دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)12%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272271 / ڈاؤنلوڈ: 6389
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آیۂ تبدیل کی شان نزول

جب خدا وند سبحان نے شریعت موسیٰ کے بعض احکام کو دوسرے احکام سے حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں تبدیل کردیا( جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے) توقریش نے رسول پر شورش کی اور بولے : تم خدا کی طرف جھوٹی نسبت دے رہے ہو!تو خدا وند عالم نے ا ُن کی بات انھیں کی طرف لوٹاتے ہوئے فرمایا:

( واِذا بدّلنا آية مکان آية و ﷲ اعلم بما ینزّل قالوا اِنّما أنت مفتر...) (اِنما یفتری الکذب الذین لایؤمنون بآیات ﷲ ...)( فکلوا ممّا رزقکم ﷲ حلا لاً طیباً ) ( ۱ )

اور جب ہم کسی حکم کو کسی حکم سے تبدیل کرتے ہیں (اور خدا بہتر جانتا ہے کہ کونسا حکم نازل کرے )تو وہ کہتے ہیں : تم صرف ایک جھوٹی نسبت دینے والے ہو ...،صرف وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں جو خدا کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے لہٰذا جو کچھ خدا نے تمہارے لئے رزق معین فرمایا ہے اس سے حلال اور پاکیزہ کھاؤ۔

یعنی کچھ چیزیں جیسے اونٹ کا گوشت ،حیوانات کے گوشت کی چربی تم پر حرام نہیں ہے ، صرف مردار ، خون ، سؤر کا گوشت اور وہ تمام جانورجن کے ذبح کے وقت خدا کا نام نہیں لیا گیا ہے، حرام ہیں، نیز وہ قربانیاں جو مشرکین مکّہ بتوں کو ہدیہ کرتے تھے اسکے بعد خدا وند عالم نے قریش کو خدا پر افترا پردازی سے روکا اور فرمایا : من مانی اور ہٹ دھرمی سے نہ کہو : یہ حلال ہے اور وہ حرام ہے !چنانچہ ان کی گفتگو کی تفصیل سورۂ انعام میں بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( وقالوا هذه أنعام و حرث حجر لا یطعمها اِلاّ من نشاء بزعنمهم و أنعام حرّمت ظهور ها و أنعام لا یذکرون اْسم ﷲ علیها أفترائًً علیه و سیجزیهم بما کانوا یفترون)( و قالوا ما فی بطون هذه الأنعام خالصة لذکورنا و محرّم علیٰ أزواجنا و ِان یکن میتةً فهم فیه شرکاء سیجز یهم و صفهم أنّه حکیم علیم ) ( ۲ )

انھوں نے کہا : یہ چوپائے اور یہ زراعت ممنوع ہے، بجزان لوگوں کے جن کو ہم چاہیں(ان کے اپنے گمان میں )کوئی دوسرا اس سے نہ کھا ئے اور کچھ ایسے چوپائے ہیں جن پر سواری ممنوع اور حرام ہے ! اور وہ

____________________

(۱)نحل ۱۰۱ ، ۱۰۵، ۱۱۴

(۲)انعام ۱۳۸، ۱۳۹

۶۱

چوپائے جن پر خدا کا نام نہیں لیتے تھے اور خدا کی طرف ان سب کی جھوٹی نسبت دیتے تھے عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائے گا اور وہ کہتے تھے : جو کچھ اس حیوان کے شکم میں ہے وہ ہم مردوں سے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے ! اور اگر مر جائے تو سب کے سب اس میں شریک ہیں خدا وند عالم جلد ہی ان کی اس توصیف کی سزا دے گا وہ حکیم اور دانا ہے۔

سورۂ یونس میں بھی اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( قل أراْیتم ماأنزل ﷲ لکم من رزق فجعلتم منه حراماًوحلالاً قل آأﷲ أذن لکم أم علیٰ ﷲ تفترون ) ( ۱ )

کہو: جو رزق خدا وند عالم نے تمہارے لئے نازل کیا ہے تم نے اس میں سے بعض کو حلال اور بعض کو حرام کر دیا، کیا خدا نے تمھیں اس کی اجازت دی ہے ؟ یا خدا پر افترا پردازی کر رہے ہو؟

اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشر کین قریش کے درمیان حلال و حرام کا مسٔلہ قریش کے خود ساختہ موضوعات سے لے کر شریعت موسیٰ کے احکام تک کہ جنہیں جسے خدا نے مصلحت کی بناء پر حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں دوسرے احکام سے تبدیل کر دیا ،سب کے سب موضوع بحث تھے۔

مکہ میں قریش ہر وہ حلال و حرام جسے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداکے فرمان کے مطابق پیش کرتے تھے اور وہ ان کے دینی ماحول کے اور جو کچھ موسیٰ ابن عمران کی شریعت کے بارے میں جانتے تھے اس کے مخالف ہوتا تو عداوت و دشمی کے لئے آمادہ ہو جاتے تھے اسی دشمنی کا مدنیہ میں بھی یہود کی طرف سے سامناہوا، وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان احکام کے بارے میں جو توریت کے بعض حصے کو نسخ کرتے تھے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں اس جدال کو بیان کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرماتا ہے:

( أفکلما جاء کم رسول بما لا تهوی انٔفسکم اْستکبرتم ففر یقاً کذبتم و فریقاً تقتلون ) ( ۲ )

کیا ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کسی رسول نے تمہاری نفسانی خواہشات کے برعکس کوئی کسی چیز پیش کی ، تو تم نے تکبر سے کام لیا،لہٰذا کچھ کو جھوٹا کہا اور کچھ کو قتل کر ڈالا؟

____________________

(۱)یونس ۵۹

(۲)بقرہ ۸۷

۶۲

( و اِذا قیل لهم آمنوا بما أنزل ﷲ قالوا نؤمن بما أنزل علینا ویکفرون بما ورائه ) ...)( ۱ )

اور جب ان سے کہا گیا :جو کچھ خدا نے نازل کیا ہی اسپر ایمان لاؤ!تو کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جو خود ہم پر نازل ہو اہے اوراس کے علاوہ کا انکار کرتے ہیں۔

اور پیغمبر سے فرماتا ہے:

( ما ننسخ من آية أو ننسها نأت بخیر منها أَومثلها ) )

ہم اُس وقت تک کوئی حکم نسخ نہیں کرتے یااسے تاخیر میں نہیں ڈالتے ہیں جب تک کہ ا س سے بہتر یااس جیسا نہ لے آئیں۔( ۲ )

( ولن ترضیٰ عنک الیهودولا النّصاریٰ حتیٰ تتّبع ملّتهم ) )( ۳ )

یہود ونصاریٰ ہر گز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک کے ان کے دین کا اتباع نہ کرلو۔

توریت کے نسخ شدہ احکام بالخصوص تبدیلی قبلہ سے متعلق بنی اسرائیل کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نزاع و جدال کرنے کی خبر دیتے ہوئے خدا وند عالم سورئہ بقرہ میں فرماتا ہے :

''ہم آسمان کی جانب تمھاری انتظار آمیز نگاہ کو دیکھ رہے ہیں ؛ اب اس قبلہ کی سمت جس سے تم راضی اور خشنود ہو جاؤ گے تمہیں موڑ دیں گے ،جہاں کہیں بھی ہو اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کر لو،اہل کتاب(یہود و نصاریٰ ) خوب جانتے ہیں کہ یہ حق ہے اوران کے رب کی طرف سے ہے اور تم جیسی بھی آیت اور نشانی اہل کتاب کے سامنے پیش کرو وہ لوگ تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔( ۴ )

پس اس مقام پر نسخ آیت سے مراد اس حکم خاص کا نسخ تھا ، جس طرح ایک آیت کو دوسری آیت سے بدلنے سے مراد کہ جس کے بارے میں قریش رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نزاع کر رہے تھے، مکّہ میں قریش اور غیر قریش کے درمیان بعض حلال و حرام احکام کو تبدیل کرنا ہے ۔بنابراین واضح ہوا کہ خدا کے کلام : ''( واِذا بدّلنا آية مکان آية ) '' میں لفظ آیت سے مراد حکم ہے ، یعنی :''( اِذا بدلنا حکماً مکان حکم' ) ' جب بھی کسی حکم کو حکم کی جگہ قرار دیں

اور خدا وندعالم کے اس کلام '' ما ننسخ من آےة أو ننسھا'' سے بھی مراد یہ ہے : جب کبھی کو ئی حکم ہم نسخ کرتے یا اسے تاخیر میں ڈالتے ہیں تواس سے بہتر یااس جیسا اس کی جگہ لاتے ہیں۔

____________________

(۱)بقرہ ۹۱(۲)بقرہ ۱۰۶(۳)بقرہ ۱۲۰(۴) بقرہ۱۴۴ ۱۴۵

۶۳

حکم کو تاخیر میں ڈالنے کی مثال : موسی کی شریعت میں کعبہ کی طرف رخ کرنے کوتاخیر میں ڈالنا اوراس کا بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم سے تبدیل کرنا ہے کہ اس زمانہ میں بنی اسرائیل کے لئے مفیداور سود مند تھا۔

نسخ حکم اور اسے اسی سے بہتر حکم سے تبدیل کرنے کی مثال خاتم الانبیاء کی شریعت میں بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم کا منسوخ کرنا ہے کہ تمام لوگ تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا رخ کعبہ کی طرف کریں۔پس ایک آیت کے دوسری آیت سے تبدیل کرنے کا مطلب ایک حکم کو دوسرے حکم سے تبدیل کرنا ہے ، اس طرح واضح ہو گیا کہ خدا وند عالم جو احکام لوگوں کے لئے مقرر کرتا ہے کبھی انسان کی مصلحت اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہے اسمیں لحاظ کی جاتی ہے ایسے احکام نا قابل تغییرو تبدیل ہوتے ہیں جیسا کہ خداوندعالم نے سورۂ روم میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:

( فأ قم وجهک للدین حنیفاً فطرت ﷲ التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق ﷲ ذلک الدین القیم و لٰکنّ أکثر الناس لا یعلمون ) ( ۱ )

اپنے رخ کو پروردگار کے خالص اور پاکیزہ دین کی طرف کر لو، ایسی فطرت کہ جس پر خدا وندعالم نے انسان کی تخلیق فرمائی ہے آفرینش خدا وندی میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہے یہی محکم و استوار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

یعنی اُن قوانین میں جنھیں خدا وند عالم نے لوگوں کی فطرت کے مطابق بنائے ہیں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہے ،سورۂ بقرہ میں اسی کے مانندخدا کا کلام ہے:

( والوالدات یرضعن أولا دهنّ حولین کاملین لمن أراد أن یتم الرضاعة ) ( ۲ )

اور جو مائیں زمانہ رضاعت کو کامل کرنا چاہتی ہیں ، وہ اپنے بچوں کو مکمل دو سال دودھ پلائیں۔

یہ مائیں کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی زندگی گزارتی ہوں ان میں کوئی فرق نہیں ، خواہ حضرت آدم کی بیوی حواہوں جو اپنے نومولودکو درخت کے سائے میں یا غار میں دودھ پلائیں، یاان کے بعد کی نسل ہو ، جو غاروں، خیموںاور محلوں میں دودھ پلاتی ہے دو سال مکمل دودھ پلانا ہے۔

اسی طرح بنی آدم کے لئے کسی تبدیلی کے بغیر روزہ ، قصاص اور ربا (سود) کی حرمت کا حکم ہے، جیسا

____________________

(۱)روم ۳۰

(۲)بقرہ ۲۳۳۔

۶۴

کہ خدا وند سبحان سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :

۱۔( یا أيّها الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان! روزہ تم پراسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض تھا شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔

۲۔( یا أيّها الذین آمنواکتب علیکم القِصاص ) )( ۲ )

اے صاحبان ایمان ! تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے۔

۳۔( و أحلّ ﷲ البیع وحرّم الرّبا ) )( ۳ )

خدا وندعالم نے بیع کو حلال اور ربا کو حرام کیاہے۔

یہ اور دیگر وہ احکام جسے خدا وندعالم نے انسان کی انسانی فطرت کے مطابق اسکے لئے مقرر فرمایا ہے کسی بھی آسمانی شریعت میں تغییر نہیں کرتے، یہ احکام قرآن میں لفظ''وصّٰی ، یوصیکم، وصےةاور کتب'' جیسے الفاظ سے تعبیر ہوئے ہیں۔

لیکن جن احکام کو خداوندعالم نے خاص حالات کے تحت بعض لوگوں کے لئے مقرر کیا ہے ، ان کی مدت بھی ان حالات کے ختم ہو جانے سے ختم ہوجاتی ہے جیسے وہ احکام جنھیں بنی اسرائیل سے متعلق ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا جواُن کے خاص حالات سے مطابقت رکھتے تھے، یا وہ احکام جو خدا وندعالم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ مکّہ سے ہجرت کرنے والوں کے لئے مقرر فرمائے اور عقد مواخات کے ذریعہ ایک دوسرے کا وارث ہونا انصار مدنیہ کے ساتھ ہجرت کے آغاز میں قانونی حیثیت سے متعارف اور شناختہ شدہ تھا پھر فتح مکّہ کے بعداس کی مدت تمام ہوگئی اور یہ حکم منسوخ ہو گیا، خدا وند عالم سورۂ انفال کی ۷۲ ویں ۷۵ ویں آیت تک اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( اِنّ الذین آمنو أوهاجروا )

وہ لوگ جو ایمان لائے اور مکّہ سے ہجرت کی۔

( واّلذین آووا ونصروا )

____________________

(۱)بقرہ ۱۸۳

(۲) بقرہ ۱۷۸

(۳) بقرہ ۲۷۵.

۶۵

اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور نصرت فرمائی یعنی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انصار ۔

( أولآء ک بعضهم أولیاء بعض )

ان لوگوں میں بعض ، بعض کے وارث اور ولی ہیں،یعنی میراث لینے اور نصرت کرنے کی ولایت رکھتے ہیں.

( والذین آمنوا ولم یهاجروا مالکم من ولایتهم من شیئٍ حتّیٰ یهاجروا والذین کفروا بعضهم أولیاء بعض )

جن لوگوں نے ایمان قبول کیا لیکن ہجرت نہیں کی تم لوگ کسی قسم کی ولایت ان کی بہ نسبت نہیں رکھتے، یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں... اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیںاُن میں سے بعض، بعض کے ولی اور سرپرست ہیں۔

پھر خدا نے اس حکم کے نسخ ہونے کو اس طرح بیان فرمایا ہے :

( وأولوا الأرحام بعضهم أولی ببعض فی کتا ب ﷲ )

اقرباء کتاب الٰہی میں آپس میں ایک دوسرے کی بہ نسبت اولیٰ اور سزاوار ترہیں۔

یعنی ان احکام میں جنھیں خدا وند عالم نے تمام انسانوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اقرباء کو حق تقدم اور اولویت حاصل ہے۔( ۱ )

خلاصہ، قوم یہود نے جب قرآن کی الٰہی آیات کو سنا اور دیکھا کہ صفات قرآن جو کچھ حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے متعلق ان کے پاس موجود ہے اس کی تصدیق اور اس کاا ثبات کر رہے ہیں تو وہ اس کے منکر ہوگئے اور بولے: ہم صرف اس توریت پر جو ہم پر نازل ہوئی ہے ایمان رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ انجیل اور قرآن پر ایمان و یقین نہیں رکھتے ،خدا وندعالم نے بھی قرآن کی روشن آیات اور اسکے معجزات اور احکا م کے ارسال کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے: فاسقوں(کافروں )کے سوا کوئی اس کا منکر نہیں ہوگا اور پھر فرمایا: ہم شریعت کے ہر حکم کو نسخ کرتے ہیں( جیسے بیت المقدس کے قبلہ ہونے کے حکم کا منسوخ ہونا) یاہم اسے مؤخرکرتے ہیں تواُس سے بہتر یااسی جیسا حکم لوگوں کے لئے پیش کرتے ہیں ، خدا وند عالم خود زمین و آسمان کا مالک ہے ،وہ جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے یہود و نصاریٰ رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہر گز راضی نہیں ہوںگے مگر یہ کہ جوان پر احکام نازل ہوئے ہیںان سے دست بردار ہو جائیں اوران کی شریعت کے احکام کے پابند ہوجائیں۔

خدا وندعالم اسی مفہوم کی دوسرے انداز میں تکرار کرتے ہوئے سورئہ اسراء میں فرماتا ہے:

____________________

(۱)اس آیت کی تفسیر کے لئے مجمع البیان ، تفسیر طبری اور دوسری روائی تفاسیرکی جانب رجوع کیجئے.

۶۶

( و آتینا موسیٰ الکتاب و جعلنا ه هدیً لبنی اِسرائیل ) ( ۱ )

ہم نے موسیٰ کو کتا ب دی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا،پھر فرماتا ہے :

( انّ هذا القرآن یهدی للتی هی اقوم ) ( ۲ )

یہ قرآن محکم اور استوارترین راہ کی ہدایت کرتا ہے،یعنی قرآن کا راستہ اس سے وسیع اوراستوارتر ہے جو موسی کی کتاب میں آیا ہے۔

ہم نے ربوبیت کے مباحث میں بات یہاں تک پہنچائی کہ رب العالمین نے انسان کے لئے اسکی فطرت اور سرشت کے مطابق ایک نظام معین کیا ہے پھر راہ عمل میں ان مقررات اور قوانین کی طرف راہنمائی فرمائی ہے ، انشاء ﷲ آئندہ بحث میں اس بات کی تحقیق و بر رسی کریں گے کہ رب العالمین کس طرح سے انسان کو دنیا و آخرت میں پاداش و جزا دیتا ہے۔

____________________

(۱) اسرائ۲

(۲)اسرائ۹

۶۷

۲

ربّ العالمین اور انسان کے اعمال کی جزا

الف وب:دنیا و آخرت میں

ج:موت کے وقت.

د:قبر میں

ھ: محشر میں

و:بہشت وجہنم میں

ز:صبر وتحمل کی جزا.

ح: نسلوں کی میراث؛ عمل کی جزا

۱۔

انسان اور دنیا میں اس کے عمل کی جزا

ہم تمام انسان اپنے عمل کا نتیجہ دنیاوی زندگی میں دیکھ لیتے ہیں جو گندم ( گیہوں) بوتا ہے وہ گندم ہی کاٹتا ہے اور جو جَو بوتا ہے وہ جَو کا ٹتاہے اسی طرح سے انسان اپنی محنت کا نتیجہ کھاتا ہے۔

یہ سب کچھ دنیاوی زندگی میں ہمارے مادی کارناموں کے آثار کاایک نمونہ ہے۔ دنیاوی زندگی میں ہمارے اعمال مادی آثار کے علاوہ بہت سارے معنوی آثار بھی رکھتے ہیں مثال کے طور پر انسانوں کی زندگی میں صلۂ رحم کے آثار ہیں،جن کی خبررسول خدا نے دیتے ہوئے فرمایا :

''صلة الرّحم تزید فی العمر وتنفی الفقر''

اقرباء و اعزا ء کے ساتھ صلہ ٔرحم کرنا عمر میں اضافہ اور فقر کو دور کرنے کا باعث ہوتا ہے۔

۶۸

نیز ارشاد فرمایا:

''صلة الرحم تزید فی العمر،وصدقة السر تطفیء غضب الربّ ، و اِنّ قطیعة الرّحم و الیمین الکاذبة لتذرٰان الدیار بلا قِعَ من أهلها و یثقلان الرحم و اِنَ تثقّل الرحم انقطاع النسل''

اقرباء و اعزا ء کے ساتھ صلہ رحم کرنا عمر میں اضافہ کا سبب ہے اور مخفی طور پر صدقہ دینا غضب الٰہی کو خاموش کرتا ہے، یقیناًاقرباء واعزاء سے قطع تعلق رکھنا اور جھوٹی قسم کھانا آباد سرزمینوں کو بر باد اور بار آور رحم کو بانجھ بنا دیتا ہے اور عقیم اور بانجھ رحم، انقطاع نسل کے مساوی ہے۔( ۱ )

یہ جو فرمایا :'' تطفی غضب الرّبّ'' پوشیدہ صدقہ دینا غیظ وغضب الٰہی کو خاموش کر دیتا ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ اگر انسان اپنی (نامناسب) رفتار سے خدا کے خشم وغضب نیز دنیاوی کیفر کا مستحق ہو اور یہ

____________________

(۱) سفینة البحارمادئہ رحم.

۶۹

مقرر ہو کہ اس کے گناہوں کی وجہ سے اس کی جان و مال یا اس سے مربوط چیزوں کو نقصان پہنچے تو یہ پوشیدہ صدقہ اس طرح کی بلا کواس سے دور کردیتا ہے۔

بَلا قِع، بلقع کی جمع ہے ،بے آب وگیاہ ،خشک اور چٹیل میدان اور وادی برہوت ۔( ۱ ) چنانچہ امیر المومنین نے فرمایا:

''وصلة الرّحم فأِنّها مثراة فی المال ومنساة فی الأجل، وصدقة السرّفأنّها تکفرالخطية' '( ۲ )

رشتہ داروں کی دیکھ ریکھ اور رسید گی کرنا مال میں زیادتی اور موت میں تاخیر کا باعث ہے اور پوشیدہ صدقہ گناہ کو ڈھانک دیتا ہے اور اس کا کفارہ ہوتا ہے ۔

نیز فرماتے ہیں :

''و صلة الرحم منماة للعدد''

اقرباء واعزاء کے ساتھ نیک سلوک کرنا افراد میں اضافہ کا سبب ہے۔( ۳ )

ان تمام چیزوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ خدا وند عالم اپنی حکمت سے ایسا چاہتا ہے کہ روزی میں زیادتی، نسل میں اضافہ''صلہ رحم'' کی وجہ سے ہونیز تنگدستی اور عقیم ہونا ''قطع رحم'' میں ہو۔

یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی دوتاجرآدمی ایک طرح کا مال بازار میں پیش کرتے ہیں تو ایک کو نقصان ہوتا ہے اور دوسرے کو فائدہ ،پہلے کے نقصان کا سرچشمہ اقرباء سے قطع رحم کرنا ہے اور دوسرے کا فائدہ حاصل کرنا عزیز واقارب سے صلہ رحم کی بنا پر ہے خدا کی طرف سے ہر ایک کی جزا برابر ہے۔

ایسے عمل کی جزا انسان کے ،خدا پر ایمان اور عدم ایمان سے تعلق نہیں رکھتی ہے کیونکہ خدا وندعالم نے انسان کے کارناموں کے لئے دنیا میں دنیاوی آثار اور آخرت میں اخروی نتائج قرار دئے ہیں کہ جب بھی کوئی اپنے ارادہ واختیاراور ہوش وحواس کے ساتھ کوئی کام انجام دے گا تواس کا دنیاوی نتیجہ دنیا میں اور اخروی نتیجہ آخرت میں اُسے ملے گا۔

اسی طرح خدا وندعالم نے اپنے ساتھ انسان کی رفتاراور خلق کے ساتھ اس کے کردار کے مطابق جزا اور پاداش قرار دی ہے ، خواہ یہ مخلوق انسان ہو یا حیوان یا ﷲ کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت ہو جس سے خدا نے

____________________

(۱) المعجم الوسیط مادئہ بلقع(۲)نھج البلاغہ خطبہ ۱۰۸(۳) نہج البلاغہ حکمت ۲۵۲

۷۰

انسان کو نوازا ہے، ہر ایک کے لئے مناسب جزا رکھی ہے ،یہ تمام کی تمام ﷲ کی مرضی اور اس کی حکمت سے وجود میں آئی ہیں ،''ربّ العالمین'' نے ہمیں خود ہی آگاہ کیا ہے کہ انسان کے لئے اسکے کردار کے نتیجہ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ( یعنی جیسا کردار ہو گا ویسی ہی اس کی جزا وپاداش ہوگی)

( وأن لیس للاِ نسان اِلاّ ما سعیٰ ) ( ۱ )

انسا ن کے لئے اس کی کوشش اور تلاش کے نتیجہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

اسی طرح خبر دی ہے کہ جو دنیا کے لئے کام کرئے گا خدا وند عالم اس کا نتیجہ اسے دنیا میں دکھاتا ہے اور جو کوئی آخرت کے لئے کوشاں ہوگا اسکے کام کی جزا اسے آخرت میں دکھائے گا:

( ومن یرد ثواب الدنیا نؤتیه منها و من یرد ثواب الآخرة نؤته منها وسنجزی الشاکرین ) ( ۲ )

جو کوئی دنیاوی جزا وپاداش چاہتا ہے اسے وہ دیں گے اور جو کوئی آخرت کی جزا چاہتا ہے ہم اسے وہ دیں گے اور عنقریب شکر گزاروں کوجزا دیں گے۔

( مَن کان یریدالحیا ة الدنیا وزینتها نوفّ الیهم أعمالهم فیها وهم فیها لا یبخسون)(اولاء ک الذین لیس لهم فی الاخرة اِلّا النار... )

جو لوگ (صرف) دنیاوی زندگی اور اس کی زینت و آرایش کے طلبگار ہیںان کے اعمال کا کامل نتیجہ ہم اسی دنیا میں دیں گے اور اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی اور یہ گرو ہ ان لوگوں کا ہے جن کے حصہ میں آخرت میں سوائے آگ کے کچھ نہیں ہے۔( ۳ )

( مَن کان یرید العاجلة عجلنا له فیها..)( ومن أراد الآخرة و سعیٰ لها سعیها وهو مومن فأولآء ک کان سعیهم مشکوراکلاً نمد هٰؤلاء و هٰؤلاء من عطاء ربّک وما کان عطاء رّبک محظوراً ) ( ۴ )

جو کوئی اس زود گزر دنیا کا طلبگا ر ہو اس کو اسی دنیا میں جزا دی جائے گی... اور جو کوئی دار آخرت کا خوہاں ہو اوراس کے مطابق کوشش کرے اور مومن بھی ہو اس کی کوشش وتلا ش کی جز ا دی جائے گی ، دونوںگروہوں میں سے ہر ایک کو تمھارے پروردگار کی عطا سے بہرہ مند کریں گے اور تمہارے رب کی عطا کبھی ممنوع نہیں قرار دی گئی ہے۔

____________________

(۱)نجم ۳۹.(۲)آل عمران ۱۴۵.(۳)ہود ۱۵ ،۱۶. (۴) اسرا ء ۱۸۔ ۲۰.

۷۱

کلمات کی تشریح

''نوفّ اِلیھم'':ان کا پورا پورا حق دیں گے۔

'' لایبخسون ، لا ینقصون'': ان کے حق میں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔

'' محظوراً '': ممنوعاً، حظر یعنی منع، رکاوٹ۔

دنیا وآخرت کی جزا

جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس بنیاد پر بعض اعمال ایسے ہیں کہ جن کی جزا انسان دنیا ہی میں دیکھ لیتا ہے ، لیکن ان میں سے بعض اعمال کی جزا قیامت میں انسان کو ملے گی ، مثال کے طور پر کوئی شہید خدا کی راہ میں جنگ کرے اور شہادت کے درجہ پر فائز ہو جائے ،وہ دنیوی جز ا کے دریافت کرنے کا امکان نہیں رکھتا تا کہ اس سے فائدہ اٹھائے ،لہٰذا خدا وندعالم اس کی جزا آخرت میں دے گا جیساکہ فرماتا ہے:

( ولا تحسبّن الذین قتلوا فی سبیل ﷲ امواتاً بل أحیاء عند ربّهم یرزقون) (فرحین بما آتهم ﷲ من فضله و یستبشرون با لذین لم یلحقو ا بهم من خلفهم الا خوف علیهم ولا هم یحزنون)( یستبشرون بنعمة من ﷲ وفضلٍ وأنّ ﷲ لا یضیع أجر المؤمنین ) ( ۱ )

اورجو لوگ راہ خدا میں شہید ہوگئے ہیں انھیں ہر گز مردہ خیال نہ کرو ! بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کی طرف سے رزق پاتے ہیں ،یہ لوگ اس نعمت کی وجہ سے جو خدا وندعالم نے انھیں اپنے فضل و کرم سے دی ہے ، راضی اور خوشنود ہیں اور جو لوگ ان سے ابھی تک ملحق نہیں ہوئے ہیں ان کی وجہ سے شاد و خرم ہیں کہ نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی حزن و ملال وہ لوگ نعمت الٰہی اوراس کی بخشش اور اس بات سے کہ خدا وند عالم نیکو کاروں کی جزا کو ضائع و برباد نہیں کرتا ، مسرور و خوش حال ہیں ۔

اسی طرح اقتدار کے بھوکے انسان اوراس شخص کا حال ہے جو کسی مومن کے ساتھ ظلم وتعدی کر کے اسے قتل کر دیتا ہے، ایسا شخص بھی اپنی جزا آخرت میں دیکھے گا جیسا کہ خدا وندعالم نے ارشاد فرماتا ہے:

( ومن یقتل مؤمناً متعمداً فجزاؤه جهنم خالداً فیها وغضب ﷲ علیه ولعنه وأعدّ له عذاباً عظیماً ) ( ۲ )

____________________

(۱) آل عمران ۱۶۹ ، ۱۷۱

(۲) نساء ۹۳.

۷۲

جو کوئی کسی مومن انسان کو عمدا ( جان بوجھ کر) قتل کر ڈالے اسکی جزا جہنم ہے اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا خدااس پر غضب ناک ہے اوراس نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے اوراس کے لئے عظیم عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔

اسی طرح اس شخص کا حال ہے جو ناقص جسم کے ساتھ دنیا میں آتا ہے جیسے اندھا گونگا ،ناقص الخلقة (جس کی تخلیق میں کوئی کمی ہو) اگر ایسا شخص خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے اور اولیاء خدا کا دوست ہو اور اپنے عضو کے ناقص ہونے کی بناء پر خدا کے لئے صبر وتحمل کرے ایسے شخص کو خدا آخرت کی دائمی وجاوید زندگی میں ایسا اجر دے گا کہ جو دنیاوی کمی اور زحمتیںاس نے راہ خدا میں برداشت کی ہیں ان کا اس جزا کے مقابلہ میں قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔( ۱ )

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ،اس بنا پر عدل الٰہی آخرت میں عمل کی جزا دریافت کیے بغیر ثابت نہیں ہوتا، خداوند عالم نے دنیاوی زندگی کے بعداعمال کی جزا پانے کیلئے متعدد مراحل قرار دئے ہیں ہم آئندہ بحث میں اس پر گفتگو کریں گے۔

____________________

(۱) دیکھئے : ثواب الاعمال،صدوق باب ''اس شخص کا ثواب جو خدا وند عالم سے اندھے ہونے کی حالت میں ملاقات کرے اوراس نے خدا کے لئے اسے تحمل کیا ہو ، حدیث ۲۱ ، نیز معالم المدرستین، ج ۱، بحث شفاعت،اس ایک نا بینا شخص کی روایت کی طرف رجوع فرمائیں جورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اور آنحضرت سے درخواست کی کہ حضرت اس کے لئے دعا کریں تا کہ شفا ہو''۔

۷۳

۲۔

انسان اور آخرت میں ا س کی جزا

خود انسان اپنے کھیت میں کبھی گیہوں،مکئی اور سبزیاںاگاتا ہے اور چند ماہ بعداس کا نتیجہ اورمحصول حاصل کرتا ہے اور کبھی انگور، انجیر، زیتون،سیب اور سنترہ لگاتا ہے اور تین یا چار سال بعداس کا نتیجہ پاتا ہے اور کبھی خرما اور اخروٹ بوتا ہے اور ۸ سال یااس سے بھی زیادہ عرصہ کے بعداس سے فائدہ اٹھاتا ہے،اس طرح سے عادی اور روز مرہ کے کاموں کا نتیجہ انسان دریافت کرتا ہے اور اپنے اہل وعیال اوردیگر افراد کواس سے فیضیاب کرتا ہے اس کے با وجود خدا فرماتا ہے:

( اِنّ ﷲ هو الرزّاق ذوالقوة المتین ) ( ۱ )

خدا وند عالم روزی دینے والا ہے وہ قوی اور توانا ہے۔

( ﷲ الذی خلقکم ثّم رزقکم ) ( ۲ )

وہ خدا جس نے تمھیں خلق کیا پھر روزی دی۔

( لا تقتلوا اولا دکم من اِملاقٍ نحن نرزقکم و اِيّاهم ) ( ۳ )

اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو کیونکہ ہم تمھیں اور انھیں بھی رزق دیتے ہیں۔

( وکا يّن من دابة لا تحمل رز قها ﷲ یرزقهاو اِيّاکم ) ( ۴ )

کتنے زمین پر چلنے والے ایسے ہیں جو اپنا رزق خود حاصل نہیں کر سکتے لیکن خدا انھیں اور تمھیں بھی رزق دیتا ہے ۔

( و ﷲ فضّل بعضکم علیٰ بعضٍ فی الرّزق ) ( ۵ )

____________________

(۱) ذاریات ۵۸

(۲)روم ۴۰

(۳) انعام ۱۵۱.

(۴) عنکبوت ۶۰

(۵) سورہ نحل ۷۱.

۷۴

خدا وندعالم نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت اور برتری دی ہے۔

جی ہاں! انسان زمین کا سینہ چاک کرتا ہے ، اس میں دانہ ڈالتا ہے، درخت لگاتا ہے ، پانی دیتا ہے ، تمام آفتوں اور بیماریوں کو دور کرتا ہے اس کی دیکھ ریکھ کرتا ہے تاکہ دانہ بن جائے اور بارآور ہو جائے جسے خود وہ بھی کھائے اور جسے دل چاہے کھلائے لیکن خدا وندسبحان فرماتا ہے :

( نحن نرزقکم و ایاّهم )

ہم تمھیں اوران کو روزی دیتے ہیں !

اور خدائے عظیم نے درست فرمایا ہے کیونکہ جس نے آب وخاک میں نباتات کے اگانے کے خواص قرار دئے اور ہمیں بونے اورپودا لگانے کا طریقہ سکھا یا ،وہی ہمیں روزی دینے والا ہے ۔

خدا کے روزی دینے اور انسان کے دنیا میں روزی حاصل کرنے کی مثال، میزبان کا مہمان کو '' self serveic ''والے ہوٹل میں کھانا کھلانے کی مانند ہے کہ جس میں نوکر چاکر نہیں ہوتے اور معمولاً مہمان سے کہا جاتا ہے ،اپنی پذیرائی آپ کیجیے(جو دل چاہے خود لے کر کھائے ) اس طرح کے ہوٹلوں میں میزبان مہمان کوکھانا کھلاتا ہے مہمان جس طرح کی چیزیں پسند کرنا چاہے اسے مکمل آزادی ہوتی ہے لیکن جو کچھ وہ کھاتا ہے میزبان کی مہیا کی ہوئی ہے لیکن اگرکوئی مہمان ایسی جگہ پر داخل ہو اور خود اقدام نہ کرے، چمچے، کانٹے، پلیٹ جو میزبان نے فراہم کئے ہیں نہ اٹھائے اور فراہم کی ہوئی غذا ؤں کی طرف اپنے قدموں سے نہ بڑھے اور اپنی مرضی سے کچھ نہ لے ،تو وہ کچھ کھا نہیں سکے گا،اس کے باوجود جس نے مہمانوں کیلئے غذا فراہم کی ہے و ہی میزبان ہے،ایسی صورت میں بری طرح کھا نے کا احتمالی نقصان بھی مہمان ہی کے ذمہ ہے جس نے خودہی نقصان دہ غذا کھا ئی ہے اور خداوند عظیم نے سورۂ ابراہیم میں کس قدر سچ اور صحیح فرمایا ہے:

( ﷲ الّذی خلق السّموات والأرض و انٔزل من السماء مائً فأخرج به من الثمرات رزقاً لکم و سخر لکم الفلک لتجری فی البحر بأمره وسخر لکم الأنهاروسخر لکم الشمس والقمر دائبین وسخر لکم اللیل و النهار ) ( ۱ )

خدا وندعالم وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو خلق کیا اور آسمان سے پانی نازل کیا اوراس سے تمہارے لئے زمین سے میوے اگائے ،کشتیوں کو تمہارا تا بع قرار دیا، تا کہ دریا کی وسعت میں اس کے حکم

____________________

(۱)ابراہیم ۳۲ ، ۳۳

۷۵

سے رواں دواں ہوں ، نیز نہروں کو تمہارے اختیار میں دیا اور سورج ا ورچاند کو منظم اور دائمی گردش کے ساتھ تمہارا تابع بنا یا اوراس نے روز و شب کو تمہارا تابع قراردیا۔

اور سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:

( و ﷲ أنزل من السماء مائً فأحیا به الارض بعد موتها انّ فی ذلک لاية لقومٍ یسمعون)(و أنَّ لکم فی الأنعام لعبرة نسقیکم مِّما فی بطونه من بین فرثٍ و دمٍ لّبنا خالصاً سائغاً للّشاربین)( و من ثمراتِ النخیلِ و الأعنابِ تتّخذون منه سکراً و رزقاً حسناً انّ فی ذلک لايةً لّقومٍ یعقلون)( و أوحیٰ ربّک اِلی النّحل ان اْتّخذی من الجبال بیوتاً و من الشجر و مّما یعرشون)( ثمّ کلی من کلّ الثّمرات فاْسلکی سبل ربّک ذللاً یخرج من بطونها شراب مختلف ألوانه فیه شفٰاء للناّٰس انَّ فی ذلک لآ يةً لقومٍ یتفکرون ) ( ۱ )

خدا وندعالم نے آسمان سے پانی برسایا ، پس زمین کو مردہ ہو جانے کے بعد حیات بخشی ،یقینا اس میں سننے والی قوم کے لئے روشن علامت ہے اور چوپایوں کے وجود میں تمہارے لئے عبرت ہے،ان کے شکم کے اندرسے گوبراور خون کے درمیان سے خالص دودھ ہم تمھیں پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار ہے. اورتم درخت کے میووں ،کھجور اور، انگور سے مسکرات اور اچھی اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو یقینا اس میں روشن نشانی ہے صاحبان فکرکے لئے، تمہارے رب نے شہدکی مکھی کو وحی کی کہ پہاڑوں، درختوں اور لوگوں کے بنائے ہوئے کو ٹھوں پر اپنا گھر بنائے اور تمام پھلوں سے کھائے اوراپنے رب کے معین راستے کو آسانی سے طے کرے،ا س کے شکم کے اندر سے مختلف قسم کا مشروب نکلتاہے کہ اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس میں صاحبان عقل و فکر کے لئے روشن نشانیاں ہیں ۔

کلمات کی تشریح

۱۔'' دا ئبین،مستمرّین'': یعنی ہمیشہ گردش کر رہے ہیں ، معین مسیر میں حرکت اُن کی دائمی شان و عادت ہے ۔

۲۔''فرث '': حیوانات کے معدہ اور پیٹ میں چبائی ہوئی غذا (گوبر)۔

____________________

(۱) نحل ۶۵ ، ۶۹

۷۶

۳۔''مّما یعرشون'': جو کچھ اوپر لے جاتے ہیں ، خرمے کے درختوں کے اوپر جو چھت بنائی جاتی ہے جیسے چھپر وغیرہ۔

آغاز کی جانب باز گشت:

روزی رساںرب ّنے اپنے مہمان انسان کے لئے اس دنیا میں نعمتیں فراہم کیں، روزی کس طرح حاصل کی جائے اور کس طرح بغیر کسی ضرر اور نقصان کے اس سے بہرہ ور ہوں، اس زود گزر دنیا اور آخرت میں ، انبیائ، اوصیاء اور علماء کے ذریعہ اس کی تعلیم دی اور فرمایا:

( یاأيّهاالذین آمنوا کلوا من طیبات مارزقناکم واشکروﷲ ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان ! پاکیزہ چیزوں سے جوہم نے تمہارے لئے روزی دی ہے کھا ؤ اور خدا کا شکر ادا کرو، نیز فرمایا:

( یسٔلونک ماذاأحلّ لهم قل أحلّ لکم الطيّبات ) ( ۲ )

تم سے سوال کرتے ہیں : کون سی چیزان کیلئے حلال کی گئی ہے ؟ کہہ دیجئے تمام پاکیز ہ چیزیںتمہارے لئے حلال کی گئی ہیں۔

نیز خاتم الانبیاء کے وصف میں فرمایا :

( ویحلّ لهم الطیبّات ویحرّم علیهم الخبائث ) ( ۳ )

اوروہ ( پیغمبر)ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور نا پاک چیزوں کو حرام کرتا ہے۔

اس لحاظ سے پروردگار سبحان نے ہمیں خلق کیا جوکچھ ہمارے اطراف میں تھا،اسے ہمارا تابع بنا دیا اور اس دنیا میں پاکیزہ چیزوں سے جو کہ ہماری زراعت و کاشت کا نتیجہ ہے ہمیں رزق دیا ،وہ اسی طرح ہمارے اعمال کے نتیجہ کو آخرت میں ہمارے لئے روزی قرار دے گا جیسا کہ فرمایا ہے:

( والذین هاجروا فی سبیل ﷲ ثّم قتلواأوما توالیر زقنّهم ﷲ رزقاً حسناً ) ( ۴ )

وہ لوگ جنھوں نے راہ خدا میں ہجرت کی ، پھر قتل کردئے گئے یا مر گئے ،خدا انھیں اچھی روزی دیگا۔

نیز فرماتا ہے:

____________________

(۱)بقرہ۱۷۲ (۲)مائدہ ۴(۳)اعراف ۱۵۷.(۴)حج۵۸

۷۷

( الاّ مَن تاب وَآمنَ وَ عملَ صٰا لحاً فاُولاء کَ یدخُلُونَ الجنةَ وَلاَ يُظلمونَ شیئاً جنَّاتِ عدنٍ التی وعدالرحمنُ عبٰادهُ بالغیبِ اِنه کٰانَ وَعدهُ ما تيّا لا یسمعونَ فیها لغواً اِلّا سلاماً ولهم رزقُهُم فیها بُکرةً وعَشِيّاً ) ( ۱ )

...مگر وہ لوگ جو توبہ کریں اور ایمان لا ئیں اور شائستہ کام انجام دیں ، پس یہ گروہ بہشت میں داخل ہوگا اوراُس پر ادنیٰ ظلم بھی نہیں ہوگا، دائمی بہشت جس کا خدا وند رحمان نے غیب کی صورت میں وعدہ کیا ہے یقینا خدا کا وعدہ پورا ہونے والا ہے ،وہاں کبھی لغو وبیہودہ باتیں نہیں سنیں گے اور سلام کے علاوہ کچھ نہیں پائیں گے، ان کی روزی صبح وشام مقرر ہے۔

پس ربّ حکیم انسان کے اعمال کی جزا دنیا میں جلدی اور آخرت میں مدت معلوم کے بعدا سے دیتا ہے ، اسی طرح بہت سارے سوروں میں اس نے اس کے بارے میں خبر دی ہے اور سورۂ زلزال میں فرمایا ہے:

( فمَن یعمل مثقال ذرةٍ خَیراً یره ومَن یعمل مثقال ذرةٍ شراً یره ) ( ۲ )

پس جو ذرہ برابربھی نیکی کرے گا وہ اسے بھی دیکھے گا اور جو بھی ذرہ برابر بھی بُرائی کرے گا وہ اسے بھی دیکھے گا ۔

سورۂ ےٰسین میں ارشاد ہوتا ہے:

( فالیوم لا تُظلَمُ نفس شیئاً ولا تجزون اِلاّ ما کنتم تعلمون ) ( ۳ )

پس اس دن کسی پر بھی ذرہ برابر ظلم نہیں ہو گا اور جو تم نے عمل کیا ہی اسکے علاوہ کوئی جزا نہیں دی جائے گی۔

ہاں ، جو اس دنیا میں تلخ اورکڑوا ایلوالگائے گا ایلواکے علاوہ کوئی اور چیزاسے حاصل نہیں ہوگی اور جو اچھے ثمرداردرخت لگائے گا وہ اچھے اچھے میوے چنے گا ۔

جیسا کہ خداوند سبحان سورۂ نجم میں فرماتا ہے:

( وَ اَنْ لیس لِلا نسان اِلاّ ما سعیٰ وَ اَنَّ سعیه سوف یریٰ ) ( ۴ )

انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے اور اس کی کوشش عنقریب اس کے سامنے پیش کردی جائے گی ۔

____________________

(۱)مریم ۶۰ ، ۶۳(۲) زلزال ۷، ۸(۳)یسین ۵۴(۴)نجم ۳۹ ،۴۰

۷۸

انسان اپنے اعمال کے نتائج صرف اس دنیا ہی میں نہیںدیکھتا ، بلکہ درج ذیل پانچ مختلف حا لات اور مقامات پر بھی دیکھتا ہے:

۱۔ موت کے وقت

۲ ۔ قبر میں

۳۔ محشر میں

۴۔ بہشت و جہنم میں

۵۔ ورثاء میں کہ عمل کی جزاان کے لئے میراث چھوڑ جاتا ہے۔

اس بحث میں ہم نے دنیا میں انسان کے اعمال کی پاداش کا ایک نمونہ پیش کیا، آئند ہ بحث میں ( انشاء ا )خدا وند متعال موت کے وقت کیسے جزا دیتا ہے اس کو بیان کریں گے۔

۳۔موت کے وقت انسان کی جزا

آخرت کے مراحل میں سب سے پہلا مرحلہ موت ہے ،خدا وند سبحان نے اس کی توصیف میں فرما یا ہے :

( وجاء ت سکرة الموت با لحقّ ذلک ما کنت منه تحید ) ( ۱ )

( اے انسان ) سکرات الموت حق کے ساتھ آ پہنچے ،یہ وہی چیز ہے جس سے تم فرار کر ر ہے تھے!

یعنی موت کی ہولناک گھڑی اور شدت جو آدمی کے عقل پر غالب آ جاتی ہے آپہنچی ،یہ وہی موت ہے کہ جس سے تو ( انسان) ہمیشہ فرار کرتا تھا!

( قُل يَتَوَ فّٰکم ملکُ المَوتِ الذی و کِل بکم ثُّم اِلیٰ ر بّکم تُرجعونَ ) ( ۲ )

اے رسول کہہ دو! موت کا فرشتہ جو تم پر مامور ہے تمہاری جان لے لے گا پھراس کے بعد تم اپنے ربّ کی طرف لوٹا دئے جاؤ گے۔یہ جو خدا وندعالم نے اس سورہ میں فرمایا ہے کہ'' موت کا فرشتہ تمہاری جان لے لے گا '' اور سورہ زمر میں فرمایا ہے :''( ﷲ یتوفی الا نفس ) ''( ۳ ) (خدا وندعالم جانوں کو قبض کرتا ہے) اور سورۂ نحل میں فرمایا ہے :''( تتو فاهم الملا ئکة ) ''( ۴ ) (فرشتے ان کی جان لیتے ہیں) اور سورۂ انعام میں ارشاد فرمایا ہے :( ''تو فته رُسُلُنا ) ' '( ۵ )

ہمارے فرستادہ نمائندے اس کی جان لیتے ہیں ! اِن باتوں میں کوئی منافات نہیں ہے ،کیونکہ: فرشتے خدا کے نمائندے ہیں اور روح قبض کرتے وقت ملک الموت کی نصرت فرماتے ہیں اور سب کے سب خدا کے حکم سے

____________________

(۱)ق ۱۹(۲)سجدہ ۱۱(۳) سورہ زمر۴۲(۴)سورۂ نحل۲۸۔۳۲(۵)انعام۶۱

۷۹

روح قبض کرتے ہیں ، پس در حقیقت خدا ہی روحوں کو قبض کرتا ہے اس لئے کہ وہ فرشتوں کواس کا حکم دیتا ہے۔

آخرت کا یہ مرحلہ شروع ہوتے ہی دنیا میں عمل کا امکان سلب ہو جاتا ہے اور اپنے عمل کا نتیجہ دیکھنے کامرحلہ شروع ہو جاتاہے ، منجملہ ان آثار کے جسے مرنے والا ہنگام مرگ دیکھتا ہے ایک وہ چیز ہے جسے صدوق نے اپنی سند کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :

''صوم رجب يُهوّن سکرات الموت'' ( ۱ )

ماہ رجب کا روزہ سکرات موت کو آسان کرتا ہے۔

آدمی کا حال اس مرحلہ میں عمل کے اعتبار سے جواس نے انجام دیا ہے دو طرح کا ہے، جیسا کہ خداوند متعال خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( فأ مّا اِن کان من المقربین) (فروح و ریحان و جنّت نعیم) (و أمّا اِن کان من أصحاب الیمین) (فسلامُ لک من أصحاب الیمین)( و أما اِن کان من المکذبین الضّٰا لّین)( فَنُزُل من حمیم.وَ تصليةُ جحیمٍ ) ( ۲ )

لیکن اگر مقربین میں سے ہے تو رَوح ،ریحان اور بہشت نعیم میں ہے لیکن اگر اصحاب یمین میں سے ہے تواس سے کہیں گے تم پر سلام ہو اصحاب یمین کی طرف سے لیکن اگر جھٹلا نے والے گمراہ لوگوں میں سے ہے تو دوزخ کے کھولتے پانی سے اس کا استقبال ہو گا اور آتش جہنم میں اسے جگہ ملے گی۔

خدا وند عالم نے جس بات کا گروہ اوّل ( اصحاب یمین اور مقربین) کو سامنا ہو گااس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( یا أيّتها النفس المطمئنة اْرجعی اِلیٰ ربّک راضيةً مرضيّةً فادخلی فی عبادی و ادخلی جنّتی )

اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی جانب لوٹ آ اس حال میں کہ تواس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی و خوشنود ہے پس میر ے بندوں میں داخل ہوجا اورمیری بہشت میں داخل ہوجا۔( ۳ )

اوردوسرا گروہ، جس نے دنیاوی زندگی میں اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کے بارے میں بھی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( حَتَّی ِذَا جَائَ َحَدَهُمْ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُون٭ لَعَلِّی َعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَکْتُ کَلاَّ ِنَّهَا کَلِمَة هُوَقَائِلُهَاوَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخ ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ ) ( ۴ )

____________________

(۱) ثواب الاعمال باب : ثواب روزہ رجب ،حدیث ۴.(۲)واقعہ۸۸۔ ۹۴.(۳) فجر ۲۷ ، ۳۰.(۴)مومنون ۹۹، ۱۰۰.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

جوابِ مکتوب

محترمی سلام مسنون!

بہتر ہے میں مختصرا حروفِ تہجی کی ترتیب سے ان شیعہ راویوں کے اسمائے گرامی تحریر کرتا ہوں جن کی روایت کردہ حدیثیں آپ کے یہاں صحاح و دیگر سنن و مسانید میں موجود ہیں۔

ا : ابان بن تغلب بن رباح قاری کوفی

علامہ ذہبی ان کے حالات میں لکھتے ہیں :

“ ابان بن تغلب کوفہ کے رہنے والے تھے اور بڑے کٹر شیعہ ہیں لیکن صدوق ہیں۔ ہمیں ان کی سچائی سے غرض ہے ان کی بدعت کا بار ان کے سر ہے احمد بن حنبل ، ابو حاتم اور ابن معین نے انھیں موثق قرار دیا ہے۔ ابن عدی نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ بڑے غالی شیعہ تھے۔ ان سے امام مسلم او ابو داؤد و ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ نے حدیثیں روایت کی ہیں آپ کا انتقال سنہ۱۴۱ھ میں ہوا۔

ابراہیم بن یزید بن عمرو بن اسود بن عمرو نخعی کوفی

علامہ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔

۱۰۱

ان کی حدیثیں صحیح بخاری ، مسلم دونوں میں موجود ہیں۔ ان کی پیدائش سنہ۵۰ھ اور انتقال سنہ۹۵ھ یا سنہ۹۶ھ میں حجاج کے مرنے کے چار مہینے کے بعد ہوا۔

احمد بن مفضل ابن کوفی حفری

ان سے ابوذرعہ و ابو حاتم نے روایت کی اور ان کی بیان کی ہوئی حدیث سے اپنے مسلک پر دلیل پیش کی ہے حالانکہ ابوزرعہ و ابو حاتم نے ان کی شیعیت کی صراحت بھی کی ہے۔ علامہ ذہبی نے ابوحاتم کا یہ فقرہ احمد بن مفضل کے متعلق نقل کیا ہے کہ احمد بن مفضل رؤساء شیعہ میں سے تھے اور صدوق تھے ان کی روایت کردہ حدیثیں سنن ابی داؤد ، سنن نسائی دونوں میں موجود ہیں۔

اسماعیل بن ابان

امام بخاری کے شیخ ہیں۔ بخاری و ترمذی دونوں نے ان کی حدیث سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے جیسا کہ علامہ ذہبی نے تحریر کیا ہے۔ علامہ ذہبی نے یہ بھی ان کے متعلق لکھا ہے کہ یحی و احمد نے ان سے حدیثیں لی ہیں۔ اور بخاری نے انھیں صدوق کہا ہے۔ امام بخاری نے متعدد جگہ صحیح بخاری میں بلاواسطہ ان کی حدیثیں ذکر کی ہیں۔

اسماعیل بن خلیفہ ملائی کوفی

ان کی کنیت ابو اسرائیل ہے اور اسی کے ساتھ مشہور بھی ہیں۔ علامہ ذہبی نے ان کا تذکرہ میزان الاعتدال میں ان الفاظ میں کیا ہے۔ کہ بڑے متعصب شیعہ اور ان لوگوں میں سے تھے جو عثمان کو کافر کہتے ہیں اور بھی بہت

۱۰۲

 کچھ ان کے متعلق لکھا ہے لیکن ان سب کے باوجود ترمذی نے اور دیگر اصحابِ سنن نے ان سے روایت کی ہے۔ ابوحاتم نے ان کی حدیثوں کو حسن کہا ہے۔ ابوزرعہ نے کہا ہے کہ صدوق ہیں اگر چہ خیالات غالیانہ تھے امام احمد نے کہا ہے کہ ان کی حدیثیں درج کرنے کے قابل ہیں۔ ابن معین نے ثقہ کہا۔ فلاس نے کہا یہ جھوٹ بولنے والوں میں نہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح ترمذی میں موجود ہیں۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔

اسماعیل ابن زکریا خلقانی کوفی

ذہبی نے میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھا ہے کہ صدوق ہیں اور شیعہ ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جن سے صحاح ستہ میں حدیثیں لی گئی ہیں۔ ان کی حدیث بخاری اور مسلم میں موجود ہے۔ سنہ ۱۷۴ھ میں بغداد میں انتقال کیا۔

اسماعیل بن عباد بن عباس طالقانی

صاحب بن عباد کے نام مشہور ہیں ابو داؤد و ترمذی نے ان سے روایتیں لی ہیں۔ جیسا کہ امام ذہبی نے میزان میں صراحت کی ہے نیز یہ بھی لکھا ہے کہ بڑے با کمال ادیب اور شیعہ تھے۔ ان کی شیعیت میں کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا اور شیعیت ہی کی وجہ سے سلطنت بویہہہ  کی وزارت عظمی پر فائز ہوئے۔ یہ پہلے وہ شخص ہیں جو صاحب کے لقب سے ملقب ہوئے اس لیے کہ یہ موید الدولہ بن بویہ کے جوانی کے زمانہ سے مصاحب رہے اور

۱۰۳

 موید الدولہ ہی نے ان کا نام صاحب رکھا اور برابر سی نام سے پکارے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ اسی نام سے مشہور ہوگئے اور ان کے بعد جو شخص وزارت کے درجہ پر آیا وہ بھی صاحب ہی کے نام سے پکارا گیا۔ یہ پہلے موید الدولہ کے وزیر رہے اس کے مرنے پر اس کے بھائی فخر الدولہ نے بھی انھیں وزارت عظمی پر برقرار رکھا۔ جب ان کا انتقال ہوا ( ۲۴ صفر سنہ۳۸۵ھ میں ۹۵ برس کی عمر میں) تو شہر رے  کے دروازے بند ہوگئے اور تمام لوگ ان کے مکان پر آکر جنازہ کا انتظار کرنے لگے خود بادشاہ فخرالدولہ اور وزراء، و سروران فوج جنازہ میں ساتھ ساتھ تھے۔ یہ بڑے جلیل القدر عالم اور گرانقدر کتب و رسائل کے مصنف شخص تھے۔

اسماعیل بن عبدالرحمن بن ابی کریمہ مشہور مفسر

جو سدی کے نام سے شہرت رکھتے ہیں

علامہ ذہبی نے ان کے حالات میں لکھا ہے کہ متہم بالتشیع ہیں اور حسین بن واقد مروزی سے اس کی بھی روایت کی ہے کہ انھوں نے ابوبکر و عمر کو سب و شتم کرتے سنا تھا مگر ان سب کے باوجود ثوری ابوبکر بن عباس و غیرہ نے ان سے حدیثیں لیں اور امام مسلم و ترمذی و ابوداؤد ، ابن ماجہ، نسائی صاحبانِ صحاح نے ان کی حدیثیں اپنے مسلک کی تائید میں درج کی ہیں۔ امام احمد نے انھیں ثقہ، ابن عدی نے  صدوق کہا ہے۔ یحی بن سعید کا قول ہے کہ میں نے ہر ایک کو دیکھا کہ وہ سدی کو اچھا ہی کہتا ہے اور سبھی نے اس سے حدیثیں لی ہیں سنہ۱۲۷ھ میں انتقال کیا ہے۔

۱۰۴

اسماعیل بن موسی فزاری کوفی

علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ان کے حالات میں لکھا ہے کہ ابن عدی ان کے متعلق کہتے تھے کہ شیعیت میں بہت زیادہ غلو رکھنے کی وجہ سے لوگ انھیں ناپسند کرتے تھے اور عبدان بیان  کرتے تھے کہ ہناد اور ابن شیبہ ہمارا اسماعیل کے  پاس جانا پسند نہیں کرتے تھے اور کیا کرتے تم لوگ اس فاسق کے پاس جاکر کیا کرتے ہو جو بزرگوں کو سب وشتم کیا کرتاہے۔ ان سب کے باوجود ابن خزیمہ، ابو عرویہ اور بہت سے لوگوں نے ان سے حدیث کا استفادہ کیا اور یہ اس طبقہ کے شیخ تھے جیسے ابوداؤد و ترمذی وغیرہ۔ ان سب حضرات نے ان سے حدیث لی اور اپنے اپنے صحیح میں درج کی۔ ابوحاتم نے انھیں صدوق کہا ہے۔ نسائی نے کہا ہے کہ کوئی مضائقہ نہیں ان سے حدیث لینے میں۔ سنہ۲۴۵ھ میں انتقال کیا۔ بعض لوگ انھیں سدی کا نواسہ بتاتے ہیں۔

ت :

 تلید بن سلیمان کوفی

ابن معین نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ یہ عثمان کوسب وشتم کیا کرتے تھے۔ بعض عثمانیوں نے سن لیا۔ انھوں نے اسے تیر مارا جس سے ان کا پیر ٹوٹ گیا۔ ابوداؤد نے ان کے متعلق کہا کہ یہ رافضی ہیں۔ ابوبکر و عمر کو سب وشتم کیا کرتے تھے مگر ان سب کے باوجود احمد و ابن نمیر نے ان سے

۱۰۵

تحصیل حدیث کی۔ امام  احمد نے ان کے متعلق کہا کہ تلید شیعہ ہیں مگر ان سے حدیث لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ صحیح ترمذی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ث :

  ثابت بن دینار

جو ابوحمزہ ثمالی کے نام سے مشہور ہیں ان کی شیعیت اظہر من الشمس ہے۔ ترمذی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ثوبر بن ابی فاختہ

ام ہانی بنت ابی طالب کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ذہبی نے ان کے رافضی ہونے  کی صراحت کی ہے۔ امام محمد باقر(ع) کے عقیدت مندوں میں تھے ترمذی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ج :

 جابر بن یزید جعفی کوفی

علامہ ذہبی نے ان کے حالات میں لکھا ہے کہ یہ علماء شیعہ میں سے تھے۔ نیز سفیان سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے جابر کو کہتے سنا۔ علم پیغمبر(ص) سے علی(ع) کی طرف منتقل ہوا اور علی(ع) سے حسن(ع) کی طرف۔ ایک امام سے دوسرے امام تک منتقل ہو کر امام جعفر صادق(ع) تک پہنچا

۱۰۶

یہ امام جعفر صادق(ع) کے زمانہ میں تھے اور آپ نے بکثرت حدیثیں حاصل کیں چنانچہ خود جابر کہا کرتے تھے کہ میرے پاس ستر ہزار حدیثیں امام محمد باقر(ع) کی روایت کردہ ہیں۔ جابر جب امام محمد باقر(ع) سے  کوئی حدیث روایت کر کے بیان کرتے تھے تو کہتے مجھ سے وصی الانبیاء نے بیان کیا۔ علامہ ذہبی نے میزان میں زائدہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جابر رافضی ہیں۔ سب و شتم کیا کرتے ہیں، ان سے امام ابو داؤد وترمذی ، نسائی نے حدیثیں روایت کی ہیں۔ سفیان ثوری نے انھیں حدیث میں بہت محتاط کہا ہے۔ شیعہ نے صدوق قرار دیا ہے۔ وکیع نے ثقہ کہا ہے سنہ ۱۲۷ھ میں انتقال کیا۔

جریر بن عبدالحمید جنبی کوفی

علامہ ابن قتیبہ نے اپنی کتاب معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال کا تذکرہ کرتے ہوئے بڑی حمدو ثنا کی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ جریر اہل رے کے عالم اور صدوق ہیں اور ان کے اقوال سے کتابوں میں استدلال کیا جاتا ہے اور ان کے ثقہ ہونے پر جملہ محدثین کا اجماع و اتفاق ہے۔ ان کی حدیثیں صحیح بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہیں سنہ۱۷۸ھ میں انتقال کیا۔

جعفر بن زیاد احمر کوفی

امام ابوداؤد نے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ صدوق ہیں اور شیعہ ہیں۔ ابن عدی نے انھیں صالح اور شیعہ لکھا ہے۔ ابن معین نے ثقہ، امام احمد نے صالح الحدیث فرمایا ہے۔ صحیح ترمذی و سنن نسائی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

۱۰۷

 سنہ ۱۶۷ھ میں انتقال کیا۔

جعفر بن سلیمان ضبعی بصری

علامہ ابن قتیبہ نے معارف صفحہ ۲۰۶ میں انھیں مشاہیر شیعہ میں لکھا ہے ابن سعد نے ان کی شیعیت اور ثقہ ہونے کی تصریح کی ہے۔ ابن عدی ان کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ شیعہ ہیں ۔ میں توقع کرتا ہوں کہ ان کوئی حرج نہیں اور ان کے حدیثیں قابل انکار نہیں اور میرے نزدیک اس قابل ہیں کہ ان کی حدیثیں قبول کی جائیں۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں انھیں راہد علمائے شیعہ میں سے لکھا ہے ان کی حدیثیں صحیح مسلم و نسائی میں موجود ہیں سنہ۱۷۹ھ میں انتقال کیا۔

جمیع بن عمیرہ بن ثعلبہ کوفی تیمی

میزان الاعتدلال میں ہے کہ ان کے متعلق ابو حاتم کا یہ فقرہ ہے کہ صالح الحدیث اور شرفا الشیعہ سے ہیں۔ جامع ترمذی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ح :

  حارث بن حصیرہ کوفی

ابوحاتم رازی، ابو احمد زبیری، ابن عدی ، یحی بن معین ، امام نسائی وغیرہ نے ان کی شیعیت کی تصریح بھی کی ہے اور ان کے ثقہ ہونے کا بھی اقرار کیا ہے۔ علامہ ذہبی نے انھیں صدوق لکھا ہے۔ امام نسائی نے ان سے حدیثیں لی ہیں۔

۱۰۸

حارث بن عبداﷲ ہمدانی

صحابی و حواری امیرالمومنین(ع) ، ابن قتیبہ نے مشاہیر شیعہ میں پہلے ان کا ہی نام لکھا ہے۔ ذہبی نے لکھا ہے کہ یہ کبار علماء تابعین سے تھے اور ابن حبان انھیں بہت غالی شیعہ کہا کرتے تھے۔ جمہور اہلسنت انھیں اسی شیعیت کی وجہ سے بہت دشمن رکھتے تھے مگر باوجود اس کے ان کے علم  و فضل اور ثقہ ہونے سے کسی کو انکار نہیں۔ سنن ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ وابو داؤد میں ان  کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ۶۵ھ میں انتقال کیا۔

حبیب بن ابی ثابت اسدی

کوفہ کو رہنے والے اور تابعی ہیں۔ ابن قتیبہ نے معارف میں شہرستانی نے ملل و نحل میں انھیں مشاہییر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ ان سے جملہ اربابِ صحاح ستہ نے بلا تردد روایتیں لی ہیں۔ سنہ ۱۱۹ھ میں انتقال کیا۔

حسن بن حیَ

علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھتے ہیں یہ اجلہ علماء میں سے ہیں اور ان میں شیعیت کی بدعت موجود تھی۔ نماز جمعہ میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ ظالم حکام پر خروج جائز جانتے تھے۔ عثمان  پر ترس نہیں کھاتے تھے۔ ابن سعد نے طبقات جلد۶ میں ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ثقہ ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح ہیں اور یہ شیعہ تھے۔ ابن قتیبہ نے بھی ان کی شیعیت کی تصریح کی ہے۔ صحیح مسلم اور دیگر سنن میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ۱۰۰ ھ میں پیدا اور سنہ۱۹۹ھ

۱۰۹

 میں انتقال کیا۔

حکم بن عتیبہ کوفی

ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ۱۱۵ھ میں انتقال کیا۔

حماد بن عیسیٰ

صاحب منتہی المقال و غیرہ نے انھیں علماء شیعہ میں سے لکھا ہے اور ہر ایک نے انھیں ثقہ و معتمد سمجھا ہے۔  و امام موسی کاظم(ع) کے اصحاب میں سے ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ترمذی اور دیگر سنن میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

حمران بن اعین

مشہور ترین صحابی امام محمد باقر(ع) و امام جعفر صادق(ع) ۔ سنن ابی داؤد و غیرہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

خ :

  خالد بن مخلد قطوانی کوفی

امام بخاری کے شیخ الحدیث ہیں۔ علامہ ابن سعد نے طبقات جلد۶ صفحہ۲۸۳ میں اور امام ابو داؤد نے انھیں شیعہ اور صدوق لکھا ہے۔ امام بخاری و مسلم دونوں

۱۱۰

 نے ان کی حدیثیں اپنی صحیح میں درج کی ہیں اور بھی دیگر اصحاب سنن نے ان کی شیعیت سے واقف ہوتے ہوئے ان کی حدیثوں سے کام لیا ہے۔

ز :

  زبید بن حارث بن عبدالکریم کوفی

علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کے حالات میں لکھتے ہیں کہ یہ ثقات تابعین مین سے ہیں اور ان میں تشیع تھا۔ اس کے بعد ذہبی نے بہت سے علماء و محدثین کے اقوال ان کے ثقہ ہونے کے متعلق نقل کیے ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں موجود ہیں۔ سنہ۱۲۴ھ میں انتقال کیا۔

زید بن الحباب کوفی تمیمی

ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں ذکر کیا ہے اور علامہ ذہبی نے انھیں عابد ، ثقہ اور صدوق لکھا ہے اور ان کے ثقہ و صدوق ہونے کے متعلق دیگر بہت سے علماء کے اقوال نقل کیے ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح  مسلم میں موجود ہیں۔

س :

 سالم بن ابی الجعد اشجعی کوفی

ابن سعد نے طبقات جلد۶ صفحہ۲۰۳ میں ابن قتیبہ نے معارف صفحہ۱۵۶

۱۱۱

علامہ شہرستانی نے ملل و نحل جلد۲ صفحہ۲۷ میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے علامہ ذہبی نے انھیں ثقات تابعین میں لکھا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم دونوں میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

سالم بن ابی حفصہ عجلی کوفی

علامہ شہرستانی نے ملل و نحل میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں اور علامہ ابن سعد نے طبقات جلد۶ صفحہ ۲۳۴ میں ان کی شدت تشیع کی کیفیت ذکر کی ہے۔ ان کی حدیثیں جامع ترمذی میں موجود ہیں۔ سنہ۱۳۷ھ میں انتقال کیا۔

سعد بن طریف الاسکاف حنظلی کوفی

علامہ ذہبی نے علماء محدثین کے اقوال ان کے تشیع کے متعلق درج کیے ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح ترمذی میں موجود ہیں۔

سعید بن اشوع

علامہ ذہبی نے  میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ کوفہ کے قاضی تھے اور مشہور صدوق ہیں۔ امام نسائی نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ ان میں کوئی خرابی نہ تھی۔ جو زجانی نے کہا ہے کہ یہ بڑے غالی اور شیعیت میں حد سے بڑے ہوئے تھے۔ صحیح بخاری و مسلم دونوں میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

۱۱۲

سعید بن خیثم

یحی بن معین سے ان کے متعلق پوچھا گیا کہ سعید بن خیثم شیعہ ہیں آپ ان کے متعلق کیا فرماتے ہیں۔ انھوں نے کہا شیعہ ہوں گے مگر ہیں ثقہ جامع ترمذی و سنن نسائی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

سلمہ بن الفضل الابرش

   رے کے قاضی تھے۔ ان کی شیعیت کی علماء نے صراحت کی ہے مگر ارباب صحاح نے ان سے حدیثیں لی ہیں۔ چنانچہ جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

سلمہ بن کمیل بن حصین حضرمی

علامہ قتیبہ نے معارف صفحہ ۲۰۶ میں، علامہ شہرستانی نے ملل و نحل جلد۲ صفحہ۲۷ میں ان کو مشاہیر شیعہ میں لکھا ہے۔ جملہ ارباب صحاح ستہ نے ان کی حدیثوں سے کام لیا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں سنہ ۱۲۱ھ میں انتقال کیا۔

سلیمان بن صرد خزاعی کوفی

شیعیان عراق کے بزرگ ترینِ فرد اور مرجع مومنین بزرگ تھے۔ انتقام خون حسین(ع) لینے والوں کے راس و رئیس اور قائد بھی تھے۔ جملہ ارباب سیر و تاریخ نے ان کے علم و فضل زہد و ورع عبادت کا فراخ دلی سے تذکرہ کیا ہے

۱۱۳

 جنگِ صفین میں امیرالمومنین(ع) کے ہمراہ تھے۔ دشمنان اہل بیت(ع) کو گمراہ سمجھتے تھے ان کی حدیثیں صحیح مسلم و صحیح بخاری دونوں میں موجود ہیں۔

سلیمان بن طرخان تیمی بصری

ابنِ قتیبہ نے اپنی کتاب معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں ذکر کیا ہے ان کی حدیثوں سے اربابِ صحاح نے بھی کام جلیا ہے اور دیگر محدثین بے بھی صحیح بخاری و مسلم دوںوں میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ ۱۴۳ھ میں انتقال کیا۔

سلیمان بن قرم بن معاذضبی کوفی

علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ان کے متعلق ابن حبان کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ بڑے غالی رافضی تھے اور ابن عدی نے ان کے متعلق یہ کہا ہے کہ ان کی حدیثیں عمدہ ہیں۔ صحیح مسلم، سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی میں ان کی حدیثیں  موجود ہیں۔

سلیمان بن مہران کاہلی کوفی مشہور بہ اعمش

یہ بزرگان شیعہ سے ایک جلیل القدر فرد اور کبار محدثین میں نامور بزرگ ہیں بہت سے محققین علماء اہل سنت مثلا ابن قتیبہ نے اپنی معارف میں اور علامہ شہرستانی نے اپنی ملل ونحل میں اور دیگر حضرات نے ان کی شیعہ ہونے کی صراحت کی ہے۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں جوزجانی کا یہ فقرہ نقل کیا ہے کہ باشندگان کوفہ میں سے ایک جماعت ایسی تھی کہ لوگ ان کے عقائد و مذہب کو ناپسند سمجھتے تھے۔ مگر وہی حضرات محدثین کوفہ کے راس و رئیس تھے

۱۱۴

 مثلا ابو اسحاق منصور زبید یامی اور اعمش اور انھیں جیسے دیگر حضرات کو ان کے سچے ہونے کی وجہ سے ان کی حدیثوں کو لوگوں نے سر آنکھوں پر رکھا جو زجانی  کا یہ فقرہ جس قدر رکیک اور ان کے تعصب کا مظہر ہے پوشیدہ نہیں۔ ناصبی لوگوں نے ان بزرگوں کے مذہب و عقائد کو جو پسند نہیں کیا تو محض اس جرم کی وجہ سے کہ یہ حضرات اہل بیت(ع) کی محبت دل میں رکھ کر ان کے دامن سے متمسک ہوکر اجر رسالت پیغمبر(ص) ادا کرتے تھے۔ ناصبی افراد نے ان کی حدیثوں کو سر آنکھوں پر جو رکھا تو محض اس وجہ سے نہیں کہ یہ حضرات سچے تھے بلکہ اس لیے کہ بغیر ان کی طرف رجوع کیے ہوئے کوئی چارہ کار نہ تھا۔ اگر ایسے حضرات کی حدیثیں یہ ناصبی لوگ ٹھکرا دیتے تو پیغمبر(ص) کی ساری حدیثیں ہوا ہوجاتیں۔ سنن و آثار پیغمبر(ص) کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ جیسا کہ خود علامہ ذہبی نے ابان بن تغلب کے تذکرہ کے سلسلہ میں اعتراف کیا ہے۔

اعمش کے چند عجیب و غریب نوادر ہیں جو ان کی جلالت و قدر کا ظاہر کرتے ہیں چنانچہ علامہ ابن خلکان ان کے حالات میں یہ واقعہ لکھتے ہیں کہ خلیفہ ہشام بن عبدالملک نے ان  کے پاس اپنا قاصد بھیجا کہ عثمان کے فضائل اور علی(ع) کی برائیاں مجھے لکھ بھیجو۔ اعمش نے ہشام کا خط لے کر بکری کے منہ میں دے دیا اور وہ اس خط کو چبا گئی اور قاصد سے کہا جا کر ہشام سے کہہ دینا کہ تمہارے خط کا یہی جواب ہے۔ قاصد نے  کہا کہ ہشام نے  قسم کھائی تھی کہ اگر میں تمہارا جواب لے کر نہ گیا تو مجھے قتل کر ڈالے گا۔ قاصد نے اعمش کے اعزہ و احباب سے بھی سفارش کرائی۔ جب سب نے اصرار کیا تو انھوں نے جواب میں لکھا۔

     “ اگر دنیا بھر کے لوگوں کے فضائل عثمان کو حاصل ہوجائیں اور

۱۱۵

 دنیا بھر کے لوگوں کی برائیاں علی(ع) میں اکٹھا ہوجائیں تو تمہیں کیا ؟تم اپنے آپ کو دیکھا کرو۔”

علامہ بن عبدالبر نے ان کا ایک واقعہ یہ نقل کیا ہے کہ فضل بن موسی بیان کرتے تھے کہ امام ابو حنیفہ کے ہمراہ اعمش کی عیادت کو گیا ابو حنیفہ نے کہا اے ابو محمد (اعمش) اگر تمہارے بارِ خاطر نہ ہوتا تو میں جتنی بار تمہاری عیادت کو آتا ہوں اس سے زیادہ آتا۔ اعمش نے کہا کہ خدا کی قسم جب تم اپنے گھر میں ہوتے ہو تو بھی میرے لیے بارگراں ہوتے ہو جب میرے پاس ہوگے تو میرا کیا حال ہوگا؟

ایک اور ان کا واقعہ شریک بن عبداﷲ قاضی کی زبانی ہے۔ شریک کہتے ہیں کہ میں اعمش کے مرض الموت میں ان کے پاس حاضر تھا کہ اتنے میں ابن شبرمہ اور ابن ابی لیلیٰ اور امام ابوحنیفہ ان کی عیادت کو آئے۔ لوگوں نے ان کی مزاج پرسی کی، انھوں نے انتہائی کمزوری و نقاہت کا ذکر کیا۔ اپنی خطاؤں پر اپنی ہراسانی ظاہر کی اور کچھ آب دیدہ سے ہوگئے۔ امام ابو حنیفہ مڑے اور انھوں نے فرمایا : اے ابو محمد! خدا سے ڈریے اور اپنے اوپر ترس کھائیے۔ آپ حضرت علی(ع) کے متعلق ایسی حدیثیں بیان کرتے تھے اگر آپ ان سے توبہ کرلیتے تو آپ کے لیے اچھا ہوتا۔ اعمش نے کہا۔ تم میرے ایسے شخص کے  لیے ایسی بات کہتے ہو اور خوب سخت و سست سنایا۔ مختصر یہ کہ اعمش بڑے ثقہ و معتمد عالم و فاضل بزرگ تھے۔ ان کے صدق و عدالت تقوی و پرہیزگاری پر سب کا اتفاق ہے۔ جملہ ارباب صحاح و غیرہ نے ان کی روایت کردہ حدیثوں سے کام لیا ہے۔

صحیح بخاری ، صحیح مسلم سب ہی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ۶۱ ھ میں پیدا ہوئے۔ سنہ۱۴۸ھ میں انتقال کیا۔

۱۱۶

ش :

 قاضی شریک بن عبداﷲ بن سنان بن انس نخعی کوفی

ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں ذکر کیا ہے۔ میزان الاعتدال علامہ ذہبی میں بہ ذیل حالاتِ شریک مذکور ہے۔ عبداﷲ بن ادریس خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ شریک شیعہ ہیں۔ اسی میزان میں یہ بھی ہے کہ ابو داؤد درہاوی روایت کرتے ہیں کہ ہم نے شریک کو کہتے سنا کہ :

                     “ علی خير البشر           فمن ابی فقد کفر

                     “ علی(ع) تمام خلائق میں سب سے بہتر ہیں جس نے اس کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا۔”

مطلب یہ ہے کہ حضرت علی(ع) بعد رسول اﷲ(ص) سب سے بہتر ہیں۔ شریک منجملہ ان حضرات کے ہیں جنھوں نے امیرالمومنین(ع) کے نص خلافت کی حدیثیں روایت کی ہیں چنانچہ میزان الاعتدال میں ایک مرفوع حدیث ابوہریرہ سے ہے:۔

“لکل نبی وصی و وارث                   وان عليا وصيی و وارثی”

 “ ارشاد فرمایا پیغمبر(ص) نے کہ ہر نبی کا وصی و وارث ہوا کرتا ہے اور علی(ع) میرے وصی و وارث ہیں۔”

یہ شریک امیرالمومنین(ع) کے فضائل و مناقب کی نشر و اشاعت میں بڑے مستعد و سرگرم اور آپ کے فضائل و مناقب بیان کر کے بنوامیہ کو خوب زچ کیا کرتے تھے۔

۱۱۷

مورخ ابن خلکان نے اپنی کتاب و فیات الاعیان میں بسلسلہ حالاتِ شریک کتاب درة الغواص سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ:

             “ ایک اموی شخص شریک کی صحبت میں اٹھا بیٹھا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ شریک نے حضرت علی(ع) کے فضائل بیان کیے۔ اس پر اموی نے  کہا : “ نعم الرجل علی” اچھے شخص تھے علی(ع)۔” اس پر شریک کو غصہ آگیا اور بگڑ کر کہنے لگے کہ کیا علی(ع) کے لیے بس یہی کہہ دینا کافی ہے؟ نعم الرجل” اچھے شخص تھے۔” اس سے زیادہ کچھ اور نہیں کہنے کو؟۔”

شریک کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد کسی کو بھی س میں ذرہ برابر شک و شبہ نہیں رہے گا کہ یہ دوستدارانِ اہلبیت(ع) میں سے تھے اور علماء اہلبیت(ع) سے بکثرت حدیثیں انھوں نے روایت کی ہیں۔ عبداﷲ بن مبارک ان کے متعلق کہا کرتے تھے کہ یہ سفیان سے زیادہ حدیث کے عالم ہیں اور دشمنانِ علی(ع) کے سخت ترین دشمن تھے اور انھیں بہت برا کہا کرتے۔ ایک مرتبہ عبدالسلام بن حزب نے شریک سے پوچھا کہ اپنے ایک بھائی کی عیادت کو چلتے ہو؟

پوچھا کون؟ عبدالسلام نے کہا مالک بن مغول۔ شریک نے کہا جو شخص علی(ع) و عمار کو عیب لگائے وہ میرا بھائی نہیں۔

ایک مرتبہ شریک کے سامنے معاویہ کا تذکرہ ہوا۔ لوگوں نے کہا معاویہ بڑے حلیم تھے۔ شریک نے کہا۔ جو شخص حق سے اعراض کرے اور علی(ع) سے جنگ کرے وہ حلیم ہرگز نہیں۔ انھیں شریک نے ہی یہ حدیث پیغمبر(ص) روایت کی ہے:

                     “ اذا رايتم معايه علی منبر فاقتلوه”

۱۱۸

             “ جب تم میرے پر معاویہ کو دیکھنا قتل کر ڈالنا”

مختصر یہ کہ ان کا شیعہ ہونا اظہر من الشمس ہے مگر باوجود  اس کے علامہ ذہبی نے انھیں حافظ و صدوق اور یکے از ائمہ کہا ہے اور ابن معین کا ان کے متعلق کے خاتمہ پر لکھا ہے کہ یہ منجملہ خزینہ داران علم تھے۔ ان سے اسحاق ارزق نے نو ہزار حدیثیں حاصل کیں۔ امام مسلم اور دیگر ارباب صحاح نے بھی ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدالال کیا ہے اور اپنے صحاح نے بھی ان کی روایتیں لی ہیں۔ خراسان یا بخارا میں سنہ۹۵ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ۱۷۷ھ میں انتقال کیا۔

شعبہ بن حجاج عتکی

محققین اہلِ سنت مثلا ابن قتیبہ نے معارف میں، شہرستانی نے ملل ونحل میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے ان کی حدیثیں صحیح بخاری و صحیح مسلم  و دیگر صحاح میں موجود ہیں۔ سنہ۸۳ھ میں پیدا ہوئے سنہ ۱۶۰ھ میں انتقال ہوا۔

ص :

  صعصعہ بن صوحان بن حجر بن حارث عبدی

ابن قتیبہ نے ( معارف صفحہ۲۰۶) میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ابنِ سعد طبقات جلد۶ صفحہ۱۵۴ میں ان کے متعلق لکھتے ہیں:

     “ یہ کوفہ کے اصحاب خطط سے مقرر تھے اور حضرت علی(ع) کے

۱۱۹

 صحابی تھے۔ یہ صعصعہ اور ان کے بھائی زید اور سیحان جنگِ جمل میں حضرت علی(ع) کے ساتھ تھے۔ سیحان کے ہاتھ پہلے لشکر کا علم تھا، وہ قتل ہوگئے تو صعصعہ نے علم ہاتھوں میں لے لیا۔ صعصعہ نے حضرت علی(ع) اور عبداﷲ ابن عباس سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ یہ بڑے معتمد و موثق شخص تھے۔ مگر ان کی حدیثیں کم ہیں۔”

علامہ ابن عبدالبر استیعاب “ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عہد پیغمبر میں اسلام لائے مگر فصیح و بلیغ مقرر، زیرک و دانا، دیانت دار ، عالم و فاضل انسان تھے۔ حضرت علی(ع) کے صحابیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

یحٰی ابن معین ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ صعصعہ ، زید اور سیحان فرزندانِ صوحان سب کے سب خطیب تھے۔ زید و سیحان جنگ جمل میں شہید ہوئے عہد خلافت حضرت عمر میں ایک مشکل قضیہ در پیش ہوا، حضرت عمر نے لوگوں سے دریافت کیا۔ صعصعہ جو کم سن نوجوان تھے اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک پر مغز و مدلل تقریر کی جس میں تمام شک وشبہ دور کر دیا اور جو صحیح جواب تھا اسے بیان کیا۔ سب نے ان کے قول کو تسلیم کیا اور انھیں کی رائے اختیار کی غرض کہ بنی صحان سردارانِ عرب اور مرکز فضل و حسب تھے۔

علامہ ابن قتیبہ نے بھی اپنی کتاب معارف صفحہ ۱۳۸ میں شہرہ آفاق معززین و شرفا اور مصاحبین سلطان کے سلسلہ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ زید بن صوحان کے فضائل میں پیغمبر(ص) کی ایک حدیث بھی درج کی ہے۔

علامہ عسقلانی اصابہ قسم ثالث میں صعصعہ بن صوحان کا ذکر کرتے

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639