو کہو” خدایا مجھ  سے پلیدی اور نجاست کو دور کردے اورمیرے جسم و قلب کو پاکیزہ بنادے۔

پھر جب اپنے اوپر پانی گراؤ تو اپنے سر سے پاؤں تک بہاؤ اور اگر ممکن ہو تو چند گھونٹ پانی پی لو تاکہ یہ تمہارے مثانے کو پاک کردے ۔

پھر غسل سے فارغ ہوجاؤ تو کہو میں خدا کی پناہ مانگتا وں دوزخ اوراس کی آگ سے اور بار بار

۳۳۶

 یہی کہتے رہو۔ گرم حمام میں غسل کرتے وقت ٹھنڈا پانی یا کوئی سرد مشروب استعمال نہ کرو اور خربوزہ نہ کھاؤ کہ یہ معدے کا فاسد کرتا ہے اسی طرح سرد پانی اپنے سر پرمت گراؤ کہ یہ بدن میں سستی پیدا کرتا ہے البتہ سرد پانی پیروں پر ڈالو وہ بھی باہر آتے وقت کیوںکہ یہ جسمانی دردوں کودور کرے گا پھر جب تم لباس پہننے لگو توکہو خدایا لباس تقوی کو میرا لباس قرار دے اور مجھے ہلاکت سے بچا ۔ امام (ع)  فرماتے ہیں اگر اس طرح کرو تو ہر درد سے امن میں رہو گ۔

۵ـ          ابوسلیمان ضبی کہتے ہیں کہ جنابِ علی بن ابی طالب(ع) نے اپنے فوجیوں کو بعد عطارد کو پکڑنے کےلیے بھیجا جنہوں نے اسے مسجد سماک میں جاکر پکڑا اس کو بچانے کی خاطر نعیم بن دجاجہ اسدی کھڑا ہوا اور فوجیوں کی راہ میں مزاحمت پیش کی جناب امیر(ع) کے فوجیوں نے اسے گرفتار کیا اور امیرالمومنین(ع) کی خدمت میں لاکر پیش کیا۔ جناب امیر(ع) نے چاہا کہ اس کی سرزنش کریں تو اس نے کہا خدا کی قسم میں تمہاری ہمراہی میں خواری اور تمہاری مخالفت میں کفر دیکھتا ہوں جناب امیرا(ع) نے اس سے کہا کیا تو اس بات کا معتقد ہے، اس نے کہا ہاں تو جنابِ امیر(ع) نے حکم دیا کہ نعیم کو چھوڑ دیا جائے۔

۶ـ           جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا اے لوگو خدا تمہیں میری دوستی کی وجہ سے دوست رکھتا ہے اور نعمتیں عطا کرتا ہے اور خدا میرے خاندان کو میری دوستی کے ہمراہ دوست رکھتا ہے۔

۷ـ          مامون رشید نے اپنے باپ سے ایک طویل سند کے ساتھ جوکہ عبداﷲ بن عباس تک پہنچتی ہے بیان کیا کہ جنابِ رسول خدا(ص) نے جناب علی ابن ابی طالب(ع) سے فرمایا کہ تم( علی(ع)) میرے وارث ہو۔

۸ـ          ابوہریرہ کہتے ہیں پیغمبر(ص) ایک جنگ کے سلسلے میں تشریف لے گئے اور اپنی غیر موجودگی میں علی بن ابی طالب(ع) کو اپنی جگہ اپنے خاندان(ع) اور دیگر پر خلیفہ بنا گئے جب آپ(ص) واپس  ہوئے اور مالِ غنیمت تقسیم کیا تو سب کو ایک حصہ عنایت فرمایا لیکن علی(ع) کو  دو حصے دیئے لوگ کہنے لگے۔ یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) نے سب کو ایک حصہ عنایت فرمایا مگر علی(ع) ابن ابی طالب(ع) کو دو حصے عطا کیے جبکہ وہ مدینے میں ہی رہے اور ساتھ نہیں گئے۔ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے لوگو تم نہیں جانتے

۳۳۷

 دوران جنگ ایک گھوڑا سوار نے حق کی طرف سے مشرکین پر یورش کی اور انہیں شکست دی پھر وہ میرے پاس آیا اور کہا یا رسول اﷲ(ص) میں جو حصہ مال غنیمت میں سے رکھتا ہوں وہ میں علی ابن ابی طالب(ع) کو دیتا ہوں اے لوگو وہ گھوڑسوار جسے تم نہیں دیکھ سکتے تھے وہ جبرائیل(ع) تھے پھر اسی طرح کے ایک اور گھوڑ سوار نے مشرکین پر یورش کی اور فتخ کے بعد اپنا حصہ علی(ع) کو دے دیا اس  گھوڑ سوار کو بھی تم نہیں دیکھ سکے وہ میکائیل(ع) تھے۔خدا کی قسم میں نے علی(ع) کو جبرائیل(ع) و میکائیل(ع) کے حصے کے علاوہ کچھ نہین دیا یہ سن کر تمام لوگوں نے تکبیر بلند کی۔

۹ـ    جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ خدا فرماتا ہے میں معبود برحق ہوں اور بجز میرے کسی نے میرے ملوک کو پیدا نہیں کیا( ملوک سے مراد سلطان عادل پیغمبر اور ائمہء اطہار(ع) ہیں) میں ان کے دلون پر قدرت رکھتا ہوں جو شخص میری اطاعت کرے۔ اس کے لیے میں ان ملوک کے دلوں میں مہربانی پیدا کرتا ہوں اور جو میری نافرمانی کرتے ہیں تو ان ملوک کے دلوں میں اس کے لیے غیض و غضب پیدا کرتا ہوں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے ان ملوک کے بارے میں ہرزہ سرائی نہ کی جائے کہ یہ مجھے ناگوار گزرتا ہے۔

۱۰ـ          جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا اگر میری امت میں سے دو گروہ نیک ہیں تو میری امت نیک ہے اور اگر وہ دو گروہ فاسد ہیں تو میری امت فاسد ہے اور وہ دو گروہ امرا اور فقہا کے ہیں۔

۱۱ـ           امامصادق(ع) نے ارشاد فرمایا ، کار خیر کا قصد کرنے والے، گرم دن کا روزہ رکھنے والے اور خدا کی راہ میں صدقہ دینے والے کے لیے خدا کی طرف سے دوزخ سے امان ہے۔

۱۲ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ عیسی بن مریم(ع) نے اپنے اصحاب کو نصیحت کی کہ جو کچھ تم اپنے واسطے دوسروں سے نہیں چاہتے وہ تم ان کے ساتھ بھی نہ کرو۔ اگر کوئی شخص تمہارے دائیں رخسار پر مارے تو تم اپنا بایاں رخسار بھی آگے کر دو۔

۱۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا بندہ مومن کے لیے خدا کی یہی نصرت کافی ہے کہ وہ دیکھے کہ اس کا دشمن خدا، کی نافرمانی میں مشغول ہے۔

۳۳۸

۱۴ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی نماز جمعہ ادا کرنے جائے۔ تو خدا اس کے بدن دوزخ حرام کر دیتا ہے پھر امام (ع) نے فرمایا جو کوئی ان (جمعہ کی جماعت) کے ساتھ پہلی صف میں نماز ادا کرے گا تو گویا ایسا ہوگا کہ جیسے اس نےرسول خدا (ص) کے ساتھ صف اول نماز ادا کی۔ پھر فرمایا صدقہ روزِ خطا کو صاف کرتا ہے جس طرح پانی نمک کو شفاف کردیتا ہے اور خدا کے غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے۔

۱۵ـ          جناب علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا ہر حق وقعت رکھتا ہے  اور ہر دوستی نور رکھتی ہے مگر لوگ جو قرآن میں ان کے موافق ہے وہ لے لیتے ہیں اور جو مخالف ہوتا ہے اسے چھوڑ دیتے ہیں۔

جناب رسول خدا(ص) کا جناب امیر (ع) سے کلام

۱۶ـ جناب رسول خدا(ص) نے جناب علی ابن ابی طالب(ع) سے فرمایا۔اے علی(ع) تم میری موجودگی میں اور میرے بعدمیری امت پر میرے خلیفہ ہو، تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہے جیسے شیث(ع)کوآدم(ع) سے سام(ع)کو لوح(ع)،اسماعیل(ع) کو ابراہیم(ع) سے، یوشع(ع)کو موسی(ع) سے اورشمعون(ع) کو عیسی(ع) سے تھی اے علی(ع) تم میرے وصی و وارث ہو تم مجھے غسل دوگے اور خاک مین دفن کروگے تم میرے دین کا حق ادا کروگے اور میرے وعدے کو پورا کروگے۔ اے علی(ع) تم امیرالمومنین(ع) ، امام المسلمین، روشن چہرے والوں کے قائد اور یعسوب المتقین ہو۔ اے علی(ع) تم جنت کی عورتوں کی سردار میری دختر فاطمہ(س) کے شوہر نامدار ہو۔ اور میرے سبطین حسن(ع) و حسین(ع) کے والد ماجدہو۔ اے علی(ع) بیشک خدا نے ہر پیغمبر کی ذریت کو اس کی نسل سے قائم کیا ہے جب کہ میری ذریت اس نے تمہارے صلب سے مقرر کی ہے۔ اے علی(ع) جو کوئی تجھے دوست رکھتا ہے۔ اور تیرا خواہاں ہےاسے میں دوست رکھتا ہوں اور اس کا خواہان ہوتا ہوں اور کوئی تجھ سے کینہ و بغض رکھتا ہے اس سے میں بغض و کینہ رکھتا ہوں کیونکہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں بیشک خدا نےہمیں پاک کیا اور برگزیدہ کیا اور آدم(ع) تک ہمارے اجداد نے کسی قسم کی آلودگی سے خود کو آلودہ نہیں کیا اے علی(ع) تمہیں حلال زادہ ہی دوست رکھتا ہے۔ اے علی(ع) تمہیں خوشخبری ہو جہ تم مظلومیت میں شہید کیے جاؤ گے جناب امیر(ع) نے یہ

۳۳۹

سن کر کہا یا رسول اﷲ(ص) کیا اس حالت میں میرا دین سلامت ہوگا۔ جنابِ رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا اے (ع) تمہارا دین بالکل سلامت ہوگا ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔ اور تمہارے پایہء ثبات کو ہرگز لغزش نہ آئے گی اور اگر تم نہ ہوتے تو میرے بعد حزب اﷲ کی پہچان نہ رہتی۔

۳۴۰