دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)12%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272303 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

فطر بن خلیفہ حناط کوفی

عبداﷲ بن احمد نے اپنے والد امام احمد حنبل سے فطر کے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا :

             “ثقة صالح  الحديث ، حديثة حديث رجل کيس الا ان ه يتشيع ۔”

             “ فطر ثقہ ہیں، صالح الحدیث ہیں۔ ان کی حدیثیں زیرک و دانا لوگوں جیسی ہیں لیکن یہ کہ وہ شیعہ تھے۔”

ابن معین کا قول ہے کہ فطر بن خلیفہ ، ثقہ اور شیعہ ہیں۔ صحٰیح بخاری و سنن اربعہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ۲۵۳ھ میں انتقال کیا۔

م :

 ابوغسان مالک بن اسماعیل بن زیاد بن درہم کوفی

امام بخاری کے شیخ ہیں۔ ابن سعد طبقات جلد۶ صفحہ ۲۷۲ پر ان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں کہ

“ ابو غسان ثقہ اور صدوق اور بڑے شیدید قسم کے شیعہ تھے”

علامہ ذہبی نے بھی ان کی عدالت و جلالت قدر پر روشنی ڈالی ہے اور وضاحت کی ہے کہ انھوں نے مذہب تشیع اپنے استاد حسن صالح سے حاصل کیا۔ اور ابن معین کہا کرتے کہ کوفہ میں ابو غسان جیسا ٹھوس آدمی نہیں ۔ ابوحاتم بھی ان کے متعلق یہی رائے رکھتے تھے۔ امام بخاری نے

۱۴۱

بلاواسطہ ان سے متعدد حدیثیں روایت کی ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ ۲۱۹ھ میں انتقال کیا۔

محمد بن خازم

جو ابو معاویہ ضریر تمیمی کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

“ یہ بڑے ثقہ، ٹھوس اور یکے از ائمہ اعلام تھے۔ میری دانست میں کسی نے بھی ان کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں کہی جو ان کی شان کے منافی ہو۔”

امام حاکم فرماتے ہیں کہ ان کی حدیثوں سے بخاری و مسلم دونوں نے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے ۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ بڑے غالی شیعہ تھے۔ ان کی حدیثوں سے جملہ ارباب صحاح ستہ نے احتجاج کیا ہے اور  سبھی صحاح میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ۱۱۲ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ۱۹۵ھ میں انتقال کیا۔

محمد بن عبداﷲ نیشاپوری مشہور بہ امام حاکم

یہ بزرگ حفاظ و محدثین کے امام اور سینکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں تحصیل علم کی خاطر ملک ملک کے سفر کیے اور دو ہزار شیوخ حدیث سے احادیث کا استفادہ کیا۔ ان کے زمانہ کے مرجع انام علمائے اعلام جیسے صعلو کی امام ابن فورک اور دیگر جمیع ائمہ اعلام انھیں اپنے سے مقدم و بہتر سمجھتے تھے اور آپ کے علم وفضل کا  لحاظ رکھتے تھے ۔ معزز و محترم ہونے کے معترف اور بے شک و شبہ امام سمجھتے تھے۔ ان کے بعد کے جتنے محدثین ہوئے وہ سب آپ کے

۱۴۲

خواں علم کے زلہ خوار ہیں۔ بزرگ اکابر شیعہ اور شریعت مصطفوی کے حافظوں میں سے تھے۔ جیسا کہ علامہ ذہبی کی تذکرة الحفاظ میں صراحت موجود ہے نیز میزان الاعتدال میں بھی بسلسلہ حالات امامِ موصوف تصریح ہے ۔ سنہ ۳۲۱ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ۴۰۵ھ میں انتقال کیا۔

محمد بن عبیداﷲ بن ابی رافع مدنی

ان کا پورا خاندان شیعہ تھا۔ ان کے خاندان والوں کی تصانیف دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حضرات شیعیت میں کتنے راسخ اور ثابت قدم تھے۔ محمد بن عبیداﷲ کو ابن عدی نے کوفہ کے سربرآوردہ شیعوں میں شمار کیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال علامہ ذہبی۔

ترمذی و دیگر اصحاب سنن نے ان کی حدیثیں  اپنے صحاح میں درج کی ہیں۔ طبرانی نے اپنی معجم کبیر میں بسلسلہ اسناد محمد بن عبیداﷲ سے اور انھوں نے اپنے باپ دادا کی وساطت سے حضرت پیغمبر خدا(ص) کی یہ حدیث روایت کی ہے کہ آنحضرت(ص) سے حضرت علی(ع) سے ارشاد فرمایا :

“ کہ سب سے پہلے ہم اور تم اور حسن(ع) و حسین(ع) جنت میں جائیں گے ہمارے پیچھے ہم لوگوں کی اولاد رہے گی اور ہم لوگوں کے شیعہ ہمارے دائیں اور بائیں رہیں گے۔”

ابوعبدالرحمن محمد بن فضیل بن غزوان کوفی

ابن قتیبہ نے اپنی معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ابن سعد نے اپنی طبقات جلد۶ صفحہ۲۷۱ پر ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

۱۴۳

“ کہ یہ ثقہ ، صدوق اور اکثر الحدیث ہیں۔ یہ شیعہ تھے۔ بعض علماء ان کی حدیثوں سے احتجاج نہیں کرتے ۔”

علامہ ذہبی نے انھیں میزان میں کئی جگھوں پر صدوق اور شیعہ لکھا ہے۔ امام احمد نے ان کے متعلق فرمایا کہ ان کی حدیثیں پاکیزہ ہیں اور یہ شیعہ ہیں۔

امام ابو داؤد نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ بڑے سخت و شدید شیعہ تھے۔ حدیث و معرفت والے ہیں اور حمزہ  سے انھوں نے علم قرآن حاصل کیا۔ ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ امام احمد و نسائی نے ان کی حدیثوں  میں کوئی مضائقہ نہیں دیکھا۔ ان کی حدیثوں صحیح بخاری و مسلم اور دیگر صحاح میں موجود ہیں۔

محمد بن مسلم بن طائفی

یہ امام جعفر صادق(ع) کے سربرآودہ اصحاب میں سے تھے۔ شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسی نے اپنی کتاب رجال الشیعہ میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ حسن بن حسین بن داؤد نے ثقہ لوگوں کے سلسلہ میں ان کا ذکر کیا ہے۔

علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں بکثرت جلیل القدر محدثین اہلسنت کے اقوال ان کے ثقہ ہونے کے متعلق نقل کیے ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح مسلم میں موجود ہیں۔

محمد بن موسیٰ بن عبداﷲ الفطری المدنی

ابو حاتم نے ان کے شیعہ اور ترمذی نے ان کے ثقہ ہونے کی صراحت کی صراحت کی ہے( میزان الاعتدال علامہ ذہبی) ان کی حدیثیں صحیح مسلم و دیگر سنن

۱۴۴

 میں موجود ہیں۔

معاویہ بن عمار دہنی بجلی کوفی

یہ بزرگ علمائے  امامیہ کے نزدیک بھی بڑے معزز و محترم اور علمائے اہلسنت کے نزدیک بھی بڑے ثقہ، عظیم المرتبت اور جلیل القدر میں انے کے والد عمار حق پروری، حق کوشی کا بہترین نمونہ تھے۔ شیعیت کے جرم میں دشمنانِ آل محمد(ص) نے ان کے پیر قطع کردیے تھے۔ بیٹا وہی، قدم بہ قدم ہو جو باپ کے۔ معاویہ بھی اپنے باپ کی مکمل شیبہ تھے۔ امام جعفر صادق(ع)  و موسیٰ کاظم(ع) کی صحبت میں رہے اور آپ کے علوم کے حامل ہوئے۔ آپ کی حدیثیں صحیح مسلم میں موجود ہیں۔

معروف بن خربوذ کرخی

ذہبی نے میزان الاعتدال میں انھیں صدوق و شیعہ لکھا ہے۔ نیز یہ کہ بخاری و مسلم اور ابو داؤد نے ان کی حدیثٰیں اپنے صحاح میں درج کی  ہیں۔ ابن خلسکان نے وفسیات الاعیان میں امام علی رضا(ع) کے موالی میں انھیں ذکر کیا ہے صحیح مسلم میں ان کی حدثیں موجود ہیں۔ سنہ۲۰۰ھ میں بغداد میں انتقال فرمایا۔ ان کی قبر زیارت گاہ عوام خواص ہے۔ سری سقطی مشہور مشہور صونی ان کے تلامذہ میں سے تھے۔

منصور بن المعتمر بن عبداﷲ بن ربیعہ کوفی

امام محمد باقر(ع) و امام جعفر صادق(ع) کے اصحاب سے تھے۔ جیسا کہ صاحبِ

۱۴۵

منتہی المقال نے وضاحت کی ہے۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ یہ وہی منصور ہیں جن کے متعلق جوزجانی کا یہ فقرہ ہے کہ

“ کوفہ کچھ ایسے افراد تھے کہ لوگ ان کے عقائد کو ناپسند سمجھتے تھے مگر ان کی بیان کردہ حدیثوں کو ان کی غیر معمولی صداقت ودیانت کی وجہ سے آنکھوں پر رکھا جیسے ابو اسحاق، منصور ، زبیدیامی اور اعمش وغیرہ۔۔۔۔”

جملہ ارباب صحاح و سنن نے ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے صحیح بخاری و مسلم سب ہی میں ان کی حدیثوں موجود ہیں۔

مہنال بن عمرو تابعی

کوفہ کے مشہور شیعوں میں سے تھے۔ ان کی حدیثیں صحیح مسلم و بخاری میں موجود ہیں۔

موسیٰ بن قیس حضرمی

ان کی کنیت ابو محمد تھی۔ عقیلی نے انھیں غالی رافضیوں میں شمار کیا ہے ان سے سفیان نے حضرت علی(ع) اور ابوبکر کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا کہ علی(ع) مجھ کو بہت زیادہ محبوب ہیں۔

موسیٰ نے بسلسلہ اسناد جناب ام سلمہ زوجہ پیغمبر(ص) سے روایت کی ہے کہ جناب ام سلمہ(رض) فرمایا کرتیں کہ علی(ع) حق جپر ہے جو علی(ع) کی پیروی کرے گا وہی حق پر ہوگا۔ اور جس نے علی(ع) کو چھوڑا اس نے حق کو چھوڑا۔

موسیٰ نے فضائل اہبیت(ع) میں بہت سی صحیح حدیثیں روایت کی ہیں جو عقیلی

۱۴۶

 پر شاق گزریں اور انھیں غالی رافضیوں میں قرار دیا۔

ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ امام ابی داؤد اور دیگر اصحابِ سنن نے ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے۔ ان کی حدیثیں سنن میں موجود ہیں۔

ن :

 ابو داؤد نفیع بن حارث نخعی کوفی

عقیلی ان کے متعلق کہتے ہیں کہ رفض میں بہت غلو سے کام لیتے تھے بخاری فرماتے ہیں کہ لوگ ان کے متعلق لب کشائی کرتے ہیں۔ ( ان کی شیعیت کی وجہ سے) ان سب کے باوجود محدثین علماء نے ان سے استفادہ کیا اور ان کی حدیثوں سے کام لیا۔ ان کی حدیثیں جامع ترمذی میں موجود ہیں۔

نوح بن قیس بن رباح الحدانی

علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ صالح الحدیث ہیں۔

امام احمد و ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ شیعیت کی طرف مائل تھے۔

نسائی نے فرمایا کہ ان میں کوئی مضائقہ نہیں۔

مسلم و دیگر اصحاب سنن نے ان کی حدیثیں اپنے صحاح میں درج کی ہیں۔

۱۴۷

ھ :

 ہارون بن سعد عجلی کوفی

ذہبی ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ فی نفسہ صدوق ہیں لیکن سخت قسم کے رافضی ہیں۔ ابن معین ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ بڑے غالی شیعہ تھے۔ صحیح مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ابو علی ہاشم بن برید کوفی

ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے اس اقرار کے ساتھ کہ وہ رافضی تھے امام احمد نے ان کی حدیثوں میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا ۔ ان کی حدیثیں سنن ابی داؤد ، سنن نسائی میں موجود ہیں۔ یہ ہاشم مشہور شیعہ گھرانے کے فرد تھے جیسا کہ علی بن ہاشم، کے  حالات میں ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔

ہیبرہ بن بریم حمیری

امیرالمومنین(ع) کے صحابی ہیں۔ امام احمد ان کی حدیثوں میں کوئی مضائقہ نہیں تصور فرماتے۔ شہرستانی نے ملل ونحل میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے ان کا شیعہ ہونا مسلمات سے ہے۔ سنن اربعہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ابوالمقدام ہشام بن زیاد بصری

شہرستانی نے ملل و نحل میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ ان کی

۱۴۸

حدیثیں صحیح ترمذی وغیرہ میں موجود ہیں۔

ابوالولید ہشام بن عمار بن نصیر بن میسرہ

انھیں  ظفری دمشقی بھی کہتے ہیں۔ امام بخاری کے شیخ ہیں۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے۔ ذہبی نے انھیں امام ، خطیب ، محدث، عالم، صدوق، بہت زیادہ حدیثوں کا راوی لکھا ہے بخاری نے صحیح میں بہت سی حدیثیں ان سے بلاواسطہ روایت کی ہیں۔ سنہ۱۵۳ھ میں پیدا ہوئے۔ سنہ۲۴۵ھ میں انتقال کیا۔

ہیشم بن بشیر بن قاسم بن دینار سلمی واسطی

ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔امام احمد اور ان کے ہمعصر علما کے استاد ہیں۔ ذہبی نے انھیں حفاظ اور یکے از علمائے اعلام لکھا ہے۔ ان کی حدیثیں صحیح بخاری و مسلم اور باقی سبھی صحاح میں موجود ہیں۔

و :

  وکیع بن جراح بن ملیح بن عدی

ان کی کنیت ابوسفیان تھی۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں قرار دیا ہے۔

ابن مدینی نے بھی تہذیب میں ان کی شیعیت کی صراحت کی ہے مروان بن معاویہ ان کےشیعہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں کرتے۔ ان کی حدیثوں سے

۱۴۹

 جملہ ارباب صحاح ستہ نے احتجاج کیا ہے۔ صحیح مسلم وغیرہ سبھی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ی :

 یحیٰ بن جزار عرفی کوفی

یہ امیرالمومنین(ع) کے صحابی ہیں۔ علامہ ابن سعد نے طبقات جلد۶ صفحہ۲۰۶ میں انھیں شیعہ لکھا ہے۔ نیز یہ کہ یہ شیعیت میں غلو کیا کرتے تھے اور محدثین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے اور انھوں نے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں۔

ذہبی نے انھیں صدوق اور ثقہ لکھا ہے ۔ ان کی حدیثیں صحیح مسلم و دیگر سنن میں موجود ہیں۔

یحیٰ بن سعید قطان

ان کی کنیت ابوسعید تھی اپنے زمانہ کے محدث ہیں۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ جملہ ارباب صحاح ستہ نے ان کی حدیثوں سے احتجاج کیا ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور سبھی صحاح میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

یزید بن ابی زیاد کوفی

ابن فضیل ان کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ یہ کبار علماء شیعہ سے ہیں

۱۵۰

 ذہبی نے بھی لکھا ہے کہ یہ کوفہ کے مشہور علماء میں سے ہیں۔ مگر لوگوں نے ان سے تعصب برتا جس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے بسلسلہ اسناد ابوبرزہ یا ابو بردہ سے روایت کی ہے کہ :

“ ہم لوگ پیغمبر(ص)  کے ساتھ تھے کہ پیغمبر(ص) نے گانے کی آواز سنی پتہ چلا کہ معاویہ اور عمرو بن العاص گارہے ہیں۔ اس پر پیغمبر(ص) نے بد دعا فرمائی کہ خداوندا! دونوں کو فتنہ میں اچھی طرح مبتلا کر اور آتش جہنم کی طرف بلا۔”

صحیح مسلم و سنن اربعہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ نوے (۹۰) برس کی عمر میں سنہ۱۳۶ھ میں انتقال کیا۔

ابو عبداﷲ جدلی

ذہبی نے انھیں شدید سخت شیعہ لکھا ہے۔ جوزجانی نے ان کے متعلق بیان کیا ہے کہ یہ مختار کے علمدار لشکر تھے۔ امام احمد انھیں ثقہ قرار دیتے ہیں۔ شہرستانی نے بھی ملل و نحل میں شیعہ لکھا ہے۔

ابن قتیبہ نے معارف میں غالی ، رافضی ذکر کیا ہے۔ ان کی حدیثیں جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد اور دیگر سنن و مسانید میں موجود ہیں۔ علامہ ابن سعد نے طبقات جلد۶ صفحہ ۱۵۹ پر انھیں شدید التشیع شیعہ لکھا ہے نیز کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ مختار کے سپاہیوں کے افسر تھے۔ مختار نے انھیں عبداﷲ بن زبیر کی طرف آٹھ سوسپاہیوں کے ساتھ روانہ کیا تاکہ ابن زبیر سے جنگ کر کے محمد ابن حنفیہ کو ان کی قید سے نکال لیں۔ ابن زبیر نے محمد ابن حنفیہ اور بنی ہاشم کو محصور کر رکھا تھا اور لکڑیاں اکٹھی کی تھیں کہ

۱۵۱

 انھیں جلا ڈالیں کیونکہ ان لوگوں نے ابن زبیر کی بیعت سے انکار گیا تھا۔ ابو عبداﷲ جدلی نے پہیچ کر ان حضرت کو رہا کیا۔

یہ سنیکڑوں میں سے چند نام نے درج کیے ہیں۔ یہ لوگ علوم اسلام کے خزینہ دار ہیں۔ ان سے آثار نبوی(ص) محفوظ ہوئے اور ان پر صحاح وسنن ومسانید کامدار رہا ہے۔

ہم نے آپ کو خواہش کے مطابق ان کے متعلق علمائے اہلسنت کی توثیق اور ان سے احتجاج کو بھی ذکر کیا۔ اس سے آپ رائے میں ضرور تبدیلی ہوگی کہ اہل سنت رجال شیعہ سے احتجاج نہیں کرتے۔ اگر شیعوں کی حدیثیں صرف ان کے تشیع کے تشیع کے جرم میں رد کردی جائیں تو جیسا کہ ذہبی نے میزان میں ابان بن تغلب کے ذکر میں کہا ہے۔ کل آثارِ نبوی ضائع و برباد ہوجائیں۔

ان کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے شیعہ ہیں جن سے اہل سنت نے احتجاج کیا ہے اور وہ ان سے بھی سند کے اعتبار سے اور کثرتِ حدیث سے زیادہ کشادہ دامن اور علم کے اعتبار سے  زیادہ وسیع النظر تھے اور زمانے کے لحاظ سے ان سے بھی مقدم تھے اور ان سے بھی زیادہ ان کے قدم تشیع میں راسخ تھے اصحاب رسول(ص) میں بڑی تعداد رجال شیعہ کی ہے جنھیں ہم نے فصول مہمہ کے آخر میں بیان کیا ہے تابعین میں ایسے حافظ و صدوق و ثقہ شیعہ ہیں جو محبت اہلبیت(ع) کی قربانی پر بھینٹ چڑھتے رہے۔ جنھیں جلا وطن کیا گیا۔ سزائیں دی گئیں۔ قتل کیا گیا۔ سولیاں دی گئیں۔ اور جو علوم و فنون کے موسس و موجد ہوئے۔ یہ صدوق و دیانت ورع و تقوی زہد و عبادت و اخلاص کے روشن سنارے تھے۔ اور ان سے دین الہی کو لامتناہی فائدے پہنچے۔ اور ان کی خدمات کی برکتوں سے اسلام کا بحر بے کنار آج بھی موجزن ہے۔

                                                             ش

۱۵۲

مکتوب نمبر۹

تسلیم !

میں نے آپ ایسا تازہ دم سریع الخاطر و زود فکر نہیں دیکھا اور نہ میرے کانوں نے آپ سے زیادہ صاحب بصیرتِ شخص کا ذکر سنا۔ آپ کی نرم گفتاری، شیریں بیانی قابل داد ہے۔ آپ کےکل مکاتیب میں آپ کو شیوا بیانی دامن دل کو کھینچتی ہے۔ آپ دل و دماغ ، ہوش و حواس پر چھا جاتے ہیں۔ آپ کی مدلل و سنجیدہ تحریر نے گردنیں جھکادیں اور ضلالت کو حق کے سامنے سرنگوں کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ سنی کے لیے کوئی مانع نہیں ہے کہ اپنے شیعہ بھائی سے احتجاج کرے جبکہ شیعہ معتبر ہو۔ لاریب اس موضوع میں آپ کی رائے حق و صداقت پر مبنی ہے منکر کی رائے عناد و تنگ ولی ہے۔

۱۵۳

ہم کل آیات الہی پر ایمان لائے اور ان اکثر آیات الہی پر بھی ایمان لائے جن میں سے اکثر کو آپ نے ذکر کیا ہے جو امیرالمومنین(ع) اور ائمہ اہل بیت(ع) کے فضل و شرف پر دلالت کرتی ہیں۔ اﷲ ہی جانے کہ اہل قبلہ نے ائمہ اہل بیت(ع) سے کیوں بے اعتنائی کی؟ اور اصول وفروع میں ان کے مسلک سے دورہے اور اختلافی مسائل میں ان کے پیرو نہ ہوئے ۔ علمائے امت نے اہل بیت(ع) کا افکار و خیالات سے بحث نہ کی بلکہ بجائے ان کی تقلید کے ان سے معارضہ کرتے رہے اور ان کی مخالفت کی پروانہ کی اور سلف سے لے کر خلف تک عوام امت، غیر اہلبیت(ع) کے آستانوں پر نظر آئے۔ لہذا کلام مجید کی آیتیں اور صحیح اور مسلم الثبوت حدیثیں اگر ائمہ اہلبیت(ع) اطاعت و پیروی کے واجب و فرض ہونے کے متعلق نص صریح ہوتیں تو جمہور اہل سنت کو پیروی اہلبیت(ع) کے سوا چارہ کارہی نہ ہوتا۔ اور ائمہ اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر وہ کسی کو اپنا مقتدا پیشوا بنانا پسندی ہی نہیں کرتے لیکن وہ آیات الہی اور احادیث پیغمبر(ع) کو سمجھتے نہٰیں۔ وہ ان آیات اور ان احادیث کو جن میں اہل بیت(ع) کے شرف وکمال کو بیان کیا گیا ہے، صرف مدح و ثنا سمجھے اور یہ کہ ان سے محبت رکھنا اور ان کی عزت و تعظیم کرنا واجب ہے ان کے نزدیک ان آیات و احادیث کا ماحصل یہ ہے کہ اہل بیت(ع) سے مودت و محبت و اخلاص واجب ہے اور ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اگر آیات قرآن مجید و احادیثِ پیغمبر(ص) میں تصریح ہوتی کہ بس ائمہ اہلبیت(ع) ہی کی پیروی فرض ہے تو اہلِ قبلہ علمائے اہلبیت سے انحراف نہ کرتے۔ اور نہ بجائے ان کے کسی دوسرے کی طرف رجوع کرتے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اگلے بزرگ زیادہ صحیح سمجھنے والے تھے اور کتاب الہی واحادیث پیغمبر(ص) کا مطلب آج کل کے لوگوں سے بہتر سمجھتے تھے۔

                                                             س

۱۵۴

جواب مکتوب

اس ناچیز سے آپ کے حسنِ ظن کا شکریہ۔ آپ کے لطف وعنایات کے سامنے میرا دل جھکا جاتا ہے اور آپ کی مہربانی و حق جوئی کی بیبت مجھ پر مسلط ہے لیکن میں آپ سے یہ گزارش کرنے کی اجازت  چاہتا ہوں کہ آپ اپنے مکتوب پر نظر ثانی کریں جس میں آپ لکھا ہے کہ اہل قبلہ نے اہل بیت(ع) سے عدول کیا۔ یہ لفظ زیادہ وسیع استعمال ہوگیا۔ اہل قبلہ تو شیعہ بھی ہیں انھوں نے ابتدا سے آج تک اصول و فروع کسی چیز میں اہل بیت کے مسلک سے انحراف نہیں کیا۔ شیعہ تو مسلک اہل بیت(ع) پر عمل واجب سمجھتے ہیں۔ اہل بیت(ع) سے عدول رؤسا ملت نے کیا جب کہ نص کے ہوتے ہوئے صاف صاف تصریح خلافت و امامت کے متعلق ہوتے ہوئے امیرالمومنین(ع) کو حق خلافت سے محروم کیا گیا اور اصول و فروع میں اہل بیت(ع) کو چھوڑ کر دوسرے مرکز بنائے گئے اور کتاب وسنت کی مصالح کے لحاظ  سے تاولیں کی گئیں۔ امامت ائمہ سے عدول کرنا ہی سبب ہوا کر فروع میں بھی ان سے علیحدگی اختیار کی جائے۔

قطع نظر کیجیے ان ںصوص و ادلہ سے جن سے اہل بیت(ع) سے تمسک کرنا وا جب ثابت ہوتا ہے صرف اہلبیت(ع) کے علم و عمل اور تقوی کو دیکھیے۔ امام اشعری اور ائمہ اربعہ کے مقابلہ میں ان کی کیا کمی پائی گئی کہ اطاعت و اتباع کے معاملہ میں اہل بیت(ع) پیچھے کردیے گئے۔ اور یہ افراد قابل ترجیح سمجھے گئے۔ کون سامحکمہ اںصاف ہے جو یہ فیصلہ کرے کہ اہل بیت(ع) سے تمسک کرنے والے ان کی ہدایات پر چلنے والے گمراہ ہیں۔ اہل سنت کے لیے ایسا فیصلہ ناممکن معلوم ہوتا ہے۔

                                                                     ش

۱۵۵

مکتوب نمبر۱۰

واقعہ یہ ہے کہ پیروانِ اہلبیت(ع) کو از روئے عدل و اںصاف گمراہی کہا ہی نہیں جاسکتا اور نہ ائمہ اہلبیت(ع) دیگر ائمہ سے لائق پیروی و اقتدا ہونے میں کسی طرح کم تھے۔ جس طرح اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید کر کے انسان بری الذمہ ہوسکتا ہے اسی طرح ائمہ اہلبیت(ع) کی پیروی کرکے بھی۔

بلکہ یہاں تک کہا جاسکتا ہے کہ ائمہ اہلبیت(ع) بہ نسبت ائمہ اربعہ وغیرہ کے اتباع و پیروی کے زیادہ سزاوار ہیں۔ اس لیے ائمہ اثنا عشر کا مسلک و مذہب اصول و فروع سب میں ایک ہے ان میں باہم کوئی اختلاف نہیں۔ سب کی نگاہ ایک ہی مرکز پر کرکوز ہوئی اور اسی پر سب کے سب متفق رہے۔ برخلاف ائمہ اربعہ وغیرہ کے کہ ان کا باہمی اختلاف دنیا جانتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ بارہ شخص غور و فکر کر کے ایک نتیجہ پر پہنچیں ایک رائے قائم کریں اور اکیلا شخص دوسری

۱۵۶

رائے قائم کرے تو بارہ(۱۲) کے متفقہ فتوی کے مقابلہ میں سے اس ایک اور اکیلے کا فتوی کوئی وزن نہ رکھے گا۔

اس میں کسی منصف مزاج کو عذر ہونا چاہیے۔

ہاں ایک بات ہے ناصبی خیال کے آگ آپ لوگوں کے مذہب کو مذہب اہلبیت( ع) ماننے میں تامل کرتے ہیں۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ آگے چل کر اس پر روشی ڈالیں کہ مذہب تشیع مذہب اہلبیت(ع) ہی ہے انھیں حضرات سے ماخوذ ہے ۔ فی الحال میری گزارش ہے کہ آپ لوگ حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت پر جن نصوص کے مدعی ہیں وہ نصوص صاف صاف ذکر فرمائیں۔

                                                                     س

۱۵۷

باب دوم

امامت عامہ یعنی خلافتِ پیغمبر(ص) 

جوابِ مکتوب

اگر سرورِ کائنات (ص) کے حالاتِ زندگی کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے۔ دولتِ اسلامیہ کی بنیاد قائم کرنے۔ احکام مقرر کرنے ، اصول و قواعد بنانے۔ دستور مرتب کرنے، سلطنت کے انتظام اںصرام غرض جملہ حالات میں ہر پہلو سے آپ کی سیرت کا جائزہ لیا جائے تو حضرت امیرالمومنین(ع) رسالت ماب(ص) کے ہر معاملہ میں بوجھ بٹانے والے ، دشمنون کے مقابلہ میں پشت پناہ آپ کے علوم  کا گنجینہ ، آپ کے علم و حکمت کے وارث ، آپ کی زندگی میں آپ کے ولی عہد اور آپ کے بعد آپ کے جانشین، اور آپ کے تمام امور کے ممالک و مختار نظر آئیں گے۔

اول یوم بعثت سے پیغمبر(ص) کی رحلت کے وقت تک سفر میں، حضر میں

۱۵۸

اٹھتے بیٹھے ، آپ کے افعال ، آپ کے اقوال کی چھان بین کی جائے۔ تو حضرت علی(ع) کی خلافت کے متعلق بکثرت صاف و تصریح حد تواتر تک پہنچے ہوئے واضح نصوص ملیں گے۔ آںحضرت(ص) نے ہر محل پر اپنی رفتار و گفتار ، کردار اور ہر ممکن ذریعہ سے اپنی جانشینی کے مسئلہ کی وضاحت کردی تاکہ کسی کے لیے تامل کی گنجائش نہ رہ جائے ۔

دعوت عشیرہ کے موقع پر پیغمبر(ص) کا خلافت امیرالمومنین(ع) پر ںص فرمایا

پہلا واقعہ دعوت ذوالعشیرہ ہی کا لے لیجیے جو اسلام کے ظاہر ہونے کے قبل مکہ میں پیش آیا جب آیہ

“      وَ أَنْذِرْ عَشيرَتَكَ الْأَقْرَبينَ ” ( شعراء، ۲۱۴)

نازل ہوا اور رسول(ص) مامور ہوئے کہ خاص خاص رشتہ داروں کو بلا کر دعوتِ اسلام دیں۔ تو حضرت سرورکائنات نے تمام بنی ہاشم کو جو کم بیش چالیس نفر تھے جس میں آپ کے چچا ابو طالب ، حمزہ ، عباس اور ابولہب بھی تھے اپنے چچا ابو طالب کے گھر میں دعوت دی۔ دعوت کے بعد آپ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ تمام کتبِ احادیث  و سیر و تواریخ میں موجود ہے۔ اسی خطبہ میں آپ نے فرمایا :

 “ فَقَالَ: يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّي وَ اللَّهِ مَا أَعْلَمُ شَابّاً فِي الْعَرَبِ جَاءَ قَوْمَهُ بِأَفْضَلَ مِمَّا جِئْتُكُمْ بِهِ، إِنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِخَيْرِ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ، وَ قَدْ أَمَرَنِي اللَّهُ (عَزَّ وَ جَلَّ) أَنْ أَدْعُوَكُمْ إِلَيْهِ، فَأَيُّكُمْ يُؤْمِنُ بِي وَ يُؤَازِرُنِي عَلَى أَمْرِي، فَيَكُونَ أَخِي وَ وَصِيِّي وَ وَزِيرِي وَ خَلِيفَتِي فِي أَهْلِي مِنْ بَعْدِي قَالَ: فَأَمْسَكَ الْقَوْمُ، وَ أَحْجَمُوا عَنْهَا جَمِيعاً.

۱۵۹

 قَالَ: فَقُمْتُ وَ إِنِّي لَأَحْدَثُهُمْ سِنّاً، وَ أَرْمَصُهُمْ عَيْناً، وَ أَعَْمُهُمْ بَطْناً، وَ أَحْمَشُهُمْ سَاقَا. فَقُلْتُ: أَنَا يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَكُونُ وَزِيرَكَ عَلَى مَا بَعَثَكَ اللَّهُ بِهِ. قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِي ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هَذَا أَخِي وَ وَصِيِّي وَ وَزِيرِي وَ خَلِيفَتِي فِيكُمْ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَ أَطِيعُوا.قَالَ: فَقَامَ الْقَوْمُ يَضْحَكُونَ، وَ يَقُولُونَ لِأَبِي طَالِبٍ: قَدْ أَمَرَكَ أَنْ تَسْمَعَ لِابْنِكَ وَ تُطِيعَ.”

“ فرزندانِ عبدالمطلب ! جتنی بہتر شے( یعنی اسلام ) میں تمھارے پاس لے کر آیا ہوں میں تو نہیں جانتا کہ عرب کا کوئی نوجوان اس سے بہتر چیز اپنی قوم کے پاس لایا ہو۔ میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی لے کر آیا ہوں اور خداوند عالم نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف دعوت دوں۔ اب بتاؤ تم میں کون ایسا ہے جو اس کام میں میرا بوجھ بٹائے تاکہ تمھارے درمیان میرا بھائی وصی اور خلیفہ ہو؟ تو علی(ع) کے سوا سب خاموش رہے۔ حضرت علی(ع) جو اس وقت بہت ہی کم سن ننھے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا : یا رسول اﷲ(ص) ! میں آپ کا بوجھ بٹاؤں گا۔ رسول اﷲ(ص) نے آپ کی گردن پر ہاتھ رکھا اور پورے مجمع کو دکھا کر ارشاد فرمایا: کہ یہ میرا بھائی بنے میرا وصی ہے اور تم میں میرا جانشین ہے۔ اس کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔ یہ سن کر لوگ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوطالب سے کہنے لگے کہ یہ محمد(ص) آپ کو حکم دے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

۲ _ خدائے يكتا كى پرستش ايسا راستہ ہے جو خدا كى طرف جاتا ہے اور لقاء الله پر جاكر ختم ہوتا ہے_و يصدون عن سبيل الله ''سبيل الله '' يعنى راہ خدا_ اور راہ خدا سے مراد ہوسكتا ہے وہ راہ ہو كہ جسے خداتعالى نے اہل ايمان كيلئے تعيين اور ترسيم كيا ہے اور ہوسكتا ہے اس سے مراد وہ راستہ ہو جو خدا كى طرف جاتا ہے اور اس تك پہنچتا ہے_

مذكورہ مطلب دوسرے معنى كى بنياد پر ہے_

۳ _ صدر اسلام كے مشركين كى طرف سے مسلمانوں كو مسجد الحرام كى زيارت اور عبادت خدا كى رسومات انجام دينے سے ممانعت_إن الذين كفروا و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام (''يصدون'' كے مصدر) ''صدّ'' كا معنى ہے روكنا اور منع كرنا اور ''يصدون'' كا مفعول محذوف ہے اور يہ در اصل يوں ہے ''يصدون الذين آمنوا )

۴ _ بارگاہ خداوندى ميں كعبہ بڑى عزت اور تقدس كا حامل ہے_و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام

لوگوں كو مسجد الحرام كى زيارت سے منع كرنے كى وجہ سے كفار كو دوزخ كے عذاب كے دھمكى مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

۵ _ حجاج كو مسجد الحرام ميں داخل ہونے سے منع كرنا لوگوں كو راہ خدا سے روكنے كا واضح نمونہ ہے_و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام ''سبيل الله '' سے مراد_ جيسا كہ پہلے بتاچكے ہيں _ خدائے يكتا كى عبادت ہے_ اس چيز كى بناپر اور اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ مؤمنين كى طرف سے مسجدالحرام كى زيارت اور اسكے خاص اعمال (طواف، سعى و غيرہ) كو انجام دينا عبادت خدا كے مصداق شمار ہوتے ہيں اسے ''سبيل الله '' كے بعد ذكر كرنا ہوسكتا ہے اس معنى ميں ہوكہ زائرين كو مسجدالحرام ميں داخل ہونے سے روكنا راہ خدا سے روكنے كے واضح مصاديق ميں سے ہے_

۶ _ مسجدالحرام سب خداپرستوں كيلئے ہے اور كسى خاص گروہ كو يہ حق نہيں ہے كہ وہ لوگوں كو اسكى زيارت سے محروم كرے_الذى جعلنا للناس

۷ _ سب مسلمان (اہل مكہ اور ديگر اطراف اور ممالك كے) مسجدالحرام كے سلسلے ميں مساوى حق ركھتے ہيں _الذى جعلنه للناس سواء العاكف فيه و الباد ''سوائ'' بمعنى ''مستوي'' اور ''الناس'' كيلئے حال ہے اور ''عاكف'' كا معنى ہے مقيم (يعنى اہل مكہ) ''بادي'' يعنى اہل باديہ اور اس سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جو مكہ سے باہر ديگر سرزمينوں ميں رہتے ہيں يعنى ہم نے مسجدالحرام كو سب لوگوں كيلئے خلق

۵۰۱

كيا ہے _ اور اس سے بہرہ مند ہونے ميں مكى اور ديگر سرزمين كے لوگوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے ا ور كسى كو دوسرے پر برترى حاصل نہيں ہے_

۸ _ حجاج كو مكہ ميں داخل ہونے سے منع كرنا ان كے اس حق كى نسبت تجاوز ہے كہ جو خدانے ان كيلئے قرار ديا ہے_

و يصدون الذى جعلنه للناس

۹ _ اہل مكہ دوسروں كو مسجدالحرام كى زيارت سے روكنے كا حق نہيں ركھتے_الذى جعلنه للناس سواء العاكف فيه و الباد

۱۰ _ حج اور مسجدالحرام كى زيارت جزيرة العرب كے لوگوں كے درميان رائج رسومات_سواء العاكف فيه والباد

۱۱ _ ''مسجدالحرام'' جزيرة العرب كے لوگوں كے درميان ايك رائج اور جانا پہچانانام_و المسجد الحرام الذى جعلنه للناس

۱۲ _ مسجدالحرام كے احاطے ميں حق سے ہر قسم كے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز كا ممنوع ہونا_

و من يرد فيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم ''الحاد'' كا معنى ہے انحراف اور كج روى ''الحاد'' اور ''ظلم'' كے نكرہ ہونے سے معلوم ہوتا ہے كہ مسجدالحرام اور اسكى حدود ميں لوگوں كا مكمل طور پر امن اور سكون ميں ہونا ضرورى ہے اور اس سلسلے ميں ذرہ برابر انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز سے چشم پوشى نہيں كى جائيگي_

۱۳ _ ضرورى ہے كہ مكہ (مسجدالحرام اور اس كى حدود) سب لوگوں كيلئے امن كى جگہ ہو_سوا العاكف فيه والباد

۱۴ _ مسجدالحرام كى حدود ميں حق سے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز بہت بڑا گناہ ہے اور كج روى كرنے والے ا ور ستم گر لوگ سخت دنيوى سزا كے منتظر رہيں _و من يردفيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''عذاب اليم'' سے مراد دنيوى سزا بھى ہو_

۱۵ _ دوزخ كا دردناك عذاب، مسجد الحرام كى حدود ميں حق سے ہر قسم كے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز كى سزا_

و من يرد فيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم

۱۶ _ حضرت علي(ع) سے روايت ہے كہ رسول خدا(ص) نے اہل مكہ كو اپنے گھر كو كرائے پر دينے اور انہيں دروازے

۵۰۲

لگانے سے منع كرتے ہوئے فرمايا''سوآء العاكف فيه و الباد'' (۱)

۱۷ _ ابوالصباح كنانى كہتے ہيں ميں نے خداتعالى كے فرمان ''و من يرد فيہ إےلحاد بظلم نذقہ من عذاب أليم'' كے بارے ميں سوال كيا تو آپ(ع) نے فرمايا ہر ظلم جوكوئي شخص مكہ ميں اپنے اوپر كرے چاہے وہ چورى ہو يا كسى دوسرے پر ظلم يا ہر قسم كا ستم ميں اسے الحاد اور انحراف سمجھتا ہوں(۲)

۱۸ _ امام صادق(ع) سے خداتعالى كے فرمان''و من يرد فيه إيلحاد بظلم'' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا جو شخص مكہ ميں غيرخدا كى پرستش كرے يا اولياء خدا كے غير كى ولايت كو قبول كرے تو اس نے''إلحاد بظلم'' كيا ہے(۳)

اسلام:صد راسلام كى تاريخ ۳، ۱۶الحاد :۱۸انحراف:اسكى سزا ،۱۵; اس كا گناہ ۱۴

آنحضرت (ص) :آپ(ص) كے نواہى ۱۶

توحيد:توحيد عبادى كا انجام ۲عرب:انكى رسومات ۱۰

جزيرة العرب:اسكے لوگ اور حج ۱۰; اسكے لوگ اور مسجد الحرام ۱۱

جہنم:اسكے اسباب ۱، ۱۵حجاج:ان كے حقوق كى نسبت تجاوز ۸

حج:اسكى تاريخ ۱۰خود:خود پر ظلم ۱۷

روايت ۱۶، ۱۷، ۱۸

سبيل الله :اس سے روكنا ۵

چلنا:

____________________

۱ ) قرب الا سناد ۱۰۸ ح ۳۷۲_ تفسير برہان ج ۳ ص ۸۴ ح ۸_

۲ ) كافى ج ۴ ص ۲۲۷ ح ۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۳ ح ۶۰_

۳ ) كافى ج ۸ ص ۳۳۷ ح ۵۳۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۳ ح ۵۷_

۵۰۳

اسكے راستے ۲

ظلم كرنے والے:انكى دنيوى سزا ، ۱۴

عبادت:عبادت خدا كے ترك كے اثرات ۱; غيرخدا كى عبادت ۱۸; عبادت خدا كے ترك كرنے كا گناہ ۱

عذاب:دردناك عذاب ۱۵; اسكے درجے ۱، ۱۵; اخروى عذاب كے اسباب ۱، ۱۵

كعبہ:اسكى فضيلت ۴; اس كا تقدس ۴

كفر:خدا كے ساتھ كفر كے اثرات ۱; خدا كے ساتھ كفر كا گناہ ۱

گناہ:گناہان كبيرہ ۱۴; ناقابل بخشش گناہ۱

لقاء الله :اس كا پيش خيمہ ۲

لوگ:ان كے حقوق كى نسبت تجاوز ۱۲; ان كے حقوق كى نسبت تجاوز كى سزا ۱۵; ان كے حقوق كى نسبت تجاوز كا گناہ ۱۴

مسجد الحرام:اس كا امن ہونا ۱۳; اسكى زيارت كى تاريخ ۱۰; اسكى تاريخ ۱۱; اس ميں حقوق ۱۴; اسكى زيارت ۷، ۱۱; اس كا سب كيلئے ہونا ۶; اس ميں عبادت خدا سے روكنا ۳; اس سے روكنا ۳، ۵; اس ميں حق تلفى كا ممنوع ہونا ۱۲; اس سے روكنے كا ممنوع ہونا ۶، ۹; اسكى خصوصيات ۱۲، ۱۳

مسلمان:ان كے حقوق كا مساوى ہونا ۷; ان كے حقوق ۷

مكہ كے مسلمان:ان كے حقوق ۷

مكہ:اس كا امن ہونا ۱۳; اسكے گھروں كے دروازے ۱۶; اس ميں ظلم كا گناہ ۱۷; اس سے حاجيوں كو روكنا ۸; اسكے گھروں كو كرائے پر دينے سے نہى ۱۶; اسكى خصوصيات ۱۳

منحرفين:ان كى دنيوى سزا ،۱۴

موحدين:ان كے حقوق ۶

ولايت:اولياء الله كے غير كى ولايت كو قبول كرنا ۱۸

۵۰۴

آیت ۲۶

( وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئاً وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ )

اور اس وقت كو ياد دلاؤ جب ہم نے ابرہمى كے لئے بيت اللہ كى جگہ مہيا كى كہ خبردار ہمارے بارے ميں كسى طرح كا شرك نہ ہونے پائے اور تم ہمارے گھر كو طرف كرنے والے، قيام كرنے والے اور ركوع و سجود كرنے والوں كے لئے پاك و پاكيزہ بناؤ(۲۶)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كے ہاتھوں كعبہ كى بنياد بہت اہم اور ايسا واقعہ ہے جو ياددہانى كرانے كے قابل ہے_

و اذ بوّانا لابراهيم مكان البيت ''اذ'' اسم زمان اور محل نصب ميں ہے اور يہ ''اذكر'' محذوف كا مفعول ہے يعنى ''يادكيجيئے اس وقت كو كہ جب ہم نے ...''

۲ _ كعبہ، حضرت ابراہيم (ع) كى عبادت كى جگہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

(''بوانا'' كے مصدر) ''تبوئة) كا معنى ہے مرجع اور مركز قرار دينا يعني'' اس زمانے كو ياد كيجيئے جب ہم نے كعبہ كى جگہ كو ابراہيم(ع) كيلئے رجوع كرنے كا مقام قرار ديا'' اور حضرت ابراہيم(ع) كا بار بار كعبہ كى جگہ كى طرف رجوع كرنا يا تو خدا كى عبادت كيلئے تھا اور يا اسے تعمير كرنے كيلئے مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بنياد پر ہے_

۳ _ كعبہ كى جگہ خداتعالى كى جانب سے عبادت كيلئے معين كردہ جگہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) كعبہ كى بنياد ركھنے والے اور اسكے

۵۰۵

معمار_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

۵ _ كعبہ، توحيد اور يكتاپرستى كى جلوہ گاہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت أن لا تشرك بى شيئ

۶ _ خدا كے علاوہ كوئي قابل پرستش نہيں ہے_أن لا تشرك بى شيئ

۷ _ عبادت ميں اخلاص اور اسے ہر قسم كے غير الہى عمل سے آلودہ كرنے سے پرہيز كرنا خداتعالى كى طرف سے حضرت ابراہيم كو نصيحت _أن لا تشرك بى شيئ

۸ _ شرك كے ساتھ آلودہ عبادت كى بارگاہ خداوندى ميں كوئي قدر و قيمت نہيں ہے_أن لا تشرك بى شيئ

۹ _ كعبہ بہت مقدس گھر اور بارگاہ خداوندى ميں بڑى عزت كا حامل ہے_و طهر بيتي

''بيت'' كى باء متكلم كى طرف اضافت، تشريفيہ اور مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

۱۰ _ كعبہ كى توليت اور اسے زائرين كيلئے تيار كرنا، حضرت ابراہيم (ع) كے الہى وظائف ميں سے_و طهر بيتى للطائفين

۱۱ _ مسجد الحرام كى توليت اور اسے زائرين بيت الله كيلئے تيار كرنا توحيدى معاشرے كے رہنماؤں كى ذمہ دارى _

أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتى للطائفين

۱۲ _ شرك، طہارت و پاكيزگى سے دورى اور پليديگى و ناپاكى كے ساتھ آلودہ ہونا ہے_أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتي

۱۳ _ مسجد الحرام كى حرمت كى پاسدارى اور اسے ظاہرى آلودگيوں اور باطنى پليدگيوں (شرك كے مظاہر) سے محفوظ ركھنا ضرورى ہے_أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتي

۱۴ _ طواف، قيام، ركوع اور سجود (نماز) مسجد الحرام كى زيارت كے آداب ميں سے_و طهر بيتى للطائفين و القائمين و الركع السجود ظاہر يہ ہے كہ ''القائمين و الركع السجود'' سے مراد نماز پڑھنے والے ہيں يعنى ميرے گھر كو طواف كرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں كيلئے تيار كيجئے_

۱۵ _ مسجد الحرام كى زيارت ميں طواف كو نماز پر مقدم كرنا ضرورى ہے_للطائفين و القائمين و الركع السجود

۱۶ _ قيام، ركوع اور سجود نماز كے اركان ميں سے ہيں _و القائمين و الركع السجود

۱۷ _ طواف اور نماز، حضرت ابراہيم(ع) كى شريعت كى ذمہ داريوں ميں سے _طهر بيتى للطائفين و القائمين و الركع

۵۰۶

السجود

۱۸ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے جب خداتعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كو كعبہ كى تعمير پر مأمور كياتوانہيں معلوم نہيں تھا كہ وہ كعبہ كو كہاں بنائيں تو خداتعالى نے جبرائيل كو بھيجا اور انہوں نے كعبہ كى جگہ پر ان كيلئے لكير كھينچ دي(۱)

ابراہيم (ع) :ان كے دين كى تعليمات ۱۷; انكو نصيحت ۷; انكى عبادت گاہ ۲; انكى ذمہ دارى ۱۰; ان كا نقش و كردار ۱، ۴

توحيد:توحيد عبادى ۶

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۷; اس كا نقش و كردار ۳

ذكر:كعبے كى تعمير كا ذكر، ۱

روايت ۱۸دينى راہنما:انكى ذمہ دارى ۱۱

شرك:شرك عبادى كا بے قدر و قيمت ہونا ۸; اسكى پليدگى ۱۲; اسكى حقيقت ۱۲

طواف:اسكى تاريخ ۱۷; يہ دين ابراہيم(ع) ميں ۱۷

عبادت:اس ميں اخلاص ۷; بے قدر و قيمت عبادت ۸

كعبہ:اس كا احترام ۹; اسے تعمير كرنے والے ۱; اس كا موسس ۴; اسكى تاريخ ۱، ۴; اسكى تطہير ۱۰; اس ميں عبادت ۲، ۳; اسكى فضيلت ۵، ۹; اس كا تقدس ۹; اس كے متولى ۱۰; اسكى تعيين كا سرچشمہ ۳، ۱۸; اس ميں توحيد عبادى كى نشانياں ۵

مسجد الحرام:اسكى زيارت كے آداب ۱۴; اسكى تطہير كى اہميت ۱۳; اسكى حفاظت كى اہميت ۱۳; اس ميں ركوع ۱۴; اس ميں سجدہ ۱۴; اس ميں طواف ۱۴، ۱۵; اسكے متولى ۱۱; اس ميں نماز ۱۴، ۱۵

نظريہ كائنات :توحيدى نظريہ كائنات ۶

نماز:اسكے اركان ۱۶; اسكى تاريخ ۱۷; اس ميں ركوع ۱۶; اس ميں سجدہ ۱۶; اس ميں قيام ۱۶; يہ دين ابراہيم(ع) ميں ۱۷

____________________

۱ ) تفسير قمى ج ۱ ص۶۲_ نورالثقلين ج ۱ ص ۱۲۸ ح ۳۷۶_

۵۰۷

آیت ۲۷

( وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالاً وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ )

اور لوگوں كے درميان حج كا اعلان كردو كہ لوگ تمہارى طرف پيدل اور لاغر سواريوں پر دور دراز علاقوں سے سوار ہو كر آئيں گے (۲۷)

۱ _ حكم خدا سے حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے لوگوں كو حج كى دعوت_و أذن فى الناس بالحج

(''أذّن'' كے مصدر) ''تأذين'' كا معنى ہے اعلان كرنا اور ندا دينا يعنى اے ابراہيم(ع) لوگوں كے درميان جاؤ اور انہيں حج اور زيارت بيت الله كى دعوت دو_

۲ _ حج، دور و نزديك كے تمام لوگوں پر ايك الہى ذمہ داري_يأتوك رجالًا و على كل ضامر يأتين من كل فج عميق

''يأتوك'' شرط محذوف كى جزا ہے اور يہ در حقيقت يوں ہے''إن تأذن فيهم به يأتوك'' ،''رجال''، ''راجل'' كى جمع ہے يعنى ''پيدل'' اور ''ضامر'' كمزور اونٹ كو كہاجاتا ہے _

اور ''فج'' در حقيقت پہاڑ كے شكاف كے معنى ميں ہے اور يہاں پر اس سے مراد راستہ ہے ''عميق'' بعيد كا مترادف ہے يعنى دورپس مذكورہ جملے كا معنى يہ بنے گا اگر لوگوں كو حج كى طرف بلاؤ تو وہ تيرى دعوت پر لبيك كہتے ہوئے پيدل، سوار ہوكر اور دور و نزديك كے راستوں سے چل نكليں گے_

۳ _ تبليغ اور لوگوں كو حج و زيارت بيت الله كى دعوت دينا الہى رہنماؤں كى ذمہ داريوں ميں سے ہے_و أذّن فى الناس بالحج

۴ _ حج، حضرت ابراہيم(ع) (ع) كى شريعت كى ايك يادگار_و أذن فى الناس بالحج

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كى اقامت گاہ ،مسجد الحرام كے جوار

۵۰۸

ميں تھي_يأتوك رجال

جملہ ''يأتوك'' (تيرے پاس پيدل اور سوار ہوكر آئيں گے) سے معلوم ہوتا ہے كہ كعبہ كے مؤسس اسكے جوار ميں رہتے تھے اس طرح، كہ ہر زائر مسجدالحرام ميں داخل ہوتے وقت ان پر بھى وارد ہوتا تھا_

۶ _ دور و نزديك كے لوگوں كا حضرت ابراہيم(ع) پر پختہ ايمان اورحضرت ابراہيم(ع) كى ان كے درميان انتہائي محبوبيت اور نفوذ_و اذن فى الناس بالحج يأتوك رجالا و على كل ضامر

دور و نزديك كے لوگوں كا حضرت ابراہيم (ع) كى دعوت پر لبيك كہنا اور انكا پيدل اور سوار ہوكر كعبے كى زيارت كيلئے نكل پڑنا اور كى آپ(ع) كى شخصيت سے آشنائي اور ان كے درميان آپ(ع) كى محبوبيت كى علامت ہے_

۷ _ حضرت ابراہيم (ع) كے دين توحيدى كا خود ان كى زندگى ميں دور و نزديك كى سرزمين ميں پھيل جانا_يأتوك من كل فج عميق

۸ _ حضرت ابراہيم (ع) كا اپنے زمانے ميں ہر سال حج كى رسومات ميں شريك ہونا_يأتوك رجالًا و على كل ضامر

فعل مضارع ''يأتوك'' ہوسكتا ہے مفيد استمرار ہو لہذا ہر سال لوگوں كا حج كى رسومات ميں حضرت ابراہيم(ع) كے پاس آنا ان كے ہر سال حج كى رسومات ميں شركت كو بيان كررہا ہے_

۹ _ مراسم حج كو اسلامى معاشرے كے رہبر كى محوريت كے ساتھ انجام دينا ضرورى ہے_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ ''لوگ پيدل اور سوار ہوكر تيرے (ابراہيم(ع) ) پاس آئيں گے'' ہوسكتا ہے لوگوں كيلئے اس حكم پر مشتمل ہو كہ وہ پہلے الہى رہبر كى زيارت كيلئے جائيں اور اسكى رہبرى ميں مراسم حج كو انجام ديں _

۱۰ _ مناسك حج ميں اسلامى معاشرے كے رہبر سے ملاقات_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

۱۱ _ بارگاہ خداوندى ميں پيدل حج كى بڑى فضيلت اور قدر و قيمت_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

پيدل لوگوں (رجالًا) كو سواروں (و على كل ضامر) پر مقدم كرنا ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہو_

۱۲ _ زمين مكہ كى سطح كى بلندى اسكے اردگرد كے مناطق سے زيادہ ہے_يأتوك من كل فج عميق

(''عميق'' كا مصدر) ''عمق'' اس طولانى مسافت كو كہا جاتا ہے كہ جو نيچے كى طرف ہو لہذا ''بعيد'' كى بجائے كلمہ ''عميق'' كا استعمال يا تو اس لحاظ سے ہے كہ سرزمين مكہ كى بلندى اسكے اردگرد كے مناطق سے چونكہ زيادہ ہے لہذا جو لوگ مكہ كى طرف آتے ہيں وہ نيچے سے اوپر كى جانب حركت كرتے ہيں اور يا اسلئے ہے كہ چونكہ

۵۰۹

زمين گيند كى صورت ميں ہے لہذا لوگوں كى دور سے حركت اوپر كى جانب حركت نظر آتى ہے مذكورہ مطلب پہلے فرضيے كى بنياد پر ہے _

۱۳ _ قرآن كا زمين كے گيند كى طرح اور اسكى سطح كے گول ہونے كى طرف اشارہ_يأتين من كل فج عميق

۱۴ _ عبيد الله بن على الحلبى كہتے ہيں ميں نے امام صادق (ع) سے سوال كيا كہ (حج ميں ) تلبيہ كيوں مقرر كيا گيا ہے؟ تو آپ(ع) نے فرمايا بيشك خداتعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كى طرف وحى كى''و أذّن فى الناس بالحج يأتوك رجالًا'' پس حضرت ابراہيم نے ندا دى اور دور كے ہر راستے سے ''لبيك'' كے ساتھ حضرت ابراہيم(ع) كو جواب دياگيا(۱)

۱۵ _ امام صادق(ع) نے فرمايا كہ پيغمبراكرم دس سال مدينہ ميں رہے اور حج پر نہ گئے پھرخداتعالى نے آنحضرت پر نازل كيا''و أذن فى الناس بالحج يأتوك رجالاً و على كل ضامر يأتين من كل فج عميق'' پس پيغمبراكرم(ص) نے مناديوں كو حكم ديا كہ وہ بلند آواز كے سا تھ اعلان كريں كہ اس سال رسول الله (ص) حج پرجائيں گے(۲)

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا حج۱۵

ابراہيم (ع) :آپ مسجد الحرام كے جوار ميں ۵; آپكى اقامت گاہ ۵; آپكے حج كا تسلسل ۸; آپ كے دين كى تعليمات ۴; آپكى شرعى ذمہ دارى ۱; آپكى دعوتيں ۱، ۱۴; آپ(ص) كى معاشرتى شخصيت۶; آپكے دين كا پھيلنا ۷; آپ كى محبوبيت ۶

ايمان:ابراہيم پر ايمان ۶

تلبيہ:اسكى تشريع كا فلسفہ ۱۴

حج:اسكے آداب ۹; اس كے احكام ۲; يہ دين ابراہيم ميں ۱۴ ; اسكى دعوت ۱، ۳، ۱۴; پيدل حج كى فضيلت ۱۱

روايت ۱۴، ۱۵

دينى رہنما:انكى ذمہ دارى ۳; حج ميں ان كے ساتھ ملاقات ۱۰; ان كا نقش و كردار ۹

شرعى ذمہ داري:سب كى شرعى ذمہ دارى ۲

زمين:اس كا گيند كى صورت ميں ہونا ۱۳

مكہ:اسكى بلندى ۱۲; اس كا جغرافيائي محل وقوع ۱۲

____________________

۱ ) علل الشرائع ص ۴۱۶ ب ۱۵۷ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۶ ح ۶۸_ ۲ ) كافى ح ۴ ص ۲۴۵ ح ۴; نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۷ ح ۷۲_

۵۱۰

آیت ۲۸

( لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ )

تا كہ اپنے منافع كا مشاہدہ كريں اور چند معين دنوں ميں ان چوپايوں پر جو خدا نے بطور رزق عطا كئے ہيں خدا كا نام ليں اور پھر تم اس ميں سے كھاؤ اور بھو:ے محتاج افراد كو كھلاؤ (۲۸)

۱ _ حج ، لوگوں كيلئے فائدے و منفعت اور خير و بركت سے سرشار_وأذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم

''منافع''، ''منفعت'' كى جمع ہے يعنى نفع، خير و بركت_ اور اس كاجمع كى صورت ميں آنا حج كى بركات كى فراوانى كو بيان كررہا ہے اور اس كا نكرہ آنا ان بركات ميں سے ہر ايك كى عظمت كو بيان كررہا ہے _

۲ _ حج كى بركات سے بہرہ مند ہونا اسكى رسومات ميں شركت اور اسكے اعمال كى انجام دہى ميں منحصر ہے_وأذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم (''يشہدون'' كے مصدر) ''شہادة'' كا معنى ہے حاضر ہونا پس''ليشهدوا منافع لهم'' كا معنى يہ ہے كہ حج سب لوگوں كيلئے خير و بركت سے سرشار ہے اور جو انہيں حاصل كرنا چاہتا ہے اور ان سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے اس كيلئے ضرورى ہے كہ سفر كى مشقتوں كو برداشت كرے، اسكے مراسم ميں شركت كرے اور اسكے اعمال كو بجالائے_

۳ _ شريعت الہى ميں انسان كے دنيوي، اخروي، مادى اور معنوى پہلوؤں كى طرف توجہ _و أذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم

چونكہ ''منافع'' كو دنيوي، اخروي، معنوى يا مادى كى قيد نہيں لگائي گئي پس كہا جاسكتا ہے كہ اس سے مراد،دينوي، اخروي، مادى اور معنوى سب بركات ہيں _

۵۱۱

۴ _ عرفات اور مشعر ميں وقوف كرنا (احرام كے بعد) مراسم حج ميں حاجيوں كى پہلى ذمہ دارى _يشهدوا منافع لهم

جملہ ''و يذكروا اسم الله ...'' قربانى كى رسومات سے مربوط ہے اور بعد والى آيت حلق، تقصير اور طواف كے بارے ميں ہے پس اس چيز كے پيش نظر كہ احرام باندہنے كے بعد مراسم حج بالترتيب يوں ہيں عرفات اور مشعر ميں و قوف، قربانى كرنا، حلق، تقصير اور طواف _ كہنا ہوگا كہ حضرت ابراہيم(ع) كى شريعت ميں حج، قربانى سے شروع اور طواف كے ساتھ ختم ہوتا تھا اور عرفات و مشعر كا وقوف مراسم حج ميں شا مل نہيں تھا يا يہ كہ جملہ ''ليشہدوا منافع لہم'' تشريع حج كے فلسفے كو بيان كرنے كے علاوہ عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے والے مسئلے كى طرف بھى ناظر ہے مذكورہ مطلب دوسرے احتمال كى بنياد پر ہے_

۵ _ عرفات و مشعر، حج كرنے والوں كيلئے كثير خيرو بركت كا مركز_ليشهدوا منافع لهم

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''ليشهدوا '' عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے سے مربوط ہو_

۶ _ عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے كے بعد قربانى كرنا حج كے واجب اعمال ميں سے ہے _و يذكروا اسم الله على مارزقهم من بهيمة الأنعام

۷ _ قربانى كو ذبح يانحر كرتے وقت الله كا نام لينا ضرورى ہے_و يذكروا اسم الله على ما رزقهم من بهيمة الأنعام

۸ _ لوگوں كو ذبح كرنے كى طريقے كى تعليم دينا (جانور كو نحر يا ذبح كرتے وقت خدا كا نام لينا)حج كے فلسفوں ميں سے ايك ہے_ليشهدوا منافع لهم و يذكروا اسم الله فى ايام معلومات ''يذكروا'' كا عطف ''ليشہدوا'' پر ہے اور اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ اس كا لام تعليل كيلئے ہے اور يہ حج كى تشريع كے فلسفے كو بيان كررہا ہے ''يذكروا'' كا ''يشہدوا'' پر عطف تشريع حج كے ايك اور فلسفہ كا بيان ہے_

۹ _ قربانى والے حكم كا انجام دينا خاص اور معين وقت پر موقوف ہے (دس سے تيرہ ذى الحج تك)_و يذكورا اسم الله فى ايام معلومات على ما رزقهم من بهيمة الانعام اہل بيت (ع) سے وارد ہونے والى روايات كى بنياد پر ''ايام معلومات'' سے مراد ذى الحج كے ايام تشريق (دس سے تيرہ تك) ہيں _

۱۰ _ قربانى كو ذبح يانحر كرتے وقت خداتعالى كے اسما (الله ، رحمان و غيرہ) ميں سے ہر ايك كے ذكر كا جواز_و يذكروا اسم الله ہوسكتا ہے ''اسم'' كى ''الله '' كى طرف اضافہ بيانيہ ہو اس صورت ميں ''اسم اللہ'' يعنى وہ نام كہ جو اللہ سے عبادت ہے اسى طرح اضافہ لاميہ

۵۱۲

بھى ہوسكتاہے اس صورت ميں '' اسم اللّہ'' يعنى ہر وہ نام كہ جو خدا كے لئے ہو پہلے احتمال كى بناپر قربانى كے وقت ''اللّہ'' كے لفظ كے علاوہ كسى اور لفظ كا لينا جائز نہيں ہے برخلاف احتمال دوم گذشتہ مطلب دوسرے احتمال كى بناپر ہے_

۱۱ _ دس ذى الحج كے بجائے گيارہ، بارہ اور تيرہ ذى الحج كو قربانى كرنے كا جواز _و يذكروا اسم الله فى أيام معلومات من بهيمة الأنعام

۱۲ _ اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى ميں سے ہر ايك كى قربانى كرنا جائز ہے_على ما رزقهم من بهيمة الانعام

(''نعم'' كى جمع) ''انعام ''كا اصلى معنى ''اونٹ'' ہے ليكن بعض اوقات اونٹ گائے اور بھيڑ بكرى كے مجمموعے پر بھى اس كا اطلاق ہوتا ہے تمام مفسرين كے نظريے كے مطابق يہاں پر اس سے مراد دوسرا معنى (اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى كا مجموعہ) ہے قابل ذكر ہے كہ ''بہيمہ'' كا معنى ہے ''چوپايہ'' اور اس كى ''أنعام'' كى طرف اضافت بيانيہ ہے يعنى وہ چوپايہ جو اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى ہے_

۱۳ _ اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى انسانوں كى روزى اور ان كيلئے خدا كى عطا ہے_على ما رزقهم من بهيمة الأنعام

۱۴ _ قربانى كے گوشت سے استفادے كا حرام ہونا جاہليت كے عربوں كا باطل خيال _فكلوا منه قربانى كے گوشت كے استعمال كو جائز كرنا جاہليت كے عربوں كے باطل خيال كى طرف ناظر ہے كہ جو اسے حرام سمجھتے تھے_

۱۵ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى حلال گوشت چوپائے ہيں _على ما رزقهم من بهيمة الأنعام فكلوا منه

۱۶ _ حجاج كيلئے قربانى كے گوشت كے استعمال كا جواز_فكلوا منه

۱۷ _ حج كے موقع پر قربانى كے گوشت سے تنگدست لوگوں كو اطعام كرنے كا ضرورى ہونا_و ا طعموا البائس الفقير

۱۸ _ قربانى كے پورے گوشت كو استعمال كرنا جائز نہيں ہے_فكلوا منها و ا طعموا البائس الفقير

''منہا'' ميں ''من'' تبعيضيہ ہے پس ''كلوا منہا'' يعنى اس كا ايك حصہ كھاؤ (نہ پورا)

۱۹ _ لوگوں كى مدد اور تنگدستوں اور ضرورتمندوں كى دستگيرى كرنا حج كے فلسفوں ميں سے اور اس كا ايك سبق ہے_

و أطعموا البائس الفقير

۲۰ _ ربيع بن خيثم كہتے ہيں ميں نے امام صادق (ع) كو ديكھا كہ آپ(ع) نے فرمايا ميں نے خداتعالى كو يہ فرماتے ہوئے سنا ہے''ليشهدوا منافع لهم'' تو ميں نے امام (ع) سے عرض كيا ''منافع'' سے مراد دنياوى فوائدہيں يا اخروي؟ تو آپ(ع) نے فرمايا سب

۵۱۳

منافع(۱)

۲۱ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ خداتعالى كے كلام ''ويذكروا اسم الله '' ميں ذكر سے مراد وہ تكبيريں ہيں جو پندرہ نمازوں ميں _ كہ جن ميں سے پہلى عيدوالے دن ظہر كى نماز ہے_ كہى جاتى ہيں(۲)

۲۲ _ امام صادق(ع) سے الله تعالى كے فرمان ''و يذكروا اسم الله فى أيام معلومات'' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ انہوں نے فرمايا اس سے مراد ايام تشريق ہيں(۳)

۲۳ _ صفوان بن يحيى كہتے ہيں ميں نے امام كاظم(ع) سے عرض كيا شخص كسى كو كھال اتارنے كيلئے قربانى ديتا ہے اسكى كھال كے مقابلے ميں يعنى كھال كو اپنى مزدورى كے طور پر لے لے_ (تو اس كا حكم كيا ہے) _

فرمايا اس ميں كوئي اشكال نہيں ہے كيونكہ خداتعالى نے فرمايا ہے ''فكلوا منہا و أطمعوا'' اور كھال نہ كھائي جاتى ہے اور نہ (اسكے ذريعے) اطعام كيا جاتا ہے(۴)

احكام ۴، ۶، ۷، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸/جاہليت:اسكے مشركين كى سوچ ۱۴; اسكى رسومات ۱۴

چوپائے:ان كے گوشت كى حليت ۱۵/حجاج:ان كا حج كى قربانى سے استفادہ كرنا ۱۶

حج:اسكے اثرات ۲; اسكے احكام ۴، ۶، ۹، ۱۶، ۱۷; اسكى قربانى كے گوشت سے استفادہ كرنا ۱۸; اسكى بركات۱; اسكى قربانى كى كھال ۲۳; اسكى قربانى كو مؤخر كرنا ۱۱; اسكى تعليمات ۱۹; اس ميں تكبير ۲۱; اس كا خير ہونا ۱; اس ميں گائے كو ذبح كرنا ۱۲; اس ميں بھيڑ بكرى كو ذبح كرنا ۱۲; اسكى بركات كا پيش خيمہ ۲; اس كا فلسفہ ۸، ۱۹; اسكى قربانى ۶، ۱۲; اسكى قربانى كا گوشت ۱۶، ۱۷; اسكى قربانى كے مصارف ۱۷; اسكے مناسك ۴، ۶، ۹، ۱۱، ۱۲;اسكے اخروى منافع ۲۰; اسكے منافع۱; اسكے دنيوى منافع ۲۰; اس ميں اونٹ كو نحر ركنا ۱۲; اسكے واجبات ۶; اسكى قربانى كا وقت ۹

حلال جانور :۱۵/خداتعالى :اسكى روزى ۱۳; اسكے عطيے ۱۳/كھانے كى چيزيں :ان كے احكام ۱۵; كھانے كى حلال چيزيں ۱۵

دين:

____________________

۱ ) كافى ج۴ ص ۴۲۲ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۸ ح ۷۷_/ ۲ ) عوالى اللئامى ج ۲ ص ۸۸ ح ۲۳۷_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۰ ص ۸۲_

۳ ) معانى الاخبار ص ۲۹۷ ح ۱، ۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۰ ح ۸۴_

۴ ) علل الشرائع ص ۴۳۹ب ۱۸۲ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۹ ح ۱۳۹_

۵۱۴

اسكے اخروى پہلو ۳; اسكے مادى پہلو ۳; اسكے معنوى پہلو۳; يہ اور عينيت ۳

ذبح:اسكے احكام ۷، ۱۰; اس ميں بسم الله ۷،۸، ۱۰; اسكى تعليم ۸

ذكر:ذكر خدا ايام تشريق ميں ۲۲; ذكر خدا حج ميں ۲۱

روايت : ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۳

اونٹ:اسكے گوشت كا حلال ہونا ۱۵

عرفات:اسكى بركات ۵; اس كا خير ہونا ۵; اس ميں وقوف ۴

فقرا:انہيں اطعام كرنا ۱۷; انكى حاجت روائي كى اہميت ۱۹

قرباني:جاہليت ميں اسكے گوشت كى تحريم ۱۴

گائے:اسكے گوشت كى حليت ۱۵

بھيڑ بكري:اسكے گوشت كى حليت ۱۵

مسجدالحرام:اسكى بركات ۵; اس كا خير ہونا ۵

مشعرالحرام:اس ميں وقوف كرنا ۴

نعمت:اونٹ كى نعمت ۱۳; گائے كى نعمت ۱۳; بھيڑ بكرى كى نعمت ۱۳

آیت ۲۹

( ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ )

پھر لوگوں كو چاہئے كہ اپنے بدن كى كثافت كو دور كريں اور اپنى نذروں كو پورا كريں اور اس قديم ترين مكان كا طواف كريں (۲۹)

۱ _ مراسم حج كى انجام دہى كے بعد تقصير اور احرام سے خارج ہونے كا وجوب _و يذكروا اسم الله ثم ليقضوا تفثهم

(''يقضون'' كے مصدر قضا) كا معنى ہے كاٹنا اور جدا كرنا ''تفث'' يعنى وہ غبار اور ميل جو بدن پر ہوتى ہے پس''ثم ليقضوا تفثهم'' يعنى حاجى

قربانى كى رسومات ادا كرنے كے بعد اپنے سر اور ناخن تراش كر كے كہ جسے احرام كى وجہ سے انجام نہيں دے سكے تھے_ اپنے آپ كو صاف كريں اور يہ احرام سے خارج ہونے سے كنايہ ہے_

۵۱۵

۲ _ طواف بجالانے كيلئے آلودہ اور بے ہنگم سر اور بدن كے ساتھ مسجدالحرام ميں داخل ہونا ممنوع ہے_ثم ليقضوا تفثهم

۳ _ تقصير اور احرام سے خارج ہونے كے بعد نذر كى ادائيگى كا ضرورى ہونا_و ليوفوا نذورهم

۴ _ تقصير اور احرام سے خارج ہونے كے بعد طواف كا لازم ہونا_ثم ليقضوا تفثهم و ليطّوفّو

۵ _ تقصير اور طواف كى ادائيگى كو قربانى كرنے كے بعد تك مؤخر كرنا جائز ہے_ثم ليقضوا تفثهم و ليطوفو

''ثم '' كہ جو تراخى زمان كيلئے ہے _ كا استعمال مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے _

۶ _ كعبہ كا اپنا ماضى اور تاريخ ہے_بالبيت العتيق ''عتيق'' ہر اس چيز كو كہا جاتا ہے كہ جو وقت، جگہ يا مرتبے كے لحاظ سے تقدم ركھتى ہو اسى وجہ سے قديم كو بھى عتيق كہتے ہيں ''بيت عتيق'' يعنى وہ گھر جو اپنا ماضى اور تاريخ ركھتا ہے_

۷ _ عبدالله بن سنان كہتے ہيں ميں امام صادق (ع) كے پاس آيا اور ان سے عرض كى آپ(ع) پر قربان جاؤں خداتعالى كے فرمان ''ثم ليقضوا تفثهم '' (سے مقصود) كيا ہے تو آپ(ع) نے فرمايا: (اس سے مقصود) مونچھيں كاٹنا، ناخن اتارنا و غيرہ ہے(۱)

۸ _ اميرالمؤمنين (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ انہوں نے خداتعالى كے فرمان''ثم ليقضوا تفثهم و ليوفوا نذورهم و ليطوفوا بالبيت العتيق'' كے بارے ميں فرمايا ''تفث'' سے مراد رمى جمرات اور سر منڈہوانا ہے اور ''نذور'' سے مراد وہ ہے كہ جس نے پيدل جانے كى نذر كى ہو اور طواف سے مراد طواف زيارت ہے(۲)

شايد مقصود يہ ہو كہ كسى نے منا سے مكہ پيدل جانے كى نذر كى ہو نہ اپنے وطن سے پيدل مكہ جانے كى كيونكہ اس صورت ميں يہ آيت كے ظاہر كے ساتھ متناسب نہيں ہے_

۹ _ امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے آپ(ع) نے خداتعالى كے فرمان''و ليطوفوا بالبيت العتيق'' كے بارے ميں فرمايا (اس سے مراد) طواف النساء ہے(۳)

____________________

۱ ) كافى ج ۴ ص ۵۴۹ ح ۴_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۲ ح ۹۷_

۲ ) دعائم الاسلام ج ۱ ص ۳۳۰_ بحارالانوار ج ۹۶ ص ۳۱۲ ح ۳۹_

۳ ) كافى ج ۴ ص ۵۱۳ ح ۲_ تہذيب شيخ طوسى ج۵ ص ۲۵۳ ح ۱۵_

۵۱۶

۱۰ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ طوفان نوح كے روز خداتعالى نے پورى زمين كو غرق كرديا سوائے بيت (الله ) كے پس اس دن اسے ''عتيق'' كا نام ديا گيا كيونكہ اس دن يہ غرق ہونے سے آزاد ہوا(۱)

۱۱ _ ابوحمزہ ثمالى كہتے ہيں ميں نے مسجدالحرام ميں امام صادق (ع) سے عرض كيا كيوں خداتعالى نے (بيت الله ) كو عتيق كا نام ديا ہے،؟ تو آپ(ع) نے فرمايا خداتعالى نے زمين پر كوئي گھرنہيں بنايا مگر يہ كہ اس كے مالك ہيں اور اس ميں لوگ رہتے ہيں سوائے اس گھر كے كہ جس كا خدائے عزوجل كے علاوہ كوئي مالك نہيں ہے اور يہ (افراد كى ملكيت سے) آزاد ہے(۲)

احكام: ۲، ۳، ۴، ۵

حج:اسكے احكام ۳، ۵; اس ميں تقصير كو مؤخر كرنا ۵; اس ميں طواف كو موخر كرنا ۵; اس ميں تقصير ۱، ۳، ۴، ۷; اس ميں رمى جمرات ۸; اس ميں منڈہوانا ۸; اس ميں طواف ۸، ۹; اس ميں قربانى ۱; اسكے اعمال ۱، ۴، ۷، ۸، ۹; اس ميں نذر ۸; اسكے واجبات ۱، ۴ ; روايت ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱

طواف:اسكے آداب ۲; اسكے احكام ۴; طواف النساء ۹

كعبہ:اسكى تاريخ ۶، ۱۰; اس كا نام ركھنے كا فلسفہ ۱۰، ۱۱; اس كا قديمى ہونا ۶; يہ طوفان نوح كے وقت ۱۰; اسكى مالكيت ۱۱

مسجدالحرام:اسكے آداب ۲; اس ميں پاكيزگى ۲

نذر:اسكے احكام ۳; اسكى وفا ۳

____________________

۱ ) علل الشرائع ج ۲ ص ۳۹۹ ح ۵_ نورالثقلين ج۳ ص ۴۹۴ ح ۱۱۴_

۲ ) كافى ج ۴ ص ۱۸۹ ح ۵ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۴ ح ۱۰۹_

۵۱۷

آیت ۳۰

( ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ )

يہ ايك حكم خدا ہے اور جو شخص بھى خدا كى محترم چيزوں كى تعظيم كرے گا وہ اس كے حق ميں پيش پروردگار بہترى كا سبب ہوگى اور تمہارے لئے تمام جانور حلال كردئے گئے ہيں علاوہ ان كے جن كے بارے ميں تم سے بيان جائے گا لہذا تم نا پاك بتوں سے پرہيز كرتے رہو اور لغو اور مہمل باتوں سے اجتناب كرتے رہو (۳۰)

۱ _ حج اور اسكے اعمال، خداتعالى كے نزديك بلند مقام و مرتبے كے حامل ہيں _و أذن فى الناس بالحج و ليطوفوا بالبيت العتيق ذلك ''ذلك'' ان تمام مطالب كى طرف اشارہ ہے كہ جو يہاں تك حج اور اسكے اعمال كے بارے ميں بيان ہوئے ہيں اور يہاں پر ''ذلك'' كے ا ستعمال سے غرض سابقہ اور بعد والے كلام كے درميان فاصلہ كرنا اور ايك اہم مطلب سے دوسرے اہم مطلب كى طرف منتقل ہونا ہے ايسے موارد ميں كلمہ ''ہذا'' كو استعمال كرتے ہيں جيسے ''ہذا و إن للطاغين لشرمآب'' (ص ۵۵۳۸) اس بناپر ''ذلك'' كہ جو بعيد كى طرف اشارہ كرنے كيلئے ہے_ كا استعمال ممكن ہے بارگاہ خداوندى ميں حج اور اسكے اعمال كى اعلى قدر و منزلت كو بيان كرنے كيلئے ہو_

۲ _ حدود و احكام الہى كى تعظيم كرنے، انہيں معمولى نہ سمجھنے اور ان كے حريم سے تجاوز نہ كرنے كا ضرورى ہونا_

و من يعظم حرمت الله

('' يعظم'' كے مصدر) تعظيم كامعنى ہے بڑا سمجھنا ''حرمات''، ''حرمت'' كى جمع ہے يعنى وہ چيز كہ جسكى ہتك كرنا ممنوع اور اسكى حفاظت كرنا واجب ہے ''حرمات الله '' يعنى وہ حدود و احكام كہ جو خدا كى طرف سے مشخص كئے گئے ہيں اور لوگوں كا فريضہ ہے كہ انكى رعايت كريں _ يہ مذكورہ جملہ خداتعالى كى طرف سے اہل ايمان كو نصيحت ہے كہ وہ حتماً حدود و احكام الہى كو بڑا سمجھيں اور ان كے حريم ميں تجاوز كرنے سے سخت پرہيز كريں _

۵۱۸

۳ _ حدود و احكام الہى كى تعظيم ، انہيں بڑا سمجھنا اور ان كے حريم كى رعايت كرنا اہل ايمان كيلئے خير و سعادت اور خوشبختى كا سبب ہے_و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه ''فهو خيرله'' كى ''ہو'' خير كا مرجع (''يعظم'' كا مصدر ) تعظيم ہے يعنى''فالتعظيم خير له عند ربه''

۴ _ خداتعالى كے احكام اور حدود، انسان كى سعادت اور بھلائي كيلئے ہيں _ومن يعظم حرمت الله فهوخير له عند ربه

۵ _ قوانين اور احكام الہى كو معمولى سمجھنا اور ان كى حرمت شكنى انسان كى بدبختى اور شقاوت كا سبب ہے_

و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه ''تعظيم'' ''تحقير'' كى ضد ہے پس جملے كا مفہوم يوں ہوگا''و من يحقر حرمات الله فهو شر له عند ربه''

۶ _ خداتعالى ، انسانوں كا پروردگار ہے_عند ربه

۷ _ خداتعالى كى طرف سے سعادت بخش احكام و قوانين كا وضع كرنا اسكى ربوبيت اور پروردگار ہونے كا مقتضا ہے_

و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه

۸ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى حلال گوشت جانور ہيں _و أحلت لكم الأنعام ''أنعام'' (''نعم'' كى جمع) در اصل اونٹ كے معنى ميں ہے پس انعام يعنى اونٹ ليكن بعض اوقات ''انعام'' بول كر اس سے مجموعى طور پر اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى مراد ليتے ہيں مذكورہ جملے ميں ''انعام'' دوسرے طريقے سے استعمال كيا گيا ہے_ قابل ذكر ہے كہ جملہ''أحلت لكم الأنعام'' ،''أحلت لكم أكل لحوم الأنعام'' كى تقدير ميں ہے يعنى تمہارے لئے اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى كا گوشت كھانا حلال ہے_

۹ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى كے گوشت سے استفادہ كرنا حلال اور جائز ہے سوائے ان موارد كے كہ جن ميں الله تعالى نے انہيں حرام كيا ہے_

۱۰ _ خداتعالى كى جانب سے كھانے كى حرام چيزوں كے بارے ميں متعدد آيات كا نازل ہونا اور لوگوں كيلئے انہيں مكرر وطور پر بيان كرنا_و أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم بعض مفسرين كا خيال يہ ہے كہ ''يتلى '' زمان مستقبل كيلئے ہے يعنى اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى جيسے چوپاؤں كا گوشت تمہارے لئے حلال ہے مگر وہ جسے مستقبل ميں تمہارے لئے بيان كي جائيگا_لہذا كلمہ ''يتلي'' سورہ مائدہ كى آيت نمبر ۳ ''حرمت عليكم الميتة و الدم و لحم الخنزير و ...'' كى طرف اشارہ ہے كہ جو مورد بحث آيت كے بعد نازل ہوئي ہے_

۵۱۹

اور بعض مفسرين كا خيال يہ ہے كہ كلمہ ''يتلي'' مضارع استمرارى ہے اور يہ ان آيات كى طرف اشارہ ہے كہ جو اس سے پہلے مكہ ميں (آيت ۱۴۵ سورہ انعام اور آيت ۱۱۵ سورہ نحل) اور ہجرت كے چھ ماہ بعد مدينہ ميں (آيت ۱۷۳ سورہ بقرہ) نازل ہوئي ہيں مذكورہ مطلب دوسرے نظريئےے مطابق ہے _

۱۱ _ اس جانور كے گوشت سے استفادہ كرنا حرام ہے كہ جسے غيرخدا كے نام كے ساتھ ذبح كيا گيا ہو_و أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم ''إلا ما يتلى عليكم'' ميں كلمہ ''ما'' اگرچہ عام ہے اور ان تمام موارد كو شامل ہے كہ جو ''محرمات اكل''كى آيات ميں بيان ہوئے ہيں ليكن گذشتہ دو آيتوں ميں جملہ ''ويذكروا اسم الله على ما رزقہم من بہيمة الأنعام'' نيز جملہ ''فاجتنبوا الرجس من الأوثان ...'' (آيت كا ذيل) كى جملہ''أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم'' پر تفريع كے قرينے سے كہا جاسكتا ہے كہ ''ما'' سے مرادفقط وہ موارد ہيں كہ جہاں جانور كو غيرخدا (بتوں ) كے نام سے ذبح كيا گيا ہو_

۱۲ _ زمانہ جاہليت ميں مراسم حج و قربانى كا شرك و بت پرستى كے مظاہر كے ساتھ آميختہ ہونا_

و احلت لكم الانعام الا ما يتلى عليكم فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۳ _ بت، رجس اور پليدگى كا مظہر ہے_فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۴ _ بتوں سے اجتناب كا ضرورى ہونا_فاجتنبوا الرجس من الاوثان ''رجس'' ہر برى اور پليد چيز كو كہاجاتا ہے ''اوثان''، ''وثن'' كى جمع اور بتوں كے معنى ميں ہے اور ''من الاوثان'' ميں ''من'' بيانيہ ہے پس''فاجتنبوا الرجس من الاوثان'' يعنى بتوں سے كہ جو برے اور پليد ہيں اجتناب كرو_

۱۵ _ بت پرست، پليد لوگ ہيں _فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۶ _ عصر بعثت كے مشركين، متعدد بت ركھتے تھے_فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۷ _ عصر جاہليت كے مراسم حج ميں مشركانہ اورمخالف توحيد نعروں كا وجود_واجتنبوا قول الزور

''زور'' كا معنى ہے''قول باطل'' اور''قول الزور'' ميں اضافت بيانيہ ہے يعنى باطل سخن اور ياوہ گوئي سے دورى اختيار كرو اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ يہ آيت حج سے مربوط آيات ميں سے ہے كہا جاسكتا ہے كہ ''ياوہ گوئي'' سے مراد وہ مشركانہ نعرے ہيں كہ جو مشركين مراسم حج ميں اور شايد اپنے ان بتوں كے پاؤں ميں _ كہ جنہيں انہوں نے منى ميں نصب كرركھا تھا قربانى كو ذبح كرتے وقت لگاتے تھے_

۱۸ _ جھوٹ بولنے اور سخن باطل سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639