مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 296763
ڈاؤنلوڈ: 7462

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 296763 / ڈاؤنلوڈ: 7462
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مجلس نمبر۷۳

(۸ جمادی الثانی سنہ۳۶۸ھ)

ابوذر(رح) کے اسلام لانے کا سبب

۱ـ           امام صادق(ع) نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا کیا میں تجھے ابوذر(رح) و سلمان(رح) کے اسلام لانے کا سبب بتاؤں اس شخص نے کہا میں سلمان(رح) کے اسلام لانے کے سبب سے تو آگاہ ہوں آپ(ع) مجھے ابوذر(رح) کے اسلام لانے کی وجہ بتائیں۔

امام صادق(ع) نے فرمایا کہ ابوذر(رح) مکہ مکرمہ سے ایک منزل کے  فاصلے پر واقع ایک مقام ابوبطن مرکہ میں اپنی بکریاں چرایا کرتے تھے ایک مرتبہ اچانک ایک بھیڑیا دائیں طرف سے نمودار ہوا اور ان کی بکریوں پر جھپٹا ابوذر(رح) نے اپنے عصاء کی مدد سے اسے بھگایا  پھر بائیں طرف سے ریوڑ پر حملہ آور ہوا ابو ذر(رح) نے اپنا عصاء اسے مارا اور کہا بخدا میں نے تجھ سے زیادہ خبیث کوئی بھیڑیا نہیں دیکھا تو ہو بھیڑیا با اعجاز آںحضرت(ص) گویا ہوا اور کہا واﷲ اہل مکہ مجھ سے بدتر ہیں خداوند عالم نے ان کی طرف ایک پیغمبر(ص) بھیجا اور وہ اسے دروغ سے نسبت دیتے ہیں یہ بات ابوذر(رح) کے دل میں اثر کر گئی وہ گھر واپس آئے اور اپنی ہمیشرہ سے کہا کہ مجھے کچھ کھانا ، ایک لوٹا اور عصا لادو، یہ چیزیں لے کر وہ پیدل مکہ کی جانب روانہ ہوگئے اور مکہ جا پہنچے وہاں دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت براحمان ہے وہ ان کے ساتھ بیٹھ گئے اورسنا کہ وہ لوگ جناب رسول خدا(ص) کو برا کہہ رہے ہیں ابوذر(رح) نے دل میں سوچا کہ جیسا بھیڑیے نے کہا تھا خدا کی قسم ویسے ہی حالات ہیں اور یہ لوگ اسی روش پر ہیں پھر جب دن کا اختتام ہونےلگا تو ابوطالب(ع) تشریف لائے وہ لوگ جناب ابوطالب(ع) کو دیکھ کر کہنے لگے کہ خاموش ہوجاؤ ان کے چچا آگئے ہیں، جب وہ ان کے قریب آگئے تو ان لوگوں نے جناب ابوطالب(ع) کی تعظیم کی، جناب ابوطالب(ع) نے نہایت سخن ور اور بے مثال خطیب تھے پھر کچھ دیر بعد وہ لوگ منتشر ہوگئے اور جناب ابو طالب(ع) بھی رخصت ہونے لگے تو

۴۴۱

 ابوذر(رح) بھی ان کے ہمراہ ہو لیے انہوں نے ابوذر(رح) سے دریافت کیا کہ کیا تمہیں مجھ سے کوئی حاجت یا کوئی کام ہے جو پیچھے پیچھے آرہے ہو ابوذر(رح) نے عرض کیا کہ میں اس پیغمبر(ص) سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں جو آپ کے درمیان مبعوث ہوا ہے تاکہ ان پر ایمان لاؤں اور ان(ص) کی تصدیق کروں اور جس بات کا وہ حکم دیں اس پر عمل کروں۔ جناب ابو طالب(ع) نے فرمایا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد(ص) اس کے رسول ہیں اورکیا اس اقرار کے بعد اس پر کاربند بھی رہو گے ابوذر(رح) نے عرض کیا جی ہاں پھر کہا”اش ه د ان لا ال ه الا اﷲ و اش ه د ان محمدا رسول اﷲ “ جناب ابوطالب(ع) نے فرمایا تم کل اسی وقت اسی جگہ میرے پاس آجانا ابوذر(رح) دوسرے روز بھی وہیں اسی مقام پر انہیں لوگوں کی جماعت میں آکر بیٹھ گئے وہ لوگ اس دن بھی حسبِ سابق جناب رسول خدا(ص) کی برائیاں کررہے تھے مگر جناب ابوطالب(ع) کو دیکھا تو وہ لوگ خاموش ہوگئے جناب ابوطالب(ع) نے لوگوں کے درمیان ایک امتیازی مقام رکھتے تھے پھر کافی دیر کے بعد جب وہ لوگ منتشر ہونے لگے اور جناب ابوطالب(ع) نے دریافت کیا کہ کیا تمہاری کوئی حاجت ہے تو ابوذر(رح) نے روزِ سابق کی طرح اپنا مدعا بیان کیا جناب ابو طالب(ع) نے گذشتہ دن کی طرح پھر کہا کیا تم اس کی رسالت کا اقرار کرتے ہو تو ابوذر(رح) نے کہا”اش ه د ان لا ال ه الا اﷲ و اش ه د ان محمدا رسول اﷲ “ جناب ابوطالب(ع) نے فرمایا درست ہے میں بھی اسی کا اقرار کرتا ہوں ۔ پھر وہ ابوذر(رح) کو لے کر ایک گھر میں گئے جس میں جناب جعفر بن ابی طالب(ع) موجود تھے ابوذر(رح) انہیں سلام کیا انہوں نےسلام کا جواب دیا اور فرمایا کیا کوئی کام ہے ابوذر(رح) نے کہا جو پیغمبر(ص) تمہارے درمیان مبعوث ہوا ہے میں ان(ص) سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں جناب جعفر(ع) نے کہا ان(ص)سے کیا کام ہے ابوذر(رح) نے کہا میں ان(ص) پرایمان لانا چاہتا ہوں ان کی تصدیق کرنا چاہتا ہوں اور ان(ص) کی ہدایات پر عمل کرنا چاہتا ہوں ، یہ سن کر جناب جعفر(ع) نے انہیں شہادتین کی تلقین کی ابوذر(رح) نے شہادت دی پھر انہیں ایک اور گھر میں لے جایا گیا جہاں جناب حمزہ(ع) بن عبدالمطلب(ع) تھے انہوں نے بھی ابوذر(رح) سے شہادتین کا اقرار لیا اور پھر انہیں لے کر جناب علی بن ابی طالب(ع) کے پاس آگئے ابوذر(رح) نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا اور پھر مدعا معلوم کر کے اسی طرح شہادتین کا اقرار

۴۴۲

 لیا اور پھر انہیں لے کر جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوگئے جناب رسول کدا(ص) کی ہستی نور پر نور تھی ابوذر(رح) سے جناب رسول خدا(ص) نے شہادتین کا اقرار لیا اور فرمایا میں رسول خدا(ص) ہوں، اے ابوذر(رح) تم اپنے وطن واپس جاؤ وہاں تمہارے چچا کا بیٹا انتقال کر گیا ہے اس کے مال کے تم ہی وارث ہو اس کا مال حاصل کرو اور وہیں رہو اور جب تک میں اعلان نبوت نہ کردوں تم وہیں رہنا ابوذر)(رح) واپس چلے گئے اور جیسا جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا تھا ویسے ہی ان کے چچا کے بیٹے کا وہاں انتقال ہوگیا تھا اور ابوذر(رح) ان کے وارث ٹھہرائے گئے تھے جناب ابوذر(رح) کے ہاتھ ان کا مال کثیر آیا وہ اس وقت تک وہیں رہے اور پھر اعلانِ نبوت ہوا تو ابوذر(رح) جناب رسول خدا(ص) کے پاس تشریف لے آئے۔

۲ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جھوٹی گواہی دینے والا درزخ کے علاوہ کہیں اور نہیں جائے گا۔

۳ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا جو شخص کسی کے مال پر ناحق گواہی دے کر اسے اس کے مال سے محروم کردے تو ایسے شخص کےلیے خدا اس کا ٹھکانہ دوزخ قرار دے گا۔

۴ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی سچی گواہی چھپا کر کسی مسلمان کو برباد کردے یا اسے اس کے مال سے محروم کردے تو ایسا شخص اس طرح قیامت کے روز پیش کیا جائے گا کہ حد نگاہ سے اس کا چہرہ سیاہ دکھائی دے گا اور مخلوق اس کی نسل سے پہچانے گی اور جو کوئی سچی گواہی دے کر کسی مرد مسلمان کے حق کو زندہ کرے گا تو وہ روز قیامت اس طرح پیش کیا جائے گا کہ حد نگاہ سے ہی اس کا چہرہ روشن دکھائی دے گا اور مخلوق اسے اس کی نسل سے پہچانے گی امام باقر(ع) نے فرمایا لوگ نہیں جانتے کہ خدا فرماتا ہے کہ ” خدا کے لیے شہادت دو“

۵ـ          عبدالقیس کہتے ہیں کہ سلمان(رح) کا گذر ایک قبرستان سے ہوا تو انہوں نے کہا السلام علیکم یا اہل قبور، اے مومنین و مسلمین کیا تم جانتے ہو کہ آج جمعہ کا دن ہے۔ سلمان(رح) یہ کہہ کر گھر واپس آگئے عالم نیند میں دیکھا کہ کوئی شخص آیا اور اس نے کہا و علیکم السلام یا ابو عبداﷲ آپ ہمارے درمیان( قبرستان) آئے اور آپ نے ہمیں سلام کیا  اور جو کچھ ہمیں کہا وہ ہم نے سنا ہم جانتے ہیں کہ آج جمعہ کا دن ہے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پرندے بروزِ جمعہ کیا کہتے ہیں وہ کہتے ہیں قدوس

۴۴۳

 قدوس اے پروردگار تو ہی ہمیں بخشنے والا ہے تیرے ملک اور تیری عظمت کی مانند کوئی نہیں اور اس شخص نے تجھے نہیں پہچانا جو تیری جھوٹی قسم کھاتا ہے۔

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا خدا دشمن رکھتا ہے اس بندے کو جو اپنے مال کی قسم کھانے  کا عادی  ہوچکا ہو ( یا اپنے مال کی قسم کھانے کی روایت ڈالے)

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی خدا کی قسم کھائے اسے چاہیے کہ سچ بولے اور اگر انہیں بولتا تو ایسے کے ساتھ خدا نہیں ہے اور اگر کسی کے سامنے خدا کی قسم کھائی جاہیے تو اسے چاہیے کہ راضی ہوجائے ورنہ ایسے کے ساتھ بھی خدا نہ ہوگا۔

۸ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اس وقت جناب رسول خدا(ص) بھی مسجد میں موجود تھے اس شخص نے دورانِ نماز جب سجدہ کیا تو نہایت مختصر کیا یہ دیکھ کر جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا جو کوئی اس طرح سجدہ کرے جیسے کوا اپنی چونج زمین پر مارتا ہے اور اسی حالت میں مرجائے تو ایسے شخص کا خاتمہ دین محمدی(ص) پر نہیں  ہوا۔

۹ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا شیطان ابن آدم(ع) سے اس وقت تک ترسان و ہراساں رہتا ہے جب تک وہ نماز پنجگانہ ادا کرتے رہتے ہیں مگر جب وہ نماز کا وقت گزار دیتے ہیں شیطان دلیر ہوجاتا ہے اور بندے کو گناہوں کی طرف کھینچتا ہے۔

۱۰ـ          ابوبصیر کہتے ہیں کہ میں امام صادق(ع) کی وفات کے بعد ام حمیدہ کی خدمت میں تعزیت کی غرض سے گیا انہوں نے فرمایا اے ابو محمد کاش تم امام صادق(ع) رحلت کے وقت دیکھتے وہ منظر نہایت عجیب تھا، انہوں نے اپنی دونوں آنکھیں کھولیں اور فرمایا تمام رشتہ داروں کو جمع کرو یہ سن کر کوئی فرد ایسا نہ تھا جو حاضر نہ ہوگیا ہو، جب سب آگئے تو آپ(ع) نے فرمایا بیشک ہماری شفاعت اس بندے کو نہ پہنچے گی جو نماز کو کم تر شمار کرتا ہے۔

۱۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جوکوئی غسل جنابت میں اپنے جسم کے ایک بال کو بھی عمدا (خشک) چھوڑ دے وہ دوزخ میں ہوگا۔

۱۲ـ          امام باقر(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا ہے کہ جبرائیل(ع)، پیغمبر(ص) پر نازل ہوئے اور کہا

۴۴۴

 اے محمد(ص) تیرا خدا تجھے سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے میں نے سات آسمانوں کو پیدا کیا، جوکچھ ان میں ہے اسے پیدا کیا، میں نےسات زمینوں کو اور جو کچھ ان میں ہے کو پیدا کیا، میں نے رکن عظیم اور جائے عظیم تر کو پیدا کیا۔ اگر کوئی بندہ مجھے اس جگہ پکارے مگر منکر ولایت علی(ع) ہو تو میں اس کو سقر( دوزخ ) میں گراؤں گا۔

۱۳ امام باقر(ع) نے فرمایا نماز جمعہ امام کے بغیر بھی واجب ہے اگر بندہ اسے بلا عذر ترک کرے تو  اس نے اپنے فریضہ کو ترک کیا۔ اگر مسلسل تین جمعے وہ اپنے فرائض ترک کرے تو وہ منافق ہے پھر فرمایا جو کوئی نماز کو بے رغبت ادا کرے اور بغیر عذر کے جماعت کی نماز چھوڑے تو وہ نماز نہیں رکھتا۔

۱۴ـ امام صادق(ع) نے فرمایا جناب رسول خدا(ص) نے نماز فجر ادا کرنے کے بعد اپنے اصحاب سے چند لوگوں کے متعلق دریافت کیا لوگوں نے بتایاکہ وہ موجود نہیں ہیں آپ() نے فرمایا کیا وہ سفر پر ہیں کہنے لگے نہیں، جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا نماز منافقین کے لیے سخت  شئی ہیں۔

۱۵ـ امام صادق(ع) نے فرمایا جو شخص قدرت رکھنے کے باوجود اپنے بھائی کی مدد نہ کرے وہ مومن نہیں ہے خدا ایسے کی مدد دنیا و آخرت میں ترک کردے گا۔

۱۶ـ امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی اپنے برادر دینی کو رسوا کرنے کی خاطر اس کی داستان لوگوں سے بیان کرے تو خدا اسے اپنی ولایت سے شیطان کی ولایت کی طرف دھکیل  دے گا۔

فضائل اہل بیت(ع)

۱۷ـابن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن جناب رسول خدا(ص) تشریف فرما تھے۔ اور ان کے ساتھ علی(ع) فاطمہ(س)، حسن(ع)، اور حسین(ع) بھی موجود تھے جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا خدایا تو جانتا ہے کہ یہ میرے اہل بیت(ع) ہیں، یہ میرے نزدیک گرامی ترین نفوس ہیں تو ان کے دوستوں کو دوست رکھ اور ان کے دشمنوں کو دشمن رکھ، ان سے مہربانی کر جو ان سے مہربانی کریں اور برا رکھ انہیں جو انہیں برا گردانیں اور جو ان کی مدد کریں تو ان کی مدد کر ان سے ہر قسم کی نجاست و گندگی کو دور رکھ انہیں ہرگناہ سے معصوم رکھ اور روح القدس کے ذریعے ان کی مدد فرما۔ پھر جناب رسول خدا(ص) نے

۴۴۵

 فرمایا۔ اے علی(ع) تم میری امت کے امام ہو میرے بعد ان پر خلیفہ و جانشین ہو، جنت کے راستے میں مومنین کے قائد اور راہنما ہو اور اپنی بیٹی فاطمہ(س) کو میں دیکھ رہا ہوں کہ  یہ روز قیامت ناقہء نور پر سوار ہو کر آئی ہیں۔ ان کے دائیں طرف ستر ہزار بائیں طرف سترہزار اور ان کے آگے بھی ستر ہزار فرشتے ہیں وہ میری امت کی مومنہ عورتوں کی جنت کی طرف قیادت کررہی ہیں اور یہ وہ مومن عورتیں ہونگی جو دن میں نماز پنجگانہ ادا  کرینے والی پابند صوم  اور حج بیت اﷲ کو ادا کرنے والی ہوں گی، اس(فاطمہ(س)) کی قیادت میں ایسی ہی مومنہ عورتیں ہوں گی، کہ  جو اپنی زکواة بھی پابندی سے ادا کرتی ہوں گی، اپنے شوہروں کی اطاعت کرنے والی اور میرے بعد ولایت علی(ع) پر کاربند ہوں گی یہ عورتیں میری بیٹی کی شفاعت سے بہشت میں داخل ہوں گی فاطمہ(س) تمام عالمین کی عورتوں کی سردر ہیں۔ عرض کیا گیا کہ کیا فاطمہ(س) صرف اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں تو رسول خدا(ص) نے فرمایا یہ صفت تو حضرت مریم(س) بنت عمران(ع) کی ہے میری بیٹی فاطمہ(س) تو تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہے خواہ وہ اولین میں سے ہوں یا آخرین سے جب یہ نماز کے واسطے محراب میں کھڑی ہوتی ہیں تو ستر ہزار مقرب فرشتے ان پر سلام بھیجتے ہیں اور انہیں ایسے الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں جس سے مریم بنت عمران(ع) کو مخاطب کیا کرتے تھے، وہ (فرشتے) کہتے ہیں اے فاطمہ(س) ” خدا نے تمہیں منتخب کیا اور ہر برائی سے پاک رکھا اور تمام عالمین کی عورتوں پر تمہیں فضیلت دی“ ( آل عمران، ۴۲) پھر جناب رسول خدا(ص) نے اپنا رخ علی(ع) کی طرف کیا اور فرمایا فاطمہ(ع) میرے بدن کا ٹکڑا اور میری نور نظر ہے یہ میرے دل کا میوہ ہے جس نے اسے رنج پہنچایا اس نےمجھے رنجیدہ کیا اور جس نے اسے دکھ پہنچایا اس نے مجھے دکھ پہنچایا یہ میرے اہل بیت(ع) میں سب سے پہلے مجھ سے ملے گی لہذا میرے بعد اس کا خیال رکھنا۔ پھر فرمایا یہ حسن(ع) و حسین(ع) میرے فرزند ہیں۔ جومیرے شجر زندگی کے دو پھول ہیں یہ جوانان جنت کے سردار ہیں ان دونوں کا بھی اتنا ہی خیال رکھنا کہ جتنا تم اپنی آنکھوں اور کانوں کا رکھتے ہو پھر اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور فرمایا خدایا تو گواہ رہنا کہ میں اس شخص سے محبت کرتا ہوں جو ان جسے محبت کرتا ہے اور اس کو دشمن رکھتا ہوں جو ان کو دشمن رکھتا ہے میری صلح اس سے ہے جو ان سے صلح رکھے، میری عداوت اس سے ہے جو ان سے عداوت رکھے اور وہ میرا دوست ہے جو انہیں دوست رکھتا ہے۔

۴۴۶

مجلس نمبر۷۴

(۱۲جمادی الثانی سنہ۳۶۷ھ)

بہترین کون ہے

۱ـ           ابوصباح کنانی نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا کہ یہ اقول کس کے ہیں کہ میں خدا سے ایمان کا خواستگار ہوں اور اس سے پناہ مانگتا ہوں،افضل الذکر ذکر خدا ہے بہترین حکمت اس کی اطاعت ہے، سب سے سچی، نصیحت آموز اور دلنشین داستان قرآن کریم ہے، خدا پر ایمان استوار ترین رشتہ ہے، بہترین ملت ملت ابراہیمی(ع) ہے بہترین طریقہ پیغمبروں کا طریقہ ہے، بترین راہ حق، راہ محمدی(ص) ہے، بہترین توشہ تقوی اور بہترین علم وہ ہے کہ جس سے فائدہ حاصل ہو، بہترین راہ راہِ حق ہے جس کی پیروی کی جائے، بہترین توانگری خود پر اعتماد ہے، دل کا بہترین ذخیرہ یقین ہے، زیور حدیث سچائی ہے۔ علم کا زیور احسان اور بہترین امور وہ ہیں جن کا انجام نیک ہو، جو کچھ کم ہے نیکی ہے اور جو زیادہ ہے بے ھودگی ہے، شقی ماں کے شکم سے شقی ہے، سعید وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت لے۔ زیرک ترین آدمی وہ ہے جو تقوی اختیار کیے ہوئے ہے، ہرزہ سرائی کرنے والا احمقوں کا احمق ہے، بدترین نقل جھوٹ ہے بدترین امور بدعتین ہیں، بدترین اندھا دل کا اندھا ہے، بدترین پشیمانی روز قیامت کی پشیمانی ہے، بزرگ ترین خطا کار خدا کے نزدیک وہ زبان ہے جو جھوٹ کہے، بدترین کسب ریا کاری ہے، بدترین خوراک یتیم کے مال کا کھانا ہے، مرد کا بہترین زیور ایمان ہے، جو کوئی شمع راہ ہدایت کا پیرو  ہوگا تو خدا اس کی شمع روشن کرے گا، جس کسی کو مصیبتیں گھیر لیں اسے چاہیے کہ صبر کرے اگر وہ صابر نہیں ہوگا تو کافر شمار کیا جائے گا، جو کوئی تکبر کرے خدا اسے پست کرتا ہے جس کسی نے شیطان کےفرمان پر عمل کیا اس نے خدا کی نافرمانی کی اور جو کوئی خدا کی نافرمانی کرے خدا اسے سزا دے گا اور خدا اس کے عذاب میں اضافہ فرمائے گا۔ جو کوئی ناگواری پر صبر کرے خدا اس کی مدد کرے گا، جو کوئی خدا پر

۴۴۷

بھروسہ کرے خدا اس کی کفالت کرے گا اور اس پر ناراض نہ ہوگا، جو کوئی خدا کی خوشنودی اور تقرب کے لیے اس کی اطاعت کرتا ہے خدا اس سے خوش ہے اور جو اس کی خوشنودی اور تقرب حاصل نہیں کرتا ہے خدا اسے سے ناراض ہے، ہر خیر کو اس کی اطاعت میں طلب کرو، نیکیوں کو اختیار کیے رکھو اور برائیوں سے گریز کرو خدا ہر اس شخص کی حفاظت کرتا ہے  جو اس کےفرمان پر عمل کرے اور ہر وہ شخص جو اس کی نافرمانی کرے اس کی پناہ میں نہیں، خدا سے گریز کرنےوالے کےلیے کوئی دوسری راہ فرار نہیں کیوںکہ امر خدا اسکی خواری کے لیے نازل ہوگیا ہے، جو کچھ خدا تمہیں عطا کرے اس پر خوش ہوجاؤ، خدا سے ڈرو کہ وہ سخت سزا دینے والا ہے۔ امام صادق(ع) نے فرمایا یہ اقوال مجھ تک جناب رسول خدا(ص) سے پہنچے ہیں۔

۲ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی خدا کی نافرمانی کرے اسے دوست مت رکھو پھر امام(ع) نے یہ شعر پڑھا ” اگر دوست صادق ہے تو اس کی بات مانو۔ عاشق محبوب کی ہر بات کا دل سے مطیع ہوتا ہے“

۳ـ          امام صادق(ع) ہمیشہ فرماتے کہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ اعمال صالح کی دولت کو آخرت کے لیے بھیجے۔

۴ـ          امام صادق(ع) اس بات کو بہت زیادہ دھرایا کرتے کہ اس زمانے میں ہلاکت میں پڑے ہوئے کو نجات اور کامیابی، بغیر درمان کے دلانا ایسا ہی ہے جیسے انسان علم طریقت کے راستے پر بے نشان چل پڑے۔

۵ـ          امام صادق(ع) اکثر فرمایا کرتے اپنی زندگی بہتر بنانے کے واسطے مسلسل محنت کرو اور ماضی کی غلطیوں کو مت دہراؤ جو بہتر ہے اسے اختیار کرو۔

۶ـ           دانشمندوں کے ایک گروہ نے جناب حسن(ع) بن علی(ع) اور ولید بن عتبہ لعین کے درمیان ہونے والے مکالمے کو بیان کیا ہے کہ امام حسن(ع) نے ولید لعین سے کہا کہ ” میں تجھے اسی طرح ملامت نہ کروں جس طرح تو علی(ع) کے لیے سب وشتم کرتا ہے، میں تجھے اسی تازیانے سے مارنا چاہتا ہوں یاد کر تیرے باپ کو جناب رسول خدا(ص) کے حکم سے بدر کے روز قتل کیا گیا، اس کے قاتل کو خدا

۴۴۸

نے اپنی آیات میں مومن کہا اے تجھے فاسق کا نام دیا گیا“۔

پھر امام(ع) نے ان اشعار کو دھرایا۔

ولید لعین کے لیے کفر کی منزل ہے۔

اور علی(ع) کی جگہ ایمان ہے۔

جو خدا کو نہ چاہتا ہو وہ مومن کیسے بن سکتا ہے۔

اور فاسق کا انجام تباہی ہے۔

ولید اور علی(ع) کو بے شک پکارو۔

لیکن دونوں کے درمیان فرق واضح ہے۔

علی(ع) کی جزا بہشت ہے۔

اور ولید کی جزا جہنم ہے۔

۷ـ جناب علی(ع) نے فرمایا میں رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا تو سلمان بھی وہیں تھے سلمان نے مجھے دیکھ کر کہا اے علی(ع) آپ بھی یہاں تشریف لے آئے ہیں اور میں بھی یہیں موجود ہوں اور یہاں کے علاوہ کسی کے ساتھ نہیں ہوں یہ سن کر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے سلمان روزِ قیامت یہ (علی(ع)) اور اس کے گروہ کے لوگ ہی نجات پائیں گے۔

۸ـ انس بن مالک کہتے ہیں کہ پیغمبر(ص)نے فرمایا میرے بعد میری امت کے اختلاف میں علی(ع) ہی راہ ہدایت دے گا۔

۹ـ عبدالرحمن ہمدانی بیان کرتے ہیں کہ جب جناب علی(ع) ابن ابی طالب(ع) نے فاطمہ(س) کو دفن کیا تو ان کی قبر مبارک پر یہ اشعار پڑھے

” اے گروہ انس ہر دوست جدائی رکھتا ہے

اور موت میں بہت کم جدائی ہے

ہر فرد نے دوسرے سے جدا ہونا ہے

معلوم ہونا چاہیے کہ ہر دوستی دوامی نہیں۔

۴۴۹

             میں مقصد کی یاد آوری میں محبت رکھتا ہوں۔

۱۰ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا جس کا ظاہر اس کے  باطن سے جدا ہے روز قیامت اس کی میران ہلکی ہوگی۔

۱۱ـ           امام صادق(ع) نے سماعہ سے فرمایا مومن چار چیزوں سے جدا  نہ ہوگا۔ اول وہ ہمسایہ جو اسے آزار دے۔ دوئم ۔ شیطان جو اسے گمراہ کرے۔ سوئم۔ منافق جو اس کے پیچھے لگارہے۔ اور چہارم۔ وہ مومن جو اس پر حسد کرے، میں( سماعہ) نے کہا میں آپ(ع) پر قربان ہوجاؤں کیا مومن اس پر حسد کرتا ہے آپ(ع) نے فرمایا اے سماعہ یہ ان تمام سے زیادہ سخت ہے میں نے پوچھا کس طرح فرمایا اسے برا کہے اور اسے باور کرواتا رہے۔

آنحضرت(ص) اور نزول ابر

۱۲ـ          ابن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اصحاب رسول(ص) کے ہمراہ ان(ص) کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ جناب رسول خدا(ص) نے آسمان کی طرف دیکھا اور اپنی چشم مبارک سے اشارہ فرمایا ناگاہ ہم نے دیکھا کہ ایک سمت سے بادل آیا جناب رسول خدا(ص) نے اسے پاس آنے کا اشارہ کیا بادل نزدیک  آگیا جناب رسول خدا(ص) نے اسے دوبارہ اشارہ کیا تو ہو بادل بے حد نزدیک آگیا پھر جناب رسول خدا(ص) کھڑے ہوئے اور اپنے بازو بلند فرمائے یہاں تک کہ آپ(ص) کی زیر بغل سفیدی نظر آنے لگی آپ(ص) نے بادل میں اپنے ہاتھ داخل کیے اور ایک کھجوروں سے بھرا ہوا سفید پیالہ برآمد کیا جناب رسول خدا(ص) نے وہ تازہ کھجوریں تباول فرمائیں اس پیالے نے جناب رسول خدا(ص) کے ہاتھ پر تسبیح کی۔ پھر آںحضرت(ص) نے وہ پیالہ جناب امیر(ع) کو دیدیا جناب امیر(ع) نے بھی وہ کھجوریں تناول فرمائیں اس پیالے نے جناب امیر(ع) کے ہاتھ پر بھی تسبیح بیان کی۔

اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) نے یہ پیالہ اور اس کھجوریں خود کو اور علی(ع) کو ہی دی ہیں؟ اس بات پر وہ پیالہ باذن خدا گویا ہوا اور کہا” لا الہ الا اﷲ خالق الظلمات والنور“ اے لوگو کیا تم جانتے ہو کہ میں ہدیہء حق ہوں اور مجھ سے کوئی نہیں کھا سکتا مگر پیغمبر(ص) یا وصیِ

۴۵۰

 پیغمبر(ص)۔

۱۳ـ          مشمعل اسدی کہتے ہیں کہ میں ایک سال حج سے واپسی پر امام صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ(ع) نے فرمایا کہاں سے آئے ہو میں نے عرض کیا میں آپ(ع) پر قربان میں حج سے واپس آیا ہوں۔ آپ(ع) نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ زائر کیا ثواب رکھتا ہے میں نے عرض کیا نہیں مجھے معلوم نہیں آپ(ع) نے فرمایا جب بندہ اس کے گھر کا سات مرتبہ طواف کرتا ہے اور اس( خدا) کی دو رکعت نماز پڑھتا ہے پھر صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتا ہے تو خدا اس کے نامہ اعمال میں چھ ہزار نیکیاں لکھتا ہے اور اس کے چھ ہزار گناہ معاف فرماتا ہے اس کے چھ ہزار درجات بلند کرتا ہے اور چھہ ہزار دنیاوی حاجات پوری کرتا ہے اور آخرت کے لیے اس کا ذخیرہ رکھتا میں نے عرض کیا میں آپ(ع) پر قربان یہ اجر تو بہت زیادہ ہے آپ(ع) نے فرمایا کیا میں تجھے اس سے بھی سے آگاہ نہ کروں میں عرض کیا کیوں نہیں آپ(ع) نے فرمایا جو کوئی کسی مومن کی حاجت روائی کرے اس کے لیے ترتیب وار دس حج کا ثواب ہے۔

۱۴ـ          امام زین العابدین(ع) نے فرمایا مومن علم کو حلم سے حاصل کرتا ہے جب  وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیٹھتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ کانوں سے سنے تاکہ تسلیم کرے اور زبان سے کہے (سوال کرے) تاکہ اپنے راز ( وہ باتین جو اسے معلوم نہیں) سے آگاہ ہوجائے، اپنے دوستوں سے نہ کہے اور دشمنوں سے شہادت ( حق) کو نہ چھپائے عمل حق کو خود نمائی کی خاطر انجام نہ دے اور اس کے کرنے میں شرم محسوس نہ کرے کسی کو نہ ستائے اور خوف خدا محسوس کرے اور جو کچھ وہ کہتا ہے( ایسی گفتگو جس کی اجازت نہیں اگر کہے تو) اس کی خدا سے مغفرت طلب کرے نادانوں کی بات سے فریب نہ کھائے۔ جس چیز کے بارے میں وہ خود روشنی میں ہے اس سے ڈرے منافق وہ ہے جو دوسرے کو کسی چیز سے منع کرے اور خود اختیار کر لے جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو سینہ کھول لے جب رکوع کرے تو شرارت کرے جب سجدہ کرے تو ایسے جیسے کہ زمین پر چونچ مارتا ہے بیٹھا ہے تو جنجال کرتا ہے رات ہوتی ہے تو دل کھانے کی طرف مائل ہوجاتا ہے روزہ نہیں رکھتا صبح کو دل سونے (نیند) کی طرف مائل ہوتا ہے اٹھنے کو دل نہیں کرتا ایسا شخص اگر تم سے حدیث

۴۵۱

 بیان کرے گا تو جھوٹ کہے گا اگر وعدہ کرے گا تو وعدہ خلافی کرے گا اگر امانت دوگے تو خیانت کرے گا اگر اس سے جدا ہوگے تو تمہیں برا کہے گا۔

جناب رسول خدا(ص) کی علی(ع) کو نصیحت

۱۵ـ          ابوجعفر محمد بن علی باقر(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا ہے کہ ایک دن جناب رسول خدا(ص) اپنی سواری پر باہر تشریف لے گئے اور جناب امیر(ع) ان کے ہمراہ پیدل چل نکلے آںحضرت(ص) نے جناب امیر(ع) سے فرمایا اے ابوالحسن(ع) سواری لےلو یا پھر چلے جاؤ کیونکہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ جب میں سوار ہوں تو تم بھی سوار ہوا کرو اور جب میں پا پیادہ کروں تم بھی پا پیادہ رہو۔ جب میں بیٹھا ہوا  ہوں تو تم بھی بیٹھے رہو اور یہ اس(خدا) کی جزا ہے کہ اس نے مجھے تمہارے جیسا عطا کیا اس نے مجھے نبوت و رسالت دی اور تجھے اس میں ولی بنایا تاکہ اس کی حدود کو قائم رکھو اور اس کی مشکلات میں قیام کرو جان لو کہ جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا وہ بندہ مجھ پر ایمان نہیں رکھتا جو جو تیرا منکر ہے اور خدا کی قسم وہ ایمان نہیں رکھتا جو تیرے بارے میں کفر اختیار کرتا ہے تیرا فضل میرے فضل سے ہے اور میرا فضل خدا سے ہے اور قول خدا ہےکہ ” کہہ دو کہ خدا کے فضل اور رحمت ہی سے تو ان کو خوش ہونا چاہیے اور جو کچھ وہ جمع کرتے ہیں اس سے یہ بہت بہتر ہے“ ( یونس، ۵۸) خدا کا فضل تمہارے نبی(ص) کی نبوت ہے اور اس کی رحمت علی بن ابی طالب(ع) کی ولایت ہے پھر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا، شیعوں کو چاہیے کہ وہ علی(ع) کی ولایت اور میری نبوت پر خوش ہوں اور جو وہ ( مخالفین) جمع کرتے ہیں یہ اس سے بہتر ہے ( یعنی جو کچھ مخالفین جمع کرتے ہیں مال۔ دنیا۔ اولاد۔ بیویاں وغیرہ) خدا کی قسم یا علی(ع) تجھے خدا کی عبادت کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے پیدا نہیں کیا گیا سوائے اس کی تجھ سے علوم دین پہچانے جائیں اور فرسودہ راہوں کی اصلاح ہو جو کوئی تجھ سے گمراہ ہے وہ راہ خدا سے گمراہ ہے جو تیری ولایت نہیں رکھتا وہ  راہِ خدا نہیں رکھتا اور  یہ ہے تیرے رب کا کلام کہ ” بیشک میں معاف کرنے والا ہوں اس بندے کو جو باز رہے اور ایمان لائے اور عمل صالح کرے اور راستے پر آئے“ ( طہ، ۸۲) تیری ولایت پر خدا نے مجھے حکم

۴۵۲

 دیا کہ یہی حق ہے جو میرے ( محمد رسول اﷲ(ص)) کے لیے مقرر ہوا جو مجھ پر ایمان لایا اس پر تیرا یہ حق واجب ہے اگر یہ نہ ہوتا تو اﷲ کے بندے پہچانے ہی نہ جاتے تیرے ہی وہ وسیلے سے خدا کا دشمن پہچانا جاتا ہے اور جو کوئی تیری ولایت کے ذریعے خدا سے ملاقات نہ کرے۔ وہ کوئی چیز نہیں رکھتا اور خدا نے مجھ پر نازل کیا” کہ اے پیغمبر(ص) پہنچا دو جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے تیرے رب کی طرف سے ( اے علی(ع) اس سے مراد تیری ولایت ہے) اور اگر نہ پہنچایا تو تبلیغ رسالت نہیں کی اور جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے وہ نہیں پہنچایا( مائدہ، ۶۷) تیری ولایت کی پہچان ہی سے اعمال قبول ہوتے ہیں۔ اور جو تیری ولایت کا اقرار کیے بغیر پیش ہوگا اس کے اعمال قبول نہیں کیے جائیں گے اور یہ وہ وعدہ ہے جو میرے لیے معجزہ ہے یہ میں خود نہیں کہتا یہ میرے رب نےمجھ سے کہا ہے اور یہ تیرے بارے میں نازل ہوا ہے۔

۴۵۳

مجلس نمبر۷۵

(۱۵ جمادی الثانی سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا عیسی بن مریم(ع) لوگوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزرے جو گریہ کررہے تھے جناب عیسی(ع) نے پوچھا یہ کس لیے گریہ کررہے ہیں بتایا گیا کہ یہ اپنے گناہوں پر گریہ کررہے ہیں آپ(ع) نے فرمایا گناہوں کو ترک کردو تاکہ بقیہ معاف ہوجائیں۔

۲ـ           امام رضا(ع) نے اپنی ایک حدیث میں بیان فرمایا کہ عیسی بن مریم(ع) نے اپنے حواریوں سے کہا” کہ اگر تمہارا دین سلامت ہو اور تمہارے ہاتھ میں دنیا سے کچھ چلا جائے تو غم نہ کرو دنیا دار، دنیا کے جانے پر غم کرتے ہیں انہیں دین کے چلے جانے کا کوئی غم نہیں ہوتا۔“

۳ـ          جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا ہر نماز کے وقت ایک لوگوں کے سامنے آواز دیتا ہے کہ اٹھو اور وہ آگ جو تمہارے لیے روشن کی گئی ہے اسے اپنی نمازوں سے بجھا دو۔

گرامی کون ہے

۴ـ          سالم ابن ابو جعد کہتے ہیں کہ جابر بن عبداﷲ اںصاری(رض) نے جناب علی بن ابی طالب(ع) سے روایت کی ہے جناب امیر(ع) نے اس بات کی وضاحت فرمائی تھی کہ وہ ( علی بن ابی طالب(ع) ) اور ان کی اولاد میں سے ائمہ(ع) کس طرح  اورکس وجہ سے پیغمبروں اور رسولوں کے بعد افضل ہیں سالم کہتے ہیں میں نے جابر(رض) سے کہا کہ مجھے بھی بتائیں کہ وہ بندہ جو انہیں دشمن رکھتا ہے اور ان کی فضیلت کو کم شمار کرتا ہے اس کے بارے میں جناب امیر(ع) کیا فرمایا ہے۔

جابر نے کہا  انہیں دشمن رکھتا مگر کافر اور ان کی فضیلت و عظمت کو کم شمار نہیں کرتا مگر منافق۔ میں (سالم) نے پوچھا کہ ان کی ہی اولاد سے ائمہ ہوں گے جابر(رض) نے کہا شیعیان علی(ع) جو اس بات کے معترف ہیں کہ علی(ع) اور ان ہی کی اولاد میں سے ائمہ(ع) ہوں گے کامیاب ہیں اور امن میں ہوں گے

۴۵۴

 قیامت کے دن پھر میں نے جابر(رض) سے پوچھا اس بندے کے بارے میں بتائیں جو ان کے خلاف خروج کرے اور لوگوں کو ضلالت کی طرف بلائے وہ کن لوگوں کے زیادہ قریب ہے قریب ہے جابر(رض) نے کہا وہ اپنے ( دوزخی مددگاروں اور پیروی کرنے والوں کےزیادہ نزدیک ہے پھر میں نے پوچھا کہ اگر کوئی قیام حق کی طرف دعودت دے تو اس کے نزدیک کون ہوں گے جابر(رض) نے کہا شیعہ اور ان کے ساتھی اور علی ابن ابی طالب(ع) روز قیامت لواءحمد ہاتھ میں لیے ہوں گے ان کے نزدیک ان کے شیعہ اور ان کے انصاران ہوں گے۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کسی پر تہمت لگانے کی وجہ سے اس شخص پر خود تہمت لگ جائے تو ایسا شخص کسی اور کی بجائے خود کو ملامت کرے۔

جنابِ علی (ع) اور بازارِ کوفہ

۶ـ           امام باقر(ع) نے فرمایا جناب امیر(ع) ایک تازیانہ رکھتے تھے جس کا نام سبیبہ تھا یہ تازیانہ دو(۲) سروں والا تھا جناب امیر(ع) ہر صبح اس تازیانہ کو اپنے کندھے پر ڈالتے اور بازار میں جاکر یہ صدا بلند فرماتے اے تاجرو خدا سے خیر طلب کرو کہ تم نے اسی کے حضور جانا ہے نیک عمل اختیار کرو خود کو خریداروں کی جگہ رکھ کر دیکھو اور بردباری اختیار کرو جھوٹ بولنے اور قسمیں کھانے سے گریز کرو ظلم کرنے سے بچے رہو جس پر ظلم ہو اس سے اںصاف کرو سود نہ لو اپنے ترازو  درست رکھو اور پورا تو لو زمین پر تباہی مت پھیلاؤ جناب امیر(ع) یہ فرماتے ہوئے تمام بازار کوفہ کا چکر لگاتے اور کہا کرتے ” ہر وہ چیز جسے حرام طریقے سے حاصل کیا جائے اس کی لذت ختم ہوجاتی ہے اور اس کا انجام برا ہی ہے جبکہ کار خیر کا انجام دوزخ نہیں ہے“۔

۷ـ          جناب ابو جعفر(ع) نے فرمایا کہ جناب امیر(ع) کا کوفہ میں یہ طریقہ کار تھا کہ جب نماز عشاء پڑھ لیتے تو لوگوں کو تین بار آواز دیتے کہ اے لوگو کوچ کرنے کا حکم آگیا ہے خدا تم پر رحمت کرے اپنا سامان باندھو اور بہترین توشہ جو تم نے اٹھانا ہے وہ تقوی ہے معاد تمہارا راستہ ہے تمہاری گزر گاہ صراط ہےتمہارے آگے خوفِ عظیم ہے تمہیں سخت اور خوفناک منازل سے ناچار گزرنا پڑے گا یا تم

۴۵۵

ان منازل پر قائم ہوجاؤگے یا پھر رحمتِ خداوندی سے ان سے گزر جاؤگے ایک بہت عظیم خطرہ ایک کھٹن آزمائش اور ایک دل خراش منظر تمہارا منتظر ہے اب ی تم پر ہے کہ ہلاکت اختیار کرو یا کامیابی کہ جس کے بعد کوئی تاوان نہیں ہے۔

۸ـ          جناب موسی بن جعفر(ع) اپنے اجداد(ع) سے نقل کرتے ہیں کہ ام المومنین ام سلمیٰ(رض) نے جناب رسول خدا(ص) سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ(ص) ایسی عورت جس نے دو شوہر کیے ہوں ( یکے بعد دیگرے) اور مرنے کے بعد وہ بہشت میں جائیں تو وہ عورت کونسے شوہر کے ساتھ رہے گی جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا اے ام سلمیٰ(رض) وہ اس کے ساتھ رہے گی جو ان دونوں میں سے خوش خلق اور عورت سے نیک سلوک کرنے والا ہوگا اور بزگذیدہ  ہوگا اے ام سلمیٰ(رض)  حسنِ خلق دنیا اور آخرت کی نیکیاں سمیٹ لیتا ہے۔

۹ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا کہ ایک صحابی نے رسول خدا(ص) سے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) ہمیں اولاد کا غم محسوس ہوتا ہے جب کہ اولاد ہمارا غم  نہیں رکھتی آپ(ع) نے فرمایا کیوںکہ یہ تم سے ہیں تم ان میں سے نہیں ہو۔

۱۰ـ          امام صادق(ع) نے عبداﷲ بن ابی یعفور سے فرمایا، اے عبداﷲ نماز واجب کو اس کے مقررہ وقت میں ادا کرو اور ایسے پڑھو کہ وداع کرتے وقت کوئی خوف لاحق نہ ہو اپنی آنکھوں کے سامنے سجدہ کرو اور یہ جانو کہ تمہارے دائیں اور بائیں کون بہتر نماز پڑھتا ہے جان لو کہ تم خدا کے سامنے کھڑے ہو جو تم کو دیکھ رہا ہے مگر تم اسے نہیں دیکھتے۔

۱۱ـ           شیخ ابو جعفر عطار جو اہل مدینہ میں سے ایک بزرگ شخصیت تھے کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے سنا ہے کہ ایک شخص جناب رسول خدا(ص) کے پاس آیا اور کہا یا رسول اﷲ(ص) میں بہت زیادہ گناہ رکھتا ہوں اور میرے کام بہت سست ہوتے ہیں، آپ(ع) نے فرمایا تو بہت زیادہ سجدہ کیا کر کہ یہ تیرے گناہوں کو اسی طرح گرادے گا جس طرح درخت سے پتے گرتے ہیں۔

۱۲ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا مومن خوفناک خواب دیکھے تو اس کے گناہ جھڑتے ہیں اور اگر اس کا بدن خواری ( بیماری وغیرہ) میں رہے تو بھی اس کے گناہ جھڑتے ہیں۔

۴۵۶

جنابِ عیسی(ع) اور صدقہ

۱۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جناب عیسیٰ(ع) بن مریم(ع) کا گذار ایک ایسی جماعت کے پاس سے ہوا جو خوشی منارہے تھے جناب عیسی (ع) نے دریافت کیا کہ ان کے خوشی منانے کا کیا سبب ہے بتایا گیا کہ ان میں سے ایک مرد و عورت کی آپس میں شادی ہوئی ہے یہ اس پر خوش ہو رہے ہیں عیسی(ع) نے ان سے فرمایا تم آج خوش ہو رہے ہو مگر کل تم لوگ رو رہے ہوگے  ان میں سے ایک نے پوچھا اس کی کیا وجہ ہے تو فرمایا وہ لڑکی( دلہن ) آج رات مرجائے گی یہ سن کر حضرت عیسیٰ(ع) کے پیرو کہنے لگے خدا کا نبی سچ کہتا ہے کل ایسا ہی ہوگا مگر منافقین کہنے لگے کل کونسا دور ہے گا پتہ چل جائے گا اگلے روز دیکھنے میں آیا کہ وہ لڑکی زندہ ہے لوگوں نے جاکر حضرت عیسی(ع) سے کہا یا روح اﷲ(ع) وہ لڑکی زندہ ہے جس کے بارے میں آپ(ع) نے فرمایا تھاکہ وہ رات کو مرجائے گی حضرت عیسیٰ(ع) نے فرمایا خدا جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے تم مجھے اس کے پاس لےچلو۔

جب حضرت عیسیٰ(ع) اور ان کے حواری اس لڑکی کے گھر پہنچے اور دق الباب کیا تو اس کا شوہر بر آمد ہوا عیسی(ع) نے فرمایا تم اپنی بیوی سے اجازت لے کر آؤ میں اس سے ملنا چاہتا ہوں وہ اندر گیا اور بیوی سے کہا کہ روح اﷲ(ع) دروازے پر موجود ہیں اور تجھ سے ملنا چاہتے ہیں اس عورت نے چادر اوڑھی اور حضرت عیسی(ع) اندر تشریف لے گئے اندر جاکر اس سے پوچھا آج رات تو نے کونسا کام کیا ہے اس نےکہا میں نے وہی کیا ہے جو میں ہمیشہ کرتی ہوں ایک سائل شب جمعہ ہمارے گھر کے دروازے پر آیا کرتا تھا میں اسے اتنا کچھ دیا کرتی تھی کہ اس کے اگلے جمعے تک کے لیے کافی ہوتا تھا وہ گذشتہ شب بھی آیا اور صدا لگائی میں اپنے کام کاج میں مشغول تھی گھر میں سے کسی نے اس پر توجہ نہ دی اس نے کئی مرتبہ صدا دی مگر کسی نے  اسے کچھ نہ دیا یہ دیکھ کر میں اٹھی اور اسے اندازے سے کچھ راشن وغیرہ دیدیا حضرت عیسیٰ(ع) نے یہ سنا تو فرمایا تم اپنے بستر سے اٹھو جب وہ اٹھی تو دیکھا کہ اس کے بستر پر ایک موذی سانپ موجود تھا جو شاخِ خرمہ کی مانند بستر پر پڑا تھا اس کی دم اس کے منہ میں تھی حضرت عیسیٰ(ع) نے فرمایا کل رات تو نے صدقہ دیا تھا اسی کی بدولت خدا نے یہ بلا تجھ

۴۵۷

 سے ٹال دی اور تیری موت تجھ سے ہٹا دی گئی۔

۱۴ـ          محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ میں عون بن عبداﷲ بن مسعود کی عیادت کو گیا اور ان سے کہا کہ مجھے عبداﷲ بن مسعود(رض) کی بیان کردہ کوئی حدیث سنائیں، عون(رض) نے بتایا کہ ان کے والد عبداﷲ بن مسعود(رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر تھے، ناگاہ جناب رسول خدا(ص) مسکرائے ہم نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) اس مسکراہٹ کا سبب کیا ہے آپ(ص) نے فرمایا مومن کی بیماری میں بھی عجب اجر ہے اگر مومن جان لے کہ اس کی بیماری خدا کے نزدیک کیا اجر رکھتی ہے تو وہ خدا سے ملاقات تک بیماری کی خواہش رکھے۔

۱۵ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی جمعرات اور شب جمعہ کو مسجد میں صفائی کرے اور مسجد میں سے آنکھ میں پڑنے والے تنکے کے برابر بھی خس و خاشاک باہر نکالے تو خدا اس کے گناہ معاف فرمائے گا۔

۱۶ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جس کسی کی حدیث (گفتگو، ذکر) قرآن اور اس کا گھر مسجد ہے تو خدا اس کے لیے بہشت میں گھر بنائے گا۔

۱۷ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی مسجد میں اذان سنے اور بغیر کسی عذر کے باہر چلا جائے منافق ہے مگر یہ کہ واپس آئے۔ ( اور نماز ادا کرے)

ابو جرول کا بیان

۱۸ـ          ابوجرول زھیر جو اپنے قبیلے کا سردار تھا بیان کرتا ہے کہ فتح خیبر کے روز ہم جناب رسول خدا(ص) کے اسیر تھے آپ نے عورتوں اور مردوں کو جدا کردیا تھا میں مردوں میں سے اٹھا اور جناب رسول خدا(ص) کے سامنے جاکر بیٹھ گیا مجھے اپنی جوانی  کے دنوں میں کہے ہوئے شعر یاد آئے جو میں نے جناب رسول خدا(ص) کے سامنے پڑھے میں نے کہا۔

اے رسول خدا(ص) ہم پر کرم فرمائیں آپ(ص) دلیر ہیں اور ہم آپ(ص) سے امید رکھتے ہیں اگر آپ(ص) ہم پر کرم کریں گے تو یہ ہمارے لیے باعث عبرت ہوگا۔ تکلیف و حزن ہمارے لیے ہے اور ہم

۴۵۸

سب افسردہ ہیں اور ہمارے دل تنگ ہیں کیا کسی بردبار کے ہاتھ میں خیر اور شر دونوں اکٹھے ہوسکتے ہیں یہ کونسا کرم ہے کہ شیر خوار کے مقابلے مین شہہ سوار کو لاکھڑا کیا جائے اور یہ کیسی جنگ ہے کہ ایک طرف بچے ہیں دوسری طرف گھوڑ سوار ہم پر یہی ستم کافی ہے کہ ہم نے کفرانِ نعمت کیا ہے۔

ہم آپ(ص) سے معافی کے طلب گار ہیں کیونکہ جسے آپ(ص) معاف فرمادیں اسے خدا بھی معاف فرمادیتا ہے قیامت کے دن آپ(ص) ہی کامیاب ہیں۔

یہ سن کر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا میں اپنا اور اولاد عبدالمطلب(ع) کا حصہ تمہیں دیتا ہوں یہ دیکھ کر انصار نے بھی کہا کہ ہمارے ہاتھ جو کچھ آیا ہے خدا اور اس کے رسول (ص) کا ہے وہ بھی ہم تمہیں دیتے ہیں۔

۴۵۹

مجلس نمبر۷۶

(۱۹جمادی الثانی سنہ۳۶۸ھ)

جناب سجاد(ع) کا خطبہ

۱ـ           سعید بن مسیت کہتے ہیں کہ امام چہارم ہر جمعہ کو لوگوں کی ںصیحت اور آخرت کی تشویش اجاگر کرنے کے واسطے خطبہ دیا کرتے یہ خطبہ انہیں خطبوں میں سے ایک ہے جسے میں نے لکھا اور حفظ کیا۔

امام(ع) نے فرمایا لوگو خدا سے ڈرو اور جان لو کہ اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے تمہارے جو اعمال اس دنیا میں ہیں وہ اس دن حاضر کیے جائیں گے اور تمہیں دکھائے جائیں گے کہ اچھے ہیں یا برے۔ اگر برے ہوں گے تو تم ان سے میلوں کی دوری کی خواہش کرو گے، خدا نے تمہیں اس لیے پیدا کیا کہ تم برے کردار سے دوری اختیار کرو تم پر وائے ہو ابن آدم(ع) کہ تم غفلت میں ہو اور نامہء حساب رکھتے ہو اے ابن آدم(ع) تیری موت ہر شے سے پہلے آنے والی ہے لالچ نے اپنا رخ تیری طرف کرلیا ہے اور تم اسی میں اپنی عمر گزار چکے  ہو گے، جب ملک الموت تجھے پکڑ کر تنہائی کے گھر میں داخل کریں گے اور تیری روح پلٹائی جائی گی تو دو فرشتے منکر،نکیر تجھ سے پوچھ گچھ کے لیے آئیں گے وہ بہت سخت امتحان ہے آگاہ ہوجاؤ کہ کیا تم اس کی عبادت کرتے ہو پھر نبی(ص) کے بارے میں پوچھا جائیگا پھر دین کے بارے میں کہ جس کے مقرر کردہ احکامات تم نے انجام دیے یا نہیں پھر اس پیغمبر(ص) کے بارے میں پوچھا جائے گا جس کے فرمان پر تم عمل کرتے ہو۔ پھر کتاب جس کی تم تلاوت کرتے ہو پھر امام(ع) جسے تم دوست رکھتے ہو کے بارے میں سوال ہوگا پھر تمہاری عمر کے بارے میں پوچھا جائیگا کہ کہاں گذاری پھر مال کے بارے میں کہ کہاں سے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا لہذا دفاع کا ذریعہ پیدا کرو اور خود کو جواب کے لیے آمادہ کرو اس سے

۴۶۰