دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)12%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272316 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

 اور فرقہ واریت سے نجات کی راہ نکلے اور ہم لوگوں کے متحد ہوجانے ی سبیل پیدا ہو۔

                                                             س

جواب مکتوب

شرعی دلیلیں مجبور کرتی ہیں کہ مذہب اہلبیت(ع) کو اختیار کیا جائے

مکرمی تسلیم !

گرامی نامہ ملا۔ عرض یہ ہےکہ ہم جو اصولِ دین میں اشاعرہ کے ہم خیال نہیں اور فروع دین میں اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید نہیں کرتے تو یہ کسی تعصب یا فرقہ پرستی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ شرعی دلیلیں ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم مذہب اہلبیت(ع) ہی کو اختیار کریں۔ یہی وجہ ہے جو ہم جمہور سے الگ ہو کر اصول و فروع دین میں بس ارشاداتِ ائمہ طاہرین(ع) ہی کے پابند ہیں۔ کیونکہ ادلہِ و براہین کا یہی فیصلہ ہے اور سنتِ نبوی کی پابندی بھی بس اسی صورت سے ہوسکتی ہے اگر دلیلیں ہمیں ذرا بھی مخالفت اہل بیت(ع) کی اجازت دیں یا ان کے مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کی پابندی میں تقربِ الہی ممکن ہوتا تو ہم ضرور جہمور ہی کی روش پر چلتے تاکہ باہمی رشتہء اخوت اچھی طرح استوار رہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ قطعی اور محکم دلیلیں سنگِ راہ بنی ہوئی ہیں اور کسی طرح مذہب اہلبیت(ع) چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔

۲۱

جمہور اہلسنت کا مسلک اختیار کرنے کی کوئی دلیل نہیں ملتی

اس کے علاوہ چاروں مذاہب کو کسی قسم کی ترجیح بھی تو نہیں۔ ان مذاہب کی پابندی کا واجب ولازم ہونا تو اور چیز ہے، ان کے بہتر اور قابل ترجیح ہونے پر جمہور کوئی دلیل بھی پیش نہیں کرسکتے۔ ہم نے تو جمہور مسلمین کے ادلا کو پوری تحقیق سے دیکھا۔ ہمیں تو ایک دلیل بھی ایسی نہ ملی جو ان ائمہ اربعہ کی تقلید و پیروی کو واجب بتاتی ہو۔ بس لے دے کے یہی ایک چیز ملی ہے جسے آپ نے بھی ذکر کیا ہے یعنی یہ کہ وہ مجتہد و عادل اور بڑے جلیل القدر علماء تھے لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ اجتہاد ، امانت، عدالت، جلالتِ علمی، یہ ان ہی چاروں پزرگوں کے ساتھ مختص تو نہیں، انھیں میں منحصر تو نہیں لہذا معین طور پر فقط ان ہی کی پیروی اور ان ہی کے مذاہب میں سے کسی نہ کسی ایک کا پابند ہو رہنا واجب ہوجائے گا؟ اور میرا یہ دعوی ہے کہ مسلمانوں میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ نکلے گا جو یہ کہہ سکے یہ چاروں ائمہ اہلسنت ائمہ علیہم السلام سے علم یا عمل کسی ایک چیز میں بڑھ کر تھے۔ ہمارے ائمہ تو اہل بیت طاہرین(ع) ہیں۔ جو سفینہ نجات ہیں۔ امتِ اسلام کے لیے بابِ حطہ ہیں۔ ستارہ ہدایت ہیں اور ثقل پیغمبر(ص) ہیں۔ امت میں رسول(ص) کی چھوڑی ہوئی نشانی ہیں۔ جن کے متعلق رسول(ص) کا یہ ارشاد ہے کہ

                     “ دیکھو ان سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور نہ انھیں پیچھے کردینا

 ورنہ تب بھی ہلاک ہوجاؤ گے اور انھیں سکھانا

۲۲

 پڑھانا نہیں ، یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔”

لیکن کیا کہا جائے کہ رسول (ص) کے مرنے کے بعد سیاست نےکیا کیا کرشمے دکھائے اور کیا سلوک کیا گیا اہلبیت(ع) کے ساتھ؟

آپ کے اس جملہ نے کہ سلفِ صالحین بھی اسی مسلک پرگامزن رہے اور انھوں نے اسیی کو معتدل و معتبر مذہب سمجھا، مجھے حیرت میں ڈال دیا۔ شاید آپ نہیں جانتے کہ مسلمانوں میں تقریبا آدھی تعداد شیعوں کی ہے اور شیعیان آل محمد(ص) کے سلف و خلف اس زمانے کے شیعہ ہوں یا اس زمانے کے پہلی صدی ہجری سے لے کر اس چودھویں صدی تک مذہب اہلبیت(ع) کے پابند ہیں۔ شیعہ مسلک اہلبیت(ع) کی اتباع عہدِ امیرالمومنین(ع) اور جناب سیدہ(س) سے کررہے ہیں جب کہ نہ اشعری کا وجود تھا اور نہ ائمہ اربعہ میں سے کوئی عالم وجود میں آیا تھا۔

پہلے زمانہ کے لوگ جہمور کے مذہب کو جانتے ہی نہ تھے

اس کے علاوہ زمانہ پیغمبر(ص) سے قریب زمانہ کے مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا  سنی انھوں نے ان مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کو اختیار ہی نہیں کیا۔ ان میں سے کسی ایک کے پابند ہی نہیں ہوئے اور ان مذاہب کو وہ اختیار بھی کرتے تو کیسے جب کہ ان مذاہب کا اس زمانے میں وجود بھی نہ تھا۔ اشعری( اصول دین میں آپ لوگ جن کے پیرو ہیں) سنہ۲۷۰ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ۳۲۰ھ میں انتقال کیا۔ ظاہر ہے کہ سنہ۲۷۰ھ کے قبل کے مسلمان عقائد میں اشعری کیسے کہے جاسکتے ہیں۔ احمد بن حنبل سنہ۱۶۴ھ

۲۳

میں پیدا ہوئے اور سنہ۲۴۱ھ میں انتقال کیا۔ شافعی سنہ۱۵۰ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ۲۰۴ھ میں انتقال کیا۔ امام مالک سنہ۹۵ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ ۱۶۹ھ میں انتقال کیا۔ امام ابو حنیفہ سنہ ۸۰ ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ۱۵۰ھ میں انتقال کیا۔

خدا کے لیے انصاف تو فرمائیے کہ  جب اصول دین میں آپ کے پیشوا اشعری سنہ۲۷۰ھ میں پیدا ہوں اور فروع دین میں آپ کے ائمہ اربعہ ابتداء زمانہ اسلام سے اتنے زمانہ کے بعد عالمِ وجود میں آئیں ، پھر اس سے پہلے کے مسلمانوں کے متعلق ، یہ کہنا کیونکر روا ہے کہ وہ بھی ان ہی مذاہب اربعہ کے پابند تھے اور ان کا مذہب بھی وہی تھا جو آج کل جمہور مسلمین کا ہے۔

ہم شیعیان اہلبیت(ع) تو ائمہ اہلبیت(ع) کے پیرو ہیں اور آپ لوگ یعنی جمہور مسلمین ، اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر صحابہ اور تابعین صحابہ کے پیرو ہیں۔ تو دورِ اول کے بعد کے تمام مسلمانوں پر ان مذاہب میں سے کسی نہ کسی ایک کو اختیار کرلینا۔ کسی نہ کسی ایک کا پابند ہو رہنا واجب کیونکر ہوگیا اور ان چاروں مذاہب سے پیشتر جو مذاہب رائج تھے ان میں کیا خامی تھی کہ ان سے کنارہ کشی کر لی گئی اور آپ کے ان مذاہب میں جو بہت بعد میں عالمِ وجود میں آئے ایسی کیا خوبی تھی کہ اہلبیت(ع) سے روگردانی کی گئی جو ہم پایہ کتابِ الہی کشتی نجات اور معدن رسالت ہیں۔

اجتہاد کا  دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے

یہ بھی غور طلب امر ہے کہ اجتہاد کا دروازہ اب کیوں بند ہوگیا جب کہ ابتدائے زمانہء اسلام میں پاٹوں پاٹ کھلا ہوا تھا۔ ہاں اب اگر اپنے کو

۲۴

 بالکل عاجز قرار دے لیا جائے یہ طے کر لیا جائے کہ ہم اجتہاد کرنا بھی چاہیں تو اب ہم سے نہیں ہوسکتا۔ ہم اس شرف سے محروم ہی رہیں گے تو یہ دوسری بات ہے ورنہ کون شخص اس کا قائل ہونا پسند کرسکتا ہے کہ خداواند عالم نے حضرت خاتم المرسلین(ص) کو بہترین شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا اور تمام کتب سماویہ سے افضل و اشرف کتاب قرآن مجید نازل کی۔ دین کو مکمل اور اپنی نعمتوں کو تمام کیا اور آںحضرت(ص) کو آئیند و گزشتہ باتیں بتا کر بھیجا تو وہ صرف اس لیے کہ یہی ائمہ اربعہ شریعت کے مالک و مختار ہو رہیں۔ انھیں سے پوچھے ، انھیں سے معلوم کرے ، ان کو چھوڑ کر دوسرے ذریعے سے حاصل کرنا چاہے خود جدوجہد کرکے معلوم کرنا چاہے تو نہ معلوم کرسکے۔ مختصر یہ کہ پوری شریعتِ اسلامیہ قرآنِ مجید، سنتِ رسول(ص) تمام دلائل و بینات سمیت ان کی جاگیر ہوجائے، ملکیتِ خاص بن جائے، ان کے حکم و رائے کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی رائے پر عمل کرنے کی کسی کو اجازت ہی نہ ہو۔

کیا یہی ائمہ اربعہ وارثِ نبوت تھے یا انھیں پر خداوند عالم نے ائمہ و اوصیاء کا سلسلہ ختم کیا، کیا انھیں کو آیندہ و گزشتہ کے علوم ودیعت کیے اور کیا بس انھیں کو وہ صلاحیتیں ملیں جو دینا بھر میں کسی اور کو نہیں ملیں، میرے خیال میں کوئی مسلمان بھی اس کا قائل نہ ملے گا۔

اتحاد کی آسان صورت یہ ہے کہ مذہب اہلبیت(ع) کو معتبر سمجھا جائے

 آپ نے جس اہم امر کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے یعنی یہ کہ فرقہ واریت ختم کی جائے اور تمام مسلمان شیعہ سنی ایک ہوجائیں تو بسم اﷲ یہ بہت مستحسن

۲۵

 اقدام ہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کا ہونا بس اسی پر موقوف و منحصر نہیں کہ شیعہ اپنا مذہب چھوڑ دیں یا اہلسنت اپنے مذہب سے الگ ہوجائیں اور خاص کر شیعوں سے یہ کہنا کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ دیں ترجیح بلا مرجح ہے بلکہ در حقیقت مرجح کو ترجیح دینا ہے۔ ہاں یہ پراگندگی تب ہی دور ہوسکتی ہے اور اتحاد و اتفاق جب ہی پیدا ہوسکتا ہے جب آپ مذہب اہلبیت(ع) کو بھی مذہب سمجھیں اور اس کو بھی ان چاروں مذہبوں میں سے کسی ایک جیسا قرار دیں تاکہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، شیعہ کو بھی ان ہی نظروں سے دیکھیں جن نظروں سے آپس میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔اگر آپ جائزہ لیں تو خود مذاہب اہلسنت میں جتنے اختلاف موجود ہیں وہ شیعہ سنی اختلافات سے  کم نہیں ۔ لہذا صرف غریب شیعوں پر عتاب کیوں کیا جاتا ہے کہ وہ اہلسنت کے برخلاف ہیں۔ حضرات اہلسنت کو بھ شیعوں کی مخالفت پر سرزنش کیوں نہیں کی جاتی۔ بلکہ خود اہلسنت میں جو ایک دوسرے کے مخالف ہیں کوئی حنفی ہے کوئی شافعی، کوئی مالکی ہے کوئی حنبلی تو انھیں اختلاف سے منع کیوں نہیں کیا جاتا لہذا جب ملتِ اسلامیہ میں چار مذہب ہوسکتے ہیں۔ چار مذہب ہونے پر کوئی لب کشائی نہیں کرتا تو پانچ ہونے میں کیا قیامت ہے؟ کس عقل میں یہ بات آسکتی ہے کہ چار مذاہب تک ہونے  میں کوئی خرابی نہیں، چار مذہبوں میں بٹ کر مسلمان متحد رہ سکتے ہیں اتحاد و اتفاق باقی رہ سکتا ہے لیکن اگر چار سے برھ کر پانچ ہوجائیں تو اتحاد رخصت ہوجائے گا۔ جمعیت اسلام پراگندہ و منتشر ہوجائے گی۔

آپ نے ہم شیعوں کو مذہبی وحدت کی طرف جو دعوت دی ہے کاش کہ آپ یہی دعوت مذاہب اربعہ کے دیتے یہ دعوت آپ کے لیے بھی آسان تھی اور ان کے لیے بھی یہ ہمیں کو مخصوص کر کے دعوت کیوں دی گئی ؟

۲۶

کیا آپ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اہلبیت(ع) کی اتباع و پیروی میں اتحاد رخصت ، رشتہء اخوت منقطع ، اہلبیت(ع) کی پیروی کرنے والوں کا دیگر مسلمانوں سے کوئی واسطہ نہیں، کوئی رابطہ نہیں اور اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر جس کی بھی پیروی کی جائے جسے بھی امام بنا لیا جائے دل ملے رہیں گے۔ عزائم ایک رہیں گے چاہے مذاہب مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ رائیں ایک دوسرے کے برخلاف ہی کیوں نہ ہوں، خواہشیں ایک دوسرے سے متضاد ہی کیوں نہ ہوں۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کا بھی یہ خیال نہ ہوگا اور نہ آپ کو رسول(ص) کے اہلبیت(ع) سے اتنی پرخاش ہوگی آپ تو دوستدار قرابت داران پیغمبر(ص) ہیں۔

                                                     ش

۲۷

مکتوب نمبر ۳

مولانائے محترم تسلیم !

آپ کا مفصل گرامی نامہ ملا۔ اس میں شک نہیں کہ آپ نے وصول و فروعِ دین دونوں میں جمہور کے مذہب کی پیروی واجب نہ ہونے کو بہت تفصیل سے بیان کیا۔ اجتہاد کا دروازہ ہنوز کھلے رہنے کو بھی تشفی بخش طور پر ثابت کیا۔ آپ نے گرامی نامہ میں ان دونوں مسئلوں پر ایسے ناقابل رد دلائل و براہین اکھٹا کردیئے ہیں کہ انکار یا تامل کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اب تو میں بھی آپ کا ہم خیال ہوں کہ یقینا جہمور کے مسالک کا اتباع کوئی ضروری نہیں نیز یہ کہ اجتہاد کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے۔

میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ لوگ بھی وہی مذہب کیوں اختیار نہیں کر لیتے جو جمہور مسلمین کا مسلک ہے۔ تو آپ نے یہ فرمایا کہ اس کے سبب ادلہ

۲۸

شرعیہ ہیں۔ آپ کو چاہیے تھا کہ اس چیز کو ذرا تفصیل سے بیان کرتے بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ کلام مجید یا احادیث نبوی(ص) سے ایسی قطعی دلیلیں پیش کریں جن سے یہ معلوم ہو کہ ائمہ اہل بیت(ع) ہی کی پیروی واجب و لازم ہے نہ کہ ان کے غیر کی۔

                                                             س

جواب مکتوب

مکرمی تسلیم !

آپ بحمدہ زیرک و دانا ہیں اسی لیے میں نے بجائے شرح و بسط کے اشارتا کچھ باتیں ذکر کر دی تھیں۔ توضیح کی ایسی کوئی ضرورت نہیں معلوم ہوتی تھی میرا خیال ہے کہ آپ کو ائمہ اہل بیت(ع) کے متعلق کسی قسم کا تردد نہ ہوگا۔ نہ ان کو ان کے غیروں پر ترجیح دینے میں کسی قسم کا پس و پیش ہونا چاہیے ۔ اہلبیت(ع) کی ذوات مقدسہ گمنام ہستیاں نہیں۔ ان کی عظمت و جلالت اظہر من الشمس ہے۔

اتباعِ اہلبیت(ع) کے وجوب پر ایک ہلکی سی روشنی

ان کا کوئی ہمسر ہوا نہ نظیر، انھوں نے پیغمبر(ص) سے تمام علوم سیکھے، اور دین و دنیا دونوں کے احکام حاصل کیے، اسی وجہ سے پیغمبر(ص) نے انھیں قرآن کا مثل ، صاحبانِ عقل و بصیرت کے لیے ہادی و پیشوا اور نفاق کے کی بخشش یقینی ہوگئی۔ عروہ وثقی ( مضبوط رسی) فرمایا جو کبھی ٹوٹے گی نہیں۔

۲۹

امیرالمومنین(ع) کا دعوت دینا مذہب اہلبیت(ع) کی طرف

اور حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں۔

     “ تم کہاں جارہے ہو؟ کدھر بھٹک رہے ہو ؟ حالانکہ علم ہدایت نصب ہیں، نشانیاں واضح ہیں، منارے کھڑے ہیں۔ تمہاری یہ سرگردانی کہاں پہنچائے گی تمہیں، بلکہ میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ تم بھٹک کیسے رہے ہو حالانکہ تمہارے درمیان اہلِ بیت(ع) پیغمبر(ص) موجود ہیں جو حق کی زمام ہیں، دین کے جھنڈے ہیں، سچائی کی زبان ہیں لہذا انھیں بھی قرآن کی طرح اچھی منزل پر رکھو اور تحصیل علم کے لیے ان کی خدمت میں پہنچو، جس طرح پیاسے اور تھکے ہارے چوپائے نہر کے کنارے پہنچتے ہیں، اے لوگو ! یہ یاد رکھو یہ ارشادِ پیغمبر(ص) ہے کہ ہم میں(۱) سے کسی شخص کو اگر موت آجائے تو ظاہری حیثیت سے وہ مرجائے گا لیکن در حقیقت زندہ ہوگا اور یوں اس کا جسم خاک میں مل جائے گا لیکن واقعا خاک میں نہ ملے گا لہذا تم جو باتیں جانتے نہیں ہو اس کے متعلق لب کشائی نہ کرو کیونکہ زیادہ تر وہی باتین حق ہیں جن کا تم انکار کرتے ہو۔ معانی مانگو اس سے جس پر تم غلبہ نہیں پاسکتے اور وہ میں ہوں ۔ کیا میں نے تمھارے درمیان

--------------

۱:-کیونکہ ان کی روح عالم ظہور میں کارفرما ہے۔ دنیا کو منور بنائے ہوئے ہے جیسا کہ شیخ محمد عبدہ مفتی دیار مصر وغیرہ نے کہا ہے۔

۳۰

 ثقل اکبر( یعنی قرآن) پر عمل نہیں کیا ؟ اور تم میں ثقلِ اصغر ( یعنی اپنے دونوں جگر گوشے حسن(ع) و حسین(ع) ) چھوڑنے والا نہیں ہوں؟ کیا میں نے تمہارے درمیان ایمان کا جھنڈا نہیں گاڑا؟”

نیز حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں :

“ اپنے نبی(ص) کے اہل بیت(ع)(۱) پر نظر رکھو، ان کی پہچان کا پورا دھیان رہے، ان کے نقشِ قدم پر چلتے رہو، یہ تمہیں راہِ راست سے الگ نہ کریں گے اور نہ ہلاکت میں دالیں گے، اگر وہ ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر چل کھڑے ہوں تو تم بھی چل پڑو۔ ان سے آگے نہ  بڑھ جانا کہ گمراہ ہوجاؤ اور نہ پیچھے رہ جانا کہ ہلاکت میں پڑ جاؤ۔”

ایک مرتبہ آپ(ع) نے اہلبیت(ع) کا ذکر فرماتے ہوئے کہا:

“ وہ علم کی زندگی ہیں(۲) ( ان کے دم سے علم زندہ ہے) جہالت کے لیے (پیام) موت ہیں۔ ان کے عمل کو دیکھ کر تم ان کے علم کا اندازہ کر سکو گے ، ان کے ظاہر کو دیکھ کر ان کے باطن کا اندازہ تمہاری سمجھ میں آجائے گا۔ ان کے سکوت سے تم سمجھو گے کہ ان کا کلام کس قدر جچاتلا ہوگا۔ نہ تو وہ حق کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ ان کے مابین حق میں اختلاف ہوتا ہے۔ وہ اسلام

--------------

۱:-نہج البلاغہ، جلد اول، صفحہ ۱۷۹ خطبہ۹۳

۲:-نہج البلاغہ، جلد۲، صفحہ۲۵۹، خطبہ۲۳۴

۳۱

کے ستون ہیں، مضبوط سہارا ہیں۔ ان ہی کے ذریعے حق اپنی منزل پر ہنچا۔ باطل کو زوال ہوا اور باطل کی زبان جڑ سے کٹ گئی انھوں نے دین کو حاصل کیا۔ اس پر عمل کرنے اور ذہن نشین کرنے کے لیے صرف سننے سنانے کے لیے نہیں کیونکہ علم کے راوی تو بہت ہیں لیکن علم پر عمل کرنے والے، علم کا حق ادا کرنے والے بہت کم ہیں۔”

ایک دوسرے خطبہ میں آپ(ع) فرماتے ہیں :

“ پیغمبر(ص) کی عترت(۱) عترتوں میں بہترین عترت ہے۔ آپ کا گھرانا تمام گھرانوں سے بہتر گھرانا ہے، آپ کا شجرہ بہترین شجرہ ہے۔ حرم کی چار دیواری میں وہ روئیدہ ہوا۔ اوج بزرگی تک بلند ہوا۔ اس درخت کی شاخین دراز اور پھل اس کے ناممکن الحصول ہیں۔”

نیز حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں:

“ ہم(۲) ہی پیغمبر(ص) کی نشانیاں ہیں، ہم ہی اصحاب ہیں، ہم ہی خزینہ دار ہیں، ہم ہی دروازے ہیں، گھروں میں دروازے ہی سے آیا جاتا ہے۔جو شخص دروازے سے نہ آئے اسے چور کہا جاتا ہے۔ ”

آگے چل کر آپ اہل بیت(ع) کی توصیف فرماتے ہیں :

“ انھیں کی شان میں کلامِ مجید  کی بہترین آیتیں نازل ہوئیں یہی

--------------

۱:-نہج البلاغہ، جلد اول، صفحہ ۱۷۵، خطبہ ۱۹۰

۲:-نہج البلاغہ، جلد ۱، صفحہ ۵۸، خطبہ ۱۵۰

۳۲

 اہل بیت(ع) خدا کے خزانے ہیں۔ اگر بولیں گے تو سچ بولیں گے، اور اگر خاموش رہیں گے تو ان پر سبقت نہ کی جا سکے گی۔”

ایک اور خطبہ میں آپ فرماتے ہیں :

“ سمجھ(۱) رکھو تم ہدایت کو اس وقت تک جان نہیں سکتے جب تک تم یہ نہ جان لو کہ کون راہِ ہدایت سے منحرف ہے۔ کتابِ خدا کے عہد و پیمان پر عمل نہیں کرسکتے جب تک تم یہ نہ معلوم کر لو کہ کس کس نے عہد شکنی کی۔ قرآن سے اس وقت تک متسک نہیں ہوسکتے جب تک قرآن چھوڑ دینے والوں کو پہچان نہ لو۔ لہذا اس کو قرآن والوں سے پوچھو ، اہل بیت(ع) سے دریافت کرو وہ علم کی زندگی ہیں جہالت کے لیے موت ہیں۔ اہل بیت(ع) ہی ایسے ہیں کہ ان کے حکم سے تمہیں پتہ چلے گا کہ کتنا علم رکھتے ہیں۔ ان کی خاموشی سے تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ کس قدر متین اور جچی تلی گفتگو کرنے والے ہیں۔ ان کے ظاہر کو دیکھ کر تمہیں ان کے باطن کا اندازہ ہوگا۔ نہ تو وہ دین کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ دین میں ان کے مابین کوئی اختلاف ہوتا ہے۔ پس گویا دین ان کے درمیان شاہد بھی ہے، صادق بھی، خاموش بھی ہے گویا بھی۔”

اس موضوع پر بکثرت ارشادات آپ کے موجود ہیں چنانچہ ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :

      “ ہم ہی سے تم نے تاریکیوں میں ہدایت پائی۔ ہمارے ہی ذریعہ

--------------

۱:-نہج البلاغہ، جلد۲، صفحہ۷۳، خطبہ ۱۴

۳۳

 بلندیوں پر فائز ہوئے۔ ہماری ہی وجہ سے تاریکیوں سے نکلے بہرے ہوجائیں وہ کان جو سنیں اور سن کر یاد نہ رکھیں(۱) ۔” 

ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :

             “ اے(۲) لوگو! روشنی حاصل کرو اس شخص کے چراغ کی لو سے جو تمہیں نصیحت کرنے والا بھی ہے اور خود بھی مطابق نصیحت عمل کرنے والا ہے اور پانی بھر لو اس پاک و صاف چشمہ سے جس کا پانی نتھرا ہوا ہے۔”

ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :

             “ ہم شجرہ نبوت(۳) (ص) ہیں۔ ہم منزل رسالت ہیں، ہم ملائکہ کی جائے آمدو رفت ہیں، علم کے خازن ہیں، حکمتوں کے سرچشمہ ہیں، ہمارے مددگار اور دوست منتظرِ رحمت اور ہمارے دشمن ہم سے کینہ رکھنے والے خدا کے قہر و غضب کے منتظر ہیں۔”

ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :

                     “ کہاں(۴) گئے وہ جو ہم سے سرکشی کر کے ہم پر کذب و افترا کر کے ہمارے

--------------

۱ ـ  نہج البلاغہ، جلد ۱، صفحہ۳۳، خطبہ۳

۲ ـ  نہج البلاغہ، جلداول، خطبہ۳۰۱

۳ ـ  نہج البلاغہ، جلد اول، صفحہ۲۱۴ خطبہ ۱۰۵ ابن عباس کا قول ہے کہ ہم اہل بیت(ع) شجرہ نبوت ہیں، ملائکہ کی جائے آمدو رفت ہیں۔ رسالت کے گھرانے والے ہیں، رحمت کے گھر والے ہیں، علم کے معدن ہیں، ان کے اس فقرہ کو محققین علماء اہلسنت نے نقل کیا ہے۔ چنانچہ صواعق محرقہ صفحہ ۱۴۳ پر بھی منقول ہے۔

۴ ـ  نہج البلاغہ، جلد ۲، صفحہ۳۶

۳۴

 مقابلے میں اپنے کو راسخون فی العلم بتاتے تھے آئیں اور دیکھیں کہ ہم کو خدا نے رفعت بخشی انھیں پست کیا، ہمیں مالا مال کردیا انھیں محروم رکھا، ہمیں اپنی رحمت میں رکھا انھیں نکال باہر کیا ہم سے ہدایت چاہی جاتی ہے، ہم سے آنکھوں میں نور لیا جاتا ہے ، یقینا ائمہ قریش ہی سے جو ہاشم کی نسل سے ہوں گے امامت بنی ہاشم کے سوا کسی کے لیے لائق و سزاوار ہی نہیں اور نہ بنی ہاشم کے علاوہ کسی کو  حکومت زیب دے سکتی ہے ۔۔۔۔”

اسی سلسلہ میں آپ نے اپنے مخالفین سے فرمایا :

     “ ۔۔۔۔ انھوں نے دنیا کو اختیار کیا اور آخرت کو پیچھے کردیا۔ پاک و صاف چشمے کو چھوڑ کر گدلے پانی سے سیراب ہوئے۔ ”اسی طرح آخرِ خطبہ تک عنوان کلام ہے۔

آپ ہی کا یہ قول بھی ہے کہ :

“ تم میں(۱) سے جو شخص اپنے بستر پر مرے اور وہ اپنے پروردگار اپنے رسول(ص) اور اہلبیت(ع) رسول(ص) کے حقوق کو پہچانتا ہوا مرے تو شہید مرے گا۔ اس کا اجر خدا کے ذمہ ہوگا اور جس نیک کام( جہاد فی سبیل اﷲ) کی نیت رکھتا تھا اس کی بھی جزا پائے گا۔ اور اس کی نیت اس کی تلوار کشی کی قائم مقام ہوجائے گی۔”

ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا:

             “ ہم(۲) ہی شرفاء ہیں ہمارے بزرگ بزرگانِ انبیاء ہیں ہماری

--------------

۱ ـ  نہج البلاغہ، جلد۲، صفحہ۱۵۶، خطبہ۸۵

۲ ـ  صواعق محرقہ، صفحہ۱۴۲

۳۵

 جماعت خدا کی جماعت ہے اور باغی گروہ شیطان کی جماعت ہے۔ جو شخص ہمیں اور ہمارے دشمن کو برابر رکھے وہ ہم سے نہیں۔”

امام حسن(ع) نے ایک موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا :

             “ ہمارے بارے میں خدا سے ڈرو کیونکہ ہم تمھارے امیر و حاکم ہیں(۱) ۔”

امام زین العابدین(ع) کا ارشادِ گرامی

امام زین العابدین علیہ السلام جب اس آیت کی تلاوت فرماتے :

             “ اے لوگو ! خدا سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔”

تو آپ دیر تک خدا سے دعا فرماتے جس میں صادقین کے درجے سے ملحق ہونے اور اندراج عالیہ کی خواستگاری فرماتے، مصائب و شدائد کا ذکر کرتے اور ائمہ دین خانوادہ رسالت(ص) کو چھوڑ دینے والے بدعتی لوگوں نے جن چیزوں کی دین کی طرف نسبت دے رکھی ہے اس کا تذکرہ کرتے پھر فرماتے :

             “  اور کچھ لوگ ہمیں ہمارے درجے سے گھٹانے پر اتر آئے۔ کلام مجید کی متشابہ آیتوں سے کام نکالنے لگے۔ انھوں نے ان آیتوں کی من مانی تاویلیں کیں اور ہمارے متعلق جو کچھ ارشاداتِ پیغمبر(ص) ہیں ان کو متہم قرار دے دیا۔”

اسی سلسلہ میں آپ فرماتے :   “ اے پالنے والے ! اس امت کی نافرمانی کی کس سے فریاد کی جائے حالت یہ ہے کہ اس ملت کی نشانیاں خاک  میں مل گئیں اور امت

--------------

۱ ـ  صواعق محرقہ، صفحہ۱۳۴

۳۶

نے فرقہ پرستی اور اختلاف کو اپنا دین بنالیا۔ایک دوسرے کو کافر بتانے لگے۔ حالانکہ خداوند عالم کا ارشاد ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو فرقہ فرقہ ہوگئے اور اختلافات میں پڑگئے۔ بعد اس کے کہ ان کے پاس روشن نشانیاں آچکی تھیں لہذا حجت پہنچانے اور حکم کی تاویل میں  سوا ان کے جو ہم پلہ کتاب الہی ہیں ابنائے ائمہ ہدایت ہیں، تاریکیوں کے روشن چراغ ہیں، جن کے ذریعہ خدا نے بندوں پر اپنی حجت قائم کی اور اپنی مخلوق کو بغیر اپنی حجت  کے نہیں چھوڑا کون بھروسہ کے قابل ہوسکتا ہے۔ تم انھیں پہچاننا اور پانا چاہو تو شجرہ مبارکہ کی شاخ اور ان پاک و پاکیزہ ذوات کے بقیہ افراد پاؤ گے جن سے خدا نے ہر گندگی کو دور رکھا اور ان کی طہارت کی تکمیل کی۔ انھیں تمام آفتوں سے بری رکھا اور کلام مجید میں ان کی محبت واجب کی۔(۱)

یہ امام(ع) کی اصل عبارت کا ترجمہ ہے ۔ غور سے ملاحظہ فرمائیے ۔ یہ عبارت اور امیرالمومنین(ع) کے جتنے فقرے ہم نے ذکر کیے یہ نمایاں طور پر مذہب شیعہ کو پیش کرتے ہیں۔ ایسے ہی متواتر اقوال دیگر ائمہ کرام کے ہمارے صحاح میں موجود ہیں۔

                                                             ش

--------------

۱ ـ  صواعق محرقہ، تفسیر آیتواعتصموا ----الخ فصل اول، باب ۱۱، صفحہ۹۰

۳۷

مکتوب نمبر۴

کلام مجید یا احادیثِ پیغمبر(ص) سے دلیل کی خواہش

مولانا ئے محترم !

کلام مجید یا حدیثِ نبوی(ص) سے کوئی ایسی دلیل پیش کیجیے جسے سے معلوم ہو کہ ائمہ اہل بیت(ع) ہی کی پیروی واجب ہے۔ قرآن و حدیث کے ماسوا چیزوں کو رہنے دیجیے۔ کیونکہ آپ کے ائمہ کا کلام مخالفین کے لیے حجت نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان کے کلام سے استدالال اس مسئلہ پر دور کا مستلزم ہے۔ آپ ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ائمہ اہلبیت(ع) ہی کی پیروی واجب ہے اور آپ دلیل میں انھیں ائمہ اہلبیت(ع) کا قول پیش کرتے ہیں جن کی پیروی سی محل بحث ہے۔

                                                             س

۳۸

جواب مکتوب

ہماری تحریر پر غور نہیں کیا گیا

آپ نے غور نہیں کیا ۔ ہم نے حدیث سے ابتدا ہی میں ثبوت پیش کردیا تھا۔ اپنے مکتوب میں یہ لکھتے ہوئے کہ بس ائمہ اہلبیت(ع) ہی کی پیروی ہم پر واجب ہے نہ کسی غیر کی۔ ہم نے حدیث اشارتا ذکر کردی تھی۔ ہم نے یہ لکھا تھا کہ پیغمبر(ص) نے انھیں کتاب خدا کے مقارن صاحبانِ عقل کے لیے مقتدی، نجات کا سفینہ، امت کے لیے امان قرار دیا ہے، باب حطہ فرمایا۔ تو میری یہ عبارت انھیں مضامین کی احادیث کی طرف اشارہ تھی جو کہ اکثر و بیشتر کتبِ احادیث میں موجود ہیں۔ ہم نے یہ بھی لکھ دیا تھا کہ آپ ماشاء اﷲ ان لوگوں میں ہیں جن کے لیے اشارہ ہی کافی ہے، تصریح کی ضرورت نہیں۔ لہذا جب ہمارے ائمہ کی اطاعت و پیروی کے متعلق اتنی کثرت سے احادیث موجود ہیں تو اب ان کے اقوال مخالفین کے مقابلہ میں بطور استدالال پیش کیے جاسکتے ہیں اور کسی طرح دور لازم نہیں آتا ۔ ہم نے اقوال پیغمبر(ص) کی طرف ابتداء میں اشارہ جو کیا تھا ان کی تفصیل بھی کیے دیتے ہیں۔ پیغمبر(ص) نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمایا :

حدیثِ ثقلین

ببانگ دہل اعلان فرمایا :

“يا ايها الناس انی تارک --------الخ ”

۳۹

             “ اے لوگو! میں تم  میں ایسی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم انھیں اختیار کیے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتابِ خدا دوسرے میرے اہل بیت(ع)(۱) ۔”

یہ بھی ارشاد فرمایا :

             “ میں نے تم میں ایسی چیزیں چھوڑیں کہ اگر تم ان سے محبت کرو تو کبھی گمراہ نہ ہو۔ ایک کتابِ خدا جو ایک رسی ہے آسمان سے زمین تک کھینچی ہوئی، دوسرے میرے عترت و اہلبیت(ع)۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوضِ کوثر پر پہنچیں۔ دیکھنا میرے بعد تم ان سے کیونکر پیش آتے ہو(۲) ۔”

یہ بھی آپ(ص) نے فرمایا کہ:

             “ میں تم میں اپنے دو جانشین چھوڑے جاتا ہوں، ایک کتابِ خدا جو ایک دراز رسی ہے آسمان سے لے کر زمین تک۔ دوسرے میری عترت و اہل بیت(ع)۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں(۳) ۔”

--------------

۱ ـ  ترمذی و نسائی نے جناب جابر سے روایت کی ہے اور ان دونوں سے ملا متقی نے کنزالعمال جلد اول صفحہ۴۴۔ باب اعتصام الکتاب والسنہ کے شروع میں نقل کیا ہے۔

۲ ـ  ترمذی نے زید ابن ارقم سے روایت کی ہے کنزالعمال جلد اول صفحہ ۴۴ پر بھی موجود ہے۔

۳ ـ  امام احمد نے زید ابن ثابت سے دو صحیح طریقوں سے اس کی روایت کی ہے پہلے مسند صفحہ ۱۸۳۔۱۸۴ جلد ۵، کے بالکل آخر میں طبرانی نے بھی معجم کبیر میں زید بن ثابت سے روایت کیا ہے کنزالعمال جلد اول صفحہ ۴۴ پر بھی موجود ہے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

یہی وہ رجال تسبیح ہیں جن کے بارے مین خداوند عالم نے ارشاد فرمایا :

 “يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالْغُدُوِّ (1) وَ الْآصالِ رِجالٌ لا تُلْهيهِمْ تِجارَةٌ وَ لا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَ إِقامِ الصَّلاةِ وَ إيتاءِ الزَّكاةِ يَخافُونَ يَوْماً تَتَقَلَّبُ فيهِ الْقُلُوبُ وَ الْأَبْصارُ ” ( نور، 36 ۔37)

“ ان گھروں میں خداوند عالم کی تسبیح کیا کرتے ہیں صبح و شام ایسے مرد جنھیں خرید و فروخت خدا کے ذکر اور نماز قائم کرنے ، زکوة ادا

--------------

1 ـ مجاہد و یعقوب بن سفیان نے ابن عباس سے آیت “وَ إِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها وَ تَرَكُوكَ قائِماً (جمعہ،11) “ اور جب وہ کسی تجارت یا کھیل تماشے کو دیکھ پاتے ہیں تو اس طرف دوڑ پڑتے ہیں اور تمہیں کھڑا چھوڑ جاتے ہیں” کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ وحیہ کلثوم سامان تجارت لے کر جمعہ کے دن پلٹے اور مدینہ سے باہر آکر ٹکے اور طبل بچایا تاکہ لوگوں کو ان کی آمد کی اطلاع ہوجائے طبل کی آواز سن کر سب کے سب دوڑ پڑے اور رسول اﷲ(ص) کو منبر پر خطبہ پڑھتے چھوڑ دیا” صرف حضرت علی(ع) حسن(ع) و حسین(ع) ابوذر و مقداد رہ گئے۔ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا خداوند عالم نے  آج کے دن میری اس مسجد کی طرف نگاہ کی اگر یہ چند نفر نہ ہوتے تو پورا مدینہ آگ سے پھونک دیا جاتا اور ان لوگوں پر اسی طرح پتھر برسائے جاتے جیسا کہ قوم لوط پر برسائے گئے اور  جو لوگ پیغمبر(ص) کے پاس مسجد میں باقی رہ گئے ان کے بارے میں خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی“يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالْغُدُوِّ وَ الْآصالِ ۔۔الخ”

۸۱

کرنے سے غافل نہیں کرتی وہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن میں دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی۔”

انھیں کا گھر وہ گھر تھا جس کا ذکر خداوند عالم نے ان شاندار الفاظ میں فرمایا :

 “ في‏ بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فيهَا اسْمُهُ ”( نور، 36)

“ وہ قندیل ایسے گھروں میں روشن ہے جس کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے جن میں صبح و شام وہ لوگ اس کی تسبیح کیا کرتے ہیں(1) ۔”

خداوند عالم نے آیتِ نور میں انھیں کے مشکوة(2) کو اپنے نور کی مثال قرار دیا ہے اور اس کے تو زمین و آسمان میں بلند تر نمونے ہیں۔ وہ بڑی قوت و حکمت والا ہے یہی سبقت کرنے والے یہی مقربان بارگاہ(3) یہی صدیقین(4) یہ شہداء و صالحین ہیں۔

--------------

1 ـ ثعلبی نے اس آیت کی تفسیر میں انس بن مالک و بریدہ سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے آیت فی بیوت الخ کی تلاوت فرمائی تو حضرت ابوبکر نے کھڑے ہو کر علی(ع) و فاطمہ(س) کے گھر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) یہ گھر بھی ان گھروں میں سے ہے ؟ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہاں بلکہ ان سے بہتر گھروں میں ہے۔

2 ـ اشارہ ہے آیت مثل نورہ کمشکوة ۔۔۔۔الخ کی طرف جس کے متعلق حسن بصری اور ابو الحسن مغازلی شافعی سے روایت ہے کہ مشکوة سے مراد حضرت فاطمہ(س) مصباح سے حسنین(ع) اور شجرہ مبارکہ سے حضرت ابراہیم(ع) شرقی و غربی نہ ہونے سے حضرت فاطمہ(س) کا یہودی و نصرانی نہ ہونا یکاد زیتہا سے ان کی کثرت علم اور نور علی(ع) نور سے ایک امام کے بعد دوسرا امام یھدی اﷲ نورہ سے ان کی اولاد کی محبت مراد ہے۔

3 ـ دیلمی نے جناب عائشہ اور طبرانی ابن مردویہ ن جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا سبقت کرنے والے تین ہوئے موسی کی طرف سبقت کرنے والے ۔ یوشع بن نون۔ عیسی کی طرف یاسین اور میری طرف علی بن ابی طالب(ع) ۔ صواعق محرقہ باب9 فصل 2۔

4 ـ ابن نجار نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہےکہ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا صدیقین تین ہیں۔ حبیب نجار مومن آل یاسین۔دوسرے حزقیل مومن آل فرعون، تیسرے علی بن ابی طالب(ع) اور یہ علی سب سے افضل ہیں۔

۸۲

انھیں کے متعلق اور انھیں کے دوستوں کے بارے میں خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

 “وَ مِمَّنْ خَلَقْنا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَ بِهِ يَعْدِلُونَ ”( اعراف، 181)

“ اور ہماری مخلوقات میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دین حق کی ہدیت کرتے ہیں اور حق ہی حق اںصاف بھی کرتے ہیں(1) ۔”

انھیں کی جماعت اور دشمنوں کی جماعت کے متعلق ارشاد ہوا:

 “لا يَسْتَوي أَصْحابُ النَّارِ وَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفائِزُونَ ” ( حشر، 20)

“ جہنم والے اور جنت والے دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ جنت والے ہی تو کامیاب ورستگار ہیں(2) ۔”

نیز انھیں حضرات کے دوستوں اور دشمنوں کے متعلق یہ بھی ارشاد ہوا:

--------------

1 ـ زاذان نے حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ عنقریب اس امت کے تہتر (73) فرقے ہوں گے ان میں سے بہتر(72) جہنمی اور ایک جنتی۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں خداوند عالم نے فرمایا و ممن خلقنا ۔۔ ۔ الخ اور یہ لوگ ہم ہیں اور ہمارے شیعہ ہیں ۔کتاب علامہ ابن مردویہ صفحہ276۔

2 ـ شیخ طوسی نے اپنی آمالی میں نہ اسناد صحیح امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے اس آیت کی تلاوت فرماکر کہا اصحاب نار وہ ہیں جو علی(ع) کی ولایت کو ناپسند کریں اور عہد توڑیں اور میرے بعد ان سے جنگ  کریں جناب صدوق نے بھی حضرت علی(ع) سے اسی مضمون کی روایت کی ہے او علامہ اہلسنت وموفق بن احمد نے جناب جابر سے روایت کی ہے  کہ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا قسم بخدا یہ(علی(ع)) اور ان کے شیعہ ہی قیامت کے دن رستگار ہیں۔

۸۳

 “أَمْ نَجْعَلُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ كَالْمُفْسِدينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقينَ كَالْفُجَّارِ ”( ص، 28)

“ کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور عمل صالح کیا ان لوگوں جیسا قرار دین گے جو زمین میں فساد پھیلانے والے ہیں یا ہم نیکوکار و پرہیز گار بندوں کو بدکاروں جیسا قرار دیں گے(1) ۔”

انھیں دونوں جماعتوں کے متعلق ارشاد خداوندِ عالم ہوا :

 “أَمْ حَسِبَ الَّذينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَواءً مَحْياهُمْ وَ مَماتُهُمْ ساءَ ما يَحْكُمُونَ ” (جاثیه، 21)

“ جو لوگ برے کام کیا کرتے ہیں کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کے برابر کردیں گے جو ایمان لائے اور اچھے کام بھی کرتے رہے  اور ان سب کا جینا مرنا ایک سا ہوگا۔ یہ لوگ کیا برے حکم لگاتے ہیں(2) ۔”

انھیں کے  متعلق اور ان کے شیعوں کے متعلق خداوند عالم کا ارشاد ہے:

 “  إِنَّ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ أُولئِكَ هُمْ

--------------

1 ـ ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ آیت جناب علی(ع) اور حمزہ اور عبیدہ بن الحارث کے حق میں نازل ہوئی ہے، پس اس آیت میں وہ لوگ کہ کرتے ہیں برائیاں عتبہ اور شیبہ اور ولید ہیں اور وہ لوگ کہ ایمان لائے ہیں اور اچھے کام کرتے ہیں وہ جناب علی(ع) اور حمزہ اور عبیدہ ہیں۔

2 ـ صواعق محرقہ، باب 9، فصل اول۔

۸۴

خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ” (البینہ، 7)

“ بہ تحقیق وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کیا وہی بہترین خلائق ہیں(1) ۔”

انھیں کے متعلق اور انھیں کے دشمنوں کے متعلق خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

 “هذانِ خَصْمانِ اخْتَصَمُوا في‏ رَبِّهِمْ فَالَّذينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيابٌ مِنْ نارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَميمُ ” ( حج، 19)

“ یہ دونوں مومن وکافر دو فریق ہیں جو آپس میں اپنے پرورگار کے بارے میں لڑتے ہیں پس جو لوگ کہ کافر ہیں ان کے لیے یہ آتشین لباس قطع کیا جائے گا اور ان کے سروں پہ کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا۔”

انھیں کے بارے میں اور انھیں کے دشمنوں کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی :

 “  أَ فَمَنْ كانَ مُؤْمِناً كَمَنْ كانَ فاسِقاً لا يَسْتَوُونَ

--------------

1 ـ امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری پارہ 3 صفحہ16 میں بسلسلہ تفسیر سورہ حج باسناد صحیحہ حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا میں سب سے پہلے خداوند عالم کے حضور بروز قیامت اپنا جھگڑا پیش کروں گا۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ قیس نے کہا یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جنھیں نے بدر کے روز جنگ کی وہ جناب حمزہ، اور علی(ع) اور عبیدہ بن الحارث اور عتبہ ، شیبہ اور ولید ہیں امام بخاری نے اس پرجناب ابوذر سے روایت کی ہے جناب ابوذر قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یہ آیت جناب حمزہ اور علی(ع) اور عبیدہ بن الحارث اور عتبہ و شیبہ اور ولید کے حق نازل ہوئی۔

۸۵

 أَمَّا الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوى‏ نُزُلاً بِما كانُوا يَعْمَلُونَ وَ أَمَّا الَّذينَ فَسَقُوا فَمَأْواهُمُ النَّارُ كُلَّما أَرادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْها أُعيدُوا فيها وَ قيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذابَ النَّارِ الَّذي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ (1) ” ( سجدہ، 18،19،20)

“ بھلا وہ شخص جو ایمان والا ہو فاسق جیسا ہوسکتا ہے ؟ ( ہرگز نہیں) دونوں برابر نہیں ہوسکتے پس وہ لوگ جوکہ ایمان لائے اور عمل صالح کیا ان کے لیے جنات ماوی ہیں وہاں وہ فروکش ہوں گے یہ صلہ ہے ان کے اعمال خیر کا اور جولوگ  فاسق ہیں ان کا ٹھکانا جہنم ہے جب وہ اس میں سے نکلنا چاہیں گے دوبارہ اسی جہنم میں پلٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ اس آتش جہنم کا مزہ چکھو جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔”

انھیں حضرات کے متعلق اور ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے ان سے حاجیوں

--------------

1 ـ یہ آیت بہ اتفاق مفسرین و محدثین حضرت امیرالمومنین(ع) اور ولید عتبہ بن ابی معیط کے متعلق نازل ہوئی۔ امام واحدی نے کتاب اسباب النزول میں سعید بن جبیر سے انھوں نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ولید بن عتبہ بن ابی معیط نے حضرت امیرالمومنین(ع) سے کہا میرا نیزہ تمھارے نیزے سے کہیں زیادہ تیز اور میری زبان تمھاری زبان سے کہیں زیادہ چلتی ہوئی اور لشکر میری وجہ سے کہیں زیادہ بھرا معلوم ہوتا ہے بہ نسبت تمھارے۔ اس پر حضرت علی(ع) نے فرمایا خاموش بھی رہ کر تو فاسق کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسی واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی افمن کان مومنا کمن فاسقا ۔ اس آیت میں مومن سے مراد حضرت علی(ع) اور فاسق سے مراد ولید بن عتبہ ہے۔

۸۶

 کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی آباد کاری کی بدولت فخر و مباہات کی تھی خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی۔

 “أَ جَعَلْتُمْ سِقايَةَ الْحاجِّ وَ عِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ جاهَدَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ لا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَ اللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمينَ (1) ”( توبه، 19)

“ کیا تم لوگوں نے حاجیوں کی سقائی اور  خانہ کعبہ کی آبادی کو اس شخص کے ہمسر بنا دیا ہے جو خدا کے اور روز آخرت پر ایمان لایا اور خدا کی راہ میں جہاد کیا۔ خدا کے نزدیک تو یہ لوگ برابر نہیں اور خداوندِ عالم ظالم لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا۔”

انھیں حضرات کے ابتلا و آزمائش میں بہ عمدگی پورے  اترنے اور شدائد و مصائب ہنسی خوشی جھیل جانے پر خداوندِ عالم نے ارشاد فرمایا :

--------------

1 ـ یہ آیت حضرت علی(ع) اور جناب عباس اور طلحہ بن شیبہ کی شان میں نازل ہوئی۔ واقعہ یہ ہوا تھا کہ ان لوگوں نے باہم فخر کیا طلحہ نے کہا تھا خانہ کعبہ کا میں متولی ہوں اس کی کنجیاں میرے پاس رہتی ہیں۔ عباس نے کہا میں زمزم کا متولی ہوں اور سقائی میرے ہاتھوں مین ہے۔ حضرت علی(ع) نے کہا کہ میری سمجھ نہیں آتا کہ تم دونوں کیا کہہ رہے ہو میں نے چھ مہینے لوگوں سے پہلے نماز پڑھی ہے اور میں خدا کے راستہ میں جہاد کرنے والا ہوں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ علامہ واحدی نے کتاب اسباب النزول میں یہ روایت حسن بصری شبسی وغیرہ سے نقل کی ہے اور ابن سیرین و مرہ حمدانی سے منقول ہے کہ حضرت علی(ع) نے جناب عباس سے کہا آپ ہجرت نہیں کرتے؟ آپ رسول(ص) کے پاس نہ جائیے گا۔ جناب عباس نے کہا مجھے حاجیوں کی سقائی کا شرف پہلے سے حاصل ہے کیا یہ ہجرت کےشرف سے بڑھا ہوا نہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۸۷

 “  وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْري نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّهِ وَ اللَّهُ رَؤُفٌ بِالْعِبادِ (1) ” ( بقره، 207)

“ لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی کے لیے اپنی جان بیچ ڈالتے ہیں اور خدا اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔”

نیز یہ بھی ارشاد فرمایا :

 “  إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى‏ مِنَ الْمُؤْمِنينَ أَنْفُسَهُمْ وَ أَمْوالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقاتِلُونَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَ يُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْراةِ وَ الْإِنْجيلِ وَ الْقُرْآنِ وَ مَنْ أَوْفى‏ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ

--------------

1 ـ امام حاکم نے مستدرک جلد3 صفحہ4 پر جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ قال شری علی نفسہ لیس ثوب النبی الحدیث۔ جناب ابن عباس نے کہا حضرت علی(ع) نے اپنا نفس فروخت کیا اور پیغمبر (ص) کی چادر اوڑھی ۔ امام حاکم نے تصریح کی ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کے معیار و شرائط پربھی صحیح ہے لیکن ان دونوں نے لکھا نہیں۔ ذہبی ایسے متشدد بزرگ نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔ امام حاکم نے اسی صفحہ پر امام زین العابدین(ع) سے یہ روایت بھی کی ہے کہ پہلے وہ شخص جنھوں نے اپنے نفس کو خوشنودی خدا کے لیے بیچا وہ علی بن ابی طالب(ع) ہیں جب کہ وہ شب ہجرت پیغمبر(ص) کے بستر پر سورہے۔ پھر امام حاکم نے اس موقع پر حضرت علی(ع) نے جو اشعار فرمائے تھے وہ اشعار نقل کیے ہیں جن کا پہلا شعر یہ ہے

                   وقيت بنفسی خير من وطا الحصا              ومن طاف بالبيت العتيق و بالحجر

میں نے جان پر کھیل کر اس بزرگ کی حفاظت کی جو ان تمام لوگوں میں جو سرزمین بطحا پر چلے درجنوں نے خانہ کعبہ اور حجر اسود کا طواف کیا بہتر و افضل ہیں۔”

۸۸

الَّذي بايَعْتُمْ بِهِ وَ ذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظيمُ التَّائِبُونَ الْعابِدُونَ الْحامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنينَ ” (توبہ، 111۔112)

“ اس میں تو شک نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر خرید لیے ہیں کہ ( ان کی قیمت) ان کے لیے بہشت ہے( اسی وجہ سے) یہ لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو ( کفار کو) مارتے ہیں اور (خود بھی) مارے جاتے ہیں ( یہ ) پکا وعدہ ہے ( جس کا پورا کرنا ) خدا پر لازم ہے ( اور ایسا پکا ہے کہ) توریت اور انجیل اور قرآن (سب) میں ( لکھا ہوا) ہے اور اپنے عہد کا پورا کرنے والا خدا سے بڑھ کر اور کون  ہے تو تم اپنی ( خرید) فروخت سے جو تم نے خدا سے کی ہے خوشیاں مناؤ یہی تو بڑی کامیابی ہے ( یہ لوگ ) توبہ کرنے والے عبادت گزار ( خدا کی ) حمد و ثنا کرنے والے ( اس کی راہ میں) سفر کرنے والے رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے نیک کام کا حکم کرنے والے اور برے کام سے روکنے والے اور خدا کی ( مقرر کی ہوئی) حدوں کے اوپر نگاہ رکھنے والے ہیں اور ( اے رسول(ص)ان ) مومنین کو ( بہشت کی ) خوشخبری دے دو۔”

نیز ارشاد فرمایا :

 “الَّذينَ يُنْفِقُونَ أَمْوالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَ النَّهارِ سِرًّا

۸۹

وَ عَلانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ (1) ” ( بقرہ، 274)

“ جو لوگ کہ اپنے مالوں کو رات اور دن میں ظاہر بہ ظاہر اور چھپا کر ( راہ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں ان کے لیے ان کا صلہ ہے ان کے پروردگار کے نزدیک ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ اندوہ گین ہوں گے۔”

انھیں نے صدق دل سے پیغمبر(ص) کی سچائی کی تصدیق کی اور خداوندِ عالم نے ان کی اس تصدیق کی ان الفاظ میں گواہی دی :

 “  وَ الَّذي جاءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ (2) بِهِ أُولئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ” (زمر، 33)

“ اور یاد رکھو کہ جو رسول(ص) سچی بات لے کر آئے ہیں اور جس نے

--------------

1 ـ جملہ محدثین و مفسرین نے بسلسلہ اسناد جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ آیت حضرت علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ آپ کے پاس چار درہم تھے آپ نے ایک درہم شب میں ایک دن میں ، ایک چھپا کر، ایک ظاہر بظاہر راہ خدا میں صدقہ کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ تفسیروحیدی ص16، تفسیر معالم التنزیل ص135، تفسیر بیضاوی،جلد 1، ص125 تفسیر نیشاپوری، ص278 تفسیر کبیر رازی، جلد2، ص528 تفسیر روح المعانی جلد1، صفحہ 495 وغیرہ۔

2 ـالَّذي جاءَ بِالصِّدْقِ سے مراد پیغمبر(ص) صدق بہ سے مراد امیرالمومنین(ع) ہیں۔ جیسا کہ امام محمد باقر(ع) و جعفر صادق(ع) و موسی کاظم(ع) و امام رضا(ع) اور عبداﷲ بن عباس ، ابن حذیفہ ، عبداﷲ بن حسن ، زید شہید و غیر ہم نے تصریح کی ہے۔ خود امیرالمومنین(ع) اس آیت کے ذریعہ احتجاج فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی اور میں مراد ہوں۔ ابن مغازلی نے بھی اپنی مناقب میں مجاہد سے اس مضمون کی روایت کی ہے اور حافظ ابن مردویہ اور حافظ ابو نعیم نے بھی۔

۹۰

ان کی تصدیق کی یہی لوگ تو پرہیز گار ہیں۔”

پس یہی حضرات حضرت رسول خدا(ص) کی مخلص جماعت اور آپ کے قریبی رشتہ دار  ہیں جنھیں خداوند عالم نے اپنی بہترین رعایت اور بلندترین توجہ کے ساتھ مخصوص فرمایا اور ارشاد فرمایا :

 “وَ أَنْذِرْ عَشيرَتَكَ الْأَقْرَبينَ ” ( شعراء، 214)

“ اے پیغمبر(ص) اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو خدا کا خوف دلاؤ۔”

یہی پیغمبر(ص) کے اولی الارحام ہیں اور اولی الارحام بعض بعض سے مقدم و اولیٰ ہیں کتاب الہی میں یہ پیغمبر(ص) کے قریبی رشتہ دار اور قریبی رشتہ دار بھلائی کے  زیادہ حق دار ہوتے ہیں۔ یہی بروز قیامت پیغمبر(ص) کے درجے میں ہوں گے اور جنتِ نعیم میں آپ کے ساتھ ساتھ ہوں گے جس پر دلیل خداوند عالم کا یہ قول ہے۔

 “وَ الَّذينَ آمَنُوا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإيمانٍ أَلْحَقْنا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ ما أَلَتْناهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ (1) ” (طور، 21)

“ جو لوگ کہ ایمان لائے اور ان کی ذریت نے بھی ایمان لا کر اتباع کیا تو ہم ان کی ذریت کو بھی انھٰیں سے ملحق کردیں گے اور ان کے اعمال میں سے رتی برابر کمی نہ کریں گے۔”

یہی وہ حق دار حضرات ہیں جن کے حق کی ادائیگی کا قرآن نے ان الفاظ

--------------

1 ـ امام حاکم نے مستدرک جلد2 صفحہ468 پر بسلسلہ تفسیر سور طور ابن عباس سے اس آیت کے متعلق روایت کی ہےابن عباس نے کہا کہ خداوند کریم مومن کی ذریت کو بھی جنت کے اسی درجے میں رکھے گا جس میں وہ مومن ہوگا اگرچہ بلحاظ اعمال کمتر ہو پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی اور کہا کہ وما التناہم کا مطلب یہ ہے کہ وما نقصناھم یعنی ہم کوئی کمی نہ کریں گے۔

۹۱

 میں حکم سنایا :

 “  وَ آتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ (1) ” ( اسراء، 26)

“ صاحبان قرابت کو ان کا حق دے دو۔”

یہی وہ صاحبان خمس ہیں کہ جب تک ان کو خمس نہ پہنچا دیا جائے انسان بری الذمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ارشاد الہی ہے:

 “ وَ اعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى‏ (2) ” ( انفال، 41)

“ سمجھ رکھو کہ تم جو کچھ مال غنیمت حاصل کرو تو اس کا پانچواں حصہ خدا کا ہے اور رسول(ص) کا اور رسول(ص) کے قرابت داروں کا۔”

یہی وہ صاحبان فئی ہیں جن کے متعلق خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

“ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى‏ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرى‏ فَلِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى‏ ( حشر، 7)

خداوندِ عالم نے دیہات والوں سے جو مال بطور خالصہ بلا حرب و ضرب رسول(ص) کو دلوایا ہے وہ اﷲ کے لیے ہے اور رسول(ص) کے لیے اور صاحبان قرابت کے لیے اور یہی وہ اہل بیت(ع) ہیں جن سے آیہ “إِنَّما يُريدُ اللَّهُ

--------------

1 ـ مفسرین نے لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آںحضرت(ص) نے جبرائیل(ع) سے پوچھا ، قرابت والے کون ہیں اور ان کا حق کیا ہے۔ جواب دیا فاطمہ(س) کو فدک دے دیجیے کہ یہ انھیں کا حق ہے اور جو کچھ فدک میں خدا و رسول(ص) کا حق  ہے وہ بھی انھیں کے حوالے کر دیجیے پس رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ(س) کو بلا کر وثیقہ لکھ کر فدک ان کے حوالے کردیا۔تفسیر در منثور جلد4، صفحہ177، وغیرہ۔

2 ـ تفسیر روح المعانی جلد 3 صفحہ 637، تفسیر نیشاپوری، جلد10، صفحہ15 وغیرہ۔

۹۲

لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً ” ( احزاب، 33) خطاب کیا گیا۔

یہی وہ آل یسین ہیں جن پر خداوند عالم سلام بھیجا اور ارشاد ہوا : سلام(1) علیٰ آل یسین۔ یہی وہ آل محمد(ص) ہیں جن پر درود و سلام بھیجنا خداوند عالم نے بندوں پر فرض قرار دیا اور ارشاد ہوا :

 “  إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليماً ” ( احزاب، 56)

“ تحقیق کہ خداوند عالم اور ملائکہ نبی(ص) پر درود بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو تم بھی درود و سلام بھیجا کرو۔”

لوگوں نے پیغمبر(ص) سے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) ہم آپ پر سلام کیونکر کریں یہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن یہ ارشاد ہو کہ درود آپ کی آل پر کیونکر بھیجا جائے تو آپ نے ارشاد

--------------

1 ـ  علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ باب 11 میں بسلسلہ ان آیات کے جو اہل بیت(ع) کی شان میں  نازل ہوئیں تیسری آیت یہ بھی لکھی ہے اور لکھا ہے کہ مفسرین کی ایک جماعت نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہاں آیت میں مراد سلام علی آل محمد ( آل محمد پر سلام ہو) علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ کلبی نے بھی ایسا ہی کہا ہے اور فخرالدین رازی نے لکھا ہے کہ پیغمبر(ص) کےاہل بیت(ع) پانچ چیزوں میں پیغمبر(ص) کے برابر حصہ دار ہیں۔ سلام میں  خداوند عالم نے پیغمبر(ص) سے کہا السلام علیک ایہا النبی اور اہل بیت (ع) کے لیے کہا سلام علی آل یسین دوسرے تشہد مین درود بھیجے جاتے ہیں تیسرے طہارت میں پیغمبر(ص) سے فرمایا طہ اے طیب و طاہر اور اہل بیت(ع) کے لیے آیت تطہیر نازل ہوئی چوتھے صدقہ حرام ہونے میں پانچویں محبت میں رسول کے لیے فرمایا :فاتبعونی يحببکم اﷲ اور اہل بیت(ع) کے لیے ارشاد فرمایا:قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى (شوری، 23)

۹۳

فرمایا یوں کیا کرو :

الل ه م صل علی محمد و علی آل محمد”

لہذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان حضرات پر درود بھیجنا پیغمبر(ص) پر درود بھجنے کا جزو ہے جب تک آپ کی آل(ع) کو بھی شامل کر کے درود نہ بھیجا جائے تب تک پیغمبر(ص) پر درود پورا نہ ہوگا اسی وجہ سے علماء و محققین نے اس آیت کو بھی ان آیات میں شمار کیا ہے جو اہل بیت(ع) کی شان  میں نازل ہوئیں۔ چنانچہ علامہ ابن حجر مکی نے بھی صواعق محرقہ باب 11 میں اس آیت کو منجملہ  ان آیات کے شمار کیا ہے جو اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئیں۔ پس یہی منتخب و برگزیدہ بندگان الہی  ہیں بحکم خدا نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔ یہی وارثان کتاب خدا ہیں جن کے بارے میں خداوندِ عالم نے فرمایا ہے:

 “ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سابِقٌ بِالْخَيْراتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبيرُ (1) ۔” ( فاطر، 32)

--------------

1 ـ ثقتہ الاسلام کلینی علیہ الرحمہ نے بہ سند صحیح سالم سے روایت کی ہے کہ سالم کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر(ع) سے اس آیت  ثم اورثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا  آیت میں سابق بالخیرات ( نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والا) سے مراد امام اور مقتصد ( میانہ رو) سے مراد امام کی معرفت رکھنے والا اور ظالم لنفسہ ( اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والا) سے مقصود وہ ہے جو امام سے بے گانہ و نا آشناہو ۔ اسی مضمون کی روایت کلینی نے امام جعفر صادق(ع) امام موسی کاظم(ع) اور امام رضا علیہ السلام سے بھی کی  ہے۔ علمائے اہلسنت میں حافظ  ابن مردویہ  نے اس حدیث کی روایت امیرالمومنین(ع) سے کی ہے۔

۹۴

“ پھر ہم نے اپنی کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو جنھیں ہم نے اپنے بندوں میں منتخب کیا ہے، پس لوگوں میں بعض تو ایسے ہیں جو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں ( اور یہ وہ لوگ ہیں جو امام کی معرفت نہیں رکھتے) اور بعض میانہ رو ہیں ( یعنی دوستدارن ائمہ) اور بعض نیکیوں کی طرف بحکم خدا سبقت کرنے والے ہیں( یعنی امام ) اور یہ بہت بڑا فضل ہے۔”

اہل بیت طاہرین(ع) کی شان میں نازل شدہ اتنی ہی آیات بیان کرنے پر ہم اکتفا کرتے ہیں۔

جناب ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ تنہا حضرت عی(ع)  کی شان میں تین سو آیتیں(1) نازل ہوئیں اور ابن عباس کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بیان ہے کہ ایک چوتھائی قرآن اہل بیت(ع) کے متعلق نازل ہوا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اہلبیت(ع) اور قرآن ایک جڑکی دوشاخین ہیں جو کبھی جدا نہیں ہوسکتیں۔ ہم انہیں چند آیتوں پر بس کرتے ہیں۔ انھیں میں غور فرمائیے آپ پر حقیقت و امر واقع بخوبی واضح ہوجائے گا۔

                                                                                                                                                                             ش

--------------

1 ـ جیسا کہ ابن عساکر نے ابن عباس سے روایت کی ہے ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب 9، فصل 3 صفحہ2۔

۹۵

مکتوب نمبر7

جناب مولانائے محترم ! تسلیم

گرامی نامہ سبب عزت افزائی ہوا۔ سبحان اﷲ آپ کے زور بیان قوتِ تحریر کی داد نہیں دی جاسکتی۔ آپ نے جتنی باتیں تحریر فرمائیں ان میں کسی کا مجال تکلم نہیں جو کچھ آپ نے لکھا صحیح لکھا البتہ ایک کھٹک دل میں رہی جاتی ہے۔ اعتراض کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ جنھوں نے اہل بیت(ع) کے متعلق ان آیات کے نازل ہونے کی روایت کی ہے وہ شیعہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں حضرات اہل سنت کے لیے حجت نہیں۔ براہ کرم اس اعتراض کا دفعیہ فرمائیے۔

                                                                     س

۹۶

جواب مکتوب

محترمی تسلیم!

آپ نے جو اعتراض پیش کیا وہ درست نہیں۔ اعتراض کے دونوں ٹکڑے غلط ہیں۔ یہ بھی کہ جنھوں نے ان آیات کے شانِ نزول کےمتعلق روایت کیا ہے وہ شیعہ تھے اور یہ بھی کہ شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں حضرات اہل سنت کے لیے حجت نہیں۔ اعتراض کا پہلا حصہ تو یوں درست نہیں کہ ان آیات کے شانِ نزول کے متعلق صرف شیعوں ہی نے روایت نہیں کی بلکہ معتبر و موثق علماء اہل سنت نے بھی روایتیں کی ہیں ۔ ان کی سنن اور مسانید اٹھا کر دیکھیے آپ کو نظر آئے گا کہ انھوں نے ان روایتوں  کو شیعوں سے کہیں زیادہ طریقوں سے ذکر کیا ہے۔ اگر شیعہ علماء نے کسی آیت کے متعلق چار طریقوں سے روایت کی ہے کہ یہ آیت اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئی تو حضرات اہل سنت نے دس طریقوں سے روایت کی ہے۔

رہ گیا اعتراض کا دوسرا ٹکڑا کہ شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں اہلسنت کے لیے حجت نہیں تو یہ اور بھی غلط ہے جیسا کہ علماء اہلسنت کی کتب حدیث گواہ ہیں حضرات اہل سنت کے طریق و اسناد میں ایک دو نہیں بکثرت شیعہ راوی ملتے ہیں۔ اور شیعہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ نامی گرامی ، جن کی شیعیت  سے دنیا واقف ہے۔وہ شیعہ جنھیں برا کہا جاتاہے، گمراہ سمجھا جاتا ہے ، رافضی کہہ کر پکارا  جاتا ہے۔ انھیں شیعوں کی روایتیں آپ کے صحاح ستہ میں بھی موجود ہیں اور ان کے علاوہ دیگر حدیث کی کتابوں میں بھی۔ خود امام بخاری کے شیوخ میں بہت سے ایسے شیعوں کے نام ملتے ہیں

۹۷

 جنھیں رافضی مخالف وغیرہ کہا جاتا ہے مگر پھر بھی امام بخاری نے ان سے استفادہ کیا ، ان سے روایتیں لیں۔ امام بخاری نے بھی ان کی روایت کردہ حدیثیں اپنی صحیح میں درج کی ہیں اور دیگر اصحاب نے بھی۔ ان تمام حقائق کے باوجود یہ کہنا کس طرح درست ہوسکتا ہے کہ شیعوں کی روایت حضرات اہلسنت کے لیے حجت نہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والوں کو حقیقت کا علم ہی نہیں۔ اگر معترضین اس حقیقت کو ذہن نشین کر لیں کہ شیعہ اہلبیت(ع) کے پیرو انھیں کے اصولوں کے پابند اور ان کے اوصاف و محاسن کو پرتو ہیں اندازہ ہو کہ وہ کس قدر اعتماد و اعتبار کے لائق ہیں لیکن ناواقف نے ایک اشتباہ کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے کس قدر لائق ماتم ہے یہ امر کہ محمد بن یعقوب کلینی ایسے بزرگ جنھیں دنیا ثقتہ الاسلام کے لقب سے یاد کرتی ہے محمد بن علی بن بابویہ القمی جو مسلمانوں کے صدوق کہے جاتے ہیں، محمد بن حسن طوسی جنھیں شیخ الامہ کہا جاتا ہے محض شیعیت کے جرم میں معترضین کے نزدیک اعتبار کے قابل نہ سمجھے جائیں اور ان کی پاکیزہ صفات جو علوم آلِ محمد(ص) کا خزینہ ہیں حقارت کی نظر سے دیکھی جائیں ایسے بزرگوں کے متعلق شک وشبہ سے کام لیا جائے جو جامع علوم و کمالات تھے۔ روئے زمین پر قطب و ابدال کی حیثیت رکھتے تھے جنھوں نے خدا و رسول(ص) کی اطاعت احکامِ الہی کی تبلیغ و اشاعت مسلمانوں  کی خیر خواہی و رہبری میں اپنی عمریں تمام کردیں۔

معمولی سے معمولی شخص واقف ہے کہ یہ مقدس حضرات جھوٹ کو کتنا بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنی ہزاروں کتابوں میں جھوٹوں پر لعنت کی ہے اور صراحت کی ہے کہ حدیثِ پیغمبر(ص) میں جھوٹ بولنا ہلاکت و عذاب دائمی کا سبب ہے حدیث میں جھوٹ بولنا تو اتنا بڑا گناہ سمجھا ہے ان لوگوں نے کہ روزہ توڑ دینے

۹۸

 والی چیزوں میں قرار دیا ہے۔ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان میں عمدا جھوٹی حدیث بیان کرے تو ان حضرات کا فتوی ہے کہ اس شخص کا روزہ باطل ہوگیا۔ اس پر روزہ کی قضا بھی لازم ہے اور کفارہ بھی دینا ضروری ہے جس طرح دیگر مفطرات کا حکم ہے بعینہ جھوٹی حدیث بیان کرنے کا بھی۔ جب کذب کو وہ ایسا امر عظیم سمجھتے ہیں تو خدا را انصاف سے فرمائیے کہ خود ایسے حضرات کے متعلق جو صالحین و ابرار عابد شب زندہ دار ہوں ایسا وہم و گمان بھی کیا جاسکتا ہے؟

ہائے ہائے ! شیعیانِ آل محمد(ص) اہل بیت(ع) کے پیرو متہم سمجھے جائیں اور ان کی بیان کی ہوئی حدیثوں پر کذب و افترا کا شک وشبہ کیا جائے۔ ان کے اقوال ٹھکرا دینے کے قابل سمجھے جائیں اور خارجی ناصبی خدا کو مجسم ماننے والے افراد کی حدیثیں سر آنکھوں پر رکھی جائیں۔ وہ جو کچھ بیان کریں آمنا و صدقنا کہہ کر تسلیم کر لیا جائے اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ سمجھی جائے۔ یہ تو کھلی ہوئی نا انصافی صریحی جفا پروری ہے۔ خدا محفوظ رکھے۔

                                                                     ش

۹۹

مکتوب نمبر8

حضرت مولانائے محترم ! تسلیم!

آپ کا تازہ مکتوب موصول ہوا۔ آپ کی تحریر اتنی متین، دلائل سے پر اور حقائق سے لبریز تھی کہ میرے لیے چارہ کار ہی نہیں سوا اس کے کہ جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا ہے ایک ایک لفظ تسلیم کرلوں۔ البتہ جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرات اہل سنت نے بکثرت شیعہ راویوں سے روایتیں لی ہیں، اسے آپ نے بہت مجمل رکھا۔ آپ کو ذرا تفصیل سے کام لینا چاہیے تھا۔ مناسب تھا کہ آپ ان شیعہ راویوں کے نام بھی تحریر فرماتے نیز ان کی شیعیت کے متعلق حضرات اہل سنت کا اقرار بھی ذکر کرتے۔ امید ہے کہ آپ میرا مقصد سمجھے گئے ہوں گے۔

                                                                             س

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639