مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 296790
ڈاؤنلوڈ: 7462

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 296790 / ڈاؤنلوڈ: 7462
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جناب سلمان(رض) کا زندگی بھر کا روزہ

۵ـ          ابو بصیر کہتے ہیں  میں نے امام صادق(ع) سے سنا کہ انہوں نے اپنے آباؤ(ع) سے روایت کیا کہ ایک دن رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا۔ تم میں کون ہے جو تمام عمر روزہ رکھتا ہو سلمان نے عرض کیا میں ہوں یا رسول اﷲ(ص) پھر فرمایا تم میں کون ہے جو ہمیشہ سے شب زندہ دار ( راتوں کو جاگ کے عبادت کرتا) ہے سلمان(رض) نے کہا میں ہوں یا رسول اﷲ(ص)  پھر فرمایا تم میں سے کون ہے۔ جو ہر روز ایک قرآن ختم کرتا ہو سلمان نے عرض کیا میں ہوں یا رسول اﷲ(ص) ایک صحابی نے اس بات سے غصہ کیا اور کہا یا رسول اﷲ(ص) یہ سلمان جو فارسی(عجمی) ہے چاہتا ہے کہ ہم قریشیوں پر فخر کرے آپ(ص) نے فرمایا ہے کہ تم میں کون ہے جو اپنی عمر بھر کا روزہ رکھے ہوتے ہیں میں نے اسے اکثر دن کے وقت دیکھا ہے کہ روزے سے نہ تھا  کھاناکھاتا تھا پھر آپ(ص) نے فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جو عمر بھر سے شب زندہ دار ہے میں نے اسے اکثر دیکھا کہ راتوں کو سویا ہوتا ہے پھر آپ(ص) نے فرمایا تم میں سے کون ہے جو ہر روز ایک قرآن ختم کرتا ہے جبکہ میں نے اکثر دیکھا کہ اس نے دن میں تلاوت نہیں کی پیغمبر(ص) نے فرمایا خاموش ہو جاؤ۔ تمہیں کیا معلوم کہ لقمان حکیم کی منزلت کیا ہے۔ سلمان کی مثال لقمان جیسی ہے۔ تم اپنے سوالات خود سلمان(رض) سے پوچھ لو۔اس شخص نےسلمان(رض) سے کہا اے ابو عبداﷲ کیا تم نے نہیں کہا کہ تم عمر بھر سے روزہ رکھے ہوئے ہو۔ جناب سلمان نے فرمایا درست ہے مگر جس طرح تو نے گمان کیا ہے ویسے نہیں میں ہر ماہ تین دن روزہ رکھتا ہوں۔ اور خدا فرماتا ہے جوکوئی ایک نیکی کرتا ہے میں اس کو دس گنا ثواب عطا کرتا ہوں۔ مزید نہ کہ میں ماہ شعبان کے بھی روزرے رکھتا ہوں اور ماہ رمضان سے اس کو ملا دیتا ہوں اور یہ  روزے پوری زندگی کے روزے بنتے ہیں اس شخص نے کہا کہ اے سلمان کیا تو یہ دعوی نہیں کرتا کہ تمام رات عبادت میں مشغول رہتا ہے جناب سلمان(رض) نے فرمایا ہاں مگر جیسے تو قیاس کررہا ہے ویسے نہیں۔ میں رسول خدا(ص) کا دوست ہوں اور میں نے ان سے یہ سنا ہے کہ جو شخص باوضو سوتا ہے اس نے گویا تمام رات عبادت میں گزاری اور ہمیشہ با وضو سوتا ہوں۔ اس شخص نے کہا اے سلمان کیا تو یہ نہیں کہتا کہ میں روزانہ ایک

۴۱

 قرآن ختم کرتا ہوں جنابِ سلمان نے فرمایا کیوں نہیں مگر جس طرح تو سوچ رہاہے اس طرح نہیں میں نے اپنے دوست رسول خدا(ص) کو علی(ع) سے کہتے ہوئے سنا ہے کہ ” اے علی (ع) تیری مثال اس امت میں قل ہو اﷲ کی طرح ہے جوکوئی اسے ایک مرتبہ پڑھے گویا اس  نے قرآن کا ایک ثلث پڑھا جو دو مرتبہ پڑھے اس نے دو تہائی قرآن پڑھا اور جو تین دفعہ پڑھے گویا اس نے تمام قرآن ختم کیا۔ اے ابوالحسن(ع) جو شخص تہمیںزبان سے دوست رکھتا ہے اسے دو تہائی ایمان ملتاہے اور جو شخص دل و زبان سے تمہیں دوست رکھے اوراپنے ہاتھوں سے تیری مدد کرے۔اس کا ایمان کامل ہوتا ہے۔ اے علی(ع) مجھے اس خدا کیقسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ اگر حاملانِ زمین بھی تمہیں اسی طرح دوست رکھتے جس طرح عرش والے رکھتے ہیں تو خدا کسی کو جہنم میں نہ ڈالتا“ لہذا اے بندے میں ( سلمان) ہر روز تین بار قل ہو اﷲ پڑھتا ہوں اور علی(ع) کو ہر طرح سے دوست رکھتا ہوں۔ یہ سن کر اعتراض کرنے والا ایسے خاموش ہوگیا۔ جیسے اس کے منہ میں پتھر بھر گیا ہو۔

۶ـ           امام صادق(ع) نے اپنے آباء سے روایت کیا کہ امیرالمومنین(ع) نے فرمایا۔ فقہاء اور حکما کا یہ طریقہ رہا ہے ک اپنی نگارشات کے لیے تین چیزوں کے علاوہ کچھ نہ لکھتے تھے۔

۱ـ           جو کوئی خود کو اپنی آخرت کے لیے وقف کردے تو خدا بھی دنیا میں اس کی کفالت کرے گا۔

۲ـ           جو کوئی اپنے وطن کی اصلاح کرتے تو خدا اس کے ظاہر کی اصلاح کرے گا۔

۳ـ          جو کوئی اپنے اور خدا کے درمیان اصلاح کرے گا تو خدا اس کے اورخلق کے درمیان اصلاح کرے گا۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا موت کے بعد اجر کسی کے پیچھے نہیں جاتا مگر یہ کہ تین عمل کیئے ہوں۔ (۱) صدقہ جاریہ (۲) ہدایت کا طریقہ اپنایا ہو اور اس کی موت کے بعد اس پر عمل ہورہا ہو۔(۳) فرزند صالح جو کہ اس کے لیے مغفرت طلب کرتا ہو۔

۸ـ          ابوالحسن اسدی کہتے ہیں امام صادق(ع) نے مجھے خبر دی ہے کہ خدا کےہاں ایک جگہ ہے جس کا نام متقمہ ہے جہاں مرنے کے بعد اس شخص کو چھوڑ دیا جاتا ہے کہ جس کو خدا مال و دولت دے

۴۲

 اور وہ اس مال کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے ہاتھ روک لے۔

جناب علی(ع) کی فضیلت

۹ـ           نعمان بن سعد کہتے ہیں امیرالمومنین (ع) نے فرمایا میں حجت اﷲ ، خلیفہ اﷲ، باب اﷲ ہوں میں خزانہ دار علم خدا ہوں اور میں امین راز ہوں میں امام خلق ہوں اور نبی رحمت (ص) کے بعد بہترین بندہ ہوں۔

۱۰ـ          امیرالمومنین(ع) نے فرمایا میں مسجد قبا میں خدمت پیغمبر(ص) میں حاضر ہوا تو کچھ اصحاب آپ(ص) کے پاس بیٹھے تھے جب آپ(ص) نے مجھے دیکھا تو آپ(ص) کا چہرہ خوشی سے تاباںہوگیا اور آپ(ص) کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی آپ(ص) کےدانتوںکی سفیدی مثل برق نظر آتی تھی پھر آپ(ص) نے فرمایا اے علی(ع) میرے نزدیک تشریف لاؤ پھر مجھے اس  قدر نزدیک کیا کہ میری ران آپ کی ران سے مس ہوگئی پھر اپنے اصحاب کی طرف چہرہ کر کے فرمایا اے میرے اصحاب میرے بھائی علی(ع) کا اس وقت یہاں آنا ایسا ہے جیسے رحمت خداوندی نے ادھر رخ کیا ہے بیشک علی(ع) مجھ سے ہے اور میں علی(ع) سے ہوں اس کی جان میری جان سے ہے اس کی طینت میری طینت سے ہے یہ میرا بھائی اور میرا وصی وخلیفہ ہے میری زندگی میں بھی اور میری موت کے بعد بھی لہذا جو کوئی اس کا حکم مانے اس نے میرا حکم مانا جو اس سے موافقت کرے اس نےمجھ سے موافقت کی اور جس نے اس کی مخالفت کی اس نے میری مخالفت کی۔

۱۱ـ           ابن عباس کہتے ہیںکہ رسول خدا(ص) نےفرمایا۔جو  کوئی خواہش رکھتا ہو کہ میری زندگی کی مانند زندگی گزارے (ایمان کامل کے ساتھ) اور جب موت آئے تو میری موت کی مانند اور جنت عدن میں میرے مقام پر آئے ( میرا ہمسایہ ہو) تو اسے چاہئے کہ خدا کی قضاء کے ساتھ تمسک رکھے علی ابن ابی طالب(ع) کو دوست رکھے اور اس کے فرزندوں (ائمہ(ع)) اور اس کے اوصیاء کی پیروی کرئے کیونکہ وہ میری عترت ہیں اور میری طینت سے پیدا کیئے گئے ہیں۔ میں ان کے دشمنوں کی شکایت خدا سے کرتا ہوں۔ کیوں کہ وہ ان (ائمہ(ع)) کے منکر ہیں اور ان (ائمہ(ع)) سے صلہ رحمی نہیں کرتے خدا کی قسم میرے کے بعد میرا فرزند حسین(ع) شہید کیا جائے گا اور خدا اس کے قاتلوں سے میری شفاعت کو ہٹائے ہوئے ہے۔

۴۳

مجلس نمبر۱۰

( بیس شعبان سنہ۳۶۷ھ)

۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جب آدمی چالیس سال کا ہوجاتا ہے تو خدا اپنےفرشتوں کو وحی کرتا ہے کہ میں نے اپنے اس بندے کو جو یہ عمر دی ہے اس نے مشکل سے گزاری ہے۔ اس کا خیال رکھو اور اس کے تمام چھوٹے بڑے اعمال درج کرتے رہو امام صادق(ع) سے جب اس آیت کی تفسیر کا پوچھا  گیا کہ ” آیا میں نے تم کو عمر نہ دی تھی کہ تم اس سے نصیحت حاصل کرو اور متذکر رہو“ ( فاطر، ۳۱) تو آپ نے فرمایا سرزنش بالغ کے لیے ہے۔

۲ـ           خالد قلانسی کہتے ہیں۔ امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جب کسی بوڑھے آدمی کو روز قیامت حساب کے لیے لایا جائے گا اور اس کا نامہ اعمال کہ جس کاظاہر بدی کے سوا کچھ نہ ہوگا دیا جائے گا تو وہ شخص ناگواری محسوس کرے گا اور فریاد کرے گا کہ اے خدا میرے اس نامہ اعمال کی وجہ سے مجھے دوزخ میں جلد بھیج تاکہ میں یہاں سے جلد فارغ ہوجاؤں تب خداوند عالم اس پر رحم کرے گا اور کہے گا کہ اے بوڑھے شخص میں تیری نمازوں کی وجہ سے تجھے معاف کرتا ہوں اور حکم دے گا کہ اس کو بہشت میں لے جاؤ۔

۳ـ          انس بن مالک کہتے ہیں رسول خدا(ص) نے فرمایا ایسا مومن جب مرجائے کہ جس کے علم کی باتیں ایک ورق پر لکھی ہوں تو وہ کاغذ روز قیامت اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک پردہ کی طرح حائل ہوجائے گا۔ اور خدا اس کے لکھے ہوئے ورق کے ایک لفظ کے بدلے اس کا ایک شہر عطا کرے گا جس کی وسعت سات دنیاؤں کے برابر ہوگی اور جو مومن ایک ساعت کے لیے کسی عالم کے پاس بیٹھ کر فیض پائے گا تو اس  کا پروردگار اسے ندا دے گا کہ اے فلاں تم میرے حبیب(ص) کے پاس جاکر بیٹھو مجھے میرے عزت و جلال کی قسم تجھے اس کے ساتھ بہشت میں ساکن کروںگا  اور یہ میرے لیے کچھ مشکل نہیں۔

۴ـ          یونس بن ظبیان کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا، لوگ تین وجوہات کی بنا پر خدا کی

۴۴

 عبادت کرتےہیں۔ (اول) ایک طبقہ رغبتِ ثواب کی خاطر عبادت کرتا ہے اور یہ عبادت لالچ کی عبادت ہے۔ (دویم) طمع کے لالچ میں یعنی جنت کے لیے اور یہ تجارتی عبادت ہے (سوئم) دوزخ کے خوف کی عبادت ہے۔ مگر میں اس کی عبادت اس لیے کرتا ہوں کہ وہ لائق عبادت ہے یہ عبادت کریمانہ عبادت ہے۔ اور قول خدا یہ ہے کہ ” اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تم سے محبت کرے تو تم  اس کی پیروی کرو وہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کرے گا۔“ اور جو کوئی بھی خدا سے محبت کرتا ہے تو خدا بھی اس کا جواب اسی طرح دیتا ہے اور جان لو کہ جس سے خدا محبت کرتا ہے وی امن میں ہے۔

۵ـ          امام صادق(ع) نےفرمایا کہ مومن کے لیے خداکی یہی مدد کافی ےکہ جب بھی وہ (مومن) اپنے دشمن کو دیکھتا ہے تو اس کو خدا کی نافرمانی میں مصروف پاتا ہے۔

۶ـ           اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ امیرالمومنین(ع) نےفرمایا میں رسول خدا(ص) کا خلیفہ ہوں ان کا وزیر اور ان کا وارث ہوںمیں رسول خدا(ص) کا بھائی ان کا وصی اور ان کا حبیب ہوں میں رسول اﷲ(ص) کا برگزیدہ نفس ہوں میں رسول خدا(ص) کا چچا زاد بھائی، ان کی بیٹی کا شوہر ان کے فرزندوں کا باپ ہوں میں سید اوصاء ہوں اور وصی سید انبیاء(ص) ہوں میں حجت عظمی و آیت کبری و مثل بابِ پیغمبر مصطفی ہوں میں عروة الوثقی اور کلمة تقوی ہوں میں امین خدا اور اہل دنیا پ رحجت خدا ہوں۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جب فاسق اپنےفسق کو ظاہر کرے دے تو پھر اس کی کوئی حرمت نہیں اور نہ ہی اس کی غیبت ہے۔ (یعنی اس فاسق کے فسق کے بارے گفتگو غیبت کے زمرے میں نہیں آئے گی)۔

۸ـ          طلحہ بن زید کہتے ہیں امام صادق(ع) نے اپنے آباء سے روایت کیا کہ رسول خدا(ص) نےفرمایا کہ جبرائیل خدائے جلیل کی طرف سے میرے پاس آئے اور کہا اےمحمد خدا جل جلالہ تم کو سلام کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اپنے بھائی علی(ع) کو خوشخبری دے دو کہ جو کوئی اس کو دوست رکھتا ہے ین اس کو عذاب نہ دوں گا اور جو کوئی اس کو دشمن رکھتا ہے میں اس پر رحم نہیں کروں گا۔

۹ـ           رسول خدا(ص) نے فرمایا روزِ قیامت جب تک بندہ ان چار سوالات کے جوابات نہ دے

۴۵

 گا اس وقت تک وہ اپنے قدم نہیں اٹھائے گا (۱) عمر کے متعلق کہ اس کو کہاں فنا کیا۔(۲) جوانی کے متعلق کہ یہ کیسے گزاری (۳) مال کے متعلق کہ کہاں سے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا (۴) اور محبت اہل بیت(ع) کے متعلق پوچھا جائے گا۔

۱۰ـ          حضرت عائشہ کہتی ہیں میں رسول خدا(ص) کے پاس تھی کہ علی ابن ابی طالب(ع) آئے اور آںحضرت(ص) نے فرمایا یہ عرب کا سید ہے میں نے کہا  آپ عرب کے سید نہیں ہیں؟ فرمایا میں سید اولادِ آدم ہوں اور علی(ع) سید عرب ہے میں (عائشہ) نے کہا کہ آپ کی اس جگہ سید کیا مراد ہے تو آپ(ص) نے فرمایا کہ جس طرح میری فرض ہے کہ اسی طرح اس کی اطاعت بھی فرض ہے۔

۱۱ـ           معمر کہتے ہیں میں امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ زید ” زید علی(ع) بن حسین(ع) آئے اور لکڑی کے دروازے کے دونوں پٹ پکڑ کر کھڑے ہوگئے امام صادق(ع) نےفرمایا ۔میرے چچا میں تجھے خدا کی پناہ میں دیتا ہوں کہ تمہیں اسی دار پر لٹکایا جائے گا زید کی ماں نے ان سے کہا خدا کی قسم تیری اس بات میں حسد ہے جو تونے میرے بیٹے کےبارے میں کہی ہے۔ امام صادق(ع) نے فرمایا کاش حسد ہوتا کاش حسد ہوتا کاش حسد ہوتا پھر فرمایا میرے والد(ع) نے میرے دادا(ع) سے یہ روایت کی ہے کہ ان کی اولاد سے زید نامی خروج کرے گا کوفہ میں قتل ہوگا اور دار پر لٹکایا جائے گا اسے قبر سے نکال لیا جائے گا اور اس کی روح کےلیے آسمان کے دروازے کھل جائیں گے اہل آسمان اس سے خوش ہوجائیں گے اور اس کی  روح کو جنت کے ایک طائر ( پرندے) میں ڈال دیا جائے گا تاکہ بہشت میں ہر جگہ آزادنہ آجاسکے۔

۱۲ـ          جابر جعفی کہتے ہیں کہ میں ابو جعفر محمد بن علی(ع) کی خدمت میں حاضر ہوتو آپ کا بھائی زید(رح) آپ کی خدمت میں موجود تھا پھر معروف بن خربوز مکی بھی وہاں حاضر ہو امام پنجم ابوجعفر(ع) نے فرمایا اے معروف جو شعر تمہارے پاس ہیں انہیں میرے لیے بیان کرو تو معروف نے یہ قطعہ بیان کیا۔

ابو مالک تیری جان ناتواں نہیں ہے۔ ضعیفی و سستی دوسروں کی طرح نہیں ہے اس کے

۴۶

 قول میں عناد نہیں ہے۔ اس کی حکمت سے دشمنی نہ کر جب وہ منع کردے ۔ لیکن وہ سید بارک ہے بلند طبیعت رکھنے والا اور شیرین خرد، وہ حاکم ہے اس کا فرمان تیرے لیے ہے۔ وہ تیرے ہر کام میں کفایت کرتا ہے۔ محمد بن علی(ع) نے اپنا ہاتھ زید(رح) کے شانہ پر رکھا اور فرمایا اے ابوالحسن(ع) یہ صفت تیرے لیے ہے۔

۴۷

مجلس نمبر۱۱

(ماہ رمضان سے ایک ہفتہ قبل سنہ۳۶۷ھ)

استقبال رمضان

۱ـ           ابو جعفر امام محمد باقر(ع) نے اپنے آبائے طاہرین کی سند سے روایت کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے شعبان کے آخری جمعہ میں لوگوں کو خطبہ دیا۔ خدا کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا اے لوگو! ایک ایسا مہینہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے جس کی ایک رات شب قدر ہے اور وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے وہ مہینہ رمضان ہے اور خدا نے اس کے روزوں کو تم پر فرض کیا ہے اس کی رات کے نوافل کو مستحب بنایا ہے اس مہینہ کی ایک رات کے نوافل کا ثواب باقی مہینوں کی ستر راتوں کے برابر ہے۔

جو اس مہینہ میں اپنی خوشی سے مستحب اعمال کرے گا تو گویا اس نے اﷲ کے فرائض میں سے کوئی فرض انجام دیا ہے اور جو کوئی اس ماہ میں کا ایک فرض ادا کرے گا تو گویا اس نے دوسرے مہینے کے ستر فرائض ادا کیئے ہیں یہ مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کی جزا بہشت ہے یہ ہمدردی کا مہینہ ہے اور اس ماہ اﷲ مومن کا رزق اضافہ کرتا ہے جو شخص اس ماہ میں کسی مومن روزہ دار کا روزہ افطار کرائے گا تو خدا کے نزدیک اس کا ثواب ایسا ہے کہ جیسے اس نے ایک غلام آزاد کی اہو اس کے گذشتہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں آںحضرت(ص)سے (صحابہ نے)عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) ہم سب یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ روزہ دار کا روزہ افطار کرائیں تو آپ(ص) نے فرمایا اﷲ بڑا کریم ہے یہ تمام ثواب تم کو عطا کرے گا، جو افطاری کے لیے دودھ کے ایک گھونٹ سے زیادہ کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ اسی سے اس کا روزہ افطار کرادے یا میٹھے کا ایک گھونٹ یا کچھ کھجوریں ہی روزہ دار کو کھلا کر افطار کرادے توبھی وہ اس ثواب کا حق دار بن جائے گا اور جو کوئی اس مہینے میں اپنے مملوک سے تھوڑا کام لے تو خدا روز قیامت اس کے حساب میں کمی کردے گا  یہ اﷲ کا مہینہ ہے اس مہینہ کی ابتداء رحمت اس کا درمیان مغفرت اس کا آخری حصہ قبولیت اور دوزخ سے آزادی ہے اس مہینے

۴۸

میں چار خصلتوں کے سوا تمہیں نجات نہیں مل سکتی دو کے ذریعہ سے اﷲ کو راضی کرو اور دو کے بغیر تمہارا گزارا نہیں ہوسکے گا جو دو چیزیں اﷲ کے راضی کرنے کا ذریعہ ہیں وہ یہ گواہی ہے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور بےشک میں اﷲ کا رسول(ص) ہوں اور وہ دو چیزیں کہ جن کےبغیرتمہارا گزارا نہیں یہ ہے کہ تم خدا سے اپنی حاجات اور جنت طلب کرو اور خدا سے مغفرت چاہو اور آتش جہنم سے پناہ مانگو۔

۲ـ           حمزہ بن محمد کہتےہیںامامحسن عسکری(ع) کو میں نے لکھا کہ خدا نے روزہ کیوں واجب کیا ہے انہوں نے جواب میںلکھا ” اس لیے  تاکہ امیر و توانگر بھوک کے درد کو چکھیں اور غریب و فقیری و درویش کو عطا کریں۔“

بہلول تائب کا قصہ

۳ـ          عبدالرحمن بن غنم دوسی کہتے ہیں کہ ایک دن معاذ بن جبل روتے ہوئے رسول اﷲ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کیا آپ(ص) نے سلام کو جواب دیا اور پوچھا کہ  کس وجہ سے روے ہو معاذ عرض کرنےلگے میں نے ایک جوان جو نہایت خوبصورت ہے کو دیکھا جو دروازے پر کھڑا اپنی جوانی پر رو رہا ہے جیسے وہ ماں روتی ہے جس کا جوان بیٹا مرگیا ہو وہ آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہے۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا اے معاذ اس جوان کو میرے پاس لے آؤ۔ وہ اس کو لے کر  داخل ہوئے اس نے سلام کیا آپ(ص) نے جواب دیا اور پھر فرمایا اے جوان تو کس وجہ سے روتا ہے اس نے کہا میں ایسے گناہوں کا مرتکب ہوا ہوں کہ اگر خدا مجھے ان سے چند ایک پر بھی سزا دے تو یقینا مجھے جہنم میں ڈال دے گا اور میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ عنقریب خدا اس پر میرا مواخذہ کرے گا اور مجھے ہرگز معاف نہیں کرے گا رسول خدا(ص) نے فرمایا کیا کسی کو خدا کا شریک قرار دیا ہے اس نے کہا میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار دوں آپ(ص) نے فرمایا کیا کسی ایسے شخص کو قتل کیا ہے جس کا قتل خدا نے حرام قرار دیا ہے کہا نہیں پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ اگر تیرے گناہ اس زمین پر گڑے بلند پہاڑوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں خدا معاف کردے گا اس جوان نے

۴۹

کہا میرے گناہ ان بلند پہاڑوں سے بھی بڑے ہیں رسول خدا(ص) نے فرمایا اگر تیرے گناہ سات زمینوں، دریاؤں ریگستانوں اور درختوں اور جو کچھ ان میں مخلوقات ہیں کے برابر ہوں تو بھی خدا معاف کردے گا، اس نے کہا میرے گناہ ان تمام چیزوں سے بڑے ہیں رسول خدا(ص) نے فرمایا اگر سات آسمانوں ستاروں اور عرش و کرسی کے برابر بھی تیرے گناہ ہوں تو تو خدا وہ بھی معاف کردے گا اس نےکہا میرے گناہ اس سے بھی بڑے ہیں رسول خدا(ص) نے غصے کی نظر سے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا اے جوان وائے ہو تم پر تیرے گناہ بڑے ہیں یا تیرا پروردگار وہ جوان سجدے میں گر گیا اور کہنے لگا میرا مالک اس بات سے منزہ و مبرا ہے کہ کوئی چیز اس سے بڑی ہو یقینا میرا پروردگار ہی بڑا ہے رسول خدا(ص) نے فرمایا بڑے گناہوں کو خدا کے علاوہ کوئی معاف کرسکتا ہے؟ جوان نےکہا نہیں خدا کی قسم یا رسول اﷲ(ص)، رسول خدا(ص) نے فرمایا واے ہو تجھ پر اے جوان کیا تو کوئی ایک گناہ اپنے گناہوں سے مجھے بتا نہیں سکتا؟ کہا کیوں نہیں میں عرض کرتا ہوں، میں سات سال سے قبروں کو اکھاڑتا اور مردوں کو باہر نکال کے ان کےکفن اتار لیتا تھا ایک مرتبہ انصار کی ایک لڑکی نے وفات پائی اور جب وہ اسے دفن کرچکے اور واپس چلے گئے اور رات ہوگئی تو میں نے اس کی قبر کھو دی اس کو باہر نکالا اس کا کفن اتارا اور اسے برہنہ قبر کے کنارے چھوڑدیا جب واپس لوٹا تو شیطان نے مجھے وسوسہ ڈالا اور اس لڑکی کو میرے تخیلات میں مزین کیا اور کہا کہ کیا تم اس کے سفید جسم کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح حسین ہے میں واپس ہوا۔ اس کے ساتھ زنا کیا اور اسے وہیں چھوڑ کر چلا تو اچانک پیچھے سے یہ آواز سنائی دی” اے جوان وائے ہو تجھ پر قیامت کے دن جزا دینے والے کی طرف سے ان مردوں کے لشکر کے درمیان تو مجھے برہنہ چھوڑے جارہا ہے اور مجھے قبر سے باہر نکال کر میرا کفن لیے جارہا ہے اور مجھے اس حالت میں چھوڑے جارہا ہے کہ قیامت کے دن میں جنابت کے ساتھ اٹھوں گی وائے ہو تیری جوانی پر جہنم کی آگ سے“ یا رسول اﷲ(ص) اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ میں کبھی بھی جنت کی بو نہیں سونگھوں گا یا رسول اﷲ(ص) میرے بارے میں آپ(ص) کی کیا رائے ہے رسول خدا(ص) نے فرمایا اے بد کردار مجھ سے دور ہو جا میں ڈرتا ہوں کہیں تیری آگ میں میں نہ جل جاؤں کیونکہ تو جہنم کی آگ کے بہت قریب ہوچکا ہے کہ ابھی گرتا ہے آپ(ص) یہ فرماتے جا تے

۵۰

 اور ہاتھ سے دور ہونے کا اشارہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ آپ(ص) کےسامنے سے دور ہوگیا پھر اس نےکچھ توشہ لیا اور مدینہ کے پہاڑ کی طرف چلا گیا جہاں وہ عبادت کرتا تھا اور ٹاٹپ ہنے رہتا تھا اور اپنے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ باندھے رہتا تھا اور کہتا تھا اے مالک اے میرے رب یہ تیرا بندہ بہلول ہے جس نے تیرے سامنے اپنے ہاتھ گردن سے باندھ رکھے ہیں۔ اے میرے رب تو مجھے پہچانتا ہے اور میرے گناہوں کو جانتا ہے اے میرے مالک میں پشیمان ہوں اور توبہ کرنے کے لیے تیرے پیغمبر(ص) کے پاس گیا انہوں نے مجھے اپنے دروازے سے دور کر دیا ہے۔ اورمیرے خوف کو بڑھا دیا ہے میں تجھے تیرے انام اورجلال و عظمت و سلطنت کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اپنی رحمت سے ناامید نہ کر اےمیرے رب میری دعا کو باطل قرار نہ دے اور مجھے اپنی شفقت سے مایوس نہ کر یہاں تک کہ چالیس شب و روز وہ یہی دعا کرتا رہا یہان تک کہ روتا رہا دررندے اور وحشی جانور بھی اس کے گریہ میں شامل ہوگئے جب چالیس شب و روز پورے ہوئے تو اس نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور کہنے لگا خدایا میرے معاملے میں تو نے کیا حکم صادر فرمایا ہے اگر میری دعا قبول کر لی ہے اور میری خطا معاف کردی ہے توپھر اپنے نبی(ص) کی طرف وحی نازل فرما کہ مجھے معلوم ہو اور اگر میری دعا قبول نہیں ہوئی اورمجھے معاف نہیں کرتا اور مجھے عذاب کرنا چاہتا ہے تو ایک آگ بھیج جو مجھے جلادے یا دنیا میں کسی عذاب میں مجھے مبتلا کردے جو روز قیامت کی رسوائی سے مجھے بچالے پس خدا نے یہ آیت نازل فرمائی ” اور وہ لوگ جو کوئی برا فعل کرتے ہیں یعنی زنا یا اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں زنا سے بڑے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں جو کہ قبر کھود کر کفن چرانا ہے اور خدا کو یاد کرتے ہیں پس اپنے گناہوں سے استغفار کرتے ہیں گناہوں کو اﷲ کے علاوہ کون بخش سکتا ہے۔“ (آل عمران، ۱۳۵)

پھر خدا نے فرمایا ۔ اے میرےحبیب(ص) میرا یہ بندہ تیرے پاس آیا تھا اور تونے اس کو اپنے دروازے سے لوٹا دیا۔ اگر یہ تیرے پاس نہ آتا تو کہاں جاتا۔ تب آپ(ص) نے کہا کہ اے خداوندا جو کچھ میں گزرا اس کا مجھے علم ہے خداوندا تو مجھے اس کی بازپرس سے محفوظ رکھ۔ تیرے اس بندے نے جو عمل کیا ( قبر کھود کرکفن چرانا) اسکی مغفرت تیری ہی ذات سے وابسطہ ہے۔ اور بہشت میں

۵۱

 جاری نہریں تیرے ہی حکم سے بطور انعام دی جاتی ہیں اور کیا خوب جزا ہے ان لوگوں کےلیے جو عملِ صالح کرتے ہیں لہذا جب آیت مذکورہ نازل ہوئی تو آپ(ص) خوش ہوئے اور مسکراتے ہوئے باہر نکلے اور اپنے صحابہ سے کہا تم میں سے کون ہے جو مجھے اس جوان کی طرف راہنمائی کرے ایک شخص جس کا نام معاذ تھا کہنے لگا کہ یا رسول اﷲ(ص) مجھے خبر ملی ہے کہ وہ فلاں جگہ ہے رسول خدا(ص) اپنے اصحاب کے ساتھ وہاں تشریف لے گئے یہاں تک کہ اس پہاڑ کے نزدیک پہنچے اور اس کی تلاش میں پہاڑ کے اوپر گئے پھر اس جوان کو وہاں دیکھا کہ دو پتھروں کے درمیان کھڑا ہے اور اس نے اپنے ہاتھوں کو گردن کے ساتھ باندھ رکھا ہے اور اس کا چہرہ سورج کی گرمی کی وجہ سے سیاہ ہوگیا ہے اس کی آنکھوں کی  پلکیں رو رو کر جھڑ چکی ہیں اور اسکے باوجود کہہ رہا ہے  اے میرے آقا تو نے مجھے کتنا اچھا خلق کیا  میرا چہرہ خوبصورت بنایا کاش مجھے معلوم ہوتا کہ میرے بارے میں تیرا کیا ارادہ ہے کیا تو مجھے آگ میں جلائے گا یا اپنی رحمت سے معاف کردے گا خدایا تو نے مجھ پر احسان کیا اور نعمت فراواں مجھے دی کاش مجھے معلوم ہوتا کہ میرا انجام کیا ہے بہشت یا دوزخ خدا یا میرا گناہ آسمانوں اور زمین سے بڑا ہےکرسی وعرشِ عظیم سے بڑا ہے اے کاش مجھے معلوم ہوتا کہ تو میرے گناہوں کو معاف کردے گا یا انکی وجہ سے روز قیامت مجھے رسوا وذلیل کرے گا۔ وہ اس طرح مغفرت کرتا اور روتا تھا اور اپنے سر پر خاک ڈالتا تھا درندے اس کے پاس جمع تھے پرندے اس کے سر کے اوپر صف بستہ تھے اور اس کے رونے کی وجہ سے وہ سب روتے تھے رسول خدا(ص) اس کے قریب گئے اور اس کے ہاتھ اس کی گردن سےکھولے اس کے سر سے خاک صاف کی اور ساتھ ساتھ فرماتے جاتے تھے اے بہلول تجھےبشارت ہوکہ تم جہنم سے خدا کے آزاد کردہ ہو پھر اپنے اصحاب سے فرمایا تم اپنے گناہوں کو تدارک اس طرح کیا کرو کہ جس طرح بہلول نے کیا ہے پھر جو کچھ خدا نے نازل کیا تھا اس کی تلاوت کی اور بہلول کو بہشت میں داخل ہونے کی بشارت دی۔

۴ـ          امام صادق(ع) نے اپنے والد(ع) سے انہوں نے اپنے آباء(ع) سے نقل کیا کہ رسول خدا(ص) نے جنابِ علی ابن ابی طالب(ع) سے فرمایا اے  علی(ع) تیری منزلت میرے ساتھ ایسی ہے جیسے بیتہ اﷲ کی آدم(ع) سے تھی جیسے سام(ع) کی نوح(ع) کے ساتھ تھی جس طرح اسحق(ع) کی منزلت ابراہیم(ع) کےساتھ اور ہارون(ع) کی

۵۲

 منزلت موسی(ع) کے ساتھ تھی اور جیسی منزلتشمعون(ع)  کی عیسی(ع) کے ساتھ تھی سواے اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے اے علی(ع) تم میرے وصی و خلیفہ ہو جو کوئی تمہاری وصایت و خلافت کا منکر ہوگا وہ مجھ نہیں ہے اور میں اس سے نہیں ہوں میں روز قیامت اس کا دشمن ہوں گا اے علی(ع) تم فضل میںمیری تمام امت سے افضل ہو اور اسلام میںسب سے پہلے ہو سب سے زیادہ حلیم سب سے زیادہ بہاردر اور سب سے زیادہ سخی ہو اے علی(ع) میرے بعد تم امام ہو  امیر ہو صاحب امر، ہو اور سردار ہو، میرے وزیر ہو اور میری  امت میں تیرے مثل کوئینہیںاے علی(ع) تم جنت اور دوزخ کے تقسیم کرنے  والے ہو۔ تمہاری محبت نیک و فاجر کی پہچان کرواتی ہے۔ اچھوں اور بروں میں تمیز سکھاتی ہے۔نیک اور بد کی شناخت کرواتی ہے اسی سے مومن اور کافر جدا ہوتے ہیں۔ ( پہچانے جاتے ہیں)

۵۳

مجلس نمبر۱۲

( ماہ رمضان سے ۳ روز قبل سنہ۳۶۷ھ)

ماہ رمضان

۱ـ           جابر(رض) کہتے ہیں ابو جعفر محمد باقر(ع) نے فرمایا کہ جب رسول خدا(ص) ماہ رمضان کا چاند دیکھتے تو فورا اپنا چہرہ قبلہ رخ کر لیتے پھر یہ کہتے  خدایا اس نئے چاند کو امن و ایمان، سلامتی اسلام اور پوری عافیت اور وسعتِ رزق کے ساتھ ہم لوگوں پر طلوع فرما اور ہماری بیماریوں کو دور فرما، تالوت قرآن کی توفیق دے ، روزے اور نماز میں ہماری مدد فرما، خدایا ہم کو ماہ رمضان کی عبادت کے لیے صحیح و سلامت رکھ ہمیں شکوک و شبہات سے بچا اور ہم لوگوں کی عبادتوں کو قبول فرما تاکہ ماہ رمضان بحفاظت گزر جائے خدایا اس ماہ میں ہم لوگوں کی مغفرت فرما، پھر اپنا چہرہ لوگوں  کی طرف کرتے اور فرماتے اے گروہ مسلمین جب ہلال رمضان طلوع ہوتا ہے تو سرکش و نافرمان شیطان کو قید کردیا جاتا ہے اور آسمان وبہشت اور رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں دعائیں  مستجاب ہوتی ہیں اور اﷲ کے لیے یہ لازم ہوتا ہے کہ ہر افطار کے وقت کچھ لوگوں کو جہنم سے آزاد کردے۔ ماہ رمضان کی ہر شب کو منادی ندا دیتا ہے کہ کیا کوئی ایسا خواہش مند ہے جو وہ اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے اور توبہ کرے اے اﷲ! ہر راہ خدا میں خرچ کرنے والے کو دنیا و آخرت میں اس کا اجر دے اور ہر ممسک اور بخیل کو تلف کردے اور جب ماہ شوال کا ہلال طلوع ہوتا ہے تو مومنین کو ندا دی جاتی ہے کہ کل آنے والے دن میں اپنے انعامات لینے کو چلو اور کل آنے والا دن انعام کی تقسیم کا دن ہے پھر امام باقر(ع) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ انعام درہم و دینار یا سونے چاندی کی شکل میں نہیں ہوتا۔

۵۴

ثوابِ ماہِ رمضان

۲ـ           سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے کہا کہ اس آدمی کے لیے کیا ثواب ہے جو ماہِ رمضان کے روزے رکھے اور اس کے حق کو پہچانتا ہو انہوں نے کہا اے ابن جبیر تیار ہو جاؤ تاکہ تمہیں ایسی حدیث سناؤں جو تیرے کان نے کبھی نہ سنی اور نہ ہی تیرے دل میں گزری ہے جو تم نےمجھ سے پوچھا ہے یہ علم اولین اور علم آخرین ہے سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں اس وقت ان کے پاس سے چلا گیا اور خود کو دوسرے دن کے لیے آمادہ کیا جب صبح کی سفیدی ظاہر ہوئی تو میں ان کے پاس گیا اور صبح کی نماز ان کے ساتھ ادا کی پھر اس حدیث کےمتعلق ان سے دریافت کیا انہوں نے میرے طرف رخ کیا اور کہا سنو جو بیان کرتا ہوں میں نے اسے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ اگر تم یہ جان لو کہ ماہ رمضان میں ہمارے لیے کیا کچھ موجود  ہے اﷲ تعالی کا بہت زیادہ شکر ادا کرتے ( ماہ رمضان کے روزوں کا ثواب اس طرح ہے جو جنابِ رسول خدا(ص) کی زبان مبارک سے بیان ہوا ہے۔)

پہلے دن:       خدا میری امت کے تمام گناہوں کو جو ظاہر اور پوشیدہ ہوں معاف کردے گا اور تمہارے لیے ہزار درجات بلند کرے گا اور پچاس شہر تمہارے لیے بنائے گا۔ ( بہشت میں)۔

دوسرے دن: جو کوئی بھی اس دن ایک قدم اٹھا کر دوسری جگہ رکھتا ہے توخدا ایک سال کی عبادت، ایک پیغمبر کے اعمال کو ثواب اور ایک سال کے روزوں کا اجر اس کےلیے لکھتا ہے۔

تیسرے دن: انسان کے بدن کے جتنے بھی بال ہیں ان کےبرابر فردوس میں اس کے لیے (گنبد) قبے بناتا ہے سفید درسے کہ اس کے دروازے بارہ پزار اور اس کے نشیب میں بارہ ہزار گھر نور کے تم کو عطا  کرے گا کہ ہر گھر میں ہزار تخت ہو گے اور ہر تخت پر حوریہ ہوگی اور ہر روز ہزار فرشتے تمہارے پاس آئیں گے اور ہر فرشتے کے پاس تمہارے لیے ہدیہ ہوگا۔

چوتھے دن:                 خدا تجھے بہشتِ خلد میں ستر ہزار قصر دے گا ہر قصر میں ستر ہزار گھر ہوں گے اور ہر گھر میں پچاس ہزار تخت ہوں گے ہر تخت پر حور ہوگی اور ہرحور کے سامنے ایک ہزار کنیزیں

۵۵

 ہوںگی کہ ہر کنیز تمام دنیا اور جو کچھ اس کے اندر ہے بہتر ہے۔

پانچوان دن :               خدا تجھے جنت ماوی میں ایک لاکھ شہر دے گا کہ ہر شہر میں ستر ہزار گھر ہوںگے ہر گھر میں ستر ہزار خوان ہوں گے ہر خوان پر سترہزار کاسے ہوں گے اور اس میں ساٹھ ہزار مختلف رنگ کی خوراک ہوگی۔

چھٹے دن :         خدا تجھے دارالسلام میں سو ہزار(ایک لاکھ) شہر دے گا کہ ہر شہر میں سو ہزار گھر ہوں گے ہر گھر میںسو ہزار تخت سونے کے کہ جن کا طول ہزار ذراع کا ہوگا اور ہر تخت پر حورالعین سے ایک عورت ہوگی کہ اس کے تیس ہزار گیسو ہوں گے جو یاقوت کے ہوں گے اور ہر گیسو کو سو زہرار کنیز اٹھائے ہوگی۔

ساتویں دن :              خدا جنت نعیم میں چالیس ہزار شہدا اور چالیس ہزار صادقین کا ثواب عطا کرے گا۔

آٹھویں دن :           خدا تجھے تیرے عمل کا بدلہ ساٹھ ہزار عابدوں اور ساٹھ ہزار زاہدوں کے برابر دے گا۔

نویں دن :                 خدا تجھے ہزار متکف اور ہزار مرابط کے برابر ثواب عطا کرے گا۔

دسویں دن :               خدا تمہاری ستر ہزار حاجتیں پوری کرے گا اور سورج ، چاند ستارے،جاندار، پرندے، پتھر، خشک و تر، دریا کی مچھلیاں، درختوں کے پتے اور خدا کی کتابیں تمہارے لیے مغفرت طلب کریں گے۔

گیارہویں دن :    چار حج و عمرہ جیسا کہ ہر حج پیغمبر(ص)  کے ساتھ ادا کیا گیا ہو اور ہر عمرہ جو کسی صدیق ساتھ یا شہید کے ساتھ انجام دیا گیا ہوگا۔ کا ثواب خدا تمہیں عطا کرے گا۔

بارہویں دن :      خدا تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے گا اور ہر نیکی کے بدلے ہزار نیکیاں لکھے گا۔

تیرہویں دن :           خدا تجھے اہل مکہ و مدینہ کے ثواب عطا کرے گا اور ہر پھتر اور مٹی کا ڈھیلہ جو مکہ اور مدنینہ کے درمیان ہے کی شفاعت کا حق تجھے دے گا۔

۵۶

جودہویں دن :     گویا اس نے آدم(ع) و نوح(ع) و ابراہیم(ع) و موسی(ع)، حضرت داؤد(ع) اور حضرت سلیمان(ع) کو دیکھا ہے یہاں تک کہ گویا اس نے ہر پیغمبر کے ساتھ دو سوسال خدا کی عبادت کی ہے۔ کا اجر عطا کرے گا۔

پندرہویں دن :    خدا تمہاری دنیا و آخرت کی حاجات پوری کرے گا اور تمہیں وہ کچھ عطا کرے گا جو کچھ اس نے حضرت ایوب(ع) کو عطا کیا، حاملین عرش تمہارے لیے مغفرت کریںگے اور خدا  روز قیامت تمہیں چالیس نور عطا کرے گا ک ہر سمت سے دس دس نور تمہیں ملیں گے۔

سولہویں دن :           اوع جس وقت تم قبر سے نکالے جاؤ گے تو خدا تم کےساٹھ حکے عطا کرے گا جو تمہیں پہنائے جائیں گے، تمہیں ناقہ پر سوار کیا جائے گا اور ایک بادل اس دن کی گرمی سے بچانے کے لیے تم پر سایہ فگن  ہوگا۔

سترہویں دن : خدا روزہ دار کو فرماتا ہے کہ میں نے تمہارے اجداد کو معاف کیا اور روز قیامت کی سختیوں کو ان سے اٹھالیا ہے۔

اٹھارویں دن :        اﷲ تعالی جبرائیل(ع)، میکائیل(ع) و اسرافیل(ع) اور حاملین عرش و کربین کو حکم دیتا ہے کہ وہ امت  محمد(ص) کے لیے اگلے سال تک مغفرت طلب کرتے رہے اور اہل بدر کے ثواب کے برابر تمہیں عطا کرتا ہے۔

انیسویں دن :          کوئی فرشتہ زمینوں اور آسمانوں میں ایسا نہیں رہتا جو اﷲ تعالی کی اجازت سے ہر روز ہدیہ اور دودھ سے زیادہ سفید شربت لے کر تمہاری قبور کی زیارت کرنے نہ آتا ہو۔

بیسویں دن :          اﷲ تعالی ستر ہزار فرشتے بھیجتا ہے جو تمہاری ہر شیطان رجیم سے حفاظت کرتے ہیں خدا ہر دن کے بدلے میں سو سال کے روزوں کا ثواب تمہارے لیے لکھ دیتا ہے تمہارے اور آگ(جہنم) کے درمیان خندق کھود دیتا  ہے اور تجھے اس بندے کے برابر ثواب عطا کرتا ہے کہ جس نے توریت و انجیل و زبور و فرقان کی تلاوت کی ہو اور جبرائیل(ع) کے پروں کے برابر تیری عبادت کا ثواب دیتا ہے اور ثوابِ تسبیح عرش و کرسی تجھے دیتا ہے اﷲ تعالی قرآن مجید کی ہر آیت کے بدلے ہزار حوروں کے ساتھ تیری تزویج کرے  گا۔

۵۷

اکیسویں دن :           ہزار فرسخ اس کی قبر کو کشادہ کیا جائے گا ظلمت و وحشت اس سے ہٹادی جائے گی اور اس کی قبر شہدا کی قبر کی مانند کر دی جائے گی اور اس کے چہرہ کو یوسف بن یعقوب(ع) کے چہرے کی طرح کردیا جائے گا۔

بائیسویں دن :              ملک الموت کو بعثت انبیاء(ع) کی طرح بھیجا جائے گا اور تم سے منکر و نکیر اور آخرت کے عذاب کے خوف ہٹا دیا جائے گا۔

تیئسویں دن :              پیغمبروں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ تجھے پل صراط سے گزارا جائے گا اور تو اس طرح ہوگا کہ جیسے تونے میری امت کےکسی پیغمبر کو سیر کیا ہے اور میری امت کے ہر برہنہ کو لباس پہنایا ہے۔

چوبیسویں دن :    وہ شخص اس وقت تک دنیا سے نہ جائے گا جب تک کہ اپنے مقام کو بہشت میں آنکھوں سے نہ دیکھ لے اور ثواب ہزار بیمار کا اور ہزار غریب کا کہ جو راہ خدا میں غریب ہوتا ہے عطا کرے گا اور ایسا ثواب کہ جیسے اس نے ہزار غلاموں کو اولاد اسماعیل(ع) میں سے آزاد کیا ہے عطا کرے گا۔

پچیسویں دن :        خدا تمہارے لیے تحت العرش  میں ایک ایسی بنیاد بنائے گا جس کے ہزار گنبد ہوں گے اور ہر گنبد کے خیمہ کے کنارے نور ہوگا خدا فرمائے گا اے محمد(ص) کی امت میں ہی تمہارا پروردگار ہوں اور تم میرے بندے اور کنیزیں  ہو تم اس گنبد میں میرے عرش کے سائے میں رہو اور دودھ سے سفید کھانے کھاؤ اور شربت پیئو تم  پر کوئی خوف اور غم نہیں ہے اے امتِ محمد(ص) مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم میں تمہیں اسی طرح بہشت میں داخل کروں گا کہ جس طرح اولین اور آخریں کو کیا ہے۔ اور عجائب و غرائب میرے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتے ۔ خدا ہر طرف سے تجھے ہزار تاج نور کے عطا کرے گا اور ہر طرف سے تجھے ناقہ پر سوار کیا جائے گا جو نور سے خلق ہو اور نور کی مہار رکھتا ہوگا اور اس مہار میں ہزار حلقے سونے کے ہوں گے اور ہر حلقے پر ایک فرشتہ ہوگا کہ  وہ نور کے عمود کو ہاتھ میں لیے ہوگا یہاں تک کہ بغیر حساب بہشت میں داخل ہوگا۔

چھبیسویں دن:     خدا اس کی طرف نظر رحمت کرے گا اور اس کے تمام گناہ سوائے قتل نفس

۵۸

اور مال کی برائی کے معاف کردے گا اور ہر روز کی ستر مرتبہ کی گئی غیبت و جھوٹ و بہتان سے اس کو پاک کردے گا۔

ستائیسویں دن :    تمام مومن مرد اور مومن عورتوں کی مدد کی جائے گا اور ستر ہزار برہنہ کو اس  کی طرف سے لباس پہنانے کا اجر دیا جائے اور ہزار مرابط کی خدمت کا اس کو ثواب ملے گا اور ہر وہ کتاب کہ جو خدا نے نازل کی ہے کے پڑھنے کا ثواب دے گا۔

اٹھائیسویں دن :       خدا تجھے بہشتِ خلد میں سو ہزار شہر نور کے عطا کرے گا اور جنت ماوی میں سو ہزار قصر چاندی کے عطا کرے گا اور جنت الفردوس میں سو ہزار شہر دے گا اور ہر شہر میں سو ہزار منبر مشک کے ہوں گے ہر منبر کے ہزار گھر زعفران سے بنے ہوں گے ہر گھر میں ہزار تخت در یاقوت کے بنے ہوں گے اور ہر تخت پر حور العین میں سے اس کی ہمسر(زوجہ) بیٹھی ہوگی۔

انتیسویں دن :         خدا ہزار ہزار محلے دے گا ہر محلہ میں سفید گنبد ہوگا اور ہر گنبد کا فور سفید سے بنا ہوگا اس تخت پر ہزار بستر سندس سبز کے ہوں گے اور ہر بستر پر حور ہوگی اور جو ستر ہزار حلے پہنے ہوگی اس کے سر پر اسی ہزار شقہ گیسو ہوں گے اور ہر شقہ درِ مکلل و یاقوت کا ہوگا۔

تیسویں دن :      خدا تمہارے لیے لکھے گا کہ جو دن تم سے گزر گیا ہے ۔ اس میں ہزار صدیقوں اور ہزار شہیدوں کا ثواب تمہارے لیے ہے اس ہر دن (ماہ رمضان) کے روزے کا ثواب دو ہزار دن کے برابر ہے یہ بندہ جس قدر چلا(میری طرف) یوں سمجھے کہ دریائے نیل پر چلا۔ اے شخص خدا تیرے درجات اس قدر بلند کرے گا کہ تیرے لیے دوزخ سے آزادی۔ عذاب سے امان اور پل صراط سے گزرنے کا اجازت نامہ عطا کرے گا اور بہشت کا ایک دروازہ جس کا  نام ریان ہے۔ قیامت سے پہلے نہیں کھولا جائے گا مگر وہ مرد اور عورتیں جنہوں نے روزے رکھے ہوں گے کے لیے یہ دروازہ کھول دیا جائے گا اور یہ مرد اور عورتیں میری امت سے ہوں گے۔ خازنِ بہشت”رضوان“ ندا دیں گے کہ اے امت محمد(ص) ریان کی طرف آؤ۔ اور میری امت اس دروازے سے بہشت میں داخل ہوگی اور جس کے ماہ رمضان میں گناہ معاف نہ ہوں تو اور کس مہینے میں معاف ہوں گے؟ کوئی طاقت خدا کے سوا نہیں ہے۔ ہمارے لیے خدا ہی کافی ہے۔ اور ہمارے

۵۹

لیے خدا کیسا بہترین وکیل ہے۔

(جناب شیخ صدوق(رح) نے اسی دن مجلس کے بعد مندرجہ ذیل حدیث کو بیان کیا)

۳ـ          جندب بن حنادہ(رح) جناب ابوذر(رح)) کہتے ہیں، میں نے جنابِ رسول خدا(ص) کو علی(ع) سے تین جملے کہتے ہوئے سنا۔ کہ اگر ان تین میں سے میرے لیے ایک بھی کہا ہوتا تو مجھے اس دنیا اور جو کچھ اس کے اندر ہے سے زیادہ محبوب ہوتا۔ میں نے سنا رسول خدا(ص) نے فرمایا : اے خدایا میں تجھ سے اس (علی(ع)) کی مدد چاہتا ہوں، میں تجھ سے اس کی دوستی چاہتا ہوں۔ کیونکہ وہ تیرا بندہ اور تیرے رسول(ص) کا بھائی ہے۔

جنابِ ابوزر فرماتے ہیں کہ میں نے علی(ع) کی ولایت ، ان کے اخی ہونے اور ان کے وصی ہونےکی گواہی دیتا ہوں۔

کربذہ بن صالح ( راوری حدیث) نے ابوزر سے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ سلیمان فارسی(رح)، مقداد(رح) عمار(رح) جابر بن عبداﷲ انصاری(رح) ابو ہیتم تیھان(رح) خزیمہ بن ثابت(ذوالشہادتین(رح)) ابوایوب(رح) ( میزبان پیغمبر(ص)) اور ہاشم بن عتبہ مرقال(رض) نے بھی علی(ع) کے بارے یہی گواہی دی ہے اور یہ تمام بلند مرتبہ اصحاب رسول(ص) ہیں۔

والحمد ﷲ رب العالمين

۶۰