دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)6%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272343 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

کی منزلت سے لوگ آگاہ ہوجائیں۔ اتمام حجت ہوجائے۔ احکام الہی کے پہنچانے میں تاخیر نہ ہو۔ لہذا اس حدیث کو صرف غزوہ تبوک  کے موقع سے مخصوص کر دینا ، حضرت علی(ع) کو صرف غزوہ تبوک کے موقع پر جانشین رسولص) تسلیم کرنا صریحی ظلم ہے۔

اسی جیسی حدیث دختر حمزہ کے قضیہ میں بھی آںحضرت (ص) نے ارشاد فرمائی ۔ جبکہ حضرت امیرالمومنین(ع) جناب جعفر اور زید میں اختلاف پیدا ہوا۔  تو آںحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا :

“ اے علی(ع) تم کو مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی۔(۱)

اسی طرح یہ حدیث اس دن آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمائی جبکہ ابوبکر و عمر اور ابو عبیدہ بن الجراح رسول(ص) کی خدمت میں بیٹھے تھے اور رسول (ص) حضرت علی(ع) پر تکیہ کیے تھے۔ آںحضرت (ص) نے اپنا ہاتھ حضرت علی(ع) کے کاندھے پر رکھا اور ارشاد فرمایا :

“ اے علی(ع) ! تم مومنین میں سب سے پہلے ایمان لانے والے ہو اور سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہو اور تم کو مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی(۲) ۔”

پہلی مواخات جو ہجرت کے قبل مکہ میں صرف مہاجرین کے درمیان رسول(ص) نے قائم کی تھی۔ اس دن بھی رسول(ص) نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔

--------------

۱ ـ خصائص علویہ امام نسائی صفحہ۱۹۔

۲ ـ حسن بن بدر حاکم نے باب کنیت میں اور شیرازی نے باب الالقاب میں لکھا ہے ۔ ابن نجار نے بھی ذکر کیاہے اور کنزالعمال جلد۶ کے ایک ہی صفحہ ۳۹۵ پر دو جگہ موجود ہے۔ حدیث ۶۰۲۹، ۶۰۳۲۔

۲۰۱

نیز دوسری مواخات جو مدینہ میں ہجرت کے پانچ مہینہ بعد رسول (ص) نے انصار و مہاجرین کے درمیان قائم کی دونوں موقعوں پر آپ نے حضرت علی(ع) کو اپنےلیے منتخب کیا اور اپنا بھائی بنا کر سب پر فوقیت بخشی اور ارشاد فرمایا کہ :

“  وَ أَنْتَ‏ مِنِّي‏ بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي”

“ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے ہارون کے لیے موسی(ع) تھے سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا(۱) ۔”

واقعہ مواخات کے متعلق بطریق ائم طاہرین(ع) ایک دو نہیں متواتر حدیثیں ہیں۔ ائمہ طاہرین(ع) کےعلاوہ غیروں کی روایتوں کو دیکھنا ہو تو پہلی مواخات کے متعلق صرف ایک زید بن ابی اوفی ہی کی حدیث کے لے لیجیے جسے امام احمد بن

--------------

۱ ـ علامہ بن عبدالبر نے استیعاب میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) لکھا ہے کہ رسول(ص) نے مہاجرین میں مواخات قرار دی پھر دوبارہ مہاجرین و انصار میں مواخات فرمائی اور دونوں موقعوں پر امیرالمومنین(ع) سے فرمایا کہ تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔ ابن عبدالبر کہتے کہ رسول(ص) نے اپنے اور علی(ع) کے درمیان مواخات فرمائی۔ پوری تفصیل کتب سرو اخبار میں موجود ہے۔ سیرہ حلبیہ جلد دوم ص۲۶ پر مواخات اول کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے اور مواخات ثانیہ کی تفصیل بھی اسی سیرة حلبیہ ج۲ کے ص۱۲۰ پر موجود ہے۔ آپ کو نظر یہ آئے گا کہ سول اﷲ(ص) نے دونوں موقعوں پر علی(ع) کو اپنا بھائی بنا کر سب پر فضیلت عطا کی۔ سیرہ و حلانیہ مین بھی مواخات اولی و ثانیہ کی تفصیل وہی ہے جو سیرہ حلبیہ میں ہے۔ انھوں نے تصریح کی ہے کہ دوسری مواخات ہجرت کے پانچ ماہ بعد ہوئی۔

۲۰۲

 حنبل نے کتاب  مناقب علی(ع) میں، ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں بغوی(۱) و طبرانی نے اپنی معجم میں، بارودی نے اپنی کتاب معرفہ میں اور ابن عدی(۲) و غیرہ نے  اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔

حدیث بہت طولانی ہے اور پوری کیفیت مواخات پر مشتمل ہے آخر کی عبارت یہ ہے کہ :

“ فَقَالَ قَالَ عَلِيٌّ لَقَدْ ذَهَبَ‏ رُوحِي‏ وَ انْقَطَعَ ظَهْرِي حِينَ رَأَيْتُكَ فَعَلْتَ بِأَصْحَابِكَ مَا فَعَلْتَ غَيْرِي فَإِنْ كَانَ هَذَا مِنْ سَخَطٍ عَلَيَّ فَلَكَ الْعُتْبَى وَ الْكَرَامَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ الَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ مَا اخْتَرْتُكَ إِلَّا لِنَفْسِي فَأَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَ أَنْتَ أَخِي وَ وَزِيرِي وَ وَارِثِي قَالَ قَالَ وَ مَا أَرِثُ مِنْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا وَرَّثَ الْأَنْبِيَاءُ قَبْلَكَ كِتَابَ اللَّهِ وَ سُنَّةَ نَبِيِّهِمْ وَ أَنْتَ مَعِي فِي قَصْرِي فِي الْجَنَّةِ مَعَ ابْنَتِي فَاطِمَةَ وَ أَنْتَ أَخِي

--------------

۱ ـ امام احمد و ابن عساکر سے بکثرت معتبر وموثق علماء نے نقل کیا ہے من جملہ ان کے علامہ متقی ہندی بھی ہیں۔ انھوں نے کنزالعمال میں دو جگہ یہ حدیث درج کی ہے ایک کنزالعمال جلد۵ ص۴۰ پر پھر جلد۶ ص۳۹۰ پر باب مناقب علی (ع) میں امام احمد سے نقل کر کے لکھا ہے۔

۲ ـ ان تمام ائمہ اہل سنت سے ایک جماعت ثقات نے یہ حدیث نقل کی ہے ۔ منجملہ ان کے ایک علامہ متقی ہندی ملاحظہ ہو کنزالعمال جلد۵ صٰفحہ۴۱ حدیث ۹۱۹۔

۲۰۳

وَ رَفِيقِي ثُمَّ تَلَا رَسُولُ اللَّهِ ص‏ إِخْواناً عَلى‏ سُرُرٍ مُتَقابِلِينَ‏ الْمُتَحَابُّونَ فِي اللَّهِ يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ.”

“ امیر المومنین(ع) نے رسول اﷲ(ص) سے کہا : یا رسول اﷲ(ص) میری تو جان نکل گئی، کمر شکستہ ہوگئی ۔ یہ دیکھ کر کہ آپ نے اصحاب میں تو مواخات قائم کی، ایک کو دوسرے کا بھائی بنایا مگر مجھے چھوڑ دیا ۔ مجھے کسی کا بھائی نہ بنایا۔ اگر یہ کسی ناراضگی و خفگی کی وجہ سے ہے تو آپ مالک و مختار ہیں ۔ آپ ہی عفو فرمائیں گے او آپ ہی عزت بخشیں گے۔ رسول(ص) نے فرمایا : قسم ہے اس معبود کی جس نے  مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں نے تمھیں خاص اپنے لیے اٹھا رکھا ہے۔ تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے موسی (ع) کے لیے ہارون تھے سوائے اس کے  کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ تم میرے بھائی ہو، میرے وارث ہو۔ امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ میں آپ کا کس چیز کا وارث ہوں گا؟ آپ نے فرمایا : کہ اسی چیز کے جس کے انبیاء وارث ہوئے یعنی کتاب خدا، سنت نبی(ص)۔ اور تم میرے ساتھ جنت میرے قصر میں رہوگے۔ میری پارہ جگر فاطمہ(س) کے ساتھ ۔ تم میرے بھائی ہو، میرے رفیق کار ہو۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:إِخْواناً عَلى‏ سُرُرٍ مُتَقابِلِينَ‏”

اور دوسرے مواخات کے سلسلہ میں صرف اسی ایک حدیث کو لے لیجیے جو طبرانی نے اپنی معجم کبیر میں ابن عباس سے روایت کی ہے :

“ رسول اﷲ(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا کہ کیا تم ناراض ہوگئے کہ

۲۰۴

 میں نے مہاجرین و اںصار کے درمیان تو مواخات کی اور تم کو ان میں سے کسی کا بھائی نہ بنایا۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تم کو مجھ وہی نسبت حاصل ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی۔”(۱)

--------------

۱ ـ ملاحظہ ہو کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد بن حنبل جلد۵ ص۳۱ پیغمبر(ص) کے اس فقرہ میں کہ “ کیا تم مجھ سے ناراض ہوگئے؟” جو پیار و محبت ، دلدہی اور پدرانہ شفقت و ناز برداری مترشح ہے وہ مخفی نہیں۔ اگر آپ فرمائیں کہ جب پہلی مرتبہ رسول (ص) علی(ع) کو اپنے لیے مخصوص کرچکے تھے تو دوسری مواخات کے موقع پر تمام اصحاب میں مواخات کرنے اور علی(ع) کو کسی کا بھائی نہ جانے سے علی(ع) کو تردد اور شک و شبہ نہ کرنا چاہیے تھا۔ اس مرتبہ ان کو مطمئن رہنا چاہیے تھا کہ جس طرح رسول(ص) نےپہلی مرتبہ تجھے اپنے لیے مخصوص کر رکھا اس مرتبہ بھی رسول(ص) کا ایسا ہی ارادہ ہے۔ آخر حضرت علی(ع) کو شبہ کیوں ہوا؟ اور آپ نے دوسری مواخات کو بھی پہلی مواخات پر قیاس کیوں نہ کیا۔ تو میں عرض کروں گا۔ دوسری مواخات کو پہلی مواخات پر قیاس کیا ہی نہ جاسکتا تھا اس لیے کہ پہلی مواخات خاص کر مہاجرین کے درمیان ہوئی تھی بر خلاف دوسری مواخات کے کہ وہ مہاجرین و اںصار کے درمیان ہوئی تھی ۔ دوسری مواخات  میں مہاجر کا بھائی اںصاری کو بنایا گیا تھا اور انصاری کا بھائی مہاجر کو۔ اس مرتبہ چونکہ پیغمبر(ص) اور علی(ع) دونوں کے دونوں مہاجر تھے لہذا قیاس یہ کہتا ہے کہ اب کی مرتبہ دونوں بھائی بھائی نہ ہوں گے۔ لہذا حضرت علی(ع) نے دوسرے لوگوں کے دیکھتے ہوئے قیاس کیا ک اب کی مرتبہ میرا بھائی کوئی اںصاری ہی ہوگا جس طرح ہر مہاجر کا بھائی انصاری مقرر کیا گیا ہے۔ اور جب رسول(ص) نے کسی اںصاری کو کو علی(ع) کا بھائی نہ بنایا تو علی(ع) کو اضطراب ہوا مگر خدا و رسول(ص) دونوں اس مرتبہ حضرت علی(ع) کو ہر ایک پر فضیلت ہی دینا چاہتے تھے اور قیاس کے برخلاف اس مرتبہ بھی رسول(ص) نے اپنا بھائی علی(ع) ہی کو بنایا۔

۲۰۵

مکتوب نمبر۱۷

ہم آپ کے اس جملہ کا کہ رسول اﷲ (ص) علی(ع) و ہارون(ع) کو فرقدین ( دوستارے ہیں جو ایک ساتھ رہتے ہیں) سے تشبیہ دیتے تھے مطلب نہیں سمجھے۔

                                                                             س

جواب مکتوب

رسول اﷲ(ص) کی سیرت کا مطالعہ فرمائیے تو آپ کو نظر آئے گا کہ پیغمبر(ص) جناب ہارون(ع) اور امیرالمومنین(ع) کو آسمان کے فرقدین اور دونوں آنکھوں سے مثال دیا کرتے تھے۔ دونوں اپنی اپنی امت میں ایک جیسے تھے ۔ کسی کو کسی پر

۲۰۶

 امتیارز نہیں حاصل تھا۔

یومِ شبر و شبیر و مبشر

ملاحظہ فرمائیے کہ رسول اﷲ(ص) نے علی(ع) کے جگر گوشوں کے نام ہارون کے فرزندوں کے نام جیسے رکھے۔ حسن(ع) و  حسین(ع) و محسن(ع) اور ارشاد فرمایا کہ :

“ میں نے یہ نام فرزندان ہارون شبر وشبیر و مبشر کے نام پر رکھے۔”

رسول اﷲ(ص) کا مقصد یہ تھا کہ دونوں ہارونوں میں مشہابت گہری ہو جائے اور وجہ مشابہت تمام حالات  ومنازل میں عام ہو کے رہے۔

یوم مواخات

محض اس وجہ سوے رسول(ص) نے علی(ع) کو اپنا بھائی بنایا اور دوسروں پر ترجیح دی۔ غرض یہ تھی کہ دونوں کو اپنے بھائی کے نزدیک جو منزلت حاصل ہے وہ بالکل ایک رہے دونوں کی منزلوں میں مشابہت پوری پوری ہوجائے اور یہ تمنا بھی تھی کہ دونوں کے درمیان کوئی بھی وجہ فرق نہ رہے۔ رسول(ص) نے اپنے اصحاب میں دو مرتبہ بھائی چارہ قائم کیا پہلی مرتبہ ابوبکر و عمر بھائی بھائی ہوئے۔ عثمان و عبدالرحمن بن عوف بھائی بھائی مقرر کیے گئے دوسری مرتبہ ابوبکر و خارجہ بن زید میں بھائی چارہ ہوا۔ عمرو عتبان بن مالک میں بھائی چارہ ہوا۔ لیکن امیرالمومنین(ع) دونوں مرتبہ رسول(ص) کے بھائی بنے۔

اس مسئلہ میں تو اتنے محکم نصوص صحیح طریقوں سے ابن عباس ، ابن عمر، زید بن ارقم، زید بن ابی اوفیٰ، انس بن مالک، حذیفہ بن یمان ، مخدوج بن

۲۰۷

 یزید، عمر بن خطاب، براء بن عازب، علی بن ابی طالب(ع) سے وارد ہیں۔

کہ سب کو لکھنا مشکل ہے۔

پیغمبر(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا :

 “«أَنْتَ‏ أَخِي‏ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ».

“ تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔”(۱)

ابھی اوپر آپ یہ حدیث ملاحظہ فرماچکے ہیں:

 “ فأخذ برقبت علی و قال: انّ‏ هذا أخي‏ و وصيي‏ و خليفتي‏ فيكم فاسمعوا له و أطيعوا

“ پیغمبر(ص) نے علی(ع) کے سر پر ہاتھ رکھ فرمایا : یہ میرا بھائی ہے، میرا وصی ہے ۔ تم میں میرا جانشین ہے۔ اس کی بات سننا ، اس کی اطاعت کرنا۔”

ایک دن پیغمبر(ص) اصحاب کے پاس تشریف لائے ۔ آںحضرت کے چہرے کا رنگ کھلا ہوا تھا۔ عبدالرحمن بن عوف نے اس خوشی کی وجہ پوچھی  آپ نے فرمایا :

“ بِشَارَةٌ أَتَتْنِي مِنْ رَبِّي فی أَخِي وَ ابْنِ عَمِّي وَ ابْنَتِي

--------------

۱ ـ امام حاکم نے مستدرک ج۳ س۱۴ پر دو صحیح طریقوں سے جو شیخین بخاری ومسلم کے معیار پر صحیح ہے درج کیا ہے۔ علامہ زہبی نے تلخیص مستدرک میں اس کی صحت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے۔ علامہ ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ صفحہ۷۳ پر ترمذی سے نقل کیا ہے۔ اہل سیر و اخبار میں سے جس نے واقعہ مواخات کا ذکر کیا ہے ؟؟؟ نے بطور مسلمات ذکر کیا ہے۔

۲۰۸

 بِأَنَّ اللَّهَ زَوَّجَ‏ عَلِيّاً بِفَاطِمَةَ

“ میرے پرودگار کی جانب سے میرے بھائی میرے چچا کے بیٹے اور میری جگر پارہ فاطمہ(س) کے متعلق خوشخبری آئی ہے کہ خود خداوند عالم نے علی(ع) کا عقد فاطمہ(س) سے کردیا ۔”(۱)

جب جناب سیدہ امیرالمومنین(ع) کے گھر آئیں تو آںحضرت(ص) سے ام ایمن سے کہا کہ میرے بھائی کو بلاؤ

ام ایمن نے کہا کہ : علی(ع) آپ کے بھائی بھی ہیں اور آپ ان سے اپنی بیٹی بھی بیاہتے ہیں۔

آپ نے فرمایا: “ہاں اے ام ایمن ایسا ہی ہے۔”

ام ایمن ، امیرالمومنین(ع) کو بلا لائیں۔”(۲)

نہ جانے کتنی مرتبہ آںحضرت(ص) نے امیرالمومنین(ع) کے بھائی ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ:

             “ یہ علی(ع) میرے بھائی ہیں۔ میرے چچا کے بیٹے ہیں، میرے داماد ہیں، میرے بچوں کے باپ ہیں(۳) ۔”

--------------

۱ ـ ابوبکر خوارزمی نے اس کی روایت کی ہے۔ ملاحظہ ہو صواعق محرقہ ص۱۰۳۔

۲ ـ مستدرک ج۳ ، ص۱۵۹ علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے ۔ علامہ ابن حجر نے صواعق باب ۱۱ میں نقل کیا ہے۔ ان کے علاوہ جس جس نے جناب سیدہ کی شادی کا تذکرہ کیا ہے ہر ایک نے اس حدیث کو بھی ضرور ذکر کیا ہے۔

۳ ـ شیرازی نے کتاب الالقاب میں اس کی روایت کی ہے۔ ابن نجار نے ابن عمر سے اس کی روایت کی ہے اور علامہ متقی ہندی نے کنزالعمال نیز منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد جلد۵ ص۳۴ پر نقل کیا ہے۔

۲۰۹

ایک مرتبہ امیر المومنین علیہ السلام سے دورانِ گفتگو فرمایا :

 “ أَنْتَ‏ أَخِي‏ وَ صَاحِبِي‏ ”

“ تم میرے بھائی ہو میرے ساتھی ہو۔”(۱)

دوسری مرتبہ دورانِ گفتگو فرمایا :

“ أَنْتَ‏ أَخِي‏ وَ صَاحِبِي‏ وَ رَفِيقِي‏ فِي الْجنةِ.”

“ تم میرے بھائی ہو میرے ساتھی ہو اور جنت میں میرے رفیق ہو۔”(۲)

ایک معاملہ میں جناب جعفر و زید اور امیرالمومنین(ع) کے درمیان اختلاف پیدا ہوا تو آپ نے امیرالمومنین(ع) سے خطاب کر کے فرمایا :

 “و اما انت يا علی فاخی و ابو ولدی و منی الیَ ۔”

“ لیکن تم اے علی(ع) میرے بھائی ہو، میرے بچوں کے باپ ہو ، مجھ سے ہو اور مجھ تک ہو(۳) ۔”

ایک دن آپ نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا کہ :

             “ تم میرے بھائی ہو، میرے وزیر ہو، تم ہی میرے

--------------

۱ ـ ابن عبدالبر نے استیعاب میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) بسلسلہ اسناد ابن عباس اس حدیث کی روایت کی ہے۔

۲ ـ خطیب نے اس حدیث کی روایت کی ہے کنزالعمال جلد۶ ص۴۰۲ پر نمبر۶۱۰۵ یہی حدیث ہے۔

۳ ـ امام حاکم نے مستدرک جلد۳ ص۲۱۴ پر یہ حدیث نقل کی جو امام مسلم کی شرائط صحت پر صحیح ہے۔

۲۱۰

 دین ادا کرو گے۔ میرے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرو گے، مجھے فارغ الذمہ کروگے(۱) ۔”

جب آن حضرت(ص) کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے لوگون سے کہا کہ میرے بھائی کو بلاو۔(۲)

 لوگوں نے امیرالمومنین(ع) کو بلایا۔ آپ نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا :

 “ میرے قریب آؤ۔”

امیرالمومنین(ع) قریب ہوئے ۔ رسول(ص) کا سر زانو پر رکھے رہے اور رسول(ص) آپ سے گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ آںحضرت(ص) کی روح نے جسم سے مفارقت کی اور آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ جنت کے دروازے پر لکھاہوا ہے:

 “ لا إله إلّا اللّه، محمّد رسول اللّه، عليّ‏ أخو رسول‏ اللّه‏

“ کوئی معبود نہیں سوا اﷲ کے محمد(ص) خدا کے رسول ہیں اور علی(ع) رسول کے بھائی ہیں(۳) ۔”

--------------

۱ ـ طبرانی نے معجم کبیر میں ابن عمر سے اس حدیث کی روایت کی ہے اور علامہ متقی ہندی نے کنزالعمال نیز منتخب کنزالعمال میں اسے نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو حاشیہ مسند احمد حنبل جلد۵ ص۳۴۔

۲ ـ طبقات بن سعد جلد۲ قسم ثانی اور کنزالعمال جلد۴ ص۵۵۔

۳ ـ طبرانی نے اس حدیث کو اوسط میں خطیب نے کتاب المتفق والمفترق میں لکھا ہے اور علامہ متقی ہندی نے کنزالعمال و منتخب کنزالعمال میں نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو حاشیہ مسند احمد حنبل جلد۵ ص۳۵۔

۲۱۱

شب ہجرت جب امیرالمومنین(ع) بستر رسول(ص) پر آرام فرمارہے تھے خداوندِ عالم نے جبریل و میکائیل پر وحی نازل فرمائی کہ میں نے تمھیں بھائی بھائی بنایا ہے اور تم میں سے ایک کی عمر دوسرے سے زیادہ طولانی کی ہے۔ تم میں سے کون اپنی زندگی دوسرے کو دینے پر آمادہ ہے۔ دونوں نے عذر کیا زندگی دینا گوارا نہ کیا۔ تو خداوند عالم نے وحی فرمائی کہ تم دونوں علی جیسے کیوں نہیں ہوجاتے۔ دیکھو میں نے علی(ع) و محمد(ص) کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا اور علی(ع) بستر رسول(ص) پر سو کر اپنی جان فدا کررہے ہیں اور اپنی زندگی ہلاکت میں ڈال کر رسول(ص) کی زندگی کی حفاظت کررہے ہیں۔ تم دونوں زمین پر جاؤ اور علی(ع) کو ان کے دشمنوں سے بچاؤ۔

دونوں ملک اترے جبریل سرہانے ،م میکائیل پائینی کھرے ہوئے جبریل کہتے جاتے کہ :

“ مبارک ہو، مبارک ہو، کون آپ کا مثیل ہوسکے گا ۔ اے علی ابن ابی طالب(ع) ۔ اﷲ کے سبب ملائکہ  پر فخر و مباہات کررہا ہے۔”

اور اسی موقع پر خداوند عالم نے ی آیت نازل فرمائی کہ :

“ لوگوں میں کچھ ایسے بھی بندے ہیں جو اپنے نفس کو راہ خدا میں بیچ ڈالتے ہیں(۱) ۔”

--------------

۱ ـ اصحاب سنن نے اپنے اپنے مسانید میں اس حدیث کو درج کیا ہے نیز امام فخرالدین رازی نے اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں ذکر کیا ہے ملاحظہ ہو تفسیر کبیر ج۲ صفحہ ۱۷۹ تفسیر سورہ بقرہ نیز ملاحظہ ہو اسد الغابہ جلد۴ ص۲۵۔

۲۱۲

امیرالمومنین(ع) فرمایا کرتے :

“ میں خدا کا بندہ ہوں، میں رسول(ص) کا بھائی ہوں۔ میں صدیق اکبر ہوں۔ میرے علاوہ ایسا کہنے والا جھوٹا ہے(۱) ۔”

امیرالمومنین(ع) نے فرمایا :

“ قسم بخدا میں رسول(ص) کا بھائی ہوں، ان کا ولی عہد ہوں، فرزند عم ہوں، ان کے علوم کا وارث ہوں، مجھ سے زیادہ کون حقدار ہے اس کا(۲) ۔”

شوریٰ والے دن آپ نے عثمان و عبدالرحمن بن عوف، سعد اور زبیر سے خطاب کر کے فرمایا تھا کہ :

“ میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جسے رسول(ص) نے اپنا بھائی بنایا ہو۔ اس دن جس دن مسلمانون میں بھائی چارہ کیا تھا۔”

لوگوں نے کہا : نہیں، آپ کے علاوہ کوئی نہیں(۳) ۔

--------------

۱ ـ امام نسائی نے خصائص علویہ میں امام حاکم نے مستدرک جلد۳ ص۱۱۲ کے شروع میں ابن ابی شیبہ و ابن عاصم نے السنہ میں درج کیا ہے اور علامہ متقی ہندی نے کنزالعمال و منتخب کنزالعمال میں نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد بن حںبل جلد۵ ص۴۰۔

۲ ـ ملاحظہ فرمائیے مستدرک جلد۳ ص۱۲۶ علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے۔

۳ ـ علامہ ابن عبدالبر نے بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) استیعاب میں اس حدیث کی روایت کی ہے اور بھی اکثر علمائے اعلام نے لکھا ہے۔

۲۱۳

جنگ بدر میں جب امیرالمومنین(ع) ولید کےمقابلے کو نکلے تو اس نے پوچھا : کون ہو تم ؟

امیرالمومنین(ع) نے فرمایا :

“ میں خدا کا بندہ ہوں، اس کے رسول(ص) کا بھائی ہوں(۱) ۔”

امیرالمومنین(ع) نے ایک دن عمر بن خطاب سے ان کے زمانہ خلافت میں پوچھا کہ :

     “ یہ فرمائیے(۲) اگر بنی اسرائیل کی کوئی قوم آپ کے پاس آئے اور ان میں کوئی شخص آپ سے کہے کہ میں موسی(ع) کے چچا کا فرزند ہوں، تو کیا آپ اسے اس کے ساتھیوں پر کچھ ترجیح دیں گے؟”

انھوں نے کہا : “ ہاں ” امیرالمومنین(ع) نے فرمایا :

“ تو سنیے میں خدا کی قسم ! رسول(ص) کا بھائی ہوں۔ ان کے چچا کا بیٹا ہوں۔”

حضرت عمر نے ردا کاندھے سے اتار کر بچھائی اور بولے:

“ خدا کی قسم ! آپ اس جگہ کے علاوہ اور کہیں نہیں بیٹھ سکتے جب تک ہم لوگ جدا نہ ہوں ۔”

امیرالمومنین(ع) اس ردا پر تشریف فرما ہوئے اور اس وقت تک کہ لوگ متفرق ہوئےعمر سامنے بیٹھے رہے۔ یہ رسول اﷲ(ص) کے بھائی اور فرزندِ عم ہونے

--------------

۱ ـ ابن سعد نے اپنی کتاب طبقات جلد۲ قسم اول ص۱۵ بسلسلہ تذکرہ غزوہ بدر ذکر کیا ہے۔

۲ ـ دار قطنی نے اس کی روایت کی ہے ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب ۱۱ ص۱۰۷۔

۲۱۴

 کی تعظیم تھی ۔ سرجھکانا تھا۔

سد ابواب

میرا قلم کہاں سے کہاں بہک گیا ۔ ذکر اس کا تھا کہ رسول(ص) نے تمام صحابہ کے دروازے بند کرادیے اور حضرت علی(ع) کو دروازہ مسجد کی طرف کھلا چھوڑ دیا۔ صحابہ کے دروازے اس لیے بند کرادیے کہ مسجد کے اندر بحالت جنب جانا جائز نہیں ۔لیکن جس طرح ہارون کے لیے بحالت جنب ہوتے ہوئے بھی مسجد سے ہوکر گزرنا جائز تھا اسی طرح حضرت علی(ع) کے لیے بھی رسول(ص) نے جائز و مباح قرار دیا۔ لہذا یہ بھی ثبوت ہے کہ دونوں حضرات باکل ایک جیسے تھے اور ہر حیثیت اور ہر جہت سے ایک دوسرے کے نظیر تھے پوری پوری مشابہت تھی دونوں بزرگواروں میں۔ ابن عباس فرماتے ہیں :

“ رسول اﷲ(ص) نے مسجد کی طرف کھلتے ہوئے سب کے دروازے بند کرادیے صرف حضرت علی(ع۹ کا دروازہ کھلا رکھا۔ حضرت علی(ع) حالت جنب میں بھی مسجد سے ہوکر گزرتے۔ کیونکہ وہی ایک راہ تھی کوئی دوسرا راستہ تھا ہی نہیں(۱) ۔”

عمر بن خطاب سے ایک حدیث صحیح مروی ہے جو مسلم و بخاری کے معیار پر بھی صحیح ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

“ رسول(ص) نے علی(ع) کو تین چیزیں ایسی مرحمت فرمائیں کہ اگر ان

--------------

۱ـ یہ بہت طولانی حدیث ہے جس میں امیرالمومنین(ع) کی دس(۱۰) خصوصیات مذکور ہیں پوری حدیث بر صفحہ ۱۹۳ تا صفحہ۱۹۹ بیان کی جاچکی ہے۔

۲۱۵

میں سے ایک بھی مجھے ملی ہوتی تو سرخ اونٹوں کی قطار سے بڑھ کر ہوتی۔ ایک یہ کہ علی(ع) کی زوجہ فاطمہ(س) ایسی دختر رسول(ص) ہوئیں دوسرے مسجد میں رسول(ص) کے ساتھ ان کی سکونت اور رسول(ص) کے لیے جو امور مسجد میں جائز تھے ان کے لیے بھی مباح ہونا۔ تیسرے جنگ خیبر میں علم ملن(۱) ۔”

ایک دن سعد بن مالک نے ایک حدیث صحیح بیان کی جس میں امیرالمومنین(ع) کی بعض خصوصیات کا ذکر تھا اسی میں فرماتے ہیں کہ :

“ رسول اﷲ(ص) نے اپنی مسجد سے جہاں اور سب کو ہٹایا وہاں اپنے چچا عباس کو بھی۔ اس پر عباس نے کہا : کہ ہمیں تو آپ ہٹا رہے ہیں اور علی(ع) کو رہنے دیتے ہیں؟ رسول(ص) نے فرمایا : کہ میں نے اپنی طرف سے نہ سب کو ہٹایا نہ علی(ع) کو رکھا۔ بلکہ خدا نے ایسا کیا ہے(۲) ۔”

زید بن ارقم کہتے ہیں :

“ چند اصحاب کے دروازے مسجد کی طرف کھلتے تھے۔ رسول(ص)

--------------

۱ ـ مستدرک جلد۳ ص۱۲۵ نیز ابو یعلیٰ نے بھی اس حدیث کی روایت کی ہے ملاحظہ ہو صواعق محرقہ فصل ۲ باب۹ ص۷۶ تقریبا انھیں الفاظ و معنی میں امام احمد بن حنبل نے عبداﷲ بن عمر کی حدیث میں ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو مسند ج۲ ص ۲۹ حضرت عمر اور عبداﷲ بن عمر دونوں میں سے ہر ایک سے کئی اشخاص نے  مختلف اسناد سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔

۲ ـ مستدرک ج۳ ،ص۱۱۷ یہ حدیث صحاح سنن سے ہے اور متعدد و ثقات و اعلام اہلسنت نے اس حدیث کی روایت کی ہے۔

۲۱۶

 نے حکم دیا کہ تم سب اپنےاپنے دروازے بند کر دو۔ صرف علی(ع) کا دروازہ کھلا رہے۔ لوگوں نے اس پر چہ میگوئیاں شروع کیں تو رسول(ص) نے خطبہ ارشاد فرمایا :

بعد حمد و ثنائے الہی کے ارشاد ہوا کہ یہ دروازے بند کرا دوں اور علی(ع) کا دروازہ کھلا رہنے دوں۔ اس پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہے حالانکہ قسم بخدا میں نے اپنی طرف سے لوگوں کے دروازے بند نہیں کیے اور نہ اپنی خواہش سے علی(ع) کا دروازہ کھلا رکھا ۔ مجھے حکم دیا گیا میں نے حکم کی پابندی کی(۱) ۔”

طبرانی نے معجم کبیر میں ابن عباس سے روایتکی ہے، وہ کہتے ہیں کہ :

“ رسول اﷲ(ص) اس دن کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنی طرف سے تم لوگوں کو مسجد سے نہیں ہٹایا۔ نہ اپنے جی سے علی(ع) کو باقی رکھا۔ بلکہ خود خداوند عالم سے ایسا کیا ہے۔میں تو بندہ وہوں اور حکم کا تابع ، جو مجھے حکم دیا گیا وہ میں نے کیا۔ میں تو وحی ہی کی پابندی کرتا ہوں(۲) ۔”

رسول اﷲ(ص) نے ارشاد فرمایا کہ “ اے علی(ع) ! سوا میرے اور تمھارے کسی اور کے لیے جائز نہیں کہ حالتِ جنابت میں مسجد میں رہے(۳) ۔”

--------------

۱ ـ مسند احمد بن حنبل جلد۴ صفحہ ۳۶۹ و کنزالعمال بر حاشیہ مسند جلد۵ ، صفحہ ۲۹۔

۲ ـ منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند جلد۵ صفحہ۲۹۔

۳ ـ ترمذی نے اس حدیث کو اپنے صحیح میں روایت کیا اور ان سے متقی ہندی نے کنزالعمال ، منتخب کنزالعمال برحاشیہ مسند جلد۵ صفحہ۲۹ پر نقل کیا ہے۔ بزاز نے اس حدیث کو سعد سے روایت کیا ہے۔ ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب ۹ فصل ۲ صفحہ ۷۳۔

۲۱۷

سعد بن ابی وقاص ، براء بن عازب ، ابن عباس ، ابن عمر، حذیفہ بن اسید غفاری ان میں سے ہر ایک سے مروی ہے کہ :

“ رسول اﷲ(ص) مسجد میں آئے اور ارشاد فرمایا : کہ خدا نے مجھ پر وحی نازل فرمائی ہے کہ میں طاہر مسجد بناؤں جس میں صرف میں اور میرے بھائی علی(ع) رہیں(۱) ۔”

اس مکتوب میں گنجائش ہی نہیں کہ ہم بکثرت ان صریحی و ثابت نصوص کو درج کریں جو اس باب میں ابن عباس ، ابو سعید خدری، زید بن ارقم، قبیلہ خثعم سے ایک صحابی پیغمبر(ص)، اسماء بنت عمیس ، ام سلمہ ، حذیفہ بن اسید، سعد بن ابی وقاص ، براء بن عازب، علی بن ابی طالب(ع)، عمر، عبداﷲ بن عمر، ابوذر، ابوالطفیل، بریدہ اسلمی ابی رافع غلامِ رسول اﷲ(ص)، اور جابر بن عبداﷲ ایسے کبار صحابہ میں سے ہرہر بزرگ سے مروی ہیں۔

رسول اﷲ (ص) کی مشہور دعاؤں میں یہ ہے آپ نے دعا فرمائی تھی :

“ میرے معبود! میرے بھائی موسی(ع) نے تجھ سے سوال کیا تھا

---------------

۱ ـ ان سب سے روایت کرکے محمد خطیب ، فقیہہ شافعی معروف بہ ابن مغازلی نے اپنی کتاب مناقب میں مختلف واسطوں سے لکھا ہے اور علامہ بلخی نے ینابیع المودة باب ۱۷ میں نقل کیا ہے۔

۲۱۸

میرے سینہ کو کشادہ کردے اور میرے معاملہ کو سہل بنادے زبان کی گرہ کھول دیے کہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے اہل سے ہارون میرے بھائی کو میرا وزیر بنا۔ ان کے ذریعہ میری کمر کو مضبوط کر اور انھیں میرا شریک کار بنا، تو تونے اے معبود! ان پر وحی نازل فرمائی کہ عنقریب میں تمھارے بھائی ہارون کے ذریعہ تمھارے بازوؤں کو قوی کردوں گا اور تم دونوں کے لیے غلبہ قرار دوں گا اے معبود! میں تیرا بندہ اور تیرا رسول محمد(ص) ہوں، میرے سینہ کو کشادہ کر میرے معاملہ کو آسان بنا اور میرے اہل سے علی(ع) میرے بھائی کو میرا وزیر قرار دے(۱) ۔”

اسی جیسی ایک حدیث بزار نے روایت کی ہے۔

“ رسول اﷲ(ص) نے علی (ع) کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ارشاد فرمایا کہ : موسی(ع) نے خدا سے سوال کیا تھا کہ ہارون کی مدد و معیت میں مسجد کو پاک بنائیں اور میں نے اپنے پروردگار سے سوال کیا ہے کہ تمھاری مدد اور تمھاری معیت میں مسجد کو پاکیزہ کروں۔ پھر آپ نے ابوبکر کو کہلا بھیجا کہ اپنا دروازہ بند کرو۔ اس پر انھوں نے“ انا ﷲ و انا الیه

--------------

۱ ـ امام ابو اسحاق ثعلبی نے بسلسلہ تفسیر آیہ انما ولیکم جناب ابوذر غفاری سے اپنی تفسیر کبیر میں روایت کی ہے اور صاحب ینابیع المودة نے مسند احمد سے نقل کیا ہے۔

۲۱۹

راجعون ” پڑھا اور کہا سمعا و طاعتا ۔ پھر عمر کو حکم دیا۔ پھر عباس کو ایسا ہی حکم فرمایا ۔ پھر ارشاد فرمایا : کہ میں نے اپنے جی سے تم لوگوں کے دروازے بند نہیں کرائے اور علی کا دروازہ کھلا نہیں چھوڑا بلکہ خدا نے ایسا کیا ہے(۱) ۔”

حضرت علی(ع) کے جناب ہارون سے تمام حالات اور جمیع منازل میں پورے پورے مشابہ ہونے کے لیے غالبا اتنی حدیثیں جو ذکر کی گئی کافی ہوں گی۔

                                                             ش

--------------

۱ ـ کنزالعمال جلد۶ صفحہ۴۰۸ حدیث ۶۱۵۶۔

۲۲۰

مکتوب نمبر18

خدا آپ کا بھلا کرے آپ کی دلیلیں کتنی واضح اور روشن ہیں بڑا کرم ہوگا بقیہ ںصوص بھی تحریر فرمائیں۔

                                                                     س

جوابِ مکتوب

ابو داؤد طیالسی کی روایت کو لیجیے ( جیسا کہ استیعاب میں بسلسلہ حالاتِ امیرالمومنین(ع) مذکور ہے) ابن عباس سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ :

“ رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا : کہ تم میرے بعد ہر مومن کے ولی ہو۔”(1)

--------------

1 ـ ابو داؤد و دیگر اہل سنت نے اس حدیث کو ابو عوانہ وضاح بن عبداﷲ یغکری سے انھوں نے ابو بلج یحی بن سلیم فراری سے انھوں نے عمر بن میمون اودی سے انھوں نے ابن عباس سے مرفوعا روایت کیا ہے اس سلسلہ اسناد کے کل رجال حجت ہیں مسلم اور بخاری دونوں نے اپنے صحیح میں ان رجال میں سے ہر ایک کو حجت سمجھا ہے اور ان سے مروی حدیثیں درج کی ہیں سوا یحی بن سلیم کے کہ ان کی روایت ان دونوں نے نہیں لکھی لیکن جرح و تعدیل کے مجتہدین نے یحی بن سلیم کی وثاقت کی تصریح کردی ہے۔ یہ خدا کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے بزرگ تھے۔ علامہ ذہبی نے ان کے حالات لکھتے ہوئے میزان الاعتدال میں ابن معین نسائی  دار قطنی محمد بن سعد ابی حاتم و غیرہ کا یحی بن سلیم کو ثقہ سمجھنا نقل کیا ہے۔

۲۲۱

اسی جیسی ایک صحیح حدیث عمران بن حصین سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ :

“ رسول اﷲ(ص) نے ایک لشکر روانہ کیا اور امیرالمومنین(ع) کو افسر مقرر کیا۔ مال خمس جو ہاتھ آیا اس سے ایک کنیز امیرالمومنین(ع) نے اپنے لیے علیحدہ کر لی۔ لوگوں کو یہ بات کھلی اور چار شخصوں نے باہم طے کیا کہ رسول اﷲ(ص) کی خدمت میں شکایت کی جائے۔ جب رسول اﷲ(ص) کی خدمت میں وہ پہنچے تو ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا : یا رسول اﷲ(ص) ! آپ علی(ع) کو نہیں دیکھتے ؟ انھوں نے ایسا ایسا کیا رسول(ص) نے اس سے منہ پھیر لیا۔ تب دوسرا کھڑا ہوا اس نے بھی ایسے ہی کلمات کہے۔ اس سے بھی رسول(ص) نے منہ پھیر لیا تب تیسرا کھڑا ہوا اس نے بھی اپنے دو ساتھیوں کی طرح شکایت کی۔ اس سے بھی رسول(ص) نے منہ پھیر لیا تب چوتھا کھڑا ہوا اور

۲۲۲

 اگلے ساتھیوں کی طرح اس نے بھی شکایت کی تو اس وقت رسول اﷲ(ص) ان سب کی طرف متوجہ ہوئے اور چہرے سے آثار غضب نمایاں تھے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا : تم علی(ع) کے متعلق چاہتے کیا ہو؟ علی (ع) مجھ سے ہے اور میں علی(ع) سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کے ولی ہیں(1) ۔”

ایسی ہی ایک روایت ابوہریرہ سے مروی ہے جس کی اصل عبارت مسند احمد بن حنبل ج5 صفحہ 356 پر موجود ہے۔

“ بریدہ کہتے ہیں کہ رسول(ص) نے دو رسالے یمن کی جانب روانہ کیے ایک پر حضرت علی(ع) کو افسر بنایا دوسرے پر خالد بن ولید کو اور ارشاد فرمایا کہ جب تم دونوں مل جاؤ تو دونوں کے افسر علی(ع) ہی ہوں گے۔ اور جب تک الگ رہو تو ہر ایک اپنے

--------------

1 ـ بہت سے اصحاب سنن نے اس روایت کو درج کیا ہے۔ امام نسائی نے خصائص علویہ میں احمد بن حنبل نے بسلسلہ حدیث عمران صفحہ438 جلد رابع مسند میں امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 11 پر علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں بشرائط مسلم اس کی صحت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے ابن ابی شیبہ نے اس کی روایت کی ہے۔ ابن جریر نے اس کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ جیسا کہ علامہ متقی ہندی نے ان دونوں سے نقل کر کے کنزالعمال جلد6 شروع صفحہ 400 پر لکھا ہے نیز ترمذی نے بھی اس حدیث کی قوی اسناد سے روایت کی ہے جیسا کہ علامہ عسقلانی نے اصابہ میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) ذکر کیا ہے اور ان سے علامہ معتزلہ ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد2 صفحہ450 پر نقل کیا ہے نیز لکھا ہے کہ اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں ایک جگہ نہیں متعدد و مقامات پر تحریر کیا ہے۔

۲۲۳

 اپنے دستہ کا افسر رہے گا۔(1) بریدہ کہتے ہیں کہ : اہل یمن کے بنی زبیدہ سے ہماری مڈبیھڑ ہوئی اور گھمسان کا رن پڑا۔ آخر مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ ہم نے جنگ آزماؤں کو موت کے گھاٹ اتارا اور ان کی عورتوں بچوں کو قید کر لیا۔ حضرت علی(ع) انھیں قیدیوں میں سے ایک عورت کو اپنے لیے الگ کر لیا۔ بریدہ کہتے ہیں : کہ خالد نے ایک نامہ میرے ہاتھوں رسول(ص) کی خدمت میں بھیجا۔ جس میں واقعہ کی رسول(ص) کو خبر دی تھی۔ میں نے خدمت میں پہنچ کر وہ نامہ پیش کیا۔ خط جب پرھا گیا تو غیظ و غضب کے آثار رسول(ص) کے چہرے پر نمایاں ہوٹے میں نے عرض کی : میں معافی کا خواستگار ہوں آپ نے مجھے ایک شخص کے ہمراہ بھیجا اور مجھے اس کی اطاعت کا حکم دیا

--------------

1 ـ رسول اﷲ(ص) نے حضرت علی(ع) پر کبھی کسی کو افسر نہیں مقرر کیا بلکہ حضرت علی(ع) ہی ہمیشہ افسر ہوا کیے۔ اور ہر معرکہ میں علم لشکر آپ ہی کے ہاتھوں میں رہا بر خلاف غیروں کے ۔ ابوبکر و عمر اسامہ کی ماتحتی میں رکھے گئے۔ اس پر تمام مورخین متفق ہیں۔ نیز یہ دونوں بزرگوار غزوہ ذات السلاسل میں عمرو عاص کے ماتحت بنائے گئے ان دونوں  حضرات کا اس غزوہ میں اپنے افسر عمرو عاص کے ساتھ ایک مشہور قضیہ بھی ہے جسے امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 43 پرلکھا ہے اور علامہ ذہبی نے اس کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے تلخیص مستدرک میں درج کیا ہے لیکن حضرت علی (ع) نہ تو کسی کی ماتحتی میں رہے نہ محکوم بنے۔ بجز سرورِ کائنات کے۔ رسول کی بعثت سے وفات تک۔

۲۲۴

میں نے اس کی فرمانبرداری کی۔ رسول(ص) نے فرمایا : خبردار علی(ع) کے متعلق کچھ کہنا سننا نہیں۔ علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی (ع) سے ہوں اور علی(ع) میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں(1) ۔ ”

--------------

1 ـ یہ تو وہ روایت ہے جسے امام احمد نے مسند جلد5 کے صفحہ 356 پر بطریق عبداﷲ بن بریدہ لکھا ہے۔ دوسری جگہ مسند ج5 صفحہ 347 پر سعید بن جبیر سے روایت کی ہے انھوں نے ابن عباس سے انھوں نے ابن بریدہ سے ۔بریدہ کہتے ہیں کہ میں حضرت علی(ع) کے ساتھ جنگ یمن میں شریک تھا۔ حضرت علی(ع) درشتی سے پیش آتے تھے میں جب واپس پلٹا تو رسول(ص) کی خدمت میں اس کا ذکر کیا اور حضرت کی تنقصت کی ۔ میں نے دیکھا کہ رسول(ص) کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ رسول(ص) نے پوچھا : اے بریدہ کیا میں تمام مومنین کی جانوں کا مالک نہیں؟ بریدہ نے کہا: بے شک یا رسول اﷲ(ص) ۔ آپ نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں۔ امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 10 پر اس حدیث کولکھا جہے ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے محدثین نے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ یہ حدیثیں جو درج کی گئیں ہمارے مقصود پر بین دلیل ہیں کیونکہ رسول(ص) کا جملہ الست اولیٰ بالمومنین من انفسہم کو مقدم فرمانا قرینہ غالب ہے کہ اس حدیث میں مولیٰ سے مراد اولی ہے جیسا کہ بظاہر عبارت سے معلوم ہوتا ہے۔ اسی جیسی ایک حدیث اور ہے جسے بہت سے محدثین نے بیان کیا ہے۔ من جملہ ان کے امام احمد نے مسند ج3 صفحہ 483 پر عمرو بن شاس اسلمی سے اس حدیث کی روایت کی  ہے۔یہ حدیبیہ میں شریک ہونے والوں میں سے تھے۔ عمرو بن شاس کہتے ہیں کہ میں حضرت علی(ع) کے ساتھ یمن گیا۔ سفر میں حضرت علی(ع) درشتی سے پیش آئے میں دل میں بہت برہم ہوا جب رسول کی خدمت میں واپس آیا تو میں نے مسجد میں ان کی شکایت کی ۔ رسول(ص) کو بھی اس کی خبر ہوئی دوسرے دن صبح کو جب میں مسجد میں آیا تو رسول اﷲ(ص) حلقہ اصحاب میں تشریف فرما تھے میں سامنے آیا تو مجھے کڑی نگاہ سے دیکھنے لگے جب میں بیٹھ گیا تو فرمایا : اے عمرو تم نے مجھے بڑی تکلیف پہنچائی۔ میں نے عرض کی کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ آپ کی تکلیف کا باعث ہوں۔ آپ نے فرمایا : کہ ہاں تم میری ایذا رسانی کے باعث ہوئے ۔ یاد رکھو جس نے علی(ع) کو اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت دی۔

۲۲۵

اور امام نسائی نے خصائص علویہ میں یہ عبارت لکھی ہے :“ اے بریدہ ! مجھے علی(ع) کا دشمن بنانے کی کوشش نہ کرو کیونکہ علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں اور وہ میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں۔”

اور ابن حریر کی عبارت یہ ہے :

“ بریدہ کہتے ہیں کہ دفعتا رسول(ص) کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا : کہ میں جس کا ولی ہوں علی(ع) اس کے ولی ہیں۔ یہ سن کر میرے دل میں جو کچھ برے خیالات امیرالمومنین(ع) کی طرف سے قائم ہوگئے تھے دور ہوگئے اور میں نےطے کر لیا کہ آج سے پھر برائی کے ساتھ یاد نہ کروں گا(1) ۔”

طبرانی نے اس حدیث کو ذرا تفصیل سے درج کیا ہے ان کی روایت میں ہے کہ :

“ بریدہ جب یمن سے واپس آئے اور مسجد میں پہنچے تو رسول(ص) کے حجرے کے دروازے پر ایک جماعت لوگوں کی موجود تھی لوگ

--------------

1 ـ جیسا کہ علامہ متقی ہندی نے کنزالعمال ج6 صفحہ 398 پر نقل کیا ہے۔نیز منتخب کنزالعمال میں  بھی نقل کیا ۔

۲۲۶

انھیں دیکھ کر ان کی طرف بڑھے۔ سلام و مزاج پرسی کرنے اور یمن کے حالات دریافت کرنے لگے کہ کیا خبر لے کے آئے بریدہ نے کہا : اچھی ہی خبر ہے۔ خدا نے مسلمانوں کو فتح بخشی، لوگوں نے پوچھا کہ آنا کیسے ہوا، میں نے کہا کہ مال خمس سے علی(ع)  نے ایک کنیز لے لی ہے۔ میں اسی کی رسول(ص) کو خبر کرنے آیا ہوں لوگوں نے کہا سناؤ سناؤ رسول(ص) کو تاکہ علی(ع) رسول(ص) کی نظروں سے گریں۔ آںحضرت(ص) دروازے کے عقب سے لوگوں کی یہ گفتگو سن  رہے تھے۔ آپ غیظ و غضب کی حالت میں برآمد ہوئے اور ارشاد فرمایا : کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ علی(ع) کی برائی کرتے ہیں۔ جس نے علی(ع) کو غضب ناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا جو علی(ع) سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوا ۔ علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں۔ میری طینت سے علی(ع) کی خلقت ہوئی اور میں جناب ابراہیم(ع) کی طینت سے خلق ہوا اور میں جناب ابراہیم(ع) سے بہتر ہوں(1) ۔”

-----------

1 ـ چونکہ حضرت سرورکائنات(ص) نے فرمایا  تھا کہ علی(ع) میری طینت سے مخلوق ہوئے اور آںحضرت(ص) بدیہی طور پر علی(ع) سے افضل ہیں تو اب آںحضرت(ص) کے اس جملہ سے کہ میں ابراہیم(ع) کی طینت سے خلق ہوا یہ وہم پیدا ہوتا تھا کہ ابراہیم(ع) حضرت سرورکائنات (ص) سے افضل ہیں اور یہ قطعی طور پر مخالف واقع ہے۔ آںحضرت(ص) تو تمام انبیاء و مرسلین(ع) کے خاتم اور سب سے افضل و اشرف ہیں اس لیے آپ نے اس وہم کو دور کرنے کے لیے یہ فرمایا کہ میں ابراہیم(ع) سے افضل ہوں۔

۲۲۷

“اے بریدہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ علی(ع) کا حصہ اس کنیز سے بہت زیادہ ہے جو انھوں نے لی ہے اورمیرے بعد وہی تم لوگوں کے ولی ہیں(1) ۔”

یہ حدیث ایسی عظیم الشان حدیث ہے جس کے متعلق شک کیا ہی نہیں جاسکتا۔ بریدہ سے بکثرت طرق سے مروی ہے اور جمیع طرق معتبر و مستند ہیں۔

اسی جیسی ایک اور عظیم الشان حدیث حاکم نے ابن عباس سے روایت کی ہے ۔ جس میں امیرالمومنین(ع) کے دس مختص فضائل ذکر کیے ہیں :

“ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول(ص) نے علی (ع) سے فرمایا : تم میرے بعد ہر مومن کے ولی ہو(2) ۔”

--------------

1 ـ بن حجر نے اس حدیث کو طبرانی سے صواعق محرقہ باب11 میں نقل کیا ہے لیکن جب اس جملے پر پہنچے اما علمت ان لعلی اکثر من الجاریہ ” کیا تم نہیں جانتے کہ علی (ع) کا حصہ اس کنیز سے زیادہ ہے ان کا قلم رک گیا اور ان کے نفس نے گوارا نہ کیا کہ جملہ پورا لکھیں انھوں نے الیٰ آخر الحدیث  لکھ کر عبارت ختم کر دی ہے۔ ابن حجر جیسے متعصب اشخاص سے اس قسم کی باتین تعجب خیز نہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم لوگوں کو عصبیت سے محفوظ رکھا۔

2 ـ امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 134 کے شروع میں اس حدیث کو لکھا ہے ۔ نیز علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے درج کیا ہے۔ امام نسائی نے خصائص علویہ ص6 پر لکھا ہے اور امام احمد نے مسند ج1 ص331 پر تحریر کیا ہے ہم پوری حدیث ص193 تا ص199 پر درج کرچکے ہیں۔

۲۲۸

اسی طرح ایک اور حدیث ہے جس میں رسول اﷲ(ص) کا یہ قول مذکورہ ہے کہ :

“ اے علی(ع) میں نے تمہارے بارے میں خداوند عالم سے پانچ چیزوں کا سوال کیا۔ چار تو خدا نے مرحمت فرمائیں اور ایک نہیں عطا فرمائی ۔ جو باتیں خدا نے مرحمت فرمائیں ان سے ایک یہ کہ تم میرے بعد مومنین کے ولی ہو(1) ۔”

اسی طرح وہ حدیث ہے جو ابن سکن سے وہب بن حمزہ نے روایت کی ہے ( ملاحظہ ہو اصابہ تذکرہ وہب) وہب کہتے ہیں:

“ میں نے ایک مرتبہ حضرت علی(ع) کے ساتھ سفر کیا ۔ سفر کے ایام میں حضرت علی(ع) کی طرف سے درشتی و سختی دیکھی تو میں نے دل میں تہیہ کیا کہ جب مدینہ پلٹوں گا تو رسول(ص) سے اس کی شکایت کروں گا۔ جب واپس ہوا تو میں نے رسول(ص) سے علی(ع) کی شکایت کی۔ رسول(ص) نے فرمایا : ایسی باتیں  علی(ع) کے متعلق کبھی نہ کہنا کیونکہ وہی میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں۔”

طبرانی نے بھی معجم کبیر میں وہب سے یہ روایت نقل کی ہے مگر اس میں یہ عبارت ہے کہ :

“ یہ بات علی(ع) کے لیے نہ کہو وہ میرے بعد تمام لوگوں سے زیادہ تم پر اختیار رکھتے ہیں(2) ۔”

--------------

1 ـ یہ حدیث کنزالعمال جلد6 صفحہ 396 پر موجود ہے نمبر حدیث 1048۔

2 ـ کنزالعمال ج6 صفحہ 155 حدیث 2589۔

۲۲۹

ابن ابی عاصم نے امیرالمومنین(ع) سے مرفوعا روایت کی ہے :

“ رسول (ص) نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں لوگوں پر ان سے زیادہ اختیار و اقتدار نہیں رکھتا؟ لوگوں نے کہا بے شک آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا کہ : میں جس جس کا ولی ہوں، علی(ع) اس کے ولی ہی(1) ۔”

امیرالمومنین(ع) کی ولایت کے متعلق ائمہ طاہرین(ع) سے متواتر صحیح حدیثیں منقول ہیں۔ اتنا جو لکھا گیا ہے یہی امید ہے کافی ہو سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آیتانما ولیکم اﷲ بھی ہمارے قول کی تائید کرتی ہے۔

                                                     ش

--------------

1 ـ متقی ہندی نے ابن ابی عاصم سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ملاحظہ ہو ص397 جلد 6 کنزالعمال۔

۲۳۰

مکتوب نمبر19

لفظ ولی، مددگار، دوست ، محب ، داماد ، پیرو، حلیف ، ہمسایہ اور ہر اس شخص پر بولا جاتا ہے جوکسی کے معاملات کا نگراں و مختار کل ہو۔ یہ اتنے معنوں میں مشترک ہے۔ لہذا آپ نے جتنی حدیثیں ذکر فرمائی ہیں غالبا ان تمام حدیثوں میں مراد ی ہے کہ علی(ع) میرے بعد تمھارے مددگار ہیں یا دوست ہیں یا محب ہیں۔

لہذا ان احادیث سے اور اس لفظ ولی سے آپ(ع) کی خلافت کہا ں ثابت ہوتی ہے؟

                                                                     س

جواب مکتوب

آپ نے لفظ ولی کے جتنے معانی درج کیے ہیں ان میں ایک یہ بھی

۲۳۱

 آپ نے تحریر فرمایا کہ جوکسی کےمعاملات کا نگراں ومختار کل ہو اسے بھی ولی کہتے ہیں تو ان تمام احادیث میں لفظ ولی سے یہی معنی مراد ہیں اور لفظ ولی کے سننے سےیہی معنی متبادر الی الذہن بھی ہوتے ہیں۔ جیسا ہم لوگوں کے اس قول میں “ ولی القاصر ابوہ وجدہ لابیہ ، ثم وصی احد ہما ثم الحاکم الشرعی”

“ شخص قاصر کا ولی اس کا باپ ہے پھر اس کا دادا اور ان دونوں کے نہ ہونے پر ان کا وصی اور سب کی غیر موجودگی میں حاکم شرعی۔”

تو یہاں لفظ ولی سے مراد یہی ہے کہ شخص قاصر کےیہی  لوگ نگران و مختار ہیں اس کے معاملات میں انہی کو تصرف کا اختیار ہے۔

مذکورہ بالا احادیث میں ایسے واضح قرائن بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر(ص) نے لفظ ولی بول کر نگران و مختار ہی مراد لیا ہے جیسا کی صاحبانِ عقل و ادراک سے مخفی نہیں کیونکہ رسول(ص) کا فرمانا کہ :

“ یہ علی(ع) میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں۔”

بین ثبوت ہے کہ یہاں لفظ ولی سے مقصود بس یہی معنی ہیں کوئی دوسرا نہیں کیونکہ  وھو ولیکم بعدی ۔ یہی علی(ع) میرے بعد تمھارے ولی ہیں، اس کا مطلب تو یہی ہوا کو میرے بعد علی(ع) کے سوا تمھارا اور کوئی ولی نہیں۔ لہذا قطعی طور پر ان احادٰیث میں ولی سے یہی معنی سمجھنے پڑیں گے کسی اور معنی کی گنجائش ہی نہیں نکل سکتی۔ اس لیے کہ نصرت، محبت ، دوستی وغیرہ یہ کسی فرد خاص میں تو منحصر نہیں۔ تمام مومنین و مومنات ایک دوسرے کے دوست اور محب ہیں۔ ہم جو معنی

۲۳۲

مراد لیتے ہیں یعنی نگران و مختارر کل اگر یہ مقصود نہ ہو اور آپ کے کہنے کی بنا پر دوست یا محب مقصود ہے تو پھر آخر رسول(ص) اس شد ومد سے حضرت  علی(ع) کو ولی بنا کر ان کو کون سا امتیازی درجہ دینا چاہتے تھے یا کون سی فضیلت علی(ع) کو مل جاتی ہے اگر لفظ ولی سے مراد مددگار، دوست اور محب ہی کے مقصود ہیں تو ان احادیث کے ذریعہ حضرت علی(ع) کی ولایت کا اعلان کر کے کسی ڈھکی چھپی ہوئی بات کو رسول(ص) نمایاں کرنا چاہتے تھے؟

رسول(ص) کی شان کہیں اجل و ارفع ہے اس سے کہ باکل بدیہی اور ظاہری چیز کے واضح کرنے کے لیے اتنا اہتمام فرمائیں۔ آںحضرت(ص) کی حکمت ِ بالغہ، اندازِ عصمت، شان خاتمیت ان مہل خیالات و اوہام سے کہیں بزرگ برتر ہے علاوہ اس کے کہ ان احادیث میں تصریح ہے کہ علی بعد رسول(ص) لوگوں کے ولی ہیں، بعد رسول(ص) کی قید کو دیکھتے  ہوئے کوئی چارہ کار ہی نہیں سوا اس کے کہ ولی کے معنی وہی لیے جائیں جو ہم لیتے ہیں یعنی نگران و مختار کل۔ورنہ رسول(ص) کا یہ قید لگانا مہمل ہوجاتا ہے۔

کیا  حضرت علی(ع) رسول(ص) کی زندگی میں مسلمانوں کے محب ومددگار نہ تھے؟ کیا آپ کو کسی لمحہ بھی مسلمانوں کی نصرت سے منہ موڑتے ہوئے دیکھا گیا۔ حضرت علی(ع) تو جب سے آغوش رسالت میں پل کر اور کنارِ تربیت پیغمبر(ص) میں پرورش پاکر نکلے اس وقت سے رسول(ص) کی رحلت کے وقت تک مسلمانوں کے ناصر رہے۔ مسلمانوں کے دوست و محب رہے ۔لہذا یہ کہنا کیونکہ صحیح ہوسکتا ہے کہ رسول(ص) کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد علی(ع) مسلمانوں کے ناصر و مددگار ہیں۔ دوست اور محب ہیں۔

ہم جو لفظ ولی سے معنی سمجھتے ہیں اسی کے واقعا مقصود مراد ہونے

۲۳۳

 پرمن جملہ اور قرائن کے ایک وہی حدیث کافی ہے جو امام احد بن حنبل نےمسند جلد5 صفحہ 347 پر بطریق صحیح روایت کی ہے۔ بریدہ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ :

“ میں حضرت علی(ع) کےساتھ یمن کی جنگ میں شریک تھا حضرت علی(ع) کچھ سختی سے پیش آتے تھے۔ میں جب رسول(ص) کی خدمت میں پہنچا تو اس کا ذکر کیا اور حضرت علی(ع) کی کچھ تنقصت کی میں نے دیکھا کہ رسول(ص) کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ اے بریدہ الست اولیٰ بالمومنین من انفسہم کیا میں مومنین سے بڑھ کر ان پر اختیار نہیں رکھتا ۔ میں نے کہا بے شک یا رسول اﷲ(ص) ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یاد رکھو : جس جس کا میں مولی ہوں علی(ع) اس کے مولی ہیں۔”

اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک ج2 صفحہ 120 پر درج کیا ہے اور امام مسلم کے نزدیک جو شرائط صحت ہیں ان کے لحاظ سے صحیح قرار دیا ہے۔ نیز علامہ ذہبی نے بھی تلخیص میں اسے درج کیا ہے اور بشرائط مسلم اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔

رسول(ص) کا جملہ الست اولی بالمومنین من انفسہم کو مقدم کرنا پہلے یہ اقرار لے لینا کہ کیا میں تم سے زیادہ اولی نہیں ہوں بین دلیل ہے کہ لفظ ولی سے مقصود وہی معنی ہیں جو ہم سمھتے ہیں کوئی دوسرا نہیں۔

ان احادیث پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو خود بخود مطلب واضح ہوجائے گا اور ہمارے قول میں کوئی شک وشبہ باقی نہ رہے گا۔

                                                     ش

۲۳۴

  مکتوب نمبر20

واقعی آپ بڑی قوتِ استدلال کے مالک ہیں۔کوئی نبرد آزما آپ کے مقابلہ میں میدان بحث میں جم نہیں سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ تمام احادیث اسی مطلب پر دلالت کرتی ہیں جو آپ نے بیان کیا اگر صحابہ ( کے مسلک) کو صحیح سمجھنے کی مجبوری نہ ہوتی تو میں آپ کے فیصلہ پر سرتسلیم خم کردیتا لیکن مجبوری یہ ہے کہ ہم صحابہ کے مسلک سے اںحراف نہیں کرسکتے اور نہ ان کے سمجھے ہوئے معنی و مطلب کے علاوہ کوئی دوسرا معنی سمجھ سکتے ہیں لہذا خواہ مخواہ حدیث کو س کی ظاہری معنی سے پھیرنا ہی پڑے گا۔ ظاہری معنی چھوڑ کر کوئی معنی مراد لینا ہی ہوگا تاکہ سلف صالحین کا دامن ہاتھ سے جانے نہ پائے اور ان کے جادہ سے اپنے قدم نہ ہٹیں ۔ آپ نے سابق مکتوب میں جس آیت محکمہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ کہ یہ بھی ہمارے قول کی موئد ہے  آپ نے اس کی تصریح نہیں فرمائی براہ کرم لکھیے کہ وہ کون سی آیت ہے۔

                                                     س

۲۳۵

جوابِ مکتوب

وہ آیہ محکمہ کلامِ مجید کی سورہ مائدہ کی یہ آیت ہے :

  “ إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ وَ مَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغالِبُونَ” (مائدہ ، 55۔ 56)

“ بے شک تمھارا ولی خدا ہے اس کا رسول(ص) ہے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوة دیتے ہیں در آںحالیکہ وہ رکوع میں ہوتے ہیں۔ جو شخص خدا اور اس کے رسول(ص) اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے اپنا ولی سمجھے گا تو یہ سمجھ رکھو کہ خدا کی جمعیت ہی غالب رہنے والی ہے۔”

اس آیت کےامیرالمومنین(ع) کی شان میں نازل ہونے کے متعلق ائمہ طاہرین(ع) سے متواتر صحیح احادیث موجود ہیں۔ ائمہ طاہرین(ع) سے قطع نظر دیگر طریقوں سے جتنی روایتیں اس آیت کے سلسلہ میں پائی جاتی ہیں اور جو شان نزول آیت کے متعلق نص صریح ہیں ان میں ایک ابن اسلام ہی کی حدیث کو لے لیجیے جو رسول(ص) سے مرفوعا مری ہے ملاحظہ ہو صحیح نسائی یا کتاب الجمع بین الصحاح ستہ بسلسلہ تفسیر سورہ مائدہ اسی جیسی ایک حدیث ابن عباس سے مروی ہے اور ایک حدیث امیرالمومنین(ع) سے۔ ابن عباس کی حدیث امام واحدی کی کتاب اسباب النزول میں بسلسلہ تفسیر آیت انما موجود ہے

۲۳۶

جسے کتاب متفق میں علامہ خطیب نے بھی درج کیا ہے۔ امیرالمومنین(ع) کی حدیث بسند ابن مردویہ اور مسند ابو الشیخ میں موجود ہے کنزالعمال جلد5 صفحہ 405 پر بھی آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔

علاوہ اس کے اس آیت کا امیرالمومنین(ع) کی شان میں نازل ہونا ایسا مسلم ہے جس سے انکار ہی نہیں کیا جاسکتا۔ تمام مفسرین اجماع کیے بیٹھے ہیں اور مفسرین کے اس اجماع کو سینکڑوں علمائے اعلام اہلسنت نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے منجملہ ان کے علامہ قوشجی نے شرح تجرید کے مبحث امامت میں اس اجماع کا ذکر کیا ہے۔

غایة المرام باب 18 میں 24 حدیثیں بطریق جمہور مذکور ہیں جو شان نزول کے متعلق ہماری موئد ہیں۔ ایک تو اختصار ملحوظ ہے ، دوسرے یہ مسئلہ آفتاب سے بھ زیادہ واضح ہے ورنہ ہم وہ تمام صحیح احادیث اکٹھا کردیتے جو اس آیت کے حضرت علی(ع) کی شان مین نازل ہونے کے متلعق مروی ہیں لیکن یہ تو وہ نا قابل انکار حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں۔

پھر بھی ہم اس مکتوب کو جمہور کی حدیث سے خالی نہیں رکھنا چاہتے صرف ایک امام ابواسحق احمد بن محمد بن ابراہیم نیشاپوری ثلعبی کی تفسیر کا حوالہ دے دیتے ہیں۔

امام مذکور اپنی تفسیر میں اس آیت پر پہنچ کر بسلسلہ اسناد جناب ابوذر کی ایک حدیث درج فرماتے ہیں ۔ جناب ابوذر فرماتے ہیں کہ :

“ میں نے خود اپنے کانوں سے رسول اﷲ(ص) کو  کہتے سنا ( اگر میں غلط کہتا ہوں تو میرے دونوں کان بہرے ہوجائیں) اور میں نے اپنی ان آنکھوں سے رسول(ص) کو دیکھا ( ورنہ میری دونوں آنکھیں

۲۳۷

کور ہو جائیں) رسول(ص) فرماتے تھے کہ علی(ع) نیکو کاروں کے قائد کافروں کے قاتل ہیں۔ جو علی(ع) کی مدد کرے گا وہ نصرت یافتہ ہوگا اور جو علی(ع) کا ساتھ نہ دے گا اس کی مدد نہ کی جائے گی۔ میں نے ایک دن رسول(ص) کے ساتھ نماز پڑھی ایک سائل نے مسجد میں آکر سوال کیا کسی نے کچھ نہ دیا۔ حضرت علی(ع) حالتِ رکوع میں تھے۔ آپ نے اپنی انگلی کی طرف اشارہ کیا جس میں انگوٹھی پہنے ہوئے تھے ۔ سائل بڑھا اور اس نے انگوٹھی اتار لی ۔ اس پر رسول اﷲ(ص) نے خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر دعا مانگی ۔ عرض کیا  میرے معبود ! میرے بھائی موسی نے تجھ سے سوال کیا تھا ( کہا تھا کہ اے میرے معبود ! میرے سینہ کو کشادہ فرما میرے معاملہ کو سہل بنا، میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے اہل میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا۔ ان کے ذریعہ میری کمر مضبوط کر اسے میرا شریک کار قرار دے تاکہ ہم دونوں زیادہ تیری تسبیح کریں اور بہت زیادہ ذکر کریں تو ہماری حالت کو بخوبی دیکھنے والا ہے تو خداوندا تو نے ان پر وحی نازل فرمائی کہ تمھاری تمنائیں پوری کی گئیں) اے میرے معبود! میں تیرا نبی(ص) ہوں میرے سینہ کو بھی کشادہ فرما میرے معاملہ کو سہل کر اور میرے اہل سے علی(ع) کو میرا وزیر بنا اس کے ذریعہ میری کمر کو مضبوط کر۔۔۔ جناب ابوذر فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم رسول(ص) کا کلام پورا بھی نہ ہونے پایا تھا کہ جبرئیل امین اس آیت انما کو لے کر نازل ہوئے ” جز این نیست کہ تمھارا

۲۳۸

حاکم و مختار خدا ہے اور اس کا رسول(ص) اور وہ لوگ جو ایمان لائے جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں جو شخص خدا اور رسول (ص) اور ایمان لانے والوں سے وابستہ ہوگا تو کوئی شبہ نہیں کہ خدا کی جمعیت ہی غلبہ پانے والی ہے۔”

آپ سے مخفی نہیں کہ اس جگہ ولی سے مراد ولی بالتصرف ہی ہے جیسے ہم لوگوں کے اس قول میں کہ فلاں ولی القاصر ہے، ولی سے مقصود اولیٰ بالتصرف ہے۔ اہل فقہ نے تصریح کردی ہے کہ  ہر وہ شخص جو کسی کے معاملات میں متصرف و مختار ہو وہ اس کا ولی ہے لہذا اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ جو تمھارے امور کے مالک و مختار ہیں اور تم سے زیادہ تمھارے امور میں تصرف کا حق رکھتے ہیں وہ خداوند عالم ہے اور اس کا رسول(ص) اور علی(ع) کیونکہ حضرت علی(ع) ہی کی ذات بس ایک ایسی ذات ہے جس میں آیت کے مذکورہ بالا صفات مجتمع تھے۔ ایمان، نماز کو قائم کرنا اور بحالتِ رکوع زکوة دینا اور آپ ہی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔

خداوند عالم نے اس آیت میں اپنے لیے، اپنے رسول(ص) کے لیے اپنے ولی کے لیے ایک ہی ساتھ ولایت ثابت کی ہے، ایک ہی ذیل میں جس طرح خود ولی ہے اسی طرح بغیر کسی فرق کے اپنے رسول(ص) اور اپنے ولی کو بھی لوگوں کا ولی فرمایا ۔ یہ ظاہر ہے کہ خداوند عالم کی ولایت عام ہے لہذا نبی(ص) اور ولی کی ولایت جیسی عام ہونا چاہیے، وہ جن معنوں میں ولی ہے اور جس حیثیت کی ولایت اسے حاصل ہے ٹھیک انھیں معنوں میں اور اسی حیثیت سے امیرالمومنین(ع) کو بھی ولایت حاصل ہونی چاہیے۔

اور یہاں تو یہ ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ ولی نصیر یا محب وغیرہ مراد

۲۳۹

 لیا جائے ورنہ حصر کی کوئی وجہ باقی نہ رہے گی۔ جب ولی کے معنی مددگار یا دوست ہی کے لیے جائیں تو پھر اس کا انحصار صرف تین فردوں میں کیونکر صحیح ہوگا۔ کیا بس خدا اور رسول(ص) اور علی(ع) ہی مومنین کے دوست ہیں اور مددگار ہیں۔ دوسرا کوئی نہیں ؟ حالانکہ خود خداوند عالم نے فرمایا ہے کہ  : مومنین ایک دوسرے کے اولیاء ہیں، دوست ہیں، مددگار ہیں میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ دنیا میں جتنی بدیہی چیزیں ہیں انھیں میں سے ایک یہ بھی ہے یعنی آیہ مبارکہ میں ولی سے مراد اولیٰ بالتصرف ہونا نہ کہ محب ، دوست، نصیر وغیرہ ۔

                                                                     ش

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639