بہترین عشق

بہترین عشق0%

بہترین عشق مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 94

بہترین عشق

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام جواد محدثی
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: صفحے: 94
مشاہدے: 40861
ڈاؤنلوڈ: 4604

تبصرے:

بہترین عشق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 94 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40861 / ڈاؤنلوڈ: 4604
سائز سائز سائز
بہترین عشق

بہترین عشق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

مَن ارادَاَنْ ینجومِن عذابِ القبرِ فلیُحبَّ اهلَ بیتی ومن اراددخولَ الجنَة بغیرحسابٍ فلیحبَّ اهل بیتیفواﷲِ مٰا اَحبَّهم اَحدٌ الاَ رَبِحَ الدّنیا والاَخرَة

جو شخص عذابِ قبر سے نجات چاہتا ہے، اُسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت سے محبت کرے۔۔۔ اور جو بغیر حساب کے جنت میں داخلے کا متمنی ہے اسے (بھی) چاہئے کہ میرے اہلِ بیت سے محبت کرےخدا کی قسم جس کسی نے اہلِ بیت سے محبت کی وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوا

(مقتل الحسین ؑ ازخوارزمیج۱ص ۵۹)

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

خداوند عالم جس کسی کو میرے اہلِ بیت سے تعلق رکھنے والے اماموں کی محبت ودیعت کرتا ہے، وہ شخص دنیا اور آخرت کی خیر حاصل کرلیتا ہے اور بے شک اُس کا شمار اہلِ جنت میں ہوتا ہےاور میرے اہلِ بیت ؑ کی محبت میں بیس خصوصیات اور فوائد ہیں، دس دنیا میں اور دس آخرت میں(بحارالانوارج ۲۷ص ۷۶)

اس محبت کے آثار و برکات پیش نظر ہوں تو انسان اہلِ بیت ؑ کاشیفتہ اور عقیدت مند بن جاتا ہے اوراُس کی نظر وں میں یہ محبت ایک گرانقدر سرمائے کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔

۴۱

۷:- محبتِ اہلِ بیت ؑ کی اہمیت کاا ظہارکرنا

جب کسی عمل کی جانب ترغیب دلائی جاتی ہے، یا اسے انجام دینے پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اسے ایک مثال اور نمونے کے بطور پیش کیا جاتا ہے، تو دوسروں میں بھی اس عمل کی جانب جذب اور کشش پیدا ہو تی ہےوہ افراد جو معاشرے میں اعلیٰ اقدار کو فروغ دیتے ہیں، فن و ثقافت کے میدانوں کے ذمے دار ہیں، مقابلوں کا انعقاد اور مختلف کارہائے نمایاں پر اعزازات سے لوگوں کو نوازتے ہیں، اگر یہ سب کے سب افراد چاہیں تومحبتِ اہلِ بیت ؑ کو معاشرے میں ایک قابلِ قدر شئے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے

جب ائمہؑ کے بارے میں شعر کہنے، اُن کے حوالے سے کوئی قصہ لکھنے، یا اُن کے بارے میں کوئی کتاب پڑھنے کی وجہ سے کسی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اُسے انعام واعزاز سے نوازا جاتا ہے، تو یہ عمل اُس میں ائمہؑ سے محبت کا باعث بھی ہوتا ہے اور اس تعلق کی بنا پر اُس میں احساسِ عزت و سربلندی بھی پیدا ہوتا ہےکیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ انعام مجھے اس تعلق کی وجہ سے ملا ہےاس طرح یہ معاملہ اُس کے ذہن میں ایک خوبصورت یادکے طور پر باقی رہتا ہے جو جذبہ محبت پیدا کرنے میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔

لوگوں کو جس چیز کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے اور انہیں جس چیز کے احترام کی تلقین کی جاتی ہے وہ اُسی چیز سے محبت اور عقیدت رکھنے لگتے ہیں اور جس چیز کی جانب سے وہ بے توجہی اور بے اعتنائی کا رویہ دیکھتے ہیں اس سے بے تعلقی اور بے رُخی برتنے لگتے ہیں اس حوالے سے خاص طور پر دوسروں کی موجودگی میں رغبت اور شوق دلانا زیادہ موثر رہتا ہےالبتہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ رغبت اور شوق دلانا ”رشوت دینے“ کی سی صورت پیدا نہ کر لے۔

۴۲

معاشرے میں جس چیز کو اہمیت دی جاتی ہے، لوگ اس کی جانب مائل ہونے لگتے ہیں، اور اُس چیزکے طرفدار فخر و ناز کے ساتھ اس کا ذکر کرتے ہیںمثلاً جب جوانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کن موضوعات پر شعر پڑھتے ہیں، تو ان کی اکثریت کہتی ہے کہ عشق، بہار، دوستی، زندگی، گل و بلبل وغیرہ کے بارے میںاور جب نوجوانوں اور جوانوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ کونسی کتابیں پڑھتے ہیں؟ تو وہ کہتے ہیں کہ: رومان، سائنس اور ناول وغیرہ۔۔۔

یعنی بہت مشکل سے ایسے جوان ملتے ہیں جو یہ کہیں کہ ہم خدا، نماز اور ائمہؑ کے بارے میں شعر پڑھتے ہیں، یا اہلِ بیت ؑ اور دین سے متعلق کتب پڑھتے ہیںکیونکہ انہیں اس بارے میں شوق ہی نہیں دلایا گیا ہوتا، وہ ان موضوعات کی جانب رغبت ہی نہیں رکھتے اور ان چیزوں کا مطالعہ اُن کے لئے فخر و نازکا باعث ہی نہیں ہوتا۔

ہمیں چاہئے کہ ایسا ماحول پیدا کریں کہ اگر کوئی شخص اہلِ بیت ؑ کے بارے میں شعر کہے، یا ان کے بارے میں اشعار حفظ کرے، ان کی کوئی حدیث یا د کرے، ان کے بارے میں کوئی کتاب پڑھے، ان کے حوالے سے کوئی قصہ تحریر کرے، کوئی فلم بنائے، کوئی نعرہ تخلیق کرے، یا حتیٰ اس کا نام کسی امام کے نام پر ہو، یا وہ اپنے بچے کانام ائمہ اہلِ بیت ؑ میں سے کسی کے نام پر رکھے، تو وہ اپنے اس عمل پرفخر ونازمحسوس کرےاسے ایک فضیلت کی بات سمجھے اور اسے ایک گراں قیمت چیز تصور کرےمحبتِ اہلِ بیت ؑ خدا کی خاص نعمت ہے، جو اسکے اہل دلوں ہی میں جگہ بناتی ہےبقول امام رضا علیہ السلام :

یَهدِی اﷲُ لِولایتنامَنْ اَحَبَّ

خدا جس کسی کو پسند کرتا ہے، ہماری محبت کی جانب اس کی رہنمائی کردیتا ہے(بحارالانوارج ۱۶ص ۳۵۶)

۴۳

عام طور پرجب کسی بچّے کو محمد، علی، فاطمہ، مہدی، حسن اور حسین جیسے نام ہونے کی وجہ سے ان معصومین ؑ سے منسوب کسی مناسبت پر انعام حاصل ہوتا ہے، تو یہ عمل اس بچّے کے دل میں ان ناموں اور ان شخصیات سے محبت پیدا کرتا ہے اور دوسروں میں بھی یہ خواہش جنم لیتی ہے کہ کاش ان کا بھی یہ نام ہوتا اور انہیں بھی انعام ملتا۔

اس نکتے پر اس قدر احتیاط کے ساتھ عمل ہونا چاہئے کہ لوگوں کے دلوں میںیہ نام رکھنے کا شوق پیدا ہو، ایسانہ ہو کہ یہ نام نہ ہونے کی بنا پر ان میں کوئی بدگمانی، کمپلکس اور احساسِ حقارت پیدا ہو جائے اور کوئی منفی اثر مرتب ہواہلِ بیت ؑ سے محبت کا تعارف ایسی پیاری اور قیمتی شئے کے طور پرکرانا چاہئے کہ یہ محبت رکھنے والا اس پرفخر کرے، اسے معمولی نہ سمجھےامام جعفر صادق علیہ السلام نے تلقین فرمائی ہے کہ:

لا تستصغِرْ مودَتنا، فانّهامِن الباقیات الصالحات

ہم سے محبت اور چاہت کو معمولی نہ سمجھوکیونکہ یہ باقیاتِ صالحات میں سے ہے(بحارالانوارج ۲۳ص ۲۵۰)

جب کبھی ذرائع ابلاغ، ریڈیو، ٹیلی ویژن اخبارات کے ذریعے کسی قابلِ تقلید شخصیت کا تعارف کرایا جاتا ہے (خواہ وہ شخصیت کوئی قارئ قرآن ہو، سائنس دان ہو، شاعر ہو، مصور ہویا کوئی کھلاڑی) تویہ سامعین، ناظرین، قارئین کو متاثر کرتاہے اور لوگ اس شخص سے محبت کرنے لگتے ہیںجس خصوصیت کی وجہ سے ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، وہ خصوصیت لوگوں کی نظر میں بھی اہمیت اختیار کرلیتی ہےایک حافظِ قرآن کی حوصلہ افزائی لوگوں میں قرائتِ قرآن اور حفظِ قرآن کا شوق پیدا کرتی ہے، کسی سائنسی مقابلے میں کامیاب ہونے والے طالبِ علم کے اعزاز میں تقریب سائنس کی جانب نوجوانوں کے رجحان میں اضافے کا باعث ہوتی ہے اورایک فنکار کی حوصلہ افزائی فن کی جانب لوگوں کی رغبت اور رجحان کو بڑھاتی ہے۔

۴۴

وہ ممتاز افراد، نامورعلمی و ادبی شخصیات جن کا ذکر بچوں کی نصابی کتب میں ہوتا ہے، بچے اُن سے محبت کرنے لگتے ہیںلہٰذا اس قسم کے افراد کا انتخاب کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہئےلوگوں میں کسی محبِ اہلِ بیت ؑ اور انقلابی شاعر کو متعارف کرانا اسے ایک قابلِ تقلید شخصیت کے طورپر پیش کرنے کی مانند ہے اوریہ انسان میں مذہب اور اہلِ بیت ؑ کی جانب رجحان پیدا کر دیتا ہےامام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

یا مَعشرَالشیعة! عَلِّموااَولادَکُم شِعْرَالعَبدی فَاِنَّهُ عَلیٰ دینِ اﷲ

اے گروہِ شیعہ ! اپنے بچوں کو عبدی کے شعر سکھاؤ کیونکہ وہ خدا کے دین پر ہے(الغدیرج ۲ص ۲۹۵)

امام جعفر صادق علیہ السلام کی یہ تلقین کہ شیعہ اپنے بچوں کو عبدی کے اشعار یاد کرائیں عبدی کوفی(۱) کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز اور اُس کی شخصیت کی عظمت کا اظہار ہےعبدی نے اپنے اشعار میں بھرپور انداز سے فضائلِ اہلِ بیت ؑ بیان کئے ہیں

۱ان کا نام سفیان بن مصعب تھاان کا شمار ممتاز شیعہ شعرا میں ہوتا تھااوروہ اہلِ بیت ؑ کی عنایات اور توجہات کا مرکز تھےانہوں نے اہلِ بیت کی مدح اور ان کے مصائب کے بارے میں شعر کہے ہیںیہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور میں ہوا کرتے تھے۔

سید حمیری جومخلص شیعہ شعرا میں شمار کئے جاتے ہیں، کہا کرتے تھے کہ جو کوئی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اور اہلِ بیت علیہم السلام کی فضیلت کے بارے میں کوئی ایسی حدیث بتائے، جسے میں نے اپنے کسی شعر میں بیان نہ کیا ہو، میں اسے اپنا یہ گھوڑا بخش دوں گا !!!

-------------

۱:- یہ اس محبت کی قدر و قیمت اور روزِ قیامت اس کی تاثیر کی ایک علامت ہے۔

۴۵

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے والدِ گرامی حضرت ابو طالب علیہ السلام کا شمار موحدین اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھنے والے افراد میں ہوتا ہے، انہوں نے آنحضرتؐ کی توصیف میں اشعار کہے تھےبیان کیا گیا ہے کہ حضرت علی ؑ اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ حضرت ابوطالب ؑ کے اشعار کو نقل کیا جائے، انہیں جمع کیا جائےآپ ؑ فرماتے تھے کہ: انہیں یادکرو اور اپنے بچوں کو بھی سکھاؤکیونکہ ابوطالب ؑ خدا کے دین پر تھے اور ان کے اشعار میں بہت سا علم و دانش ہے۔

کانَ امیرُالمؤمنین (ع) یُعجِبُه اَن یُرویٰ شعرُابی طالبٍ وَأنْ یُدَوَّنَ وقال: وَتَعَلّموه اولادَ کُم، فانّه کانَ علیٰ دینِ اﷲ وفیه علمٌکثیرٌ (مستدرک وسائل الشیعہج ۲ص ۶۲۵)

ابو الا سود دوئلی کی بیٹی نے جب یہ محسوس کیا کہ خلیفہ وقت نے اس کے گھر شہد اسلئے بھیجا ہے تاکہ ان کے دلوں سے محبتِ اہلِ بیت ؑ کم کر سکے، تو اس نے منھ میں لیا ہوا شہد تھوک دیا اور شہدکھا کر آلِ علی ؑ کی محبت سے محروم ہونا پسند نہ کیا۔

والدین، اساتذہ اور تربیتی امور کے نگراں حضرات، ان مسائل میں بہت عمدہ طریقے سے رہنمائی کر سکتے ہیں اور نوجوانوں کے رجحانات اور قابلِ تقلید شخصیات کے بارے میں ان کے رُخ کا تعین کر سکتے ہیںحتیٰ اگر ایک بے دین لڑکا یا لڑکی اپنا نام مہدی یا فاطمہ ہونے پر انعام حاصل کرے، تو یہ انعام پانے پر حاصل ہونے والی خوشی بھی اس میں ان ہستیوں سے محبت پیدا کرے گیاگر دینی ایام، یااہلِ بیت ؑ کی ولادت سے مخصوص دنوں میں اس قسم کے انعامات دیئے جائیں، تو یہ عمل ان ہستیوں کی جانب بچوں اور جوانوں کو متوجہ کرنے میں موثر واقع ہو گاشفاعت سے متعلق احادیث میں آیا ہے کہ روزِ قیامت حضرت فاطمہ زہرا ؑ شیعوں کی شفاعت کریں گی اور جن لوگوں کی شفاعت کی جائے گی، جب وہ خدا سے اپنی منزلت اور مقام کے بارے میں سوال کریں گے، تو ان سے کہا جائے گا کہ: واپس جاؤ اور جس کسی نے فاطمہ کی محبت میں تم سے محبت کی ہے یا تمہیں کھانا دیاہے، لباس فراہم کیاہے، یا پانی پلایاہے، یا تمہاری عزت و آبرو کی حفاظت کی ہے، اس کا ہاتھ پکڑکر اسے بہشت میں داخل کر دو (بحارالانوارج ۸ص ۵۲)

۴۶

8:-تعظیم و تکریم اور تعریف

بچے اورجوان، اپنے اساتذہ کو قابلِ تقلید سمجھتے ہیں، اسی وجہ سے وہ ان کے انداز و اطوار کی بھی پیروی کرتے ہیں استاداورمربی کی حرکات وسکنات اور اُس کا طرزِ عمل بالواسطہ (indirect) تعلیم کی صورت میں شاگرد پر اثر انداز ہوتا ہےرہبرِ معظم حضرت آیت اﷲ خامنہ ای نے اساتذہ کے ساتھ ایک ملاقات میں فرمایا:

عزیزاساتذہ! کلاس میں صرف آپ کا درس دینا ہی نہیں بلکہ آپ کا مخصوص اندازسے دیکھنا، آپ کے اشارے کنائے، آپ کی مسکراہٹ، آپ کا تیوریوں پر بل ڈالنا، آپ کی حرکات وسکنات، آپ کا لباس، یہ سب چیزیں آپ کے شاگردوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

جب ہم اپنی طرف پلٹ کر دیکھتے ہیں (اپنا جائزہ لیتے ہیں) اگرہم اپنے گہرے جذبات و احساسات اور کیفیات کی جڑ تلاش کرتے ہیں تو بالآخر وہاں ہمیں اپنے کسی استاد کی رہنمائی دکھائی دیتی ہےاستاد ہے جو ہمیں بہادر یا بزدل، فیاض یا بخیل، فداکار یا خود پرست، اہلِ علم اور طالب علم، مودب وفہمیدہ، یا منجمد اور جامد تفکرات کا اسیر بناتا ہےاستاد ہے جو ہمیں متدین، متقی، پاکدامن یا خدانخواستہ بے لگام بناسکتا ہےیہ ہے استاد کا اہم کردار، یہ ہے استاد کی قدر و قیمت، یہ ہے استاد کی تاثیر۔

بچوں اور نوجوانوں کے سامنے اُن کے سرپرست، والدین اور اساتذہ اہلِ بیت ؑ کے بارے میں جس طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں بچے وہی اپناتے ہیں احترام و عقیدت کے ساتھ ائمہؑ کا نام لینا، ان کا نام لیتے ہوئے درود و سلام زبان پر جاری کرنا، امامِ زمانہ ؑ کا نام آنے پر کھڑے ہو جانا، اپنے سر پر ہاتھ رکھ لینا، ائمہ ؑ کے یومِ ولادت پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا، ان کے روزِ وفات پر حالتِ غم و اندوہ میں رہنا، ہنسی مذاق اور کسی قسم کی خوشی کا اظہار نہ کرناوہ امور ہیں جو اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں اس قسم کے مسائل میں بچے اپنے بڑوں کے طرزِ عمل کا مشاہدہ کرتے ہیں

۴۷

یہ حالت ایک شیعہ کی خصوصیت ہے۔

شیعتناخُلِقوامن فاضِلِ طینتنا، یَفرحون لِفرَحناویَحزَنون لِخرننا

ہمارے شیعہ، ہماری بچی ہوئی مٹی سے خلق کئے گئے ہیں، وہ ہماری خوشی میں خوش اور ہمارے غم و اندوہ پر غمگین ہوتے ہیں۔

حد یہ ہے کہ ماں کا ان ہستیوں کے نام لینے کا انداز اور اس موقع پر اس کا لب و لہجہ بھی اپنا اثر رکھتا ہےایک دفعہ ہم کہتے ہیں امام رضا نے کہا اور ایک مرتبہ کہتے ہیں کہ: حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔

اگر ہم پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم یا کسی معصوم علیہ صلوات و سلام کا نام سن کر زیر لب ان پر صلوات بھیجیں، تو یہ بھی ایک قسم کی تعظیم ہے اور دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہےبڑوں، یعنی اساتذہ اور والدین کا ائمہؑ کے بارے میں اشتیاق اور عقیدت کے ساتھ گفتگو کرنا اور اہلِ بیت ؑ اور ان کی محبت کے بارے میں کوئی بات یا قصہ سنانا بھی اثر رکھتا ہےگفتگوکرنے والے اور مبلغ کا عقیدہ اسکی گفتار سے ہم آہنگ ہونا چاہئے اور اسے ایمان، یقین اور شوق و عقیدت کے ساتھ گفتگو کرنی چاہئےیہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ یہ حالت اس کے سامعین اور اس کے مخاطبین میں بھی منتقل ہوتی ہے۔

احادیث میں بار بار یہ بات کہی گئی ہے کہ جب کبھی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسمِ مبارک سنو، ان پر درود بھیجوخود ائمہ ؑ اسی طرح کیا کرتے تھے اور انتہائی عقیدت اور احترام کے ساتھ آنحضرت ؐاور اُن کے اہلِ بیت ؑ کا ذکر کرتے تھے، اور ان کا یہ احساس ان کے مخاطبین میں بھی منتقل ہوتا تھاجب شاعرِ اہلِ بیت ”دعبل“ نے خراسان میں امام رضا ؑ کی خدمت میں اپنامعروف قصیدہ پیش کیا اور وہ اس مقام پر پہنچے جہاں مستقبل میں امامِ زمانہ ؑ کے ظہوراور قیام کا تذکرہ ہواہے، تو حضرت ؑ نے اپناہاتھ سر پر رکھا اور امام مہدی ؑ کاذکر سن کران کے احترام کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور امام ؑ کے فرج کے لئے دعا کی(الغدیرج۲ص ۳۶۱)

۴۸

امام جعفر صادق علیہ السلام سے امام مہدی ؑ کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ان کی ولادت ہوچکی ہے؟ امام ؑ نے فرمایا: نہیں، لیکن اگر میں نے انہیں پایا تو اپنی پوری زندگی ان کی خدمت میں گزاردوں گا(بحارالانوارج ۵۱ص ۱۴۸)

امام محمد باقر علیہ السلام نے جب امام مہدی ؑ کا ذکر کیا، تو راوی (ام ہانی ثقفیّہ) سے فرمایا: اگر تم انہیں پاؤ تو یہ تمہاری خوش نصیبی ہوگی(طوبیٰ لکِ ان ادرکتِہِ ویا طوبیٰ من ادرکہ) خوش نصیب ہے جو انہیں پائے اور ان کا دیدار کرے(بحارالانوارج ۵۱ص ۱۳۷)

ہمارے ائمہ علیہم السلام، حضرت رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت فاطمہ علیہا السلام کے اسمائے گرامی انتہائی احترام اورعقیدت کے ساتھ لیا کرتے تھےرسولِ کریمؐ حضرت فاطمہ ؑ کے ہاتھ کا بوسہ لیتے، اُن کے احترام میں کھڑے ہوجاتے، اُ نہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے، اُن کے ہاتھوں اور دَہان پر بوسے لیتے اور بار بار فرماتے کہ تمہارا باپ تم پر فدا ہو، میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں(العوالم ج ۱۱ص ۱۳۶)

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں: جس گھر میں محمد، احمد، علی، حسن، حسین اور فاطمہ کے نام ہوں، اُس گھر میں فقر داخل نہیں ہو تا(العوالمج۱۱ص ۵۵۲)

”سکونی“ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ملاقات کے دوران جب اُنہیں یہ بات بتائی کہ خدا نے اسے ایک بیٹی عطا کی ہے، تو حضرت ؑ نے ان سے پوچھا: تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ اُنہوں نے کہا: فاطمہامام ؑ نے فرمایا: واہ واہپھر اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ اور اسے تلقین کی کہ اب جب کہ تم نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھاہے، تو اسے برا بھلا نہ کہنا اور نہ اسے مارنا پیٹنا(العوالمج ۷ص۵۵۲ نقل از تہذیبج ۸ص ۱۱۲)

اہلِ بیت ؑ کے اسمائے گرامی پر اپنے بچوں کے نام رکھنا، ان ناموں کے دنیوی اثرات و برکات اور اُخروی ثواب پر توجہ دلانا، اس قسم کے نام رکھنے پر اہلِ بیت ؑ کی تلقین اور یہ نام بچوں کی شخصیت کی تشکیل اور صورت گری پر جو اثرات مرتب کرتے ہیں وہ ان ہستیوں کے ساتھ محبت و مودت کا تعلق پیدا ہونے میں موثر ہیں۔

۴۹

حالیہ چند برسوں میں، بعض مناسبتوں، مثلاً ایامِ فاطمیہ، یا یومِ خواتین کے مواقع پر حضرت فاطمہ ؑ کے حوالے سے پہلے کی نسبت زیادہ مجالس و محافل کا انعقاد ہوتا ہے اور ان ایام کو زیادہ اہتمام کے ساتھ منایا جانے لگا ہے، یہی صورت امامِ زمانہؑ کے حوالے سے بھی ہےیہی وجہ ہے جو ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ کی نسبت اب حضرت فاطمہؑ اور امام مہدی ؑ سے محبت اور ان کی جانب توجہ میں اضافہ ہوا ہےبالخصوص جوانوں میں امام حسین ؑ کی عزاداری کی جانب رجحان اور ایامِ عزا کی روز افزوں بڑھتی ہوئی رونق کی بنیاد یہی تکریم و ترویج ہے۔

ایسے لوگ جو کسی بھی اعتبار سے افرادِ معاشرہ بالخصوص جوانوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں اور جن کی باتیں، جن کی طرفداریاں، جن کے موقف اور جن کا اندازِ بیان دوسروں کے لئے قابلِ تقلید ہوا کرتا ہے اورجولوگوں کے لئے رُخ کا تعین کرتے ہیں، اگر ایسے لوگ اہلِ بیت ؑ  کا تذکرہ کریں اور انتہائی شوق و اشتیاق اور تعظیم و احترام کے ساتھ ان کا نام لیں، تو ان کا یہ عمل دوسروں پر اثر انداز ہوتا ہے۔

مثلاً ایک ایسا شخص جو علمی، ادبی، سیاسی اوردینی میدانوں میں شہرت رکھتا ہو، یا آرٹ اور اسپورٹس کی نامور شخصیت شمار ہوتا ہو اور جسے عام لوگوں اور جوانوں کی توجہ حاصل ہو، اگر وہ دین، نماز، شہید، اسلام، قرآن اور اہلِ بیت ؑ کا تذکرہ کرے اور اُن کے لئے احترام کا اظہار کرے، تو اس شخص کا یہ عمل ان لوگوں میں بھی اہلِ بیت ؑ سے محبت پیدا کرتاہے جو اُسے قابلِ تقلید اور محبوب سمجھتے ہیں اور اُس کی پیروی کرتے ہیں۔

۵۰

اسی طرح ایسے لوگوں کی منفی باتیں بھی تخریبی اثر رکھتی ہیںمثلاً ایسے لوگوں میں سے اگر کوئی فرد مغرب اور یورپ کی کسی پروڈکٹ، کسی مکتب و طرزِ فکر، کسی رسم، کسی کتاب، کسی شاعر، کسی ٹی وی پروگرام یاکسی فلم وغیرہ کی تعریف کرتا ہے یا خود کو اس کا طرفدار ظاہر کرتا ہے، تواس طرح اس چیز کی تبلیغ اور اسکی جانب لوگوں کی رغبت کا سبب بنتا ہےپس بچوں اور نوجوانوں میں پائی جانے والی تقلید اور پیروی کی اس حس سے (جس کے تحت وہ اپنی محبوب شخصیات کی باتوں اور طرزِ عمل کو دیکھ کرانہیں اپناتے ہیں) ہمیں اہلِ بیت ؑ  اور معصومین ؑ کی جانب انہیں لانے کے لئے استفادہ کرنا چاہئے۔

مثلاً امام خمینیؒ کی ایسی تصویر جس میں وہ حرم اور ضریح کا بوسہ لے رہے ہیں اُن کے محبوں میں صاحبِ حرم کے لئے محبت پیدا کرتی ہےکیونکہ امام خمینیؒ کا عمل اُن کے چاہنے والوں کے لئے قابلِ تقلید ہے اور وہ اس سے اثرلیتے ہیںیا اس نکتے کا ذکرکرنا کہ تفسیر میزان کے مؤلف علامہ محمد حسین طباطبائی ؒ حضرت معصومہ قم کی ضریح کا بوسہ لے کر اپنا روزہ افطار کرتے تھے اور جب کبھی گرمیوں میں مشہد تشریف لے جاتے اور آپ سے تقاضا کیا جاتا کہ مشہد کے نواح میں واقع پر فضا مقام پرٹھہریئے، تو آپ قبول نہ کرتے اور فرماتے: ہم امام ہشتم کے سائے سے دور کسی اور جگہ نہیں جائیں گے۔

اس بات کاذکر کہ حضرت امام خمینیؒ جب قم میں رہا کرتے تھے، تو روزانہ غروبِ آفتاب کے وقت حضرت معصومہ قم کی زیارت کرتے تھے اور نجف اشرف میں اپنی اقامت کے دنوں میں ہر شب امیر المومنین ؑ کے حرم کی زیارت سے مشرف ہوتے تھے۔

زیارت کے دوران عظیم تالیف الغدیر کے مؤلف علامہ امینیؒ کی خاص حالتوں کا تذکرہ اور شوق کی اُس کیفیت کا بیان جس کا ا ظہار وہ اہلِ بیت ؑ اور حضرت علی ؑ کے بارے میں کیاکرتے تھے اور اشکبار آنکھوں اور قابلِ دید عقیدت و محبت کے ساتھ حضرت امیر ؑ کی زیارت کرتے تھے۔

۵۱

یا اس بات کی جانب اشارہ کہ آیت اﷲ بروجردیؒ نے آستانہ حضرت معصومہ قم کو تاکید کی کہ حضرت معصومہ ؑ کے اعزازی خدام میں اُن کا نام بھی تحریر کریں (اب بھی قم میں بعض مراجع تقلید، اس آستانے کے اعزازی خدمت گار ہیں اور اعزازی خدام کے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں)

یا یہ کہ شیخ انصاریؒ کہا کرتے تھے کہ آپ لوگ حضرت ابوالفضل العباس ؑ کی چوکھٹ کا بوسہ لیا کیجئے تاکہ لوگ آپ کا یہ طرزِعمل دیکھ کر حضرت ابوالفضل ؑ کا اور زیادہ احترام کریں اور ان میں شوق پیدا ہوشیخ انصاریؒ نے کہا تھا کہ: میں ابوالفضل العباس ؑ کی چوکھٹ کا بوسہ صرف اسلئے نہیں لیتا کہ یہ ان کی چوکھٹ ہے، بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ اُن کے زائرین کی گزرگاہ ہےاورمجھے اپنے اس عمل پر فخرہے۔۔۔ اس قسم کی مثالوں کا ذکر دوسروں کے دلوں کو بھی متاثرکرتا ہے اور ان میں محبت پیدا کرتا ہے۔

حضرت امام خمینیؒ جو لاکھوں دلوں کے محبوب اور ان کے آئیڈیل ہیں، اپنے وصیت نامے میں بارباریہ کہہ کر کہ ”ہمیں افتخار ہے۔۔۔“ مذہبِ شیعہ کی پیروی، نہج البلاغہ، ائمہ کی حیات بخش دعاؤں، مناجاتِ شعبانیہ، دعائے عرفہ، صحیفہ سجادیہ، صحیفہ فاطمیہ کے حامل ہونے، ائمہ اثنا عشرکی امامت، امام محمدباقر کے وجود اور اپنے مذہب کے جعفری ہونے۔۔۔ پر فخر و ناز کرتے ہیں۔

جب امام خمینیؒ جیسی عظیم شخصیت ائمہ، مذہب، دعاؤں اورمکتبِ تشیع جیسی باتوں پر فخر و ناز کااظہار کرتی ہے، تو یہ چیز ان کے عقیدت مندوں پر بھی اثر ڈالتی ہے اور یہ محبت ان کے دلوں میں بھی سرایت کرتی ہے (ہمیں فخر ہے کہ باقر العلوم، تاریخ کی چوٹی کی شخصیت۔۔۔ ہم میں سے ہے، ہمیں افتخار ہے کہ ائمہ معصومین ؑ۔۔۔ ہمارے امام ہیں، ہمیں فخر ہے کہ ہمارا مذہب جعفری ہے۔۔۔ ۔ )

۵۲

اپنی محبوب ہستیوں کی زبان سے بزرگانِ دین اور اہلِ بیتِ اطہار ؑ کا تذکرہ اس انداز سے سننا، سننے والوں میں ان سے محبت پیدا کرتا ہے۔

قدرتی بات ہے کہ گفتگو کے پروگراموں اور تحریروں میں نوجوانوں سے تعلق رکھنے والی خاص زبان اور اندازِ بیان کا لحاظ رکھنا چاہئے اور بچوں کی علمی ا ورذہنی سطح کو پیش نظر رکھنا چاہئےخواہ وہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں ہونے والی گفتگو ہو، خواہ گھروں، اسکولوں، مساجد اور امام بارگاہوں میں منعقد ہونے والی میلاد و مجالس کی تقریبات میں ہونے والی گفتگو۔

9:- مراسم کا انعقاد اور شعائر کی تعظیم

اہلِ بیت ؑ سے منسوب ایام پر بڑوں کا طرزِ عمل بچوں کے ذہن اور ان کی روح پر بھی اثر ڈالتا ہےجشن یا سوگواری کے مراسم کا انعقاد اور ایسے پروگراموں میں شرکت کرنا اور شرکت کی ترغیب دینا بھی تاثیر رکھتاہےشعائر کی اس انداز سے تعظیم کے ذریعے دینی اقدار اور ولا و محبت کا تعلق مستحکم ہوتا اور تقویت پاتا ہے۔

ائمہ معصومین ؑ بھی اس طریقے سے استفادہ کرتے اور اسکی تلقین کرتے تھےایامِ عاشورا اور روزِ غدیر جیسی مناسبتوں کی تعظیم و تکریم پیروانِ اہلِ بیت ؑ کے لئے خاص اہمیت کی حامل ہےاہلِ بیت ؑ نے ان دو مناسبتوں کو بہت زیادہ اہمیت دی ہےمعصومین ؑ نے عیدِغدیر کو ایک عظیم اسلامی عید قرار دیا ہے

۵۳

 اور اس دن روزہ رکھنے، عبادت کرنے، ایک دوسرے کومبارکباد دینے، ایک دوسرے سے ملاقات کو جانے، اظہارِ مسرت کرنے، نیا لباس پہننے اور اس دن کے احترام کا حکم دیا ہےتاکہ ایک شیعہ کے ذہن میں یہ دن ایک اہم اور یادگار دن کی حیثیت سے باقی رہے(۱)

ایامِ عاشورا میں بھی گھروں، اسکولوں، دفاتر اوربازاروں میں مراسم کا انعقادمتاثر کن ہوتا ہےجن گھرانوں میں برسہابرس سے عزاداری کا انعقاد کیا جاتا ہے عام طور پر ان گھروں کے افراد اہلِ بیت ؑ کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں اوراس محبت اور ولایت کو ایک گرانقدر سرمایہ سمجھتے ہوئے اسکی حفاظت کرتے ہیں۔ 

حتیٰ لوگوں کو اہلِ بیت ؑ کی راہ میں کھانا کھلانے، ان سے نیکی و احسان کرنے، وقف، نذر اور ہدیہ کرنے جیسی باتوں کو عام کیا جائے تو یہ باتیں بھی لوگوں میں اہلِ بیتِ اطہار ؑ کی محبت کو گہرا کرنے میں مددگارہوں گیگھروں میں دینی رسوم کی حفاظت اور اسکولوں اور معاشرے میں انہیں رواج دینا مفید ہو سکتا ہے

ان رسوم میں امامِ زمانہ ؑ کے جشن ولادت کا انعقاد خاص اہمیت رکھتا ہے اور اس امامِ عصر ؑ کی ولادت کی مناسبت سے شوق ایجاد کرناجو ہمارے لئے حاضر اور ہم پر ناظر ہیں اور ہم ان کی آمد کے منتظرہیں بہت زیادہ جذباتی اور عشق آفریں پہلو کا حامل ہےاس حوالے سے بچوں اور جوانوں میں قدرتی طور پررجحان پایا جاتا ہے اور نیمہ شعبان ان کے لئے ایک ناقابلِ فراموش دن ہے۔

--------------

۱:- اس بارے میں علامہ امینیؒ کی کتاب الغدیر کی جلد ۳ میں ”عید الغدیر فی الاسلام“ کی بحث ملاحظہ فرمائیں۔

۵۴

۱۰:- طالبِ کمال ہونے کی حس سے استفادہ

لوگ کمال اور جمال کی جانب رغبت رکھتے ہیں انسانوں کا بالخصوص نوجوانی اور جوانی کے دور میں طالبِ کمال ہونااس بات کا سبب بنتا ہے کہ وہ عظیم انسانوں اور علم، قدرت اور شہرت کے حامل آئیڈیل افراد کی جانب مائل ہوتے ہیںلوگوں میں عظیم شخصیات کی جانب رغبت کا احساس پایا جاتا ہے اور وہ ان سے عشق و محبت کا اظہار کرکے اپنی اس حس کی تسکین کرتے ہیں اوراگر ایسے آئیڈیل اور عظیم ہستیاں ان کے اردگرد موجود نہ ہوں، تو حتیٰ وہ انہیں اپنے تصورات میں تراشتے ہیںحصولِ کمال کے لئے ہیروز اور عظیم ہستیوں کی جانب رغبت کا نظریہ خاص طور پر نوجوانوں اور جوانوں کے درمیان ایک زندہ حقیقت ہےانسان، بالخصوص نوجوانی کے دنوں میں ہمیشہ ہیروز کی تلاش میں ہوتا ہے اور اگر کوئی ہیرو اس کی دسترس میں نہ ہو، تو حتیٰ خیال اور خواب کے عالم میں بھی بہت سے پہلوؤں سے اسے اپنے طرزِ عمل کے لئے نمونہ اور ماڈل بنا لیتا ہے اور اپنے خاص تصور کی بنیاد پر ہیرو سے، اُس کے انداز سے، اُس کی گفتار سے، اُس کے لباس سے، اُس کی وضع قطع سے، الغرض اس سے تعلق رکھنے والی ہر چیزسے اثر قبول کرتا ہے۔

نوجوان اپنے طرزِ عمل میں اپنے آئیڈیلز کی نقل کرتے ہیں آئیڈیلزاور ہیروز زمین کے خدا ہوتے ہیں انسان ان میں بھی کمال، طاقت اور آسمانی جمال تلاش کرتا ہے یا ان چیزوں کو ان سے منسوب کرتا ہےخود اپنے ہاتھوں سے ایک بت بناتا ہے، اس سے خدائی صفات منسوب کرتا ہے اور پھر اپنے اس خود ساختہ معبود کی پرستش کرتا ہے۔

۵۵

اب جبکہ ایسا ہے، تو یہ ہیروز اور آئیڈیلز جتنے عظیم الشان، کمال کی بلندیوں پر پہنچے ہوئے اور بے عیب ہوں گے، اتنے ہی وسیع حلقے کے لئے پُر کشش ہوں گے اور اسی قدران سے کی جانے والی محبت اوران کی جانب کشش تعمیری ہو گیلہٰذا انسانوں میں عظیم شخصیات کی جانب پائی جانے والی اس رغبت سے استفادہ کرنا چاہئے اور اہلِ بیت ؑ کے ذریعے اس خلا کو پر کرنا چاہئےاہلِ بیت ؑ جسمانی طاقت، روحانی توانائی، معجزات وکرامات، خدا پر توکل، علمِ لدنی اور فضیلت و کمال کے حامل ہونے میں تمام انسانوں سے برتر ہیںوہ خدا کے کمال و جمال کا مظہر ہیں ان کی شجاعت و بہادری، ان کے فضائل، ان کے کردار، ان کے معجزات و کرامات، ان کے لوگوں کو شفا بخشنے، لوگوں کی مشکلات دور کرنے، خدا کے نزدیک ان کے مقامِ شفاعت اور ان سے توسل کرنے والوں کی دعاؤں کی قبولیت کا تذکرہ ان سے محبت و عقیدت پیدا کرنے میں موثر ہے۔

واعظین اورذاکرین، جو ایامِ عزا میں واقعاتِ کربلابیان کرتے ہیں اور اہلِ بیت ؑ کے مصائب اور مظلومیت کا ذکر کر کے ان کی جانب دلوں کو مائل اور متوجہ کرتے ہیں، اگر ان کے مصائب کے ساتھ ساتھ شہدائے کربلا (کے عظیم کردار، ان کے مقصد کی بلندی، اس مقصد سے ان کی وابستگی اور ان) کی دلیری اور جوانمردی کا تذکرہ بھی کریں، تو ان ہستیوں کی محبوبیت میں اور اضافہ ہو جائے۔

کبھی کبھی خود سامعین مقررین سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ امام حسین ؑ، حضرت عباس ؑ اور حضرت علی اکبر ؑ کی شجاعت اور رزم آوری کا تذکرہ کریںیہ اس بات کی علامت ہے کہ ان آئیڈیل شخصیات کے کردار کے ولولہ انگیز پہلو مخاطب کے ذہن میں ان ہستیوں کے کمال اور جامعیت کی تصویر کشی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ عقیدت میں اضافہ کرتے ہیں۔

۵۶

البتہ بچوں اور نوجوانوں کے سامنے ایسے ہی معجزات اور کرامات بیان کرنی چاہئیں جو ان کے لئے قابلِ فہم اور قابلِ ہضم ہوں۔

اگر جوان اور بچے ایسے انسانوں سے عقیدت رکھتے ہوں، اُن سے اظہارِ محبت کرتے ہوں جو علمی، فنی اور ادبی صلاحیتوں کے حامل ہوں، جسمانی قدرت، شجاعت و بہادری، اعلیٰ کردار، خوبصورتی، سخاوت اور جوانمردی میں بلند سطح کے حامل ہوں، تو انہیں بتانا چاہئے کہ اہلِ بیت ؑ علم ودانش، زہدوعبادت، قدرت وطاقت، فصاحت و بلاغت، سخاوت وفیاضی، صورت و سیرت، عبادت و عرفان، جمال و زیبائی، مردانگی وشجاعت، عفوودرگزر، بخشش و احسان، صبر و ثبات کے لحاظ سے تمام انسانوں سے بلند اور بالاتر ہیں۔

آئیڈیلز کے طور پران کا تعارف دلوں میں ان کی محبت پیدا کرتا ہے

بتایئے وہ کونسا امتیاز، خصلت اورپرکشش اور محبت انگیز فضیلت ہے جو انتہائی اعلیٰ پیمانے اور بالاترین درجے پر اہلِ بیتِ عصمت ؑ میں نہ پائی جاتی ہو؟

امام رضا علیہ السلام کی ایک حدیث میں اہلِ بیت ؑ کے مکتب اور ان کے مذہب کی توصیف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ:

مِنْ دینِهمُ الوَرَعُ والعِفَّةُ والصِّدقُ والصَّلاحُ والأ جتهادُ واداءُ الاَمانة اِلَی البَرِّ وَالفاجِرِ وطولُ السّجودِ والقیامُ باللّیلِ واجتنابُ المَحارِمِ وحُسْنُ الصُّحبَةِ وَحُسنُ الجَوارِوَبَذْلُ المعروفِ وکفُّ الأذیٰ وَبَسْطُ الوَجْهِ والنّصیحةُ والرحمةُ لِلمؤمِنین

”پرہیز گاری، پاک دامنی، راست گوئی، شائستگی، جہد وکاوش، اچھے بُرے (ہر شخص) سے امانتداری، طولانی سجود، شب بیداری، حرام سے پرہیز، عمدہ معاشرت، ہمسایوں سے حسنِ سلوک، اچھی بخشش، (دوسروں کو) اذیت و آزارپہنچانے سے اجتناب، خنداں پیشانی، خیر خواہی اور مومنین کے لئے رحمت ائمہ کا دین ہے(تحف العقولص ۴۱۶)

زیارتِ جامعہ میں ائمہ ؑ کے ممتاز اوصاف اور اعلیٰ فضائل کا ذکر آیا ہےان ہی میں سے ہے کہ: جب بھی نیکیوں کا تذکرہ ہو، تو آپ ہی سے ان نیکیوں کی ابتدا بھی، اصل بھی، فرع بھی (آپ ہی ان کے) مخزن بھی مرکز بھی اور انتہا بھیاِن ذُکرالخیرکنتم اولہ واصلہ وفرعہ ومعدنہ وماواہ ومنتھاہ۔

۵۷

اہلِ بیتِ عصمت و طہارت ؑ، انسانوں میں سب سے زیادہ محبوب اور دوستوں میں بہترین دوست ہیں، جو تمام اخلاقی اور عملی خوبیوں کے حوالے سے بے مثل جامعیت کے حامل ہیں اور جو خوبیاں اچھے لوگوں میں علیحدہ علیحدہ پائی جاتی ہیں وہ اہلِ بیت ؑ میں یکجا ملتی ہیں اوریہ عشق کرنے اور محبوب بنانے کے لئے بہترین انسان ہیں امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں ہے کہ:ثلاثة تورِثُ المحبّة: الدّینُ والتواضُعُ والبَذلُ (تین چیزیں محبت کا باعث ہوتی ہیںدین، انکساری اور سخاوتبحارالانوارج۷۵ص ۲۲۹)

ائمہ شیعہ اور اہلِ بیتِ رسول دین کا محور ومدار بھی ہیں، اپنے بلند مقام و مرتبے کے باوجود فروتنی و انکساری میں بھی سب سے بڑھ کر ہیں اور سخاوت و دریادلی میں بھی اپنے زمانے کے تمام لوگوں میں سرِ فہرستائمہ ؑ کے بلند اخلاق کا ذکر اور ان کی انکساری اورفیاضی کا تذکرہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت کو اور بڑھاتا ہے۔

ایک دن معاویہ نے حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کی محب وعقیدتمند ایک نڈر خاتون ”دارمیّہ حجونی“ کو طلب کیا اور ان سے کہا کہ: میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے بتاؤ کہ آخر تم کس وجہ اورکس بنیادپر علی سے محبت اور مجھ سے دشمنی رکھتی ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میں علی ؑ سے اس لئے محبت کرتی ہوں اور ان کی ولایت کا دم بھرتی ہوں کہ وہ لوگوں کے ساتھ عدل سے پیش آتے تھے، حقوق کو مساوی تقسیم کرتے تھے، پیغمبر نے ولایت کے لئے ان کا انتخاب کیا تھا، وہ محروم (و مظلوم) لوگوں کو دوست رکھتے تھے، دینداروں کی عزت کیا کرتے تھےاورعلی کے حق بجانب ہونے کے باوجود تمہارے اُن کے خلاف لڑنے، تمہارے ظلم و ستم، من مانے اندازمیں حکومت کرنے اور ظالمانہ فیصلوں کی وجہ سے تم سے دشمنی رکھتی ہوں(بحارالانوارج ۳۳ص ۲۶۰)

امام علی ؑ کے اخلاق اور ان کے کردار نے اس نڈر خاتون کو علی ؑ کا محب، عقیدت مند اور ہمنوا بنایاجی ہاں، فضائل و کمالات ہمیشہ پر کشش ہوا کرتے ہیں۔

۵۸

۱۱:- ولئ نعمت کا تعارف

جو کوئی ہم پر احسان کرتا ہے یا ہمارے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آتا ہے، ہمارے اندر اس سے محبت پیدا ہو جاتی ہے (الانسان عبیدالاحسان)

اُن احسانات کا تذکرہ، اُن نیکیوں کا ذکر اور اُن نعمات و فوائد کا بیان جو ائمہ ؑ کی طرف سے ہمیں پہنچتے ہیں اُن سے محبت پیدا کرتا ہےیہ ہستیاں فیضِ الٰہی کا واسطہ ہیں، بارگاہِ الٰہی میں ہماری دعاؤں کی قبولیت کا وسیلہ ہیں، ہماری ہادی و رہنما اور دینی پیشوا ہیں ان ہی کے وسیلے سے ہم خالص توحید، راہِ راست اور صراطِ مستقیم پر ہیںیہی ہمارے ولئ نعمت اور محسن ہیں (بِیُمنِہ رُزِقَ الوریٰ) نعمت کی جانب متوجہ ہونا، اس کی طرف توجہ دلانا اور نعمت عطا کرنے والے کو جاننا اُس سے محبت پیدا کرتا ہے۔

خداوند عالم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی کی کہ: مجھ سے محبت کرو اور لوگوں میں بھی میری محبت پیدا کروحضرت موسیٰ نے سوال کیا: بارِ الٰہا! میں خود تو تجھ سے محبت کرتا ہوں، لوگوں کے دل میں (تجھ سے محبت) کیسے پیدا کروں؟ خداوند عالم نے وحی فرمائی: انہیں میری نعمتیں یاد دلاؤ(فَذَکِّرْ هُمِ نِعمتی وآلائی) (بحارالانوارج ۱۳ص ۳۵۱، ج ۶۷ص ۲۲)

بہت سی آیاتِ قرآنی اور احادیثِ معصومین ؑ میں انسانوں کو عطا کی گئی خدا کی نعمتوں اوراُن پر اس کے احسانات کا ذکر کیا گیا ہےیہ تذکرہ انسان میں خدا سے محبت اور اُس کی عبادت و پرستش کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔

ایک حدیث میں ہے کہ خدا نے حضرت داؤد علیہ السلام کو ایسی ہی وحی کیحضرت داؤد ؑ نے عرض کیا: میں خود تو تجھ سے محبت کرتا ہوںفَکَیفَ اُحَبِّبُکَ اِلیٰ خلقِک؟ (لوگوں کوتیرا محب کیسے بناؤں؟ ) خدا نے فرمایا:اُذکُرْاَیادِیَّ عِندَهُم فاِنّک اِذاذَکَرْتَ ذلک لَهُمْ اَحَبُّونی (میری نعمتیں یاد دلا کے مجھے ان کا محبوب بناؤمیزان الحکمۃج ۲ص ۲۲۹، نقل از بحارالانوارج ۱۴ص ۳۸)

۵۹

گھروں میں بھی کبھی کبھی بچوں میں خاندان کے کسی فرد سے محبت پیدا کرنے کے لئے اُس سے کہتے ہیں کہ: یہ وہی ہیں جنہوں نے تمہاے لئے فلاں چیز خریدی تھی، تمہیں فلاں جگہ گھمانے لے گئے تھے۔۔۔ وغیرہ وغیرہان کے دیئے گئے انعامات اور ان کے حسن سلوک کا تذکرہ بچوں میں اُن سے محبت اور انسیت پیدا کر دیتا ہے۔

ائمہ ؑ بھی ہمارے اوپر بہت سے حق رکھتے ہیں، اور ہمارے پاس جو کچھ ہے، بالخصوص معنوی اور دینی تعلیمات و عنایات اسی خاندان کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں اور یہ ہستیاں بندوں پر خدا کے فیض کا واسطہ ہیں ان باتوں کا ذکر کیا جانا چاہئے تاکہ اس کے ذریعے اہلِ بیت ؑ سے محبت پیداہوزیارتِ جامعہ میں عالمِ تکوین میں ائمہ ؑ کے رحمت آفریں کردار کے بارے میں ہے کہ :

بِکُم فَتَحَ اﷲُ وبِکُمْ یَخْتِمُ وبِکُم یُنزِّلُ الغَیثَ وبِکُم یُمسِکُ السّماءَ اَن تَقَعَ عَلَی الأرضِ الّا بأذنه

خدا نے آپ ہی سے کائنات کاآغاز کیا اور آپ ہی پرا ختتام کرے گاآپ ہی کے طفیل بارش برستی ہے اور آپ ہی کی وجہ سے آسمان اورزمین اپنی جگہ پر قائم ہیں۔

ہدایت و رہنمائی اور دین کی تعلیم و تشریح کے سلسلے میں ائمہ ؑ کے کردار کے بارے میں اس زیارت میں ہے کہ :

بِمُوالا تِکم عَلَّمَنَااﷲُ مَعالِمَ دینِناوَاَصْلَحَ ماکانَ فَسدَمِنْ دُنیانا وبِمُوالاتِکم تَمَّتِ الکلمةُ وعَظُمَتِ النِّعمةُ وَأتَلَفتِ الفُرْقَهُ و بمُوالاتِکُمْ تُقْبَلُ الطّاعَةُ الْمُفْتَرَضَةٌ

آپ کی ولایت ہی کے طفیل میں خدا سے میں نے دین کی روشن تعلیمات حاصل کیں اور میرے دنیا کے بگڑے ہوئے امور کی اصلاح ہوئیآپ ہی کی ولایت سے کلمہ مکمل ہوا، نعمت کو عظمت ملی اور اختلاف و انتشار الفت ومحبت میں بدلاآپ کی ولایت ہی کے تصدق میں بارگاہِ الٰہی میں واجب اطاعتیں قبول ہوتی ہیں۔ اہلِ بیت ہمارے معلمِ دین، مرشدِ ہدایت اور رہنمائے حیات ہیںہمیں توحید اور اسلام انہی کے ذریعے ملا ہے اور اس سلسلے میں ہم ان کے مقروض ہیںہمیں اس نعمت اور احسان پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اس گھرانے سے محبت کرنی چاہئے۔

۶۰