دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)12%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272312 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

 بھلائی ہی پیش نظر رہے اور فساد کرنے والوں کی پیروی نہ کرنا۔”

تیسری جگہ ارشادِ خداوند عالم ہے:

 “ قالَ قَدْ أُوتيتَ سُؤْلَكَ يا مُوسى‏” (طہ، ۳۶)

“ اے موسی(ع) ! تمھاری التجائیں منظور کی گئیں۔”

لہذا جس طرح جناب ہارون جناب موسی(ع) کے وزیر تھے، قوتِ بازو تھے ، شریک کارِ رسالت تھے، خلیفہ و جانشین تھے اسی طرح امیرالمومنین(ع) بھی ارشاد پیغمبر(ص) کی بنا پر پیغمبر(ص) کے وزیر تھے، امت میں پیغمبر(ص) کے جانشین تھے، کار رسالت میں شریک تھے( زیادہ سے زیادہ یہ کہ سب باتیں بر سبیل نبوت نہ تھیں بلکہ بلحاظ خلافت حاصل تھیں) اور تمام امت سے افضل تھے اور آںحضرت(ص) کی حیات و موت دونوں حالتوں میں بہ نسبت تمام امت کے آپ سے زیادہ خصوصیت رکھنے والے تھے اور جس طرح جناب موسی(ع) کی امت پر جناب ہارون کی اطاعت فرض تھی اسی طرح تمام امت اسلامیہ پر حضرت علی(ع) کی اطاعت بھی لازم تھی۔

ہر سننے والا حدیث منزلت کو سن کر یہی سمجھتا ہے اور سننے کے بعد اس کے ذہن میں یہی باتیں آتی ہیں اور انھیں باتوں کے مقصود ہونے میں کسی قسم کا شک نہیں ہوتا۔ خود رسول اﷲ(ص) نے بھی اچھی طرح وضاحت فرمادی اور سکی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رکھی۔ آپ کا یہ فرمانا کہ :

ان ه لا ينبغی ان اذهب الا و انت خليفتی

“ میرا قدم باہر نکالنا مناسب نہیں جب تک تمھیں اپنی جگہ پر قائم مقام نہ  چھوڑ جاؤں”

۱۸۱

صریح ںص ہے کہ حضرت علی(ع) ہی خلیفہ رسول تھے۔ بلکہ اس سے بھی کچھ بڑھ کر روشن وضاحت ہے اس امر کی کہ اگر آںحضرت علی(ع) کو اپنا خلیفہ بنائے بغیر چلے جاتے تو نا مناسب فعل کے مرتکب ہوتے۔

رسول (ص) کا یہ ارشاد کہ میرے لیے یہ مناسب ہی نہیں کہ بغیر تمھیں اپنا خلیفہ بنائے ہوئے چلا جاؤں یہ بتاتا ہے کہ رسول اﷲ(ص) مامور تھے۔ آپ کو حکم دیا تھا خداوند عالم نے کہ علی(ع) کو اپنا خلیفہ بنا جانا جیسا کہ آیہ بلغ کی تفسیر دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے:

  “ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ ” ( مائدہ ، ۶۷)

“ اے رسول(ص) ! پہنچا دو تم اس حکم کو جو تم پر نازل کیا گیا۔ اگر تم نے نہیں پہنچایا تو گویا تم نے کارِ رسالت انجام ہی نہیں دیا۔”

آیت کے ٹکڑوں کو خوب اچھی طرح دیکھیےيا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ کے بعد یہ دوسرا ٹکڑاوَ إِنْ لَمْ قیامت کا ٹکڑا ہے۔ آیت کے اس ٹکڑے کو حدیث رسول(ص) کے اس جملہ کے ساتھان ه لا ينبغی ان اذهب الا و انت خليفتی سے ملائیے تو معلوم ہوگا کہ یہ دونوں فقرے ایک ہی مطلب کی ترجمانی کرتے ہیں۔ آیت بھی یہی کہتی ہے کہ اگر علی(ع) کو خلیفہ نہیں بنایا تو گویا کار رسالت ہی انجام نہیں دیا اور رسول(ص) بھی اقرار کرتے ہیں کہ میرا بغیر تمھیں خلیفہ بنائے ہوئے جانا مناسب ہی نہیں۔

ابن عباس کی اس حدیث میں رسول(ص) کا یہ فقرہ بھی بھولیے گا نہیں کہ : اے علی(ع) تم میرےبعد ہر مومن کے ولی ہو۔ یہ نص صریحی

۱۸۲

 ہے ۔ کہ رسول(ص) کے بعد امت کے مالک و مختار آپ ہی تھے۔ آپ ہی رسول(ص) کے مقرر کردہ حاکم و امیر تھے۔ اور امتِ اسلام مین رسول(ص) کے قائم مقام تھے جیسا کہ کمیت (رح) نے کہا ہے :

                                     و نعم ولی الامر بعد وليه

                                     و منتجع التقوی و نعم المودب

             “ رسول(ص) کے بعد آپ بہترین مالک و مختارِ امور تھے اور تقوی اور بہترین ادب سکھانے والے تھے۔”

                                                             ش

۱۸۳

مکتوب نمبر ۱۴

حدیث منزلت صحیح بھی ہے اور مشہور بھی لیکن مدقق آمدی کو ( جو اصول میں استاد الاساتیذ تھے) اس حدیث کے اسناد میں شک ہے اور وہ اس کے طرق میں شک و شبہ کرتے ہیں ۔ آپ کے مخالفین آمدی کی رائے کو درست سمجھیں تو آپ انھیں کیونکر قائل کریں گے؟

                                                             س

جواب مکتوب

حدیثِ منزلت صحیح ترین حدیث ہے

آمدی یہ شک کر کے خود اپنے نفس پر ظلم کے مرتکب ہوئے کیونکہ حدیث منزلت تمام احادیث سے صحیح تر اور  تمام روایات سے زیادہ پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے۔

۱۸۴

اس کی صحت پر دلائل بھی موجود ہیں

سوائے آمدی کے آج تک اس کے اسناد میں کسی کو شک نہ ہوا ۔ نہ اس کے ثابت و مسلم الثبوت ہونے میں کسی کو لب کشائی کی جرائت ہوئی ۔ علامہ ذہبی جیسے متعصب تک نے تلخیص مستدرک میں اس کے صحت کی صراحت کی ہے۔(۱) اور ابن حجر ایسے دشمن تشیع شخص نے صواعق محرقہ کے صفحہ۲۹ پر اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور اس کی صحت کے متعلق ان ائمہ حدیث کے

اقوال درج کیے ہیں جو فن حدیث میں حضرات اہل سنت کے ملجا و ماوی سمجھے جاتے ہیں(۲) ۔ اور یہ حدیث ایسی ہی ثابت و ناقابل انکار نہ ہوتی تو امام بخاری ایسا شخص کبھی اپنی صحیح بخاری میں ذکر نہ کرتا۔

وہ علمائے اہل سنت جنھوں نے اس حدیث کی روایت کی ہے

امام بخاری کی تو یہ حالت ہے کہ امیرالمومنین(ع) یا اہلبیت(ع) کے فضائل و خصائص کسی حدیث میں دیکھ لیتے ہیں تو اس کو یوں اڑا جاتے ہیں جیسے رسول(ص) نے فرمایا ہی نہ ہو۔ تو جب امام بخاری تک مجبور ہوگئے اور صحیح بخاری میں درج کر کے رہے تو اب اس کے متعلق شک وشبہ کرنا زبردستی ہے۔

-------------

۱:-آپ اس سے پہلے صفحہ۱۹۴ پر ملاحظہ فرماچکے ہیں کہ علامہ ذہبی نے خود اس حدیث کی صحت کی تصریح کی ہے۔

۲:-صواعق محرقہ، صفحہ۲۹۔

۱۸۵

معاویہ جو دشمنان امیرالمومنین(ع) اور آپ سے بغاوت کرنے والوں کے سرغنہ تھے۔ جنھوں نے امیرالمومنین(ع) سے جنگ کی ۔ بالائے منبر آپ کو گالیاں دیں۔ لوگوں کو سب وشتم کرنے پر مجبور کیا لیکن باوجود اتنی بد ترین عداوت کے وہ بھی اس حدیث منزلت سے انکار نہ کرسکے اور نہ سعد بن ابی وقاص کو جھٹلانے کی انھیں ہمت ہوئی۔

چنانچہ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے کہ:

“ جب سعد بن ابی وقاص معاویہ کے پاس(۱) آئے اور معاویہ نے ان سے فرمائش کی کہ منبر پر جاکر امیر المومنین(ع) پر لعنت کریں۔۔۔۔۔۔ اور انھوں نے انکار کیا تو معاویہ نے پوچھا کہ آخر وجہ انکار کیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا کہ رسول(ص) نے علی(ع) کے متعلق تین باتیں ایسی کہی ہیں کہ جب تک وہ باتیں یاد رہیں گی میں ہرگز انھیں سب وشتم نہیں کرسکتا۔ اگر ان تین باتوں سے ایک بات بھی مجھے نصیب ہوتی تو وہ سرخ اونٹوں کی قطار سے زیادہ میرے لیے محبوب ہوتی ۔ میں نے خود رسول اﷲ(ص) کو علی(ع) سے کہتے سنا ہے جب کہ آپ کسی غزوہ میں تشریف لے جارہے تھے اور حضرت علی(ع) کو اپنی جگہ چھوڑے جارہے تھے تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی منزلت ہے جو موسی (ع) سے ہارون کو تھی۔ سوائے اس کے کہ باب نبوت

--------------

۱ ـ صحیح مسلم، جلد۲، صفحہ ۳۲۴ باب فضائل علی(ع)

۱۸۶

 میرے بعد بند ہے(۱) ۔”

معاویہ کے لی بہت آسان تھا کہ جھٹلا دیتے سعد کو ، کہہ دیتے ک نہیں ، رسول(ص) نے ایسا فرمایا ہی نہیں ہے۔لیکن یہ حدیث ان کے نزدیک بھی اس قدر ثابت و مسلم تھی کہ اس کے متعلق چوں چرا کی گنجائش ہی نہیں پائی۔ انھوں نے بہتری اسی میں دیکھی کہ خاموش ہوجائیں۔ سعد کو مجبور نہ کریں۔

اس سے بڑھ کر مزے کی بات سناؤں آپ کو۔ معاویہ نے خود اس حدیث منزلت کی روایت کی ہے۔ ابن حجر صواعق محرقہ میں تحریر فرماتے ہیں:

“ امام احمد حنبل نے روایت کی ہے کہ کسی شخص نے معاویہ سے ایک مسئلہ دریافت کیا۔ معاویہ نے کہا کہ اسے علی(ع) سے پوچھو۔ اس شخص نے کہا(۲) آپ کا جواب مجھے علی(ع) کے جواب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ معاویہ نے جھڑک کر کہا کہ یہ بدترین بات تمھارے منہ سے سن رہا ہوں۔ تم اس شخص سے کراہت ظاہر کررہے ہو جسے رسول اﷲ(ص) نے علم یوں بھرایا ہے جس طرح طائر اپنے بچے کو دانہ بھراتا ہے۔ اور جس کے متعلق

--------------

۱ ـ امام حاکم نے بھی اس حدیث کو مستدرک جلد۲، صفحہ۱۰۹ پر درج کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کے شرائط کے معیار پر بھی صحیح اور علامہ ذہبی نےبھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کو درج کیا ہے اور اعتراف کیا ہے کہ یہ حدیث امام مسلم کے معیار پر صحیح ہے۔

۲ ـ صواعق محرقہ باب ۱۱ صفحہ ۱۰۷

۱۸۷

یہ ارشاد و فرمایا کہ تمھیں مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہے۔ اور حضرت عمر کو جب کسی معاملہ میں پیچیدگی در پیش آتی تھی تو انھیں کی طرف رجوع کرتے(۱) ۔۔۔۔الخ ”

مختصر یہ کہ حدیثِ منزلت اتنی ثابت و مسلم ہے جس کے ثبوت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں۔ تمام مسلمان خواہ وہ کسی فرقہ یا جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اس حدیث کی صحت پر اجماع و اتفاق کیے بیٹھے ہیں۔

اس حدیث منزلت کو صاحب الجمع الصحاح الستہ نے باب مناقب علی میں اور صاحب الجمع بین الصحیحین نے باب فضائل اور غزوہ تبوک کے تذکرہ میں ذکر کیا ہے۔

صحیح بخاری میں غزوہ تبوک(۲) کے سلسلہ میں موجود ہے۔

صحیح مسلم میں فضائل علی(ع) کے ضمن(۳) میں مذکورہ ہے۔

سنن ابن ماجہ(۴) میں اصحاب نبی(ص) کے فضائل کے ضمن میں موجود ہے۔

--------------

۱ ـ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ معاویہ نے اس شخص سے یہ بھی کہا کہ کہاں سے چلے جاؤ۔ خدا تمھارے پیروں کو استوار نہ کرے اور اس شخص کا نام دفتر سے کاٹ دیا اور بھی بہت سی باتیں علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ صفحہ۱۰۷ پر نقل کی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ احمد بن حنبل کے علاوہ محدثین کی ایک اچھی خاصی جماعت نے بسلسلہ اسناد معاویہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ امام احمد ہی تنہا معاویہ سے روایت کرنے والے نہیں۔

۲ ـ جلد ۳ ص۵۸

۳ ـ جلد ۲ ص۳۲۳

۴ ـ جلد اول ص۲۸، جلد ۳ ص۱۰۹ اس کے علاوہ اور بھی مقامات پر امام مذکور نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے جیسا کہ چھان بین کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔

۱۸۸

 مستدرک امام حاکم میں(۱) باب فضائل کے تحت موجود ہے۔

اور امام احمد(۲) نے اپنی مسند میں سعد کی روایت سے بکثرت طریق سے روایت کی ہے نیز اسی مسند میں امام موصوف نے مندرجہ ذیل حضرات میں سے ہر بزرگ کی حدیث میں ذکر کیا ہے۔

ابن عباس(۳) ، اسماء بن عمیس(۴) ، ابوسعید خدری(۵) ، معاویہ بن ابی سفیان(۶) اور دیگر صحابہ کی ایک جماعت سے روایت کیا ہے۔

طبرانی نے اسماء بنت عمنیس ، ام سلہ، جیش بن جنادہ، ابن عمر، ابن عباس ، جابر بن سمرہ، زید بن ارقم، براء بن عازب اور علی بن ابی طالب(ع)(۷) وغیرہ ہم سے ہر ہر شخص کی حدیث میں روایت کی ہے۔

بزار(۸) نے اپنی مستدرک میں روایت کی ہے۔

--------------

۱ ـ مسند احمد جلد اول ص۱۷۳، ص۱۷۵، ۱۷۷، ۱۷۹، ۱۸۲، ۱۸۵۔

۲ ـ مسند ج ۱، ص۲۳۱۔

۳ ـ مسند ج ۶ ، ص۴۶۹، ص۴۳۸

۴ ـ مسند ج۳، ص۳۲

۵ ـ جیسا کہ ہم نے اس کتاب کے شروع میں صواعق محرقہ باب ۱۱ ص ۱۰۸ سے نقل کیا ہے۔

۶ ـ صواعق محرقہ باب۹ سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) نقل کیا ہے کہ طبرانی نے اس حدیث کو ان تمام اشخاص سے نقل کیا ہے سیوطی نے ایک نام اسماء بنت عمیس اور زیادہ کرے کے لکھا ہے۔

۷ ـ تاریخ الخلفاء ص۶۵ حالات امیرالمومنین(ع)۔

۸ ـ کنز العمال جلد۶ ص۱۵۲، کی حدیث ۲۵۰۴۔

۱۸۹

ترمذی نے اپنی صحیح میں ابو سعید خدری کی حدیث میں لکھا ہے۔

ابن عبدالبر نے استیعاب میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ خود ان کے الفاظ ہیں :

“ وهو من اثبت الآثار و اصحها ، رواه عن النبی سعد بن ابی وقاص”

“ یہ حدیث تمام احادیث پیغمبر(ص) میں سب سے زیادہ ثابت و مسلم اور ہر ایک سے صحیح تر ہے، اس حدیث کو سعد بن ابی وقاص نے پیغمبر(ص) سے روایت کیا ہے۔”

پھر فرماتے ہیں کہ:

“ سعد کی حدیث بکثرت طریقوں سے مروی ہے جسے ابن ابی خیثمہ و غیرہ نے لکھا ہے۔”

آگے جل کر تحریر فرماتے ہیں :

“ اس حدیث کی روایت ابن عباس نے کی ہے، ابو سعید خدری نے کی ہے ، ام سلمہ (رض) نے کی ہے، اسماء بنت عمیس نے کی ہے۔ جابر بن عبداﷲ نے کی۔ ان کے علاوہ ایک پوری جماعت اصحاب ہے جس نے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ جن کے ذکر میں طول ہوگا۔”

علماء محدثین اور اہل سیر و اخبار نے جس جس نے غزوہ تبوک کا ذکر کیا ہے انھوں نے اس حدیث کو بھی ضرور لکھا ہے اور جس جس نےحضرت علی(ع) کے  حالات و سوانح مرتب کیے ہیں خواہ وہ کسی فرقہ و جماعت کے ہوں متقدمین و متاخرین سب نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔

۱۹۰

اور مناقب اہل بیت(ع) و فضائل صحابہ میں جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں سبھی میں یہ حدیث موجود ہے۔ مختصر یہ کہ حدیثِ منزلت وہ حدیث ہے کہ خلف و سلف سب کے نزدیک ثابت و محقق ہے کسی نے اس کی صحت میں شک نہیں کیا۔

آمدی کے شک کرنے کی وجہ

لہذا جب اس کی اہمیت کی حالت یہ ہے تو آمدی کو اس کے اسناد میں شک ہوتو ہوا کرے ان کے شک سے کیا ہوتا ہے ۔ علم حدیث میں انھیں دخل ہی کیا حاصل تھا؟ طرق و اسناد کے متعلق ان کا حکم لگانا تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے عوام کا حکم لگانا۔ جنھیں کسی بات کے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ۔ بات یہ ہے کہ جیسا آپ نے کہا کہ اصول میں انھیں تبحر حاصل تھا تو اسی تبحر نے انھیں اس دلدل میں پھنسایا ۔ انھوں نے دیکھا کہ بمقتضائے اصول یہ حدیث نص صریح ہے۔ امیرالمومنین(ع) کی خلافت پر اصول کے بموجب حضرت علی(ع) خلیفہ ماننے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا۔ مفر کی صورت نہیں لہذا راہ فراریوں نکالی جائے کہ اس حدیث کے اسناد ہی مشکوک قرار دے دیے جائیں کہ اس طرح شاید اس حدیث کے نہ ماننے اور حضرت علی(ع) کو خلیفہ رسول(ص) نہ تسلیم کرنے کی سبیل پیدا ہو۔

                                                                     ش

۱۹۱

مکتوب نمبر۱۵

سندِ حدیث کی صحت کا اقرار

اس حدیثِ منزلت کے ثبوت میں جو کچھ آپ نے فرمایا بالکل صحیح ذکر کیا ہے اس کے مسلم الثبوت ہونے میں مطلقا شک و شبہ کی گنجائش نہیں آمدی نے اس حدیث میں ایسی ٹھوکر کھائی جس سے ان بھرم کھل گیا ۔معلوم ہو گیا کہ انھیں علم حدیث سے دور کا بھی لگاؤ نہیں تھا۔میں نے ان کے قول کو ذکر کر کے ناحق آپ کو ان کے رد کی زحمت دی۔ معافی کا خواہاں ہوں۔

عموم حدیث منزلت میں شک

مجھے خیال ہوتا ہے کہ آمدی کے علاوہ آپ کے دیگر مخالفین اس حدیث

۱۹۲

کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ س حدیث منزلت میں عموم نہیں بلکہ یہ اپنے مورد کے ساتھ مخصوص ہے۔ یعنی رسول(ص) کا حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین اور اپنی وفات کے بعد تمام مسلمانون میں اپنا خلیفہ بنانا مقصود نہیں تھا بلکہ صرف غزوہ تبوک کے موقع پر مدینہ سے جتنے دن آپ (ص) غائب رہے اتنے دن ہی آپ کو جانشین بنانا مقصود تھا۔ جیسا کہ سیاق حدیث سے پتہ چلتا ہے۔ اس لیے کہ یہ حدیث آپ نے اس موقع پر فرمائی ہے ۔ جب آپ عازم سفر ہوئے اور حضرت علی(ع) کو مدینہ میں اپنا قائم مقام بنا کر جانے لگے اور اس پر حضرت علی(ع) نے عرض کیا :

“یا رسول اﷲ(ص) آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟”

تورسول(ص) نے کہا:

“ کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمھیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی؟ سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔”

 اس حدیث کے حجت ہونے میں شک

و یا رسول (ص) یہ کہنا چاہتے تھے کہ جس طرح کوہ طور پر جانے کے وقت جناب ہارون جناب موسی(ع) کے جانشین تھے اسی طرح غزوہ تبوک پر جانے کے وقت تم میرے جانشین ہو۔ لہذا مقصود پیغمبر(ص) کا یہ نکلا کہ میں جتنے دن غزوہ تبوک میں مشغول رہوں تم مسلمانوں میں میرے جانشین ہو جس طرح جناب موسی کی غیبت اور مناجات کے دنوں میں جناب ہارون جانشین موسی(ع) تھے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو اگر عام مان بھی

۱۹۳

لیا جائے تب بھی یہ حدیث حجت نہیں کیونکہ یہ حدیث مخصوص ہے اور وہ عام جس کی تخصیص کردی جائے وہ باقی میں حجت نہیں ہوسکتا۔

                                                                     س

جواب مکتوب

عرب کے اہل زبان عموم حدیث کے قائل ہیں

مخالفین کا یہ کہنا کہ حدیث منزلت میں عموم نہیں پایا جاتا۔ اسے ہم اہلِ زبان اور عرب والوں کے عرف کے فیصلہ پر چھوڑتے ہیں۔ وہ جو کہیں وہی ہم بھی کہتے ہیں۔ آپ خود حجت عرب میں اپنا جواب نہیں رکھتے ۔ آپ کی بات نہ رد کی جاسکتی ہے نہ آپ کے فیصلہ میں چون و چرا کی گنجائش ہے۔ آپ خود فرمائیں آپ کیا کہتے ہیں؟

آپ اپنی قوم ( عرب) کے متعلق فرمائیے کیا انھیں بھی اس کے عموم میں شک ہوا ؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ ناممکن ہے کہ آپ جیسا ماہر زبان اسم جنس مضاف کے عموم اور اپنے تمام مصادیق کو شامل ہونے میں شک کرے۔

اگر آپ مجھ سے فرمائیں کہ منحتکم انصافی۔ میں نے تمھیں انصاف بخشا۔ تو کیا آپ کا یہ اںصاف بعض  امور سے متعلق ہوگا اور بعض امور سے نہیں۔ ایک معاملہ میں میرے ساتھ انصاف کیجیے گا اور دوسرے معاملہ میں نا انصافی فرمائیے گا؟  یا انصاف عام اور اپنے تمام مصادیق کو شامل ہوگا۔ خدا نہ کرے کہ آپ اسے عام ہونے کے علاوہ اور کچھ سمجھیں اور سوائے استغراق کے کچھ سمجھ میں آئے ۔ فرض کیجیے کہ

۱۹۴

 خلیفہ المسلمین اگر اپنے حاکم و افسر سے کہیں کہ میں نے لوگوں پر اپنی جگہ تمھیں بادشاہ بنایا مجھے جو منزلت حاصل ہوئی ہے وہ تمہاری منزلت قرار دی یا رعایا میں جو منصب میرا ہے وہ تمھارا منصب مقرر کیا ، یا میں نے اپنا ملک تمھارے حوالہ کیا تو کیا یہ سنکر عموم کے علاوہ اور کوئی چیز سمجھ میں آئے گی اور اگر دعوی کرنے والا تخصیص کا دعوی کرے یہ کہے کہ صرف بعض حالات میں معاملات میں اقتدار و اختیار دیا گیا ہے بعض میں نہیں تو کیا وہ شخص مخالف اور نافرمان نہ سمجھا جائے گا۔ اور اگر وہ اپنے کسی وزیر سے فرمائیں کہ میرے زمانہ سلطنت میں تمھاری وہی منزلت رہے گی جو عمر کی منزلت تھی ابوبکر کےزمانہ میں بجز اس کے کہ تم صحابی نہیں ہو تو یہ فقرہ بلحاظ عرف منازل و مراتب کےساتھ  مخصوص ہوگا یا عام سمجھا جائےگا۔ میرا تو یہی خیال ہے کہ آپ عام ہی سمجھیں گے اور مجھے  تو یقین ہے کہ آپ بھی اس حدیث میں عموم ہی کے قائل ہوں گے۔ جس طرح مذکورہ بالا مثالوں میں عرف و لغت کے قاعدہ پر سوائے عموم ماننے کےکوئی دوسری صورت نہیں۔

خصوصا استثنا نبوت کےبعد تو اور بھی عموم اچھی طرح واضح ہوجاتا ہےکیونکہ جب رسول نے صرف نبوت کو مستثنی کیا تو ثابت ہوا کہ سوائے درجہ نبوت کے اور جتنے منازل تھے جناب ہارون کے وہ سب حضرت علی(ع) کو حاصل ہوئے کوئی ایک نہیں چھوٹا۔ ورنہ رسول(ص) صرف نبوت ہی کو مستثنی نہ فرماتے بلکہ جہاں نبوت کو مستثنی کیا وہاں دوسری باتوں کا بھی استثنا فرماتے۔ آپ خود عرف ہیں۔ عربوں میں رہتے ہیں آپ خود سوچیے عربوں سے پوچھیے کہ انکا کیا فیصلہ ہےاس کےمتلعق ؟

 اس کا ثبوت کہ حدیث کسی مورد کے ساتھ مخصوص نہیں

مخالت کا یہ کہنا کہ یہ حدیث مورد کے ساتھ مخصوص ہے دو وجہوں سے

۱۹۵

غلط ہےپہلی وجہ یہ ہےکہ حدیث فی نفسہ عام ہے جیسا اوپر میں بیان کرچکا ہوں لہذا اس کا مورد اگر اسے ہم خاص تسلیم بھی کر لیں اس کو عام ہونے سے مانع نہیں ہوسکتا۔کیوںکہ مورد وارد کا مخصوص نہیں ہوا کرتا جیسا کہ طے شدہ مسئلہ ہے۔

دیکھیے اگر آپ کسی جنب شخص کو آیت الکرسی چھوتے  ہوئے دیکھیں۔ اور آپ اس سے کہیں کہ محدث ( جس میں جنب غیر جنب سب شامل ہیں) کو آیات قرآن چھونا جائز نہیں تو آپ کا یہ اشارہ مورد کے ساتھ مخصوص ہوگا یا آپ کا یہ کہنا عام ہوگا اور تمام آیات قرآن اور ہر محدث کو شامل ہوگا۔ خواہ وہ محدث جنب ہو یا غیر جنب ۔ آیت الکرسی کو چھوئے یا دیگر آیات کو۔ میں تو خیال نہیں کرتا کہ کوئی شخص بھی یہ کہے گا کہ یہ حکم صرف جنب کے ساتھ مختص ہے۔ہر محدث کو شامل نہیں اور صرف آیت الکرسی ہی چھونے کی ممانعت ہے دیگر آیات کی نہیں ۔ اگر معالج مریض کو کھجور کھاتے ہوئے دیکھے اور اسے میٹھا کھانے کو منع کرے تو کیا طبیب کی میٹھے سے ممانعت عرف عام میں مورد  کے ساتھ مخصوص سمجھی جائے گی۔ صرف کھجور سےممانعت سمجھی جائے گی یا یہ ممانعت عام ہوگی ۔ اور ہر میٹھے کو شامل ہوگی؟

میرا تو خیال یہ ہےکہ کوئی بھی اس کا قائل نہ ملے گا جو یہ کہے کہ یہ ممانعت مخصوص ہے مورد کے ساتھ، صرف کھجور سے مریض کو روکا گیا ہے یہ تو وہ ہی کہے گا جسے اصول سے کوئی لگاؤ نہ ہو۔ زبان کے قواعد سے بالکل بے بہرہ ہو۔ فہم عربی سے دور ہو اور ہم لوگوں کی دنیا سے اجنبی ہو۔ لہذا جس طرح ان مثالوں میں مورد کے خاص ہونے کی وجہ سے حکم خاص نہیں اسی طرح

۱۹۶

حدیثِ منزلت کا مورد اگر چہ خاص ہے یعنی آپ نے غزوہ تبوک میں جاتے وقت فرمایا ، لیکن حکم عام ہی ہے ۔ حدیث منزلت اور ان مثالوں میں کوئی فرق نہیں۔

اس قول کی تردید کہ یہ حدیث حجت نہیں

دوسری وجہ بطلان یہ ہے کہ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ حدیث کا مورد خاص ہےکیونکہ رسول(ص) نے صرف غزوہ تبوک ہی کے موقع پر حضرت علی(ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین بناتے ہوئے نہیں فرمایا کہ تمھیں مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی تاکہ مخالف کا یہ کہنا صحیح ہوکہ صرف غزوہ تبوک ہی کے موقع پر حضرت علی(ع) کو منزلت ہارونی حاصل ہوئی اور آپ رسول(ص) کے جانشین ہوئے بلکہ آپ نے اس حدیث کو بارہا مختلف مواقع پر ارشاد فرمایا ہے چنانچہ ہمارے یہاں ائمہ طاہرین(ع) سے بکثرت صحیح اور متواتر احادیث مروی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول(ص) نے اور دوسرے مواقع پر بھی اس حدیث کو فرمایا ہے۔ تحقیق کے جویا ہماری کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ حضرات اہلسنت کے سنن بھی اس کے موئد و شاہد ہیں جیسا کہ ان کی تلاش و جستجو سے معلوم ہوسکتا ہے لہذا معترض کا یہ کہنا کہ سیاق حدیث دلیل ہے صرف اس کے غزوہ تبوک کے ساتھ مختص ہونے کی۔ بالکل ہی غلط اور نا قابل اعتنا ہے۔

رہ گیا یہ کہنا کہ وہ عام جن کی تخصیص کردی جائے وہ باقی میں حجت نہیں۔ بالکل مہمل لغو اور صریحی طور پر باطل ہے۔ اور خاص کر اس حدیث کے متعلق جو ہماری آپ کی موضوع بحث ہے ایسا خیال تو محض زبردستی ہے۔

                                                             ش

۱۹۷

مکتوب نمبر۱۶

 حدیث منزلت و مقامات

آپ نے یہ تو فرمایا کہ رسول اﷲ(ص) نے صرف غزوہ تبوک ہی نہیں بلکہ اور بھی متعدد مواقع پر یہ حدیث ارشاد فرمائی لیکن آپ نے ان متعدد مواقع کی تصریح نہیں کی۔

بڑی عنایت ہوگی ان موارد کی بھی تفصیل فرمائیے۔ غزوہ تبوک کے علاوہ اور کب آںحضرت(ص) نے ایسا ارشاد فرمایا۔

                                                                     س

۱۹۸

جوابِ مکتوب

من جملہ مقاماتِ حدیثِ منزلت ملاقاتِ ام سلیم ہے

ان مواقع میں سے ایک وہ موقع ہے جب آںحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ام سلیم(۱) سے فرمایا تھا ۔ ام سلیم سب سے پہلے اسلام لانے والوں

--------------

۱ ـ  یہ ملحان بن خالد انصاری کی بیٹی اور حرام بن ملحان کی بہن تھیں۔ ان کے باپ اور بھائی دونوں رسول اﷲ(ص) کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ یہ بڑی صاحب ِ فضیلت اور زیرک و دانا خاتون تھیں۔ رسول اﷲ(ص) سے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں اور ان سے انس ابن عباس، زید بن ثابت ، ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور دوسرے لوگون نے حدیثیں روایت کی ہیں اور سابقین میں ان کا شمار ہے۔ اسلام کی طرف دعوت دینے والو میں سے ایک یہ بھی تھیں۔ زمانہ جاہلیت میں مالک بن نضر کی زوجیت میں تھیں۔ مالک سے انس بن مالک پیدا ہوئے۔ جب اسلام آیا تو انھوں نے سبقت کی۔ اسلام قبول کیا اور اپنےشوہر سے بھی کہا لیکن اس نے اسلام لانے سے انکار کیا تو انھوں نے قطع  تعلق کرلیا۔ شوہر غضبناک ہو کر شام کی طرف چلا گیا اور وہیں بحالت کفر مرگیا انھوں نے اپنے  بیٹے انس کو جب کہ وہ صرف دس سال کے تھے رسول اﷲ(ص) کی خدمت گزاری پر مائل کیا رسول (ص) نے بھی ان کے خیال سےقبول کیا۔ اسی وجہ سے انس کہا کرتے تھے کہ خدا جزائے خیر دے میری والدہ کو انھوں نے میری اچھی سرپرستی کی ، انھیں کے ہاتھوں ابو طلحہ اںصاری اسلام لائے ابو طلحہ نے جب کہ اسلام نہ لائے تھے ان سے شادی کی خواہش کی انھوں نے مسلمان ہونے کی شرط لگائی۔ ابو طلحہ نے اسلام قبول کیا اور ان کا اسلام لانا ہی مہر ہوا۔ یہ ام سلیم آںحضرت(ص) کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئی تھیں جنگ احد میں ان کے ہاتھ میں خنجر تھا کہ جو کہ مشرک ان کے پاس آئے اس سے ہلاک کردیں۔ تاریخ اسلام میں تمام عورتوں سے زیادہ اسلام کی خڈمت گزار حامی محافظ مشکلات میں ثابت قدم یہی خاتون تھیں انھیں کو بس یہ شرف حاصل تھا کہ رسول(ص) ان سے ملنے ان کے گھر جاتے ۔ یہ معظمہ اہل بیت کی معرفت رکھنے والی اور ان کے حقوق کو پہچاننے والی خاتون تھیں۔

۱۹۹

 میں سے تھیں۔ اور بڑی زیرک و دانا خاتون تھیں۔ سابقیت اسلام ، خلوص و خیر خواہی اور شدائد میں ثابت قدمی کی وجہ سے ان کی رسول(ص) کے نزدیک بڑی منزلت تھی۔ آںحضرت(ص) ان کی ملاقات کو جاتے ، ان کے گھر میں بیٹھ کر ان سے گفتگو کرتے۔ آپ نے ایک دن ان سے ارشاد فرمایا :

“ اے ام سلیم! علی (ع) کا گوشت میرے گوشت سے ہے، ان کا خون میرے خون سے ہے اور انھیں وہی منزلت حاصل ہے جو موسی سے ہارون کو تھی۔(۱)

یہ بالکل ظاہر ہے کہ رسول اﷲ (ص) نے یہ حدیث کسی خاص جذبہ کے ماتحت نہیں فرمائی بلکہ برجستہ طور پر سلسلہ کلام میں یہ جملے زبانِ مبارک سے ادا ہوئے جس سے مقصود صرف یہ تھا کہ میرے ولی عہد اور میرے جانشین

--------------

۱ ـ ام سلیم کی یہ حدیث کنزالعمال جلد ۶ صفحہ۱۵۴ میں موجود ہے بلکہ منتخب کنزالعمال میں بھی مذکور ہے۔ چنانچہ مسند احمد بن حنبل جلد۵ صفحہ ۳۱ کے حاشیہ کی آخری سطر ملاحظہ ہو۔ بعینہ انھیں الفاظ میں یہ حدیث موجود ہے۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

“‏ أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ‏ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا- فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ”

“ میں شہر علم ہوں، علی(ع) اس کا دروازہ ہیں، جو شخص علم حاصل کرنا چاہیے وہ دروازے سے آئے۔”(1)

--------------

1ـ طبرانی نے کبیر میں ابن عباس سے اس حدیث کی روایت کی ہے، جیسا کہ سیوطی کی جامع صغیر صفحہ 107 پر مذکور ہے اور امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 227 پر باب مناقب علی(ع) میں دو صحیح سندوں سے اس حدیث کی روایت کی ہے ایک عبدا ﷲ بن عباس سے جو دو صحیح طریقوں سے ہے دوسری جابر بن عبداﷲ انصاری سے ۔ اس کے طریق کی صحت پر انھوں نے قطعی دلیلیں قائم کی کی ہیں۔ امام احمد بن صدیق مغربی وارد قاہر نے ایک مستقل عظیم الشان کتاب خاص کر اس حدیث کی صحت ثابت کرنے کے لیے تحریر فرمائی ہے۔ کتاب کا نام فتح الملک العلی بصحت حدیث ثابت مدینہ العلم علی ہے۔ یہ کتاب 1345ھ میں مطبع الاسلامیہ مصر میں طبع ہوچکی ہے۔ تشگان علوم کو چاہیے کہ اس کتاب کو ضرور ملاحظہ فرمائیں کہ علوم کثیرہ پر مشتمل ہے ناصبی حضرات اس مشہور ومعروف حدیث کو متعلق جوہر خاص و عام کے ورد زبان ہے، ہر شہری و دیہاتی اس کا جانتا ہے جو بکواس کرتے ہیں اس کا کوئی وزن نہیں ہے۔ ہم نے ان کے اعتراضات کے غائر نظر سے دیکھا سوا زبردستی اور کٹھ حجتی ہمیں اور کوئی بات نظر نہ آئی سوائے اس کے کہ انھوں نے رکیک اعتراضات کر کے تعصب کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک دلیل بھی تو ٹھکانے کی نہیں ذکر کی۔ جیسا کہ حافظ صلاح الدین علائی نے علامہ ذہبی وغیرہ کے قول در بطلان حدیث ان مدینہ العلم کو نقل کرنے کے بعد تصریح کی ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے ایک بات بھی درست نہیں پیش کی جو قادح ہو اس حدیث کی صحت میں سوا وضعیت کے دعوی کے۔

۲۶۱

10ـ “أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا.”

“ میں حکمت  کا گھر ہوں، علی(ع) اس کا دروازہ ہیں۔”(1)

11ـ“‏ عَلِيٌّ بَابُ‏ عِلْمِي‏ وَ مُبَيِّنٌ لِأُمَّتِي مِنْ بَعْدِي مَا أُرْسِلْتُ بِهِ حُبُّهُ إِيمَانٌ وَ بُغْضُهُ نِفَاقٌ ”

“  علی(ع) میرے علم کا دروازہ ہیں اور میں جن چیزوں کو لے کر مبعوث ہوا، میرے بعد یہی ان چیزوں کو میری امت سے بیان کریں گے۔ ان کی محبت ایمان اور ان کا بغض نفاق ہے۔”(2)

--------------

1ـ اس حدیث کو امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی میں درج کیا ہے نیز ابن جریر نے بھی لکھا ہے اور ترمذی و ابن جریر، بہتر علمائے اعلام نے نقل کیا ہے مثلا علامہ متقی ہندی ملاحظہ ہو کنز العمال جلد6 صفحہ 401 نیز علامہ متقی لکھتے ہیں کہ ابن جریر نے کہا ہے کہ اس حدیث کو اسناد ہمارے یہاں صحیح ہیں اور ترمذی سے جلال الدین سیوطی نے جامع الجوامع صغیر کے حرف ہمزہ میں نقل کیا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے جامع صغیر صفحہ170 جلد اول۔

2ـ دیلمی نے جناب ابوذر سے اس کی روایت کی ہے جیسا کہ کنزالعمال جلد6 صفحہ 156 پر ہے۔

۲۶۲

12ـ “أَنْتَ‏ تُبَيِّنُ‏ لِأُمَّتِي مَا اخْتَلَفُوا فِيهِ بَعْدِي.”

“ اے علی(ع) میرے بعد جب میری امت اختلاف میں مبتلا ہوگی تو تم ہی راہ حق واضح کرو گے۔”

اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک(1) ج3 صفحہ 122 پر درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ :

“ یہ حدیث مسلم و بخاری دونوں کےبنائے ہوئے معیار پر صحیح ہے لیکن ان دونوں نے ذکر نہیں کیا۔”

ان احادیث پر غور کرنے کے بعد یہ حقیقت باکل واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت علی(ع) کی رسول(ص) کے نزدیک وہی منزلت جو خود رسول(ص) کی خدا کے نزدیک تھی۔ جو بات قدرت نے رسول(ص) کے متعلق فرمائی بعینہ ویسی بات رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کے متعلق۔ قدرت کا ارشاد ہوا :

 “وَ ما أَنْزَلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فيهِ وَ هُدىً وَ رَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ”(النحل، 64  )

“ میں نے تم پر جو کتاب نازل کی وہ صرف اس لیے کہ لوگ جس مسئلہ میں اختلاف کریں تم راہِ حق واضح کر دو گے اور یہ کلام مجید وجہ

--------------

1ـ دیلمی میں انس سے روایت کی ہے جیسا کہ کنزالعمال جلد6 صفحہ 156 پر مذکور ہے۔

۲۶۳

ہدایت اور رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لیے۔”

اور رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کے متعلق فرمایا :

“ تم میری امت کے اختلاف میں مبتلا ہونے کے وقت راہِ حق واضح کرو گے۔”

13ـ ابن سماک نے حضرت ابوبکر سے مرفوعا روایت کی ہے :

علي مني بمنزلتي‏ من‏ ربي‏

“ علی(ع) کو مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو مجھے خدا کی بارگاہ میں حاصل ہے۔”(1)

14ـ دار قطنی نے افراد میں ابن عباس سے مرفوعا روایت کی ہے :

علِی بن ابِی طالِب بَابِ‏ حِطَّةٍ مَنْ دَخَلَ من ه كَانَ مُؤْمِناً وَ مَنْ خَرَجَ مِنْهُ كَانَ كَافِراً

“ علی(ع) باب حطہ ہیں، جو اس باب میں داخل ہوا وہ مومن ہے اور جو نکل گیا وہ کافر ہے۔”(2)

15ـ آںحضرت(ص) نے حج آخری میں مقامِ عرفات پر فرمایا :

 “عَلِيٌ‏ مِنِّي‏ وَ أَنَا من عليّ ، ولَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ.”

“ علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں۔ اور

--------------

1ـ صواعق محرقہ ، باب 11، صفحہ106۔

2ـ کنزالعمال ج6 صفحہ 153 حدیث 2528۔

۲۶۴

 کار رسالت کی ادائیگی یا تو میں کروں گا یا علی(ع)۔”(1)

یہ قول معزز پیغامبر(ص) کا جو قوت والا ہے خدا کے نزدیک جسے منزلت حاصل ہے۔

--------------

1ـ ابن ماجہ نے سنن ابن ماجہ صفحہ92 جلد اول باب فضائل الصحابہ میں اس کی روایت کی ہے۔ ترمذی اور نسائی نے اپنی صحیح میں نیز کنزالعمال جلد6 صفحہ153 حدیث 2530 ۔ امام احمد نے مسند جلد4 صفحہ 164 پر حبشی بن جنادہ کی حدیث سے متعدد طریقوں سے اس حدیث کی روایت کی ہے اور سب کے سب طریقے صحیح ہیں۔ مختصرا یہ سمجھ لیجیے کہ انھوں نے اس حدیث کو یحی بن آدم سے انھوں نے اسرائیل بن یونس سے انھوں نے اپنے دادا ابو اسحق سبیعی سے انھوں نے  نے حبشی سے روایت کیا ہے اور یہ کل کے کل بخاری و مسلم کے نزدیک حجت ہیں اور ان دوںوں نے ان سب سے اپنے اپنے صحیح استدلال کیا ہے ۔ مسند احمد میں اس حدیث کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث آںحضرت(ص) سے حجة الوداع کے موقع پر ارشاد فرمائی جس کے بعدآپ اس دار فانی میں بہت تھوڑے دنوں زندہ رہے۔ اس کے قبل آپ نے ابوبکر کو سورہ برائت کی دس آیتیں دے کر بھیجا تھا کہ وہ اہل مکہ کو جاکر پڑھ کر سنا دیں۔ پھر آپ نے حضرت علی(ع) کو بلایا ( جیسا کہ امام احمد نے مسند جلد اول صفحہ 151 پر روایات کی ہے) اور فرمایا کہ جلد جاکر ابوبکر سے ملو جہاں بھی ان سے ملاقات ہو ان سے نوشتہ لے لو اور خود لے کر اہل مکہ کی طرف جاؤ اور پڑھ کر سناؤ۔ حضرت علی(ع) مقام جحفہ پر ان سے ملے اور ان سے وہ نوشتہ لے لیا اور حضرت ابوبکر رسول(ص) کی خدمت میں پلٹ آئے اور آکر کہا کہ یا رسول اﷲ(ص) کیا میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ نہیں۔ لیکن جبرئیل آئے اور انھوں نے کہا کہ تم اپنی طرف سے اپنے امور کی انجام دہی یا تو خود کرو یا وہ جو تم سے ہو اور دوسری حدیث میں ہے ( جسے امام احمد نے مسند ج اول صفحہ150 پر امیرالمومنین(ع) سے روایت کیا ہے) کہ رسول اﷲ(ص) نے جب حضرت علی(ع) کو سورة برائت پہنچانے کے لیے روانہ کیا تو فرمایا کہ اے علی(ع) کوئی چارہ کار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل کو ہدایت بخشے گا

۲۶۵

خدا را آپ ہی فرمائیں ان احادیث سے کون سی راہ فرار آپ نکال سکتے ہیں۔ ایسے صحیح احادیث اور صریحی ںصوص کے مقابل مین آپ کیا فرماسکیں گے ۔ اگر آپ اس وقت کا تصور فرمائیں اور حکیمِ اسلام کی اس گہری حکمت کو سوچیں کہ آپ ایسے موقع پر یعنی فریضہ حج بجالاتے ہوئے مقامِ عرفات پر لاکھوں مسلمانوں کے ہجوم میں یہ اعلان فرماتے ہیں تو آپ پر حقیقت اچھی طرح روشن ہوجائے۔ رسول(ص) کے الفاظ دیکھیے کتنے مختصر ہیں لیکن یہ مختصر الفاظ کتنے جلیل القدر معانی و مطالب کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں چند الفاظ میں آپ نے مطالب کے دفتر سمودیے : “و لَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ

 “ میرے فرائض رسالت کی ادائیگی کسی سے ممکن نہیں سوا میرے یا علی(ع) کے ۔”
۲۶۶

اس جملہ کے بعد اب کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی ۔ سوا علی(ع) کے کسی شخص کے لیے اس بات کی اہلیت اور صلاحیت ہی نہیں نکلتی کہ وہ کارِ رسالت سے کسی چیز کی ادائیگی کرسکے، فریضہ تبلیغ میں رسول(ص) کا ہاتھ بٹاسکے اور ہو بھی کیسے سکتا ہے ۔ علی(ع) کے سوا کسی اور میں گنجائش نکل بھی کیسے سکتی ہے اس لیے کہ نبی کے امور یا تو خود نبی سے انجام پاتے ہیں یا پھر اس کے وصی کے ذریعہ انجام پائیں گے۔ نبی کا قائم نبی کا جانشین اور ولیعہد ہی ہوسکتا ہے۔

16ـ  “ من‏ أطاعني‏ فقد أطاع اللّه عزّ و جلّ، و من عصاني فقد عصى اللّه، و من أطاع عليّا فقد أطاعني، و من عصى عليّا فقد عصاني”

“ جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی ۔ جس نے علی(ع) کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔”

اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 121 پر درج کیا ہے اور علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں ذکر کیا اور ان دونوں نے تصریح کی ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم دونوں کے معیار پر صحیح ہے۔

17ـ  “ يا علی مَنْ فَارَقَنِي‏ فَقَدْ فَارَقَ اللَّهَ

۲۶۷

وَ مَنْ فَارَقَکَ فَقَدْ فَارَقَنِي‏

“ اے علی(ع)! جو مجھ سے برگشتہ ہوا وہ خدا سے برگشتہ ہوا اور جو تم سے برگشتہ ہوا وہ مجھ سے برگشتہ ہوا۔”

اس حدیث کو امام حاکم مستدرک ج3 صفحہ 124 پر درج کر کے لکھتے ہیں کہ :

“ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری و مسلم نے اسے ذکر نہیں کیا ہے۔”

18ـ ام سلمہ(رض) کی حدیث میں ہے:

“وَ مَنْ‏ سَبَ‏ عَلِيّاً ع فَقَدْ سَبَّنِي.”

“ جس نے علی(ع) کو دشنام دی اس نے مجھے دشنام دی۔”

حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 121 پر اسے درج کیا اور مسلم و بخاری دونوں کے معیار پر صحیح قرار دیا ہے۔ علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں اس کی صحت کی صراحت کرتے ہوئے درج کیا ہے۔ نیز امام احمد نے ام سلمہ سے یہ حدیث مسند ج6 صفحہ 323 پر اور نسائی نے خصائص علویہ صفحہ17 پر نقل کیا ہے۔ نیز دیگر اجلہ علماء محدیثین نے اس کی روایت کی ہے اسی جیسا رسول کاوہ قول بھی ہے جو عمرو بن شاس(1) کی حدیث میں منقول ہے :

مَنْ‏ آذَى‏ عَلِيّاً فَقَدْ آذَانِي

--------------

1ـ عمرو بن شاس کی حدیث صفحہ 247 کے حاشیہ پر گزر چکی ہے۔

۲۶۸

“ جس علی(ع) کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ۔”

19ـ “مَنْ‏ أَحَبَ‏ عَلِيّاً فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَ مَنْ أَبْغَضَ عَلِيّاً فَقَدْ أَبْغَضَنِي

“ جس نے علی(ع) کو محبوب رکھا اس نے مجھے محبوب رکھا اور جس نے علی(ع) سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔”

امام حاکم نے اس حدیث کو مستدرک ج3 صفحہ 130 پر درج کیا اور بشرائط شیخین اسے صحیح قرار دیا ہے۔ نیز علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں مذکورہ بالا معیار پر اس کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے درج کیا ہے۔اسی جیسا خود حضرت علی(ع) کا قول(1)   ہے۔ آپ فرماتے تھے :

 “ قسم ہے اس ذات کی جس نے زمین سے دانہ کو روئیدہ کیا اور ہو چلائی۔ رسول(ص) مجھ سے قول و قرار فرماچکے ہیں کہ مجھے وہی دوست رکھے گا جو

--------------

1ـ صحیح مسلم کتاب ایمان صفحہ 46 جلد اول ابن عبدالبر نے استعیاب میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) اس حدیث کے مضمون کو صحابہ کی ایک جماعت سے روایت کیا ہے م18 پر بریدہ کی حدیث درج کی جاچکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ۔ آںحضرت کا یہ قول حد تواتر کو پہنچ چکا ہے “ اللہم وآل من والاہ و عاد من عاداہ “ جیسا کہ صاحب فتاوی حامدیہ نے انے رسالہ موسومہ بہ صلوة الفاخرہ فی الاحادیث المتواترہ میں اعتراف کیا ہے۔

۲۶۹

 مومن ہوگا، وہی دشمن رکھے گا جو منافق ہوگا۔”

20ـ “  يا عَلِيِّ أَنْتَ‏ سَيِّدٌ فِي‏ الدُّنْيَا وَ سَيِّدٌ فِي الْآخِرَةِ حبيبک َحبِيبِي وَ حَبِيبِي حَبِيبُ اللَّهِ وَ عَدُوُّكَ عَدُوِّي وَ عَدُوِّي عَدُوُّ اللَّهِ وَالويْل لِمَنْ أَبْغَضَكَ مِنْ بَعْدِي.”

“ تم دنیا میں بھی سید و سردار ہو اور آخرت میں بھی، تمھیں دوست رکھنے والا مجھے دوست رکھنے والا ہے اور مجھے دوست رکھنے والا خدا کو دوست رکھنے والا ہے، اور تمھارا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن خدا کا دشمن ہے۔ ہلاکت و تباہی نصیب ہو اسے جو میرے بعد تم سے بغض رکھے۔”

اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 128 پر درج کیا ہے اور بشرائط شیخین صحیح قرار دیا ہے۔(1)

--------------

1ـ  امام حاکم نے اس حدیث کو بطریق ازہر عبدالرزاق سے انھوں نے زہری سے انھوں نے عبیداﷲ بن عبداﷲ  سے انھوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔ سب کے سب اشخاص حجت ہیں۔ اسی وجہ سے امام حاکم  نے اس حدیث کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام حاکم فرماتے ہیں کہ میں نے ابو عبداﷲ قرشی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے احمد بن یحی حلوانی سے سنا وہ کہتے تھے کہ جب ابو الازہر صنعا سے آئے اور اہل بغداد سے اس حدیث کا ذکر کیا تو یحی بن معین نے اس کا انکار کیا ۔ جب ان کے نشست کا دن  ہوا تو انھوں نے صحبت میں کہا کہ وہ کذاب نیشاپوری کہاں ہے جو عبدالرزاق سے اس حدیث کو بیان کرتا ہے۔ یہ سن کر ابو الازہر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ وہ میں ہوں ان کے اٹھنے اور یہ کہنے پر یحی بن معین ہنس پڑے ۔ پھر ان کو اپنے قریب بلایا اور اپنے سے نزدیک کیا۔ پھر ابو الازہر سے پوچھا کہ عبدالرزاق نے تم سے یہ حدیث کیونکر بیان کی حالانکہ تمھارے سوا کسی اور سے انھوں نے یہ حدیث نہیں بیان کی۔ ابوالازہر بولے سنیے میں صنعا میں پہنچا معلوم ہوا کہ عبدالرزاق موجود نہیں وہ ایک دور کے قریہ میں فروکش ہیں۔ میں ان کے پاس پہنچا میں بیمار بھی تھا۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو انھوں نے مجھ سے خراسان کی بابت دریافت کیا میں نے حالات بیان کیے ان سے حدیثیں لکھیں ۔ پھر ان کے ساتھ صنعاء واپس ہوا۔جب میں رخصت ہونے لگا تو عبدالرزاق نے کہا کہ تمھارا حق مجھ پر واجب ہے۔ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جس کو تمھارے سوا کسی اور نے مجھ سے نہیں سنا یہ کہہ کر انھوں نے قسم بخدا یہ حدیث بیان فرمائی۔ یہ سن کر یحی ابن معین نے ان کی تصدیق کی اور پھر معافی چاہی ، معذرت کی۔ علامہ ذہبی نے تلخیص میں اس حدیث کے رواة کے ثقہ ہونے کا اعتراف کیا ہے اور ابو الازہر کے ثقہ ہونے کی خاص کر صراحت کی ہے اور پھر باوجود ان سب باتوں کے انھوں نے اس حدیث کی صحت میں شک کیا مگر سوائے ہٹ دھرمی اور کٹھ حجتی کے کوئی ایسی بات نہیں پیش کی جو اس حدیث میں قادح ہو۔ رہ گیا یہ کہ عبدالرزاق اس حدیث کو کیوں چھپاتے تھے اس کی وجہ ظاہر ہے انھوں نے ظالمین کے سطوت و قہرو غلبہ کے خوف سے ایسا کیا جیسا کہ سعید بن جبیر نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ تم بڑے بے خوف و بے پروا معلوم ہوتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔درج نہیں کیا ہے

۲۷۰

21ـ “يا علي‏ طوبى‏ لمن أحبك و صدق عليك، و ويل لمن أبغضك و كذب عليك.”

“اے علی(ع) بشارت جنت ہو اسے جو تمہیں دوست رکھے اور تمہارے معاملہ میں سچائی برتے اور ہلاکت ہو اسے جو تمہیں دشمن رکھے اور تمھارے متعلق جھوٹ بولے۔”
۲۷۱

امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 135 پر درج کیا ہے اور درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ :

“ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری و مسلم نے درج نہیں کیا ۔”

22ـ“‏ مَنْ أَراد أَنْ يَحْيَا حَيَاتِي‏ وَ يَمُوتَ مَمَاتِي وَ يَسکن جَنَّةَ الخلد الَّتِي

۲۷۲

 وَعَدَنِي رَبِّي فَلْيَتَوَلَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ع فَإِنَّهُ لَا يُخْرِجُكُمْ مِنَ ْهُدَى وَ لَا يُدْخِلُكُمْ فِي ضَلَالَةٍ.”

“ جو شخص میری زنگی جینا اور میری موت مرنا اور سدابہار باغِ جنت میں جس کا خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے رہنا چاہتا ہو وہ علی(ع) کو دوست رکھے کیونکہ علی(ع) تم کو راہ ہدایت سے کبھی الگ نہ کریں گے اور نہ گمراہی میں کبھی ڈالیں گے۔”(1)

23ـ “أوصي من آمن بي و صدّقني بولاية عليّ ابن ابی طالب، فمن‏ تولّاه‏ فقد تولّاني، و من تولّاني فقد تولّى اللّه، و من أحبّه فقد أحبّني، و من أحبّني فقد أحبّ اللّه، و من أبغضه فقد أبغضني و من أبغضني فقد أبغض اللّه عز وجل.”

“میں وصیت کرتا ہوں ہر اس شخص کو جومجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی کہ علی(ع) کا تابع فرمان رہے جس نے علی(ع) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی ۔ اور جس نے علی(ع) کو

--------------

1ـ دیکھیے یہی کتاب صفحہ72، 75۔

۲۷۳

دوست رکھا اس نے مجھے دوست رکھا اور جس نے مجھے دوست رکھا اس نے خدا کو دوست رکھا اور جس نے علی(ع) سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے خدا سے بغض رکھا۔”(1)

24ـ“‏مَنْ سَرَّهُ ان يَحْيَى حياتى، وَ يَمُوتَ مماتى وَ يَسْكُنَ جُنَّةَ عَدْنٍ غَرَسَهَا ربى فَلْيُوَالِ عَلِيّاً مِنْ بعدى، وَ لْيُوَالِ‏ وَلِيَّهُ‏، وَ لْيَقْتَدِ بالائمة مِنْ بعدى، فانهم عترتى خُلِقُوا مِنْ طينتى رُزِقُوا فَهْماً وَ عِلْماً، وَ وَيْلٌ لِلْمُكَذِّبِينَ بفضلهم مِنْ امتى الْقَاطِعِينَ فِيهِمْ صلتى لَا انالَهُمُ اللَّهُ شفاعتى.

“ جسے یہ خوشگوار معلوم ہو کہ میری زندگی جیے اور میری موت مرے اور باغ عدن میں رہے وہ میرے بعد علی(ع) کو اپنا امیر سمجھے اور علی(ع) کے بعد ان کے جانشین کی اطاعت کرے اور میرے بعد میرے اہل بیت(ع) کی پیروی اختیار کرے کیونکہ

--------------

1ـ دیکھیے یہی کتاب صفحہ 76۔

۲۷۴

میرے اہل بیت(ع) میری عترت ہیں، میری طینت سے پیدا ہوئے ہیں، انھیں میرا ہی فہم و علم بخشا گیا، پس ہلاکت ہو میری امت کے ان لوگوں کے لیے جو میری اہل بیت (ص) کے فضل و شرف کو جھٹلائیں اور میری قرابت کا خیال نہ کریں۔ خدا ان کو میری شفاعت سے محروم رکھے۔”

25ـ “مَنْ‏ أَحَبَ‏ أَنْ‏ يَحْيَا حَيَاتِي‏ وَ يَمُوتَ مِيتَتِي وَ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ الَّتِي وَعَدَنِي رَبِّي، وَ هِيَ جَنَّةُ الْخُلْدِ قَضِيباً غَرَسَهُ بِيَدِهِ، فَلْيَتَوَلَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَ ذُرِّيَّتَهُ مِنْ بَعْدِهِ فَإِنَّهُمْ لَنْ يُخْرِجُوهُمْ مِنْ بَابِ هُدًى وَ لَنْ يُدْخِلُوهَا فِي بَابِ ضَلَالَةٍ.”

“جسے یہ پسندیدہ ہو کہ میری زندگی جیے اور میری موت مرے اور اس جنت میں داخل ہو جس کا میرے
پروردگار نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے اور جنت خلد ہے پس وہ علی(ع) اور علی(ع) کے بعد ان کی ذریت کی اطاعت و فرمانبرداری کرے کیونکہ وہ تمہیں راہ راست سے کبھی علیحدہ نہ کریں گے اور نہ گمراہی میں کبھی ڈالیں گے۔ (1)

--------------

1ـ دیکھیے صفحہ 74۔

۲۷۵

26ـ “يَا عَمَّارُ إِذَا رَأَيْتَ‏ عَلِيّاً سَلَكَ وَادِياً وَ سَلَكَ النَّاسُ وَادِياً غَيْرَهُ فَاسْلُكْ مَعَ عَلِيٍّ وَ دَعِ النَّاسَ فَإِنَّهُ لَنْ يَدُلَّكَ عَلَى رَدًى وَ لَنْ يُخْرِجَكَ مِنْ هُدًى

“ اے عمار ! جب تم علی(ع) کو دیکھنا کہ وہ اور کسی راستہ پر جارہے ہیں اور لوگ کسی اور راستہ پر چل رہے ہیں تو تم اسی راستہ کو اختیار کرنا جس پر علی(ع) ہیں۔ وہ تمھیں کبھی ہلاکت میں نہ ڈالیں گے نہ راہ راست سے جدا کریں گے۔”(1)

27ـ “كَفِّي‏ وَ كَفُ‏ عَلِيٍّ فِي الْعَدْلِ سَوَاءٌ.

“ میرا ہاتھ اور علی(ع) کا ہاتھ عدل میں برابر ہے۔”(2)

28ـ“يا فاطم ه أما ترضين‏ أنّ اللّه اطّلع إلى أهل الأرض فاختار رجلين، أحدهما أبوك، و الآخر بعلك.”

“ اے میری پارہ جگر فاطمہ(س) کیا تم اس سے خوش

--------------

1ـ دیلمی نے عمار و ابو ایوب سے اس کی روایت کی ہے۔ جیسا کہ کنزالعمال جلد6 صفحہ156 پر مذکور ہے۔

2ـ کنزالعمال جلد6 صفحہ 153 حدیث 2539۔

۲۷۶

نہیں ہو کہ خداوند عالم نے روئے زمین کے باشندوں پر ایک نظر کی تو دو شخص منتخب کیے ایک تمھارا باپ دوسرا تمھارا شوہر۔”(1)

29ـ “أَنَا الْمُنْذِرُ وَ عَلِيٌّ الْهَادِي يَا عَلِيُّ بِكَ يَهْتَدِي الْمُهْتَدُونَ مِنْ بَعْدِي.”

“ میں منذر ڈرانے والا ہوں اور علی(ع) ہادی ہیں ۔ اے علی(ع) تمھارے ہی ذریعہ میرے بعد ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے۔”(2)

30ـ“  يا على‏ لا يحلّ‏ لاحد يجنب في هذا المسجد غيرى و غيرك. ”

“ اے علی(ع) ! میرے اور تمھارے سوا کسی اور تیسرے کے لیے جائز نہیں کہ وہ مسجد میں بحالت جنابت ہو۔”(3)

اسی جیسی طبرانی کی حدیث ام سلمہ(رض) سے اور بزار(4) سے منقول ہے۔ انھوں نے سعد سے روایت کی ہے۔ سعد

--------------

1ـ مستدرک ج3 صفحہ129 اور بھی بکثرت اصحاب سنن نے اس حدیث کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔

2ـ دیلمی نے ابن عباس کی حدیثوں میں اس کو لکھا ہے ۔ کنزالعمال جلد6 صفحہ 150 پر بھی موجود ہے ۔ ملاحظہ ہو حدیث 2631۔

3ـ دیکھیے م 17 وہاں ہم نے اس حدیث پر جو حاشیہ لکھا ہے اسے ضرور ملاحظہ فرمائیں اور اس موقع پر جو حدیثیں ذکر کی ہیں ان پر بھی غائر نگاہ ڈالیں۔

4ـ ابن حجر نے صواعق محرقہ میں اس حدیث کو لکھا ہے ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب 9۔

۲۷۷

کہتے ہیں کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا :

“لا يحل‏ لأحد أن يجنب في هذا المسجد إلّا أنا و عليّ .”

“ کسی شخص کے لیے بھی جائز نہیں کہ مسجد مین بحالتِ جنابت ہو سوا میرے اور علی(ع) کے۔

31ـ“أَنَا وَ هَذَا يعنی عليا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَى أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ.”

میں اور یہ ، یعنی علی(ع) قیامت کے دن میری امت پر حجت ہوں گے۔”

خطیب نے انس کی حدیث(1) سے اس کو نقل کیا ہے۔ قابل غور یہ ہے کہ امیرالمومنین(ع) نبی کی طرح کیونکر حجت تھے۔

آپ کا بعینہ نبی کی طرح حجت ہونا تو اسی وقت صحیح ہوسکتا ہے جبکہ آپ رسول(ص) کے ولی عہد ہوں اور آپ کے بعد امور کے مالک و مختار ہوں۔

32ـ “مكتوب‏ على‏ باب‏ الجنّة: لا إله إلّا اللّه، محمّد رسول اللّه، عليّ أخو رسول اللّه ”

“ جنت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے۔ معبود حقیقی بس اﷲ ہی ہے اور محمد مصفطی(ص) خدا کے

--------------

1ـ کنزالعمال حدیث 2632 جلد6 صفحہ 157۔

۲۷۸

 رسول(ص) ہیں اور علی(ع) رسول(ص) کے بھائی ہیں۔”(1)

33ـ “مكتوب‏ على‏ ساق‏ العرش‏:  لا إله الّا اللّه محمّد رسول اللّه أيّدته بعليّ و نصرته بعلی.”

“ ساق العرش پر لکھا ہوا ہے : معبود حقیقی بس اﷲ ہی ہے اور محمد مصطفی(ص) خدا کے رسول ہیں جن کو علی(ع) کے ذریعہ تقویت بخشی اور علی(ع) سے جن کی مدد کی ۔”(2)

24ـ “من‏ أراد أن‏ ينظر إلى‏ نوح‏ في عزمه و إلى آدم في علمه و إلى إبراهيم في حلمه و إلى موسى في فطنته و إلى عيسى في زهده فلينظر إلى علي بن أبي طالب‏

“ جو شخص یہ چاہے کہ نوح(ع) کو ان کے محکم ارادہ میں، آدم(ع) کو ان کے علم میں، ابراہیم(ع) کو ان کے حلم میں ، موسیٰ(ع) کو ان کی تیزی ذہانت میں، عیسیٰ(ع)

--------------

1ـ طبرانی نے واسطہ میں، خطیب نے المتفق میں درج کیا ہے جیسا کہ کنزالعمال جلد6 صفحہ 159 پر مذکورہ ہے ہم اسے صفحہ 233 پر ذکر کرچکے اور ایک مفید حاشیہ بھی تحریر کیا ہے۔

2ـ طبرانی نے کبیر میں اور ابن عساکر نے ابوالحمراء سے مرفوعا اس کی روایت کی ہے ملاحظہ ہو کنزالعمال جلد6 صفحہ158۔

۲۷۹

 کو ان کے زہد میں دیکھے وہ علی(ع) کی طرف دیکھے۔”

اس حدیث کو بیہقی نے اپنے صحیح میں اور امام احمد بن حنبل نے مسند میں درج کیا ہے۔(1)

35ـ “يَا عَلِيُّ إِنَّ فِيكَ مِنْ‏ عِيسَى‏ مَثَلًا أَبْغَضَتْهُ الْيَهُودُ حَتَّى بَهَتُوا أُمَّهُ وَ أَحَبَّتْهُ النَّصَارَى حَتَّى أَنْزَلُوهُ بِالْمَنْزِلَةِ الَّتِي لَيْسَتْ لَهُ.”

“ اے علی(ع) ! تم میں عیسی(ع) سے مشابہت ہے۔ یہودیوں نے عیسی(ع) کو دشمن رکھا اور  دشمنی میں اتنے بڑھے کہ انھوں نے ان کی  ماں پر بہتان باندھا اور نصاری نے انھیں دوست رکھا اور اتنا غلو کیا کہ اس منزل پر پہنچا دیا جس پر

--------------

1ـ شرح نہج البلاغہ جلد2 صفحہ 149 امام رازی نے بھی اپنی تفسیر کبیر صفحہ 288 جلد 2 میں اس حدیث کو بسلسلہ تفسیر آیہ مباہلہ درج کیا ہے اور موافق و مخالف دونوں کے نزدیک بطور مسلمات ہونا لکھا ہے۔ ابن بطہ نے ابن عباس کی حدیث سے اس کی روایت کی ے جیسا کہ احمد بن محمد بن حسنی مغربی وارد قاہرہ کی کتاب فتح الملک بصحت حدیث باب مدینہ العلم علی(ع) کے صفحہ 24 پر مذکور ہے۔ منجملہ ان اشخاص کے جنھوں نے اعتراف و اقرار کیا ہے کہ علی(ع) تمام انبیاء(ع) کے اسرار کے جامع تھے محی الدین ابن عربی ہیں جیسا کہ عارف شعرانی نے کتاب الیواقیت والجواہر صفحہ 72 مبحث 32 میں ابن عربی سے نقل کیا ہے۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639