دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)6%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272285 / ڈاؤنلوڈ: 6389
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

یہی وہ رجال تسبیح ہیں جن کے بارے مین خداوند عالم نے ارشاد فرمایا :

 “يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالْغُدُوِّ (۱) وَ الْآصالِ رِجالٌ لا تُلْهيهِمْ تِجارَةٌ وَ لا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَ إِقامِ الصَّلاةِ وَ إيتاءِ الزَّكاةِ يَخافُونَ يَوْماً تَتَقَلَّبُ فيهِ الْقُلُوبُ وَ الْأَبْصارُ ” ( نور، ۳۶ ۔۳۷)

“ ان گھروں میں خداوند عالم کی تسبیح کیا کرتے ہیں صبح و شام ایسے مرد جنھیں خرید و فروخت خدا کے ذکر اور نماز قائم کرنے ، زکوة ادا

--------------

۱ ـ مجاہد و یعقوب بن سفیان نے ابن عباس سے آیت “وَ إِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها وَ تَرَكُوكَ قائِماً (جمعہ،۱۱) “ اور جب وہ کسی تجارت یا کھیل تماشے کو دیکھ پاتے ہیں تو اس طرف دوڑ پڑتے ہیں اور تمہیں کھڑا چھوڑ جاتے ہیں” کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ وحیہ کلثوم سامان تجارت لے کر جمعہ کے دن پلٹے اور مدینہ سے باہر آکر ٹکے اور طبل بچایا تاکہ لوگوں کو ان کی آمد کی اطلاع ہوجائے طبل کی آواز سن کر سب کے سب دوڑ پڑے اور رسول اﷲ(ص) کو منبر پر خطبہ پڑھتے چھوڑ دیا” صرف حضرت علی(ع) حسن(ع) و حسین(ع) ابوذر و مقداد رہ گئے۔ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا خداوند عالم نے  آج کے دن میری اس مسجد کی طرف نگاہ کی اگر یہ چند نفر نہ ہوتے تو پورا مدینہ آگ سے پھونک دیا جاتا اور ان لوگوں پر اسی طرح پتھر برسائے جاتے جیسا کہ قوم لوط پر برسائے گئے اور  جو لوگ پیغمبر(ص) کے پاس مسجد میں باقی رہ گئے ان کے بارے میں خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی“يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالْغُدُوِّ وَ الْآصالِ ۔۔الخ”

۸۱

کرنے سے غافل نہیں کرتی وہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن میں دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی۔”

انھیں کا گھر وہ گھر تھا جس کا ذکر خداوند عالم نے ان شاندار الفاظ میں فرمایا :

 “ في‏ بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فيهَا اسْمُهُ ”( نور، ۳۶)

“ وہ قندیل ایسے گھروں میں روشن ہے جس کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے جن میں صبح و شام وہ لوگ اس کی تسبیح کیا کرتے ہیں(۱) ۔”

خداوند عالم نے آیتِ نور میں انھیں کے مشکوة(۲) کو اپنے نور کی مثال قرار دیا ہے اور اس کے تو زمین و آسمان میں بلند تر نمونے ہیں۔ وہ بڑی قوت و حکمت والا ہے یہی سبقت کرنے والے یہی مقربان بارگاہ(۳) یہی صدیقین(۴) یہ شہداء و صالحین ہیں۔

--------------

۱ ـ ثعلبی نے اس آیت کی تفسیر میں انس بن مالک و بریدہ سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے آیت فی بیوت الخ کی تلاوت فرمائی تو حضرت ابوبکر نے کھڑے ہو کر علی(ع) و فاطمہ(س) کے گھر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) یہ گھر بھی ان گھروں میں سے ہے ؟ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہاں بلکہ ان سے بہتر گھروں میں ہے۔

۲ ـ اشارہ ہے آیت مثل نورہ کمشکوة ۔۔۔۔الخ کی طرف جس کے متعلق حسن بصری اور ابو الحسن مغازلی شافعی سے روایت ہے کہ مشکوة سے مراد حضرت فاطمہ(س) مصباح سے حسنین(ع) اور شجرہ مبارکہ سے حضرت ابراہیم(ع) شرقی و غربی نہ ہونے سے حضرت فاطمہ(س) کا یہودی و نصرانی نہ ہونا یکاد زیتہا سے ان کی کثرت علم اور نور علی(ع) نور سے ایک امام کے بعد دوسرا امام یھدی اﷲ نورہ سے ان کی اولاد کی محبت مراد ہے۔

۳ ـ دیلمی نے جناب عائشہ اور طبرانی ابن مردویہ ن جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا سبقت کرنے والے تین ہوئے موسی کی طرف سبقت کرنے والے ۔ یوشع بن نون۔ عیسی کی طرف یاسین اور میری طرف علی بن ابی طالب(ع) ۔ صواعق محرقہ باب۹ فصل ۲۔

۴ ـ ابن نجار نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہےکہ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا صدیقین تین ہیں۔ حبیب نجار مومن آل یاسین۔دوسرے حزقیل مومن آل فرعون، تیسرے علی بن ابی طالب(ع) اور یہ علی سب سے افضل ہیں۔

۸۲

انھیں کے متعلق اور انھیں کے دوستوں کے بارے میں خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

 “وَ مِمَّنْ خَلَقْنا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَ بِهِ يَعْدِلُونَ ”( اعراف، ۱۸۱)

“ اور ہماری مخلوقات میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دین حق کی ہدیت کرتے ہیں اور حق ہی حق اںصاف بھی کرتے ہیں(۱) ۔”

انھیں کی جماعت اور دشمنوں کی جماعت کے متعلق ارشاد ہوا:

 “لا يَسْتَوي أَصْحابُ النَّارِ وَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفائِزُونَ ” ( حشر، ۲۰)

“ جہنم والے اور جنت والے دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ جنت والے ہی تو کامیاب ورستگار ہیں(۲) ۔”

نیز انھیں حضرات کے دوستوں اور دشمنوں کے متعلق یہ بھی ارشاد ہوا:

--------------

۱ ـ زاذان نے حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ عنقریب اس امت کے تہتر (۷۳) فرقے ہوں گے ان میں سے بہتر(۷۲) جہنمی اور ایک جنتی۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں خداوند عالم نے فرمایا و ممن خلقنا ۔۔ ۔ الخ اور یہ لوگ ہم ہیں اور ہمارے شیعہ ہیں ۔کتاب علامہ ابن مردویہ صفحہ۲۷۶۔

۲ ـ شیخ طوسی نے اپنی آمالی میں نہ اسناد صحیح امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے اس آیت کی تلاوت فرماکر کہا اصحاب نار وہ ہیں جو علی(ع) کی ولایت کو ناپسند کریں اور عہد توڑیں اور میرے بعد ان سے جنگ  کریں جناب صدوق نے بھی حضرت علی(ع) سے اسی مضمون کی روایت کی ہے او علامہ اہلسنت وموفق بن احمد نے جناب جابر سے روایت کی ہے  کہ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا قسم بخدا یہ(علی(ع)) اور ان کے شیعہ ہی قیامت کے دن رستگار ہیں۔

۸۳

 “أَمْ نَجْعَلُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ كَالْمُفْسِدينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقينَ كَالْفُجَّارِ ”( ص، ۲۸)

“ کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور عمل صالح کیا ان لوگوں جیسا قرار دین گے جو زمین میں فساد پھیلانے والے ہیں یا ہم نیکوکار و پرہیز گار بندوں کو بدکاروں جیسا قرار دیں گے(۱) ۔”

انھیں دونوں جماعتوں کے متعلق ارشاد خداوندِ عالم ہوا :

 “أَمْ حَسِبَ الَّذينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَواءً مَحْياهُمْ وَ مَماتُهُمْ ساءَ ما يَحْكُمُونَ ” (جاثیه، ۲۱)

“ جو لوگ برے کام کیا کرتے ہیں کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کے برابر کردیں گے جو ایمان لائے اور اچھے کام بھی کرتے رہے  اور ان سب کا جینا مرنا ایک سا ہوگا۔ یہ لوگ کیا برے حکم لگاتے ہیں(۲) ۔”

انھیں کے  متعلق اور ان کے شیعوں کے متعلق خداوند عالم کا ارشاد ہے:

 “  إِنَّ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ أُولئِكَ هُمْ

--------------

۱ ـ ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ آیت جناب علی(ع) اور حمزہ اور عبیدہ بن الحارث کے حق میں نازل ہوئی ہے، پس اس آیت میں وہ لوگ کہ کرتے ہیں برائیاں عتبہ اور شیبہ اور ولید ہیں اور وہ لوگ کہ ایمان لائے ہیں اور اچھے کام کرتے ہیں وہ جناب علی(ع) اور حمزہ اور عبیدہ ہیں۔

۲ ـ صواعق محرقہ، باب ۹، فصل اول۔

۸۴

خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ” (البینہ، ۷)

“ بہ تحقیق وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کیا وہی بہترین خلائق ہیں(۱) ۔”

انھیں کے متعلق اور انھیں کے دشمنوں کے متعلق خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

 “هذانِ خَصْمانِ اخْتَصَمُوا في‏ رَبِّهِمْ فَالَّذينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيابٌ مِنْ نارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَميمُ ” ( حج، ۱۹)

“ یہ دونوں مومن وکافر دو فریق ہیں جو آپس میں اپنے پرورگار کے بارے میں لڑتے ہیں پس جو لوگ کہ کافر ہیں ان کے لیے یہ آتشین لباس قطع کیا جائے گا اور ان کے سروں پہ کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا۔”

انھیں کے بارے میں اور انھیں کے دشمنوں کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی :

 “  أَ فَمَنْ كانَ مُؤْمِناً كَمَنْ كانَ فاسِقاً لا يَسْتَوُونَ

--------------

۱ ـ امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری پارہ ۳ صفحہ۱۶ میں بسلسلہ تفسیر سورہ حج باسناد صحیحہ حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا میں سب سے پہلے خداوند عالم کے حضور بروز قیامت اپنا جھگڑا پیش کروں گا۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ قیس نے کہا یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جنھیں نے بدر کے روز جنگ کی وہ جناب حمزہ، اور علی(ع) اور عبیدہ بن الحارث اور عتبہ ، شیبہ اور ولید ہیں امام بخاری نے اس پرجناب ابوذر سے روایت کی ہے جناب ابوذر قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یہ آیت جناب حمزہ اور علی(ع) اور عبیدہ بن الحارث اور عتبہ و شیبہ اور ولید کے حق نازل ہوئی۔

۸۵

 أَمَّا الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوى‏ نُزُلاً بِما كانُوا يَعْمَلُونَ وَ أَمَّا الَّذينَ فَسَقُوا فَمَأْواهُمُ النَّارُ كُلَّما أَرادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْها أُعيدُوا فيها وَ قيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذابَ النَّارِ الَّذي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ (۱) ” ( سجدہ، ۱۸،۱۹،۲۰)

“ بھلا وہ شخص جو ایمان والا ہو فاسق جیسا ہوسکتا ہے ؟ ( ہرگز نہیں) دونوں برابر نہیں ہوسکتے پس وہ لوگ جوکہ ایمان لائے اور عمل صالح کیا ان کے لیے جنات ماوی ہیں وہاں وہ فروکش ہوں گے یہ صلہ ہے ان کے اعمال خیر کا اور جولوگ  فاسق ہیں ان کا ٹھکانا جہنم ہے جب وہ اس میں سے نکلنا چاہیں گے دوبارہ اسی جہنم میں پلٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ اس آتش جہنم کا مزہ چکھو جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔”

انھیں حضرات کے متعلق اور ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے ان سے حاجیوں

--------------

۱ ـ یہ آیت بہ اتفاق مفسرین و محدثین حضرت امیرالمومنین(ع) اور ولید عتبہ بن ابی معیط کے متعلق نازل ہوئی۔ امام واحدی نے کتاب اسباب النزول میں سعید بن جبیر سے انھوں نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ولید بن عتبہ بن ابی معیط نے حضرت امیرالمومنین(ع) سے کہا میرا نیزہ تمھارے نیزے سے کہیں زیادہ تیز اور میری زبان تمھاری زبان سے کہیں زیادہ چلتی ہوئی اور لشکر میری وجہ سے کہیں زیادہ بھرا معلوم ہوتا ہے بہ نسبت تمھارے۔ اس پر حضرت علی(ع) نے فرمایا خاموش بھی رہ کر تو فاسق کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسی واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی افمن کان مومنا کمن فاسقا ۔ اس آیت میں مومن سے مراد حضرت علی(ع) اور فاسق سے مراد ولید بن عتبہ ہے۔

۸۶

 کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی آباد کاری کی بدولت فخر و مباہات کی تھی خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی۔

 “أَ جَعَلْتُمْ سِقايَةَ الْحاجِّ وَ عِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ جاهَدَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ لا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَ اللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمينَ (۱) ”( توبه، ۱۹)

“ کیا تم لوگوں نے حاجیوں کی سقائی اور  خانہ کعبہ کی آبادی کو اس شخص کے ہمسر بنا دیا ہے جو خدا کے اور روز آخرت پر ایمان لایا اور خدا کی راہ میں جہاد کیا۔ خدا کے نزدیک تو یہ لوگ برابر نہیں اور خداوندِ عالم ظالم لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا۔”

انھیں حضرات کے ابتلا و آزمائش میں بہ عمدگی پورے  اترنے اور شدائد و مصائب ہنسی خوشی جھیل جانے پر خداوندِ عالم نے ارشاد فرمایا :

--------------

۱ ـ یہ آیت حضرت علی(ع) اور جناب عباس اور طلحہ بن شیبہ کی شان میں نازل ہوئی۔ واقعہ یہ ہوا تھا کہ ان لوگوں نے باہم فخر کیا طلحہ نے کہا تھا خانہ کعبہ کا میں متولی ہوں اس کی کنجیاں میرے پاس رہتی ہیں۔ عباس نے کہا میں زمزم کا متولی ہوں اور سقائی میرے ہاتھوں مین ہے۔ حضرت علی(ع) نے کہا کہ میری سمجھ نہیں آتا کہ تم دونوں کیا کہہ رہے ہو میں نے چھ مہینے لوگوں سے پہلے نماز پڑھی ہے اور میں خدا کے راستہ میں جہاد کرنے والا ہوں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ علامہ واحدی نے کتاب اسباب النزول میں یہ روایت حسن بصری شبسی وغیرہ سے نقل کی ہے اور ابن سیرین و مرہ حمدانی سے منقول ہے کہ حضرت علی(ع) نے جناب عباس سے کہا آپ ہجرت نہیں کرتے؟ آپ رسول(ص) کے پاس نہ جائیے گا۔ جناب عباس نے کہا مجھے حاجیوں کی سقائی کا شرف پہلے سے حاصل ہے کیا یہ ہجرت کےشرف سے بڑھا ہوا نہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۸۷

 “  وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْري نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّهِ وَ اللَّهُ رَؤُفٌ بِالْعِبادِ (۱) ” ( بقره، ۲۰۷)

“ لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی کے لیے اپنی جان بیچ ڈالتے ہیں اور خدا اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔”

نیز یہ بھی ارشاد فرمایا :

 “  إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى‏ مِنَ الْمُؤْمِنينَ أَنْفُسَهُمْ وَ أَمْوالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقاتِلُونَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَ يُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْراةِ وَ الْإِنْجيلِ وَ الْقُرْآنِ وَ مَنْ أَوْفى‏ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ

--------------

۱ ـ امام حاکم نے مستدرک جلد۳ صفحہ۴ پر جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ قال شری علی نفسہ لیس ثوب النبی الحدیث۔ جناب ابن عباس نے کہا حضرت علی(ع) نے اپنا نفس فروخت کیا اور پیغمبر (ص) کی چادر اوڑھی ۔ امام حاکم نے تصریح کی ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کے معیار و شرائط پربھی صحیح ہے لیکن ان دونوں نے لکھا نہیں۔ ذہبی ایسے متشدد بزرگ نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔ امام حاکم نے اسی صفحہ پر امام زین العابدین(ع) سے یہ روایت بھی کی ہے کہ پہلے وہ شخص جنھوں نے اپنے نفس کو خوشنودی خدا کے لیے بیچا وہ علی بن ابی طالب(ع) ہیں جب کہ وہ شب ہجرت پیغمبر(ص) کے بستر پر سورہے۔ پھر امام حاکم نے اس موقع پر حضرت علی(ع) نے جو اشعار فرمائے تھے وہ اشعار نقل کیے ہیں جن کا پہلا شعر یہ ہے

                   وقيت بنفسی خير من وطا الحصا              ومن طاف بالبيت العتيق و بالحجر

میں نے جان پر کھیل کر اس بزرگ کی حفاظت کی جو ان تمام لوگوں میں جو سرزمین بطحا پر چلے درجنوں نے خانہ کعبہ اور حجر اسود کا طواف کیا بہتر و افضل ہیں۔”

۸۸

الَّذي بايَعْتُمْ بِهِ وَ ذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظيمُ التَّائِبُونَ الْعابِدُونَ الْحامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنينَ ” (توبہ، ۱۱۱۔۱۱۲)

“ اس میں تو شک نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر خرید لیے ہیں کہ ( ان کی قیمت) ان کے لیے بہشت ہے( اسی وجہ سے) یہ لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو ( کفار کو) مارتے ہیں اور (خود بھی) مارے جاتے ہیں ( یہ ) پکا وعدہ ہے ( جس کا پورا کرنا ) خدا پر لازم ہے ( اور ایسا پکا ہے کہ) توریت اور انجیل اور قرآن (سب) میں ( لکھا ہوا) ہے اور اپنے عہد کا پورا کرنے والا خدا سے بڑھ کر اور کون  ہے تو تم اپنی ( خرید) فروخت سے جو تم نے خدا سے کی ہے خوشیاں مناؤ یہی تو بڑی کامیابی ہے ( یہ لوگ ) توبہ کرنے والے عبادت گزار ( خدا کی ) حمد و ثنا کرنے والے ( اس کی راہ میں) سفر کرنے والے رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے نیک کام کا حکم کرنے والے اور برے کام سے روکنے والے اور خدا کی ( مقرر کی ہوئی) حدوں کے اوپر نگاہ رکھنے والے ہیں اور ( اے رسول(ص)ان ) مومنین کو ( بہشت کی ) خوشخبری دے دو۔”

نیز ارشاد فرمایا :

 “الَّذينَ يُنْفِقُونَ أَمْوالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَ النَّهارِ سِرًّا

۸۹

وَ عَلانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ (۱) ” ( بقرہ، ۲۷۴)

“ جو لوگ کہ اپنے مالوں کو رات اور دن میں ظاہر بہ ظاہر اور چھپا کر ( راہ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں ان کے لیے ان کا صلہ ہے ان کے پروردگار کے نزدیک ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ اندوہ گین ہوں گے۔”

انھیں نے صدق دل سے پیغمبر(ص) کی سچائی کی تصدیق کی اور خداوندِ عالم نے ان کی اس تصدیق کی ان الفاظ میں گواہی دی :

 “  وَ الَّذي جاءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ (۲) بِهِ أُولئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ” (زمر، ۳۳)

“ اور یاد رکھو کہ جو رسول(ص) سچی بات لے کر آئے ہیں اور جس نے

--------------

۱ ـ جملہ محدثین و مفسرین نے بسلسلہ اسناد جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ آیت حضرت علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ آپ کے پاس چار درہم تھے آپ نے ایک درہم شب میں ایک دن میں ، ایک چھپا کر، ایک ظاہر بظاہر راہ خدا میں صدقہ کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ تفسیروحیدی ص۱۶، تفسیر معالم التنزیل ص۱۳۵، تفسیر بیضاوی،جلد ۱، ص۱۲۵ تفسیر نیشاپوری، ص۲۷۸ تفسیر کبیر رازی، جلد۲، ص۵۲۸ تفسیر روح المعانی جلد۱، صفحہ ۴۹۵ وغیرہ۔

۲ ـالَّذي جاءَ بِالصِّدْقِ سے مراد پیغمبر(ص) صدق بہ سے مراد امیرالمومنین(ع) ہیں۔ جیسا کہ امام محمد باقر(ع) و جعفر صادق(ع) و موسی کاظم(ع) و امام رضا(ع) اور عبداﷲ بن عباس ، ابن حذیفہ ، عبداﷲ بن حسن ، زید شہید و غیر ہم نے تصریح کی ہے۔ خود امیرالمومنین(ع) اس آیت کے ذریعہ احتجاج فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی اور میں مراد ہوں۔ ابن مغازلی نے بھی اپنی مناقب میں مجاہد سے اس مضمون کی روایت کی ہے اور حافظ ابن مردویہ اور حافظ ابو نعیم نے بھی۔

۹۰

ان کی تصدیق کی یہی لوگ تو پرہیز گار ہیں۔”

پس یہی حضرات حضرت رسول خدا(ص) کی مخلص جماعت اور آپ کے قریبی رشتہ دار  ہیں جنھیں خداوند عالم نے اپنی بہترین رعایت اور بلندترین توجہ کے ساتھ مخصوص فرمایا اور ارشاد فرمایا :

 “وَ أَنْذِرْ عَشيرَتَكَ الْأَقْرَبينَ ” ( شعراء، ۲۱۴)

“ اے پیغمبر(ص) اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو خدا کا خوف دلاؤ۔”

یہی پیغمبر(ص) کے اولی الارحام ہیں اور اولی الارحام بعض بعض سے مقدم و اولیٰ ہیں کتاب الہی میں یہ پیغمبر(ص) کے قریبی رشتہ دار اور قریبی رشتہ دار بھلائی کے  زیادہ حق دار ہوتے ہیں۔ یہی بروز قیامت پیغمبر(ص) کے درجے میں ہوں گے اور جنتِ نعیم میں آپ کے ساتھ ساتھ ہوں گے جس پر دلیل خداوند عالم کا یہ قول ہے۔

 “وَ الَّذينَ آمَنُوا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإيمانٍ أَلْحَقْنا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ ما أَلَتْناهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ (۱) ” (طور، ۲۱)

“ جو لوگ کہ ایمان لائے اور ان کی ذریت نے بھی ایمان لا کر اتباع کیا تو ہم ان کی ذریت کو بھی انھٰیں سے ملحق کردیں گے اور ان کے اعمال میں سے رتی برابر کمی نہ کریں گے۔”

یہی وہ حق دار حضرات ہیں جن کے حق کی ادائیگی کا قرآن نے ان الفاظ

--------------

۱ ـ امام حاکم نے مستدرک جلد۲ صفحہ۴۶۸ پر بسلسلہ تفسیر سور طور ابن عباس سے اس آیت کے متعلق روایت کی ہےابن عباس نے کہا کہ خداوند کریم مومن کی ذریت کو بھی جنت کے اسی درجے میں رکھے گا جس میں وہ مومن ہوگا اگرچہ بلحاظ اعمال کمتر ہو پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی اور کہا کہ وما التناہم کا مطلب یہ ہے کہ وما نقصناھم یعنی ہم کوئی کمی نہ کریں گے۔

۹۱

 میں حکم سنایا :

 “  وَ آتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ (۱) ” ( اسراء، ۲۶)

“ صاحبان قرابت کو ان کا حق دے دو۔”

یہی وہ صاحبان خمس ہیں کہ جب تک ان کو خمس نہ پہنچا دیا جائے انسان بری الذمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ارشاد الہی ہے:

 “ وَ اعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى‏ (۲) ” ( انفال، ۴۱)

“ سمجھ رکھو کہ تم جو کچھ مال غنیمت حاصل کرو تو اس کا پانچواں حصہ خدا کا ہے اور رسول(ص) کا اور رسول(ص) کے قرابت داروں کا۔”

یہی وہ صاحبان فئی ہیں جن کے متعلق خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

“ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى‏ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرى‏ فَلِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى‏ ( حشر، ۷)

خداوندِ عالم نے دیہات والوں سے جو مال بطور خالصہ بلا حرب و ضرب رسول(ص) کو دلوایا ہے وہ اﷲ کے لیے ہے اور رسول(ص) کے لیے اور صاحبان قرابت کے لیے اور یہی وہ اہل بیت(ع) ہیں جن سے آیہ “إِنَّما يُريدُ اللَّهُ

--------------

۱ ـ مفسرین نے لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آںحضرت(ص) نے جبرائیل(ع) سے پوچھا ، قرابت والے کون ہیں اور ان کا حق کیا ہے۔ جواب دیا فاطمہ(س) کو فدک دے دیجیے کہ یہ انھیں کا حق ہے اور جو کچھ فدک میں خدا و رسول(ص) کا حق  ہے وہ بھی انھیں کے حوالے کر دیجیے پس رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ(س) کو بلا کر وثیقہ لکھ کر فدک ان کے حوالے کردیا۔تفسیر در منثور جلد۴، صفحہ۱۷۷، وغیرہ۔

۲ ـ تفسیر روح المعانی جلد ۳ صفحہ ۶۳۷، تفسیر نیشاپوری، جلد۱۰، صفحہ۱۵ وغیرہ۔

۹۲

لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً ” ( احزاب، ۳۳) خطاب کیا گیا۔

یہی وہ آل یسین ہیں جن پر خداوند عالم سلام بھیجا اور ارشاد ہوا : سلام(۱) علیٰ آل یسین۔ یہی وہ آل محمد(ص) ہیں جن پر درود و سلام بھیجنا خداوند عالم نے بندوں پر فرض قرار دیا اور ارشاد ہوا :

 “  إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليماً ” ( احزاب، ۵۶)

“ تحقیق کہ خداوند عالم اور ملائکہ نبی(ص) پر درود بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو تم بھی درود و سلام بھیجا کرو۔”

لوگوں نے پیغمبر(ص) سے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) ہم آپ پر سلام کیونکر کریں یہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن یہ ارشاد ہو کہ درود آپ کی آل پر کیونکر بھیجا جائے تو آپ نے ارشاد

--------------

۱ ـ  علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ باب ۱۱ میں بسلسلہ ان آیات کے جو اہل بیت(ع) کی شان میں  نازل ہوئیں تیسری آیت یہ بھی لکھی ہے اور لکھا ہے کہ مفسرین کی ایک جماعت نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہاں آیت میں مراد سلام علی آل محمد ( آل محمد پر سلام ہو) علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ کلبی نے بھی ایسا ہی کہا ہے اور فخرالدین رازی نے لکھا ہے کہ پیغمبر(ص) کےاہل بیت(ع) پانچ چیزوں میں پیغمبر(ص) کے برابر حصہ دار ہیں۔ سلام میں  خداوند عالم نے پیغمبر(ص) سے کہا السلام علیک ایہا النبی اور اہل بیت (ع) کے لیے کہا سلام علی آل یسین دوسرے تشہد مین درود بھیجے جاتے ہیں تیسرے طہارت میں پیغمبر(ص) سے فرمایا طہ اے طیب و طاہر اور اہل بیت(ع) کے لیے آیت تطہیر نازل ہوئی چوتھے صدقہ حرام ہونے میں پانچویں محبت میں رسول کے لیے فرمایا :فاتبعونی يحببکم اﷲ اور اہل بیت(ع) کے لیے ارشاد فرمایا:قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى (شوری، ۲۳)

۹۳

فرمایا یوں کیا کرو :

الل ه م صل علی محمد و علی آل محمد”

لہذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان حضرات پر درود بھیجنا پیغمبر(ص) پر درود بھجنے کا جزو ہے جب تک آپ کی آل(ع) کو بھی شامل کر کے درود نہ بھیجا جائے تب تک پیغمبر(ص) پر درود پورا نہ ہوگا اسی وجہ سے علماء و محققین نے اس آیت کو بھی ان آیات میں شمار کیا ہے جو اہل بیت(ع) کی شان  میں نازل ہوئیں۔ چنانچہ علامہ ابن حجر مکی نے بھی صواعق محرقہ باب ۱۱ میں اس آیت کو منجملہ  ان آیات کے شمار کیا ہے جو اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئیں۔ پس یہی منتخب و برگزیدہ بندگان الہی  ہیں بحکم خدا نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔ یہی وارثان کتاب خدا ہیں جن کے بارے میں خداوندِ عالم نے فرمایا ہے:

 “ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سابِقٌ بِالْخَيْراتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبيرُ (۱) ۔” ( فاطر، ۳۲)

--------------

۱ ـ ثقتہ الاسلام کلینی علیہ الرحمہ نے بہ سند صحیح سالم سے روایت کی ہے کہ سالم کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر(ع) سے اس آیت  ثم اورثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا  آیت میں سابق بالخیرات ( نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والا) سے مراد امام اور مقتصد ( میانہ رو) سے مراد امام کی معرفت رکھنے والا اور ظالم لنفسہ ( اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والا) سے مقصود وہ ہے جو امام سے بے گانہ و نا آشناہو ۔ اسی مضمون کی روایت کلینی نے امام جعفر صادق(ع) امام موسی کاظم(ع) اور امام رضا علیہ السلام سے بھی کی  ہے۔ علمائے اہلسنت میں حافظ  ابن مردویہ  نے اس حدیث کی روایت امیرالمومنین(ع) سے کی ہے۔

۹۴

“ پھر ہم نے اپنی کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو جنھیں ہم نے اپنے بندوں میں منتخب کیا ہے، پس لوگوں میں بعض تو ایسے ہیں جو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں ( اور یہ وہ لوگ ہیں جو امام کی معرفت نہیں رکھتے) اور بعض میانہ رو ہیں ( یعنی دوستدارن ائمہ) اور بعض نیکیوں کی طرف بحکم خدا سبقت کرنے والے ہیں( یعنی امام ) اور یہ بہت بڑا فضل ہے۔”

اہل بیت طاہرین(ع) کی شان میں نازل شدہ اتنی ہی آیات بیان کرنے پر ہم اکتفا کرتے ہیں۔

جناب ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ تنہا حضرت عی(ع)  کی شان میں تین سو آیتیں(۱) نازل ہوئیں اور ابن عباس کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بیان ہے کہ ایک چوتھائی قرآن اہل بیت(ع) کے متعلق نازل ہوا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اہلبیت(ع) اور قرآن ایک جڑکی دوشاخین ہیں جو کبھی جدا نہیں ہوسکتیں۔ ہم انہیں چند آیتوں پر بس کرتے ہیں۔ انھیں میں غور فرمائیے آپ پر حقیقت و امر واقع بخوبی واضح ہوجائے گا۔

                                                                                                                                                                             ش

--------------

۱ ـ جیسا کہ ابن عساکر نے ابن عباس سے روایت کی ہے ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب ۹، فصل ۳ صفحہ۲۔

۹۵

مکتوب نمبر۷

جناب مولانائے محترم ! تسلیم

گرامی نامہ سبب عزت افزائی ہوا۔ سبحان اﷲ آپ کے زور بیان قوتِ تحریر کی داد نہیں دی جاسکتی۔ آپ نے جتنی باتیں تحریر فرمائیں ان میں کسی کا مجال تکلم نہیں جو کچھ آپ نے لکھا صحیح لکھا البتہ ایک کھٹک دل میں رہی جاتی ہے۔ اعتراض کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ جنھوں نے اہل بیت(ع) کے متعلق ان آیات کے نازل ہونے کی روایت کی ہے وہ شیعہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں حضرات اہل سنت کے لیے حجت نہیں۔ براہ کرم اس اعتراض کا دفعیہ فرمائیے۔

                                                                     س

۹۶

جواب مکتوب

محترمی تسلیم!

آپ نے جو اعتراض پیش کیا وہ درست نہیں۔ اعتراض کے دونوں ٹکڑے غلط ہیں۔ یہ بھی کہ جنھوں نے ان آیات کے شانِ نزول کےمتعلق روایت کیا ہے وہ شیعہ تھے اور یہ بھی کہ شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں حضرات اہل سنت کے لیے حجت نہیں۔ اعتراض کا پہلا حصہ تو یوں درست نہیں کہ ان آیات کے شانِ نزول کے متعلق صرف شیعوں ہی نے روایت نہیں کی بلکہ معتبر و موثق علماء اہل سنت نے بھی روایتیں کی ہیں ۔ ان کی سنن اور مسانید اٹھا کر دیکھیے آپ کو نظر آئے گا کہ انھوں نے ان روایتوں  کو شیعوں سے کہیں زیادہ طریقوں سے ذکر کیا ہے۔ اگر شیعہ علماء نے کسی آیت کے متعلق چار طریقوں سے روایت کی ہے کہ یہ آیت اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئی تو حضرات اہل سنت نے دس طریقوں سے روایت کی ہے۔

رہ گیا اعتراض کا دوسرا ٹکڑا کہ شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں اہلسنت کے لیے حجت نہیں تو یہ اور بھی غلط ہے جیسا کہ علماء اہلسنت کی کتب حدیث گواہ ہیں حضرات اہل سنت کے طریق و اسناد میں ایک دو نہیں بکثرت شیعہ راوی ملتے ہیں۔ اور شیعہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ نامی گرامی ، جن کی شیعیت  سے دنیا واقف ہے۔وہ شیعہ جنھیں برا کہا جاتاہے، گمراہ سمجھا جاتا ہے ، رافضی کہہ کر پکارا  جاتا ہے۔ انھیں شیعوں کی روایتیں آپ کے صحاح ستہ میں بھی موجود ہیں اور ان کے علاوہ دیگر حدیث کی کتابوں میں بھی۔ خود امام بخاری کے شیوخ میں بہت سے ایسے شیعوں کے نام ملتے ہیں

۹۷

 جنھیں رافضی مخالف وغیرہ کہا جاتا ہے مگر پھر بھی امام بخاری نے ان سے استفادہ کیا ، ان سے روایتیں لیں۔ امام بخاری نے بھی ان کی روایت کردہ حدیثیں اپنی صحیح میں درج کی ہیں اور دیگر اصحاب نے بھی۔ ان تمام حقائق کے باوجود یہ کہنا کس طرح درست ہوسکتا ہے کہ شیعوں کی روایت حضرات اہلسنت کے لیے حجت نہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والوں کو حقیقت کا علم ہی نہیں۔ اگر معترضین اس حقیقت کو ذہن نشین کر لیں کہ شیعہ اہلبیت(ع) کے پیرو انھیں کے اصولوں کے پابند اور ان کے اوصاف و محاسن کو پرتو ہیں اندازہ ہو کہ وہ کس قدر اعتماد و اعتبار کے لائق ہیں لیکن ناواقف نے ایک اشتباہ کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے کس قدر لائق ماتم ہے یہ امر کہ محمد بن یعقوب کلینی ایسے بزرگ جنھیں دنیا ثقتہ الاسلام کے لقب سے یاد کرتی ہے محمد بن علی بن بابویہ القمی جو مسلمانوں کے صدوق کہے جاتے ہیں، محمد بن حسن طوسی جنھیں شیخ الامہ کہا جاتا ہے محض شیعیت کے جرم میں معترضین کے نزدیک اعتبار کے قابل نہ سمجھے جائیں اور ان کی پاکیزہ صفات جو علوم آلِ محمد(ص) کا خزینہ ہیں حقارت کی نظر سے دیکھی جائیں ایسے بزرگوں کے متعلق شک وشبہ سے کام لیا جائے جو جامع علوم و کمالات تھے۔ روئے زمین پر قطب و ابدال کی حیثیت رکھتے تھے جنھوں نے خدا و رسول(ص) کی اطاعت احکامِ الہی کی تبلیغ و اشاعت مسلمانوں  کی خیر خواہی و رہبری میں اپنی عمریں تمام کردیں۔

معمولی سے معمولی شخص واقف ہے کہ یہ مقدس حضرات جھوٹ کو کتنا بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنی ہزاروں کتابوں میں جھوٹوں پر لعنت کی ہے اور صراحت کی ہے کہ حدیثِ پیغمبر(ص) میں جھوٹ بولنا ہلاکت و عذاب دائمی کا سبب ہے حدیث میں جھوٹ بولنا تو اتنا بڑا گناہ سمجھا ہے ان لوگوں نے کہ روزہ توڑ دینے

۹۸

 والی چیزوں میں قرار دیا ہے۔ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان میں عمدا جھوٹی حدیث بیان کرے تو ان حضرات کا فتوی ہے کہ اس شخص کا روزہ باطل ہوگیا۔ اس پر روزہ کی قضا بھی لازم ہے اور کفارہ بھی دینا ضروری ہے جس طرح دیگر مفطرات کا حکم ہے بعینہ جھوٹی حدیث بیان کرنے کا بھی۔ جب کذب کو وہ ایسا امر عظیم سمجھتے ہیں تو خدا را انصاف سے فرمائیے کہ خود ایسے حضرات کے متعلق جو صالحین و ابرار عابد شب زندہ دار ہوں ایسا وہم و گمان بھی کیا جاسکتا ہے؟

ہائے ہائے ! شیعیانِ آل محمد(ص) اہل بیت(ع) کے پیرو متہم سمجھے جائیں اور ان کی بیان کی ہوئی حدیثوں پر کذب و افترا کا شک وشبہ کیا جائے۔ ان کے اقوال ٹھکرا دینے کے قابل سمجھے جائیں اور خارجی ناصبی خدا کو مجسم ماننے والے افراد کی حدیثیں سر آنکھوں پر رکھی جائیں۔ وہ جو کچھ بیان کریں آمنا و صدقنا کہہ کر تسلیم کر لیا جائے اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ سمجھی جائے۔ یہ تو کھلی ہوئی نا انصافی صریحی جفا پروری ہے۔ خدا محفوظ رکھے۔

                                                                     ش

۹۹

مکتوب نمبر۸

حضرت مولانائے محترم ! تسلیم!

آپ کا تازہ مکتوب موصول ہوا۔ آپ کی تحریر اتنی متین، دلائل سے پر اور حقائق سے لبریز تھی کہ میرے لیے چارہ کار ہی نہیں سوا اس کے کہ جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا ہے ایک ایک لفظ تسلیم کرلوں۔ البتہ جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرات اہل سنت نے بکثرت شیعہ راویوں سے روایتیں لی ہیں، اسے آپ نے بہت مجمل رکھا۔ آپ کو ذرا تفصیل سے کام لینا چاہیے تھا۔ مناسب تھا کہ آپ ان شیعہ راویوں کے نام بھی تحریر فرماتے نیز ان کی شیعیت کے متعلق حضرات اہل سنت کا اقرار بھی ذکر کرتے۔ امید ہے کہ آپ میرا مقصد سمجھے گئے ہوں گے۔

                                                                             س

۱۰۰

جوابِ مکتوب

محترمی سلام مسنون!

بہتر ہے میں مختصرا حروفِ تہجی کی ترتیب سے ان شیعہ راویوں کے اسمائے گرامی تحریر کرتا ہوں جن کی روایت کردہ حدیثیں آپ کے یہاں صحاح و دیگر سنن و مسانید میں موجود ہیں۔

ا : ابان بن تغلب بن رباح قاری کوفی

علامہ ذہبی ان کے حالات میں لکھتے ہیں :

“ ابان بن تغلب کوفہ کے رہنے والے تھے اور بڑے کٹر شیعہ ہیں لیکن صدوق ہیں۔ ہمیں ان کی سچائی سے غرض ہے ان کی بدعت کا بار ان کے سر ہے احمد بن حنبل ، ابو حاتم اور ابن معین نے انھیں موثق قرار دیا ہے۔ ابن عدی نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ بڑے غالی شیعہ تھے۔ ان سے امام مسلم او ابو داؤد و ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ نے حدیثیں روایت کی ہیں آپ کا انتقال سنہ141ھ میں ہوا۔

ابراہیم بن یزید بن عمرو بن اسود بن عمرو نخعی کوفی

علامہ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔

۱۰۱

ان کی حدیثیں صحیح بخاری ، مسلم دونوں میں موجود ہیں۔ ان کی پیدائش سنہ50ھ اور انتقال سنہ95ھ یا سنہ96ھ میں حجاج کے مرنے کے چار مہینے کے بعد ہوا۔

احمد بن مفضل ابن کوفی حفری

ان سے ابوذرعہ و ابو حاتم نے روایت کی اور ان کی بیان کی ہوئی حدیث سے اپنے مسلک پر دلیل پیش کی ہے حالانکہ ابوزرعہ و ابو حاتم نے ان کی شیعیت کی صراحت بھی کی ہے۔ علامہ ذہبی نے ابوحاتم کا یہ فقرہ احمد بن مفضل کے متعلق نقل کیا ہے کہ احمد بن مفضل رؤساء شیعہ میں سے تھے اور صدوق تھے ان کی روایت کردہ حدیثیں سنن ابی داؤد ، سنن نسائی دونوں میں موجود ہیں۔

اسماعیل بن ابان

امام بخاری کے شیخ ہیں۔ بخاری و ترمذی دونوں نے ان کی حدیث سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے جیسا کہ علامہ ذہبی نے تحریر کیا ہے۔ علامہ ذہبی نے یہ بھی ان کے متعلق لکھا ہے کہ یحی و احمد نے ان سے حدیثیں لی ہیں۔ اور بخاری نے انھیں صدوق کہا ہے۔ امام بخاری نے متعدد جگہ صحیح بخاری میں بلاواسطہ ان کی حدیثیں ذکر کی ہیں۔

اسماعیل بن خلیفہ ملائی کوفی

ان کی کنیت ابو اسرائیل ہے اور اسی کے ساتھ مشہور بھی ہیں۔ علامہ ذہبی نے ان کا تذکرہ میزان الاعتدال میں ان الفاظ میں کیا ہے۔ کہ بڑے متعصب شیعہ اور ان لوگوں میں سے تھے جو عثمان کو کافر کہتے ہیں اور بھی بہت

۱۰۲

 کچھ ان کے متعلق لکھا ہے لیکن ان سب کے باوجود ترمذی نے اور دیگر اصحابِ سنن نے ان سے روایت کی ہے۔ ابوحاتم نے ان کی حدیثوں کو حسن کہا ہے۔ ابوزرعہ نے کہا ہے کہ صدوق ہیں اگر چہ خیالات غالیانہ تھے امام احمد نے کہا ہے کہ ان کی حدیثیں درج کرنے کے قابل ہیں۔ ابن معین نے ثقہ کہا۔ فلاس نے کہا یہ جھوٹ بولنے والوں میں نہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح ترمذی میں موجود ہیں۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔

اسماعیل ابن زکریا خلقانی کوفی

ذہبی نے میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھا ہے کہ صدوق ہیں اور شیعہ ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جن سے صحاح ستہ میں حدیثیں لی گئی ہیں۔ ان کی حدیث بخاری اور مسلم میں موجود ہے۔ سنہ 174ھ میں بغداد میں انتقال کیا۔

اسماعیل بن عباد بن عباس طالقانی

صاحب بن عباد کے نام مشہور ہیں ابو داؤد و ترمذی نے ان سے روایتیں لی ہیں۔ جیسا کہ امام ذہبی نے میزان میں صراحت کی ہے نیز یہ بھی لکھا ہے کہ بڑے با کمال ادیب اور شیعہ تھے۔ ان کی شیعیت میں کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا اور شیعیت ہی کی وجہ سے سلطنت بویہہہ  کی وزارت عظمی پر فائز ہوئے۔ یہ پہلے وہ شخص ہیں جو صاحب کے لقب سے ملقب ہوئے اس لیے کہ یہ موید الدولہ بن بویہ کے جوانی کے زمانہ سے مصاحب رہے اور

۱۰۳

 موید الدولہ ہی نے ان کا نام صاحب رکھا اور برابر سی نام سے پکارے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ اسی نام سے مشہور ہوگئے اور ان کے بعد جو شخص وزارت کے درجہ پر آیا وہ بھی صاحب ہی کے نام سے پکارا گیا۔ یہ پہلے موید الدولہ کے وزیر رہے اس کے مرنے پر اس کے بھائی فخر الدولہ نے بھی انھیں وزارت عظمی پر برقرار رکھا۔ جب ان کا انتقال ہوا ( 24 صفر سنہ385ھ میں 95 برس کی عمر میں) تو شہر رے  کے دروازے بند ہوگئے اور تمام لوگ ان کے مکان پر آکر جنازہ کا انتظار کرنے لگے خود بادشاہ فخرالدولہ اور وزراء، و سروران فوج جنازہ میں ساتھ ساتھ تھے۔ یہ بڑے جلیل القدر عالم اور گرانقدر کتب و رسائل کے مصنف شخص تھے۔

اسماعیل بن عبدالرحمن بن ابی کریمہ مشہور مفسر

جو سدی کے نام سے شہرت رکھتے ہیں

علامہ ذہبی نے ان کے حالات میں لکھا ہے کہ متہم بالتشیع ہیں اور حسین بن واقد مروزی سے اس کی بھی روایت کی ہے کہ انھوں نے ابوبکر و عمر کو سب و شتم کرتے سنا تھا مگر ان سب کے باوجود ثوری ابوبکر بن عباس و غیرہ نے ان سے حدیثیں لیں اور امام مسلم و ترمذی و ابوداؤد ، ابن ماجہ، نسائی صاحبانِ صحاح نے ان کی حدیثیں اپنے مسلک کی تائید میں درج کی ہیں۔ امام احمد نے انھیں ثقہ، ابن عدی نے  صدوق کہا ہے۔ یحی بن سعید کا قول ہے کہ میں نے ہر ایک کو دیکھا کہ وہ سدی کو اچھا ہی کہتا ہے اور سبھی نے اس سے حدیثیں لی ہیں سنہ127ھ میں انتقال کیا ہے۔

۱۰۴

اسماعیل بن موسی فزاری کوفی

علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ان کے حالات میں لکھا ہے کہ ابن عدی ان کے متعلق کہتے تھے کہ شیعیت میں بہت زیادہ غلو رکھنے کی وجہ سے لوگ انھیں ناپسند کرتے تھے اور عبدان بیان  کرتے تھے کہ ہناد اور ابن شیبہ ہمارا اسماعیل کے  پاس جانا پسند نہیں کرتے تھے اور کیا کرتے تم لوگ اس فاسق کے پاس جاکر کیا کرتے ہو جو بزرگوں کو سب وشتم کیا کرتاہے۔ ان سب کے باوجود ابن خزیمہ، ابو عرویہ اور بہت سے لوگوں نے ان سے حدیث کا استفادہ کیا اور یہ اس طبقہ کے شیخ تھے جیسے ابوداؤد و ترمذی وغیرہ۔ ان سب حضرات نے ان سے حدیث لی اور اپنے اپنے صحیح میں درج کی۔ ابوحاتم نے انھیں صدوق کہا ہے۔ نسائی نے کہا ہے کہ کوئی مضائقہ نہیں ان سے حدیث لینے میں۔ سنہ245ھ میں انتقال کیا۔ بعض لوگ انھیں سدی کا نواسہ بتاتے ہیں۔

ت :

 تلید بن سلیمان کوفی

ابن معین نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ یہ عثمان کوسب وشتم کیا کرتے تھے۔ بعض عثمانیوں نے سن لیا۔ انھوں نے اسے تیر مارا جس سے ان کا پیر ٹوٹ گیا۔ ابوداؤد نے ان کے متعلق کہا کہ یہ رافضی ہیں۔ ابوبکر و عمر کو سب وشتم کیا کرتے تھے مگر ان سب کے باوجود احمد و ابن نمیر نے ان سے

۱۰۵

تحصیل حدیث کی۔ امام  احمد نے ان کے متعلق کہا کہ تلید شیعہ ہیں مگر ان سے حدیث لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ صحیح ترمذی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ث :

  ثابت بن دینار

جو ابوحمزہ ثمالی کے نام سے مشہور ہیں ان کی شیعیت اظہر من الشمس ہے۔ ترمذی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ثوبر بن ابی فاختہ

ام ہانی بنت ابی طالب کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ذہبی نے ان کے رافضی ہونے  کی صراحت کی ہے۔ امام محمد باقر(ع) کے عقیدت مندوں میں تھے ترمذی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ج :

 جابر بن یزید جعفی کوفی

علامہ ذہبی نے ان کے حالات میں لکھا ہے کہ یہ علماء شیعہ میں سے تھے۔ نیز سفیان سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے جابر کو کہتے سنا۔ علم پیغمبر(ص) سے علی(ع) کی طرف منتقل ہوا اور علی(ع) سے حسن(ع) کی طرف۔ ایک امام سے دوسرے امام تک منتقل ہو کر امام جعفر صادق(ع) تک پہنچا

۱۰۶

یہ امام جعفر صادق(ع) کے زمانہ میں تھے اور آپ نے بکثرت حدیثیں حاصل کیں چنانچہ خود جابر کہا کرتے تھے کہ میرے پاس ستر ہزار حدیثیں امام محمد باقر(ع) کی روایت کردہ ہیں۔ جابر جب امام محمد باقر(ع) سے  کوئی حدیث روایت کر کے بیان کرتے تھے تو کہتے مجھ سے وصی الانبیاء نے بیان کیا۔ علامہ ذہبی نے میزان میں زائدہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جابر رافضی ہیں۔ سب و شتم کیا کرتے ہیں، ان سے امام ابو داؤد وترمذی ، نسائی نے حدیثیں روایت کی ہیں۔ سفیان ثوری نے انھیں حدیث میں بہت محتاط کہا ہے۔ شیعہ نے صدوق قرار دیا ہے۔ وکیع نے ثقہ کہا ہے سنہ 127ھ میں انتقال کیا۔

جریر بن عبدالحمید جنبی کوفی

علامہ ابن قتیبہ نے اپنی کتاب معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال کا تذکرہ کرتے ہوئے بڑی حمدو ثنا کی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ جریر اہل رے کے عالم اور صدوق ہیں اور ان کے اقوال سے کتابوں میں استدلال کیا جاتا ہے اور ان کے ثقہ ہونے پر جملہ محدثین کا اجماع و اتفاق ہے۔ ان کی حدیثیں صحیح بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہیں سنہ178ھ میں انتقال کیا۔

جعفر بن زیاد احمر کوفی

امام ابوداؤد نے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ صدوق ہیں اور شیعہ ہیں۔ ابن عدی نے انھیں صالح اور شیعہ لکھا ہے۔ ابن معین نے ثقہ، امام احمد نے صالح الحدیث فرمایا ہے۔ صحیح ترمذی و سنن نسائی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

۱۰۷

 سنہ 167ھ میں انتقال کیا۔

جعفر بن سلیمان ضبعی بصری

علامہ ابن قتیبہ نے معارف صفحہ 206 میں انھیں مشاہیر شیعہ میں لکھا ہے ابن سعد نے ان کی شیعیت اور ثقہ ہونے کی تصریح کی ہے۔ ابن عدی ان کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ شیعہ ہیں ۔ میں توقع کرتا ہوں کہ ان کوئی حرج نہیں اور ان کے حدیثیں قابل انکار نہیں اور میرے نزدیک اس قابل ہیں کہ ان کی حدیثیں قبول کی جائیں۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں انھیں راہد علمائے شیعہ میں سے لکھا ہے ان کی حدیثیں صحیح مسلم و نسائی میں موجود ہیں سنہ179ھ میں انتقال کیا۔

جمیع بن عمیرہ بن ثعلبہ کوفی تیمی

میزان الاعتدلال میں ہے کہ ان کے متعلق ابو حاتم کا یہ فقرہ ہے کہ صالح الحدیث اور شرفا الشیعہ سے ہیں۔ جامع ترمذی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ح :

  حارث بن حصیرہ کوفی

ابوحاتم رازی، ابو احمد زبیری، ابن عدی ، یحی بن معین ، امام نسائی وغیرہ نے ان کی شیعیت کی تصریح بھی کی ہے اور ان کے ثقہ ہونے کا بھی اقرار کیا ہے۔ علامہ ذہبی نے انھیں صدوق لکھا ہے۔ امام نسائی نے ان سے حدیثیں لی ہیں۔

۱۰۸

حارث بن عبداﷲ ہمدانی

صحابی و حواری امیرالمومنین(ع) ، ابن قتیبہ نے مشاہیر شیعہ میں پہلے ان کا ہی نام لکھا ہے۔ ذہبی نے لکھا ہے کہ یہ کبار علماء تابعین سے تھے اور ابن حبان انھیں بہت غالی شیعہ کہا کرتے تھے۔ جمہور اہلسنت انھیں اسی شیعیت کی وجہ سے بہت دشمن رکھتے تھے مگر باوجود اس کے ان کے علم  و فضل اور ثقہ ہونے سے کسی کو انکار نہیں۔ سنن ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ وابو داؤد میں ان  کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ65ھ میں انتقال کیا۔

حبیب بن ابی ثابت اسدی

کوفہ کو رہنے والے اور تابعی ہیں۔ ابن قتیبہ نے معارف میں شہرستانی نے ملل و نحل میں انھیں مشاہییر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ ان سے جملہ اربابِ صحاح ستہ نے بلا تردد روایتیں لی ہیں۔ سنہ 119ھ میں انتقال کیا۔

حسن بن حیَ

علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھتے ہیں یہ اجلہ علماء میں سے ہیں اور ان میں شیعیت کی بدعت موجود تھی۔ نماز جمعہ میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ ظالم حکام پر خروج جائز جانتے تھے۔ عثمان  پر ترس نہیں کھاتے تھے۔ ابن سعد نے طبقات جلد6 میں ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ثقہ ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح ہیں اور یہ شیعہ تھے۔ ابن قتیبہ نے بھی ان کی شیعیت کی تصریح کی ہے۔ صحیح مسلم اور دیگر سنن میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ100 ھ میں پیدا اور سنہ199ھ

۱۰۹

 میں انتقال کیا۔

حکم بن عتیبہ کوفی

ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ115ھ میں انتقال کیا۔

حماد بن عیسیٰ

صاحب منتہی المقال و غیرہ نے انھیں علماء شیعہ میں سے لکھا ہے اور ہر ایک نے انھیں ثقہ و معتمد سمجھا ہے۔  و امام موسی کاظم(ع) کے اصحاب میں سے ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ترمذی اور دیگر سنن میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

حمران بن اعین

مشہور ترین صحابی امام محمد باقر(ع) و امام جعفر صادق(ع) ۔ سنن ابی داؤد و غیرہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

خ :

  خالد بن مخلد قطوانی کوفی

امام بخاری کے شیخ الحدیث ہیں۔ علامہ ابن سعد نے طبقات جلد6 صفحہ283 میں اور امام ابو داؤد نے انھیں شیعہ اور صدوق لکھا ہے۔ امام بخاری و مسلم دونوں

۱۱۰

 نے ان کی حدیثیں اپنی صحیح میں درج کی ہیں اور بھی دیگر اصحاب سنن نے ان کی شیعیت سے واقف ہوتے ہوئے ان کی حدیثوں سے کام لیا ہے۔

ز :

  زبید بن حارث بن عبدالکریم کوفی

علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کے حالات میں لکھتے ہیں کہ یہ ثقات تابعین مین سے ہیں اور ان میں تشیع تھا۔ اس کے بعد ذہبی نے بہت سے علماء و محدثین کے اقوال ان کے ثقہ ہونے کے متعلق نقل کیے ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں موجود ہیں۔ سنہ124ھ میں انتقال کیا۔

زید بن الحباب کوفی تمیمی

ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں ذکر کیا ہے اور علامہ ذہبی نے انھیں عابد ، ثقہ اور صدوق لکھا ہے اور ان کے ثقہ و صدوق ہونے کے متعلق دیگر بہت سے علماء کے اقوال نقل کیے ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح  مسلم میں موجود ہیں۔

س :

 سالم بن ابی الجعد اشجعی کوفی

ابن سعد نے طبقات جلد6 صفحہ203 میں ابن قتیبہ نے معارف صفحہ156

۱۱۱

علامہ شہرستانی نے ملل و نحل جلد2 صفحہ27 میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے علامہ ذہبی نے انھیں ثقات تابعین میں لکھا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم دونوں میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

سالم بن ابی حفصہ عجلی کوفی

علامہ شہرستانی نے ملل و نحل میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں اور علامہ ابن سعد نے طبقات جلد6 صفحہ 234 میں ان کی شدت تشیع کی کیفیت ذکر کی ہے۔ ان کی حدیثیں جامع ترمذی میں موجود ہیں۔ سنہ137ھ میں انتقال کیا۔

سعد بن طریف الاسکاف حنظلی کوفی

علامہ ذہبی نے علماء محدثین کے اقوال ان کے تشیع کے متعلق درج کیے ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح ترمذی میں موجود ہیں۔

سعید بن اشوع

علامہ ذہبی نے  میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ کوفہ کے قاضی تھے اور مشہور صدوق ہیں۔ امام نسائی نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ ان میں کوئی خرابی نہ تھی۔ جو زجانی نے کہا ہے کہ یہ بڑے غالی اور شیعیت میں حد سے بڑے ہوئے تھے۔ صحیح بخاری و مسلم دونوں میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

۱۱۲

سعید بن خیثم

یحی بن معین سے ان کے متعلق پوچھا گیا کہ سعید بن خیثم شیعہ ہیں آپ ان کے متعلق کیا فرماتے ہیں۔ انھوں نے کہا شیعہ ہوں گے مگر ہیں ثقہ جامع ترمذی و سنن نسائی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

سلمہ بن الفضل الابرش

   رے کے قاضی تھے۔ ان کی شیعیت کی علماء نے صراحت کی ہے مگر ارباب صحاح نے ان سے حدیثیں لی ہیں۔ چنانچہ جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

سلمہ بن کمیل بن حصین حضرمی

علامہ قتیبہ نے معارف صفحہ 206 میں، علامہ شہرستانی نے ملل و نحل جلد2 صفحہ27 میں ان کو مشاہیر شیعہ میں لکھا ہے۔ جملہ ارباب صحاح ستہ نے ان کی حدیثوں سے کام لیا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں سنہ 121ھ میں انتقال کیا۔

سلیمان بن صرد خزاعی کوفی

شیعیان عراق کے بزرگ ترینِ فرد اور مرجع مومنین بزرگ تھے۔ انتقام خون حسین(ع) لینے والوں کے راس و رئیس اور قائد بھی تھے۔ جملہ ارباب سیر و تاریخ نے ان کے علم و فضل زہد و ورع عبادت کا فراخ دلی سے تذکرہ کیا ہے

۱۱۳

 جنگِ صفین میں امیرالمومنین(ع) کے ہمراہ تھے۔ دشمنان اہل بیت(ع) کو گمراہ سمجھتے تھے ان کی حدیثیں صحیح مسلم و صحیح بخاری دونوں میں موجود ہیں۔

سلیمان بن طرخان تیمی بصری

ابنِ قتیبہ نے اپنی کتاب معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں ذکر کیا ہے ان کی حدیثوں سے اربابِ صحاح نے بھی کام جلیا ہے اور دیگر محدثین بے بھی صحیح بخاری و مسلم دوںوں میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ 143ھ میں انتقال کیا۔

سلیمان بن قرم بن معاذضبی کوفی

علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ان کے متعلق ابن حبان کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ بڑے غالی رافضی تھے اور ابن عدی نے ان کے متعلق یہ کہا ہے کہ ان کی حدیثیں عمدہ ہیں۔ صحیح مسلم، سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی میں ان کی حدیثیں  موجود ہیں۔

سلیمان بن مہران کاہلی کوفی مشہور بہ اعمش

یہ بزرگان شیعہ سے ایک جلیل القدر فرد اور کبار محدثین میں نامور بزرگ ہیں بہت سے محققین علماء اہل سنت مثلا ابن قتیبہ نے اپنی معارف میں اور علامہ شہرستانی نے اپنی ملل ونحل میں اور دیگر حضرات نے ان کی شیعہ ہونے کی صراحت کی ہے۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں جوزجانی کا یہ فقرہ نقل کیا ہے کہ باشندگان کوفہ میں سے ایک جماعت ایسی تھی کہ لوگ ان کے عقائد و مذہب کو ناپسند سمجھتے تھے۔ مگر وہی حضرات محدثین کوفہ کے راس و رئیس تھے

۱۱۴

 مثلا ابو اسحاق منصور زبید یامی اور اعمش اور انھیں جیسے دیگر حضرات کو ان کے سچے ہونے کی وجہ سے ان کی حدیثوں کو لوگوں نے سر آنکھوں پر رکھا جو زجانی  کا یہ فقرہ جس قدر رکیک اور ان کے تعصب کا مظہر ہے پوشیدہ نہیں۔ ناصبی لوگوں نے ان بزرگوں کے مذہب و عقائد کو جو پسند نہیں کیا تو محض اس جرم کی وجہ سے کہ یہ حضرات اہل بیت(ع) کی محبت دل میں رکھ کر ان کے دامن سے متمسک ہوکر اجر رسالت پیغمبر(ص) ادا کرتے تھے۔ ناصبی افراد نے ان کی حدیثوں کو سر آنکھوں پر جو رکھا تو محض اس وجہ سے نہیں کہ یہ حضرات سچے تھے بلکہ اس لیے کہ بغیر ان کی طرف رجوع کیے ہوئے کوئی چارہ کار نہ تھا۔ اگر ایسے حضرات کی حدیثیں یہ ناصبی لوگ ٹھکرا دیتے تو پیغمبر(ص) کی ساری حدیثیں ہوا ہوجاتیں۔ سنن و آثار پیغمبر(ص) کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ جیسا کہ خود علامہ ذہبی نے ابان بن تغلب کے تذکرہ کے سلسلہ میں اعتراف کیا ہے۔

اعمش کے چند عجیب و غریب نوادر ہیں جو ان کی جلالت و قدر کا ظاہر کرتے ہیں چنانچہ علامہ ابن خلکان ان کے حالات میں یہ واقعہ لکھتے ہیں کہ خلیفہ ہشام بن عبدالملک نے ان  کے پاس اپنا قاصد بھیجا کہ عثمان کے فضائل اور علی(ع) کی برائیاں مجھے لکھ بھیجو۔ اعمش نے ہشام کا خط لے کر بکری کے منہ میں دے دیا اور وہ اس خط کو چبا گئی اور قاصد سے کہا جا کر ہشام سے کہہ دینا کہ تمہارے خط کا یہی جواب ہے۔ قاصد نے  کہا کہ ہشام نے  قسم کھائی تھی کہ اگر میں تمہارا جواب لے کر نہ گیا تو مجھے قتل کر ڈالے گا۔ قاصد نے اعمش کے اعزہ و احباب سے بھی سفارش کرائی۔ جب سب نے اصرار کیا تو انھوں نے جواب میں لکھا۔

     “ اگر دنیا بھر کے لوگوں کے فضائل عثمان کو حاصل ہوجائیں اور

۱۱۵

 دنیا بھر کے لوگوں کی برائیاں علی(ع) میں اکٹھا ہوجائیں تو تمہیں کیا ؟تم اپنے آپ کو دیکھا کرو۔”

علامہ بن عبدالبر نے ان کا ایک واقعہ یہ نقل کیا ہے کہ فضل بن موسی بیان کرتے تھے کہ امام ابو حنیفہ کے ہمراہ اعمش کی عیادت کو گیا ابو حنیفہ نے کہا اے ابو محمد (اعمش) اگر تمہارے بارِ خاطر نہ ہوتا تو میں جتنی بار تمہاری عیادت کو آتا ہوں اس سے زیادہ آتا۔ اعمش نے کہا کہ خدا کی قسم جب تم اپنے گھر میں ہوتے ہو تو بھی میرے لیے بارگراں ہوتے ہو جب میرے پاس ہوگے تو میرا کیا حال ہوگا؟

ایک اور ان کا واقعہ شریک بن عبداﷲ قاضی کی زبانی ہے۔ شریک کہتے ہیں کہ میں اعمش کے مرض الموت میں ان کے پاس حاضر تھا کہ اتنے میں ابن شبرمہ اور ابن ابی لیلیٰ اور امام ابوحنیفہ ان کی عیادت کو آئے۔ لوگوں نے ان کی مزاج پرسی کی، انھوں نے انتہائی کمزوری و نقاہت کا ذکر کیا۔ اپنی خطاؤں پر اپنی ہراسانی ظاہر کی اور کچھ آب دیدہ سے ہوگئے۔ امام ابو حنیفہ مڑے اور انھوں نے فرمایا : اے ابو محمد! خدا سے ڈریے اور اپنے اوپر ترس کھائیے۔ آپ حضرت علی(ع) کے متعلق ایسی حدیثیں بیان کرتے تھے اگر آپ ان سے توبہ کرلیتے تو آپ کے لیے اچھا ہوتا۔ اعمش نے کہا۔ تم میرے ایسے شخص کے  لیے ایسی بات کہتے ہو اور خوب سخت و سست سنایا۔ مختصر یہ کہ اعمش بڑے ثقہ و معتمد عالم و فاضل بزرگ تھے۔ ان کے صدق و عدالت تقوی و پرہیزگاری پر سب کا اتفاق ہے۔ جملہ ارباب صحاح و غیرہ نے ان کی روایت کردہ حدیثوں سے کام لیا ہے۔

صحیح بخاری ، صحیح مسلم سب ہی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ61 ھ میں پیدا ہوئے۔ سنہ148ھ میں انتقال کیا۔

۱۱۶

ش :

 قاضی شریک بن عبداﷲ بن سنان بن انس نخعی کوفی

ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں ذکر کیا ہے۔ میزان الاعتدال علامہ ذہبی میں بہ ذیل حالاتِ شریک مذکور ہے۔ عبداﷲ بن ادریس خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ شریک شیعہ ہیں۔ اسی میزان میں یہ بھی ہے کہ ابو داؤد درہاوی روایت کرتے ہیں کہ ہم نے شریک کو کہتے سنا کہ :

                     “ علی خير البشر           فمن ابی فقد کفر

                     “ علی(ع) تمام خلائق میں سب سے بہتر ہیں جس نے اس کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا۔”

مطلب یہ ہے کہ حضرت علی(ع) بعد رسول اﷲ(ص) سب سے بہتر ہیں۔ شریک منجملہ ان حضرات کے ہیں جنھوں نے امیرالمومنین(ع) کے نص خلافت کی حدیثیں روایت کی ہیں چنانچہ میزان الاعتدال میں ایک مرفوع حدیث ابوہریرہ سے ہے:۔

“لکل نبی وصی و وارث                   وان عليا وصيی و وارثی”

 “ ارشاد فرمایا پیغمبر(ص) نے کہ ہر نبی کا وصی و وارث ہوا کرتا ہے اور علی(ع) میرے وصی و وارث ہیں۔”

یہ شریک امیرالمومنین(ع) کے فضائل و مناقب کی نشر و اشاعت میں بڑے مستعد و سرگرم اور آپ کے فضائل و مناقب بیان کر کے بنوامیہ کو خوب زچ کیا کرتے تھے۔

۱۱۷

مورخ ابن خلکان نے اپنی کتاب و فیات الاعیان میں بسلسلہ حالاتِ شریک کتاب درة الغواص سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ:

             “ ایک اموی شخص شریک کی صحبت میں اٹھا بیٹھا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ شریک نے حضرت علی(ع) کے فضائل بیان کیے۔ اس پر اموی نے  کہا : “ نعم الرجل علی” اچھے شخص تھے علی(ع)۔” اس پر شریک کو غصہ آگیا اور بگڑ کر کہنے لگے کہ کیا علی(ع) کے لیے بس یہی کہہ دینا کافی ہے؟ نعم الرجل” اچھے شخص تھے۔” اس سے زیادہ کچھ اور نہیں کہنے کو؟۔”

شریک کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد کسی کو بھی س میں ذرہ برابر شک و شبہ نہیں رہے گا کہ یہ دوستدارانِ اہلبیت(ع) میں سے تھے اور علماء اہلبیت(ع) سے بکثرت حدیثیں انھوں نے روایت کی ہیں۔ عبداﷲ بن مبارک ان کے متعلق کہا کرتے تھے کہ یہ سفیان سے زیادہ حدیث کے عالم ہیں اور دشمنانِ علی(ع) کے سخت ترین دشمن تھے اور انھیں بہت برا کہا کرتے۔ ایک مرتبہ عبدالسلام بن حزب نے شریک سے پوچھا کہ اپنے ایک بھائی کی عیادت کو چلتے ہو؟

پوچھا کون؟ عبدالسلام نے کہا مالک بن مغول۔ شریک نے کہا جو شخص علی(ع) و عمار کو عیب لگائے وہ میرا بھائی نہیں۔

ایک مرتبہ شریک کے سامنے معاویہ کا تذکرہ ہوا۔ لوگوں نے کہا معاویہ بڑے حلیم تھے۔ شریک نے کہا۔ جو شخص حق سے اعراض کرے اور علی(ع) سے جنگ کرے وہ حلیم ہرگز نہیں۔ انھیں شریک نے ہی یہ حدیث پیغمبر(ص) روایت کی ہے:

                     “ اذا رايتم معايه علی منبر فاقتلوه”

۱۱۸

             “ جب تم میرے پر معاویہ کو دیکھنا قتل کر ڈالنا”

مختصر یہ کہ ان کا شیعہ ہونا اظہر من الشمس ہے مگر باوجود  اس کے علامہ ذہبی نے انھیں حافظ و صدوق اور یکے از ائمہ کہا ہے اور ابن معین کا ان کے متعلق کے خاتمہ پر لکھا ہے کہ یہ منجملہ خزینہ داران علم تھے۔ ان سے اسحاق ارزق نے نو ہزار حدیثیں حاصل کیں۔ امام مسلم اور دیگر ارباب صحاح نے بھی ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدالال کیا ہے اور اپنے صحاح نے بھی ان کی روایتیں لی ہیں۔ خراسان یا بخارا میں سنہ95ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ177ھ میں انتقال کیا۔

شعبہ بن حجاج عتکی

محققین اہلِ سنت مثلا ابن قتیبہ نے معارف میں، شہرستانی نے ملل ونحل میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے ان کی حدیثیں صحیح بخاری و صحیح مسلم  و دیگر صحاح میں موجود ہیں۔ سنہ83ھ میں پیدا ہوئے سنہ 160ھ میں انتقال ہوا۔

ص :

  صعصعہ بن صوحان بن حجر بن حارث عبدی

ابن قتیبہ نے ( معارف صفحہ206) میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ابنِ سعد طبقات جلد6 صفحہ154 میں ان کے متعلق لکھتے ہیں:

     “ یہ کوفہ کے اصحاب خطط سے مقرر تھے اور حضرت علی(ع) کے

۱۱۹

 صحابی تھے۔ یہ صعصعہ اور ان کے بھائی زید اور سیحان جنگِ جمل میں حضرت علی(ع) کے ساتھ تھے۔ سیحان کے ہاتھ پہلے لشکر کا علم تھا، وہ قتل ہوگئے تو صعصعہ نے علم ہاتھوں میں لے لیا۔ صعصعہ نے حضرت علی(ع) اور عبداﷲ ابن عباس سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ یہ بڑے معتمد و موثق شخص تھے۔ مگر ان کی حدیثیں کم ہیں۔”

علامہ ابن عبدالبر استیعاب “ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عہد پیغمبر میں اسلام لائے مگر فصیح و بلیغ مقرر، زیرک و دانا، دیانت دار ، عالم و فاضل انسان تھے۔ حضرت علی(ع) کے صحابیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

یحٰی ابن معین ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ صعصعہ ، زید اور سیحان فرزندانِ صوحان سب کے سب خطیب تھے۔ زید و سیحان جنگ جمل میں شہید ہوئے عہد خلافت حضرت عمر میں ایک مشکل قضیہ در پیش ہوا، حضرت عمر نے لوگوں سے دریافت کیا۔ صعصعہ جو کم سن نوجوان تھے اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک پر مغز و مدلل تقریر کی جس میں تمام شک وشبہ دور کر دیا اور جو صحیح جواب تھا اسے بیان کیا۔ سب نے ان کے قول کو تسلیم کیا اور انھیں کی رائے اختیار کی غرض کہ بنی صحان سردارانِ عرب اور مرکز فضل و حسب تھے۔

علامہ ابن قتیبہ نے بھی اپنی کتاب معارف صفحہ 138 میں شہرہ آفاق معززین و شرفا اور مصاحبین سلطان کے سلسلہ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ زید بن صوحان کے فضائل میں پیغمبر(ص) کی ایک حدیث بھی درج کی ہے۔

علامہ عسقلانی اصابہ قسم ثالث میں صعصعہ بن صوحان کا ذکر کرتے

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639