مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 296812
ڈاؤنلوڈ: 7462

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 296812 / ڈاؤنلوڈ: 7462
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مجلس نمبر۵۹

(۱۸ ربیع الثانی سنہ۳۶۸ھ)

سید الساجدین(ع) کا رسالہء حقوق

۱ـ           ثابت بن دینار ثمالی ( ابوحمزہ ثمالی(رح)) نے امام علی بن حسین زین العابدین(ع) کے رسالہء حقوق کو نقل کیا ہے اور امام(ع) نے اس سللسے مین پچاس حقوق بیان فرمائے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

۱)تیرے نفس کا تجھ پر یہ حق ہے کہ تو اسے اطاعت خدا میں لگائے رکھے۔

۲)تیری زبان کا حق ہے کہ تو اس کو فحش و نا روا باتوں سے حفاظت میں رکھے اسے اچھائی کا عادی بنائے تاکہ یہ بے فائدہ باتوں سے پرہیز کرے، لوگوں کے ساتھ اچھائی سے پیش آئے اور لوگوں کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار کرے۔

۳) کان کاحق یہ ہے کہ تو اسے غیبت اور جس چیز کا سننا جائز نہیں ہے اس سے بچائے ۔

۴) آنکھ کا حق تجھ پر یہ ہے کہ جس چیز کا دیکھنا حرام ہے تو اس سے اسے بچائے اور اس کے مشاہدے سےعبرت حاصل کرے۔

۵) تیرے ہاتھ کا حق یہ ہے کہ جو چیز تیرے لیے حلال نہیں تو اس کی طرف ہاتھ مت بڑھائے۔

۶) پاؤں کا حق   یہ ہے کہ تو اس کو حرام کام کے لیے نہ چلائے کیوںکہ ان ہی کے ساتھ تجھے پل صراط سے گزرنا ہے کہ یہ تجھے ڈگمگا کر جہنم میں نہ گرا دیں۔

۷) تیرے پیٹ کا حق یہ  ہے کہ تو اسے حرام کا برتن نہ بنائے اور سیر ہونے کے بعد مت کھائے۔

۸) تیری فرج کا حق یہ ہے کہ تو اسے دوسروں کی نظر میں نہ لائے اور زنا سے اس کی حفاظت کرے۔

۳۴۱

۹) نماز کا حق یہ ہے ک اس نماز نے خدا کے حضور پیش ہونا ہے او بندہ عاجز اور مسکین کی طرح کھڑا ہونا ہے۔ تم راغب امید اور خالف و گریہ کرنے والے بندے کی طرح کھڑے ہوگے اور یہ ایک ایسی ذات کے سامنے ہوگا جو پر وقار و پرسکون  ہے لہذا حضورِ قلب اور تمام حدود حقوق کے ساتھ نماز قائم کرو۔

۱۰) روزہ کا حق یہ ہے کہ وہ ایک طرح حجاب(پردہ) ہے جس کو اﷲ نے تمہاری زبان، قوت سماعت، بصارت، شکم اور شرم گاہ پر ڈال دیا ہے تاکہ تجھے جہنم کی آگ سے بچائے رہے اگر تو نے اس پردہ کو پھاڑ دیا تو اﷲ بھی تجھے دوزخ سے نہین بچائے گا۔

۱۱) صدقہ کا حق یہ ہے کہ وہ اﷲ کے پاس تمہارے لیے ایک ذخیرہ ہے اور ایسی امانت ہے کہ جس پر گواہ کی ضرورت نہیں ہے اور جب تمہیں اس بات کا علم ہوگا تو وہ جو پوشیدہ طریقے سےصدقہ دیا گیا تھا تم اس پر زیادہ اعتبار کرو گے اس صدقہ کی نسبت سے جو ظاہر کیا گیا اور جان لو کہ صدقہ اس دنیا میں بلاؤں اور بیماریوں کو ٹال دیتا ہے اور آخرت میں جہنم کی آگ کو دور کردیتا ہے۔

۱۲) حج کا حق یہ ہےکہ جان لو وہ بارگاہ خدا میں تمہاری طرف سے نامہ نیکی ہے اورگناہوںسے فرار ہے اس کے زریعہ توبہ قبول ہوگی خدا نے جو تم پر واجب کیا ہے یہ اس کی ادائیگی ہے۔

۱۳) قربانی کاحق یہ ہے کہ اس سے رضائے خدا کو طلب کرو اور اس کے ذریعے مخلوق کی رضامندی کو طلب نہ کرو تم خلق کے ذریعہ رحمتِ الہی اور قیامت میں اپنی روح کی نجات کے سوا کسی چیز کا ارادہ نہ کرو۔

۱۴) سلطان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم بخوبی جان لو کہ تمہیں اس کے لیے باعث امتحان بنایا گیا ہے اور تمہاری حفاظت کے لیے اسے بھی امتحان میں رکھا گیا ہے تمہیں چاہئیے کہ اس کی ناراضگی کے درپے نہ ہو ورنہ اپنے ہی ہاتھوں سے ہلاکت میں پڑجاؤگے اور جو مشکل اور ناگوار بات تمہیں پیش آئے تو اسے اس میں شریک بناؤ۔

۱۵) معلم کا حق تم پر یہ ہے کہ اس کی تعظیم و احترام مجلس کرو اور انتہائی توجہ سے اس کی

۳۴۲

 باتوں کو سنو اور اپنی آواز اس کےسامنے بلند نہکرو  اس کی بات قبول کرو تم خود کسی سے سوال کا جواب نہ دو بلکہ انتظار کرو کہ وہ خود ہر مسئلہ کا جواب دے گا اس کی مجلس میں کسی کے بارے بات مت کرو اور کسی کی غیبت مت کرو جب تمہارے سامنے اس کی برائی کی جائے تو اس کا دفاع کرو اس کے عیوب کی پردہ پوشی کرو اس کے مناقب اور اچھائیوں کو ظاہر کرو اس کے دشمن کے ساتھ تعلقات مت قائم کرو اور نہ ہی اس کے دوست کو دشمن بناؤ پس اگر تم نے ان باتوں پر عمل کر لیا تو فرشتے اس بات کے گواہ ہوں گے اور اﷲ کے حضور تمہارے لیے گواہی دیں گے کہ تم نے حصول علم کا مقصد حاصل کیا نہ کہ لوگوں کو دکھاؤے کے لیے۔

۱۶) تیرے مالک کا حق یہ ہے کہ تو اس کی اطاعت کرے اور اس کی نافرمانی نہ کرے سوائے ان امور کے کہ جن کی انجام دہی پر اﷲ غضبناک ہو اس لیے اﷲ کی نافرمانی میں مخلوق کی کسی طرح کی اطاعت جائز نہیں ہے۔

۱۷) تمہاری رعیت کا حق یہ ہے کہ تم سلطان و بادشاہ ہوتو جان لو کہ وہ تمہاری رعیت میں اس وجہ سے داخل نہیں کہ وہ کمزور اور تم طاقتور ہو پس واجب ہے کہ ان کے درمیان عدل و انصاف قائم کرو، ان کے لیے مثل شفیق اور مہربان باپ کے ہوجاؤ ان کی نادانیوں سے درگزر کرو اور انہیں سزا دینے میں جلدی نہ کرو اور خدا کا شکر ادا کرو کہ جس نے تمہیں یہ قوت و طاقت دی ہے۔

۱۸) تمہارے شاگردوں کا حق یہ ہے کہ تم جان لو کہ خدا نے تمہیں ان کا سرپرست بنایا تاکہ ان کو تعلیم دو اﷲ نے تمہارے لیے علم کے خزانے کو کھول دیا ہے اگر تم نے ان کو علم سکھانے میں نیکی و نرمی سے کام لیااور کسی طرح زیادتی وسختی سے پیش نہ آئے تو اﷲ تمہیں اور زیادہ عطا کرے گا اگر تم نے لوگوں کو علم سے محروم رکھایا علم سکھانے کی راہ میں تم نے ان پر کسی طرح کی زیادتی یا سختی کی اور ان کی عزت و آبرو کو  پارہ پارہ کیا تو اﷲ پر یہ لازم ہوگا کہ تم سے علم اور اس کی قدر و قیمت کو سلب کرے اور لوگوں کے دلوں سے تمہارا مقام و مرتبہ گرادے۔

۱۹) تیری زوجہ کا حق یہ ہے کہ تم جان لو کہ اﷲ نے اسے تیرے لیے باعث سکون و انس قرار دیا ہے اور یہ خدا کی نعمت ہے اس کو گرامی رکھ اس کے ساتھ نرمی سے پیش آ اگر چہ تیرا حق اس

۳۴۳

 پر زیادہ ہے مگر وہ تجھ پر بھی حق رکھتی ہے کہ تو اس سے رحم کرے کیونکہ وہ تیری قید میں ہے اس کو کھانا اور لباس دے اور اس غلطیوں اور نادانیوں سے درگزر کر۔

۲۰) تیرے مملوک (غلام) کا حق یہ ہے کہ تو جان لے کہ وہ تیرے رب کی مخلوق ہے اور تیرے ماں و باپ کا بیٹا ہے تمہارا ہی گوشت و خون ہے اﷲ نے اسے غلام نہیں بنایا بلکہ یہ تو ہی ہے جس نے ایسا کیا اور تونے اس کے اعضاء و جوارح میں سےکوئی چیز بنائی اور نہ اس کےلیے رزق پیدا کیا ان تمام عوامل کو خدا نے پورا کای اسے تیرا مسخر بنایا اور تجھے اس پر امین بنایا اور اس کو تیرے حوالے کیا تاکہ تیرے لیے اس کے ذریعہ نیکی و بھلائی کی نگہداشت و حفاظت ہوسکے تو اس کے ساتھ احسان کر جیسا کہ خدا نےتم سے احسان کیا، اور اگر اسے تم باپسند کرو تو اس کو بدل دو لیکن مخلوق خدا پر سختی و عتاب کرنے کی سوائے اﷲ کے کسی میں طاقت وقوت نہیں۔

۲۱) تیری ماں کا حق یہ ہے کہ تم جان لوکہ اس نے اس وقت تمہیں اٹھایا جب کوئی بھی کسی کو برداشت نہیں کرتا اوراپنے میوہ دل سےتمہیں وہ چیز عطا کی جو کوئی کسی کونہیں دیتااس نے تمہارے تمام اعضاء و جوارح کی حفاظت کی اورتمہیں بچایا خود بھوکی رہی لیکن تمہیں سیرکیا، خود پیاسی رہی لیکن تمہیں سیراب کای خود برھنہ رہی لیکن تمہیں لباس پہنایا خود آفتاب کے نیچےرہی لیکن تمہیں زیرسایہ کیاتیری وجہ سےرات کوسونے کی بجائے جاگتی رہی گرمی وسردی سے تیری حفاظت کی تاکہ تم اس کے فرزندرہو(خدمت گذار رہو)بیشک تواس کے شکر یہ کی طاقت نہیں رکھتا مگرتوفیق خداور اس کی مدد سے۔

۲۲) تیرے باپ کا حق یہ ہے تو جان لے کہ وہ تیرا اصل ہے اگر وہ نہ ہوتا تو تو بھی نہ ہوتا پس جب بھی تو اپنے اندر کوئی ایسی چیز دیکھے جو تجھے اچھی لگے تو جان لےکہ تیرا باپ اس نعمت کی اصل ہےاﷲ کی حمد کر اور اپنی قوت وطاقت پر اس کا شکر ادا کر اﷲ کے سوا کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔

۲۳)  تیرے فرزند کا حق یہ ہے کہ تو جان لے کہ وہ تجھ سے ہے اور تجھ سے وابستہ ہے اس دنیا میں اچھا ہو یا برا تم ہی اس کے ذمے دار ہو اس کے ادب اور حسن ادب، معرفت خدا اور اس کی اطاعت پر اسباب و معاون فراہم کرو پس اس کے امر میں اس شخص کے مثل عمل کرو جو یہ جانتا ہے

۳۴۴

 کہ نیکی کرنے پر ثواب ملے گا اور برائی کرنے پر عذاب ہوگا۔

۲۴) تیرے بھائی کا حق یہ ہے کہ تو جان لے کہ وہ تیرا بازو تیری عزت و قوت ہے اس کو بافرمانی اور معصیت خدا میں اسے اپنا اسلحہ و ہتھیار نہ بنا اور مخلوق پر ستم کرنے کے لیے اسے مددگار مت بنا اس کے دشمنوں کے خلاف اس کی مدد کر اور ساتھ ہی اس کو نصیحت بھی کر اگر اس نے اﷲ کی اطاعت کر لی تو ٹھیک ورنہ اﷲ اسے سے زیادہ تم پر مہربان اور کریم ہے اور اس(خدا) کے سوا کوئی طاقت و قوت نہیں۔

۲۵) تیرے آقا ( ولی و سرپرست) کا حق یہ ہے کہ تو جان لے کہ اس نے تم پر احسان کیا اور اپنے مال کو تیرے لیے خرچ کیا اور تجھے غلامی کی ذلت سے باہر لایا حالانکہ تو آزادی کی عزت اور اس کے انس سے بہت دور تھا اس نے تجھے غلامی و بندگی اور عبودیت کی قید سے رہا کرادیا اور اس سے باہر لے آیا تجھے تیرے نفس کا مالک بنایا اور تجھے تیرے رب کی عبادت کے لیے فراغت دلائی یہ جان لے کہ وہ تیری زندگی و موت میں تیرا آقا ہے اور اس کی مدد تجھ پر واجب ہے، جان کے ذریعہ بھی اور تمام ان چیزوں کے ذریعہ جس کی انجام دہی اور تکمیل میں وہ تیرا محتاج ہے اور اﷲ کے سوا کوئی قوت وطاقت نہیں۔

۲۶) تیرے غلام  و کنیز کا حق یہ ہے کہ تونے اس پر احسان و انعام و اکرامکیا تو جان لے کہ اﷲ نے تجھے اس کے لیے عشق و آزادی کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دیا اور وہ تیرے لیے جہنم کی آگ سے حجاب اور پردہ ہے اور اس فانی دنیا میں تیرے احسان کا عوض یہ ہے کہ اس کی میراث کا حق دار ہے اگر کوئی رحم نہ ہو اور آخرت میں جنت کا حق دار ہے۔

۲۷) تجھ  پر احسان کرنے  والے کا حق یہ ہے کہ تو اس کا شکریہ ادا کرے اور اس کی بھلائیوں اور اچھائیون کا تذکرہ کرے اچھی باتیں اس کےمتعلق سوچے اﷲ اور اپنے درمیان اسے دعا میں یاد کرے اگر تو نے ایسا کر لیا تو یقینا پوشیدہ و علانیہ دونوں طرح سے شکریہ ادا کردیا اگر کبھی تو اس بات پر قادر ہوجائے کہ اس کی نیکیوں کا بدلہ دے سکے تو ادا کردے۔

۲۸) تجھ پر مئوذن کا حق یہ ہے کہ توجان لےکہ وہ تجھے اﷲ کی ذات کی طرف متوجہ کرنے

۳۴۵

 والا ہے، تجھے تیرے نصیب اور خوش بختی کی طرف دعوت دینے والا ہے اور واجبات خدا کے ادا کرنے میں مددگار ہے پس اس وجہ سے اس کا شکریہ ادا کر اور اس انداز سے ادا کر کہ جیسے کسی محسن کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔

۲۹)تجھ پر حق امام جماعت یہ ہے کہ تو جان لے کہ وہ تیرا سفیر ہے تیرے پروردگار کے ہاں، اگر تیری نماز میں کمی ہوگی تو یہ اس کی  گردن پر ہے نہ کہ تیری گردن پر اور اگر مکمل ہوگی تو تو اس کے ساتھ شریک ہوگا اور اس کا حصہ اس میں زیادہ ہوگا ۔ سواے اس کے کہ تیرا نفس اس کے ساتھ اور تیری نماز اس کی نماز کےساتھ ہے پس اس قدر و منزلت پر اس کا شکریہ ادا کرو۔

۳۰) تمہارے ہم نشین کا حق یہ ہے کہ تم اپنے پہلو کو اس کے لیے نرم کردو اور اپنی گفتگو میں انصاف کے پہلو کو مدنظر رکھو یعنی اس کے ساتھ انصاف کرو اور اپنی نشست سے کھڑے نہ ہو مگر اس کی اجازت سے اور جو تمہاری مجلس میں آئے اس کے لیے کھڑے ہو تعظیم کی غرض سے، اس کی لغزش کو فراموش کردو اس کی خوبیوں کی حفاظت کرو اور اس کےمتعلق سوائے خیر اور بھلائی کے کچھ نہ سنو۔

۳۱) تمہارے ہمسائے کا حق یہ ہے کہ اس کی پیٹھ کے پیچھے اس کی حفاظت کرو اور اس کے حضور اس کا احترام کرو اور جب اس پر ستم کیا جائے تو اس کی مدد کرو اس کی برائی کے پیچھے نہ لگو اگر اس کی بدی کا علم ہو تو اس کے چھپائے رہو اگر تمہیں اس بات کا یقین ہو کہ وہ تمہاری نصیحت سنے گا تو اپنے اور اس ے مابین جو امور ہوں ان کےمتعلق اسے نصیحت کرو شدت اور تنگی کے  وقت اسے تنہا نہ چھوڑو اور اس کی کوتاہیوں اور نقائص کو نظر اندار کرو اس کے گناہوں کو معاف کردو اس کے ساتھ اچھی زندگی گزارو اور خدا کے سوا کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔

۳۲) تمہارے صاحب و رفیق کا حق یہ ہے کہ اس کےساتھ فضل و اںصاف کی بنیاد پر دوستی کرو اس کا اکرام و احترام کرو جیسا کہ وہ تمہارا احترام کرتا ہے اور اس پر رحم کرنے والے بنو، اس پر عتاب نہ کرو بیشک خدا کے سوا کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔

۳۳) تیرے شریک کا حق یہ ہے کہ اس کی غیبت ( غیر موجودگی) میں اس کے کام کو ادا کر

۳۴۶

 اگر موجود ہو تو اس کی رعایت کر اس کے حکم سے ہٹ کر حکم نہ کر اس کی نظر میں لائے بنا اپنی رائے کو عملی جامہ نہ پہنا اس کے مال کی حفاظت کر اس کی قیمتی یا حقیر چیز میں خیانت نہ کرو خدا باہمی شریک کی اس وقت تک مدد کرتا ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے خیانت نہیں کرتے اور اﷲ کے سوا کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔

۳۴) تیرے مال کا تجھ پر یہ حق ہے کہ اس کو حلال ذریعہ سے حاصل کر اور خرچ کرنےکی جگہ اس کو خرچ کر اور اگر کوئی آدمی تمہاری قدر نہ کرتا ہو تو تم اس کو اپنے ترجیح نہ دو اور اس معاملہ میں تم فرمان خدا پرعمل کرو اور بخل نہ کرو کہ حسرت و ندامت اٹھانی پڑے بیشک اﷲ کے سوا کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔

۳۵) حق تمہارے قرض خواہ کا یہ ہے کہ اگر تمہارے پاس مال ہوتو اسے ادا کردو اور اگر نہیں رکھتے تو اسے حسن کلام سے راضی کرو( معیار مقرر کرنے کے واسطے) اور لطیف اور اچھے انداز سے اس کا قرض لوٹاؤ۔

۳۶) تمہارے ہم معاشرت کا حق یہ ہے کہ اس کو فریب نہ دو اور اس کےساتھ دھوکہ بازی نہ کرو اس کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہو۔

۳۷) مدعی جو تمہارے خلاف دعوی رکھتا ہے اس کا حق یہ ہے کہ اگر اس کو دعوی حق ہے تو اپنے نفس پر اس کے لیے گواہ بن جاؤ اور اس کے ساتھ ظلم نہ کرو اس کے حق کو ادا کرو اور اگر دعوی جھوٹا اور باطل ہے تو اس کے ساتھ فق ونرمی سے پیش آؤ اور اس کی وجہ سے اپنے پروردگار کو اپنے اوپر غضبناک نہ کرو اور اﷲ کے سوا کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔

۳۸) جس پر تم نے دعوی کیا اس پر تمہارا حق یہ ہے کہ تم اس کے ساتھ (اگر تم اپنے دعوی میں حق بجانب ہوتو) اپنی گفتگو میں جمال سے کام لو اور اس کے حق سے انکار نہ کرواوراگر تمہارا دعوی غلط ہوتواﷲ سے ڈرو اور توبہ کرو اور اپنے دعوے سے باز آجاؤ۔

۳۹) تم سے مشورہ کرنے والے کا حق یہ ہے کہ اگرکسی رائے کا تمہیں علم ہے تو اس کی طرف اشارہ کردو اگر تمہیں علم نہیں ہے تو جو جانتا ہو اس کی طرف راہنمائی کردو۔

۳۴۷

۴۰) مشورہ دینے والے کا حق تم پر یہ ہے کہ جس رائے یا مشورے میں تم اس سے موافقت نہ رکھتے ہو اس پر اسے متہم اور مورد الزام نہ ٹھہراو اور اگر وہ تیرے موافق تجھے رائے دے تو خدا کی حمد کرو۔

۴۱) تم سے نصیحت طلب کرنے والے کا حق یہ ہے کہ حقِ ںصیحت کو تم اداکرو اور اس سے مہرومحبت ونرمی سے پیش آؤ۔

۴۲) نصیحت کرنے والے کا تم پر یہ حق ہے کہ اس کے لیے اپنے دونوں بازوں کو جھکائے رکھو اور اپنے کان اس کی نصیحت سننے کے لیے لگائے رکھو پس اگر نیک و درست نصیحت ہوتو خدا کی حمد کرو اور اگر صحیح نہ ہو تب بھی اس پر رحم کرو اور اس کو متہم نہ کرو اگر اس بات کا علم ہو جائے کہ اس نے خطا کی ہے تو اس سے مواخذہ نہ کرو مگر یہ کہ تہمت کا مستحق ہو اور تم کسی حال میں بھی اس کے لیے گراں بار خاطر نہ بنو خدا کے سوا کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔

۴۳) اپنے سے بڑے کا حق یہ ہے کہ اس کے سن اور بزرگی کی وجہ سے اس کی تعظیم کرو اس کا اکرام کرو اس لیے کہ وہ مسلمان ہونے میں تم پر مقدم ہے اور دشمنی کے وقت اس کے مقابلے سے باز آجاؤ راستہ چلنے میں اس پر سبقت نہ کرو اس کے آگے نہ چلو اس کی جہالت اور نادانی کو نظر میں نہ رکھو اگر وہ تمہارے ساتھ کسی طرح جہالت کا مظاہرہ کرے تو اسلام کے حق اور اس کی حرمت کی خاطر اسے برداشت کر لو اور اس کی تکریم کرو۔

۴۴) تم سے چھوٹے کا حق یہ ہے کہ تعلیم کے وقت اس پر شفقت کرو اور اس کے متعلق عفو در گزر سے کام لو اگر کسی کام کو انجام نہ دے سکے تو اس کا عذر قبول کرو اس کی عیب پوشی کرو اور اس کی مدد کرو۔

۴۵) سوال کرنے والے کا حق یہ ہے کہ اس کی حاجت کو حتی الامکان پورا کرو۔

۴۶) مسئول کا حق یہ ہے کہ اگر عطا کردے تو اس کا شکریہ ادا کرو اور اس کے فضل و مرتبہ کو پیچان لو اگر منع کردے تو اس کے عذر کو قبول کرو۔

۴۷ ) جو راہ خدا میں تمہیں خوش کردے اس کا حق یہ ہے کہ پہلے خدا کی حمد کرو پھر اس

۳۴۸

کا شکریہ ادا کرو۔

۴۸) تم سے بدی کرنے والے کا حق یہ ہے کہ اس سے درگزر کرو اگر تمہیں یقین ہوکہ اسے معاف کردینا باعثِ ضرر ہے تو سزا دے سکتے ہو اور انتقام کے سکتے ہو۔ خدا فرماتا ہے کہ” وہ بندہ جس پر ظلم کیا گیا انتقام طلب کرے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔“ (شوری، ۴۱)

۴۹) اہل ملت و قوم کا حق یہ ہے کہ تم ان کی سلامتی چاہو اور ان سے مہربانی کرو اور ان کے بدکرداروں سے نرمی کرو ان کے درمیان آپس میں الفت پیدا کرو اور ان کی اصلاح کرو ان کے نیک لوگوں کا شکریہ ادا کرو ، آزار کو ان سے ہٹاتے رہو اور ان کے لیے وہی چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو ان کے جوانوں کو بھائی کی طرح، ان کی بوڑھی عورتوں کو ماں کی طرح اور ان کے بچوں کو اپنے فرزندوں کی طرح جانو۔

۵۰) اہل کفار اور ذمیوں کا حق یہ ہے کہ جس چیز کو اﷲ نے ان سے قبول کیا ہے تم بھی ان سے قبول کرو جب تک وہ اپنے عہد کو پورا کرتے رہیں ان پر ظلم نہ کرو خدا کے سوا کوئی قوت و طاقت نہیں ۔ حمد اس کی جو عالمین کا رب ہے صلوات محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص)  پر ہے۔

۳۴۹

مجلس نمبر۶۰

(۲۲ ربیع الثانی سنہ۳۶۸ھ)

مامون الرشید

۱ـ           ریان بن شبیب سے روایت ہے کہ مامون اس بات کا اظہار کرتا تھا کہ وہ اہل بیت(ع) سے محبت کرتا ہے مگر ہارون رشید کے وقت میں اس (ہارون) کی موجودگی کی وجہ سے ان (اہل بیت(ع)) سے اظہار عداوت کرتا رہتا تھا اور یہ ہارون کا تقرب حاصل کرنے کے لیے تھا۔ مامون بیان کرتا ہے کہ ایک دفعہ جب ہارون حج کرنے گیا تو میں (مامون) اور محمد اور قاسم بھی اس کے ہمراہ تھے ۔ جب وہ حج سے فارغ ہوکر مدینے آیا تو لوگ اس سے ملاقات کے لیے آتے رہے سب لوگوں سے آخر میں جس شخص نے اس سے ملاقات کی اجازت لی اور انہیں دی گئی وہ جناب موسی بن جعفر(ع) تھے جب وہ ملاقات کے لیے داخل ہوئے اور ہارون کی نظر ان پر پڑی تو وہ انہیں دیکھ کر جھوما اور اپنی گردن اٹھا کر انہیں دیکھتا رہا۔ جب آپ(ع) حجرے میں داخل ہوئے تو ہارون نے بیٹھے بیٹھے ہی گھٹنوں کے بل ان سے معانقہ کیا اور پھر ان کی طرف متوجہ ہو کر ان سے کہا اے ابوالحسن(ع) آپ کے خاندان والوں کا کیا حال ہے، مامون کہتا ہے کہ ہارون ، حال دریافت کرتا رہا اور امام(ع) جواب میں بہتر ہے بہتر ہے فرماتے رہے پھر جب آپ(ع) رخصت ہونے لگے تو ہارون نے چاہا کہ انہیں اٹھ کر وداع کرے تو امام نے اسے منع کردیا۔ تو اس نے اسی طرح سلام کیا اور امام(ع) رخصت ہوگئے۔ مامون کہتا ہے کہ میرے باپ کی اولاد میں سب سے زیادہ مجھ میں جرات گفتار تھی میں نے ہارون سے پوچھا یا امیرالمومنین جو برتاؤ اور تعظیم آپ نے اس شخص کے ساتھ کی ہے۔وہ انصاری یا بنی ہاشم کے کسی اور فرد کے ساتھ نہیں برتی مجھے بتائیں کہ یہ کون تھے  ہارون نے جواب دیا اے میرے بیٹے یہ علم انبیاء(ع) کے وارث ہیں یہ موسی بن جعفر(ع) بن محمد(ع) ہیں اگر تم صحیح علم چاہتے ہو تو ان سے طلب کرو کہ وہ صرف ان کے پاس ہے مامون کہتا ہے کہ اسی وقت سے میرے

۳۵۰

 دل میں ان(ع) کے لیے جگہ بن گئی۔

۲ـ           علی بن یقطین کہتے ہیں کہ جناب موسی بن جعفر(ع) کی خدمت میں ان کے اہل خانہ میں چند افراد موجود تھے کسی نے اطلاع دی کہ آپ(ع) کے بارے میں خلیفہ موسی بن مہدی کے ارادے خطرناک ہیں آپ(ع) نے اپنے اہل بیت(ع) سے فرمایا تم لوگوں کا اس بارے میں کیا مشورہ ہے ۔ آپ(ع) کے اہل بیت(ع) نے مشورہ دیا کہ آپ(ع) یہاں سے دور چلے جائیں اور روپوش ہوجائیں تاکہ اس کے ظلم سے امن میں رہیں۔

یہ سن کر آپ(ع) مسکرائے اور فرمایا تم یہ خیال کرتے ہو کہ وہ مجھ پر غلبہ پالے گا جب کہ مغلوب ، غالب پر غالب ہوتا ہے پھر آپ(ع) دستِ دعا بلند فرمائے اور دعا کی۔

اے معبود میں دیکھتا ہوں دشمن کا شر سخت ہوگیا ہے اس نے اپنے ظلم کے تیر کا رخ میری طرف کر لیا ہے اور زہر قاتل کو میرے لیے تیار کر لیا ہے بارالہا اسے برداشت کرنا میرے لیے دشوار رونا گوار ہوگیا ہے میں اس بارے میں قوت  وطاقت کے استعمال سے درماندہ ہوں یہ تیری ہی قوت ہے کہ تو ہر اس شخص کو اسی کے گڑھے میں گراتا ہے جو اس نے کسی کے لیے تیار کیا ہوتا ہے وہ (مہدی) جو آرزو رکھتا ہے اس کے رد کے لیے میں تجھ ہی سے امید وابسطہ رکھتا ہوں اور جو امید میں نے آخرت سے وابستہ کر چھوڑی ہے اس پر میں تیری  حمد کرتا ہوں اور صرف اسی کی طاقت رکھتا ہوں۔ اے خدایا تو اپنی عزت و جلال سے اس ( مہدی) سے نمٹ اور مجھے اپنی وحدانیت کے سائے میں جگہ عطا فرما اور اسے اس گناہوں اور باطل ارادوں میں ہی آلودہ رکھ اے خدایا مجھے اس پر فورا تسلط عطا فرما کہ میرا دل راحت پائے اور حق کی فتح ہو خدایا میری دعا کو قبول  ومنظور فرما اورمیری فریاد کے صلے میں اسے نشان عبرت بنادے اور پورا کردے وہ وعدہ  جو تو نے ستم گاروں کے لیے کیا ہے اورمیرے لیے اس وعدے کو پورا فرما کہ جو تو نےمظلوموں  سے کیا ہے تو صاحب فضل و کرم ہے۔

علی بن یقطین کہتے ہیں کہ اس کے بعد لوگ وہاں سے رخصت ہوگئے اور آپ(ع) کے پاس کوئی نہ رہا پھر دوبارہ لوگ آپ(ع) کی خدمت میں اس وقت جمع ہوئے جب خلیفہ موسی بن مہدی کی موت کا خط

۳۵۱

آپ(ع) کے پاس آیا۔

جناب موسی بن جعفر(ع) اور قید زندان

۳ـ          علی بن ابراہیم بن ہاشم کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب میں سے ایک نے روایت کیا کہ جب ہارون رشید نے جناب موسی بن جعفر(ع) کو زندان میں قید کیا تو رات کےوقت امام کو ہارون کی طرف سے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوا آپ(ع) نے تجدید وضو کی اور قبلہ رخ ہو کر چار(۴) رکعات نماز ادا کی اور یہ دعا فرمائی۔

اے میرے سید وسردار مجھے ہارون کی قید سے آزاد کر اور اس کے دست ستم سے نجات دے اے وہ کہ جس نے ریگستان میں درختوں کو اگایا مٹی سے پانی نکالا۔ شیرینی کو کڑواہٹ سے جدا کیا جنین کو بچہ دانی اور رحم سے برآمد کیا اور آگ کو لوہے اور پتھر سے جدا کیا اور روح کو جسم میں داخل و خارج کیا۔ بارالہا تو مجھے ہارون کے دستِ ستم سے نجات دے۔ امام(ع) کا یہ فرمانا تھا کہ ہارون نے  خواب میں دیکھا کہ ایک حبشی اس کے سرہانے تلوار لیے کھڑا ہے اور کہتا ہے کہ اے ہارون موسی بن جعفر(ع) کو آزاد کردے ورنہ میں اس تلوار سے تیرے سرکا شگافتہ کردوں گا ہارون اس خواب کو دیکھ کر دہشت زدہ اٹھا اور اپنے دربان کو طلب کر کے کہا موسی بن جعفر(ع) کو فورا زندان سے رہا کردیا جائے۔ دربان نے جاکر زندان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے زندان کے نگران نے پوچھا کون ہے دربان نے آواز دی ” اے موسی(ع)“ تمہیں خلیفہ نے طلب کیا ہے موسی بن جعفر(ع) تشویش زدہ اٹھے اور فرمایا۔ اتنی رات گئے؟ پھر آپ(ع) نے خیال کیا کہ اتنی رات گئے بلانے کا مقصد بیک نہیں ہوسکتا یہ سوچ کر آپ مغموم ہوگئے۔

جب آپ(ع) ہارون کے پاس تشریف لائے تو آپ(ع) نے ملاحظہ کیا کہ وہ کانپ رہا ہے سلام و جواب کے بعد ہارون نے امام(ع) سے کہا کیا آپ(ع) نے آج نصف شب میں کوئی دعا کی ہے۔

آپ(ع) نے کہا کہ ہاں میں نے دعا کی ہے اس نے کہا مجھے بتائیں کہ وہ دعا کیا تھی آپ(ع) نے فرمایا

۳۵۲

میں نے تجدید وضو کی پھر چار رکعات نماز ادا کی اور اس کے بعد میں نے اپنا چہرہ آسمان کی جانب بلند کر کے بارگاہ رب العزت میں دعا کی کہ اے میرے آقا مجھے ہارون کے دست ظلم سے نجات دے اور اس کے شر سے بچا پھر امام(ع) نے آخر تک وہ دعا اسے سنائی۔

ہارون نے کہا خدا نے آپ کی دعا مستجاب کی اور پھر اس نے خدام کو حکم دیا کہ انہیں آزاد کر دیا جائے اور ساتھ ہی اس نے کہا کہ اس دعا کو مجھے لکھ کردیں۔ امام(ع) نے قلم دوات منگائی اور اسے وہ دعا لکھ کردی پھر اس نے ان کی تعظیم کی  خاطر انہیں تین خلعتیں پیش کیں اور ان کے لیے گھوڑا منگوایا اور حکم دیا کہ انہیں ان کے گھر تک چھوڑ کر آیا جائے اس کے بعد ہارون ہر جمعرات امام (ع) کی خدمت میں ان کے آستانے  پر حاضر ہوتا رہا۔

۴ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا دودھ چھڑوانے کے بعد رضاعت قطع ہوجائے گی، روزہ میں مجامعت نہیں ہوسکتی ، احتلام آنے کے بعد تیمم نہیں رہ جاتی ، قطع تعلقی ایک شب و روز سے زیادہ روا نہیں، فتح مکہ کے بعد ہجرت واجب نہیں ہے، ہجرت کے بعد سختی نہیں ہے ، مالک ہونے کے بعد آزادی نہیں ہے، باپ کی اجازت کےبغیر بیٹے کی قسم درست نہیں ہے ، مالک کی اجازت کے بغیر غلام کی قسم درست نہیں، اور شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کی قسم درست نہیں قصد گناہ میں نذر منت نہیں اور قطع رحم میں یمین نہیں۔

۵ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا میرا توسل طلب کرو اور اگر چاہو کہ میں اپنے دست شفقت تلے تمہیں رکھوں اور قیامت میں تمہاری شفاعت کروں تو تمہیں چاہیے کہ اپنے خاندان سے صلہ رحمی کرو اور انہیں خوش رکھو۔

۶ـ           جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی مجھ پر اور میری آل(ع) پر درود بھیجے اسد پر خدا درود بھیجتا ہے جو کوئی تنہا مجھ پر درود بھیجتا ہے اور میری آل(ع) سے صرف نظر کرتا ہے۔ تو وہ بہشت کی خوشبو جو کہ پانچ سو سال کی مسافت سے آتی ہے کو نہ سونگھ سکے گا۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی پچیس (۲۵) بار کہے”الل ه م اغفر للمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات ” تو خدا اس کے لیے تمام گذشتہ و آئیندہ کے مومنین

۳۵۳

 کے حسنات کے برابر عطا کرے گا  اس کے گناہوں کو محو کردے گا اور اس کا درجہ بلند کرے گا۔

۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ اپنی دعاوں میں اپنے چالیس (۴۰) دینی بھائیوں کو یاد رکھو کہ خدا ان کے طفیل تمہاری دعاؤں کو مستجاب فرمائے گا۔

۹ـ           معاویہ بن عمار کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) کے سامنے ایک پیغمبر کا ذکر کیا اور اس پر صلواة بھیجی تو امام(ع) نے فرمایا جب کسی پیغمبر کا ذکر کرو اور صلواة بھیجنا چاہو تو سب سے پہلے رسول خدا(ص) پر درود بھیجو پھر اس پیغمبر(ع) پر کہ جس کا ذکر ہو اور پھر تمام انبیاء(ع) پر۔

بی بی ام سلمہ(رض) اور جناب امیر(ع) کا ایک غلام

۱۰ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ میرے اجداد سے روایت ہے کہ ایک دن بی بی ام سلمہ(رض) کو خبر ملی کہ جناب علی ابن ابی طالب(ع) کے غلاموں میں سے ایک غلام ان (علی(ع)) کے بارے میں ہرزہ گوئی کرتا ہے اور ان(ع) کی فضیلت گھٹا کر بیان کرتا ہے۔بی بی ام سلمہ(رض) نے اسے طلب کیا اور اس سے فرمایا ” تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے میں تجھے رسول خدا(ص) کی ایک حدیث بیان کروں تاکہ تو وہ اختیار کر لے جو تیرے لیے بہتر ہو“ اس نے کہا بیان کریں بی بی(رض) نے فرمایاہم نو(۹) عورتیں جنابِ رسول خدا(ص) کی ازواج تھیں اور میرے لیے نواں دن مختص تھا ایک مرتبہ میرے لیے مختص ایک دن میں رسول خدا(ص) اس طرح میرے گھر تشریف لائے کہ جناب امیر(ع) ان کے ہمراہ تھے۔ اور ان کے ہاتھ ایک دوسرے کے ہاتھ کے ساتھ پیوستہ تھے اور جناب رسول خدا(ص) کا دوسرا ہاتھ جنابِ امیر(ع) کے شانے پر تھا۔جناب رسول خدا(ص) نے مجھ سے ارشاد فرمایا ”تم اس کمرے سے باہر چلی جاؤ اور ہمیں یہاں تنہا چھوڑ دو“ میں یہ سن کر کمرے سے باہر آگئی جنابِ رسول خدا(ص) اور جناب امیر(ع) آپس میں رازو نیاز میں مشغول ہوگئے اور مجھے ان کی تمام باتیں سنائی دےرہی تھیں مگر سمجھ میں نہیں آرہی تھیں۔ یہاں تک کہ آدھا دن گذر گیا میں نے کمرے کے دروازے پر دستک دی اور کواڑ کے پیچھے سے آواز دی کہ یا رسول اﷲ(ص) کیا میں اندر آجاؤں تو ارشاد ہوا” نہیں ابھی نہیں“ مجھ پر یہ گراں گزرا

۳۵۴

 اور میں نے غصہ کیا مگر مجھے یہ خیال آیا کہ شاید کسی آیت کا نزول ہو رہا ہے کافی دیر گزرنے کے بعد میں نے پھردق الباب کیا اور اندر جانے کی اجازت مانگی مگر رسول خدا(ص) نے دوبارہ منع کردیا یہ مجھ پر پہلے سے بھی گراں گزرا۔ پھر جب کافی دیر کے بعد میں نے تیسری دفعہ اندر جانے کی اجازت طلب کی تو رسول خدا(ص) نے فرمایا ہاں اے ام سلمہ(رض) اب تم اندر آجاؤ میں جب کمرے میں داخل ہوئی تو میں نے دیکھا کہ علی (ع) ان(ص) کے سامنے دوزانو بیٹھے ہوئے ہیں اور رسول خدا(ص) سے فرماتے ہیں کہ یا رسول اﷲ(ص) جب ایسا معاملہ در پیش ہوجائے تومیں کیا کروں جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا اے علی(ع) میں تمہیں صبر کا حکم دیتا ہوں۔ پھر علی(ع) نے دوبارہ یہی دریافت کیا تو آپ(ص) نے فرمایا کہ صبر کرنا پھرعلی(ع) نے تیسری دفعہ دریافت کیا تو آپ(ص) نے فرمایا جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے تو تم اپنی تلوار نیام سے نکال لینا اور اپنی ردا دوش پر ڈال کر ان سے جنگ کرنا اور بالکل پرواہ مت کرنا یہاں تک کہ تم میرے پاس آؤ اور تمہاری تلوار سے خون ٹپک رہا ہو۔

پھر جناب رسول خدا(ص) نے اپنا رخ میری طرف کیا اور فرمایا اے ام سلمہ(رض) تم کیوں پریشان ہو میں نے عرض کیا یا رسول خدا(ص) میں نے کئی بار اندر آنے کی اجازت طلب کی مگر آپ(ص) نے منع کردیا آپ(ص) نے فرمایا ام سلمہ خدا کی قسم میں نے تمہیں غصے کی وجہ سے واپس نہیں کیا میں تم میں اپنے لیے کوئی برائی نہیں دیکھتا بیشک تم خدا اور رسول کی طرف سے خیر پر ہو جب تم آئیں تو اس وقت جبرائیل (ع) تشریف فرما تھے اس وقت علی(ع) میرے بائیں طرف اور جبرائیل(ع) میرے دائیں طرف تھے جبرائیل(ع) ہمیں ان واقعات سے آگاہ کررہے تھے جو میرے بعد پیش آئیں گے اور مجھے نصیحت کررہے تھے کہ میں علی کو ان واقعات کے بارے میں وصیت کر دوں کہ ان فتنوں کی صورت میں علی(ع) کا رد عمل کیسا ہونا چاہیے۔

اے ام سلمہ(رض) سنو اور گواہ رہو کہ علی بن ابی طالب(ع) دنیا میں اور آخرت میں میرا وزیر ہے۔ ام سلمہ سنو اور گواہ رہو کہ علی(ع) بن ابی طالب(ع) دنیا میں میرا پرچم بردار ہے۔ اے ام سلمہ سنو اور گواہ رہو کہ علی(ع) بن ابی طالب(ع) میرا خلیفہ ہے اورمیرے بعد میرے وعدے پر عمل کرنے والا اور میرے حوض کوثر سے نا اہلوں کو ہٹانے والا ہے۔ اے ام سلمہ(رض) سنو اور گواہ رہو کہ علی بن ابی طالب(ع) مسلمانوں کا

۳۵۵

 سردار۔ متقیوں کا امام۔ روشن چہروں کا اور ہاتھوں والوں کا پیشوا اور ناکثین مارقین و قاسطین کاقتل کرنے والا ہے۔ میں ( ام سلمہ(رض)) نے کہا یا رسول اﷲ(ص) ناکثین کون ہیں آپ(ص) نے فرمایا یہ وہ ہیں کہ جنہوں نے مدینہ میں بیعت کی اور بصرہ میں اسے توڑ دیا۔ پھر میں نے پوچھا کہ قسطین کون ہیں تو آپ(ص) نے فرمایا معاویہ اور اس کےشامی ساتھی ہیں پھر میں نے دریافت کیا کہ مارقین کون ہیں تو فرمایا نہروان والے۔ اس غلام نے کہا اے ام المومنین آپ نے میرے دل کی گرہ کھول دی۔ خدا آپ کو وسعت دے میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا اور ہرگز جناب امیر(ع) کو برا نہیں کہوں گا۔

شیخ ثمالہ

۱۱ـ           شیخ ثمالہ روایت کرتے ہیں کہ میری ملاقات بنی تمیم کی ایسی عورتوں سے ہوئی جو بوڑھی اور عجوز تھیں اور لوگوں سے احادیث بیان کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک خاتون سے میں نے کہا خدا تم  پر رحم کرے مجھے علی(ع) کے فضائل کے بارے میں کوئی حدیث بیان کریں اس خاتون نے ایک بزرگ مرد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ان بزرگ استاد کی موجودگی میں میں حدیث نہیں بیان کرسکتی ثمالہ کہتے ہیں میں نے دیکھا تو وہ بزرگ سو رہے تھے میں نے ان خاتون سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں تو عورت نے بتایا کہ یہ ابوحمرا(رض) ہیں اور رسول اﷲ(ص) کے خادم ہیں اسی اثناء میں وہ بزرگ ہماری باتیں سن کر اٹھ بیٹھے میں کے ساتھ بیٹھ گیا اور ان سے عرض کیا، اﷲ آپ پر رحمت کرے آپ نے علی(ع) کے بارے میں جناب رسول خدا(ص) سے جو کچھ سنا ہے وہ مجھے بیان فرمائیں ورنہ آپ سے خدا کے حضور اس کی باز پرس ہوگی۔

ابو حمرا(رض) نے کہا تم اس بندے کے پاس آئے ہو جو ایسے امور سے مطلع ہے، میں نے جو کچھ علی(ع) کے بارے میں رسول خدا(ص) سے سنا اور دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ ایک دن جنابِ رسول خدا(ص) نے مجھ سے فرمایا ، اے ابو حمرا جاؤ سو آدمی عربی، پچاس آدمی عجمی تیس آدمی قبطی اور بیس آدمی حبشی لے کر میرے پاس آجاؤ میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی اور جب تعداد کے مطابق آدمی اکٹھے کر لیے تو آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ آپ(ص) نے فرمایا عربیوں کو ایک صف میں کرو اور ان کے پیچھے

۳۵۶

 عجمیوں کو پھر قبطیوں اور پھر حبشیوں کو ان کے پیچھے کھڑا کردو۔ اس کے بعد آپ(ص) کھڑے ہوئے اور اس طرح سے خدا کی حمد و ستائش بیان فرمایی کہ پہلے کبھی نہ سنی تھی پھر فرمایا اے گروہ عرب و عجم ، قبط و حبش تم نے اعتراف کیا ہے کہ نہیں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہین اور محمد(ص) اس کے بندے اور رسول ہیں؟ انہوں نے کہا۔ ہم نے اس بات کا اقرار و اعتراف کیا ہے جناب رسول خدا(ص) نے اس بات کا ان سے تین دفعہ اقرار کروایا پھرآپ(ص) نے تین مرتبہ فرمایا اے خدایا تو گواہ رہنا پھر آپ(ص) نے تیسری بار فرمایا تم اعتراف کرتے ہو کہ ”لا اله الا الله ان محمد عبده ورسوله و ان علی بن ابی طالب اميرالمومنين وولی امرهم من بعدی“ وہ کہنے لگےہاں ہم اعتراف کرتے ہیں آپ(ص) نے تین مرتبہ فرمایا خدایا گواہ رہنا۔ پھر آپ(ص) نے علی(ع) سے فرمایا اے علی(ع) جاؤ اور میرے لیے قلم و کاغذ لے آؤ۔علی(ع) گئے اور قلم ، دوات و کاغذ لے آئے۔ رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا اے علی(ع) لکھو ” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ یہ اقرار نامہ عرب وعجم اور قبطہ و حبش کے لوگوں کا ہے کہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد(ص) اس کا بندہ رسول ہے اور علی(ع) امیرالمومنین اور میرے بعد ولی امت اور امام ہے پھر آپ(ص) نے اس عہد نامے پر مہر لگائی اور اسے علی(ع) کے حوالے کردیا اور اس عہدنامے کو اس کے بعد آج تک نہیں دیکھا گیا۔ میں نے ابوحمرا(رض) سے کہا خدا تم پر رحم کرے میرے لیے مزید کچھ بیان کرو ابو حمرا(رض) نے کہا۔ بروز عرفہ رسول خدا(ص) باہر تشریف لائے کہ علی(ع) کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے تھے آپ(ص) نے فرمایا اے گروہ خلائق بیشک آج کے دن خدا تم پر مباہات کرتا ہے کہ اس نے تمیہیں معاف کیا۔ پھر آپ(ص) نے اپنا چہرہ مبارک علی (ع) کی طرف کیا اور فرمایا بالخصوص اس نے تمہیں معاف فرمایا اے علی(ع) میرے نزدیک آؤ علی(ع) نزدیک گئے تو آپ(ص) نے فرمایا وہ بندہ سعادت کا حق رکھتا ہے جو تجھے دوست رکھے اور اطاعت کرے جب کہ وہ شخص شقی ہے جو تجھ سے دشمنی رکھتا ہے مگر تجھ سے دشمنی رکھتا ہے اے علی(ع) جس نے تجھ سے جنگ کی اس نے مجھ سے جنگ کی اور جس نے مجھ سے جنگ کی اس نے خدا سے جنگ کی اے علی(ع) جو کوئٰی تجھے دشمن رکھتا ہے وہ مجھے دشمن رکھتا ہے اور جو مجھ دشمن رکھتا ہے اس نے خدا سے دشمنی کی اور خدا ایسے کو جہنم میں پھینک دے گا۔

۳۵۷

مجلس نمبر۶۱

(۲۵ربیع الثانی سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے بی بی فاطمہ(س) سے فرمایا فاطمہ(س) بیشک تو جس سے ناراض ہے۔ خدا بھی اس سے ناراض ہے اور جس سے تو راضی ہےاس سے خدا بھی راضی ہے امام(ع) کے اس حدیث کے بیان کرنے کے بعد صندل ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے ہمراہ ایک جوان کی طرف اشارہ کر کےکہا۔یا ابو عبداﷲ یہ جوان آپ(ع) کے قول بیان کرکے عجیب و غریب احادیث ہم سے بیان کرتا ہےآپ(ع) نے فرمایا کیا بیان کرتا ہے اس نے کہا یہ کہتا ہے کہ خدا فاطمہ(س) کے غصے سے غصہ کرتا ہے اور ان(س) کی رضا سے راضی ہوتا ہے۔

امام(ع) نے فرمایا صندل تمہاری روایت کے ضمن میں یہ نہیں ہے کہ خدا بندہ مومن کے غصے کی وجہ سے غصہ کرتا ہے ۔ اور اس کی رضا سے راضی ہوتا ہے۔ صندل نے کہا کیوں نہیں یہ ایسا ہی ہے امام(ع) نے فرمایا نہیں یہ ایسا نہیں ہے اس لیے کہ تم منکر ہو کہ فاطمہ(س) مومنہ ہے اور جس سے وہ غصہ کریں خدا اس پر غصہ ہوتا ہے اور وہ جس سے راضی ہوں خدا اس سے راضی ہوتا ہے پھر آپ(ع) نے فرمایا خدا دانا تر ہے کہ وہ اپنی حکمت و رسالت کسے عطا کرے۔

سعد بن معاد(رض) کی وفات

۲ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جب جنابِ رسول خدا(ص) کو اطلاع دی گئی۔ کہ سعد بن معاد(رض) وفات پاگئے ہیں تو آںحضرت(ص) اپنے اصحاب کے پاس تشریف لائے اور حکم دیا کہ وہ سعد کو غسل دیں۔ آںحضرت(ص) خود دروازے میں کھڑے ہوگئے جب سعد(رض) کا جنازہ تیار ہوگیا۔اور ان کا تابوت کو اٹھایا گیا تو آںحضرت(ص) بنفس بفیس برہنہ پاء سعد کے جنازے میں شریک ہوئے اور ان کے تابوت کو کبھی دائیں طرف سے  کندھے دیتے اور کبھی بائیں طرف سے یہاں تک کہ جنازہ قبر تک پہنچ گیا آںحضرت(ص) نے سعد(رض) کی قبر کے اندر جاکر قبر کو جانچا پھر سعد(رض) کے جسد کو قبر میں اتارا گیا تو آںحضرت(ص)

۳۵۸

نے قبر پر مٹی دالی اور تمام رخنے اپنے ہاتھوں سے بھرے اور قبر کے نشان کو واضع کیا۔

پھر آںحضرت(ص) نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ کہنگی اس میں سرایت کر جائے گی اور بوسیدگی اسے آلے گی۔ لیکن خدا بندے کے نیک اعمال کو دوست رکھتا ہے اور محفوظ کرتا ہے۔

جب رسول خدا(ص) قبرستان سے واپس تشریف لائے تو سعد(رض) کی والدہ انہیں دیکھ کر کھڑی ہوئیں اور کہا اے سعد تمہیں بہشت مبارک ہو جناب ِ رسول خدا(ص) نے فرمایا اے مادر سعد صبر کرو اور خدا سے رحم  چاہو کیوںکہ اس وقت سعد کوفشار قبر ہو رہا ہے۔

اس کے بعد جنابِ رسول خدا(ص) اصحاب کے ہمراہ واپس روانہ ہوئے اصحاب نے دریافت کیا یا رسول اﷲ(ص) ہم نے دیکھا کہ آپ(ص) نے جو کچھ سعد کے ساتھ کیا وہ کسی صحابی کے ساتھ نہیں کیا آپ(ص) بے ردا اور برھنہ پاء ان کے جنازے کے ساتھ گئے اور ان کی میت کو دائیں بائیں سے کاندھا دیا آپ(ص) نے فرمایا میرے ہمراہ جبرائیل(ع) تھے اور میرے ہاتھوں کو وہ اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے تھے پس جس طرف سے وہ اٹھاتے میں بھی اس طرف سے اٹھاتا تھا اصحاب نے فرمایا آپ(ص) نے ان کے غسل کا بھی حکم دیا پھر آپ(ص) نے ان پر نماز بھی پڑھی انہیں اپنے ہاتھ سے قبر میں اتارا اور اس کے باوجود بھی آپ(ص) نے فرمایا سعد فشار قبر میں گرفتار ہے آپ(ص) نے فرمایا ہاں  کیونکہ وہ اپنے خاندان سے بد اخلاقی کرتا تھا۔

۳ـ          رسول خدا(ص) نے ابو دردا(رض) سے فرمایا جس کسی کی صبح اسطرح ہو کہ وہ اس دن کے لیے اچھی خوراک اور آسودگی رکھتا ہو تو یہ اس کے لیے ایسے ہے کہ گویا اسے تمام دنیا مل گئی اے ابن جعشم جو کچھ تیری بھوک کو رفع کرے وہ اس دنیا سے تیرے لیے کافی ہے اگر تیرے پاس لباس اور گھر بھی میسر ہو تو کیا بہتر ہے۔ اور اگر تیز رفتار گھوڑا بھی رکھتے ہو تو یہ تمہارے لیے مبارک ہے۔ ورنہ حساب و عذاب سے پہلے یہی روٹی اور پانی کا کوزہ ہے۔

۴ـ          ہارون بن خارجہ کہتے ہین کہ مجھ سے امام صادق(ع) نے فرمایا تمہارے گھر سے مسجد کوفہ کا کتنا فاصلہ ہے جب میں نے انہیں اس فاصلے سے آگاہ کیا تو امام(ع) نے فرمایا کوئی مقرب فرشتہ یا پیغمبر مرسل یا بندہ نیک ایسا نہیں ہے کہ جو کوفہ میں داخل ہوا ہو اور اس مسجد میں نماز نہ پڑھی

۳۵۹

 ہو۔ جناب رسول خدا(ص) کو شب معراج اس مسجد پر سے گزارا گیا اور فرشتے نے آںحضرت(ص) کے لیے اجازت طلب کی اور آپ(ص) نے اس میں دو رکعت نماز ادا کی اس مسجد میں نماز واجب کی ادائیگی ہزار نمازوں کے برابر اور پانچ سو نافلہ نمازوں کے برابر درجہ رکھتی ہے اس مسجد بے سبب داخل ہونا اور چلنا بھی عبادت ہے۔

۵ـ          ابولیلیٰ کہتے ہیں کہ کعب بن عجرہ نے مجھ سے کہا کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں کچھ ہدیہ کروں میں نے کہا کیوں نہیں اس نے کہا ایک مرتبہ رسول خدا(ص) ہمارے درمیان تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) ہم جانتے ہیں کہ آپ(ص) پر درود کیسے بھیجا جائے مگر آپ(ع) ہمیں یہ بتائیں کہ آپ(ص) پر صلوات کیسے بھیجی جائے۔آپ(ص) نے فرمایا

 اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍوَآلِ مُحَمَّدٍوَبَارِكْ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍوَآلِ مُحَمَّدٍوَارْحَمْ مُحَمَّداًوَآلِ مُحَمَّدٍأَفْضَلَ مَاصَلَّيْتَ وَبَارَكْتَ وَتَرَحَّمْتَ وَسَلَّمْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌمَجِيدٌ.“

۶ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی کسی پریشان حال اور پیوند لگے لباس پہنے ہوئے انسان پر احسان کرے تو خدا اس کے اس احسان کو قبول کرے گا۔

۷ـ          جناب علی بن ابی طالب(ع) فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول خدا(ص) سے آیت” هَلْ جَزاءُ الْإِحْسانِ‏ إِلَّا الْإِحْسانُ‏    “ (رحمن) کہ کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ کوئی اور ہے“ کی تفسیر کے ضمن میں سنا ۔ کہ کیا اس خدا کی واحدانیت کے اقرار کا بدلہ بہشت کے علاوہ کچھ اور ہوسکتا ہے۔

۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا وہ شخص سزا وارتر ہے کہ جو کسی بخیل دولت مندسے کوئی آرزو رکھے اور سزا وارتر ہے وہ شخص کہ جو کسی عیب دار سے بہتری کی توقع رکھے جبکہ وہ اس کے حق میں یہی بہتری کرے گا کہ اس کے عیوب پر پردہ ڈالے پھر آپ(ع) نے فرمایا سزاوارتر ہے وہ شخص کہ جو کسی احمق سے بردباری کی توقع رکھے۔ لوگوں کو چاہئیے کہ ان سے دور رہیں کیونکہ بخیل یہ آرزو کرے گا کہ لوگ فقیر رہیں عیب دار یہ توقع کرے گا کہ لوگوں میں بھی عیب پیدا ہوں اور احمق بھی

۳۶۰