کیا یہ اُن کے بُرے عمل کی دلیل ہے؟ یعنی خدا نے اِس دنیا ہی میں اُن کا حساب کردیا ہے؟ نہیں ، ایسا نہیں ہےاسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ:اَلْیَوْمَ عَمَلٌ وَ لَا حِسَابٌ وَ غَدًا حِسَابٌ وَ لَا عَمَلَ
دنیامقامِ عمل ہے، مقامِ حساب نہیں اِس کے برعکس آخرت مکانِ عمل نہیں ، صرف اور صرف حساب لئے جانے کی جگہ ہے
پس یہ جو انسان کے لئے توبہ کا وقت موت اور اُس کے آثار نظر آنے سے پہلے تک محدودکیا گیا ہے، اور جب انسان کو موت اپنے سر پر نظر آنے لگے (جیسے فرعون کے ساتھ ہوا تھا) تو ایسے وقت میں اُس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، اور اسی طرح عالمِ آخرت میں توبہ نہ ہونے کا سبب وہی باتیں ہیں جنہیں ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیا
اِن سے ہمیں کیا نتیجہ حاصل کرنا چاہئے؟
بقول حضرت علی علیہ السلام:اَلْیَوْمَ عَمَل
(آج عمل کا دن ہے) لہٰذا ہمیں موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئےاُن لوگوں میں سے نہیں ہونا چاہئے جویہ سوچ کرتوبہ میں تاخیر کرتے رہتے ہیں کہ ابھی بہت وقت پڑاہےخداوند عالم فرماتا ہے:
یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیْهِمْط وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا
یہ امید رکھنا کہ ابھی دیر نہیں ہوئی، ابھی توہماری کافی عمر باقی ہے، ابھی ہم نے دنیا میں دیکھا ہی کیا ہے، یہ شیطانی بہلاوے ہیں ، نفسِ امارہ کے فریب ہیں انسان کو توبہ میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے
یہاں ہماری تمہید ختم ہوئی، اب حضرت علی ؑ کے کلام کی طرف آتے ہیں :