مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 297215
ڈاؤنلوڈ: 7465

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 297215 / ڈاؤنلوڈ: 7465
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مجلس نمبر ۱۳

(اول ماہ رمضان سنہ۳۶۷ھ)

ماہ رمضان کا اجر

۱ـ           ابوجعفر محمد بن علی باقر(ع) نے فرمایا بیشک خدا کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو روزہ داروں کے موکل ہیں کہ ہر دن ماہ رمضان سے اس کے آخر تک ان کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں اور روزہ کے افطار کے وقت روزہ داروں کو آواز دیتے ہیں کہ تم کو خوشخبری ہو اے خدا کے بندو تم نے بھوک کو برداشت کیا ہے بہت جلد تمہیں سیر کیا جائے گا تمہیں مبارک ہو، وہ یہ مبارک دیتے ہیں یہاں تک کہ شبِ آخر ماہ رمضان ان کو ندا کی جاتی ہے خوشخبری ہو اﷲ کے بندو خدا نے تمہارے گناہوں کو معاف کردیا ہے تمہاری توبہ کو قبول کر لیا ہے اور خیال رکھو کہ آئیندہ تم کس طرح زندگی گزارو گے۔

۲ـ           ابوالحسن علی بن موسی الرضا(ع) نے اپنے اجداد(ع) نے روایت کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا ماہ رمضان ماہ بزرگ ہے کہ خدا نیکیوں کو اس مہینے میں دوگناہ کردیتا ہے گناہوں کو اس مہینہ میں مٹا دیتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے جو کوئی اس ماہ میں صدقہ دے خدا اس کو معاف کردیتا ہے جو کوئی اس مہینہ میں احسان کرے اپنے غلاموں پر تو خدا اس کو معاف کردیتا ہے اور جو کوئی اس ماہ میں خوش خلقی سے پیش آتا ہے تو خدا اس کو معاف کردیتا ہے جو کوئی اپنا غصہ پی جاتا ہے تو خدا اس کو معاف کر دیتا ہے جو کوئی صلہ رحم کرتا ہےتو خدا اس کو معاف کردیتا ہے پھر فرمایا بیشک یہ مہینہ تمہارے کے دوسرے مہینوں کی طرح نہیں ہے۔ بیشک جب بھی یہ مہینہ تمہاری طرف آتا ہے تو برکت و رحمت لے کر آتا ہے اور جب یہ مہینہ تم سے واپس ہوتا ہے تو تمہارے گناہوں کو معاف کر کے جاتا ہے یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں نیکیاں اور دوہری ہوتی ہیں اور اعمال خیر اس میں قبول ہوتے ہیں جو کوئی اس ماہ میں خدا کی رضا کے لیے دو رکعت نماز نافلہ پڑھے گا تو خدا اس کو معاف کردے گا پھر فرمایا بدبخت

۶۱

ہے وہ بندہ کہ جو اس ماہ کو پائے اور اس کے گناہ معاف نہ ہوں یہاس کے لیے نقصان دہ ہے او ر اچھے کردار والے ہی اپنے رب کریم کے ہاں کامیاب ہوتے ہیں۔

۳ـ          امام صادق(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا ہے کہ جو بندہ شام کے وقت سو تکبیر ( اﷲاکبر) کہے وہ اس آدمی کی طرح ہوگا کہ جس نے ایک سو غلاموں کو آزاد کیا ہو۔

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جوکوئی ہر روز تین بار خدا کی تسبیح ( سبحان اﷲ) بیان کرے گا تو خدا اس سے ستر قسم کی بلاؤں کو دور کرے گا اور ان میں سے سب سے چھوٹی فقر ہے۔

جنابِ رسول خدا(ص) اور شیبہ ہذلی

۵ـ          ابوجعفر امام باقر(ع) نے فرمایا کہ ایک شخص رسول خدا(ص) کے پاس آیا جس کا نام شیبہ ہذلی تھا اس نے عرض کیا میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور نماز و روزہ و حج و جہاد کو ادا کرنےکے لیے طاقت نہیں رکھتا، یا رسول اﷲ(ص) مجھے ایسا کلام تعلیم کریں جو مختصر ہو حضرت(ص) نے فرمایا دوبارہ کہو اس نے دوبارہ کہا پھر فرمایا پھر کہو اس نے پھر کہا تو رسول اﷲ(ص) نے فرمایا، درخت، پتھر اور دریا سب ہی تیری ضعیفی پر اﷲ کی رحمت طلب کرنے کےلیے گریہ کرتے ہیں اور جب نمازِ صبح پڑھ لو تو دس بار کہو۔

”سبحان اﷲ العظيم و بحمده ولا حول ولاقوة الا باﷲ العلی العظيم“

” پاک ہے اﷲ جو عظیم ہے اور اسی کی حمد ہے اور کوئی بھی قوت و طاقت نہیں مگر صرف اﷲ کے لیے جو عظیم ہے“

بے شک خدا اس کے ذریعہ سے تجھے نا بینا پن دیوانگی، جزام، برص وفالج و فقرو غیرہ سے محفوظ رکھےگا اس نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) یہ تو دنیا کےلیے ہے آخرت کے لیے کیا ہے، فرمایا ہر نماز کے بعد یہ کہا کرو۔

” اللهم اهدنی من عندک واقض علی من فضلک وانشر علی من رحمتک وانزل علی من برکاتک“

”خدایا میری اپنی طرف سے راہنمایی کر اور اپنے فضل کا مجھ پر اضافہ کر اور اپنی رحمت کو

۶۲

مجھ پر نازل فرما“ آپ(ص) یہ کہتے جاتے تھے اور یہ مرد ہاتھوں کی انگلیوں سے اس کو گنتی کرتا جاتا تھا ایک شخص نے ابن عباس سے کہا یہ کیسا محکم عمل  ہے کہ جسے پیغمبر(ص) نے  فرمایا ہے اگر ان کلمات کی تلاوت جاری رکھی جائے اور ” عمدا“ اس کو ترک نہ کیا جائے تو بہشت کے آٹھ دروازے اس کے سامنے کھول دیئے جائیں گے کہ جس دروازے سے وہ چاہے  داخل بہشت ہوگا۔

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی اپنے روزے کو اچھی بات یا اچھے عمل سے ختم کرے گا تو خدا اس کے روزے کو قول کرے گا ان سے عرض کیا گیا یا ابن رسول اﷲ(ص)  گفتار صالح کیا ہے امام(ع) نے نے کہا یہ شہادت دینا خدا کی وحدانیت کی اور کردار صالح کا فطر ادا کرنا ہے۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی ہمیں اپنی مجالس میں عیب دار کرے یا ہمارے دشمن کی تعریف یا ہم سے قطع شدہ کو ہمارے ساتھ جوڑے اور ہمارے ساتھ جوڑے ہوؤں کو ہم سے قطع کرے یا ہمارے دشمنوں سے دوستی کرے اور ہمارے دوستوں سے دشمنی کرے وہ کافر ہے اور جان لےکہ اﷲ نے سبع مثانی اور قرآن عظیم کو نازل کیا ہے۔

۸ـ          امام صادق(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا ہے کہ رسول اﷲ(ص) نے فرمایا خوش قسمت ہے وہ بندہ جس کی عمر طولانی ہے اور اس کا کردار اور اس کی آخرت بہتر ہے اس لیے کی اس کا پروردگار اس سے راضی ہے اور اس بندہ پر  وائے ہو جس کی عمر طولانی ہے لیکن اس کی آخرت بری ہے کہ اس پر اس کا پروردگار غضب ناک ہے۔

۹ـ           امام صادق(ع) نے اپنے اجداد(ع) نے روایت کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا جس بندے کی جتنی بھی عمر باقی رہتی ہے اگر وہ احسن طریقے سے اس کا گزارے کا تو اس سے گذشتہ کے بارے میں مواخذہ نہ ہوگا اگر جتنی عمر اس کی باقی رہتی ہے بدکردار ہوگا تو اس کے اول سے لے کر آخر تک کے بارے میں مواخذہ کیا جائے گا۔

۱۰ـ          ابن عباس(رض) کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا علی(ع) میرا وصی اور خلیفہ ہے اور فاطمہ(س) کا شوہر ہے جو عالمین کی عورتوں کی سردار ہے وہ میری بیٹی ہے اور حسن اور حسین(ع) دونوں جوانانِ بہشت کے سردار ہیں یہ دونوں میرے فرزند ہیں اور جو کوئی ان کو دوست رکھتا ہے وہ مجھے دوست رکھتا ہے جو

۶۳

کوئی ان کو دشمن رکھتا ہے مجھے دشمن رکھتا ہے جو کوئی ان سے دوری رکھتا ہے اس نے مجھے سے دوری رکھی جو کوئی ان کے ساتھ جفا کرتا ہے اس نےمجھ سے جفا کی ہے اور جو کوئی ان کےساتھ اچھا سلوک کرتا ہے وہ میرے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور خدا اس کو خود سے دور  ہٹادے گا جو ان کی مدد کرے گا۔ خدا اس کی مدد کرے گا جو ان کو چھوڑدےگا خدا بھی اس کو چھوڑ دے گا اے میرے اﷲ جیسا تیرے انبیاء(ع) و رسول(ص) اور ان کا خاندان تیرے ثقل( زمین کے خزانے) ہیں اسی طرح علی(ع) و فاطمہ(س) و حسن(ع) و حسین(ع) میرے ثقل ہیں دور کر ان نجاست کو اور پاک رکھ ان کو جیسے پاک رکھنے کا حق ہے۔

۶۴

مجلس نمبر۱۴

(پانچ رمضان سنہ۳۶۷ ھ)

ماہ رمضان کی فضیلت

۱ـ           امام صادق(ع) جعفر بن محمد(ع) نے فرمایا بیشک اﷲ نے قرار دیا ہے کہ ماہ رمضان کی ہر رات میں آزاد ہونے والے اور رہا ہونے والے دوزخ سے رہائی پاتے ہیں مگر وہ لوگ جو نشہ آور چیز سے افطار کریں اس رحمت سے مستثنی ہیں اور شب آخر میں اسی گنتی سے جو کچھ اس (خدا) نے اس ماہ میں آزاد کیا میں نے اپنے بندے کو بھی آزاد کرے گا۔ ( یعنی اسے بندے کو اسی گنتی شمار سے رحمتیں اور نعمتیں عطا کرے گا۔)

۲ـ           ابو جعفر باقر(ع) نے فرمایا کہ جب ماہ رمضان آپہنچا اور شعبان کے تین دن باقی رہ گئے تو پیغمبر(ص) نے بلال کو حکم دیا کہ تم اعلان کرادو تا کہ لوگ جمع ہو جائیں، جب لوگ جمع ہوگئے تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اور حمد و ثناء پروردگار بیان کی پھر فرمایا اے لوگو! اب وہ مہینہ آرہا ہے جو تمام مہینوں کا سردار ہے اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس میں دوزخ کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور بہشت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں لہذا جو کوئی بھی اس ماہ کو پالے اور اس کی مغفرت نہ  ہوتو خدا اس کا نابود کردے گا اور جوکوئی اپنے ماں اور باپ کو پائے (یعنی والدین زندہ ہوں) اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوتو  اس کو خدا اپنے پاس سے بہت دور کردے گا اور جو کوئی میرا نام سنے اور مجھے پر درود نہ بھیجے تو خدا اس کو نیست و نابود کردےگا۔

۳ـ          ابن عباس(رض) کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) کا طریقہ یہ تھا کہ جب ماہ رمضان آجاتا تو ہر قیدی کو آزاد کردیتے اور ہر سوال کرنے والے کو عطا کرتے تھے۔

۴ـ          حسن(ع)بن علی(ع) کہتے ہیں میں نے رسول خدا(ص) نے عرض کیا بابا جان اس بندے کی جزا کیا ہے جو آپ(ص) کی زیارت کرے، فرمایا جو کوئی میری یا تیرے بھائی کی زیارت کرے وہ مجھ پر یہ حق

۶۵

رکھتا ہے کہ روز قیامت میں اس کی زیارت کروں یہاں تک کہ اس کے تمام گناہ ختم ہوجائیں۔

۵ـ          جنابِ ابو جعفر باقر(ع) نے فرمایا بیشک ہر چیز کی بہار ہے اور قرآن کی بہار ماہ رمضان ہے۔

۶ـ           امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا حافظ قرآن اور عامل قرآن کے ساتھ یہ قرآن ان کے سفر کا بہترین ساتھی ہوگا۔

فضائل قاری قرآن

۷ـ          جنابِ ابو جعفر باقر(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کی ہے ہے کہ رسول خد(ص) نے فرمایا جو کوئی ایک رات میں دس آیات کی قرائت کرے گا وہ غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا اور جو کوئی پچاس آیات کی تلاوت کرے گا تو وہ زائروں میں لکھا جائے گا جو کوئی سو آیات کی تلاوت کرے گا تو وہ عابدوں میں لکھا جائے گا جوکوئی دوسو  آیات پڑھے گا تو خاشعین میں لکھا جائے گا جو کوئی تین سو آیات پڑھے گا تو کامیابوں میں لکھا جائے گا  اور جوکوئی پانچ سو آیات پڑھے گا تو مجتہدوں میں لکھا جائے گا اور جو کوئی ہزار آیات پڑھے گا تو اس کے لیے ایک قنطار( گائے کا چمڑا جس میں سونا بھر دیاجائے) لکھا جائیگا اور ایک قنطار پچاس ہزار مثقال سونے کے برابر ہے اور ہر مثقال چوبیس قیراط کا ہے اور اس کا سب سے چھوٹا حصہ کوہ احد کے پہاڑ کے برابر ہے اور اس کا بڑا حصہ زمین و آسمان کے درمیان ہے۔

۸ـ جناب ابوجعفر باقر(ع) نے فرمایا جو کوئی وتر میں معوذتین اور قل ہواﷲ کو پڑھے گا تو اس سے کہا جائے گا اے بندہ خدا تجھے خوشخبری دی جاتی ہے کہ خدا نے تیرے وتر کو قبول کر لیا ہے۔

۹ـ           امام  صادق(ع) اپنے اجداد(ع) نے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی علم حاصل کرنے کے لیے سفر کرتا ہے تو خدا اسے بہشت کے راستے پر لے جاتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہو جائے کیونکہ فرشتے اپنے پروں کو طالبعلم کے لیے بچھا دیتے ہیں اور اسے پسند کرتے ہیں اور بیشک طالب علم کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں جو کچھ آسمان و زمین میں ہے یہاں تک کہ دریائی مچھلیاں بھی اس کے لیے مغفرت کرتی ہیں عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح

۶۶

 چودہویں کے چاند کی رات کو دیگر راتوں پر ہوتی ہے۔ اور بیشک علماء پیغمبروں کے وارث ہیں کیوں کہ پیغمبر علماء کے لیے درہم اور دینار کو وارثت میں نہیں دیتے بلکہ علم کو وراثت میں دیتے ہیں اور جو کوئی بھی ان سے حاصل کرے گا حصہ فراواں پائے گا۔

۱۰ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا ، میرے اجداد(ع) نے روایت کیا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا اہل دین کی مجلس دنیا و آخرت کا شرف ہے۔

۱۱ـ           جناب علی ابن موسی رضا(ع) نے فرمایا : میرے اجداد(ع) نے روایت کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نےفرمایا، اے علی(ع) تم میرے بھائی میرے وزیر میرے پرچم کو اٹھانے والے ہو دنیا و آخرت میں، اور تم صاحب حوض ہو جو کوئی تجھے دوست رکھتا ہے مجھے دوست رکھتا ہے اور جوکوئی تجھے دشمن رکھتا ہے وہ میرا دشمن ہے۔

۶۷

مجلس نمبر ۱۵

(آٹھ رمضان سنہ۳۶۷ھ)

مذمتِ شیطان

۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا میرے اجداد(ع) نے روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں کہ اگر تم لوگ اس پر عمل کرو شیطان تم سے اتنا دور ہوجائے گا۔ جتنا مشرق سے مغرب ہے انھوں نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اﷲ(ص)  آپ(ص) فرمایا روزہ شیطان کے منہ کو سیاہ کردیتا ہے اور صدقہ اس کی کمر توڑ دیتا ہے اور اﷲ سے محبت اور عمل صالح میں معاونت اس کی بیخ کنی کرتی ہے، استغفار اس کے دل کی رگیں کاٹ دیتا ہے۔ ہر شے کی زکوة ہے لہذا بدن کی زکوة روزہ ہے۔

۲ـ           امیرالمومنین (ع) نے فرمایا تم پر لازم ہے کہ ماہ رمضان میں کثرت سے استغفار اور دعا کرو کیونکہ دعا بلا کے دفع کرنے کا وسیلہ ہے اور استغفار تمہارے گناہوں کے ختم ہونے کا وسیلہ ہے۔

۳ـ          رسول خدا(ص) نے فرمایا بے شک اﷲ تعالی چھ باتوں کو میرے لیے برا رکھتا ہے اور  میں بھی اپنے اوصیاء ( جو میرے فرزندوں میں سے ہیں اور جو ان کی پیروی کرتے ہیں) کےلیے ان باتوں کو برا رکھتا ہوں، نماز کی حالت میں فضول کام کرنا۔ روزہ کی حالت میں عورت سے جماع کرنا، صدقہ دینے کے بعد احسان جتانا، جنابت کی حالت میں مساجد میں جانا، گھروں میں جاکر لوگوں کی تفتیش کرنا اور قبروں کے درمیان ہنسنا۔

۴ـ          جناب جعفر بن محمد صادق(ع) نے فرمایا ، مہیںوں کی تعداد اﷲ کے نزدیک بارہ ہے یہ کتاب خدا میں اس دن سے لکھا ہوا ہے جس دن آسمان و زمین پیدا ہوئے لہذا ان مہینوں میں روشن و افضل مہینہ خدا کا مہینہ ہے اور وہ ماہِ رمضان ہے اور ماہ رمضان کا قرآن کے ساتھ استقبال کرو۔( تکمیل قرآن شب قدر میں ہوئی ہے۔)

۶۸

۵ـ          جعفر بن غیاث کہتے ہیں میں نے امام جعفر صادق(ع) سے عرض کیا کہ مجھے بتائیں اس قول خدا کے بارے میں کہ ” یہ قرآن ماہ رمضان میں نازل ہوا“ جب کہ بیشک قرآن اول سے آخر تک بیس سال کی مدت میں نازل ہوا ہے امام نے فرمایا تمام قرآن ماہِ رمضان میں بیت المعمور پر نازل ہوا اور بیس سال کی مدت میں بیت المعمور سے نازل ہوا ہے۔

۶ـ           جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا یقینا میرے بدن کا ایک ٹکڑا سر زمین خراسان میں دفن ہوگا اور جو مومن اس کی زیارت کرے گا خدا بہشت کو اس پر واجب کرے گا اور اس کے بدن پر دوزخ حرام کرے گا۔

۷ـ          جنابِ ابوالحسن علی بن موسیٰ رضا(ع) نے فرمایا بیشک خراسان میں ایک بقعہ ہے جو آئیندہ زمانے میں فرشتوں کے آنے جانے کا مقام ہوگا گروہ در گروہ فرشتے آسمان سے نیچے آئیں گے اور گروہ در گروہ اوپر جائیں گے یہ صور پھونکے جانے تک ہوتا رہے گا ان سے عرض ہوا یاابن رسول اﷲ وہ کون سا بقعہ ہے، فرمایا، وہ سر زمین طوس ہے اور خدا کی وقسم وہ بہشت کے باغوں سے ایک باغ ہے جو کوئی اس بقعہ کی زیارت کرے گا وہ اس طرح کا بندہ ہوگا کہ اس نے رسول خدا(ص) کی زیارت کی ہے اور خدا اس کے لیے ہزار حج قبول شدہ اور ہزار عمرہ قبول شدہ کا ثواب لکھے گا میں اور میرے باپ دادا(ع) روز قیامت اس کے شفیع ہوں گے۔

۸ـ          عبدالسلام بن صالح ہروی کہتے ہیں میں نے امام رضا(ع) سے سنا کہ خدا کی قسم ہم آئمہ(ع) میں سے ہر کوئی مقتول اور شہید ہے میں نے ان سے عرض کیا یابن رسول اﷲ کیا آپ کو قتل کیا جائے گا فرمایا بدترین خلق خدا میرے زمانے میں مجھے زہر سے شہید کرے گا اور پھر مجھے غیر معروف گھر میں عالم غربت میں دفن کردے گا آگاہ ہو جاؤکہ جو کوئی میری عالم غربت میں زیارت کرے گا۔ تو خدا اس کے لیے سو ہزار ( ایک لاکھ) شہید اور سوہزار صدیق اور سو ہزار حج و عمرہ کا ثواب لکھے گا اور ایک لاکھ مجاہدوں کا ثواب عطا کرے گا اور وہ ہمارے گروہ میں محشور ہوگا اور جنت کے بلند درجات میں ہمارا رفیق ہوگا۔

۹ـ           ابو نصر بزنطی کہتے ہیں کہ میں نے کتابِ ابوالحسن رضا(ع) میں پڑھا کہ میرے شیعوں تک یہ

۶۹

بات پہنچا دو کہ میری زیارت کرنا خدا کے نزدیک ہزار حج کے برابر ہے میں نے امام نہم ( محمد تقی(ع)) سے عرض کیا کہ ہزار حج؟ فرمایا ہاں خدا کی قسم ہزار ہزار حج ہے اس بندہ کے لیے جو ان کی معرفت کے ساتھ ان کی زیارت کرے۔

۱۰ـ          ابوالحسن علی بن موسی رضا(ع) نے فرمایا کہ ایک شخص نے جوکہ اہل خراسان سے تھا مجھ سے کہا اے ابن رسول اﷲ میں نے رسول خدا(ص) کو خواب میں دیکھا کہ جیسے وہ مجھ سے فرمارہے ہیں کہ اس وقت تمہارا حال کیا ہوگا جب میرا ایک لخت جگر تمہاری زمین میں دفن ہوگا اور میرے بدن کی امانت تمہارے سپرد ہوگی اور تمہاری زمین میں میرا ستارہ غروب ہوجائے گا امام رضا(ع) نے فرمایا تمہاری زمین کا وہ مدفون میں ہوں اور میں تمہارے نبی(ص) کے بدن کا ٹکڑا ہوں میں ہی وہ امانت ہوں اور میں ہی ہوں وہ ستارہ، آگاہ رہو کہ جو شخص ہمارے اس حق( ولایت) کو پہچانتے ہوئے جو اﷲ کی طرف سے واجب ہے اور میری اطاعت کا دم بھرتے ہوئے میری قبر کی زیارت کرے گا میرے آبائے کرام(ع) روزِ قیامت اس کی شفاعت کرنے والے ہوں گے اور جس شخص کے ہم شفیع ہوں گے وہ نجات پائے گا اگرچہ اس کے گناہ جن وانس کی تعداد کے برابر ہی کیوں نہ ہوں سنو میرے والد(ع) نے اپنے والد(ع) سے انہوں نے اپنے والد(ع) سے انہوں نے اپنے والد(ع) سے روایت کیا ہے  کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی مجھے اپنے خواب میں دیکھے اس نے حقیقت میں مجھے دیکھا  ہے کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آسکتا اور نہ ہی میرے اوصیاء(ع) کی صورت میں آسکتا ہے اور نہ ہی ان اوصیاء(ع) کے شیعوں کی صورت میں آسکتا ہے بیشک سچا خواب نبوت کےستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔

جنابِ علی(ع) کی شہادت کی پیشگوئی

۱۱ـ           ابن عباس کہتے ہیں رسول خدا(ص) منبر پر تشریف لے گئے اور انہوں نے خطبہ پڑھا جب لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے تو فرمایا اے مومنین کے گروہ بیشک خدا نے مجھے وحی کی ہے کہ میں اپنی جان اﷲ کے حوالے کردوں میرے بعد میرے چچا کا بیٹا علی(ع) قتل کیاجائے گا اے لوگو میں تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ اگر تم نے اس  کے راستے کو اختیار کیا تو سلامت رہو گے اور اگر اس کو چھوڑ دیا تو

۷۰

ہلاک ہوجاؤ گے بیشک میرے چچا کا بیٹا علی(ع) میرا بھائی ، وزیر اور میرے خلیفہ ہے وہ میری طرف سے تبلیغ کرنے والا ہے اور متقیوں کا امام ہے وہ نورانی ہاتھوں اور نورانی چہرے والوں کا قائد ہے اگر اس سے ہدایت طلب کرو گے تو وہ تمہاری راہنمائی کرے گا اور اگر اس کی پیروی کرو گے تو تمہیں نجات دے گا اگر اس کی مخالفت کرو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے اور اگر اس کی اطاعت کرو گے تو سمجھو خدا کی اطاعت کی ہے اگر اس کی نافرمانی کرو گے تو سمجھو خدا کی نافرمانی کی ہے اور اگر اس کی بیعت کرو گے تو سمجھو خدا کی بیعت کی ہے اگر اس کی بیعت توڑ دو گے تو سمجھو خدا کی بیعت توڑ دی ہے بیشک خدا نے مجھ پر قرآن نازل کیا ہے اور یہ وہ ہے کہ جوبھی اس کی مخالفت کرے گا گمراہ ہوگا اور جوکوئی اپنےلیے علم کو علی(ع) کے علاوہ کسی اور سے طلب کرےگا ہلاک ہوگا اے لوگو میری بات سنو اور میری اس نصیحت کو پہچانو، تم میرے اہل بیت(ع) کی مخالفت نہ کرنا میرے بعد میرے اہل بیت(ع) کے ساتھ رہنا میں تمہیں ان کی حفاظت کا حکم دیتا ہوں تم میرے اس حکم پر عمل کرو کیوںکہ یہ میرا حوض، میرے حامی، میرے رشتہ دار، میرے بھائی اور میرے فرزند ہیں جب تم اکٹھے کیے جاؤ گے تو ثقلین کے بارے تم سے پوچھا جائے گا میں دیکھتا ہوں کہ تم میرے بعد ان کےساتھ کیا کروگے بیشک یہ میرے اہل بیت(ع) ہیں جو کوئی ان کو آزار دیتا ہے مجھے آزار دیتا ہے جو ان پر ستم کرے گا اس نے مجھ پر ستم کیا جو کوئی ان کو خوار کرے اس نے مجھے خوار کیا اور جو کوئی ان کو عزیز رکھتا ہے اس نے مجھے عزیز رکھا جو کوئی اپنے ہاتھ کو ان سے اٹھاتا ہے ( مدد نہیں کرتا) اس نے اپنے ہاتھ کو مجھ سے اٹھایا جس نے ان کے علاوہ کسی اور سے ہدایت طلب کی اس نے میری تکذیب کی اے لوگو! اﷲ سے ڈرو اور غور کرو کہ میں نے تم سے کیا کہا ہے جس وقت تم خدا سے ملاقات کرو گے تو میں ہر اس بندے کا دشمن ہوں گا کہ جس نے ان کو آزار دیا ہوگا اور جس کا میں دشمن ہوں گا اس کو مغلوب بنادوں گا یہ بات میں نے تم سے بیان کردی ہے میں خدا سے اپنے اور تمہارے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں۔

۷۱

مجلس نمبر۱۶

( بارہ رمضان سنہ۳۶۷ھ)

صبرکا ثواب

۱ـ           انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ عثمان بن مظنون کا بیٹا مرگیا اور اس پر غم چھا گیا اس کے گھر میں لوگ اس طرح جمع ہوگئے جیسے مسجد میں عبادت کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں یہ خبر رسول خدا(ص) یہ خبر رسول خدا (ص) کو پہنچی تو رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا اے عثمان بیشک اﷲ تعالی نے ہم پر رہبانیت اور ترک دنیا کو نہیں لکھا ہے بیشک میری امت کی رہبانیت اﷲ کی راہ میں جہاد ہے اے عثمان بن مظنون بہشت کے آٹھ دروازے ہیں اور دوزخ کے سات دروازے ہیں کیا یہ خوشی کی بات نہیں کہ بہشت کے ہر دروازے سے تیرا بیٹا آئےگا وہ تیرے پہلو میں ہوگا اور تیرا دامن پکڑے ہوئے خدا کی بارگاہ میں تم سے شفاعت طلب کرے گا کہا کیوں نہیں یا رسول اﷲ(ص)  مسلمان کہنے لگے یا رسول اﷲ(ص)  کیا ہم بھی اپنے گزرے ہوؤں کی موت میں عثمان جیسے اجر کو رکھتے ہیں؟ فرمایا یہاں جو بھی تم میں سے صبر کرے اور اپنے حساب کو خدا پر چھوڑ دے اس کے لیے ایسا ہی ہے پھر فرمایا اے عثمان جو کوئی نماز صبح کو باجماعت ادا کرے گا اور پھر بیٹھ کر ذکرِ خدا کرے گا یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے تو اس کے لیے فردوس میں ستر درجے ہوں گے کہ ان کے درمیان بہ اندازہ ستر سال پتلی کمر والے نجیب النسل گھوڑوں کے دوڑنے کے برابر فاصلہ ہے اور جو کوئی نمازِ ظہر کو باجماعت پڑھے گا تو اس کے لیے جنت عدن میں پچاس درجے ہوں گے کہ ہر ایک کا دوسرے سے فاصلہ پچاس سال گھوڑا دوڑنے کے برابر ہے اور جو کوئی نماز عصر کو با جماعت ادا کرے گا تو اسے اولاد اسماعیل(ع) کے آٹھ قیدیوں کو آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا چاہے اس کا کوئی خاندان نہ بھی ہو۔ ( یعنی اگر خاندان رکھتا ہوگا مثلا بیوی، اولاد، بھائی، بہن وغیرہ تو وہ بھی اس ثواب میں شریک ہوں گے۔) اور جوکوئی نمازِ مغرب کو با جماعت پڑھے گا تو اس کا ثواب ایک حج مبرور اور عمرہ مقبول کے

۷۲

برابر ملے گا اور جو کوئی نماز عشاء کو باجماعت پڑھے گا تو شب قدر کے قیام کے برابر ثواب پائے گا۔

سخائیل فرشتہ

۲ـ           ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا خدا کا ایک فرشتہ جس کا نام سخائیل ہے وہ ہر نماز کے وقت نماز گزاروں کے لیے خدا رب العالمین سے برائت طلب کرتا ہے صبح کے وقت جو مومنین اٹھتے اور وضو کرتے ہیں اور نماز فجر ادا کرتے ہیں۔ سخائیل خدا سے ان کے لیے برائت نامہ لیتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ میں خدا ہوں اور تم میرے بندے اورری کنیزیں ہو اور میں تمہیں اپنی پناہ میں رکھے  ہوئے ہوں، میں نے تمہیں اپنے زیر سایہ کیا ہوا ہے مجھے اپنی عزت کی قسم میں تم سے  جدا نہیں ہوں گا میں نے تمہارے گناہ معاف کردیئے، پھر یہاں تک کہ ظہر ہوجاتی ہے اور جب مومنین ظہر کے لیے اٹھتے ہیں اور وضو کرتے اور نماز بجالاتے ہیں تو برائت دوم خدا سے ان کےلیے لیتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ میں طاقتور خدا ہوں تم میرے بندے اور کنیزیں ہو میں نے تمہاری برائیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کردیا ہے تمہارے گناہوں کو معاف کردیا ہے اور میں تمہیں اپنے جلال میں داخل کردیا ہے پھر عصر کے وقت مومنین جب وضو کر کے نماز پڑھتے ہیں تو تیسری برائت کو خدا سے ان کے لیے لیتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ میں خدائے جلیل ہوں اور عظیم سلطان ہوں تم میرے بندے اور کنیزیں ہو اور اپنی رحمت سےمیں نے شرکو تم سے دور کردیا اور مومن جب نماز مغرب کو ادا کرتا ہے تو خدا سے چوتھی برائت ملتی ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ میں خدائے جبار و کبیر متعال ہوں اور یہ میرے بندے اور کنیزیں ہیں میرے فرشتے میری رضا سے اوپر آتے ہیں اور تمہارا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں تم کو خشنود کروں اور روزِ قیامت تمہاری آرزو کو پورا کروں، پھر جب مومن عشا کے وقت وضو کر کے نماز بجالاتا ہے تو برائت پنجم خدا کی  طرف سے ان کے لیے ملتی ہے اس میں لکھا ہوتا ہے کہ بےشک میں ہی خدا ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں اور پروردگار میرے سوا کوئی نہیں یہ سب میرے بندے اور میری کنیزیں ہیں، تمہارے گھروں میں تمہاری تطہیر کردی گئی، اب تم میرے گھر میں آئے ہو اور میرے ذکر میں شامل ہوگئے ہو، تم نے

۷۳

میرے حق کو پہچانا ہے اور میرے فرائض کو اداکیا ہے میں تمہیں گواہ کرتا ہوں اے سخائیل دوسرے فرشتوں کے ساتھ کہ میں ان(مومنین) سے راضی ہوں۔رسول خدا(ص) فرماتے ہیں کہ سخائیل ہر شب نماز عشاء کے بعد تین دفعہ ندا کرتا ہے کہ اے خدا کے فرشتو بیشک خدا نماز ادا کرنے والوں کی تمام خطائیں معاف کرتا ہے لہذا اس عمل کے ساتھ دعا کرو کہ جو بندہ اور جو کنیز خدا نمازِ شب کو ادا کرے خدا کے لیے روئے اخلاص و وضو کامل کے ساتھ تو خدا اس کی نیت درست، دل سالم، تنِ خاشع اور چشم گریاں کے ساتھ ادا کی گئی نماز کو قبول کرے گا اور خدا اس کے پیچھے ملائکہ کی نو(۹)صفیں قائم کرے گا کہ گنتی ہر صف کی خدا کے سوائے کوئی نہیں جانتا اس صف کا ایک سرا مشرق تک ہوگا اور دوسرا سرا مغرب تک اور جب وہ مومن فارغ ہوگا تو  ان فرشتوں کی تعداد کے برابر درجات اس مومن کے لیے لکھے جائیں گے منصور ایک راوی حدیث کہتا ہے کہ جب ربیع بن بدر نے اس حدیث کو نقل کیا تو کہا اے غافل تم کہاں ہو اس کرم الہی کے پانے سے اور تم کہاں ہوں اس رات کے قیام کو پانے سے یہ ثواب جزیل ہے، کرامت ہے۔

ولی عہدی امام علی رضا(ع)

۳ـابوصلت ہروی(رض) کہتے ہیں کہ ماموں رشید نے حضرت علی بن موسی رضا(ع) سے کہا کہ اے فرزندِ رسول(ص) میں آپکے علم و فضل، زہد و تقوی اور آپ کی عبادت کا معترف ہوگیا ہوں اور میری رائے میں آپ مجھ سے زیادہ اس خلافت کے حق دار ہیں، حضرت نے فرمایا میں اﷲ کی عبادت پر فخر کرتا ہوں اور اپنے زہد سے امید نجات رکھتا ہوں ہ دنیا کے شر سے محفوظ رہوں گا، تقوی و ورع کی وجہ سے محرمات سے احتراز کو میں بڑی کامیابی سمجھتا ہوں اور تواضع سے دنیا میں امید رفعت و بلندی رکھتا ہوں اور خدا کی  درگاہ میں مجھے اس کی امید ہے مامون نے کہا میں یہ خیال رکھتا ہوں کہ خود کو خلافت سے سبک دوش کردوں اور اس خلافت کو آپکے حوالے کردوں اور آپکی بیعت کروں امام رضا(ع)  نے فرمایا اگر یہ خلافت تیرا حق ہے اور پھر خدا نے تجھے دی ہے تو یہ جائز نہیں کہ جو خلعتِ خلافت خدا نے تم کو پہنایا ہے تم اس کو اتار کر کسی دوسرے کو پہنا دو یہ خلافت تم سے نہیں ہے اور یہ جائز نہیں کہ جو چیز تمہاری نہیں ہے تم وہ مجھے بخش دو مامون نے کہا یا ابن رسول اﷲ(ص)تمہیں

۷۴

یہ خلافت چار و ناچار قبول کرنی ہی پڑے گی امام رضا(ع) نے فرمایا زبردستی کی اور بات ہے ورنہ اپنی خوشی سے تو میں اسے کبھی بھی قبول نہ کرونگا، مامون کچھ دنوں تک اصرار کرتا رہا آخر جب نا امید ہوا کہ وہ قبول نہیں کرتے تو کہا کہ اگر آپ خلافت قبول نہیں کرتے اور آپ کو یہ پسند نہیں کہ میں آپ کی بیعت کروں تو آپ میرے ولی عہد بن جائیں تاکہ میرے بعد یہ خلافت آپ کو مل جائے امام رضا(ع) نے فرمایا خدا کی قسم میرے والد(ع) نے اپنے آباء(ع) سے روایت کی ہے کہ امیر المومنین(ع)  نے فرمایا کہ رسول خدا(ص) کا ارشاد ہے کہ میں تجھ (مامون) سے پہلے زہر کے ذریعے قتل ہوکر اس دنیا سے کوچ کرجاؤںگا مظلومانہ طور پر اور آسمان و زمین کے فرشتے مجھ پر گریہ کریںگے اور عالم غربت میں میں ہارون رشید کے پہلو میں دفن کیا جاؤں گا، یہ سن کر مامون رونے  لگا اور کہنے لگا فرزند رسول(ص) جب تک میں زندہ ہوں کس کی یہ جرائت ہے کہ آپ(ع) کو قتل کرے اور کس کی یہ جرائت ہے کہ آپکے ساتھ برائی کا ارادہ کرے امام رضا(ع) نے کہا اگر میں چاہوں تو یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ کون مجھے قتل کرے گا، مامون نے کہا اے فرزند رسول(ص) یہ باتین کہنے سے آپکا مقصد یہ ہے کہ آپ بارِ خلافت اٹھانا نہیں چاہتے اور یہ خلافت قبول نہیں کرنا چاہتے تاکہ لوگ یہ کہیں کہ آپ(ع) زاہد ہیں، امام رضا(ع) نے فرمایا سنو خدا کی قسم جب میرے رب نے مجھے پیدا کیا ہے میں نےآج تک کبھی جھوٹ نہیں کہا ہے، مامون نےکہا اچھا تو پھر بتائیے کہ خلافت پیش کرنے کا میرا مقصد کیا ہے فرمایا اگرمیں سچ کہوں تو مجھے جان کی امان ہے۔؟ اس نے کہا، امان ہے، فرمایا تیرا مقصد اس سے یہ ہے کہ لوگ یہ کہیں کہ علی بن موسی رضا(ع) خود زاہد نہ تھے بلکہ دنیا ان کی طرف سے بے رغبت تھی اور جب خلافت کے لالچ میں ولی عہد ملی تو انھوں نے قبول کرلی، یہ سن کر مامون کو غصہ آگیا اور کہا تم ہمیشہ میرے بارے میں ایسی ہی باتیں کرتے ہو جو مجھے ناپسند ہوتی ہیں یہ میری ڈھیل اور رعایت کا نتیجہ ہے خدا کی قسم اگر تم نے ولی عہدی قبول نہ کی تو میں مجبور کردوں گا کہ اسے قبول کرو اور اگر پھر بھی قبول نہ کی تو آپکی گردن اڑادوں گا، امام رضا(ع) نے فرمایا خدا نے مجھے  حکم دیا ہے کہ میں اپنے آپکو ہلاکت میں نہ گراؤں لہذا اگر یہ بات ہے تو تیرا جو دل چاہے وہ کر اسے قبول کرلوںگا مگر اس شرط پر کہ نہ میں کسی کو مقرر کروں گا اور نہ کسی کو معزول کروں گا اور نہ کوئی دستور اور نہ کوئی قانون منسوخ کروں گا اور دور ہی دور سے خلافت کے بارے میں تجھے مشورہ دیتا رہوں گا مامون اس پر راضی ہوگیا اور آپ(ع) کو نہ چاہنے کے باوجود ولی عہد بنا دیا گیا۔

۷۵

مجلس نمبر ۱۷

(پندرہ رمضان سنہ۳۶۷ھ)

۱ـ           امام صادق(ع) جعفر بن محمد(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا ہے جنابِ علی ابن ابی طالب(ع) نے فرمایا کہ چند فقراء رسول خدا(ص) کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اﷲ(ص) امیر لوگ یہ استطاعت رکھتے ہیں کہ کسی غلام کو آزا کرادیں مگر ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے وہ حج کرنے کی استاعت رکھتے ہیں لیکن ہم نہیں رکھتے وہ صدقہ دے سکتے ہیں مگر ہم اس سے قاصر وہ جہاد کی طاقت رکھتے ہیں اور ہم نہیں رکھتے، آپ(ص) نے فرمایا جو کوئی سور بار اﷲ اکبر کہے تو یہ غلاموں کو آزاد کرنے سے بہتر ہے اور جو کوئی سوبار اﷲ کی تسبیح( سبحان اﷲ) کرے تو یہ سو اونٹوں کی قربانی سے بہتر ہے۔ جو کوئی سو دفعہ خدا کی حمد( الحمد ﷲ) کرے تو یہ سو گھوڑوں کو زین ولگام کے ساتھ آراستہ کر کے خدا کی راہ میں جہاد کےلیے وقف کرنے سے بہتر ہے اور جو کوئی سو بار” لا الہ الا اﷲ) کہے تو اس دن کا اس کا کردار تمام لوگوں سے بہتر ہوگا مگر یہ کہ  کوئی بندہ اس سے زیادہ ذکر کرے جب یہ خبر امیروں کو پہنچی اور انہوں نے بھی عمل کیا تو فقرا پھر پیغمبر(ص) کے پاس واپس آئے اور کہنے لگے یا رسول اﷲ(ص) جس بات کا آپ(ص) نے ہمیں حکم دیا ہے وہ امیروں کو بھی پہنچ گئی ہے اور وہ اس کا ورد کرتے ہیں آپ(ص) نے فرمایا یہ خدا کا فضل ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔

اسم محمد(ص)

۲ـ           ابوجعفر امام محمد باقر(ع) نے فرمایا یا رسول اﷲ(ص) خدا کا نام صحفِ ابراہیم(ع) میں ماحی ہے توریت موسی(ع) میں احید انجیل عیسی(ع) میں احمد(ص) اور فرقان میں محمد(ص) ہے پھر فرمایا کہ ماحی کا مطلب اوثان و ازلام اور دیگر بتوں کو ختم کرنے والا ہے۔ لائق عبادت صرف خدائے واحد ہے۔ جب آپ(ص) (امام باقر(ع)) سے پوچھا گیا کہ احید(ص) کے کیا معنی ہیں تو فرمایا کہ ہر اس بندے کے ساتھ مبارزہ کرنے والا جو خدا اور (خدا) اس کے دین کا مذاق اڑئے یا شرک کرے پھر پوچھا گیا کہ احمد(ص) کے بارے میں

۷۶

وضاحت کریں تو آپ(ع) نے فرمایا احمد(ص) سے مراد وہ ہے کہ جسے تمام کتابوں میں تعریف سے بیان کیا گیا ہو پھر دریافت کیا گیا کہ محمد(ص) کے کیا معنی ہیں تو فرمایا وہ کہ جس کی خدا اور ملائکہ، اس کے تمام پیغمبر و رسول اور ان کی امتیں تمجید کریں اور درود بھیجیں۔ آپ(ص) کا نام عرش پر محمد رسول اﷲ(ص) لکھا ہوا ہے۔ حدیث دیگر میں آںحضرت(ص) کی اشیاء مبارکہ کی تفصیل کچھ یوں ہے آپ(ص) یمنی ٹوپی اوڑھا کرتے اور دورانِ جنگ دو کانوں والی ٹوپی سے سر ڈھانپا کرتے تھے جو کہ” مغربہ“ کہلاتی تھی۔ عیدیں کے دوران بھی سر مبارک پر ٹوپی اور ہاتھ میں عصا ہوتا تھا او عشانوں پر چادر، آپ(ص) دو عدد گھوڑے بھی رکھتے تھے جب کے نام مرتجز اور سکب تھے اس کے علاوہ دو عدد خچر بنام ” دلدل اور شہبا“ بھی ملکیت میں تھے آپ(ص) کے پاس دو عدد اونٹنیاں تھیں جن کا نام غضباء اور جذعاء تھا۔ آپ(ص) کے پاس چار تلواریں تھیں جن کے نام مجذم، رسوم، عون اور ذوالفقار تھے۔  ایک عددد گدھا بھی رکھتے تھے جس کا نام یعفور تھا آپ(ص) کے عمامے کا نام سحاب تھا۔ زرہ مبارکہ  جو کہ ذاتِ الففول نامی تھی کے تین عدد حلقے تھے جو کہ چاندی کے تھے ایک حلقہ سامنے اور دو پیچھے کیطرف تھے آپ(ص) کے علم کا نام عقاب تھا جو دیباج کا بنا ہوا تھا جس کو دو اونٹ اٹھایا کرتے تھے۔ ی تمما اشیاء بارکہ آپ(ص) نے بوقت وصال جنابِ امیر المومنین(ع) کو دے دیں تھی۔ نیز اپنی انگوٹھی اپنے ہاتھ سے اتار کر جنابِ امیر کی انگلی میں ڈال دی تھی۔ جنابِ امیر(ع) فرماتے ہیں کہ آںحضرت(ص)  کی ایک تلوار کے قائمہ میں سے مجھے ایک صحیفہ ملا جس میں بے شمار علوم تھے اس میں یہ تین باتیں بھی درج تھیں۔۱ـ        ہمیشہ سچ کہو بے شک تمہیں اس سے کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔۲ـ     جو بھی تم سے بدی کرے اس کا جواب اچھائی سے دو۔۳ـ         اور جو تم سے قطع تعلق کرے اس کے ساتھ تعلق قائم کرو۔

حدیثِ دیگر میں رسول خدا(ص)  نے فرمایا پانچ باتیں میں موت آنے تک ترک نہیں کروں گا۔(۱) غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا (۲) جانور کی برہنہ پشت پر سواری (۳) اپنے ہاتھ سے جوتیاں ٹانکنا اور (۴) بچوں کو سلام کرنا، تاکہ یہ طریقہ میرے بعد قائم رہے۔

۳ـ ریان بن صلت کہتے ہیں میں امام رضا(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے ان سے

۷۷

 عرض کیا کہ اے فزند رسول(ص) لوگ کہتے ہیں کہ آپ(ع) نے ولی عہدی قبول کرلی ہے؟ آںحضرت(ع) نے فرمایا اﷲ بہتر جانتا ہے کہ میں نے اس کو ناپسندیدگی کے ساتھ قبول کیا ہے کہ جب مجھ سے کہا گیا کہ یا تو میں اسے قبول کروں یا اپنا قتل ہونا تو میں نے اپنے قتل ہونے کے بدلے میں ولی عہدی کو قبول کر لیا اور مجھے لوگوں پر بے حد افسوس ہے کیا وہ نہیں جانتے ہیں کہ یوسف(ع) پیغمبرو نبی و رسول تھے مگر جب ضرورت نے مجبور کیا کہ عزیز مصر کے خزانہ دار( خزانچی) بن جائیں تو انہوں نے کہا تھا۔ کہ زمین کے خزانوں کومیرے حوالے کردو میں ان کی حفاظت کروں گا اور میں جانتا ہوں کہ ان کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے لہذا میں نے بھی اسی طرح مجبور ہو کر اسے قبول کیا کیوں کہ مجھ پر اتنا جبر کیا گیا کہ ہلاکت سامنے نظر آرہی تھی لہذا میں نے اسے اس طرح قبول کیا کہ مجھے اس سے کوئی سروکار نہ ہوگا میں اﷲ سے فریاد کرتاہوں اور وہی میری مدد کرنے والا ہے۔

۴ـ          علی بن حسن بن علی بن فضال کہتے ہیں کہ امام رضا(ع) نے فرمایا جو کوئی ہماری مصیبت کو یاد کرے اور اس پر گریہ کرے گا تو روزِ قیامت ہمارے ساتھ درجہ میں ہوگا اور جو کوئی بھی ہماری مصیبت کو یاد کر کے روئے اور دوسروں کو رلائے تو اس کی آنکھیں اس دن نہ روئیں گی کہ جس دن باقی سب آنکھیں رویی ہوں گی اور جو شخص کسی ایسی مجلس میں بیٹھ کر کہ جس میں ہامرے امر کو زندہ کیا جاتا ہے زندہ کرے گا تو اس دن اس کا دل مردہ نہ ہوگا کہ جس دن باقی لوگوں کےدل مردہ ہوں گے امام رضا(ع) نے فرمایا قول خدا ہے کہ ” اگر بہتر کرو تو تمہارے لیے بہتر ہے اور برا کرو تو یہ تمہاری طرف سے ہے اگر بہتر (اچھا) کرو تو تمہیں اچھائی ملے گی اگر برا کرو گے تو تمہارا خدا تمہیں معاف کرے گا چشم پوشی کرو بہتر چشم پوشی“ پھر آپ(ع)  نے فرمایا عفو غیر عتاب سے ہے  اور قول خدا ہے کہ ” تم کو ڈرانے کے لیے اور امیدوار کرنے کے لیے بجلی دکھلاتا ہے۔(روم، ۲۴) پھر فرمایا خوف مسافر کی نسبت سے اور امید مقیم ہونے کی نسبت سے ہے جو کوئی اپنے گناہوں کے کفارے کی طاقت نہیں رکھتا تو بہت زیادہ محمدو آل محمد(ص) پر درود بھیجے تاکہ اس کے گناہوں کو ختم کردیا جائے اور صلوات بر محمد و آل محمد(ص) ، خدا کے نزدیک تسبیح و تہلیل و تکبیر کے برابر ہے۔

۷۸

معاویہ اور عمرو العاص

۵ـ          عدی بن ارطات کہتا ہے کہ ایک دن معاویہ نے عمرو بن عاص سے کہا اے ابو عبداﷲ ہم میں سے زیادہ عقل مند اور زیادہ سیاست دان کون ہے عمرو نے کہا۔ ”مردیہہ“ جب کہ تم چالباز ہو معاویہ نے کہا اگر چہ تو نے میرے فائدہ میں بات کی مگر میں بدیہہ ( لفاظی) میں بھی تم سے زیادہ عبور رکھتا ہوں عمرو نے کہا تیری یہ عقلمندی تحکیم کے دن کہاں تھی معاویہ نے کہا اس معاملے میں مجھ پر غلبہ پایالیکن ابھی میں چاہتا ہوں۔کہ جو بات میں تجھ سے پوچھوں تو اس کا جواب سچ سچ دے عمرو نے کہا پوچھ معاویہ نے کہا کہ بتا جس دن سے تو میرے ساتھ شامل ہوا ہے کس کس کے ساتھ دھوکا کیا ہے عمرو نے کہا چونکہ تو نےعہد لیا ہے تو سن اور یاد کر وہ دن جب علی(ع) سے مجھے میدان میں طلب کیا تھا (تحکیم دورانِ جنگ صفین) تو میں نے میدان میں جانے سے پہلے تجھ سے مشورہ کیا تھا۔ اور رائے طلب کی تھیتو نے مجھے کہا تھا کہ ہوشیار رہنا اسکا ہمسر کریم ہے تو اسے اچھی طرح جانتا ہے لہذا جب میں (عمرو) میدان میں گیا تو میں نے اس کے ساتھ دھوکا کیا۔ پھر جب علی(ع) نے مبارزہ طلبی کی اور کہا تھا کہ آؤ ہم دونوں فیصلہ کر لیں یا میں شہید ہو جاؤں یا تو مارا جائے، یا تو اپنے شرف کو زیادہ کرے یا میں اپنے شرف کو زیادہ کرلوں یا تو اپنی سلطنت میں بے رقیب ہو جا یا میں آ جا کہ ہم آپس میں فیصلہ کرلیں تو تب میں نے دھوکا دیا تھا معاویہ نے کہا خدا کی قسم یہ دوسرا دھوکا پہلے سے بھی بدتر تھا میں جانتا تھا کہ اگر میں قتل ہو جاؤں تو بھی دوزخ میں جاؤں گا اور اگر وہ قتل ہو جائے تو بھی ہی دوزخ میں جاؤں گا عمرو نے معاویہ سے کہا تو نے علی(ع) سے جنگ کیوں مول لی معاویہ نے کہا یہ راز کی بات ہے اسے کسی سے نہ کہنا میں نے علی(ع) سے اس عظیم سلطنت کو حاصل کرنے کے لیے جنگ کی۔

۶ـ           رسول خداص(ص) نے فرمایا جو کوئی میرے دین کو قائم رکھتا ہے اورمیرے راستے پر چلتا ہے اور میرے قانون کا پیرو کار ہے اسے چاہیے کہ وہ فضیلتِ ائمہ اہل بیت(ع) کا معترف ہو، دیگر امتوں کی نسبت اس امت میں ان کی مثال باب حطہ کی سی ہے جس طرح اسرائیل میں باب حطہ تھا۔

۷۹

۷ـ          جابر جعفی بیان کرتے ہیں کہ امام باقر(ع) نے فرمایا کہ خدا نےجنابِ رسول خدا(ص) کو وحی کی کہ میں جعفر بن ابی طالب کو اس کی چار خصلتوں کی وجہ سے عزیز رکھتا ہوں۔

اس وحی کے بعد جنابِ رسول خدا(ص) نے جنابِ جعفر بن ابی طالب(ع) کو طلب کیا اور  ان سے ان کی چار خصلتوں کے بارے میں دریافت کیا۔

جعفر(ع) نے  عرض کیا کہ یا رسول اﷲ(ص) اگر آپ کوخدا نے اس کی اطلاع نہ دی ہوتی تو میں اپنی یہ خصلتیںآپ(ص) سے بیان نہ کرتا۔

اول : میں نےکبھی شراب نہیں پی کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ یہ عقلوں کو فاسد و زائل کرتی ہے۔

دوم : میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ جھوٹ مروت کو  ختم کرتا ہے۔

سوئم : میں نے کبھی زنا نہیں کیا کیوںکہ میں جانتا ہوں کہ یہ عمل میرے ساتھ  بھی دہرایا جاسکتا ہے۔

چہارم : میں نے کبھی بتوں کی پوجا نہیں کی کیونکہ میں جانتا ہوں کہ نہ تو یہ کسی کو نفع پہنچان سکتے ہیں اور نہ ہی نقصان۔ جنابِ رسول خدا(ص) نے یہ سنا تو جنابِ جعفر(ع) کے کندھے کو تھپتھپا کر فرمایا۔خدا نے تیرے لیے دو پروں کا انعام مقرر فرمایا ہے جن کے ذریعے تو جنت میں فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرئے گا۔

۸۰