مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 296814
ڈاؤنلوڈ: 7462

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 296814 / ڈاؤنلوڈ: 7462
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مجلس نمبر۹۴

(۱۷ سترہ شعبان سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           سید عبدالعظیم(رح) بیان کرتے ہیں، میں نے امام تقی(ع) سےسنا کہ جو کوئی میرے والد(ع) کی (تربت کی ) زیارت کرنے جائے اور اس سلسلے میں گرمی اور سردی کی تکالیف اٹھائے تو خدا اس پر دوزخ کی آگ حرام کردے گا۔

۲ـ           اسماعیل بن فضل ہاشمی بیان کرتے ہیں میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا کہ جب موسی بن عمران(ع)نے جادوگروں کی رسیوں اورلاٹھیوں کو دیکھا تو وہ خوف زدہ ہوگئے مگر ابراہیم(ع) کو جب منجنیق میں بٹھا کر آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے کوئی خوف محسوس نہ کیا اس کی کیا وجہ تھی۔ امام(ع) نے فرمایا ابراہیم(ع) کو جب آگ میں گرایا گیا تو وہ اپنی پشت (صلب) میں موجود حجج الہی کا اعتماد رکھتے تھے اس لیے خوف زدہ نہ ہوئے مگر موسی(ع) اس طرح نہ تھے اس لیے انہوں نے خوف محسوس کیا۔

حدیث طیر

۳ـ                  ابوہدیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کو دیکھا جو رومال سے اپنا سر ڈھانپے ہوئے تھا میں نے اس سے کا سبب پوچھا تو کہنے لگا کہ یہ علی بن ابی طالب(ع) کی مجھ پر نفرین کا اثر ہے میں نے کہا وہ کس طرح تو اس نے کہا، ایک مرتبہ میں جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر تھا تو ایک بھنا ہوا پرندہ آںحضرت(ص) کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ آںحضرت(ص) نے اس بھنے ہوئے پرندے کو وصول کر کے فرمایا۔ اے خدایا، لوگوں میں سے جو تیرا سب سے زیادہ دوست ہے اسے میرے پاس بھیج دے تاکہ وہ میرے ساتھ یہ پرندہ تناول کرے اسی اثناء میں علی(ع) آئے تو میں نے ان سے (جھوٹ) کہہ دیا کہ جناب رسول خدا(ص) کام سے باہر گئے ہوئے ہیں اور انہیں اندر آنے کا راستہ نہ دیا، میں (انس) اس انتظار میں تھا کہ میری ہی قوم کا کوئی فرد آجائے اور آںحضرت(ص) کے ساتھ یہ پرندہ تناول کرے پھر جناب رسول خدا(ص) نے دوبارہ دعا فرمائی تو دوسری مرتبہ بھی علی(ع) ہی

۶۰۱

تشریف لائے میں نے انہیں پہلے والا جواب دے کر دوسری مرتبہ بھی رخصت کردیا۔ اسی اثناء میں جناب رسول خدا(ص) نے تیسری مرتبہ دعا فرمائی اور تیسری بار بھی علی(ع) ہی تشریف لائے جب میں نے انہیں پہلے والا جواب دیا تو علی(ع) نے با آواز بلند فرمایا کہ جناب رسول خدا(ص) کو ایسا کیا کام ہےکہ وہ مجھ سے نہیں ملنا چاہتے۔ ان کی یہ آواز جناب رسول خدا(ص) کے کانوں میں پڑی تو آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا اے انس یہ کون ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) یہ علی بن ابی طالب(ع) ہیں آپ(ص) نے فرمایا انہیں اندر آنے دو جب علی(ع) اندر داخل ہوئے تو آںحضرت(ص) نے فرمایا اے علی(ع) میں نے تین مرتبہ بارگاہ خدا میں یہ دعا کی کہ تیری خلق سے جو محبوب ترین ہے اسے بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ یہ پرندہ تناول فرمائے اگر تم اس دفعہ نہ آتے تو میں تمہارا نام لے کر تمہیں طلب کرتا علی(ع) نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) یہ تیسری بار ہے کہ میں آپ(ص) کے دروازے پر آیا میں جب بھی آتا انس مجھے یہ کہتا کہ رسول خدا(ص) کسی کام میں مشغول ہیں اور انہیں مل سکتے اور مجھے واپس لوٹا دیتا اور یہ سن کر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے انس کیا میں نے تجھے اس لیے اپنے پاس رکھا ہے، میں (انس) نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) میں نے جب آپ(ص) کی دعا سنی تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ آپ(ص) کی دعوت میں میری قوم کاکوئی فرد شریک ہوجائے  اس لیے میں نے ایسا کیا۔ پھر انس نے بتایا کہ جس روز جناب علی بن ابی طالب(ع) نے احتجاج خلافت بلند کیا تو علی(ع) نے اپنی خلافت پر میری گواہی چاہی جسے میں نے چھپایا اور یہ کہا کہ میں ( خلافت کے بارے میں جناب رسول خدا(ص) کا ارشاد) بھول گیا تو علی(ع) نے اپنے ہاتھ بلند کیے اور دعا فرمائی کہ اے خدایا انس کو برص کے ایسے مرض میں مبتلا کردے جسے وہ  چھپانا چاہے تو نہ چھپ سکے اور لوگ اسے دیکھیں یہ کہہ کر کہ انس نے اپنے سر سے رومال ہٹایا اور برض کا نشان دکھا کر کہا یہ نفرین علی(ع)۔

۴ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جوکوئی دوسرے اصحاب کو علی(ع) پر فضیلت دے وہ کافر ہے۔

۵ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا میرے بعد جو کوئی علی(ع) کی امامت کا منکر ہوگا وہ اس شخص کی مانند ہے کہ جو میری زندگی میں میری رسالت کا منکر ہے اور جو کوئی میری رسالت کامنکر ہے وہ پروردگار کی ربوبیت کا منکر ہے۔

۶۰۲

۶ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے علی(ع) تم میری زندگی میں اور میری زندگیکے بعد بھی  میرے برادرمیرے وارث ووصی اور خلیفہ ہو  میرے خاندان و میری امت کے لیے۔ اور جو کوئی تیرا دوست ہے وہ میرا دوست ہے تیرا دشمن میرا دشمن ہے۔ اے علی(ع) تم اور میں دونوں اس امت کے باپ ہیں۔ تیرے فرزندوں میں سے امام(ع) دنیا و آخرت کے سردار وپیشوا ہیں جو کوئی ہمیں پہچانتا ہے وہ خدا کو پہچانتا ہے اور جو کوئی ہمارا منکر ہے وہ خدا کا منکر ہے۔

۷ـ          جناب رسول خدا(ص) ارشاد فرماتے ہیں کہ خدا نے فرمایا اگر تمام لوگ ولایتِ علی(ع) پر متفق ہوجاتے تو میں دوزخ کو پیدا ہی نہ کرتا۔

۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا اگر دشمن علی(ع) فرات کے  کنارے پر آکر پانی پیئے اور پینے سے پہلے مسم اﷲ اور بعد میں الحمد اﷲ بھی کہے تو بیشک یہ اس کے لیے مردار، جاری شدہ خون اور سور کھانے کے مترادف ہے۔

۹ـ           اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ جناب علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا کہ فاطمہ(س) کو رات کو دفن کرنے کا سبب یہ تھا کہ وہ قوم پر غضبناک تھیں اور چاہتی تھیں کہ ان کے جنازے میں ایسے لوگ اور ان لوگوں کی اولاد شریک نہ ہوں اور نہ ہی وہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں۔

۱۰ـ          جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا کہ جبرائیل(ع) میرے پاس مسرور و شاد تشریف لائے میں نے ان سے پوچھا کیا آپ میرے بھائی علی بن ابی طالب(ع) کا مقام خدا کے نزدیک جانتے ہیں جبرائیل(ع) نے فرمایا اے محمد(ص) جان لو کہ جس نے تمہیں پیغمبر(ص)مبعوث کیا ہے اور رسالت  سے برگذیدہ کیا میں اس وقت یہی عنوان لیے نیچے آیا ہوں اے محمد(ص) خداوند اعلیٰ تجھے سلام دیتا ہے اور فرماتا ہے ک محمد(ص) میرا پیغمبر رحمت(ص) ہے اور علی(ع) میرا مقیم الحجت ہے میں اس کے محب کو عذاب نہ دوں گا چاہے گناہ گار ہی کیوں نہ ہو۔ اور اس کے دشمن پر رحم نہ کروں گا چاہیے میرا فرمانبردار ہی کیوں نہ ہو، ابن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے اس کے بعد فرمایا کہ روز قیامت جبرائیل(ع) میرے پاس آئیں گے اور لواءحمد ہاتھ میں لیے ہوں گے جس کے ستر پھریرے ہوں گے اس کے ہر پھریرے کے وسعت چاند و سورج سے زیادہ ہوگی  وہ یہ میرے حوالے کردیں گے میں یہ لواء لے کر علی بن ابی طالب(ع) کو دیدوں گا۔

۶۰۳

ایک شخص نے یہ سن کر کہا یا رسول اﷲ(ص)، علی(ع) میں اسے اٹھانے کی تاب کیونکر ہوگی جب کہ آپ(ص) فرمارہے ہیں کہ اس کے ستر پھریرے ہوں گے اور ہر پھریرے کی وسعت خورشید قمر سے زیادہ ہے یہ سن کر جناب رسول خدا(ص) نے غصہ کیا اور فرمایا اے مرد ، خدا روز قیامت علی(ع) کو جبرائیل(ع) کی مانند طاقت عطا کرے گا۔ انہیں حسنِ یوسف(ع)، حلم رضوان(ع) اور لحن داؤد(ع) عطا فرمائے گا اور داؤد(ع) بہشت کے خطیب ہیں علی(ع) وہ اول بندہ ہے جو سلسبیل اور زنجبیل سے پیئے گا اس کے شیعہ خدا کے نزدیک اولین و آخرین میں ایک مقام رکھتے ہیں جس پر رشک کیا جائے گا۔

۱۱ـ           جناب علی بن حسین(ع) اپنے آبائے طاہرین(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن جناب رسول خدا(ص) کے اصحاب بڑی تعداد میں آپ(ص) کے پاس جمع تھے اور جناب علی بن ابی طالب(ع) آںحضرت(ص) کے قریب تھے، آںحضرت(ص) نے فرمایا جو کوئی چاہے کہ وہ جمال یوسف(ع)، سخاوت ابراہیم(ع)، سلیمان(ع) کی حجت اور داؤد(ع) کی حکمت دیکھے تو اسے چاہیے کہ اسے ( علی (ع)کو) دیکھے۔

۱۲ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا علی(ع) مجھ  سے ہے اور میں علی(ع) سے ہوں علی(ع) سے جنگ کرنا خدا کے ساتھ جنگ کرنا ہے اور جو علی(ع) کی مخالفت کرتا ہے خدا اس پر لعنت کرتا ہے علی(ع) میرے بعد خلق کا امام ہے جو کوئی علی(ع) کی عظمت گھٹانا ہے وہ میری عظمت گھٹاتا ہے جو کوئی اس سے جدا ہوگا وہ مجھ سے جدا ہے  جو کوئی اس کے غم میں شریک ہے میں اس کے غم میں شریک ہوں جو کوئی اس کی مدد کرے اس نے میری مدد کی اور جو اس سے جنگ کرے میں اس کے خلاف جنگ میں ہوں جو اس کا دوست ہے میں اس کا دوست ہوں اور جو اس کا دشمن ہے میں اس کا دشمن ہوں۔

۱۳ـ          یاسر کہتے ہیں کہ جب امام رضا(ع) کو مامون نے اپنا ولی عہد بنایا تو میں نے دیکھا کہ امام رضا(ع) نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے اور بارگاہ احدیت میں عرض کیا، ” خدایا تو جانتا ہے کہ میں بے بس اور مجبور ہوں اس لیے مجھ سے اس کا مواخذہ نہ کرنا جس طرح تو نے یوسف(ع) سے والی مصر ہونے پر مواخذہ نہیں کیا تھا۔“

۱۴ـ          ابراہیم بن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام رضا(ع) کی مانند کسی دوسرے کو نہیں دیکھا

۶۰۴

کہ ان سے جو بھی سوال کیا جاتا ہے تو جواب میں فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے، زمانے میں ان سے بڑا عالم اور کوئی نہ تھا مامون ان سے ہر تیسرے دن مختلف چیزوں کا سوال کر کے ان کا امتحان لیتا تھا اور وہ تمام جوابات قرآن سے دیا کرتے اور قرآنی آیات مثالیں پیش کیا کرتے تھے اور آپ(ع) قرآن کو تین دن میں ختم کرلیا کرتے تھے اور فرماتے کہ اگر چاہوں تو اس سے پہلے بھی ختم کرلوں مگر میں ہر قرآنی آیت پر غور و فکر کرتا ہوں کہ یہ کس لیے نازل ہوئی اور کس وقت نال ہوئی۔

۱۵ـ                  حسین بن ہیثم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ مامون منبر پر گیا تاکہ امام علی بن موسی رضا (ع( کی بیعت کرے اس نے لوگوں سے کہا اے لوگو تمہاری بیعت علی(ع)  بن موسی(ع)  بن جعفر(ع)  بن محمد(ع)  بن علی(ع)  بن حسین(ع)  بن علی(ع)  ابن ابی طالب(ع) کے ساتھ ہے۔خدا کی قسم اگر ان ناموں کو  بیمار پر پڑھ کر دم کیا جائے تو وہ اذن خدا سے تندرستی پاجائے۔

دعبل خزاعی کا مرثیہ

۱۶ـ          دعبل خزاعی بیان کرتے ہیں کہ جب قم میں مجھے امام رضا(ع) کی وفات کی خبر پہنچی تو میں نے وہیں یہ مرثیہ کہا ” اگر بنی امیہ نے آل محمد(ص) کو قتل کیا تو ان کے پاس یہ عذر تھا کہ ان کے اسلاف ان( علی(ع)) کے ہاتھوں قتل ہوئے “ مگر بنی عباس کے پاس تو ان کے قتل کا کوئی عذر نظر نہیں آتا، طوس میں دو قبریں ہیں ایک بہترین خلق کی اور دوسری بدترین خلق کی، یہ انتہائی عبرت کا مقام ہے مگر ایک ناپاک کسی پاک کی قربت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور نہ ہی کسی پاک و طاہر کو ایک ناپاک کی قبر کی قربت سے کوئی ضرر پہنچ سکتاہے۔

روایت اباصلت اور وفات امام رضا(ع)

۱۷ـ          ابوصلت ہروی کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ امام رضا(ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ(ع) نے فرمایا اے ابوصلت اس قبہ کے اندر جاؤ جس میں ہارون رشید کی قبر کے ہر چہار طرف کی تھوڑی سی مٹی لے آؤ لہذا اندر گیا اور چاروں طرف کی مٹی لایا آپ(ع) نے دروازے کے

۶۰۵

سامنے والی مٹی کے لیے یہ فرمایا مٹی مجھے دینا میں نے وہ مٹی دی تو آپ نے اسے سونگھا اور پھینک دیا اور کہا میری قبر یہاں کھودنے کی کوشش کی جائے گی مگر یہاں ایک ایسی چٹان ہے۔ کہ اگر خراسان کے سارے کدال چلانے والے مل کر کدال چلائیں تو بھی اس کو نہیں کھودسکتے پھر پاؤں کی طرف اور سر کی طرف کی مٹی کے لیے بھی آپ(ع) نے یہی فرمایا اس کے بعد فرمایا اب وہ چوتھی طرف کی مٹی دو وہی میری قبر کی مٹی ہے۔ پھر آپ(ع) نےفرمایا لوگ میری قبر یہاں کھودیں گے تو ان سے کہہ دینا کہ سات زینے نیچے تک کھودیں وہاں ایک ضریح تیار ملے گی اگر وہ لوگ لحد کھودنا چاہیں تو کہہ دینا کہ لحد کو دو ہاتھ ایک بالشت چوڑی بنائیں اور اﷲ اس کو جس قدر چاہیے گا وسیع کر دے گا اور جب وہ ( گورکن) ایسا کریں تو تمہیں میرے سر کی طرف کچھ نمی اور تری نظر آئے گی۔ وہاں وہ کچھ پڑھ کر دم کرنا جو میں تمہیں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں نظر آئیں گی میں تمہیں روٹی دوں گا۔تم اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنا کر اس میں ڈال دینا وہ مچھلیاں اس کو کھائیں گی جب وہ سارے روٹی ٹکڑے کھا کر ختم کر لیں گی تو ایک بڑی مچھلی نمودار ہوگی جو ان تمام چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو نگل جائے گی اس کے بعد وہ غائب ہوجائے گی جب وہ بڑی مچھلی غائب ہوجائے تو پھر تم پانی پر ہاتھ رکھ کر وہ چیز دم کرنا جو میں تمہیں بتاؤں گا سارا پانی زمین کے اندر واپس چلائے جائے گا اور پھر کچھ نہ رہے گا اور یہ سارا کام تم مامون کی نظروں کے سامنے کرنا پھر فرمایا اے ابو صلت یہ مرد فاجر کل مجھ کو اپنے پاس بلائے گا اگر میں اس کے پاس سے اس طرح نکلوں کہ میرا سرکھلا ہوا تو مجھ سے مخاطب ہونا میں تمہیں جواب دوں گا اور اگر میں اس طرح نکلوں کہ سر ڈھکا ہو تو پھر مجھ سے بات نہ کرنا۔

ابوصلت کہتے ہیں کہ جب دوسرے دن صبح ہوئی تو آپ(ع) نے اپنا پہنا اور اپنی محراب عبادت میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگے تھوڑی دیر میں مامون کا غلام آیا اور اس نے کہا امیرالمومنین آپ(ع) کو یاد کرتے ہیں یہ سن کر آپ(ع) نے اپنی جوتی پاؤں میں پہنی، اپنی ردا کندھوں پر ڈالی اور کھڑے ہوگئے۔ پھر روانہ ہوئے میں بھی آپ(ع) کے پیچھے پیچھے ہو لیا آپ(ع) مامون کے پاس پہنچے اس کے سامنے ایک طبق رکھا ہوا تھا جس میں انگور کا ایک گچھا موجود تھا اس میں سے وہ بعض دانوں کو توڑ کر کھاتا

۶۰۶

اور بعض دانوں کو چھوڑ دیتا تھا جب اس نے امام رضا(ع) کو آتے دیکھا تو اٹھ کر کھڑا ہوا آگے بڑھ کر گلے لگایا، پیشانی کو بوسہ دیا اور اپنے ساتھ بٹھالیا اورکہنے لگا فرزندِ رسول(ص) میں نے اس سے بہتر انگور آج تک نہیں دیکھا، آپ(ع) نے فرمایا ہاں بعض انگور ایسے اچھے ہوتے ہیں کہ ویسے شاید جنت ہی میں ہوں مامون نے کہا لیجیئے آپ(ع) بھی کھائیں آپ(ع) نے فرمایا نہیں مجھے معاف رکھیں مامون نے کہا نہیں یہ تو آپ(ع) کو کھانا ہی پڑیں گے آپ(ع) شاید اس لیے پرہیز کر رہے ہیں کہ آپ(ع) کو میری طرف سے بدگمانی ہے یہ کہہ کر اس نے وہ انگور کا گچھا لیا اور اس میں سے چند دانے خود کھائے باقی گچھے میں وہ دانے رہ گئے جن میں زہر دالا گیا تھا اس نے وہ گچھا امام رضا(ع) کی طرف بڑھایا آپ(ع) نے اس میں سے صرف تین دانے کھائے بقیہ پھینک دیئے اور اٹھ کھڑے ہوئے مامون نے پوچھا آپ(ع) کہاں جارہے ہیں کہ جب میں نے یہ صورت دیکھی تو پھر کوئی بات نہ کی آپ(ع) سیدھے گھر میں داخل ہوئے اور مجھ سے فرمایا کہ دروازہ بند کر دو پھر آپ(ع) اپنے بستر پر لیٹ گئے اور میں صحن میں مہموم و مغموم بیٹھ گیا ابھی مجھے بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ ایک حسین و جمیل نوجوان جس کی پر پیچ و خم زلفین تھیں اور وہ شکل و صورت میں امام رضا(ع) کے بالکل مشابہ تھا مکان میں داخل ہوا میں فورا اسکی طرف بڑھا اور کہا تم بند دروازے سے کس طرح اندر آگئے ہو۔ اس نے مجھے جواب دیا جو مجھے مدینہ سے اس وقت یہاں لایا اسی نے مجھے گھر کے اندر کردیا دروازہ بند ہے تو ہوا کرے میں نے پوچھا تم کون ہو کہا ابوصلت میں تم پر حجت خدا ہوں میرا نام محمد بن علی(ع) ہے یہ کہہ کر آپ(ع) اپنے والد(ع) کی طرف بڑھے، اندر داخل ہوئے اور مجھے بھی داخلے کی اجازت دی جب امام رضا(ع) نے ان کو دیکھا تو فورا انہیں سینے سے لگایا پیشانی پر بوسہ دیا اور انہیں اپنے بستر پر لٹا لیا پھر محمد بن علی(ع) ان پر جھک گئے اور ان کے بوسے لیے اور راز دار نہ انداز سے آپس میں کچھ  باتیں کرنے لگے جن کو میں نہیں سمجھ سکا پھر میں نے دیکھا کہ امام رضا(ع) کے لب مبارک پربرف کی مانند کوئی سفید سی شئی تھی جسے اور کوئی چیز جو عصفور( چڑیا) سے مشابہ تھی نکالی اور ابو جعفر(ع) نے اسے بھی اپنے دہن مبارک میں رکھ لیا اس کے بعد امام رضا(ع) نے رحلت فرمائی تو ابو جعفر(ع) نے فرمایا اے ابوصلت اٹھو اور توشہ خانہ سے غسل

۶۰۷

کا برتن اور پانی لے آؤ۔ میں نے عرض کیا کہ توشہ خانہ میں غسل کا برتن اور پانی تو نہیں ہے آپ(ع) نے فرمایا تم جاؤ تو سہی آپ(ع) کے فرمانے پر میں گیا تو دیکھا کہ توشہ خانہ میں غسل کا برتن اور پانی رکھا ہوا ہے میں اسے نکال لایا اس کے بعد آپ(ع) نے اپنا لباس سیمٹاتا کہ غسل دینے میں میں آپ(ع) کا ہاتھ بٹاؤں تو آپ(ع) نے فرمایا اے ابوصلت تم ہٹ جاؤ غسل میں میری مدد کرنے والا موجود ہے میں ہٹ گیا اور آپ(ع) نے غسل دیا اس کے بعد فرمایا اے ابوصلت توشہ خانہ میں جاؤ وہاں ایک ٹوکری ہے جس میں کفن اور حنوط رکھا ہوا ہے وہ اٹھا لاؤ میں اندر گیا تو دیکھا کہ ایک ٹوکری رکھی ہوئی تھی جسے میں نے اس توشہ خانہ میں پہلے نہ دیکھا تھا میں وہ اٹھا لایا آپ(ع) نے خود اپنے ہاتھوں امام رضا(ع) کو کفن پہنایا اور نماز جنازہ پڑھی پھر مجھ سے فرمایا تابوت لاؤ میں نے عرض کیا بہتر میں ابھی کسی نجار (بڑھئی) کے پاس جاکر بنوا لاتا ہوںآپ(ع) نے فرمایا اس توشہ خانہ میں تابوت بھی رکھا ہے میں گیا تو دیکھا کہ اس میں ایک تابوت بھی رکھا ہواہے، جس کو میں نے وہاں نہیں دیکھا تھا بہر حال میں اسے بھی اٹھالایا آپ(ع) نے نماز جنارہ پڑھنے کے لیے میت کو تابوت میں رکھ دیا اور میت کے پاؤں وغیرہ برابر کردیئے پھر دو رکعت نماز پڑھی ابھی نماز سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے۔ کہ وہ تابوت خودبخود بلند ہوا چھت شگافتہ ہوئی اور تابوت روانہ ہوگیا۔ میں نے عرض کیا فرزند رسول(ص) نے ابھی مامون آئے گا اور مجھ سے امام رضا(ع) کی میت کا مطالبہ کرے گا تو میں کیا جواب دوں گا آپ(ع) نے فرمایا خاموش رہو تابوت واپس آئے گا، اے بوصلت اگر کوئی نبی مشرق میں وفات پائے اور اس کا وصی مغرب میں تو اﷲ ان کے اجساد ارواح کو لازما جمع کردیتاہے( یہ مدینہ میں روضہء رسول (ص) پر حاضری کے لیے گئے ہیں) ابھی یہ گفتگو ختم نہیں ہوئی تھی کہ چھت دوبارہ شق ہوئی اور تابوت اتر کرآگیا پھر آپ(ع) اٹھے اور امام رضا(ع) کی میت کو تابوت سے نکالا اور ان کے بستر پر اس طرح لٹا دیا جیسے غسل و کفن کچھ نہیں دیا گیا پھر اس کے بعد آپ(ع) نے فرمایا اچھا اے ابو صلت اب دروازہ کھول دو میں نے دروازہ کھولا تو مامون اپنے غلاموں کے ساتھ گریبان چاک ، روتا ، سر پیٹتا اندر داخل ہوا اور یہ کہہ رہا تھا کہ فرزند رسول خدا(ص) تمہارے مرنے کا مجھے بے حد افسوس ہے پھر آکر میت کے سرہانے بیٹھ گیا اور حکم دیا کہ تجہیز و تکفین کا سامان کیا جائے اور قبر کھودی جائے پھر اس کی بتائی ہوئی جگہ پر قبر کھودی گئی اور تو امام رضا(ع) کے بتائے ہوئے قول کے مطابق قبر نہ کھد سکی مجبور اس نے کہا کہ

۶۰۸

جانب کھو دو ابوصلت کہتے ہیں میں نے اس سے کہا کہ امام رضا(ع) نے مجھے سے فرمایا کہ سات زینہ نیچے تک کھودو تو ایک ضریح بر آمد ہوگی مامون نے کھودنے والوں سے کہا ابوصلت جس طرح کہتا ہے اس طرح کھودو مگر ضریح تک نہیں ملکہ اس میں بغلی لحد بنا دو جب لحد کھودی گئی تو مامون نے اس میں نمی اور پانی کا چشمہ پھر مچھلیاں وغیرہ دیکھیں تو کہنے لگا امام رضا(ع) اپنی زندگی میں تو عجائبات دکھاتے رہے تھے مرنے کے بعد بھی وہی دکھا رہے ہیں یہ دیکھ کر اس کے ایک وزیر نے اس سے کہا معلوم ہے ان مچھلیوں وغیرہ سے امام رضا(ع) آپ کو کیا بتانا چاہتے ہیں مامون نے کہا نہیں اس نے کہا وہ آپ کو یہ بتارہے ہیں کہ اے بنو عباس، تمہاری سطلنت باوجود تمہاری کثرت اور طول مدت کے ان مچھلیوں کی مانند ہے۔ جب اس کا وقت پورا ہوجائے گا اور تمہاری سلطنت ختم ہونے والی ہوگی تو اﷲ ہم اہل بیت(ع) میں سے ایک فرد کو تم لوگوں پر مسلط کردے گا اور وہ تم لوگوں میں سے ایک بھی باقی نہیں چھوڑے گا( جس طرح بڑی مچھلی نے ساری مچھلیوں کو ختم کر دیا ہے) مامون نے کہا سچ کہتے ہو واقعی اس کا مطلب یہی ہے اس کے بعد مامون نے مجھے یہ کہا اے ابوصلت مجھے وہ تمام باتیں بتاؤ جو تم سے امام رضا(ع) نے کہی ہیں میں نے کہا خدا کی قسم میں وہ تمام باتیں بھول گیا ہوں اور واقعی میں نےسچ کہا تھا مامون نے حکم دیا کہ اس کو لے جاؤ اور قید میں ڈال دو اس کے بعد اس نے امام رضا(ع) کو دفن کیا، میں ایک سال تک قید میں پڑا رہا جب قید سے تنگ آگیا تو ایک رات جاگ کر حضرت محمد(ص) اور آل(ع) محمد(ص)کا واسطہ دے کر اپنی رہائی کے لیے اﷲ سے دعا مانگی ابھی میری دعاختم بھی نہ ہوئی تھی تو دیکھا کہ حضرت ابو جعفر محمد بن علی(ع) قید خانہ میں تشریف لائے اور فرمایا اے ابو صلت تم اس قید سے تنگ آچکے ہو میں نے عرض کیا جی ہاں خدا کی قسم، آپ(ع) نے فرمایا اچھا تو پھر اٹھو پھر آپ(ع) نے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں پر اپنا دست مبارک پھیرا تو وہ سب جدا ہوگئیں پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے قید سے نکال لے گئے میں گھر کے مرکزی دروازے سے نکلا سارے پہرے دار اور غلام دیکھتے رہ گئے اور مجھ سے کچھ نہ کہہ سکے اور اس کے بعد آپ(ع) نے مجھ سے کہا جاؤ میں نے تمہٰیں خدا کے سپرد کیا اب وہ ابد تک تمہیں گرفتار نہیں کرسکتا چنانچہ میں آج تک اس کی گرفت سے باہر ہوں۔

۶۰۹

مجلس نمبر۹۵

( بروز بدھ، جبکہ ماہ شعبان ختم ہونے میں ۱۲ دن باقی تھے سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           محمد بن عذافر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام باقر(ع) سے دریافت کیا گیا کہ خدا نے مردار کے خون اور گوشت کو کیوں حرام قرار دیا ۔

امام(ع) نے فرمایا اﷲ نے اپنے بندوں کے لیے بعض چیزوں کو حلال قرار دیا ہے اور بعض کو حرام تو یہ اس لیے نہیں کہ اس نے جس چیز کو حلال قرار دیاوہ اسے پسند تھی اور جسے حرام قرار دیا وہ اسے ناپسند تھی بلکہ یہ اس لیے تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور وہ بہتر جانتا ہے کہ مخلوق کے بدن کا قیام کس چیز سے رہیے گا اس کے لیے کونسی چیز بہتر و مناسب ہے لہذا مخلوق کے لیے بہتر کو اس نے حلال قرار دیا اور جو مناسب نہیں اسے حرام قرار دیا مگر اضطرار اور شدید ضرورت میں اس نے حکم دیا کہ یہ چیزوں صرف اتنی مقدار میں استعمال کرلے جس سے کہ اس( آدمی) کا بدن ( زندگی ) باقی رہے اس کے علاوہ اسے حرام قرار دیا۔

پھر امام(ع) نے فرمایا جو کوئی بھی مردار کھائے گا اس کے بدن میں ضعف و سستی عود کر آئے گی اور اس کی نسل منقطع ہوجائے گی، مردار کھانے والے کی موت ناگہانی ہوگی  اس کا خون انسان کے بدن میں آپ صفرا پیدا کرے گا اور امراض قلب اور قساوت قلب پیدا کرے گا اس انسان میں رحم و مہربانی اتنی کم ہوگی کہ اس کے مخلص دوست اور اس کی صحبت میں رہنے والے بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

اور سور کے گوشت کا یہ ہے کہ اﷲ تعالی نے ایک قوم پر عذاب نازل کیا تو اس کے افراد کو مختلف شکلوں میں مسخ کردیا اور انہیں سور، بندر اور ریچھ کی شکل میں تبدیل کردیا پھر حکم دیا کہ ان جانوروں کے گوشت کو کبھی مت کھانا تاکہ کہ ان کے عذاب کو کوئی خفیف نہ جانے۔ اور شراب کے بارے میں یہ ہے کہ اس کے عمل اور اس کے فساد کی وجہ سے اسے حرام قرار دیا گیا پھر امام(ع) نے فرمایا کہ شراب کا عادی ایسا ہی ہے جیسا کہ بت پرست ، شراب جسم میں رعشہ پیدا کرتی ہے شرابی میں

۶۱۰

 مروت ختم ہو جاتی ہے اور وہ حرام کی جسارت کرنے  لگتا ہے جیسے کہ قتل اور زنا یہاں تک کہ نشے کی حالت میں وہ اپنی محرم عورتوں پر بھی حملہ کر گزرتا ہے اور اسے اس کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ شراب اپنے پینے والے میں بدی کے علاوہ کسی اور چیز کا اضافہ نہیں کرسکتی۔

حضرت موسیٰ(ع) اور شیطان

۲ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا ایک مرتبہ حضرت موسی(ع) خدا سے مناجات میں مشغول تھے کہ شیطان ان کے پاس آیا تو ایک فرشتے نے شیطان سے کہا ایسی حالت میں تو ان سے کیا امید رکھتا ہے شیطان نے کہامیں وہی امید رکھتا ہوں جو اس کے باپ آدم(ع) سے رکھتا تھا جس وقت وہ بہشت میں تھے۔

امام نے فرمایا کہ موسی(ع) کی مناجات کے جواب میں جو موعظ خدا نے ان سے بیان فرمائے وہ یہ ہیں کہ اے موسی(ع) میں اس کی نماز قبول کرتا ہوں جو فروتنی اور تواضع اختیار کرتا ہے اور میری عظمت کے لیے اپنے دل پر میرا خوف طاری کر لیتا ہے اپنا دن میری یاد میں بسر کرتا ہے اپنی رات اپنے گناہوں کے افراد میں گذرتا ہے اور میرے اولیاء اور دوستوں کے حق کو پہچانتا ہے موسی(ع) نے عرض کیا خدایا ، اولیاء اور محبوں سے تیری کیا مراد ہے کیا یہ ابراہیم(ع) اسحاق(ع)، اور یعقوب(ع) ہیں ارشاد ربانی ہوا اے موسی(ع) وہ لوگ ایسے ہی ہیں اور میرے دوست ہیں مگر میری مراد وہ ہیں جن کے لیے مین نے آدم(ع) حوا(ع) کو پیدا کیا اور بہشت و دوزخ کو خلق کیا موسی(ع) نے دریافت کیا بار الہا وہ کون ہیں ارشاد ہوا وہ محمد(ص) کہ جس کا نام احمد(ص) ہے اس کے نام کو میں نے اپنے نام سے مشتق کیا ہے اس  لیے کہ میرا نام محمود ہے ، موسی(ع) نے کہا خدایا تو مجھے ان(ع) کی امت میں قرار دے ارشاد ہوا اے موسی(ع) جب تم انہیں پہچان لوگے اور میرے  نزدیک ان کے اہل بیت(ع) کی منزلت سمجھ لوگے تو تم ان(ع) کی امت میں شامل ہوجاؤ گے یقینا میری تمام امت  میں ان کی مثال ایسی ہے جیسے تمام باغوں میں فردوس کی کہ جس کی پتیاں کبھی خشک نہیں ہوتیں اور جس کا مزہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا جو شخص ان کے اور ان کے اہل بیت(ع) کے حق کو پہچان لے تو میں انہیں اس کی نادانی اور اسکی تاریکی میں روشنی

۶۱۱

بنادوں گا اور اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے دعا کرے میں اسکی دعا قبول کروں گا اور عطا کروں گا اے موسی(ع) جب تمہاری طرف کوئی پریشانی آئے تو اسے مرحبا کہو اور کہہ کہ کیہ کہ یہ میری نیکیوں کی جزا میں عطا کی گئی اور جب توانگری تمہارا رخ کرے تو کہو کہ اس کا سبب کوئی گناہ ہے جس کا عذاب مجھے دیا گیا ہے اس لیے کہ دنیا عذاب کام مقام ہے آدم(ع) نے جب خطا کی تو میں نے سزا کے طور پر انہیں اس دنیا میں بھیجا اور یہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس پر میں لعنت کی سوائے اس چیز کے جو مریے لیے ہو اور جس سے میری خوشنودی حاصل ہو، اے موسی(ع) یقینا میرے نیک بندوں نے اپنے اس علم کی وجہ سے جو میرے متعلق رکھتے ہیں ترک دنیا اور زہد اختیار کیا ہے اور میری بہت سی مخلوق نے اپنی نادانی اور مجھے نہ پہچاننے کی وجہ سے دنیا کی رغبت اختیار کی ہے اور جس نے بھی دنیا کی تعظیم کی اور اسے بزرگ جانا تو دنیا نے اس کی آنکھیں روشن نہیں کیں اور نہ ہی اسے فائدہ دیا اور جس نے دنیا کو حقیر جانا وہ فائدے میں رہا۔

پھر امام صادق(ع) نے فرمایا اگر تم طاقت رکھتے ہوتو دنیا سے ناشناس رہو اگر ایسا ہوتو تم کچھ نقصان میں نہیں ہو بیشک لوگ تیری مذمت کریں مگر تجھے خدا کا قرب حاصل ہوگا جناب امیر(ع) نے فرمایا کہ دنیا دو آدمیوں میں سے ایک کے لیے خبر نہیں رکھتی اور وہ وہ ہے کہ جو روزانہ اپنے احسان میں اضافہ کرتا ہے اور توبہ کے ذریعے اپنے گناہوں کو تحلیل کرتا ہے خدا کی قسم اگر انسان اس وقت تک سجدہ میں رہے جب تک اس کی گردن قطع نہ کردی جائے تو خدا اسے ہرگز معاف نہ کرے گا جب تک کہ وہ ہمارے خاندان کی ولایت کا معترف نہ ہوگا۔

۳ـ          مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے عشق کے متعلق سوال کیا تو فرمایا عشق یہ ہے کہ دل یاد خدا کے علاوہ ہر چیز سے خالی ہوجائے اور خدا اس کی دوستی و محبت کا مزہ دوسروں کو چکھادے۔

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جس کسی کا گذرا ہوا دن اور آنے والا دن برابر ہیں وہ شخص مغبون ( وہ آدمی جس کاغبن ہوا ہو، نقصان میں) ہے، جو ترقی نہیں کرتا وہ نقصان میں ہے اس کی موت اس کی زندگی سے بہتر ہے۔

۶۱۲

لقمان کی نصیحت

۵ـ          امام صادق(ع) بیان فرماتے ہیں لقمان نے اپنے فرزند کو نصیحت کی کہ اے فرزند تجھے چاہیے کہ اپنے دشمن کے لیے کوئی حربہ تیار رکھ جو اسے زمین پر گرادے اور وہ حربہ یہ ہے کہ تو اس سے مصافحہ کرے اور اس سے نیک برتاؤ کرتا رہے تو اس سے علیحدگی اختیار مت کر اور اپنی دشمنی کا اظہار مت کرتا کہ جو کچھ وہ اپنے دل میں تیرے خلاف رکھتا ہے وہ تجھ پر ظاہر کردے اور اے میرے فرزند خدا سے اس طرح ڈر جس طرح ڈرنے کا حق ہے اگر جن وانس کی نیکیوں کے برابر نیکیاں رکھتا ہو تو تب بھی حساب سے خوفزدہ رہ اور خدا سے امیدوار رہ کہ اگر تیرے گناہ جن و انس کے گناہوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں وہ تجھے معاف فرمائے گا۔ اے میرے فرزند میں نے  لوہا پتھر اور ہر وزنی چیز کو اٹھایا اور اسے برداشت کیا ہے مگر میں نے کوئی بوجھ بد ہمسائے سے زیادہ گراں نہیں پایا میں نے تلخ ترین چیزوں کا مزہ چکھا ہےمگر کسی شے کو پریشانی اور دنیا والوں کے سامنے محتاجی سے زیادہ تلخ نہیں پایا۔

۶ـ           لقمان(ع) اپنے فرزند سے کہا اے فرزند تو اپنے لیے ہزار لوگوں کو دوست بنا کیوں کہ ہزار دوست بھی کم ہیں مگر تو اپنے لیے کسی ایک کو بھی دشمن نہ بنا کیوں کہ ایک دشمن بھی بہت ہے اور اسی سلسلے میں جناب امیرالمومنین(ع) نے فرمایا اگر تجھ میں طاقت ہے تو بہت زیادہ دوست بنا کیوں کہ وہ تیری پشت پناہی کریں گے اور تیرے لیے ستون و مددگار ثابت ہوں گے تیرے جتنے بھی دوست ہوں کم ہیں چاہیے ہزار ہی کیوں نہ ہوں جب کہ دشمن ایک بھی بہت ہے۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا دوستی کی کچھ حدود معین ہیں سب سے پہلے یہ ہے کہ اس (دوست) کا ظاہر و باطن تمہارے لیے ایک ہو، دوئم یہ کہ وہ جس چیز کو اپنے لیے باعث ننگ و عار جانے اسے تمہارے لیے بھی ایسا ہی سمجھے اور دولت و منصب اسے پھیر نہ سکے اس کے پایہ ثبات میں لغزش نہ آسکے چہارم یہ کہ جو کچھ اس کے اختیار اور قدرت میں ہو اس سے  تمہیں فائدہ پہنچانے میں پہلو تہی نہ کرے اور پنجم یہ کہ وہ پریشانی و مصیبت میں تمہیں تنہا نہ چھوڑے۔ پھر امام(ع)

۶۱۳

نے فرمایا جو کوئی تم پر تین مرتبہ غصہ کرے مگر برانہ کہے اسے اپنا دوست بنالو اور تم اپنے دوست سے پوشیدگی نہ رکھو جو مصیبت تم پر آئے اس سے بیان کرو پھر آپ(ع) نے اپنے اصحاب میں سے ایک شخص سے فرمایا کہ وہ راز جو تیرے دوست اور تیرے درمیان ہے سے دوسروں کو آگاہ نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر یہ دشمن کو پتا چل جائے تو کبھی وہ بھی گزند نہیں پہنچاتا مگر بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دوست دشمن بن جاتا ہےمیرے جد(ع) نے امیرالمومنین(ع) سے روایت ہے کہ کوئی مہذب مرد ایسا ہے کہ جو تیرا ایک دن کے لیے بھی دوست ہو( یعنی اگر مہذب انسان کی ایک دن کی دوستی بھی میسر آجائے تو بہتر ہے)۔

۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی ماہ شعبان کے آخری تین دن کا روزہ رکھے اور اسے ماہ رمضان سے ملا دے تو خدا اس کےلیے لگا تار دو ماہ کے روزوں کا اجر لکھے لگا۔

۹ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا کہ ماہ رمضان اور ماہ رمضان کا روزہ خدا سے بندے کے گناہ معاف کرواتا ہے چاہیے وہ خونِ حرام کا مرتکب ہی کیون نہ ہو۔

۱۰ـ          جناب رسول  خدا(ص) نے فرمایا اے علی(ع) قیامت کے روز تجھے نور کی سواری ”شکہ“ پر سوار کرایا جائے گا اور تیرے سر پر ایک ایسا تاج ہوگا جس کے چار(۴) رکن ہوں گے ، ہر رکن پر تین(۳) سطروں میں لکھا ہوگا” لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ علی ولی اﷲ“ میں بہشت کی کنجیاں تیرے حوالے کروں گا اور تجھے ایک تخت کرامت پر بٹھایا جائے گا اور تم اعلان کروگے کہ تمہارے شیعہ بہشت میں داخل ہوجائیں پھر تم اپنے دشمنوں کے دوزخ میں جانے کا اعلان کرو گے اے علی(ع) تم قسیم نار و قسیم جنت ہو جو تجھے دوست رکھتا ہے وہ کامیاب ہے اور نقصان میں ہے وہ جو تجھے دشمن رکھے تم ہی اس دن امین خدا اور اس کی واضح حجت ہوگے۔

۶۱۴

 مجلس نمبر۹۶

(یہ مجلس جناب صدوق(رح) اسی روز یعنی بدھ سنہ۳۶۸ھ جب ماہ شعبان ختم ہونے میں بارہ دن باقی تھے پڑھی)

خدا کب سے ہے

۱ـ                   امام صادق(ع) بیان فرماتے ہیں کہ ایک دانشمند یہودی امیرالمومنین(ع) کے پاس آیا اور کہنے لگا اے امیرالمومنین(ع) آپ(ع) کا پروردگار کب سے ہے۔ جناب امیر(ع) نے فرمایا تیری ماں تیرے غم میں گریہ کرے وہ کب نہ تھا کہ میں تجھے  بتاؤں وہ کب سے ہے۔ میرا پروردگار پہلے سے بھی پہلے کہ اس سے پہلے کوئی نہیں ہے ابد تک اور وہ بعد بھی نہیں رکھتا، اس مقام کی کوئی ابتداء اور کوئی انتہا نہیں ہے وہ وہ ہے کہ نہایت کا دخول اس میں نہیں وہ ہر نہایت کی نہایت ہے۔

آدم(ع) اور عقل

۲ـ                   جناب علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا جبرائیل(ع) آدم(ع) پر نازل ہوئے اور فرمایا اے آدم(ع) مجھے حکم ہوا ہے کہ تین چیزیں لے کر تمہارے پاس جاؤں تاکہ تم ان میں سے ایک کو اختیار کرلو اور باقی دو کو چھوڑ دو یہ تین چیزیں عقل ، شرم اور دیانت ہیں آدم(ع) نے کہا میں نے عقل کو اختیار کیا۔ جبرائیل(ع) نے شرم اور دیانت سے کہا کہ وہ واپس چلی جائیں پھر آدم(ع) سے سوال کیا کہ آپ(ع) نے عقل کو کیوں اختیار کیا آدم(ع) نے جواب دیا ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم (انبیاء(ع)) عقل اختیار کریں جبرائیل(ع) نے کہا آپ(ع) مختار ہیں جو چاہیں اختیار کریں پھر جبرائیل(ع) واپس تشریف لے گئے۔

۳ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا بے شک بندہ ستر)۷۰) خریف جہنم میں رکھا جائے گا اور ایک خریف ستر سال کی مسافت کے برابر ہے پھر وہ خدا سےمحمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) کا واسطہ دے کر فریاد کرے گا کہ اس پر رحم کیا جائے پس خدا جبرائیل(ع) کو وحی کرے گا کہ میرے بندے کے پاس جاؤ اور اسے

۶۱۵

 آگ سے باہر نکالو جبرائیل(ع) کہیں گے اے پروردگار میں آتش جہنم میں کیسے جاؤں تو ارشاد ہوگا میں نے آگ کو حکم دیا ہے کہ وہ تمہارے لیے سرد ہوجائے اور سلامتی کا باعث رہے پھر جبرائیل(ع) کہیں گے اے پروردگار مجھے اس جگہ کیسے ہوگا جہاں وہ ہے تو ارشاد وہ سجین کے ایک گڑھےمیں ہے۔

امام فرماتے ہیں کہ جبرائیل(ع) اس حال میں جہنم میں آئیں گے کہ اپنے پر سمیٹے ہوں گے اور اس بندے کو جہنم سے باہر نکالیں گے۔ تو اﷲ اس سے فرمائے گا اے میرے بندے تو کتنے دن جہنم میں جلتا رہا وہ کہے گا اے میرے معبود میں شمار نہیں کرسکتا تو اﷲ فرمائے گا میری عزت کی قسم اگر تونے  ان ہستیوں کا واسطہ دے کر سوال نہ کیا ہوتا تو میں دوزخ میں تیرے قیام کو طول دے دیتا لیکن میں نے اسے اپنے لیے لازم قرار دیا ہے کہ جو کوئی مجھ محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) کے واسطے سے فریاد کرے گا میں اس کے اور اپنے درمیان تمام گناہ بخش دوں گا بے شک میں نے تجھے آج معاف فرما دیا۔

۵ـ جابر ابن عبداﷲ انصاری(ع) بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا جو بندہ علی(ع) پر دوسرے اصحاب کو فضیلت و فوقیت دے وہ یقینا کافر ہے۔

۶ـ                   جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی علی (ع) سے دشمنی رکھے وہ خدا سے جنگ میں ہے اور جو علی(ع) کے بارے میں شک کرے وہ کافر ہے۔

۷ـ          امام صادق(ع) اپنے آباء (ع) سے قولِ خدا” اور تم سے پوچھتے ہیں کیا وہ حق ہے تم فرماؤ ہاں میرے رب کی قسم بیشک وہ ضرور حق ہے اور تم کچھ تھکانہ سکو گے“ (یونس ، ۵۳) کی تفسیر روایت کرتے ہیں کہ ارشاد ہوا اے محمد(ص) اہل مک تم سے خبر لیتے ہیں کہ کیا علی(ع) امام ہے  تو تم کہو ہاں خدا کی قسم وہ حق کےساتھ امام(ع) ہے۔

۸ـ          جناب رسول خدا(ص) نے علی بن ابی طالب(ع) کے بارے میں ارشاد فرمایا اس مرد کا ہاتھ تھام لو کہ یہ صدیق اکبر و فاروق اعظم ہے یہ حق و باطل کو جدا کرنے والا ہے جوکوئی اسے دوست رکھتا ہے اس کی راہنمائی خدا فرماتا ہے جو کوئی اسے دشمن رکھتا ہے خدا اسے دشمن رکھتا ہے جو کوئی اس کی

۶۱۶

 مخالفت کرے گا خدا اسے نابود کردے  گا اس میں سے میرے دو فرزند حسن(ع) و حسین(ع) ہیں وہ امام برحق اور رہبر ہیں خدانے انہیں میرا علم وفہم عطا کیا ہے انہیں دوست رکھو کہ ان کےسوا پناہ نہ دی جائے گی یہاں تک کہ میرا غصہ اسے ( دوست نہ رکھنے والے کو) گھیرے اور جس کسی کو میرا غصہ گھیرے وہ زوال میں ہوگا اور دنیا فریب اور دھوکے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

                     و صلی اﷲ علی محمد(ص) وآلہ الطاہرین(ع)۔

۶۱۷

مجلس نمبر۹۷

( بروز جمعرات جبکہ ماہ شعبان سنہ۳۶۸ھ ختم ہونے میں ۱۱ روز باقی تھے۔)

امامت کی وضاحت

۱ـ           عبدالعزیز بن مسلم کہتے ہیں کہ ہم امام رضا(ع) کے ساتھ مقام مرو میں تھے اور ہر جمعہ جامع مسجد گئے تو وہاں لوگ امر امامت پر اپنی اپنی رائے مطابق گفتگو کر رہے تھے اور اپنی آراء کا اظہار کرتے تھے کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ جب میں امام رضا(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان لوگوں کے نظریات کو بیان کیا تو امام (ع) نے مسکرا کر فرمایا اے عبدالعزیز یہ لوگ ناواقف ہیں ان کی رائے نے ان کو دھوکا دیا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر نے جب تک دین اسلام کو کامل نہ کر لیا اپنے نبی(ص) کو  اس وقت تک دنیا سے نہیں بلایا۔ ان پر قرآن نازل کیا جس میں ہر چیز حلال و حرام ، حدود و احکام اور انسانی ضروریات کا مفصل ذکر کیا خدا فرماتا ہے ” ہم نے اس کتاب میں کوئی ایسی چیز باقی نہیں رکھی“ ( انعام ، ۳۹) اور حجت الوداع میں جو حضور(ص ) کی عمر کا آخری حصہ تھا یہ آیت نازل کی” ِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي‏ وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دينا “ (مائدہ، ۳) آج مین نے تمہارے لیے دین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا اور تمہارے لیےمیں نے دین کو اسلام کے نام سے پسند کیا۔“

امر امامت کا تعلق تمام دین سے ہے اور نبی(ص) نے عقبی کو اس وقت تک اختیار نہ کیا جب تک انہوں نے معالم دین بیان نہ کردیئے اور نبی(ص) ان ( امت) کا راستہ واضح کر کے انہیں راہ حق پر ڈال کر گئے اور ان کے لیے علی(ع) کو علم اور امام مقرر کر کے گئے آپ نے ہر اس چیز کو جس  کی امت کو حاجت تھی بیان کردی لہذا جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ اﷲ تعالی نے  اپنے دین کو مکمل نہیں کیا وہ در اصل کتاب ِ خدا کو رد کرتا ہے اور جو کتاب خدا کو رد کرے وہ کافر ہے ۔ اے عبدالعزیز جانتے ہو کہ قدر امامت کیا ہے اور کیا امت کے لیے امامت میں تصرف کرنا جائز بھی ہے یا نہیں امامت کی

۶۱۸

 قدر ومنزلت اس کی شان اور اس کامقام، اس کے اطراف وجوانب اور اس کی گہرائی اس بات سے کہیں جلیل ، عظیم ، اعلی محفوظ اور بعید ہے کہ لوگ اپنی عقلوں سے اس تک پہنچیں یا اپنی آراء سے اس کو حاصل کریں یا امام کو اپنے اختیار سے قائم کریں، امامت ایک ایسا جوہر ہے جو اﷲ نے ابراہیم(ع) کو نبوت وخلافت کے بعد عطا کیا پس امامت نبوت و خلافت کے بعد کا تیسرا درجہ ہے، امامت وہ فضیلت ہے کہ اس سے ان(ا براہیم(ع)) کو شرف عنایت فرمایا اور اسی سے ان کے ذکر کو محکم فرمایا خدا فرماتا ہے ”إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً “ (بقرہ، ۱۲۴) ” بے شک میں تمہیں لوگوں کو امام بنانے والا ہوں“  یہ سن  ابراہیم(ع) نہایت خوش ہوئے اور عرض کیا”وَ مِنْ ذُرِّيَّتي “ ( بقرہ، ۱۲۴) ترجمہ: میری ذریت میں بھی ہوگا۔ ارشاد ہوا ” لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمينَ “( بقرہ، ۱۲۴) ترجمہ : ہان مگر ظالمین کویہ عہد نہ ملے گا۔ “ اس آیت سے ہر ظالم کی امامت کو قیامت تک کے لیے باطل کردیا اور صرف معصوم(ع) کو باقی رکھا پھر خدانے ابراہیم(ع) کی تعظیم و تکریم کے لیے ان کی ذریت میں معصوم و مطہر کو خلق فرمایا اور فرمایا ”وَ وَهَبْنالَه ُإِسْحاقَ وَيَعْقُوبَ نافِلَةًوَكُلاًّجَعَلْناصالِحينَ وَ جَعَلْناهُمْ أَئِمَّةًيَهْدُونَ بِأَمْرِناوَأَوْحَيْناإِلَيْهِمْ فِعْلَالْخَيْراتِ وَإِقامَ الصَّلاةِوَإيتاءَالزَّكاةِوَكانُوالَناعابِدينَ “ انبیاء، ۷۲ـ۷۳)ترجمہ : ہم نے ابراہیم(ع) کو اسحاق(ع) یعقوب(ع) عطا کیے اور ان کو صالح بنایا اور ہم نے ان کو امام بنایا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کریں اور ہم نے ان کو وحی کی کہ سب اچھے کاموں کو بجالائیں اور مخلوقات میں نماز قائم کریں اور زکوة ادا کریں اور وہ سب اﷲ کی ہی عبادت کرنے والے تھے۔“ پس یہ عہدہ امامت ابراہیم(ع) کی ذریت میں بطور وراثت جاری ہوا اور ایک کے بعد دوسرا اس کا وارث ہوتا رہا یہاں تک کہ خدا نے اپنے حبیب محمد(ص) کو وارث بنایا اور فرمایا ”إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهيمَ لَلَّذينَ اتَّبَعُوهُ وَهذَاالنَّبِيُّ وَالَّذينَ آمَنُواوَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنينَ “ (آل عمران، ۶۸) ترجمہ : ” بے شک وراثت ابراہیم(ع) کے سب سے زیادہ مستحق وہ لوگ ہیں جہنوں نے ان کی پیروی کی ہے اور یہ نبی اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور اﷲ مومنین کا ولی ہے“ پس  یہ عہدہ امامت خاص نبی(ص) کے لیے تھا اور جو انہوں نے طریقہ خدا کے مطابق اپنے بھائی علی بن ابی طالب(ع)

۶۱۹

کے حوالے کیا پس علی بن ابی طالب(ع) کی ذریت میں اصفیاء و اتقیاء پیدا ہوئے جہنیں خدا نے علم و ھبی اور ایمان لدنی عنایت فرمایا جس کا بیان اس آیت میں مذکور ہے ”وَ قالَ الَّذينَ أُوتُواالْعِلْم َوَالْإِيمانَ لَقَدْلَبِثْتُمْ في‏كِتابِ اللَّهِ إِلى‏يَوْمِ الْبَعْثِ فَهذايَوْمُ الْبَعْثِ “ ( روم، ۵۶)  ” جن لوگوں کو علم اور ایمان خدا کی طرف سے عطا ہوا ہے وہ کہیں گے کہ تم لوگ کتاب خدا کے مطابق قیامت کے دن تک  ٹھہرے رہے تو یہ قیامت کا دن ہے“ پس وہ امامت اب اولاد علی(ع) میں قیامت تک کے لیے مخصوص ہے کیونکہ نبی(ص) کے بعد کوئی نبی نہیں ہے یہ جاہل لوگ کہاں سے امامت کو اختیار کرتے ہیں کیونکہ امامت مقام انبیاء(ع) اور میراث انبیاء(ع) ہے اور امامت خلافت الہی اور خلافت سول (ص) ہے اور مقام امیرالمومنین(ع) اور میراث حسن(ع) و حسین(ع) ہے۔ امامت مسلک دین ہے امامت نظام مسلمین ہے، امام صلاح دنیا، مومنین کی عزت ، اسلام کا اصول اور اس کی بلند ترین شاخ ہے اور امام کی وجہ سے نماز، زکوة، حج اور جہاد غنیمت و صدقات کامل ہوتے ہیں اور امام ہی حدود الہی اور احکام خدا کو جاری کرتے ہیں اور سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں امام حلال خڈا کو حلال اور حرام خدا کو حرام کرتے ہیں اور حدود الہیہ کا قائم کرتے ہیں، دین خدا کی حفاظت کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی حکمت موعظہ حسنہ اور حجت بالغہ سے دعوت دیتے ہیں ، امام سورج کی طرح ہے جو اپنی روشنی سے دنیاء عالم کو روشن کرتا ہے خود عالی قدر بلند مقام پر ہوتا ہے کہ نہ تو وہاں تک کوئی ہاتھ پہنچ سکتا ہے اور نہ نظر کرسکتی ہے اور امام بدر منیر، روشن چراغ، نور ساطع ، تاریک راتوں، شہروں کے چوراھوں ،میدانوں اور بہتے ہوئے سمندروں میں راہنمائی کرنے والا ستارہ ہے، امام پیاسوں کے لیے آب شیرین اور ہدایت کا رہبر ہے ، ہلاکت سے نجات دینے والا ہے اور امام آگ سے بقعہ نور کی گرمی کی شدت ہے ( اسخیائے عرب قحط سالی میں بلند مقام پر آگ روشن کردیتے تھے تاکہ بھولا بھٹکا شخص  اسے دیکھ کر ان کے پاس آجائے) امام سرماء خورد کے لیے حرارت ہے خوفناک مقامات پر رہبر ہے جو امام کو چھور دے گا وہ ہلاک ہوجائے گا، امام برسنے والا بادل ہے، جھڑی والی گھٹا، ضیاء بار سورج ، سایہ دار آسمان ہے، امام پر فضا زمین پر بہتا ہوا چشمہ پانی سے لبریز تالاب ، پر بہار سبزہ زار ہے، امام رفیق ، ساتھی ، شفیق والد، اورمہربان بھائی، شفیق ماں

۶۲۰