قرآن کیا کہنا چاہتا ہے؟
کہتا ہے، توبہ کرو اور توبہ کے پانی سے خود کو دھو ڈالو، پاک کروچشمِ بینا رکھوصفائی صرف بدن کی نہیں ہوتیبدن کو ہم اچھی طرح صاف رکھتے ہیں البتہ یہ نہ صرف کوئی بُری بات نہیں بلکہ اچھی بات بھی ہے، اسے صاف رکھنا بھی چاہئےہمارے رسولؐ دنیا کے صاف ترین رہنے والے لوگوں میں سے تھےہم ہر روز شاور لیتے ہیں ، چند دنوں میں ایک بار اپنے بدن پر صابن لگاتے ہیں ، اپنا لباس تبدیل کرتے ہیں ، اپنے کوٹ پینٹ کو صاف ستھرا اور داغ دھبوں سے محفوظ رکھتے ہیں کیوں؟ اسلئے کہ ہم صاف ستھرا رہنا چاہتے ہیں تو کیا آپ صرف یہی بدن ہیں ؟ اپنے آپ کو پاک کیجئے، اپنی روح کو پاک کیجئے،
اپنے قلب کوپاک کیجئے، اپنے دل کو پاک کیجئےاپنے اس قلب، دل اور روح کو آبِ توبہ سے پاک کیجئے”اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ “
قرآن کی ایک اور تعبیر یہ ہے کہ وہ بعض دوسرے مقامات پر توبہ کو کلمہ اصلاح کے ساتھ بیان کرتا ہے:
فَمَنْ تَابَ مِنْم بَعْدِ ظُلْمِه وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اﷲَ یَتُوْبُ عَلَیْهِط اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
پھر ظلم کے بعد جو شخص توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے، تو خدا اس کی توبہ قبول کرلے گا کہ اﷲ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے(سورہ مائدہ۵آیت ۳۹)
کل رات ہم نے عرض کیا تھا کہ انسان کی خصوصیات اور امتیازات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات اس کا نصف وجود اس کے دوسرے نصف وجودکے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، انقلاب برپا کردیتا ہےاوریہ بھی عرض کیا تھا کہ یہ قیام اور یہ انقلاب کبھی تو انسان کے وجود کے پست مقامات کی جانب سے ہوتا ہے،