مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 297221
ڈاؤنلوڈ: 7465

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 297221 / ڈاؤنلوڈ: 7465
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 کیسے کرسکتا ہے کہ تمام کام خود کرے اور اس کی سزا اپنے ان بندوں کو دے جن بیچاروں نےکچھ کیا ہی نہیں۔ اور اگر سارے کام اﷲ اور بندوں دونوں نے مل کر شرکت میں کیے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس میں اﷲ شریک قوی ہوگا۔ تو پھر شریک قوی کو یہ حق کب حاصل ہے کہ وہ شریک ضعیف کو اس کا پر سزادے کہ جس کام کو دونوں نےمل کر انجام دیا ہے۔ اے نعمان یہ دونوں صورتیں تو محال ہیں۔ اوبوحنیفہ نے کہا جی ہاں، آپ(ع) نے فرمایا تو پھر صرف تیسری صورت باقی رہ گئی اور وہ یہ کہ تمام کام بندوں کے ہیں لہذا اگر خدا بندے کو سزا دے تو یہ بندے کے خود کردہ گناہوں کی وجہ سے ہے اور اگر معاف فرمادے تو یہ خدا کا جود وکرم ہے۔

۵ـ          ابراہیم بن ابو محمود کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا(ع) سے پوچھا یا ابن رسول اﷲ(ص)، رسول خدا(ص) کی حدیث کہ”خدا ہر شب دنیا کے آسمان پر نازل ہوتاہے“ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ امام (ع) نے اراشاد فرمایا خدا ان لوگوں پر جو اس کی بات کو تبدیل کرتے ہیں لعنت کرتا ہے، جناب رسول خدا(ص) نے اس طرح ارشاد نہیں فرمایا ۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ خدا ہر رات کے تیسرے پہر آخری وقت اور شبِ جمعہ میں اول پہر ایک فرشتے کو دنیا کے آسمان پر بھیجتا ہے اور اسے حکم دیتا ہے کہ وہ آوازے دے کہ کیا کوئی سائل ایسا ہےجسے میں عطا کردوں، کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ جس کی تونہ میں قبول کرلوں، کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے جسے میں معاف کردوں، اے خیر خواہ آتا کہ میں تیری ضرورتوں کو پورا کروں۔ اور اے بد خواہ دور ہو۔

وہ فرشتہ یہ دعوت صبح کی سفیدی نمودار ہونےتک دیتا رہتا ہے اور جب سپیدہ نمودار ہوتا ہے تو واپس اپنی جگہ ملکوت سماء میں چلا جاتا ہے میرے والد(ع) نے اپنے جد(ع) سے اور انہوں نے اپنے والد(ع) اور انہوں نے جنابِ رسول خدا(ص) سے اسی طرح سنا ہے۔

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جناب رسول خدا(ص) کا ارشاد ہے کہ جو عورت اپنےشوہر کے گھر کی اصلاح کی خاطر امور خانہ داری بہتری سے انجام دیتی ہے تو خدا اس کے اس عمل کو اپنی نظر میں رکھتا ہے اور خدا جسے نظر میں رکھے اسے عذاب نہ ہوگا۔بی بی ام سلمہ(رض) نے یہ سن کر جنابِ رسول خدا(ص) سے عرض کیا کہ تمام خوبیاں مردوں کے لیے ہی ہیں مگر

۳۸۱

 عورتوں کے لیے کیا ہے تو ارشاد ہوا کہ جو عورت حاملہ ہو( حلال مقاربت کی وجہ سے) اس کا مقام راتوں کو جاگ کر عبادت  کرنے والے اور مجاہد کے برابر ہے اور ایسا ہے کہ جیسے وہ اپنا مال راہِ خدا میں خرچ کرے پھر جب وہ بچہ پیدا کرتی ہےتو ایسا اجر رکھتی ہے کہ جس کی عظمت کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا پھر جب وہ رضاعت سے فارغ ہوتی ہے تو فرشتہ ندا دیتا ہے کہ تجھے معاف کردیا گیا ہے۔

۷ـ          امام صادق(ع)  نے فرمایا بندہ جب سجدے میں تین بار کہے ” یا اﷲ یا ربا یا سیدا“ تو خدا اس کے  جواب میں کہتا ہے ” لبیک میرے بندے اپنی حاجت مجھ سے بیان کر۔

۸ـ          امام صادق(ع) فرماتے ہیں اگر کسی میں یہ تین چیزیں موجود نہ ہوں تو ہرگز اس سے خیر کی امید نہیں رکھنی چاہیئے۔

اول : وہ بندہ پوشیدہ طور پر خدا سے نہ ڈرے۔ دوئم : وہ کہ جو بڑھاپے میں گناہوں سے ہراساں نہ ہو۔ اور سوئم : وہ کہ جو عیب پر شرمندہ نہ ہو۔

۹ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جناب رسول خدا(ص) کا ارشاد ہے کہ جو شخص اپنے گناہوں کی سزا دنیا میں کاٹ لے وہ بہشت میں اپنی عورتوں اور اپنے بھائیوں کےساتھ رہےگا۔

۱۰ـ          جناب علی بن ابی طالب(ع) کا ارشاد ہے کہ روز قیامت بندے نے ابھی اپنے سر سے خاک بھی نہ جھاڑی ہوگی کہ دو فرشتے آئیں گے اور اسے پکڑ کر کہیں گے کہ رب العزت کو قبول کرو (یعنی توحید کا اقرار کرو)

۱۱ـ           ابوہاشم جعفری بیان کرتے ہیں کہ میں ابوالحسن علی بن محمد(ع) کی خدمت میں اس طرح حاضر ہوا کہ میں سخت تنگی میں تھا انہوں نے مجھے شرف ملاقات بخشا میں بیٹھ گیا تو انہوں نے فرمایا اے بو ہاشم کیا یہ چاہتے ہو کہ خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرو میں نے عرض کیا کہ میں نہیں جانتا کہ اس سلسلے میں کیا کہوں، تو ارشاد فرمایا اس نے ایمان کو تیرے رزق کا وسیلہ قرار دیا اور اسی وسیلے سے تیرے تن پر آگ کو حرام قرار دیا، تجھے تندرستی عطا کی اور اطاعت پر تیری مدد فرمائی تجھے قناعت دی اور آبرو فروشی سے تیری حفاظت فرمائی۔ اے ابو ہاشم میں نے اپنی گفتگو کا آغاز اس طرح اس لیے

۳۸۲

 کیا  کہ تم جان لو کہ اسی نے تمہیں یہ دستور دیا ہے کہ مجھ سے اپنی حاجت بیان کرو پھر آپ(ع) نے حکم دیا کہ مجھے سو اشرفیاں دی جائیں۔ جو مجھے دے دی گئیں۔

طریقہ نماز

۱۲ـ          حماد بن عیسی(ع) کہتے ہیں کہ ایک دن امام صادق(ع) نے مجھ سے فرمایا کیا تم درست طریقے سے نماز پڑھ سکتے ہو۔ میں نے عرض کیا میرے مولا مجھے تو نماز حفظ ہوگئی ہے، آپ(ع) نے فرمایا اٹھو اور مجھے دکھاؤ کہ تم کیسے نماز پڑھتے ہو۔ میں آںحضرت(ع) کے سامنے قبلہ رو کھڑا ہوا تکبیر نماز کہی اور رکوع و سجود بجالایا جب میں نماز سے فارغ ہوگیا تو امام(ع) نے فرمایا اے حماد تم نے نماز اچھے طریقے سے ادا نہیں کی کتنے افسوس کی بات ہے کہ تمہاری عمریں ساٹھ ، ساٹھ، ستر ،ستر سال کی ہوگئی ہیں مگر تمہاری نماز ابھی تک درست نہیں ہوسکی حماد کہتے ہیں کہ یہ بات سن کر مجھے دل میں نہایت ندامت وشرمندگی ہوئی میں نے عرض کیا یا ابن رسول اﷲ(ع) میں آپ(ع) پر قربان مجھے بتائیں کہ میں درست نماز کیسے ادا کروں۔

تب امام صادق(ع) رو بہ قبلہ کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ رانوں پر بالکل سیدھے لٹکائے اور ہاتھوں کی انگلیاں ملالیں۔ اپنے دونوں پیروں کا رخ سیدھا قبلہ رو کردیا اورپھر سانس لیا اور توقف کیا اور سیدھے کھرے رہے پھر دونوں ہاتھ چہرے تک لا کر” اﷲ اکبر“ کہا اور رکوع میں چلے گئے آپ(ع) کی دونوں ہتھیلیوں کی انگلیاں کھلی ہوئی تھیں۔ اور ہاتھوں نے دونوں گھٹنوں کو پیچھے کی طرف دبایا ہوا تھا۔ پشت مبارک بالکل سیدھی اور سر اس کی سطح کے برابر اور نظروں کو جھکایا ہوا تھا رکوع میں پشت اس قدر سیدھی تھی کہ اگر اس پر پانی کا قطرہ گرجاتا تو حرکت نہ کرتا پھر آپ(ع) نے تین بار ”سبحان ربی اﷲالعظیم و بحمدہ“ کہا پھر آپ(ع) سیدھے کھڑے ہوئے اور ” سمیع اﷲ لمن حمدہ“ کہہ کر کھڑےکھڑے ہی تکبیر کہی اور ہاتھوں کو کانوں تک بلند کیا اور سجدے میں گئے اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں باہم ملا کر ان کا رخ قبلہ رو کر کے اپنے دو زانو کے سامنے ہتھیلیاں رکھیں اور سجدہ کیا آپ(ع)

۳۸۳

نے دوران سجدہ تین بار” سبحان ربی الاعلی و بحمدہ“ کہا اور اس طرح سجدہ کیا کہ بدن کا کوئی حصہ دوسرے سے ملا ہوا نہ تھا۔ آپ(ع) نےسجدہ آٹھ اعضا پر کیا، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں، پیروں کے دوںوں انگوٹھے پیشانی اور ناک اور پھر مجھے فرمایا دوران سجدہ سات اعضاء خاک پر رکھنا واجب ہے جب کہ ناک کا خاک پر رکھنا سنت ہے۔

پھر آپ(ع) نے اپنے سر کو سجدے سے اٹھایا اور سیدھے بیٹھ گئے اور ” اﷲ اکبر“ کہا پھر اپنی بائیں ران پر وزن دے کر بیٹھ گئے اور دائیں پاؤں کی پشت بائیں پیر کے تلوے پر رکھی اور فرمایا ” استغفر اﷲ ربی و اتوب الیہ“ پھر بیٹھے بیٹھے تکبیر کہی اور دوسرا سجدہ کیا جو کہ پہلے کی مانند تھا اور بدن کا کوئی حصہ دوسرے سے ملا ہوا نہ تھا دوران سجدہ آپ(ع) نے اپنی کہنیوں کو زمین سے لگنے نہ دیا۔ اس طرح طریقہ سے دو رکعات نماز ادا کرنے کے بعد آپ(ع) نے تشہد ادا کیا کہ ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں ملی ہوئی تھیں۔ جب تشہد سے فارغ ہوئے تو سلام کیا اور فارغ ہونے کے بعد فرمایا اے حماد اس طرح نماز پڑھ، دوران نماز اپنی انگلیوں سےمت کھیل۔ ادھر اُدھر مت دیکھ اور تھوک مت پھینک۔ یہ ہے راست نماز۔

 جناب امیر(ع) اور ایک منجم

عبداﷲ بن عوف بن احمر کہتے ہیں کہ جب امیرالمومنین(ع۹ نہروان کی جانب روانہ ہونے لگے تو ان کی خدمت میں ایک منجم آیا اور کہنے لگا اے امیرالمومنین(ع)آپ(ع) اس ساعت کوچ کا ارادہ ملتوی کردیں اور کوچ کا ارادہ تین ساعت بعد کریں جناب امیر(ع) نے اس سے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے تو اس نے کہا کہ علم نجوم کی رو سے اگر آپ(ع) اس ساعت روانگی اختیار فرمائی تو آپ(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب سختی و مصیبت میں گرفتار ہو جائیں گے لیکن اگر آپ(ع) تین ساعت بعد نہروان کو روانہ ہوں تو کامیاب و کامران لوٹیں گے۔

جناب امیر(ع) نے اس سے فرمایا کیا تو جانتا ہے کہ کسی جاندار کے شکم میں کیا ہے نر ہے یا مادہ اس نے کہا کہ میں حساب لگا کر ایسا بتا سکتا ہوں۔ جناب امیر (ع) نے اس سے فرمایا کیا تجھے کسی

۳۸۴

نے باور کروایا ہے اور قرآن کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ جو کچھ تو کہتا ہے جھوٹ ہے، سن خدا فرماتا ہے ” بیشک خدا کے پاس ہے  علم اس ساعت کا اور وہ بارش کو نیچے بھیجتا ہے“ (لقمان، آخری آیت) کوئی بندہ نہیں جان سکتا کہ کسی جاندار کے شکم میں کیا ہے وہ نہیں جان سکتا کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے اور کسی انسان کی موت کسی خطہء زمین پر واقع ہوگی بیشک صرف خدا ہی جانتا ہے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے اور انسان کی موت کس خط زمین پر واقع ہوگی اور جس چیز کا دعوی کررہا ہے اس کا دعوی تو رسول خدا(ص) نے بھی نہیں کیا جب کہ تیرا یہ دعوی ہےکہ تو اچھا یا برا وقت بتلا سکتا ہے۔ جوشخص بھی تیری بات پر اعتبار کرے وہ ایسا ہے کہ وہ خدا کی مدد پر ایمان نہیں رکھتا اور کسی مسئلہ میں وہ تجھ سے اچھائی کا طلب گار ہے۔ شاید وہ اپنے رب کی بجائے تیری حمد کرے جو کوئی تیری باتوں پر ایمان لائے اس نے تجھے خدا کے برابر اچھائی یا برائی دینے والا جانا ہے پھر جناب امیر(ع) نے ارشاد فرمایا ” خدایا کوئی فال بد نہیں بجز اس کے کہ تو اسے بدگردانے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں اس نجومی کی تیرے سامنے کیا حیثیت ہے“ پھر نجومی سے آپ(ع) نے فرمایا ہم تیری تکذیب کرتے ہیں اور جس ساعت کو  تو برا کہہ رہا ہے اسی میں ہی روانہ ہونے لگے ہیں۔

۳۸۵

مجلس نمبر۶۵

(۹جمادی الاول سنہ۳۶۸ھ)

حرمت کے بارے میں

۱ـ           محمد بن مسلم ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے شراب کی حرمت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جناب رسول خدا(ص) کا ارشاد گرامی ہے کہ لوگوں کے بارے میں جس پہلی چیز کو منع کرنے کا خدا نے مجھے حکم دیا وہ شراب اور بت پرستی تھی بیشک خدا نے مجھے رحمتہ العالمین بناکر مبعوث فرمایا۔ اور میں تاریکی دور کرنے والا اور امور جاہلیت یعنی آلات موسیقی۔ بت پرستی اور ان کی بدعتوں کا قطع کرنے والا ہوں میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو شخص شراب جور ہے خدا اسے روز قیامت اسی (شراب) کی مانند حمیم پلائے گا اور اسکے بعد اسے عذاب دیا جائے گا چاہے اسے بقیہ گناہوں سے معاف ہی کیوں نہ کردیا جائے پھر آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ شرابی کے ساتھ نشست و برخاست مت رکھو نہ ہی اسے رشتہ دو اور نہ ہی اس  سے رشتہ لو اگر وہ بیمار ہو تو اس کی مزاج پرسی نہ کرو اور اگر مرجائے تو اس کا جنازہ تشیع نہ کرو اور شرابی کو روزِ قیامت اس طرح حاضر کیا جائے گا کہ اس کا چہرہ سیاہ اور آنکھیں دھنسی ہوئی ہوں گی اس کے آبِ دھن سے غلاظت جاری ہوگی اور اس کی زبان کھینچ کردہن سے باہر لٹکی ہوگی اور سر کی پشت تک پہنچی ہوگی۔

۲ـ           ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ امام باقر(ع) نے فرمایا اے زیادہ کہیں ایسا نہ ہوکہ فساد میں پڑ کر اپنے مالک کو شک کی بنا پر قتل کردو۔ بعض افعال ایسےہوتے ہیں جن کی انسان کو معافی نہیں ملتی ، اے زیادہ گذشتہ زمانے میں ایسے لوگ گذرے ہیں کہ جو علم انہیں عطا کیا گیا تھا وہ اسے چھوڑ کر ایسے علم کے پیچھے چل پڑے کہ جس نے انہیں سرگردان کردیا اور انہوں نے خدا کے متعلق بحث کرنا اپنا شعار بنالیا یہاں تک کہ وہ ایسی حالت میں ہوگئے کہ ان سے دریافت کیا جاتا تھا اور جواب وہ کچھ دیتے تھے۔(یعنی بے دین و گمراہ ہوگئے)

۳۸۶

۳ـ          امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ تم خدا کے بارے میں تردد کا شکار ہو جاؤ جان لو کہ خدا کے بارے فکر میں گمراہی کوئی اضافہ نہیں کرتی، بیشک آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا دین کا تمسخر مت اڑاو کہیں ایسا نہ ہوکہ یہ خدا کی یاد کو دل سے نکال دے اور باعث کینہ و نفاق بن جائے اور تم باطل کی طرف چلے جاؤ۔

۵ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا جب خدا نے عقل خلق کی تو اسے اپنے سامنے حاضر ہونے کا حکم دیا جب وہ حاضر ہوئی تو اسے کہا قریب آؤ جب وہ آئی تو اسے کہا پیچھے جاؤ جب وہ پیچھے چلی گئٰی تو اس سے ارشاد فرمایا مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے میں نے اپنی خلق میں تم سے زیادہ محبوب کسی کو پیدا نہیں کیا میں نے تجھے راہ کمال پر رکھا اور تجھے اپنا دوست بناتا ہوں آگاہ ہو جا کہ میں ہی تجھے حکم دوں گا اور منع کروں گا اور میں ہی تجھے عذاب و ثواب دوں گا۔

ثواب بمطابق عقل

۶ـ           سلمان دیلمی کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے کسی شخص کے دین و عبادت اور فضل کی تعریف کی، تو امام صادق(ع) نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اس شخص کی ذہنی استطاعت کیسی ہے میں نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا، امام (ع) نے فرمایا کہ ہر کسی کے ثواب کی مقدار اس کی عقل کے مطابق ہوا کرتی ہے پھر امام(ع) نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جو کہ بہت عبادت گذار تھا وہ ایک جزیرے میں عبادت کیا کرتا تھا وہ جزیرہ نہایت سرسبز شاداب تھا اور اس میں صاف و شفاف پانی کے چشمے رواں اور پھل دار درختوں کی کثرت تھی اور جزیرے کی آب و ہوا بہشت اچھی تھی ایک مرتبہ ایک فرشتے کا گذر وہاں سے ہوا اسفرشتے کو اس شخص کا کمال عبادت نہایت پسند آیا اور تو اس(فرشتے) نے خدا سے گذارش کی کہ مجھے اس شخص کے ثواب کی مقدار کے بارے میں بتایا جائے جب خدانے اس فرشتے کو اس شخص کے ثواب کی مقدر بتائی تو وہ اسے اسکی عبادت کے مقابلے میں کم لگی اس پر خدا نے اس فرشتے کو وحی کی کہ اس شخص کے ساتھ رہو۔ وہ فرشتہ انسانی

۳۸۷

صورت میں اس شخص کے پاس آیا عابد نے اس سے کہا تو کون ہے فرشتے نےکہا کہ میں ایک عبادت گزار ہوں میں نے تیری عبادت کی تعریف سنی تو چاہا کہ تیرے سے پاس رہ کر عبادت کروں دوسری صبح اس شخص سے فرشتے نےکہا کہ تیرا یہ مکان بہت خوبصورت اور اس لائق ہے کہ اس میں رہ کر عبادت کی جائے اس آدمی نے فرشتے سے کہا یہ اچھا تو ہے مگر اس میں ایک عیب ہے فرشتے نے کہا وہ کیا تو کہنے لگا کہ ہمارے خدا کا کوئی گدھا یہاں نہیں ہے جو اس گھاس کو چرتا اور وہ ضائع نہ ہوتی اسی وقت خدا نے اس فرشتے کو وحی کی کہ میں اس کا ثواب اس کی عقل کے مطابق دیتا ہوں پھر امام صادق(ع) نے فرمایا کہ رسول خدا(ص) ہر شخص کےساتھ اس عقل کے مطابق بات کرتے تھے پھر امام نے فرمایا کہ جناب رسول خدا(ص) کا ارشاد ہے کہ ہم گروہ پیغمبران(ع) یہ دستور رکھتے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ ان کی ذہنی استطاعت کے مطابق بات کریں۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا اصول کفر تین ہیں حرص، تکبر اور حسد۔ حرص یہ تھی کہ اس نے آدم(ع) کو شجر ممنوعہ سے پھل کھانے پر مجبور کیا تکبر یہ تھا کہ جب ابلیس کو حکم دیا کہ وہ آدم(ع) کو سجدہ کرے تو اس نے تکبر کی بنا پر انکار کیا ۔ اور حسد یہ تھا کہ جب آدم(ع) کے بیٹوں نے ایک دوسرے سے حسد کیا تو ایک نے دوسرے کو قتل کردیا۔

۹ـ           جناب علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا جھوٹ میں صلح و آشتی نہیں ہے، یہ بھی روا نہیں ہےکہ کوئی اپنے بچے سے وعدہ کرے اور پھر اسے وفانہ کرے، جھوٹ رہبر ہرزگی ہے اور ہرزگی رہبر دوزخ۔ تم میں سے کچھ ایسے ہیں جو کہ پیٹھ پیچھے جھوٹ کہتے ہیں تاکہ کسی کو جھوٹا اور ہرزہ گو شمار کریں اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو کسی کے بارے میں اس لیے جھوٹ کہتے ہیں کہ اس کی تمہارے دل میں جو جگہ ہے اسے خاکستر کردیں۔ ایسے کو خدا کے نزدیک کذاب کا نام دیا گیا ہے۔

۱۰ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کسی کو برا نہ کہنا تاکہ تجھے برا نہ کہا جائے کسی کے لیے کنواں نہ کھودو کہیں خود ہی اس میں گرجائے کہیں ایسا نہ ہو کہ بدی کا یہ ہاتھ تجھے ہی لےلے۔

۱۱ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا مجلس میں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرنا عبادت ہے  یہاں تک کہ تم سے غیبت واقع ہو۔

۳۸۸

۱۲ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی خدا کا حوالہ دیکر بات کرے اور کہے کہ خدا فلاں چیز جانتا ہے مگر پھر وہ شخص جھوٹ کا سہارا لے تو ایسے کے لیے خدا فرماتاہے کہ تم میرے سوا کسی اور سے نہیں پاتے کہ جھوٹ باندھو۔

۱۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا تم جس چیز کو نہیں جانتے اور کہتے ہو کہ خدا جانتا ہے(یعنی خدا کا حوالہ دیکر جھوٹ بولتے ہو) تو عرش اس وقت عظمت خدا سے ہل جاتا ہے۔

۱۴ـ          زرارہ بن اعین کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر(ع) سے پوچھا کہ خدا کا بندوں پر کیا حق ہے تو آپ(ع) نے فرمایا کہ وہ (بندہ) جو چیز جانتا ہو بیاں کرے اور جو نہ جانتا ہو اس سے توقف کرے۔

۱۵ـ امام صادق(ع) نے فرمایا بیشک خدا نے قرآن میں دو آیات اپنے بندوں کی سرزنش میں نازل فرمائی ہیں کہ  وہ کوئی چیز نہ بیان کریں جب تک کہ اسکے بارے میں انہیں مکمل علم حاصل نہ ہوجائے خدا فرماتا ہے”آیا مندرج کتاب میں ان سے پیمان نہیں لیا گیا کہ وہ نہ کہیں، خدا پر جس کا حق نہیں ہے“ (اعراف ، ۱۶۹) اور آیت دوئم یہ کہ ” بلکہ تکذیب کرتے ہیں ( اسکی ) جو ان کے علم میں نہ تھا اور ابھی تک اس کی تاویل ان تک نہیں پہنچی “ ( یونس، ۲۹)

۱۶ـ          ابن شبرمہ کہتے ہیں کہ جو حدیث میں نے امام صادق(ع) سے سنی اس نے میرے دل کی غم سے پھاڑ دیا میں نے سنا کہ امام صادق(ع) نے فرمایا کہ میرے جد رسول خدا(ص) کا ارشاد ہے۔ ( ابن شبرمہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم امام(ع)نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہی آپ(ع) کے والد گرامی(ع)  نے کبھی جناب رسول خدا(ص) پر جھوٹ باندھا) کہ جو کوئی قیاس کا سہارا لے کسی فعل و عمل کو انجام دے گا وہ ہلاک ہوگا اور ہلاک کرے گا جو کوئی لوگوں کو( قیاس سے ) فتوی دے اور ناسخ کو منسوخ سے اور محکم کو متشابہ سے نہ پہچانے وہ ہلاک ہے اور ہلاک کرنے والا ہے۔

۱۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ عیسی بن مریم(ع) بنی اسرائیل کو خطبہ دیا، آپ(ع) ( عیسی(ع) نے فرمایا اے بنی اسرائیل حکمت کی باتیں نادانوں ( نااہل لوگوں) سے مت کرو کہ یہ ستم ہوگا اور حکمت کی بات اس کے اہل سے مت چھپاؤ کہ یہ بھی ستم ہوگا۔

۱۸ـ          طلحہ بن زید کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا جو بندہ بغیر معرفت کے کوئی عمل کرے وہ

۳۸۹

 اس بندے کی طرح ہے جو بے راہ چلے۔

۱۹ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا خدا اس عمل کو قبول نہیں کرتا جو بغیر معرفت کے ہو اور معرفت یہ نہ ہوگی بجز اس کے اس پر عمل کرے، جو کوئی معرفت حاصل کرے اس کی راہنمائی عمل سے ہے اور جو کوئی عمل نہیں رکھتا اسے معرفت حاصل نہیں ہے اور ایمان ہر تقسیم سے دوسری تقسیم کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔

۳۹۰

مجلس نمبر۶۶

(۱۳ جمادی الاول سنہ۳۶۸ھ)

جناب رسول خدا(ص) کے نصائح

۱ـ           جناب امیرالمومنین(ع) نے فرمایا کہ جناب رسول خدا(ص) نے مندرجہ ذیل باتوں کی نصیحت کی اور منع فرمایا۔ جنابت کی حالت میں کھانے سے کہ یہ باعث فقر ہے۔ دانتوں سے ناخن کاٹنے سے حمام میں مسواک کرنے سے۔ مساجد میں سستانے اور سونے سے گرم کھانا کھانے سے مسجد میں سے بلا ضرورت گزرنا مگر یہ کہ دو رکعت نماز پڑھی جائے اور آپ(ص) نے منع فرمایا کہ میوہ دار درخت کے نیچے پیشاب مت کرو راستوں پر اور ان کے کناروں پر بھی پیشاب کرنے سے منع فرمایا پھر بائیں ہاتھ سے کھانا قبرستان میں ہنسنے اور نماز پڑھنے کو بھی منع فرمایا آپ(ص) فرمایا جو کوئی کھلے آسمان تلے غسل کرے اپنے عورتیں کو چھپائے، دستے والے برتن کے دستے کی طرف سے پانی نہ پیئے کہ دستے میں میل پھنسا ہوتا ہے، کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے کہ اس عقل سلب ہوجاتی ہے ایک پاؤں میں جوتا پہن کر چلنے سے، آسمان تلے سورج و چاند کی موجودگی میں عریاں ہونے سے اور آپ(ص) نے منع فرمایا کہ قبلہ رو ہوکر پیشاب نہ کیا جائے، مصیبت کے وقت گریہ و زاری سے آپ(ص) نے کانوں کا ہاتھ لگایا اور پھر فرمایا کہ عورتوں کو منع ہے کہ وہ جنازے کے پیچھے قبرستان تک جائیں پھر آپ(ص) نے فرمایا کہ کلمہ قرآن کو لعاب دہن سے صاف نہ کیا جائے اور آب دہن سےکوئی قرآنی آیت نہ لکھی جائے اور آپ(ص) نے منع فرمایا کہ کوئی شخص کوئی جھوٹا خواب گھڑ کر کسی کو نہ سنائےکہ خدا تعالی اسے حکم دے گا کہ پانی میں گرہ لگائے اور چونکہ وہ نہیں لگاسکے گا تو ایسے شخص کو روزِ قیامت خدا تعالی عذاب دے گا اور آپ(ص) نے سختی سے بت تراشی کو منع فرمایا اور فرمایا کہ جو کوئی مورت( مجسمہ)بنائے گا خدا تعالی اسے روز قیامت اس مورت میں روح پھونکنے کا حکم دے گا اور چونکہ یہ اس سے نہ ہوسکے گا لہذا عذاب کا حق دار ٹھہرایا جائے گا۔ آپ(ص) نے فرمایا کہ کسی جاندار کو

۳۹۱

 آگ میں نہ جلاؤ اور فرمایا کہ اذان دینے والے مرغ کے بارے میں برا مت کہو کہ وہ نماز کے لیے بیدار کرتا ہے اور اپنے برادرِ دینی کے معاملات میں دخل اندازی مت کرو اور بوقتِ جماع باتیں مت کرو کیونکہ خطرہ ہے کہ اس سے جو بچہ پیدا ہوگا وہ گونگا ہوگا پھر آپ(ص) نے عورتوں کو شوہر کی اجازت کے بغیر باہر جانے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ اگر اس طرح عورت باہر جائے تو تمام جن و انس و فرشتے جن کا گزر وہاں سے ہو اس پر لعنت بھیجیں گے یہاں تک کہ وہ اپنے گھر واپس آئے، اس بات کی ممانعت فرمائی کہ عورت سوائے اپنے شوہر کے کسی کے لیے زینت کرے اور اگر ایسا کرے گیتو اسے جہنم میں جلانا خدا پواجب ہے پھر فرمایا کہ عورت غیرمحرم سے پانچ ضروری کلمات سے زیادہ بات نہ کرے اس سے بھی منع فرمایا کہ عورتیں اس حال میں سوئیں کہ ان کے درمیان کوئی کپڑا حائل نہ ہو۔ اور دو عورتوں کا اپنے شوہروں کے راز ایک دوسری کو کہنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ قبلہ رو ہوکر اور راستے کے درمیان جماع نہ کیا جائے کہ ایسا کرنے والے پر خدا اور ملائکہ لعنت بھیجتے ہیں۔ اورپھر منع فرمایا کہ کوئی مرد دوسرے مرد کو کو کہے کہ اپنی عورت کو مجھ سے بیاہ دو اور میری عورت سے تم شادی کر لو۔ اور اس سے کو فال نکلوا کر پیش بینی کی جائے ایسا شخص جو کچھ مجھ پر نازل ہوا ہے اس سے بیزار ہے، آپ(ص) نے منع فرمایا شطرنج گوٹ، چوسر وغیرہ کھیلنے اور آلاتِ موسیقی کے سننے اور استعمال گوئی کرنے والا کبھی جنت میں نہ جائے گا۔ منع فرمایا فاسقون کی دعوت قبول کرنےسے انکا کھانا کھانے سے  اور جھوٹی قسم سے، آپ(ص) نے فرمایا جھوٹی قسم شہروں کو ویران کردیتی ہے اور جو کوئی جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا مال لےلے اس پر خدا روزِ ملاقات غضبناک ہوگا مگر یہ کہ توبہ کرے اور واپس پلٹے۔ اور فرمایا کہ اس دستر خوان شہر پر مت بیٹھے جس پر شراب ہو اور منع فرمایا کہ شوہر اپنی زوجہ کو حمام میں جانے کی اجازت کسی ایسے شہر میں دے کہ جہاں حمام میں جانے کی ضرورت نہ ہو۔ اور حمام میں برھنہ جانے سے منع فرمایا اور نہی کی گفتگو سے اور ایسی دعوت سے جو بغیر خدائی کاموں سے ہو۔ اور ریشم کے کپڑے کو مردوں کے لیے منع فرمایا ہاں مگر عورت کے لیے استعمال کی اجازت ہے آپ(ص) نے منع فرمایا کہ کچا پھل نہ بچا جائے یہاں تک کہ مکمل پک جائے

۳۹۲

 اور خرمہ تازہ کے بدلے چھو ہارے اور انگور جو ابھی درخت پر ہی ہیں کے ہم وزن کشمش لینے سے بھی منع فرمایا آپ(ص) نے فرمایا جو کوئی شطرنج گوٹ یا چوسر بیچتا ہے تو اس کی کمائی اس طرح ہے کہ جس طرح خنزیز کا گوشت کھایا اور شراب خریدنا بیچنا اور پلانا بھی اسی کی مانند ہے آپ(ص) نے فرمایا کہ خدا نے لعنت بھیجی ہے اس پر کہ جو اسے خریدے بیچے یا پلائے کہ یہ فساد پھیلانے اور قتل برپا کرنے والی چیز ہے آپ(ص) نے فرمایا جو کوئی اسے پیئے اس کی نماز چالیس روز تک قبول نہ ہوگی اور اگر ایسی حالت میں مرجائے کہ اس کے شکم میں یہ موجود ہو تو خدا پر حق ہے کہ اسے عذاب دے اور یہ اہل درزخ کا خون اور پیپ ہے پھر فرمایا کہ جو کچھ عورتوں کی اندام نہانی سے باہر آتا ہے وہ دوزخ کی دیگوں میں ہوتا ہے جسے وہ (دوزخی) پیتے ہیں آپ(ص) نے منع فرمایا جھوٹی گواہی سے سود لینے سے، اور سود کھانے سے کہ اس کے ادا کرنے لینے اور اس (سود) پر دو گواہوں کو مقرر کرنے پر خدا لعنت کرتا ہے اور ایسی خرید و فروخت جو کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر کی جائے اور ایسا لین دین کہ جس پر گواہ مقرر نہ کیے جائیں اور ضمانت نہ لی جائے سے بھی منع فرمایا آپ(ع) نے یہودی، آتش پرست و مجوسی وغیرہ سے مصافحہ کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ مسجد میں تلوار کھینچنا ( قتل و غارت گری) اور گم شدہ مال کا اعلان کرنا منع ہے۔ حیوانات کے چہرے پر ضرب لگانے اور عورت کا دوسری عورت کے ستر نگاہ کرنے سے بھی منع فرمایا کہ اپنے مسلمان بھائی کی شرم گاہ پر نگاہ رکھنے والے پر ستر ہزار ملائکہ لعنت بھیجتے ہیں آپ(ص) نے منع فرمایا کہ خوراک کو ضائع نہ کیا جائے اور کھانے کی چیزوں پر، پینے والے پانی اور سجدے کی جگہ پر پھونک نہ ماری جائے اور قبرستان میں راستے کے بیچ میں۔ اور جہاں چکیاں چلتی ہیں،ندیوں کے پیٹے میں اور ان مقامات پر جہاں اونٹ بندھے ہوں اور بام کعبہ پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔ اور شہد کی مکھی کا مارنے اور حیوانات کے چہرے کو داغنے سے بھی منع فرمایا۔ اور یہ خدا کی قسم کے علاوہ کسی کی قسم نہ کھائی جائے اور جو کوئی خدا کی قسم کے علاوہ کوئی قسم کھائے اس کی خدا کی نظر میں کوئی وقعت نہیں ہے، آپ(ص) نے قرآن کی سورتوں کی قسم کھانے سےمنع فرمایا اور فرمایا کہ جو کوئی قرآن کی ایک سورہ کی  قسم کھائے اس پر قرآن کی ہر آیت کی تعداد کے برابر قسم ہے ( کفارہ ہے) لہذا اب یہ بندے پر ہے کہ وہ اگر چاہے

۳۹۳

 تو ایسی قسم ادا کرے اور منع فرمایا کہ مسجد بحالت جنابت جایا جائے اور یہ کہ دن یا رات میں کسی وقت بھی برہنہ ہو کر بیٹھا جائے بدھ اور جمعہ کے دن پچھنے لگانے کی ممانعت فرمائی۔

اور ایسے شخص کے لیے ارشاد فرمایا کہ وہ جمعہ نہیں رکھت ( یعنی اس کا جمعہ قبول نہیں ہوتا) جو امام کے جمعے کے خطبے دوران لغو بات کرے۔ آپ(ع) نے فرمایا کہ سونے کی انگوٹھی اور ایسی انگوٹھی کہ جس میں جانداروں کے نقش بنے ہوں یا لوہے کی انگوٹھی نہپ پہنی جائے اور پیتل کی انگوٹھی سے بھی منع فرمایا۔ پھر فرمایا کہ جس وقت طلوع آفتاب ہوچکا ہو تب اور زوال اور غروب آفتاب کے وقت نماز نہ پڑھی جائے اور ان چھ (۶) دنوں کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا، بروز عید الفطر، بروز عید قربان اور ایام تشریق(۱۱ تا ۱۳ ذالحجہ ) اور وہ کہ جس دن ماہ رمضان کے شروع ہونے میں شک ہو۔

پھر فرمایا کہ حوض وغیرہ سے جانوروں کی طرح پانی مت پیئو۔ فرمایا ہاتھ سے پانی پیو کہ یہ تمہارا برتن ہے اور کنویں کے بارے فرمایا کہ اسے برامت کہو کیونکہ یہ پانی مہیا کرتا ہے اور مزدور کی مزدوری کے بارے میں فرمایا کہ اجرت طے کیے بغیر مزدور کام کی حامی نہ بھرے اور اپنے برادر دینی سے تین دن سے زیادہ ناراضگی و قطع تعلقی سے منع فرمایا اور یہ کہ اس سے زیادہ قطع تعلقی کرنے والا دوزخ کے لائق ہے پھر نصیحت کی کہ سونے کے بدلے سونا اور چاندی کے بدلے چاندی بڑھا کر فروخت نہ کی جائے بلکہ یہ دونوں دھاتیں مساوی الوزن فروخت کی جائیں۔

اس بات سے منع فرمایا کہ منہ پر تعریف کی جائے کہ ایسی تعریف کرنے والوں کے چہرے خاک پر ہوں گے اور یہ کہ جو ظالم کی وکالت یا اس کی مدد کرے تو ایک فرشتہ آکر اسے خوشخبری دے گا کہ تیرے لیے خدا نے جہنم کی آگ تیار کر چھوڑی ہے اور یہ کیا برا انجام ہے اور جو کوئی سلطان ناحق کی مدح میں صرف اس لیے کچھ کہے کہ اس کی طمع پوری ہوتو ایسا شخص معذب ہوگا اور اس بادشاہ یا سلطان کے ساتھ ہم قطار ہوگا جوکہ دوزخ کے لیے لگائی جائیگی اور ایسے شخص کے لیے خدا فرمایا ہے” اعتماد نہ کر ان بندوں پر جو ستم گار ہیں یہاں تک کہ آگ ان کو گھیر لے“ (ھود، ۱۱۳) اور جو کوئی ستم گار کی مدد راہنمائی کرے گا وہ دوزخ میں ہامان کی مانند رہے گا جو کوئی

۳۹۴

خود نمائی کرے اور عمارتیں بنائے خدا اس کے کندھوں پر روزِ قیامت سات زمینوں کا بار رکھ دے گا اس کی جان کو آگ سے جلایا جائے گا اور آگ کا طوق اس کی گردن میں ڈال کر اسے دوزخ میں گرا دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ اس سے پلٹ نہ جائے اور توبہ نہ کرلے۔ جو کوئی اپنے ہمسائے کی ایک بالشت زمین میں خیانت کرے گا سات زمینوں کے بوجھ کے برابر طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا اور وہ اسی طوق سمیت اپنے پروردگار سے روزِ قیامت ملاقات کرے گا اور خدا آیاتِ قرآنی کی تعداد کے برابر اس پر سانپ مسلط کرے گا جو کہ اس کے ساتھ دوزخ تک ہوں گے۔ اور یہ خدا کریم ہی ہے کہ اگر چاہے تو اسے بخش دے اور جو کوئی قرآن پڑھے اور پھر حرام نوشی کرے یا دنیا کا مال و زر اس پر مقدم جانے تو وہ خدا کے غصے کا حقدار ہوگا مگر یہ کہ توبہ کرے اور اگر بے توبہ مرگیا تو پھر روزِ قیامت اسے قرآن کے حوالے کیا جائے گا اور قرآن اس پر سے اس وقت تک ہاتھ نہ ہٹائے گا۔ ( نہ چھوڑے گا) جب تک کہ اس شخص کو محکوم نہ کر لے اور جو کوئی کسی مسلمان ویہودی یا عیسائی و مجوسی مرد و عورت کے ساتھ زنا کرے گا اور توبہ نہ کرے گا اور مرجائے گا تو ایسے شخص کی قبر میں خدا تین سو(۳۰۰) دروازے کھولے گا کہ جن میں سے دوزخ کے سانپ بچھو اور اژدھے آکر اسے ڈسیں گے اور جب اسے اس کی قبر سے باہر نکالا جائے گا تو لوگ اس کی بدبو سے تکلیف میں ہوں گے اور آگ سے اسے پہچانیں گے کہ دنیا میں تم نے جو عمل کیے ہیں یہ اسی کی وجہ سے ہے پھر اس کے لیے دوزخ کا حکم نامہ جاری کیا جائے گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ خدا نے حرام سے منع کیا ہے اور حدود مقرر کی ہیں انسان خدا سے زیادہ غیرت مند نہیں ہے۔ اس نے اپنی غیرت کی وجہ سے ہرزگی کو منع کیا ہے اور اس(خدا) نے منع فرمایا ہے کہ بندہاپنے ہمسائے کے گھر میں نگاہ نہ ڈالے اور جو کوئی بھائی یا کسی غیرہ نامحرم عورت کی طرف نگاہ کرے تو خدا اسے ان منافقین کے ہمراہ کہ جو عورت کے لیے ( حرام) کوشش کرتے ہیں لائے گا اور وہ دنیا سے رسوا ہوئے بغیر نہ جائے گا مگر یہ کہ توبہ کرے اور جان لوکہ وہ رزق جو کہ  خدا نے تقسیم کیا ہے اس کے بارے میں بندہ اگر صبر و شکریہ کرے اور راضی نہ ہو اور اس کا حساب خدا پر نہ چھوڑے تو اس کی کوئی نیکی اوپر نہ جائے گی اور بوقت ملاقات خدا، خدا اس پر غضبناک ہوگا مگر یہ کہ توبہ کرے۔

۳۹۵

 پھر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ جو بندہ متکبرانہ راستے  پر چلے اور لباس فاخرہ پہن کر تکبر کرے تو خدا ایسے کو دوزخ کی ڈھلان سے دوزخ کی تہہ پھینک دے گا اور وہ قارون کے ساتھ دوزخ میں سکونت پذیر ہوگا کیوںکہ قارون وہ پہلا شخص ہے کہ جس نے تکبر کیا اور خدا نے اس کی املاک کو زمین بوس کردیا اور دفن کیا کیوںکہ اس نے خدا کی خدائی کا مذاق اڑایا تھا، پھر آپ(ص) نے فرمایا کہ جو کوئی عورت کےمہر میں ستم کرے وہ خدا کے ہاں زنا کار ہے روزِ قیامت خدا اسےکہے گا کہ میں نے اپنی کنیز تیری زوجیت میں دی مگر تو نے میرے عہد کو وفا نہ کیا اور اس سے ظلم کیا خدا اس شخص کی نیکیاں اس عورت کے حساب میں لکھ دے گا جو کہ اس کے حق مہر کے برابر ہونگی اور اگر وہ نیکیاں نہ رکھتا ہوگا تو اسے اس عہد شکنی کی بدولت دوزخ میں گرائے گا۔

آپ(ص) نے فرمایا کہ جو کوئی شہادت چھپائے گا خدا اس کےہی گوشت کو اس کی خوراک بنادے گا اور ایسے کے بارے میں خدا کا ارشاد ہے کہ ” گواہی مت چھپاؤ اور جو کوئی گواہی چھپائے گا اس کا دل گناہ گار ہے۔ (بقرہ، ۲۸۳)

پھر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ جو  کوئی اپنے ہمسر کو تکلیف دے اس پر خدا نے بوئے بہشت کو حرام قرار دیا اور اس کی جگہ کو دوزخ مقرر کیا جو کوئی اپنے ہمسائے کو ضائع کرے (اسے ہاتھ سے گنوادے) وہ ہم میں سے نہیں اور یہ کیا برا انجام ہے، جناب رسول خدا(ص) فرماتے ہیں کہ جبرائیل(ع) نے ہمسائے کے حقوق کے بارے میں مجھے پے در پے تاکید کی اور اتنی زیادہ کی کہ مجھے خیال پیدا ہوا کہ اسے وارثت میں حصے دار ہی نہ بنادیا جائے اور جناب جبرائیل(ع) نے مجھے غلاموں اور کنیزوں کے بارے میں پے درپے نصیحت کی کہ مجھے یہ خیال پیدا ہو کہ کوئی مدت مقرر کی جائے گی اور انہیں ایک مقررہ مدت کے بعد آزاد کردیا جائے گا علی ہذا مجھے مسواک کرنے  کی یہاں تک نصیحت کی کہ میں نے خیال کیا کہ کہیں اسے واجب ہی قرار نہ دے دیا جائے۔ اور مجھے پے درپے عبادت کی وصیت کی گئی یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ راتوں کا سونا موقوف ہوجائے گا اور جو کوئی غریب کسی مسلمان کو کم حیثیت شمار کرے اس نے خدا کے حق کو کم شمار کیا  خدا ایسے کو روز قیامت کم درجہ شمار کرے گا سوائے اس کے کہ توبہ کرے آپ(ص) نے فرمایا جو کوئی مسلمان فقیر

۳۹۶

 کا احترام کرے گا۔ خدا روز قیامت اس سے راضی ہے اور جو کوئی ہرزگی اور شہوت رانی کے لیے آمادہ ہے مگر خوف خدا کی وجہ سے دور رہتا ہے تو ایسے شخص کو خدا روزِ قیامت دوزخ سے دور ہٹائے گا اور اسے خوفِ عظیم سے امان دے گا۔

پھر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کچھ قرآن میں فرمایا گیا ہے اس پر عمل کرو ارشاد خداوندی ہے کہ ” اس بندے کے لیے اس کے پروردگار کے ہاں مقام دو بہشت ہیں کہ جو اس سے ڈرتا ہے۔“ ( سورہ رحمن) آگاہ رہو کہ جو بندہ آخرت و دنیا میں اس کے سامنے اس حالت میں آئے کہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتا ہو وہ کوئی نیک عمل نہ رکھتا ہوگا کہ اسے آخرت میں بچائے اور جو کوئی آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے خدا اس سے راضی ہوگا اور اس کی برائیوں کو معاف فرمائے گا اور جو کوئی اپنی آنکھ کو حرام سے پر کرے گا خدا قیامت کے دن اس کی آنکھ کو دوزخ سے پر کرے گا مگر یہ کہ توبہ کرے اور واپس پلٹ آئے۔ پھر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی کسی نامحرم عورت سے مصافحہ کرے تو خدا تعالی ایسے شخص سے ناراض ہوتا ہے اور جو کسی غیر محرم عورت کو حرام کی نیت سے گلے لگائے تو اسے کسی شیطان کے ساتھ زنجیر میں جکڑ کر آگ میں گرایا جائے گا۔ جوکوئی کسی مسلمان کے ساتھ خرید وفروخت میں دھوکہ کرے گا وہ ہم میں سے نہیں اور روزِ قیامت یہود کے ساتھ محشور ہوگا کہ یہ (یہود) تمام لوگوں سےزیادہ دھوکہ دینے والے ہیں۔ جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ہمسائے کے گھر کھانے پینے کی چیز بھیجنے میں گریز نہ کرو اور جو ایسا کرے گا خدا قیامت کے روز اس کے خیر کو اس سے روکے گا اور اسے چھوڑ دے گا اور یہ کیا برا حال ہے اور جو عورت اپنے شوہر کو اپنی زبان سے تکلیف دے خدا اس کا صدقہ و عدالت قبول نہ فرمائے گا اور جب تک وہ اپنے شوہر کو راضی نہیں کر لے گی اس کی کوئی نیکی قبول نہ ہوگی چاہے وہ عبادات شبینہ اور تمام عمر کی روزہ دار ہی کیوں نہ ہو، چاہے وہ خدا کی راہ میں غلام آزاد کرنے والی اور خدا کی راہ میں ہتھیار بند گھوڑے و مجاہدین کو مہیا کرنے والی ہی کیوں نہ ہو اور وہ تمام مرد و زن میں سے پہلی عورت ہوگی جو دوزخ میں جائے گی۔ اور مردوں کےلیے بھی اسی طرح ہے کہ اگر وہ ان (عورتوں) کے لیے ستم گار ہوں گے تو یہی کچھ پائیں گے آگاہ ہوجاؤ کہ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کو طمانچہ مارے گا تو خدا

۳۹۷

 اس کی ہڈیاں قیامت کے روز بکھیرے دے گا او وہ تکلیف سے چیخنا ہوا محشر میں آئے گا یہاں تک کہ دوزخ میں گرایا جائے مگر یہ کہ توبہ کرے۔

پھر آپ(ص) نے فرمایا کہ غیبت نہ کرو جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی غیبت کرے گا اس کا روزہ و وضو باطل ہے اور قیامت کے روز اس کی بدبو گندے مردار کی مانند کہ جس سے اہل محشر تکلیف میں متبلا ہونگے اور اگر توبہ سے پہلے مرگیا تو اس کے حلال خدا بھی حرام خدا شمار کیے جائیں گے اور جو کوئی حالت توبہ سے پہلے گذر کرے اور بردباری کا مظاہرہ کرے تو خدا اسے ایک شہید کے موافق اجر عطا کرے گا جو کوئی اپنے کسی مسلمان بھائی کی غیبت کسی محفل میں سنے اور پھر اس کادفاع تو خدا اس کی برائی کی ہزاروں دروازوں سے اسے پلٹا دے گا اور اگر دفاع کرنے کی طاقت رکھنے کے با وجود اس کا دفاع نہ کرئے تو غیبت کرنے والے شریک ہے، جناب رسول خدا(ص) نے خیانت سے ستر بار منع فرمایا اور فرمایا کہ جو کوئی دنیا میں کسی امانت میں خیانت کرے گا۔ اور اسے اس کے اہل کونہ دے گا یہاں تک کہ موت اسے (خیانت کرنے والے) کو گھیرے تو اس کا میری امت سے کوئی واسطہ نہیں ہے وہ خدا سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔

پھر آپ(ص) نے فرمایا کہ جو کوئی کسی کے خلاف جھوٹی گواہی دے تو وہ منافقین کے ساتھ اسفل دوزخ( دوزخ کا انتہائی ذلیل طبقہ) میں آویزان ہوگا۔ اور کوئی کسی خیانت شدہ امانت کو کسی دلیل کے ذریعے درست جانے تو وہ خود  خائن کی مانند ہے،جو کوئی کسی مسلمان کی حق تلفی کرے تو خدا برکت رزق کو اس پر حرام کرتا ہے مگر یہ کہ توبہ کرے جو کوئی کسیکی برائی سنے اور اور پھر دوسروں پر فاش کرئے تو وہ اس برائی کے مرتکب ہونے والے کی  طرح ہے جس کسی سے کوئی مسلمان بھائی قرض لینا چاہیے اور وہ بادجود استطاعت رکھنے کے قرض نہ دے تو خدا تعالیٰ اس پر بہشت کی خوشبو حرام کردیتا ہے جو کوئی عورت کی کج خلقی پر خوف خدا سے صبر کرے تو حق تعالی اسے کرنے والوں کا ثواب دیتا ہے۔ اور عورت اپنے خاوند سےمیل جول اور مدارات نہ کرے اور اس پر فرمائشوں کا بوجھ ڈال دے جن کے پورا کرنے کی اس(مرد) میں استطاعت نہیں تو حق تعالیٰ اس(عورت) کی کوئی نیکی قبول نہیں کرے گا اور بروز قیامت اس سے ناخوش ہوگا جو کوئی اپنے

۳۹۸

مسلمان بھائی کی عزت کرے وہ ایسا ہے کہ اس نے رب العزت کو گرامی و بزرگ جانا۔

اور جناب رسول خدا(ص) نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شخص کسی ایسے گروہ کی نماز کی امامت کرے کہ جو اس سے راضی نہ ہوں اور جو شخص کسی گروہ کی پیش امامت ان کی رضا مندی سے کرے اور نماز کے لیے درست وقت پر حاضر ہو اور نماز کو عمدگی کے ساتھ  بجالائے تو سب نمازیوں ک برابر اسے ثواب عطا ہوگا اور نمازیوں کے ثواب میں بھی کچھ کمی واقع نہ ہوگی اور جو کوئی کسی گروہ کی اجازت سے نماز پڑھائے مگر اراکین نماز درستی سے نہ بجالائے تو ایسے شخص کی نماز اسے پلٹا دی جائے گی اور س کی نماز اس کے گلے سے آگے نہ بڑھے گی اور اس پیش نماز کا مقام ستم کار امام کی مانند ہوگا اور یہ سب اس وجہ سے ہوگا کہ وہ اس بات کا خود ہی ذمہ دار ہے کہ وہ اصلاح رعیت نہیں چاہتا  جو کوئی کسی عزیز یا رشتے دار کے پاس اس کی ملاقات کو جائے اور اپنے ہمراہ کچھ مال اس کے واسطے لے جائے تو خدا تعالی  سو شہیدوں کا ثواب اسے عطا کرے گا اور ہر قدم پر چالیس ہزارا نیکیاں اس کے واسطے لکھی جائیں گی، چالیس ہزار گناہ معاف فرمائے جائیں گے اس کے چالیس ہزار درجات بلند کیے جائیں گے اور ایسا ہوگا کہ گویا اس نے سو برس عبادت کی ہو جو کوئی کسی اندھے کی دنیاوی حاجات میں سے کوئی حاجت پوری کرے اور اس کی حاجت کی خاطر اسے کوئی سفر یا مسافت طے کرنی پڑے تو خدا تعالی اسے دوزخ سے امان دے گا اور اس کی ستر دنیاوی حاجات برلائی جائیں گی اور جب تک وہ اس نابینا سے ہو کر واپس نہ آجائے رحمتِ الہی اس کےشامل حال رہے گی ۔ جو کوئی ایک شب و روز بیمار ہے اور عبادت کرنے  والوں سے اپنی بیماری بیان نہ کرے ( تکلیف پر صبر کا مظاہرہ کرے) تو حق تعالی اس کو حضرت ابراہیم(ع) خلیل اﷲ کے ساتھ محشور کرے گا یہاں تک کہ وہ ان کے ہمراہ پل صراط سے بجلی کی مانند گزر جائے گا جو شخص کسی بیمار کی کوئی حاجت بر لانے میں کوشش کرے خواہ وہ حاجات پوری نہ ہو یا ہو جائے تو وہ گناہوں سے  اس طرح پاکیزہ ہو جائے گا کہ جیسے شکم مادر سے اسی دن بر آمد ہوا ہو، اںصار میں سے  ایک شخص نے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ(ص) اگر وہ بیمار اس کے اہل خانہ سے ہوتو اسے کچھ زیادہ ثواب ملے گا یا نہیں تو جناب رسول خدا(ص) نے ہاں میں جواب  ارشاد فرمایا۔

۳۹۹

پھر فرمایا آگاہ رہو کہ جو شخص کسی مرد مومن سے دنیا کی سختی اور غموں میں سے کوئی غم و سختی دور کرے گا تو حق تعالی اس کو آخرت کے غموں سے امان دے کا دنیا کی بالؤں میں سے بہتر (۷۲) بلائیں اس سے دور کرے گا اور دنیا کی بلاؤں میں سے آسان تر دردِ شکم ہے اور آخرت کے گناہوں میں سے بہتر(۷۲) گناہ محو کرے گا، پھر فرمایا کہ جو شخص کسی سے اپنا حق طلب کرے اور وہ اس کے ادا کرنے میں باوجود استطاعت رکھنے کے تاخیر کرےتو خدا ہر روز ناجائز بحری محصول وصول کرنے والے کے گناہوں کے برابر اس کے نامہ اعمال میں گناہ درج کرے گا آگاہ ہو جاؤ کہ جو شخص کسی سلطان ناحق کی قربت کی خاطر کسی کو تازیانہ مارے یا ظلم کرے تو ایسے پر روزِ قیامت خدا ایک آتشین اژدھے کو مسلط کرے گا جس کی لمبائی ستر زراع ہوگی اور یہ کیا برا انجام ہے۔ جو کوئی کسی برادر مسلم کے ساتھ کچھ احسان مندی کر کے جتلائے تو خدا تعالی اس کے عمل حبط (ضائع) کردیتا ہے اور اسے کچھ ثواب نہیں دیتاخدا فرماتا ہے کہ مین نے احسان جتلانے والے، سخن چین اور بخیل پر بہشت حرام کردی ہے، جو کوئی صدقہ دے اسے ایک ایک درھم کے بدلے نعمت ہائے بہشت سے کوہ احد کے برابر حصہ ملے گا اور جو کوئی کسی محتاج کو دینے کے واسطے صدقہ اٹھا کر لے جائے تو اس کو بھی اتنا ہی ثواب میں سے بھی کچھ کم نہ ہوگا، جو کوئی نماز جنازہ پڑھے گا تو ستر ہزار فرشتے اس نماز جنازہ پڑھنے والے کے لیے مغفرت طلب کریں گے اور خدا اس کے گناہوں کو محو کردے گا اور اگر وہاں اس وقت تک ٹھہرا رہے کہ مرحوم کو سپرد خاک کیا جائے تو اس کے واسطے جو قدم اٹھائے گا وہ ایک قیراط کے برابر اجر رکھتا ہے اور ایک قیراط کوہ احد کے برابر ہے کہ جو کچھ اس میں ہے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی کسی کان نے کبھی سنا اور نہ ہی کبھی کسی انسان کے تجربے میں آیا، آگاہ رہو کہ مسجد میں جاکر با جماعت نماز ادا کربا ہر حال میں ستر ہزار نیکیوں کا اجر رکھتا ہے اور نماز با جماعت کی ادائیگی کرنے والے کو یہ حق ہوگا کہ وہ چالیس ہزار آدمیوں کی شفاعت کرے اور انہیں بہشت میں لے جائے اور اگر اسی عمل پر کاربند رہتے ہوئے اس کی موت واقع ہوجائے تو خدا اس کی قبر میں عبادت کے لیے ستر ہزار فرشتے مقرر فرمائے گا جو

۴۰۰