فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون0%

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 293

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 293
مشاہدے: 94424
ڈاؤنلوڈ: 4237

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 293 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 94424 / ڈاؤنلوڈ: 4237
سائز سائز سائز
فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دوسرے: حضرت علی (ع) نے تصریح فرمائی ہے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کے تصرف اور قبضے میں تھا جیسا کہ آپ نے نہج البلاغہ میں فرمایا ہے کہ ہاں ہمارے پاس اس میں سے کہ جس پر آسمان سایہ فگن ہے صرف فدک تھا، ایک گروہ نے اس پر بخل کیا اور دوسرا گروہ راضی ہوگیا اور اللہ ہی بہترین قضاوت کرنے والا ہے(۱) _

تیسرے: امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جب جناب ابوبکر نے حکم دیا کہ فدک سے جناب فاطمہ (ع) کے آدمیوں اور کام کرنے والوں کو نکال دیا جائے تو حضرت علی (ع) ان کے پا س گئے اور فرمایا اے ابوبکر، اس جائداد کو کہ جو رسول خدا (ص) نے فاطمہ (ع) کو بخش دی تھی اور ایک مدت تک جناب فاطمہ (ع) کا نمائندہ پر قابض رہا آپ نے کیوں لے لی ہے؟(۲) _

رسول خدا(ص) کا فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دینا اور جناب فاطمہ (ع) کا اس پر قابض ہونا یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، اسی لئے جب عبداللہ بن ہارون الرشید کو مامون کی طرف سے حکم ملا کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کی اولاد کو واپس کردیا جائے تو اس نے ایک خط میں مدینہ کے حاکم کو لکھا کہ رسول خدا (ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دیا تھا اور یہ بات آل رسول (ص) میں واضح اور معروف ہے اور کسی کو اس بارے میں شک نہیں ہے اب امیرالمومنین (مامون) نے مصلحت اسی میں دیکھی ہے کہ فدک فاطمہ (ع) کے وارثوں کو واپس کردیا جائے(۳) _

ان شواہد اور قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک جناب رسول خدا(ص) کے

____________________

۱) نہج البلاغہ باب المختار من الکتاب، کتاب ۴۵_

۲) نورالثقلین، ج ۴ ص ۲۷۲_

۳) فتوح البلدان، ص ۴۶_

۲۶۱

زمانے میں حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ (ع) کے قبضے میں تھا اس قسم کے موضوع میں گواہوں کا طلب کرنا اسلامی قضا اور شہادت کے قانوں کے خلاف ہے_

دوسرا اعتراض:

جناب ابوبکر اس نزاع میں جانتے تھے کہ حق جناب فاطمہ (ع) کے ساتھ اور خود_ انہیں جناب زہراء (ع) کی صداقت اور راست گوئی کا نہ صرف____ اعتراف تھا بلکہ تمام مسلمان اس کا اعتراف کرتے تھے کوئی بھی مسلمان آپ کے بارے میں جھوٹ اور افتراء کا احتمال نہ دیتا تھا کیوں کہ آپ اہل کساء میں سے ایک فرد تھیں کہ جن کے حق میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے کہ جس میں خداوند عالم نے آپ کی عصمت اور پاکیزگی کی تصدیق کی ہے_

دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو یہ مطلب کتاب قضا اور شہادت میں ثابت ہے کہ اموال اور دیوں کے معاملے میں اگر قاضی کو واقعہ کا علم ہو تو وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرسکتا ہے او روہ گواہ اور بینہ کا محتاج نہ ہوگا، بنابراین جناب ابوبکر جب جانتے تھے کہ حضرت زہراء (ع) ، سچی ہیں اور رسول خدا(ص) نے فدک انہیں عطا کیا ہے تو آپ کو چاہیئے تھا کہ فوراً جناب زہراء (ع) کی بات تسلیم کرلیتے اور آپ سے گواہوں کا مطالبہ نہ کرتے_

جی ہاں مطلب تو یوں ہی ہے کہ جناب ابوبکر جانتے تھے کہ حق حضرت زہراء (ع) کے ساتھ ہے اور رسول خدا(ص) نے فدک میں انہیں دے دیا ہے شاید ابوبکر پیغمبر(ص) کے اس عمل سے ناراض تھے اسی لئے جناب فاطمہ (ع) کے جواب میں کہا کہ یہ مال پیغمبر اسلام کا نہ تھا بلکہ یہ مسلمانوں کا مال تھا کہ جس سے پیغمبر (ص) فوج تیار کرتے تھے اور جب آپ فوت ہوگئے تو اب

۲۶۲

میں اس مال کا متولی ہوں جیسے کہ پیغمبر(ص) متولی تھے(۱) _

ایک اور جگہ جناب ابوبکر نے اپنے آپ کو دوبڑے خطروں میں دیکھا ایک طرف جناب زہراء (ع) مدعی تھیں کہ رسول خدا(ص) نے فدک انہیں بخشا ہے اور اپنے اس مدعا کے لئے دو گواہ علی (ع) اور ام ایمن کو حاضر کیا اور جناب ابوبکر جانتے تھے کہ حق جناب زہراء (ع) کے ساتھ ہے اور انہیں اور ان کے گواہوں کو نہیں چھٹلا سکتے تھے اور دوسری طرف سیاست وقت کے لحاظ سے جناب عمر اور عبدالرحمن کو بھی نہیں جھٹلاسکتے تھے تو آپ نے ایک عمدہ چال سے جناب عمر کے قول کو ترجیح دی اور تمام گواہوں کے اقوال کی تصدیق کردی اور ان کے اقوال میں جمع کی راہ نکالی اور فرمایا کہ اے دختر رسول (ص) آپ سچی ہیں علی (ع) سچے ہیں اور ام ایمن سچی ہیں اور جناب عمر اور عبدالرحمن بھی سچے ہیں، اس لئے کہ جناب رسول خدا(ص) فدک سے آپ کے آذوقہ کی مقدار نکال کر باقی کو تقسیم کردیتے تھے اور اسے خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے اور آپ اس مال میں کیا کریں گی؟ جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ وہی کروں گی جو میرے والد کرتے تھے، جناب ابوبکر نے کہا کہ میں قسم کھا کر آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں بھی وہی کروں گا جو آپ کے والد کیا کرتے تھے(۲) _

ایک طرف تو جناب ابوبکر جناب زہراء (ع) کے اس ادعا ''کہ فدک میرا مال ہے'' کی تصدیق کرتے ہیں اور حضرت علی (ع) اور ام ایمن کی گواہوں کی بھی تصدیق کرتے ہیں اور دوسری طرف جناب عمر اور عبدالرحمن کے قول کی

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۴_

۲) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۶_

۲۶۳

بھی انہوں نے کہا کہ رسول خدا فدک کو مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے تصدیق کرتے ہیں اور اس وقت اپنے اجتہاد کے مطابق ان اقوال (توافق) جمع کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کا مال آپ کے والد کا مال تھا کہ جس سے آپ کا آذوقہ لے لیتے تھے اور باقی کو مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے اور خدا کی راہ میں خرچ کردیتے تھے اس کے بعد جناب ابوبکر جناب فاطمہ (ع) سے پوچھتے ہیں کہ اگر فدک آپ کو دے دیا جائے تو آپ کیا کریں گی، آپ نے فرمایا کہ میں اپنے والد کی طرح خرچ کروں گی تو فوراً جناب ابوبکر نے قسم کھا کر جواب دیا کہ میں بھی وہی کروں گا جو آپ کے والد کیا کرتے تھے اور میں آپ(ص) کی سیرت سے تجاوز نہ کروں گا_

لیکن کوئی نہ تھا کہ جناب ابوبکر سے سوال کرتا کہ جب آپ مانتے ہیں کہ فدک جناب زہراء (ع) کی ملک ہے اور آپ جناب فاطمہ (ع) اور ان کے گواہوں کی تصدیق بھی کر رہے ہیں تو پھر ان کی ملکیت ان کو واپس کیوں نہیں کردیتے؟ جناب عمر اور عبدالرحمن کی گواہوں صرف یہی بتلانی ہے کہ پیغمبر(ص) فدک کو مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے، اس سے جناب زہراء (ع) کی ملکیت کی نفی تو نہیں ہوتی کیونکہ پیغمبر(ص) جناب زہراء (ع) کی طرف سے ماذون تھے کہ فدک کی زائد آمدنی کو راہ خدا میں خرچ کردیں، لیکن اس قسم کی اجازت جناب فاطمہ (ع) نے ابوبکر کو تو نہیں دے رکھی تھی بلکہ اس کی اجازت ہی نہیں دی تو پھر ابوبکر کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ فرمائیں کہ میں بھی آپ کے والد کی سیرت سے تجاوز نہ کروں گا، مالک تو کہتا ہے کہ میری ملکیت مجھے واپس کردو اور آپ اس سے انکار کر کے وعدہ کرتے ہیں کہ میں بھی آپ کے والد کی طرح عمل کروں گا، سبحان اللہ اور آفرین اس قضاوت اور فیصلے پر_

۲۶۴

تیسرا اعتراض:

فرض کیجئے کہ جناب ابوبکر حضرت زہراء (ع) کے گواہوں کے نصاب کو ناقص سمجھتے تھے اور ان کی حقانیت پر یقین بھی نہیں رکھتے تھے تو پھر بھی ان کا وظیفہ تھا کہ حضرت زہراء (ع) سے قسم کھانے کا مطالبہ کرتے اور ایک گواہ اور قسم کے ساتھ قضاوت کرتے کیوں کہ کتاب قضا اور شہادت میں یہ مطلب پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ ام وال اور دیون کے واقعات میں قاضی ایک گواہ کے ساتھ مدعی سے قسم لے کر حکم لگا سکتا ہے، روایت میں موجود ہے کہ رسول خدا (ص) ایک گواہ کے ساتھ قسم ملا کر قضاوت اور فیصلہ کردیا کرتے تھے(۱) _

چوتھا اعتراض:

اگر ہم ان سابقہ تمام اعتراضات سے صرف نظر کرلیں تو اس نزاع میں جناب فاطمہ (ع) مدعی تھیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فدک انہیں بخش دیا ہے اور جناب ابوبکر منکر تھے اور کتب فقہی میں یہ مطلب مسلم ہے کہ اگر مدعی کا ثبوت ناقص ہو تو قاضی کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ مدعی کو اطلاع دے کہ تمہارے گواہ ناقص ہیں اور تمہیں حق پہنچتا ہے کہ تم منکر سے قسم اٹھانے کا مطالبہ کرو، لہذا جناب ابوبکر پر لازم تھا کہ وہ جناب زہراء (ع) کو تذکر دیتے کہ چونکہ آپ کے گواہ ناقص ہیں اگر آپ چاہیں تو چونکہ میں منکر ہوں آپ مجھ سے قسم اٹھوا سکتی ہیں، لیکن جناب ابوبکر نے قضاوت کے اس قانون کو بھی نظرانداز کیا اور صرف گواہ کے ناقص ہونے کے ادعا کو نزاع کے خاتمہ کا اعلان کر کے رد کردیا_

____________________

۱) مجمع الزوائد، ج ۳ ص ۲۰۲ _

۲۶۵

پانچواں اعتراض:

اگر فرض کرلیں کہ جناب زہراء (ع) کی حقانیت اس جگھڑے میں جناب ابوبکر کے نزدیک ثابت نہیں ہوسکی تھی لیکن پھر بھی فدک کی آراضی حکومت اسلامی کے مال میں تھی، مسلمانوں کے حاکم اور خلیفہ کو حق پہنچتا تھا کہ وہ عمومی مصلحت کا خیال کرتے، جب کہ آپ اپنے کو مسلمانوں کا خلیفہ تصور کرتے تھے، فدک کو بعنوان اقطاع جناب فاطمہ (ع) دختر پیغمبر(ص) کو دے دیتے اور اس عمل سے ایک بہت بڑا اختلاف جو سالہا سال تک مسلمانوں کے درمیان چلنے والا تھا اس کے تلخ نتائج کا سد باب کردیتے_

کیا رسول خدا(ص) نے بنی نضیر کی زمینیں جناب ابوبکر اور عبدالرحمن بن عوف اور ابو دجانہ کو نہیں دے دی تھیں(۱) _

کیا بنی نضیر کی زمین مع درختوں کے زبیر بن عوام کو پیغمبر(ص) اسلام نے نہیں دے دی تھیں(۲) _

کیا معاویہ نے اسی فدک کا تہائی حصہ کے عنوان سے مروان بن الحکم اور ایک تہائی جناب عمر بن عثمان کو اور ایک تہائی اپنے بیٹے یزید کو نہیں دے دیا تھا(۳) _

کیا یہ بہتر نہ تھا کہ جناب ابوبکر بھی اسی طرح دختر پیغمبر(ص) کو دے دیتے اور اتنے بڑے خطرے اور نزاع کو ختم کردیتے؟

____________________

۱) فتوح البلدان، ص ۳۱_

۲) فتوح البلدان، ص ۳۴_

۳) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۶_

۲۶۶

چھٹا اعتراض:

اصلاً جناب ابوبکر کا اس نزاع میں فیصلہ اور قضاوت کرنا ہی ازروئے قانون قضاء اسلام درست نہ تھا کیونکہ جناب زہراء (ع) اس واقعہ میں مدعی تھیں اور جناب ابوبکر منکر تھے، اس قسم کے موارد میں یہ فیصلہ کسی تیسر آدمی سے _ کرانا چاہیئے تھا، جیسے کہ پیغمبر(ص) اور حضرت علی (ع) اپنے نزاعات میں اپنے علاوہ کسی اور قاضی سے فیصلہ کرایا کرتے تھے یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ جناب ابوبکر خود ہی منکر ہوں او رخود ہی قاضی بن کر اپنے مخالف سے گواہ طلب کریں اور اپنی پسند کا فیصلہ اور قضاوت خود ہی کرلیں_

ان تمام مطالب سے یہ امر مستفاد ہوتا ہے کہ فدک کے معاملے میں حق جناب زہراء (ع) کے ساتھ تھا اور جناب ابوبکر نے عدل اور انصاف کے راستے سے عدول کر کے ان کے حق میں تعدی اور تجاوز سے کام لیا تھا_

رسول خدا (ص) کے مدینہ میں اموال

بنی نضیر یہودیوں کی زمینیں رسول خدا (ص) کا خالص مال تھا، کیونکہ بغیر جنگ کے فتح ہوئی تھیں اس قسم کے مال میں پیغمبر اسلام (ص) کو پورا اختیار تھا کہ جس طرح مصلحت دیکھیں انہیں مصرف میں لائیں، چنانچہ آپ نے بنی نضیر سے منقول اموال جو لئے تھے وہ تو مہاجرین کے درمیان تقسیم کردیئےور کچھ زمین اپنے لئے مخصوص کرلی اور حضرت علی (ع) کو حکم دیا کہ اس پر تصرف کریں اور بعد میں اسی زمین کو وقف کردیا اور موقوفات میں داخل قرار دیا اپنی زندگی میں اس کے متولی خود آپ تھے آپ کی وفات کے بعد اس کی تولیت حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور ان کی اولاد کے سپرد کی(۱)

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۲۰ ص ۱۷۳_

۲۶۷

یہودیوں کے علماء میں سے مخیرق نامی ایک عالم _ مسلمانوں ہوگئے انہوں نے اپنا مال جناب رسول خدا (ص) کو بخش دیا ان کے اموال میں سے سات باغ تھے کہ جن کے یہ نام تھے_ مشیب، صافیہ، دلال، حسنی، برقہ، اعوف، مشربہ ام ابراہیم یہ تمام اس نے جناب رسول خدا (ص) کو ہبہ کردیئےھے آپ(ص) نے بھی انہیں وقف کردیا تھا(۱) _

بزنطی کہتے ہیں کہ میں نے سات زرعی زمینوں کے متعلق ''جو جناب فاطمہ (ع) کی تھیں'' امام رضا (ع) سے سوال کیا _ آپ نے فرمایا یہ رسول خدا(ص) نے وقف کی تھیں کہ جو بعد میں حضرت زہراء (ع) کو ملی تھیں، پیغمبر اسلام (ص) اپنی ضروریات بھر ان میں سے لیا کرتے تھے جب آپ نے وفات پائی تو جناب عباس نے ان کے بارے میں حضرت فاطمہ (ع) سے نزاع کیا، حضرت علی (ع) اور دوسروں نے گواہی دی کہ یہ وقفی املاک ہیں وہ زرعی زمینیں اس نام کی تھیں دلال، اعوف حسنی، صافیہ، مشربہ ام ابراہیم، مشیب، برقہ(۲) _

حلبی اور محمد بن مسلم نے امام جعفر صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ ہم نے رسول خدا (ص) اور فاطمہ زہراء (ع) کے صدقات اور اوقاف کے متعلق سوال کیا تو آپ (ع) نے فرمایا کہ وہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کا مال تھا(۳) _

ابومریم کہتا ہے کہ میں نے رسول خدا(ص) اور حضرت علی (ع) کے صدقات اور اوقاف کے متعلق امام جعفر صادق (ع) سے سوال کیا، تو آپ نے فرمایا کہ وہ

____________________

۱) فتوح البلدان، ص ۳۱_ سیرة ابن ہشام، ج ۲ ص ۵ ۱۶_

۲) بحار الانوار، ج ۲۲ ص ۲۹۶_

۳) بحار الانوار، ج ۲۲ ص ۲۶۶_

۲۶۸

ہمارے لئے حلال ہے جناب فاطمہ (ع) کے صدقات بنی ہاشم اور بنی المطلب کا مال تھا(۱) _

جناب رسول خدا(ص) نے ان املاک کو جو مدینہ کے اطراف میں تھے وقف کردیا تھا اور ان کی تولیت حضرت فاطمہ (ع) اور حضرت علی (ع) کے سپرد کردی تھی_ یہ املاک بھی ایک مورد تھا کہ جس میں حضرت زہراء (ع) کا جناب ابوبکر سے جھگڑا ہوا تھا_

بظاہر حضرت زہراء (ع) اس جھگڑے میں کامیاب ہوگئیں اور مدینہ کے صدقات اور اوقاف کو آپ نے ان سے لے لیا، اس کی دلیل اور قرینہ یہ ہے کہ آپ نے موت کے وقت ان کی تولیت کی علی (ع) اور اپنی اولاد کے لئے وصیت کی تھی، لیکن مجلسی نے نقل کیا ہے کہ جناب ابوبکر نے بالکل کوئی چیز بھی جناب فاطمہ (ع) کو واپس نہیں کی البتہ جب جناب عمر خلافت کے مقام پر پہنچے تو آپ نے مدینہ کے صدقات اور اوقاف حضرت علی (ع) اور عباس کو واپس کردیئےلیکن خیبر اور فدک واپس نہ کئے اور کہا کہ یہ رسول خدا(ص) کے لازمی اور ناگہانی امور کے لئے وقف ہیں_

مدینہ کے اوقاف اور صدقات حضرت علی (ع) کے قبضے میں تھے اس بارے میں جناب عباس نے حضرت علی (ع) سے نزاع کیا لیکن اس میں حضرت علی کامیاب ہوگئے لہذا آپ کے بعد یہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے ہاتھ میں آیا اور ان کے بعد امام حسین علیہ السلام کے ہاتھ اور آپ کے بعد جناب عبداللہ بن حسن (ع) کے ہاتھ میں تھے یہاں تک کہ بنی عباس خلافت پر پہنچے تو انہوں نے یہ صدقات بنی ہاشم سے واپس لے لئے(۲) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۲۲ ص ۲۹۷_

۲) بحار الانوار، ج ۴۲ ص ۳۰۰_

۲۶۹

خیبر کے خمس کا بقایا

۷ ہجری کو اسلام کی سپاہ نے خیبر کو فتح کیا اس کے فتح کرنے میں جنگ اور جہاد کیا گیا اسی وجہ سے یہودیوں کا مال اور اراضی مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوئی_

رسول خدا(ص) نے قانون اسلام کے مطابق غنائم خیبر کو تقسیم کیا، آپ نے منقولہ اموال کو پانچ حصّوں میں تقسیم کیا چار حصّے فوج میں تقسیم کردیئےور ایک حصہ خمس کا ان مصارف کے لئے مخصوص کیا کہ جسے قرآن معین کرتا ہے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے :

( و اعلموا انما غنمتم من شیئً فان لله خمسه و للرسول و لذی القربی و الیتامی و المساکین و ابن السبیل ) (۱)

یعنی جان لو کہ جو بھی تم غنیمت لو اس کا خمس خدا اور پیغمبر(ص) اور پیغمبر(ص) کے رشتہ دار اور ذوی القربی اور اس کے یتیم اور تنگ دست اور ابن سبیل کے لئے ہے_ اس آیت اور دیگر احادیث کے رو سے غنیمت کا خمس چھ جگہ خرچ کیا جاتا ہے اور صرف اسی جگہ خرچ کرنا ہوگا_

جناب رسول خدا (ص) خمس کو علیحدہ رکھ دیتے تھے اور بنی ہاشم کے ذوالقربی اور یتیموں اور فقیروں اور ابن سبیل کی ضروریات زندگی پورا کیا کرتے تھے اور باقی کو اپنے ذاتی مصارف او رخدائی کاموں پر خرچ کیا کرتے

____________________

۱) سورہ انفال آیت ۴۱_

۲۷۰

تھے آپ نے خیبر کے خمس کو بھی انہیں مصارف کے لئے علیحدہ رکھ چھوڑا تھا اس کی کچھ مقدار کو آپ نے اپنی بیویوں میں تقسیم کردیا تھا مثلاً جناب عائشےہ کو خرما اور گندم اور جو کے دو وسق وزن عنایت فرمائے_ کچ مقدار اپنے رشتہ داروں اور ذوی القربی میں تقسیم کیا مثلاً دو وسق سو وزن جناب فاطمہ (ع) کو اور ایک سو وسق حضرت علی (ع) کو عطا فرمائے(۱) _

اور خیبر کی زمین کو دو حصوں میں تقسیم کی ایک حصہ زمین کا ان مصارف کے لئے جو حکومت کو در پیش ہوا کرتے ہیں مخصوص کردیا اور دوسرا حصہ مسلمانوں اور افواج اسلام کی ضروریات زندگی کے لئے مخصوص کردیا اور پھر ان تمام زمینوں کو یہودیوں کو اس شرط پر واپس کردیا کہ وہ اس میں کاشت کریں اور اس کی آمدنی کا ایک معین حصّہ پیغمبر(ص) کو دیا کریں_ آپ اس حصہ کو وہیں خرچ کرتے تھے کہ جسے خداوند عالم نے معین کیا(۲) _

جب رسول خدا (ص) کی وفات ہوگئی تو جناب ابوبکر نے خیبر کے تمام موجود غنائم پر قبضہ کرلیا، یہاں تک کہ وہ خمس جو خدا اور اس کے رسول (ص) اور بنی ہاشم کے ذوی القربی اور یتیموں، مسکینوں اور ابن سبیل کا حصہ تھا اس پر بھی قبضہ کرلیا_ اور بنی ہاشم کو خمس سے محروم کردیا_

حسن بن محمد بن علی (ع) ابن ابیطالب کہتے ہیں کہ جناب ابوبکر نے ذوی القربی کا سہم جناب فاطمہ (ع) اور دوسرے بنی ہاشم کو نہیں دیا اور اس کو کار خیر میں جیسے اسلحہ اور زرہ و غیرہ کی خریداری پر خرچ کرتے تھے(۳) _

____________________

۱) سیرہ ابن ہشام، ج ۳ ص ۳۶۵، ص ۳۷۱_

۲) فتوح البلدان، ص ۲۶ تا ۴۲_

۳) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۳۱_

۲۷۱

عروہ کہتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) حضرت ابوبکر کے پاس گئیں اور فدک اور سہم ذی القربی کا ان سے مطالبہ کیا_ جناب ابوبکر نے انہیں کوئی چیز نہ دی اور اسے اللہ کے اموال میں داخل کردیا(۱) _

الحاصل یہ موضوع بھی ان موارد میں سے ایک ہے کہ جس میں جناب فاطمہ (ع) کا جناب ابوبکر سے جھگڑا و مورد نزاع قرار پایا کہ آپ کبھی اسے خیبر کے عنوان سے اور کبھی اسے سہم ذی القربی کے عنوان سے جناب ابوبکر سے مطالبہ کیا کرتی تھیں_

اس مورد میں بھی حق جناب فاطمہ زہراء (ع) کے ساتھ ہے کیونکہ قرآن شریف کے مطابق خمس ان خاص موارد میں صرف ہوتا ہے کہ جو قرآن مجید میں مذکور ہیں اور ضروری ہے کہ بنی ہاشم کے ذوی القربی اور یتیموں اور فقیروں اور ابن سبیل کو دیا جائے_ یہ کوئی وراثت نہیں کہ اس کا یوں جواب دیا جائے کہ پیغمبر(ص) ارث نہیں چھوڑتے، جناب فاطمہ (ع) ابوبکر سے فرماتی تھیں کہ خداوند عالم نے قرآن میں ایک سہم خمس کا ذوی القربی کے لئے مخصوص کیا ہے اور چاہیئے کہ یہ اسی مورد میں صرف ہو آپ تو ذوی القربی میں داخل نہیں ہیں اور نہ ہی اس کے مصداق ہیں آپ نے یہ ہمارا حق کیوں لے رکھا ہے_

انس بن مالک کہتے ہیں کہ فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ تم خود جانتے ہو کہ تم نے اہلبیت کے ساتھ زیادتی کی ہے اور ہمیں رسول خدا (ص) کے صدقات اور غنائم کے سہم ذوی القربی سے کہ جسے قرآن نے معین کیا ہے محروم کردیا ہے خداوند عالم فرماتا ہے''و اعلموا انما غنمتم من شیء الخ'' جناب ابوبکر نے

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۱۳۱_

۲۷۲

جواب دیا کہ میرے ماں باپ آپ پر اور آپ کے والد پر قربان جائیں اس رسول (ص) کی دختر میں اللہ کتاب اور رسول (ص) کے حق اور ان کے قرابت داروں کے حق کا پیرو ہوں، جس کتاب کو آپ پڑھتی ہیں میں بھی پڑھتا ہوں لیکن میری نگاہ میں یہ نہیں آیا کہ خمس کا ایک پورا حصہ تمہیں دے دوں_

جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ آیا خمس کا یہ حصہ تیرے اور تیرے رشتہ داروں کے لئے ہے؟ انہوں نے کہا نہیں بلکہ اس کی کچھ مقدار تمہیں دونگا اور باقی کو مسلمانوں کے مصالح پر خرچ کروں گا جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا حکم تو اس طرح نہیں ہے_ جناب ابوبکر نے کہا کہ اللہ تعالی کا حکم یوں ہی ہے(۱) _

رسول خدا کی وراثت

جناب فاطمہ (ع) کا جناب ابوبکر سے ایک نزاع اور اختلاف رسول خدا (ص) کی وراثت کے بارے میں تھا_ تاریخ اور احادیث کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) رسول خدا(ص) کی وفات کے بعد جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور اپنے والد کی وراثت کا ان سے مطالبہ کیا، جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) کو وراثت کے عنوان سے کچھ بھی نہ دیا اور یہ عذر پیش کیا کہ پیغمبر (ص) میراث نہیں چھوڑتے اور جو کچھ وہ مال چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس مطلب کے لئے انہوں نے ایک حدیث بھی بیان کی کہ جس کے راوی وہ خود ہیں اور کہا کہ میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ ہم پیغمبر (ص) سونا، چاندی، زمین اور ملک اور گھر بار میراث میں نہیں چھوڑتے بلکہ ہماری وراثت ایمان اور حکمت

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۳۰_

۲۷۳

اور علم و دانش اور شریعت ہے_ میں اس موضوع میں پیغمبر(ص) کے دستور اور ان کی مصلحت کے مطابق کام کروں گا(۱) _

جناب فاطمہ (ع) نے حضرت ابوبکر کی اس بات کو تسلیم نہ کیا اور اس کی تردید قرآن مجید کی کئی آیات سے تمسک کر کے کی ہمیں اس موضوع میں ذرا زیادہ بحث کرنی چاہئے تا کہ وراثت کا مسئلہ زیادہ واضح اور روشن ہوجائے_

قرآن میں وراثت

قرآن کریم میں وراثت کا مطلق قانون وارد ہوا ہے_ خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اللہ تمہیں اولاد کے بارے میں سفارش کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ لڑکی کے دو برابر ہے(۲) _

یہ آیت اور قرآن کی دوسری آیات جو میراث کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ان میں کلیت اور عمومیت ہے اور وہ تمام لوگوں کو شامل ہیں اور پیغمبروں کو بھی یہی آیات شامل ہیں_ پیغمبر (ص) بھی ان نصوص کلیہ کی بناء پر میراث چھوڑنے والے سے میراث حاصل کریں گے اور ان کے اپنے اموال بھی ان کے وارثوں کو ملیں گے انہیں نصوص کلیہ کی بناء پر ہمارے رسول (ص) کے اموال اور ترکے کو ان کے وارثوں کی طرف منتقل ہونا چاہیئے، البتہ اس قانون توارث کے عموم اور کلیت میں کسی قسم کا شک نہیں کرنا چاہیئے لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا کوئی قطعی دلیل ہے جو پیغمبروں کو اس کلی اور عمومی قانون وراثت سے خارج اور مستثنی قرار دے رہا ہے ؟

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۴_

۲) سورہ نساء آیت ۱۱_

۲۷۴

جناب ابوبکر کی حدیث

حضرت زہراء (ع) کے مقابلے میں جناب ابوبکر دعوی کرتے تھے کہ تمام پیغمبر (ص) وراثت کے کلی قوانین سے مستثنی اور خارج ہیں اور وہ میراث نہیں چھوڑتے اپنے اس ادعا کے لئے جناب ابوبکر نے ایک حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جس کے راوی خود آپ ہیں اور یہ روایت کتابوں میں مختلف عبارات سے نقل ہوئی ہے:

''قال ابوبکر لفاطمة فانی سمعت رسول الله یقول انا معاشر الانبیاء لانورث ذهبا و لا فضّة و لا ارضا و لا دار او لکنا نورث الایمان و الحکمة و العلم و السنة فقد عملت بما امرنی و نصحت له '' (۱)

یعنی ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) سے کہا کہ میں نے رسول خدا (ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ہم پیغمبر (ص) سونا، چاندی، زمین، مکان ارث میں نہیں چھوڑتے ہمارا ارث ایمان، حکمت، دانش، شریعت ہوا کرتا ہے میں رسول خدا (ص) کے دستور پر عمل کرتا ہوں اور ان کی مصلحت کے مطابق عمل کرتا ہوں_

دوسری جگہ روایت اس طرح ہے کہ جناب عائشےہ فرماتی ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا کہ آپ ان سے رسول خدا (ص) کی میراث طلب کرتی تھیں اور آپ وہ چیزیں طلب کرتی تھیں جو رسول اللہ نے مدینہ میں چھوڑی تھیں_

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۴_

۲۷۵

اور فدک اور جو خیبر کا خمس بچا ہوا تھا، جناب ابوبکر نے کہا رسول اللہ (ص) نے فرمایا ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑتے جو چھوڑجاتے ہیں وہ صدقہ (یعنی وقف) ہوتا ہے، آل محمد(ص) تو اس سے صرف کھاسکتے ہیں(۱) _

ایک اور حدیث میں ہے کہ جب جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبکر سے گفتگو کی تو جناب ابوبکر رودیئےور کہا کہ اے دختر رسول اللہ (ص) آپ کے والد نے نہ دینا اور نہ درہم چھوڑا ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے(۲) _

ایک اور حدیث یوں ہے کہ جناب ام ہانی کہتی ہیں کہ جناب فاطمہ نے جناب ابوبکر سے کہا کہ جب تو مرے گا تو تیرا وارث کون ہوگا اس نے جواب دیا کہ میری اولاد اور اہل، آپ نے فرمایا پھر تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تو رسول اللہ کا وارث بن بیٹھا ہے اور ہم نہیں؟ اس نے کہا اے دختر رسول (ص) آپ کے والد نے گھر، مال اور سونا اور چاندی وراثت میں نہیں چھوڑی، جب جناب فاطمہ (ع) نے کہا کہ ہمارا وہ حصہ جو اللہ نے ہمارے لئے قرار دیا ہے اور ہمارا فئی تمہارے ہاتھ میں ہے؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے کہ یہ ایک طعمہ ہے کہ جس سے اللہ نے ہم اہلبیت کو کھانے کے لئے دیا ہے، جب میں مرجاؤں تو یہ مسلمانوں کے لئے ہوجائے گا(۳) _

ایک اور روایت یوں ہے کہ جناب فاطمہ (ع) حضرت ابوبکر کے پاس گئیں اور

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۱۱۷_

۲)شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۱۱۶_

۳) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۱۱۸_

۲۷۶

فرمایا کہ میری میراث رسول اللہ (ص) سے جو بنتی ہے وہ مجھے دو_ جناب ابوبکر نے کہا کہ انبیاء ارث نہیں چھوڑتے جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ (یعنی وقف) ہوتا ہے(۱) _

جناب ابوبکر نے اس قسم کی حدیث سے استدلال کر کے جناب فاطمہ (ع) کو والد کی میراث سے محروم کردیا لیکن یہ حدیث کئی لحاظ سے حجت نہیں کہ جس سے استدلال کیا جاسکے_

قرآن کی مخالفت

یہ حدیث قرآن کے مخالف ہے کیونکہ قرآن میں تصریح کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ پیغمبر(ص) بھی دوسرے مردوں کی طرح میراث چھوڑتے ہیں اور جیسا کہ آئمہ طاہرین نے فرمایا ہے کہ جو حدیث قرآن کی مخالف ہو وہ معتبر نہیں ہوا کرتی اسے دیوار پر دے مارو، ان آیات میں سے کہ جو انبیاء کے ارث چھوڑنے کو بتلاتی ہیں ایک یہ ہے:

''ذکر رحمة ربک عبده ذکر یا اذ نادی ربه خفیا خفیا'' تا ''فهب لی من لدنک ولیاً یرثنی و یرث من آل یعقوب و اجعله رب رضیاً'' (۲) _

لکھا ہے کہ جناب زکریا کے چچازاد بھائی بہت برے لوگ تھے اگر جناب زکریا کے فرزند پیدا نہ ہوتا تو آپ کا تمام مال چچازاد بھائیوں کو ملنا آپ کو ڈر

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۳_

۲) سورہ مریم آیت ۴_

۲۷۷

تھا کہ میری میراث چچازاد بھائیوں کو مل گئی تو اس مال کو برائیوں اور گناہ پر خرچ کریں گے اسی لئے اللہ تعالی سے دعا مانگی تھی کہ خدایا مجھے اپنے وارث چچازاد بھائیوں سے خوف ہے اور میری بیوی بانجھ ہے، خداوندا مجھے ایک فرزند عطا فرما جو میرا وارث بنے، خداوند عالم نے آنجناب کی دعا قبول فرمائی اور خدا نے جناب یحیی کو انہیں عطا کیا_ اس آیت سے اچھی واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر(ص) بھی دوسرے لوگوں کی طرف میراث چھوڑتے ہیں ورنہ حضرت زکریا کی دعا اور خواہش بے معنی ہوتی_

یہاں یہ کہا گیا ہے کہ شاید جناب زکریا کی وراثت علم و دانش ہو نہ مال و ثروت، اور انہوں نے اللہ تعالی سے خواہش کی ہو کہ انہیں فرزند عنایت فرمائے کہ جو ان کے علوم کا وارث ہو اور دین کی ترویج کی کوشش کرے، لیکن تھوڑاسا غور کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ یہ احتمال درست نہیں ہے اس لئے کہ وراثت کا لفظ مال کی وراثت میں ظہور رکھتا ہے نہ علم کی وراثت میں اور جب تک اس کے خلاف کوئی قرینہ موجود نہ ہو اسے وراثت مال پر ہی محمول کیا جائے گا_ دوسرے اگر تو وراثت سے مراد مال کی وراثت ہو تو جناب زکریا کا خوف یا محل ہے اور اگر مراد وراثت سے علمی وراثت ہو تو پھر اس آیت کے معنی کسی طرح درست نہیں قرار پاتے کیوں کہ اگر مراد علمی وراثت سے علمی کتابیں ہیں تو یہ در حقیقت مالی وراثت ہوجائے گی اس لئے کہ کتابوں کا شمار اموال میں ہوتا ہے نہ علم میں اور اگر یہ کہا جائے کہ حضرت زکریا کو اس کا خوف تھا کہ علوم اور معارف اور قوانین شریعت ان کے چچازاد بھائیوں کے ہاتھ میں چلے گئے تو وہ اس سے غلط فائدہ اٹھائیں گے تو بھی جناب زکریا کا یہ خوف درست نہ تھا کیوں کہ جناب زکریا کا وظیفہ یہ تھا کہ

۲۷۸

قوانین اور احکام شریعت کو عام لوگوں کے سپرد کریں اور ان کے چچازاد بھائی بھی عموم ملّت میں شامل ہوں گے اور پھر اگر جناب زکریا کے فرزند بھی ہوجاتا تب بھی آپ کے چچازاد بھائی قوانین کے عالم ہونے کی وجہ سے غلط فائدہ ا ٹھا سکتے تھے اور اگر جناب زکریا کو اس کا خوف تھا کہ وہ مخصوص علوم جو انبیاء کے ہوتے ہیں وہ ان کے چچازاد بھائیوں کے ہاتھوں میں نہ چلے جائیں اور وہ اس سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں تو بھی آنجناب کا یہ خوف بلا وجہ تھا کیون کہ وہ مخصوص علوم آپ ہی کے اختیار میں تھے اور بات آپ کی قدرت میں تھی کہ ان علوم کی اپنے چچازاد بھائیوں کو اطلاع ہی نہ کریں تا کہ وہ اسرار آپ ہی کے پاس محفوظ رہیں اور آپ جانتے تھے کہ خداوند عالم نبوت کے علوم کا مالک بدکار لوگوں کو نہیں بتاتا_ بہرحال وراثت سے علمی وراثت مراد ہو تو جناب زکریا کا خوف اور ڈر معقول نہ ہوتا اور بلاوجہ ہوتا_

ممکن ہے یہاں کوئی یہ کہے کہ جناب زکریا کو خوف اور ڈر اس وجہ سے تھا کہ آپ کے چچازاد بھائی برے آدمی اور خدا کے دین اور دیانت کے دشمن تھے آپ کے بعد اس کے دین کو بدلنے کے درپے ہوتے اور آپ کی زحمات کو ختم کر کے رکھ دیتے لہذا جناب زکریا نے خدا سے دعا کی کہ مجھے ایک ایسا فرزند عنایت فرما کہ جو مقام نبوت تک پہنچے اور خدا کے دین کے لئے کوشش کرے اور اسے باقی رکھے پس اس آیت میں وراثت سے مراد علم اورحکمت کی وراثت ہوگی نہ مال اور ثروت کی_

لیکن یہ کہنا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ جناب زکریا جانتے تھے کہ خدا کبھی بھی زمین کو پیغمبر یا امام کے وجود سے خالی نہیں رکھتا، لہذا یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ جناب زکریا کو اس جہت سے خوف اور ڈر تھا کہ شاید خداوند عالم

۲۷۹

دین اور شریعت کو بغیر کسی حامی کے چھوڑ دے اور اگر جناب زکریا ایسا فرزند چاہتے تھے کہ جو پیغمبر اور دین کا حامی ہو تو آپ کو اس طرح نہ کہنا چاہیئے کہ خدایا مجھے ایسا فرزند عنایت فرما جو میری وراثت کے مالک ہو اور اسے صالح قرار دے_ بلکہ ان کو اس صورت میں اس طرح دعا کرنی چاہیئے تھی کہ خدایا مجھے خوف ہے کہ میرے بعد دین کی اساس کو ختم کردیا جائے گا میں تجھ سے تمنا کرتا ہوں کہ میرے بعد دین کی حمایت کے لئے ایک پیغمبر بھیجنا اور میں دوست رکھتا ہوں کہ وہ پیغمبر میری اولاد سے ہو اور مجھے ایک فرزند عنایت فرما جو پیغمبر ہو اور پھر اگر میراث سے مراد علم کی میراث ہو تو پھر دعا میں اس جملے کی کیا ضرورت تھی خدا اسے محبوب اور پسندیدہ قرار دے کیونکہ جناب زکریا جانتے تھے کہ خداوند عالم غیر صالح اور غیر اہل افراد کو پیغمبری کے لئے منتخب نہیں کرے گا تو پھر اس جملے

''خدایا میرے فرزند کو پسندیدہ اور صالح قرار دے'' کی ضرورت ہی نہ تھی_ اس پوری گفتگو سے یہ مطلب واضح ہوگیا ہ کہ جناب یحیی کی میراث جناب زکریا سے مال کی میراث تھی نہ کہ علم کی اور یہی آیت اس مطلب پر کہ پیغمبر(ص) بھی دوسرے لوگوں کی طرح میراث لینے ہیں اور میراث چھوڑتے ہیں بہت اچھی طرح دلالت کر رہی ہے لہذا جو حدیث ابوبکر نے اپنے استدلال کے لئے بیان کی وہ قرآن کے مخالف ہوگی اور حدیث شناسی کے علم میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ جو حدیث قرآن مجید کے مخالف ہو وہ قابل قبول نہیں ہوا کرتی اور اسے دیوار پر دے مارنا چاہیئے اسی لئے تو جناب زہراء (ع) نے ''جو قوانین اور احکام شریعت اور حدیث شناسی اور تفسیر قرآن کو اپنے والد اور شوہر سے حاصل کرچکی تھیں'' اس حدیث کے رد کرنے کے لئے اسی سابقہ آیت کو اس کے مقابلے میں پڑھا اور بتلایا کہ یہ حدیث اس آیت کی مخالف ہے کہ جس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا_

۲۸۰