عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف0%

عباد الرحمٰن کے اوصاف مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 177

عباد الرحمٰن کے اوصاف

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمدمحمدی اشتہاردی
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: صفحے: 177
مشاہدے: 88370
ڈاؤنلوڈ: 5322

تبصرے:

عباد الرحمٰن کے اوصاف
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 177 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 88370 / ڈاؤنلوڈ: 5322
سائز سائز سائز
عباد الرحمٰن کے اوصاف

عباد الرحمٰن کے اوصاف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حقیقی اخلاص یہ ہے کہ عمل کے ارادے اور اس کی انجامدہی کا سبب صرف اور صرف اللہ رب العزت ہومرحوم فیض کاشانی کے بقول:اخلاص یہ ہے کہ انسان کی نیت ہر قسم کے شرک ِخفی اور شرک ِجلی سے پاک ہواس کے بعد سورہ نحل کی چھیاسٹھویں آیت کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ:خالص دودھ وہ ہوتا ہے جس میں نہ ہی خون کے ذرات ہوں اور نہ ہی شکم کے اندر کی کسی غلاظت وغیرہ کا کوئی اثر اس میں پایا جاتا ہو، بلکہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک و صاف ہوخالص نیت اور عمل بھی اسی طرح ہوتے ہیں، سوائے رضائے الٰہی کے کوئی اور محرک ان پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ (المحجتہ البیضا۔ ج ۸۔ ص۱۲۸)

قرآنِ کریم میں بارہا اخلاص، مخلصین، اورمخلّصین کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً ارشادِ باری ہے:

فَادْعُوا اللهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ

اللہ کو پکارو اور اپنے دین کو اس کے لیے خالص کروسورہ غافر ۴۰آیت ۱۴

ایک دوسرے مقام پرپیغمبر اسلام کو خطاب کیا گیا ہے کہ

قُلْ اِنِّىْ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ

کہہ دیجئے کہ میں اس بات پر مامور ہوں کہ خدا کی عبادت کروں، اس حال میں کہ اپنے دین کو اس کے لیے خالص کروںسورہ زمر۳۹۔ آیت ۱۱

قرآنِ مجید میں شیطان کی زبانی نقل ہوا ہے کہ وہ ضداور ہٹ دھرمی کے ساتھ خدا سے کہتا ہے کہ:

فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ

تیری عزت کی قسم، میں تمام انسانوں کو گمراہ کردوں گا علاوہ تیرے ان بندوں کے جنہوں نے خود کو خالص کرلیا ہوگا۔ سورہ ص ۳۸۔ آیت۸۲، ۸۳

۴۱

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

لاٰیَکُونُ الْعَبْدُ عَابِداً لِلهِ حَقَّ عِبَادتِهِ حَتّٰی یَنْقَطَعَ عَنِ الْخَلْقِ کُلَّهِ اِلَیْهِ، فِحینَئذٍ یَقُولُ هَذَا خَالِصٌ لیِ فیَتَقَبَّلَهُ بَکرَمِهِ

کوئی عبادت گزار خدا کاحقِ عبادت ادا نہیں کرسکتا علاو ہ اس کے جو مخلوقات (پر بھروسہ کرنے) سے منھ موڑ کر صرف اسی (خدا) کی طرف متوجہ ہوتا ہےاس موقع پر خدا وند ِعالم فرماتا ہے: یہ شخص میرے لیے خالص ہوا ہےپس وہ اپنے کرم سے اسےقبول کرتا ہےمستدرک الوسائل ج۱۔ ص ۱۰۱

مختصر یہ کہ خدا وند ِرحمٰن کے منتخب اور پسندیدہ بندوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خلوص اور معرفت کے ساتھ عبادت کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں اور ہمیشہ، شب و روز خالص نیت اور محکم ارادے کے ہمراہ خدا کے راستے پر قدم بڑھاتے ہیں اور بندگی کے اعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کرتے ہیں جو دوسرے تمام مقامات کی بنیاد کا پتھر ہے۔

انبیاء، ائمہ اور اولیائے الٰہی کی سب سے اوّلین خصوصیت یہ تھی کہ وہ خدا کے خالص اور مخلص بندے تھے اور اپنی اس صفت پر فخر کا اظہار کرتے اور اس میدان میں انتہائی سعی و کوشش میں مشغول رہتے تھےیہاں تک کہ مثلاً حضرت علی ؑاور امام سجاؑد کبھی ایک ایک رات میں ہزار ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے اور دوسری تمام عبادات کے دوران بھی اپنی انتہائی توانائیوں کے ساتھ کوشاں رہتے تھے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

اگر تم خدا کی عبادت کی مٹھاس اور لذت کو جان لواور اس کی برکات کو دیکھ لو، اور اس کے نور کے سائے سے بہرہ مند ہوتو ایک لمحے کے لیے بھی اس سے دور نہ ہوہر چند تم عبادت کی مشقت سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائوایسا شخص جو عبادت ِ الٰہی سے گریزاں ہے اس (صورتحال) کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ عصمت و توفیق کے ممتاز آثار و فوائد سے محروم ہے۔

(مصباح الشریعتہص ۵۵، بحارالانوار۔ ج ۷۰ص ۶۹)

۴۲

اسی بنا پر آپ اپنے محترم اجداد کی مانند، اور پیغمبر اسلامؐ اور حضرت علیؑ کی پیروی میں خدا کی عبادت، اس سے رازونیاز اور مناجات کے ہر موقع سے استفادہ کرتے تھے۔

حسنِ اختتام کے طور پر قارئین کی توجہ درج ذیل قصے کی جانب مبذول کراتے ہیں:

ابن ابی یعفور کہتے ہیں:میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیے ہوئے فرمارہے ہیں:رَبِّ لَاتَکِلْنی إِلیَ نَفْسِی طَرْفَةَ عَیْنٍ اَبَداً، لَااَقَلَّ مِنْ ذَالِکَ وَلَااَکْثَرَ (بارِ الٰہا ! مجھے کسی صورت پلک جھپکنے کے لیے بھی میرے اپنے حال پر نہ چھوڑدینا اور نہ ہی اس سے کم وقت کے لیے اور نہ اس سےزیادہ وقت کے لیے)

اس موقع پر میں نے دیکھا کہ آپؑ کی ریشِ مبارک کے دونوں اطراف سے آنسوئوں کے قطرے بہہ رہے ہیں۔

پھر آپؑ نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا:اے ابن ابی یعفور! خدا وند ِعالم نے پلک جھپکنے کے وقت سے بھی کم عرصے کے لیے (حضرت) یونس پیغمبر کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا اور ان کے لیے وہ ماجرا (ترکِ اولیٰ اور مچھلی کے شکم میں چلے جانا۔۔۔ ۔ )پیش آیا تھا۔

ابن ابی یعفور نے کہا: کیا حضرت یونس کا معاملہ (نعوذ باللہ) کفر کی حد تک پہنچ گیا تھا؟

امام نے فرمایا:نہیں لیکن اگر کوئی بغیر توبہ کیے اس حال میں مرجائے تو ایسا شخص ہلاکت کی موت مرا ہے(اصولِ کافی ج۲۔ ص۵۸۱)

۴۳

خوف وخشیت ِالٰہی

قرآنِ مجید میں خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی چوتھی خصوصیت کے بارے میں آیا ہے کہ:

وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا اِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا

اور یہ (لوگ) کہتے ہیں کہ پروردگار ہم سے عذاب ِجہنم کو پھیر دے کہ اسکا عذاب بہت سخت اور پائیدار ہےوہ بدترین منزل اور محلِ اقامت ہےسورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۵، ۶۶

خداوند ِعالم نے اس آیہ شریفہ میں اپنے خاص اور ممتاز بندوں کی چوتھی خصوصیت کی جانب اشارہ کیا ہے جو ” خوف وخشیت ِالٰہی“ کی صفت ہےیعنی یہ لوگ خدا کی نافرمانی کے بُرے انجام سے شدت کے ساتھ خوفزدہ رہتے ہیں اور اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کی نافرمانی کے معنی شیطان کے حکم کی تعمیل ہے اور یہ عمل عذاب ِالٰہی میں گرفتار ہونے اور دوزخ میں ڈالے جانے کا باعث ہوگا۔

یہ لوگ گناہ کے انجام اور دوزخ کے عذاب سے اس قدر خائف اور ہراساں رہتے ہیں کہ ان کی یہ باطنی کیفیت اپنا اظہار کرتی ہے اور وہ انتہائی عاجزی کے ساتھ درگاہِ الٰہی میں دست ِدعا بلند کرتے ہوئے التماس کرتے ہیں کہ: بار الٰہا! ہمیں مجرموں کے لیے تیار کیے گئےدوزخ کے سخت عذاب سے دوررکھنا۔

اس طرح یہ لوگ قدرتی طور پر عذاب ِالٰہی کی وجہ بننے والے عوامل سے پرہیز کرنے لگتے ہیں اور فرامینِ الٰہی کی تعمیل اور احکامِ الٰہی کی انجامدہی کے ذریعے خداوند ِعالم کی بے پایاں رحمت کو اپنی جانب جلب اور جذب کرتے ہیں۔

۴۴

ان لوگوں پر یہ حالت ہمیشہ طاری رہتی ہے، اور ایک لمحے کے لیے بھی خوف ِخداان سے دور نہیں ہوتایہ لوگ غرور و غفلت میں مست، مدہوش اور بے پروا زندگی بسرکرنے والے لوگوں کی طرح خدا کی اس وعید کو ہنسی مذاق نہیں سمجھتے۔

خوف کے معنی، باطنی ڈراور وحشت ہے۔ لہٰذا اسے ترک ِگناہ اور ہر قسم کے جرم سے دوری کے لیے ایک باطنی ہتھیار شمار کیا جاتا ہے۔ مثلاً قانون، عدالت، جرمانے، قید اور سزائوں کے خوف کی وجہ سے انسان جرائم کا مرتکب نہیں ہوتا اور یہ سوچ کرلا قانونیت سے گریز کرتا ہے کہ کہیں اسے سزاکا سامنا نہ کرنا پڑےلہٰذا خوف ِخداکے معنی اللہ رب العزت کی ذات ِپاک سے ڈر اور وحشت نہیں، بلکہ اسکے معنی اسکے قانون اور اس کی عدالت سے ڈرنا ہیں۔

خوف ِخدا پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان عدلِ الٰہی کے پیمانے پر اپنے اعمال کا وزن کرےلہٰذا خوف کے معنی ان سزائوں کو ناگوار سمجھنا ہے جو گناہ اور خدا کی نافرمانی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔

قرآنِ مجید انبیائے الٰہی کا تعارف بشیر ونذیر کی حیثیت سے کراتا ہےیعنی یہ ہستیاں انسانوں کو رحمت ِالٰہی، بہشت اور بے پایاں جزاو ثواب کی نوید بھی دیتی ہیں، او رانہیں خبردار کرتے ہوئے گناہ کے خطرناک انجام سے متنبہ بھی کرتی ہیں۔

انبیا کی یہ دو صفات، اس بات کی ترجمان ہیں کہ مومن کو چاہیے کہ وہ خوف اور امید کے بین بین زندگی بسر کرےخدا کی رحمت کی امید بھی رکھے اور اس سے خوف بھی کھائےیہی اعتدال کا راستہ ہےاگر کوئی ان میں سے کسی ایک کو اپنا لے اور دوسرے کو چھوڑ دے تو یہ اس کے لیے باعث ِخطر ہےکیونکہ اگر وہ صرف(رحمت ِالٰہی) کا امید وار رہا، تو دھوکے میں پڑجائے گا اور خدا کی رحمت واسعہ کی امید پر ہر گناہ میں ہاتھ رنگنے لگے گااس کے برخلاف اگر وہ صرف خوفزدہ رہا، تو یاس و ناامیدی میں مبتلا ہوجائے گا اور یہ حالت انسان کو افسردگی اور خستگی میں مبتلا کردے گی، اس کے اندر سے ولولہ، نشاط اور آگے بڑھنے کی امنگ ختم کرکے اسکی پیشرفت کو روک دے گی۔

۴۵

اسی بنیاد پر بہت سی روایات کے مطابق پیغمبر اسلام اور ائمہ اطہار نے فرمایا ہے کہ:مومن خوف اور رجا (امید) کے درمیان زندگی بسرکرتا ہے اور اس میں یہ دونوں خصوصیات مساوی طور پر پائی جاتی ہیںلہٰذا امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: میرے والد امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے تھے کہ:

اِنَّهُ لَیْسَ مِنْ عَبْدٍمُؤْمِنٍ اِلّا وَفِی قَلْبِهِ نُورٰانِ، نُورُخِیَفةٍ وَنُورُ رَجٰاءٍ، لَوْوُزِنَ هٰذٰالَمْ یَزِدْعَلٰی هٰذٰا، وَلَوْ وُزِنَ هٰذٰا لَمْ یَزِدْ عَلٰی هٰذٰا

کوئی شخص مومن نہیں، سوائے اس کے جس کے دل میں دو نور پائے جاتے ہوںنورِ خوف اور نورِ امیداگر اس میں ان دونوں کا باہم وزن کیا جائے تو دونوں کا وزن برابر ہو گااصول کافی  ج ۲۔ ص۷۱از محدث کلینی

یہ نکتہ قرآنِ کریم سے ماخوذ ہےسورہ زمر کی آٹھویں اور نویں آیت میں غیر مومن اور مومن انسان کا مواز نہ کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ پہلا گروہ (یعنی غیر مومن گروہ) بلا اور مصیبت کے موقع پر خوفزدہ ہوجاتا ہے اور نعمت و آسائش کے موقع پر مغرور اور خدا سے بے خبر، جبکہ دوسرا گروہ (مومنوں کا گروہ) ہمیشہ خائف اور امیدوار رہتا ہےیہ دونوں گروہ کسی صورت برابر نہیں ہوسکتےبلکہ پہلا گروہ گمراہ اور دوسرا گروہ راہِ راست پر گامزن ہےدوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو:

يَحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّه

عذاب ِآخرت سے ڈرتے ہیں اور رحمت ِپروردگار سے امید رکھتے ہیں۔ سورہ زمر۳۹۔ آیت ۹)

۴۶

قرآن کی نظر میں خوف اور اسکے مراتب

قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں خوف وخشیت ِالٰہی کی اہمیت او رمختلف ابعاد میں اسکے درجات کا تذکرہ ہوا ہےمثال کے طور پر سورہ سجدہ کی آیت سولہ میں، سچے اور حقیقی مومنین کی شان میں فرمایا گیا ہے:

تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا

ان کے پہلو بستر سے جدا رہتے ہیں اور( قیام کی حالت میں خدا کی طرف رخ کرکے) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں۔ سورہ سجدہ ۳۲آیت ۱۶

یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خوف اور امید، خدا کے ان مخلص بندوں کی شب بیداریوں اور ان کے خدا سے مضبوط تعلق کا سبب اور وجہ ہیں اور یہ لوگ خوف اور امید کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔

سورہ ناز عات کی آیات نمبر چالیس اور اکتالیس میں ہے کہ:

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّه وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَاْوٰى

اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے، تو جنت اس کا ٹھکانہ اور مرکز ہےسورہ نازعات ۷۹ آیت ۴۰، ۴۱

اس آیت کی بنیاد پر، خوفِ خدا ترک ِگناہ کا مقدمہ ہے اور اسکا نتیجہ خدا کا اجرِ عظیم یعنی جنت ہے۔

اسی بات کو سورئہ رحمٰن کی چھیالیسویں آیت میں یوں بیان کیا گیا ہے:

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّه جَنَّتٰنِ

اور جو شخص بھی اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرتا ہے، اسکے لیے جنت میں دو باغات ہیںسورئہ رحمٰن ۵۵آیت ۴۶

۴۷

جب ہم عظمت ِالٰہی کے سامنے خوف و ہراس سے متعلق آیات ِقرآنی کا مطالعہ کرتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ اس خصلت کے بارے میں ایسے مختلف الفاظ اور تعبیرات کے ذریعے گفتگو کی گئی ہے، جن میں سے ہر ایک مختلف انسانوں کے خوف و ہراس کے درجات اور مراتب کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

مرحوم شیخ صدوؒق نے کتاب ” خصال“ میں قرآنِ کریم کی روشنی میں خوف کو پانچ اقسام میں قرار دیا ہے اور ان میں سے ہر قسم کے لیے ایک آیت کا ذکر کیا ہےیہ پانچ اقسام درج ذیل ہیں: ۱خوف ۲خشیت۳وجل۴رہبت ۵ہیبتاسکے بعد ان کے بار ے میں ذرا تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

خوف، گناہگاروں کے لیے ہے۔

خشیت، علما کے لیے ہے۔

وجل(دل کا خوفزدہ ہونا)، انکساری کے ساتھ تسلیم ہونے والوں کے لیے ہے۔

رہبت، عابدوں کے لیے ہے اور ہیبت کا تعلق عارفوں سے ہے۔

پھر ان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:خوف، گناہوں کی وجہ سے ہےخشیت، وظائف و فرائض کی انجامدہی میں کوتاہی کے احساس کی وجہ سے طاری ہونے والا خوف و ہراس ہےوجل اور قلبی خوف و ہراس، خدمت ترک کرنے کی وجہ سے ہے رہبت، عبادت میں تقصیر اور کوتاہی کے احساس کی وجہ سے ہےاور ہیبت، اسرار کے انکشاف کے وقت شہودِ حق کی وجہ سے خدا کے لامتنا ہی شکوہ وعظمت سے خوف و ہراس کا نام ہے(خصال۔ ج۱۔ ص۲۸۳)

۴۸

خوف کے مراتب کے بارے میں ایک دوسرا موضوع یہ ہے کہ خوف شدت اور ضعف رکھتا ہےجوشخص خوف کے جس مرتبے کا حامل ہو۔ اسی کی مناسبت سے مقامات حاصل کرتا ہےوہ ہستیاں جو خدا سے سب سے زیادہ نزدیک ہیں، مثلاً انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی، ان میں خدا کا شدید ترین خوف پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ رات کے درمیانی حصے میں اپنی نمازوں اور مناجات کے دوران خوف ِخدا سے گریہ ونالہ وفغاں کرتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے بہنے والے شفاف آنسوئوں سے اپنی روح کو دھوتے ہیں، اور اپنے شوق و خوف کے آنسوئوں کے ذریعے اپنے پرزور احساسات کے ساتھ اپنی انتہائی تواضع اور کمالِ بندگی کا اظہار کرتے ہیں اس قسم کا گریہ وزاری اس قدر پسندیدہ اور قدر و قیمت کا حامل ہے کہ بقول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

مَنْ دَرَفَتْ عَیْنٰاهُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ، کٰانَ لَهُ بِکُلِّ قَطْرَةٍ مِنْ دُمُوعِهِ مِثْلَ جَبَلِ اُحُدٍیَکُون فِی مِیزانِهِ فِی الأَجْرِ

جس کی آنکھ خوف ِخدا سے بہنے والے آنسوئوں سے تر ہوجائے، اسکے آنسوئوں کا ہر قطرہ روزِ قیامت اس کے میزانِ عمل میں احد کے پہاڑ کی مانند وزن رکھے گابحارالانوار۔ ج ۹۳ص ۳۳۴

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

اَلْبُکٰاءُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ مِفْتٰاحُ رَحْمَةِ اللهِ

خوفِ خدا سے رونا، رحمت ِالٰہی کا دروازہ کھولنے کی کنجی ہے۔ غررالحکم

۴۹

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ اطہارؑ کے کلام میں خوف کی اہمیت

اس بات کے پیش نظر کہ عظمت ِالٰہی کے مقابل خوفزدہ ہونا تہذیب و تکامل کا ایک قوی عامل ہے اور اگر کسی میں یہ خصلت قوی اور راسخ ہوجائے تو وہ اس انسان کے راستے سے راہِ کمال کی ہر قسم کی رکاوٹوں کو دور کردیتی ہےپیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومین ؑکے کلام میں اس خصلت کو بہت زیادہ سراہا گیا ہے اور خوف ِخدا نہ رکھنے کی مذمت کی گئی ہےمحترم قارئین کی توجہ اس سلسلے میں رسولِ مقبول ؐاور ائمہ اطہارؑ کے چند اقوال کی جانب مبذول کراتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

اَعْلَی النّٰاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَاللهِ اخْوَفُهُمْ مِنْهُ

خدا کے نزدیک لوگوں میں اعلیٰ وارفع مقام کے حامل افراد وہ لوگ ہیں جو ان میں سے زیادہ خوف ِخدا رکھتے ہیں بحارالانوارج ۷۷۔ ص۱۸۰

امیر المومنین حضرت علی علیہ اسلام نے فرمایا:جب قیامت برپا ہوگی تو منادیٔ حق ندا دے گا کہ:

ایُّهَاالنّٰاسُ اِنَّ اَقْرَبَکُمُ الْیُوْمُ مِنَ اللهِ اَشَدُکُمْ مِنْهُ خَوْفاً

اے لوگو! آج بارگاہِ خدا میں تم سب سے مقرب ترین شخص وہ ہے جو دنیا میں دوسروں سے زیادہ خدا کی عظمت سے خوفزدہ تھابحارالانوارج ۷۸۔ ص۴۱

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

لٰایَکُونُ الْعُبُدُ مُؤْمِنًا حَتّیٰ یَکُونَ خٰائفاً رٰاجِیاً

کوئی بندہ خدا اس وقت تک ایمان کے درجہ کمال تک نہیں پہنچتا، جب تک اس میں خوف اور امید کی خصلتیں نہ پائی جاتی ہوں بحارالانوارج ۷۰۔ ص ۳۹۲

۵۰

البتہ یہ بات واضح ہے کہ سچا خوف وہ ہوتا ہے جو اطاعت اور ترک ِمعصیت کا موجب بنے اور اسکی علامات عمل سے ظاہر ہوں، جبکہ جھوٹا خوف کھوکھلا اور غیر موثر ہوتا ہے۔

اسی بنیاد پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ عَرَفَ اللهَ خَافَ اللهَ، وَمَنْ خٰافَ اللهَ سَخَتْ نَفْسُهُ عَنِ الدُّنْیٰا

جو شخص خدا کی معرفت رکھتا ہے، وہ اس سے خوف کھاتا ہے، اور جوشخص خوف ِ خدا رکھتا ہے، وہ دنیا کا شیفتہ نہیں ہوتااصول کافی ج ۲ص ۶۸

امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی کا کہنا ہے کہ میں نے امام سے عرض کیا: بعض لوگ گناہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم خدا کی رحمت سے (مغفرت کی) امید رکھتے ہیں ان کے ذہن میں ہمیشہ یہی خیال رہتا ہے، یہاں تک کہ موت ان کے سرپر آپہنچتی ہے (اور وہ اسی حالت میں مرجاتے ہیںکیا انہیں اُن کی اِس امید کا کوئی نتیجہ حاصل ہوگا؟ )

امام ؑنے فرمایا: اس قسم کے لوگ، ایسے افراد جو اپنی آرزئوں ہی میں مگن رہتے ہیں، یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیںیہ لوگ (دراصل) امید وار نہیں ہوتےجوشخص کسی چیز کی امید رکھتا ہے؟ اس کا طلبگار ہوتا ہے، اور جو شخص کسی چیز سے ڈرتا ہے، اس سے گریز کرتا ہے (اس خصلت سے عاری یہ لوگ درحقیقت خدا سے روگرداں ہیں اور عذاب کے موجبات، جوگناہ ہیں، کی طرف رخ کیے ہوئے ہیں)(اصولِ کافی  ج۲۔ ص۶۸)

امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:

لاٰخَوْفَ کَخَوْفِ حٰاجِزٍ، وَلاٰ رَجٰاءَ کَرَجٰاء مُعِینٍ

کوئی خوف، اس خوف کی مانند گراں قیمت نہیں جو گناہ سے باز رکھتا ہےاور کوئی امید اس امید سےگراں قدر نہیں جو (توبہ اور عواملِ نجات کے سلسلے میں) مدد گار ہوتی ہےبحارالانوارج ۷۰۔ ص۱۶۴

۵۱

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

اَلْعَجَبْ مِمَّنْ یَخَافُ الْعِقٰابَ فَلَمْ یَکِفَّ، وَرَجَا الثَّوابَ فَلَمْ یَتُبْ

باعث ِتعجب ہے وہ شخص جو عذاب ِالٰہی سے ڈرتا ہے لیکن اپنے آپ کو گناہوں سے باز نہیں رکھتا اور ثواب وپاداشِ الٰہی کی امید رکھتا ہے لیکن توبہ نہیں کرتابحارالانوارج ۷۷۔ ص ۲۳۷

امام حسین علیہ السلام ” دعائے عرفہ“ میں ایک مقام پر خدا سے عرض کرتے ہیںکہ:

اَللَّهُمَّ اجْعَلْنی اَخْشاکَ کَاَنِّی اَرَاکَ

بارِالٰہا! مجھے اپنی بارگاہ میں ایسا خائف بنادے کہ گویا میںتجھے دیکھ رہا ہوں۔

تجزیہ وتحلیل اور جمع بندی

مذکورہ بالا گفتگو سے استفادہ ہوتا ہے کہ خوف کی خصلت، خداوند ِعالم کے ممتاز اور خاص بندوں کی خصوصیت اور ایک اعلیٰ اور تعمیری انسانی فضیلت ہےخوف صرف زبان اور حالت کے ذریعے اظہار کا نام نہیں بلکہ کامل خوف وہ ہے جس کے آثار عمل میں دکھائی دیں اور جو گناہوں سے دوری کا قومی عامل بنے۔

خوف کے اعلی مراحل وہ ہیں کہ انسان رات کی تنہائی میں خدا کے ساتھ راز و نیاز اور اس سے مناجات کے دوران گریہ وزاری کرے اور انتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ اپنا دل خدا سے وابستہ رکھے اور اپنے آپ کو خدا کی عظمت کے سامنے ایک ناچیز ذرّہ سمجھے۔

۵۲

مومن، خائف بھی ہوتا ہے اور امیدوار بھی، وہ اپنے اندر یہ دونوں خصلتیں مساوی طور پر پروان چڑھاتا ہے اور ان دوپروں کے ذریعے دنیائے سماوی کی بلندیوں میںپرواز کرتا ہے اور ان دوانوار کے ذریعے اپنے قلب کو پرنور اور روح کو پاکیزگی اور صفا سے سرشار کرتاہے۔

خوف ورجا کا مسئلہ، تربیتی مسائل میں تعلیم کے بنیادی ارکان و اصول میں سے ہےاسی بناپر انبیا علیہم السلام نذیر بھی تھے اور بشیر بھیمثال کے طور پر اگر جماعت کا استاد اپنے طالب علموں سے کہے کہ اس سال تمام طلبا پاس ہوجائیں گے، اس طرح انہیں صرف امید دے، خوف نہ دے، تو طلبا مطمئن ہوکے، دھوکے میں آکے تصور کرنے لگیں گے کہ وہ سب پاس ہوجائیں گے اور اس طرح پڑھائی لکھائی سے غفلت اور سستی برتنے لگیں گےاس کے برعکس اگر استاد کہے کہ اس سال تم سب فیل ہوجائوگے، تو ان الفاظ سے استاد اپنے تمام طالب علموں کو مایوس اور ناامید کردے گا، اور ان میں پڑھنے کی امنگ اور جوش وخروش کو ٹھنڈا کردے گااور اس کا نتیجہ بھی وہی نکلے گا کہ طالب علموں کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوجائے گا اور ان میں پڑھنے کی تمنا اور جوش وخروش ختم ہوجائے گا۔

سمجھدار اور لائق معلم وہ ہے جو نذیر (خوف دلانے والا) بھی ہو اور بشیر (خوش خبری اور امید دلانے والا) بھی، جو امید بھی دلائے اور خوف بھی اور اپنے طالب علموں کو ان دو خصلتوں کے درمیان رکھےکیونکہ یہ اعتدال اور دونوں خصائل کی آمیزش شوق ورغبت، حرکت و عمل اور نورانیت و پاکیزگی کا موجب ہے۔

۵۳

خوف و رجا کے درمیان اعتدال کا مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ اسلامی روایات میں ناامیدی (جو رجا کی ضد ہے) اور عذاب ِالٰہی سے امان و حفاظت (جوخوف کی ضد ہے) کودو گناہان کبیرہ شمار کیا گیا ہےیہاں تک کہ صحیح روایت میں نقل ہوا ہے کہ: عمروبن عبید امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: مجھے ان گناہانِ کبیرہ سے آگاہ فرمائیے جن کا قرآنِ کریم میں ذکر ہوا ہےامام جعفر صادق علیہ السلام نے انہیں انیس گناہ گنوائےاور ان میں سے ہر گناہ کے بارے میں ایک آیت ِقرآن بطور دلیل پیش کیامام ؑنے انیس گناہوں میں عذاب ِالٰہی سے محفوظ ہونے اور ناامیدی کو بھی شمار کیا اور فرمایا:خدا کے ساتھ شرک کے بعد (دوسرے نمبر کا گناہِ کبیرہ) رحمت ِالٰہی سے یاس و ناامیدی ہےجیسا کہ خدا وند ِعالم کا ارشاد ہے:

اِنَّه لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ

کفار کے سوا کوئی رحمت ِخدا سے ناامید نہیں ہوتاسورہ یوسف۱۲۔ آیت ۸۷

پھر امام ؑنے فرمایا: اس کے بعد (یعنی تیسرے نمبر کا گناہ ِکبیرہ) خدا کے مکرو عذاب سے تحفظ کا احساس (یعنی خدا سے خوف نہ کھانا) ہےجیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے:اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللهِ۰ فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ (کیا یہ لوگ خدائی تدبیر کی طرف سے مطمئن ہوگئے ہیں، جب کہ ایسا اطمینان صرف گھاٹے میں رہنے والوں کو ہوتا ہےسورہ اعراف ۷۔ آیت ۹۹)(اصولِ کافی ۔ ج ۲۔ ص ۲۸۵)

۵۴

اس گفتگو کو ہم اس معروف قصے پر ختم کرتے ہیں جو قیامت کے وحشتناک حوادث سے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے خوف کی نشاندہی کرتا ہے:امام حسن علیہ السلام اپنی حیات کے آخری لمحات میں خوف ِخدا سے گریہ کررہے تھےوہاں موجود لوگوں میں سے ایک نے سوال کیا: اے فرزند ِرسول! آپؑ جو بارگاہ الٰہی میں انتہائی بلند درجے اور مقام کی حامل ہیں، آپؑ جن کے بارے میں پیغمبر اسلام ؐنے بکثرت فرمایا ہےآپؑ جو بیس مرتبہ پیدل حج کے لیے مکہ تشریف لے گئے ہیں، تین مرتبہ آپؑ نے اپنا تمام مال و دولت راہِ خدا میں ضرورت مندوں کو بخشا ہے(لہٰذا موت کا یہ سفرتو آپؑ کے لیے مبارک و مسعود سفر ہے) اسکے باوجود آپؑ کیوں گریہ فرمارہے ہیں؟

امام حسن علیہ السلام نے جواب دیا:اِنَّما اَبْکِی لِخِصْلَتَیْنِ لَهِوْلِ الْمُطَّلَعِ وَفِراقِ الاَحِبَّهِ (جان لو کہ میں دو وجوہات کی بنا پر رورہا ہوں، ایک روزِ قیامت کی وحشت کی وجہ سے، کہ اس روز ہر کوئی حالات سے آگاہی اور نجات کی کوئی راہ تلاش کرنے کی غرض سے اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ کررہا ہوگا اور دوسری وجہ دوستوں کی جدائی ہے(امالی ٔشیخ صدوقمجلس ۳۹حدیث ۹)

۵۵

انفاق اور خرچ میں اعتدال

قرآنِ کریم خداوند ِرحمان کے خاص اور ممتاز بندوں کی پانچویں خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے:

وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا

یہ لوگ وہ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف (فضول خرچی) کرتے ہیں اور نہ بخل (کنجوسی) سے کام لیتے ہیں، بلکہ ان دونوں کے درمیان، اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اپناتے ہیںسورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۷

اس آیت میں زندگی کے ایک اہم ترین مسئلے کا ذکر کیا گیا ہے، جسے ملحوظ او رپیش نظر رکھنا فرد اور معاشرے کی آسائش، فلاح اور اطمینان کا باعث ہے اور بہت سی سماجی اور اقتصادی مشکلات کے حل اور خرابیوں کی اصلاح کا ذریعہ ہےیہ اہم ترین مسئلہ خرچ میں اعتدال اور میانہ روی ہے۔

اعتدال، یعنی میانہ روی، یعنی حد سے زیادہ بڑھنے اور حد سے کم ہونے کی درمیانی لکیراسلام تمام امورومعاملات میں اس طرزِ عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اسلام کی پیروی کی وجہ سے مسلمانوں کو امت ِوسط، یعنی معتدل امت کہا گیا ہےارشادِ قدرت ہے:وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا (اور اس طرح ہم نے تمہیں امت ِوسطہ قرار دیا ہےسورئہ بقرہ ۲۔ آیت ۱۴۳)

حضرت علی علیہ السلام نے ان لوگوں کو جاہل قرار دیا ہے جو اعتدال سے نکل کر افراط یا تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں آپ ؑفرماتے ہیں:لَاتَرَی الجاهلَ اِلَّا مُفرطاً اُو مفرّ طا (جاہل کوہمیشہ افراط یا تفریط کا شکار دیکھو گےنہج البلاغہ۔ کلمات قصار۷۰)

۵۶

زیر ِبحث آیت جو (سورئہ فرقان میں بیان ہونے والی) خداوند ِعالم کے ممتاز اور خاص بندوں کی پانچویں خصوصیت کے بیان پرمشتمل ہے، اس میںاعتدال کے ایک اہم ترین شعبے پر گفتگو کی گئی ہے، جس کا تعلق اقتصادی امور اور اجتماعی و سماجی زندگی سے ہے اور جو زندگی کی اصلاح و بہتری اور خوشگوار اجتماعی اور عائلی حیات کے سلسلے میں اہم کردار کی حامل ہے اور وہ خصوصیت ” خرچ میں میانہ روی“ کی خصوصیت ہےیعنی مردِ مسلمان کو چاہیے کہ خرچ کرتے ہوئے نہ اسراف اور فضول خرچی کرے، اور نہ کنجوسی اور بخل سے کام لے، بلکہ ان دونوں کی درمیانی راہ اپنائے۔

اسلام میں فضول خرچی کی مذمت

کسی بھی عمل میں حد ِاعتدال سے کسی بھی قسم کی افراط، تجاوز اور زیادتی اسراف کہلاتی ہےمثلاً ایک وقت کے کھانے کے لیے چھ سوگرام غذا کافی  ہےاب اگر کوئی اپنے لیے ایک کلو گرام غذا بنائے، اس میں سے آٹھ سو گرام کھائے، اور باقی بچ جانے والی دو سو گرام غذا کو پھینک دے، تو اس نے ایک وقت کے کھانے میں دو طرح کا اسراف اور فضول خرچی کی ہےایک یہ کہ اس نے دو سوگرام غذا زیادہ کھائی ہے اور دوسرے یہ کہ آٹھ سو گرام سے زیادہ جو دو سو گرام غذا تیار کی تھی، اسے کوڑے دان میں پھینک دیا ہےاس طرح اس نے ایک وقت کے کھانے میں چار سو گرام غذا فضول خرچ کی ہے۔

اس مثال کو سامنے رکھ کر اور اس کی روشنی میں زندگی کے دوسرے مختلف پہلوئوں اور شعبوں کا جائزہ لے کر ہم بآسانی جان سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مختلف صورتوں میں کس قدر اسراف اور فضول خرچی ہوتی ہے۔

۵۷

اسراف کی مختلف شکلیں ہیں، اس کی ایک شکل جس سے زیر ِبحث آیت میں روکا گیا ہے، خرچ میں اسراف ہےجیسے کھانے پینے میں اسراف، کھانے کو پھینک کر ضائع کرنے میں اسراف، فضول تکلفات اور بے جاتزین وآرائش وغیرہ میں اسرافحتیٰ اگر عبادات کے دوران بھی افراط ہونے لگےمثلاً کوئی وضو اور غسل میں عقلی اور فطری حد سے زیادہ پانی خرچ کرے، تو یہ بھی اسراف ہےاسی بنیاد پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاتھا: فی الوضوء اسرافٌ وفی کلِّ شی ءاسرافٌ (وضو اور ہر چیز میں اسراف ہوسکتا ہےکنزالعمال حدیث ۲۶۲۴۸)

عباسی، نامی ایک شخص امام رضا علیہ السلام کی خدمت میںحاضر ہوا اور گھر میں بیوی بچوں کی ضروریات اور دوسرے امور کے بارے میں اخراجات کے سلسلے میں امام سے رہنمائی طلب کیامام رضا علیہ اسلام نے اس سے فرمایا: تمہارے خرچ کو دو ناپسندیدہ کاموں (فضول خرچی اور کنجوسی) کے درمیان ہوناچاہیے۔

عباسی نے پوچھا:اِس سے آپ ؑکی کیا مراد ہے؟

فرمایا: کیا تم نے قرآنِ کریم میںخدا وند ِعالم کا وہ کلام نہیں پڑھا، جس میںاس نے فضول خرچی اور کنجوسی دونوں کو ناپسند قرار دیا ہے اور (خدا کے ممتاز بندوں کے اوصاف میں) فرمایا ہے کہ:وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا (اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں، تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں، بلکہ ان دونوں کا درمیانی راستہ اپناتے ہیںسورئہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۷) لہٰذا اپنے افرادِ خانہ کے اخراجات اور ان کی ضروریات ِ زندگی کی خریداری اور ان چیزوں کو خرچ کرنے میں اعتدال سے کام لو(سفینتہ البحار از محدث قمیج ۱ص ۶۱۵ اور بحار الانوار از علامہ مجلسی ج ۷۱ص ۳۴۷)

۵۸

ایک دوسری روایت کے مطابق، ایک روز امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے شاگردوں کے سامنے اسی (مذکورہ بالا) آیت کی تلاوت فرمائی اور پھر زمین سے مٹھی بھر سنگریزے اٹھا کے انہیں سختی کے ساتھ ہاتھ میں بھینچا اور فرمایا: یہ بخل اور سخت گیری ہے (جس کی آیت میں ممانعت کی گئی ہے)پھر آپ نے سنگریزوں کی ایک اور مٹھی اٹھائی اور اس طرح اپنے ہاتھ کو کھولا کہ وہ سب سنگریزے زمین پر گرگئے، اور فرمایا:یہ اسراف ہےپھر تیسری مرتبہ مٹھی بھر سنگریزے اٹھائے اور اپنا ہاتھ تھوڑا سا کھولا، اتنا کہ کچھ سنگریزے گرگئے، اور کچھ آپ کے ہاتھ ہی میں رہے، اور فرمایا:یہ اسراف اور کنجوسی کے درمیان پایا جانے والا اعتدال ہے(تفسیر نورالثقلین ۔ ج۴ص ۲۹ از محدث خبیر عبدعلی بن جمعہ حویزی)

قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں اسراف اور فضول خرچی کی ممانعت کی گئی ہےمثال کے طور پر چند آیات ملا حظہ فرمایئے:

وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا

کھائو اور پیو مگر فضول خرچی نہ کرو (سورہ اعراف۷آیت ۳۱)

وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّه لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ

فضول خرچی نہ کرنا، کہ خدا فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

(سورہ انعام۶آیت ۱۴۱)

وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا

اور نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ کر رکھو اور نہ بالکل کھلا چھوڑ دو کہ آخر میں خالی ہاتھ اور قابل ِ ملامت ہوجائو(سورئہ بنی اسرائیل ۱۷۔ آیت ۲۹)

۵۹

اسی آیت اور حکمِ الٰہی کو سامنے رکھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

ما مِنْ نَفَقَةٍ احبَّ اِلَی الله مِنْ نفقةِ قَصْدٍ ویبْغُضُ الاسراف

خدا کے نزدیک کوئی بھی انفاق (خرچ)، اعتدال پر مبنی انفاق سے بڑھ کر پسندیدہ نہیںخدا انفاق میں اسراف کو پسند نہیں کرتاقصار الجمل ازآیت اللہ علی مشکینی۔ ص ۳۰۵

یہی وجہ تھی کہ رسولِ مقبول، امیر المومنین اور تمام ائمہ اطہار انتہائی سادہ زندگی بسرکرتے تھے اور ہر قسم کی شان وشوکت کے اظہار اور بے جا تکلفات سے سختی کے ساتھ گریزاں رہتے تھے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اہل کاروں کے نام ایک خط میں لکھا کہ:

آدِقّوا ا قلٰامَکُمْ، وقارِ بُو بَیْنَ سُطُورکُمْ، واَحذِ فُو عَنْ فُضُو لِکُمْ، وَاقُصُدُ والمعانیَ، وایَاکُمْ والا کْثٰارَ، فَاِنَّ اموالَ الْمُسْلِمینَ لاتَحْتَمِلْ الضَّرَر

اپنے قلموں کی نوک کو باریک تراشو، سطروں کے درمیان فاصلہ کم رکھو، زیادہ الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرو، معانی کے بیان کو مطمع نظر قرار دو، فضول اور زیادہ باتوں سے دور رہو، تاکہ مسلمانوں کے مال کو نقصان نہ پہنچےبحارالانوار ازعلامہ مجلسیج ۴۱۔ ص ۱۰۵

نیز آپؑ ہی نے فرمایا ہے:

یاد رکھو کہ مال کا ناحق عطا کردینا بھی اسراف اور فضول خرچی میں شمار ہوتا ہےاگر یہ عمل انسان کی دنیا میں بلندی کا باعث بنے بھی، تو آخرت میں اسے پست کردیتا ہے، اور اگر لوگوں کی نظر میں قابلِ احترام بنابھی دے، تو خدا کی نگاہ میں ذلیل کردیتا ہےجب کوئی شخص مال کو ناحق یا نااہل پر خرچ کرتا ہے تو پروردگار اسے اسکے شکرانے سے بھی محروم کردیتا ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۲۴)

۶۰