• ابتداء
  • پچھلا
  • 77 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27958 / ڈاؤنلوڈ: 4745
سائز سائز سائز
توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

تالیف: استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

ترجمہ: سجاد حسین مہدوی

۱

عرضِ ناشر

خدا کی معرفت اور اُس کی عبادت قربِ الٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ ہےلیکن اکثر اوقات انسان کی بے توجہی اور غفلت اُسے اپنے اِس مقصد سے گمراہ کردیتی ہے اور وہ خدا کی بندگی کی راہ چھوڑ بیٹھتا ہے، گمراہ ہوجاتا ہے

انسان کو اس گمراہی سے راہِ راست پر لانے اور اس غفلت سے اسے ہوشیار کرنے کی غرض سے خداوند عالم نے انسان کے اندر اور اس کے باہر سے اہتمام کیا ہے

باہر سے انبیا اور اولیائے الٰہی انسان کی رہنمائی کرتے اور اسے متنبہ کرتے ہیں جبکہ اندرسے اُس کاضمیر اسے بیدار کرتا ہے، اس میں پچھتاواپیدا کرتا ہے اوریوں راہِ راست سے بھٹکا ہوا، خدا کی مخالف سمت چلتا ہوا یہ انسان اپنی سمت بدل کر راہِ راست، صراطِ مستقیم اور خدا کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے

دراصل یہی متنبہ ہونا، نادم ہونا، پشیمان ہوکرتبدیل ہونے پر تیار ہونااور اپنا رُخ بدل لینا توبہ ہے

زیر نظر تحریر ”توبہ“ کے موضوع پر استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ کی دو تقاریر کا مجموعہ ہے، جو انہوں نے ۲۵اور ۲۶رمضان ۱۳۹۰ھ کو حسینیہ ارشاد تہران، ایران میں کی تھیں آج قریب ۳۶، ۳۷ برس گزر جانے کے باوجود ان تقاریر کی تازگی اسی طرح محفوظ ہے، آج بھی استاد مطہریؒ کا ایک ایک لفظ دل کوچھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور اُن کے لہجے کا اخلاص اُن کے بیان کردہ مفاہیم کو دل میں اتاردیتا ہے

ان تقاریر میں استاد مطہری ؒکی طرف سے توبہ کے مفہوم کی وضاحت اور اِن کے دل نشین ہونے کی صلاحیت ہی اس بات کا باعث بنی کہ دارالثقلین نے انہیں  اردو زبان میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا

۲

تقریر کو تحریر کی صورت میں لانا ایک دشوار کام ہے، بالخصوص دوسری زبان میں کی گئی تقریر کے ترجمے کو تحریری صورت دیناتواور دشوار ہوجاتا ہےبہر صورت بہتر سے بہتر ترجمے کے بعدبھی سرخیاں، بریکٹ، اور بعض الفاظ کے معنی حاشیے میں لکھ کرہم نے کوشش کی ہے کہ مقرر کی پوری پوری بات پڑھنے والوں تک پہنچ سکےاس سلسلے میں ہم کتنے کامیاب رہے ہیں  اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں

قارئین کے مشوروں، تجاویز اور تنقیدکی صورت میں ہماری رہنمائی ہمیں اپنے کام کو بہتر سے بہتر کرنے میں مدد دیتی ہےلہٰذا ہم ہمیشہ اس کے منتظر رہتے ہیں

والسلام

۳

پہلا خطاب

بِسْم ِاللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

”اَلْحَمْدُ للّٰه رَبِّ الْعٰالَمِینَ بٰارِیءِ الْخَلٰاءِ قِ اَجْمَعینَ وَ الصَّلٰوةُ وَالسَّلاٰمُ عَلٰی عَبْدِ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَحَبیبِهِ وَصَفِیِّهِ، وَحَافِظِ سِرِّهِ وَ مُبَلِّغِ رِسَالاٰتِهِ سَیِّدِنٰا وَنَبِیِّنٰاوَمَوْلاٰنٰااَبِی الْقَاسِمِ مُحَمَّد وَ عَلٰی آلِهِ الطَّیِّبینَ الطَّاهِریِنَ الْمَعْصُومیِنَاَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطانِ الرَّجیمِ “

”وَذَاالنُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَعَلَیْهِ فَنَادآٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاآا اِٰلهَ اِلَّاآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَاِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَه وَ نَجَّیْنهُاٰا مِنَ الْغَمِّ وَ کَذٰلِکَ نَُنْجِی الْمُؤْ مِنِیْنَ “

(سورہ انبیا ۲۱آیت۸۷۸۸)

ہم عبادت اور دعا کے بارے میں گفتگو کررہے تھے(1) گزشتہ دو راتوں میں ہم نے عرض کیا تھا کہ اگرعبادت اور عبودیت صحیح شکل و صورت کے ساتھ انجام دی جائے، تولامحالہ اور لازماً انسان کے ذاتِ اقدسِ الٰہی سے حقیقی تقرب کاسبب ہوگیانسان عبودیت کے ذریعے خدا سے نزدیک ہوجاتا ہے اور اس (نزدیکی) میں مجاز کا شائبہ بھی نہیں  ہےبالفا ظِ دیگر عبودیت ”سلوک“ ہے، حرکت ہے، پروردگار کی سمت گامزن ہونا ہے

--------------

1:- اس گفتگو کا اردو ترجمہ دارالثقلین ”عبادت اور نماز“کے نام سے شائع کر چکا ہے

۴

آج کی رات ہم ”سلوک“ کے سب سے پہلے مرحلے کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں  اگر انسان، اپنے پروردگار کی طرف سلوک (سفر) کرنا چاہتا ہے اور مقامِ قربِ خداوندی تک پہنچنے کا خواہشمند ہے، تو اسے اس منزل، اس مرحلے اور اس نقطے سے آغاز کرنا چاہئےاور جس چیز کی ہمیں ضرورت ہے، وہ یہی ہےیعنی ہم لوگ، جنہوں نے اس طرف ایک قدم بھی نہیں  بڑھایا، ہمارے لئے سالکین کی اعلیٰ منازل کے بارے میں گفتگو بے سود ہےاگر ہم مردِ عمل بننا چاہتے ہیں ، تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ قربِ الٰہی اور پروردگار کی جانب سلوک کی پہلی منزل کیا ہے؟ اس کا پہلا مرحلہ کیا ہے؟ اور ہم کہاں سے اپنی عبودیت اور عبادت کا آغاز کریں؟

خدا کی جانب سلوک کی سب سے پہلی منزل ”توبہ“ ہےآج کی رات ہم توبہ کے بارے میں گفتگو کا آغازکرنا چاہتے ہیں

۵

توبہ کیا ہے؟

توبہ کے کیامعنی ہیں ؟ نفسیاتی اعتبار سے انسان کے لئے توبہ کی حقیقت کیا ہے اور معنوی لحاظ سے یہ انسان پر کیا اثرمرتب کرتی ہے؟ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے خیال میں توبہ ایک بہت ہی سادہ سی چیز ہےہم کبھی یہ نہیں  سوچتے کہ آؤ چلیں نفسیاتی لحاظ سے توبہ کاتجزیہ کریں

بنیادی طورپر توبہ حیوانات کے مقابل انسان کا ایک امتیاز ہےیعنی انسان میں متعدد اعلیٰ امتیازات، خصوصیات، کمالات اور صلاحیتیں ایسی پائی جاتی ہیں  جن میں سے کوئی ایک بھی حیوانات میں موجودنہیں انہی اعلیٰ صلاحیتوں میں سے ایک یہی ”توبہ“ ہے

توبہ کے وہ معنی و مفہوم جس کی انشااﷲ ہم آپ کے سامنے وضاحت کریں گے، اُس میں توبہ یہ نہیں  ہے کہ ہم محض زبان سےاَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه بول دیںبات صرف زبان سے الفاظ کی ادائیگی کی نہیں  ہےتوبہ ایک نفسیاتی اور روحانی حالت، بلکہ انسان کے اندر ایک روحانی انقلاب ہے، اوراَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه اس حالت کا اظہار ہے، خود وہ حالت نہیں  ہے، خود توبہ نہیں  ہےاُن بہت سی چیزوں کی مانند جن میں لفظ خود اُس چیز کی حقیقت نہیں  ہوتا بلکہ اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے

یہ جو ہم دن میں کئی مرتبہاَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه بولتے ہیں ، اِس سے ہمیں یہ نہیں  سمجھ لینا چاہئے کہ ہم دن میں کئی مرتبہ توبہ کرتے ہیں ہم اگر روزانہ ایک مرتبہ بھی سچی توبہ کرلیں، تو یقیناً قربِ الٰہی کے مراحل اور منزلیں حاصل کرلیں

۶

توبہ، یعنی راہ بدلنا

تمہید کے طور پر کچھ عرائض پیش خدمت ہیں ، توجہ فرمایئے:

جمادات، نباتات اور حیوانات کے درمیان ایک فرق پایا جاتا ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ جمادات میں خود اپنا راستہ بدلنے کی صلاحیت نہیں  پائی جاتی، وہ از خوداپنارخ بدلنے پر قادر نہیں  ہیں جیسے زمین کی سورج کے گرد، یاخود اپنے محور پر گردش، یا وہ حرکتیں جو تمام ستارے اپنے مدار میں کرتے ہیں ، یا اُس پتھر کی حرکت جو اوپر سے چھوڑنے پرزمین کی طرف آتا ہےیہ بات مسلَّم اور قطعی ہےیعنی وہ پتھرجسے آپ چھوڑتے ہیں  اور وہ ایک معین راستے پر چلتا ہے، اسی راستے پر اور اسی رُخ پر رواں دواں رہتاہےخود اس پتھر کے لئے اپنے راستے کی تبدیلی اور رُخ کا بدلناممکن نہیں  ہےاس پتھر اور اس جماد کا راستہ بدلنے کے لئے باہر سے کسی عامل کا اس پر اثر انداز ہونا ضروری ہےاب خواہ یہ عامل کوئی مجسم شے ہو یا ہوا کے ایک جھونکے کی مانند کوئی چیز ہومثلاً جن ”اپالوز“ یا ”لونا“ کوفضا میں بھیجا جاتا ہے وہ از خود کبھی اپنا راستہ تبدیل نہیں  کرتے، ماسوا یہ کہ راستے کی تبدیلی کے لئے باہر سے اُنہیں  ہدایت دی جائےلیکن نباتات اور حیوانات جیسے زندہ موجودات میں خود اپنے آپ اپنا راستہ تبدیل کر لینے کی استعداد پائی جاتی ہےیعنی اگر وہ ایسے حالات کاسامنا کریں جو ان کی زندگی کی بقا کے لئے سازگارنہ ہوں، تو وہ اپنا راستہ بدل لیتے ہیں  یہ چیز حیوانات میں تو بہت ہی واضح ہےمثلاً ایک بھیڑ، ایک کبوتریا حتیٰ ایک مکھی بھی جب چلتی ہے، تو جوں ہی کسی مشکل کو سامنے پاتی ہے، فوراً اپنا راستہ بدل لیتی ہے

۷

حتیٰ ممکن ہے وہ ایک سو اسی درجے گھوم جائےیعنی اپنی پہلی سمت سے یکسر مخالف سمت میں حرکت شروع کردےحتیٰ نباتات بھی ایسے ہی ہیں  یعنی نباتات بھی خاص حالات اور معینہ حدود میں اپنے اندر سے اپنی ہدایت کرتے ہیں ، اپنا راستہ تبدیل کرتے ہیں  ایک درخت کی جڑیں جو زیرِ زمین حرکت کرتی ہیں  اور ایک سمت کو چل رہی ہوتی ہیں ، اگر کسی چٹان کا سامنا کریں، اب چاہے اُس تک پہنچی ہوں یا نہ پہنچی ہوں، ازخود اپنا راستہ بدل لیتی ہیں جیسے ہی انہیں  معلوم ہوتا ہے کہ وہ جانے کی جگہ نہیں  ہے، وہاں کوئی گزرگاہ اور راستہ نہیں  ہے، تو فوراً اپنا راستہ تبدیل کرلیتی ہیں

واضح ہے کہ انسان بھی اس حد تک نباتات اور حیوانات کی مانند ہے، یعنی اپنا راستہ تبدیل کرلیتا ہے

توبہ سے مراد انسان کا راہ بدل لینا ہےالبتہ سادہ سا راہ بدل لینا نہیں ، جیسے ایک پودا اپنا راستہ بدلتا ہے، یا جس طرح حیوان اپنا راستہ بدل لیتا ہےبلکہ اس انداز سے راہ بدلنا مراد ہے جو انسان کا خاصّہ ہےاوریہ نفسیاتی اور روحانی نکتہ نظر سے قابلِ تجزیہ و تحلیل اور تحقیق کے لائق ہے

۸

توبہ انسان کا امتیاز ہے

”توبہ“ ایک قسم کا باطنی انقلاب ہے، ایک قسم کا قیام ہے، انسان کاخود اپنے خلاف ایک قسم کا انقلاب ہےاس لحاظ سے یہ انسان کے امتیازات میں سے ہےنباتات اپنا راستہ بدلتے ہیں  لیکن اپنے خلاف قیام نہیں  کرتے، کربھی نہیں  سکتے، اُن میں یہ صلاحیت ہی نہیں  ہوتی جمادات اورنباتات کے درمیان فرق یہ ہے کہ جمادات اپنی بقا کے لئے خود سے اپناراستہ تبدیل نہیں  کرسکتے، جبکہ یہ حیرت انگیزصلاحیت نباتات میں پائی جاتی ہے (حیوانات میں بھی موجود ہے)

انسان میں اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز صلاحیت موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ خود اپنے خلاف قیام کرتا ہے، حقیقتاً قیام کرتا ہےاپنے خلاف انقلاب بپا کرتا ہے، واقعاً انقلاب بپا کرتا ہےدو مختلف اور باہمی طور پر جدا جداچیزیں (ایک دوسرے کے خلاف) قیام اور انقلاب بپا کرسکتی ہیں مثلاً ایک ملک میں معاملات کی باگ ڈورکچھ لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے، بعد میں کچھ دوسرے لوگ ان کے خلاف قیام اور انقلاب بپا کردیتے ہیں یہ کوئی انہونی بات نہیں  ہے(کیونکہ) جن لوگوں کے خلاف انقلاب بپا ہوا ہے وہ دوسرے افراد ہیں  اورجنہوں نے انقلاب بپا کیا ہے وہ دوسرے لوگ ہیں  اُنہوں نے اِن پر ظلم کیاتھا، اِنہیں  ناراض اور باغی بنا دیاتھا، جو ان کی طرف سے بغاوت اور انقلاب کا سبب بنا اورانہوں نے اچانک انقلاب بپاکردیا، زمامِ حکومت ان سے چھین لی اور ان کی جگہ پر خود بیٹھ گئےاس میں کوئی نہ ہونے والی بات نہیں

۹

لیکن ایک انسان کے خود اپنے اندر سے انقلاب اٹھنا، خود اپنے خلاف قیام کرنا، یہ کیسے ممکن ہے؟

کیا ممکن ہے کہ ایک شخص خود اپنے خلاف اٹھ کھڑا ہو؟ ہاں ممکن ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک شخص ہے، جبکہ اس کے اس خیال کے برخلاف ایسا ہے نہیں وہ ایک واحد شخص ہے لیکن ایک مرکب شخص ہے، بسیط شخص نہیں  ہے(۱)   یعنی ہم جو یہاں بیٹھے ہیں ، حدیث میں آنے والی تعبیر کی رو سے ایک جماد یہاں بیٹھا ہے، ایک نبات بھی یہاں بیٹھا ہے، شہوت رکھنے والا ایک حیوان بھی یہاں بیٹھا ہے، ایک درندہ بھی یہاں بیٹھا ہے، ایک شیطان بھی یہاں بیٹھا ہے اورعین اسی حال میں ایک فرشتہ بھی یہاں بیٹھا ہےیعنی شاعروں کے بقول انسان ایک ایسا نادر و نایاب معجون ہے جس کے وجود میں تمام خصوصیات جمع ہیں کبھی وہ شہوانی حیوان (جس کا مظہر سُوَر کو سمجھا جاتا ہے) انسان کے وجود میں پایا جانے والا وہ سُوَر اُس پر حاوی ہوجاتا ہے، اور (اپنے اندر موجود) درندے، شیطان اور فرشتے کوابھرنے کا موقع نہیں  دیتاکبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اُن میں سے کوئی ایک اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، صورتحال یکسر تبدیل ہو جاتی ہے، اورانسان کے وجود پر ایک نئی حکومت قائم ہوجاتی ہے

گناہ گار انسان، وہ انسان ہے جس کے اندر کا حیوان اس پر مسلط ہے، یا اس کے اندر کا شیطان اس پر مسلط ہے، یا اس کے وجود کا درندہ اس پر حاوی ہےعین اُسی وقت ایک فرشتہ، ایک عالی قوت بھی اس کے وجود میں محبوس اوراسیر ہے

--------------

1:- بسیط یعنی غیر مرکب

۱۰

توبہ، یعنی خود انسان کے اندر سے قیام

جب انسان کے وجود میں پائے جانے والے عالی مقامات اُس کے اندر موجود اس کی باطنی مملکت کے امور پر قابض پست مقامات کے خلاف یکایک قیام کرتے ہیں ، ان سب (پست مقامات) کو پکڑ کر قید میں ڈال دیتے ہیں  اور خود اپنی فوج اور سپاہ کے ذریعے معاملات کی باگ ڈور سنبھال لیتے ہیں ، تو یہ وہ حالت اور صورت ہے جو حیوان اور نبات میں نہیں  پائی جاتیاسی طرح اس کے برعکس بھی ہے، یعنی کبھی کبھی انسان کے وجود میں پائے جانے والے دانی اور پست مقامات اس کے وجود میں موجود عالی اور بلند مقامات کے خلاف قیام اور انقلاب بپا کردیتے ہیں  انہیں  گرفتار کرکے قید کر دیتے ہیں  اور اس مملکت کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں

۱۱

تربیت کا غلط انداز

اگر آپ نے تجربہ کیا ہو (تو دیکھا ہوگا کہ) کچھ لوگ جو تربیت کے فن سے واقف نہیں  ہوتے، وہ نہیں  جانتے کہ انسانی وجود میں جو قوتیں موجود ہیں  اُن سب میں تربیت کے حوالے سے حکمتیں اور مصلحتیں پائی جاتی ہیں  اگر ہمارے اندر شہوانی غرائزپائی جاتی ہیں ، تو وہ لغو اوربے کار نہیں  ہیں ہمیں طبیعی احتیاج کی حد میں ان شہوانی غرائز کی تسکین کرنی چاہئےان کی ایک حد ہے، ایک حق ہے،  ایک حصہ ہےہمیں ان کا مقررہ حصہ انہیں  دینا چاہئےاس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ سواری کے لئے اپنے گھر میں ایک گھوڑارکھتے ہیں  یاحفاظت کے لئے گھر میں ایک کتّا پالتے ہیں  اس گھوڑے یااس کتّے کو خوراک کی ضرورت ہے،  آپ پر لازم ہے کہ اسے خوراک فراہم کریں

اب کچھ کج سلیقہ لوگ ایسے ملتے ہیں  جو اپنے آپ پر یا اپنے زیرِ کفالت بچوں پر جبر کرتے ہیں  بچے کے لئے کھیل کود ضروری ہے اور خودکھیل کود کی یہ ضرورت پروردگار کی حکمتوں میں سے ہےبچے کے بدن میں انرجی کی جو مقداراکھٹی ہوتی ہے اُسے وہ صرف کھیل کود کے ذریعے خارج کرسکتا ہےبچے میں کھیل کودکے لئے غریزہ پایا جاتا ہےاب ہمیں کچھ ایسے افراد نظر آتے ہیں  جو کہتے ہیں  کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کرنا چاہتے ہیں ب ہت خوب،  اچھی بات ہے

۱۲

آپ کیسے تربیت کرنا چاہتے ہیں ؟

وہ اپنے پانچ چھے سالہ بچے کودوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کود کی اجازت نہیں  دیتے، جس کسی محفل میں خود جاتے ہیں  اپنے بچے کو بھی ساتھ لیجاتے ہیں کیوں؟ تاکہ اس کی تربیت ہو، اسے ہنسنے سے منع کرتے ہیں ، اسے کھانے سے منع کرتے ہیں یا ایسے افراد بھی پیدا ہوگئے ہیں  (ہم نے خوددیکھا ہے) کیونکہ وہ خود عمامہ پہنتے ہیں ،  ایک عبا ایک عمامہ اور خاص چپل بنواتے ہیں ،  پھر اپنے آٹھ سالہ بچے کے سر پر عمامہ رکھتے ہیں ، اس کے شانوں پر عبا ڈالتے ہیں  اور اسے اپنے ہمراہ لئے ادہر ادہر پھرتے ہیں

یہ بچہ اس حال میں بڑا ہوتا ہے کہ اس کے وجود میں پائی جانے والی احتیاجات کی تسکین نہیں  ہوئی ہوتی، اس کے سامنے بس خدا، قیامت، آتش جہنم کا تذکرہ ہوتا ہے،  یہاں تک کہ بیس برس سے زیادہ عمر کو پہنچنے پراس میں اکھٹی ہونے والی وہ قوتیں،  وہ شہوتیں اوروہ تمایلات جن کی تسکین نہیں  ہوئی ہوتی یکلخت زنجیر توڑ ڈالتی ہیں

وہ بچہ جسے آپ دیکھا کرتے تھے کہ اپنے باپ کی تلقین کے زیرِ اثر بارہ سال کی عمر میں جس کی نماز بیس منٹ طویل ہوا کرتی تھی،  جو نمازِ شب پڑھاکرتا تھا،   دعا ئیں پڑھتا تھا، پچیس سال کی عمر میں یکایک آپ کو سرسے پیر تک فسق و فجور میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے

۱۳

کیوں؟

اسلئے کہ آپ نے اعلیٰ روحانی مقامات کے بہانے اس کی تمام غرائز کوکچل دیا تھاالبتہ بچے کی فطرت میں خدا تھا، قیامت اور عبادت تھی لیکن آپ نے خدا اور عبادت کے اس فطری جذبے کو اس انداز سے اس کے اندرمضبوط کیا کہ اس کے سارے غرائز (کی تسکین) کا راستہ روک دیا، اس کے سارے غرائز کو قید کردیا، انہیں  غضبناک اور ناراض کردیا، انہیں  جیل میں ڈال دیا، ان کا حق اور حصہ انہیں  نہیں  دیا(اب وہ غرائز) ایک موقع کی تلاش میں تھے، جوں ہی انہیں  ایک موقع ملتا ہے، جوں ہی وہ بچہ ایک فلم دیکھتا ہے یا کسی محفل میں ایک جوان لڑکی سے راہ و رسم پیدا کرتا ہے،  اسی وقت یہ جمع شدہ اور کچلی ہوئی قوتیں یک بیک سارے بندھن توڑ ڈالتی ہیں  اور اس عمارت کو جسے اس کے باپ نے غلط انداز میں اس کے وجود میں تعمیر کیا تھامسمار کر ڈالتی ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے بارودپھٹتا ہے، پھٹ پڑتی ہیں

توبہ کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہےایسا انسان جو گناہ اور نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے، نفسانی خواہشات اور حیوانیت میں ڈوبا ہواہوتا ہے، جب وہ اپنے وجود کے فرشتے کو اس قدر اذیت دیتا ہے اور اس کی خواہشات کی تسکین نہیں  ہونے دیتا، تو اچانک ایک دھماکہ ہوتا ہے

آخر میں اور آپ بھی تو انسان ہیں ، ہمارا ایک دہان نہیں  ہوتااگر آپ یہ سمجھتے ہیں  کہ آپ کا صرف ایک دہان ہے اور آپ کو فقط اسی سے غذا فراہم کی جائے، تو آپ غلط فہمی میں مبتلا ہیں  آپ کے سینکڑوں دہان ہیں  آپ کے لاتعداد سر ہیں ، لاتعداد دہان ہیں ، ان سب سے آپ کو غذا پہنچنی چاہئے

۱۴

ان لاتعداد دہان میں سے آپ کاایک دہان عبادت کادہان ہےآپ کے لئے ضروری ہے کہ عبادت کے ذریعے اپنی روح کی تسکین کریںیعنی آپ کو اسے اس کایہ حق اور یہ حصہ دیناچاہئےآپ ملکوتی صفات کا حامل ایک وجود ہیں  آپ کو اس عالم کی طرف محوپرواز ہوناچاہئےاگر آپ اس فرشتے کوقید کردیں، توکیا آپ جانتے ہیں  کہ اس کے بعد کیابیماریاں اور کتنی زیادہ مشکلات جنم لیں گی؟

بسا اوقات آپ دیکھتے ہیں  کہ ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے والا جوان، ایک ایسا جوان جسے تمام وسائل اورآسائشیں فراہم ہیں ، وہ ایک انتہائی معمولی بات پر خودکشی کرلیتا ہےلوگ کہتے ہیں  نہ معلوم اس نے کیوں خودکشی کرلی؟ یا یہ کہتے ہیں  کہ ارے یہ تو بہت چھوٹی سی بات تھی! کیوں خودکشی کرلی؟

دراصل وہ جوان اس بات سے واقف نہیں  تھا کہ اس کے وجود میں کچھ مقدس قوتیں قید تھیںوہ مقدس قوتیں اُس کی زندگی کے اس انداز سے آزردہ تھیں، ان کی برداشت ختم ہوچکی تھی جس کے نتیجے میں اس طرح کا ایک طوفان اٹھا

کبھی کبھی آپ دیکھتے ہیں  کہ ایک انسان سب کچھ ہونے کے باوجود مضطرب اورپریشان ہےبقول شاعر :

آن یکی در کنج زندان مست و شاد

و ان دیگر در باغ ترش و بی مراد

وہ جیل کی کوٹھڑی میں بھی خوش و خرم ہے اور دوسرا باغ کے اندر رہتے ہوئے بھی غمگین اور نامراد ہے

آپ دیکھتے ہیں  کہ وہ ایک پر آسائش ماحول میں رہتا ہے، زندگی کی تمام سہولتیں اسے میسر ہیں ، اس کے باوجود وہ پریشان ہے، ناخوش اور زندگی سے ناراض ہے

۱۵

راہ لذت از درون دان نز برون

احمقی دان جستن از قصر و حصون

لذت کا راستہ اندر سے ہے نہ کہ باہر سےاس کو محل اور قلعہ میں تلاش کرنا حماقت ہے

اسلئے کہ کچھ لذتیں ایسی بھی ہیں  جوخود انسان کے اندر سے اسے پہنچنا چاہئیں نہ کہ باہر سےاوریہ لذتیں انسان کی معنوی لذتیں ہیں

چنانچہ ”توبہ“ انسانی روح کے اعلیٰ اور مقدس مقامات کا اُس کے حیوانی اور پست مقامات کے خلاف ظاہر ہونے والاردِ عمل ہے

”توبہ“یعنی انسان کی فرشتہ صفت مقدس قوتوں کااُس کی شیطانی اور درندہ صفات قوتوں کے خلاف قیام وانقلابیہ ہے توبہ کی حقیقت

رجوع کرنے، ندامت اور پشیمانی کی یہ حالت انسان میں کیسے پیدا ہوجاتی ہے؟

۱۶

توبہ کی کیفیت کیسے پیدا ہوتی ہے

پہلی بات یہ جان لیجئے کہ اگر انسان کے وجود میں کوئی ایسا عمل ہو جس کے نتیجے میں اس کے وجود میں پائے جانے والے یہ مقدس عناصر مکمل طور پر ناکارہ ہوجائیںوہ ایک ایسی مضبوط زنجیر سے باندھ دیئے جائیں جس سے وہ آزاد نہ ہوسکیں، توپھر انسان کو توبہ کی توفیق حاصل نہیں  ہوتیلیکن جس طرح ایک ملک میں انقلاب اور تبدیلی اس وقت رونما ہوتی ہے جب وہاں اس ملک کی عوام کے درمیان پاکیزہ لوگوں کا ایک گروہ موجود ہوتا ہے، چاہے وہ گروہ بہت چھوٹا ہی کیوں نہ ہواسی طرح اگر انسانی وجود میں بھی کچھ مقدس اور پاک عناصر باقی بچے ہوں، تو انسان کو توبہ کی توفیق حاصل ہوجاتی ہےبصورتِ دیگر اسے ہرگز توبہ کی توفیق نہیں  ہوگی

اب کن حالات میں انسان رجوع کرتا ہے، پشیمان ہوتا ہے اور اگر خدا پرست ہو تو خدا کی جانب پلٹتا ہے اور اگر خداپرست نہ ہو تو اس میں ایک دوسری حالت پیدا ہوتی ہے، کبھی پاگل پن اور دیوانگی کا شکار ہوجاتا ہے،  اور کبھی دوسری صورتحال پیش آتی ہے

ہم نے کہا کہ ”توبہ“ ایک ردِعمل ہےآپ ایک گیند ہاتھ میں لیجئے اور اسے زمین پر ماریئےگیند زمین سے اچھلے گیآپ کاگیند کو پھینکنایعنی آپ کااپنے ہاتھ کی قوت سے گیند کو زمین پرمارنا، آپ کا عمل ہے اور گیند کا زمین سے اچھلنا ردِعمل ہےیہ ردِ عمل گیند کے زمین سے ٹکرانے سے پیدا ہوتا ہےپس وہ عمل ہے اور یہ ردِعمل، وہ فعل ہے اور یہ آج کل کی عربی اصطلاح میں ردُّالفعل ہے، وہ ایکشن ہے اور یہ ری ایکشن

۱۷

جب آپ گیند کو زمین پر مارتے ہیں  تو وہ کتنی بلند ہوتی ہے؟ اس کا تعلق ایک طرف اُس طاقت سے ہے جو اسے زمین پر مارنے میں استعمال ہوتی ہے، یعنی اُس قوت سے ہے جس سے آپ نے اُسے زمین پر مارا ہے اوردوسری طرف یہ سطحِ زمین کی کیفیت سے وابستہ ہےجس قدر زمین سخت اور ہموار ہوگی، جس قدروہ پختہ ہو گی،  اُس کا ردِعمل زیادہ ہوگا (یعنی اتنا ہی گیند زیادہ بلند ہوگی) پس ردِعمل کا تعلق ایک طرف آپ کے عمل کی شدت سے ہے اور دوسری طرف اس سطح کی سختی اور ہمواری سے ہے جس سے گیند جا کر ٹکراتی ہے

گناہوں کے مقابل انسانی روح کا ردِعمل بھی دو چیزوں سے وابستہ ہوتاہےایک طرف اس کاتعلق شدتِ عمل سے ہےیعنی گناہ اور نافرمانی کی شدت سے، اس ضرب کی شدت سے ہے جو آپ کی روح کے پست مقامات روح کے اعلیٰ مقامات پر لگاتے ہیں

انسان کا گناہ جتنا کمتر اور جتنا چھوٹا ہوگا،  وہ روح میں بھی اتنا ہی کم ردِعمل پیدا کرے گا، اور جس قدر معصیت بڑی ہوگی، ردِعمل بھی اتنا ہی زیادہ ایجاد کرے گیلہٰذا وہ لوگ جو بہت زیادہ شقی القلب اور سنگدل ہوتے ہیں ، اپنی شقاوت اور قساوت ِقلبی کے باوجود اگر ان کا گناہ بہت بڑا ہو،  تو ان کو بھی ہم دیکھتے ہیں  کہ ان کی روح ردِعمل ظاہر کرتی ہےآپ دیکھتے ہیں  کہ وہ امریکی پائلٹ جس نے وہ (ایٹم) بم لے جا کر ہیروشیما پر پھینکا تھا، جب وہ واپس آنے کے بعد اپنے عمل کے اثرپرایک نظر ڈالتا ہے، تو دیکھتا ہے کہ اس نے ایک شہر نذرِ آتش کردیا ہے، بوڑھے جوان، مرد عورت، چھوٹے بڑے سب ایک دَھکتے ہوئے جہنم میں جل رہے ہیں  اسی وقت اس کے ضمیر میں ہلچل مچ جاتی ہے،  وہ اسے ملامت کرتا ہےحالانکہ ایسے لوگوں کو سنگدل ترین افراد میں سے منتخب کیا جاتا ہے

۱۸

جب وہ (ہواباز) اپنے ملک لوٹتا ہے تو اس کا استقبال کیا جاتا ہے،  اس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جاتے ہیں ،  اسے اعلیٰ عہدے پر ترقی دی جاتی ہے،  اس کی تنخواہ میں اضافہ کیا جاتا ہے، اخبارات میں اس کی تصویر چھپتی ہے، اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہےلیکن وہ ایسے عظیم ظلم کا مرتکب ہوا تھا،  اس کا گناہ اس قدر بڑا تھا کہ اُس نے ایسے قسی القلب انسان کے ضمیر کو بھی بیدار کردیایعنی اس کی روح پر لگنے والی ضرب اتنی شدید تھی کہ ایسے سنگدل انسان کی روح بھی ردِ عمل ظاہر کئے بنا نہ رہ سکییہ شخص بھی جب پارٹیوں میں جاتا تو ہنستا مسکراتا، لوگوں کو بتاتا کہ اس نے یہ کیا وہ کیا، لیکن جب وہ تنہا ہوتا، جب بستر میں سونے کے لئے لیٹتا،  تو یکدم وہ منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتا، (وہ سوچتا کہ) ہائے! یہ میں تھاجس نے اتنا بڑا جرم کیا!وائے ہو مجھ پر! میں کیسے عظیم ظلم کا مرتکب ہوا ہوں! نتیجتاً وہ شخص پاگل ہو جاتا ہے، اس کا عمل اسے پاگل خانے لیجاتا ہے

ایساکیوں ہوتا ہے؟

ایسا اسلئے ہوتا ہے کہ اس کا جرم بہت بڑا تھا

معاویہ کی فوج کا ایک سرداربسر بن ارطاۃ انتہائی سنگدل اور عجیب انسان تھامعاویہ نے حضرت علیؑ کو پریشان اور بے بس کرنے کے لئے جو پالیسیاں اختیار کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ وہ ”بسر بن ارطاۃ“یا ”سفیان غامدی“جیسے ایک خبیث فرد کی سربراہی میں کچھ فوجیوں کو حضرت علیؑ کی حکومت کی حدود کے اندر بھیجتے اور ان سے کہتے کہ اب گناہگار اور بے گناہ کو نہ دیکھنا (اسی طرح جیسے آج اسرائیل اسلامی ممالک کے ساتھ کر رہا ہے) جاؤانہیں  تباہ و برباد کرنے کے لئے ان پر شبخون مارو، آتش زنی کرو، بے خطا اور خطا کار میں تمیز کئے بغیر جو سامنے آئے اسے تہ تیغ کردو، چھوٹے بڑے کسی پر رحم نہ کرو، ان کا مال و دولت لوٹ لواور معاویہ کے فوجی ایسا ہی کرتےایک مرتبہ انہوں نے اسی بُسر بن ارطاۃ کو بھیجاوہ گیاادھر ادھر سے ہوتا ہوا یمن پہنچا،

۱۹

وہاں اس نے بہت مظالم ڈھائےان ہی میں سے اس کا ایک ظلم یہ بھی تھا کہ اس نے یمن میں امیر المومنین حضرت علی ؑکے گورنر اور آپ کے چچازاد بھائی عبید اﷲ ابن عباس بن عبدالمطلب کے بیٹوں کوپکڑ لیااور ان دو چھوٹے بے گناہ بچوں کی گردنیں اڑادیںکیونکہ یہ ظلم بہت بڑا تھا، لہٰذا آہستہ آہستہ اس سنگدل آدمی کا ضمیر بھی بیدار ہونے لگا اور پھر وہ ضمیر کے عذاب میں مبتلا ہوگیاوہ جب بھی سوتااسے خواب میں اپنا وہ ظلم نظر آتاجب راہ چلتا تو اس کی نظروں کے سامنے یہ دو بے گناہ بچے اور اس کے دوسرے مظالم آکھڑے ہوتےرفتہ رفتہ وہ دیوانہ ہوگیاوہ لکڑی کے گھوڑے پر سوار ہوجاتا، لکڑی ہی کی ایک تلوار ہاتھ میں لیتا اورگلی کوچوں میں دوڑتاپھرتا اور کوڑے مارتابچے اس کے گرد جمع ہوجاتے اور اس کا مذاق اڑاتے

ہم نے عرض کیا کہ انسانی روح کی جانب سے ردِ عمل کے اظہار کا دوسرا عامل یہ ہے کہ جس سطح پر ضرب لگ رہی ہو وہ ہموار ہو،  مضبوط اور مستحکم ہویعنی اس انسان کا ضمیر،  اس کی فطرت اور اس کا ایمان قوی ہواس صورت میں معمولی ضرب کے باوجود ردِ عمل نسبتاً زیادہ ہوگالہٰذا آپ دیکھتے ہیں  کہ چھوٹی چھوٹی خطائیں،  گناہانِ صغیرہ،  حتیٰ وہ اعمال جو مکروہ ہیں  اور جنہیں  گناہ نہیں  سمجھا جاتاوہ باایمان افراد (ایسے افراد جو مضبوط روح کے مالک ہوتے ہیں ،  جن کا معنوی فرشتہ،  جن کا ایمان،  جن کا معنوی ضمیر مستحکم ہوتا ہے) کے نزدیک قابلِ مذمت ہوتے ہیں  اور یہ اعمال اُن میں ردِ عمل پیدا کرتے ہیں  ایسے اعمال جن کے ہم روزانہ سیکڑوں مرتبہ مرتکب ہوتے ہیں  اور جنہیں  انجام دینے کے بعد ہمارے اندریہ معمولی سا احساس بھی جنم نہیں  لیتا کہ ہم نے کچھ کیا ہے(جبکہ) پاک سرشت انسان جوں ہی کوئی مکروہ عمل بھی انجام دیتے ہیں  تو ان کی روح مضطرب ہوجاتی ہے اور وہ مسلسل اور بار بار توبہ واستغفارکرتے ہیں

۲۰