فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون0%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 293
مشاہدے: 94429
ڈاؤنلوڈ: 4237

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 94429 / ڈاؤنلوڈ: 4237
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اختلاف اور نزاع کا موضوع

جو لوگ اس بحث میں وارد ہوئے ہیں اکثر نے صرف فدک کے اطراف میں بحث کی ہے کہ گویا نزاع اور اختلاف کا موضوع صرف فدک میں منحصر ہے اسی وجہ سے یہاں پر کافی اشکالات اور ابہام پیدا ہوگئے ہیں لیکن جب اصلی مدارک کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اختلاف کا موضوع صرف فدک میں منحصر نہیں ہے بلکہ بعض دوسرے امور میں بھی اختلاف اور نزاع موجود ہے _ مثلاً:

جناب عائشےہ نے نقل کیا ہے کہ فاطمہ (ع) نے کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا اور اپنے باپ کی میراث کا مطالبہ کیا، جناب فاطمہ (ع) نے اس وقت کئی چیزوں کا مطالبہ کیا تھا_ اول: پیغمبر (ص) کے وہ اموال جو مدینہ میں موجود تھے_ دوم: فدک_ سوم: خیبر کا باقیماندہ خمس_ جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) کو جواب بھجوایا کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑتے جو کچھ ہم سے باقی رہ جائے وہ صدقہ ہوگا اور آل محمد بھی اس سے ارتزاق کرسکیں گے_

خدا کی قسم میں رسول خدا(ص) کے صدقات کو تغییر نہیں دوں گا اور اس کے مطابق_ عمل کروں گا_ جناب ابوبکر تیار نہ ہوئے کہ کوئی چیز جناب فاطمہ کو دیں اسی لئے جناب فاطمہ (ع) ان پر غضبناک ہوئیں اور آپ نے کنارہ کشی اختیار کرلی اور وفات تک ان سے گفتگو اور کلام نہ کیا(۱) _

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۷_

۲۴۱

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبکر کو پیغام دیا کہ کیا تم رسول خدا (ص) کے وارث یا ان کے رشتہ دار اور اہل ہو؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ وارث ان کے اہل اور رشتہ دار ہیں جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ پس رسول خدا (ص) کا حصہ غنیمت سے کہاں گیا؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا ہے کہ خدا نے پیغمبر (ص) کے لئے طعمہ (خوارک) قرار دیا ہے اور جب اللہ ان کی روح قبض کرلیتا ہے تو وہ مال ان کے خلیفہ کے لئے قرار دے دیتا ہے میں آپ کے والد کا خلیفہ ہوں مجھے چاہیئے کہ اس مال کو مسلمانوں کی طرف لوٹا دوں(۱) _

عروہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمہ (ع) کا اختلاف اور نزاع جناب ابوبکر سے فدک اور ذوی القربی کے حصّے کے مطالبے کے سلسلے میں تھا لیکن جناب ابوبکر نے انہیں کچھ بھی نہ دیا اور ان کو خدا کے اموال کا جز و قرار دے دیا(۲) _

جناب حسن بن علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) اور بنی ہاشم کو ذوی القربی کے سہم اور حصے سے محروم کردیا اور اسے سبیل اللہ کا حصہ قرار دے کر ان سے جہاد کے لئے اسلحہ اور اونٹ اور خچر خریدتے تھے(۳) _

ان مطالب سے معلوم ہوجائے گا کہ حضرت فاطمہ (ع) فدک کے علاوہ بعض دوسرے موضوعات میں جیسے رسول خدا کے ان اموال میں جو مدینے

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۹_

۲) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۳۱_

۳) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۳۱_

۲۴۲

میں تھے اور خبیر کے خمس سے جو باقی رہ گیا تھا اور غنائم سے رسول خدا(ص) کے سہم اور ذوی القربی کے سہم میں بھی جناب ابوبکر کے ساتھ نزاع رکھتی تھیں لیکن بعد میں یہ مختلف موضوع خلط ملط کردیئے گئے کہ جن کی وجہ سے جناب فاطمہ (ع) کے اختلاف اور نزاع میں ابہامات اور اشکالات رونما ہوگئے حقیقت اور اصل مذہب کے واضح اور روشن ہوجانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام موارد نزاع کو ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا کیا جائے اور ہر ایک میں علیحدہ بحث اور تحقیق کی جائے_

پیغمبر (ص) کے شخصی اموال

پیغمبر (ص) کی کچھ چیزیں اور مال ایسے تھے جو آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھے اور آپ ہی اس کے مالک تھے جیسے مکان اور اس کا وہ کمرے کہ جس میں آپ (ص) اور آپ(ص) کی ازواج رہتی تھیں آپ کی شخصی لباس اور گھر کے اسباب جیسے فرش اور برتن و غیرہ، تلوار، زرہ، نیزہ، سواری کے حیوانات جیسے گھوڑا، اونٹ، خچر اور وہ حیوان جو دودھ دیتے تھے جیسے گوسفند اور گائے و غیرہ_ ان تمام چیزوں کے پیغمبر اسلام مالک تھے اور یہ چیزیں احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں(۱) _

بظاہر اس میں کوئی شک نہ ہوگا کہ یہ تمام چیزیں آپ کی ملک تھیں اور آپ کی وفا کے بعد یہ اموال آپ کے ورثا کی طرف منتقل ہوگئے_

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب، ج ۱ ص ۱۶۸ _ کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۲۲_

۲۴۳

حسن بن علی و شاء کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ کیا رسول خدا(ص) نے فدک کے علاوہ بھی کوئی مال چھوڑ تھا؟ تو آپ نے فرمایا، ہاں، مدینہ میں چند باغ تھے جو وقف تھے اور چھ گھوڑے تین عدد ناقہ کہ جن کے نام عضباء اور صہبا، اور دیباج تھے، دو عدد خچر جن کا نام شہبا، اور دلدل تھا، ایک عدد گدھا بنام یعفور، دو عدد دودھ دینے والی گوسفند، چالیس اونٹیاں دودھ دینے والی، ایک تلوار ذوالفقار نامی، ایک زرہ بنا م ذات الفصول عمامہ بنام سحاب، دو عدد عبا، کئی چمڑے کے تکئے_ پیغمبر(ص) یہ چیزیں رکھتے تھے آپ کے بعد یہ تمام چیزیں جناب فاطمہ (ع) کی طرف سوائے زرہ، شمشیر، عمامہ اور انگوٹھی کے منتقل ہوگئیں تلوار، زرہ، عمامہ اور انگوٹھی حضرت علی (ع) کو دیئے گئے(۱) _

پیغمبر(ص) کے وارث آپ کی ازواج او رجناب فاطمہ زہراء (ع) تھیں_ تاریخ میں اس کا ذکر نہیں آیا کہ پیغمبر (ص) کے ان اموال کو ان کے ورثا میں تقسیم کیا گیا تھا لیکن بظاہر اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے امکانات آپ کی ازواج ہی کو دے دیئے گئے تھے کہ جن میں وہ آپ کے بعد رہتی رہیں، بعض نے یہ کہا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زندگی میں یہ مکانات اپنی ازواج کو بخش دیئے تھے اور اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے_

''و قرن فی بیوتکن وَلا تبرّجن تبرّج

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۲۲_

۲۴۴

الجاهلیة الاولی '' (۱)

گہا گیا ہے کہ خداوند عالم نے اس آیت میں حکم دیا ہے کہ اپنے گھروں میں رہتی رہو اور جاہلیت کے دور کی طرح باہر نہ نکلو_ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھر ان کے تھے تب تو اس میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے ورنہ حکم اس طرح دیا جاتا کہ تم پیغمبر(ص) کے گھروں میں رہتی ہو، لیکن اہل تحقیق پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ یہ آیت اس مطلب کے ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کیوں کہ اس طرح کی نسبت دے دینا عرفی گفتگو میں زیادہ ہوا کرتی ہے اور صرف کسی چیز کا کسی طرف منسوب کردینا اس کے مالک ہونے کی دلیل نہیں ہوا کرتا_ مرد کی ملک کو اس کی بیوی اور اولاد کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے تمہارا گھر، تمہارا باغ، تمہارا فرش، تمہارے برتن حالانکہ ان تمام کا اصلی مالک ان کا باپ یا شوہر مرد ہوا کرتا ہے_ کسی چیز کو منسوب کرنے کے لئے معمولی سی مناسبت بھی کافی ہوا کرتی ہے جیسے کرائے پر مکان لے لینا یا اس میں رہ لینے سے بھی کہاجاتا ہے تمہارا گھر، چونکہ پیغمبر(ص) نے ہر ایک بیوی کے لئے ایک ایک کمرہ مخصوص کر رکھا تھا اس لئے کہا جاتا تھا جناب عائشےہ کا گھر یا جناب ام سلمہ کا گھر یا جناب زینب کا گھر یا جناب ام حبیبہ کا گھر لہذا اس آیت سے یہ مستفاد نہیں ہوگا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے یہ مکانات ان کو بخش دیئے تھے_ اس کے علاوہ اور کوئی بھی دلیل موجود نہیں جو یہ بتلائے کہ یہ مکان ان کی ملک میں تھا، لہذا کہنا پڑے گا کہ ازدواج نے یا تو مکانات اپنے ارث کے حصے کے طور پر لے رکھے تھے یا اصحاب نے پیغمبر(ص) کے احترام

____________________

۱) سورہ احزاب آیت ۳۳_

۲۴۵

میں انہیں وہیں رہنے دیا جہاں وہ پیغمبر(ص) کی زندگی میں رہ رہیں تھی_ جناب فاطمہ (ع) ان مکانوں کے ورثاء میں سے ایک تھیں آپ نے بھی اسی لحاظ سے اپنے حق کا ان سے مطالبہ نہیں کیا اور انہی کو اپنا حصہ تا حیات دیئےکھا_ خلاصہ اس میں کسی کو شک نہیں کرنا چاہیئے کہ رسول خدا(ص) نے اس قسم کے اموال بھی چھوڑے ہیں جو ور ثاء کی طرف منتقل ہوئے اور ان کو قانون وراثت اور آیات وراثت شامل ہوئیں_

فدک

مدینہ کے اطراف میں ایک علاقہ ہے کہ جس کا نام فدک ہے مدینہ سے وہاں تک دودن کا راستہ ہے_ یہ علاقہ زمانہ قدیم میں بہت آباد اور سرسبز اور درختوں سے پر تھا_ معجم البلدان والے لکھتے ہیں کہ اس علاقہ میں خرمے کے بہت درخت تھے اور اس میں پانی کے چشمے تھے کہ جس سے پانی ابلتا تھا ہم نے پہلے بھی ثابت کیا ہے کہ فدک کوئی معمولی اور بے ارزش علاقہ نہ تھا بلکہ آباد اور قابل توجہ تھا_

یہ علاقہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھا جب ۷ سنہ ہجری کو خیبر کا علاقہ فتح ہوگیا تو فدک کے یہودیوں نے اس سے مرعوب ہوکر کسی آدمی کو پیغمبر(ص) کے پاس روانہ کیا اور آپ سے صلح کرنے کی خواہش کی_

ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے محیصہ بن مسعود کو ان یہودیوں کے پاس بھیجا اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی لیکن انہوں نے اسلام قبول نہ کیا البتہ صلح کرنے کی خواہش کا اظہار کیا_ جناب رسول خدا(ص) نے ان کی خواہش کو قبول فرمایا اور ان سے ایک صلح نامہ

۲۴۶

تحریر کیا اس صلح کی وجہ سے فدک کے یہودی اسلام کی حفاظت اور حمایت میں آگئے_

صاحب فتوح البلدان لکھتے ہیں کہ یہودیوں نے اس صلح میں فدک کی آدھی زمین پیغمبر(ص) کے حوالے کردی، معجم البلدان میں لکھتے ہیں کہ فدک کے تمام باغات اور اموال اور زمین کا نصف پیغمبر(ص) کو دے دیا_

تاریخ گواہ ہے کہ اس صلح کی قرارداد کی رو سے جو فدک کے یہودیوں اور پیغمبر(ص) کے درمیان قرار پائی تھی تمام آراضی اور باغات اور اموال کا آدھا یہودیوں نے پیغمبر(ص) کو دے دیا، یعنی یہ مال خالص پیغمبر(ص) کی ذات کا ہوگیا کیونکہ جیسا کہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں یہ علاقہ بغیر جنگ کئے پیغمبر(ص) کے ہاتھ آیا ہے اسلام کے قانون کی رو سے جو علاقہ بھی بغیر جنگ کئے فتح ہوجائے وہ رسول(ص) کا خالص مال ہوا کرتا ہے_

یہ قانون اسلام کے مسلمہ قانون میں سے ایک ہے اور قرآن مجید بھی یہی حکم دیتا ہے_ جیسے خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:

وما افاء الله علی رسوله منهم فما اوجفتم علیه من ذل: و لارکاب و لکن الله یسلط رسله علی من یشاء و الله علی کل شیء قدیر، ما افاء الله علی رسوله من اهل القوی فلله و للرسول '' (۱) _

یعنی وہ مال کہ جو خدا نے اپنے پیغمبر(ص) کے لئے عائد کردیا ہے اور تم نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے لیکن اللہ اپنے پیغمبروں کو

____________________

۱) سورہ حشر آیت ۶_

۲۴۷

جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے او رخدا تمام چیزوں پر قادر ہے_ یہ اموال اللہ اور اس کے پیغمبر کے لئے مخصوص ہیں_

لہذا اس میں کسی کو شک نہیں ہونا کہ فدک پیغمبر(ص) کے خالص اموال سے ایک تھا یہ بغیر لڑائی کے پیغمبر(ص) کو ملا تھا اور پیغمبر(ص) اس کے خرچ کرنے میں تمام اختیارات رکھتے تھے آپ حق رکھتے تھے کہ جس جگہ بھی مصلحت دیکھیں فدک کے مال کو خرچ کریں آپ اس مال سے حکومت کا ارادہ کرنے میں بھی خرچ کرتے تھے اور اگر کبھی اسلام کے اعلی مصالح اور حکومت اسلامی کے مصالح اقتضا کرتے تو آپ کو حق تھا کہ فدک میں سے کچھ حصہ کسی کو بخش دیں تا کہ وہ اس کے منافع اور آمدنی سے فائدہ اٹھاتا رہے، آپ کو حق تھا کہ فدک کے آباد کرنے کے عوض کسی کو بلاعوض یا معاوضہ پر بھی دے دیں اور آپ یہ بھی کرسکتے تھے کہ کسی کی اسلامی خدمات کے عوض اس سے کچھ مال اسے بخش دیں، اور یہ بھی کرسکتے تھے کہ فدک کی آمدنی سے کچھ حکومت اسلامی اور عمومی ضروریات پر خرچ کردیں اور یہ بھی حق رکھتے تھے کہ اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے لئے فدک کا کچھ حصہ مخصوص قرار دے دیں_ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے فدک کو اپنے اور اپنے خاندان کے معاش اور ضروریات زندگی کے لئے مخصوص کر رکھا تھا آپ نے فدک کی بعض غیر آباد زمین کو اپنے دست مبارک سے آباد کیا اور اس میں خرمے کے درخت لگائے_

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جب متوکل عباسی نے فدک عبداللہ بن عمر بازیار کو بخش دیا تو اس میں اس وقت تک گیارہ خرمے کے وہ درخت موجود تھے جو جناب رسول خدا(ص) نے اپنے دست مبارک سے اس میں لگائے تھے_

۲۴۸

جب کبھی فدک جناب فاطمہ (ع) کی اولاد کے ہاتھ میں آجاتا تھا تو وہ ان درختوں کے خرمے حاجیوں کو ہدیہ دیا کرتے تھے اور حاجی حضرات تبرّک کے طور پر لے کر ان پر کافی احسان کیا کرتے تھے_ جب یہی عبداللہ فدک پر مسلط ہوا تو اس نے بشر ان بن امیہ کو حکم دیا کہ وہ تمام درخت کاٹ دے جب وہ درخت کاٹے گئے اور کاٹنے والا بصرہ لوٹ آیا تو اسے فالج ہوگیا تھا_(۱)

پیغمبر(ص) کی عادت یہ تھی کہ فدک کی آمدنی سے اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے مطابق لے لیتے تھے اور جو باقی بچ جاتا تھا وہ بنی ہا شم کے فقراء اور ابن سبیل کو دے دیا کرتے تھے اور بنی ہاشم کے فقراء کی شادی کرانے کے اسباب بھی اسی سے مہیا کرتے تھے_

فدک جناب فاطمہ (ع) کے پاس

سب سے زیادہ مہم نزاع اور اختلاف جو جناب فاطمہ (ع) او رجناب ابوبکر کے درمیان پیا ہوا وہ فدک کا معاملہ تھا، حضرت فاطمہ (ع) مدعی تھیں کہ رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں فدک انہیں بخش دیا تھا لیکن جناب ابوبکر اس کا انکار کرتے تھے، ابتداء میں تو جھگڑا ایک عادی امر شمار ہوتا تھا لیکن بعد میں اس نے تاریخ کے ایک اہم واقعہ اور حساس حادثہ کی صورت اختیار کرلی کہ جس کے آثار اور تنائج جامعہ اسلامی کے سالوں تک دامن گیر ہوگئے اور اب بھی ہیں

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۷_

۲۴۹

اس نزاع میں جو بھی حق ہے وہ اچھی طرح واضح اور روشن ہوجائے لہذا چند مطالب کی تحقیق ضروری ہے_

پہلا مطلب: کیا پیغمبر(ص) :کو دولت او رحکومت کے اموال اپنی بیٹی کو بخش دینے کا حق تھا یا نہیں_ (واضح رہے کہ بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ انفال اور فی اور خمس و غیرہ قسم کے اموال حکومت اسلامی کے مال شمار ہوتے ہیں اور حاکم اسلامی صرف اس پر کنٹرول کرتا ہے یہ اس کا ذاتی مال نہیں ہوتا، اسی نظریئے کے صاحب کتاب بھی معلوم ہوتے ہیں گرچہ یہ نظریہ شیعہ علماء کی اکثریت کے نزدیک غلط ہے اور خود آئمہ طاہرین کے اقدام سے بھی یہ نظریہ غلط ثابت ہوتا ہے اور قرآن مجید کے ظواہر سے بھی اسی نظریئے کی تردید ہوتی ہے کیونکہ ان تمام سے ان اموال کا پیغمبر(ص) اور امام کا شخصی اور ذاتی مال ہونا معلوم ہوتا ہے نہ منصب اور حکومت کا لیکن صاحب کتاب اپنے نظریئے کے مطابق فدک کے قبضئے کو حل کر رہے ہیں ''مترجم''')

ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ غنائم اور دوسرے حکومت کے خزانے تمام مسلمانوں کے ہوتے ہیں اور حکومت کی زمین کو حکومت کی ملکیت میں ہی رہنا چاہیئے، لیکن ان کی آمدنی کو عام ملت کے منافع اور مصالح پر خرچ کرنا چاہیئے لہذا پیغمبر(ص) کے لئے جوہر خطا اور لغزش سے معصوم تھے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ فدک کو جو خالص آپ کا ملک تھا اپنی بیٹی زہراء کو بخش دیتے_

لیکن اس اعتراض کا جواب اس طر ح دیا جاسکتا ہے کہ انفال اور اموال حکومت کی بحث ایک بہت وسیع و عریض بحث ہے کہ جو ان اوراق میں تفصیل کے ساتھ تو بیان نہیں کی جاسکتی، لیکن اسے مختصر اور نتیجہ اخذ کرنے کے

۲۵۰

لئے یہاں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ فدک بھی غنائم اور عمومی اموال میں ایک تھا اور اس کا تعلق نبوت اور امامت کے منصب سے تھا یعنی اسلامی حاکم شرع سے تعلق رکھتا تھا لیکن پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ان اموال میں سے تھا جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا اور نصوص اسلامی کے مطابق اور پیغمبر(ص) کی سیرت کے لحاظ سے اس قسم کے اموال جو بغیر جنگ کے ہاتھ آئیں یہ پیغمبر(ص) کے خالص مال شمار ہوتے ہیں البتہ خالص اموال کو بھی یہ کہا جائے کہ آپ کا شخص مال نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا تعلق بھی حاکم اسلامی اور حکومت سے ہوتا ہے تب بھی اس قسم کے مال کا ان عمومی اموال سے جو دولت اور حکومت سے متعلق ہوتے ہیں بہت فرق ہوا کرتا ہے، کیونکہ اس قسم کے مال کا اختیار پیغمبر(ص) کے ہاتھ میں ہے اور آپ اس قسم کے اموال میں تصرف کرنے میں محدود نہیں ہوا کرتے بلکہ آپ کو اس قم کے اموال میں بہت وسیع اختیارات حاصل ہوا کرتے ہیں اور اس کے خرچ کرنے میں آپ اپنی مصلحت اندیی اور صواب دید کے پابند اور مختار ہوتے ہیں یہاں تک کہ اگر عمومی مصلحت اس کا تقاضا کرے تو آپ اس کا کچھ حصہ ایک شخص کو یا کئی افراد کو دے بھی سکتے ہیں تا کہ وہ اس منافع سے بہرہ مند ہوں_ اس قسم کے تصرفات کرنا اسلام میں کوئی اجنبی اور پہلا تصرف نہیں ہوگا بلکہ رسول خدا (ص) نے اپنی آراضی خالص سے کئی اشخاص کو چند زمین کے قطعات دیئے تھے کہ جس اصطلاح میں اقطاع کہا جاتا ہے_

بلاذری نے لکھا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کے چند قطعات___ بنی نضیر اور جناب ابوبکر اور جناب عبدالرحمان بن عوف اور جناب ابو دجانہ و غیرہ کو عنایت فرما

۲۵۱

دیئے تھے(۱) _

ایک جگہ اور اسی بلاذری نے لکھا ہے کہ رسول خدا (ص) نے بنی نضیر کی زمینوں میں سے ایک قطعہ زمین کا مع خرمے کے درخت کے زبیر ابن عوام کو دے دیا تھا(۲) _

بلاذری لکھتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے زمین کا ایک قطعہ کہ جس میں پہاڑ اور معدن تھا جناب بلال کو دے دیا(۳) _

بلاذری لکھتے ہیں کے رسول خدا(ص) نے زمین کے چار قطعے علی ابن ابی طالب(ع) کو عنایت فرما دیا دیئے تھے(۴) _

پس اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے کہ حاکم شرع اسلامی کو حق پہنچتا ہے کہ زمین خالص سے کچھ مقدار کسی معین آدمی کو بخش دے تا کہ وہ اس کے منافع سے استفادہ کرسکے_ پیغمبر(ص) نے بھی بعض افراد کے حق میں ایسا عمل انجام دیا ہے_ حضرت علی (ع) او رجناب ابوبکر اور جناب عمر اور جناب عثمان اس قسم کی بخشش سے نوازے گئے تھے_

بنابرین قوانین شرع اور اسلام کے لحاظ سے کوئی مانع موجود نہیں کہ رسول خدا(ص) فدک کی آراضی کو جناب زہراء (ع) کو بخش دیں، صرف اتنا مطلب رہ جائے گا کہ آیا جناب رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخشا بھی تھا یا نہیں، تو اس کے اثبات کے لئے وہ اخبار اور روایات جو ہم تک پیغمبر(ص) کی پہنچی ہیں کافی ہیں کہ آپ

____________________

۱) فتوح البلدان، ص ۲۱_

۲) فتوح البلدان، ص ۳۴_

۳، ۴) فتوح البلدان، ص ۲۷

۲۵۲

نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا، نمونے کے طور پر ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت ''وات ذالقربی حقہ'' نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے(۱) _

عطیہ نے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت ''وات ذالقربی حقہ'' نازل ہوئی تو جناب رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو اپنے پاس بلایا اور فدک آپ کو دے دیا(۲) _

علی (ع) بن حسین (ع) بن علی (ع) بن ابی طالب (ع) فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا(۳) _

جناب امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جب یہ آیت ''وَ ات ذالقربی حقہ'' نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ مسکین تو میں جانتا ہوں یہ ''ذالقربی '' کون ہیں؟ جبرئیل نے عرض کی یہ آپ کے اقرباء ہیں پس رسول خدا(ص) نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) اور جناب فاطمہ (ع) کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے دستور اور حکم دیا ہے کہ میں تمہارا حق دوں اسی لئے فدک تم کو دیتا ہوں(۴) _

ابان بن تغلب نے کہا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی کہ آیا رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دیا تھا؟ آپ (ع) نے فرمایا کہ فدک تو خدا کی طرف سے جناب فاطمہ (ع) کے لئے معین ہوا تھا(۵) _

امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا کہ جناب فاطمہ (ع) حضرت ابوبکر کے پاس آئیں

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲_ در منثور، ج ۴ ص ۱۷۷_

۲،۳) کشف الغمہ ج ۲ ص ۱۰۲_

۴، ۵) تفسیر عیاشی ج ۲ ص ۲۷۰_

۲۵۳

اور ان سے فدک کا مطالبہ کیا_

جناب ابوبکر نے کہا اپنے مدعا کے لئے گواہ لاؤ، جناب ام ایمن گواہی کے لئے حاضر ہوئیں تو ابوبکر نے ان سے کہا کہ کس چیز گواہی دیتی ہو انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ جبرئیل جناب رسول خدا(ص) کے پاس آئے اور عرض کی کہ اللہ تعالیی فرماتا ہے ''وَ ات ذالقربی حقہ'' پیغمبر(ص) نے جبرئیل سے فرمایا کہ خدا سے سوال کرو کہ ذی القربی کون ہیں؟ جبرئیل نے عرض کی کہ فاطمہ (ع) ذوالقربی ہیں پس رسول خا(ص) نے فدک کو دے دیا(۱) _

ابن عباس نے روایت کی ہے کہ جب آیت ''وَ ات ذالقربی حقہ'' نازل ہوئی، جناب رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دے دیا(۲) _

اس قسم کی روایات سے جو اس آیت کی شان نزول میں وارد ہوئی ہیں مستفاد ہوتا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) اللہ تعالی کی طرف سے مامور تھے کہ فدک کو بعنوان ذوالقربی فاطمہ (ع) زہراء (ع) کے اختیار میں دے دیں تا کہ اس ذریعے سے حضرت علی (ع) کی اقتصادی حالت ''کہ جس نے اسلام کے راستے میں _ جہاد اور فداکاری کی ہے '' مضبوط رہے _

ممکن ہے کہ کوئی یہ اعتراض کرے کہ ذالقربی والی آیت کہ جس کا ذکر ان احادیث میں ہوا ہے سورہ اسراء کی آیت ہے اور سورہ اسراء کو مکی سورہ میں شمار کیا جاتا ہے حالانکہ فدک تو مدینے میں اور خیبر کی فتح کے بعد دیا گیا تھا لیکن اس کے جواب میں دو مطلب میں سے ایک کو اختیار کیا جائے گا اور کہا جائے

____________________

۱) تفسیر عیاشی، ج ۲ ص ۲۸۷_

۲) در منثور، ج ۴ ص ۱۷۷_

۲۵۴

گا گر چہ سورہ اسری مکی ہے مگر پانچ آیتیں اس کی مدینہ میں نازل ہوئی ہیں_

آیت''و لا تقتلوا النفس' ' اور آیت''و لا تقربوا الزنا'' اور آیت ''اولئک الذین یدعون '' اور آیت''اقم الصلوة'' اور آیت''ذی القربی ''(۱) _

دوسرا جواب یہ ہے کہ ذی القربی کا حق تو مکہ میں تشریع ہوچکا تھا لیکن اس پر عمل ہجرت کے بعد کرایا گیا _

فدک کے دینے کا طریقہ

ممکن ہے کہ جناب رسول خدا (ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو دو طریقوں میں سے ایک سے دیا ہو_ پہلا فدک کی آراضی کو آپ کا شخصی مال قرار دے دیا ہو_ دوسرا یہ کہ اسے علی (ع) اور فاطمہ (ع) کے___ خانوادے پر جو مسلمانوں کی رہبری اور امامت کا__ _ گھر تھا وقف کردیا ہو کہ یہ بھی ایک دائمی صدقہ اور وقف ہوجو کہ ان کے اختیار میں ___س دے دیا ہو_

اخبار اور احادیث کا ظاہر پہلے طریقے کی تائید کرتا ہے، لیکن دوسرا طریقہ بھی بعید قرار نہیں دیاگیا بلکہ بعض روایات میں اس پر نص بھی موجود ہے جیسے ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا آپ نے فرمایا کہ پیغمبر(ص) نے فدک وقف کیا اور پھر آپ ذی القربی کے مطابق وہ آپ(ع) کے اختیار میں دے دیا میں نے عرض کی کہ رسول خدا(ص) نے

____________________

۱) تفسیر المیزان تالیف استاد بزرگ علامہ طباطبائی ج ۱۳ ص ۲_

۲۵۵

فدک فاطمہ (ع) کو دے دیا آپ نے فرمایا بلکہ خدا نے وہ فاطمہ (ع) کو دیا(۱) _

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول(ص) نے فاطمہ (ع) کو فدک بطور قطعہ دیا(۲) _

ام ہانی نے روایت کی ہے کہ جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ جب تو مرے گا تو تیرا وارث کون ہوگا؟ جناب ابوبکر نے کہا میری آل و اولاد، جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا پس تم کس طرح رسول اللہ کے ہمارے سوا وارث ہوگئے ہو، جناب ابوبکر نے کہا، اے رسول کی بیٹی خدا کی قسم میں رسول اللہ (ص) کا سونے، چاندی و غیرہ کا وارث نہیں ہوا ہوں_ جناب فاطمہ (ع) نے کہا ہمارا خیبر کا حصہ اور صدقہ فدک کہاں گیا؟ انہوں نے کہا اے بنت رسول (ص) میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہ تو ایک طمعہ تھا جو اللہ نے مجھے دیا تھا جب میرا انتقال ہوجائے تو یہ مسلمانوں کا ہوگا(۳) _

جیسا کہ آپ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ ایک حدیث میں امام جعفر صادق (ع) تصریح فرماتے ہیں کہ فدک وقف تھا، دوسری حدیث میں امام زین العابدین نے اسے قطعہ سے تعبیر کیا ہے کہ جس کے معنی صرف منافع کا اسلامی او رحکومتی زمین سے حاصل کرنا ہوتا ہے، احتجاج میں حضرت زہراء (ع) نے ابوبکر سے بعنوان صدقہ کے تعبیر کیا ہے_

ایک اور حدیث میں جو پہلے گزرچکی ہے امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ رسول خدا (ص) نے حسن (ع) و حسین (ع) اور فاطمہ (ع) کو بلایا اور فدک انہیں دے دیا_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۹۶ ص ۲۱۳_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲_

۳) فتوح البلدان، ص ۴۴_

۲۵۶

اس قسم کی احادیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فدک کو خانوادہ فاطمہ (ع) و علی (ع) پر جو ولایت اور رہبری کا خانوادہ تھا اور اس کے منافع کو انہیں کے ساتھ مخصوص کردیا تھا_

''لیکن جن روایات میں وقف و غیرہ کی تعبیر آئی ہے وہ ان روایات کے مقابل کہ جن میں بخش دینا آیا ہے بہت معمولی بلکہ ضعیف بھی شمار کی جاتی ہیں لہذا صحیح نظریہ یہی ہے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کی شخصی اور ذاتی ملک تھا جو بعد میں ان کی اولاد کا ارث تھا_ صاحب کتاب اس قسم کی کوشش صرف ایک غرض کے ماتحت فرما رہے ہیں اور یہ غرض اہل علم پر کہ جنہوں نے نہج البلاغہ کی موجودہ زمانے میں جو شرح کی گئی ہے کا مطالعہ کیا ہے مخفی نہیں ہے لیکن شارح بھی حق پر نہیں ہے اور ان کی تصحیح کی کوشش بھی درست نہیں ہے '' مترجم

فدک کے واقعہ میں قضاوت

دیکھنا یہ چاہیئے کہ اس واقعہ میں حق جناب زہراء (ع) کے ساتھ ہے یا جناب ابوبکر کے ساتھ؟ مورخین اور محدثین نے لکھا ہے کہ جناب رسول خدا (ص) کی وفات کے دس دن بعد جناب ابوبکر نے اپنے آدمی بھیجے اور فدک پر قبضہ کرلیا(۱) _

جب اس کی اطلاع جناب فاطمہ (ع) کو ہوئی تو آپ جناب ابوبکر کے پاس آئیں اور فرمایا کہ کیوں تیرے آدمیوں نے میرے فدک پر قبضہ کیا ہے؟ حکم دو کہ وہ فدک مجھے واپس کردیں، جناب ابوبکر نے کہا_ اے پیغمبر(ص) کی بیٹی آپ کے

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۶۳_

۲۵۷

والد نے درہم اور دینار میراث میں نہیں چھوڑٹے آپ نے خود فرمایا ہے کہ پیغمبر(ص) ارث نہیں چھوڑا کرتے، جناب فاطمہ (ع) نے کہا کہ میرے بابا نے فدک اپنی زندگی میں مجھے بحش دیا تھا_ جناب ابوبکر نے کہا کہ آپ کو اپنے اس مدعا پر گواہ لانے چاہئیں پس علی (ع) ابن ابی طالب اور جناب امّ ایمن حاضر ہوء اور گواہی دی کہ رسول خدا(ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا، لیکن جناب عمر اور عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول خدا (ص) فدک کی آمدنی کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے پس ابوبکر نے کہا اے رسول(ص) کی بیٹی تم سچ کہتی ہو اور علی (ع) اور امّ ایمن بھی سچ کہتے ہیں اور عمر اور عبدالرحمن بھی سچ کہتے ہیں اس واسطے کہ آپ کا مال آپ کے والد تھا_ رسول خدا (ص) آپ کا آذوقہ فدک کی آمدنی سے دیا کرتے تھے اور باقی کو تقسیم کردیتے تھے اور راہ خدا میں صرف کیا کرتے تھے(۱) _

بلاذری کہتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پا س گئیں اور فرمایا کہ فدک میرے والد نے میرے سپرد کیا تھا وہ کیوں نہیں؟ جناب ابوبکر سنے گواہوں کا مضالبہ کیا پس علی ابن ابی طالب اور جناب ام ایمن حاضر ہوئے اور گواہی دی جناب ابوبکر نے کہا تمہارے گواہوں کا نصاب ناقص ہے چاہیئے کہ دو مرد گواہی یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں(۲)

علی ابن ابی طالب (ع) فرماتے ہیں کہ فا طمہ (ع) ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ میرے والد نے فدک میرے سپرد کیا تھا علی (ع) اور امّ ایمن نے گواہی بھی دی تم کیوں

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۶_

۲) فتوح البلدان، ص ۴۴_

۲۵۸

مجھے میرے حق سے محروم کرتے ہو_

جناب ابوبکر نے فرمایا کہ آپ سوائے حق کے اور کچھ نہیں فرماتیں فدک آپ کو دیتا ہوں پس فدک کو جناب فاطمہ (ع) کے لئے تحریر کردیا اور قبالہ آپ کے ہاتھ میں دے دیا جناب فاطمہ (ع) نے وہ خط لیا اور باہر آگئیں راستے میں جناب عمر نے آپ کو دیکھا اور پوچھا کہ کہاں سے آرہی ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر کے یہاں گئی تھی اور میں نے کہا کہ میرے والد نے فدک مجھے بخشا تھا اور ام ایمن نے گواہی دی تھی لہذا انہوں نے فدک مجھے واپس کردیا ہے اور یہ اس کی تحریر ہے جناب عمر نے وہ تحریر لی اور جناب ابوبکر کے پاس آئے اور کہا کہ تم نے فدک تحریر کرکے فاطمہ (ع) کو واپس کردیا ہے؟ انہوں نے کہا ہان، عمر نے کہا کہ علی (ع) نے اپنے نفع کے لئے گواہی دی ہے اور امّ ایمن ایک عورت ہے اس کے بعد اس تحریر کو پھاڑ ڈالا(۱) _

جناب فاطمہ (ع) نے ابوبکر سے کہا کہ امّ ایمن گواہی دیتی ہے کہ رسول خدا(ص) نے فدک مجھے بخش دیا تھا_ ابوبکر نے کہا اے دختر رسول (ص) ، خدا کی قسم میرے نزدیک رسول خدا(ص) سے زیادہ محبوب کوئی بھی نہیں ہے جب آپ وفات پاگئے تو میرا دل چاہتا تھا کہ آسمان زمین پر گرپڑے، خدا کی قسم عائشےہ فقیر ہو تو بہتر ہے کہ تم محتاج ہو_ کیا آپ خیال کرتی ہیں کہ میں سرخ و سفید کا حق تو ادا کرتا ہوں لیکن آپ کو آپ کے حق سے محروم کرتا ہوں؟ فدک پیغمبر(ص) کا شخصی مال نہ تھا بلکہ مسلمانوں کا عمومی مال تھا آپ کے والد اس کی آمدنی سے فوج تیار کرتے تھے اور خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے، جب آپ(ص) دنیا سے چلے گئے تو اس

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ص ۱۶ ص ۲۷۴_

۲۵۹

کی تولیت اور سرپرستی میرے ہاتھ میں آئی ہے(۱) _

اس قسم کی گفتگو جناب فاطمہ (ع) اور جناب ابوبکر کے درمیان ہوئی لیکن جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) کی بات تسلیم نہیں کی اور جناب زہراء (ع) کو ان کے حق سے محروم کردیا_

اہل علم و دانش اور منصف مزاج لوگوں پر مخفی نہیں کہ جناب ابوبکر کا عمل اور کردار قضاوت اور شہادت کے قوانین کے خلاف تھا اور آپ پر کئی جہات سے اعتراض وارد کئے جاسکتے ہیں_

پہلا اعتراض:

فدک جناب زہراء (ع) کے قبضہ میں تھا تصرف میں تھا اس میں آپ سے گواہوں کا مطالبہ شریعت اسلامی کے قانوں کے خلاف تھا اس قسم کے موضوع میں جس کے قبضے میں مال ہو اس کا قول بغیر کسی گواہ اور بین ہ کے قبول کرنا ہوتا ہے، اصل مطلب ک ی ذی الید کا قول بغیر گواہوں کے قبول ہوتا ہے، یہ فقہی کتب میں مسلم اور قابل تردید نہیں ہے باقی رہا کہ جناب فاطمہ (ع) ذی الید اور فدک پر قابض تھیں یہ کئی طریقے سے ثابت کیا جاسکتا ہے_

اول: جیسا کہ پہلے نقل ہوچکا ہے ابوسعید خدری، عطیہ اور کئی دوسرے افراد نے گواہی دی تھی کہ رسول خدا (ص) نے اس آیت کے مطابق ''وَ ات ذالقربی حقہ'' فدک جناب فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا، روایت میں اعطی کا لفظ وارد ہوا ہے بلکہ اس پر نص ہے کہ جناب رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں فدک حتمی طور پر جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا اور وہ آپ کے قبضہ اور تصرف میں تھا_

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۴_

۲۶۰