دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)6%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272352 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

مکتوب نمبر۲۱

آپ کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ لفظ “ الذین آمنوا ” جمع ہے اور امیرالمومنین(ع) شخص واحد ہیں لہذا جمع کا اطلاق مفرد پر کیونکر صحیح ہے؟

                                                             س

جواب مکتوب

اہل عرب عموما جمع بول کر مفرد مراد لیا کرتے ہیں اس سے ایک خاص نکتہ ملحوظ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایسا کرتے ہیں۔

اس کے ثبوت میں سورہ آل عمران کی یہ آیت پڑھیے :

 “  الَّذينَ قالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا

۲۴۱

 لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزادَهُمْ إيماناً وَ قالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَ نِعْمَ الْوَكيلُ”( آل عمران، ۱۷۳)

“ وہ لوگ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمھارے خلاف ایکا کر لیا ہے، تم ڈرو ان سے مگر ان کے ایمان میں اور اضافہ ہی ہوا، انھوں نے کہا کہ خدا ہمارے لیے کافی ہے اور وہی بہترین وکیل ہے۔”

آیت میں ہے کہ لوگوں نے کہا ۔ ناس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے حالانکہ تمام مفسرین و محدثین و اہل اخبار کا اجماع ہے کہ کہنے والا فقط ایک تھا نعیم بن مسعود اشجعی ۔ خداوند عالم نے صرف ایک نعیم بن مسعود پر جو مفرد ہے لفظ ناس کا اطلاق کیا ہے جو جماعت کے لیے بولا جاتا ہے ۔ ایسا کیوں کیا گیا۔ ان لوگوں کی عظمت و جلالت ظاہر کرنے کے لیے جنھوں نے نعیم بن مسعود کی باتوں پر توجہ نہ کی اور اس کے ڈرانے سے ڈرے نہیں۔ واقعہ یہ تھا کہ ابوسفیان نے نعیم بن مسعود کو دس اونٹ اس شرط پر دیے کہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرے اور مشرکین سے خوف دلائے اور اس نے ایسا ہی کیا تو نعیم نے اس دن جو باتیں کہی تھیں انھیں میں سے یہ جملہ بھی تھا۔ لوگوں نے تمھارے خلاف ایکا کر لیا ہے ۔ تم ڈرو ان سے، اس کے ڈرانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اکثر مسلمان جنب میں جانے سے گھبرا گئے لیکن پیغمبر(ص) ۷۰ سواروں کو لے کر نکل کھڑے ہوئے۔ اور صحیح و سالم واپس آئے۔ اس موقع پر یہ آیت ان ستر مسلمانوں کی مدح میں نازل ہوئی جو رسول(ص) کے ہمراہ گئے اور ڈرانے والے کے کہنے سے ڈرے نہیں خداوند عالم نے یہاں مفرد ( یعنی نعیم بن مسعود) پر ناس کا لفظ جو بولا

۲۴۲

تو عجیب پاکیزہ نکتہ ہے اس میں۔ کیونکہ اس ستر کی تعریف جو رسول(ص) کے ہمراہ گئے یہ کہہ کر کرنا کہ وہ لوگوں کے کہنے اور ڈرانے سے نہیں ڈرے کہیں بلیغ تر ہے بہ نسبت اس کے کہ اگر یہ کہا جاتا کہ وہ ایک شخص کے ڈرانے سے نہیں ڈرے ( کیونکہ ایک شخص کا خوف دلانا اتنا خوف کا باعث نہیں ہوتا جتنا ایک جماعت کا ڈرانا خوف کا باعث ہوتا ہے۔)

اس جیسی بہت سی مثالیں آپ کو کلام مجید، احادیثِ پیغمبر(ص) اور کلام عرب میں ملیں گی۔ کلام مجید ہی میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے :

“يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَنْ يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ”( مائدہ ، ۱۱)

“ اے لوگو!  جو ایمان لائے خدا کے اس نعمت و احسان کو یاد کرو جب ایک قوم نے ارادہ کیا کہ تمھاری طرف برائی کا ہاتھ بڑھائے تو خداوند عالم نے اس کے ہاتھ کو تم سے روک دیا۔”

اس آیت میں قوم کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ قوم نے برائی کا ہاتھ بڑھایا حالانکہ ہاتھ بڑھانے والا صرف ایک شخص تھا۔ قبیلہ محارب سے جس کا نام غورث تھا۔ اور بعض علماء کہتے ہیں کہ وہ بنی نضیر کا ایک شخص عمرو بن جحاش تھا جس نے کسی قضیہ میں جس کا مفسرین و محدثین اہل اخبار نے بھی ذکر کیا ہے تلوار کھیچ لی تھی اور چاہتا تھا کہ رسول(ص) کو قتل کر ڈالے ، مگر خدا نے آپ کی حفاظت کی۔ ابن ہشام نے اپنی سیرة کی جلد۳ میں اسے غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر لکھا ہے۔ تو خداوند عالم نے اس

۲۴۳

ایک اکیلے شخص کے لیے جو مفرد ہے لفظ قوم استعمال کیا جو جماعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس مقصود رسول(ص) کی سلامتی میں جو نعمت الہی تھی اس کی عظمت و جلالت جتانا تھا۔

اس طرح یہ آیہ مباہلہ میں خداوند عالم نے لفظ ابناء ، نساء اور انفس کے الفاظ جو حقیقتا عموم کے لیے ہیں حسنین(ع) و فاطمہ(س) و حضرت علی علیہم السلام کےلیے خاص کر استعمال کیے ہیں۔ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہ الفاظ صرف انہی حضرات کے لیے استعمال ہوئے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کی عظمت شان و جلالتِ قدر کا اظہار مقصود تھا اور بھی بہت سے نظائر ہیں بے شمار و بے حساب۔ یہ چند مثالیں بطور دلیل نقل کر دی گئیں کہ جمع کا لفظ مفرد پر بھی بول سکتے ہیں، جبکہ کوئی خاص غرض کوئی مخصوص نکتہ پیش نظرہو۔

علامہ زمخشری کا نکتہ

علامہ طبری تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کی تفسیر لکھتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ اس آیت میں امیرالمومنین(ع) کے لیے جمع کا لفظ استعمال کرنے میں قدرت کو نکتہ یہ ملحوظ تھا کہ آپ کی بزرگی ظاہر کرے۔ عظمت و جلالت بیان کرے۔ اہل لغت بطور تعظیم جمع بول کر واحد مراد لیا کرتے ہیں اور یہ ان کی بہت مشہور عادت ہے۔ اس پر کسی دلیل کے پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔

علامہ ذمخشری نے تفسیر کشاف میں ایک دوسرا نکتہ ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں :

۲۴۴

“ اگر تم یہ کہو اس آیت کا حضرت علی(ع) کی شان میں نازل ہونا کیسے صحیح ہے حالانکہ لفظ جمع استعمال ہوا ہے تو میں کہوں گا کہ گو یہ آیت شخص واحد ہی کے متعلق ہے مگر لفظ جمع اس لیے لایا گیا ہے تاکہ دوسروں کو بھی ان کے جیسا کرنے کی رغبت پیدا ہو۔ وہ بھی ایسی جزا پائیں جیسی علی(ع) کو ملی۔

ایک تو وجہ یہ تھی ، دوسری وجہ یہ تھی کہ خداوند عالم متنبہ کرنا چاہتا تھا کہ دیکھو مومنین کی خصلت ایسی ہونی چاہیے نیکی و احسان کرنے اور نادار و صاحبان احتیاج کی تلاش و جستجو میں اس درجہ آرزو مند ہونا چاہیے کہ اگر وہ نماز کی حالت میں بھی ہوں تو اسے نماز سے فراغت پر نہ اٹھا سکیں ۔ بلکہ نماز ہی کی حالت میں بجالائیں۔”

ایک اور لطیف نکتہ

میرے ذہن میں ایک بہت ہی لطیف و باریک نکتہ آیا وہ یہ کہ خداوند عالم نے مفرد لفظ چھوڑ کر جمع کا لفظ جو استعمال فرمایا تو اکثر لوگوں پر اس کا بڑا فضل و کرم ہوا بڑی عنایت ہوئی خداوند عالم کی کیونکہ دشمنان علی(ع) اور اعداء بنی ہاشم اور تمام منافقین اور حسد وکینہ رکھنے والے اس آیت کو بصیغہ مفرد سننا برداشت کیسے  کرتے وہ تو اس طمع میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے کہ ممکن ہے کہ کسی دن ںصیبا یاوری کرے اور رسول کی آنکھ بند ہونے کے بعد ہم حاکم بن جائیں ۔ جب ان کو یہ پتہ چل جاتا کہ خداوند عالم نےحکومت بس تین ہی ذاتوں میں منحصر کردی، خدا و رسول(ص) اور علی(ع) ہی بس

۲۴۵

 حاکم ہیں۔ تو وہ مایوس ہو کر نہ معلوم کیا کیا آفتیں برپا کرتے اور اسلام کو کن کن خطرات کا سامنا کرنا پڑتا۔ ان کے فتنہ و فساد ہی کے خوف سے آیت میں باوجود علی(ع) کے شخص واحد ہونے کے جمع کا لفظ استعمال کیا گیا ۔ پھر بعد میں رفتہ رفتہ مختلف پیرایہ  میں متعدد مقامات پر تصریح  ہوتی رہی اور ولایت امیرالمومنین(ع) بہت سے دلوں پر شاق تھی اس لیے فورا ہی کھلم کھلا اعلان نہیں کردیا گیا۔

اگر اس آیت میں مخصوص عبارت لا کر مفرد کا استعمال کر کے آپ کی ولایت کا اعلان کردیا جاتا تو لوگ کا نوں میں انگلیاں دے لیتے او سرکشی پر اڑ جاتے۔ یہی انداز حکیمانہ قرآن مجید کی ان تمام آیات میں جاری و ساری ہے جو اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئیں۔ ہم نے اپنی کتاب سبیل المومنین میں اس کی با قاعدہ توضیح کی ہے۔ محکم ادلہ و براہین ذکر کیے ہیں۔

                                                                             ش

۲۴۶

مکتوب نمبر۲۲

یہاں آیت دلالت کرتی ہے کہ ولی سے دوست یا اسی جیسے معنی مراد ہیں

خدا آپ  کا بھلا کرے ۔ آپ نے میرے شکوک دور کردیے۔ شبہات کے بادل چھٹ گئے۔ حقیقت نکھر گئی۔ البتہ ایک کھٹک رہی جاتی  ہے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیت اس موقع کی ہے جہاں خداوند عالم نے کافرین کو دوست بنانے سے منع کیا ہے۔ جیسا کہ قبل و بعد کی آیات سے پتہ چلتا ہے ۔ لہذا سلسلہ آیت قرینہ ہے کہ اس جگہ ولی سے مراد دوست یا محب یا مددگار کے ہیں ۔ اس کا آپ کیا جواب دیں گے؟

                                                                             س

۲۴۷

جوابِ مکتوب

سیاق آیت سے اس قسم کی معنی نہیں نکلتے

اس کا جواب یہ ہے کہ مطالعہ سے آسانی سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ آیت اپنے ماقبل کی ان آیتوں سے جن میں کفار کو دوست بنانے سے نہی کی  گئی ہے کوئی تعلق نہیں رکھتی اس سلسلہ سے اسے کوئی واسطہ نہیں بلکہ یہ امیرالمومنین(ع) کی مدح و ثنا میں نازل ہوئی ہے کیونکہ اس میں مرتدین کو آپ کی شجاعت سے خوف دلایا گیا ہے۔ آپ کے سطوت و غلبہ کی دھمکی دی گئی ہے اور من جملہ ان آیات کے ہے جن میں امیرالمومنین(ع) کے سزاوارِ امامت و خلافت ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہےاس لیے کہ اس آیت کے پہلے بالکل ہی متصل جو آیت ہے یعنی :

 “يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكافِرينَ يُجاهِدُونَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ وَ لا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتيهِ مَنْ يَشاءُ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ ” (مائده، ۵۴)

“ اے ایمان والو جو شخص تم میں سے اپنے دین سے پھرا ( وہ یاد رکھے) کی جلد ہی خدا ایک ایسی قوم کو لائے گا جسے خدا بھی محبوب رکھتا ہے اور وہ لوگ بھی خدا کو محبوب رکھتے ہیں

۲۴۸

 مومنین کے آگے منکسر مزاج و خکسار ہیں ۔ کافروں کے مقابلہ میں قوت و طاقت والے ہیں۔ خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتے یہ خدا کا فضل و کرم ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے توازتا ہے اور خدا بہت و سیع علم رکھنے والا ہے۔”

یہ آیت خاص کر امیرالمومنین(ع) کی شان میں نازل ہوئی جس میں آپ اور آپ کے اصحاب کی ہیبت و شجاعت سے خوف دلایا گیا ہے جیسا کہ خود امیرالمومنین(ع) نے جنگ جمل میں اس کی صراحت کی ہے نیز امام محمد باقر(ع) و جعفر صادق(ع)  نے بھی تصریح فرمائی ہے ۔ ثعلبی نے بھی اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے اور صاحب مجمع البیان نے جناب عمار، حذیفہ، ابن عباس ان تمام بزرگوں سے مروی روایات ذکر کی ہیں۔

مختصر یہ کہ ہم شیعوں کے یہاں اس آیت کا امیرالمومنین(ع) کی شان میں نازل ہونا اجماعی مسئلہ ہے اور ائمہ طاہرین(ع) سے بکثرت صحیح اور حدِتواتر تک پہنچی ہوئی روایات بھی مروی ہیں لہذا اس بنا پر یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ پہلی آیت سے خداوند عالم نے پہلے ولایت امیرالمومنین(ع) کا اشارة ذکر فرمایا ۔ آپ کی امامت کا مجمل لفظوں میں ذکر کیا اور اس کے بعد آیت انما نازل فرما کر سابقہ اجمال کی تفصیل فرمادی۔ اس اشارہ کو واضح کردیا۔ لہذا یہ کہنا کیونکر صحیح ہے کہ یہ آیت انما ان آیتوں کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے جن میں کفار کو دوست بنانے کی نہی کی گئی ہے۔

۲۴۹

سیاقِ آیت ادلہ کے قابلہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا

علاوہ اس کے سروکائنات(ص) نے اپنے اہل بیت(ع) کو بمنزلہ قرآن قرار دیا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ :

“ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے”

لہذا  اہل بیت(ع) ہم پلہ کتاب الہی ہیں اور انھیں سےحقیقت  و واقعیت کا پتہ چل سکتا ہے ۔ کلام مجید اور اس کی آیتوں کے متعلق ان کے اقوال جتنے معتبر ہوں گے کسی اور کے نہیں۔ حضرات اہل بیت(ع) نے برابر اسی آیت سے اپنی حقیقت پر استدلال کیا۔ اسی کو بطور حجت پیش کیا۔ انھوں نے ولی کو وہی تفسیر فرمائی ہے جو ہم نے بیان کیا لہذا ان حضرات کے اقوال کے سامنے سیاق کو کوئی وزن نہیں دیا جاسکتا۔ اور اگر سیاق کلام کو ہم تسلیم بھی کرلیں کہ وہ ان کی نصوص و تصریحات کے معارض ہے تو ایک تو نص کے مقابلہ میں ظاہر کا وزن ہی کیا دوسرے یہ کہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ سیاق کے مقابلہ میں ادلہ کو ترجیح حاصل ہے۔ دلیلوں کے مقابلے میں سیاق کو کوئی حقیقت نہیں اسی وجہ سے اگر کسی موقع پر سیاق اور دلیل کے درمیان تعارض پیدا ہوجاتا ہے تو سیاق کے مدلول پر عمل نہیں کیا جاتا بلکہ اسے چھوڑ کر دلیل کے حکم کی پابندی کی جاتی ہے اور اس کا راز یہ ہے کہ جس موقع پر سیاق آیت اور دلیل میں تعارض پیدا ہوتا ہے تو اس آیت کی اسی سیاق اور اسی سلسلہ کلام میں نازل ہونے کا وثوق نہیں ہوتا ۔ یقینی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ آیت اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ کیونکہ اس سے کسی کو بھی انکار

۲۵۰

نہیں ہے کہ کلام مجید جمع کرتے وقت آیتوں کی وہی ترتیب نہیں رکھی گئی جس ترتیب سے وہ نازل ہوئیں۔ کلام مجید کا مطالعہ کیجیے۔ آپ کو بہت سی آیتیں ملیں گی جو نظم آیات سے کوئی رابطہ نہیں رکھتیں۔ ان آیات میں سے کچھ بیان کیا گیا ہے اور اس کی ماقبل کی آیات کا سلسلہ بیان کچھ اور ہے جیسے آیہ تطہیر ہی کو لیجیے جس کا پنجتن پاک کی شان میں نازل ہونا ثابت و مسلم ہے ، مخصوص ہے بس انھیں خمسہ نجباء سے لیکن ذیل میں واقع ہوئی ہے تذکرہ ازواج پیغمبر(ص) کے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اس آیہ انما سے ایسے معنی کا مراد و مقصود ہونا جو مفہوم سیاق کے مغائر ہے اس سے نہ تو کلام مجید کی شان اعجاز پر کوئی حرف آتا ہے اور نہ اس کی بلاغت میں کوئی کمی پیدا ہوتی ہے چونکہ قطعی دلیلیں موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ یہ انما ولیکم اﷲ سے مراد اولیٰ بالتصرف ہی ہے نہ کہ غیر ۔ لہذا کوئی چارہ کار ہی نہیں سوائے اس کے کہ اس آیت کو سیاق کے مخالف مفہوم پر حمل کیا جائے اور ولی سے مراد اولی بالتصرف لیا جائے نہ کہ دوست یا محب۔

                                                             ش

۲۵۱

مکتوب نمبر۲۳

مراد آیت میں تاویل ضروری ہے تاکہ سلف پر آنچ نہ آئے

اگر درمیان میں خلفائے راشدین کی خلافت نہ ہوتی جس کے صحیح ہونے پر ہم لوگ ایمان لائے بیٹھے ہیں تو ہماری بھی وہی رائے ہوتی جو  آپ کی رائے ہے اور آیت کے معنی وہی سمجھتے جو آپ سمجھتے ہیں۔ لیکن ان ہر بزرگواروں کی خلافت میں شک و شبہ کرنے کی گنجائش ہی نہیں لہذا بچنے کی صرف یہی صورت ہے کہ اس آیت کی ہم تاویل کردیں۔ تاکہ ہم ان خلفاء کو بھی صحیح و درست سمجھیں اور ان لوگوں کو بھی جنھوں نے بیعت کر کے ان کو خلیفہ تسلیم کیا۔

                                                                             س

۲۵۲

جوابِ مکتوب

سلف کا احترام مستلزم نہیں کہ آیت کے معنی میں تاویل کی جائے ۔ تاویل ہو بھی کیا جاسکتی ہے

خلافت خلفائے راشدین ہی کے متعلق تو بحث ہے۔ اسی پر تو گفتگو ہورہی ہے۔ لہذا ادلہ کے مقابلہ میں ان کی خلافت کو لانا کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔

دوسرے یہ کہ ان خلفاء کو اور ان کی بیعت کرنے والوں کو صحت و درستی پر سمجھنے کے لیے یہ کب ضروری ہے کہ آپ ادلہ میں تاویل کرنے لگیں آپ ان کو معذور سمجھ سکتے ہیں۔ اگر ضرورت ہوئی تو ہم آئندہ اس پر روشنی ڈالیں گے۔

ہم نے جن نصوص کا ذکر کیا ہے یا دیگر نصوص جن کے ذکر کی کوئی نوبت نہیں آئی ہے جیسے نص غدیر یا نصوص وصیت۔ آپ ان کی تاویل کر بھی کیا سکتے ہیں؟ خصوصا ان نصوص کو جب بے شمار ایسی احادیث بھی موئد ہوں جو بجائے خود نصوص صریحہ سے کم وزن نہیں رکھتیں۔

نصوص صریحہ کو الگ رکھیے صرف انھیں احادیث پر اگر انصاف سے کام لیتے ہوئے غور کیجیے تو صرف انھیں احادیث ہی کو آپ قطعی دلیلیں اور بین ثبوت پائیں گے۔ جنھیں سوا تسلیم کرنے کے کوئی چارہ کار نظر نہ آئے گا آپ کو۔

                                                                     ش

۲۵۳

مکتوب نمبر ۲۴

آپ نے جن احادیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ بھی نصوص کی موئد ہیں آپ ن ان کی تفصیل نہیں فرمائی۔ براہ کرم اس کی بھی تشریح فرمائیں۔

                                                                             س

۲۵۴

جوابِ مکتوب

ان نصوص کی موئد صرف چالیس حدیثین ہم اس مقام پر ذکر کرتے ہیں امید ہے کہ یہی آپ کے لیے کافی ہوں گی۔

۱ـ  سروکائنات(ص) نے حضرت علی(ع) کی گردن پر ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا :

 “ هذا إِمَامُ‏ الْبَرَرَةِ وَ قَاتِلُ الْفَجَرَةِ

۲۵۵

مَنْصُورٌ مَنْ نَصَرَهُ مَخْذُولٌ مَنْ خَذَلَهُ ”

“ یہ علی(ع) نیکو کاروں کے امام اور فاجروں کو قتل کرنے والے ہیں جس نے ان کی مدد کی وہ کامیاب ہوا اور جس نے ان کی مدد سے منہ موڑا اس کی بھی مدد نہ کی جائے گی۔”

یہ کہتے کہتے آپ کی آواز بلند ہوگئی۔”

امام حاکم اس حدیث کو مستدرک(۱) ج۲ صفحہ ۱۲۹ پر جناب جابر سے مروی احادیث کے ذیل میں درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

“ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن نخاری و مسلم نے درج نہیں کیا۔”

۲ـآنحضرت(ص) نے فرمایا :

“ أُوحِيَ إِلَيَّ فی عَلِي ثلاث سَيِّدُ المسلمين وَ إِمَامُ الْمُتَّقِينَ وَ قَائِدُ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ”

“ علی(ع) کے متعلق مجھے تین باتیں بذریعہ وحی بتائی

--------------

۱ـ کنزالعمال میں بھی یہ حدیث موجود ہے ملاحظہ ہو حدیث نمبر۲۵۲۷ صفحہ ۱۵۳ جلد ۶ ۔ نیز ثعلبی نے اپنی تفسیر کبیر میں بلسلہ تفسیر آیت ولایت جناب ابوذر کی حدیثوں کے سلسلہ میں اس حدیث کو لکھا ہے۔

۲۵۶

 گئی ہیں۔ علی(ع) مسلمانوں کے سردار ہیں، متقین کے امام ہیں اور روشن جبین نمازیوں کے  قائد ہیں۔”

اس حدیث کو امام حاکم مستدرک ج ۳ صفحہ ۱۳۸ پر درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

“ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری و مسلم نے ذکر نہیں کیا(۱) ۔”

۳ـ علی(ع) کے متعلق مجھے بذریعہ وحی بتایا گیا کہ وہ مسلمانوں کے سردار ، متقین کے ولی اور روشن پیشانی والوں کے قائد ہیں۔”(۲)

اس حدیث کو ابن نجار اور بہت سے ارباب سنن نے ذکر کیا ہے۔

۴ـ آںحضرت(ص) نے علی(ع) سے فرمایا :

 “ مَرْحَباً بِسَيِّدِ الْمُسْلِمِينَ‏ وَ إِمَامِ الْمُتَّقِينَ ”

اس حدیث کو حلیتہ الاولیاء میں ابن نعیم نے درج کیا ہے۔(۳)

--------------

۱ـبارودی ، ابن قانع ، ابونعیم نے اس حدیث کو درج کیا ہے۔ کنزالعمال جلد۶ صفحہ ۱۵۱ پر بھی موجود ہے۔ حدیث ۲۶۲۸ ملاحظہ ہو۔

۲ـکنزالعمال جلد۶ صفحہ۱۵۷ حدیث ۲۶۳۔

۳ـ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ ج ۲ صفحہ ۴۵۰ پر اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔ کنز العمال میں بھی یہ حدیث موجود ہے ملاحظہ ہو حدیث ۲۶۲۷ کنزالعمال جلد۶ صفحہ ۱۵۷۔

۲۵۷

“ اول من يدخل من هذا الباب  إمام المتّقين، وسيد المسلمين، و يعسوب الدين و خاتم الوصيين وقائد الغُرّ المحجَّلين ”

“ پہلا وہ شخص جو اس دروازے سے داخل ہوگا وہ متقین کا امام ۔ مسلمین کا سردار، اور دین کا امیراور وصییوں کا خاتم اور رشن پیشانی والوں کا قائد ہے۔”

سب سے پہلے حضرت علی(ع) آئے رسول(ص) نے دیکھا ۔ تو آپ کا چہرہ کھل گیا۔ دوڑ کر علی(ع) کو گلے سے لگا لیا اور آپ کی پیشانی کا پسینہ پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے :

“ تم میری طرف سے حقوق ادا کرو گے، تم میرا پیام لوگوں تک پہنچاؤ گے اور میرے بعد جب اختلافات پیدا ہوں گے تو تم ہی راہ حق واضح کرو گے۔”(۱)

 “إن اللّه عهد إلى في علي أنّه راية الهدى‏ و إمام أوليائي و نور من أطاعني و هو الكلمة التي ألزمتها المتقين”

--------------

۱ـ حلیتہ الاولیاء ابونعیم اصفہانی و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد۲ صفحہ ۴۵۰

۲۵۸

“ علی(ع) کے متعلق مجھے خداوند عالم نے جتادیا ہے کہ وہ علم ہدایت ہیں، میرے دوستوں کے امام ہیں اور میری اطاعت کرنے والوں کے لیے نور ہیں علی(ع) ہی وہ کلمہ ہیں جسے میں نے متقین کے لیے لازم کر دیا ہے۔”(۱)

آپ دیکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا حدیثوں حضرت علی(ع) کی امامت کے متعلق کتنی صاف اور صریحی نصوص ہیں آپ کی اطاعت و فرمانبرداری واجب و لازم ہونے کے روشن ثبوت ہیں۔

۷ـ“إِنَّ هَذَا أَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِي وَ هَذَا أَوَّلُ مَنْ يُصَافِحُنِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ هَذَا الصَّدِّيُقِ الْأَكْبَرُ، وَ هَذَا فَارُوقُ هَذِهِ الْأُمَّةِ يُفَرِّقُ بَيْنَ الْحَقِّ وَ الْبَاطِلِ وَ هَذَا يَعْسُوبُ‏ الْمُؤْمِنِين

“یہ علی(ع) پہلے وہ شخص ہیں جو مجھ پر ایمان لائے ۔ قیامت کے دن سب سے پہلے یہی مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ یہی صدیق اکبر ہیں، یہی اس امت کے فاروق ہیں جو حق کو باطل سے جدا کریں گے۔ یہی مومنین کے سردار ہیں۔”(۲)

--------------

۱ـ حلیتہ الاولیاء ابونعیم اصفہانی و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد۲ صفحہ ۴۴۹۔

۲ـ معجم کبیر طبرانی سنن بیہقی کامل، ابن عدی و کنز العمال جلد۶ صفحہ ۱۵۶ حدیث۲۶۰۸۔

۲۵۹

۸ـ “يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَ لَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَداً قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ هَذَا عَلِيٌ‏ فَأَحِبُّوهُ‏ بِحُبِّي وَ أَكْرِمُوهُ بِكَرَامَتِي فَإِنَّ جَبْرَئِيلَ ع أَمَرَنِي بِالَّذِي قُلْتُ لَكُمْ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَ عَلَا.”

“ اے گروہ اںصار میں تمھیں ایسی چیز نہ بتادوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو۔ دیکھو یہی علی(ع) وہ ہیں تم مجھے جس طرح محبوب رکھتے ہو انھیں بھی محبوب رکھنا، میری جیسی عزت کرتے ہو ان کی بھی عزت کرنا یہ بات میں اپنے دل سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ امین وحی جبرئیل(ع) خدا کی طرف سے یہ حکم لے کر ؤئے ہیں۔”(۱)

--------------

۱ـ معجم کبیر طبرانی ، کنزالعمال جلد۶ صفحہ ۱۵۷ حدیث ۲۶۲۵ علامہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد۲ صفحہ ۴۵۰ پر درج کیا ہےملاحظہ فرمائیے کہ پیغمبر(ص) نے ان کے گمراہ ہونے کو شرط کیا ہے علی(ع) کے تمسک سے ۔ جب تک علی (ع) کا دامن پکڑے رہیں گے تب تک گمراہ نہ ہوں گے۔ اس کا صریحی مطلب یہ ہوا کہ جس نے علی(ع) سے تمسک نہ کیا وہ ضرور گمراہ ہوگا۔ نیز یہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ پیغمبر(ص) حکم دیتے ہیں کہ علی(ع) کے ساتھ بعینہ ویسی محبت کرو جیسی خود میرے ساتھ کرتے ہو اور ویسی ہی عزت کرو  جیسی میری عزت کرتے ہو۔ یہ بات اس شخص کے لیے ہوسکتی ہے جو آپ(ص) کا ولیعہد ہو اور آپ کے بعد مالک و مختار اور فرمانبروا ہو ۔ جب آپ آںحضرت(ص) کے اس جملہ پر کہ “ میں نے جو کچھ کہا ہے اس کا حکم جبرئیل خدا کے یہاں سے لے کر آئے تھے۔” خود غور فرمائیں گے تو حقیقت اچھی طرح منکشف ہوجائے گی۔

۲۶۰

“‏ أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ‏ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا- فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ”

“ میں شہر علم ہوں، علی(ع) اس کا دروازہ ہیں، جو شخص علم حاصل کرنا چاہیے وہ دروازے سے آئے۔”(1)

--------------

1ـ طبرانی نے کبیر میں ابن عباس سے اس حدیث کی روایت کی ہے، جیسا کہ سیوطی کی جامع صغیر صفحہ 107 پر مذکور ہے اور امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 227 پر باب مناقب علی(ع) میں دو صحیح سندوں سے اس حدیث کی روایت کی ہے ایک عبدا ﷲ بن عباس سے جو دو صحیح طریقوں سے ہے دوسری جابر بن عبداﷲ انصاری سے ۔ اس کے طریق کی صحت پر انھوں نے قطعی دلیلیں قائم کی کی ہیں۔ امام احمد بن صدیق مغربی وارد قاہر نے ایک مستقل عظیم الشان کتاب خاص کر اس حدیث کی صحت ثابت کرنے کے لیے تحریر فرمائی ہے۔ کتاب کا نام فتح الملک العلی بصحت حدیث ثابت مدینہ العلم علی ہے۔ یہ کتاب 1345ھ میں مطبع الاسلامیہ مصر میں طبع ہوچکی ہے۔ تشگان علوم کو چاہیے کہ اس کتاب کو ضرور ملاحظہ فرمائیں کہ علوم کثیرہ پر مشتمل ہے ناصبی حضرات اس مشہور ومعروف حدیث کو متعلق جوہر خاص و عام کے ورد زبان ہے، ہر شہری و دیہاتی اس کا جانتا ہے جو بکواس کرتے ہیں اس کا کوئی وزن نہیں ہے۔ ہم نے ان کے اعتراضات کے غائر نظر سے دیکھا سوا زبردستی اور کٹھ حجتی ہمیں اور کوئی بات نظر نہ آئی سوائے اس کے کہ انھوں نے رکیک اعتراضات کر کے تعصب کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک دلیل بھی تو ٹھکانے کی نہیں ذکر کی۔ جیسا کہ حافظ صلاح الدین علائی نے علامہ ذہبی وغیرہ کے قول در بطلان حدیث ان مدینہ العلم کو نقل کرنے کے بعد تصریح کی ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے ایک بات بھی درست نہیں پیش کی جو قادح ہو اس حدیث کی صحت میں سوا وضعیت کے دعوی کے۔

۲۶۱

10ـ “أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا.”

“ میں حکمت  کا گھر ہوں، علی(ع) اس کا دروازہ ہیں۔”(1)

11ـ“‏ عَلِيٌّ بَابُ‏ عِلْمِي‏ وَ مُبَيِّنٌ لِأُمَّتِي مِنْ بَعْدِي مَا أُرْسِلْتُ بِهِ حُبُّهُ إِيمَانٌ وَ بُغْضُهُ نِفَاقٌ ”

“  علی(ع) میرے علم کا دروازہ ہیں اور میں جن چیزوں کو لے کر مبعوث ہوا، میرے بعد یہی ان چیزوں کو میری امت سے بیان کریں گے۔ ان کی محبت ایمان اور ان کا بغض نفاق ہے۔”(2)

--------------

1ـ اس حدیث کو امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی میں درج کیا ہے نیز ابن جریر نے بھی لکھا ہے اور ترمذی و ابن جریر، بہتر علمائے اعلام نے نقل کیا ہے مثلا علامہ متقی ہندی ملاحظہ ہو کنز العمال جلد6 صفحہ 401 نیز علامہ متقی لکھتے ہیں کہ ابن جریر نے کہا ہے کہ اس حدیث کو اسناد ہمارے یہاں صحیح ہیں اور ترمذی سے جلال الدین سیوطی نے جامع الجوامع صغیر کے حرف ہمزہ میں نقل کیا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے جامع صغیر صفحہ170 جلد اول۔

2ـ دیلمی نے جناب ابوذر سے اس کی روایت کی ہے جیسا کہ کنزالعمال جلد6 صفحہ 156 پر ہے۔

۲۶۲

12ـ “أَنْتَ‏ تُبَيِّنُ‏ لِأُمَّتِي مَا اخْتَلَفُوا فِيهِ بَعْدِي.”

“ اے علی(ع) میرے بعد جب میری امت اختلاف میں مبتلا ہوگی تو تم ہی راہ حق واضح کرو گے۔”

اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک(1) ج3 صفحہ 122 پر درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ :

“ یہ حدیث مسلم و بخاری دونوں کےبنائے ہوئے معیار پر صحیح ہے لیکن ان دونوں نے ذکر نہیں کیا۔”

ان احادیث پر غور کرنے کے بعد یہ حقیقت باکل واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت علی(ع) کی رسول(ص) کے نزدیک وہی منزلت جو خود رسول(ص) کی خدا کے نزدیک تھی۔ جو بات قدرت نے رسول(ص) کے متعلق فرمائی بعینہ ویسی بات رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کے متعلق۔ قدرت کا ارشاد ہوا :

 “وَ ما أَنْزَلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فيهِ وَ هُدىً وَ رَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ”(النحل، 64  )

“ میں نے تم پر جو کتاب نازل کی وہ صرف اس لیے کہ لوگ جس مسئلہ میں اختلاف کریں تم راہِ حق واضح کر دو گے اور یہ کلام مجید وجہ

--------------

1ـ دیلمی میں انس سے روایت کی ہے جیسا کہ کنزالعمال جلد6 صفحہ 156 پر مذکور ہے۔

۲۶۳

ہدایت اور رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لیے۔”

اور رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کے متعلق فرمایا :

“ تم میری امت کے اختلاف میں مبتلا ہونے کے وقت راہِ حق واضح کرو گے۔”

13ـ ابن سماک نے حضرت ابوبکر سے مرفوعا روایت کی ہے :

علي مني بمنزلتي‏ من‏ ربي‏

“ علی(ع) کو مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو مجھے خدا کی بارگاہ میں حاصل ہے۔”(1)

14ـ دار قطنی نے افراد میں ابن عباس سے مرفوعا روایت کی ہے :

علِی بن ابِی طالِب بَابِ‏ حِطَّةٍ مَنْ دَخَلَ من ه كَانَ مُؤْمِناً وَ مَنْ خَرَجَ مِنْهُ كَانَ كَافِراً

“ علی(ع) باب حطہ ہیں، جو اس باب میں داخل ہوا وہ مومن ہے اور جو نکل گیا وہ کافر ہے۔”(2)

15ـ آںحضرت(ص) نے حج آخری میں مقامِ عرفات پر فرمایا :

 “عَلِيٌ‏ مِنِّي‏ وَ أَنَا من عليّ ، ولَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ.”

“ علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں۔ اور

--------------

1ـ صواعق محرقہ ، باب 11، صفحہ106۔

2ـ کنزالعمال ج6 صفحہ 153 حدیث 2528۔

۲۶۴

 کار رسالت کی ادائیگی یا تو میں کروں گا یا علی(ع)۔”(1)

یہ قول معزز پیغامبر(ص) کا جو قوت والا ہے خدا کے نزدیک جسے منزلت حاصل ہے۔

--------------

1ـ ابن ماجہ نے سنن ابن ماجہ صفحہ92 جلد اول باب فضائل الصحابہ میں اس کی روایت کی ہے۔ ترمذی اور نسائی نے اپنی صحیح میں نیز کنزالعمال جلد6 صفحہ153 حدیث 2530 ۔ امام احمد نے مسند جلد4 صفحہ 164 پر حبشی بن جنادہ کی حدیث سے متعدد طریقوں سے اس حدیث کی روایت کی ہے اور سب کے سب طریقے صحیح ہیں۔ مختصرا یہ سمجھ لیجیے کہ انھوں نے اس حدیث کو یحی بن آدم سے انھوں نے اسرائیل بن یونس سے انھوں نے اپنے دادا ابو اسحق سبیعی سے انھوں نے  نے حبشی سے روایت کیا ہے اور یہ کل کے کل بخاری و مسلم کے نزدیک حجت ہیں اور ان دوںوں نے ان سب سے اپنے اپنے صحیح استدلال کیا ہے ۔ مسند احمد میں اس حدیث کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث آںحضرت(ص) سے حجة الوداع کے موقع پر ارشاد فرمائی جس کے بعدآپ اس دار فانی میں بہت تھوڑے دنوں زندہ رہے۔ اس کے قبل آپ نے ابوبکر کو سورہ برائت کی دس آیتیں دے کر بھیجا تھا کہ وہ اہل مکہ کو جاکر پڑھ کر سنا دیں۔ پھر آپ نے حضرت علی(ع) کو بلایا ( جیسا کہ امام احمد نے مسند جلد اول صفحہ 151 پر روایات کی ہے) اور فرمایا کہ جلد جاکر ابوبکر سے ملو جہاں بھی ان سے ملاقات ہو ان سے نوشتہ لے لو اور خود لے کر اہل مکہ کی طرف جاؤ اور پڑھ کر سناؤ۔ حضرت علی(ع) مقام جحفہ پر ان سے ملے اور ان سے وہ نوشتہ لے لیا اور حضرت ابوبکر رسول(ص) کی خدمت میں پلٹ آئے اور آکر کہا کہ یا رسول اﷲ(ص) کیا میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ نہیں۔ لیکن جبرئیل آئے اور انھوں نے کہا کہ تم اپنی طرف سے اپنے امور کی انجام دہی یا تو خود کرو یا وہ جو تم سے ہو اور دوسری حدیث میں ہے ( جسے امام احمد نے مسند ج اول صفحہ150 پر امیرالمومنین(ع) سے روایت کیا ہے) کہ رسول اﷲ(ص) نے جب حضرت علی(ع) کو سورة برائت پہنچانے کے لیے روانہ کیا تو فرمایا کہ اے علی(ع) کوئی چارہ کار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل کو ہدایت بخشے گا

۲۶۵

خدا را آپ ہی فرمائیں ان احادیث سے کون سی راہ فرار آپ نکال سکتے ہیں۔ ایسے صحیح احادیث اور صریحی ںصوص کے مقابل مین آپ کیا فرماسکیں گے ۔ اگر آپ اس وقت کا تصور فرمائیں اور حکیمِ اسلام کی اس گہری حکمت کو سوچیں کہ آپ ایسے موقع پر یعنی فریضہ حج بجالاتے ہوئے مقامِ عرفات پر لاکھوں مسلمانوں کے ہجوم میں یہ اعلان فرماتے ہیں تو آپ پر حقیقت اچھی طرح روشن ہوجائے۔ رسول(ص) کے الفاظ دیکھیے کتنے مختصر ہیں لیکن یہ مختصر الفاظ کتنے جلیل القدر معانی و مطالب کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں چند الفاظ میں آپ نے مطالب کے دفتر سمودیے : “و لَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ

 “ میرے فرائض رسالت کی ادائیگی کسی سے ممکن نہیں سوا میرے یا علی(ع) کے ۔”
۲۶۶

اس جملہ کے بعد اب کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی ۔ سوا علی(ع) کے کسی شخص کے لیے اس بات کی اہلیت اور صلاحیت ہی نہیں نکلتی کہ وہ کارِ رسالت سے کسی چیز کی ادائیگی کرسکے، فریضہ تبلیغ میں رسول(ص) کا ہاتھ بٹاسکے اور ہو بھی کیسے سکتا ہے ۔ علی(ع) کے سوا کسی اور میں گنجائش نکل بھی کیسے سکتی ہے اس لیے کہ نبی کے امور یا تو خود نبی سے انجام پاتے ہیں یا پھر اس کے وصی کے ذریعہ انجام پائیں گے۔ نبی کا قائم نبی کا جانشین اور ولیعہد ہی ہوسکتا ہے۔

16ـ  “ من‏ أطاعني‏ فقد أطاع اللّه عزّ و جلّ، و من عصاني فقد عصى اللّه، و من أطاع عليّا فقد أطاعني، و من عصى عليّا فقد عصاني”

“ جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی ۔ جس نے علی(ع) کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔”

اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 121 پر درج کیا ہے اور علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں ذکر کیا اور ان دونوں نے تصریح کی ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم دونوں کے معیار پر صحیح ہے۔

17ـ  “ يا علی مَنْ فَارَقَنِي‏ فَقَدْ فَارَقَ اللَّهَ

۲۶۷

وَ مَنْ فَارَقَکَ فَقَدْ فَارَقَنِي‏

“ اے علی(ع)! جو مجھ سے برگشتہ ہوا وہ خدا سے برگشتہ ہوا اور جو تم سے برگشتہ ہوا وہ مجھ سے برگشتہ ہوا۔”

اس حدیث کو امام حاکم مستدرک ج3 صفحہ 124 پر درج کر کے لکھتے ہیں کہ :

“ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری و مسلم نے اسے ذکر نہیں کیا ہے۔”

18ـ ام سلمہ(رض) کی حدیث میں ہے:

“وَ مَنْ‏ سَبَ‏ عَلِيّاً ع فَقَدْ سَبَّنِي.”

“ جس نے علی(ع) کو دشنام دی اس نے مجھے دشنام دی۔”

حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 121 پر اسے درج کیا اور مسلم و بخاری دونوں کے معیار پر صحیح قرار دیا ہے۔ علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں اس کی صحت کی صراحت کرتے ہوئے درج کیا ہے۔ نیز امام احمد نے ام سلمہ سے یہ حدیث مسند ج6 صفحہ 323 پر اور نسائی نے خصائص علویہ صفحہ17 پر نقل کیا ہے۔ نیز دیگر اجلہ علماء محدیثین نے اس کی روایت کی ہے اسی جیسا رسول کاوہ قول بھی ہے جو عمرو بن شاس(1) کی حدیث میں منقول ہے :

مَنْ‏ آذَى‏ عَلِيّاً فَقَدْ آذَانِي

--------------

1ـ عمرو بن شاس کی حدیث صفحہ 247 کے حاشیہ پر گزر چکی ہے۔

۲۶۸

“ جس علی(ع) کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ۔”

19ـ “مَنْ‏ أَحَبَ‏ عَلِيّاً فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَ مَنْ أَبْغَضَ عَلِيّاً فَقَدْ أَبْغَضَنِي

“ جس نے علی(ع) کو محبوب رکھا اس نے مجھے محبوب رکھا اور جس نے علی(ع) سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔”

امام حاکم نے اس حدیث کو مستدرک ج3 صفحہ 130 پر درج کیا اور بشرائط شیخین اسے صحیح قرار دیا ہے۔ نیز علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں مذکورہ بالا معیار پر اس کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے درج کیا ہے۔اسی جیسا خود حضرت علی(ع) کا قول(1)   ہے۔ آپ فرماتے تھے :

 “ قسم ہے اس ذات کی جس نے زمین سے دانہ کو روئیدہ کیا اور ہو چلائی۔ رسول(ص) مجھ سے قول و قرار فرماچکے ہیں کہ مجھے وہی دوست رکھے گا جو

--------------

1ـ صحیح مسلم کتاب ایمان صفحہ 46 جلد اول ابن عبدالبر نے استعیاب میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) اس حدیث کے مضمون کو صحابہ کی ایک جماعت سے روایت کیا ہے م18 پر بریدہ کی حدیث درج کی جاچکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ۔ آںحضرت کا یہ قول حد تواتر کو پہنچ چکا ہے “ اللہم وآل من والاہ و عاد من عاداہ “ جیسا کہ صاحب فتاوی حامدیہ نے انے رسالہ موسومہ بہ صلوة الفاخرہ فی الاحادیث المتواترہ میں اعتراف کیا ہے۔

۲۶۹

 مومن ہوگا، وہی دشمن رکھے گا جو منافق ہوگا۔”

20ـ “  يا عَلِيِّ أَنْتَ‏ سَيِّدٌ فِي‏ الدُّنْيَا وَ سَيِّدٌ فِي الْآخِرَةِ حبيبک َحبِيبِي وَ حَبِيبِي حَبِيبُ اللَّهِ وَ عَدُوُّكَ عَدُوِّي وَ عَدُوِّي عَدُوُّ اللَّهِ وَالويْل لِمَنْ أَبْغَضَكَ مِنْ بَعْدِي.”

“ تم دنیا میں بھی سید و سردار ہو اور آخرت میں بھی، تمھیں دوست رکھنے والا مجھے دوست رکھنے والا ہے اور مجھے دوست رکھنے والا خدا کو دوست رکھنے والا ہے، اور تمھارا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن خدا کا دشمن ہے۔ ہلاکت و تباہی نصیب ہو اسے جو میرے بعد تم سے بغض رکھے۔”

اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 128 پر درج کیا ہے اور بشرائط شیخین صحیح قرار دیا ہے۔(1)

--------------

1ـ  امام حاکم نے اس حدیث کو بطریق ازہر عبدالرزاق سے انھوں نے زہری سے انھوں نے عبیداﷲ بن عبداﷲ  سے انھوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔ سب کے سب اشخاص حجت ہیں۔ اسی وجہ سے امام حاکم  نے اس حدیث کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام حاکم فرماتے ہیں کہ میں نے ابو عبداﷲ قرشی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے احمد بن یحی حلوانی سے سنا وہ کہتے تھے کہ جب ابو الازہر صنعا سے آئے اور اہل بغداد سے اس حدیث کا ذکر کیا تو یحی بن معین نے اس کا انکار کیا ۔ جب ان کے نشست کا دن  ہوا تو انھوں نے صحبت میں کہا کہ وہ کذاب نیشاپوری کہاں ہے جو عبدالرزاق سے اس حدیث کو بیان کرتا ہے۔ یہ سن کر ابو الازہر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ وہ میں ہوں ان کے اٹھنے اور یہ کہنے پر یحی بن معین ہنس پڑے ۔ پھر ان کو اپنے قریب بلایا اور اپنے سے نزدیک کیا۔ پھر ابو الازہر سے پوچھا کہ عبدالرزاق نے تم سے یہ حدیث کیونکر بیان کی حالانکہ تمھارے سوا کسی اور سے انھوں نے یہ حدیث نہیں بیان کی۔ ابوالازہر بولے سنیے میں صنعا میں پہنچا معلوم ہوا کہ عبدالرزاق موجود نہیں وہ ایک دور کے قریہ میں فروکش ہیں۔ میں ان کے پاس پہنچا میں بیمار بھی تھا۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو انھوں نے مجھ سے خراسان کی بابت دریافت کیا میں نے حالات بیان کیے ان سے حدیثیں لکھیں ۔ پھر ان کے ساتھ صنعاء واپس ہوا۔جب میں رخصت ہونے لگا تو عبدالرزاق نے کہا کہ تمھارا حق مجھ پر واجب ہے۔ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جس کو تمھارے سوا کسی اور نے مجھ سے نہیں سنا یہ کہہ کر انھوں نے قسم بخدا یہ حدیث بیان فرمائی۔ یہ سن کر یحی ابن معین نے ان کی تصدیق کی اور پھر معافی چاہی ، معذرت کی۔ علامہ ذہبی نے تلخیص میں اس حدیث کے رواة کے ثقہ ہونے کا اعتراف کیا ہے اور ابو الازہر کے ثقہ ہونے کی خاص کر صراحت کی ہے اور پھر باوجود ان سب باتوں کے انھوں نے اس حدیث کی صحت میں شک کیا مگر سوائے ہٹ دھرمی اور کٹھ حجتی کے کوئی ایسی بات نہیں پیش کی جو اس حدیث میں قادح ہو۔ رہ گیا یہ کہ عبدالرزاق اس حدیث کو کیوں چھپاتے تھے اس کی وجہ ظاہر ہے انھوں نے ظالمین کے سطوت و قہرو غلبہ کے خوف سے ایسا کیا جیسا کہ سعید بن جبیر نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ تم بڑے بے خوف و بے پروا معلوم ہوتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔درج نہیں کیا ہے

۲۷۰

21ـ “يا علي‏ طوبى‏ لمن أحبك و صدق عليك، و ويل لمن أبغضك و كذب عليك.”

“اے علی(ع) بشارت جنت ہو اسے جو تمہیں دوست رکھے اور تمہارے معاملہ میں سچائی برتے اور ہلاکت ہو اسے جو تمہیں دشمن رکھے اور تمھارے متعلق جھوٹ بولے۔”
۲۷۱

امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 135 پر درج کیا ہے اور درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ :

“ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری و مسلم نے درج نہیں کیا ۔”

22ـ“‏ مَنْ أَراد أَنْ يَحْيَا حَيَاتِي‏ وَ يَمُوتَ مَمَاتِي وَ يَسکن جَنَّةَ الخلد الَّتِي

۲۷۲

 وَعَدَنِي رَبِّي فَلْيَتَوَلَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ع فَإِنَّهُ لَا يُخْرِجُكُمْ مِنَ ْهُدَى وَ لَا يُدْخِلُكُمْ فِي ضَلَالَةٍ.”

“ جو شخص میری زنگی جینا اور میری موت مرنا اور سدابہار باغِ جنت میں جس کا خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے رہنا چاہتا ہو وہ علی(ع) کو دوست رکھے کیونکہ علی(ع) تم کو راہ ہدایت سے کبھی الگ نہ کریں گے اور نہ گمراہی میں کبھی ڈالیں گے۔”(1)

23ـ “أوصي من آمن بي و صدّقني بولاية عليّ ابن ابی طالب، فمن‏ تولّاه‏ فقد تولّاني، و من تولّاني فقد تولّى اللّه، و من أحبّه فقد أحبّني، و من أحبّني فقد أحبّ اللّه، و من أبغضه فقد أبغضني و من أبغضني فقد أبغض اللّه عز وجل.”

“میں وصیت کرتا ہوں ہر اس شخص کو جومجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی کہ علی(ع) کا تابع فرمان رہے جس نے علی(ع) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی ۔ اور جس نے علی(ع) کو

--------------

1ـ دیکھیے یہی کتاب صفحہ72، 75۔

۲۷۳

دوست رکھا اس نے مجھے دوست رکھا اور جس نے مجھے دوست رکھا اس نے خدا کو دوست رکھا اور جس نے علی(ع) سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے خدا سے بغض رکھا۔”(1)

24ـ“‏مَنْ سَرَّهُ ان يَحْيَى حياتى، وَ يَمُوتَ مماتى وَ يَسْكُنَ جُنَّةَ عَدْنٍ غَرَسَهَا ربى فَلْيُوَالِ عَلِيّاً مِنْ بعدى، وَ لْيُوَالِ‏ وَلِيَّهُ‏، وَ لْيَقْتَدِ بالائمة مِنْ بعدى، فانهم عترتى خُلِقُوا مِنْ طينتى رُزِقُوا فَهْماً وَ عِلْماً، وَ وَيْلٌ لِلْمُكَذِّبِينَ بفضلهم مِنْ امتى الْقَاطِعِينَ فِيهِمْ صلتى لَا انالَهُمُ اللَّهُ شفاعتى.

“ جسے یہ خوشگوار معلوم ہو کہ میری زندگی جیے اور میری موت مرے اور باغ عدن میں رہے وہ میرے بعد علی(ع) کو اپنا امیر سمجھے اور علی(ع) کے بعد ان کے جانشین کی اطاعت کرے اور میرے بعد میرے اہل بیت(ع) کی پیروی اختیار کرے کیونکہ

--------------

1ـ دیکھیے یہی کتاب صفحہ 76۔

۲۷۴

میرے اہل بیت(ع) میری عترت ہیں، میری طینت سے پیدا ہوئے ہیں، انھیں میرا ہی فہم و علم بخشا گیا، پس ہلاکت ہو میری امت کے ان لوگوں کے لیے جو میری اہل بیت (ص) کے فضل و شرف کو جھٹلائیں اور میری قرابت کا خیال نہ کریں۔ خدا ان کو میری شفاعت سے محروم رکھے۔”

25ـ “مَنْ‏ أَحَبَ‏ أَنْ‏ يَحْيَا حَيَاتِي‏ وَ يَمُوتَ مِيتَتِي وَ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ الَّتِي وَعَدَنِي رَبِّي، وَ هِيَ جَنَّةُ الْخُلْدِ قَضِيباً غَرَسَهُ بِيَدِهِ، فَلْيَتَوَلَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَ ذُرِّيَّتَهُ مِنْ بَعْدِهِ فَإِنَّهُمْ لَنْ يُخْرِجُوهُمْ مِنْ بَابِ هُدًى وَ لَنْ يُدْخِلُوهَا فِي بَابِ ضَلَالَةٍ.”

“جسے یہ پسندیدہ ہو کہ میری زندگی جیے اور میری موت مرے اور اس جنت میں داخل ہو جس کا میرے
پروردگار نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے اور جنت خلد ہے پس وہ علی(ع) اور علی(ع) کے بعد ان کی ذریت کی اطاعت و فرمانبرداری کرے کیونکہ وہ تمہیں راہ راست سے کبھی علیحدہ نہ کریں گے اور نہ گمراہی میں کبھی ڈالیں گے۔ (1)

--------------

1ـ دیکھیے صفحہ 74۔

۲۷۵

26ـ “يَا عَمَّارُ إِذَا رَأَيْتَ‏ عَلِيّاً سَلَكَ وَادِياً وَ سَلَكَ النَّاسُ وَادِياً غَيْرَهُ فَاسْلُكْ مَعَ عَلِيٍّ وَ دَعِ النَّاسَ فَإِنَّهُ لَنْ يَدُلَّكَ عَلَى رَدًى وَ لَنْ يُخْرِجَكَ مِنْ هُدًى

“ اے عمار ! جب تم علی(ع) کو دیکھنا کہ وہ اور کسی راستہ پر جارہے ہیں اور لوگ کسی اور راستہ پر چل رہے ہیں تو تم اسی راستہ کو اختیار کرنا جس پر علی(ع) ہیں۔ وہ تمھیں کبھی ہلاکت میں نہ ڈالیں گے نہ راہ راست سے جدا کریں گے۔”(1)

27ـ “كَفِّي‏ وَ كَفُ‏ عَلِيٍّ فِي الْعَدْلِ سَوَاءٌ.

“ میرا ہاتھ اور علی(ع) کا ہاتھ عدل میں برابر ہے۔”(2)

28ـ“يا فاطم ه أما ترضين‏ أنّ اللّه اطّلع إلى أهل الأرض فاختار رجلين، أحدهما أبوك، و الآخر بعلك.”

“ اے میری پارہ جگر فاطمہ(س) کیا تم اس سے خوش

--------------

1ـ دیلمی نے عمار و ابو ایوب سے اس کی روایت کی ہے۔ جیسا کہ کنزالعمال جلد6 صفحہ156 پر مذکور ہے۔

2ـ کنزالعمال جلد6 صفحہ 153 حدیث 2539۔

۲۷۶

نہیں ہو کہ خداوند عالم نے روئے زمین کے باشندوں پر ایک نظر کی تو دو شخص منتخب کیے ایک تمھارا باپ دوسرا تمھارا شوہر۔”(1)

29ـ “أَنَا الْمُنْذِرُ وَ عَلِيٌّ الْهَادِي يَا عَلِيُّ بِكَ يَهْتَدِي الْمُهْتَدُونَ مِنْ بَعْدِي.”

“ میں منذر ڈرانے والا ہوں اور علی(ع) ہادی ہیں ۔ اے علی(ع) تمھارے ہی ذریعہ میرے بعد ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے۔”(2)

30ـ“  يا على‏ لا يحلّ‏ لاحد يجنب في هذا المسجد غيرى و غيرك. ”

“ اے علی(ع) ! میرے اور تمھارے سوا کسی اور تیسرے کے لیے جائز نہیں کہ وہ مسجد میں بحالت جنابت ہو۔”(3)

اسی جیسی طبرانی کی حدیث ام سلمہ(رض) سے اور بزار(4) سے منقول ہے۔ انھوں نے سعد سے روایت کی ہے۔ سعد

--------------

1ـ مستدرک ج3 صفحہ129 اور بھی بکثرت اصحاب سنن نے اس حدیث کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔

2ـ دیلمی نے ابن عباس کی حدیثوں میں اس کو لکھا ہے ۔ کنزالعمال جلد6 صفحہ 150 پر بھی موجود ہے ۔ ملاحظہ ہو حدیث 2631۔

3ـ دیکھیے م 17 وہاں ہم نے اس حدیث پر جو حاشیہ لکھا ہے اسے ضرور ملاحظہ فرمائیں اور اس موقع پر جو حدیثیں ذکر کی ہیں ان پر بھی غائر نگاہ ڈالیں۔

4ـ ابن حجر نے صواعق محرقہ میں اس حدیث کو لکھا ہے ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب 9۔

۲۷۷

کہتے ہیں کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا :

“لا يحل‏ لأحد أن يجنب في هذا المسجد إلّا أنا و عليّ .”

“ کسی شخص کے لیے بھی جائز نہیں کہ مسجد مین بحالتِ جنابت ہو سوا میرے اور علی(ع) کے۔

31ـ“أَنَا وَ هَذَا يعنی عليا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَى أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ.”

میں اور یہ ، یعنی علی(ع) قیامت کے دن میری امت پر حجت ہوں گے۔”

خطیب نے انس کی حدیث(1) سے اس کو نقل کیا ہے۔ قابل غور یہ ہے کہ امیرالمومنین(ع) نبی کی طرح کیونکر حجت تھے۔

آپ کا بعینہ نبی کی طرح حجت ہونا تو اسی وقت صحیح ہوسکتا ہے جبکہ آپ رسول(ص) کے ولی عہد ہوں اور آپ کے بعد امور کے مالک و مختار ہوں۔

32ـ “مكتوب‏ على‏ باب‏ الجنّة: لا إله إلّا اللّه، محمّد رسول اللّه، عليّ أخو رسول اللّه ”

“ جنت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے۔ معبود حقیقی بس اﷲ ہی ہے اور محمد مصفطی(ص) خدا کے

--------------

1ـ کنزالعمال حدیث 2632 جلد6 صفحہ 157۔

۲۷۸

 رسول(ص) ہیں اور علی(ع) رسول(ص) کے بھائی ہیں۔”(1)

33ـ “مكتوب‏ على‏ ساق‏ العرش‏:  لا إله الّا اللّه محمّد رسول اللّه أيّدته بعليّ و نصرته بعلی.”

“ ساق العرش پر لکھا ہوا ہے : معبود حقیقی بس اﷲ ہی ہے اور محمد مصطفی(ص) خدا کے رسول ہیں جن کو علی(ع) کے ذریعہ تقویت بخشی اور علی(ع) سے جن کی مدد کی ۔”(2)

24ـ “من‏ أراد أن‏ ينظر إلى‏ نوح‏ في عزمه و إلى آدم في علمه و إلى إبراهيم في حلمه و إلى موسى في فطنته و إلى عيسى في زهده فلينظر إلى علي بن أبي طالب‏

“ جو شخص یہ چاہے کہ نوح(ع) کو ان کے محکم ارادہ میں، آدم(ع) کو ان کے علم میں، ابراہیم(ع) کو ان کے حلم میں ، موسیٰ(ع) کو ان کی تیزی ذہانت میں، عیسیٰ(ع)

--------------

1ـ طبرانی نے واسطہ میں، خطیب نے المتفق میں درج کیا ہے جیسا کہ کنزالعمال جلد6 صفحہ 159 پر مذکورہ ہے ہم اسے صفحہ 233 پر ذکر کرچکے اور ایک مفید حاشیہ بھی تحریر کیا ہے۔

2ـ طبرانی نے کبیر میں اور ابن عساکر نے ابوالحمراء سے مرفوعا اس کی روایت کی ہے ملاحظہ ہو کنزالعمال جلد6 صفحہ158۔

۲۷۹

 کو ان کے زہد میں دیکھے وہ علی(ع) کی طرف دیکھے۔”

اس حدیث کو بیہقی نے اپنے صحیح میں اور امام احمد بن حنبل نے مسند میں درج کیا ہے۔(1)

35ـ “يَا عَلِيُّ إِنَّ فِيكَ مِنْ‏ عِيسَى‏ مَثَلًا أَبْغَضَتْهُ الْيَهُودُ حَتَّى بَهَتُوا أُمَّهُ وَ أَحَبَّتْهُ النَّصَارَى حَتَّى أَنْزَلُوهُ بِالْمَنْزِلَةِ الَّتِي لَيْسَتْ لَهُ.”

“ اے علی(ع) ! تم میں عیسی(ع) سے مشابہت ہے۔ یہودیوں نے عیسی(ع) کو دشمن رکھا اور  دشمنی میں اتنے بڑھے کہ انھوں نے ان کی  ماں پر بہتان باندھا اور نصاری نے انھیں دوست رکھا اور اتنا غلو کیا کہ اس منزل پر پہنچا دیا جس پر

--------------

1ـ شرح نہج البلاغہ جلد2 صفحہ 149 امام رازی نے بھی اپنی تفسیر کبیر صفحہ 288 جلد 2 میں اس حدیث کو بسلسلہ تفسیر آیہ مباہلہ درج کیا ہے اور موافق و مخالف دونوں کے نزدیک بطور مسلمات ہونا لکھا ہے۔ ابن بطہ نے ابن عباس کی حدیث سے اس کی روایت کی ے جیسا کہ احمد بن محمد بن حسنی مغربی وارد قاہرہ کی کتاب فتح الملک بصحت حدیث باب مدینہ العلم علی(ع) کے صفحہ 24 پر مذکور ہے۔ منجملہ ان اشخاص کے جنھوں نے اعتراف و اقرار کیا ہے کہ علی(ع) تمام انبیاء(ع) کے اسرار کے جامع تھے محی الدین ابن عربی ہیں جیسا کہ عارف شعرانی نے کتاب الیواقیت والجواہر صفحہ 72 مبحث 32 میں ابن عربی سے نقل کیا ہے۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639