مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 296712
ڈاؤنلوڈ: 7462

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 296712 / ڈاؤنلوڈ: 7462
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 دوسروں سے حماقت چاہے گا بخیل اپنی جائز ضرورتوں میں بھی فقر کا مظاہرہ کرے گا عیب دار عیب جوئی سے فساد پیدا کرے گا اور احمق حماقت کے سبب گناہوں میں اضافے کا باعث بنے گا۔

۹ـ           جناب امیرالمومنین(ع) نے فرمایا نماز جمعہ میں شامل ہونے والوں کے تین طبقات ہیں اول وہ کہ جو تواضع اور خوشی دلی سے  اس میں شامل ہوتے ہیں اور امام سے پہلے مسجد میں حاضر ہوجاتے ہیں ایسے لوگوں کے گناہوں کا کفارہ انکی یہ نماز جمعہ بن جاتی ہے۔ اور دوسرے جمعے تک اسے گناہوں سے بچاتی ہے جیسے کہ خدا ارشاد فرماتا ہے ” جو کوئی ایک نیکی لائے گا اس کو اس کے مثل دن نیکیاں ملیں گی“ (انعام ، ۱۶۰)

دوئم وہ طبقہ ہے کہ جو تنگ دلی سے نماز جمعہ میں شمولیت اختیار کرتا ہے تا ہم ایسے لوگوں کے اس جمعے کے سبب سے بھی ان کے گناہوں میں  تخفیف کردی جاتی ہے۔

سوئم وہ طبقہ ہے جو کسی سنت کی پرواہ کیے بغیر اس نماز جمعہ میں شرکت کرتا ہے تو یہ ایسا ہے کہ وہ پھر خدا کے رحم و کرم پر ہوتا ہے کہ چاہے تو اسے ثواب دے یا چاہے تو اسے محروم کردے۔

۱۰ـ          جناب علی بن ابی طالب(ع) فرماتے ہیں کہ جنابِ رسول خدا(ص) سے قرض خواہی کی( قرض لے کر نہ لوٹا سکنے کی استطاعت رکھنا) شکایت کی گئی تو آپ(ص) نے فرمایا کہو ”الل ه م اغننی بحلالک عن حرامک و بفضلک عمن سواک “ آپ(ص) نے فرمایا جو کوئی یہ پڑھے گا تو خدا تعالی اس شخص کے ذمے جتنا بھی واجب الادا قرض ہوگا ادا کرے گا چاہیے وہ کوہ صبیر کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔ اور کوہ صبیر یمن کا سب سے بڑا پہاڑ ہے۔

۱۱ـ           جناب علی  ابن ابی طالب(ع) فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا میں  حکمت کا شہر ہوں جو کہ بہشت ہے اور اے علی(ع) تم اس کا دروازہ ہو اور کوئی بندہ بہشت میں کیسے داخل ہوسکتا ہے جب تک کہ وہ دروازے سے نہ داخل ہو۔

۱۲ـ          عروہ بن زبیر اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عمر کے سامنے جناب علی ابن ابی طالب(ع) کو برا کہا۔ حضرت عمر نے س شخص سے کہا کیا تم اس قبر کو پہچانتے ہو۔ یہ محمد(ص) بن عبداﷲ بن عبدالمطلب(ع) ہیں اور جن کے بارے میں تم ہرزہ سرائی کی ہے وہ علی بن ابی طالب(ع)

۳۶۱

بن عبدالمطلب(ع) ہیں۔ تم بجز نیکی کے ان کے مت پکارو کہ خدا قبر میں تم پر آزار مسلط کرے گا۔

۱۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا بیدار ہوکر بستر سے اٹھنے ے بعد کسی شخص کےساتھ تین عوامل کار فرما ہوتے ہیں اول فائدہ مند ہے اور اس کا نقصان نہیں ہے دوئم جو کہ نقصان دہ ہے اور بے فائدہ ہے اور سوئم بے نقصان و بے فائدہ ہے۔

اول جو کہ فائدہ مند اور بے نقصان ہے وہ یہ ہے کہ انسان نیند سے بیدار ہو کر وضو کرے نماز پڑھے اور ذکر خدا کرے۔

دوئم وہ کہ جو نقصان دہ اور بے فائدہ ہے وہ یہ ہے کہ انسان بیدار ہونے کے بعد گناہوں میں مبتلا ہو جائے۔

سوئم وہ کہ جو بے فائدہ و بے نقصان ہے وہ یہ ہے کہ انسان صبح کے وقت دیر تک سوتا رہے اور نہ ہی فائدہ لے سکے اور نہ ہی نقصان۔

۱۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ خدا اس پر سکراتِ موت کو آسان کردے اسے چاہییے کہ وہ صلہ رحمی سے کام لے اور اپنے ماں باپ سے نیکی کرے ایسا شخص جانکنی کی تکلیف سے امان میں رہے گا اور زندگی میں پریشانی و فقر سے  دوچار نہیں ہوگا۔

۱۵ـ          علی بن میمون صابغ کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی چاہیے کہ خدا اسے اپنی رحمت میں لے آئے اور اسے بہشت سے نوازے تو  اسے چاہیے کہ وہ خوش خلقی اختیار کرے، اپنے بارے میں انصاف سے کام لے یتیم نوازی اور ضعیف پروری سے کام لے اور خدا کے لیے اس کی راہ میں متواضع ہو۔

۱۶ـ          جناب علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا جو شخص مسجد میں جائے اسے ان آٹھ میں سے ایک فائدہ پہنچے گا۔

اول : برادر دینی سے ملاقات۔   دوئم: نئے علوم کی معرفت ۔  سوئم :  آیات محکم سے آگاہی۔ چہارم : رحمت جو اس کا انتظار کرتی ہے۔  پنجم : وہ سخن جو اسے ہلاکت سے بچائے۔  ششم : ہدایت کا کلمہ یا دلیل۔

۳۶۲

 ہفتم : ترکِ گناہ خوف خدا سے۔  ہشتم :  ترک گناہ شرم سے۔

دعائے قنوت

۱۷ـ ابو جعفر امام باقر(ع) نے فرمایا کہ وتر میں پڑھی جانے والی قنوت ۔ نماز جمعہ میں پڑھی جانے والی قنوت کے مثل ہے تم دعائے قنوت میں پڑھو کہ اے اﷲ تیرا نور تمام ہوا اور تونے ہدایت بخشی پس حمد صرف تیرے ہی لیے ہے۔ اے ہمارے پالنے والے تیرا حلم نہایت عظیم ہے کہ تونے ہمیں معاف فرمایا پس حمد صرف تیرے ہی لیے ہے کہ اے ہمارے رب تیرا چہرہ تمام چہروں سے زیادہ مکرم۔ تیری حجت تمام حجتوں سے بہتر اور تیرا عطیہ تمام عطیات سے افضل و برتر ہے اے ہمارے رب تیری اطاعت کی جاتی ہے تو توُ مسرور ہوتا ہے جبکہ تیری نافرمانی کی صورت میں یہ صرف تیرے ہی اختیار میں ہوتا ہے کہ تو بخش دے تو ہی تو ہے جو مضطر و پریشان کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور اسکی تکالیف دور فرماتا ہے اور بیمار کو شفا دیتا ہے ، پروردگار تیری نعمتوں کا شمار اور بدل نہیں سب کی نظریں تیری ہی طرف اٹھتی ہیں ہر قدم تیری طرف اٹھتا ہے۔ سب کی گردنیں اور ہاتھ تیری ہی طرف بلند ہوتے ہیں اور تیری مخلوق اپنے راز تجھ ہی سے بیان کرتی اور تجھ ہی سے سرگوشیاں کرتی ہے اے ہمارے رب ہمیں بخش دے ہم پر رحم فرما۔ ہمارے نبی(ص) لوگوں کے درمیاں سے غائب ہیں ہم پر زمانے کی سختیاں ہیں، ہمارے درمیان فتنے ہیں، دشمن ہم پر غلبہ حاصل کررہے ہیں ہماری تعداد کم اور ہمارے دشمنوں کی زیادہ ہے اے ہمارے رب اپنی طاقت اور مدد سے ہمیں جلد فتح یاب فرما اور امام عادل(ع) کے ظہور کا حکم دے، اے اﷲ، تمام عالمین کے رب ہماری اس مشکل کو حل کردے۔

پھر قنوت وتر کی اس دعا کے بعدستر(۷۰) مرتبہ ”استغفر اﷲ ربی و اتوب الي ه “ کہو اور جہنم سے بہت زیادہ خدا کی پناہ طلب کرو۔ پھر نماز کے سلام کے بعد ”سبحان ربی الملک القدوس العزيز الحکيم “ یعنی میرا رب جو مالک ہے وہ ہر عیب سے بری اور پاک و منزہ ہے وہ صاحب قوت و صاحب حکمت ہے“ پڑھو پھر تین مار کہو سب تعریفین صبح کے رب کی ہیں

۳۶۳

اور حمد صبح کو شگافتہ کرنے والے کی ہے۔

۱۸ـ          عبداﷲ بن فضالہ کہتے ہین کہ امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جب تمہارا بچہ تین سال کا ہو جائے تو اسے سات مرتبہ ”لا الہالا اﷲ “ سکھاؤ پھر اسے چھوڑ دو جب وہ تین سال سات ماہ اور بیس دن کا ہوجائے تو اس کو سات مرتبہ ” محمد رسول اﷲ(ص)“ کی تلقین کرو پھر چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ پورے پانچ سال کا ہوجائے تو اس سے پوچھا جائے کہ تیرا دائیاں ہاتھ کونسا اور بایاں کونسا ہے جب وہ اس کی پہچان کر لے تو اسے قبلہ رخ کرکے سجدہ کروایا جائے اور پھر چھوڑ دیا جائے جب اس کی عمر چھ سال ہوجائے تو اسے کہا جائے کہ وہ نماز پڑھے اور اسے رکوع وسجدہ کرنے کی تربیت کی جائے یہاں تک کہ سات سال کا ہوجائے تو اس سے کہا جائے کہ وہ اپنا منہ اور ہاتھ دھوئے یہ سکھا کر اسے چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ نو سال کا ہوجائے تو سے وضو کی تعلیم دی جائے اگر وہ بہانہ کرے یا مزاحمت کرے تو اسے سکھانے کے لیے سختی کی جائے اور مارا جائے اور نماز کا حکم دیا جائے جب وہ وضو اور نماز سیکھے گا تو خدا اس کے ماں باپ کے تمام گناہ معاف فرمادے گا انشاء اﷲ تعالی۔

۳۶۴

مجلس نمبر۶۲

( سلخ ربیع الثانی سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی بغیر وجہ کے نماز مغرب میں تاخیر کرتا ہے یہاں تک کہ ستارے نمودار ہوجائیں تو بخدا ایسے شخص سے میں بیزار ہوں۔

۲ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا انار اور نیاز بو کی شاخ سے دانتوں میں خلال نہ کرو یہ مرض کو تحریک دیتی ہے۔

وفات جناب زید(رح)

۳ـ          حمزہ بن حمران کہتے ہیں کہ میں امام صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے دریافت کیا ، حمزہ کہاں سے آرہے ہو میں نے عرض کیا کوفہ سے یہ سن کر آپ(ع) نے گریہ کیا یہاں تک کہ آپ(ع) کی ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی میں نے عرض کیا یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) آپ(ع) اس قدر گریہ کیوں کررہے ہیں فرمایا مجھے میرے چچا زید(رح) کی یاد آگئی کہ ان کے ساتھ کیا کچھ کیا گیا میں نے عرض کیا، آپ(ع) نے ان کے متعلق کس چیز کو یاد کیا ہے، آپ(ع) نے فرمایا مجھے ان کا قتل کیا جانا یاد آگیا کہ ان کی پیشانی میں تیر لگا اور ان کے فرزند یحیی آئے اور انہیں آغوش میں لے کر کہا بابا آپ کو خوشخبری ہو کہ رسول خدا(ص) علی (ع) فاطمہ(س)، حسن(ع) و حسین(ع) تشریف لائے ہیں پھر ایک لوہار کو بلایا گیا جس نے ان کی پیشانی سے تیر نکالا اور جناب زید خالق حقیقی سے جاملے۔ انہیں رات کی تاریکی میں خفیہ طور پر دفن کر کے قبرِ مبارک کا نشان مٹانے کے لیے ان کی قبر پر پانی جاری کردیا گیا لیکن سندی نامی ایک غلام جوکہ جاسوس تھا یوسف بن عمر کے پاس گیا اور ان کے مدفن کی خبر اسے  دی یوسف بن عمر نے جنابِ زید(رح) کا جسد مبارک باہر نکلوایا اور سولی پر لٹکا دیا جنابِ زید(رح) اسی طرح چار(۴) سال تک سولی پر رہے پھر حکم دیا گیا کہ ان کے جسد  مبارک کو  جلادیا جائے اور ان کے جسم کی راکھ کو ہوا میں منتشر کردیا جائے لہذا ایسا ہی کیا گیا۔ خدا انہیں اذیت دینے والے اور قتل کرنے والے پر لعنت

۳۶۵

کرے اور میں خدا سے اس بارے میں شکوہ کرتا ہوں کہ جو کچھ ہمارے خاندان سے جنابِ رسول خدا(ص) کے بعد روا رکھا گیا اور میں اسی سے مدد چاہتا ہوں کہ وہ بہترین مدد کرنے والا ہے۔

دنیا کیا ہے

۴ـ          جناب علی بن حسین(ع) فرماتے ہیں کہ جناب امیرالمومنین(ع) ایک دن اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔ اور جنگ کے لیے ان کی صف بندی کررہے تھے کہ ایک بوڑھا آدمی ان کی خدمت میں حاضر ہوا جس کی حالت سے ظاہر ہورہا  تھا کہ وہ ایک لمبا سفر طے کر کے آیا ہے اس نے کہا یا امیرالمومنین(ع) میں ملک شام سے حاضر ہوا ہوں میں چونکہ ایک ضعیف آدمی ہوں اس لیے میں نے آپ(ع) کے بے شمار فضائل سنے ہیں جن کی میں اپنے ذہن میں تردید کرتا رہا ہوں لہذا میں یہ چاہتا ہوں کہ جو علم آپ(ع) کو خدا نے عطا کیا ہے اس سے متعلق مجھے مطلع کریں۔

جنابِ امیر(ع) نے فرمایا اے شیخ سن جو شخص اپنی زندگی کے ایام اعتدال میں گزارے وہ اس کے لیے رحمت ہیں اور جو کوئی اس دنیا کو اپنا سب کچھ جان لے وہ اپنی موت کے وقت سخت افسوس کرے گا جس کسی کا آنے والا کل گذرے ہوئے کل سے بدتر ہے وہ محروم ہے جو کوئی دنیا کے لالچ میں آخرت کا غم نہیں رکھتا وہ ہلاکت میں ہے جو کوئی قناعت پر شکر نہیں کرتا  اس پر ہوس کا غلبہ ہے اور جو کوئی قانع ہے اس کی موت بہتر ہے یہ دنیا اپنے اہل کے لیے خرم و شیرین ہے۔ اسی طرح آخرت بھی اپنے اہل رکھتی ہے ( اہل آخرت) اور اہل دنیا سے صرف نظر کرے گی، دنیا پر رشک نہ کرو اس کی خوشی پر خوش نہ ہو جاؤ اور اس کی تنگی پر مغموم مت ہو اے شیخ جو شخص شب خون کی نگرانی کے لیے جنگ میں متعین کیا جاتا ہے اس کی نیند بہت کم ہوتی ہے انسان کی زندگی میں شب و روز کتنی سرعت دکھاتے ہیں پس اپنی زبان بند رکھو اور اپنی گفتار محدود کر لو۔ اور جب بھی بولو بہتر بولو اے شیخ لوگوں کے لیے بھی وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو اور لوگوں کے لیے وہی اختیار کرو جو تمہارے لیے اختیار کرتے ہیں۔

پھر جنابِ امیر(ع) نے اپنے اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا اے لوگو کیا تم دیکھتے نہیں ہو

۳۶۶

 کہ اہل دنیا کس طرح صبح و شام اس دنیا کی خاطر دگرگون ہوئے پھرتے ہیں اور ہلاکت کا شکار ہیں اور کچھ وہ بھی ہیں جو عبادت کرتے  اور عبادات میں مشغول ہیں اور ان پر جانکنی کی کیفیت طاری رہتی ہے انہیں اس دنیا سے کوئی امید نہیں ہے، طالب دنیا اس دنیا کے پیچھے موت سے غافل ہیں اور وہ اس کی پیروی کرتے ہیں۔

زبید بن صوحان عبدی نے عرض کیا یا امیرالمومنین(ع) کونسا دن فتح مند ترین اور غالب ترین ہے آپ(ع) نے فرمایا ہوائے نفس کا دن پھر پوچھا کونسی خواری سب سے بڑھ کر ہے فرمایا دنیاکا لالچ پھر پوچھا کونسا فقر سخت ترہے فرمایا ایمان کے بعد کفر پھر دریافت کیا کونسی دعوت زیادہ گمراہ کرنے والی ہے فرمایا کہ وہ دعوت نہیں ہے پھر پوچھا کہ کونسا عمل بہترین ہے فرمایا تقوی پوچھا گیا کہ کونسا عمل کامیاب تر ہے آپ(ع) نے فرمایا اس کی طلب جو خدا کے پاس ہے پھر پوچھا گیا کونسا رفیق بدتر ہے فرمایا معصیت خدا۔ پھر دریافت کیا گیا کہ کونسی خلق بدتر ہےفرمایا اس(خدا) کے دین کو دنیا کے عوض بیچنے والے پھر پوچھا گیا کہ کون سا بندہ فتح مندترین ہے آپ(ع) نے ارشاد فرمایا برد بار۔پھر پوچھا کہ کونسا بندہ سب سے بخیل ہے آپ(ع) نے فرمایا وہ جو مالِ حرام کو ہاتھ میں لائے اور اسے باطل میں خرچ کرے پھر پوچھا کہ کونسا بندہ زیرک تر ہے آپ(ع) نے ارشاد فرمایا وہ بندہ جو راہ حق کو باطل میں سے پہچانے اور اسے حق جانے۔ پھر پوچھا کہ کونسا بندہ بردبار تر ہے فرمایا وہ جو غصہ نہ کرے پھر پوچھا گیا کہ کونسا بندہ رائے دینے میں ثابت قدم ہے فرمایا جو خود فریبی میں مبتلا نہ ہو جسے دنیا کی خود آرائی فریب میں مبتلا نہ کرسکے۔ پوچھا گیا کہ کونسا بندہ احمق تر ہے فرمایا وہ  جو دنیا کے چہرے کو دیکھے اور اس پر فریفتہ ہوجائے پھر پوچھا گیا کہ کونسا بندہ زیادہ قابل افسوس ہے آپ(ع) نے فرمایا وہ جو دنیا و آخرت سے محروم ہے اور اس کا نقصان ظاہر ہے پھر پوچھا کہ کونسا شخص نابینا تر ہے۔ آپ(ع) نے فرمایا وہ جو دکھاوے کا عمل کرے اور خدا سے ثواب کی توقع رکھے پھر پوچھا گیا کہ کونسی قناعت بہتر ہے آپ(ع) نے فرمایا جو کچھ خدانے عطا کیا ہے اس پر قانع ہوجائے پھر دریافت کیا گیا کہ کونسی مصیبت سخت تر ہے فرمایا دین سے ہیبت (خوف) رکھنا پھر پوچھا گیا کہ کونسا عمل خدا کے سامنے زیادہ محبوب ہے۔ فرمایا انتظار فرج ( حلال مقاربت کا انتظار)  پھر پوچھا کہ کونسا بندہ خدا

۳۶۷

کے نزدیک بہتر ہے آپ(ع) نے فرمایا ۔ زیادہ ڈرنے والا، تقوی اختیار کرنے والا اور ان( لوگوں) میں سے زاہد تر۔ پھر دریافت ہوا کہ اس دنیا میں کونسی بات خدا کو پسند ہے آپ(ع) نے فرمایا اس کا کثرت سے ذکر اور اسکی بارگاہ میں آہ و زاری۔ پھر پوچھا کہ اس(خدا) کے ہاں کونسی گفتار سچی جانی جاتی ہے۔ فرمایا یہ شہادت کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں پھر پوچھا کہ کونسا عمل خدا کے ہاں زیادہ بڑا ہے۔ فرمایا تسلیم و ورع پھر پوچھا گیا کہ کونسا بندہ گرامی تر ہے فرمایا وہ کہ جو نیک عمل کے لیے بہت زیادہ کوشش کرے۔ پھرجنابِ امیر(ع) نے اپنا رخ اس بوڑھے شخص کی طرف کیا اور فرمایا بیشک خدا نے خلق کو پیدا کیا کہ دنیا ان کی نظر میں تنگ ہے اور وہ اس دنیا اور اس کے مال سے روگرداں ہیں وہ دارالسلام کے مشتاق ہیں اور جان لو کہ خدا انہیں اس کی دعوت دے گا یہ وہ ہیں جو تنگی معاش اور ناراحتی پر صابر ہیں اور جو کچھ خدا کے پاس ان کے لیے ہے اسکے مشتاق ہیں اور راضی بہ رضا ہیں وہ شوق شہادت اور خدا سے ملاقات کا اشتیاق رکھتے ہیں اور اس پر خشنود ہیں اور جان لوکہ ایک دن موت سے ملاقات ہوگی اور انہوں نے آخرت کی خاطر سونے چاندی کو ترک کردیا اور صرفِ قوت پر صبر کیا ہے اور زیادہ (آخرت کے اجر) کو سامنے رکھا اور راہ خدا کو عزیز جانا ہے یہ بندے چراغ ہدایت اور اہل بہشت ہیں۔

اس بوڑھے آدمی نے کہا یا امیرالمومنین(ع) میں بہشت کو آپ(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب کے ہمراہ دیکھتا ہوں میں آپ(ع) ہی کی صحبت اختیار کرتا ہوں اے امیرالمومنین(ع) آپ(ع) میری راہنمائی فرمائیں اور مجھے سلاح جنگ مہیا کریں کہ میں آپ(ع) کےدشمنوں سے جنگ کروں لہذا اس شخص کو سامان حرب مہیا کیا گیا وہ بوڑھا شخص دوران جنگ نہایت شجاعت سے شمشیر زنی کرتا ہوا دشمن کی صفوں میں آگے ہی آگے بڑھتا رہا اور اپنے گھوڑے پر سوار نہایت بے جگری سے لڑا اور آخرکار شہید ہوگیا اس کی جنگ دیکھ امیرالمومنین(ع) کو تعجب ہوا پھر جنگ میں شدت آگئی اور آپ(ع) کے اصحاب نہایت بے جگری سے قتال کرتے رہے آپ(ع) کے ایک صحابی نے اس بوڑھے کی لاش کو دریافت کیا اور اس حالت میں پایا کہ اس کا گھوڑا وہیں موجود تھا جبکہ اس کی شمشیر اس کے ہاتھ میں تھی جنگ کے اختتام کے بعد اس کا جسد جناب امیر(ع) کی خدمت میں لاگیا امیرالمومنین(ع) نے اس کے لیے

۳۶۸

رحمت طلب کی اور فرمایا بخدا یہ شخص خوش بخت تھا کہ حق کے ساتھ اپنے بھائی کے لیے رحمت طلب کرتا تھا۔

۵ـ جناب جعفر بن محمد(ع) فرماتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے سعد بن معاد(رض) پر صلواة بھیجنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ جبرائیل(ع) کے ہمراہ ہزار فرشتے سعد(رض) کے لیے رحمت طلب کرتے ہیں اس لیے کہ یہ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے اور سواری کے دوران ”قل هو اﷲ “ پڑھتا تھا۔

۶ـ امام صادق(ع) نے فرمایا کسی کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ اپنی عورت کو بغیر زیور و زیبائش و آرائش اپنے گھر میں رکھے اسے چاہیے کہ عورت کو زینت دے۔ بیشک اس کے گلے میں ایک گلو بند ہی کیوں نہ پہنائے اور چاہئے کہ اس کے ہاتھ پر حنا لگائے خواہ وہ بوڑھی ہی کیوں نہ ہو۔

۷ـ امام باقر(ع) نے فرمایا روزِمحشر خدا جب بندوں کو اٹھائے گا تو ان کے سامنے ایام کو لائے گا اور لوگ ایام کو ان کے نام اور نشانیوں سے پہچانیں گے تمام دنوں میں  مقدم اور اول جمعے کا دن ہے کہ وہ قابل احترام دلہن کی مانند ہے جمعے کا روز بندے کا گواہ و نگاہ دار ہے جان لو کہ مومنین بہشتمیں جمعہ کی وجہ سے سبقت لے جائیں گے۔

۸ـ  امام باقر(ع) نے فرمایا خدا کسی مرد بیابانی کو دو دعائیہ کلمات کے صلے میں معاف فرما دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ کہے کہ۔” خدایا اگر تو مجھے عذاب دے تو میں اس کا اہل ہوں۔” خدایا مجھے معاف کردے کہ تو اس( معافی دینے) کا اہل ہے۔

۹ـ امام صادق(ع) نے فرمایا گناہ سے بڑھ کر کوئی چیز ایسی نہیں جو دل کو آلودہ کر سکے وہ دل کہ جو گناہوں سے آلودہ اور مغلوب ہوگیا ہو۔ اسفل ( دوزخ کا سب سے پست وذلیل طبقہ ) کی طرف لے کر جاتا ہے۔

جنابِ رسول خدا(ص) اور ایک یہوی نوجوان

۱۰ـ امام باقر(ع) فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نوجوان کا آںحضرت(ص) کے پاس بہت آنا جانا تھا وہ آپ(ص) کے آستانے پر خدمات بجالانے کو باعث افتخار جانتا تھا آںحضرت(ص) کبھی کبھار کسی کام کی سپرداری اسے یاد کرتے تھے اور بعض دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ وہ جنابِ رسول خدا(ص) کے لیے کوئی خط لکھ دیا کرتا تھا پھر ایک دفعہ ایسا ہوا کہ وہ آںحضرت(ص) کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا آںحضرت(ص) نے اپنے

۳۶۹

 اصحاب سے اس کی بابت دریافت کیا تو انہیں ایک صحابی نے مطلع کیا کہ میں نے اسے حالتِ موت میں گرفتار دیکھا ہے۔ جنابِ رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور اس کے گھر تشریف لے گئے آںحضرت(ص)  یہ خاص برکت رکھتے تھے کہ جس سے بھی مخاطب ہوں وہ آپ(ص) کی بات کا جواب دے آپ(ص) نے اس سے مخاطب ہوکر کہا اے جوان تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا” لبیک یا ابوالقاسم(ص)“ آپ(ص) نے فرمایا کہو ” لا الہ الا اﷲ“ اور میری رسالت کی گواہی دو اس جوان نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور خاموش رہا آپ(ص) نے دوبارہ یہی کہا اس نے پھر اپنے باپ کی طرف دیکھا اور خاموش رہا اور آپ(ص) نے تیسری بار پھر اسے اسی کا حکم دیا مگر وہ پھر اپنے باپ کی وجہ سے خاموش رہا اس مرتبہ اس کے باپ کے کہا اگر تم یہ کہنا چاہتے ہو تو کہہ دو اس جوان نے یہ سن کر کہا” میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد(ص) اﷲ کے رسول ہیں“ وہ جوان اس حالت میں رحلت اختیار کرگیا۔ جنابِ رسول خدا(ص) نے اس کے باپ سے کہا تم کمرے سے باہر چلے جاؤ پھر آپ(ص) نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ اس کو غسل و کفن دو اور میرے پاس لے آؤ تاکہ اس کی نماز جنازہ ادا کی جاسکے یہ کہہ کر آپ(ص) باہر تشریف لے گئے۔ اور فرمایا اس خدا کی حمد ہے کہ اس نے اس کے نفس کو آج میرے وسیلے سے دوزخ سے نجات بخشی۔

۱۱ـ           امام باقر(ع) نے فرمایا جو کوئی مٹی کھاتا ہوگا تو اس سے اس کے بدن میں خارش پیدا ہوگی اور بواسیر کی شکایت میں مبتلا ہوگا درد اس کے بدن میں متحرک رہے گا اور اس کے پاؤں میں سے قوت کم ہوجائے گی اس کے ہرکام کرنے کی استطاعت میں کمی واقع ہوگی اور اس کے شب و روز تندرستی کی بجائے بیماری میں بسر ہوں گے۔

۱۲ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا چار چیزیں ایسی ہیں کہ کسی کے گھر میں ہوں گی تو رخنہ ڈالیں گی اور برکت و آبادی نہیں رہے گی اول ، خیانت، دوئم چوری، سوئم شراب خوری، اور چہارم زنا۔

۱۳ـ          قسم بن ابی سعید روایت کرتے ہیں کہ  بی بی فاطمہ(س) جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں تشریف لائیں اور اپنا ضعف حال ان سے بیان فرمایا حضور(ص) نے ارشاد فرمایا اے فاطمہ(س) کیا تم جانتی ہو کہ علی(ع) میرے لیے کیا مرتبہ رکھتے ہیں جب وہ بارہ سال کے تھے تو میری نصرت کی خاطر کمر بستہ

۳۷۰

 ہوئے سولہ سال کے تھے تو انہوں نے تلوار اٹھائی۔ انیس سال کے تھے تو انہوں نے نامور پہلوانوں کو قتل کیا۔ اکیس سال کے تھے تو در خیبر کو اکھاڑا پھینکا جسے پچاس مرد بھی اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ یہ سن کر بی بی فاطمہ(س) کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اسی اثناء میں جناب علی(ع) تشریف لائے تو بی بی(س) نے ان سے فرمایا جوشرف آپ(ع) کو خدا نے بخشا ہے ہمارے لیے وہی باعث فضل و افتخار ہے۔

۱۴ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی میرے اہل بیت(ع) کی راہ میں ایک دینار  خرچ کرے خدا روز قیامت اسے اس ایک درہم کے عوض اتنا اجر عطا کرے گا کہ جیسے اس نے ایک قنطار (۱۲۰۰ درھم) خدا کی راہ میں خرچ کیا ہو۔

۱۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو شخص اپنی واجب نماز میں تاخیر کرے اس تک روز قیامت میری شفاعت نہ پہنچے گی۔

۱۶ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا جب بروز جمعہ، عصر ادا کرو تو کہو خدایا محمد(ص) اور ان کے اوصیاء اور ان کی آل(ع) پر اپنی بہترین رحمت نازل فرما اپنی بہترین برکت ان(ع) کو عطا فرما خدایا درود ہو ان پر ان کی ارواح اور ان کے اجسام پر۔ جو کوئی بھی بعد عصر اسے پڑھے گا تو خدا اس پر اپنی رحمت و برکات نازل فرمائے گا اور اس کے حساب میں ایک لاکھ بیکیاں لکھی جائین گی اس کے ایک لاکھ گناہ ختم کردیئے جائیں گے۔ اس کی ایک لاکھ حاجات پوری کی جائیں گی اور اس بندے کے ایک لاکھ درجات بلند کیے جائیں گے۔

۱۷ـ          سلیمان بن مہران کہتے ہیں کہ ایک دن میں امام صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ کچھ افراد وہاں موجود تھے امام(ع) نے ان سےفرمایا اے گروہ شیعہ ہمارے لیے زینت بنو۔ گناہوں کو اختیار کر کے ہمارے لیے باعث نگ و عار نہ بنو لوگوں سے خوش گفتاری کرو اپنی زبان کی حفاظت کرو بری بات کہنے والے نہ بنو۔ اور کم گوئی اختیار کرو۔

۱۸ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا خوش بخت ہے وہ شخص جو میری زیارت کرے اور خوش قسمت ہے وہ بندہ کہ جو اسے دیکھے جس نے مجھے دیکھا ہو۔

۳۷۱

مجلس نمبر۶۳

(۳ جمادی الاول سنہ۳۶۸ھ)

آںحضرت(ص) کی وصیت

۱ـ           جناب رسول خدا(ص) نے جناب امیرالمومنین(ع) سے فرمایا اے علی(ع) میں جو کچھ تمہیں بتاؤں اسے لکھ لو۔ جناب امیر(ع) نے فرمایا یا رسول اﷲ(ص) مجھے خوف ہے کہ کہیں اس تحریر کو میں بھول نہ جاؤں جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے علی (ع) تم بھول جانے کا خیال دل میں مت لاؤ اگر ایسا ہوا تو خداوند کریم تمہیں حافظہ عطا کرے گا اور یہ تمہیں بھولے گی مگر میں چاہتا ہوں کہ اسے ضبط تحریر میں لایا جائے تاکہ تیرے کام کو انجام دینے والے اس سے فائدہ اٹھائیں۔ جناب امیر(ع) نے دریافت کیا کہ میرے کار کے انجام دینے والے کون ہیں۔ ارشاد ہوا وہ تیرے فرزند اور امام(ع) ہیں میری امت ان سے پیاس بجھائے گی ان کی دعائیں مستجاب ہوں گی خدا ان سے بلائیں دور ہٹائے گا ان کے وسیلے سے آسمان سے رحمت کا نزول ہوگا۔ پھر جنابِ رسول خدا(ص) نے امام حسن(ع) کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ تمہاری آل(ع) میں سے پہلے امام ہیں پھر جناب امام حسین(ع) کی طرف اشارہ کر کے فرمایا بقیہ امام اس کی اولاد سے ہیں۔

۲ـ           امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ خدا نے جناب رسول خدا(ص) کی رحلت سے پیشتر ہی ان کے لیے وصیت کا اجرا فرما دیا تھا اور اسے نازل کردیا تھا۔

کہ ” اے محمد(ص)۔ تیرے بعد تیرا جانشین تیرے خاندان کا نجیب ترین فرد ہے۔ یہ تمہارے لیے وصیت نامہ ہے۔“

جناب رسول خدا(ص) نے جبرائیل(ع) سے پوچھا میرے خاندان سے نجیب ترین کون ہے جبرائیل(ع) نےکہا علی بن ابی طالب(ع) ، اس خط کو سونے کی سیل سے سر بمہر کیا گیا تھا۔ جناب رسول خدا(ص) نے یہ خط جناب امیر(ع) کے حوالے کردیا اور فرمایا میرے اوصیاء(ع) کوکہنا کہ وہ اس کی مہر کھول کر اس خط کو دیکھیں

۳۷۲

 اور جو کچھ اس میں تحریر ہو اس پر عمل کریں۔

پھر بعد از رحلت جناب رسول خدا(ص) ، جناب امیر(ع) نے اس خط کو کھولا اور اس میں درج ہدایات پر عمل کیا۔

پھر بعد از جناب امیر(ع)، امام حسن(ع) نے اس خط کوکھول کر دیکھا اور اس میں مندرج ہدایات پر عمل کیا۔

پھر بعد از جناب امام حسن(ع) جناب امام حسین(ع) بن علی(ع) نے اس خط کو کھول کر پڑھا اس میں مندرج تھا کہ اپنی اور اپنے خاندان و اصحاب کی جانیں خدا کے ہاتھ فروخت کرو اور شہادت حاصل کرو لہذا آپ(ع) نے اسی طرح ان ہدایات پر عمل کیا۔

پھر وہ خط جناب علی بن حسین(ع) نے کھولا تو اس میں مندرج تھا کہ خاموش رہو، گوشہ نشینی اختیار کرو اور اپنی موت تک عبادت خدا مشغول رہو۔ آپ(ع) نے ان ہدایات پر عمل کیا۔

پھر بعد از جناب زین العابدین(ع) وہ خط جناب محمد بن علی(ع) نےکھولا تو اس میں پایا کہ لوگوں کو تعلیم دو ان سے حدیث بیان کرو فتاوی کا اجرا کرو اور خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرو۔ علوم اہل بیت(ع) کا اجرا کرو خدا نے تم پر کسی کو مسلط نہیں کیا۔

پھر انہوں نے وہ خط میرے حوالے کردیا اور جب میں نے اسے کھولا تو اس میں پایا کہ اپنے والد کے کلام کی تصدیق کرو خدا کے علاوہ کسی سے مت درو کہ تم اس کی حفاظت و امان میں ہو اور میں نے ایسا ہی کیا ہے میں نے وہ خط موسی بن جعفر(ع) کو دیدیا ہے کہ وہ اسی طرح دوسرے اماموں (ع) تک منتقل ہوتا رہے گا تا قیام مہدی(عج)۔

۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ رسول خدا(ص) کا ارشاد گرامی ہے،میں پیغمبروں کا سردار ہوں اور میرے اوصیاء تمام اوصیاء کے سردار ہیں آدم(ع) نے خدا سے درخواست کی کہ انہیں ایک وصی عنایت کیا جائے تو خداوند نے انہیں وحی کی کہ میں نے پیغمبروں کو نبوت سے سرفراز کیا اور خلق کو برگذیدہ کیا اور میں انہیں ( پیغمبروں کو) بہترین وصی عطا کروں گا۔ پھر خدا نے آدم(ع) کو وحی کی کہ وہ شیث(ع) کو اپنا وصی بنائیں۔ آدم(ع) ہبت اﷲ ہیں۔ پھر شیث (ع) نے اپنے فرزند شبان(ع) کو( جو کہ نزلہ نامی

۳۷۳

 حوریہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے  جو بہشت سے اس لیےبھیجی گئی تھی کہ آدم(ع) اس سے اپنے فرزند کی تزویج کریں۔) کو اپنا وصی قرار دیا۔ پھر شبان(ع) نے محلث(ع) کو وصیت کی اور وصایت عطا کی۔ پھر محلث(ع) نے محوق(ع) کو پھر محوق(ع) نے عمیشا(ع) کو اور پھر عمیشا(ع) نے اخنوح(ع) کو اپنا وصی قرار دیا۔ اخنوح(ع) ( جوکہ ادریس(ع) نبی ہیں) نے اپنا وصی ناخور(ع) کو بنایا۔ ناخور(ع) نے اپنا وصی نوح(ع) کو ںوح(ع) نے سام(ع) کو سام(ع) نے عثامہ(ع) کو عثامہ(ع) نے برعیثاشا(ع) کو پھر برعیثاشا(ع) نے یافت(ع) کو پھر یافث(ع) نے برہ(ع) کو پھر برہ(ع) نے جفیسہ(ع) کو اور جفیسہ(ع) نے عمران(ع) کو اپنا وصی بنایا۔ پھر عمران(ع) نے ابراہیم خلیل اﷲ(ع) کو انہوں نے اسماعیل(ع) کو پھر اسماعیل(ع) اسحاق کو پھر اسحاق نےیعقوت(ع) کو اور یعقوب(ع) نے یوسف(ع) کو اپنا وصی مقرر کیا۔ پھر یوسف(ع) نے بشریا(ع) کو پھر بشریا(ع) نےشعیب(ع) کو پھر شعیب(ع) نے موسی بن عمران(ع) کو اپنا وصی بنایا۔ پھر موسی بن عمران(ع) نے یوشع بن نون(ع) کو یوشع بن نون(ع) نے داؤد(ع) کو پھر داؤد(ع) نے سلیمان کو اور سلیمان(ع) نے آصف بن رخیا(ع) کو آصف بن برخیا(ع) نےزکریا(ع) اور زکریا(ع) نے عیسی بن مریم(ع) کو اپنا وصی بنایا۔ پھر عیسی بن مریم(ع) نے شمعون(ع) کو پھر شمعون(ع) بن صفا(ع) نے یحی بن زکریا(ع) کو پھر زکریا(ع) نے منذر(ع) کو اپنا وصی بنایا۔ منذر(ع) سے یہ سلسلہ سلیمہ(ع) تک پہنچا پھر سلیمہ(ع) سے یہ وصایت بردہ(ع) کو پہنچی پھر بردہ(ع) نے یہ وصایت مجھ تک پہنچا دی اے علی(ع) اب یہ وصایت میں تجھے سونپتا ہوں۔ اے علی(ع) یہ وصایت تم اپنے وصی کو سونپنا کہ وہ اپنے بعد یکے بعد دیگرےآنے والے اوصیاء کو سونپے گا یہ سلسلہ تمہارے بعد بہترین اہل زمین تک پہنچے گا یہاں تک آخری امام(ع) اس سے سرفراز ہوں گے اے علی(ع) لوگ تمہارے بارے میں شدید اختلاف رکھیں گے جو شخص میری امت میں سے تمہارے وصی ہونے کے اعتقاد پر قائم رہے گا وہ ایسا ہوگا کہ وہ میرے ہمراہ رہے۔ اور کافروں کی اقامت گاہ آگ ہے۔

۴ـ ابو بصیر کہتے ہیں میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا کہ جناب یوسف(ع) تاریک کنوئیں میں کیا دعا فرمایا کرتے تھے۔ کیوںکہ ہم اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔

امام نے جواب دیا کہ جب جنابِ یوسف(ع) کو تاریک کنوئیں میں پھینک دیا گیا۔ اور وہ زندگی کی امید ختم کر بیٹھے تو انہوں نےیہ دعا مانگی۔ اے خدایا اگر میرے گناہوں اور خطاؤں نے تیرے نزدیک میرا چہرہ ذلیل کردیا ہے اور اگر میری آواز تیرے نزدیک نہیں جاتی اور تو میری کسی دعا کو

۳۷۴

 استجابت عطا نہیں کرتا تو میں تجھے  جنابِ یعقوب(ع) کے حق کا واسطہ دے کر التجاء کرتا ہوں کہ تو ان کے ضعف پررحم کر اور مجھے ان سے ملادے کیوںکہ تو جانتاہے کہ وہ مجھے کتنا چاہتے ہیں اور میری جدائی میں کتنے مغموم ہیں۔

یہاں تک فرما کر امام صادق(ع) نے گریہ فرمایا اور کہا اےخدایا میری بھی یہی التجاء ہے کہ اگر میرے گناہوں اور خطاؤں نے مجھے تیرے سامنے بے آبرو کیا ہے اور اگر تو میری خیر کے لیے کوئی فرمان جاری نہیں فرماتا کہ تیری ناراضگی سے عظیم کچھ بھی نہیں ہے تو میں خواہش رکھتا ہوں کہ تو مجھ پر پیغمبر(ص) کے حق کے واسطے رحمت نازل فرما۔ یا اﷲ ۔ یااﷲ ، امام (ع) نے فرمایا اس کا کثرت سے ورد کیا کرو کہ میں ہر بلا اور سختی میں اس دعا کو کثرت سے پڑھتا ہوں۔

۵ـ          حبیب بن ابو ثابت بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) جب اپنے  چچا ابو طالب(ع) کے جنازے میں تشریف لائے تو فرمایا اے چچا آپ(ع) میری یتیمی میں میرے پرستار تھے۔ آپ(ع) نے بچپن میں میری پرورش فرمائی اور جوانی میں میری مدد کی۔ خدا آپ(ع) کو میری طرف سے جزائے خیر دے پھر آپ(ص) نے علی (ع) کو حکم دیا کہ وہ اپنے والد(ع) کو غسل دیں۔

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا چار اشخاص بہشت میں نہ جاسکیں گے کاہن، مناق، دائم الخمر(شرابی) اور بہت زیادہ سخن چینی کرنے والا۔

۷ـ          عبداﷲ بن عمر نے دو آدمیوں کو دیکھا کہ وہ آپس میں جھگڑ رہےتھے کہ ان میں سے کس نے عمار کوقتل کیا ہے اور کون دوزخ میں جائے گا پھر وہ کہنے لگے کہ ہم نے سنا تھا کہ رسول خدا(ص) کا ارشاد ہے کہ عمار(رض) کا قاتل جہنمی ہے جب یہ خبر معاویہ تک پہنچی تو اس نے کہا کہ ہم نےعمار(رض) کو قتل نہیں کیا گو کہ میں نے ہی عمار (رض) کو یہاں بلوایا تھا۔

جناب شیخ صدوق(رح) فرماتے ہیں کہ اس بناء پر یہ لازم ہے کہ صرف قاتل کو ہی قاتل کہا جائے کیوںکہ جنابِ حمزہ(رح) کو جناب رسول خدا(ص) ہی احد میں لے کر گئے تھے اس واسطے جناب حمزہ(رض) کے قتل کی ذمہ داری معاذ اﷲ جناب رسول خدا(ص) پر عائد نہیں ہوتی۔ ( یہ بات علیحدہ کہ کس کے حکم پر جناب عمارآ(رض) کو قتل کیا گیا)

۳۷۵

۸ـ          بلال بن عیسی(ع) کہتے ہیں کہ جب عمار یاسر(رض) قتل کردیئے گئے تو لوگ حذیفہ کے پاس گئے اور کہنے لگے اے ابو عبداﷲ ، عمار یاسر(رض) کو قتل کردیا گیا ہے اور لوگ ان کے قتل کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ حذیفہ نے کہا تم لوگ میرے پاس ابھی آئے ہو مجھے پہلے بٹھاؤ پھر میں تمہیں بتاتا ہوں۔ لہذا لوگوں نے انہیں سہارا دے کر بٹھایا تو حذیفہ(رح) نے کہا میں نے جناب رسول خدا(ص) کو کہتے ہوئے سنا کہ ابو یقظان (عمار یاسر(رض)) فطرت اسلام پر ہے اور اسے (اسلام کو ) ہرگز نہ چھوڑے گا یہان تک کہ اس کی موت واقع ہوجائے۔ جناب رسول خدا(ص) نے اس بات کو تین مرتبہ دھرایا۔

۹ـ           ام المومنین عائشہ روایت کرتی ہیں کہ جناب رسول خداص(ص) نے فرمایا کہ خدا کے لیے دو کام در پیش ہوں تو عمار(رح) سخت ترین کام کو انتخاب کرتے ہیں۔

لیلة الہریر سے پہلے جناب امیر(ع) کا خطبہ

۱۰ ـ         امام محمد باقر(ع) نے فرمایا کہ جناب علی ابن ابی طالب(ع) نے بروز جمعہ لیلہ الہریر سے پہلے جنگ صفین میں یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ(ع) نے فرمایا میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اس کی کثیر نعمتوں پر جو اس نے اپنی تمام نیک و بد مخلوق کو عطا کیں۔ خواہ وہ اس کے حجج ہوں جو اس کی مخلوق کے لیے بھیجے گئے یا وہ جنہوں نے اس کی اطاعت کی اور اس پر جہنوں نے اس کی نافرمانی کو اور اس نے ان کو اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دیا۔ اور ان پر کہ جنہیں اس نےعذاب دیا باوجود ان کے گناہوں پر اقدام کرنے کے خدا اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔میں اس کی حمد کرتا ہوں کہ وہ بلاؤں کو آسان۔ نعمتوں کوظاہر۔ اور ہمارے امر دین میں استعانت کرتا ہے۔ میں اس پر ایمان لاتا ہوں اور اس پر توکل ہوں جس کے لیے وہ کافی ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ معبود بجز خدا کے کوئی نہیں ہے وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اور یہ کہ محمد(ص) اس کے بندے اور رسول(ص) ہیں جنہیں اس نے ہدایت کے لیے بھیجا اور ان کے دین سے راضی ہوں ان کی تبلیغ رسالت کی وجہ سے انہیں اور ان کے اہل بیت(ع) کو تمام بندوں پر برگذیدہ کیا اور اپنی تمام مخلوق پر انہیں حجت قرار

۳۷۶

دیا وہ رؤف و رحیم ہے کہ اس نے انہیں اپنا علم عطا کیا اور حسب و نسب میں انہیں تمام مخلوق سے افضل قرار دیا اور رکھا اور اس نے ان میں تمام خوبیوں کو یکجا کردیا اور انہیں انفرادی طور پر شجاعت و علم سے نوازا۔ وہ اپنی امت سے  ایسی محبت کرتے تھے کہ انہیں اس نے اجداد سے بری کردیا۔ (جیسا کہ حدیث میں ہے کہ میں اور علی(ع) اس امت کے دو باپ ہیں) اور اس معاہدے سے کفار اور مسلمان دونوں کو مامون کیا انہوں نے خدا کی اطاعت کی خاطر مصائب پر صبر کیا ۔ انہوں نے راہ خدا میں جہاد کیا اور جو جہاد کا حق تھا وہ انہوں نے پورا کیا انہوں نے خدا کی اتنی عبادت کی کہ یقین کامل حاصل کرلیا اور اہل زمین کے تمام نیک و بد کی عظیم ترین مصیبتوں کو دفع کر دیا۔ پھر انہوں نے تم میں خدا کی کتاب چھوڑی اور تمہیں اطاعت خدا اور گناہوں سے  بچنے کا حکم دیا تم سے جناب  رسول خدا(ص) نے عہد لیا تاکہ تم بھی اس سے روگردانی نہ کرو۔

پھر جناب امیر(ع) نے فرمایا تمہارا دشمن تمہارے لیے گڑھا کھود رہا ہے تم جانتے ہو کہ ان کا رئیس کون ہے جو انہیں باطل کی طرف دعوت دے رہا ہے تمہارے پیغمبر(ص) کا ابن عم تمہارے درمیان موجود ہے جو تمہیں اپنے نبی(ص) کی سنت اور حق پر عمل کرنے کی دعوت دے رہا ہے وہ میں ہی ہوں جو سابقون الصلواة ہے اور سوائے رسول اﷲ(ص) کے کوئی اس امر میں مجھ پر سبقت نہیں لے جاسکتا پس میرے برابر کوئی نہیں ہوسکتا خدا کی قسم میں اہل بدر میں سے ہوں خدا کی قسم تم لوگ حق پر ہو اور یہ قوم( مخالف) باطل پر ہیں،یہ کب جائز ہے کہ وہ باطل پر مجتمع ہوں اور تم حق سے پراکندہ ہو۔ ان سے جنگ کرو تاکہ تمہارے ہاتھوں ان پر خدا کا عذاب نازل ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو خدا تمہارے اغیار کے ہاتھوں انہیں عذاب دے گا۔ آپ(ع) کے اصحاب نے آپ(ع) کا جواب اطاعت میں دیا اور کہنے لگے اے امیرالمومنین(ع) ہم ہر حالت میں ان پر پیش قدمی کریں گے اور خدا کی قسم ہم آپ(ع) کے سوا کسی دوسرے کو نہیں چاہتے ہمارا جینا مرنا آپ(ع) ہی کے ساتھ ہے۔ جناب امیر(ع) نے ان کے جواب میں کہا اس کے حق کی قسم کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے، رسول خدا(ص) نےمجھے دیکھا ہے کہ میں نے کس طرح ان کی موجودگی میں شمشیر زنی کی ہے، پھر جنابِ امیر(ع) نے وہ منقبت دھرائی کہ ” کوئی شمشیر ذوالفقار کی مانند اور کوئی جوان مرد علی(ع) کی مانند نہیں ہے“ پھر آپ(ع) نے جنابِ

۳۷۷

 رسول خدا(ص) کی حدیث کہ ” اے علی(ع) تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو موسی(ع) کی ہارون(ع) سے تھی بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا اے علی(ع) تیرا جینا مرنا میرے ہی ساتھ ہے“ بیان فرمائی۔

پھر جناب امیر(ع) نے فرمایا خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں کہتا اور مجھ سے جھوٹ نہیں کہا گیا میں گمراہی اختیار نہیں کرتا اور گمراہ نہیں ہوں اور جس کی مجھے وصیت ہوئی ہے اس چیز کو میں فراموش نہیں کرتا میں اس دلیل روشن پر ہوں جو میرے پروردگار نےمیرے پیغمبر(ص) کےلیے بیان فرمائی ہے اور جو جنابِ رسول خدا(ص) نے مجھے بیان کی ہے میں راہ روشن ہوں کہ اسے قدم بہ قدم پہچانتا ہوں۔

پھر جناب امیر(ع) نے دشمن کی طرف پیش قدمی کی اور طلوع آفتاب کے وقت جنگ کا آغاز کیا یہاں تک کہ رات ہوگئی اس دن ان لوگوں کی نماز وہ تکبیر ہی تھی وہ جو باطل پر حملے کرتے وقت بلند کررہے تھے جناب امیر(ع) نے اس روز (۵۰۶) پانچ سو چھ آدمیوں کو قتل کیا اور صبح اہل شام جناب امیر(ع) سے کہنےلگے کہ جو ہم میں سے باقی ہیں ان پر رحم کریں پھر اس کے بعد نیزون پر قرآن بلند کیے گئے( رجوع کریں جنگ صفین اور واقعہ تحکیم ۔ محقق)

۱۱ـ           ابن عباس(رض) روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) کو خبر ملی کہ بعض اہل قریش اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ علی امیرالمومنین(ع) ہیں۔ آپ منبر پر تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا اے لوگو! بیشک خدا نے مجھے تم پر رسول(ص)  بنا کر بھیجا ہے۔ اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں علی(ع) کو تم پر امیر مقرر کروں۔ اے لوگو! جس کا میں نبی ہوں، علی(ع) بھی اس کے امیر ہیں خدا  نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں علی(ع) کی ولایت کے ذریعے آزماؤں۔ میں اپنے خدا کا حکم سنتا ہوں اور اس کے دستور پر عمل کرتا ہوں اس نے تم میں سے کسی کو امیر مقرر نہیں کیا ہے نہ ہی میری زندگی میں اور نہ ہی میرے بعد یہ صرف علی(ع) ہی ہیں جنہیں تم پر امیر مقرر کیا گیا ہے اور امیرالمومنین(ع) کا لقب عطا کیا گیا ہے اور ان سے پہلے یہ لقب کسی اور کوعطا نہیں کیا گیا۔ جو کچھ علی(ع) کے بارے میں مجھے حکم دیا گیا ہے وہ میں تم تک پہنچا رہا ہوں۔ جس نے اس حکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نےمیری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی۔

۳۷۸

 اور ایسا نافرمانی خدا کے سامنے کوئی عذر نہیں رکھتا ۔ اور ایسے شخص کا انجام دیسا ہی ہے جیسا کہ وہ اپنی کتاب میں بیان کرتاہے کہ ” جوکوئی خدا اور اس کے رسول(ص) کے حکم کی نافرمانی کرے گا اور اسکی حدود سے تجاوز کرے گا تو وہ اس کو ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں ڈال دے گا۔ “ ( نساء، ۱۴)

۱۲ـ          ضحاک بن مزاحم کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب(ع) کی وفات کے بعد جب انکا ذکر ابن عباس(رض) کے سامنے ہوا تو ابن عباس(رض) کے سامنے ہوا تو ابن عباس(رض) نے کہا افسوس کہ ابوالحسن(ع) دنیا سے چلے گئے، خدا کی قسم نہ ہی ان میں کسی قسم کا تغیر و تبدل پیدا ہوا اور نہ ہی انہوں نے حکم خدا سے کبھی تجاوز کیا۔ نہ ہی ان کی حیثت میں کسی قسم کی تبدیلی آئی اور نہ ہی انہوں نے کوئی مال و متاع جمع کیا۔ انہوں نے حق کے علاوہ کسی شے کو تسلیم نہیں کیا۔ اور نہ ہی خدا کے خلاف کچھ منظور کیا۔ خدا کی قسم دنیا آپ(ع) کےسامنے جوتے کے تسمے سے بھی حقیر تھی۔ وہ جنگ میں صاحب شمشیر اور مجلس میں دریائے حکمت تھے۔ افسوس کہ ایسی بلند درجہ حکمت ہم سے رخصت ہوگئی۔

۱۳ـ          حسن بن یحی دہان کہتے ہیں کہ قاضی بغداد جس کا نام سماعہ تھا کے پاس بغداد کا ایک بزرگ شخص آیا اور اس سے کہنے لگا۔ خدا قاضی کو جزائے خیر دے۔ میں گزشتہ سال حج پر گیا۔ اور واپسی پر مسجد کوفہ میں رکا تاکہ اس میں نماز ادا کروں۔ مسجد کوفہ میں میں نے دیکھا کہ ایک بیابانی عرب عورت اپنے بال اپنے چہرے پر ڈالے ہوئے ہے اور کہتی ہے کہ جو آسمان و زمین اور دنیا و آخرت میں مشہور معروف ہے  ظالمین اس کے نور کو بجھانے کی کوشش میں مصروف ہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ اس کے کام کو مٹا دیں، مشرکین کو یہ گوارا نہیں ہے کہ اس کے نام کو بلندی ملے اور اس کے نور کو تابندگی ملے میں نے اس عورت سے پوچھا کہ وہ کس کے بارے میں یہ کہہ رہی ہے اور اس طرح تعریف کررہی ہے اس عورت نے کہا کہ یہ وہی ہیں جو امیرالمومنین(ع) ہیں میں نے اسے کہا کہ کونسے امیرالمومنین(ع) تو اس نے کہا وہی امیرالمومنین(ع) جو علی(ع) بن ابی طالب(ع) ہیں اور ان کی ولایت کا انکار کسی بھی طرح روا نہیں ۔ اس بزرگ نے بیان کیا کہ میرا دھیان کسی وجہ سے دوسری طرف ہوا اور جب میں نے دوبارہ ادھر دیکھا تو کسی کو موجود نہ پایا۔

۳۷۹

مجلس نمبر۶۴

(۷ جمادی الاول سنہ۳۶۸ھ)

معرفت خدا

 ۱ـ          امام رضا(ع) نے قول خدا کہ ” چہرے اس دن خرم ہوں گے اور اپنے پروردگار کی طرف سے نگران ہیں۔“ ( قیامت ۲۳،۲۲) کی تفسیر کے سلسلے میں ارشاد فرمایا کہ اعمال صالح انجام دینے والے اس دن تاباں ہوں گے اور اپنے پروردگار سے ثواب کے منتظر ہوں گے۔

۲ـ           امام رضا(ع) نے تفسیر قول خدا کہ ” آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ تمام آنکھوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے“ ( انعام، ۱۰۳) کے سلسلے میں ارشاد فرمایا کہ ” ہم اس کو درک نہیں کرسکتے اپنی آنکھوں سے مگر دل کے ساتھ۔“

۳ـ          اسماعیل بن فضل کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے پوچھا کہ کیا روزِ قیامت خدا کو دیکھا جائیگا یا نہیںتو امام(ع) نے ارشاد فرمایا اے ابن فضل وہ دیکھنے میں نہیں آسکتا (یعنی نظریں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں) وہ اس بات سے منزہ اور برتر ہے، اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ وہ دیکھنے میں نہیں آتا بجز اس کے کہ رنگ و کیفیت رکھے ہوئے ہو۔ اور خدا رنگوں اور کیفیتوں کا پیدا کرنے والا ہے۔

۴ـ          امام رضا(ع) نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ابو حنیفہ ، امام صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک پانچ یا چھ برس کا بچہ موجود ہے(امام موسی کاظم(ع)) ، ابو حنیفہ نے ننھے امام(ع) سے مخاطب ہوکر کہا، اے فرزند رسول(ص) آپ(ع) افعال عباد کے متعلق کیا فرماتے ہیں۔امام موسی کاظم(ع) نے فرمایا بندوں کے سارے کام تین حالتوں سے خالی نہیں، یا تو یہ سارے کام تنہا اﷲ کے ہیں بندوں سے کوئی مطلب نہیں ، یا یہ سارے کام اﷲ اور بندے دونوں باہم شراکت سے کرتے ہیں، یا یہ سارے کام تنہا بندے دنجام دیتے ہیں انہیں اﷲ سے کوئی مطلب نہیں۔اب اگر سارے کام اﷲ کے ہیں اور بندوں سے کوئی مطلب نہیں تو خدا عادل ہے ظالم نہیں وہ یہ

۳۸۰