مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 296824
ڈاؤنلوڈ: 7462

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 296824 / ڈاؤنلوڈ: 7462
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

غضب کرے لیکن اس کا غضب خدا کے لیے ہوتا ہے کیونکہ خدا نے اس پر حدود کا قائم رکھنا واجب قرار دیا ہے یعنی کوئی بھی اس کی راہ میں اجرائے حدود الہی میں مانع نہیں ہوسکتا اور دین خدا میں حد جاری کرنے میں کوئی بھی رحم اسے نہین روکتا اور چہارم یہ جائز نہیں کہ امام دنیا کی شہوت کی متابعت کرے اور دنیا کو آخرت کے عوض اختیار کرے اس لیے کہ خدا نے آخرت کو اس کا محبوب قرار دیا ہے لہذا وہ آخرت پر نظر رکھتا ہے اس طرح جس طرح ہماری نظریں دینا پر لگی ہوئی ہیں  کیا تم نے کسی کو دیکھا ہے کہ وہ خوبصورت چہرے کو بد صورت چہرے کی خاطر ترک کردے یا تلخ طعام کی خاطر لذیذ کھانوں کو چھوڑدے یا نرم لباس کو سخت کپڑوں کے بدلے چھوڑدے اور ہمیشہ باقی رہنے والی نعمت کو خالی اور زائل ہونے والی نعمت کے لیے ترک کردے۔

وفات نبی(ص) اور غسل و کفن

۶ـ                   ابن عباس(رض) کہتے ہیں کہ جب جناب رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم بیمار ہوئے اور آںحضرت(ص) کے اصحاب آپ(ص) کے گرد جمع ہوئے تو عمار یاسر رضی اﷲ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے یا رسول اﷲ(ص) آپ پر میرے باپ ماں فدا ہوں جب آپ(ص) عالم قدس  کی طرف تشریف لے جائیں تو ہم میں کون آپ کو غسل دے گا آپ(ص) نے فرمایا کہ میرے غسل دینے والے علی بن ابی طالب(ع) ہیں کیونکہ وہ میرے جس عضو کو دھونا چاہیں گے فرشتے اس کے دھونے پر ان کی مدد کریں گے پوچھا یا رسول اﷲ آپ(ص) پر میرے باپ ماں فدا ہوں ہم مین کون آپ(ص) کی نماز پڑھائے گا حضرت نے فرمایا خاموش ہوجاؤ خدا تم پر رحمت نازل کرے پھر اپنا رخ علی بن ابی طالب(ع) کی طرف کر کے فرمایا کہ اے علی(ع) جب تم دیکھو کہ میری روح میرے جسم سے مفارقت کرچکی ہے تو مجھے غسل دینا اور اچھی طرح دینا اور مجھے انہیں دونوں کپڑوں کا کفن دینا جو میں پہنے ہوئے ہوں یا مصری جامہء سفید یا برد یمانی کا کفن دینا اور میرا کفن بہت قیمتی نہ ہو۔ اور مجھے قبر کے کنارے تک اٹھا کر لے جانا اور وہاں مجھے چھوڑ کر الگ ہو جانا تو سب سے پہلے جو مجھ پر نماز پڑھے گا وہ خداوند عالم ہوگا جو اپنے عظمت وجلال عرش سے مجھ پر صلوات بھیجے گا اس کے بعد جبرائیل(ع) و میکائیل(ع) اور اسرافیل(ع) اپنے لشکروں

۵۸۱

 اور فرشتوں کی فوجوں کے ساتھ جن کی تعداد سوائے خداوند عالمین کے کوئی نہیں جانتا مجھ پر نماز پڑھیں گے اس کے بعد وہ فرشتے جو عرش الہی کے گرد ہیں اس کے بعد ہر آسمان کے فرشتے یکے بعد دیگرے مجھ پر نماز پڑھین گے پھرمیرے تمام اہل بیت(ع) افور میری بیویاں اپنے اپنے قرب و منزلت کے مطابق ایما کریں گے جو ایما کرنے کا حق ہے اور سلام کریںگے جو سلام کرنے کا حق ہے اور ان کو چاہیے کہ نوحہ فریاد بلند کر کے مجھے آزار نہ پہنچائیں اس کے بعد فرمایا اے بلال(رض) لوگوں کو میرے پاس بلاؤ کہ مسجد میں جمع ہوں جب لوگ جمع ہوگئے تو آںحضرت(ص) عمامہ سر باندھے ہوئے اور اپن کمان پر  سہارا کرتے ہوئے باہر تشریف لائے اور منبر پر گئے اور حمد و ثناء الہی بجالائے اور فرمایا اے گروہ اصحاب میں تمہارے لیے کیسا پیغمبر تھا کیا میں نے تمہارے ساتھ رہ کر خود جہاد نہیں کیا، کیا میرے سامنے کے دانت تم نے شہید نہیں کیے، کیا تم نے میری پیشانی کو خاک آلود نہیں کیا کیا میرے چہرے پر تم نے خون جاری نہیں کیا کیا یہاں تک کہ میری ڈاڑھی خون سے رنگین ہوگئی۔ کیا میں نے تکلیفوں اور مصیبتوں کو اپنی قوم کے نادانوں سے برداشت نہیں کیا، کیا میں نے بھوک میں اپنی امت کے ایثار کے لیے شکم پر پتھر نہیں باندھے صحابہ نے کہا یارسول اﷲ(ص) کیوں نہیں بیشک آپ(ص) خدا کی خوشنودی کے لیے صبر کرنے والے تھےے اور برائیوں سے منع کرنے والے تھے لہذا آپ(ص) کو ہماری طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے حضرت (ص) نے فرمایا خدا تم کو بھی جزائے خیر دے پرھ فرمایا کہ خدا نے ( مجھے بتادینے کا) حکم دیا ہے اور قسم کھائی ہے کہ کوئی ظلم کرنے والا اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتا لہذا تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ جس پر محمد(ص) سے کوئی ظلم ہوگیا ہو وہ ( بلاتامل) اٹھے اور قصاص لے لے کیونکہ دنیا میں قصاص لے لینا میرے نزدیک عقبی کے قصاص سے زیادہ بہتر ہے جو فرشتوں اور انبیاء کے سامنے ہوگا یہ سنکر آخر سے ایک شخص اٹھا جس کو اسود بن قیس کہتے تھے اور کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اﷲ(ص) جس وقت آپ طائف سے واپس آرہے تھے میں حضور کے استقبال کے لیے گیا اس وقت آپ اپنے ناقہ غضبا پر سوار تھے اور اپنا عصائے ممشوق تھامے ہوئے تھے اور جب آپ(ص) نے اس کو بلند کیا تاکہ اپنے ناقہ کو ماریں تو وہ میرے شکم پر لگ گیا تھا مجھے نہیں معلوم کہ یہ آپ(ص) نے جان بوجھکر مارا

۵۸۲

یا غلطی سے حضرت(ص) نے فرمایا خدا کی پناہ کہ میں نے دانستہ مارا ہو۔ پھر بلال(رض) سے فرمایا کہ جاؤ فاطمہ(س) کےگھر اور میرے وہ عصا لے آؤ بلال مسجد سے نکلے اور گلیوں اور بازاروں میں آواز دیتے ہوئے چلے کہ اے لوگو تم میں کون ہے جو اپنے نفس کو قصاص دینے پر آمادہ کردے دیکھو محمد(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) روز قیامت سے پہلے اپنے تئیس قصاص دینے پر آمادہ ہیں، جناب سدہ(س) نے فرمایا اے بلال(رض) یہ وقت تو عصا کام میں لانے کا نہیں ہے کس لیے وہ طلب فرمارہے ہیں بلال نے عرض کی آپ(ع) کو نہیں معلوم آپ ک پدر بزرگوار منبر پر تشریف فرما ہیں اور دینداروں اور دنیا والوں کو وداع فرمارہے ہین جب جناب معصومہ(س) نے وداع کی بات سنی فریاد و زاری کی اور کہا ہائے رنج و ملال آپ(ص) کےلیے اے میرے پدر بزرگوار(ص) آپ(ص) کے بعد فقراء ومساکین غریب اور کمزور لوگ کس کی پناہ میں ہوں گے غرض بلال(رض) کو عصا دے یا وہ لے کر آںحضرت(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت(ص) نے عصا لے کر فرمایا وہ بوڑھا آدمی کہاں گیا اس نے حاضر ہوکر عرض کی میں موجود ہوں یا رسول اﷲ(ص) آپ پر میرے باپ ماں فدا ہوں۔ حضرت(ص) نے فرمایا یہ عصاء لے لو اور مجھ سے اپنا قصاص لو تاکہ مجھ سے راضی ہوجاؤ۔ اس شخص نے کہا یا رسول اﷲ(ص) اپنا شکم مبارک کھولیے جب آںحضرت(ص) نے اپنے شکم اقدس سےکپڑا ہٹایا تو اس نے کہا مولا کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنا دہن حضرت کے شکم سے مس کروں حضرت(ص) نے  اجازت دے دی تو اس نے حضرت(ص) کے شکم مبارک کو بوسہ دیا اور کہا میں روز جزا آتش جہنم سے  پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ رسول خدا(ص)کے شکم مبارک سے قصاص لوں حضرت(ص) نے فرمایا اے سوادہ قصاص لے لو یا معاف کردو۔ سوادہ نے کہا میں نے معاف کردیا یا رسول اﷲ(ص)حضرت نے فرمایا خداوندا تو بھی سوادہ بن قیس کو بخش دے جس طرح اس نے نے تیرے پیغمبر(ص) سے درگزر کی پھر حضرت منبر سے نیچے تشریف لائے اور خانہ ء ام سلمہ(رض) میں داخل جہوئے اور فرماتے جاتے تھے کہ خداوند تو امت محمد(ص) کو آتش جہنم سے محفوظ رکھ اور س پر حساب روز قیامت آسان فرما جناب ام سلمہ(رض) نے عرض کی یا رسول اﷲ(ص) آپ غمگین کیوں ہیں اور آپ(ص) کا رنگ مبارک کیوں متغیر ہے حضرت(ص) نے فرمایا جبرائیل(ع) نے مجھے اس وقت میری موت کی خبر دی ہے تم پر سلامتی ہو دنیا میں کیونکہ آج کے  بعد محمد(صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کی

۵۸۳

آواز نہ سنوگی۔ جناب ام سلمہ(رض) نے جب یہ وحشت اثر خبر آںحضرت(ص) سےسنی نالہ و فریاد کرنے لگیں کہ واحسرتاہ ایسا صدمہ مجھے پہنچا کہ ندامت و حسرت جس کا تدارک نہیں کرسکتے اس کے بعد حضرت(ص) نے فرمایا اے ام سلمہ(ض) میرے دل کی محبوب اور میری آنکھوں کے نور فاطمہ(س) کو بلاؤ یہ کہہ کر حضرت(ص) بے ہوش ہوگئے غرض جناب فاطمہ(س) زہرا سلام اﷲ علیہا آئیں اور اپنے پدر بزرگوار(ص) کی یہ حالت دیکھی تو نالہ و فرماد کرنے لگیں اور کہا اے پدر بزرگوار میری جان آپ کی جان پر فدا ہو اور میری صورت آپ کی صورت پر قربان ہو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ(ص) سفر آخرت پر آمادہ ہیں اور موت کا لشکر ہر طرف سے آپ(ص)  کو گھیرے ہوئے ہے کیا اپنی بیٹی سے کچھ بات نہ کیجیے گا اور اس کے آتش حسرت کو اپنے بیان سے ساکن نہ فرمائے گا جب آںحضرت کے کان میں اپنے نور عین کی یہ آواز پنہچی اپنی آنکھیں کھول دیں اور فرمایا پارہ جگر میں بہت جلد تم سے جدا ہونے والا ہوں اور تم کو وداع کرتا ہوں لہذا تم پر سلامتی ہو جناب فاطمہ(ص) نے  جب یہ خبر وحشت اثر حضرت سید البشر سے سنی دل پر درد سے ایک آہ کھینچی اور عرض کی ابا جان میں روز قیامت آپ سے کہاں ملاقات کروں گی حضرت(ص) نے فرمایا ایسے مقام پر جہان مخلوقاتِ عالم کا حساب کیاجائے گا جناب فاطمہ(س) نے عرض کی اگر وہاں آپ(ص) کو نہ پاؤں تو پھر آپ(ص) کو کہاں ڈھونڈوں فرمایا مقام محمود میں جس کا خدا نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے جس جگہ میں امت کے گنہگاروں کی شفاعت کروں گا عرض کی اگر وہاں بھی آپ سے ملاقات نہ ہو تو کہاں تلاش کروں فرمایا صراط کے نزدیک دیکھنا جب کہ میری امت اس پر سے گذر رہی ہوگی اور میں کھڑا ہوں گا جبرائیل(ع)میری داہنی جانب اور میکائیل(ع) بائیں جانب اور خدا کے فرشتے میرے آگے اور پیچھے ہوں گے اور سب خدا کی بارگاہ مین تضرع و زاری کے ساتھ دعا کرتے ہون گے کہ خداوندا امت محمد(ص) کو صراط سے سلامتی کے ساتھ گزار دے اور ان پر حساب آسان فرما پھر جناب سیدہ(س) نے عرض کی میری مادر گرامی جناب خدیجہ(ع) کہاں ملیں گی حضرت نے فرمایا بہشت کے اس قصر میں جس کے گرد چار قصر ہوں گے یہ فرما کر حضرت(ص) پھر بے ہوش ہوگئے اور عالم قدس کی جانب متوجہ ہوئے اتنے میں بلال(رض) نے اذان دی اور کہا ( الصلوة رحمک اﷲ) حضرت کو ہوش آیا اور اٹھ کر مسجد میں تشریف لائے

۵۸۴

اور مختصر نماز اداکی جب فارغ ہوئے تو جناب امیر(ع) اور اسام بن زید(رض) کو بلا کر فرمایا کہ مجھے خانہ فاطمہ(س) میں لے چلو جب وہاں پہنچے تو اپنا سر اقدس جناب سیدہ(س) کی گود میں رکھ کر تکیہ فرمایا ۔ امام حسن(ع) و امام حسین(ع) نے اپنے جد بزرگوار کا یہ حال دیکھا تو بے تاپ ہوگئے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش برسانے لگے اور فریاد کرنے لگے کہ ہماری جانیں آپ(ص) پر فدا ہوں حضرت(ص) نے پوچھا یہ کون ہیں جو رو رہےہیں امیرالمومنین(ع) نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) آپ کے فرزند حسن(ع) و حسین(ع) ہیں۔ حضرت(ص) نے ان کو اپنے قریب بلایا اور ان کے گلے میں باہیں ڈال کر ان کو اپنے سینے سے لپٹالیا چونکہ حضرت امام حسن(ع) بہت زیادہ بے قرار تھے حضرت(ص) نے فرمایا اے حسن(ع) مت روؤ کیونکہ تمہارا رونا مجھ پر دشوار ہے اور میرے دل کو تکلیف پہنچاتا ہے اسی اثناء میں ملک الموت میں نازل ہوئے اور کہا السلام علیک یا رسول اﷲ(ص) حضرت نے فرمایا علیک السلام اے ملک الموت تم سے میر ایک حاجت ہے ملک الموت نے عرض کی حضور  وہ کیا حاجت ہے فرمایا جب تک جبرائیل(ع) نہ آجائیں اور سلام نہ کرلیں اور میں ان کے سلام کو جواب نہ دے دوں اور میں ان کو وداع نہ کرلوں میری روح قبض نہ کرنا یہ سنکر ملک الموت یا محمداہ(ص) کہتے ہوئے باہر آگئے اسی اثناء میں جبرائیل ہوا میں ملک الموت کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ محمڈ(ص) کی روح قبض کر لی؟ کہا نہیں حضرت نے مجھے سے فرمایا ہے کہ جب تک حضرت سے تمہاری ملاقات نہ ہوجائے اور وہ تم کو وداع نہ کر لیں ان کی روح قبض نہ کرون جبرائیل(ع) نے کہا اے ملک الموت کیا تم نہین دیکھتے ہو کہ آسمانوں کے دروازے محمد(ص) کے لیے کھولے گئے ہیں اور بہشت کی حوروں نے خود کو آراستہ کیا ہے پھر جبرائیل آںحضرت(ص) کے پاس حاضر ہوگئے اور کہا السلام علیک یا اباالقاسم(ص) ۔ حضرت(ص) نے فرمایا وعلیک السلام یا جبرائیل کیا ایسی حالت میں مجھے تنہا چھوڑ دو گے جبرائیل(ع) نے کہا یا رسول اﷲ(ص) آپ کی اجل قریب ہے اور ہر ایک کے لیے موت در پیش ہے اور ہر نفس موت کا مزہ چکھے گا حضرت نے فرمایا اے حبیب میرے قریب آؤ جبرائیل(ع) حضرت(ص) کے نزدیک گئے اور ملک الموت نازل ہوئے جبرائیل آںحضرت(ص) کی داہپنی  جانب اور میکائیل بائیں جانب کھڑے ہوئے اور ملک الموت حضرت(ص) کے رو برو روح قبض کرنے میں مشغول ہوئے  ابن  عباس کہتے ہیں کہ اس روز آںحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کئی

۵۸۵

بار فرمایا کہ میرے حبیب قلب کو بلاؤ جب کوئی بلایا جاتا تو حضرت  اس کی طرف سےمنہ پھیر لیتے تو جناب فاطمہ(س) سے کہاگیا کہ ہمارا گمان ہے کہ حضرت جناب امیر(ع) کو طلب فرمارہے ہیں فاطمہ(س) امیر المومنین(ع) کو بلالائیں جب جناب رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہ جناب امیرالمومنین(ع) پر پڑی شاد ومسرور ہوگئے اور کئی بار فرمایا اے علی میرے پاس آؤ اور ان کے ہاتھ پکڑ کر اپنے سرہانے بٹھایا پھر غشی طاری ہوگئی اور اسی اثناء میں حسنین علیہم السلام بھی آگئے جب آںحضرت(ص) کے جمال مبارک پر ان کی نگاہیں پڑیں بے چین ہوگئے اور وجداہ و محمداہ(ص) کہہ کر فریاد و زاری کرتےہوئے آںحضرت(ص) کے سینہ اقدس سے لپٹ گئے۔ جناب امیر(ع) نے چاہا کہ ان کو حضرت سے علیحدہ کردیں اسی اثناء میں آںحضرت(ص) کو ہوش آگیا فرمایا اے علی (ع) ان کو چھوڑ دو تاکہ میں اپنے باغ کے ان دونوں پھولوں کو سونگھتا رہوں اور یہ میری خوشبو سے معطر ہوتے رہیں میں ان کو رخصت کروں اور یہ مجھے وداع کر لیں بیشک یہ میرے بعد مطلوم ہوں گے اور زہر ستم اور تیغ ظلم سے مارے جائینگے پھر تین مرتبہ فرمایا کہ خدا کی لعنت ہو اس پر جو ان پر ظلم و ستم کرے پھر اپنا ہاتھ بڑھا کر امیرالمومنین(ع) کو اپنے لحاف کے اندر کھینچ لیا اور اپنے منہ کو ان کے منہ پر رکھ دیا اور دوسری روایت کے مطابق اپنا دہن اقدس اس کے کان سے ملا دیا اور بہت سی راز کی باتیں کیں اور اسرار الہی اور علوم لامتناہی آپ(ع) کو تعلیم فرمائے یہاں تک کہ آپ کا طائر روح آشیانہ عرش رحمت کی جانب پرواز کر گیا پھر امیرالمومنین(ع) ، سید المرسلین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لحاف سے باہر آئے اور فرمایا لوگو تمہارے پیغمبر(ص) کےغٰم میں خداوند عالم تمہارا اجر زیادہ کرے کیونکہ حضرت رب العزت نے اس برگزیدہ عالم کی روح اپنے پاس بلائی یہ سنتے ہی اہل بیت رسالت میں گریہ و زاری اور نالہ وفریاد کا شور بلند ہوا اور مومنوں کا ایک مختصر گروہ جو خلافت کے غصب کرنے میں مشغول نہیں ہوا تھا اہل بیت(ع) کے ساتھ تعزیت اور مصیبت میں شریک ہوا، ابن عباس کہتے ہیں کہ جناب امیر(ع) سے لوگوں نے پوچھا کہ جناب سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آپ سےکیا  راز بیان کیے جب کہ آپ زیر لحاف داخل کر لیا تھا حضرت نے فرمایا کہ ہزار باب علم تعلیم فرمائے تھے جن میں ہر باب سے ہزار ہزار باب خود بخود منکشف ہوگئے۔

۵۸۶

۷ـ                  امام صادق(ع) بیان فرماتے ہیں کہ چار ہزار فرشتے حسین(ع) کے ساتھ مل کر جنگ کرنا چاہتے تھے۔ مگر امام نے اجازت نہ دی اوروہ واپس چلے گئے اور جا کر رب العزت سے اجازت طلب کی اور دوبارہ زمین پر اترے مگر وقت تک حسین(ع) ہوچکے تھے یہ فرشتے خاک آلودہ حالت مں آپ(ع) کی قبر مبارک پر موجود ہیں اور قیامت تک گریہ کرتے رہیں گے ان فرشتوں کا سردار اور رئیس منصور نامی فرشتہ ہے۔

۵۸۷

مجلس نمبر۹۳

(۱۲ شعبان سنہ۳۶۸ھ)

شرائع الدین

۱ـ           شیخ فقیہ ابوجعفر محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی(رح) کے پاس اصحاب جلسہ و مشائخ حاضر ہوئے اور ان سے کہا ہمیں دین امامیہ کے بارے میں مختصرا بتائیں۔

جناب صدوق نے بیان فرمایا ۔ دین امامیہ اقرار توحید ہے اور اس (خدا ) کی تشبیہ و تنزیہ سے انکار ہے جو کہ اس کے لائق نہیں ہے خدا کے تمام انبیاء(ع) اور فرشتے ، اس کی تمام کتب  و تمام حجج کا اقرار اور یہ کہ محمد(ص) سید الانبیاء والمرسلین ہیں اور ان تمام سے افضل ہیں اور وہ خاتم النبیین ہیں ان کے بعد قیامت تک کوئی پیغمبر نہیں ہے اور تمام انبیاء و ائمہ تمام فرشتوں سے بہتر ہیں ، تمام معصوم ہیں اور ہر آلودگی اور پلیدی سے پاک ہیں اور تمام گناہاں صغیرہ وکبیرہ سے پاک ہیں یہ اہل زمین کے لیے اسی طرح باعث امان ہیں جس طرح فرشتے اہل آسمان کے لیے باعث امان ہیں۔ اسلام کے پانچ ستون ہیں۔ نماز ، روزہ، حج، زکواة اور ولایت پیغمبر اور ان کے  بعد ائمہ(ع) جو کہ بارہ ہیں جن کے اول علی بن ابی طالب(ع) پھر حسن بن علی(ع) پھر حسین بن علی(ع) پھر علی بن حسین(ع) پھر محمد بن علی(ع) پھر جعفر صادق بن محمد(ع) پھر موسی بن جعفر(ع) (موسی کاظم(ع)) پھر علی رضا بن موسی(ع) پھرجواد محمد تقی(ع) بن علی(ع) پھر ہادی علی نقی(ع) بن محمد(ع) پھر عسکری حسن بن علی (ع۹ پھر ان کے بعد حضرت حجت بن حسن بن علی(ع) اور اس بات کا اقرار کر یہ سب کے سب اولی الامر ہیں کہ خدانے ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور فرمایاہے کہ ” پیروی کرو اپنے رسول کی او الوالامر کی“ ان کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور ان کی معصیت خدا کی معصیت ہے ان کے دوست خدا کے دوست ہیں اور ان کے دشمن خدا کے دشمن ہیں اور پیغمبر(ص) کی ذریت سے دوستی کہ وہ اپنے باپ دادا(ع) کےطریقے پر قائم ہیں یہ اس کے بندوں پر ایک فریضہ واجب ہے قیامت تک اور یہ اجر نبوت ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ” ان سے کہو کہ

۵۸۸

 میں تم سے کوئی جزا نہیں چاہتا سوائے اپنے رشتہ داروں کی محبت کے “ ( شوری، ۲۳) اور اس بات کا اعتراف کہ اسلام شہادتین کا زبان سے اقرار اور  دل سے ایمان و ارادے اور اعضاء بدن سے عمل کا نام ہے اور یہی اصل ایمان ہے اور جو صرف شہادتین کی حد تک رہے اس کا مال و خون محفوظ ہے سواے احقاق حق کے اور اس کا حساب خدا پر ہے۔

پھر دین امامیہ اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ موت کے بعد قبر میں منکر نکیر کےسوال وجواب اور قبر کا عذاب ہوگا۔ پھر اقرار پیدائش بہشت و دوزخ اورمعراج نبوت کا اقرار کہ آپ(ص) سات آسمانوں تک گئے پھر وہاں سے سدرة المنتہی اور یہاں سے حجاب نور تک لے جائے گئے جہاں آپ(ص) نے خدا سے راز کی باتیں کی اور یہ کہ آپ کو آپ کے جسم و روح کےساتھ معراج پر لے جایا گیا نہ کہ خواب میں اور اسی لیے نہیں کہ خدا مکان رکھتا ہے اور آپ(ص) نے اس سے مکان میں ملاقات کی خدا اس سے کہیں برتر ہے خدا جناب رسول خدا(ص) کا احترام اور ترضیع مقام کے لیے معراج پر لے گئے جہاں انہیں ملکوت زمین کی مانند ملکوت آسمان کا مشاہدہ کروایا گیا اور جناب رسول خدا(ص) نے عظمت خدا کو دیکھا یہ اس لیے تھا کہ وہ وہاں جو کچھ اپنی امت کے بارے میں اور علامات علویہ دیکھیں اس سے امت کو آگاہ کریں۔ پھر حوض کوثر کا اقرار اور گناہ گاروں کی شفاعت کا اقرار پھر صراط ، حساب، میزان، لوح وقلم، عرش و کرسی کا اقرار اور یہ کہ نماز دین کا ستون ہے اور یہ وہ پہلا عمل ہے جس کے بارے میں قیامت میں سوال کیا جائے گا اور معرفت کے بعد بندے کا پہلا عمل ہے جس کا وہ مسئول ہے اگر یہ قبول ہوگی تو دیگر اعمال بھی قبول ہوں گے اور اگر رد کردی گئی تو پھر باقی عمل بھی رد کر دینے جائیںگے ، روز وشب میں واجب نمازیں پانچ ہیں جو کہ (۱۷) سترہ رکعات پر مشتمل ہیں دو رکعات فجر، چار رکعات ظہر، چار عصر،تین مغرب، اور پھر چار عشاء نافلہ (نفلی نماز) چونتیس رکعات ہیں یعنی دو نوافل ایک فرض کے برابر کہ آٹھ (۸) رکعات ظہر سے پہلے آٹھ (۸) رکعات عصر سے پہلے پھر چار(۴) رکعات مغرب کے بعد اور دو رکعات بیٹھ کر عشاء کے بعد کہ یہ ایک رکعت شمار ہوتی ہے اور یہ اس بندے کاوتر شمار کی جاتی ہے جو کہ رات کو وتر ادا نہیں کرتا نماز شت آٹھ (۸) رکعات ہے ہر دو رکعات کے بعد ایک سلام ہے اور نماز شفع دو (۲) رکعات ہے

۵۸۹

 اور ایک رکعت نماز وتر اور دو رکعت نمازنافلہ صبح ہے جسے فریضہء فجر سے پہلے پڑھا جاتا ہےاور یہ فرائض و نوافلی نمازیں دن رات میں (۵۱) اکیاون رکعات پر مشتمل ہیں اور اذان واقامت کے ہمراہ ہیں نماز کے واجبات سات ہیں طہارت ، رو بہ قبلہ ہونا، رکوع، سجود، وقت مقررہ پر ادائیگی ،دعا اور قنوت کہ یہ ہر نماز کی دوسری رکعت میں واجب و مستحب ہے رکوع سے پہلے اور اس میں سورہ حمد اور اس کے ہمراہ کوئی دوسری سورہ اور رب اغفر وارحم و تجاوز عما تعلم انک الاعز الاکرم“ اور تین مرتبہ سبحان اﷲ“ بھی اس میں کافی ہے اگر نمازی چاہے تو ائمہ(ع) کے اسماء گرامی قنوت کے دوران لے سکتا ہے اور ان پر مختصر صلواة بھیجے تکبیرة الاحرام ایک مرتبہ پڑھنا کافی ہے مگر سات مرتبہ بہترین اور مستحب ہے “ بسم اﷲ الرحمن الرحیم “ کو با آواز بلند پڑھنا مستحب ہے کہ یہ قرآن کی آیت ہے اور اسم اعظم ہے اس خدا کا جو ہم سے اس طرح نزدیک ہے جس طرح آنکھ کی سیاہی اس کی سفیدی سے نزدیک ہے نماز کی ہر تکبیر میں اپنے ہاتھوں کو بلند کرنا نماز کی زینت ہے نماز کی رکعات میں اول فریضہ سورہ حمد پڑھنا ہے تاہم اس کے ہمراہ سورہ عزیمہ نہ پڑھے کہ ان میں سجدہ واجب جہے اور یہ سورتین الم تنزیل ، حم سجدہ، والنجم، اور اقراء باسم ربک ہیں، سورہ قریش اور سورہ فیل یا سورہ والضحی اور سورہ الم نشرح میں سے ہر دو سورتین ایک سورہ شمار ہوں گی اور نماز واجب میں ان میں سے ایک پر اکتفا نہیں ہوگا اور اگر کوئی چاہے کہ ان سورتوں کو نماز واجب میں پڑھے تو اس کو چاہیے کہ سورہ لایلف اور سورہ الم ترکیف کو یا والضحی اور الم نشرح کو ایک رکعت میں اکھٹا پرھے تاہم نافلہ نمازوں میں سورہ عزیمہ میں سے بھی پڑھا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی ممانعت صرف فریضہ نمازوں میں ہے۔ جمعے کے روز نماز ظہر میں سورہ جمعہ اور سورہ المنافقین کا پڑھنا مستحب اور سنت رسول (ص) ہے رکوع وسجود میں پڑھے جانے والے کلمات کی کم از کم تعداد تین مرتبہ ہے جبکہ پانچ مرتبہ احسن ہے اور سات مرتبہ افضل ہے اور اگر اس سے ایک کم کرے گا ( یعنی تین سے ایک کم کرے گا) تو نماز کا تیسرا حصہ کم کیا اگر دو تسبیح کم کرے گا تو اپنی نماز کو دو حصے کم کیا اگر رکوع و سجود میں ہرگز تسبیح نہ کہے گا تو اس کی نماز نہیں ہے تا ہم اس کی جگہ پر اتنی ہی تعداد میں ” لا الہ الا اﷲ“  یا ” اﷲ اکبر“ یا جناب رسول خدا(ص) پر صلواة بھیجے تو وہ بھی جائز ہے اور تشہد میں بھی یہی اداے شہادتیں کافی ہیں نماز میں ایک سلام

۵۹۰

کافی ہے جو آنکھ کے اشارے سے قبلے کی دائیں جانب کیا جائے تاہم اگر جماعت مخالفین میں موجود ہوتو تقیہ کی خاطر مخالفین کی طرح سلام ادا کرے۔ نماز واجب کے بعد تسبیح فاطمہ زہرا(س) کہے جو کہ چونتیس(۳۴) مرتبہ” اﷲ اکبر“ تینتیس (۳۳) مرتبہ ” الحمد ﷲ“ اور تینتیس مرتبہ ” سبحان اﷲ“ ہے اور جو بندہ نماز واجب کے بعد زانو کو اٹھائے بغیرتسبیح فاطمہ(س) کہے گا خدا اسے معاف کردے گا پھر چاہٰیے کہ جناب رسول خدا(ص) اور ائمہ(ع) پر درود بھیجے اور پھر اپنے لیے جو چاہیے مانگے اور دعا کے بعد سجدہ شکر کرے سجدہ شکر میں تین بار ” شکرا“ کہے۔ اگر مخالف موجود نہ ہوتو اس عمل کو ہرگز ترک نہ کرے اور نہ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھے اور نہ آمین کہے۔

سورہ حمد کے بعد سجدہ کرنے میں زانو کو ہاتھوں سے پہلے زمین پر نہ رکھے۔ سجدہ زمین اور زمین سے پیدا ہونے والی چیز ( کھانے اور پہننے کے علاوہ ) پر جائز ہے۔ حلال جانورں کے بال اور کھال سے بنے ہوئے لباس میں نماز پڑھنا جائز ہے۔ لیکن حرام جانوروں کے بال اور کھال سے بنے ہوئے لباس اور ریشم و زرد دوزی سے بنے ہوئے لباس میں نماز جائز نہیں ہے سواے مجبوری یا حالت تقیہ میں نماز کو قطع کرنے والی چیز نماز گزار کی ریح کا خارج ہونا یا دیگر امور جو وضو کو باطل کریں یا اسے یاد آئے کہ قبل از نماز اس نے وضو نہیں کیا۔ یا دوران نماز اسے کوئی ایسی ضرب لگ جائے جس کو برداشت کرنے سے قاصر ہو۔ یا سر پر ایسی چوٹ پہنچ جائے جو برداشت سے باہر ہو اور جس سے خون نکل کر چہرے پر آجائے اس کا چہرہ قبلے کی طرف سے پھر جائے یا دیگر امور جو نماز کو باطل کردٰیں۔ نافلہ نمازوں میں شک کی صورت واجب نماز میں شک  کی طرح نہیں ہوتی ہے۔ نافلہ میں نماز گزار رکعات میں شک کی صورت میں جسے چاہے  اختیار کر لے ( چاہے قلیل کو اختیار کرے ۔ چاہے تو کثیر کو اختیار کر لے) تا ہم نماز واجب میں تین یا چار میں شک کی بناء پر کثیر کو اختیار کرے یعنی چار رکعات ادا کرے۔ جو کوئی دو رکعات میں سے اول میں شک کرے تو اسے چاہیے کہ سے دوبارہ پڑھے۔ جو کوئی نماز مغرب میں شک کرے اسے چاہیے کہ اسے دوبارہ پڑھےجب سلام کہے تو جو کچھ کم ہونے کا شک رکھتا ہے اسے دوبارہ پڑھے۔سجدہ سہو نماز گزار پر واجب نہ ہوگا مگر قیام کے لیے حالت قعود یا قعود قیام کی جگہ میں یا ترک تشہد یا شک کثیر

۵۹۱

 میں یا سلام کے بعد نماز میں کمی کی  صورت میں سلام کے بعد دو سجدے ( سجدہ سہو) ہیں کہ ان میں کہے ”بسم اﷲ وباﷲ السلام علیک اي ه ا النبی ایمانا و تصديقا لا ال ه الا اﷲ عبودية و رقا سجدت لک يا رب تعبدا و رقا لا مستنکف ولا مستکبرا بل انا عبد ذليل خائف مستجيرا “اور جب سراٹھائے تو ” اﷲ اکبر“ کہے۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ نمازی سے ربع یا ثلث یا ںصف یا ایک حصہ قبول کیا جاتا ہے مگر خدا اسے اس کی نافلہ نماز سے درست کردے گا۔ امامت نماز کے لیے زیادہ حقدار بندہ وہ ہے جو قرآن کا علم زیادہ جانتا ہو۔ اگر قرآن جاننے میں تمام لوگ برابر ہوں تو جس نے پہلے ہجرت کی ہو وہ مقدم جانا جائے۔ اگر تمام ہجرت کرنے میں برابر ہیں تو بزرگی والے کو مقدم رکھا جائے۔ اگر اس میں بھی برابر ہیں تو تمام میں سے زیادہ خوش رو کو مقدم گردانا جائے گا۔ صاحب مسجد اپنی مسجد میں امامت کا زیادہ اہل ہے۔ صاحب امامت کا تمام مین سے عالم ہونا بھی ضروری ہے۔ تاہم اس کے اعمال پشت نہ ہوں۔ جمعے کی نماز کی جماعت وقجب مگر دوسرے دنوں میں مستحب  ہے۔ جو وئی بغیر عذر جماعت ترک کرے اور اجماعت مسلمین سے روگردان ہو وہ نماز نہیں رکھتا۔ نماز جمعہ نو(۹) قسم کے لوگوں پر ساقط ہے۔ ۱ ـ نابالغ۔  ۲ـ ضیف۔ ۳ ـ دیوانہ۔ ۴ـ مسافر۔ ۵ـ قیدی۔ ۶ـ عورت۔ ۷ـ بیمار۔ ۸ـ اندھا ۹ـ اور وہ شخص جو نماز جمعہ کے مقام سے دو فرسخ دور ہے۔ با جماعت نماز فرادی پڑھی جانے والی نماز سے پچیس (۲۵) درجات بلند رکھتی ہے۔ سفر کی حالت میں نماز واجب دو رکعات رکھتی ہے۔ مگر نماز مغرب کہ جناب رسول خدا(ص) نے اسے دوران سفر بھی اپنی حالت پر برقرار رکھا ہے۔ دوران سفر دن کے نوافل ساقط ہیں مگر  نافلہء شب ترک نہ ہوں گے۔ نماز شب کو اول شب میں پڑھے۔ مگر سفر میں اول شب میں اس کی قضا پڑھے تو بہتر ہے کہ نماز شب میں پڑھے اور وہ سفر جس میں نماز میں کمی ہوجاتی ہے تو ایسے میں روزہ آٹھ فرسخ پر قصر ہوجائے گا۔ اگر چار فرسخ سفر کرے اور اس دن واپس نہ آئے تو چاہے تو قصر پڑھے یا مکمل تا ہم اگر خواہش رکھتا ہے کہ اسی دن واپس آئے گا تو قصر پڑھنا واجب ہے۔ اگر اس کا سفر قصد معصیت ( حرام یا گناہ) کے لیے ہے۔ تو پوری نماز پڑھنا واجب ہے اور روزہ بھی پورے وقت تک کا ہوگا۔ اگر کوئی بندہ سفر میں نماز

۵۹۲

 کی مکمل ادائیگی کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ وطن میں ( اتنی ہی نمازیں) قصر کردے۔ وہ بندہ جو کثیر السفر ہو مثلا۔ منڈی جانے والا تاجر ۔ ڈاکیا، گڈریا و کشتی ران وغیرہ کہ جن کا پیشہ سفر سے وابستہ ہو اور وہ شکاری جو کہ تفریح و مسرت کی خاطر شکار کو جائے تو چاہیے کہ پوری نماز پڑھے اور روزہ رکھے۔ لیکن اگر اس کے عیال کے گذر اوقات کا انحصار اسی شکار پر ہو تو چاہیے کہ نماز اور روزے کو قصر کردے  اور وہ مسافر جو ماہ رمضان کے روزے کے بوجہ سفر قصر کردے حق جماع نہیں رکھتا۔ نماز تین حصوں پر مشتمل ہے  ایک ثلث طہارت ایک ثلث رکوع  اور ایک ثلث سجود ہے بغیر طہارت نماز درست نہیں وضو، اعضاء کے ( کم از کم ) ایک بار دھونے سے ہوتا ہے اور اگر دو مرتبہ دھوئے تو جائز ہے مگر اجر نہیں رکھتا ہر پانی اس وقت تک پانی ہے جب تک اس کے نجس ہونے کا علم نہ ہوجائے ایسا جانور جس کا خون جاری ہو پانی کو نجس کرتا ہے وضو و غسل جنابت عرقِ گلاب کے ساتھ جائز ہے مگر وہ پانی جو آفتاب کی گرمی و روشنی سے گرم ہوا ہے وضو غسل اور کپڑے دھونے کے لیے جائز تا ہم باعث برص ہے اندازہ ایک کر پانی جو کہ ۱۲۰۰ رطل مدنی کے برابر ہے کو کوئی شے نجس نہیں کرتی کر پانی والے برتن کی پیمائش تین بالشت لمبائی ، چوڑائی اور اونچائی ہے  کنوئیں کا پانی اس وقت تک پاک ہے جب تک اس میں کوئی نجس کرنے والے چیز نہ گر جائے دریا کا تمام پانی پاک ہے وضو کو باطل کرنے والی چیزیں، بول و براز، ریح، منی، اور نیند جو ہوش ختم کردتے ہیں، مسح عمامہ یا ٹوپی پر جائز نہیں اور اسی طرح جوتے اور جوراب پر بھی جائز نہیں تا ہم دشمن کے خوف یا برف سے گذند پہنچنے کے خیال سے کہ اس سے پاؤں کو نقصان ہوگا جائز ہے اسی طرح جبیرہ شکستہ پر بھی جائز ہے جیسا کہ ام المومنین عائشہ نے جناب رسول خدا(ص) سے روایت کیا ہے کہ روز قیامت وہ بندہ شدید غم میں مبتلا ہوگا جو اپنا مسح کسی دوسرے کے چمڑے پر کرے عائشہ روایت کرتی ہیں کہ کسی بیابان میں جانور کی پشت پر مسح کرنا جوتے  یا جوراب پر مسح کرنے سے بہتر ہے جس کسی کو پانی میسر نہ ہو اسے چاہیے کہ وہ تیمم کرے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ” تیمم کرو پاک و طیب مٹی سے “ اور طیب مٹی وہ ہے جس سے پانی نکلا ہو بندہ جب تیمم کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ ہاتھوں کو مٹی یا زمین پر مارے اور انہیں ملے پھر چہرے پر پھیرے، پھر بایاں ہاتھ زمین  پر مارے اور دائیں ہاتھ پر انگلیوں کے

۵۹۳

سروں تک پھیرے پھر دایاں ہاتھ زمین یا مٹی پر مارے اور بائیں ہاتھ کی پشت پر انگلیون کے سرے تک پھیرے روایت میں ہے کہ پیشانی و ابرو اور دونوں ہاتھوں کی پشت کا مسح کرے ہمارے مشائخ کا عقیدہ ہے کہ جو امور وضو کو باطل کرتے ہیں وہی تیمم کو بھی باطل کرتے ہیں اور جو شخص تیمم کر کے نماز پڑھ لے اور پھر پانی میسر ہوجائے تو ضروری نہیں کہ وہ نماز دوبارہ دہرائی جائے کہ تیمم بھی طہارت کی اقسام میں سے ایک ہے تاہم پانی میسر ہونے پر دوسری نماز وضو سے پڑھے اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی بندہ ایک ہی وضو سے نماز شب اور تمام دن کی نمازیں ادا کرے یہاں تک کہ اس کا وضو باطل نہ ہو یہی احکام تیمم کے واسطے بھی ہیں یہاں تک کہ باطل ہو۔

غسل سترہ(۱۷) مواقع پر واجب اور مستحب ہے۔

سترہ(۱۷) انیس(۱۹) اکیس(۲۱) اور تئیس(۲۳) رمضان کی شب دخول حرمین کے وقت۔ احرام باندھنے کے وقت ، زیارت کے وقت، دخول خانہ کعبہ کے وقت، روز ترویہ، روز عرفہ، غسل مس میت جو کہ میت کو غسل دینے کے بعد، کفن پہنانے  کے بعد، اور میت کے سرد ہونے کے بعد مس کرنے سے واجب ہوجاتا ہے، غسل بروز جمعہ، غسل حیض ، و غسل جنابت، امام صادق(ع) نے فرمایا کہ غسل حیض و نفاس و غسل جنابت اس شرط سے مبرا ہیں کیونکہ غسل حیض و غسل جنابت فرض ہے او دو فرائض کی ادائیگی لازم ہوتو بڑا چھوٹے سے کافی ہے، غسل جنابت سے ہلے چاہیے کہ پیشاب کرے تاکہ منی وغیرہ میں سے جو کچھ جمع ہو خارج ہو جائے پانی کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے چاہیے کہ تین مرتبہ دھوئے پھر استنجا کرے اور اپنی شرمگاہ کو دھوئے پھر تین مرتبہ چلو بھر پانی لے کر اپنے بالوں میں خلال کرے تاکہ پانی بالوں کو جڑوں تک پہنچ جائے پھر برتن سے پانی لے کر اپنے سر اور بدن پر دو مرتبہ گرائے اور اپنے ہاتھ سے بدن ملتا رہے اور دونوں کانوں میں اپنی انگلی سے خلال کرے بدن پر پانی جہاں تک پہنچ سکے پہنچائے اور پاک کرے اگرکسی ایسی جگہ پر ہو جہاں ندی یا دریا ہو تو خود کو مکمل طور پر زیر آب لے جائے ( ارتماسی غسل) تو اس کا غسل ہو جائے گا۔ لیکن اگر بارش میں اپنے سر تا پاؤں تک گیلا کرے تو اس کا یہ غسل محسوب ( جس کا حساب

۵۹۴

 لیا جائے گا) ہے غسل جنابت میں کلی یا ناک میں پانی ڈالنا جائز ہے لیکن واجب نہیں کیونکہ غسل بیرون بدن کا ہے نہ کہ اندرون بدن کا لیکن غسل جنابت سے پہلے کھانے پینے کے لیےکلی، ناک میں پانی ڈالنا اور ہاتھوں کو دھونا چاہیے ورنہ محاسبہ ہوگا اور اس کا یہ عمل پیش کیا جائے گا حلال جنابت سے خارج ہونے والا پسینہ اگر لباس میں جذب ہوجائے تو نماز اس میں جائز ہے مگر حرام جماع سے خارج ہونے والا پسینہ اگر لباس میں ہوتو نماز باطل ہے کم ترخیص تین(۳) دن اور زیادہ سے زیادہ  دس(۱۰) دن کا ہے اسی طرح کم از کم طہر(۱۰) دس دن اور زیادہ سے زیادہ  کی کوئی حد نہیں نفاس کی زیادہ سے زیادہ حد کہ اس میں عبادت سے باز رہے اٹھارہ(۱۸) دن ہے جب کہ ایک یا دو دن میں اگر استفہار کرے تو چاہیے کہ عبادت سے پہلے پاک ہوجائے۔ زکواة نو(۹) چیزوں پر واجب ہے جو کہ گندم ، جو، خرما، مویز(کشمش) اونٹ، گائے، گوسفند( بھیڑ) سونا اور چاندی ہیں، جناب رسول خدا(ص) کا ارشاد ہے کہ ان کے علاوہ زکواة معاف ہے اور چاہیے کہ زکواة شیعہ اثناء عشری کو ادا کرے، ماں باپ فرزند، شوہر ، مملوک اور زوجہ و واجب نفقہ کو نہ دے خمس، سونے کے ایک دینار دفینے، معدنیات، غوطہ لگا کر حاصل کیے گیے موتی و جواہرات اور جنگ میں حاصل شدہ مال غنیمت پر ہے تمام سال کے روزوں میں سے ہر ماہ کے تین دن کا روزہ ( مستحب روزوں کی طرف اشارہ ہے) یعنی ہرماہ کی اول جمعرات ، درمانی بدھ جو پہلے دس دن کےبعد آئے اور آخری دس دنوں میں آخری جمعرات کو رکھے جبکہ ماہ رمضان کے روزے واجب ہیں جو کہ رؤیت ہلال سے ثابت ہوں نہ کہ رائے گمان ( قیاس) سے جو کوئی بغیر رویت ( چاند دیکھے بغیر) روزہ رکھے اور افطار کرے اس کا دین امامیہ سے کوئی تعلق نہیں رؤیت یا طلاق میں عورتوں کی گواہی قابل قبول نہیں ماہ رمضان میں نماز کی ادائیگی دیگر مہینوں کی طرح ہے جو کوئی اس میں اضافہ کرنا چاہیے تو اسے چاہیے کہ بیس رکعات نافلہء شب ادا کرے جس میں سے آٹھ رکعات مغرب و عشاء کے درمیان یہاں تک کہ ماہ رمضان کی بیس(۲۰) تاریخ ہو پھر ہر رات تیس(۳۰) رکعات نافلہ ادا کرے کہ آٹھ رکعات مغرب و عشاء کے درمیان ہوں گی اور بائیس (۲۲) رکعات عشاء

۵۹۵

 کے بعد اور ہررکعت میں سورہ حمد پڑھے اور اس کے ہمراہ جو کچھ وہ قرآن میں سے جانتا ہے پرھے۔ سوائے اکیس (۲۱) اورتئیس(۲۳) کی شب کہ اس میں مستحب ہے کہ احیاء کرے اور سو (۱۰۰) رکعات نماز نافلہ ادا کرے اور اس میں سورہ حمد کے ہمراہ دس(۱۰) مرتبہ ” قل ہو اﷲ “ پڑھے جو کوئی ان دو راتوں میں ذکر و علم کو زندہ کرے یہ اس کے لیے بہتر ہے اور حقدار ( انعام واکرام کا ) ہے پھر عید الفطر کی شب نمازِ مغرب کے بعد سجدے میں جائے اور کہے” يا ذالطول يا ذالحول يا مصطفی محمد و ناصره صلی علی محمد وآل محمد اغفرلی کل ذنب اذنبت ه و نسيت ه و ه و عندک فی کتاب مبين “  پھر سو مرتبہ کہے۔

” اتوب الی اﷲ عزوجل “ اور چاہیے کہ مغرب وعشاء کے بعد اور نماز صبح و نماز عید اور روز عید کی ظہر و عصر کی نماز کے بعد ” تکبیرات ایام تشریق “ کو ادا کرے اور اس کے سوا کچھ اور نہ کہے جو کہ یہ ہیں۔ ”اللَّهُ أَكْبَرُاللَّهُ أَكْبَرُلَاإِلَه َإِلَّااللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُاللَّهُ أَكْبَرُوَالْحَمْدُلِلَّه ِعَلَى‏ مَاأَبْلَانَا. “ یہ تکبیرات ایام تشریق سے مخصوص ہیں۔ زکوة فطرہ ادا کرنا واجب ہے بندے کو چاہیے کہ وہ اپنا اپنے اہل و عیال ، آزاد و غلام اور اپنے ہاں کھان کھانے والوں کا فطرہ ادا کرے طفرہ فی کسی ایک صاع کے حساب سے ادا کرنا چاہیے۔ ایک صاع خرما، کشمش ، گندم یا جوا ادا کرنا چاہیے یہی ہے کہ ایک صاع فی کس کے حساب سے خرما بطور فطرہ دے ایک صاع ۴ مد کا ہوتا ہے اور مد ۲۹۰-۲-۱ درہم یا ۲۱۷۰ عراقی درہم کے برابر ہے اگر طاقت رکھتا ہے تو اس کی قیمت روپے یا سونے چاندی کی صورت میں ادا کرے ( رقم کا یہ تناسب جناب صدوق(رح) کے ہاں زمانہء قدیم کے مطابق ہے فتاوی جدید میں اس کی شکل مختلف ہوسکتی ہے۔ محقق) اگر اپنے تمام اہل و عیال کا فطرہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو ایک تن کا فطرہ اپنی بیوی یا اپنے عیال میں سے کسی ایک کو دے دے اور وہ بھی اسی نیت سے دوسرے کو دے دے  اور وہ اسے ترتیب وار اسی طرح اپنے گھر کے دیگر افراد کو دیتے رہیں حتی کہ وہ جنس خاندان کے آخری فر تک پہنچ جائے پھر وہ کسی ایسے شخص کو دے دی جائے جو ان سے نہ ہو لیکن ایک فطرہ دو فقراء میں تقسیم نہ کیا جائے بلکہ ہر ضرورتمند کو ایک تن کا فطرہ دے ، فطرہ ماہ رمضان سے قبل اور دوران ماہ رمضان دینا جائز نہیں شوال کا چاند دیکھنے کے بعد عید الفطر کی نماز سے پہلے ادا کرے اور اگر ماہ رمضان میں دے تو یہ صدقہ ہوگا جو کہ

۵۹۶

 شوال کا چاند دیکھنے کے بعد دوبارہ فطرہ کی مد میں ادا کرنا پڑے گا جو شخص مملوک( غلام) رکھتا ہو اس پر غلام کا فطرہ واجب الادا ہے خواہ وہ مملوک کافر ہو یا کافر ذمی جب کہ ظہر کے بعد پیدا ہونے والے بچے کا فطرہ دینا بھی واجب ہے اور اگر ظہر سے بعد کوئی دشمن مسلمان ہوجائے تو اس کا فطرہ دینا واجب نہیں ہے حج کی تین اقسام ہے قران، افراد،اور حج تمتع، حج قرِان اور حج افراد ان پر واجب ہے جو مکہ کے رہائشی ہوں اور حج تمتع ان پر واجب ہے جو مکہ سے سولہ(۱۶) فرسخ یعنی اڑتالیس (۴۸) میل دور رہتے ہوں ، ایسا شخص حج تمتع انجام دے گا اور اس کا دوسرا حج قابل قبول نہیں ہے حج کرنے والے کو چاہیے کہ وہ مسلخ سے احرام باندھے اگر وہاں سے نہٰیں باندھا ہے توپھر غمرہ سے احرام باندھے تاہم مسلخ سے احرام باندھنا افضل ہے جناب رسول خدا(ص) نے اہل عراق کے لیے مقام عقیق کو میقات قرار دیا ہے ، اہل طائف کے لیے قرن منازل، اور اہل یمن کے لیے یلملم، اہل شام کے لیے مہیمہ جو کہ جہفہ ہے اور اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ جو کہ مسجد شجرہ ہے، میقات سے پہلے احرام جائز نہیں مگر بیمار یا تقیہ اختیار کیے ہوئے کے لیے، واجبات حج سات (۷) ہیں ( تفصیل میں جائیں تو تیرہ(۱۳) بنتے ہیں، محقق ) اول احرام۔

دوئم  : تلبیہ جو کہ چار ہیں۔”لبيک الل ه م لبيک ان الحمد وانعمة لک والملک لا شريک لک “ اس کے علاوہ باقی مستحب ہیں اور محرم کے لیے جائز ہے کہ بہت زیادہ لبیک کہے۔ جناب رسول خدا(ص) یہ تلبیہ پڑھا کرتے تھے ” لبیک ذوالمعارج لبیک“

سوئم : طواف کعبہ، مقام ابراہیم(ع) میں ” رکعت نماز کے ساتھ۔

چہارم : صفا و مروہ کے درمیان سعی۔

پنجم : وقوف عرفہ۔

ششم : وقوف مشعر یعنی دونوں وقوف۔

ہفتم : قربانی تمتع جو کہ واجب ہے۔

اس کے علاوہ باقی امور مستحب ہیں، جو کوئی زوال روز ترویہ یعنی آٹھ (۸) ذوالحجہ سے حج تمتع کی رات یعنی نو(۹) ذوالحجہ تک وقوف کو عرفہ میں حاصل کر لے تو اس کا حج صحیح ہے اس طرح روزِ مشعر یعنی دس ذوالحجہ کو مشعر کا وقوف حاصل کر لے جبکہ پانچ نفر وہاں موجود ہوں تو اس کا حج درست

۵۹۷

ہے ( یہ شرط کہ پانچ نفر مقام مشعر میں موجود ہوں مرحوم شیخ صدوق علیہ الرحمہ کے پاس ہے اور کسی کے پاس یہ شرط نہیں ہے) قربانی اگر اونٹ کی ہوتو وہ اپنی عمر کے پانچ سال مکمل کیے ہوئے ہو اگر گائے اور بکری ہو تو اپنی عمر کے سال دوئم میں داخل ہو اور گوسفند جس نے اپنی عمر کے چھ ماہ پورے کیے ہوں کافی ہے قربانی کا جانور معیوب نہیں ہونا چاہیے ایک گائے پانچ آدمیوں اور ایک خاندان کے لیے کافی ہے اگر بیل ہو تو ایک فرد  کے لیے اور اگر اونٹنی ہو تو سات افراد اور اونٹ (نر) دس افراد کے لیے کافی ہے۔ اگر قربانی نایاب ہو تو ایک گوسفند ستر(۷۰) افراد کے لیے کافی ہے ( یہ مسئلہ فقط شیخ صدوق علیہ الرحمہ کے پاس ہے۔ جبکہ دیگر فقہاء کے نزدیک اگر حج کرنے والا فرد قربانی دینے کی استطاعت نہ رکھے یا نہ دے سکے تو اس کے بدلے تین دن مکہ میں سات دن اپنے وطن میں روزہ رکھے ، محقق) قربانی کے تین حصے ہیں ایک حصہ اپنے کھانے کے لیے دوسرا حصہ فقراء اور تیسرا حصہ ہدیے کے لیے ہے۔ ایام تشریق یعنی ۱۱ـ۱۲ـ۱۳ ذوالحجہ کو اگر کوئی روزہ رکھے تو اس کے لیے کھانا پینا اور ہمبستری جائز نہیں ہے عید قربان کے روز عید کی نماز کے بعد اور عیدالفطر میں نماز عید سے پہلے کچھ کھانا پینا سنت ہے ایام تشریق کی تکبیرات منی میں پندرہ نمازوں کے بعد یعنی عید کے دن ظہر کی نماز سے لے کر عید کے چوتھے روز نماز صبح تک جب کہ دیگر شہروں میں دس(۱۰) نمازوں کے بعد یعنی روز عید نماز ظہر سے لے کر عید کے تیسرے روز نماز صبح تک ہیں۔

عورتوں سے ہمبستری تین وجوہات سے حلال ہوتی ہے۔

اول : نکاح دائم جو کہ میراث رکھتا ہے۔

دوئم : نکاح منقطع ( نکاح موقت ، متعہ) جو کہ میراث نہیں رکھتا ۔

سوئم : ملک یمین ( لونڈی کنیز)۔

کنیز جب باکرہ ہوتو اس پر کوئی ولایت نہیں رکھتا سوائے باپ کے اگر بیوہ ہو تو کوئی اس پر حق تصرف نہیں رکھتا نہ باپ نہ کوئی دوسرا اور باپ کے علاوہ کوئی اس کی تزویج نہیں کرسکتا مگر یہ کہ وہ خود کسی کے ساتھ مہر پر راضی ہو اور طلاق بھی کتاب و سنت کے مطابق ہوگی لہذا یہاں طلاق بھی نہیں کیونکہ طلاق کے لیے نکاح کا ہونا لازمی ہے اور  یہ دونوں یہاں پر نہیں ہیں کیونکہ عتق کے لیے

۵۹۸

 ملکیت لازمی ہے اور یہ دونوں یہاں پر نہیں ہیں نہ نکاح اور نہ ہی ملکیت البتہ عتق قصد قربت سے ہو یعنی اس طرح کہلائے کہ میں تمہیں آزاد کرتا ہوں ”قربتا الی اﷲ “۔

وصیت ثلث مال میں ہوتی ہے ( یعنی ورثا کے علاوہ کسی کو کچھ وصیت کرے تو ثلث مال سے زائد میں جائز نہیں ) اگر کوئی تیسرے حصے سے زائد کو کسی کے لیے وصیت کرے تو یہ ہو جائے گی مگر مستحب یہ ہے کہ تیسرے حصےسے وصیت کرے چاہے زیادہ کے لیے ہو یا کم کے لیے خصوصا ان بہن بھائیوں کے لیے ہو جو حق وراثت نہیں رکھتے اس سے عمر دراز ہوتی ہے اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس سے اس کی عمر مختصر ہوجاتی ہے۔ میراث کے تین طبقات ہیں پہلے طبقے میں چھ حصے میراث سے زاید نہ ہوگا والدین اور اولاد کے ہوتے ہوئے کوئی ارث نہیں لے سکتا اور بیوی شوہر سے ارث لے گی، مسلمان کافر سے ارث لے سکتا ہے مگر کافر مسلمان سے ارث نہ لے گا اگر چہ بیٹا ہی کیوں  نہ ہو عورت کا بیٹا لعان شدہ باپ سے ارث نہ لے گا ( لعان سے مراد یہ ہے کہ باپ یہ کہے کہ یہ میرا بیٹا نہیں ہے) اسی طرح باپ کے رشتوں یعنی دادا چچا وغیرہ سے بھی ارث نہ لے گا لیکن اس کی ماں لعان شدہ شوہر سے ارث لے گی اور بیٹا ماں کے رشتے داروں سے ارث لے گا، اگر باپ لعان کے بعد اعتراف کرے کہ بیٹا اسی کا ہے تو بیٹا باپ سے ارث لے گا مگر باپ بیٹے سے ارث نہ لے گا اور نہ ہی بیٹے کے قرابتداروں سے ارث لے گا اور اگر باپ مرجائے تو بیٹا باپ سے ارث لے گا مگر باپ بیٹے سے ارث نہ لے گا۔

شرائط دین امامیہ یہ ہیں یقین، اخلاص، توکل، رضا، تسلیم، ورع، اجتہاد، زہد و عبادت، صدق، وفا، ادائے امانت اگر چہ قاتل حسین(ع) ہی کیوں نہ ہو۔ والدین سے اچھا سلوک،میراث،صبر، شجاعت، اجتنابِ محرمات۔ دنیا کی طمع سے دوریا، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، خدا کی راہ میں جان ومال سے جہاد۔  برادران سے نیک سلوک اور انکا احسان سےبدلہ چکانا۔ شکرِ نعمت، نیک کام کی ستائش کرنا۔ صلہء رحم ماں باپ کے ساتھ، ہمسائیوں سے عمدہ سلوک، انصاف ایثار۔ نیک لوگوں کی ہم نشینی، لوگوں کے ساتھ اچھی معاشرت۔ سب لوگوں کو اس اعتقاد کے ساتھ سلام کرناکہ خدا کا سلام ظالمین تک نہیں پہنچتا۔ مسلمانوں کا احترام، بزرگوں کا احترام۔ چھوٹوں سے مہربانی، کسی بھی قوم کے بزرگ کی تعظیم، تواضع و خشوع، بہت کثرت سے ذکرِ خدا، کثرت سے قرآن خوانی

۵۹۹

 کثرت دعا، دوسروں کے عیوب سے چشم پوشی، تحمل۔ غصہ پینا فقر اور مساکین کی حاجت روائی اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونا، عورتوں اور غلام سے خوش اخلاقی اور سوائے بہتر کے ان کو کسی کام کے لیے مجبور نہ کرنا۔ خدا سے خوش گمانی، اپنے گناہوں پر پشیمان ہونا، بہتر عمل کرنا اور گناہوں پر استغفار کرنا، تمام مکارم اخلاق اور دین  دنیا کے بہتر امور کو اختیار کرنا، اور غصہ، بد خلقی، غصب، حمیت، تعصب، تکبر، طاقت کا ناجائز استعمال ، بیہودہ گوئی، بے شرمی، زنا قطع رحم، حسد، ناجائز آرزوئیں، شکم پری، طمع، نادانی، سفاہت، جھوٹ، خیانت، فسق و نا بکاری جھوٹی قسم، گواہی کو چھپانا، ناجائز و جھوٹی گواہی دینا، غیبت، بہتان، دشنام طرازی، لعن و طعن گوئی، نیرنگ ( جادو ٹونہ وغیرہ) سےاجتناب۔ فریب، پیمان شکنی، بدقولی او قتلِ ناحق اور ظلم و ستم سخت دلی، ناشکری، نفاق، و ریا و زنا و لواطت سے دوری راہ جہاد سے فرار ہجرت کرنے سے تعرب، ماں باپ کی ناشکری و نافرمانی، برادر (حقیقی و دینی)سے دغا کرنا اور اس سے نا روا سلوک ، یتیم کا مال کھانا اور پارسا عورتوں کو ناحق بدنام کرنا ان تمام امور سے دوری اختیار کرنا اور کنارہ کش رہنے کا نام دین امامیہ ہے۔

اس کے بعد جناب صدوق علیہ الرحمہ نے فرمایا برادران یہ دین امامیہ کا خلاصہ ہے جو میں نے جلدی میں بیان کیا اور اس کی تفسیر بھی مختصرا بیان کی اگر خداوند نے توفیق عطا فرمائی تو میں اس سے مزید نیشاپور میں بیان کروں گا انشاء اﷲ۔ ” ولا حول ولا قوة الا باﷲ العلی العظیم و صلی اﷲ علی محمد و آلہ و سلم“

پھر جناب صدوق(رح) نے فرمایا ” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ امام صادق(ع) بیان فرماتے ہیں کہ ماہ رمضان کی ہر شب میں ایک ہزار مرتبہ ” انا انزلناہ فی لیلة القدر“ پڑھو اور ۲۳ رمضان کی رات اپنے دل کو محکم کرو اپنے کا ن کھلے رکھو اور عجائبات کو سنو اور دیکھو۔ ایک شخص نے کہا یا ابن رسول اﷲ(ص) یہ علم کیسے ہو کہ شب قدر ہر سال میں ہے امام(ع) نے ارشاد فرمایا اول ماہ رمضان سے ہر شب میں سورہ دخان کو پڑھو اور ۲۳ رمضان کی شب جو کچھ تم نے پوچھا ہے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھو اور باور کرو۔ امام ششم(ع) سے روایت ہے کہ شب قدر کی صبح بھی اس جیسی ہی ہے لہذا عبادت کرو اور کوشش کرو۔

۶۰۰