دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)9%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272276 / ڈاؤنلوڈ: 6389
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

دین حق

مذہبِ اہلِ بیت(ع)

تالیف

آیت اﷲ عبدالحسین شرف الدین موسوی قدس سرہ

ناشر

تبلیغات ایمانی  ہند

۱

کتاب دین حق، مذہب اہل بیت(ع)

تالیف آیت اﷲ عبدالحسین شرف الدین(رح)

کتابت سید جعفر صادق

ناشر   تبلیغات ایمانی ھند ۱۵۹ـنجفی ہاؤس۔ نشان پاڑہ روڈ بمبئی ۹

تعداد ۵۰۰۰

صفحات ۶۴۰

اشاعت کاسال       اگست ۱۹۸۷ء

۲

پیش لفظ

شہرہ آفاق کتاب ” المراجعات “ کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں لبنان اور ایران سے کئی مرتبہ چھپ چکی ہے۔ اردو کا ترجمہ بھی اب تک تقریبا تین دفعہ چھپ چکا ہے۔

شیعہ سنی اختلاف پر اب تک بے انتہاء کتابیں چھپ چکی ہیں لیکن اس موضوع پر تحریر کی جانے والی کتب میں سے یہ کتاب اپنےمنفرد انداز و خصوصیات کی وجہ سے ایک خاص مقام رکھتی ہے۔

پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ اس کتاب کے دونوں فریقین جن کے درمیان یہ خط وکتابت انجام پائی ہے ، ہر قسم کے بغض و کینہ اور قوی تعصبات سے پاک ہیں، دونوں میں اسلامی مقاصد و مصالح کے حصول کا جذبہ بطور کامل موجود ہے۔ امت مسلمہ پر گزرنے والی روئیداد سے آشنا ہوتے ہوئے عالم

۳

اسلام کے زبردست حامی ہیں۔ ان دونوں کا مقصد ہرگز شیعہ سنی بحث کو چھیڑنا اور اس کے نتیجہ میں امت کی صفوف میں اخلافات اور تفرقہ کے مواقع فراہم کرنا نہیں بلکہ نہایت ہی شائستہ ماحول میں ” مذہبِ اہلبیت(ع)“ کو سمجھنا اور اس سلسلہ میں موجود مغرض اور متعصب و جاہل افراد کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہے، ” مذہبِ اہل بیت(ع)“ پر سے پڑے ہوئے ان پردوں کو ہٹانا ہے جنھیں تنگ نظر اور منفعت پرست افراد نے ڈال کر امتِ مسلمہ کو اس مکتب عظیم سے دور کیا ہے۔

سنی و شیعہ دونوں ہی عالم دین، اسلامی روح سے سرشار نظر آتے ہیں۔ حق پرستی کا جوہر کتاب کے مختلف حصوں میں بکثرت قابلِ مشاہدہ ہے۔ پھر دونوں ہی اپنے اپنے مکتبہ فکر میں صف اول کے علماء میں سے ہیں، اور اپنے زمانہ میں حرفِ آخر شمار کیے جاتے تھے۔ اہل سنت کے محترم عالم جناب شیخ سلیم البشری ہیں جو اہلسنت والجماعت کی بین الاقوامی مرکزی علمی درسگاہ جامعة الازہر کے شیخ اور سربراہ ہیں۔ دوسری طرف حضرت آیت اﷲ سید شرف الدین الموسوی ہیں جو اس زمانے میں شیعوں کے سب سے بڑے علمی مرکز نجف اشرف میں صف اول کے اساتید میں شمار ہوتے تھے۔

مناظرہ کی اکثر کتب میں جدال و خطابہ کا رنگ غالب ںظر آتا ہے جب کہ اس کتاب کے امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں پر اکثر علمی و برھانی روشِ استدلال کو اختیار کیا گیا ہے۔ آیت اﷲ مرحوم کا استدلال مضبوط اور مستحکم ادلہ پر استوار نظر آتا ہے۔ مسئلہ کے اختلافی و حساس ہونے کے باوجود، ادب و متقابل احترام کے دائرہ میں رہتے ہوئے نہایت شستہ زبان استعمال کی گئی ہے۔

۴

پھر کچھ ایسے مسائل اور موضوعات بھی مختلف مناسبتوں سے زیر بحث آئے ہیں جو کلام یا دوسری کتابوں میں کمتر پائے جاتے ہیں۔ مثلا تاریخ اسلام میں شیعوں کا حصہ۔ شیعہ اصحاب روایت کی علمی خدمات اور ان کا سنی کتب و مصادر میں تذکرہ، ایسے موضوعات ہیں جن میں کم از کم اردو زبان میں بہت کم لکھا اور بولا گیا ہے۔

ان تمام خصوصیات اور بہت سی دوسری خوبیوں نے اس کتاب کی افادیت و اہمیت میں خاطر خواہ اضافہ کردیا ہے  جس کی وجہ سے یہ کتاب کلام کی علمی کتب میں شمار کی جاتی ہے۔

ہم نے اسے طباعت کے زیور سے از سر نو آراستہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے کہ حق کے متلاشیوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکے گی۔

                                             ناشر

۵

عالیجناب شیخ سلیم البشری

( عالم اہل سنت کے مختصر حالات زندگی)

جناب شیخ سلیم البشری جو مالکی مسلک رکھتے تھے سنہ۱۲۴۸ھ مطابق سنہ۱۸۳۲ء میں ضلع سجیزہ کے محلہ بشر میں پیدا ہوئے اور جامعہ الازہر ( قاہرہ، مصر) میں تعلیم حاصل کی۔

بعد میں دو مرتبہ اس عظیم الشان درسگاہ کے انچارج بھی قرار پائے۔ ایک دفعہ سنہ۱۳۱۷ھ مطابق سنہ۱۹۰۰ء سے سنہ۱۳۲۰ھ مطابق سنہ۱۹۰۴ھ تک اور دوسری دفعہ سنہ۱۳۲۷ھ مطابق سنہ۱۹۰۵ء سے سنہ ۱۳۳۵ھ مطابق سنہ۱۹۱۶ء تک۔

آپ ہی کے زمانہ میں جامعہ الازہر میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے خواہشمند حضرات کے لیے امتحان کی بنیاد رکھی گئی جس میں بکثرت اہل علم نے شرکت کی۔

آپ نے جامعہ الازہر کو پورے نظم و ضبط کے ساتھ چلایا اور انچارج

۶

 ہونے کی حیثیت سے  جو ذمہ داریاں آپ پر عائد تھیں انھیں درس و تدریس میں حائل نہ  ہونے دیا ( بلکہ شیخ الجامعہ ہونے کے ساتھ ساتھ طلبہ کو درس بھی دیتے رہے)

آپ کی قلمی نگارشات بہت ہیں جن کا زیادہ حصہ قدیم علماء کی کتابوں پر حاشیہ اور گفتار مقدم کے عنوان سے ہے۔ مثلا :

 ادب کے موضوع پر  : حاشة تحفة الطلاب لشرح رسالة الآداب

 توحید کے موضوع پر :حاشية علی رسالة الشيخ علی

  علم نحو کے موضوع پر : الاستئناس فی بيان الاعلام و اسماء الاحباس جس میں نحوی مطالب پر بحث کی گئی ہے اور یہ ( اتنی اعلی درجہ کی کتاب ہے کہ) جامعة الازہر میں درس و تدریس کے سلسلہ میں اس کتاب پر بہت زیادہ اعتماد کیا گیا ہے۔

جناب شیخ سلیم البشری نے سنہ۱۳۳۵ھ مطابق سنہ ۱۹۱۶ء میں وفات پائی (۱)

--------------

۱:- حوالہ کے لیے ملاحظہ ہو کتاب “ الازہر فی ۱۲ عاما” صفحہ ۵۳

۷

عالی جناب آقائے سید عبدالحسین شرف الدین موسوی ( علیہ الرحمہ)

کے مختصر حالات زندگی

( ممتاز شیعہ عالم) جناب علامہ سید عبدالحسین شرف الدین موسوی علیہ الرحمہ کاظمین( عراق) میں سنہ۱۲۹۰ھ مطابق سنہ۱۸۷۲ء میں پیدا ہوئے۔ کاظمین اور نجف اشرف میں تعلیم حاصل کی اور اس زمانے کے انتہائی بلند مرتبہ عالم دین جناب آقائے شیخ کاظم الخراسانی ( صاحب  کفایہ)  سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔

عراق کی سرزمین پر فرانس کی سامراجی حکومت کے خلاف انقلابی اقدامات آپ ہی کے زمانہ میں شروع ہوئے جن میں آپ مثبت حصہ لیا۔ جس کی پاداش میں آپ کے اس نہایت قیمتی کتب خانہ کو جلا دیا گیا جو اسلامی علوم و معارف کا خزینہ تھا۔ اس میں آپ کے نہایت بیش قیمت مخطوطات بھی نذر آتش کردیے گئے اور آپ کو گرفتار کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔

۸

اس موقع پر آپ نے مناسب سمجھا کہ اپنی آواز کو تمام اسلامی ممالک تک پہنچانے کے لیے سفر کریں، چنانچہ آپ دمشق تشریف لے گئے اور وہاں سے فلسطین اور مصر کا سفر کیا۔

اور مصر ہی میں اس زمانہ کے شیخ الازھر جناب شیخ سلیم البشری سے آپ کے مسلسل مذاکرات ہوئے اور ان ہی مذاکرات کے نتیجے میں یہ کتاب ترتیب پائی۔

مولانائے موصوف نے متعدد موضوعات پر نہایت قیمتی کتابیں تحریر فرمائی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :

۱ـ المرجعات ۲ـ الفصول المهمه ۳_ اجوبه مسائل جار الله ۴_ الکلمه الغراء فی تفضيل الزهراء. ۵_ المجالس الفاخره ۶_ النص والاجتهاد. ۷_  فلسبه الميساق والولايه ۸_ ابوهريره بغيه الراغبين ۹_ المسائل الفقهيه ۱۰_ ثبت الاثبات فی سلسله الرواه ۱۱_ الی المجمع العلمی العربی بدمشق.۱۲_ رسائل و مسائل ۱۳_ رساله کلاميه.....

اور ان کے علاوہ وہ بکثرت تالیفات جنھیں دشمنان دین و ادب نے نذر آتش کردیا۔

آپ نے اس کے ساتھ بہت سے دینی و اجتماعی منصوبے بھی شروع کیے تھے جن کے ذکر کا موقع نہیں۔

آقائے شرف الدین موسوی نے سنہ۱۳۷۷ھ مطابق سنہ۱۹۵۷ء میں رحلت فرمائی۔

۹

کتاب ہذا سے متعلق علمائے اعلام کے مکتوبات

شام کے ایک معزز عالم دین

علامہ شیخ محمد ناجی غفری کا مکتوب گرامی

آقائے محترم و استاد مکرم آقائے شرف الدین عبدالحسین صاحب قبلہ دام مجدہ

قبلہ محترم !

میں نے آپ کی کتاب “ المراجعات” کا مطالعہ کیا اور اسے ایک ایسی کتاب پایا جو روشن و محکم دلائل و براہین سے مالال مال ہے۔ پروردگار عالم آپ کو پوری قوم کی طرف سے جزائے خیر دے کہ آپ نے حکمت و دانائی اور فیصلہ کن انداز اختیار فرمایا ہے۔

اگر کوچھ دشواریاں اور مشکلات سدِ راہ نہ ہوتیں تو اب تک میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر دست بوسی کا شرف حاصل کرچکا ہوتا لیکن امید ہے کہ بہت جلد میں آپ کے چہرہ انور کی زیارت کی سعادت حاصل کرسکوں گا۔

میں نے ( آپ کی کتاب پرھنے کے بعد) اپنا سابق مذہب حنفی ترک

۱۰

کردیا اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے مذہب کو اختیار کر لیا ہے۔

آپ سے التماس ہے کہ کوئی ایسی کتاب میرے لیے بھیجیں جس سے میں اس مذہب کے احکام  ومعارف سے پوری طرح واقف ہوسکوں۔

                                                             والسلام

                                             محمد ناجی غفری(۱۸ صفر سنہ ۱۳۷۰ھ)

ان ہی عالم دین کا دوسرا مکتوب گرامی

بخدمت عالیجناب آقائے سید عبدالحسین شرف الدین صاحب دام مجدہ

سلام علیکم : مزاج شریف !

جناب محترم شرف الدین صاحب ! آپ تو میرے مہربان و پاسبان، میرے رشد اور راہ حق و صراطِ مستقیم تک پہنچنے کا سب سے بڑا وسیلہ ثابت ہوئے۔ میں حضرت محمد و آل محمد علیہم السلام کے وسیلہ سے پروردگار عالم کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ آپ کا سایہ مومنین کے سروں پر تا دیر سلامت رکھے کیوںکہ ان کی سعادت و خیر خواہی آپ کی ذاتِ والا صفات سے وابستہ ہے۔

میں خداوند عالم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے آج تک نہ آپ جیسا کوئی عالم ملا، نہ میں نے آپ جیسی صفات رکھنے والے کسی عالم کے بارے میں سنا۔ آپ اپنے جد اعلیٰ حضرت رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کی شریعتِ مقدسہ کی طرف سے دفاع کررہے ہیں اور وہ منحرف و گمراہ لوگ جو حق پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں ان کی سازشوں کو طشت ازبام کر رہے ہیں اور ان کے سامنے ایسی محکم دلیلیں اور روشن برہان قائم کر رہے ہیں جن کا نہ تو کوئی جواب سے سکتے ہیں۔ نہ ان دالائل

۱۱

سے انکار کی ہمت کرسکتے ہیں( اور گو ایسی روشن دلیلوں کے بعد بھی) جو لوگ مذہبِ حق کو قبول نہ کریں اور حق وباطل میں امتیاز نہ کریں ان کے لیے بدبختی اور عذاب یقینی ہے۔ پروردگار عالم آپ کو جزائے خیر دے ( کہ آپ نے حق کو آشکار کیا)

                                                             والسلام

                                             محمد ناجی غفری۔ ۱۵ ربیع الثانی سنہ۱۳۷۰ھ

مولانائے موصوف کا تیسرا مکتوب گرامی

بخدمت جناب آقائے سید عبدالحسین شرف الدین موسوی دام مجدہ

سلام علیکم!

جناب محترم !

میں آپ کی ذاتِ والا صفات پر فخر کرتا ہوں۔ میرا دل بلکہ میرے تمام اعضاء و جوارح آپ کی عظمت کے تصور سے مالا مال ہیں اور دنیا بھر کے اہل علم کے درمیان آپ کے فضل و شرف کا بھر پورا اعتراف کرتے ہیں۔

کیوںکہ آپ نے اپنے قلم مبارک سے بہت سی اقوام و ملل کو حیات نو بخشی اور ضلالت و گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر انھیں ہدایت کی روشنی سے منور کیا اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا انکار کرنے والا یا تو اپنی جہالت کے سبب انکار کرے گا یا طبیعت کی سرکشی اور عناد کی بناء پر۔

اور دارالسلطنت میں میں نے جناب۔۔۔۔۔ سے ملاقات کی اور ان سے مذاکرات بھی کیے۔

۱۲

وہ حضرت ۔۔۔۔(۱) ۔۔۔۔ بہت بڑے قاضی کے منصب پر فائز ہیں ( اور بہت زیادہ اثر و رسوخ کے مالک بھی ہیں) میں نے ان سے بحث و مباحثہ کیا تو بحمدہ تعالی وہ پوری طرح سے مذہب حق کی طرف مائل ہوگئے ہیں۔

چنانچہ آپ کی کتاب “ المراجعات” میں نے ان کی خدمت میں پیش کر دی ہے جسے انھوں نے پڑھا اور آپ کے حیرت انگیز دلائل نے انھیں تعجب و مسرت کے دوراہے پر پہنچا دیا۔

کیونکہ آپ نے اپنے علم کے بحر ذخائر اور قلم کے شاہکار سے ان کے لیے اس امر کو ممتاز و نمایاں کردیا کہ دونوں راستوں میں سے حق و صداقت کا راستہ کون سا ہے۔

                                                             والسلام ۔ آپ کا مخلص

                                                             محمد ناجی غفری۔ ۱۷ محرم سنہ۱۳۷۳ھ

حجہ الاسلام علامہ شیخ محمد حسین المظفر

کا مکتوب گرامی

مجاہد ملت حجہ الاسلام علامہ سید عبدالحسین شرف الدین دامت برکاتہ کے نام۔۔۔۔

سلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ!

آپ کی مساعی جمیلہ کو شرق غربِ عالم میں جو پذیرائی اور مقبولت و محبوبیت

--------------

۱:- بعض خصوصی مصالح کی بناء پر اس جگہ قاضی مذکور کا نام اور ان سے متعلق متعدد باتیں جو خط کے اندر موجود تھیں اس کتاب کی طباعت کے موقع پر حذف کردی گئی ہیں۔

۱۳

حاصل ہوئی ہے وہ لائق تعجب ہرگز نہیں ہے کیونکہ آپ راہِ خدا کے ایک ایسے مجاہد اور حق کا ایسا دفاع کرنے والے ہیں جو عنفوانِ حیات سے مسلسل خدمتِ دین اور نصرتِ شریعت سید المرسلین صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کے خوگر ہیں۔

آپ کو دین کی خدمت کرتے ہوئے نہ کسی قسم کی تکان محسوس ہوتی ہے نہ پریشانی۔ نہ اضطراب نہ تردد( بلکہ جہاد مسلسل کو آپ نے اپنی زندگی کا شعار بنا رکھا ہے اور پروردگار عالم کا وعدہ ہے کہ ) :

ووالذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا

( اور جو لوگ ہماری راہوں میں جہاد کرتے ہیں ان کے لیے ہم راہوں کو نمایاں کر دیتے ہیں) اور یقینا ان مجاہدین کو صراط مستقیم پر گامزن رکھتا ہے۔

اور مجھے اس دن انتہائی مسرت ہوئی جب حلب ( شام ) کے شیخ محمد۔۔۔۔ کا مجھے خط موصول ہوا۔

۱۴

مکتوب نمبر ۱

میرا سلام ہو شریف النفس عالم بزرگ جناب عبدالحسین شرف الدین موسوی اور ان پر خدا کی رحمت و برکت ہو۔

جناب عالی ، میں زمانہ گزشتہ میں شیعوں کے اندرونی مسائل سے با خبر نہیں تھا اور نہ مجھے ان کے سلوک و رفتار کی خبر تھی ۔ کیوںکہ میری نہ کسی کے ساتھ نشست و برخاست تھی اور نہ ان کے عوام الناس کے اندرونی حالات کا میں نے جائزہ لیا تھا۔ مجھے یہ شوق تو تھا کہ میں ان کے بزرگان کی تقریر سنوں لیکن عالم پبلک سےمیں ہمیشہ دور رہا نہ ان کے افکار اور آراء سے بحث کی اور نہ ان کے نظرایات  میں مداخلت کی۔

۱۵

البتہ جب خداوند عالم نے مجھے یہ توفیق عطا کی کہ میں آپ کے علوم و معارف کے سمندر کے کنارے پہنچوں اور ساغرِ لبریز سے اپنی پیاس بجھاؤں تو بحمد اﷲ آپ نے نہایت شیرین پانی سے مجھے سیراب کیا۔ میری علمی تشنگی کو دور کیا اور علوم الہی کے شہر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اور باب مدینہ علم حضرت علی مرتضی علیہ السلام جو آپ کے اجداد کرام تھے ان کے معارف سے مجھے اس طرح سیراب کیا کہ اس سے زیادہ شیرین جام کسی پیاسے کو نہ ملا ہوگا اور نہ کسی بیمار کو ایسی شفا ملی ہوگی جیسی شفا مجھے آپ کے بحرِ ذخار سے ملی۔

میں لوگوں سے سنتا رہتا تھا کہ آپ شیعہ حضرات اپنے سنی بھائیوں سے ملنا پسند نہیں کرتے ان سے اجتناب کرتے ہیں، تنہائی کو پسند کرتے ہیں اور ہمیشہ گوشہ نیشینی اختیار کیے رہتے ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔اور اسی قسم کی باتیں میں سنا کرتا تھا۔

لیکن جب میں آپ کو دیکھا تو پتہ چلا کہ آپ انتہائی لطیف اور پاکیزہ مزاج کے انسان ہیں۔ بحث و مباحثہ کی گہرائی تک اترتے ہیں، تبادلہ خیالات کے آزرو مند رہتے ہیں، مناظرہ میں انتہائی قوی اور بہادر ہیں، آپ کی گفتگو بہت پاکیزہ، آپ کا سلوک بہت شریفانہ ، آپ سے تعلق لائق تشکر اور آپ سے گفتگو بہایت لائق تحسین ہے۔ اس لیے اب میری رائے یہ ہے کہ شیعہ حضرات محفل کی خوشبو اور ادب و تہذیب کی آرزوں کا مرکز ہیں۔

مناظرہ کی اجازت

جناب عالی ! اب جبکہ میں آپ کے اوقیانوسِ علم کے ساحل پر کھڑا ہوں آپ سے اجازت طلب کرتا ہوں کہ مجھے اس کی گہرائیوں تک اترنے کا اور

۱۶

جواہر تلاش کرنے کا موقع عطا فرمائیے۔ تو اگر آپ نے مجھے اجازت دی تو میں ان باریکیوں اور الجھنوں کو آپ کی خدمت میں پیش کروں گا جو مدت دراز سے میرے سینہ میں موجزن ہیں اور اگر آپ نے اجازت نہ عطا فرمائی تو بھی آپ مختار کل ہیں کیونکہ میں جن باتوں کو پوچھنا چاہتا ہوں ان میں نہ تو کسی لغزش کا طلب گار ہوں نہ کسی بات کا پردہ فاش کرنا چاہتا ہوں ۔ نہ فتنہ انگیزی میرا مقصود ہے اور نہ اس سلسلہ میں کوئی برا ارادہ رکھتا ہوں بلکہ ایک تلاش گمشدہ کی طرح میں اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتا ہوں اور حقیقت کو پہچاننا چاہتا ہوں۔ کیونکہ حق اگر واضح ہوجائے تو انسان کو اسی کی پیروی کرنا چاہئیے اور اگر حق واضح نہ بھی ہوسکا تو میں شاعر کے اس شعر پر عمل پیرا رہوں گا کہ :

                                     نحن بما عندنا و انت بما عندک

                                     راض      والرای      مختلف

“ اگر چہ ہماری رائیں مختلف ہیں لیکن آپ اپنے نظریہ پر خوش رہیں ہم اپنے مسلک پر راضی رہیں ۔ ”

اگر آپ نے بحث کی اجازت دے دی تو میں صرف دو مسائل پر آپ سے رائے طلب کروں گا۔

نمبر ۱ ۔ آپ کے مذہب میں امامت کی اصول اور فروعی حیثیت ۔

اور نمبر ۲ ۔ وہ عمومی امامت جو حضرت رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے طور پر کسی کو حاصل ہوتی ہے۔

میں اپنے ہر خط کے اختتام پر دستخط کی جگہ “ س” لکھا کروں گا اور آپ اپنے دستخط کی جگہ “ ش” لکھ دیا کیجیے گا۔ آخر میں اپنی ممکنہ لغزشوں سے معذرت چاہتا ہوں۔

۱۷

جوابِ مکتوب

مناظرہ کی اجازت

عالیجناب شیخ الاسلام دام مجدہ

اسلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ

آپ کا مکتوب گرامی موصول ہوا۔ آپ نے خط کی شکل میں وہ نعمتِ فراواں بھیجی اور میرے لیے ایسے نفیس خیالات کا اظہار کیا جن کا حق ادا کرنے سے زبان قاصر ہے اور جس کے شکریے سے میں زندگی بھر عاجز ہوں۔

آپ نے اپنی آرزؤوں کو مجھ سے وابستہ کیا اور بلند توقعات قائم کیں جبکہ آپ کی ذات لوگوں کی امیدوں کا مرکز اور ان کے افکار و نظریات کی پناہ گاہ ہے جہاں لوگوں کی امیدیں آپ سے وابستہ رہتی ہیں اور وہ آپ کے وسیع و عریض دہلیز پر اتر کر آپ کے علم سے فیضیاب ہوتے ہیں، آپ کے فضل و شرف  کی بارش سے سیراب ہوتے ہیں، اس لیے مجھے امید ہے کہ میں بھی اپنی امیدوں میں کامیاب ہوں گا اور جو تمنائیں میں نے وابستہ کر رکھی ہیں وہ قوی ثابت ہوں گی۔

آپ نے گفتگو کی اجازت چاہی ہے جبکہ آپ صاحب اختیار ہیں جیسا حکم فرمائیں جس بات کے بارے میں چاہیں دریافت کریں۔ جس طرح چاہیں ارشاد فرمائیں آپ صاحب فضل بھی ہیں آپ کی گفتگو فیصلہ کن بھی ہوگی اور انشاء اﷲ آپ جو حکم فرمائیں گے وہ عدل کے مطابق ہوگا۔

                                             والسلام

۱۸

مکتوب نمبر۲

شیعہ بھی حضرات اہلسنت کا مسلک کیوں نہیں اختیار کر لیتے؟

مولانائے محترم ! تسلیمات زاکیات!!

اس کی وجہ آپ بتاسکتے ہیں کہ آخر آپ لوگ بھی وہی مذہب کیوں نہیں اختیار کر لیتے جو جمہور مسلمین کا مذہب ہے؟

جمہور مسلمین کا مذہب یہ ہے کہ وہ اصول دین اور عقائد میں اشاعرہ کے ہم خیال ہیں اور فروع دین میں ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل میں سے کسی ایک کے مقلد ہیں۔ آپ بھی اصولِ دین میں اشاعرہ کا مسلک اختیار فرمائیں اور فروعِ دین فرائض و عبادات میں مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک  کے پابند ہوجائیے، چاہے امام ابو حنیفہ کی تقلید کیجیے یا امام شافعی کی یا امام مالک کی ایا احمد بن حنبل کی ۔ کیونکہ یہی مذہب ایک ایسا مذہب ہے کہ

۱۹

 سلف صالحین بھی اسی کے پابند رہے اور اسی کو بہتر و افضل سمجھتے رہے۔ نیز ہر زمانہ اور ہر خطہء ارض کے جملہ مسلمانوں کا مذہب بھی یہی رہا اور سب کے سب ان ائمہ اربعہ کی عدالت ، اجتہاد، زہد و ورع ، تقدس و پرہیز گاری، پاکیزہ نفسی، حسنِ سیرت اور علمی و عملی جلالتِ قدر پر ابتدا سے لے کر آج تک بیک دل و زبان  متفق رہے ہیں۔

اتحاد و اتفاق کی ضرورت

یہ بھی غور فرمائیے کہ اس زمانے میں ہم لوگوں کے لیے اتحاد و اتفاق کس قدر ضروری ہے۔ دشمنانِ اسلام ، ہم مسلمانوں کے خلاف محاذ قائم کیے ہوئے ہیں، ایذا رسانی پر کمر باندھ لی ہے دل و دماغ اور زبان کی ساری طاقتیں ہمارے خلاف استعمال کررہے ہیں۔

اتحاد جہور اہلسنت کا مذہب اختیار کرنے ہی سے ہوسکتا ہے۔

ہم لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور فرقہ بندی سے اپنے خلاف دشمنوں کی مدد کررہے ہیں۔ لہذا ایسی حالت میں ہم لوگوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ ایک مرکز پر جمع ہوجائیں۔ ایک نقطہ پر سمٹ آئیں اور یہ اتفاق و اتحاد جب ہی ہوسکتا ہے کہ ہمارا مسلک و مذہب بھی ایک ہو، آپ لوگ بھی اس مذہب کو اختیار کر لیں جسے عامة المسلمین اختیار کیے ہوئے ہیںِ۔

کیا میرا رائے سے آپ کو اختلاف ہے ؟ خدا کرے اس پراگندگی

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

۱۰ _ انبيا كے معجزوں كامؤمنين كے مفاد كيلئے استعمال ہونا _فاضرب لهم

دريا ميں خشك راستے كا كھل جانا منكرين كيلئے حضرت موسى كى رسالت كو ثابت كرنے كيلئے انجام نہيں پايا بلكہ اس سے مقصود بنى اسرائيل كو نجات دينا اور فرعونيوں كو ہلاك كرنا تھا _

۱۱ _ سب بنى اسرائيل كو ايك ہى راستے سے دريا عبور كرديا گيا _*فاضرب لهم طريقاً فى البحر

اگر ''طريقاً'' سے مراد جنس نہ ہو تو يہ وحدت پر دلالت كريگا _

۱۲ _ حضرت موسى (ع) مصر سے ہجرت كے دوران راستے ميں فرعون كى فوج كا سامنا كرنے اور ديگر مشكلات پيش آنے كى وجہ سے پريشان تھے _ا سر بعبادي لا تخف دركاً و لا تخشى

''درك''كا معنى ہے ملحق ہونا، پہنچ جانا نيز يہ رد عمل كے معنى ميں بھى آيا ہے (قاموس) ہر قسم كا پيچھا كرنے اور رد عمل كى نفى نيز ہجرت كے راستے كے امن ہونے كے سلسلے ميں حضرت موسى كو اطمينان بخشنا اس بات كى علامت ہے كہ پيچھا كرنے نير زاستے كى ديگر پريشانيوں كيلئے حالات سازگار تھے _

۱۳ _ خداتعالى نے حضرت موسى كو اطمينان دلايا كہ مصر سے ہجرت كے سفر ميں نہ تو دشمن كى فوج كا سامنا ہوگا اور نہ ہى ان كيلئے كوئي دوسرى بڑى مشكل كھڑى ہوگي_أسر بعبادي لاتخف دركاً و لا تخشى

''لاتخشي'' كے متعلق كا حذف ہونا ہر ايسى چيز كے منتفى ہونے كو بيان كررہا ہے كہ جو ڈر اور خوف كا سبب بنے جيسے دريا ميں غرق ہونے كا احتمال يا ديگر ايسى مشكلات جنكى پيشين گوئي نہيں ہوسكتي

بنى اسرائيل:انكى آمادگى ۷; انكى تاريخ ۱، ۲، ۵، ۷، ۸، ۱۱; ان كا شكنجہ ۵; انكا دريا سے عبور كرنا۱ ۱; انكا بحيرہ احمر سے عبور كرنا ۸; انكا دريائے نيل سے عبور كرنا ۸; ان پر لطف و كرم ۵; انكى ہجرت كا راستہ ۳، ۸، ۱۱; انكى ہجرت كى خصوصيات ۲; انكى ہجرت ۷، ۱۳; انكى رات كے وقت ہجرت ۱

خداتعالى :اسكے ارادے كى حكمرانى ۹; اسكے اوامر كو اجرا كرنے والے ۹

قدرتى وسائل:انكا مطيع ہونا ۹

فرعون:اسكے شكنجوں سے نجات ۷فرعوني:انكاخطرہ ۱۲

خدا كا لطف و كرم:

۱۴۱

يہ جنكے شامل حال ہے ۵، ۶

مؤمنين:انكے مفادات ۱۰

مظلومين:انكا حامى ۶

معجزہ:اس كا كردار ۱۰

موسى :انكا اطمينان ۱۳; انكى رسالت ۱، ۸; انكا قصہ ۱، ۸، ۱۲، ۱۳;انكى پريشانى ۱۳; انكى طرف وحى ۳، ۴; انكى ہدايت ۴

وحى :اس كا كردار ۲

آیت ۷۸

( فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ فَغَشِيَهُم مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ )

تب فرعون نے اپنے لشكر سميت ان لوگوں كا پيچھا كيا اور دريا كى موجوں نے انھيں باقاعدہ ڈھانك ليا (۷۸)

۱ _ حضرت موسى (ع) ،خدا كے حكم كے مطابق رات كے وقت بنى اسرائيل كو مصر سے لے كر چلے اور انہيں دريا سے گزارا _أسر بعبادى فا تبعهم

''فا تبعہم'' كى ''فا'' فصيحہ ہے يعنى اپنے سے قبل چند محذوف جملوں سے حكايت كرر ہى ہے ان جملوں كا خلاصہ يہ ہے كہ موسى ،(ع) بنى اسرائيل كو مصر سے لے كرچلے اور فرعونيوں كو بھى انكى روانكى كى اطلاع ہوگئي_

۲ _ بنى اسرائيل كى مصر سے روانگى كے بعد،فرعون اور اسكے لشكر نے ان كا پيچھا كيا _فا تبعهم فرعون وجنوده

۳ _ بنى اسرائيل كا پيچھا كرنے ميں خود فرعون اپنى فوج كى كمان كررہا تھا _فا تبعهم فرعون بجنوده

۴ _ بنى اسرائيل كا مصر ميں رہنا اور ان كا دوسروں سے جدا نہ ہونا فرعون اور فرعونيوں كى زندگى كا مسئلہ تھا _

أسر بعبادي فا تبعهم فرعون بجنوده

بنى اسرائيل كا پيچھا كرنا اور انہيں ہجرت سے روكنے كى كوشش كرنا اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ بنى اسرائيل كامصر كے معاشرے سے جدا ہونا ان كيلئے سنگين نتائج اور نقصان كا سبب تھا _

۱۴۲

۵ _ بنى اسرائيل كا پيچھا كرنے ميں فرعونى دريا كے خشك راستے ميں داخل ہوئے _طريقاً فى البحر يبساً فا تبعهم فرعون بجنوده

۶ _ سمندر كى بڑى اور خطرناك لہروں نے فرعون اور اس كے لشكر كو گھير كہ نہيں نگل ليا _فغشيهم من اليم ما غشيهم

''يمّ'' كا معنى ہے سمندر نيز اس كا اطلاق اس بڑے دريا پر بھى ہوتا ہے جس كا پانى ميٹھا ہو ( لسان العرب) ''غشاوہ'' ( غشى كا مصدر) ڈھانپنے اور گھير لينے كے معنى ميں ہے ''ما غشيہم'' كا ابہام، ان لہروں كے عظيم ہونے كو بيان كررہا ہے كہ جو فرعونيوں كے غرق ہونے كا سبب بنيں _

۷ _ قدرتى وسائل،خداتعالى كے ارادے كے سامنے مجبور ہيں اوروہ اسكے حكم كو اجرا كرنے والے ہيں _

طريقاً فى البحر يبساً فغشيهم من اليم ما غشيهم

حضرت موسى (ع) كے عبور كرنے كيلئے دريا كا كھل جانا اور فرعونيوں كے داخل ہونے كے بعد اس كا مل جانا دونوں اعجاز كى صورت ميں اور خداتعالى كے حكم سے تھے _

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴،۵; انكا پيچھا كرنا ۲، ۳، ۵; انكا دريا سے عبور كرنا ۱; انكى ہجرت كا راستہ ۱; مصر ميں انكى رہائش كا كردار ۴; انكى رات كے وقت ہجرت ۱

خداتعالى :اسكے ارادے كى حكمرانى ۷; اسكے اوامر كو اجرا كرنے والے ۷

قدرتى وسائل:انكا كردار ۷

فرعون:اسكى حكومت كى بقا كے عوامل ۴; اس كا غرق ہونا ۶; يہ اور بنى اسرائيل ۲; اسكے لشكر كا كمانڈر ۳; اسكى كمان ۳

فرعونى :ان كا غرق ہونا ۶; يہ دريا ميں ۵; يہ اور بنى اسرائيل ۲; انكى حركت كا راستہ ۵

موسى :ان كا شرعى ذمہ دارى پر عمل كرنا ۱; انكا قصہ ۱، ۶

۱۴۳

آیت ۷۹

( وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَى )

اور فرعون نے در حقيقت اپنى قوم كو گمراہ ہى كيا ہے ہدايت نہيں دى ہے (۷۹)

۱ _ اپنى عوام كى گمراہى ميں فرعون كا بنيادى اور مركزى كردار تھا _و ا ضل فرعون قومه

۲ _ لوگوں كے گمراہى يا ہدايت ميں معاشروں كے حكمرانوں اور رہنماؤں كا بہت مؤثر كردار ہے_

و ا ضل فرعون قومه

۳ _ لوگوں كو ہدايت كرنا،حكمرانوں اور پيشواؤں كى ذمہ داريوں ميں سے ہے _و ا ضل فرعون قومه و ما هدى

''ا ضل'' اور ''ماہدى '' كا معنى ايك ہے اور يہ ايك ہى معنى كا دوسرے لفظ كے ساتھ تكرار ہے شايد ''ماہدى '' كا جملہ اس لئے آيا ہے كہ حكمرانوں اور رہنماؤں سے جس چيز كى توقع ہے وہ لوگوں كو ہدايت كرنا ہے_

۴ _ فرعونيوں كى نابودى اور ان كے نظام حكومت كا ختم ہوجانا انكے فرعون كى پيروى كے نتائج ميں سے تھا_

فغشيهم و ا ضل فرعون قومه و ما هدى

رہبر:انكى ذمہ دارى ۳; انكا نقش و كردار ۲ راھبر; ان كا گمراہ كرنا ۲; انكا ہدايت كرنا ۲

فرعون:اسكى پيروى كے اثرات۴; اس كا گمراہ كرنا ۱

فرعوني:انكى گمراہى كے عوامل ۱_انكى ہلاكت كے عوامل۴

گمراہي:اسكے عوامل ۲

لوگ:انكى ہدايت كى اہميت ۳

ہدايت :اسكے عوامل ۲

۱۴۴

آیت ۸۰

( يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوَاعَدْنَاكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى )

بنى اسرائيل ۱ ہم نے تم كو تمھارے دشمن سے نجات دلائي ہے اور طور كى داہنى طرف سے توريت دينے كا وعدہ كيا ہے اور من و سلوى بھى نازل كيا ہے (۸۰)

۱ _ فرعون بنى اسرائيل كادشمن تھااوروہ انہيں تباہ كرنے كے در پے تھا _فأتبعهم فرعون يا بنى إسرائيل قد ا نجيناكم من عدوكم

۲ _ خداتعالى نے بنى اسرائيل كو فرعون كے خطرے سے نجات دلائي اور انہيں اسكى اسارت سے رہائي عطا كى _

فأتبعهم فرعون ى بنى إسرائيل قد ا نجيناكم من عدوكم

۳ _ بنى اسرائيل كے دريا سے عبور كرنے كے بعد خداتعالى نے انكے ساتھ گفتگو كا فيصلہ كيا اور انہيں قريبى رابطے كا وعدہ ديا_و وعدناكم جانب الطور الا يمن

(بعد والى آيات كے جملے) ''و ما ا عجلك عن قومك ياموسى '' قرينہ ہے كہ ''واعدناكم'' كامتعلق حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو اور سرگوشى كرنے كا وعدہ تھا يہ وعدہ اگر چہ سب بنى اسرائيل كے ساتھ نہيں تھا ليكن چونكہ اسكے فوائد (جيسے تورات كا نزول) سب كيلئے تھے لہذا اسے سب بنى اسرائيل پر ايك نعمت كے عنوان سے ياد كيا گيا_

۴ _ كوہ طور كى دائيں جانب،بنى اسرائيل كے خداتعالى كى دعوت كا جواب دينے كيلئے شرفياب ہونے كى وعدہ گاہ _

و وعدناكم جانب الطور الا يمن

''ا يمن'' كا معنى ہے ''يمين'' يعنى دائيں طرف اور ''طوركے دائيں جانب'' سے مراد اسكى دائيں جانب كى فضا يا دامن ہے_

۵ _ كوہ طور ايك مبارك اور خداتعالى كى مورد عنايت جگہ_و وعدنكم جانب الطور الا يمن

مذكورہ بالا مطلب ميں ''ا يمن'' كو ''يمن'' كے مادہ سے ليا گيا ہے اور يہ مبارك كے معنى ميں ہے يہ كلمہ اگر چہ ''جانب'' كى صفت ہے ليكن كسى چيز كے جز كى صفت خود اس كل چيز (كل) كى بھى صفت شمار ہوئي ہے وعدہ گاہ كے طور پر كوہ طور كا انتخاب اسكے خاص امتياز كى علامت ہے_

۱۴۵

۶ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل پر كھانے كى چيزيں ''من و سلوى '' نازل كيں _

ونزلنا عليكم المن و السلوى

''منّ'' وہ قطرات ہيں جو آسمان سے درختوں اور پتھروں كے اوپر نازل ہوكر شہد كى صورت اختيار كر جاے ہيں انكا ذائقہ ميٹھا ہوتا ہے اور درخت كے شيرے كى طرح خشك ہوجاتے ہيں (قاموس) بعض مفسرين نے اس كا معنى ترنگبين كيا ہے_

''سلوى '' كبوتر جيسا ايك پرندہ ہے كہ جس كى ٹانگيں اور گردن لمبى ہوتى ہيں اسكى رفتار تيز او راس كا رنگ بٹير كے رنگ جيسا ہوتا ہے (مصباح) بعض نے اسے وہى بٹير قرار ديا ہے _

۷ _ بنى اسرائيل پر من و سلوى كا نزول انكے فرعون كے چنگل سے نجات حاصل كرنے اور بيابان ميں ٹھہرنے كے بعد تھا_قد ا نجيناكم وعدناكم و نزلنا عليكم المن و السلوى

''من و سلوى '' كا نزول اس علاقے كے كھانے پينے كى عام چيزوں سے خالى ہونے اور انكے ٹھہرنے كى جگہ كے بيابان ہونے كى علامت ہے_

۸ _ ''من و سلوى '' كا نزول ان معجزات ميں سے تھا جو حضرت موسى كى قوم كو دكھائے گئے _و نزلنا

كھانے پينے كى چيزوں ميں سے ''من و سلوى '' كا مخصوص ہونا اور ان كے بنى اسرائيل پر نزول كى ياد ہانى كرانا ان كے نزول كے غير معمولى ہونے كى علامت ہے_

۹ _ بنى اسرائيل كو فرعونيوں سے نجات دينا،انہيں گفتگو كيلئے كوہ طور پر آنے كى دعوت دينا اور ان پر من و سلوى نازل كرنا حضرت موسى (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل پر خداتعالى كى نعمتيں _يابنى اسرائيل قد ا نجيناكم و نزلنا عليكم المن ا لسلوى

۱۰ _ حضرت موسى (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل،تاريخ كے برجستہ اور بہت ہى قابل تامل ابواب ركھنے والے ہيں _ا نجيناكم وعدنكم و نزّلنا

۱۱ _ تاريخ كے ان حساس لمحوں اور اہم واقعات كو ياد كرنا ضرورى ہے كہ جن ميں خداتعالى كا لطف و كرم نازل ہوا _

ا نجيناكم وعدناكم و نزّلنا

۱۲ _ ستمگر دشمن كے چنگل سے نجات دينا، اس دشمن كو

۱۴۶

نابود كرنا، مكتب اور زندگى كا لائحہ عمل دينا اور رزق عطا كرنا خداتعالى كى عظيم ترين نعمتوں ميں سے ہيں _

ا نجيناكم وعدناكم نزلنا عليكم المن و السلوى

تين قسم كى نعمتوں كى صورت ميں بنى اسرائيل پر احسان كو بيان كيا گيا ہے نجات، طور كے مقام پر ضابطہ حياط كا عطا كرنا(تورات) اور انہيں رزق عطا كرنا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ تين چيزيں خداتعالى كى عظيم نعمتوں ميں سے ہيں _

مقدس مقامات :۵

بنى اسرائيل:يہ بيابان ميں ۷; يہ ميقات ميں ۴; انكى تاريخ ۲، ۶، ۷، ۱۰; ان كے دشمن ۱; انكى دعوت ۹; انكى نجات ۲، ۷، ۹; ان پر بٹير كا نزول ۶; ان پر ترنگبين كا نزول ۶; ان پر سلوى كا نزول ۶، ۷، ۸; ان پر منّ كا نزول ۶، ۷، ۸; انكى نعمتيں ۷، ۹; ان كے ساتھ وعدہ ۳

خداتعالى :اسكى بنى اسرائيل كے ساتھ گفتگو ۳، ۴; اس كا نجات بخشنا ۲; اسكى نعمتيں ۹، ۱۲; اسكے وعدے ۳

كھانے كى چيزيں :سلوى ۶; من ۶

ذكر :تاريخ كے ذكر كى اہميت ۱۱

فرعون:اسكى دشمنى ۱; اس سے نجات ۲، ۷

فرعوني:ان سے نجات ۹

كوہ طور:اس كا تقدس ۵; اسكى طرف دعوت ۹; اسكى دائيں طرف ۴; اس ميں مناجات ۹

موسى (ع) :انكا معجزہ ۸

نعمت:اسكے درجے ۱۲; سلوى والى نعمت كا نزول ۹; من والى نعمت كا نزول ۹; دين والى نعمت ۱۲; روزى والى نعمت ۱۲; ظالموں سے نجات والى نعمت ۱۲; دشمنوں كى ہلاكت والى نعمت ۱۲

۱۴۷

آیت ۸۱

( كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَى )

تم ہمارے پاكيزہ رزق كو كھاؤ اور اس ميں سركشى اور زيادتى نہ كرو كہ تم پر ميرا غضب نازل ہوجائے كہ جس پر ميرا غضب نازل ہوگيا وہ يقينا برباد ہوگيا (۸۱)

۱ _ من و سلوى ،خداتعالى كى طرف سے بنى اسرائيل كيلئے عطيہ اور پاكيزہ و خوش ذائقہ قسم كى روزى تھى _

و نزلنا عليكم المن والسلوى كلوا من طيبت ما رزقناكم

''طيب'' اس چيز كو كہتے ہيں كہ جس سے انسان كے نفس اور حواس كو لذت حاصل ہو (مفردات راغب) ''طاب'' يعنى لذيذ اور پاكيزہ ہوگيا (قاموس) البتہ ''طيب'' كا ايك معنى حلال بھى ہے ليكن چونكہ ہر رزق الہى حلال ہے لہذا وہ معنى كہ جس كا مطلب رزق كى حلال و حرام كى طرف تقسيم ہو مناسب معنى نہيں ہے_

۲ _پاكيزہ اور خوش ذائقہ رزق سے بہرہ مند ہونا،خداتعالى كى طرف سے بنى اسرائيل كو نصيحت_كلوا من طيبت ما رزقناكم

۳ _ دين موسى (ع) ميں صحيح و سالم غذا اور اصول صحت پر توجہ _كلوا من طيبت ما رزقناكم

۴ _ كھانے كى چيزيں ،خداتعالى كا رزق اور اس كا عطيہ ہيں _كلوا من طيبت ما رزقناكم

۵ _ خداتعالى ،انسان كو روزى دينے والا ہے_رزقناكم

۶ _ خداتعالى كى روزى انسان كيلئے پاكيزہ اور خوشگوار عطيہ ہے _طيبت ما رزقناكم

''طيبات'' كى ''ما رزقناكم'' كى طرف اضافت ممكن ہے بيانيہ ہو اور اس نكتے كو بيان كرنے كيلئے ہو كہ جو كچھ ہم نے تمہيں روزى دى ہے وہ طيب اور پاك و پاكيزہ ہے _

۷ _ خداتعالى كے عطيات اور نعمتوں كو اپنے اوپر حرام كرناايك ناروا عمل اور بے جا پرہيز ہے_كلوا من طيبت ما رزقناكم

طيبات سے استفادہ كرنے كى نصيحت اس كام كے افراط پر مبنى رياضتوں كے مقابلے ميں برتر ہونے كى علامت ہے_

۸ _ روزى اور وسائل سے بہرہ مندى كا جواز اسكے مزاج كے موافق ہونے كا مرہون منت ہے _

كلوا من طيبت ما رزقناكم

۹ _ خداتعالى كى نعمتوں سے استفادہ كرنا اور انہيں بے كار نہ ركھنا انكے عطا كرنے كا اصلى ہدف ہے_

۱۴۸

'' مارزقناكم'' ايسا عنوان ہے كہ جو ''كلوا'' كى علت كے مقام ميں اور مخاطب كو نعمت سے استفادہ كرنے كے لازمى ہونے كى طرف متوجہ كر رہا ہے اور اس بات سے حكايت كرتا ہے كہ ہم نے يہ رزق تمہيں ديا ہے تا كہ يہ تمہارى غذا ہو پس اسكے استعمال سے دريغ نہ كرو_

۱۰ _ كھانے پينے كى چيزوں ميں اصل اور قاعدہ اوليہ حليت ہے_كلوا من طيبت ما رزقناكم

۱۱ _ دريا كو عبور كرنے كے بعد،بنى اسرائيل كے ٹھكانے ميں سالم غذا كے وسائل نہيں تھے اور اس ميں خراب اور انسانى مزاج كے منافى غذائي چيزيں تھيں _كلوا من طيبت ما رزقناكم و لا تطغوا فيه

۱۲ _ نعمتوں سے استفاہ كرنے ميں قوانين الہى اور اعتدلال كى حد سے تجاوز نہ كرنا،خداتعالى كى بنى اسرائيل كو نصيحت _

كلوا من طيبت و لاتطغوا فيه

۱۳ _ نعمات الہى سے استفادہ كرنے ميں حدود اور اعتدال كى حفاظت كرنا اور اس ميں اسراف و تبذير اور ناشكرى سے پرہيز كرنا ضرورى ہے _كلوا من طيبت ما زرقناكم و لا تطغوا فيه

نعمتوں كے بارے ميں سركشى كاواضح مصداق كفران، ناشكري، اسراف اور تبذير ہے _

۱۴ _ الله تعالى كى نعمتوں اور رزق سے استفادہ كرنے كيلئے خاص احكام اور قواعد و ضوابط ہيں _كلوا من طيبت و لا تطغوا فيه ''طغيان'' كا معنى ہے حد سے تجاوز كرنا_ بنى اسرائيل كو طيبات سے استفادہ كرنے ميں طغيان سے نہى اس بات سے حكايت كرتى ہے كہ طيبات سے استفادہ كرنے كے قواعد و ضوابط اور حدود ہيں كہ جن سے خروج طغيان شمار ہوتا ہے_

۱۵ _ كھانے كى چيزوں ميں طغيان كرنے كے خطرناك اسباب موجود ہيں _كلوا ولا تطغوا فيه

''فيہ'' كى ضمير كا مرجع ممكن ہے ''كلوا'' كا مصدر (يعنى ''اكل'') ہو اور ممكن ہے اس كا مرجع ''ما رزقناكم'' كا ''ما '' ہو اس لحاظ سے كہ اس كا ''كلوا'' فعل كے ساتھ ارتباط ہے ہر صورت ميں مذكورہ بالا مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۱۶ _ خداتعالى كى نعمتوں كے سلسلے ميں حد سے تجاوز كرنا ستم گروں كى حكمرانى سے آزادى حاصل كرنے والے معاشروں كيلئے ايك خطرہ _ا نجيناكم من عدوكم كلوا لاتطغوا فيه

بنى اسرائيل كو طغيان سے نہى ان كے دريا سے عبور

۱۴۹

كرنے اور فرعونيوں كے ظلم و ستم سے نجات حاصل كرنے كے بعد ذكر ہوئي ہے اس موقع پر اس مسئلے كو چھيڑنا ايسے حالات ميں طغيان كى طرف لے جانے والے اسباب كے وجود كو بيان كرتا ہے_

۱۷ _ نعمتوں سے استفادہ كرنے ميں حد سے تجاوز كرنا (ناشكري، اسراف ...) غضب الہى كے نزول اور اسكے انسان پر مسلط ہونے كے اسباب فراہم كرتا ہے_كلوا و لاتطغوا فيه فيحل عليكم غضبي

''يحلّ'' يعنى ''ينزل'' غضب كا نزول اسكے مكمل طور پرمستقر ہونے سے كنايہ ہے_

۱۸ _سقوط اور ہلاكت ان معاشروں اور افراد كا حتمى مقدر ہے كہ جن پر خدا تعالى كا غضب ہو_

و من يحلل عليه غضبى فقد هوى

۱۹ _ خداتعالى كى نعمتوں كے سلسلے ميں طغيان كرنا اور حد اعتدال سے خارج ہونا بہت بڑا گنا ہ ہے_

و لاتطغوا و من يحلل عليه غضبى فقد هوى

نعمتوں كے سلسلے ميں طغيان كرنے والوں پر غضب الہى ان كے گناہ كے بڑا ہونے كى علامت ہے _

۲۰ _راوى كہتا ہے ميں امام باقر(ع) كے حضور ميں تھا كہ عمر و بن عبيد داخل ہوا اور امام(ع) سے كہنے لگا آپ (ع) پر قربان ہوجاؤں الله تبارك و تعالى كے فرمان'' و من يحلل عليه غضبى فقد هوي'' ميں غضب سے كيا مراد ہے؟ فرمايا يہ عذاب ہے اے عمر و بيشك جو شخص يہ گمان كرے كہ خداتعالى ايك حال سے دوسرے حال ميں منتقل ہوتا ہے تو اس نے مخلوق كى صفت كے ساتھ اسے متصف كيا ہے اور خداتعالى كو كوئي چيز حركت نہيں ديتى تا كہ اس ميں تبديلى آئے(۱)

اسراف:اسكے اثرات ۱۷; اس سے اجتناب كى اہميت ۱۳; اس كا گناہ ۱۹

انسان:اس كا مزاج ۸//بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱۱; انكو نصيحت ۲، ۱۲; انكى روزي۱، ۲; ان كے طيبات ۱; انكى رہائش گاہ ۱۱; انكى نعمتيں ۱//تجاوز:اس سے اجتناب كرنا ۱۲

غذا:اس ميں حفظان صحت كى اہميت ۲//معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۱۶

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۲، ۱۲; اس كا رازق ہونا ۴، ۵; اسكے غضب كا پيش خيمہ ۱۷; اسكى نعمتوں كا فلسفہ ۹; اسكے غضب سے مراد ۲۰; اسكى نعمتيں ۱، ۶

____________________

۱ ) كافى ج۱ ص ۱۱۰ ح ۵ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۶ ح ۸۹_

۱۵۰

كھانے كى چيزيں :انكا كردار ۱۵

روايت ۲۰//روزي:اس سے استفادہ كے شرائط ۸; اس كا سرچشمہ ۵

زہد:اس ميں افراط كا ناپسنديدہ ہونا ۷

طغيان:اسكے اثرات ۱۷; اس كا پيش خيمہ ۱۵، ۱۶; اس كا گناہ ۱۹

طيبات:ان سے استفادہ كرنا ۴

عمل:ناپسنديدہ عمل ۷//قواعد فقہيہ: ۱۰//قاعدہ حليت ۱۰

كفران:كفران نعمت كے اثرات ۱۷; كفران نعمت سے اجتناب كرنا ۱۳; كفران نعمت كا گناہ ۱۹

گناہان كبيرہ: ۱۹

جن پر خدا كا غضب ہے:انكا انجام ۱۸; انكى ہلاكت ۱۸

نعمت:اسكے احكام ۴; اس سے استفادہ كرنا ۹; اس سے استفادہ كرنے ميں اعتدال ۱۲، ۱۳; اس سے استفادہ كرنے كے شرائط ۱۴; اسكے حرام كرنے كا ناپسند ہونا ۷; كھانے كى چيزوں كى نعمت ۴; روزى والى نعمت ۶; سلوى والى نعمت ۱; طيبات والى نعمت ۶; منّ والى نعمت ۱

يہوديت:اس ميں حفظان صحت ۳; اس ميں غذا ۳

آیت ۸۲

( وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اهْتَدَى )

اور ميں بہت زيادہ بخشنے والا ہوں اس شخص كے لئے جو توبہ كرلے اور ايمان لے آئے اور نيك عمل كرے اور پھر راہ ہدايت پر ثابت قدم رہے (۸۲)

۱ _خداوند متعال،بہت بجشنے والا ہے_و إنى لغفار

۲ _ شرك، كفر اور عصيان سے توبہ كرنے والے با ايمان لوگ كہ جو عمل صالح انجام ديتے ہيں اور ہدايت كے پيچھے جاتے ہيں قطعا مغفرت الہى كے مستحق قرار پائيں گے _وإنى لغفار لمن تاب و امن ثم اهتدي گذشتہ آيت قرينہ ہے كہ توبہ سے مراد كھانے كى چيزوں كے سلسلے ميں حد سے تجاوز كرنے والے گناہ سے توبہ ہے اور چونكہ

۱۵۱

''تاب'' كے بعد ايمان كى بات كى گئي ہے اس لئے يہ شرك و كفر كے گناہ سے توبہ كو بھى شامل ہے_

۳ _ توبہ، ايمان، عمل صالح اور ہدايت كے پيچھے جانا مغفرت الہى كے حصول كے ذرائع ہيں _و إنى لغفار ثم اهتدي

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ توبہ، ايمان اور عمل صالح خود ہدايت يافتہ ہونے سے حكايت كرتے ہيں ''ثم اہتدي'' ہدايت پر باقى رہنے اور مسلسل اس كے پيچھے رہنے كو بيان كر رہا ہے_

۴ _ رہبانيت كو اپنا نے والے اور فضول خرچى كرنے والے اگر توبہ كر ليں تو مغفرت الہى ان كے شامل حال ہو جائيگي

كلوا و لا تطغوا و إنى لغفار لمن تاب

۵ _ گناہ گاروں اور مغضوبين كيل ے خدا تعالى كى طرف سے توبہ اور واپس پلٹنے كاراستہ كھلا ہے_يحلل غضبى و إنى لغفار لمن تاب حد سے تجاوز كرنے والوں كو دھمكى دينے كے بعد خدا تعالى كى مغفرت واسعہ پر تأكيد گناہ گاروں كو بخشش الہى كا اميدوار كرنے اور راہ توبہ كے كھلا ہونے كو بيان كرنے كيلئے ہے_

۶ _ گناہ سے توبہ كا ضرورى ہونا اديان آسمانى كى مشتركہ تعليمات ميں سے ہے _و إنى لغفار لمن تاب

۷ _ عمل صالح كے انجام كا ضرورى ہونا،سب اديان الہى كے احكام ميں سے ہے_و إنى لغفار لمن تاب و ء امن و عمل صالح

۸ _ توبہ كرنے والے اور نيك كردار مؤمنين كيلئے خدا تعالى كى مغفرت وسيع اور عام ہے_و إنى لغفار لمن تاب

''غفار'' مبالغہ كا صيغہ ہے اور مؤمنين اور نيك كردار توبہ كرنے والوں كے سلسلے ميں بخشش الہى كے وسيع ہونے پر دلالت كر رہا ہے

۹ _ آسمانى اديان كى تربيت كى روش ميں بشارت اور انذار ايك دوسرے كو مكمل كرنے والے ہيںو لا تطغوا فيه فيحلل عليكم غضبي و إنى لغفار

۱۰ _ حد سے تجاوز كرنا ايمان كو تباہ كرنے والا ہے_و لا تطغوا فيه و إنى لغفار لمن تاب و امن طغيان كے بعد نئے ايمان كى بات ممكن ہے اس نكتے كو بيان كرنے كيلئے ہو كہ طغيان ايمان كو ختم كر ديتا ہے اور يا اسے بہت نقصان پہنچاتا ہے_

۱۱ _ بڑھتى ہوئي اور تكامل كا راستہ طے كر تى ہوئي ہدايت، توبہ، ايمان اور عمل صالح كا نتيجہ _لمن تاب و امن و عمل صالحاً ثم اهتدي ممكن ہے '' ثم اہتدي'' ہدايت كے اعلى مراتب اور بلند درجات كى طرف ناظر ہو كہ جو

۱۵۲

توبہ، ايمان اور عمل صالح كے نتيجے ميں حاصل ہوتے ہيں يہ نكتہ باب افتعال كہ جو مطاوعہ كيلئے آتا ہے كے معنى كو مد نظر ركھتے ہوئے زيادہ واضح ہوتا ہے_

۱۲ _ ہدايت ايسى چيز ہے كہ جس ميں رشد و تكامل ہو سكتا ہے_تاب و ء امن و عمل صالحاً ثم اهتدي

۱۳ _ توبہ كى قبوليت اور گناہوں كى بخشش انہيں ہميشہ ترك كرنے اور نئے گناہ سے پرہيز كے ساتھ مشروط ہے_

و إنى لغفار لمن تاب ثم اهتدي ''ثم اہتدي'' كہ جو توبہ كے بعد والے مرحلے كى طرف ناظر ہے اس نكتہ كو بيان كر رہا ہے كہ اگر راہ ہدايت كو چھوڑ ديا جائے اور جس گناہ سے توبہ كى تھى اسے دوبارہ انجام ديا جائے تو مغفرت الہى انسان كے شامل حال نہيں ہو گي_

بخشش:اس كا پيش خيمہ۳_ اسكى شرائط۱۳ _ يہ جنكے شامل حال ہے ۲

اديان آسماني:انكى تعليمات ۶، ۷، ۹_ انكى ہم آہنگي۶

اسما و صفات:غفار //ايمان:اسكے اثرات۲، ۳، ۱۱_ اسكے زوال كے عوامل۱۰

تائبين:انكى بخشش ۲، ۸//تربيت:اس ميں انذار۹_ اس ميں بشارت۹_ اسكى روش ۹

توبہ:اسكے اثرات ۱۱_ يہ اديان آسمانى ميں ۶; اسكى قبوليت كے شرائط۱۳

خدا تعالي:اسكى بخشش ۱_ اسكى بخشش كا پيش خيمہ ۳، ۴; اسكى بخشش كى وسعت ۸

شرك:اسكى بخشش كے شرائط۲، ۳

صالحين:انكى بخشش۸

طغيان:اسكے اثرات۱۰

عصيان:اسكى بخشش كے شرائط ۲

عمل صالح:اسكے اثرات ۲، ۳، ۱۱;اسكى اہميت ۷

كفر:اسكى بخشش كے شرائط۲

گناہ:اس سے اجتناب ۱۳

۱۵۳

گناہ گار لوگ;انكى توبہ۵

مؤمنين:انكى بخشش۸

اسراف كرنے والے:انكى توبہ كے اثرات ۴_ انكى بخشش كے شرائط۴

خدا كے مغضوب لوگ:انكى توبہ۵

ہدايت:اسے قبول كرنے كے اثرات ۳_ اس كا زيادہ ہونا ۱۲_ اسكے زيادہ ہونے كا پيش خيمہ ۱۱_ اسكے مراتب۱۲

آیت ۸۳

( وَمَا أَعْجَلَكَ عَن قَوْمِكَ يَا مُوسَى )

اور اے موسى تمھيں قوم كو چھوڑ كر جلدى آنے پر كس شے نے آمادہ كيا ہے (۸۳)

۱ _ خدا تعالى نے حضرت موسي(ع) اور ان كى قوم كے ساتھ كوہ طور كے قريب گفتگو كرنا طے فرمايا تھا _

وعدناكم جانب الطور الا يمن و ما ا عجلك عن قومك

اس سورت كى آيت ۸۰ ميں (كوہ طور ميں ) بنى اسرائيل كے ساتھ خدا تعالى كے وعدے كى بات ہوئي تھى ظاہرا ''ماا عجلك'' _ كہ جو حضرت موسي(ع) كے وعدہ گاہ ميں آنے كے سلسلے ميں عجلت كرنے سے حاكى ہے _ اسى وعدے كے ساتھ مربوط ہے_

۲ _ وعدہ گاہ ميں پہنچنے كيلئے حضرت موسي(ع) اپنى قوم كے ہمراہ آنے پر مأمور _و ا عجلك عن قومك يا موسى

حضرت موسى (ع) سے خدا تعالى كا سوال _ بعد والى آيت ميں ان كے جواب كے قرينے سے _ توبيخى اور ملامت كے مقام ميں ہے اس سرزنش سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسي(ع) نے اپنى قوم كو چھوڑ كر اور ان سے جدا ہو كر ترك اولى كا ارتكاب كيا تھا اور انہيں چاہے تھا كہ اپنى قوم كے ہمراہ چلتے اور ان پر سبقت نہ كرتے_

۳ _ وعدہ گاہ ميں پہنچنے كيلئے حضرت موسي(ع) نے جلد سے كام ليا اور اپنى قوم پر سبقت كى _و ماا عجلك عن قومك يا موسى

۴ _ وعدہ گاہ پر پہنچنے ميں حضرت موسي(ع) كے قوم پر سبقت كرنے كى وجہ سے خدا تعالى نے ان سے بازپرس كي_

و ما ا عجلك عن قومك يا موسى

۵ _ كوہ طور پر آنے ميں عجلت سے كام لينے كے بارے ميں خدا تعالى كا حضرت موسي(ع) سے سوال كرنا خدا تعالى كى ان

۱۵۴

كے ساتھ پہلى گفتگو نہيں تھي_و ما ا عجلك ''و ما ا عجلك'' ميں ''واو''محذوف پر عطف كيلئے ہے يعنى حضرت موسي(ع) (ع) كے كوہ طور پر حاضر ہونے كے بعد بات يا باتيں ہوئيں اس وقت يہ سوال اٹھا يا گيا_

۶ _ انبياء الہى تمام مراحل اور پروگراموں ميں اپنى امت اور قوم كے ہمراہ رہنے پر مأمور ہيں _و ما ا عجلك عن قومك يا موسي(ع) وعدہ گاہ پر پہنچنے كيلئے حضرت موسي(ع) كے اپنى قوم سے جدا ہونے كى وجہ سے ان كا مؤاخذہ ہونا بتاتا ہے كہ يہ چيز ضرورى ہے كہ كسى بھى حالات ميں انبياء اپنى قوم سے جدا نہ ہوں _

۷ _ ضرورى ہے كہ انبيائ، خدا تعالى كے حكم كى بغير اپنى قوم سے جدا نہ ہوں _و ما ا عجلك عن قومك يا موسي(ع)

۸ _ ضرورى ہے كہ دينى راہنما تمام ميدانوں ميں لوگوں كے ساتھ ساتھ رہيں _و ما اعجلك عن قومك يا موسي(ع)

انبيائ(ع) :انكى ذمہ داري۶، ۷

بنى اسرائيل:وعدہ گاہ ميں ان كے نمائندے۱، ۲

خداتعالي:اسكى طرف سے سرزنش۴، ۵;اسكى موسي(ع) كے ساتھ گفتگو۵

دينى راہنما:انكى ذمہ داري۸

لوگ:ان كے ہمرا ہ رہنے كى اہميت ۶، ۷، ۸

موسي(ع) :انكى عجلت كے اثرات ۴; انكا عجلت سے كام لينا ۳، ۵;انكا قصہ ۱، ۲، ۳;انكا مؤاخذہ ۴، ۵; انكى ذمہ دارى ۲; يہ وعدہ گاہ ميں ۳، ۴

آیت ۸۴

( قَالَ هُمْ أُولَاء عَلَى أَثَرِي وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَى )

موسى نے عرض كى كہ وہ سب ميرے پيچھے آرہے ہيں اور ميں نے راہ خير ميں اس لئے عجلت كى ہے كو تو خوش ہوجائے (۸۴)

۱ _حضرت موسي(ع) نے وعدہ گاہ پر آنے كے سلسلے ميں اپني قوم پر سبقت كرنے كى وجہ يہ قرار دى كہ انہيں اپنى قوم كے بارے ميں اطمينان تھا كہ وہ انكى پيروى كرے گى اور وعدہ گاہ تك كى مسافت طے كرے گي_قال هم ا ولا، على أثري ''أولا'' اسم اشارہ بعيد كيلئے ہے اور ''اثر'' كا معنى ہے ہر چيز كا باقى ماندہ علامت اس لئے پاؤں كے نشان كو بھى اثر

۱۵۵

كتے ہيں _ ''اثر''پيچھے چلنے اور اتباع كرنے كے معنى ميں بھى آتا ہے (مقابيس اللغة)چنانچہ آيت كريمہ كامعنى يہ بنے گا كہ يہ وہى جماعت ہے جو ميرے پاؤں كے نشان پر چلتے ہوئے وعدہ گاہ كى طرف رواں رواں ہے يا يہ كہ وہ ميرے پيچھے وعدہ گاہ كى طرف آر ہے ہيں _

۲ _ وعدہ گاہ ميں حضرت موسي(ع) اپنى قوم سے تھوڑا سا پہلے پہنچے_و ماا عجلك قال هم ا ولاء على أثري

حضرت موسي(ع) كى طرف سے ان كے ہمراہيوں كا مورد اشارہ قرار پانابتا تاہے كہ وہ حضرت موسي(ع) كى نظروں ميں تھے اور وعدہ گاہ ميں پہنچنے كيلئے انہيں زيادہ وقت نہيں چاہے تھا_ بنابراين وعدہ گاہ ميں حضرت موسي(ع) كے وارد ہونے اور انكى قوم كے وارد ہونے كے درميان زيادہ فاصلہ نہيں تھا_

۳ _ موسي(ع) كى قوم تھوڑے وقت كے بعد،حضرت موسي(ع) كے اور انكے پاؤں كے نشانات پر وعدہ گاہ كى طرف روا نہ ہوئي_و ما ائعجلك قال هم ا ولاء على ا ثري

۴ _ حضرت موسي(ع) طے شدہ وقت اور اپنى قوم سے پہلے وعدہ گاہ ميں پہنچنے كو خدا تعالى كى رضا حاصل كرنے كا سبب سمجھتے تھے_و ما ا عجلك و عجلت إليك رب لترضي

۵ _ حضرت موسي(ع) كو اپنے پروردگار كى ملاقات، اسكے ساتھ گفتگو اور اسكى رضا كو حاصل كرنے كا شوق انكے وعدہ گاہ كى طرف آنے ميں عجلت كرنے كا سبب بنا_و عجلت إليك رب لترضي

۶ _ كار خير ميں جلدى كرنے اور وعدے كى وفا ميں عجلت سے كام لينا خدا تعالى كى رضا كے حاصل كرنے كا سبب ہے_

و ما ا عجلك وعجلت إليك رب لترضي اگر چہ اپنى قوم سے جدا ہونے كى وجہ سے خدا تعالى نے حضرت موسي(ع) سے بازپرس كى ليكن اس جلدى سے ان كے ہدف پر تنقيد نہيں كى گئي اس كا مطلب يہ ے كہ وعدے كى و فا ميں جلدى كرنا اور وعدہ گاہ ميں حاضر ہوجانا بذات مطلوب كام تھا_

۷ _ عبادت،خدا تعالى كى رضا كو حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_عجلت إليك رب لترضي

۸ _ ہر كام كى خوبى اسكے نيت خير كے ساتھ انجام پانے كے علاوہ خدا تعالى كے ديگر احكام اور خواہشات كے ساتھ ہم آہنگ ہونے ميں مخفى ہے _و ما ا عجلك و عجلت إليك رب لترضي با وجود اس كے كہ حضرت موسي(ع) جلدى كرنے ميں نيت خير ركھتے تھے ليكن ان سے بازپرس ہونا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ عمل كى بلندى كيلئے

۱۵۶

صرف نيت خير ركھنا كافى نہيں ہے بلكہ ضرورى ہے كہ اس عمل كا ديگر دليلوں كے ساتھ موازنہ كيا جائے اگر ان كے كا منافى نہ ہو تو اس كا احترام كيا جائے_

۹ _ انبياء (ع) خدا تعالى كى رضا كے موارد كى تشخيص كيلئے خدا تعالى كى ہدايت اوررہنمائي كے محتاج ہيں _و ما ا عجلك عجلت إليك رب لترضي

۱۰ _ خداتعالى كى ربوبيت كا تقاضا ہے نيت خير ركھنے والوں اور كار خير ميں سبقت كرنے والوں كو جزا دى جائے_

و عجلت إليك رب لترضي

۱۱ _ سفر كے دوران ہم سفروں كے ہمراہ رہنا اور راستے ميں ان سے جدا نہ ہوناسفر كے آداب ميں سے ہے_

و ما ا عجلك قال هم ا ولاء على أثري

انبياء(ع) :انكى معنوى ضروريات۹; انكى ہدايت۹

بنى اسرائيل:وعدہ گاہ ميں ان كے نمائندے ۱، ۲، ۳

شرعى فريضہ:اس پر عمل ۸

خداتعالي:اسكى ربوبيت كے اثرات ۱۱; اسكى رضا كى تشخيص كا پيش خيمہ ۹; اسكى رضا كا پيش خيمہ۴، ۶، ۷; اسكى موسي(ع) كے ساتھ گفتگو۵

عبادت:اسكے اثرات۷

عمل:عمل خير ميں پيش قدمى كے اثرات ۶_ عمل خير ميں پيش قدمى كرنے والوں كى جزا ۱۱;عمل خير كى جزا كا پيش خيمہ ۱۱; عمل خير كى شرائط۸; عمل خير ميں نيت۸

سفر:اسكے آداب۱۲

موسي(ع) :انكى سوچ۴; انكى پيروي۱; انكى عجلت ۱، ۲، ۴; انكے تمايلات ۵; انكى عجلت كے عوامل ۵; انكا قصہ، ۲، ۳، ۵; انكى خدا كے ساتھ ملاقات ۵; آپ وعدہ گاہ ميں ۱، ۲، ۳، ۴، ۵

ضروريات:خداتعالى كى ہدايت كى ضرورت۹

نيت:اسكے اثرات۸//وعدہ:اسكى وفا ميں جلدى كرنے كے اثرات ۶

ہم سفر:انكے ہمراہ رہنا ۱۲

۱۵۷

آیت ۸۵

( قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِن بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ )

ارشاد ہوا كہ ہم نے تمھارے بعد تمھارى قوم كا امتحان ليا اور سامرى نے انھيں گمراہ كرديا ہے (۸۵)

۱ _ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كو آزمائش الہى كا سامنا _فإنا قد فتنا قومك من بعدك

''من بعدك'' يعنى (اے موسي(ع) ) بعد اسكے كہ تو اپنى قوم سے جدا ہوا اور ان كى نظروں سے غائب ہوا _ قابل ذكر ہے كہ ''فتنہ'' در اصل اس سونے اور چاندى كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے جسے آگ كے ساتھ پگھلا كر اچھے اور برے كو جدا كر ليا گيا ہو_ (مصباح) اور آيت كريمہ ميں اس سے مراد آزمائش ہے كہ جو اچھے اور برے انسانوں كى تشخيص كا ذريعہ ہے_

۲ _ حضرت موسي(ع) ،وعدہ گاہ ميں اور وحى كے ذريعے اپنى عدم موجود گى ميں بنى اسرائيل كى آزمائش اور ان كے گمراہ ہونے سے آگاہ ہوئے_و عجلت إليك فإنا قد فتنا قومك من بعدك

۳ _ حقائق كے بارے ميں حضرت موسي(ع) كے علم كا محدود ہونا_فإنا قد فتنا قومك

۴ _ سامرى حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كى گمراہى كا سبب بنا_و ا ضلهم السامري

''سامري'' ايك شخص كا نام ہے جو بنى اسرائيل سے تھا اور انكى گمراہى كا سبب بنا _

۵ _ معاشرے ميں الہى پيشوا كا وجود، انحراف سے بچانے كيلئے بنيادى كردار كا حامل ہوتاہے_فانا قد فتنا قومك من بعدك واضلهم السامري

''من بعدك'' بتاتاہے كہ حضرت موسي(ع) كے اپنى قوم كے درميان نہ ہونے سے اس گمراہى كے مقدمات كا آغاز ہوا_

۶ _ ہر معاشرے كے برجستہ افراد اور شخصيات اس كى تاريخ اور اجتماعى وقائع ميں مؤثر كردار كے حامل ہوتے ہيں _

من بعدك

۱۵۸

۷ _ انبياء كى امتيں اپنے رہبروں كى عدم موجودگى كى صورت ميں آزمائش الہى سے دوچار _فإنا قد فتنا قومك من بعدك

حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كے آزمائے جانے كى خبر كے ذريعے تمام امتوں كو خبردار كيا جا رہا ہے كہ اپنے پيشواؤں كے كى عدم موجودگي(انكى موت يا عدم موجودگي)كے زمانے ميں كافى حد تك ہوشيار رہيں تا كہ آزمائشوں سے سربلندى كے ساتھ نكل سكيں _

۸ _ خاص اوقات ميں امتوں كيلئے امداد الہى كا مطلب يہ نہيں ہے كہ وہ بعد والے مراحل ميں آزمائشوں سے معاف ہيں _

قد ا نجيناكم فإنا قد فتنا قومك من بعدك

۹ _ حضرت موسي(ع) كے عوام سے جدا ہونے اور ان سے سبقت لينے كے سلسلے ميں خدا تعالى كا ان پر اعتراض آپ كى عدم موجودگى ميں ان كے درميان انحراف پيدا ہونے كى وجہ سے تھا_و ما ا عجلك فإنا قد فتنا قومك من بعدك

۱۰ _ گمراہى كے عوامل، خداتعالى كى طرف سے لوگوں كى آزمائش كے ذرائع اور اسكى قدرت كے سامنے مجبور رہيں _

فتنا و ا ضلهم السامري با وجود اس كے كہ سامرى كا گمراہ كرنا خود اسكى طرف منسوب ہے ليكن اسے آزمائش الہى كا مصداق قرار ديا گيا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ خدا تعالى اسكے كام پر تسلط ركھتا تھا ليكن اس نے اسے اپنى مرضى سے آزاد چھوڑا_

۱۱ _ بنى اسرائيل كا مرتد ہونا اور ان كے درميان بچھڑا پرستى كا وجود ميں آنا ان كے دريا سے عبور كرنے كے بعد تھا_

يا بنى إسرائيل قد ا نجيناكم من عدوّكم فتنا قومك من بعدك

آزمائش:اس كا ذريعہ۱۰

امتيں :انكى آزمائش۸ _انكى امداد۸_ انكى آزمائش كا پيش خيمہ۷_ انكى گمراہى كا پيش خيمہ۷_ انكى گمراہي۸

معاشرتى انحرافات:انكے موانع۵

بنى اسرائيل:اس كا مرتد ہونا۱۱; اسكى آزمائش۱، ۲;يہ موسي(ع) كى غيبت ميں ۱، ۲، ۴، ۹; اسكى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۱۱;اس كى گمراہى كا پيش خيمہ۹;سكى گمراہى كے عوامل۴; اسكى گمراہى ۲;اسكى بچھڑا پرستي۱۱

تاريخ:اسكے تحولات ميں مؤثر عوامل۶

معاشرتى تحولات:اس ميں مؤثر عوامل ۶

خداتعالي:اسكى آزمائش۱، ۱۰; اسكى امداد ۸;اسكى طرف سے سرزنش ۹;اسكى قدرت۱۰

۱۵۹

رہبر:انكا نقش و كردار۶

دينى راہنما:انكا معاشرتى كردار۵;انكانقش و كردار۷

سامري:اس كا گمراہ كرنا ۴

گمراہي:اس كے عوامل كا كردار۱۰

موسي(ع) :انكى عجلت۹;ان كے مؤاخذے كا فلسفہ۹; انكا قصہ ۲، ۴، ۹; ان كے علم كا ائرہ ۳; انكى طرف وحى ۲

وحي:اس كا كردار۲

آیت ۸۶

( فَرَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفاً قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْداً حَسَناً أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِي )

يہ سن كر موسى اپنى قوم كى طرف محزون اور غصہ ميں بھرے ہوئے پلٹے اور كہا كہ اے قوم كيا تمھارے رب نے تم سے بہترين وعدہ نہيں كيا تھا اور كيا اس عہد ميں كچھ زيادہ طول ہوگيا ہے ياتم نے يہى چاہا كہ تم پر پروردگار كا غضب وارد ہوجائے اس لئے تم نے ميرے وعدہ كى مخالفت كى (۸۶)

۱ _ حضرت موسي(ع) بنى اسرائيل كى گمراہى سے آگاہ ہونے كے بعد، شديد غم و غصے كے ساتھ ان كى طرف واپس پلٹے_

و ا ضلهم السامرى فرجع موسى إلى قومه غضبانا ا سف

اس سلسلے ميں قران كى ديگر آيات نيزخود ان آيات ميں موجود قرائن كو مد نظر ركھتے ہوئے ايسے لگتا ہے كہ بنى اسرائيل كا سامرى كے ذريعے گمراہ ہونا حضرت موسي(ع) كے چاليس دن كے ميقات كے دوران ہوا اور حضرت موسي(ع) كا اپنى قوم كى طرف لوٹنا بھى اس ميقات كے مكمل ہونے كے بعد تھا بعض اہل لغت كے بقول''غضبان'' اس شخص كو كہا جاتا ہے جو شديد غضب ميں ہو اور ''ا سف''اس غصے والے شخص كو كہا جاتا ہے جس كو كسى چيز پر افسوس ہو (لسان العرب)

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639