عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف0%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمدمحمدی اشتہاردی
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: صفحے: 177
مشاہدے: 88266
ڈاؤنلوڈ: 5311

تبصرے:

عباد الرحمٰن کے اوصاف
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 88266 / ڈاؤنلوڈ: 5311
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نیز خداوند ِعالم کا ارشاد ہے:

قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ

آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں، تو پروردگار تمہاری پرواہ بھی نہ کرتاسورئہ فرقان۲۵آیت۷۷

قرآنِ کریم میں مختلف شکلوں میں ۲۵ مرتبہ دعا کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے اور سو سے زیادہ مرتبہ انبیا وغیرہ کی دعاؤں کا تذکرہ کیا ہے جو رب اور ربنا جیسے کلمات سے شروع ہوتی ہیں اور یہ چیز قرآنِ کریم کی نظر میں دعا کی امتیازی اہمیت کی علامت ہے۔

انبیا اور معصومین کے کلمات میں بھی بہت کم چیزوں پر اتنی توجہ دی گئی ہے جتنی توجہ دعا کے موضوع پر دی گئی ہےیہ ہستیاں ہمیشہ، مختلف اوقات میں دعاؤں، مناجات اور خدا سے راز ونیاز میں مشغول رہا کرتی تھیںاس حوالے سے چند مثالوں کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

الدُّعاء سِلاحُ المؤمِن وعَمُو دُالدّینِ ونُورُ السّماواتِ اوالارض

دعا مومن کا اسلحہ، دین کا ستون اور آسمانوں اور زمین کا نور ہےاصولِ کافی ج۲ص۴۶۸

آنحضرتؐ ہی کا ارشاد ہے:

الدُّعاءُ مُخُّ العبادَةِ ولا یَهْلِکُ مَعَ الدُّعاء احَدٌ

دعا عبادت کا مغز ہےکوئی دعا کرنے والا ہلاکت کا شکار نہیں ہوتابحار الانوارج۹۳ص۳۰۰

امام جعفر صادق علیہ السلام نے نقل کیا ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

احبُّ الاعمالِ اِلی ﷲ عزّو جلّ فی الارضِ الدُّعاءُ

اﷲ رب العزت کی نگاہ میں زمین پر سب سے پسندیدہ عمل دعا ہے

۱۴۱

اس کے بعد آپؑ نے فرمایا:

وَکانَ امیرُ المؤمنینَ رجلاً دَعّاءٌ

اور امیر المومنین بہت زیادہ دعا کرنے والے شخص تھےاصولِ کافی ج۲ص۴۶۷، ۴۶۸

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے:

الدُّعاءُ مفاتیحُ النّجاحِ ومقالیدُ الفَلاحِ

دعا کامیابی کی کنجیاں اور فلاح کے خزانے ہیں

الدُّعاءُ تُرْسُ المؤمِنِ

دعا مومن کی سپر ہےاصولِ کافی ج۲ص۴۶۸

اَعْجَزُ الناسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعا

جو شخص دعا کرنے سے عاجز ہو، وہ عاجز ترین انسان ہےبحار الانوارج۷۸ص۹

دعا کی روشنی میں تین اہم سبق

دعا ومناجات مثبت وتعمیری اثرات (بالخصوص قلب کی پاکیزگی اور تہذیب ِنفس) کی حامل ہوتی ہے اور اس سے بکثرت سبق حاصل کیے جاسکتے ہیں ان اسباق میں دعا کے تین اہم درس، بالفاظ دیگر دعا کے تین پہلو بھی شامل ہیںدعا کے فیوضات حاصل کرنے کے لیے، ان اسباق اور ان پہلوؤں کی جانب متوجہ رہنے کی ضرورت ہے۔

۱۴۲

۱:- دعا، بلاؤں کے دور ہونے اور حاجتوں کے پورا ہونے کے سلسلے میں موثر کردار کی حامل ہےاسی بنیاد پر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

ادفَعوا امواجَ البَلاء عَنْکُم بالدّعاء قَبْلَ ورودِالبَلاء

بلاؤں کی امواج کو ان کے آنے سے پہلے دعا کے ذریعے اپنے سے دور کروبحار الانوارج۹۳ص۲۸۹

۲:- دعا کرتے ہوئے بندہ خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑاتا، سر جھکاتا اور اس کے ساتھ راز ونیاز کرتا ہے اور یہ کیفیات انسان کے غرور کو توڑتی ہیں اور دل کو معنوی امور کی قبولیت کے لیے آمادہ کرتی ہیں اس کے نتیجے میں انسان اطمینانِ نفس، قوتِ قلب اور بلند جذبات واحساسات کا حامل ہوجاتا ہےاس بارے میں قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ:

اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً

تم اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خاموشی کے ساتھ پکاروسورئہ اعراف۷آیت۵۵

۳:- دعا کے مشمولات ومضمون اور دعا میں موجود بلند پایہ معارف پر توجہمثال کے طور پر صحیفہ ٔ سجادیہ کی پہلی دعا اور نہج البلاغہ کا پہلا خطبہ بلند پایہ معارف اور علمی نکات کے اعتبار سے یکساں ہیں ان معارف پر توجہ، انسان کی معلومات کی سطح اور معرفت میں اضافے کے ساتھ ساتھ اسلام کی عالی تعلیمات ومفاہیم سے بہتر آشنائی کا ذریعہ ہیں ان اعلیٰ مفاہیم اور تعلیمات میں سرِ فہرست توحیدوخدا شناسی ہے، جو استجابت ِ دعا کے سلسلے میں اہم کردار کی حامل ہےجیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ ایک گروہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا: ہم دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں ہوتی، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ امام ؑنے انہیں جواب دیا:

۱۴۳

لانّکم تدعُونَ مَنْ لا تَعرِفُونَه

اس لیے کہ تم اسے پکارتے ہو، جسے پہچانتے نہیںبحار الانوارج۹۳ص۳۶۸ (یعنی بغیر معرفت ِالٰہی کے دعا کرتے ہومترجم)

مجموعی طور پر دعا ایک ایسی عبادت ہے جسے روح کی پاکیزگی اور اسکی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ کردار کا حامل ہونا چاہئےاس کرادر کے حصول کے لیے واجب، مستحب اور کمالِ دعا کی شرائط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

دعا کی قبولیت بعض شرائط سے وابستہ ہے اور ان شرائط کے حصول کا تہذیب ِنفس اور تکاملِ انسان سے قریبی تعلق ہے، اور کہا جاسکتا ہے کہ جس قدر انسان میں دعا کا مثبت اثر ظاہر ہوگا اسی قدر دعا درجہ قبولیت پائے گیاس نکتے کی وضاحت کے لیے آپ کی توجہ درجِ ذیل فرامینِ معصومین ؑکی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں:

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ایسا شخص، جو چاہتا ہے کہ اسکی دعا قبول ہو، اسے چاہیے کہ اپنی خوراک اور ذریعہ آمدنی کو پاک کرے۔

نیز آپؐ ہی نے فرمایا ہے:

تمہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہیے، وگرنہ خداوند ِ عالم تمہارے نیک لوگوں پر برے لوگوں کو مسلط کردے گا اور تم کتنی ہی دعا مانگو لیکن وہ قبول نہیں ہوگی(سفینۃ البحارج۱ص۴۴۸، ۴۴۹)

دعائے کمیل میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

اللهمَّ اغْفِرْلِیَ الذَنوبَ الَتی تَحْبِسُ الدّعاء

بار الٰہا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بنتے ہیں

۱۴۴

ایک شخص نے امیر المومنین ؑسے سوال کیا: ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ امام ؑنے اسے جواب دیا: تم نے خدا کو پہچانا ہے، لیکن اس کا حق ادا نہیں کیارسول پر ایمان لائے ہو، لیکن اُن کے فرامین واحکام کی پیروی نہیں کیآیات ِالٰہی کی تلاوت کی ہے، لیکن ان کی تعلیمات پر عمل نہیں کیازبان سے کہا ہے کہ آتشِ جہنم سے ڈرتے ہو، لیکن تمہارا کردار آتشِ جہنم میں داخلے کا موجب ہوتا ہےزبان سے کہتے ہو کہ تمہیں جنت پسند ہے، لیکن اپنے عمل سے جنت سے دور ہو گئے ہوخدا کی نعمتوں سے استفادہ کیا ہے، لیکن ان کا شکر ادا نہیں کیاخدا فرماتا ہے کہ شیطان سے دشمنی رکھو، تم نے اپنی زبان سے تو اس سے دشمنی کا اظہار کیا ہے، لیکن عمل سے اس سے دوستی کی ہےتم نے دوسرے لوگوں کے عیب تو دیکھے ہیں، لیکن اپنے عیبوں کو نظر انداز کیا ہےاگر تمہاری نیت خالص ہو اور تم امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرو، تو تمہاری دعائیں قبول ہوں گی(سفینۃ البحارج۱ص۴۴۹)

ایسی بکثرت روایات موجود ہیں، جن میں دعا کی قبولیت کے لیے اس کی شرائط فراہم کرنے کی جانب اشارہ کیا گیا ہےلہٰذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں بے سوچے سمجھے اور صرف بظاہر دعا کرنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیےبلکہ دعا کے مضمون ومشمولات اور شرائط پر بھی توجہ دینی چاہیے، تاکہ اس عمل سے بھرپور اور مکمل استفادہ کیا جاسکے۔

دعا کے مضمون پر توجہ اور بے موقع یا کم فائدہ دعاؤں سے اجتناب

زیر بحث آیت (سورئہ فرقان کی آیت۷۴) میں واضح کیا گیا ہے کہ خدا کے ممتاز اور خاص بندے وہ لوگ ہیں جو دعا کرتے ہیں اور دعا کے ذریعے خدا کے سامنے اپنی ان تین خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۱اچھی بیوی۲: صالح اولاد۳: لوگوں کے پیشوا، رہنما اور ان کے لیے نمونہ عمل کامقام۔

۱۴۵

یعنی یہ لوگ اس بات سے باخبر ہیں کہ انہیں دعا کے ذریعے اپنے رب سے کیا مانگنا چاہیے، لہٰذا خدا سے اہم چیزیں طلب کرتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں۔

یہ لوگ کہتے ہیں کہ بارِ الٰہا! ہماری بیوی اور بچوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنادےآنکھوں کی ٹھنڈک یا نورِ چشم کی اصطلاح کمال وسعادت کا رمز ہےکیونکہ اچھی بیوی اور صالح اولاد انسان کے اطمینان اور اسکی سعادت کا موجب ہوتے ہیں اور انسان کی روح کو فرحت بخشتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اسے آنکھوں کی ٹھنڈک اور ان کا نور حاصل ہوتا ہےواضح الفاظ میں عرض ہے کہ صالح اولاد اور اچھی بیوی، انسان کی زندگی کو نورانیت اور پاکیزگی دیتے ہیں اور دنیا وآخرت میں اس کی عزت وآبرو، سرخروئی اور سربلندی کا باعث بنتے ہیں اس قسم کی دعائیں سودمند اور مفید آثار کی حامل ہیں، برخلاف اُن بیہودہ اور کم فائدہ دعاؤں کے جن کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی۔

انسان کو تمام ہی امور میں، حتیٰ اپنی دعاؤں میں بھی بلند عزائم اور بلند تمناؤں کا مالک ہونا چاہیے اور دعا کی نورانیت کے سائے میں بلند مقامات تک رسائی حاصل کرنا چاہیےیہاں تک کہ اس کی دعا ہو کہ وہ لوگوں کا پیشوا، رہبر اور ان کے لئے نمونہ عمل بنے۔

دعاؤں کو صرف مادّی امور تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، نہ ہی بارگاہِ الٰہی میں حقیر چیزوں کی درخواست کرنی چاہیےاسی بنا پر امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: چار قسم کے لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں

۱۴۶

(۱) ایسے شخص کی دعا جو اپنے گھر میں بیٹھا یہ دعا مانگتا ہے کہ بارِ الٰہا! مجھے روزی عنایت فرمااس سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے کوشش اور جدوجہد کا حکم نہیں دیا تھا؟

(۲) ایسے شخص کی دعا جس کی (بری اور مسلسل تکلیف پہنچانے والی) بیوی ہو، اور وہ اس سے نجات کی دعا کرتا ہواس سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے طلاق کا حق نہیں دیا تھا

(۳) ایسا شخص جس کے پاس کوئی مال ہو اور اسے اس نے بغیر کسی کو گواہ بنائے کسی دوسرے کو قرض دے دیا ہو (اور قرض لینے والا مکر گیا ہو اور قرض دینے والا یہ دعا کرتا ہو کہ خدایا اسکے دل میں نیکی ڈال تاکہ وہ میرا قرض ادا کردے) ایسے شخص سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ قرض دیتے وقت گواہ رکھنا(اصولِ کافی ج۲ص۵۱۱)

جب ہم انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی کی دعاؤں کا جائزہ لیتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ دعا کے دوران اکثر ان کی خواہشات کا محور بلند پایہ معنوی، اجتماعی اور سیاسی امور ہوتے ہیںمثلاً حضرت ابراہیم ؑکی دعا یہ تھی کہ:

رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ

پروردگار! مجھے اور میری ذریت میں نماز قائم کرنے والے قرار دے اور پروردگار میری دعا کو قبول کرلےسورئہ ابراہیم۱۴آیت۴۰

ائمہ معصومینؑ جوراسخون فی العلم ہیں، یوں دعا کیا کرتے تھے:

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ

پروردگار! جب تو نے ہمیں ہدایت دے دی ہے، تو اب ہمارے دلوں میں کجی (گمراہی) پیدا نہ ہونے پائے، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما کہ تو بہترین عطا کرنے والا ہےسورئہ آلِ عمران۳آیت۸

۱۴۷

اصحاب کہف کی دعا یہ تھی کہ:

رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّهَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا

پروردگار! ہم کو اپنی طرف سے رحمت عطا فرما اور ہمارے لیے ہدایت اور نجات کی راہ فراہم فرماسورئہ کہف۱۸آیت۱۰

صحیفہ ٔسجادیہ اور مفاتیح الجنان میں نقل ہونے والی ائمہ کی دعاؤں پر توجہ ہمیں دعا کرنے کے انداز سے آشنا کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ ہم کس طرح اپنے رب سے دعا مانگیں۔

مثلاً امام حسین علیہ السلام اپنی دعائے عرفہ کے ایک حصے میں خدا سے یوں عرض کرتے ہیں کہ:

اللهمّ اجعَلنی اَخشاکَ کانّی اراک، واَسْعِدْنی بِتَقواک، ولاٰ تُشْقِنی مِنْ مَعْصِیَتِکَ

بارِ الٰہا! مجھے اپنی درگاہ میں ایسے خوف وخشیت کے ساتھ کھڑا کردے، گویا میں تجھے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوںاور تقویٰ کے سائے میں مجھے سعادت مند فرما، اور گناہ کی بنا پر سیاہ بخت نہ بنا دینامفاتیح الجناندعائے عرفہ

اس نکتے اور مفہوم کی وضاحت کے لیے ایک دلچسپ داستان نقل کرتے ہیں:

بیان کیا گیا ہے خداوند ِعالم نے بنی اسرائیل کے انبیا میں سے ایک نبی پر وحی کی کہ فلاں عابد سے کہیں کہ اس کی تین دعائیں ہماری بارگاہ میں قبول کی جائیں گینبی نے خدا کی یہ وحی اس عابد تک پہنچا دیاس عابد نے معاملہ اپنی بیوی کے سامنے رکھا(۱) اس کی بیوی نے اس پر زور دیا کہ ان تین میں سے ایک دعا میرے لیے طلب کرےعابد نے اس کی یہ تجویز مان لیاس کی بیوی نے اس سے کہا کہ میرے لیے دعا مانگو کہ خدا مجھے اپنے زمانے کی حسین ترین عورتوں میں سے بنادےعابد نے یہ دعا مانگی اور اس کی بیوی دنیا کی خوبصورت ترین عورتوں میں سے ہوگئی۔

--------------

۱:- کتاب سیاستنامہ کے صفحہ ۳۲۳ پر اس شوہر کا نام یوسف اور اس کی بیوی کا نام کُرٰسُف بیان ہوا ہے۔

۱۴۸

اس کی خوبصورتی کا چرچا ہوا تو بادشاہ وقت اور خواہشات ِنفسانی کے غلام امیر زادے اس کی زلف کے اسیر ہوگئے اور اسے پیغام بھیجنے لگے کہ اپنے مفلوک الحال، بوڑھے اور زاہد شوہر کو چھوڑ کر ہمارے پاس آجاؤ تاکہ دنیا کی ہر لذت سے لطف اندوز ہوسکووہ عورت ان کے فریب میں آگئی اور اپنے شوہر سے بدسلوکی کرنے لگیاس طرح ان میاں بیوی کے باہمی تعلقات خراب ہو گئےآخر کار اس عابد شخص نے اپنی بیوی سے ناراض ہوکر اپنی دوسری دعا مانگی اور وہ یہ تھی کہ: بارِالٰہا! میری بیوی کو کتا بنا دے۔

عابد کی دعا پوری ہوئی اور وہ عورت کتا بن گئی۔

اس عورت کے بھائی اور دوسرے رشتے دار عابد کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگوں میں ہماری رسوائی ہورہی ہے، ہم آپ سے التماس کرتے ہیں کہ آپ اپنی تیسری دعا طلب کیجئے تاکہ آپ کی بیوی اپنی پہلی والی صورت میں واپس آجائےان لوگوں کے شدید اصرار پر عابد نے اپنی تیسری دعا بھی طلب کی اور عرض کیا کہ: بارِ الٰہا! میری بیوی کو اس کی پہلی حالت پر واپس پلٹا دےعابد کی دعا قبول ہوئی اور اس کی بیوی اپنی پہلی صورت پر واپس آگئی۔

اس طرح عابد کی تینوں مقبول دعائیں رائیگاں گئیں(بحارالانوارج۱۴ص ۴۸۵) اگر وہ عابد سمجھ بوجھ رکھنے والا ہوتا تو اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا تھا اور اپنی دنیا اور آخرت کی کامیابی وسعادت حاصل کرسکتا تھا۔

۱۴۹

دعا میں تین خوبصورت خواہشیں

ایک مرتبہ پھر زیر بحث آیت کی تفسیر کی جانب آتے ہیں اس آیت میں کہا گیا ہے کہ خداکے ممتاز بندے اپنی دعا میں خدا سےعرض کرتے ہیں کہ: ہمیں اچھی بیوی اور صالح اولاد عنایت فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا اور قائد بنا۔

یہ تین تمنائیں، ایک کامیاب اور سعادت مند زندگی کی بہترین خواہشات ہیں ان تین تمناؤں کی اہمیت جانے کے لیے، ان کی مختصر وضاحت کرتے ہیں۔

اچھی بیوی اور اس کے اثرات

اچھی بیوی، اپنے شوہر کے لیے بہترین معاون ومددگار ہوتی ہےزندگی کی خوبصورتی ودوام اور اسکی کامیابی وشادابی کا موجب ہوتی ہے اور گھرانے کی عمدہ نگہداشت اور اسکی تعمیر میں انتہائی موثر کردار ادا کرتی ہےلہٰذا ان خصوصیات کی حامل بیوی کے چناؤ اور اس کی تربیت کے لیے گہری توجہ ضروری ہے۔

بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی شریک ِحیات کے انتخاب کے سلسلے میں رسولِ مقبول سے مشورہ کیاآنحضرتؐ نے اس سے فرمایا:

انکِحْ وعلیکَ بِذاتِ الدّینَ

شادی کرو لیکن تمہیں چاہیے کہ دیندار عورت سے شادی کروفروعِ کافی ج۵ص۳۳۲)

۱۵۰

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابراہیم کرخی سے فرمایا:

ایسی لڑکی سے شادی کرو جس کا گھرانہ اصیل اور نیک ہو، جو اچھے اخلاق کی حامل ہو، جس میں صاحب ِاولاد ہونے کی صلاحیت پائی جاتی ہو، جو دنیا اور آخرت کے امور میں اپنے شوہر کی مددگار ہو(فروعِ کافی ج۵ص۳۲۳)

اس بارے میں پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

میری امت کی بہترین عورتیں وہ ہیں جن کا مہر کم ہو اور جو خوبرو ہوں(فروعِ کافی ج۵ص۳۲۴)

اس حوالے سے جو روایات بیان کی جاتی ہیں ان کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ درجِ ذیل بارہ خصوصیات اچھی بیوی کی علامات ہیں(۱) دینداری(۲) اچھا اخلاق(۳) خوبصورتی(۴) مہر کا کم ہونا(۵) بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت(۶) محبت کرنے والی(۷) پاکدامن(۸) شوہر کی اطاعت گزار اور اس کے لیے سنورنے والی(۹) اچھے اور اصیل گھرانے سے تعلق رکھنے والی(۱۰) سچی اور امانتدار(۱۱) صاف ستھری اور معطر رہنے والی(۱۲) سمجھ بوجھ کی حامل اور خوش اسلوبی کے ساتھ امور زندگی کی تنظیم کرنے والی۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

ایّاکُم و تزویجَ الحَمقاء، فانَّ صُحْبَتَها بَلاءٌ وولَدَها ضِیاعُ

کم عقل عورتوں کے ساتھ شادی سے پرہیز کرو، کیونکہ ان کی ہم نشینی بلا ہے اور ان کے بچے برباد ہیںوسائل الشیعہ ج۱۴ص۵۶

متعدد روایات میں کہا گیا ہے کہ شادی کرتے وقت تمہارے پیش نظر مال ودولت کا حصول اور شریک ِحیات کی خوبصورتی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اپنے شریک ِحیات کے ایمان اور اس کی پاکدامنی کو پیش نظر رکھو۔

۱۵۱

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: جب کبھی کوئی شخص کسی خاتون سے اس کے مال ودولت کی خاطر شادی کرتا ہے، تو خدا اسے اسی مال ودولت کے حوالے کردیتا ہے (اور دوسرے فوائد سے محروم رکھتا ہے) اور جو کوئی کسی عورت سے اس کے حسن وجمال کے لیے شادی کرتا ہے، تو اس سے ناگوار امور سامنے آتے ہیں اور جو کوئی کسی خاتون سے اس کے دین کی خاطر شادی کرتا ہے، تو خدا اسے محروم نہیں رکھتا(وسائل الشیعہ ج۱۴ص۳۱)

لہٰذا اچھی بیوی کا شمار زندگی کے اہم ترین عناصر میں ہوتا ہےخداوند ِعالم کا ممتاز بندہ اپنی دعا میں بھی اور اپنے انتخاب میں بھی اس موضوع کو اچھی طرح پیش نظر رکھتا ہے، تاکہ اس کے ذریعے اپنی سعادت اور کامرانی کا ایک اہم عامل فراہم کرسکے۔

صالح اولاد

جو عناصر کسی انسان کی سعادت وکامرانی میں شمار کیے جاتے ہیں اُن میں سے ایک اہم ترین عنصر اسکا صالح اولاد کا مالک ہونا ہے، جو واقعا ً ایک بیش بہا الٰہی نعمت ہوتی ہے۔

اسکے برخلاف غیر صالح اولاد بڑی اور تباہ کن بلا ہے، جو دنیا اور آخرت دونوں کی ناکامی اور مصیبت کا باعث ہےانبیا اور اولیائے الٰہی، اپنی دعاؤں اور مناجات میں بھی اور اپنے عمل کے ذریعے بھی صالح اولاد کے حصول کے طالب ہوتے ہیں اور اپنے بچے کی اخلاقی اور روحانی تربیت کے سلسلے میں کسی تعمیری عامل کو نظر انداز نہیں کرتے۔

اس بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک شیعہ سے فرمایا:

جب تم شادی کا ارادہ کرو، تو دو رکعت نماز پڑھو اور حمدوسپاس الٰہی کے بعد دعا کرو اور دعا میں کہو کہ:۔ ۔ اور میرے لیے اس بیوی سے ایسا طیب اور پاک فرزند نصیب فرما جو میری زندگی میں اور میری موت کے بعد میرا صالح جانشین ثابت ہو(وسائل الشیعہ ج۱۴ص۷۹)

۱۵۲

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو میں فرمایا:

خدا کی قسم! میں نے بارگاہِ الٰہی میں خوبصورت اور خوش اندام اولاد کی درخواست نہیں کی تھیبلکہ پروردگار سے التماس کی تھی کہ مجھے اﷲ کی مطیع وفرمانبردار اور خوفِ خدا رکھنے والی اولاد عطا فرمااور جب کبھی میں اسے دیکھوں، اور اسے خدا کا اطاعت گزار پاؤں، تو یہ دیکھ کر میری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو(مناقب ِابن شہر آشوبج۳ص۳۸۰)

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

انّ الولدَ الصّالح ریْحانةٌ مِنْ ریاحینِ الجَنَّةِ

بے شک صالح اولاد جنت کے خوشبودار پھولوں میں سے ایک پھول ہےفروعِ کافی ج۶ص۳

بحار الانوار کے مولف علامہ محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ کے والد ِگرامی، عالمِ بزرگوار مرحوم ملّا محمد تقی مجلسی کے حالات ِزندگی میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ایک رات نمازِ شب کے بعد مجھ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ اگر میں اس موقع پر خدا سے کوئی دعا مانگوں تو وہ دعا قبول ہوگیمیں سوچ ہی رہا تھا کہ کیا درخواست کروں کہ اچانک میرے بیٹے محمد باقر کی آواز بلند ہوئی، جو اس وقت اپنے جھولے میں تھامیں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا کہ: بار الٰہا! بحقِ محمد وآلِ محمد! اس بچے کو مروجِ دین اور سید الانبیا محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو فروغ دینے والا قرار دےاور اسے بھرپور توفیقات عنایت فرما(مستدرک الوسائلج۳ص۴۰۸)

یہی دعا اس بات کا باعث ہوئی کہ خداوند ِعالم نے ملّا باقر مجلسی کو توفیق کے تمام اسباب فراہم کیےیہاں تک کہ جب وہ بڑے ہوئے تو ان کا کمال روز بروز بڑھتا ہی چلا گیا اور انہوں نے اپنے بیان اور قلم کے ذریعے اسلام اور دینی احکام کی نشر واشاعت کی بھرپور توفیقات حاصل کیں اور بکثرت گرانقدر آثار اپنی یادگار کے طور پر چھوڑے، جن میں سے ایک اثر، ایک سو دس جلدوں پر مشتمل بحار الانوار ہے۔

۱۵۳

معروف محدث حاجی نوری علیہ الرحمہ کے بقول، علامہ مجلسی کا مقام اور ترویجِ اسلام میں ان کی توفیق اس درجے پر پہنچی کہ عبد العزیز دہلوی نے اپنی کتاب تحفہ میں لکھا ہے کہ: اگر مذہب ِ شیعہ کا نام مذہب ِمجلسی رکھا جائے تو بجا ہےکیونکہ اس مذہب کو رونق اور فروغ علامہ مجلسی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے(مستدرک الوسائلج۳ص۴۰۸)

نتیجہ یہ کہ بڑے لوگ صالح اولاد کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے اور اسے اپنی زندگی کے سر فہرست مسئلے کے طور پر توجہ کا مرکز قرار دیتے تھے۔

لوگوں کا پیشوا اور قائد ہونا

بے شک مقامِ امامت اعلیٰ ترین مقام ہے، جسے اسلام نے بہت زیادہ اہمیت دی ہےزیر بحث آیت میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ عباد الرحمٰن (یعنی خدا کے ممتاز بندے) وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ تقویٰ اور جہد ِ مسلسل کے ذریعے محترم ترین مقام تک رسائی حاصل کریں اور لوگوں کے پیشوا اور قائد بن جائیں۔

واضح ہے کہ اس مقام کا حصول تہذیب ِنفس کے مراحل طے کرنے اور معنوی کمالات کسب کرنے سے وابستہ ہےجیسے کہ حضرت ابراہیمؑ کڑی آزمائشوں اور عالی درجات طے کرنے کے بعد اس مقام پر پہنچے اور خداوند ِعالم نے ان سے فرمایا:…اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیںسورئہ بقرہ۲آیت۱۲۴)

یہ دعا اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خدا کے ممتاز بندوں کو چاہیے کہ اپنے آپ کو ایسا بنائیں اور ایسے بلند عزائم رکھیں کہ لوگوں کے رہبر اور رہنما بن سکیں اور لوگ ان کے وجود سے پھوٹنے والی روشنی سے استفادہ کریں اور ان کے فیوضات لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر صراطِ مستقیم اور روشنی کی جانب لے آئیںاور وہ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ اگر وہ کوشش کریں تو تقویٰ اور عملِ صالح کے سائے میں عالی درجات حاصل کرسکتے ہیں۔

۱۵۴

یہ دعا، تمنا اور خواہش وہی ہے جو تمام انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی رکھتے تھےجیسے کہ اسی جیسی بات امام زین العابدین علیہ السلام کی دعائے مکارم الاخلاق میں آئی ہے، جہاں آپ نے خداوند عزوجل سے دعا کرتے ہوئے عرض کیا ہے کہ:وَاجْعَلْنِی مِن اَهْلِ السِّدادِ وَمِنْ اَدِلَّةِ الرَّشادِ (اور مجھے درست کاروں اور ہدایت کے رہنماؤں میں سے قرار دےمفاتیح الجناندعائے مکارم الاخلاق)

عباد الرحمٰن کی عظیم الشان جزا

قرآنِ مجید، خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی خصوصیات بیان کرنے کے بعد روزِ قیامت ان بندوں کی ظاہری اور باطنی جزااور اجر وثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ:

اُولٰىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّسَلٰمًا خٰلِدِيْنَ فِيْهَاحَسُنَتْ مُسْـتَقَرًّا وَّمُقَامًا

یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کی بنا پر جنت کے اونچے اونچے محل عطا کیے جائیں گے اور وہاں انہیں تعظیم اور سلام پیش کیے جائیں گےوہ انہی مقامات پر ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کہ وہ بہترین مستقر اور حسین ترین جائے قیام ہےسورئہ فرقان۲۵آیات ۷۵ تا۷۶

ان آیات میں عبا دالرحمن کو ملنے والی جزا وپاداش کو بیان کیا گیا ہے، جو انتہائی عظیم الشان اور خصوصی امتیازات کے ہمراہ ہوگیان آیات کا تقاضا ہے کہ اس گفتگو میں، ان چار موضوعات، یعنی جزا وپاداش، عباد الرحمٰن کی مخصوص جزا، تعمیر کردار میں صبر واستقامت کی اہمیت اور خلود اور ہمیشگی وجاویدانی کے موضوع کا جائزہ لیا جائے۔

صبر کی اہمیت پر گفتگو کو ہم آئندہ نشست کے لیے چھوڑتے ہیںیہاں آپ کی توجہ دوسرے تین موضوعات کی جانب مبذول کراتے ہیں۔

۱۵۵

جزاو پاداش

جزاو پاداش، بالفاظِ دیگر جزا اور مکافات ِعمل کا مسئلہ خداوند ِعالم کے قطعی تکوینی اور تشریعی قوانین میں سے ہے، جو اچھے یا برے عمل کی مناسبت سے ان اعمال کو انجام دینے والے پر دنیا اور آخرت میں مختلف شکلوں میں اثر انداز ہوتا ہے۔

قرآنِ کریم میں اس بارے میں بکثرت آیات موجودہیں، یہ یقینی امور میں سے ہے اور اسکے وقوع پذیر ہونے میں کسی قسم کے شک وتردید کی گنجائش نہیں۔

اگر ہم قرآنِ مجید میں مختلف انداز سے سیکڑوں بار استعمال ہونے والے لفظ ” جزا“ کا جائزہ لیں، تو بخوبی اس بات کا علم حاصل کریں گے کہ دنیاوی اور اُخروی جزا کا مسئلہ قرآنِ مجید میں بیان ہونے والے مسلمہ امور میں سے ہے اور خداوند ِعالم نے انتہائی زور دے کر اس کا تذکرہ کیا ہے، تاکہ پیروانِ قرآن اس قطعی قانون کو کسی صورت فراموش نہ کریں اور اس سے غفلت نہ برتیں۔

مثال کے طور پر اگر ہم قرآنِ کریم کی سورئہ نبا کا مطالعہ کریں، تو وہاں دیکھیں گے کہ اس سورے کی آیت ۲۱ سے لے کر ۳۰ تک میں، نہایت واضح الفاظ کے ساتھ اہلِ جہنم کی سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہےاور آیت نمبر ۳۱ سے ۳۶ تک میں اہلِ جنت کی جزا وپاداش کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

اسی سورے کی آیت ۲۶ میں فرمان الٰہی ہے:جَزَاءً وِّفَاقًا (یہ اُن کے اعمال کے موافق ومناسب بدلہ ہے)اسی سورے کی آیت ۳۶ میں خدا فرماتا ہے:جَزَاءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا (یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حساب کی ہوئی عطا ہے اور تمہارے اعمال کی جزا ہے) لہٰذا انسان جو کوئی بھی عمل انجام دیتا ہے، وہ خداوند ِعالم کے دقیق اور ٹھیک ٹھیک حساب میں ثبت اور درج ہوجاتا ہے اور تمام اچھے برے اعمال کے مقابل مناسب جزا یا سزا مقرر ہے۔

۱۵۶

جزا وسزاکا مسئلہ صرف آخرت سے مخصوص نہیں ہےبلکہ اس کا کچھ حصہ اسی دنیا میں بھی وجود رکھتا ہے اور انسان کے اعمال کی وجہ سے مختلف صورتوں میں انسان کو اسی دنیا میں نصیب ہوجاتا ہے۔(۱)

اس بارے میں روایات بھی بے حساب ہیں، مثال کے طور پر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:کُلٌّ امْرءٍ یُلْقیٰ مٰا عَمِلَ وَیُجْزیٰ بِمٰاصَنَعَ (ہر انسان اپنے عمل کا سامنا کرتا ہے، اور جو کچھ وہ انجام دیتا ہے، اسکی بنیاد پر اسے جزا وسزا دی جاتی ہے) نیز آپ ؑہی نے فرمایا ہے:کَما تدینُ تدان (جیسا کرو گے ویسا بھرو گےغرر الحکم ج۳ص۵۷۱)

لِکُلّ حسنةٍ ثوابٌ (ہر نیکی کا ثواب ہے)لِکُلّ سیّئةٍ عقاب (ہر بدی کا عقاب ہےغرر الحکم ج۳ص۵۷۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

اَما انّه لیسَ مِنْ عرْقٍ یضربُ، ولانکبةٍ، ولاصُداعٍ، ولا مرضٍ الاّبذنبٍ

جو بھی رگ (اور کوئی نبض) زخمی ہوتی ہے، پاؤں پتھر سے ٹکراتا ہے، دردِ سر اور مرض لاحق ہوتا ہے، اسکی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ انسان نے کوئی گناہ کیا ہوتا ہے۔(۲)

--------------

۱:- سورئہ نجم ۵۳ کی آیت ۳۱، سورئہ طہ ۲۰ کی آیت ۱۵ اس بارے میں واضح دلالت کرتی ہیں۔

۲:- اصول کافی ج۲ص ۲۶۹، اسی کتاب کے صفحہ ۲۶۸ سے ۲۷۶ تک ” باب الذنوب“ کے عنوان کے تحت تیس روایتیں نقل کی گئی ہیں، جو مکافات عمل کو بیان کرتی ہیں۔

۱۵۷

عبد الرحمن کا خصوصی ثواب

کیونکہ عباد الرحمٰن، خدا کے ممتاز اور خاص بندے، اپنی بارہ خصوصیات کی وجہ سے مومنین کی صف ِاوّل میںہوتے ہیں، لہٰذا خداوند ِعالم ان کی جزا اور ثواب کی مناسبت سے انہیں جنت کے بلند اور عالی ترین درجے میں جگہ دیتا ہےیہ وہ درجہ ہے جو اہم ترین امتیازات کا حامل ہے۔

پہلے خداوند ِعالم فرماتا ہے کہ: غرفہ بہشت ان کے اختیار میں ہوگاغرفہ کے معنی گھروں کا بلند ترین طبقہ ہے اور یہاں بے مثل اور انتہائی گراں قیمت محل کا کنایہ ہے، جو جنت کے دوسرے حصوں سے انتہائی بلند مقام کا حامل ہےجیساکہ مذکورہ آیت سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ یہ عظیم الشان محل تین انتہائی اہم خصوصیات رکھتا ہے۔

۱:- عباد الرحمٰن کا وہاں ہمیشہ خاص احترام کیا جائے گا، اور وہ خدا، فرشتوں اور اہلِ جنت کے تحیت وسلام سے بہرہ مند ہوں گےہمیشہ بلند مقامات انہیں سلامتی اور ہر قسم کی ظاہری وباطنی رفاہ وآسائش کے ساتھ پاک وپاکیزہ زندگی کی بشارت دیں گے۔

۲:- وہ ایک ایسے ٹھکانے میں ہوں گے جو انتہائی خوبصورت، ہرا بھرا، پاک وپاکیزہ اور ہر قسم کی تکالیف، مشکلات اور غموں سے دور ہوگا۔

۳:- یہ لوگ ہمیشہ وہاں رہیں گےوہاں فنا، موت اور نابودی کا سوال ہی نہ ہوگا اور انہیں اس عالی شان جگہ سے نکالے جانے کا کوئی دھڑکا اور اندیشہ نہیں ہوگا۔

۱۵۸

سچی بات ہے، اس سے بڑی نعمت کیا ہوگی کہ انسان ایک ایسے محل میں رہے جو ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور وہ اس محل میں زندگی کی تمام نعمتوں، خوبصورتیوں اور آسائشوں سے لطف اندوز ہو اور اسے وہاں فنا اور دوسری غم انگیز باتوں کی طرف سے کوئی تشویش نہ ہو۔

ان جزائوںمیںسب سے بڑی جزا، ان پر خدااور اسکے فرشتوںکا مسلسل تحیت و سلام ہےجس کی لذت ولطف قابلِ بیان اورقابلِ ادراک نہیں۔ امتیازی مقام کے حا مل اہلِ جنت پر خدا اور فرشتوں کے سلام کے بارے میں قرآن کی ایک اور آیت میںذکر ہواہے کہ:

سَلٰمٌ، قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ

ان کے حق میں ان کے مہربان پروردگارکا قول صرف سلامتی ہوگا۔ سورہ یٰسین۳۶۔ آیت۵۸

اسی طرح ایک اور مقام پر ہے کہ:

وَالْمَلٰىِٕكَةُ يَدْخُلُوْنَ عَلَيْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ

اور ملائکہ ہر دروازے سے ان کے پاس حا ضری دیں گےکہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو کہ تم نے صبر کیا ہے اور اب آخرت کا گھر تمہاری بہترین منزل ہے۔ سورہ رعد ۱۳آیت۲۳، ۲۴

۱۵۹

خلودوجاویدانگی کی اہمیت

معاد اور جنت و دوزخ کی گفتگو میں ایک مسئلہ خلود اور جاویدانگی کا مسئلہ ہےیعنی دوزخ کا عذاب ہمیشہ کے لیے اور نا قابلِ زوال ہےاسی طرح جیسے بہشت کی نعمتیں بھی دائمی اور ہمیشہ رہنے والی ہیں۔

قرآنِ کریم کی متعددآیات میں خلود کے مسئلے پربات ہوئی ہے، اور اس کی وضاحت اس قدر قطعی ہے کہ اسکی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔

خلود کے معنی ایسی بقا اور دوام ہے جس میں زوال اور نا بودی کی گنجائش نہ ہو۔ ــ ” لسانِ العرب“ نامی عربی لعنت میں ” خلد“ کے معنی ایسے ٹھکانے اور سرائے میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا بیان ہوئے ہیں جس سے انسان کو باہر نہیںنکالا جائے گا۔ مزید کہا گیا ہے کہ اسی بنا پر آخرت کو ” دارالخلد“ کہتےہیںکہ لوگ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہی معنی دوسری عربی لغتوں ” مقاییس اللغۃ“ اور ” صحاح اللغۃ“ میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔

اگرچہ بعض مفسرین نے خلود کے معنی کی تو جیہات کی ہیں، مثلاً اسے طولانی وغیرہ کہاہے اور اسکے بارے میں مختلف احتمالات کا اظہار کیا ہے لیکن قرآنی آیات کی وضاحت وصراحت کے سامنے یہ توجیہات واحتمالات قابلِ قبول نہیں، اور علمائے اسلام اور چوٹی کے مفسرین نے انہیں مسترد کیا ہے۔

خلود کے معنی جاویدانگی ہونے کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں اور دوسری تعبیریں بھی موجود ہیں، جواس قسم کی توجیہات واحتمالات کے قابل نہیں، اور جاویدانگی پرصراحت کی حامل ہیں، مثلاًایک مقام پر ہے:وَمَنْ يَّعْصِ اللهَ وَرَسُوْلَه فَاِنَّ لَه نَارَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا (اور جو اﷲاور رسول کی نافرمانی کرے گااسکے لیے جہنم ہے اور وہ ہمیشہ اسی میں رہنے والا ہے۔ سورئہ جن ۷۲۔ آیت۲۳)

۱۶۰