دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)12%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272393 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

جوابِ مکتوب

محترمی سلام مسنون!

بہتر ہے میں مختصرا حروفِ تہجی کی ترتیب سے ان شیعہ راویوں کے اسمائے گرامی تحریر کرتا ہوں جن کی روایت کردہ حدیثیں آپ کے یہاں صحاح و دیگر سنن و مسانید میں موجود ہیں۔

ا : ابان بن تغلب بن رباح قاری کوفی

علامہ ذہبی ان کے حالات میں لکھتے ہیں :

“ ابان بن تغلب کوفہ کے رہنے والے تھے اور بڑے کٹر شیعہ ہیں لیکن صدوق ہیں۔ ہمیں ان کی سچائی سے غرض ہے ان کی بدعت کا بار ان کے سر ہے احمد بن حنبل ، ابو حاتم اور ابن معین نے انھیں موثق قرار دیا ہے۔ ابن عدی نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ بڑے غالی شیعہ تھے۔ ان سے امام مسلم او ابو داؤد و ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ نے حدیثیں روایت کی ہیں آپ کا انتقال سنہ۱۴۱ھ میں ہوا۔

ابراہیم بن یزید بن عمرو بن اسود بن عمرو نخعی کوفی

علامہ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔

۱۰۱

ان کی حدیثیں صحیح بخاری ، مسلم دونوں میں موجود ہیں۔ ان کی پیدائش سنہ۵۰ھ اور انتقال سنہ۹۵ھ یا سنہ۹۶ھ میں حجاج کے مرنے کے چار مہینے کے بعد ہوا۔

احمد بن مفضل ابن کوفی حفری

ان سے ابوذرعہ و ابو حاتم نے روایت کی اور ان کی بیان کی ہوئی حدیث سے اپنے مسلک پر دلیل پیش کی ہے حالانکہ ابوزرعہ و ابو حاتم نے ان کی شیعیت کی صراحت بھی کی ہے۔ علامہ ذہبی نے ابوحاتم کا یہ فقرہ احمد بن مفضل کے متعلق نقل کیا ہے کہ احمد بن مفضل رؤساء شیعہ میں سے تھے اور صدوق تھے ان کی روایت کردہ حدیثیں سنن ابی داؤد ، سنن نسائی دونوں میں موجود ہیں۔

اسماعیل بن ابان

امام بخاری کے شیخ ہیں۔ بخاری و ترمذی دونوں نے ان کی حدیث سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے جیسا کہ علامہ ذہبی نے تحریر کیا ہے۔ علامہ ذہبی نے یہ بھی ان کے متعلق لکھا ہے کہ یحی و احمد نے ان سے حدیثیں لی ہیں۔ اور بخاری نے انھیں صدوق کہا ہے۔ امام بخاری نے متعدد جگہ صحیح بخاری میں بلاواسطہ ان کی حدیثیں ذکر کی ہیں۔

اسماعیل بن خلیفہ ملائی کوفی

ان کی کنیت ابو اسرائیل ہے اور اسی کے ساتھ مشہور بھی ہیں۔ علامہ ذہبی نے ان کا تذکرہ میزان الاعتدال میں ان الفاظ میں کیا ہے۔ کہ بڑے متعصب شیعہ اور ان لوگوں میں سے تھے جو عثمان کو کافر کہتے ہیں اور بھی بہت

۱۰۲

 کچھ ان کے متعلق لکھا ہے لیکن ان سب کے باوجود ترمذی نے اور دیگر اصحابِ سنن نے ان سے روایت کی ہے۔ ابوحاتم نے ان کی حدیثوں کو حسن کہا ہے۔ ابوزرعہ نے کہا ہے کہ صدوق ہیں اگر چہ خیالات غالیانہ تھے امام احمد نے کہا ہے کہ ان کی حدیثیں درج کرنے کے قابل ہیں۔ ابن معین نے ثقہ کہا۔ فلاس نے کہا یہ جھوٹ بولنے والوں میں نہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح ترمذی میں موجود ہیں۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔

اسماعیل ابن زکریا خلقانی کوفی

ذہبی نے میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھا ہے کہ صدوق ہیں اور شیعہ ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جن سے صحاح ستہ میں حدیثیں لی گئی ہیں۔ ان کی حدیث بخاری اور مسلم میں موجود ہے۔ سنہ ۱۷۴ھ میں بغداد میں انتقال کیا۔

اسماعیل بن عباد بن عباس طالقانی

صاحب بن عباد کے نام مشہور ہیں ابو داؤد و ترمذی نے ان سے روایتیں لی ہیں۔ جیسا کہ امام ذہبی نے میزان میں صراحت کی ہے نیز یہ بھی لکھا ہے کہ بڑے با کمال ادیب اور شیعہ تھے۔ ان کی شیعیت میں کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا اور شیعیت ہی کی وجہ سے سلطنت بویہہہ  کی وزارت عظمی پر فائز ہوئے۔ یہ پہلے وہ شخص ہیں جو صاحب کے لقب سے ملقب ہوئے اس لیے کہ یہ موید الدولہ بن بویہ کے جوانی کے زمانہ سے مصاحب رہے اور

۱۰۳

 موید الدولہ ہی نے ان کا نام صاحب رکھا اور برابر سی نام سے پکارے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ اسی نام سے مشہور ہوگئے اور ان کے بعد جو شخص وزارت کے درجہ پر آیا وہ بھی صاحب ہی کے نام سے پکارا گیا۔ یہ پہلے موید الدولہ کے وزیر رہے اس کے مرنے پر اس کے بھائی فخر الدولہ نے بھی انھیں وزارت عظمی پر برقرار رکھا۔ جب ان کا انتقال ہوا ( ۲۴ صفر سنہ۳۸۵ھ میں ۹۵ برس کی عمر میں) تو شہر رے  کے دروازے بند ہوگئے اور تمام لوگ ان کے مکان پر آکر جنازہ کا انتظار کرنے لگے خود بادشاہ فخرالدولہ اور وزراء، و سروران فوج جنازہ میں ساتھ ساتھ تھے۔ یہ بڑے جلیل القدر عالم اور گرانقدر کتب و رسائل کے مصنف شخص تھے۔

اسماعیل بن عبدالرحمن بن ابی کریمہ مشہور مفسر

جو سدی کے نام سے شہرت رکھتے ہیں

علامہ ذہبی نے ان کے حالات میں لکھا ہے کہ متہم بالتشیع ہیں اور حسین بن واقد مروزی سے اس کی بھی روایت کی ہے کہ انھوں نے ابوبکر و عمر کو سب و شتم کرتے سنا تھا مگر ان سب کے باوجود ثوری ابوبکر بن عباس و غیرہ نے ان سے حدیثیں لیں اور امام مسلم و ترمذی و ابوداؤد ، ابن ماجہ، نسائی صاحبانِ صحاح نے ان کی حدیثیں اپنے مسلک کی تائید میں درج کی ہیں۔ امام احمد نے انھیں ثقہ، ابن عدی نے  صدوق کہا ہے۔ یحی بن سعید کا قول ہے کہ میں نے ہر ایک کو دیکھا کہ وہ سدی کو اچھا ہی کہتا ہے اور سبھی نے اس سے حدیثیں لی ہیں سنہ۱۲۷ھ میں انتقال کیا ہے۔

۱۰۴

اسماعیل بن موسی فزاری کوفی

علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ان کے حالات میں لکھا ہے کہ ابن عدی ان کے متعلق کہتے تھے کہ شیعیت میں بہت زیادہ غلو رکھنے کی وجہ سے لوگ انھیں ناپسند کرتے تھے اور عبدان بیان  کرتے تھے کہ ہناد اور ابن شیبہ ہمارا اسماعیل کے  پاس جانا پسند نہیں کرتے تھے اور کیا کرتے تم لوگ اس فاسق کے پاس جاکر کیا کرتے ہو جو بزرگوں کو سب وشتم کیا کرتاہے۔ ان سب کے باوجود ابن خزیمہ، ابو عرویہ اور بہت سے لوگوں نے ان سے حدیث کا استفادہ کیا اور یہ اس طبقہ کے شیخ تھے جیسے ابوداؤد و ترمذی وغیرہ۔ ان سب حضرات نے ان سے حدیث لی اور اپنے اپنے صحیح میں درج کی۔ ابوحاتم نے انھیں صدوق کہا ہے۔ نسائی نے کہا ہے کہ کوئی مضائقہ نہیں ان سے حدیث لینے میں۔ سنہ۲۴۵ھ میں انتقال کیا۔ بعض لوگ انھیں سدی کا نواسہ بتاتے ہیں۔

ت :

 تلید بن سلیمان کوفی

ابن معین نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ یہ عثمان کوسب وشتم کیا کرتے تھے۔ بعض عثمانیوں نے سن لیا۔ انھوں نے اسے تیر مارا جس سے ان کا پیر ٹوٹ گیا۔ ابوداؤد نے ان کے متعلق کہا کہ یہ رافضی ہیں۔ ابوبکر و عمر کو سب وشتم کیا کرتے تھے مگر ان سب کے باوجود احمد و ابن نمیر نے ان سے

۱۰۵

تحصیل حدیث کی۔ امام  احمد نے ان کے متعلق کہا کہ تلید شیعہ ہیں مگر ان سے حدیث لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ صحیح ترمذی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ث :

  ثابت بن دینار

جو ابوحمزہ ثمالی کے نام سے مشہور ہیں ان کی شیعیت اظہر من الشمس ہے۔ ترمذی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ثوبر بن ابی فاختہ

ام ہانی بنت ابی طالب کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ذہبی نے ان کے رافضی ہونے  کی صراحت کی ہے۔ امام محمد باقر(ع) کے عقیدت مندوں میں تھے ترمذی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ج :

 جابر بن یزید جعفی کوفی

علامہ ذہبی نے ان کے حالات میں لکھا ہے کہ یہ علماء شیعہ میں سے تھے۔ نیز سفیان سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے جابر کو کہتے سنا۔ علم پیغمبر(ص) سے علی(ع) کی طرف منتقل ہوا اور علی(ع) سے حسن(ع) کی طرف۔ ایک امام سے دوسرے امام تک منتقل ہو کر امام جعفر صادق(ع) تک پہنچا

۱۰۶

یہ امام جعفر صادق(ع) کے زمانہ میں تھے اور آپ نے بکثرت حدیثیں حاصل کیں چنانچہ خود جابر کہا کرتے تھے کہ میرے پاس ستر ہزار حدیثیں امام محمد باقر(ع) کی روایت کردہ ہیں۔ جابر جب امام محمد باقر(ع) سے  کوئی حدیث روایت کر کے بیان کرتے تھے تو کہتے مجھ سے وصی الانبیاء نے بیان کیا۔ علامہ ذہبی نے میزان میں زائدہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جابر رافضی ہیں۔ سب و شتم کیا کرتے ہیں، ان سے امام ابو داؤد وترمذی ، نسائی نے حدیثیں روایت کی ہیں۔ سفیان ثوری نے انھیں حدیث میں بہت محتاط کہا ہے۔ شیعہ نے صدوق قرار دیا ہے۔ وکیع نے ثقہ کہا ہے سنہ ۱۲۷ھ میں انتقال کیا۔

جریر بن عبدالحمید جنبی کوفی

علامہ ابن قتیبہ نے اپنی کتاب معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال کا تذکرہ کرتے ہوئے بڑی حمدو ثنا کی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ جریر اہل رے کے عالم اور صدوق ہیں اور ان کے اقوال سے کتابوں میں استدلال کیا جاتا ہے اور ان کے ثقہ ہونے پر جملہ محدثین کا اجماع و اتفاق ہے۔ ان کی حدیثیں صحیح بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہیں سنہ۱۷۸ھ میں انتقال کیا۔

جعفر بن زیاد احمر کوفی

امام ابوداؤد نے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ صدوق ہیں اور شیعہ ہیں۔ ابن عدی نے انھیں صالح اور شیعہ لکھا ہے۔ ابن معین نے ثقہ، امام احمد نے صالح الحدیث فرمایا ہے۔ صحیح ترمذی و سنن نسائی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

۱۰۷

 سنہ ۱۶۷ھ میں انتقال کیا۔

جعفر بن سلیمان ضبعی بصری

علامہ ابن قتیبہ نے معارف صفحہ ۲۰۶ میں انھیں مشاہیر شیعہ میں لکھا ہے ابن سعد نے ان کی شیعیت اور ثقہ ہونے کی تصریح کی ہے۔ ابن عدی ان کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ شیعہ ہیں ۔ میں توقع کرتا ہوں کہ ان کوئی حرج نہیں اور ان کے حدیثیں قابل انکار نہیں اور میرے نزدیک اس قابل ہیں کہ ان کی حدیثیں قبول کی جائیں۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں انھیں راہد علمائے شیعہ میں سے لکھا ہے ان کی حدیثیں صحیح مسلم و نسائی میں موجود ہیں سنہ۱۷۹ھ میں انتقال کیا۔

جمیع بن عمیرہ بن ثعلبہ کوفی تیمی

میزان الاعتدلال میں ہے کہ ان کے متعلق ابو حاتم کا یہ فقرہ ہے کہ صالح الحدیث اور شرفا الشیعہ سے ہیں۔ جامع ترمذی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ح :

  حارث بن حصیرہ کوفی

ابوحاتم رازی، ابو احمد زبیری، ابن عدی ، یحی بن معین ، امام نسائی وغیرہ نے ان کی شیعیت کی تصریح بھی کی ہے اور ان کے ثقہ ہونے کا بھی اقرار کیا ہے۔ علامہ ذہبی نے انھیں صدوق لکھا ہے۔ امام نسائی نے ان سے حدیثیں لی ہیں۔

۱۰۸

حارث بن عبداﷲ ہمدانی

صحابی و حواری امیرالمومنین(ع) ، ابن قتیبہ نے مشاہیر شیعہ میں پہلے ان کا ہی نام لکھا ہے۔ ذہبی نے لکھا ہے کہ یہ کبار علماء تابعین سے تھے اور ابن حبان انھیں بہت غالی شیعہ کہا کرتے تھے۔ جمہور اہلسنت انھیں اسی شیعیت کی وجہ سے بہت دشمن رکھتے تھے مگر باوجود اس کے ان کے علم  و فضل اور ثقہ ہونے سے کسی کو انکار نہیں۔ سنن ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ وابو داؤد میں ان  کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ۶۵ھ میں انتقال کیا۔

حبیب بن ابی ثابت اسدی

کوفہ کو رہنے والے اور تابعی ہیں۔ ابن قتیبہ نے معارف میں شہرستانی نے ملل و نحل میں انھیں مشاہییر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ ان سے جملہ اربابِ صحاح ستہ نے بلا تردد روایتیں لی ہیں۔ سنہ ۱۱۹ھ میں انتقال کیا۔

حسن بن حیَ

علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھتے ہیں یہ اجلہ علماء میں سے ہیں اور ان میں شیعیت کی بدعت موجود تھی۔ نماز جمعہ میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ ظالم حکام پر خروج جائز جانتے تھے۔ عثمان  پر ترس نہیں کھاتے تھے۔ ابن سعد نے طبقات جلد۶ میں ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ثقہ ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح ہیں اور یہ شیعہ تھے۔ ابن قتیبہ نے بھی ان کی شیعیت کی تصریح کی ہے۔ صحیح مسلم اور دیگر سنن میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ۱۰۰ ھ میں پیدا اور سنہ۱۹۹ھ

۱۰۹

 میں انتقال کیا۔

حکم بن عتیبہ کوفی

ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ۱۱۵ھ میں انتقال کیا۔

حماد بن عیسیٰ

صاحب منتہی المقال و غیرہ نے انھیں علماء شیعہ میں سے لکھا ہے اور ہر ایک نے انھیں ثقہ و معتمد سمجھا ہے۔  و امام موسی کاظم(ع) کے اصحاب میں سے ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ترمذی اور دیگر سنن میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

حمران بن اعین

مشہور ترین صحابی امام محمد باقر(ع) و امام جعفر صادق(ع) ۔ سنن ابی داؤد و غیرہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

خ :

  خالد بن مخلد قطوانی کوفی

امام بخاری کے شیخ الحدیث ہیں۔ علامہ ابن سعد نے طبقات جلد۶ صفحہ۲۸۳ میں اور امام ابو داؤد نے انھیں شیعہ اور صدوق لکھا ہے۔ امام بخاری و مسلم دونوں

۱۱۰

 نے ان کی حدیثیں اپنی صحیح میں درج کی ہیں اور بھی دیگر اصحاب سنن نے ان کی شیعیت سے واقف ہوتے ہوئے ان کی حدیثوں سے کام لیا ہے۔

ز :

  زبید بن حارث بن عبدالکریم کوفی

علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کے حالات میں لکھتے ہیں کہ یہ ثقات تابعین مین سے ہیں اور ان میں تشیع تھا۔ اس کے بعد ذہبی نے بہت سے علماء و محدثین کے اقوال ان کے ثقہ ہونے کے متعلق نقل کیے ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں موجود ہیں۔ سنہ۱۲۴ھ میں انتقال کیا۔

زید بن الحباب کوفی تمیمی

ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں ذکر کیا ہے اور علامہ ذہبی نے انھیں عابد ، ثقہ اور صدوق لکھا ہے اور ان کے ثقہ و صدوق ہونے کے متعلق دیگر بہت سے علماء کے اقوال نقل کیے ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح  مسلم میں موجود ہیں۔

س :

 سالم بن ابی الجعد اشجعی کوفی

ابن سعد نے طبقات جلد۶ صفحہ۲۰۳ میں ابن قتیبہ نے معارف صفحہ۱۵۶

۱۱۱

علامہ شہرستانی نے ملل و نحل جلد۲ صفحہ۲۷ میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے علامہ ذہبی نے انھیں ثقات تابعین میں لکھا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم دونوں میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

سالم بن ابی حفصہ عجلی کوفی

علامہ شہرستانی نے ملل و نحل میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں اور علامہ ابن سعد نے طبقات جلد۶ صفحہ ۲۳۴ میں ان کی شدت تشیع کی کیفیت ذکر کی ہے۔ ان کی حدیثیں جامع ترمذی میں موجود ہیں۔ سنہ۱۳۷ھ میں انتقال کیا۔

سعد بن طریف الاسکاف حنظلی کوفی

علامہ ذہبی نے علماء محدثین کے اقوال ان کے تشیع کے متعلق درج کیے ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح ترمذی میں موجود ہیں۔

سعید بن اشوع

علامہ ذہبی نے  میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ کوفہ کے قاضی تھے اور مشہور صدوق ہیں۔ امام نسائی نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ ان میں کوئی خرابی نہ تھی۔ جو زجانی نے کہا ہے کہ یہ بڑے غالی اور شیعیت میں حد سے بڑے ہوئے تھے۔ صحیح بخاری و مسلم دونوں میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

۱۱۲

سعید بن خیثم

یحی بن معین سے ان کے متعلق پوچھا گیا کہ سعید بن خیثم شیعہ ہیں آپ ان کے متعلق کیا فرماتے ہیں۔ انھوں نے کہا شیعہ ہوں گے مگر ہیں ثقہ جامع ترمذی و سنن نسائی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

سلمہ بن الفضل الابرش

   رے کے قاضی تھے۔ ان کی شیعیت کی علماء نے صراحت کی ہے مگر ارباب صحاح نے ان سے حدیثیں لی ہیں۔ چنانچہ جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

سلمہ بن کمیل بن حصین حضرمی

علامہ قتیبہ نے معارف صفحہ ۲۰۶ میں، علامہ شہرستانی نے ملل و نحل جلد۲ صفحہ۲۷ میں ان کو مشاہیر شیعہ میں لکھا ہے۔ جملہ ارباب صحاح ستہ نے ان کی حدیثوں سے کام لیا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں سنہ ۱۲۱ھ میں انتقال کیا۔

سلیمان بن صرد خزاعی کوفی

شیعیان عراق کے بزرگ ترینِ فرد اور مرجع مومنین بزرگ تھے۔ انتقام خون حسین(ع) لینے والوں کے راس و رئیس اور قائد بھی تھے۔ جملہ ارباب سیر و تاریخ نے ان کے علم و فضل زہد و ورع عبادت کا فراخ دلی سے تذکرہ کیا ہے

۱۱۳

 جنگِ صفین میں امیرالمومنین(ع) کے ہمراہ تھے۔ دشمنان اہل بیت(ع) کو گمراہ سمجھتے تھے ان کی حدیثیں صحیح مسلم و صحیح بخاری دونوں میں موجود ہیں۔

سلیمان بن طرخان تیمی بصری

ابنِ قتیبہ نے اپنی کتاب معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں ذکر کیا ہے ان کی حدیثوں سے اربابِ صحاح نے بھی کام جلیا ہے اور دیگر محدثین بے بھی صحیح بخاری و مسلم دوںوں میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ ۱۴۳ھ میں انتقال کیا۔

سلیمان بن قرم بن معاذضبی کوفی

علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ان کے متعلق ابن حبان کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ بڑے غالی رافضی تھے اور ابن عدی نے ان کے متعلق یہ کہا ہے کہ ان کی حدیثیں عمدہ ہیں۔ صحیح مسلم، سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی میں ان کی حدیثیں  موجود ہیں۔

سلیمان بن مہران کاہلی کوفی مشہور بہ اعمش

یہ بزرگان شیعہ سے ایک جلیل القدر فرد اور کبار محدثین میں نامور بزرگ ہیں بہت سے محققین علماء اہل سنت مثلا ابن قتیبہ نے اپنی معارف میں اور علامہ شہرستانی نے اپنی ملل ونحل میں اور دیگر حضرات نے ان کی شیعہ ہونے کی صراحت کی ہے۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں جوزجانی کا یہ فقرہ نقل کیا ہے کہ باشندگان کوفہ میں سے ایک جماعت ایسی تھی کہ لوگ ان کے عقائد و مذہب کو ناپسند سمجھتے تھے۔ مگر وہی حضرات محدثین کوفہ کے راس و رئیس تھے

۱۱۴

 مثلا ابو اسحاق منصور زبید یامی اور اعمش اور انھیں جیسے دیگر حضرات کو ان کے سچے ہونے کی وجہ سے ان کی حدیثوں کو لوگوں نے سر آنکھوں پر رکھا جو زجانی  کا یہ فقرہ جس قدر رکیک اور ان کے تعصب کا مظہر ہے پوشیدہ نہیں۔ ناصبی لوگوں نے ان بزرگوں کے مذہب و عقائد کو جو پسند نہیں کیا تو محض اس جرم کی وجہ سے کہ یہ حضرات اہل بیت(ع) کی محبت دل میں رکھ کر ان کے دامن سے متمسک ہوکر اجر رسالت پیغمبر(ص) ادا کرتے تھے۔ ناصبی افراد نے ان کی حدیثوں کو سر آنکھوں پر جو رکھا تو محض اس وجہ سے نہیں کہ یہ حضرات سچے تھے بلکہ اس لیے کہ بغیر ان کی طرف رجوع کیے ہوئے کوئی چارہ کار نہ تھا۔ اگر ایسے حضرات کی حدیثیں یہ ناصبی لوگ ٹھکرا دیتے تو پیغمبر(ص) کی ساری حدیثیں ہوا ہوجاتیں۔ سنن و آثار پیغمبر(ص) کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ جیسا کہ خود علامہ ذہبی نے ابان بن تغلب کے تذکرہ کے سلسلہ میں اعتراف کیا ہے۔

اعمش کے چند عجیب و غریب نوادر ہیں جو ان کی جلالت و قدر کا ظاہر کرتے ہیں چنانچہ علامہ ابن خلکان ان کے حالات میں یہ واقعہ لکھتے ہیں کہ خلیفہ ہشام بن عبدالملک نے ان  کے پاس اپنا قاصد بھیجا کہ عثمان کے فضائل اور علی(ع) کی برائیاں مجھے لکھ بھیجو۔ اعمش نے ہشام کا خط لے کر بکری کے منہ میں دے دیا اور وہ اس خط کو چبا گئی اور قاصد سے کہا جا کر ہشام سے کہہ دینا کہ تمہارے خط کا یہی جواب ہے۔ قاصد نے  کہا کہ ہشام نے  قسم کھائی تھی کہ اگر میں تمہارا جواب لے کر نہ گیا تو مجھے قتل کر ڈالے گا۔ قاصد نے اعمش کے اعزہ و احباب سے بھی سفارش کرائی۔ جب سب نے اصرار کیا تو انھوں نے جواب میں لکھا۔

     “ اگر دنیا بھر کے لوگوں کے فضائل عثمان کو حاصل ہوجائیں اور

۱۱۵

 دنیا بھر کے لوگوں کی برائیاں علی(ع) میں اکٹھا ہوجائیں تو تمہیں کیا ؟تم اپنے آپ کو دیکھا کرو۔”

علامہ بن عبدالبر نے ان کا ایک واقعہ یہ نقل کیا ہے کہ فضل بن موسی بیان کرتے تھے کہ امام ابو حنیفہ کے ہمراہ اعمش کی عیادت کو گیا ابو حنیفہ نے کہا اے ابو محمد (اعمش) اگر تمہارے بارِ خاطر نہ ہوتا تو میں جتنی بار تمہاری عیادت کو آتا ہوں اس سے زیادہ آتا۔ اعمش نے کہا کہ خدا کی قسم جب تم اپنے گھر میں ہوتے ہو تو بھی میرے لیے بارگراں ہوتے ہو جب میرے پاس ہوگے تو میرا کیا حال ہوگا؟

ایک اور ان کا واقعہ شریک بن عبداﷲ قاضی کی زبانی ہے۔ شریک کہتے ہیں کہ میں اعمش کے مرض الموت میں ان کے پاس حاضر تھا کہ اتنے میں ابن شبرمہ اور ابن ابی لیلیٰ اور امام ابوحنیفہ ان کی عیادت کو آئے۔ لوگوں نے ان کی مزاج پرسی کی، انھوں نے انتہائی کمزوری و نقاہت کا ذکر کیا۔ اپنی خطاؤں پر اپنی ہراسانی ظاہر کی اور کچھ آب دیدہ سے ہوگئے۔ امام ابو حنیفہ مڑے اور انھوں نے فرمایا : اے ابو محمد! خدا سے ڈریے اور اپنے اوپر ترس کھائیے۔ آپ حضرت علی(ع) کے متعلق ایسی حدیثیں بیان کرتے تھے اگر آپ ان سے توبہ کرلیتے تو آپ کے لیے اچھا ہوتا۔ اعمش نے کہا۔ تم میرے ایسے شخص کے  لیے ایسی بات کہتے ہو اور خوب سخت و سست سنایا۔ مختصر یہ کہ اعمش بڑے ثقہ و معتمد عالم و فاضل بزرگ تھے۔ ان کے صدق و عدالت تقوی و پرہیزگاری پر سب کا اتفاق ہے۔ جملہ ارباب صحاح و غیرہ نے ان کی روایت کردہ حدیثوں سے کام لیا ہے۔

صحیح بخاری ، صحیح مسلم سب ہی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ۶۱ ھ میں پیدا ہوئے۔ سنہ۱۴۸ھ میں انتقال کیا۔

۱۱۶

ش :

 قاضی شریک بن عبداﷲ بن سنان بن انس نخعی کوفی

ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں ذکر کیا ہے۔ میزان الاعتدال علامہ ذہبی میں بہ ذیل حالاتِ شریک مذکور ہے۔ عبداﷲ بن ادریس خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ شریک شیعہ ہیں۔ اسی میزان میں یہ بھی ہے کہ ابو داؤد درہاوی روایت کرتے ہیں کہ ہم نے شریک کو کہتے سنا کہ :

                     “ علی خير البشر           فمن ابی فقد کفر

                     “ علی(ع) تمام خلائق میں سب سے بہتر ہیں جس نے اس کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا۔”

مطلب یہ ہے کہ حضرت علی(ع) بعد رسول اﷲ(ص) سب سے بہتر ہیں۔ شریک منجملہ ان حضرات کے ہیں جنھوں نے امیرالمومنین(ع) کے نص خلافت کی حدیثیں روایت کی ہیں چنانچہ میزان الاعتدال میں ایک مرفوع حدیث ابوہریرہ سے ہے:۔

“لکل نبی وصی و وارث                   وان عليا وصيی و وارثی”

 “ ارشاد فرمایا پیغمبر(ص) نے کہ ہر نبی کا وصی و وارث ہوا کرتا ہے اور علی(ع) میرے وصی و وارث ہیں۔”

یہ شریک امیرالمومنین(ع) کے فضائل و مناقب کی نشر و اشاعت میں بڑے مستعد و سرگرم اور آپ کے فضائل و مناقب بیان کر کے بنوامیہ کو خوب زچ کیا کرتے تھے۔

۱۱۷

مورخ ابن خلکان نے اپنی کتاب و فیات الاعیان میں بسلسلہ حالاتِ شریک کتاب درة الغواص سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ:

             “ ایک اموی شخص شریک کی صحبت میں اٹھا بیٹھا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ شریک نے حضرت علی(ع) کے فضائل بیان کیے۔ اس پر اموی نے  کہا : “ نعم الرجل علی” اچھے شخص تھے علی(ع)۔” اس پر شریک کو غصہ آگیا اور بگڑ کر کہنے لگے کہ کیا علی(ع) کے لیے بس یہی کہہ دینا کافی ہے؟ نعم الرجل” اچھے شخص تھے۔” اس سے زیادہ کچھ اور نہیں کہنے کو؟۔”

شریک کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد کسی کو بھی س میں ذرہ برابر شک و شبہ نہیں رہے گا کہ یہ دوستدارانِ اہلبیت(ع) میں سے تھے اور علماء اہلبیت(ع) سے بکثرت حدیثیں انھوں نے روایت کی ہیں۔ عبداﷲ بن مبارک ان کے متعلق کہا کرتے تھے کہ یہ سفیان سے زیادہ حدیث کے عالم ہیں اور دشمنانِ علی(ع) کے سخت ترین دشمن تھے اور انھیں بہت برا کہا کرتے۔ ایک مرتبہ عبدالسلام بن حزب نے شریک سے پوچھا کہ اپنے ایک بھائی کی عیادت کو چلتے ہو؟

پوچھا کون؟ عبدالسلام نے کہا مالک بن مغول۔ شریک نے کہا جو شخص علی(ع) و عمار کو عیب لگائے وہ میرا بھائی نہیں۔

ایک مرتبہ شریک کے سامنے معاویہ کا تذکرہ ہوا۔ لوگوں نے کہا معاویہ بڑے حلیم تھے۔ شریک نے کہا۔ جو شخص حق سے اعراض کرے اور علی(ع) سے جنگ کرے وہ حلیم ہرگز نہیں۔ انھیں شریک نے ہی یہ حدیث پیغمبر(ص) روایت کی ہے:

                     “ اذا رايتم معايه علی منبر فاقتلوه”

۱۱۸

             “ جب تم میرے پر معاویہ کو دیکھنا قتل کر ڈالنا”

مختصر یہ کہ ان کا شیعہ ہونا اظہر من الشمس ہے مگر باوجود  اس کے علامہ ذہبی نے انھیں حافظ و صدوق اور یکے از ائمہ کہا ہے اور ابن معین کا ان کے متعلق کے خاتمہ پر لکھا ہے کہ یہ منجملہ خزینہ داران علم تھے۔ ان سے اسحاق ارزق نے نو ہزار حدیثیں حاصل کیں۔ امام مسلم اور دیگر ارباب صحاح نے بھی ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدالال کیا ہے اور اپنے صحاح نے بھی ان کی روایتیں لی ہیں۔ خراسان یا بخارا میں سنہ۹۵ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ۱۷۷ھ میں انتقال کیا۔

شعبہ بن حجاج عتکی

محققین اہلِ سنت مثلا ابن قتیبہ نے معارف میں، شہرستانی نے ملل ونحل میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے ان کی حدیثیں صحیح بخاری و صحیح مسلم  و دیگر صحاح میں موجود ہیں۔ سنہ۸۳ھ میں پیدا ہوئے سنہ ۱۶۰ھ میں انتقال ہوا۔

ص :

  صعصعہ بن صوحان بن حجر بن حارث عبدی

ابن قتیبہ نے ( معارف صفحہ۲۰۶) میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ابنِ سعد طبقات جلد۶ صفحہ۱۵۴ میں ان کے متعلق لکھتے ہیں:

     “ یہ کوفہ کے اصحاب خطط سے مقرر تھے اور حضرت علی(ع) کے

۱۱۹

 صحابی تھے۔ یہ صعصعہ اور ان کے بھائی زید اور سیحان جنگِ جمل میں حضرت علی(ع) کے ساتھ تھے۔ سیحان کے ہاتھ پہلے لشکر کا علم تھا، وہ قتل ہوگئے تو صعصعہ نے علم ہاتھوں میں لے لیا۔ صعصعہ نے حضرت علی(ع) اور عبداﷲ ابن عباس سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ یہ بڑے معتمد و موثق شخص تھے۔ مگر ان کی حدیثیں کم ہیں۔”

علامہ ابن عبدالبر استیعاب “ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عہد پیغمبر میں اسلام لائے مگر فصیح و بلیغ مقرر، زیرک و دانا، دیانت دار ، عالم و فاضل انسان تھے۔ حضرت علی(ع) کے صحابیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

یحٰی ابن معین ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ صعصعہ ، زید اور سیحان فرزندانِ صوحان سب کے سب خطیب تھے۔ زید و سیحان جنگ جمل میں شہید ہوئے عہد خلافت حضرت عمر میں ایک مشکل قضیہ در پیش ہوا، حضرت عمر نے لوگوں سے دریافت کیا۔ صعصعہ جو کم سن نوجوان تھے اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک پر مغز و مدلل تقریر کی جس میں تمام شک وشبہ دور کر دیا اور جو صحیح جواب تھا اسے بیان کیا۔ سب نے ان کے قول کو تسلیم کیا اور انھیں کی رائے اختیار کی غرض کہ بنی صحان سردارانِ عرب اور مرکز فضل و حسب تھے۔

علامہ ابن قتیبہ نے بھی اپنی کتاب معارف صفحہ ۱۳۸ میں شہرہ آفاق معززین و شرفا اور مصاحبین سلطان کے سلسلہ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ زید بن صوحان کے فضائل میں پیغمبر(ص) کی ایک حدیث بھی درج کی ہے۔

علامہ عسقلانی اصابہ قسم ثالث میں صعصعہ بن صوحان کا ذکر کرتے

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

فطر بن خلیفہ حناط کوفی

عبداﷲ بن احمد نے اپنے والد امام احمد حنبل سے فطر کے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا :

             “ثقة صالح  الحديث ، حديثة حديث رجل کيس الا ان ه يتشيع ۔”

             “ فطر ثقہ ہیں، صالح الحدیث ہیں۔ ان کی حدیثیں زیرک و دانا لوگوں جیسی ہیں لیکن یہ کہ وہ شیعہ تھے۔”

ابن معین کا قول ہے کہ فطر بن خلیفہ ، ثقہ اور شیعہ ہیں۔ صحٰیح بخاری و سنن اربعہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ253ھ میں انتقال کیا۔

م :

 ابوغسان مالک بن اسماعیل بن زیاد بن درہم کوفی

امام بخاری کے شیخ ہیں۔ ابن سعد طبقات جلد6 صفحہ 272 پر ان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں کہ

“ ابو غسان ثقہ اور صدوق اور بڑے شیدید قسم کے شیعہ تھے”

علامہ ذہبی نے بھی ان کی عدالت و جلالت قدر پر روشنی ڈالی ہے اور وضاحت کی ہے کہ انھوں نے مذہب تشیع اپنے استاد حسن صالح سے حاصل کیا۔ اور ابن معین کہا کرتے کہ کوفہ میں ابو غسان جیسا ٹھوس آدمی نہیں ۔ ابوحاتم بھی ان کے متعلق یہی رائے رکھتے تھے۔ امام بخاری نے

۱۴۱

بلاواسطہ ان سے متعدد حدیثیں روایت کی ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ 219ھ میں انتقال کیا۔

محمد بن خازم

جو ابو معاویہ ضریر تمیمی کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

“ یہ بڑے ثقہ، ٹھوس اور یکے از ائمہ اعلام تھے۔ میری دانست میں کسی نے بھی ان کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں کہی جو ان کی شان کے منافی ہو۔”

امام حاکم فرماتے ہیں کہ ان کی حدیثوں سے بخاری و مسلم دونوں نے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے ۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ بڑے غالی شیعہ تھے۔ ان کی حدیثوں سے جملہ ارباب صحاح ستہ نے احتجاج کیا ہے اور  سبھی صحاح میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ112ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ195ھ میں انتقال کیا۔

محمد بن عبداﷲ نیشاپوری مشہور بہ امام حاکم

یہ بزرگ حفاظ و محدثین کے امام اور سینکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں تحصیل علم کی خاطر ملک ملک کے سفر کیے اور دو ہزار شیوخ حدیث سے احادیث کا استفادہ کیا۔ ان کے زمانہ کے مرجع انام علمائے اعلام جیسے صعلو کی امام ابن فورک اور دیگر جمیع ائمہ اعلام انھیں اپنے سے مقدم و بہتر سمجھتے تھے اور آپ کے علم وفضل کا  لحاظ رکھتے تھے ۔ معزز و محترم ہونے کے معترف اور بے شک و شبہ امام سمجھتے تھے۔ ان کے بعد کے جتنے محدثین ہوئے وہ سب آپ کے

۱۴۲

خواں علم کے زلہ خوار ہیں۔ بزرگ اکابر شیعہ اور شریعت مصطفوی کے حافظوں میں سے تھے۔ جیسا کہ علامہ ذہبی کی تذکرة الحفاظ میں صراحت موجود ہے نیز میزان الاعتدال میں بھی بسلسلہ حالات امامِ موصوف تصریح ہے ۔ سنہ 321ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ405ھ میں انتقال کیا۔

محمد بن عبیداﷲ بن ابی رافع مدنی

ان کا پورا خاندان شیعہ تھا۔ ان کے خاندان والوں کی تصانیف دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حضرات شیعیت میں کتنے راسخ اور ثابت قدم تھے۔ محمد بن عبیداﷲ کو ابن عدی نے کوفہ کے سربرآوردہ شیعوں میں شمار کیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال علامہ ذہبی۔

ترمذی و دیگر اصحاب سنن نے ان کی حدیثیں  اپنے صحاح میں درج کی ہیں۔ طبرانی نے اپنی معجم کبیر میں بسلسلہ اسناد محمد بن عبیداﷲ سے اور انھوں نے اپنے باپ دادا کی وساطت سے حضرت پیغمبر خدا(ص) کی یہ حدیث روایت کی ہے کہ آنحضرت(ص) سے حضرت علی(ع) سے ارشاد فرمایا :

“ کہ سب سے پہلے ہم اور تم اور حسن(ع) و حسین(ع) جنت میں جائیں گے ہمارے پیچھے ہم لوگوں کی اولاد رہے گی اور ہم لوگوں کے شیعہ ہمارے دائیں اور بائیں رہیں گے۔”

ابوعبدالرحمن محمد بن فضیل بن غزوان کوفی

ابن قتیبہ نے اپنی معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ابن سعد نے اپنی طبقات جلد6 صفحہ271 پر ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

۱۴۳

“ کہ یہ ثقہ ، صدوق اور اکثر الحدیث ہیں۔ یہ شیعہ تھے۔ بعض علماء ان کی حدیثوں سے احتجاج نہیں کرتے ۔”

علامہ ذہبی نے انھیں میزان میں کئی جگھوں پر صدوق اور شیعہ لکھا ہے۔ امام احمد نے ان کے متعلق فرمایا کہ ان کی حدیثیں پاکیزہ ہیں اور یہ شیعہ ہیں۔

امام ابو داؤد نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ بڑے سخت و شدید شیعہ تھے۔ حدیث و معرفت والے ہیں اور حمزہ  سے انھوں نے علم قرآن حاصل کیا۔ ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ امام احمد و نسائی نے ان کی حدیثوں  میں کوئی مضائقہ نہیں دیکھا۔ ان کی حدیثوں صحیح بخاری و مسلم اور دیگر صحاح میں موجود ہیں۔

محمد بن مسلم بن طائفی

یہ امام جعفر صادق(ع) کے سربرآودہ اصحاب میں سے تھے۔ شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسی نے اپنی کتاب رجال الشیعہ میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ حسن بن حسین بن داؤد نے ثقہ لوگوں کے سلسلہ میں ان کا ذکر کیا ہے۔

علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں بکثرت جلیل القدر محدثین اہلسنت کے اقوال ان کے ثقہ ہونے کے متعلق نقل کیے ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح مسلم میں موجود ہیں۔

محمد بن موسیٰ بن عبداﷲ الفطری المدنی

ابو حاتم نے ان کے شیعہ اور ترمذی نے ان کے ثقہ ہونے کی صراحت کی صراحت کی ہے( میزان الاعتدال علامہ ذہبی) ان کی حدیثیں صحیح مسلم و دیگر سنن

۱۴۴

 میں موجود ہیں۔

معاویہ بن عمار دہنی بجلی کوفی

یہ بزرگ علمائے  امامیہ کے نزدیک بھی بڑے معزز و محترم اور علمائے اہلسنت کے نزدیک بھی بڑے ثقہ، عظیم المرتبت اور جلیل القدر میں انے کے والد عمار حق پروری، حق کوشی کا بہترین نمونہ تھے۔ شیعیت کے جرم میں دشمنانِ آل محمد(ص) نے ان کے پیر قطع کردیے تھے۔ بیٹا وہی، قدم بہ قدم ہو جو باپ کے۔ معاویہ بھی اپنے باپ کی مکمل شیبہ تھے۔ امام جعفر صادق(ع)  و موسیٰ کاظم(ع) کی صحبت میں رہے اور آپ کے علوم کے حامل ہوئے۔ آپ کی حدیثیں صحیح مسلم میں موجود ہیں۔

معروف بن خربوذ کرخی

ذہبی نے میزان الاعتدال میں انھیں صدوق و شیعہ لکھا ہے۔ نیز یہ کہ بخاری و مسلم اور ابو داؤد نے ان کی حدیثٰیں اپنے صحاح میں درج کی  ہیں۔ ابن خلسکان نے وفسیات الاعیان میں امام علی رضا(ع) کے موالی میں انھیں ذکر کیا ہے صحیح مسلم میں ان کی حدثیں موجود ہیں۔ سنہ200ھ میں بغداد میں انتقال فرمایا۔ ان کی قبر زیارت گاہ عوام خواص ہے۔ سری سقطی مشہور مشہور صونی ان کے تلامذہ میں سے تھے۔

منصور بن المعتمر بن عبداﷲ بن ربیعہ کوفی

امام محمد باقر(ع) و امام جعفر صادق(ع) کے اصحاب سے تھے۔ جیسا کہ صاحبِ

۱۴۵

منتہی المقال نے وضاحت کی ہے۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ یہ وہی منصور ہیں جن کے متعلق جوزجانی کا یہ فقرہ ہے کہ

“ کوفہ کچھ ایسے افراد تھے کہ لوگ ان کے عقائد کو ناپسند سمجھتے تھے مگر ان کی بیان کردہ حدیثوں کو ان کی غیر معمولی صداقت ودیانت کی وجہ سے آنکھوں پر رکھا جیسے ابو اسحاق، منصور ، زبیدیامی اور اعمش وغیرہ۔۔۔۔”

جملہ ارباب صحاح و سنن نے ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے صحیح بخاری و مسلم سب ہی میں ان کی حدیثوں موجود ہیں۔

مہنال بن عمرو تابعی

کوفہ کے مشہور شیعوں میں سے تھے۔ ان کی حدیثیں صحیح مسلم و بخاری میں موجود ہیں۔

موسیٰ بن قیس حضرمی

ان کی کنیت ابو محمد تھی۔ عقیلی نے انھیں غالی رافضیوں میں شمار کیا ہے ان سے سفیان نے حضرت علی(ع) اور ابوبکر کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا کہ علی(ع) مجھ کو بہت زیادہ محبوب ہیں۔

موسیٰ نے بسلسلہ اسناد جناب ام سلمہ زوجہ پیغمبر(ص) سے روایت کی ہے کہ جناب ام سلمہ(رض) فرمایا کرتیں کہ علی(ع) حق جپر ہے جو علی(ع) کی پیروی کرے گا وہی حق پر ہوگا۔ اور جس نے علی(ع) کو چھوڑا اس نے حق کو چھوڑا۔

موسیٰ نے فضائل اہبیت(ع) میں بہت سی صحیح حدیثیں روایت کی ہیں جو عقیلی

۱۴۶

 پر شاق گزریں اور انھیں غالی رافضیوں میں قرار دیا۔

ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ امام ابی داؤد اور دیگر اصحابِ سنن نے ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے۔ ان کی حدیثیں سنن میں موجود ہیں۔

ن :

 ابو داؤد نفیع بن حارث نخعی کوفی

عقیلی ان کے متعلق کہتے ہیں کہ رفض میں بہت غلو سے کام لیتے تھے بخاری فرماتے ہیں کہ لوگ ان کے متعلق لب کشائی کرتے ہیں۔ ( ان کی شیعیت کی وجہ سے) ان سب کے باوجود محدثین علماء نے ان سے استفادہ کیا اور ان کی حدیثوں سے کام لیا۔ ان کی حدیثیں جامع ترمذی میں موجود ہیں۔

نوح بن قیس بن رباح الحدانی

علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ صالح الحدیث ہیں۔

امام احمد و ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ شیعیت کی طرف مائل تھے۔

نسائی نے فرمایا کہ ان میں کوئی مضائقہ نہیں۔

مسلم و دیگر اصحاب سنن نے ان کی حدیثیں اپنے صحاح میں درج کی ہیں۔

۱۴۷

ھ :

 ہارون بن سعد عجلی کوفی

ذہبی ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ فی نفسہ صدوق ہیں لیکن سخت قسم کے رافضی ہیں۔ ابن معین ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ بڑے غالی شیعہ تھے۔ صحیح مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ابو علی ہاشم بن برید کوفی

ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے اس اقرار کے ساتھ کہ وہ رافضی تھے امام احمد نے ان کی حدیثوں میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا ۔ ان کی حدیثیں سنن ابی داؤد ، سنن نسائی میں موجود ہیں۔ یہ ہاشم مشہور شیعہ گھرانے کے فرد تھے جیسا کہ علی بن ہاشم، کے  حالات میں ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔

ہیبرہ بن بریم حمیری

امیرالمومنین(ع) کے صحابی ہیں۔ امام احمد ان کی حدیثوں میں کوئی مضائقہ نہیں تصور فرماتے۔ شہرستانی نے ملل ونحل میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے ان کا شیعہ ہونا مسلمات سے ہے۔ سنن اربعہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ابوالمقدام ہشام بن زیاد بصری

شہرستانی نے ملل و نحل میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ ان کی

۱۴۸

حدیثیں صحیح ترمذی وغیرہ میں موجود ہیں۔

ابوالولید ہشام بن عمار بن نصیر بن میسرہ

انھیں  ظفری دمشقی بھی کہتے ہیں۔ امام بخاری کے شیخ ہیں۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے۔ ذہبی نے انھیں امام ، خطیب ، محدث، عالم، صدوق، بہت زیادہ حدیثوں کا راوی لکھا ہے بخاری نے صحیح میں بہت سی حدیثیں ان سے بلاواسطہ روایت کی ہیں۔ سنہ153ھ میں پیدا ہوئے۔ سنہ245ھ میں انتقال کیا۔

ہیشم بن بشیر بن قاسم بن دینار سلمی واسطی

ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔امام احمد اور ان کے ہمعصر علما کے استاد ہیں۔ ذہبی نے انھیں حفاظ اور یکے از علمائے اعلام لکھا ہے۔ ان کی حدیثیں صحیح بخاری و مسلم اور باقی سبھی صحاح میں موجود ہیں۔

و :

  وکیع بن جراح بن ملیح بن عدی

ان کی کنیت ابوسفیان تھی۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں قرار دیا ہے۔

ابن مدینی نے بھی تہذیب میں ان کی شیعیت کی صراحت کی ہے مروان بن معاویہ ان کےشیعہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں کرتے۔ ان کی حدیثوں سے

۱۴۹

 جملہ ارباب صحاح ستہ نے احتجاج کیا ہے۔ صحیح مسلم وغیرہ سبھی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ی :

 یحیٰ بن جزار عرفی کوفی

یہ امیرالمومنین(ع) کے صحابی ہیں۔ علامہ ابن سعد نے طبقات جلد6 صفحہ206 میں انھیں شیعہ لکھا ہے۔ نیز یہ کہ یہ شیعیت میں غلو کیا کرتے تھے اور محدثین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے اور انھوں نے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں۔

ذہبی نے انھیں صدوق اور ثقہ لکھا ہے ۔ ان کی حدیثیں صحیح مسلم و دیگر سنن میں موجود ہیں۔

یحیٰ بن سعید قطان

ان کی کنیت ابوسعید تھی اپنے زمانہ کے محدث ہیں۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ جملہ ارباب صحاح ستہ نے ان کی حدیثوں سے احتجاج کیا ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور سبھی صحاح میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

یزید بن ابی زیاد کوفی

ابن فضیل ان کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ یہ کبار علماء شیعہ سے ہیں

۱۵۰

 ذہبی نے بھی لکھا ہے کہ یہ کوفہ کے مشہور علماء میں سے ہیں۔ مگر لوگوں نے ان سے تعصب برتا جس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے بسلسلہ اسناد ابوبرزہ یا ابو بردہ سے روایت کی ہے کہ :

“ ہم لوگ پیغمبر(ص)  کے ساتھ تھے کہ پیغمبر(ص) نے گانے کی آواز سنی پتہ چلا کہ معاویہ اور عمرو بن العاص گارہے ہیں۔ اس پر پیغمبر(ص) نے بد دعا فرمائی کہ خداوندا! دونوں کو فتنہ میں اچھی طرح مبتلا کر اور آتش جہنم کی طرف بلا۔”

صحیح مسلم و سنن اربعہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ نوے (90) برس کی عمر میں سنہ136ھ میں انتقال کیا۔

ابو عبداﷲ جدلی

ذہبی نے انھیں شدید سخت شیعہ لکھا ہے۔ جوزجانی نے ان کے متعلق بیان کیا ہے کہ یہ مختار کے علمدار لشکر تھے۔ امام احمد انھیں ثقہ قرار دیتے ہیں۔ شہرستانی نے بھی ملل و نحل میں شیعہ لکھا ہے۔

ابن قتیبہ نے معارف میں غالی ، رافضی ذکر کیا ہے۔ ان کی حدیثیں جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد اور دیگر سنن و مسانید میں موجود ہیں۔ علامہ ابن سعد نے طبقات جلد6 صفحہ 159 پر انھیں شدید التشیع شیعہ لکھا ہے نیز کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ مختار کے سپاہیوں کے افسر تھے۔ مختار نے انھیں عبداﷲ بن زبیر کی طرف آٹھ سوسپاہیوں کے ساتھ روانہ کیا تاکہ ابن زبیر سے جنگ کر کے محمد ابن حنفیہ کو ان کی قید سے نکال لیں۔ ابن زبیر نے محمد ابن حنفیہ اور بنی ہاشم کو محصور کر رکھا تھا اور لکڑیاں اکٹھی کی تھیں کہ

۱۵۱

 انھیں جلا ڈالیں کیونکہ ان لوگوں نے ابن زبیر کی بیعت سے انکار گیا تھا۔ ابو عبداﷲ جدلی نے پہیچ کر ان حضرت کو رہا کیا۔

یہ سنیکڑوں میں سے چند نام نے درج کیے ہیں۔ یہ لوگ علوم اسلام کے خزینہ دار ہیں۔ ان سے آثار نبوی(ص) محفوظ ہوئے اور ان پر صحاح وسنن ومسانید کامدار رہا ہے۔

ہم نے آپ کو خواہش کے مطابق ان کے متعلق علمائے اہلسنت کی توثیق اور ان سے احتجاج کو بھی ذکر کیا۔ اس سے آپ رائے میں ضرور تبدیلی ہوگی کہ اہل سنت رجال شیعہ سے احتجاج نہیں کرتے۔ اگر شیعوں کی حدیثیں صرف ان کے تشیع کے تشیع کے جرم میں رد کردی جائیں تو جیسا کہ ذہبی نے میزان میں ابان بن تغلب کے ذکر میں کہا ہے۔ کل آثارِ نبوی ضائع و برباد ہوجائیں۔

ان کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے شیعہ ہیں جن سے اہل سنت نے احتجاج کیا ہے اور وہ ان سے بھی سند کے اعتبار سے اور کثرتِ حدیث سے زیادہ کشادہ دامن اور علم کے اعتبار سے  زیادہ وسیع النظر تھے اور زمانے کے لحاظ سے ان سے بھی مقدم تھے اور ان سے بھی زیادہ ان کے قدم تشیع میں راسخ تھے اصحاب رسول(ص) میں بڑی تعداد رجال شیعہ کی ہے جنھیں ہم نے فصول مہمہ کے آخر میں بیان کیا ہے تابعین میں ایسے حافظ و صدوق و ثقہ شیعہ ہیں جو محبت اہلبیت(ع) کی قربانی پر بھینٹ چڑھتے رہے۔ جنھیں جلا وطن کیا گیا۔ سزائیں دی گئیں۔ قتل کیا گیا۔ سولیاں دی گئیں۔ اور جو علوم و فنون کے موسس و موجد ہوئے۔ یہ صدوق و دیانت ورع و تقوی زہد و عبادت و اخلاص کے روشن سنارے تھے۔ اور ان سے دین الہی کو لامتناہی فائدے پہنچے۔ اور ان کی خدمات کی برکتوں سے اسلام کا بحر بے کنار آج بھی موجزن ہے۔

                                                             ش

۱۵۲

مکتوب نمبر9

تسلیم !

میں نے آپ ایسا تازہ دم سریع الخاطر و زود فکر نہیں دیکھا اور نہ میرے کانوں نے آپ سے زیادہ صاحب بصیرتِ شخص کا ذکر سنا۔ آپ کی نرم گفتاری، شیریں بیانی قابل داد ہے۔ آپ کےکل مکاتیب میں آپ کو شیوا بیانی دامن دل کو کھینچتی ہے۔ آپ دل و دماغ ، ہوش و حواس پر چھا جاتے ہیں۔ آپ کی مدلل و سنجیدہ تحریر نے گردنیں جھکادیں اور ضلالت کو حق کے سامنے سرنگوں کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ سنی کے لیے کوئی مانع نہیں ہے کہ اپنے شیعہ بھائی سے احتجاج کرے جبکہ شیعہ معتبر ہو۔ لاریب اس موضوع میں آپ کی رائے حق و صداقت پر مبنی ہے منکر کی رائے عناد و تنگ ولی ہے۔

۱۵۳

ہم کل آیات الہی پر ایمان لائے اور ان اکثر آیات الہی پر بھی ایمان لائے جن میں سے اکثر کو آپ نے ذکر کیا ہے جو امیرالمومنین(ع) اور ائمہ اہل بیت(ع) کے فضل و شرف پر دلالت کرتی ہیں۔ اﷲ ہی جانے کہ اہل قبلہ نے ائمہ اہل بیت(ع) سے کیوں بے اعتنائی کی؟ اور اصول وفروع میں ان کے مسلک سے دورہے اور اختلافی مسائل میں ان کے پیرو نہ ہوئے ۔ علمائے امت نے اہل بیت(ع) کا افکار و خیالات سے بحث نہ کی بلکہ بجائے ان کی تقلید کے ان سے معارضہ کرتے رہے اور ان کی مخالفت کی پروانہ کی اور سلف سے لے کر خلف تک عوام امت، غیر اہلبیت(ع) کے آستانوں پر نظر آئے۔ لہذا کلام مجید کی آیتیں اور صحیح اور مسلم الثبوت حدیثیں اگر ائمہ اہلبیت(ع) اطاعت و پیروی کے واجب و فرض ہونے کے متعلق نص صریح ہوتیں تو جمہور اہل سنت کو پیروی اہلبیت(ع) کے سوا چارہ کارہی نہ ہوتا۔ اور ائمہ اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر وہ کسی کو اپنا مقتدا پیشوا بنانا پسندی ہی نہیں کرتے لیکن وہ آیات الہی اور احادیث پیغمبر(ع) کو سمجھتے نہٰیں۔ وہ ان آیات اور ان احادیث کو جن میں اہل بیت(ع) کے شرف وکمال کو بیان کیا گیا ہے، صرف مدح و ثنا سمجھے اور یہ کہ ان سے محبت رکھنا اور ان کی عزت و تعظیم کرنا واجب ہے ان کے نزدیک ان آیات و احادیث کا ماحصل یہ ہے کہ اہل بیت(ع) سے مودت و محبت و اخلاص واجب ہے اور ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اگر آیات قرآن مجید و احادیثِ پیغمبر(ص) میں تصریح ہوتی کہ بس ائمہ اہلبیت(ع) ہی کی پیروی فرض ہے تو اہلِ قبلہ علمائے اہلبیت سے انحراف نہ کرتے۔ اور نہ بجائے ان کے کسی دوسرے کی طرف رجوع کرتے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اگلے بزرگ زیادہ صحیح سمجھنے والے تھے اور کتاب الہی واحادیث پیغمبر(ص) کا مطلب آج کل کے لوگوں سے بہتر سمجھتے تھے۔

                                                             س

۱۵۴

جواب مکتوب

اس ناچیز سے آپ کے حسنِ ظن کا شکریہ۔ آپ کے لطف وعنایات کے سامنے میرا دل جھکا جاتا ہے اور آپ کی مہربانی و حق جوئی کی بیبت مجھ پر مسلط ہے لیکن میں آپ سے یہ گزارش کرنے کی اجازت  چاہتا ہوں کہ آپ اپنے مکتوب پر نظر ثانی کریں جس میں آپ لکھا ہے کہ اہل قبلہ نے اہل بیت(ع) سے عدول کیا۔ یہ لفظ زیادہ وسیع استعمال ہوگیا۔ اہل قبلہ تو شیعہ بھی ہیں انھوں نے ابتدا سے آج تک اصول و فروع کسی چیز میں اہل بیت کے مسلک سے انحراف نہیں کیا۔ شیعہ تو مسلک اہل بیت(ع) پر عمل واجب سمجھتے ہیں۔ اہل بیت(ع) سے عدول رؤسا ملت نے کیا جب کہ نص کے ہوتے ہوئے صاف صاف تصریح خلافت و امامت کے متعلق ہوتے ہوئے امیرالمومنین(ع) کو حق خلافت سے محروم کیا گیا اور اصول و فروع میں اہل بیت(ع) کو چھوڑ کر دوسرے مرکز بنائے گئے اور کتاب وسنت کی مصالح کے لحاظ  سے تاولیں کی گئیں۔ امامت ائمہ سے عدول کرنا ہی سبب ہوا کر فروع میں بھی ان سے علیحدگی اختیار کی جائے۔

قطع نظر کیجیے ان ںصوص و ادلہ سے جن سے اہل بیت(ع) سے تمسک کرنا وا جب ثابت ہوتا ہے صرف اہلبیت(ع) کے علم و عمل اور تقوی کو دیکھیے۔ امام اشعری اور ائمہ اربعہ کے مقابلہ میں ان کی کیا کمی پائی گئی کہ اطاعت و اتباع کے معاملہ میں اہل بیت(ع) پیچھے کردیے گئے۔ اور یہ افراد قابل ترجیح سمجھے گئے۔ کون سامحکمہ اںصاف ہے جو یہ فیصلہ کرے کہ اہل بیت(ع) سے تمسک کرنے والے ان کی ہدایات پر چلنے والے گمراہ ہیں۔ اہل سنت کے لیے ایسا فیصلہ ناممکن معلوم ہوتا ہے۔

                                                                     ش

۱۵۵

مکتوب نمبر10

واقعہ یہ ہے کہ پیروانِ اہلبیت(ع) کو از روئے عدل و اںصاف گمراہی کہا ہی نہیں جاسکتا اور نہ ائمہ اہلبیت(ع) دیگر ائمہ سے لائق پیروی و اقتدا ہونے میں کسی طرح کم تھے۔ جس طرح اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید کر کے انسان بری الذمہ ہوسکتا ہے اسی طرح ائمہ اہلبیت(ع) کی پیروی کرکے بھی۔

بلکہ یہاں تک کہا جاسکتا ہے کہ ائمہ اہلبیت(ع) بہ نسبت ائمہ اربعہ وغیرہ کے اتباع و پیروی کے زیادہ سزاوار ہیں۔ اس لیے ائمہ اثنا عشر کا مسلک و مذہب اصول و فروع سب میں ایک ہے ان میں باہم کوئی اختلاف نہیں۔ سب کی نگاہ ایک ہی مرکز پر کرکوز ہوئی اور اسی پر سب کے سب متفق رہے۔ برخلاف ائمہ اربعہ وغیرہ کے کہ ان کا باہمی اختلاف دنیا جانتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ بارہ شخص غور و فکر کر کے ایک نتیجہ پر پہنچیں ایک رائے قائم کریں اور اکیلا شخص دوسری

۱۵۶

رائے قائم کرے تو بارہ(12) کے متفقہ فتوی کے مقابلہ میں سے اس ایک اور اکیلے کا فتوی کوئی وزن نہ رکھے گا۔

اس میں کسی منصف مزاج کو عذر ہونا چاہیے۔

ہاں ایک بات ہے ناصبی خیال کے آگ آپ لوگوں کے مذہب کو مذہب اہلبیت( ع) ماننے میں تامل کرتے ہیں۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ آگے چل کر اس پر روشی ڈالیں کہ مذہب تشیع مذہب اہلبیت(ع) ہی ہے انھیں حضرات سے ماخوذ ہے ۔ فی الحال میری گزارش ہے کہ آپ لوگ حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت پر جن نصوص کے مدعی ہیں وہ نصوص صاف صاف ذکر فرمائیں۔

                                                                     س

۱۵۷

باب دوم

امامت عامہ یعنی خلافتِ پیغمبر(ص) 

جوابِ مکتوب

اگر سرورِ کائنات (ص) کے حالاتِ زندگی کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے۔ دولتِ اسلامیہ کی بنیاد قائم کرنے۔ احکام مقرر کرنے ، اصول و قواعد بنانے۔ دستور مرتب کرنے، سلطنت کے انتظام اںصرام غرض جملہ حالات میں ہر پہلو سے آپ کی سیرت کا جائزہ لیا جائے تو حضرت امیرالمومنین(ع) رسالت ماب(ص) کے ہر معاملہ میں بوجھ بٹانے والے ، دشمنون کے مقابلہ میں پشت پناہ آپ کے علوم  کا گنجینہ ، آپ کے علم و حکمت کے وارث ، آپ کی زندگی میں آپ کے ولی عہد اور آپ کے بعد آپ کے جانشین، اور آپ کے تمام امور کے ممالک و مختار نظر آئیں گے۔

اول یوم بعثت سے پیغمبر(ص) کی رحلت کے وقت تک سفر میں، حضر میں

۱۵۸

اٹھتے بیٹھے ، آپ کے افعال ، آپ کے اقوال کی چھان بین کی جائے۔ تو حضرت علی(ع) کی خلافت کے متعلق بکثرت صاف و تصریح حد تواتر تک پہنچے ہوئے واضح نصوص ملیں گے۔ آںحضرت(ص) نے ہر محل پر اپنی رفتار و گفتار ، کردار اور ہر ممکن ذریعہ سے اپنی جانشینی کے مسئلہ کی وضاحت کردی تاکہ کسی کے لیے تامل کی گنجائش نہ رہ جائے ۔

دعوت عشیرہ کے موقع پر پیغمبر(ص) کا خلافت امیرالمومنین(ع) پر ںص فرمایا

پہلا واقعہ دعوت ذوالعشیرہ ہی کا لے لیجیے جو اسلام کے ظاہر ہونے کے قبل مکہ میں پیش آیا جب آیہ

“      وَ أَنْذِرْ عَشيرَتَكَ الْأَقْرَبينَ ” ( شعراء، 214)

نازل ہوا اور رسول(ص) مامور ہوئے کہ خاص خاص رشتہ داروں کو بلا کر دعوتِ اسلام دیں۔ تو حضرت سرورکائنات نے تمام بنی ہاشم کو جو کم بیش چالیس نفر تھے جس میں آپ کے چچا ابو طالب ، حمزہ ، عباس اور ابولہب بھی تھے اپنے چچا ابو طالب کے گھر میں دعوت دی۔ دعوت کے بعد آپ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ تمام کتبِ احادیث  و سیر و تواریخ میں موجود ہے۔ اسی خطبہ میں آپ نے فرمایا :

 “ فَقَالَ: يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّي وَ اللَّهِ مَا أَعْلَمُ شَابّاً فِي الْعَرَبِ جَاءَ قَوْمَهُ بِأَفْضَلَ مِمَّا جِئْتُكُمْ بِهِ، إِنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِخَيْرِ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ، وَ قَدْ أَمَرَنِي اللَّهُ (عَزَّ وَ جَلَّ) أَنْ أَدْعُوَكُمْ إِلَيْهِ، فَأَيُّكُمْ يُؤْمِنُ بِي وَ يُؤَازِرُنِي عَلَى أَمْرِي، فَيَكُونَ أَخِي وَ وَصِيِّي وَ وَزِيرِي وَ خَلِيفَتِي فِي أَهْلِي مِنْ بَعْدِي قَالَ: فَأَمْسَكَ الْقَوْمُ، وَ أَحْجَمُوا عَنْهَا جَمِيعاً.

۱۵۹

 قَالَ: فَقُمْتُ وَ إِنِّي لَأَحْدَثُهُمْ سِنّاً، وَ أَرْمَصُهُمْ عَيْناً، وَ أَعَْمُهُمْ بَطْناً، وَ أَحْمَشُهُمْ سَاقَا. فَقُلْتُ: أَنَا يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَكُونُ وَزِيرَكَ عَلَى مَا بَعَثَكَ اللَّهُ بِهِ. قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِي ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هَذَا أَخِي وَ وَصِيِّي وَ وَزِيرِي وَ خَلِيفَتِي فِيكُمْ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَ أَطِيعُوا.قَالَ: فَقَامَ الْقَوْمُ يَضْحَكُونَ، وَ يَقُولُونَ لِأَبِي طَالِبٍ: قَدْ أَمَرَكَ أَنْ تَسْمَعَ لِابْنِكَ وَ تُطِيعَ.”

“ فرزندانِ عبدالمطلب ! جتنی بہتر شے( یعنی اسلام ) میں تمھارے پاس لے کر آیا ہوں میں تو نہیں جانتا کہ عرب کا کوئی نوجوان اس سے بہتر چیز اپنی قوم کے پاس لایا ہو۔ میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی لے کر آیا ہوں اور خداوند عالم نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف دعوت دوں۔ اب بتاؤ تم میں کون ایسا ہے جو اس کام میں میرا بوجھ بٹائے تاکہ تمھارے درمیان میرا بھائی وصی اور خلیفہ ہو؟ تو علی(ع) کے سوا سب خاموش رہے۔ حضرت علی(ع) جو اس وقت بہت ہی کم سن ننھے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا : یا رسول اﷲ(ص) ! میں آپ کا بوجھ بٹاؤں گا۔ رسول اﷲ(ص) نے آپ کی گردن پر ہاتھ رکھا اور پورے مجمع کو دکھا کر ارشاد فرمایا: کہ یہ میرا بھائی بنے میرا وصی ہے اور تم میں میرا جانشین ہے۔ اس کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔ یہ سن کر لوگ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوطالب سے کہنے لگے کہ یہ محمد(ص) آپ کو حکم دے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639