مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 297220
ڈاؤنلوڈ: 7465

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 297220 / ڈاؤنلوڈ: 7465
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مجالس صدوق

(ترجمہ امالی شیخ صدوق)

تالیف

الشیخ الصدوق بن بابویہ

ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین القمی

متوفی سال ۳۸۱ہجری

ناشر

ادارہ تعلیم وتربیت لاہور

۱

پیش لفظ

زیر نظر کتاب مجالس صدوق(رح). جناب ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن بابویہقمیعلیہرحمہ کی شہرہ آفاق کتاب ”امالی“ کا اردو ترجمہ ہے  یہ کتاب ۹۷مجالس کا مجموعہ ہےجن میں احادیث و واقعات اور پند و نصائح کا ایک بڑا اور نادر و نایاب ذخیرہ موجود ہے  جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہے یہ جناب صدوق(رح) کی ذاتی قلمی نصنیف نہیں بلکہ ان کے اس فن خطابت کا حاصل ہے جس کا اظہار انہوں نے مختلف مقامات اور مختلف اوقات و مواقع پر کیا اور جسے بعد میں جمع کرکے کتابی شکل دیدی گئی۔

دوران ترجمہ راقم الحروف کے مشاہدے میں آیا کہ ان ۹۷ مجالس کی تواریخ کے اندراج کے ساتھ ایام کی مطابقت نہیں ہے مثال کے طور پر اگر کسی مجلس کا بیان کردہ دن جمعہ تحریر کیا گیا ہے تو فورا بعد کی مجلس جو چار دن بعد برپا کی گئی کی تاریخ کا یوم بھی جمعہ ہی تحریر کردیا گیا اور اس تضاد کو دور کرنے کا خاطر کسی قسم کی سعی نہیں کی گئی۔ ان تمام مجالس میں چند ایک طوس۔ نیشاپور اور کربلا جیسے مقامات پر برپا کی گئیں اسی طرح اگر کربلا کے مقام پر برپا ہونے والی دو مجالس (مجلس ۳۰ اور ۳۱) کے مضامین پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان دونوں مجالس میں سے ایک مجلس صبح کے وقت جب کہ دوسری شام کے وقت پڑھی گئی اور مجلس نمبر۹۳ خالصتا دوران سفر اور عجلت میں بیان کی گئی ہے لہذا ان تمام عوامل نے راقم الحروف کے اس استنباط کو تقویت بخشی کہ یہ کتاب صرف جناب صدوق(رح) کے شاگروں اور ان کے حلقہ درس سے مستقل فیض پانے والے افراد نے ہی براہ راست جناب شیخ سے املاء نہیں کی بلکہ اس کے اجزاء عامتہ الناس سے بھی اکٹھے کرنے کے بعد ضبط تحریر میں لاکر اسے کتابی صورت دی گئی کیونکہ اگر جناب صدوق(رح) کا کوئی ایک شاگرد یا ان کے گرد جمع شدہ افراد کا ایک مخصوص

۲

 گروہ اس کتاب کو مکمل طور پر مرتب کرتا تو ایام و تواریخ کا تضاد نہ ہوتا۔ بصورت دیگر اس بات کا امکان بھی کم ہی دیکھائی دیتا ہے کہ جناب صدوق(رح) کے ہمراہ چند مخصوص لوگ دوران سفر کتاب کی املاء ساتھ ہی ساتھ بروقت کرتے رہے ہوں اس موقع پر میں قارئین کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا  ہوں کہ ایام تواریخ کے اس تضاد کے پیش نظر میں نے اس اردو ترجمے میں مجالس کے ایام تحریر کرنے سے گریز کیا ہے اور صرف اندراج تواریخ پر ہی اکتفا کیا ہے۔

اس کتاب کا ایک بڑا حصہ احادیث پر مشتمل ہے جناب صدوق(رح) جہاں دلیل و مناظرہ کے میدان کے شہہ سوار ہیںوہیں حدیث بیان کرنے کےسلسلے میں بھی امتیازی حیثیت رکھتے ہیں اور بذات خود ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں جناب صدوق(رح) کو اگر راہنمائے فقہا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مذہب امامیہ کی چار بڑی اور بنیادی کتب احادیث میں سے ایک ( من لا یحضرہ الفقیہ) جناب صدوق(رح) ہی کی تالیف ہے جناب صدوق(رح) کی تصانیف کا درست شمار ممکن نہیں کیونکہ امتداد زمانہ نے جہاں دیگر علمی شہہ پاروں کو ضائع کردیا وہاں جناب صدوق(رح)  کی تصانیف بھی زمانے کی دست برد سے محفوظ نہیں رہ سکیں اور اب صرف چند دستیاب شدہ کتب کے سوا شیخ کی تصانیف کا تذکرہ کتابوں اور فہرستوں میں ہی ملتا ہے۔

ابن ندیم وراق اپنی کتاب ” الفہرست“ میں جناب صدوق(رح) کی تین سو تصانیف شمار کرنے کے بعد ۴۰ سے زائد کے نام بیان کرتا ہے۔

شیخ طوسی(رح) اپنی فہرست میں جناب صدوق(رح) کی تین سو تصانیف شمار کرنے کے بعد تقریبا ۴۰ کے نام بیان کرتے ہیں۔

۳

علامہ حلی(رح) نےبھی جناب صدوق(رح) کی تین سو تصانیف شمار کی ہیں۔

شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری(رح)۔ رجال نجاشی کے حوالے سے اپنی کتاب” مجالس المومنین“ میں شیخ صدوق(ح) کی تصانیف کی تعداد تین سو کے قریب بیان کرتے ہیں اور ۲۰۳ کتب و رسائل کے نام درج کرتے ہیں۔

اسکے علاوہ جناب صدوق(رح) کے حصہ میں ایک ایسی سعادت آئی ہے جو شاذ ہی کسی کو نصیب ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ جناب صدوق(رح) کے والد گرامی نے امام زمانہ علیہ السلام کے نائب خاص جناب ابوالقاسم روح سے ملاقات کے دوران چند مسائل دریافت کیے اور پھر قم واپس جاکر علی بن جعفر بن اسود(رح) کی معرفت جناب ابوالقاسم روح(رح) کو ایک خط تحریر کیا جس میں انہوں نے جناب روح (رح) سے گذارش کی کہ میری درخواست جناب امام زمانہ علیہ السلام تک پہنچائیں کہ آنحضرت(ع) میرے حق میں اولاد نرینہ کے لیے دعا فرمائیں۔ اس خط کے جواب میں امام زمانہ علیہ السلام نے تحریر فرمایا کہ میں نے تمہارے حق میں دعا کردی ہے عنقریب تمہارے ہاں دو فرزند تولد ہوںگے کہ جوکہ بہترین ہوں گے لہذا اسی سال جناب صدوق(رح) کی ولادت ہوئی۔

جناب صدوق(رح) کا سن ولادت جناب حسین بن روح(رح) کی نیابت کے پہلے سال کے بعد کا ہے چنانچہ اشارہ یہ ملتا ہے کہ شیخ کی ولادت ۳۰6ھ کی ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت صغری میں شیخ نے تقریبا ۲۰ سال گذارے اس کے بعد کا زمانہ غیبت کبری کا ہے جناب صدوق(رح) کا سن وفات ۳۸۱ھ بتایا جاتا ہے۔ تنگی قرطاس راقم الحروف کو اجازت نہیں دیتی کہ اس سے زیادہ آپ کے حالات زندگی بیان کیے جائیں۔ کتاب ہذا کا مطالعہ کرنے والے پر عیاں ہوگا کہ اس کتاب میں شامل چند ایک روایات و احادیث ، تعلیمات و عقائد

۴

مذہب اہل بیت(ع) سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ میرے نزدیک ایسی ضعیف روایات کا کسی کتاب میں شامل ہوجانا اس لیے اہمیت کا حامل نہیں ہے کہ شیعیت کے ابتدائی ادوار نہایت کھٹن مراحل سے گذرے ہیں جب حالات نامساعد راستہ دشوار۔ سہولیات ناپیدا اور اردگرد اغیار کی ایسی بھیڑ لگی ہو جس کاتقاضہ تقیہ ہوتو ایسی چند ایک مجہول روایات کی درندازی خاص  اہمیت کی حامل نہیں ہوا کرتی اسلام کی ابتدائی تاریخ اور شیعیت کی نمو پر نظر رکھنے والے اہل قلم گزشتہ چودہ صدیوں سے قائم ناصبی اثرات کی شدت سے آگاہ ہیں۔ اس کے علاوہ عمدا اور سہوا غلطی کے احتمال سے صرف ذوات معصومین(ع) ہی مبرا ہوسکتی ہیں تمام انسان کا معیار اس سے مطابقت نہیں رکھتا دوم یہ کہ راقم الحروف کو ان مجہول روایات کی در اندازی میں بھی ایک مثبت پہلو نظر آتا ہے اور یہ کہ ہماری کتب تحریف سے پاک ہیں کیونکہ اگر امامیہ تحریف کے قائل ہوتے تو سب سے پہلے ایسی ہی روایات اپنی کتب سے خارج کرتے۔

اس ترجمے کی تیاری میں میں نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ میں سلیس انداز بیان اپناؤں تاکہ معاشرے کے تمام طبقات فکر اس ترجمے سے استفادہ حاصل کرسکیں۔ مگر ساتھ ہی اس بات کا اہتمام بھی کیا ہے کہ تاریخی واقعات کی بیان نگاری اپنی جاذبیت اور دلنشینی نہ کھوسکے۔ یہ بھی امر مسلمہ ہے کہ کسی ایک زبان سے دوسری زبان میں کسی تصنیف کا ترجمہ بہر طور ایک پیچیدہ عمل ہے اور یہ اس صورت میں مزید پیچدگی اختیار کر لیتا ہے کہ جب کوئی تصنیف پہلے عربی سے فارسی اور پھر فارسی سے اردو میں ترجمہ ہوئی ہو لہذا میری گذارش ہے کہ اس ترجمے کو ایک ادبی شہہ پارہ کے طور پر دیکھنے کے بجائے حدیث و تاریخ اور معاملات شرعی کی ایک سیدھی سادی کتاب تصور کیا جائے۔

زیر نظر کتاب ایک فارسی نسخے سے ترجمہ کی گئی ہے جو کہ کتب خانہ اسلامیہ حاج

۵

سید محمد کتابچی تہران  ایران کی مطبوعہ ہے۔ اس اردو ترجمے کی فہرست میں شامل عنوانات راقم الحروف کے بذات خود تحریر کردہ ہیں تاکہ اہم موضوعات کی طرف فورا رسائی ہو سکے۔

اس کتاب میں مندرج روایات و احادیث کے موازنہ و تحقیق کے لیے مندرجہ ذیل کتابوں سے استفادہ حاصل کیا گیا۔

۱ ـ قرآن مجید                ترجمہ: علامہ ذیشان حیدر جوادی (لکھنو)

۲ ـ قرآن مجید                ترجمہ: امام احمد رضا خان بریلوی

۳ ـ قرآن مجید               ترجمہ: مولانا مقبول احمد صاحب

۴ ـ نہج البلاغہ                 ترجمہ: مفتی جعفر حسین صاحب

۵ ـ صحیفہ کاملہ                ترجمہ: مفتی جعفر حسین صاحب

6ـنہجالاسرار           غلام حسین رضا آقا مجتہد( حیدر آباد دکن)

۷ ـ من لا یحضرہ الفقیہ        شیخ صدوق ابن بابویہ قمی(رح)

۸ ـ اصول کافی                ابو جعفر محمد بن یعقوب الکلینی ترجمہ جناب مولانا ظفر حسن امروہی صاحب

۹ ـ وسائل الشیعہ               شیخ صدوق ابن بابویہ قمی(رح)

۱۰ ـ علل شرائع                شیخ صدوق ابن بابویہ قمی(رح)

۱۱ ـ عیون الاخبار الرضا(ع)      شیخ صدوق ابن بابویہ قمی(رح)

۱۲ ـ کتاب الخصال              شیخ صدوق ابن بابویہ قمی(رح)

۱۳ ـ کتاب التوحید             شیخ صدوق ابن بابویہ قمی(رح)

۶

۱۴ ـ کمال الدین و تمام النعمہ    شیخ صدوق ابن بابویہ قمی(رح)      

۱۵ ـ حیات القلوب             علامہ باقر مجلسی(رح) صاحب

۱6ـ بحار الانوار                 علامہ باقر مجلسی(رح) صاحب

۱۷ ـ جلاالعیون                علامہ باقر مجلسی(رح) صاحب

۱۸ ـ تہذیب الاسلام            علامہ باقر مجلسی(رح) صاحب

۱۹ ـ روح الحیات               علامہ باقر مجلسی(رح) صاحب

۲۰ ـ مجالس المومنین            شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری(رح)

۲۱ ـ احسن المقال               شیخ عباس قمی(رح)

۲۲ ـ نفس المہموم              شیخ عباس قمی(رح)

۲۳ ـ مفاتیح الجنان              شیخ عباس قمی(رح)

۲۴ ـ مقتل ابی مخنف لوط بن یحی ازدی

۲۵ ـ الفہرست                محمد بن اسحاق ابن ندیم وراق

۲6 ـ کتاب الارشاد              شیخ مفید علیہ الرحمہ

۲۷ ـ جمال منتظر              آیت اللہ العظمی صافی گلپائیگانی

۲۸ ـ صحیفہ کربلا               حجت الاسلام علی منتظری منفرد

۲۹ ـ تفسیر اسلام              علامہ فروغ علی کاظمی( لکھنو)

۳۰ ـ توضیح المسائل             آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی ( نجف اشرف عراق)

۳۱ ـ توضیح المسائل              آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای ( ایران)

۷

۳۲ ـ توضیح المسائل             آیت اللہ العظمی حافظ بشیر حسین صاحب ( نجف اشرف عراق)

اس موقع پر میں خداوند کریم کا شکر ادا کرتا ہوں اور اپنی اس حقیر کاوش کو جناب امیر امومنین علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور ان کی ذات مقدسہ سے رحمت و مدد کا خواستگار ہوں۔

میں دل کی گہرائیوں سے اپنے والد گرامی کا شکر گزار ہوں جن کی بدولت میں اس کھٹن کام کو انجام دینے کے قابل ہوا، ان کی راہنمائی کی ضرورت مجھے ہر موقع پر محسوس ہوئی اور انہوں نے مجھے کمال شفقت سے نوازا۔

میں شکریہ ادا کرتا ہوں اپنی والدہ محترمہ کا کہ جن کے بے پناہ محبت اور الفت کے کسی ایک لمحے کا عشر عشیر چکانے کی میں سکت نہیں رکھتا۔

میں تہہ دل سے مشکور ہوں اپنی زوجہ کا، جس نے اس دوران میری ذمہ داریوں کو بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے رکھا اور اس کتاب کی تحقیق و تیاری میں میری بھر پور معاونت کی۔

میں ممنون ہوں مولانا نذر عباس اصغر صاحب کا کہ جنہوں نے اس ترجمے پر نظر ثانی فرمائی اور ایسے موقع پر اپنا قیمتی وقت میرے لیے مختص کیا جب بیشتر علما نے اس مسودے کی ضخامت دیکھتے ہوئے اس سے صرف نظر کیا۔

آخر میں میں دعا گو ہوں کہ خداوند متعال ہمیں اس کتاب سے استفادہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

                                                             آمین

                                                     سید ذیشان حیدر زیدی

۸

مجلس نمبر ۱

( ۱۸ رجب ۳6۷ھ)

۱ ـ          عمرو بن خالد ابو حمزہ ثمالی بیان کرتے  ہیں کہ امام زین العابدین(ع) نے فرمایا : خوش خلقی سے عزت میں اضافہ ہوتا ہے اور رزق وسیع ہوتا ہے۔ یہ موت کو ٹال دیتی ہے خاندان میں محبت پیدا کرتی اور جنت میں داخل کرتی ہے۔

۲ ـ          شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ ابوہریرہ نے کہا جو کوئی ۱۸ ذالحجہ کا روزہ رکھتا ہے تو اس کے لیے خدا 6۰مہینوں کے روزوں کا ثواب درج کرتا ہے اور یہ دن غدیر خم کا دن کہ اس دن رسول خدا(ص) نے علی ابن ابی طالب(ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا، کیا میں مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟ سب نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ پھر فرمایا جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کا علی(ع) مولا ہے پس عمر نے اس سے کہا مبارک ہو اے ابن ابی طالب(ع) تم میرے اور ہر مسلمان کے مولا ہو گئے پس اللہ عزوجل نے اس آیت کو نازل کردیا ” الیوم اکلمت لکم دینکم“ (مائدہ) کہ” آج کے دن میں نے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے۔“

۳ ـ         ابن عباس(رض) کہتے ہیں، رسول خدا(ص) نے فرمایا، علی(ع) میرے بعد ہر مومن کے ولی ہیں۔

صلصال بن دلہمس

۴ ـ         قیس بن عاصم کہتے ہیں کہ میں بنی تمیم  کی ایک جماعت کے ساتھ خدمت پیغمبر(ص) میں گیا جس وقت میں داخل ہوا اس وقت صلصال بن دلہمس آںحضرت(ص) کے پاس موجود تھا میں نے عرض کیا اے پیغمبر خدا(ص) ہمیں نصیحت کریں تاکہ ہم اس سے فائدہ حاصل کرسکیں رسول خدا(ص) نے فرمایا اے قیس بے شک عزت کے ساتھ ذلت بھی ہے اور زندگی کے ساتھ موت بھی اور اس دنیا کے ساتھ آخرت بھی ہے ہر چیز کے لیے حساب ہے اور ہر چیز عمل پائندہ ہے ہر نیک کام کا ثواب ہے او ہر برے عمل کی سزا ہے۔ اور تمام مدت ختم ہونے والی ہے۔ اے قیس قبر میں تیرا دوست

۹

تیرے ہمراہ ہوگا۔ وہ زندہ ہوگا جبکہ تم مردہ ہوگے۔ اگر وہ اچھا ہوگا تو تمہارے ہاتھ اچھائی آئے گی۔ اور اگر برا ہوگا تو تم  پست و زبوں حال ہوگے۔ اس کے علاوہ تیرے ساتھ کچھ بھی محشور نہ ہوگا او تمہارے ساتھ اس کے سوا کچھ بھی مبعوث نہ ہوگا۔ اور تمہارا یہ دوست بجز کردار صالح کے اور کوئی نہیں۔ اگر یہ صالح ہوگا تو تو آرام میں ہوگا اور اگر فاسد ہوگا تو تجھے خوف میں مبتلا رکھے گا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) میری گذارش ہے کہ آپ(ص) ان اقوال کو نظم کی صورت میں بیان کریں تاکہ ہمیں دیر تک یاد رہیں او جب ہم واپس جائیں تو عرب کے لوگوں کو اسے بیان کریں اور انہیں خوف کی ترغیب دیں۔ پیغمبر(ص)  نے حکم دیا کہ حسان(رض) کو میرے پاس بلایا جائے۔ اسی دوران میںنے سوچا کہ ان اقوال کو مجھے خود بھی اشعار میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ لہذا حسان(رض) کے آنے سے پہلے ہی یہ کلام میرے ذہن میں ترتیب پاگیا۔ میں نے رسول خدا(ص) سے عرض کیا۔ یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) کے اس فرمان کے مطابق میرے ذہن میں چند اشعار ترتیب پاگئے ہیںاگر آپ(ص) اجازت دیں تو عرض کروں۔ آپ(ص) نے فرمایا: بیان کرو۔ میں نے عرض کیا۔

                             اپنے کردار کو اپنا ساتھی بنا۔

                                                             کیونکہ وہ قید میں تیرے ہمنشین ہوگا۔

                             خود کو موت کے بعد اس چیز کے لیے آمادہ رکھو۔

                                                             کہ سامنے سے جلد ہی آواز آئے گی۔

                             اگر کسی چیز کو دل نہ مانے تو وہ نہ کرؤ۔

                                                             سوائے اس کے کہ جس کو خدا پسند کرئے۔

تمہاری موت سے پہلے و بعد کوئی شخص تمہیں فائدہ نہ دے گا۔ بجز تیرے کردار کے کہ کوئی دوست سوائے اس کے فریاد سننے والا نہیں انسان رشتے داروں کے پاس مہمان ہے۔ وہ ان کے درمیان رہا اور کوچ کر جائے گا۔

۵ ـ   قصی بن کلاب نے اپنے فرزندوں کے وصیت کی کہ فرزندان عزیز کبھی شراب نہ پینا اگرچہ یہ بدنوں کی اصلاح ( فربہ) کرتی ہے مگر ذہنوں ( یعنی عقلوں) کو فاسد کردیتی ہے۔

۱۰

6 ـ شعیبحداد کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام بن محمد(ص) نے مجھ سے فرمایا ہماری حدیث سخت اور ناہموار ہے اس وزن کو کوئی نہیں اٹھا سکتا مگر مقرب فرشتہ یا پیغمبر مرسل یا د وہ بندہ کہ جس کے دل کا ایمان کے ساتھ خدا نے امتحان لیا ہو یا شہر محکم عمرو شاگرد شعیب نے اس شہر کا پوچھا  تو اس نے بتایا کہ امام صادق(ع) نے فرمایا ہے کہ یہ وہ شہر ہے جو دل میں مجتمع ہوتا ہے۔( یعنی وہ دل جس کو ہماری محبت نے محصور کر لیا ہو)

حضرت یوسف(ع) و زلیخا

۷ ـ         وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ میں نے خدا کی بعض کتابوں میں سے ایک  کتاب میں پڑھا ہے کہ یوسف(ع) اپنے لشکر کے ساتھ عزیز مصر کی بیوی( زلیخا) کے پاس سے گذرے وہ ایک کھنڈر پر بیٹھی تھیں اور کہتی تھی کہ حمد سپاس اس خدا کے لیے زیبا ہے جو بادشاہوں کو ان  کے گناہوں کے سبب غلام بنادیتا ہے اور غلاموں کو ان کی اطاعت کے سبب بادشاہ قرار دیتاہے۔ میں محتاج ہوگئی ہوں مجھے کچھ صدقہ دیجئے یوسف(ع) نے کہا خدا کی نعمت کو حقیر سمجھنا اور اس کا کفران کرنا بندے کے لیے ہمیشہ کی رکاوٹ پیدا کردیتا ہے لہذا خدا کی طرف بازگشت کرو تاکہ وہ گناہ کے دھبے کو تیری توبہ سے دھودے بے شک دعا کی قبولیت کے لیے دلوں کی پاکیزگی اور اعمال کی نیکی اور صفائی شرط ہے زلیخا نےجواب میں کہا ابھی میں نے توبہ و انابت اور گذشتہ غلطیوں کے تدارک سے فراغت نہیں پائی لہذا خدا سے شرم کرتی ہوں کہ عفو کے مقام میں آؤں اور اس ذات مقدس سے طلب رحمت کروں کہ ابھی آنسو نہیں بہے ہیں اور دل سے اپنی ندامت کے حق کی ادائیگی نہیں ہوئی ہے او اطاعت کی طرف سے گداختہ نہیں ہوئی ہوں( پشیمان نہیں ہوئی ہوں) یوسف(ع) نے کہا توبہ کرو اور اسکی شرائط میں کوشش اور اہتمام کرو کیونکہ راہِ عمل کھلی ہوئی ہے اور دعا کا تیر قبولیت کے نشانے پر پہنچتا ہے قبل اس ے کہ عمر کے ایام اور گھڑیاں ختم ہوں اور حیات کی مدت تمام ہو، زلیخا نے کہا میرا بھی یہی عقیدہ ہے اگر آپ میرے بعد زندہ رہ گئے تو یہ عنقریب سن لیں گے یوسف(ع) نے اپنے لشکر سے فرمایا کہ گائے کی کھال سونے سے بھر کر اس کودے دو۔ زلیخا نے کہا روزی یقینا خدا کی جانب

۱۱

سے مقرر ہے او پہنچتی ہے رزق کی وسعت اور راحت و عیشِ زندگانی کو اس وقت تک نہیں چاہتی جب تک کہ خدا کے غضب میں گرفتار ہوں۔ اس کےبعد یوسف(ع) کے بعض فرزندوں نے پوچھا کہ یہ عورت کون تھی جس کی باتوں سے ہمارا جگر پارہ پارہ ہوگیا اور دل شگافتہ ہوگیا، فرمایا یہ راحت و شادمانی کی داعیہ ہے جو اب دام انتقام الہی میں گرفتار ہے پھر یوسف(ع) نے زلیخا کے ساتھ عقد کیا جب ان سے ہم بستر ہوئے تو ان کو باکرہ پایا پوچھا تم باکرہ کیونکر رہ گئیں حالانکہ مدتوں شوہر کے ساتھ زندگی بسر کی زلیخا نے کہا میرا شوہر نامرد تھا۔ اور مقاربت پر قادر نہ تھا۔

۱۲

مجلس نمبر۲

(۷ رجب ۳6۷ھ)

فضیلت رجب

۱ ـ ابو جعفر محمد بن باقر(ع) نے فرمایا جو کوئی ماہ رجب میں سے ایک دن کا روزہ رکھے شروع ماہ کا یاوسط یا آخر ماہ کا تو خدا بہشت کو اس کے لیے کھول دیتا ہے اور روز قیامت وہ ہمارے ساتھ ہم درجہ ہوگا اور جو کوئی دو دن ماہ رجب کے روزے  رکھے گا اس سے کہا جائے گا تیرا کردار (عمل) اس دہلیز پر پہنچا کہ خدا تمہارے گذشتہ تمام گناہ  معاف کردے گا اور جو کوئی ماہ رجب کے تین روزے رکھے گا اس سے کہا جائے گا تیرے گذشتہ و آئندہ گناہ معاف ہوگئے۔ لہذا اپنے گناہ گار بھائیوں میں سے جس کی چاہو شفاعت کرو اور اپنے دوستوں میں سے بھی جس کی چاہو شفاعت کرو اور جو کوئی سات دن ماہ رجب کا روزہ رکھے گا تو اس پر جہنم کے ساتوں دروازے بند کردئیے جائیں گے اور جو کوئی آٹھ دن ماہ رجب کے روزے رکھے گا اس کے لیے جنت کے آٹھ دروازے کھول دیئے جائیں گے کہ جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔

۲ ـ          امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا کہ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو چار چیزوں سے ڈرتا ہے تو وہ ان چار چیزوں سے کیوں مدد نہیں چاہتا ؟ تعجب ہے کہ جو شخص خوف زدہ ہے اور وہ اﷲ کے اس قول سے مدد کیوں نہیں لیتا”حسبنا اﷲ و نعم الوکيل“ ( ہمارے لیے اﷲ کافی ہے اور کیا بہتر وکیل ہے) اس لیے کہ میں نے اس کے بعد یہ قول بھی سنا ہے کہ

” فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَ فَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ“(آل عمران، ۱۷۴)

” پھر چلے آئے مسلمان اﷲ کے احسان اور فضل کے ساتھ کچھ نہ پہنچی ان کو برائی۔“

اور مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو کسی غم میں مبتلا ہے مگر وہ اﷲ تعالی کے اس قول سے مدد نہیں لیتا۔

” لا إِلهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمينَ “ (الانبیاء، ۸۷)” نہیں ہے کوئی خدا سوائے تیرے تو

۱۳

 پاک ہے  بے شک میں ظالموں ( زیادتی کرنے والوں) میں سے ہوں“ اس لیے میں نے اس کے بعد خدائے عزوجل کا یہ قول بھی سنا ہے۔ ”فَاسْتَجَبْنا لَهُ وَ نَجَّيْناهُ مِنَ الْغَمِّ وَ كَذلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنينَ“ (الانبیاء، ۸۸)

پھر سن لی ہم نے اس کی فریاد اور بچالیا اس کو اس غم (گھٹن) سے اور سی طر ہم بچاتے ہیں مومنین کو (ایمان والوں کو)۔“

اور مجھے تعجب جہے اس شخص پر جس کے ساتھ مکر و فریب کیا جائے وہ اﷲ کے اس قول سے کیوں مدد نہیں طلب کرتا”وَ أُفَوِّضُ أَمْري إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصيرٌ بِالْعِبادِ “ (غافر، ۴۴) میں حوالے کرتا ہوں اپنے کام کو اﷲ کے بے شک سب بندے اﷲ کی نگاہ میں ہیں“ اس لیے کہ اس کے بعد میں نے اﷲ کے اس قول کو بھی سنا ہے کہ ”فَوَقاهُ اللَّهُ سَيِّئاتِ ما مَكَرُوا “ (غافر، ۴۵) پھر انہوں نے بچایا ان تدبیروں کی برائیوں سے جو وہ کرتے تھے“۔

اور مجھے تعجب ہے کہ جو شخص دنیا اور اس کی آسائش چاہتا ہے وہ اﷲ تعالی کے اس قول سے کہوں مدد نہیں لیتا”ما شاءَ اللَّهُ لا قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ “ ( کہف، ۳۹) ہوی ہوتا ہے جو اﷲ چاہتا ہے نہیں ہے کوئی طاقت مگر خدا کی “ اس لیے کہ میں نے اس کے بع اﷲ تعالی کا یہ قول بھی سنا ہے ”إِنْ تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنْكَ مالاً وَ وَلَداً فَعَسى‏ رَبِّي أَنْ يُؤْتِيَنِ خَيْراً مِنْ جَنَّتِكَ “ (کہف ، ۳۹۔۴۰) اگر تو دیکھتا ہے مجھ کو کہ میں کم ہوں تجھ سے مال اور اولاد میں تو مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر دیگا“ اور یہاں عسی سے مراد لازمی ہے۔

۳ـ          امام علی بن موسیٰ رضا(ع) نے اپنے والد(ع) سے انہوں نے اپنے آباء(ع) سے اور انہوں نے امیرالمومنین(ع) سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ خدا فرماتا ہے وہ بندہ مجھ پر ایمان نہیں رکھتا جو میرے کلام میں اپنی مرضی اختیار کرے اور وہ مجھے نہیں پہچانتا جو مجھے مخلوق کی طرح جانتا ہے وہ شخص میرے دین میں نہیں ہے کہ جو میرے احکام دین میں قیاس کو داخل کرتاہے۔

۴ـ          امام علی بن موسی رضا(ع) نے اپنے والد(ع) سے انہوں نے اپنے اجداد(ع) سے انہوں نے امیرالمومنین(ع) نے روایت کیا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی میرے حوضِ کوثر کو معتقد نہیں اُس کے لیےحوض تک جانے کا کوئی راستہ نہیں اور کوئی میرے شفاعت کا معتقد نہیں خدا اس کو میری

۱۴

 شفاعت نصیب نہیں کرے گا۔ پھر فرمایا بے شک میری شفاعت خاص اہل گناہان کبیرہ کے لیے ہے جو میری امت سے ہیں اور میری امت کے نیک لوگوں کےلیے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ حسین بن خالد راوی حدیث کہتاہے : میں نے امام علی رضا(ع) سے عرض کیا یابن رسول اﷲ(ص) یہ قول خدا اس صورت میں کیا معنی رکھتا ہے کہ شفاعت نہیں کرے گا مگر وہ کہ جس کو خدا پسند کرے گا(انبیاء ، ۲۸) امام(ع) نے فرمایا یعنی شفاعت نہیں کرے گا مگر وہ بندہ کہ جس کی دیانت کو خدا پسند کرے گا۔

۵ـ          ابان احمر۔ امام جعفر صادق(ع) سے روایت کرتا ہے کہ ایک شخص آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا مرے ماں باپ آپ(ع) پر قربان ہوں مجھے کوئی نصیحت کیجیئے۔

آپ(ع) نے فرمایا کہ اگر اﷲ تالی ہی رزق(روزی) کا کفیل (ضامن) ہے تو یہ غم ( دوڑدھوپ) کس کے لے ہے اور اگر رزق تقسیم ہوچکا ہے تو پھر تیرا لالچ کس لیے ہے اور اگر حساب درست ہے تو پھر مال جمع کرنا کس لیے ہے اور اگر بدلہ خدا کی طرف سے ملنا ہے تو یہ بخل کس لیے ہے اگر ثواب خدا کی طرف سے ہے یہ سستی کس لیے ہے اور اگر سزا خدا کی طرف سے دوزخ(جہنم) ہے تو یہ نافرمانی کس لیے ہے اور اگر موت برحق ہے تو پھر یہ خوشی کس لیے ہے اور اگر خدا کے سامنے پیش ہونا درست ہے تو یہ مکر و فریب کس لیے ہے اور اگر شیطان دشمن ہے تو پھر یہ غفلت کس لیے ہے اور اگر پل صراط سے گزرنا حق ہے تو یہ خودبینی (غرور، تکبر) کس لیے ہے اور اگر ہر چیز اﷲ کی قضاء و قدر سے ہوتی ہے تو پھر یہ رنج و حزن و ملال کس  لیے ہے او اگر دنیا فانی ہے تو پھر اس پر اعتماد و بھروسہ کس لیے ہے۔

فضائل علی(ع)

6ـ           جابر بن عبداﷲ انصاری(رح) کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا علی بن ابی طالب(ع) میری امت میں سے پہلے اسلام لانے والے ہیں دانش میں وہ سب سے پہلے ہیں ان کا دین تمام سے زیادہ درست ہے اور ان کا یقین سب سے بلند ہے اور حلم میں طاقتور ہیں ان کا ہاتھ تمام سے زیادہ کھلا

۱۵

ہے (سخی ہیں) اور سب سے زیادہ بہادر و شجاع ہیں اور وہ میرے بعد امام و خلیفہ ہیں۔

۷ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا علی(ع) آسمان ہفتم میں خورشید (سورج) کی طرح جیسا کہ وہ دن کو روشن ہوتا ہے روشن ہیں اور دنیا میں ایسے ہیں جیسے چاند رات کو اس دنیا میں روشن ہوتا ہے خدا نے علی(ع) کو فضیلت کا وہ حصہ عطاء کیا ہے کہ اگر اہل زمین میں تقسیم ہوتو یہ ان تمام کو گھیرے ہوگا اور خدا نے انہیں فہم سے وہ حصہ دیا کہ اگر تمام اہل زمین میں تقسیم  کیا جائے تو تمام کو گھیرے ہوگا یہ لوط(ع) کی نرمی رکھتے ہیں اور خلق یحیی(ع) و زہد ایوب(ع) اور سخاوت میں ابراہیم(ع) کی مانند ہیں ان کی خوشی سلیمان(ع) بن داؤد(ع) کی خوشی کی طرح ہے ان کی طاقت داؤد(ع) کی طاقت کی طرح ہے ان کا نام تمام پرزہ ہائے بہشت پر آویزاں ہے اور میرے پروردگار نے مجھے اس کے وجود کی خوشخبری دی ہے۔ یہ خوشخبری اس سے تھی جو میرے اور علی(ع) کے درمیان اﷲ تعالی کے نزدیک قائم ہے اور فرشتوں کے نزدیک جو تزکیہ شدہ ہے وہ خاص میرا ہے اور میرا اعلان میرا چراغ ہے اور میری جنت اور میرا رفیق ہے۔ میرے رب نے مجھے ان سے مانوس کیا میں نے اس (خدا) سے درخواست کی کہ مجھ سے پہلے ان کی جان قبض نہ کرنا اور میں نے درخواست کی کہ میرے بعد فیض شہادت سے ان کی جان قبض کرنا اور جب میں بہشت میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حوریانِ علی(ع) درختوں کے پتوں پر تکیہ کیے ہیں( یعنی درختوں کے پتوں کی طرح بے شمار ہیں) قصور علی(ع) ( قصر کی جمع محلات۔ رہنے کے بہترین مقامات) تعداد انسان کے برابر ہیں علی(ع) مجھ سے ہیں۔ اور میں علی(ع) سے ہوں۔ جو کوئی ان کو دوست رکھتا ہے مجھے دوست رکھتا ہے۔ علی(ع) سے دوستی(محبت) اور انکی پیروی نعمت ہے یہ جان لو کہ فرشتے ان کے معتقد ہیں اور صالح جنات ان کے نزدیک ہیں۔ اور میرے بعد کوئی بھی اس زمین پر علی(ع) سے بہتر زندگی نہیں گزار رہا۔

وہ (علی(ع)) نہ سخت ہیں نہ آسان اور نہ جلد بازان کی فضیلت کا انکار اور ان سے بغض و عناد تباہی ہے۔ زر اور زمین ان کو اٹھائے ہوئے اور عزیز رکھے ہوئے ہیں۔ خدا کے نزدیک میرے بعد ان سے زیادہ عزیز ترین کوئی پیدا نہیں ہوا۔ وہ جس جگہ اس زمین پر آئے ہیں( خانہ کعبہ) خدا نے اس جگہ کو جائے امن قرار دیا۔ خدا نے ان پر حکمت کا نازل کیا اور اس کے فہم کو مکمل کیا۔ فرشتے

۱۶

ان کے ہم نشین ہوئے جنہیں وہ دیکھتا ہے اگر میرے بعد کسی آدمی کو وحی ہوئی تو وہ وحی ان تک پہنچی ہے خدا نے ان کے وجود کو زینت بخشی اور انہیں کی وجہ سے محفلوںکو۔ خدا نے ان کے عساکر کو گرامی رکھا اور ملک کو ارزانی عطا کی۔ ان کی مثال خانہ خدا( بیت الحرام) کی ہے۔ جس کی زیارت کے لیے جایا جاتا ہے اور کسی اور کی زیارت کو نہیں جایا جاتا۔ ان کی مثال چاند کی سی ہے کہ جب بھی طلوع ہوتا ہے ہر تاریکی پر چھاجاتا  ہے جیسا کہ سورج جب طلوع ہوتا ہے تو ہر چیز کو روشن کردیتا ہے خدا نے اپنی کتاب میں انکا ذکر کیا اور اپنی آیات میں انکی مدح کی اور ان کے وصف کو بیان کیا اور ان کی منازل کو جاری رکھا  وہ جب تک زندہ ہیں گرامی ہیں اور ان کا مرنا شہادت کے ساتھ ہے اور وہ سعادت ہے۔

۱۷

مجلس نمبر ۳

(۵ رجب سنہ۳6۷ھ)

۱ـ           انس کہتے ہیں میں نے جناب رسول خدا(ص) سے سنا۔ کہ جوکوئی ایک دن ماہ رجب کا روزہ عقیدت و قصد قربت سے رکھے گا تو خدا اس کے اور دوزخ کے درمیان ستر خندقیں بنائے گا کہ ہر خندق کی چوڑائی زمین و آسمان کے فاصلہ کے برابر ہوگی۔

۲ـ           امام علی بن موسی رضا(ع) نے فرمایا جو کوئی روز اول رجب کا روزہ رکھے گا ثواب کی رغبت سے تو خدا اس کے لیے بہشت کو واجب کرے گا اور جو کوئی وسط رجب کا روزہ رکھے گا تو اس کی شفاعت مانند دو قبیلہ ربیعہ و مضر کے برابر قبول کی جائے گی جو کوئی رجب کے آخر کا روزہ رکھے گا تو خدا اس کو بہشت کے بادشاہوں میں قرار دے گا اور اس کی شفاعت ماں، باپ، بیٹی ، بھائی و بہن و چچا پھوپھی و دائی و خالہ وواقف گیر ہمسائے کے بارے قبول ہوگی اگر چہ ان میں دوزخ کے مستحق ہی کیوں نہ ہوں۔

حبِ علی(ع) کا فائدہ

۳ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا میری اور میرے خاندان کی محبت سات جگہ پر فائدہ مند ہے کہ ہر ایک جگہ پر سخت ترین خوف ہے (۱) موت کے وقت۔(۲) قبر میں (۳) قبر سے باہر نکلنے کے وقت۔(۴) نامہ اعمال کے وقت (۵) حساب کے نزدیک (6) میزانکےپائےپر(۷) پل صراط پر۔

۴ـ          امام محمد بن علی باقر(ع) نے فرمایا کہ جنابِ رسول خدا(ص) سے پوچھا گیا کہ خدا کے بندوں میں بہترین بندے کون سے ہیں تو آپ(ص) نے فرمایا وہ ایسے ہیں کہ جب خوش خلقی کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں۔ جب بد کرداری کرتے  ہیں تو مغفرت طلب کرتے ہیں جب عطا کو پاتے ہیں تو شکر گزاری کرتے ہیں جب مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو شکیبا ( صابر) ہوتے ہیں اور جب

۱۸

 انہیں غصہ آتا ہے تو درگزر کرتے ہیں۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے اپنے والد(ع) کو قول بیان فرمایا کہ جو مسافر ثواب کی نیت سے نماز جمعہ پڑھےگا تو خدا اس کو سو نماز جمہ قائم کرنے کا اجر دے گا۔

6ـ           ابن عباس(رض) فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا۔ میرے بعد علی ابن ابی طالب(ع) کا مخالف کافر ہے۔ اور اس کافر و مشرک سے محبت کرنے والا بھی کافر ہے علی(ع) کا محب مومن اور علی(ع) کا دشمن منافق ہے علی(ع) سے جنگ کرنے والا دین سے خارج ہے۔ اس کو رد کرنے والا نابود ہے۔ جو کوئی اس (علی(ع)) کا پیرو ہے اس نے حق کو پالیا۔ علی(ع) نورِ خدا ہے اور اس کے شہر (زمین) میں اس کی حجت ہے اسکے بندوں پر علی(ع) خدا کے دشمنوں کے لیے شمشیرِ خدا (سیف اﷲ) ہے وہ علمِ انبیاء(ع) کا وارث ہے علی(ع) خدا کا بلند کلمہ ہے اور اس کے دشمنوں کا کلمہ سب سے پست ہے۔ علی(ع) سید اوصیا ہے اور وصی سید انبیاء ہے وہ امیرالمومنین(ع) ہے اور نورانی چہروں اور نورانی ہاتھوں والوں کا قائد ہے وہ مسلمانوں کا امام ہے۔ اس کی ولایت کا اقرار اور اس کی اطاعت کے بغیر ایمان ہرگز قبول نہیں ہوتا۔

۷ـ          ایک دن رسول خدا(ص) نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا: اے بندہ خدا کسی سے دوستی رکھو تو خدا کےلیے کسی سے دشمنی رکھو تو خدا کے لیے۔ کسی سے مہر کرو تو اﷲ کے لیے اور غصہ کرو تو خدا کے واسطے۔ کیوںکہ اس کے علاوہ کسی کو خدا کی ولایت نہیں پہنچے گی اور وہ بندہ ایمان کی لذت کو نہ چائے گا چاہے کتناہی روزے رکھنے والا اور بے شمار نمازیں پڑھنے والا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ تم میں وہ لوگ جو دنیا کی راہ میں لگے ہیں اور اس کے کنارے ( مال و آسائشات) سے محبت کرتے ہیں اور خدا کے کنارے ( اس کے دین اور احکام ) سے دشمنی کرتے ہیں ان کے لیے خدا کے پاس فائدہ پہنچانے والی کوئی چیز نہیں ہے اس صحابی نے آںحضرت(ص) سے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) کس طرح معلوم ہو کہ ہماری دشمنی اور دوستی صرف خدا کے لیے ہے اور خدا کا محب(دوست) کون ہے تاکہ اس سے محبت کی جائے اور اس کا دشمن کون ہے تاکہ اس سے دشمنی کی جائے۔ رسول خدا(ص) نے علی(ع) کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا اس مرد کو دیکھ رہے ہو عرض کیا ہاں فرمایا اس کو دوست خدا کا دوست ہے اس سے محبت رکھو اس کا دشمن خدا کا دشمن ہے اس کے دشمن کو دشمن سمجھو اس کی محبت کو اپنی محبت قرار دو۔ اگرچہ

۱۹

 یہ علی(ع) تیرے باپ کا قاتل ہی کیوں نہ ہو اور اس کے دشمن کو دشمن رکھ اگر چہ وہ تیرا باپ یا تیرا فرزند ہی کیوں نہ ہو۔

۸ـ          امام ابو عبداﷲ صادق(ع) نے فرمایا میں تین آدمیوں کو قابل رحم سمجھتا ہوں جو اس رحم کے حقدار ہیں وہ عزیز کہ عزت کے بعد خوار ہوجائے۔ وہ غنی کہ جو محتاج ہوگیا ہو۔ وہ عالم کہ اس کو اس کا خاندان اور جاہل لوگ خوار شمار کرتے ہوں۔

۹ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ لوگوں کو تم مال کے ذریعے اپنی طرف مائل نہیں کرسکتے لیکن اپنے اچھے اخلاق سے ان کو اپنی طرف مائل کرسکتے ہو۔

۱۰ـ          امیرالمومنین(ع) نے فرمایا کہ میں نے رسول خدا(ص) نے سنا اے علی(ع)! اس ذات کی قسم کہ جس نے  دانے کا شگافتہ کیا اور ہر جاندار کو پیدا کیا حق کے ساتھ تم میرے بعد بہترین خلیفہ ہو اے علی(ع) تم میرے وصی ہو اور میری امت کے امام ہو جو کوئی تیری فرمانبرادری  کرتا ہے وہ میری فرمانبرداری کرتا ہے اور جو کوئی تیری نافرمانی کرتا ہے اس نے میری نافرمانی کی ہے۔

۲۰