مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 296825
ڈاؤنلوڈ: 7462

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 296825 / ڈاؤنلوڈ: 7462
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پہلے کہ تمہاری پوچھ گچھ ہو اور تمہارا امتحان لیا جائے۔

 اگر تم اس دین کے مومن و متقی اور عارف ہو اور صادقین کے پیرؤ اور اولیاء خدا کے دوست ہوتو اس وقت تمہارے منہ میں دلیل ہوگی، اپنی زبان کو حق بات بیان کرنے والا بناؤ بہتر جواب دو اور خیر و حسنات کی خوبی کے ساتھ خدا کی طرف سے بہشت کی خوشخبری پاؤ کہ اس پر تم سے پہلے فرشتے خوش ہوتے ہیں اور اگر اس طرح نہ  ہوتو تمہارے منہ میں دلیل بے ہودہ ہوگی جس کا جواب دوزخ ہے فرشتے تیرا استقبال عذاب سے کریںگے جو بد مزہ ترین حمیم اور خوفناک تر ہے اور اس دن تمام لوگ اکھٹے کیے جائیں گے وہ دن مشہور ہے خدا اس دن تمام اولین و آخرین کو جمع کرے گا یہ وہ دن ہے جس دن صور پھونکا جائیگا اور تمام اہل قبور باہر نکل آئیں گے اس دن بہت شور ہوگا جو دلوں کو پکڑے ہوئے  ہوگا یہ وہ دن ہوگا کہ قدموں میں لغزش آجائے گی اس دن کسی سے نا اںصافی نہیں ہوگی کوئی عذر قابل قبول نہ ہوگا کوئی مغفرت قبول نہ کیا جائے گی نیکیوں اور گناہوں کی سزا و جزا حساب سے ملے گی مومن کو بد کرداری کی سزا نہ ملے گی اور بدکردار کو مومن کی خبر نہ دی جائے گی اگر کسی نے ذرہ برابر بھی کوئی نیک عمل کیا ہوگا تو اسے اس کی جزا ملے گی اور اگر ذرہ برابر بھی عمل بد کیا ہوگا تو اسے اس کی سزا دی جائے گی۔

اے لوگو گناہوں اور نافرمانی سے توبہ کرو کہ خدا نے اس سے منع فرمایا ہے تم توحید پر قائم رہو کتابِ صادق پر ایمان لاؤ  دروغ گوئی کرنے والا خدا سے امان نہیں پائے گا اور اس کی سخت گیری دیکھے گا اور یہ اس لیے ہوگا کہ شیطان لعین نے تمہیں دینا میں شہوت رانی اور حرام کاموں کی طرف بلایا خدا فرماتا ہے ” بیشک جو لوگ تقوی اختیار کرتے ہیں جب شیطان کی ولگردی  ان کو پہنچے تو یاد آور ہوتے ہیں اور بینا ہوتے ہیں اور اپنے دلوں میں خوف خدا بیدا کرتے ہیں اور یاد میں لاتے ہیں جو کچھ اس سے واپس ہو اس کا تم سے ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے اور سخت ترین سزا سے ڈرے ہوئے ہیں“ جو کوئی اس چیز سے ڈرے اس سے دور رہے اور جو کوئی اس چیز (بدی) سے ڈرے وہ غافلوں سے نہیں اور مائل آسائش نہیں اور اگر ہوگا تو بدکاری کی طرف مائل ہوگا  خدا فرماتا ہے” جو بری چال چلتے ہیں کیا وہ اس سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ خدا ان کو زمین میں دھنسا دے

۴۶۱

 یا عذاب ان پر اس طرح آئے کہ وہ کچھ نہ سمجھیں یا ان کی آمد و رفت میں ان کو گرفتار کرے کہ وہ خدا کو عاجز نہیں کرسکتے یا ان کو ڈر کی حالت میں دھر پکڑے بیشک تمہارا پروردگار بڑا نرمی کے ساتھ معاملہ کرنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (نحل، ۴۶)اے لوگو پرہیز کرو اس سے جس کا خدا نے حکم دیا ہے اور جو کچھ ستم گاروں سے کیا گیا ہے اس سے نصیحت لو کہ اس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے ستم گاروں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ امان میں نہیں ہیں۔ کہیں ایسا نہ کہ یہ تم پر نازل کردیا جائے خدا کی قسم تمہیں نصیحت پہنچائی گئی ہے وہ بندہ خوش بخت ہے ج ودوسروں سے نصیحت قبول کرے لوگو دیکھو جو تم سے پہلے کی اقوام میں ظالم تھے ان  کے ساتھ کیا کیا گیا خدا فرماتا ہے ” کتنی ہی بستیاں جو نافرمان تھیں اجاڑ دیں اور ان کے اجاڑنے کے بعد اور لوگ پیدا کردیئے پھر جس وقت انہوں نے ہمارے عذاب کو محسوس کیا تو لگے وہاں سے تیز تیز بھاگنے اب تیز نہ بھاگو اور جہاں تم کو آسائش ملا کرتی تھی اس مقام کی طرف اور اپنے گھروں کی طرف لوٹ کرجاؤ تاکہ تم سے پوچھ گچھ کی جائے وہ بولے کہ ہائے خرابی ہماری ہم تو یقینا نافرمان تھے پس وہ برابر یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے ان کو مار کر کٹی ہوئی کھیتی کا سا ڈھیر لگادیا۔“ ( انبیاء، ۴۶)

پس اے لوگو اگر تم یہ کہو کہ خدا کی مراد یہاں مشرکین سے ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا اس لیے کہ خدا آگے فرماتا ہے ” اور ہم قیامت کے دن انصاف کی میزانیں قائم کریں گے پس کسی نفس پر ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا تو ہم اسے لا حاضر کریں گے اور حساب لینے کو ہم ہی کافی ہیں۔ ( انبیاء، ۴۷)

اے بندگان خدا آگاہ رہو کہ مشرکین کے لیے نہ تو میزانیں قائم کی جائیں گی اور نہ ہی حساب کے دفتر کھولے جائیں گے ان کی تو ٹولیاں کی ٹولیاں جہنم میں بھیج دی بندگان خدا سے ڈرتے رہو جان لوکہ خدا نے اس دنیا اور اس کے نقد کو اپنے دوستوں کے لیے اختیار نہیں کیا اور انہیں تشویش میں نہیں ڈالا اور ان کے لیے دنیا کی آسائش و خوشی نہیں رکھی  خدا نے بیشک دنیا اور اس کے اہل کو آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ آزمائے کہ ان میں سے کون آخرت کے لیے بہتر عمل کرتا ہے خدا

۴۶۲

 مثالیں دے کر اور طرح طرح کی آیات سے سمجھاتا ہے جو عقل مندوں کے لیے ہیں اے مومنین تم ان عقل مندوں میں سے ہو جاؤ جو طاقت ( اچھے اعمال کی) رکھتے ہیں، خدا کے سوا کوئی وسیلہ نہیں دینا سے بے رغبت رہو کہ خدا نے دنیا کی بے رغبتی کا حکم دیا ہے خدا فرماتا ہے” سوائے اس کے نہیں ہے کہ دنیا کی زندگی کی مثال پانی کی سی جس کو ہم نے آسمان سے اتارا پھر اس کے ساتھ زمین کی نباتات۔۔۔۔ تا آخر ( یونس ، ۲۴)اے خدا کے بندو اس مرد کی طرح ہوجاؤ جو دینا کو دیکھتا ہے مگر اس پر تکیہ نہیں کرتا خدا نے اپنے پیغمبر محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا سے فرمایا کہ ایسا بندہ (نیکوکار) اس لیے تکیہ ( دنیا پر) نہیں کرتا تاکہ ستم نہ کرے اور اسے آگ نہ پکڑے اور دنیا کی آسائشات پر اس لیے راضی نہیں کہ وہ جانتا ہے کہ دائمی گھر اور وطن کونسا ہے کیوںکہ دنیا کوچ کا گھر ہے اور دارِ کفایت ہے اور کردار کا آئینہ ہے تم بہتر عمل کا توشہ لے لو اس سے پہلے کہ یہاں سے جانا پڑے اس سے پہلے کہ خدا اس کی ویرانی کی اجازت دے اور اسے ویران کرے بندے نے اس کے آغاز سے اس میں آبادی کی اور اس کا آغاز کیا لیکن اس کی میراث یہی ہے تم توشہ تقوی اختیار کرنے کے لیے خدا سے مدد طلب کرو خدا نے تمہیں اس دنیا اور اس کی آسائش کے درمیان زہد رہنے کے لیے خلق اور پیدا کیا تاکہ ہم نیک نیک عمل کرنے والے اور ثواب آخرت کے امیدوار رہیں کیونکہ ہم اسی کے ساتھ ہیں اور وہی حق ہے۔

۲ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا چوپایہ اپنے مالک پر سات حقوق رکھتا ہے۔

     اول : اس پر اس کی طاقت سے زیادہ وزن نہ رکھے۔

     دوئم : اس کی پشت پر سوار رہو کر لوگوں سے بات چیت نہ کرتا رہے۔

     سوئم : جب منزل پر پہنچے تو سب سے پہلے اس پر لدا وزن اتارے۔

     چہارم :  اس کے چہرے پر ضرب نہ لگائے کیونکہ چو پایہ تسبیح کرتا ہے۔

     پنجم :   جب پانی میسر ہوتو اسے پانی دے۔

     ششم :  اگر چوپایہ  بھاگ جائے تو اسے نہ مارے۔

     ہفتم : اگر غلطی کرے تو اسے اس کی طاقت کے مطابق سزادے کیونکہ جو کچھ وہ دیکھتا ہے تم

۴۶۳

 نہیں دیکھ سکتے۔

۳ـ اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ میں نے جناب امیر(ع) کی سواری کی رکاب تھامی تاکہ آپ اس میں پاؤں رکھ کر سواری ہوں تو آپ(ع) نے سر اٹھا کر دیکھا اور مسکرائے میں جناب امیر(ع) سے اس مسکراہٹ کا سبب دریافت کیا تو فرمایا اے اصبغ مجھے وہ موقع یاد آگیا جب میں نے جناب رسول خدا(ص) کی سواری شہبا کی رکاب تھام کر جناب رسول خدا(ص) کو سوار کروانا چاہا تھا تو وہ بھی مسکرائے تھے اور فریاد تھا اے علی(ع) وہ بندہ خدا نہیں ہے کہ جب سواری پر سوار ہونے لگے تو آیت الکرسی نہ پڑھے اور پھر کہے” استغفر اﷲ الذی لا الہ ہو الحی القیوم واتوب الیہ“ ترجمہ ” خدایا میرے گناہوں کو معاف فرمادے تیرے سوا کوئی معاف فرمانے والا نہیں ہے“ اس پر خدا فرماتا ہے تم گواہ رہو میں نے اس کے گناہ معاف کردیئے ہیں۔

۴ـ امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ سب سے  پہلی باجماعت نماز جو جناب رسول خدا(ع) نے پڑھی وہ تنہا امیرالمومنین(ع) کے ساتھ تھی اس دوران میں جناب ابو طالب(ع) وہاں سے گزر ہوا ان کے ہمراہ جعفر بن ابی طالب(ع) تھے ابو طالب(ع) نے جعفر(ع) سے فرمایا اے فرزند تم اپنے چچا کے بیٹے کے پہلو میں کھڑے ہو جاؤ جب جناب رسول خدا(ص) نے محسوس کیا کہ ان(ص) کے پہلو میں جعفر(ع) کھڑے ہیں تو انہوں نے خود کو آگے کر لیا اور پھر جناب ابو طالب(ع) کی طرف رخ کیا اور یہ اشعار دھرائے۔

ہر سختی کے موقع پر جعفر(ع) اور علی(ع) میرے مددگار ہیں

                                جب تک ان کا ساتھ ہے میں بے سہارا نہیں ہوں۔

میں جوانمرد بیٹے نہیں رکھتا جو میرے مددگار ہوں

                                اب یہ تم پر ہے کہ تم محمد(ص) سے اپنا ہاتھ مت اٹھاؤ

کیونکہ بادم و دیوار پر تمہارے چچا کے بیٹے موجود ہیں

( یاد رہے کہ دشمن جب حملہ کرتا ہے تو وہ چھت یا دیوار سے اندر آتا ہے۔)

۵ـ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا روز قیامت تم سب میں سے میرے نزدیک ترین اور میری شفاعت کا حقدار وہ ہوگا جو سچ بولنے والا، امانت کا ادا کرنے والا اور خوش خلق ہوگا۔

۴۶۴

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا ایک مرتبہ جناب رسول خدا(ص) اپنے اصحاب کے ہمراہ ایک راستے سے مدینے کی طرف جارہے تھے کہ اچانک آپ نے اپنے پاؤں رکاب سے نکال لیے اور زمین پر سجدہ ریز ہوگئے اور ایک طولانی سجدہ دیا آپ(ص) نے اپنے سر مبارک کو اٹھایا اور سواری پر سوار ہوگئے آپ(ص) کے اصحاب نے اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا جبرائیل(ع) تشریف لائے تھے اور میرے رب کا سلام مجھے پہنچایا پھر مجھے خوشخبری دی کہ خدا مجھے میری امت میں رسوا نہ کرے گا کیونکہ میں کوئی ایسا مال نہیں رکھتا جس میں نے اس کے شکرانے کے طور پر تصدق نہ کردیا ہو اور کوئی ایسا غلام نہیں رکھتا جسے میں نے خدا کی راہ میں آزاد کرنا ہو لہذا اس خوش خبری پر میں نے اس کا شکر ادا کیا۔

۷ـ          رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی اس دنیا میں قنوت کو طویل کرتا ہے خدا آخرت میں اس کی آسائشوں کو طولانی کرتا ہے۔

۸ـ          ہارون رشید نے امام موسیٰ کاظم(ع) کا لکھا کہ مجھے نصیحت کریں جو مختصر ہو آپ(ص) نے جواب میں لکھا کوئی شئی ایسی نہیں جو تیری آنکھ دیکھے مگر اس میں نصیحت نہ ہو۔

۴۶۵

مجلس نمبر۷۷

(۲۲ جمادی الثانی سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ                   جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا پیغمبروں سے کوئی بری مثالیں منسوب نہیں ہیں یہ لوگ ہی ہیں جو شرم نہیں رکھتے اور جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔

موت کا خاتمہ

۲ـ                   امام صادق(ع) نے فرمایا کہ ایک پیغمبر کے پاس ان کی قوم کے افراد گئے اور ان سے کہا کہ دعا فرمائیں تاکہ خدا ہمارے درمیان سے موت اٹھا لے اس پیغمبر(ع) نے ان کے لیے دعا کی اور اس قوم پر سے موت کا خاتمہ ہوگیا، ایسا ہونے سے ان کی تعداد میں اضافہ ہونے  لگا اور وہ بہتات میں ہوگئے اور ان کے لیے جگہ  تنگ پڑگئی ان کی نسلوں کی نسلیں پھلنے پھولنے لگیں اور حالت یہ ہوگئی کہ جب صبح ہوتی تو اس قوم کے نوجوان اپنے ماں باپ پھر ان کے ماں باپ پھر ان کے اجداد کو کھانا دیتے، ان کے کام کاج کرتے اور دیکھ بھال میں لگے رہتے یوں رات دن اسی میں تمام ہوجاتے اس نسل در نسل خدمت نے ان کی طلب معاش کو روک دیا جب یہ حالات پیدا ہوگئے تو وہ دوبارہ اس پیغمبر(ع) کے پاس گئے اور درخواست کی کہ خدا سے دعا کریں تاکہ وہ ہمیں پہلے والی حالت پر پلٹا دے لہذا اس پیغمبر(ع) کی دوبارہ دعا سے خدا نے انہیں موت کی طرف پلٹا دیا۔

۳ـ                  ابن عباس(رض) تفسیر قول خدا” جب ہوش میں آئے کہا منزہ ہے تو میں تم سے واپس ہوتا ہوں اور میں اول مومن ہوں“ (اعراف، ۱۴۳)  کے ضمن  میں فرمایا کہ حضرت موسی(ع) نے  خدائے سبحان سے فرمایا میں نے جو آپ کو دیکھنے کی خواہش کی اس سے میں توبہ کرتا ہوں کہ آپ کو دیکھا نہیں جاسکتا اور میں اول مومن ہوں ( بنی اسرائیل میں سے)

۴ـ                  امام صادق(ع) نے فرمایا کہ موسی(ع) جب مناجات کے لیے کوہ طور پر گئے تو انہوں نے پروردگار سے درخواست کی کہ مجھے اپنے خزانے دکھا خدا نے فرمایا موسی(ع) میرا خزانہ یہی ہے کہ جب

۴۶۶

 میں کسی کے لیے کہتا ہوں کہ ” ہو جا“ تو وہ خلق ہوجاتا ہے۔

۵ـ                  امام صادق(ع) نے فرمایا کہ موسی(ع) نے اپنے پروردگار سے تین بار درخواست کی کہ مجھے وصیت کریں تو پروردگار نے انہیں تین بار وصیت فرمائی چوتھی اور پانچویں بار پرروردگار نے ان کو ان کی والدہ اور چھٹی بار ان کے والد کے بارے میں وصیت کی اور یہ اس لیے تھا کہ والدہ اپنے فرزند کی نیکی پر دو ثلث اور والد ایک ثلث حق رکھتا ہے۔

۶ـ                   امام صادق(ع) نے فرمایا خدا تعالیٰ نے موسی(ع) کو وحی کی اور فرمایا اے موسی(ع) بوسیدہ لباس زیب تن کرو اپنے دل کو پاک رکھو گوشہ نشینی اختیار کرو شب زندہ دار رہو آسمانوں میں تمہیں پہچانا جاتا ہے زمین کے لوگوں سے پوشیدگی اختیار کرو۔ اے موسی(ع) کہیں یہ نہ ہو کہ ہٹ دھرمی اختیار کر لو اور منزل کے تعین کے بغیر راہ چلو اور بے سبب مسکراؤ۔ اے ابن عمران(ع) اپنی خطاؤں پر گریہ کرو۔

حضرت نوح(ع) کی عمر

۷ـ                  امام صادق(ع) نے فرمایا حضرت نوح(ع) کی عمر دو ہزار پانچ سو سال (۲۵۰۰) تھی اپنی عمر کے آٹھ سو پچاس (۸۵۰) سال انہوں نے بعثت سے پہلے گزارے پھر نو سو پچاس  سال(۹۵۰) انہوں نے اپنی قوم کو ہدایت کی طرف بلانے میں گزار دیئے اور دو سو(۲۰۰)سال انہوں نے کشتی بنانے میں لگائے اور طوفان نوح(ع) کے بعد وہ پانچ سو(۵۰۰) سال زندہ رہے جبطوفان کا پانی خشک ہوا تو شہروں کی بنیاد ڈالی اور اپنی اولاد کو ان میں آباد کیا جب ان کی عمر دو ہزار پانچ سو (۲۵۰۰) سال ہوگئی تو ملک الموت ان کے پاس تشریف لائے۔ نوح(ع) دھوپ میں بیٹھے تھے ملک الموت نے کہا آپ پر سلام ہو اے نوح(ع)، حضرت نوح(ع) نے پوچھا اے ملک الموت کس لیے آئے ہو۔ ملک الموت نے کہا میں آپ(ع) کی روح قبض کرنے آیا ہوں نوح(ع) نے کہا کیا اتنی مہلت دو گے کہ میں دھوپ سے سائے میں چلا جاؤں ملک الموت نے کہا ہاں چلے جائیے  پس نوح(ع) سائے میں گئے اور کہا اے ملک الموت دنیا میں میری عمر اس دھوپ سے سائے میں آنے کی مانند تھی لہذا جو حکم دیا  گیا ہے اسے پورا کرو تو ملک الموت نے حضرت نوح(ع) کی روح مقدس قبض کر لی۔

۴۶۷

حضرت عیسی(ع) کا ایک قبر کے پاس سے گزر

۸ـ                      جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا حضرت عیسی(ع) کا گزر ایک ایسی قبر کے پاس سے ہوا جس کے مردے کو عذاب  دیا جارہا تھا دوسرے سال ان کا گزر دوبارہ اس قبر کے پاس سے ہوا تو اس مردے پر عذاب ختم ہو چکا تھا عیسی(ع) نے پرروردگار سے عرض کیا اے پروردگار جب میں پچھلے سال یہاں سے گزرا تھا تو یہ عذاب میں تھا جب کہ اب یہ عذاب میں نہیں اس کی کیا وجہ ہے خدا نے وحی فرمائی۔ اے عیسی(ع) اس شخص کا ایک فرزند ہے جو اب جوان ہوچکا ہے اس نے ایک ایسے راستے کو درست کیا ہے جس پر سے مسلمانوں کا گزر ہوتا ہے اس کے علاوہ اس نے ایک یتیم کو پناہ دی ہے اس لیے اس کے صلے میں، میں نے اس کے باپ کو معاف فرمادیا ہے عیسی(ع) بن مریم(ع) نے جناب یحی(ع) سے فرمایا اگر لوگ تمہارے حق میں ایسی بدی کا تذکرہ کریں جو تم میں موجود ہو تو سمجھو کہ وہ گناہ ہے تم اس سے توبہ کر لو اور مغفرت طلب کرو اگر وہ تمہارے حق میں کسی ایسے گناہ کا تذکرہ کریں جو تم میں موجود نہ ہو تو وہ تمہارے لیے  ایک ایسی نیکی ہے جو تمہیں بغیر مشقت کے مل گئی ہے۔

۹ـ                      جناب حسن بن علی(ع) فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین(ع) کے سامنے کوئی پرچم ایسا نہیں آیا جسے خدا نے سرنگوں نہ کیا ہو اور کوئی جنگ ایسی نہیں لڑی جس میں آپ مغلوب اور خواری سے واپس ہوئے ہوں امیرالمومنین(ع) نے روز احد ذوالفقار کے ساتھ اس طرح جنگ کی کہ نجات یافتہ قرار پائے دوران جنگ جبرائیل(ع) آپ(ع) کے دائیں طرف میکائیل(ع) آپ(ع) کے بائیں طرف اور ملک الموت آپ(ع) کے سامنے تھے۔

روزِ خیبر علی(ع) کو علم عطا کیا جانا

۱۰ـ                      عبداﷲ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ روزِ خیبر جناب رسول خدا(ص) نے جنگ کا پرچم اپنے ایک ایسے صحابی کو دیا اور لڑائی کے لیے بھیجا جوناکام  واپس ہوا اس کے ساتھی اسے ڈرنے والا اور وہ انہیں خوف کھانے والا پکارتا رہا یہ دیکھ کر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کل میں پرچم اس مرد کو دوں گا جو خدا اور اس کے رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور جسے خدا اور اس کا رسول(ص) دوست رکھتے ہیں وہ

۴۶۸

غیر فرار ہوگا اور اس کے ہاتھ سے فتح نصیب ہوگی۔ جب صبح ہوئی تو آپ(ص) نے فرمایا علی(ع) کہاں ہیں انہیں پیش کیا جائے، بتایا گیا کہ انہیں آشوب چشم ہے آپ(ص) نے فرمایا انہیں میرے پاس لایا جائے جب جناب امیر(ع) تشریف لائے تو حضور سرور کونین(ص) نے اپنا لعاب دہن جناب امیر(ع) کی آنکھوں میں لگایا اور فرمایا اے خدایا تو اس(علی(ع)) سے سردی و گرمی کے اثر کو دور فرما پھر آپ(ص) نے پرچم جناب امیر(ع) کے حوالے کیا اور وہ جنگ  کے لیے گئے اور تب تک واپس نہ آئے جب تک فتح حاصل نہ کر لی عبداﷲ بیان کرتا ہے کہ علی(ع) جب قلعہ قموس کے نزدیک ہوئے تو دشمنان خدا، یہودیوں نے ان پر تیروں اور پتھروں  کی بارش کردی مگر آپ(ع) دلیرانہ بڑھتے ہوئے قلعے کے دروازے تک جا پہنچے غضبناک حالت میں اپنا پاؤں رکاب سے باہر نکالا اور سواری سے اتر گئے پھر قلعے کے دروازے کی چوکھٹ میں اپنے ہاتھ گاڑ دیے اور اس کا اکھاڑا کر چالیس زراع دور اپنے پس پشت پھینک دیا اس واقعہ کی مناسبت سے ابن عمر(رض) کہتے ہین کہ ہمیں اس پر تعجب نہیں کہ علی(ع) کے ہاتھ قلعہ فتح ہوا ہمیں تعجب اس بات پر ہے کہ انہوں نے کس طرح ایک ایسے  دروازے کو اکھاڑ کر چالیس زراع پیچھے پھینک دیا جسے چالیس آدمی اٹھانے سے قاصر تھے، اس بات کی وضاحت جناب رسول خدا(ص) نے فرمائی کہ علی(ع) کے دروازہ اکھاڑنے میں فرشتے ان کی مدد فرمارہے تھے  اس سلسلے میں روایت ہے کہ جناب امیر(ع) نے سہل بن حنیف کو لکھا کہ میں نے روزِ خیبر اپنے زور بازو اور قوت بدن سے دروازہ نہیں اکھاڑا بلکہ اسے اکھاڑنے میں میری مدد قوت ربانی نے کی، میری نسبت احمد(ص) سے ہے خدا کی قسم اگر میرے مقابلے پر تمام عرب جنگ کے لیے اکھٹے ہوجائیں تو میں ان سے گریذ نہ کروں گا اور موقع ملا تو سب کی گردنیں اتاروں گا اور جو خوف نہیں کھائے گا اسے بھی موت دامن گیر ہوگی اور اس کا دل واپس ( حق کی طرف) پلٹاؤں گا۔

۴۶۹

مجلس نمبر۷۸

(۲۶ جمادی الثانی سنہ۳۶۸ھ)

مواعظِ عیسیٰ(ع)

۱ـ                   امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ جو نصیحتیں خدا نے عیسی بن مریم(ع) کو وحی فرمائیں وہ یہ ہیں۔

خدا نے فرمایا اے عیسی(ع) میں تمہارا اور تمہارے اجداد کا پروردگار ہوں میرا ایک ہی نام ہے میں یکتا و یگانہ ہوں میں نے تنہا ہی ہر چیز کو خلق کیا میری پیدا کی ہوئی تمام چیزیں میری ہی طرف روزِ قیامت پلٹ کر آئیں گی۔ اے عیسیٰ(ع) تو میری برکت اور میرے ہی حکم سے ( صاحب وجود) ہے میرے ہی حکم سے تو مٹی کے پرندے بناکر ان میں جان ڈالتا ہے تو میری ہی مشتاق رہ اور مجھ ہی سے ڈر میرے سوا کوئی پناہ نہیں ہے اے عیسی(ع) میں تمہیں رحمت کے ساتھ اس طرح وصیت کرتا ہوں کہ جس طرح ایک مہربان وصیت کرتا ہے تم نے چند باتیں مجھ طلب کی ہیں جو میری خوشنودی کا باعث ہیں اور  جن کی وجہ سے تم مستحق ولایت ہوئے ہو میں نے تمہیں سال خوردگی (بزرگی) میں مبارک کیا تم جس جگہ ہو مبارک ہو میں گواہی دیتا ہوں کہ تم میرے بندے اورمیری کنیز کے بیٹے ہو اے عیسی(ع) مجھے ہر وقت اپنے دل سے بھی نزدیک جانو اور میری یاد کو معاد کے لیے ذخیرہ بناؤ نوافل سے میرا تقرب حاصل کرو مجھ پر توکل کرو میں تمہاری کفالت کروں گا کسی دوسرے پر تکیہ نہ کرو ورنہ میں تمہیں اسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دوں گا اور تمہاری مدد نہ کروں گا اے عیسی(ع) بلاؤں پر صبر کرور اور میری قضا پر راضی رہو میری رضا اسی میں ہے کہ مجھے راضی رکھو میرے حکم کو مانو اور میری نافرمانی نہ کرو۔

اے عیسی(ع) میری یاداپنی زبان سے زندہ رکھو اور میری محبت کو اپنے دل میں قائم کرو اے عیسی(ع) غفلت کے وقت بیدار رہو اور میرے لطف اور حکمت سے فیصلے کرو اے عیسی(ع) مشتاق اور ڈرے ہوئے رہو اور اپنے دل میں خوف رکھو۔ اے عیسی(ع) اپنی راتوں میں مجھ سے دعا کرو تاکہ میری خوشنودی میں

۴۷۰

لگے رہو اپنے دن روزے سے گزارو تاکہ تمہاری حجات بار آور ہوں اے عیسی(ع) کار خیر میں جلدی کرو تاکہ ہر جگہ خیر مندی سے پہچانے جاؤ اے عیسی(ع) میرے بندوں کے درمیان میرے حکم کے مطابق خیر خواہی کرو اور میرے عدل کو قائم کرو کہ یہ ہر دل کے درد کی شفا ہے اور ہر اس بیماری کا علاج ہے جو شیطان نے تم پر نازل کی ہے اے عیسی(ع) میں سچ کہتا ہوں مجھ پر ایمان نہیں رکھتا مگر وہ کہ جومیرے خوف میں گریاں ہے اور مجھ سے ثواب کی امید میں ہے میں تمہیں اس پر گواہ بناتا ہوں کہ وہ عذاب سے امن میں ہے جب تک وہ میری ذات اور میری سنت میں تبدیلی نہ کرے۔ اے عیسی(ع) اے دنیا سے لاتعلق اور خدا سے متوسل ہونے والی باکرہ خاتون بتول مریم(ع) کے فرزند اپنی حالت پراس طرح گریہ کرو جس طرح کوئی اپنے اہل و عیال سے رخصت ہوتے وقت روتا ہے اور دنیا کو دشمن رکھتا ہے اور اسے اس سے محبت کرنے والوں کے لیے چھوڑے ہوئے ہے جو کچھ خدا کے پاس ہے اس کے لیے رغبت رکھو۔ اے عیسی(ع) نرمی سے بات کرو سلام میں پہل کرو بیدار رہو کہ نیک لوگوں کی آنکھیں بہتر ہیں قیامت کے سخت ہول اور خوف و زلزلوں سے بچنے کے لیے بیدار رہو اس وقت اہل و عیال کام نہ آئیں گے اور نہ ہی مال کوئی فائدہ دے گا اے عیسی(ع) اپنی آنکھوں میں اس وقت رنج و غم کا سرمہ لگاؤ کہ جس وقت بے ھودہ لوگ ہنس رہے ہوں اے عیسی(ع) خائف و صابر رہو اور یہ تمہارے لیےبہت اچھا ہے اگر تم اس کو پہنچو کہ جس کا وعدہ ہم نے صابرین سے کیا ہے اے عیسی(ع) ہر روز دنیا سے دوری اختیار اور جو مزہ تم نے ترک کردیا ہے اس کے ترک کرنے کا مزہ لو اے عیسی(ع) میں سچ کہتا ہوں کہ دنیا میں تیرا حصہ  یہی ساعت اور یہی دن ہے اس پر خوشی سے شاکر رہو اور درشت و ناہموار کو دیکھنے سے کیا حاصل ہے تم اس میں سے جو بھی لوگے وہ لکھا جائے گا اس میں سے جو بھی خرچ  کرو گے درج کیا جائے گا اے عیسی(ع) میں روز قیامت باز پرس کروں گا لہذا یتیموں پر اس طرح رحم کرو جس طرح میں نے تم رحم کیا اے عیسی(ع) یتیموں پر سختی مت کرو اے عیسی(ع) نماز میں اپنی حالت پر گریہ کرو اور اپنے قدموں کو عبادت گاہ تک کے سفر میں مشغول رکھو مجھے اپنی خوشگوار آواز جو میرے نے ذکر و یاد سے بھری ہو سناتے رہو کیونکہ میں تم سے زیادہ احسان کرنے والا ہوں اے عیسی(ع) کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کو میں نے ان کے گناہوں کی وجہ سے

۴۷۱

ہلاک کردیا اور تجھے اس ہلاکت سے محفوظ رکھا اے عیسی(ع) کمزوروں سے مہربانی کرو اپنی آنکھیں آسمان کی طرف بلند کر کے رکھ لو۔ اور مجھے پکارو میں تمہارے نزدیک ہوں مجھ سے گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرو اے عیسی(ع) جو تم سے پہلے تھے انہیں میں نے اپنے عذاب و انتقام کے لیے پیدا نہیں کیا تھا میں نے اس دنیا کو ثواب حاصل کرنے کے لیے مقرر کیا ہے اے عیسی(ع) تم فنا ہو جاؤ گے اور میں باقی رہوں گا تمہاری زندگی میری طرف سے دی گئی ہے تمہارے مزے کا وقت میرے قبضے میں ہے تمہاری بازگشت میری طرف ہے تمہارا حساب میرے قبضے میں ہے میرے سوا کسی دوسرے سے مت مانگو مجھ ہی سے دعا کرو میں ہی قبول کرتا ہوں۔ اے عیسی(ع) انسان تو بہت زیادہ ہیں مگر ان میں صبر کرنے والے کم ہیں درخت  تو بہت زیادہ ہیں مگر ان میں سے بہتر کم ہیں جب تک درخت کا میوہ نہ چکھ لو اس کی خوبصورتی کے عاشق مت بنو اے عیسی(ع) اس شخص کے حال سے دھوکہ مت کھاؤ جو مجھ سے کشی اور بغاوت کیے ہوئے  اورمیرے ہی دیئے ہوئے رزق پر گزارا کر رہا ہے وہ غیر کی عبادت کرتا ہے مگر مصیبت کے وقت مجھے ہی پکارتا ہے جب میں اس کی فریاد قبول کر لیتا ہوں تو وہ واپس اپنی پرانی حرکت اختیار کرتے ہوئے گناہ اور شرک کی طرف پلٹ جاتا ہے اور مجھ سے سرکشی کرتا ہے اور میرے غضب کا حق دار بن جاتا ہے  مجھے اپنی ذات کی قسم میں اسے ایسے گرفت میں لوں گا کہ پھر اس کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں رہے گی اور بھاگنے کا موقع نہ ہوگا وہ میرے آسمان و زمین سے بھاگ کر کہاں جائے گا اے عیسی(ع) بنی اسرائیل کے ستم گاروں سے کہہ دو کہ جب تک وہ حرام اختیار کیے ہوئے ہیں مجھے نہ پکاریں، بتوں کو میرے گھر میں مت پکارو۔ جو کوئی مجھے سے دعا کرے گا میں قبول کروں گا مگر ان کی قبولیت کو ان پر لعنت بنا دوںگا یہاں تک کہ وہ پرگندہ ہوجائیں۔ اے عیسی(ع) میں کتنی بار انیں اپنی طرف بلاتا ہوں مگر یہ پھر بھی غفلت ہی میں سرمارتے رہتے ہیں اور میری طرف رجوع نہیں کرتے ان کے ذہنوں میں بات آتی ہے مگر ان کے دل اثر نہیں قبول کرتے اور اپنے گناہوں کی وجہ سے میرے غضب کا شکار ہو جاتے ہیں جب کہ مومنین میرے نام سے محبت کرتے ہیں۔ اے عیسی(ع) اپنی زبان کا ظاہر وباطن ایک رکھو تمہارا دل اور آنکھیں یک  جان ہونی چاہیں اور ایک دوسرے کی خوشنودی پر نگران  رہیں اور ایک دوسرے کو حرام سے

۴۷۲

 بچائے رہیں اپنی آنکھوں کو اس سے بچائے رہو جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص کا کسی طرف نظر کرنا اس کے دل میں ناجائز خواہشات کا بیج بودیتا ہے اور وہ خواہشات اسے ہلاک کردیتی ہیں اے عیسی(ع) میرے بندوں پر اسی طرح رحیم و مہربان رہو جس طرح تم چاہتے ہو کہ وہ تم پر رحیم و مہربان رہیں موت کو بہت زیادہ یاد کرو اور یاد رکھو کہ اپنے اہل و عیال سے جدائی اختیار کرنی ہے لعب مت اختیار کرو کیونکہ کھیل دلوں کو فاسد کردیتا ہے میری یاد سے غافل مت رہو کیونکہ غفلت کرنے والا مجھ سے دور رہتا ہے اپنے نیک کردار اور اعمال سے مجھے یاد کرو تاکہ میں تمہیں اپنی رحمت و ثواب میں یاد رکھوں عیسی(ع) گناہ سر زد ہونے کے بعد مجھ سے مغفرت طلب کرو اور توبہ کرنے والوں کو میری یاد دلاؤ یقین رکھو کہ میں توبہ قبول کرتا ہوں مومنین کے قریب رہو اور انہیں حکم دو کہ وہ تمہارے ساتھ مجھے یاد کریں مظلوم سے ہرگز لا پراہ مت ہوجانا کیونکہ مظلوم کی دعا بلند ہوکر میری بارگاہ میں آتی ہے میں نے عہد کیا ہے کہ مظلوم کی دعا آسمانوں کے کھلے دروازوں سے گذر کر میرے پاس آجائے اور میں اسے قبول کروں بیشک اس کی قبولیت میں کچھ تاخیر ہو اے عیسی(ع) جان لو کہ برے لوگوں کی ہم نشینی گمراہ کرنے والی ہے اور برا ساتھی ہلاکت میں ڈال دیتا ہے اس لیے سوچ سمجھ لیا کرو کہ ایسے کی ہم نشینی اختیار نہیں کرنی تم برادرِ مومن کی ہم نشینی اختیار کرو اے عیسی(ع) نیک عمل کرو کہ تمہیں موت آنے تک کی مہلت دی گئی ہے یقینا میں ایک نیکی کا کئی گنا اجر عطا کرتا ہوں بیشک گناہگار کو اس کے گناہ ہلاک کرتے ہیں نیک عمل میں جلدی کرو اور کوشش کرو کیونکہ بہت سی مجالس ایسی ہوتی ہیں کہ جب انسان وہاں سے اٹھتا ہے تو جہنم سے آزاد ہوکر اٹھتا ہے اے عیسی(ع) دنیا کو ترک و منقطع کر دو اور ان لوگوں کے نقش قدم پر چل کر دیکھو جو تم سے پہلے گزرے ہیں تم انہیں کارکر دیکھو وہ تمہیں جواب دیتے ہیں لہذا ان کے حالات سے نصیحت لو یاد رکھو تم بھی زندہ لوگوں کے ہمراہ ان ہی کے ساتھ ملحق ہوجاؤگے اے عیسی(ع) ان لوگوں سے کہہ دو جو مجھ سے سرکشی و نافرمانی کرتے ہیں اور گناہ گاروں کے ساتھ راہ رسم رکھتے ہیں اور میرے عذاب کے امیدوار اور اپنی ہلاکت کے منتظر رہتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ختم و ہلاک کردئیے جائیں گے اے ابن مریم(ع) تمہارا کیا کہنا ، کیا کہنا، اگر تم نے وہ راستے استعمال کیے جن کا خدا نے تمہیں حکم دیا ہے، وہ تم پر

۴۷۳

 مہربان و رحیم ہے اس نے تم پر نعمت کی ابتداء کی اور گرامی کیا اور مصیبت و سختی میں تمہاری مدد فرمائی اے عیسی(ع) تم اس کی نافرمانی مت کرو کیونکہ تمہارے اور میرے درمیان یہی عہد ہوا ہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں کے درمیان ہوا تھا میں خود اس(عہد) پر گواہ ہون اے عیسی(ع) میں نے اپنی خلق کے درمیان اپنے دین سے بڑھ کر کسی چیز کو گرامی نہیں رکھا اور اپنی رحمت سے بہتر کوئی انعام مقرر نہیں کیا۔ اے عیسی(ع) اپنی ظاہری نجاسات کو پانی اور اپنی باطنی نجاسات کو عبادت سے پاک اور نیکیوں سے پاکیزہ کرو کہ تمہاری بازگشت میری طرف ہے اے عیسی(ع) میری عبادت کے لیے آمادہ رہو کیونکہ جو امر آنے والا ہے یعنی موت وہ نزدیک ہے میری کتاب کی تلاوت طہارت کے ساتھ کرتے رہو اور مجھے یہ آواز حزن  کے سناتے رہو۔

امام صادق(ع) نے فرمایا اس کے علاوہ جو مواعظ عیسی ابن مریم(ع) کو کیے گیے وہ یہ ہیں۔ خدا نے فرمایا اے عیسی(ع) اگر فریب اختیار کرتے ہوتو میری تدبیروں سے ڈرتے رہو اور جب تنہائی میں تم سے کوئی گناہ ہوجائے تو میری یاد فراموش نہ کرنا اے عیسی(ع) بیدار رہو اور میری رحمت سے نا امید مت ہو میری تسبیح کرنے والے لوگوں کے ہمراہ میری تسبیح بیان کرتے رہو اور میرے پاک ناموں کے ساتھ میری پاکی بیان کرتے رہو اے عیسی(ع) بیشک دنیا ایک بدبودار قید خانہ ہے اور لوگوں کے لیے اس قید خانے کو چند چیزوں سے زینت دی گئی ہے جن کے لیے جابر و سرکش لوگ ایک دوسرے کو مار ڈالتے ہیں ہر وقت دنیا سے علیحدہ رہو کیوںکہ اس میں نعمتیں کم اور زائل ہونے والی ہیں اے عیسی(ع) بادشاہی صرف مجھ سہی سے مخصوص ہے میں ہی حقیقی بادشاہ ہوں اگرمیری اطاعت کرو گے تو میں  تمہیں اپنی بہشت میں داخل کردوں گا اور صالحین کی ہمسائیگی عطا کروں گا اے عیسی(ع) دنیا کی عمر بہت مختصر ہے مگ اس کی آرزوئیں بہت طویل ہیں میرے پاس اس سے بہتر گھر ہے جسے دنیا والے بناتے ہیں اے عیسی(ع)  بنی اسرائیل کے ستم گاروں سے کہہ دو کہ تم اس وقت کیا کرو گے جب میں وہ کتاب نکالوں گا جو تمہارے ظاہری اور پوشیدہ رازوں اور جوکچھ تم کیا کرتے تھے کو سچ سچ آشکار کردے گی اے عیسی(ع) بنی اسرائیل کے سرکشوں سے کہہ دو کہ تم اپنے چہرے دھوتے اور صاف کرتے رہو( بناو سنگھار) کیا

۴۷۴

تم اس پر متکبر ہو یامیرے سامنے کوئی جرات کرنا چاہتے ہو تم خود کو اس دنیا کی عمدہ خوشبوؤں سے معطر کرتے ہو مگر تمہارے دل سڑے ہوئے مردوں کی طرح متعفن ہیں گویا تم مردار لوگ ہو اے عیسی(ع) تم ان سے کہہ دو کہ اپنے ہاتھوں کو حرام پیشے سے روک لیں اور اپنے کانوں کو بری باتوں کے سننے سے روک لیں اور اپنے دل میری طرف مائل کرلیں کیونکہ میں ان کےچہرے کی خوبصورتی نہیں بلکہ ان کے دلوں کی نیکی چاہتا ہوں اے عیسی(ع) نیکی کرنے سے خوش رہو یہ میریخوشنودی کا سبب ہے تمہارے گناہ جومیرے غضب کا باعث ہیں پر گریہ کرو جو تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ دوسروں کے لیے بھی پسند نہ کرو اگر کوئی تمہارے دائیں رخسار پر طمانچہ مارے تو تم اپنا بائیاں رخسار بھی اس کے آگے کردو۔ لوگوں سے محبت کر کے میرا قرب حاصل کرو جس قدر تم سے ممکن ہوکم عقلوں اور جاہلوں سے پرہیز کرو اے عیسی(ع) بنی اسرائیل کے ستم گاروں سے کہہ دو کہ اہل علم و حکمت اور نیک کردار لوگ تو گناہوں سے دور بھاگتے ہیں اورمیرے خوف سے گریہ کرتے ہیں مگر تم ہنستے  ہو اور فخر کرتے ہو کیا تمہارے پاس میرے عذاب سے نجات کا کوئی پروانہ  ہے یا جان بوجھ کر میرے عذاب کو دعوت دیتے ہو تو میں بھی اپنی قسم کھا کر  کہتا ہوں کہ میں تمہیں ائیندہ آنے والوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دوںگا۔

اے بن مریم(ع) کنواری بتول کے بیٹے۔ میں تجھے رسولوں کے سردار احمد(ص) کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ جو نورانی چہرے والے اور سرخ اونٹوں کے مالک ہیں جن کا نور دنیا کو روشن کردے گا وہ پاک نفس اورمیرے لیے سخت غضبناک ہوں گے وہ صاحب حیا اور بے حد کریم ہیں وہ  تمام عالمین کے لیے رحمت ہیں اور اولادِ آدم(ع) ک سید و سردار، قیامت کے دن میرے سب سے نزدیک اور سب سے بہتر و بلند ہوں گے اور تمام اولین سے بلندتر اور پیغمبروں میں سے سب سے زیادہ مقرب ہوں گے وہ عرب میں پیدا ہوں گے اور بغیر کسی سے کچھ سیکھے یا پڑھے تمام علوم اولین و آخرین کے ساتھ مبعوث ہوں گے وہ میرے دین کوتبلیغ کریں گے اور تمام مصائب پر صابر و شاکر ہونگے اے عیسی(ع) میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ بنی اسرائیل کو بتادو کہ وہ ان کی تصدیق اور مددکریں عیسی(ع) نے کہا معبود وہ (آںحضرت(ص)) کون ہے خدا نے فرمایا اے عیسی(ع) اس سے راضی رہو کہ اسی

۴۷۵

میں تیری رضا ہے عرض کیا خدایا میں اس سے راضی ہوں مگر وہ کون ہے ارشاد ہواوہ محمد(ص) ہیں جو تمام لوگوں کے لیے خدا کی طرف سے رسول بنائے گئے ہیں میرے نزدیک ان کا مقام سب سے قریب تر ہےمیں ان کی شفاعت قبول کرتا ہوں اس پیغمبر(ص) اور اس کی امت کا کیا کہنا اگر لوگ مرتے وقت اس کے دین پر درست طریقے سے قائم رہے تو اہل زمین ان کی مدح کریں گے اور اہل آسمان، ان کے لیے مغفرت طلب کریں گے اور وہ امین و بابرکت ہے گناہوں سے پاکیزہ و معصوم ہےمیرے گذشتہ و آئیندہ تمام لوگوں سے بہتر ہے وہ آخری زمانے میں مبعوث ہوگا وہ دنیا میں آئے گا آسمان زمین رحمت کی بارشین برسائے گا اور زمین طرح طرح کی نعمتیں اور آسائش و آسائشات کے سامان اگل دے گی وہ جس شئی کو پسند کرےگا میں اس میں برکت پیدا کردوں گا وہ بہت سی عورتوں سے نکاح کرے گا مگر اس کے فرزند کم ہوں گےوہ مکہ میں جس جگہ ابراہیم(ع) نے کعبہ کی بنیاد رکھی ہے وہاں ساکن ہوگا اے عیسی(ع) اس کا دین سہل اور آسان ہے اس کا قبلہ کعبہ ہوگا وہ میرے برگذیدہ لوگوں میں سے ہے میں اس کےساتھ ہوں اور اس کا گروہ میرا گروہ ہے اس کا کیا کہنا کہ حوض کوثر اس کے لیے اور بہشت عدن میں اعلیٰ ترین مقام اس کے لیے ہے جہاں وہ بہترین زندگی گزارے گا اس کے حوض (کوثر) کے پانی کا رنگ سفید ہے جس میں بہشت کے ہر طعام اور میوے کا مزہ ہے اور اس حوضِ کوثر کےکنارے ستاروں کی تعداد کے برابر جام رکھے ہوں گے جو بھی اس حوض سے یہ شربت پیئے کا ہرگز پیاسا نہ رہے گا تمہارے بعد زمانہ فترت ہوگا اس کے بعد میں اسے مبعوث کروں گا اس کا ظاہر و باطن اس کے افعال کے مطابق ہوگا اور اس کے گفتارو کردار اس کے موافق ہونگے وہ لوگوں کو کسی ایسے امر کی نصیحت اس وقت تک نہیں کرے گا جب  تک خود اس پر عمل نہ کرے اس کا دین دشواری اور آسانی میں جہاد کرنا ہوگا شہروں کے لوگ اس کے مطیع ہونگے اور روم کا بادشاہ اس کے اور اس کے باپ ابراہیم(ع) کے دین کے سامنے سرنگوں ہوجائے گا اس کی ملت، ملت ابراہیمی(ع) ہوگی اور وہ کھانے کے وقت ” بسم اﷲ“ کہے گا سلام بلند کرے گا اور جس وقت لوگ سو رہے ہوں گے نماز ادا کرے گا اس پر دن اور رات میں پانچ وقت کی نمازیں واجب ہوں گی وہ تکبیر سے آغاز کرے گا اور سلام پر ختم کرے گا ہر نماز کے وقت

۴۷۶

 لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے اذاندی جائے گی اور لوگ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے اس طرح صفین بنا کر کھڑے ہوں گے جس طرح ملائکہ صف میں کھڑے ہوتے ہیں اس کا دل نزم اور خوف خدا سے پر ہوگا اور اس کا سینہ نور سے بھرا ہوگا اور اس کی زبان پر حق جاری ہوگا اس کے ساتھ ہر وقت حق ہوگا اس کی آنکھیں سو رہی ہوں گی مگر دل جاگتا ہوگا شفاعت اسی سے مخصوص ہے، اس کی امت کا زمانہ قیامت کے قریب ہوگا اس کی امت میں سے جو اس کی بیعت کرے گا میری رحمت کا حقدار ہوگا مگر جو اس کی بیعت توڑے گا خود پر ظلم کرے گا جو اس کی بیعت سے وفا کرے گا میں اس پر بہشت واجب کروں گا لہذا بنی اسرائیل کے  سرکشوں کو حکم دو کہ اپنی کتابوں سے اس کا نام محو نہ کریں اور میں نے اپنی کتابوں میں اس کی جو صفتیں بیان کی ہیں انہیں تبدیل نہ کریں اے عیسی(ع) میں تمہیں ان امور کی بجا آوری کا حکم دیتا ہوں جو تمہیں مجھ سے قریب کردیں اور ان امور سے تمہیں منع کرتا ہوں جو تمہیں مجھ دور لے جائیں اب ان میں سے جو امور تم بہتر سمجھو اختیار کر لو اے عیسی(ع) میں نے تمہیں اس دنیا میں اس لیے بھیجا ہے تاکہ تم میری اطاعت کرو اور جس سے میں نے منع کیا ہے اس  سے پرہیز کرو اور جو میں نے تمہیں اپنے فضل و کرم سے عطا کیا ہے اسے اس دنیا میں اختیار کرو اپنے اعمال پر گناہ گار کی مانند نظر رکھو دنیا میں زاہد بن کے رہو اس کی لذتوں کو چھوڑ دو اور بے رغبت رہو تا کہ تم رنج نہ پاؤ اے عیسی(ع) تعقل و فکر کرو اپنے ارد گرد نظر دوڑاؤ اور دیکھو کہ ستم گاروں کا کیا حشر ہوا ہے اے عیسی(ع) یہ تمام نصیحتیں تیرےلیے  ہیں اور یہ تمام باتیں سچی ہیں میں حق کا روشن کرنے والا اور سچ کہنے والا ہوں اور اگر میری تنبیہ کرنے کے باوجود بھی تم میری نافرمانی کروگے تو میرے علاوہ کوئی سرپرست و مددگار نہیں پاؤگے اے عیسی(ع) اپنے دل کو میرے خوف سے پست و ذلیل رکھو اور دنیا میں جو تم سے پست ہے اس کے حال پر نظر دوڑاؤ اور میرا شکر بجالاؤ اور دنیا میں دنیاوی لحاظ سے جو تم سے بلند ہیں ان کی حالت کو مت دیکھو یاد رکھو کہ ہر خطا اور گناہ کی بنیاد دنیا کی محبت ہے لہذا دنیا کو دوست مت بناؤ اے عیسی(ع) اپنا دل میری یاد سے خوش رکھو اور خلوت میں مجھے بہت زیادہ یاد رکھو ، یاد رکھو کہ میں توبہ و زاری کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں لہذا اس بارے میں زندہ رہو مردہ مت بنو۔ اے عیسی(ع) میرے ساتھ کسی کو

۴۷۷

 شریک مت ٹھہراؤ میرے غضب سے ڈرتے رہو اور اپنی صحت و طاقت پر مغرور مت ہو، دنیا کو محل قرار نہ دو کہ یہ ایک سائے کی مانند ہے ہر آنے جانے والا اسی کی مانند ہے جو گزر گیا اس کا کوئی اثرف باتی نہیں اور جو کچھ ہاتھ میں ہے وہ اعمال صالح ہیں لہذا اس بارے میں حتی الامکان کوشش کرو جہاں رہو حق کے ساتھ رہو چاہے یہ تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیں یا آگ میں جلادیں مجھے جاننے کے بعد کافر مت ہوجانا اور جاہلوں سے مت جاملنا اے عیسی(ع) میری بارگاہ میں گریہ و زاری کرتے رہنا اور اپنے دل کو مجھ سے خائف رکھنا اے عیسی(ع) ہر سختی اور بلا کے وقت مجھے یاد کرنا کیونکہ میں یاد کرنے والوں کی فریاد سننے والا اور مصیبت زدہ لوگوں کی فریاد قبول کرنے والا ہوں اور میں رحم کرنے والوں میں سے سب زیادہ رحیم ہوں۔

۴۷۸

مجلس نمبر۷۹

(سلخ جمادی الثانی سنہ۳۶۸ھ)

تفسیر اصطفاء(ع)

ریان بن صلت بیان کرتے ہیں ۔ امام علی رضا علیہ السلام ”مرو“ میں مامون کے دربار میں تشریف لائے اس وقت دربار میں عراق و خراسان کے علماء جمع تھے۔مامون نے علماء سے کہا : آپ حضرات مجھے قرآن کی اس آیت مجیدہ کے متعلق بتائیں۔

ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا “ ( فاطر، ۳۲)

” پھر ہم نے کتاب کا وارث انہیں بنایا  جنہیں اپنے بندوں میں سے چن لیا“

علماء نے کہا : اس سے مراد پوری امت ہے۔

مامون نے امام علی رضا علیہ السلام سے پوچھا : ابو الحسن(ع) آپ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا : میں وہ نہیں کہتا جو انہوں نے کہا ہے اس (آیت) کے لیے میرا قول یہ ہے

” اﷲ نے اس سے عترت طاہرہ(ع) مراد لی ہے“

مامون نے کہا : امت کو چھوڑ کر اﷲ نے اس سے مراد عترت(ع) کیسے لی ہے؟

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: اگر اس سے مراد امت ہوتی تو پوری کی پوری امت ہی جنتی ہوتی کیونکہ اﷲ تعالی نے فرمایا اور پوری آیت یوں ہے۔

” ثُمَّ أَوْرَثْنَاالْكِتابَ الَّذينَ اصْطَفَيْنامِنْ عِبادِنافَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌوَمِنْهُمْ سابِقٌ بِالْخَيْراتِ بإِذْنِ اللَّهِ ذلِكَ هُوَالْفَضْل ُالْكَبيرُ“( فاطر، ۳۲)

” پھر ہم نے کتاب کا وارث ان کو قرار دیا جنہیں اپنے بندوں میں سے چن لیا کیونکہ بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض اعتدال پسند ہیں اور بعض خدا کی اجازت سے نیکیوں کی طرف

۴۷۹

 سبقت کرنے والے ہیں اور در حقیقت یہی بڑا فضل و شرف ہے“۔

پھر اﷲ تعالی نے سب کو جنت میں جمع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔

جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهايُحَلَّوْنَ فيهامِنْ أَساوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤاًوَلِباسُهُمْ فيهاحَرير “(فاطر، ۳۳)

” یہ لوگ ہمیشہ رہنے والی جنت میں داخل ہوں گے انہیں سونے کے کنگن اور موتی کے ریورات پہنائے جائیں گے اور ان کا لباس جنت میں ریشم کا ہوگا۔

اس لیے وراثت کتاب، عترت طاہر(ع) کے لیے مخصوص ہے اس سے ان کے غیر مراد نہیں ہیں“

مامون نے کہا : عترت طاہر(ع) کون ہیں؟

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا : عترت طاہرہ(ع) وہی ہیں جن کی توصیف میں اﷲ تعالی نے فرمایا:

ُ إِنَّمايُريدُاللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْل َالْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهيرا “ ( الاحزاب، ۳۳)

” بس اﷲ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت(ع) کہ تم سے ہر برائی  کور دور رکھے اور تمہیں اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے“۔اہل بیت(ع) وہی ہیں جن کے متعلق رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ

” میں تمہارے درمیان دو گران قدر چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں اور وہ ہیں اﷲ کی کتاب اور میری عترت اہل بیت(ع) یہ ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ روز قیامت میرےپاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں سے کیا سلوک کرتے ہو تم انہیں تعلیم مت دینا وہ تم سے زیادہ عالم ہیں“۔

علماء نے کہا : ابوالحسن(ع) آپ ہمیں یہ بتائیں کہ عترت(ع) سے مراد آل ہے یا آل کے علاوہ کچھ اور ہے؟

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا : عترت(ع) سے مراد آل ہے“

علماء نے کہا ؛ رسول خدا(ص) سے مروی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا : میری امت میری آل ہے اور اصحاب رسول(ص) نے روایت کی ہےکہ آل محمد(ص) سے مراد امتِ محمد(ص) ہے۔

۴۸۰