دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)9%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272344 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

فطر بن خلیفہ حناط کوفی

عبداﷲ بن احمد نے اپنے والد امام احمد حنبل سے فطر کے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا :

             “ثقة صالح  الحديث ، حديثة حديث رجل کيس الا ان ه يتشيع ۔”

             “ فطر ثقہ ہیں، صالح الحدیث ہیں۔ ان کی حدیثیں زیرک و دانا لوگوں جیسی ہیں لیکن یہ کہ وہ شیعہ تھے۔”

ابن معین کا قول ہے کہ فطر بن خلیفہ ، ثقہ اور شیعہ ہیں۔ صحٰیح بخاری و سنن اربعہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ۲۵۳ھ میں انتقال کیا۔

م :

 ابوغسان مالک بن اسماعیل بن زیاد بن درہم کوفی

امام بخاری کے شیخ ہیں۔ ابن سعد طبقات جلد۶ صفحہ ۲۷۲ پر ان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں کہ

“ ابو غسان ثقہ اور صدوق اور بڑے شیدید قسم کے شیعہ تھے”

علامہ ذہبی نے بھی ان کی عدالت و جلالت قدر پر روشنی ڈالی ہے اور وضاحت کی ہے کہ انھوں نے مذہب تشیع اپنے استاد حسن صالح سے حاصل کیا۔ اور ابن معین کہا کرتے کہ کوفہ میں ابو غسان جیسا ٹھوس آدمی نہیں ۔ ابوحاتم بھی ان کے متعلق یہی رائے رکھتے تھے۔ امام بخاری نے

۱۴۱

بلاواسطہ ان سے متعدد حدیثیں روایت کی ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ ۲۱۹ھ میں انتقال کیا۔

محمد بن خازم

جو ابو معاویہ ضریر تمیمی کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

“ یہ بڑے ثقہ، ٹھوس اور یکے از ائمہ اعلام تھے۔ میری دانست میں کسی نے بھی ان کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں کہی جو ان کی شان کے منافی ہو۔”

امام حاکم فرماتے ہیں کہ ان کی حدیثوں سے بخاری و مسلم دونوں نے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے ۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ بڑے غالی شیعہ تھے۔ ان کی حدیثوں سے جملہ ارباب صحاح ستہ نے احتجاج کیا ہے اور  سبھی صحاح میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ۱۱۲ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ۱۹۵ھ میں انتقال کیا۔

محمد بن عبداﷲ نیشاپوری مشہور بہ امام حاکم

یہ بزرگ حفاظ و محدثین کے امام اور سینکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں تحصیل علم کی خاطر ملک ملک کے سفر کیے اور دو ہزار شیوخ حدیث سے احادیث کا استفادہ کیا۔ ان کے زمانہ کے مرجع انام علمائے اعلام جیسے صعلو کی امام ابن فورک اور دیگر جمیع ائمہ اعلام انھیں اپنے سے مقدم و بہتر سمجھتے تھے اور آپ کے علم وفضل کا  لحاظ رکھتے تھے ۔ معزز و محترم ہونے کے معترف اور بے شک و شبہ امام سمجھتے تھے۔ ان کے بعد کے جتنے محدثین ہوئے وہ سب آپ کے

۱۴۲

خواں علم کے زلہ خوار ہیں۔ بزرگ اکابر شیعہ اور شریعت مصطفوی کے حافظوں میں سے تھے۔ جیسا کہ علامہ ذہبی کی تذکرة الحفاظ میں صراحت موجود ہے نیز میزان الاعتدال میں بھی بسلسلہ حالات امامِ موصوف تصریح ہے ۔ سنہ ۳۲۱ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ۴۰۵ھ میں انتقال کیا۔

محمد بن عبیداﷲ بن ابی رافع مدنی

ان کا پورا خاندان شیعہ تھا۔ ان کے خاندان والوں کی تصانیف دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حضرات شیعیت میں کتنے راسخ اور ثابت قدم تھے۔ محمد بن عبیداﷲ کو ابن عدی نے کوفہ کے سربرآوردہ شیعوں میں شمار کیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال علامہ ذہبی۔

ترمذی و دیگر اصحاب سنن نے ان کی حدیثیں  اپنے صحاح میں درج کی ہیں۔ طبرانی نے اپنی معجم کبیر میں بسلسلہ اسناد محمد بن عبیداﷲ سے اور انھوں نے اپنے باپ دادا کی وساطت سے حضرت پیغمبر خدا(ص) کی یہ حدیث روایت کی ہے کہ آنحضرت(ص) سے حضرت علی(ع) سے ارشاد فرمایا :

“ کہ سب سے پہلے ہم اور تم اور حسن(ع) و حسین(ع) جنت میں جائیں گے ہمارے پیچھے ہم لوگوں کی اولاد رہے گی اور ہم لوگوں کے شیعہ ہمارے دائیں اور بائیں رہیں گے۔”

ابوعبدالرحمن محمد بن فضیل بن غزوان کوفی

ابن قتیبہ نے اپنی معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ابن سعد نے اپنی طبقات جلد۶ صفحہ۲۷۱ پر ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

۱۴۳

“ کہ یہ ثقہ ، صدوق اور اکثر الحدیث ہیں۔ یہ شیعہ تھے۔ بعض علماء ان کی حدیثوں سے احتجاج نہیں کرتے ۔”

علامہ ذہبی نے انھیں میزان میں کئی جگھوں پر صدوق اور شیعہ لکھا ہے۔ امام احمد نے ان کے متعلق فرمایا کہ ان کی حدیثیں پاکیزہ ہیں اور یہ شیعہ ہیں۔

امام ابو داؤد نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ بڑے سخت و شدید شیعہ تھے۔ حدیث و معرفت والے ہیں اور حمزہ  سے انھوں نے علم قرآن حاصل کیا۔ ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ امام احمد و نسائی نے ان کی حدیثوں  میں کوئی مضائقہ نہیں دیکھا۔ ان کی حدیثوں صحیح بخاری و مسلم اور دیگر صحاح میں موجود ہیں۔

محمد بن مسلم بن طائفی

یہ امام جعفر صادق(ع) کے سربرآودہ اصحاب میں سے تھے۔ شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسی نے اپنی کتاب رجال الشیعہ میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ حسن بن حسین بن داؤد نے ثقہ لوگوں کے سلسلہ میں ان کا ذکر کیا ہے۔

علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں بکثرت جلیل القدر محدثین اہلسنت کے اقوال ان کے ثقہ ہونے کے متعلق نقل کیے ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح مسلم میں موجود ہیں۔

محمد بن موسیٰ بن عبداﷲ الفطری المدنی

ابو حاتم نے ان کے شیعہ اور ترمذی نے ان کے ثقہ ہونے کی صراحت کی صراحت کی ہے( میزان الاعتدال علامہ ذہبی) ان کی حدیثیں صحیح مسلم و دیگر سنن

۱۴۴

 میں موجود ہیں۔

معاویہ بن عمار دہنی بجلی کوفی

یہ بزرگ علمائے  امامیہ کے نزدیک بھی بڑے معزز و محترم اور علمائے اہلسنت کے نزدیک بھی بڑے ثقہ، عظیم المرتبت اور جلیل القدر میں انے کے والد عمار حق پروری، حق کوشی کا بہترین نمونہ تھے۔ شیعیت کے جرم میں دشمنانِ آل محمد(ص) نے ان کے پیر قطع کردیے تھے۔ بیٹا وہی، قدم بہ قدم ہو جو باپ کے۔ معاویہ بھی اپنے باپ کی مکمل شیبہ تھے۔ امام جعفر صادق(ع)  و موسیٰ کاظم(ع) کی صحبت میں رہے اور آپ کے علوم کے حامل ہوئے۔ آپ کی حدیثیں صحیح مسلم میں موجود ہیں۔

معروف بن خربوذ کرخی

ذہبی نے میزان الاعتدال میں انھیں صدوق و شیعہ لکھا ہے۔ نیز یہ کہ بخاری و مسلم اور ابو داؤد نے ان کی حدیثٰیں اپنے صحاح میں درج کی  ہیں۔ ابن خلسکان نے وفسیات الاعیان میں امام علی رضا(ع) کے موالی میں انھیں ذکر کیا ہے صحیح مسلم میں ان کی حدثیں موجود ہیں۔ سنہ۲۰۰ھ میں بغداد میں انتقال فرمایا۔ ان کی قبر زیارت گاہ عوام خواص ہے۔ سری سقطی مشہور مشہور صونی ان کے تلامذہ میں سے تھے۔

منصور بن المعتمر بن عبداﷲ بن ربیعہ کوفی

امام محمد باقر(ع) و امام جعفر صادق(ع) کے اصحاب سے تھے۔ جیسا کہ صاحبِ

۱۴۵

منتہی المقال نے وضاحت کی ہے۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ یہ وہی منصور ہیں جن کے متعلق جوزجانی کا یہ فقرہ ہے کہ

“ کوفہ کچھ ایسے افراد تھے کہ لوگ ان کے عقائد کو ناپسند سمجھتے تھے مگر ان کی بیان کردہ حدیثوں کو ان کی غیر معمولی صداقت ودیانت کی وجہ سے آنکھوں پر رکھا جیسے ابو اسحاق، منصور ، زبیدیامی اور اعمش وغیرہ۔۔۔۔”

جملہ ارباب صحاح و سنن نے ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے صحیح بخاری و مسلم سب ہی میں ان کی حدیثوں موجود ہیں۔

مہنال بن عمرو تابعی

کوفہ کے مشہور شیعوں میں سے تھے۔ ان کی حدیثیں صحیح مسلم و بخاری میں موجود ہیں۔

موسیٰ بن قیس حضرمی

ان کی کنیت ابو محمد تھی۔ عقیلی نے انھیں غالی رافضیوں میں شمار کیا ہے ان سے سفیان نے حضرت علی(ع) اور ابوبکر کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا کہ علی(ع) مجھ کو بہت زیادہ محبوب ہیں۔

موسیٰ نے بسلسلہ اسناد جناب ام سلمہ زوجہ پیغمبر(ص) سے روایت کی ہے کہ جناب ام سلمہ(رض) فرمایا کرتیں کہ علی(ع) حق جپر ہے جو علی(ع) کی پیروی کرے گا وہی حق پر ہوگا۔ اور جس نے علی(ع) کو چھوڑا اس نے حق کو چھوڑا۔

موسیٰ نے فضائل اہبیت(ع) میں بہت سی صحیح حدیثیں روایت کی ہیں جو عقیلی

۱۴۶

 پر شاق گزریں اور انھیں غالی رافضیوں میں قرار دیا۔

ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ امام ابی داؤد اور دیگر اصحابِ سنن نے ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے۔ ان کی حدیثیں سنن میں موجود ہیں۔

ن :

 ابو داؤد نفیع بن حارث نخعی کوفی

عقیلی ان کے متعلق کہتے ہیں کہ رفض میں بہت غلو سے کام لیتے تھے بخاری فرماتے ہیں کہ لوگ ان کے متعلق لب کشائی کرتے ہیں۔ ( ان کی شیعیت کی وجہ سے) ان سب کے باوجود محدثین علماء نے ان سے استفادہ کیا اور ان کی حدیثوں سے کام لیا۔ ان کی حدیثیں جامع ترمذی میں موجود ہیں۔

نوح بن قیس بن رباح الحدانی

علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ صالح الحدیث ہیں۔

امام احمد و ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ شیعیت کی طرف مائل تھے۔

نسائی نے فرمایا کہ ان میں کوئی مضائقہ نہیں۔

مسلم و دیگر اصحاب سنن نے ان کی حدیثیں اپنے صحاح میں درج کی ہیں۔

۱۴۷

ھ :

 ہارون بن سعد عجلی کوفی

ذہبی ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ فی نفسہ صدوق ہیں لیکن سخت قسم کے رافضی ہیں۔ ابن معین ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ بڑے غالی شیعہ تھے۔ صحیح مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ابو علی ہاشم بن برید کوفی

ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے اس اقرار کے ساتھ کہ وہ رافضی تھے امام احمد نے ان کی حدیثوں میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا ۔ ان کی حدیثیں سنن ابی داؤد ، سنن نسائی میں موجود ہیں۔ یہ ہاشم مشہور شیعہ گھرانے کے فرد تھے جیسا کہ علی بن ہاشم، کے  حالات میں ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔

ہیبرہ بن بریم حمیری

امیرالمومنین(ع) کے صحابی ہیں۔ امام احمد ان کی حدیثوں میں کوئی مضائقہ نہیں تصور فرماتے۔ شہرستانی نے ملل ونحل میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے ان کا شیعہ ہونا مسلمات سے ہے۔ سنن اربعہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ابوالمقدام ہشام بن زیاد بصری

شہرستانی نے ملل و نحل میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ ان کی

۱۴۸

حدیثیں صحیح ترمذی وغیرہ میں موجود ہیں۔

ابوالولید ہشام بن عمار بن نصیر بن میسرہ

انھیں  ظفری دمشقی بھی کہتے ہیں۔ امام بخاری کے شیخ ہیں۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے۔ ذہبی نے انھیں امام ، خطیب ، محدث، عالم، صدوق، بہت زیادہ حدیثوں کا راوی لکھا ہے بخاری نے صحیح میں بہت سی حدیثیں ان سے بلاواسطہ روایت کی ہیں۔ سنہ۱۵۳ھ میں پیدا ہوئے۔ سنہ۲۴۵ھ میں انتقال کیا۔

ہیشم بن بشیر بن قاسم بن دینار سلمی واسطی

ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔امام احمد اور ان کے ہمعصر علما کے استاد ہیں۔ ذہبی نے انھیں حفاظ اور یکے از علمائے اعلام لکھا ہے۔ ان کی حدیثیں صحیح بخاری و مسلم اور باقی سبھی صحاح میں موجود ہیں۔

و :

  وکیع بن جراح بن ملیح بن عدی

ان کی کنیت ابوسفیان تھی۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں قرار دیا ہے۔

ابن مدینی نے بھی تہذیب میں ان کی شیعیت کی صراحت کی ہے مروان بن معاویہ ان کےشیعہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں کرتے۔ ان کی حدیثوں سے

۱۴۹

 جملہ ارباب صحاح ستہ نے احتجاج کیا ہے۔ صحیح مسلم وغیرہ سبھی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ی :

 یحیٰ بن جزار عرفی کوفی

یہ امیرالمومنین(ع) کے صحابی ہیں۔ علامہ ابن سعد نے طبقات جلد۶ صفحہ۲۰۶ میں انھیں شیعہ لکھا ہے۔ نیز یہ کہ یہ شیعیت میں غلو کیا کرتے تھے اور محدثین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے اور انھوں نے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں۔

ذہبی نے انھیں صدوق اور ثقہ لکھا ہے ۔ ان کی حدیثیں صحیح مسلم و دیگر سنن میں موجود ہیں۔

یحیٰ بن سعید قطان

ان کی کنیت ابوسعید تھی اپنے زمانہ کے محدث ہیں۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ جملہ ارباب صحاح ستہ نے ان کی حدیثوں سے احتجاج کیا ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور سبھی صحاح میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

یزید بن ابی زیاد کوفی

ابن فضیل ان کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ یہ کبار علماء شیعہ سے ہیں

۱۵۰

 ذہبی نے بھی لکھا ہے کہ یہ کوفہ کے مشہور علماء میں سے ہیں۔ مگر لوگوں نے ان سے تعصب برتا جس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے بسلسلہ اسناد ابوبرزہ یا ابو بردہ سے روایت کی ہے کہ :

“ ہم لوگ پیغمبر(ص)  کے ساتھ تھے کہ پیغمبر(ص) نے گانے کی آواز سنی پتہ چلا کہ معاویہ اور عمرو بن العاص گارہے ہیں۔ اس پر پیغمبر(ص) نے بد دعا فرمائی کہ خداوندا! دونوں کو فتنہ میں اچھی طرح مبتلا کر اور آتش جہنم کی طرف بلا۔”

صحیح مسلم و سنن اربعہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ نوے (۹۰) برس کی عمر میں سنہ۱۳۶ھ میں انتقال کیا۔

ابو عبداﷲ جدلی

ذہبی نے انھیں شدید سخت شیعہ لکھا ہے۔ جوزجانی نے ان کے متعلق بیان کیا ہے کہ یہ مختار کے علمدار لشکر تھے۔ امام احمد انھیں ثقہ قرار دیتے ہیں۔ شہرستانی نے بھی ملل و نحل میں شیعہ لکھا ہے۔

ابن قتیبہ نے معارف میں غالی ، رافضی ذکر کیا ہے۔ ان کی حدیثیں جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد اور دیگر سنن و مسانید میں موجود ہیں۔ علامہ ابن سعد نے طبقات جلد۶ صفحہ ۱۵۹ پر انھیں شدید التشیع شیعہ لکھا ہے نیز کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ مختار کے سپاہیوں کے افسر تھے۔ مختار نے انھیں عبداﷲ بن زبیر کی طرف آٹھ سوسپاہیوں کے ساتھ روانہ کیا تاکہ ابن زبیر سے جنگ کر کے محمد ابن حنفیہ کو ان کی قید سے نکال لیں۔ ابن زبیر نے محمد ابن حنفیہ اور بنی ہاشم کو محصور کر رکھا تھا اور لکڑیاں اکٹھی کی تھیں کہ

۱۵۱

 انھیں جلا ڈالیں کیونکہ ان لوگوں نے ابن زبیر کی بیعت سے انکار گیا تھا۔ ابو عبداﷲ جدلی نے پہیچ کر ان حضرت کو رہا کیا۔

یہ سنیکڑوں میں سے چند نام نے درج کیے ہیں۔ یہ لوگ علوم اسلام کے خزینہ دار ہیں۔ ان سے آثار نبوی(ص) محفوظ ہوئے اور ان پر صحاح وسنن ومسانید کامدار رہا ہے۔

ہم نے آپ کو خواہش کے مطابق ان کے متعلق علمائے اہلسنت کی توثیق اور ان سے احتجاج کو بھی ذکر کیا۔ اس سے آپ رائے میں ضرور تبدیلی ہوگی کہ اہل سنت رجال شیعہ سے احتجاج نہیں کرتے۔ اگر شیعوں کی حدیثیں صرف ان کے تشیع کے تشیع کے جرم میں رد کردی جائیں تو جیسا کہ ذہبی نے میزان میں ابان بن تغلب کے ذکر میں کہا ہے۔ کل آثارِ نبوی ضائع و برباد ہوجائیں۔

ان کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے شیعہ ہیں جن سے اہل سنت نے احتجاج کیا ہے اور وہ ان سے بھی سند کے اعتبار سے اور کثرتِ حدیث سے زیادہ کشادہ دامن اور علم کے اعتبار سے  زیادہ وسیع النظر تھے اور زمانے کے لحاظ سے ان سے بھی مقدم تھے اور ان سے بھی زیادہ ان کے قدم تشیع میں راسخ تھے اصحاب رسول(ص) میں بڑی تعداد رجال شیعہ کی ہے جنھیں ہم نے فصول مہمہ کے آخر میں بیان کیا ہے تابعین میں ایسے حافظ و صدوق و ثقہ شیعہ ہیں جو محبت اہلبیت(ع) کی قربانی پر بھینٹ چڑھتے رہے۔ جنھیں جلا وطن کیا گیا۔ سزائیں دی گئیں۔ قتل کیا گیا۔ سولیاں دی گئیں۔ اور جو علوم و فنون کے موسس و موجد ہوئے۔ یہ صدوق و دیانت ورع و تقوی زہد و عبادت و اخلاص کے روشن سنارے تھے۔ اور ان سے دین الہی کو لامتناہی فائدے پہنچے۔ اور ان کی خدمات کی برکتوں سے اسلام کا بحر بے کنار آج بھی موجزن ہے۔

                                                             ش

۱۵۲

مکتوب نمبر۹

تسلیم !

میں نے آپ ایسا تازہ دم سریع الخاطر و زود فکر نہیں دیکھا اور نہ میرے کانوں نے آپ سے زیادہ صاحب بصیرتِ شخص کا ذکر سنا۔ آپ کی نرم گفتاری، شیریں بیانی قابل داد ہے۔ آپ کےکل مکاتیب میں آپ کو شیوا بیانی دامن دل کو کھینچتی ہے۔ آپ دل و دماغ ، ہوش و حواس پر چھا جاتے ہیں۔ آپ کی مدلل و سنجیدہ تحریر نے گردنیں جھکادیں اور ضلالت کو حق کے سامنے سرنگوں کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ سنی کے لیے کوئی مانع نہیں ہے کہ اپنے شیعہ بھائی سے احتجاج کرے جبکہ شیعہ معتبر ہو۔ لاریب اس موضوع میں آپ کی رائے حق و صداقت پر مبنی ہے منکر کی رائے عناد و تنگ ولی ہے۔

۱۵۳

ہم کل آیات الہی پر ایمان لائے اور ان اکثر آیات الہی پر بھی ایمان لائے جن میں سے اکثر کو آپ نے ذکر کیا ہے جو امیرالمومنین(ع) اور ائمہ اہل بیت(ع) کے فضل و شرف پر دلالت کرتی ہیں۔ اﷲ ہی جانے کہ اہل قبلہ نے ائمہ اہل بیت(ع) سے کیوں بے اعتنائی کی؟ اور اصول وفروع میں ان کے مسلک سے دورہے اور اختلافی مسائل میں ان کے پیرو نہ ہوئے ۔ علمائے امت نے اہل بیت(ع) کا افکار و خیالات سے بحث نہ کی بلکہ بجائے ان کی تقلید کے ان سے معارضہ کرتے رہے اور ان کی مخالفت کی پروانہ کی اور سلف سے لے کر خلف تک عوام امت، غیر اہلبیت(ع) کے آستانوں پر نظر آئے۔ لہذا کلام مجید کی آیتیں اور صحیح اور مسلم الثبوت حدیثیں اگر ائمہ اہلبیت(ع) اطاعت و پیروی کے واجب و فرض ہونے کے متعلق نص صریح ہوتیں تو جمہور اہل سنت کو پیروی اہلبیت(ع) کے سوا چارہ کارہی نہ ہوتا۔ اور ائمہ اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر وہ کسی کو اپنا مقتدا پیشوا بنانا پسندی ہی نہیں کرتے لیکن وہ آیات الہی اور احادیث پیغمبر(ع) کو سمجھتے نہٰیں۔ وہ ان آیات اور ان احادیث کو جن میں اہل بیت(ع) کے شرف وکمال کو بیان کیا گیا ہے، صرف مدح و ثنا سمجھے اور یہ کہ ان سے محبت رکھنا اور ان کی عزت و تعظیم کرنا واجب ہے ان کے نزدیک ان آیات و احادیث کا ماحصل یہ ہے کہ اہل بیت(ع) سے مودت و محبت و اخلاص واجب ہے اور ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اگر آیات قرآن مجید و احادیثِ پیغمبر(ص) میں تصریح ہوتی کہ بس ائمہ اہلبیت(ع) ہی کی پیروی فرض ہے تو اہلِ قبلہ علمائے اہلبیت سے انحراف نہ کرتے۔ اور نہ بجائے ان کے کسی دوسرے کی طرف رجوع کرتے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اگلے بزرگ زیادہ صحیح سمجھنے والے تھے اور کتاب الہی واحادیث پیغمبر(ص) کا مطلب آج کل کے لوگوں سے بہتر سمجھتے تھے۔

                                                             س

۱۵۴

جواب مکتوب

اس ناچیز سے آپ کے حسنِ ظن کا شکریہ۔ آپ کے لطف وعنایات کے سامنے میرا دل جھکا جاتا ہے اور آپ کی مہربانی و حق جوئی کی بیبت مجھ پر مسلط ہے لیکن میں آپ سے یہ گزارش کرنے کی اجازت  چاہتا ہوں کہ آپ اپنے مکتوب پر نظر ثانی کریں جس میں آپ لکھا ہے کہ اہل قبلہ نے اہل بیت(ع) سے عدول کیا۔ یہ لفظ زیادہ وسیع استعمال ہوگیا۔ اہل قبلہ تو شیعہ بھی ہیں انھوں نے ابتدا سے آج تک اصول و فروع کسی چیز میں اہل بیت کے مسلک سے انحراف نہیں کیا۔ شیعہ تو مسلک اہل بیت(ع) پر عمل واجب سمجھتے ہیں۔ اہل بیت(ع) سے عدول رؤسا ملت نے کیا جب کہ نص کے ہوتے ہوئے صاف صاف تصریح خلافت و امامت کے متعلق ہوتے ہوئے امیرالمومنین(ع) کو حق خلافت سے محروم کیا گیا اور اصول و فروع میں اہل بیت(ع) کو چھوڑ کر دوسرے مرکز بنائے گئے اور کتاب وسنت کی مصالح کے لحاظ  سے تاولیں کی گئیں۔ امامت ائمہ سے عدول کرنا ہی سبب ہوا کر فروع میں بھی ان سے علیحدگی اختیار کی جائے۔

قطع نظر کیجیے ان ںصوص و ادلہ سے جن سے اہل بیت(ع) سے تمسک کرنا وا جب ثابت ہوتا ہے صرف اہلبیت(ع) کے علم و عمل اور تقوی کو دیکھیے۔ امام اشعری اور ائمہ اربعہ کے مقابلہ میں ان کی کیا کمی پائی گئی کہ اطاعت و اتباع کے معاملہ میں اہل بیت(ع) پیچھے کردیے گئے۔ اور یہ افراد قابل ترجیح سمجھے گئے۔ کون سامحکمہ اںصاف ہے جو یہ فیصلہ کرے کہ اہل بیت(ع) سے تمسک کرنے والے ان کی ہدایات پر چلنے والے گمراہ ہیں۔ اہل سنت کے لیے ایسا فیصلہ ناممکن معلوم ہوتا ہے۔

                                                                     ش

۱۵۵

مکتوب نمبر۱۰

واقعہ یہ ہے کہ پیروانِ اہلبیت(ع) کو از روئے عدل و اںصاف گمراہی کہا ہی نہیں جاسکتا اور نہ ائمہ اہلبیت(ع) دیگر ائمہ سے لائق پیروی و اقتدا ہونے میں کسی طرح کم تھے۔ جس طرح اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید کر کے انسان بری الذمہ ہوسکتا ہے اسی طرح ائمہ اہلبیت(ع) کی پیروی کرکے بھی۔

بلکہ یہاں تک کہا جاسکتا ہے کہ ائمہ اہلبیت(ع) بہ نسبت ائمہ اربعہ وغیرہ کے اتباع و پیروی کے زیادہ سزاوار ہیں۔ اس لیے ائمہ اثنا عشر کا مسلک و مذہب اصول و فروع سب میں ایک ہے ان میں باہم کوئی اختلاف نہیں۔ سب کی نگاہ ایک ہی مرکز پر کرکوز ہوئی اور اسی پر سب کے سب متفق رہے۔ برخلاف ائمہ اربعہ وغیرہ کے کہ ان کا باہمی اختلاف دنیا جانتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ بارہ شخص غور و فکر کر کے ایک نتیجہ پر پہنچیں ایک رائے قائم کریں اور اکیلا شخص دوسری

۱۵۶

رائے قائم کرے تو بارہ(۱۲) کے متفقہ فتوی کے مقابلہ میں سے اس ایک اور اکیلے کا فتوی کوئی وزن نہ رکھے گا۔

اس میں کسی منصف مزاج کو عذر ہونا چاہیے۔

ہاں ایک بات ہے ناصبی خیال کے آگ آپ لوگوں کے مذہب کو مذہب اہلبیت( ع) ماننے میں تامل کرتے ہیں۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ آگے چل کر اس پر روشی ڈالیں کہ مذہب تشیع مذہب اہلبیت(ع) ہی ہے انھیں حضرات سے ماخوذ ہے ۔ فی الحال میری گزارش ہے کہ آپ لوگ حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت پر جن نصوص کے مدعی ہیں وہ نصوص صاف صاف ذکر فرمائیں۔

                                                                     س

۱۵۷

باب دوم

امامت عامہ یعنی خلافتِ پیغمبر(ص) 

جوابِ مکتوب

اگر سرورِ کائنات (ص) کے حالاتِ زندگی کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے۔ دولتِ اسلامیہ کی بنیاد قائم کرنے۔ احکام مقرر کرنے ، اصول و قواعد بنانے۔ دستور مرتب کرنے، سلطنت کے انتظام اںصرام غرض جملہ حالات میں ہر پہلو سے آپ کی سیرت کا جائزہ لیا جائے تو حضرت امیرالمومنین(ع) رسالت ماب(ص) کے ہر معاملہ میں بوجھ بٹانے والے ، دشمنون کے مقابلہ میں پشت پناہ آپ کے علوم  کا گنجینہ ، آپ کے علم و حکمت کے وارث ، آپ کی زندگی میں آپ کے ولی عہد اور آپ کے بعد آپ کے جانشین، اور آپ کے تمام امور کے ممالک و مختار نظر آئیں گے۔

اول یوم بعثت سے پیغمبر(ص) کی رحلت کے وقت تک سفر میں، حضر میں

۱۵۸

اٹھتے بیٹھے ، آپ کے افعال ، آپ کے اقوال کی چھان بین کی جائے۔ تو حضرت علی(ع) کی خلافت کے متعلق بکثرت صاف و تصریح حد تواتر تک پہنچے ہوئے واضح نصوص ملیں گے۔ آںحضرت(ص) نے ہر محل پر اپنی رفتار و گفتار ، کردار اور ہر ممکن ذریعہ سے اپنی جانشینی کے مسئلہ کی وضاحت کردی تاکہ کسی کے لیے تامل کی گنجائش نہ رہ جائے ۔

دعوت عشیرہ کے موقع پر پیغمبر(ص) کا خلافت امیرالمومنین(ع) پر ںص فرمایا

پہلا واقعہ دعوت ذوالعشیرہ ہی کا لے لیجیے جو اسلام کے ظاہر ہونے کے قبل مکہ میں پیش آیا جب آیہ

“      وَ أَنْذِرْ عَشيرَتَكَ الْأَقْرَبينَ ” ( شعراء، ۲۱۴)

نازل ہوا اور رسول(ص) مامور ہوئے کہ خاص خاص رشتہ داروں کو بلا کر دعوتِ اسلام دیں۔ تو حضرت سرورکائنات نے تمام بنی ہاشم کو جو کم بیش چالیس نفر تھے جس میں آپ کے چچا ابو طالب ، حمزہ ، عباس اور ابولہب بھی تھے اپنے چچا ابو طالب کے گھر میں دعوت دی۔ دعوت کے بعد آپ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ تمام کتبِ احادیث  و سیر و تواریخ میں موجود ہے۔ اسی خطبہ میں آپ نے فرمایا :

 “ فَقَالَ: يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّي وَ اللَّهِ مَا أَعْلَمُ شَابّاً فِي الْعَرَبِ جَاءَ قَوْمَهُ بِأَفْضَلَ مِمَّا جِئْتُكُمْ بِهِ، إِنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِخَيْرِ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ، وَ قَدْ أَمَرَنِي اللَّهُ (عَزَّ وَ جَلَّ) أَنْ أَدْعُوَكُمْ إِلَيْهِ، فَأَيُّكُمْ يُؤْمِنُ بِي وَ يُؤَازِرُنِي عَلَى أَمْرِي، فَيَكُونَ أَخِي وَ وَصِيِّي وَ وَزِيرِي وَ خَلِيفَتِي فِي أَهْلِي مِنْ بَعْدِي قَالَ: فَأَمْسَكَ الْقَوْمُ، وَ أَحْجَمُوا عَنْهَا جَمِيعاً.

۱۵۹

 قَالَ: فَقُمْتُ وَ إِنِّي لَأَحْدَثُهُمْ سِنّاً، وَ أَرْمَصُهُمْ عَيْناً، وَ أَعَْمُهُمْ بَطْناً، وَ أَحْمَشُهُمْ سَاقَا. فَقُلْتُ: أَنَا يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَكُونُ وَزِيرَكَ عَلَى مَا بَعَثَكَ اللَّهُ بِهِ. قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِي ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هَذَا أَخِي وَ وَصِيِّي وَ وَزِيرِي وَ خَلِيفَتِي فِيكُمْ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَ أَطِيعُوا.قَالَ: فَقَامَ الْقَوْمُ يَضْحَكُونَ، وَ يَقُولُونَ لِأَبِي طَالِبٍ: قَدْ أَمَرَكَ أَنْ تَسْمَعَ لِابْنِكَ وَ تُطِيعَ.”

“ فرزندانِ عبدالمطلب ! جتنی بہتر شے( یعنی اسلام ) میں تمھارے پاس لے کر آیا ہوں میں تو نہیں جانتا کہ عرب کا کوئی نوجوان اس سے بہتر چیز اپنی قوم کے پاس لایا ہو۔ میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی لے کر آیا ہوں اور خداوند عالم نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف دعوت دوں۔ اب بتاؤ تم میں کون ایسا ہے جو اس کام میں میرا بوجھ بٹائے تاکہ تمھارے درمیان میرا بھائی وصی اور خلیفہ ہو؟ تو علی(ع) کے سوا سب خاموش رہے۔ حضرت علی(ع) جو اس وقت بہت ہی کم سن ننھے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا : یا رسول اﷲ(ص) ! میں آپ کا بوجھ بٹاؤں گا۔ رسول اﷲ(ص) نے آپ کی گردن پر ہاتھ رکھا اور پورے مجمع کو دکھا کر ارشاد فرمایا: کہ یہ میرا بھائی بنے میرا وصی ہے اور تم میں میرا جانشین ہے۔ اس کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔ یہ سن کر لوگ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوطالب سے کہنے لگے کہ یہ محمد(ص) آپ کو حکم دے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

مکتوب نمبر18

خدا آپ کا بھلا کرے آپ کی دلیلیں کتنی واضح اور روشن ہیں بڑا کرم ہوگا بقیہ ںصوص بھی تحریر فرمائیں۔

                                                                     س

جوابِ مکتوب

ابو داؤد طیالسی کی روایت کو لیجیے ( جیسا کہ استیعاب میں بسلسلہ حالاتِ امیرالمومنین(ع) مذکور ہے) ابن عباس سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ :

“ رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا : کہ تم میرے بعد ہر مومن کے ولی ہو۔”(1)

--------------

1 ـ ابو داؤد و دیگر اہل سنت نے اس حدیث کو ابو عوانہ وضاح بن عبداﷲ یغکری سے انھوں نے ابو بلج یحی بن سلیم فراری سے انھوں نے عمر بن میمون اودی سے انھوں نے ابن عباس سے مرفوعا روایت کیا ہے اس سلسلہ اسناد کے کل رجال حجت ہیں مسلم اور بخاری دونوں نے اپنے صحیح میں ان رجال میں سے ہر ایک کو حجت سمجھا ہے اور ان سے مروی حدیثیں درج کی ہیں سوا یحی بن سلیم کے کہ ان کی روایت ان دونوں نے نہیں لکھی لیکن جرح و تعدیل کے مجتہدین نے یحی بن سلیم کی وثاقت کی تصریح کردی ہے۔ یہ خدا کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے بزرگ تھے۔ علامہ ذہبی نے ان کے حالات لکھتے ہوئے میزان الاعتدال میں ابن معین نسائی  دار قطنی محمد بن سعد ابی حاتم و غیرہ کا یحی بن سلیم کو ثقہ سمجھنا نقل کیا ہے۔

۲۲۱

اسی جیسی ایک صحیح حدیث عمران بن حصین سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ :

“ رسول اﷲ(ص) نے ایک لشکر روانہ کیا اور امیرالمومنین(ع) کو افسر مقرر کیا۔ مال خمس جو ہاتھ آیا اس سے ایک کنیز امیرالمومنین(ع) نے اپنے لیے علیحدہ کر لی۔ لوگوں کو یہ بات کھلی اور چار شخصوں نے باہم طے کیا کہ رسول اﷲ(ص) کی خدمت میں شکایت کی جائے۔ جب رسول اﷲ(ص) کی خدمت میں وہ پہنچے تو ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا : یا رسول اﷲ(ص) ! آپ علی(ع) کو نہیں دیکھتے ؟ انھوں نے ایسا ایسا کیا رسول(ص) نے اس سے منہ پھیر لیا۔ تب دوسرا کھڑا ہوا اس نے بھی ایسے ہی کلمات کہے۔ اس سے بھی رسول(ص) نے منہ پھیر لیا تب تیسرا کھڑا ہوا اس نے بھی اپنے دو ساتھیوں کی طرح شکایت کی۔ اس سے بھی رسول(ص) نے منہ پھیر لیا تب چوتھا کھڑا ہوا اور

۲۲۲

 اگلے ساتھیوں کی طرح اس نے بھی شکایت کی تو اس وقت رسول اﷲ(ص) ان سب کی طرف متوجہ ہوئے اور چہرے سے آثار غضب نمایاں تھے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا : تم علی(ع) کے متعلق چاہتے کیا ہو؟ علی (ع) مجھ سے ہے اور میں علی(ع) سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کے ولی ہیں(1) ۔”

ایسی ہی ایک روایت ابوہریرہ سے مروی ہے جس کی اصل عبارت مسند احمد بن حنبل ج5 صفحہ 356 پر موجود ہے۔

“ بریدہ کہتے ہیں کہ رسول(ص) نے دو رسالے یمن کی جانب روانہ کیے ایک پر حضرت علی(ع) کو افسر بنایا دوسرے پر خالد بن ولید کو اور ارشاد فرمایا کہ جب تم دونوں مل جاؤ تو دونوں کے افسر علی(ع) ہی ہوں گے۔ اور جب تک الگ رہو تو ہر ایک اپنے

--------------

1 ـ بہت سے اصحاب سنن نے اس روایت کو درج کیا ہے۔ امام نسائی نے خصائص علویہ میں احمد بن حنبل نے بسلسلہ حدیث عمران صفحہ438 جلد رابع مسند میں امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 11 پر علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں بشرائط مسلم اس کی صحت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے ابن ابی شیبہ نے اس کی روایت کی ہے۔ ابن جریر نے اس کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ جیسا کہ علامہ متقی ہندی نے ان دونوں سے نقل کر کے کنزالعمال جلد6 شروع صفحہ 400 پر لکھا ہے نیز ترمذی نے بھی اس حدیث کی قوی اسناد سے روایت کی ہے جیسا کہ علامہ عسقلانی نے اصابہ میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) ذکر کیا ہے اور ان سے علامہ معتزلہ ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد2 صفحہ450 پر نقل کیا ہے نیز لکھا ہے کہ اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں ایک جگہ نہیں متعدد و مقامات پر تحریر کیا ہے۔

۲۲۳

 اپنے دستہ کا افسر رہے گا۔(1) بریدہ کہتے ہیں کہ : اہل یمن کے بنی زبیدہ سے ہماری مڈبیھڑ ہوئی اور گھمسان کا رن پڑا۔ آخر مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ ہم نے جنگ آزماؤں کو موت کے گھاٹ اتارا اور ان کی عورتوں بچوں کو قید کر لیا۔ حضرت علی(ع) انھیں قیدیوں میں سے ایک عورت کو اپنے لیے الگ کر لیا۔ بریدہ کہتے ہیں : کہ خالد نے ایک نامہ میرے ہاتھوں رسول(ص) کی خدمت میں بھیجا۔ جس میں واقعہ کی رسول(ص) کو خبر دی تھی۔ میں نے خدمت میں پہنچ کر وہ نامہ پیش کیا۔ خط جب پرھا گیا تو غیظ و غضب کے آثار رسول(ص) کے چہرے پر نمایاں ہوٹے میں نے عرض کی : میں معافی کا خواستگار ہوں آپ نے مجھے ایک شخص کے ہمراہ بھیجا اور مجھے اس کی اطاعت کا حکم دیا

--------------

1 ـ رسول اﷲ(ص) نے حضرت علی(ع) پر کبھی کسی کو افسر نہیں مقرر کیا بلکہ حضرت علی(ع) ہی ہمیشہ افسر ہوا کیے۔ اور ہر معرکہ میں علم لشکر آپ ہی کے ہاتھوں میں رہا بر خلاف غیروں کے ۔ ابوبکر و عمر اسامہ کی ماتحتی میں رکھے گئے۔ اس پر تمام مورخین متفق ہیں۔ نیز یہ دونوں بزرگوار غزوہ ذات السلاسل میں عمرو عاص کے ماتحت بنائے گئے ان دونوں  حضرات کا اس غزوہ میں اپنے افسر عمرو عاص کے ساتھ ایک مشہور قضیہ بھی ہے جسے امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 43 پرلکھا ہے اور علامہ ذہبی نے اس کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے تلخیص مستدرک میں درج کیا ہے لیکن حضرت علی (ع) نہ تو کسی کی ماتحتی میں رہے نہ محکوم بنے۔ بجز سرورِ کائنات کے۔ رسول کی بعثت سے وفات تک۔

۲۲۴

میں نے اس کی فرمانبرداری کی۔ رسول(ص) نے فرمایا : خبردار علی(ع) کے متعلق کچھ کہنا سننا نہیں۔ علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی (ع) سے ہوں اور علی(ع) میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں(1) ۔ ”

--------------

1 ـ یہ تو وہ روایت ہے جسے امام احمد نے مسند جلد5 کے صفحہ 356 پر بطریق عبداﷲ بن بریدہ لکھا ہے۔ دوسری جگہ مسند ج5 صفحہ 347 پر سعید بن جبیر سے روایت کی ہے انھوں نے ابن عباس سے انھوں نے ابن بریدہ سے ۔بریدہ کہتے ہیں کہ میں حضرت علی(ع) کے ساتھ جنگ یمن میں شریک تھا۔ حضرت علی(ع) درشتی سے پیش آتے تھے میں جب واپس پلٹا تو رسول(ص) کی خدمت میں اس کا ذکر کیا اور حضرت کی تنقصت کی ۔ میں نے دیکھا کہ رسول(ص) کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ رسول(ص) نے پوچھا : اے بریدہ کیا میں تمام مومنین کی جانوں کا مالک نہیں؟ بریدہ نے کہا: بے شک یا رسول اﷲ(ص) ۔ آپ نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں۔ امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 10 پر اس حدیث کولکھا جہے ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے محدثین نے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ یہ حدیثیں جو درج کی گئیں ہمارے مقصود پر بین دلیل ہیں کیونکہ رسول(ص) کا جملہ الست اولیٰ بالمومنین من انفسہم کو مقدم فرمانا قرینہ غالب ہے کہ اس حدیث میں مولیٰ سے مراد اولی ہے جیسا کہ بظاہر عبارت سے معلوم ہوتا ہے۔ اسی جیسی ایک حدیث اور ہے جسے بہت سے محدثین نے بیان کیا ہے۔ من جملہ ان کے امام احمد نے مسند ج3 صفحہ 483 پر عمرو بن شاس اسلمی سے اس حدیث کی روایت کی  ہے۔یہ حدیبیہ میں شریک ہونے والوں میں سے تھے۔ عمرو بن شاس کہتے ہیں کہ میں حضرت علی(ع) کے ساتھ یمن گیا۔ سفر میں حضرت علی(ع) درشتی سے پیش آئے میں دل میں بہت برہم ہوا جب رسول کی خدمت میں واپس آیا تو میں نے مسجد میں ان کی شکایت کی ۔ رسول(ص) کو بھی اس کی خبر ہوئی دوسرے دن صبح کو جب میں مسجد میں آیا تو رسول اﷲ(ص) حلقہ اصحاب میں تشریف فرما تھے میں سامنے آیا تو مجھے کڑی نگاہ سے دیکھنے لگے جب میں بیٹھ گیا تو فرمایا : اے عمرو تم نے مجھے بڑی تکلیف پہنچائی۔ میں نے عرض کی کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ آپ کی تکلیف کا باعث ہوں۔ آپ نے فرمایا : کہ ہاں تم میری ایذا رسانی کے باعث ہوئے ۔ یاد رکھو جس نے علی(ع) کو اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت دی۔

۲۲۵

اور امام نسائی نے خصائص علویہ میں یہ عبارت لکھی ہے :“ اے بریدہ ! مجھے علی(ع) کا دشمن بنانے کی کوشش نہ کرو کیونکہ علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں اور وہ میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں۔”

اور ابن حریر کی عبارت یہ ہے :

“ بریدہ کہتے ہیں کہ دفعتا رسول(ص) کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا : کہ میں جس کا ولی ہوں علی(ع) اس کے ولی ہیں۔ یہ سن کر میرے دل میں جو کچھ برے خیالات امیرالمومنین(ع) کی طرف سے قائم ہوگئے تھے دور ہوگئے اور میں نےطے کر لیا کہ آج سے پھر برائی کے ساتھ یاد نہ کروں گا(1) ۔”

طبرانی نے اس حدیث کو ذرا تفصیل سے درج کیا ہے ان کی روایت میں ہے کہ :

“ بریدہ جب یمن سے واپس آئے اور مسجد میں پہنچے تو رسول(ص) کے حجرے کے دروازے پر ایک جماعت لوگوں کی موجود تھی لوگ

--------------

1 ـ جیسا کہ علامہ متقی ہندی نے کنزالعمال ج6 صفحہ 398 پر نقل کیا ہے۔نیز منتخب کنزالعمال میں  بھی نقل کیا ۔

۲۲۶

انھیں دیکھ کر ان کی طرف بڑھے۔ سلام و مزاج پرسی کرنے اور یمن کے حالات دریافت کرنے لگے کہ کیا خبر لے کے آئے بریدہ نے کہا : اچھی ہی خبر ہے۔ خدا نے مسلمانوں کو فتح بخشی، لوگوں نے پوچھا کہ آنا کیسے ہوا، میں نے کہا کہ مال خمس سے علی(ع)  نے ایک کنیز لے لی ہے۔ میں اسی کی رسول(ص) کو خبر کرنے آیا ہوں لوگوں نے کہا سناؤ سناؤ رسول(ص) کو تاکہ علی(ع) رسول(ص) کی نظروں سے گریں۔ آںحضرت(ص) دروازے کے عقب سے لوگوں کی یہ گفتگو سن  رہے تھے۔ آپ غیظ و غضب کی حالت میں برآمد ہوئے اور ارشاد فرمایا : کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ علی(ع) کی برائی کرتے ہیں۔ جس نے علی(ع) کو غضب ناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا جو علی(ع) سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوا ۔ علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں۔ میری طینت سے علی(ع) کی خلقت ہوئی اور میں جناب ابراہیم(ع) کی طینت سے خلق ہوا اور میں جناب ابراہیم(ع) سے بہتر ہوں(1) ۔”

-----------

1 ـ چونکہ حضرت سرورکائنات(ص) نے فرمایا  تھا کہ علی(ع) میری طینت سے مخلوق ہوئے اور آںحضرت(ص) بدیہی طور پر علی(ع) سے افضل ہیں تو اب آںحضرت(ص) کے اس جملہ سے کہ میں ابراہیم(ع) کی طینت سے خلق ہوا یہ وہم پیدا ہوتا تھا کہ ابراہیم(ع) حضرت سرورکائنات (ص) سے افضل ہیں اور یہ قطعی طور پر مخالف واقع ہے۔ آںحضرت(ص) تو تمام انبیاء و مرسلین(ع) کے خاتم اور سب سے افضل و اشرف ہیں اس لیے آپ نے اس وہم کو دور کرنے کے لیے یہ فرمایا کہ میں ابراہیم(ع) سے افضل ہوں۔

۲۲۷

“اے بریدہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ علی(ع) کا حصہ اس کنیز سے بہت زیادہ ہے جو انھوں نے لی ہے اورمیرے بعد وہی تم لوگوں کے ولی ہیں(1) ۔”

یہ حدیث ایسی عظیم الشان حدیث ہے جس کے متعلق شک کیا ہی نہیں جاسکتا۔ بریدہ سے بکثرت طرق سے مروی ہے اور جمیع طرق معتبر و مستند ہیں۔

اسی جیسی ایک اور عظیم الشان حدیث حاکم نے ابن عباس سے روایت کی ہے ۔ جس میں امیرالمومنین(ع) کے دس مختص فضائل ذکر کیے ہیں :

“ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول(ص) نے علی (ع) سے فرمایا : تم میرے بعد ہر مومن کے ولی ہو(2) ۔”

--------------

1 ـ بن حجر نے اس حدیث کو طبرانی سے صواعق محرقہ باب11 میں نقل کیا ہے لیکن جب اس جملے پر پہنچے اما علمت ان لعلی اکثر من الجاریہ ” کیا تم نہیں جانتے کہ علی (ع) کا حصہ اس کنیز سے زیادہ ہے ان کا قلم رک گیا اور ان کے نفس نے گوارا نہ کیا کہ جملہ پورا لکھیں انھوں نے الیٰ آخر الحدیث  لکھ کر عبارت ختم کر دی ہے۔ ابن حجر جیسے متعصب اشخاص سے اس قسم کی باتین تعجب خیز نہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم لوگوں کو عصبیت سے محفوظ رکھا۔

2 ـ امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 134 کے شروع میں اس حدیث کو لکھا ہے ۔ نیز علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے درج کیا ہے۔ امام نسائی نے خصائص علویہ ص6 پر لکھا ہے اور امام احمد نے مسند ج1 ص331 پر تحریر کیا ہے ہم پوری حدیث ص193 تا ص199 پر درج کرچکے ہیں۔

۲۲۸

اسی طرح ایک اور حدیث ہے جس میں رسول اﷲ(ص) کا یہ قول مذکورہ ہے کہ :

“ اے علی(ع) میں نے تمہارے بارے میں خداوند عالم سے پانچ چیزوں کا سوال کیا۔ چار تو خدا نے مرحمت فرمائیں اور ایک نہیں عطا فرمائی ۔ جو باتیں خدا نے مرحمت فرمائیں ان سے ایک یہ کہ تم میرے بعد مومنین کے ولی ہو(1) ۔”

اسی طرح وہ حدیث ہے جو ابن سکن سے وہب بن حمزہ نے روایت کی ہے ( ملاحظہ ہو اصابہ تذکرہ وہب) وہب کہتے ہیں:

“ میں نے ایک مرتبہ حضرت علی(ع) کے ساتھ سفر کیا ۔ سفر کے ایام میں حضرت علی(ع) کی طرف سے درشتی و سختی دیکھی تو میں نے دل میں تہیہ کیا کہ جب مدینہ پلٹوں گا تو رسول(ص) سے اس کی شکایت کروں گا۔ جب واپس ہوا تو میں نے رسول(ص) سے علی(ع) کی شکایت کی۔ رسول(ص) نے فرمایا : ایسی باتیں  علی(ع) کے متعلق کبھی نہ کہنا کیونکہ وہی میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں۔”

طبرانی نے بھی معجم کبیر میں وہب سے یہ روایت نقل کی ہے مگر اس میں یہ عبارت ہے کہ :

“ یہ بات علی(ع) کے لیے نہ کہو وہ میرے بعد تمام لوگوں سے زیادہ تم پر اختیار رکھتے ہیں(2) ۔”

--------------

1 ـ یہ حدیث کنزالعمال جلد6 صفحہ 396 پر موجود ہے نمبر حدیث 1048۔

2 ـ کنزالعمال ج6 صفحہ 155 حدیث 2589۔

۲۲۹

ابن ابی عاصم نے امیرالمومنین(ع) سے مرفوعا روایت کی ہے :

“ رسول (ص) نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں لوگوں پر ان سے زیادہ اختیار و اقتدار نہیں رکھتا؟ لوگوں نے کہا بے شک آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا کہ : میں جس جس کا ولی ہوں، علی(ع) اس کے ولی ہی(1) ۔”

امیرالمومنین(ع) کی ولایت کے متعلق ائمہ طاہرین(ع) سے متواتر صحیح حدیثیں منقول ہیں۔ اتنا جو لکھا گیا ہے یہی امید ہے کافی ہو سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آیتانما ولیکم اﷲ بھی ہمارے قول کی تائید کرتی ہے۔

                                                     ش

--------------

1 ـ متقی ہندی نے ابن ابی عاصم سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ملاحظہ ہو ص397 جلد 6 کنزالعمال۔

۲۳۰

مکتوب نمبر19

لفظ ولی، مددگار، دوست ، محب ، داماد ، پیرو، حلیف ، ہمسایہ اور ہر اس شخص پر بولا جاتا ہے جوکسی کے معاملات کا نگراں و مختار کل ہو۔ یہ اتنے معنوں میں مشترک ہے۔ لہذا آپ نے جتنی حدیثیں ذکر فرمائی ہیں غالبا ان تمام حدیثوں میں مراد ی ہے کہ علی(ع) میرے بعد تمھارے مددگار ہیں یا دوست ہیں یا محب ہیں۔

لہذا ان احادیث سے اور اس لفظ ولی سے آپ(ع) کی خلافت کہا ں ثابت ہوتی ہے؟

                                                                     س

جواب مکتوب

آپ نے لفظ ولی کے جتنے معانی درج کیے ہیں ان میں ایک یہ بھی

۲۳۱

 آپ نے تحریر فرمایا کہ جوکسی کےمعاملات کا نگراں ومختار کل ہو اسے بھی ولی کہتے ہیں تو ان تمام احادیث میں لفظ ولی سے یہی معنی مراد ہیں اور لفظ ولی کے سننے سےیہی معنی متبادر الی الذہن بھی ہوتے ہیں۔ جیسا ہم لوگوں کے اس قول میں “ ولی القاصر ابوہ وجدہ لابیہ ، ثم وصی احد ہما ثم الحاکم الشرعی”

“ شخص قاصر کا ولی اس کا باپ ہے پھر اس کا دادا اور ان دونوں کے نہ ہونے پر ان کا وصی اور سب کی غیر موجودگی میں حاکم شرعی۔”

تو یہاں لفظ ولی سے مراد یہی ہے کہ شخص قاصر کےیہی  لوگ نگران و مختار ہیں اس کے معاملات میں انہی کو تصرف کا اختیار ہے۔

مذکورہ بالا احادیث میں ایسے واضح قرائن بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر(ص) نے لفظ ولی بول کر نگران و مختار ہی مراد لیا ہے جیسا کی صاحبانِ عقل و ادراک سے مخفی نہیں کیونکہ رسول(ص) کا فرمانا کہ :

“ یہ علی(ع) میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں۔”

بین ثبوت ہے کہ یہاں لفظ ولی سے مقصود بس یہی معنی ہیں کوئی دوسرا نہیں کیونکہ  وھو ولیکم بعدی ۔ یہی علی(ع) میرے بعد تمھارے ولی ہیں، اس کا مطلب تو یہی ہوا کو میرے بعد علی(ع) کے سوا تمھارا اور کوئی ولی نہیں۔ لہذا قطعی طور پر ان احادٰیث میں ولی سے یہی معنی سمجھنے پڑیں گے کسی اور معنی کی گنجائش ہی نہیں نکل سکتی۔ اس لیے کہ نصرت، محبت ، دوستی وغیرہ یہ کسی فرد خاص میں تو منحصر نہیں۔ تمام مومنین و مومنات ایک دوسرے کے دوست اور محب ہیں۔ ہم جو معنی

۲۳۲

مراد لیتے ہیں یعنی نگران و مختارر کل اگر یہ مقصود نہ ہو اور آپ کے کہنے کی بنا پر دوست یا محب مقصود ہے تو پھر آخر رسول(ص) اس شد ومد سے حضرت  علی(ع) کو ولی بنا کر ان کو کون سا امتیازی درجہ دینا چاہتے تھے یا کون سی فضیلت علی(ع) کو مل جاتی ہے اگر لفظ ولی سے مراد مددگار، دوست اور محب ہی کے مقصود ہیں تو ان احادیث کے ذریعہ حضرت علی(ع) کی ولایت کا اعلان کر کے کسی ڈھکی چھپی ہوئی بات کو رسول(ص) نمایاں کرنا چاہتے تھے؟

رسول(ص) کی شان کہیں اجل و ارفع ہے اس سے کہ باکل بدیہی اور ظاہری چیز کے واضح کرنے کے لیے اتنا اہتمام فرمائیں۔ آںحضرت(ص) کی حکمت ِ بالغہ، اندازِ عصمت، شان خاتمیت ان مہل خیالات و اوہام سے کہیں بزرگ برتر ہے علاوہ اس کے کہ ان احادیث میں تصریح ہے کہ علی بعد رسول(ص) لوگوں کے ولی ہیں، بعد رسول(ص) کی قید کو دیکھتے  ہوئے کوئی چارہ کار ہی نہیں سوا اس کے کہ ولی کے معنی وہی لیے جائیں جو ہم لیتے ہیں یعنی نگران و مختار کل۔ورنہ رسول(ص) کا یہ قید لگانا مہمل ہوجاتا ہے۔

کیا  حضرت علی(ع) رسول(ص) کی زندگی میں مسلمانوں کے محب ومددگار نہ تھے؟ کیا آپ کو کسی لمحہ بھی مسلمانوں کی نصرت سے منہ موڑتے ہوئے دیکھا گیا۔ حضرت علی(ع) تو جب سے آغوش رسالت میں پل کر اور کنارِ تربیت پیغمبر(ص) میں پرورش پاکر نکلے اس وقت سے رسول(ص) کی رحلت کے وقت تک مسلمانوں کے ناصر رہے۔ مسلمانوں کے دوست و محب رہے ۔لہذا یہ کہنا کیونکہ صحیح ہوسکتا ہے کہ رسول(ص) کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد علی(ع) مسلمانوں کے ناصر و مددگار ہیں۔ دوست اور محب ہیں۔

ہم جو لفظ ولی سے معنی سمجھتے ہیں اسی کے واقعا مقصود مراد ہونے

۲۳۳

 پرمن جملہ اور قرائن کے ایک وہی حدیث کافی ہے جو امام احد بن حنبل نےمسند جلد5 صفحہ 347 پر بطریق صحیح روایت کی ہے۔ بریدہ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ :

“ میں حضرت علی(ع) کےساتھ یمن کی جنگ میں شریک تھا حضرت علی(ع) کچھ سختی سے پیش آتے تھے۔ میں جب رسول(ص) کی خدمت میں پہنچا تو اس کا ذکر کیا اور حضرت علی(ع) کی کچھ تنقصت کی میں نے دیکھا کہ رسول(ص) کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ اے بریدہ الست اولیٰ بالمومنین من انفسہم کیا میں مومنین سے بڑھ کر ان پر اختیار نہیں رکھتا ۔ میں نے کہا بے شک یا رسول اﷲ(ص) ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یاد رکھو : جس جس کا میں مولی ہوں علی(ع) اس کے مولی ہیں۔”

اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک ج2 صفحہ 120 پر درج کیا ہے اور امام مسلم کے نزدیک جو شرائط صحت ہیں ان کے لحاظ سے صحیح قرار دیا ہے۔ نیز علامہ ذہبی نے بھی تلخیص میں اسے درج کیا ہے اور بشرائط مسلم اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔

رسول(ص) کا جملہ الست اولی بالمومنین من انفسہم کو مقدم کرنا پہلے یہ اقرار لے لینا کہ کیا میں تم سے زیادہ اولی نہیں ہوں بین دلیل ہے کہ لفظ ولی سے مقصود وہی معنی ہیں جو ہم سمھتے ہیں کوئی دوسرا نہیں۔

ان احادیث پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو خود بخود مطلب واضح ہوجائے گا اور ہمارے قول میں کوئی شک وشبہ باقی نہ رہے گا۔

                                                     ش

۲۳۴

  مکتوب نمبر20

واقعی آپ بڑی قوتِ استدلال کے مالک ہیں۔کوئی نبرد آزما آپ کے مقابلہ میں میدان بحث میں جم نہیں سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ تمام احادیث اسی مطلب پر دلالت کرتی ہیں جو آپ نے بیان کیا اگر صحابہ ( کے مسلک) کو صحیح سمجھنے کی مجبوری نہ ہوتی تو میں آپ کے فیصلہ پر سرتسلیم خم کردیتا لیکن مجبوری یہ ہے کہ ہم صحابہ کے مسلک سے اںحراف نہیں کرسکتے اور نہ ان کے سمجھے ہوئے معنی و مطلب کے علاوہ کوئی دوسرا معنی سمجھ سکتے ہیں لہذا خواہ مخواہ حدیث کو س کی ظاہری معنی سے پھیرنا ہی پڑے گا۔ ظاہری معنی چھوڑ کر کوئی معنی مراد لینا ہی ہوگا تاکہ سلف صالحین کا دامن ہاتھ سے جانے نہ پائے اور ان کے جادہ سے اپنے قدم نہ ہٹیں ۔ آپ نے سابق مکتوب میں جس آیت محکمہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ کہ یہ بھی ہمارے قول کی موئد ہے  آپ نے اس کی تصریح نہیں فرمائی براہ کرم لکھیے کہ وہ کون سی آیت ہے۔

                                                     س

۲۳۵

جوابِ مکتوب

وہ آیہ محکمہ کلامِ مجید کی سورہ مائدہ کی یہ آیت ہے :

  “ إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ وَ مَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغالِبُونَ” (مائدہ ، 55۔ 56)

“ بے شک تمھارا ولی خدا ہے اس کا رسول(ص) ہے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوة دیتے ہیں در آںحالیکہ وہ رکوع میں ہوتے ہیں۔ جو شخص خدا اور اس کے رسول(ص) اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے اپنا ولی سمجھے گا تو یہ سمجھ رکھو کہ خدا کی جمعیت ہی غالب رہنے والی ہے۔”

اس آیت کےامیرالمومنین(ع) کی شان میں نازل ہونے کے متعلق ائمہ طاہرین(ع) سے متواتر صحیح احادیث موجود ہیں۔ ائمہ طاہرین(ع) سے قطع نظر دیگر طریقوں سے جتنی روایتیں اس آیت کے سلسلہ میں پائی جاتی ہیں اور جو شان نزول آیت کے متعلق نص صریح ہیں ان میں ایک ابن اسلام ہی کی حدیث کو لے لیجیے جو رسول(ص) سے مرفوعا مری ہے ملاحظہ ہو صحیح نسائی یا کتاب الجمع بین الصحاح ستہ بسلسلہ تفسیر سورہ مائدہ اسی جیسی ایک حدیث ابن عباس سے مروی ہے اور ایک حدیث امیرالمومنین(ع) سے۔ ابن عباس کی حدیث امام واحدی کی کتاب اسباب النزول میں بسلسلہ تفسیر آیت انما موجود ہے

۲۳۶

جسے کتاب متفق میں علامہ خطیب نے بھی درج کیا ہے۔ امیرالمومنین(ع) کی حدیث بسند ابن مردویہ اور مسند ابو الشیخ میں موجود ہے کنزالعمال جلد5 صفحہ 405 پر بھی آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔

علاوہ اس کے اس آیت کا امیرالمومنین(ع) کی شان میں نازل ہونا ایسا مسلم ہے جس سے انکار ہی نہیں کیا جاسکتا۔ تمام مفسرین اجماع کیے بیٹھے ہیں اور مفسرین کے اس اجماع کو سینکڑوں علمائے اعلام اہلسنت نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے منجملہ ان کے علامہ قوشجی نے شرح تجرید کے مبحث امامت میں اس اجماع کا ذکر کیا ہے۔

غایة المرام باب 18 میں 24 حدیثیں بطریق جمہور مذکور ہیں جو شان نزول کے متعلق ہماری موئد ہیں۔ ایک تو اختصار ملحوظ ہے ، دوسرے یہ مسئلہ آفتاب سے بھ زیادہ واضح ہے ورنہ ہم وہ تمام صحیح احادیث اکٹھا کردیتے جو اس آیت کے حضرت علی(ع) کی شان مین نازل ہونے کے متلعق مروی ہیں لیکن یہ تو وہ نا قابل انکار حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں۔

پھر بھی ہم اس مکتوب کو جمہور کی حدیث سے خالی نہیں رکھنا چاہتے صرف ایک امام ابواسحق احمد بن محمد بن ابراہیم نیشاپوری ثلعبی کی تفسیر کا حوالہ دے دیتے ہیں۔

امام مذکور اپنی تفسیر میں اس آیت پر پہنچ کر بسلسلہ اسناد جناب ابوذر کی ایک حدیث درج فرماتے ہیں ۔ جناب ابوذر فرماتے ہیں کہ :

“ میں نے خود اپنے کانوں سے رسول اﷲ(ص) کو  کہتے سنا ( اگر میں غلط کہتا ہوں تو میرے دونوں کان بہرے ہوجائیں) اور میں نے اپنی ان آنکھوں سے رسول(ص) کو دیکھا ( ورنہ میری دونوں آنکھیں

۲۳۷

کور ہو جائیں) رسول(ص) فرماتے تھے کہ علی(ع) نیکو کاروں کے قائد کافروں کے قاتل ہیں۔ جو علی(ع) کی مدد کرے گا وہ نصرت یافتہ ہوگا اور جو علی(ع) کا ساتھ نہ دے گا اس کی مدد نہ کی جائے گی۔ میں نے ایک دن رسول(ص) کے ساتھ نماز پڑھی ایک سائل نے مسجد میں آکر سوال کیا کسی نے کچھ نہ دیا۔ حضرت علی(ع) حالتِ رکوع میں تھے۔ آپ نے اپنی انگلی کی طرف اشارہ کیا جس میں انگوٹھی پہنے ہوئے تھے ۔ سائل بڑھا اور اس نے انگوٹھی اتار لی ۔ اس پر رسول اﷲ(ص) نے خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر دعا مانگی ۔ عرض کیا  میرے معبود ! میرے بھائی موسی نے تجھ سے سوال کیا تھا ( کہا تھا کہ اے میرے معبود ! میرے سینہ کو کشادہ فرما میرے معاملہ کو سہل بنا، میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے اہل میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا۔ ان کے ذریعہ میری کمر مضبوط کر اسے میرا شریک کار قرار دے تاکہ ہم دونوں زیادہ تیری تسبیح کریں اور بہت زیادہ ذکر کریں تو ہماری حالت کو بخوبی دیکھنے والا ہے تو خداوندا تو نے ان پر وحی نازل فرمائی کہ تمھاری تمنائیں پوری کی گئیں) اے میرے معبود! میں تیرا نبی(ص) ہوں میرے سینہ کو بھی کشادہ فرما میرے معاملہ کو سہل کر اور میرے اہل سے علی(ع) کو میرا وزیر بنا اس کے ذریعہ میری کمر کو مضبوط کر۔۔۔ جناب ابوذر فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم رسول(ص) کا کلام پورا بھی نہ ہونے پایا تھا کہ جبرئیل امین اس آیت انما کو لے کر نازل ہوئے ” جز این نیست کہ تمھارا

۲۳۸

حاکم و مختار خدا ہے اور اس کا رسول(ص) اور وہ لوگ جو ایمان لائے جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں جو شخص خدا اور رسول (ص) اور ایمان لانے والوں سے وابستہ ہوگا تو کوئی شبہ نہیں کہ خدا کی جمعیت ہی غلبہ پانے والی ہے۔”

آپ سے مخفی نہیں کہ اس جگہ ولی سے مراد ولی بالتصرف ہی ہے جیسے ہم لوگوں کے اس قول میں کہ فلاں ولی القاصر ہے، ولی سے مقصود اولیٰ بالتصرف ہے۔ اہل فقہ نے تصریح کردی ہے کہ  ہر وہ شخص جو کسی کے معاملات میں متصرف و مختار ہو وہ اس کا ولی ہے لہذا اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ جو تمھارے امور کے مالک و مختار ہیں اور تم سے زیادہ تمھارے امور میں تصرف کا حق رکھتے ہیں وہ خداوند عالم ہے اور اس کا رسول(ص) اور علی(ع) کیونکہ حضرت علی(ع) ہی کی ذات بس ایک ایسی ذات ہے جس میں آیت کے مذکورہ بالا صفات مجتمع تھے۔ ایمان، نماز کو قائم کرنا اور بحالتِ رکوع زکوة دینا اور آپ ہی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔

خداوند عالم نے اس آیت میں اپنے لیے، اپنے رسول(ص) کے لیے اپنے ولی کے لیے ایک ہی ساتھ ولایت ثابت کی ہے، ایک ہی ذیل میں جس طرح خود ولی ہے اسی طرح بغیر کسی فرق کے اپنے رسول(ص) اور اپنے ولی کو بھی لوگوں کا ولی فرمایا ۔ یہ ظاہر ہے کہ خداوند عالم کی ولایت عام ہے لہذا نبی(ص) اور ولی کی ولایت جیسی عام ہونا چاہیے، وہ جن معنوں میں ولی ہے اور جس حیثیت کی ولایت اسے حاصل ہے ٹھیک انھیں معنوں میں اور اسی حیثیت سے امیرالمومنین(ع) کو بھی ولایت حاصل ہونی چاہیے۔

اور یہاں تو یہ ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ ولی نصیر یا محب وغیرہ مراد

۲۳۹

 لیا جائے ورنہ حصر کی کوئی وجہ باقی نہ رہے گی۔ جب ولی کے معنی مددگار یا دوست ہی کے لیے جائیں تو پھر اس کا انحصار صرف تین فردوں میں کیونکر صحیح ہوگا۔ کیا بس خدا اور رسول(ص) اور علی(ع) ہی مومنین کے دوست ہیں اور مددگار ہیں۔ دوسرا کوئی نہیں ؟ حالانکہ خود خداوند عالم نے فرمایا ہے کہ  : مومنین ایک دوسرے کے اولیاء ہیں، دوست ہیں، مددگار ہیں میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ دنیا میں جتنی بدیہی چیزیں ہیں انھیں میں سے ایک یہ بھی ہے یعنی آیہ مبارکہ میں ولی سے مراد اولیٰ بالتصرف ہونا نہ کہ محب ، دوست، نصیر وغیرہ ۔

                                                                     ش

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639